Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • گمنام

    یہ کہانی 60 کی دہائی کے آخر اور 70 کی دہائی کی ہے۔ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو بہت بچکانہ اور لاپرواہ تھا کیونکہ وہ اپنے باپ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور اسے اپنے تمام بہن بھائی بہت پیار کرتے تھے۔ اس کی زندگی صرف اس کے خاندان اور اس کے گاؤں کے گرد مرکوز تھی۔ اس کی زندگی میں کوئی بڑا مقصد نہیں تھا اور اس وقت اس کا واحد مقصد صرف اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا یا گاؤں کے آس پاس کے علاقے میں گھومنا تھا۔ لیکن تقدیر کے ذہن میں کچھ اور ہی تھا اور وہ لڑکا ایسی مصیبتوں میں گھر گیا جو اس لڑکے کو ایک پرتعیش دیہاتی زندگی سے انتہائی سخت فوجی زندگی میں لے گئی اور جلد ہی وہ لڑکا اپنے ملک کا گمنام ہیرو بن گیا اور اس نے کئی ناممکن نظر آنے والے مشن مکمل کیے۔

    Last edited by jatt-lahoria; 01-09-2023, 08:28 PM.

  • #2
    1
    زید اپنے والد چوہدری حیدر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا اور وہ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ان کے والد کے چھ بچے تھے جن میں سمیرا سب سے بڑی تھیں پھر عباد دوسرے نمبر پر پھر ہادی پھر کرن پھر عادل اور ان سب کے بعد زید تھے۔ اگرچہ چوہدری حیدر کے تمام بچے پڑھائی میں بہت ہونہار تھے لیکن زید غیر معمولی تھا، وہ بہت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تیز سیکھنے والا بھی تھا اور وہ چیزیں بہت جلد سیکھ لیتا تھا۔ اس کی عمر 16 سال تھی جب کہ اس کی سب سے بڑی بہن 30 سال کی تھی اس کے بعد اس کا بھائی عباد 27 سال کا تھا، ہادی 25 سال کا تھا، کرن 22 سال کا تھا جب کہ عادل کی عمر 19 سال تھی۔ چوہدری حیدر اپنے والد کے 4 بچوں میں تیسرے نمبر پر تھے، ان کے بڑے بھائی چوہدری حیات فارن سروس میں بیورو کریٹ تھے اور لندن میں تعینات تھے۔ حیات کے چار بچے تھے جن میں رضوان سب سے بڑا تھا پھر ریحان پھر نعمان اور پھر اکلوتی بیٹی زارا تھی۔ رضوان 26، ریحان 23، نعمان 19 جبکہ زارا 16 سال کی تھی۔ پھر چوہدری حیدر کی ایک بڑی بہن تھی جس کا نام طاہرہ تھا جس کی چوہدری شاکر سے شادی ہوئی، ان کے بھی چار بچے تھے جن میں خاور سب سے بڑی بیٹی نبیلہ پھر داور اور پھر سب سے چھوٹی سویرا تھی جو اپنے والد کو بہت عزیز تھی۔ چوہدری حیدر کے سب سے چھوٹے بھائی چوہدری حبیب تھے جن کی صرف ایک بیٹی تھی جس کا نام میرب تھا اور اس کی عمر 18 سال تھی۔ حیات ساری زندگی پردیس میں رہا اور اس نے خاندان سے باہر ایک خاتون سے شادی کی لیکن پھر بھی اس نے اپنے بچوں کو اپنی جڑوں سے دور نہیں رکھا اور بچے ہر سال ان کے آبائی گاؤں جاتے تھے۔ کزنز میں اچھا رشتہ تھا، مزید یہ کہ سمیرا کی شادی خاور سے ہوئی تھی جبکہ نبیلہ کی شادی عباد سے ہوئی تھی اور کرن کی منگنی داور سے ہوئی تھی۔ عادل اور میرب ان میں سب سے خوش قسمت تھے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور دونوں کی منگنی بھی ہو چکی تھی حالانکہ خاندان کے اکثر افراد اس محبت کی کہانی سے ناواقف تھے اور وہ اسے کزنز کا رشتہ سمجھتے تھے لیکن زید اور کرن دونوں کے سب سے بڑے مددگار تھے اور یہ ایک سیدھی سیدھی محبت کی کہانی لگ رہی تھی جو جلد ہی شادی میں تبدیل ہونے والی تھی جو 60 کی دہائی میں بہت کم تھی کیونکہ ان دنوں زیادہ تر محبت کی کہانیاں اپنی موت آپ مر جاتی تھیں۔ اب کہانی شروع ہوتی ہے جب 16 سالہ زید قریبی گاؤں میں کبڈی میچ کھیل کر واپس آ رہا تھا۔ زید کو کبڈی اور ریسلنگ کا جنون تھا۔ برسات کی شام تھی اور اچانک بارش شروع ہو گئی۔ زید نے سوچا کہ شاید بارش زیادہ ہونے سے پہلے وہ اپنی حویلی پہنچ جائے لیکن وہ غلط تھا کیونکہ زید اپنے گاؤں کے احاطے میں پہنچنے سے پہلے ہی بارش تیز ہو گئی تھی۔ موسلا دھار بارش قابل برداشت تھی لیکن زید ایک اور پریشانی سے گزرا کیونکہ نہ صرف تیز بارش ہو رہی تھی بلکہ ہوا بھی تیز چل رہی تھی جس سے زید کو سردی کا احساس ہو رہا تھا اور وہ
    کانپنے لگا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ اپنے کھیتوں میں ہے اور اسے قریب کے کھیت میں ایک ڈیرہ نظر آیا جو ایک مزدور کا تھا جو اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ کھیت میں رہتا تھا۔ زید تین کمروں کے اس چھوٹے سے ڈیرے کی طرف تیزی سے چلنے لگا۔ زید کے خاندان کے پاس کھیتوں میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مکانات تھے کیونکہ وہ کھیتی کے موسم میں وہاں رہنے والے مزدوروں کو دیے گئے تھے اور ان میں سے کچھ مہمانوں کے لیے بھی خالی رکھے گئے تھے۔ زید ڈیرہ پر پہنچا اور وہ دستک دیے بغیر داخل ہو گیا۔ یہ بات بہت عام تھی کہ گاؤں کے گھروں کے دروازے دن کے وقت کھلے رہتے تھے اور یہ رواج آج تک جاری ہے۔ زید نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور وہ اندر داخل ہوا لیکن اندر کے منظر نے زید کو چونکا دیا اور ایک لمحے کے لیے وہ ہلنے سے قاصر رہا۔ مزدور کی بیوی جس کی عمر تقریباً 25 سال تھی اندر تھی، وہ برہنہ تھی اور چارپائی پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اپنی پھدی میں انگلی کرنے میں مصروف تھی۔
    زید چند لمحے اس خاتون کو دیکھتا رہا لیکن اچانک خاتون کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور اس نے آنکھیں کھولیں، وہ زید کو اپنے سامنے دیکھ کر چونک گئی جبکہ زید بھی کچھ دیر کے لیے پریشان ہو گیا۔ اس خاتون کا نام چھندو تھا، اس نے اپنا دوپٹہ لے کر خود کو ڈھانپ لیا لیکن پھر بھی دوپٹہ اسے پوری طرح نہیں ڈھانپ رہا تھا۔ اس نے غصے سے کہا" شرم نئیں آندی بغیر سوچے سمجے اندر آگیاں منہ چک کے" اس بات نے زید کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس نے ب ھی جواباً غصے سے کہا "پنڈ وچ کیڑا بوہا وجا کے آندا او وی اینی بارش وچ نا لے مینو کی پتہ کہ تسی ایتھے........." زید نے بات ادھوری چھوڑ دی اور باہر نکل گیا. چھنڈو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے ننگے پن کی پرواہ کیے بغیر زید کے پیچھے بھاگی۔ وہ جانتی تھی کہ زید اس کے شوہر کے آجر کا بیٹا ہے اور اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے اس کے شوہر کو نوکری کا نقصان ہو سکتا ہے۔ زید گھر سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’اوہ چوہدری رک‘‘ اس نے غصے سے کہا ’’کیوں رکاں میں آیتھے ہیں‘‘ اس نے اندر سے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ’’اوہ چوہدری اینا غصہ نہیں کری دا ہنڈا، چل اندر میرے نال" بارش بہت تیز تھی اور چھندو بھی ان چند لمحوں میں پوری طرح گیلا ہو چکی تھی جو اس نے زید کا پیچھا کرتے ہوئے کمرے کے باہر گزارے تھے اور زید خود بھی بالکل بھیگ چکا تھا کیونکہ وہ اس تیز بارش سے اندر آیا تھااور اب وہ پھر بارش میں تھا۔ اچانک گرج چمک ہوئی, بادل کڑ کے اور ننگی چھندو اس سے ڈر گئی اور وہ زید سے لپٹ گئی۔ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی برہنہ عورت کی گرمی محسوس ہو رہی تھی جو اس سے چپکی ہوئی تھی، اس کا لن جسے کسی عورت نے چھوا بھی نہیں تھا، کھڑا ہونے لگا اور چھندو کو بھی لن کا سائز محسوس ہوا۔ وہ واپس ہٹی اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی، "چل ضد نئی کردے ایویں، تو اچانک آیا سی تے میں.............. تو سمجھ کے اس حالت وچ جو میں بولیا او میں بولنا چاہندی نئی سی پر میرے کولوں بول ہو گیا، آ جا اندر چلیئے، ویکھ تیرے چکر میں وی پجھ گئی آں" زید نے پھر خفگی سے کہا، "جیویں مینو شوق ای پجھن دا" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔ . اسے لگا کہ وہ ہوا کی وجہ سے کانپ رہا ہے، وہ خود بھی سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی، اس کے علاوہ وہ ننگی بھی تھی۔ وہ اسے کمرے میں لے گئی اور پھر وہ کچن میں گئی اور لکڑی کے ٹکڑوں سے ایک برتن بھر کر بوری سے ڈھانپ کر کمرے میں لے گئی۔ پھر اس نے ماچس کی تیلی کو روشن کیا اور خوش قسمتی سے وہ کمرے میں موجود کیروسین آئل کی مدد سے اسے روشن کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ ابھی تک ننگی تھی لیکن اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا اور کسی اور غیر متوقع شخص کی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا، "چودھری ویکھ میں اگ بال دتی تے ہن کپرے وی سکھا لے تے اگ وی سیک لے" زید نے دیکھا کہ وہ ابھی تک برہنہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے اس کے سامنے برہنہ کھڑا ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ۔ اس نے کپکپاتے ہوئے کہا، "کیویں سیکاں، کپرے گلے نیں" اس نے کہا، "تے لالے کپرے، تینو کنے آکھیا کے کپرے پاکے رکھ" زید نے کہا، "فر اپنے بندے دے کپرے لیا دے مینو" وہ ہنس کر بولی۔ "اوہ چوہدری، اپنا جسا ویکھ تے میرے بندے نو ویکھ، اودے ورگے دو تیرے کپریاں وچ پورے آ جان گے" یہ سچ بھی تھا کیونکہ زید بہت لاڈ پیار کروانے والا بچہ تھا اور اس کا پورا خاندان اس کا بہت خیال رکھتا تھا اسی لیے وہ۔ اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے زیادہ صحت مند تھا اور وہ صرف 16 سال کی عمر میں 20 سال کا لگ رہا تھا، مزید یہ کہ وہ کبڈی کے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ریسلنگ کا کھلاڑی بھی تھا جس کی وجہ سے وہ خود کو فٹ رکھنے کے لیے غیر معمولی ورزش کرنے کا عادی تھا تا کہ کھیل کے لیے دستیاب رہے اسی لیے اس کا جسم ایک پہلوان کا جسم لگتا تھا۔ اس نے الجھن میں کہا، "تے فیر ہن کی کراں" اس نے لاپرواہی سے کہا، "کرنا کی آئے، کپرے لا کے تار تے ٹنگ دے، اگ دے سینک نا سکھ جان گے" اس نے کہا، "کی مطلب، تیرے سامنے ننگا ہو جاواں۔ "اس نے کہا، "ہور کی کرنا فیر، دوجے کمرے وچ تو جا نی سکدا نالے مینو تے ننگا ویکھ ای لیا تو میرے سامنے ننگا ہوندے تینوں کیوں شرم آندی" اس نے کہا، "تو پاگل تے نہیں ہو گئی" اس نے کہا، "جا اوئے تو تے چودھریاں دا نک ای ڈوب چھڈیا، تیرے کسے وڈے نو آکھیا ہنڈا تے ہن نو سب کجھ لا کے او مارنا سی، تُو تے درپوک ای بڑا ایں" یہ زید کی انا اور مردانگی پر سیدھا حملہ تھا اس لیے اس نے کہا: "او میں نی ڈردا کسے تو وی" اس نے کہا، "تے فیر حالی تک ٹھنڈ کیوں لوائی جان ڈیا ایں" زید کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے وہ کھڑا ہو گیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا، اس نے کپڑے ایک تار پر لٹکا دیے تھےجو کمرے کی ایک دیوار سے دوسری دیوار سے بندھا ہوا تھا اور اس تار کے نیچے آگ جل رہی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر ننگا تھا جبکہ وہ صرف اپنے دوپٹہ سے خود کو ڈھانپ رہی تھی۔ اچانک چھندو اٹھی اور زید کے قریب آئی جو آگ کے پاس کھڑا اپنی ٹانگیں گرم کر رہا تھا۔ زید نے اس کی موجودگی کو اپنے قریب اس وقت محسوس کیا جب اس نے اس کا لن ہاتھ میں پکڑا اور کہا "واہ اوئے تیرے تے واوا ای وڈا سودا ای ویسے" زید نے کہا، "اے کی کرن ڈئی ایں تو" وہ مسکرائی اور اپنا ہاتھ اس کے لن پر پھیرتے ہوئے بولی، "چوہدری تو تے واوا ای پھولا ایں، ننگی زنانی تیرے کول کھڑی تیرا لن ہتھ اچ پھریا ہوا فیر وی پچھدا پیا کے میں کی کردی پئی" ایسا نہیں تھا کہ زید جنسی اور دیگر بالغ چیزوں سے بے خبر تھا لیکن وہ شرمیلا اور ان سب چیزوں سے گریز کیا کرتا تھا، مزید یہ کہ اس نے بزرگوں سے سنا تھا کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس نے کہا، ’’کنی بیشرماں عالیان گلاں کردی ایں تو‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا، "لے ایدے وچ شرم کتھوں آ گئی، ہن مینو تےتو ننگی ویکھ ای لیا تے شرم تے رہ نی گئی، نالے تیرے ایڈا لمبا سودا ویکھ کے تے کسے وی زنانی دا پانی اویں ای نکل جاوے"۔ زید کا لن وہ مسلسل مسل رہی تھی جب وہ یہ سب کہہ رہی تھی۔ زید نے کہا، "کی کری جان ڈئی ایں مینو درد ہو ریااے" اس نے شرارت سے کہا، "کتھے" اس نے شرماتے ہوئے کہا، "جتھے تیرا ہاتھ ای ہور کتھے" اس نے پھر شرارت سے کہا، "اتھے دا کوئی ناں شاں وی ہوندا" اس نے پھر ۔ شرماتے ہوئے کہا، "میرے لن وچ" وہ ہنسی اور بولی، "چل آ تیرے لن دے درد دا علاج کراں" وہ اس کا لن پکڑے ہوئے اسے چارپائی کے پاس گھسیٹتی لے گئی۔ اس نے پھر اسے سیدھا لٹایا جب کہ زید خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا، اس نے کہا، "کی کرن لگیں" اس نے کہا، "تیرے لن دا علاج" یہ کہتے ہوئے وہ اس کے اوپر آئی اور اپنے دونوں پاؤں دونوں زید کے دونوں طرف رکھ کر بیٹھ گئی اور اس کے لن کو پکڑتے ہوئے اس نے اپنی پھدی کی نوک پر رکھ دیا۔ وہ پھر لن پر بیٹھنے لگی اور لن دھیرے دھیرے اندر چلا گیا، اس نے کراہتے ہوئے کہا، "آہ، ہائے کنی ودی ٹوپی ای، آہ" زید نے کہا، "تو ہائے ہائے، کیوں کردی پئی،تینو درد ہو ریا" حالانکہ وہ سیکس کے بارے میں جانتا تھا۔ لیکن اس کے پاس صرف بنیادی معلومات تھیں۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا، "اوئے کملیا ایڈا وڈا لوڑا اندر جاوے تے پہلی وار درد ہوندا ای آہ ہائے تو تے بوہتا ای چھلہ ایں ہائے" اس نے اس کے ہاتھ تھامے اور اپنے چھاتی پر رکھتے ہوئے کہا، "این نال کھیل، دب تے چوس ایناں نو مینو ارام ملو گا” زید نے پہلی بار کسی عورت کے مموں کو پکڑا اور وہ عورت کے ننگے مموں کو پکڑ کر بہت پرجوش تھا۔ چھندو کے ممے فٹ بال کی طرح گول تھے اور وہ بڑے بھی تھے لیکن غبارے کی طرح نرم تھے۔ وہ زید کی طرف جھکی اور بولی، "آہ آہ آہ، ہائے اوئے انا نو صرف دبنا نہیں چوسنا وی ہندا" زید ایک بوب دباتا رہا جب کہ اس نے ایک نپل منہ میں لیا اور چھندو کے نپلز کو چوسنا شروع کر دیا جو مسلسل ہلنے کی وجہ سے پرجوش ہو گئی اورزید کے لن پر اوپر نیچے ہوتی رہی لیکن اس نے اپنی پھدی میں اس کی لمبائی کا آدھا حصہ لیا تھا کیونکہ لن تقریباً 9 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا تھا۔ زید چھندو کے ممے چوستے ہوئے پرجوش ہو گیا اور جوش کے نتیجے میں اس کے ہاتھ چھندو کے کولہوں پر چلے گئے اور اس نے اس کے کولہوں کو پکڑتے ہوئے نیچے سے ایک زور دار دھکا دیا۔ لن جو دھیرے دھیرے اندر جا رہا تھا کہ اچانک تمام رکاوٹیں توڑ کر پھدی کے اندر چلا گیا اور چھندو نے درد سے چیخ ماردی، "ہائے اوہ ماررررررررر دتااااااااا مینووووووووووو، پورررررااااا اااااای ی ی وچ کلللللےےے واااانگوووووں ٹھووووووک سٹیا، آہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااائے میں مرررررررررر گئی" وہ چیخ رہی تھی۔ درد سے اور چارپائی پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ اگر وہ ان کو رگڑ رہی تھی تو درد کو دور کرنے کے لیے جو اسے تھا۔ زید پریشان ہوا اور بولا، "تینو درد ہو ریا" اس نے کہا، "اوہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ کنجررررررررررررا جدددددددد سنڈےےےےےے دا لن پھدی وچ پوووووورا جائے گا تےےےےےدرد نہیں ہووے گا تی ہوررررررررر کی ہووووووے گا" زید نے اٹھنے کی کوشش کی جب اس نے کہا، "ہاااااااااائے آہہہہہہہہہہہہ کی کری جا ریا ایں ہوں" اس نے کہا، "اٹھ کے بار کڈن لگا تا کے تینو درد نہ ہووے" وہ چلائی، "آہہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااااااائے اووووووئے کداں ددددددے کملے نااااااال ووووااااہ پے گیا، اوہ چپ کر کے پیا رہہہہہہہہہییہ، جو تو کرنا سی کر دیتا ہااااااااااااائے۔ ہُن بس ممے دب تے چُوس" زید نے حکم کی تعمیل کی اور نہ صرف ایک ایک کر کے اس کے نپل چوستا رہا بلکہ وہ اس کے مموں کو دباتا بھی رہا اور وہ کہتی رہی، "آہہہہہہییییییییہہہہہہہہ ہورررررررر دب، زوررررررر نااااااااال دب، چوسسسسسسد لے پوررررررااااا دودھ"۔ وہ خود زید کے لن پر اوپر نیچے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اس کی پھدی زید کے لن کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئی جبکہ زید بھی آرام محسوس کر رہا تھا۔ کچھ دیر زید کے لن پر چھلانگ لگانے کے بعد اس کی رفتار بڑھ گئی اور وہ تقریباً چلائی، "آہ میں گئی، ہاااائے میں گئی" زید نے اسے پکڑتے ہوئے کہا، "کی ہوا تینو، کی ہنڈا پیا" زید کو خبر ہی نہیں تھی کہ لن سے پانی نکلتا ہے جنسی عمل کے نتیجے میں اور عورت کی پھدی سے بھی نکلتا ہے اس نے اپنا پانی چھوڑا اور زید کو اپنے لن پر گرم پانی محسوس ہوا جب وہ زید کے سینے پر گر گئی۔ وہ ہانپ رہی تھی جب اس نے کہا، "ہائے اج تے مزہ ای آ گیا، پتا نی کنے سالاں بعد چھٹی آں اج میں" زید نے الجھ کر کہا، "کی مطلب، تینو کنے پھریا ہویا سی" چھندو زید کی معصومیت پر ہنسنے لگی اور بولی "اوہ پاگلا، جدوں بندہ بی بی وچ لن واڑدا تے ایدے وچ اندر بہار کردا تے بی بی نو مزہ آندا تے اودی پھدی وچون پانی نکلیا کردا، اوہ میرا کئی سالاں بعد نکلیا………… اک منٹ، تیرے ہویا نئی حالے"۔ "کی نئی ہویا" وہ اٹھی اور کھڑا لن ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی "اوہ واہ او چوہدری، ہن تو لگا ایں چوہدری، اٹھ تے آ جا ہن" زید نے کہا، "کتھے آ جاواں" اس نے سر پر ہاتھ مارا۔ مایوسی سے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، "تُو اُٹھ زرا میں تینوں دسدی آں" یہ کہہ کر اس نے اسے کھڑا کیا اور وہ خود ہی چارپائی پر لیٹ گئی جب اس نے ٹانگیں کھولیں، یہ پہلی بار تھا کہ زید پھدی کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "لن ادے وچ پانا تے اگے پچھے یانی اندر بہار کرنا جیویں میں ہونئی کِیتا سی" زید سمجھ گیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آگیا اور اپنے لن کی بڑی ٹوپی کو چھندو کی پھدی کے دہانے پر رکھتے ہوئے اس نے ایک زور دار دھکا دیا اور لن چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی تک گھس گیا اور وہ چلائی، "آہہہہہہہہیہیہہییہہہہہہہہہہ مررررررررررررررررررررر گئیییییییییییی، ظااااااااالم، ہاااااااااااااائے" اس نے کہا، "ہن کی ہویا" وہ چلائی، "ایڈااااااااااااا وڈاااااااااا موسللللللللل میری پھدی وچ وااااااااااڑ چھڈیا ایکو واری آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ پاااااااااااااااااااااڑ چھڈی میرررررررررررررررررری"۔ زید نے کہا، "تُو آکھیا سی کے اکو واری درد ہوندا ای" وہ غصے میں آ گئی اور چڑچڑی آواز میں بولی، "اوووووووووئے ایڈاااااااااااااااااا وڈااااااااااااااااا لن اکو واررررررررررییییی وچ نئی واڑی دا، ہولی ہولی پائ دااااااااااااا ہنڈاااااااااا" زید نے اس کی بات سمجھ لی اور اس کے مموں ساتھ کھیلنے لگا۔ اور دھیرے دھیرے اپنے لن کو اس کی پھدی کے اندر باہر کرنے لگا اور وہ بھی مموں کے دبائے جانے کے ساتھ ہی اپنی گانڈ کو اٹھانے لگی اور مموں کے چوسنے سے اسے سکون ملا۔ وہ کراہ رہی تھی اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی "آہ ہوووووووررررر زووووووررررررر ناااااااااااال، ہوووووووووررررررررررر تیززززززززززز مزاااااااااااااااا آ ریاااااااااااااااا مینووووو آہہہہہہہہہہہہ" زید چودتا رہا اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اسے کچھ ہو رہا ہے تو اس نے کہا، "مینو کج ہوندا پیا" اس نے زید کی گانڈ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "کردا رہہہہہہہیہیی، کج ہون نئی ڈیا، تیرااااااااااااا پانی نکلن لگا بسسسسسسسسسسس" زید کی رفتار مسلسل بڑھتی جا رہی تھی اور اچانک وہ چلایا، "آہ آہ آہ" وہ بھی چلائی، "ہااااااااااااائے میں فیررررررررررر گئی آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ" زید کا لن پوری طرح اندر داخل ہو گیا۔ اور اس کا پانی چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی میں چھوٹنے لگا اور وہ بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی۔ زید چھندو پر گرا اور ہانپنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور پھدی سے اپنا لن نکالتے ہوئے دیکھا کہ چھندو کی پھدی سے ان کے پانیوں کی آمیزش کی ندی نکل رہی ہے۔ زید بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور وہ چھنڈو کے پاس چارپائی پر لیٹ گیا جبکہ چھندوابھی تک ہانپ رہی تھی۔زید نے اپنی زندگی کا پہلا سیکس کیا تھا اور وہ اب کنوارا نہیں تھا۔ وہ سیکس کرنے کے بعد اتنا پرجوش تھا کہ اس کے لن کو دوبارہ کھڑا ہونے میں دیر نہیں لگی۔ جیسے ہی اس کا لن بالکل سیدھا ہوا، وہ اٹھ کر چھندو کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا جس نے ابھی ایک بڑا لن اس کی پھدی میں لیا تھا۔ اسے اس صورت حال کا علم اس وقت ہوا جب زید نے اپنے لن کی ٹوپی چھندو کی پھدی کے منہ پر رکھ دی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی لفظ کہتی زید نے ایک گہرا دھکا دیا اور اس کا لن اس کی پھدی کے اندر گھس گیا اور اس کی ٹوپی چھندو کی بچے دانی سے ٹکرانے لگی. وہ چلا اٹھی "ہااااااائےےےےےےے ماررررر دتااااا میری پاااااااااٹ گئ"زید پرجوش بھی تھا اور ناتجربہ کار بھی کیونکہ اسے پھدی کی صفائی کا خیال نہیں تھا۔ وہ چھنڈو یا اس کی پھدی پر کوئی رحم کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور اس کی اونچی چیخوں کے باوجود وہ گہرے دھکے دیتا رہا اور اس کا لن روانی سے چھندو کی پھدی کے اندر باہر جاتا رہا۔ کمرہ تھپ تھپ کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور چھندو کی اونچی آہوں سے بھی کیونکہ وہ زور زور سے چلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی "ہااائے وے تووووو تےےے اپنے چاچے نالوں وووووی دووو ہاتھ اگگگگے ویں ہااااائے میرررررررری پھددددی تے رحم کر تے ہولی گھسسسسے ماررر"وہ التجا کر رہی تھی اور چلا رہی تھی لیکن دوسری طرف وہ اپنی پھدی میں زید کے گہرے دھکوں کا مزہ بھی لے رہی تھی۔ جبکہ زید پر اس کے چیخنے کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ دھکے دیتا رہا اور ساتھ ہی اس کے بوبس کو بھی تھام لیا۔ اس نے اس کے بڑے مموں کو دبانا شروع کر دیا جس سے اسے اس درد میں تھوڑا سا سکون ملا جو وہ اپنی پھدی میں محسوس کر رہی تھی لیکن اصل سکون اس پانی کی صورت میں آیا جو اس کی پھدی سے نکلا اور زید کے لن کو آسانی سےپھدی کے اندر باہر جانے کے لیے چکنا کرنے کام کیا اور اب اسے کم درد محسوس ہو رہا تھا۔ اب چھندو بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر ہر دھکے کا جواب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی "ہور زوررر نااال اینج ای مااارررر گھسسسے ہور زور لاااااا"زید کو اپنے پہلے سیکس میں 2-3 منٹ سے زیادہ نہیں لگےلیکن اس بار اس نے چھندو کی پھدی کو چودتے ہوئے زیادہ وقت لیا اور چھندو کو دو بار اس کا پانی چھوڑنے پر مجبور کیا تھا جبکہ وہ تیسری بار اپنا پانی چھوڑنے کے لیے تیار تھی۔ زید کی اپنی دھکوں کی رفتار بھی بڑھ گئی اور جیسے ہی چھندو چلائی "آہہہہہہہ میں گئی آہہہہہہ" وہ بھی غرایا "آہہہہ" اس غراہٹ کے ساتھ ہی زید نے اپنا پانی چھندو کی پھدی کی گہرائیوں میں چھوڑا اور اس پر گر کر ہانپنے لگا.زید کو تو غنودگی سی ہو نے لگی تھی اور وہ نیند میں ہی چلا گیا ایک طرح لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھالا اور لن نکال لیا. چھندو کی پھدی میں جیسے سیلاب آیا ہوا تھا اور پانی نکل کر گانڈ سے بھی نیچے جا چکا تھا. وہ بولی "چوہدری تو تے پھدی نو دو واریاں وج پھدا بنا کے رکھ دتا جے کتے کسے کواری تے چڑھ گیا اونو تے مار ای دویں گا". زید ہنسا اور بولا "فکر نہ کر تو ہیں نہ سکھون لئی" وہ بولی "تے فر پہلا سبق ایہو ای اے کہ فارغ ہو کے پھدی تے لن دوناں نو صاف کری دا آہہہہہہ" وہ جیسے ہی اٹھی. اس کی تکلیف سے حالت خراب ہو گئی. زید اس سے پھر ملنے کا وعدہ کر کے گھر کو نکل آیا. اگلے دن ایک نوکر نے اس کو ایک خط دیا جو اس کے دوست محب کا تھا. یہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات تھی اور تب رابطے کا ذریعہ شہروں میں ٹیلیفوں اور دیہات میں خطوط تھے اور جنوبی پنجاب کے تو کئی علاقوں میں آج بھی فون نہیں تو تب کہاں ہوتا. اس نے خط کھولا تو اس میں ایک کاغذ اور ایک اور خط تھا اس نے سب سے پہلے کاغذ کھولا اور محب کا خط پڑھا جس کی تحریر تھی "میرے پیارے زید, امید ہے کہ تم ٹھیک ہو میری خواہش ہے کہ ہماری جلد ملاقات ہو جائے کیونکہ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں جن کا میں اس خط میں ذکر نہیں کر سکتا اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات بہت جلد ہو گی لیکن فی الحال اس خط کا مقصد تمہاری امانت بھیجنا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اس خط میں تمہارے لیے خوشخبری ہو گی اور میری خواہش ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو. تمہارا غم خوار محب" .دوسرے خط کی ساخت اور کاغذ بتا رہے تھے کہ بیرون ملک سے آیا ہے کیونکہ وہ زارا کا خط تھا. زید اور زارا کی محبت میں رابطے کے لیے پل کا کردار محب ادا کرتا تھا یعنی پہلے زویا محب کو خط بھیجتی اور پھر محب زید کو بغیر لفافہ کھولے بھیج دیتا تھا. اس نے زارا خوشبو سے مہکتے خط کو پہلے چوما اور پھر سینے سے لگایا اور پھر خط کھول کر پڑھنے لگا. "میری روح کے مالک, میری خوشیوں کے امین واسلام. میرا دل ہمیشہ تمہارے لیے دھڑکتا ہے اور میری خواہش ہے کہ میرے پاس پنکھ ہوں تاکہ میں تمہارے پاس اڑ کر پہنچ سکوں لیکن پنکھ تو آپ کے تایا جی کے ہاتھ میں ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس گرمی میں فیملی ٹرپ پر پاکستان نہیں آ رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے بڑے بھائی رضوان کی شادی اگلے سال فروری میں ہو رہی ہے اور ہم فروری کے شروع میں آئیں گے جبکہ شادی فروری کے آخر میں ہو گی اور میرا پورا خاندان پاکستان میں ہی رہے گا 3 ماہ کے لئے. بہرحال مجھے امید ہے کہ تم اگلے سال اپنے سالانہ امتحانات کے لیے پوری طرح تیار ہو گے کیونکہ تمہارے اچھے نمبر آنے سے ہمارا راستہ آسان ہو جائے گا کیونکہ تمہیں انگلینڈ کی کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گا اور ایک بار جب تم یہاں آ جاؤ گے تو ہمارے لیے متحد ہونا آسان ہو جائے گا۔ اپنا خیال رکھنا کیونکہ تم میری امانت ہو اور میں چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ فٹ رہو۔ تمہارے دل کی دھڑکن"وہ کبھی بھی خطوط میں ایک دوسرے کا نام نہیں لکھتے تھے تا کہ پکڑے نا جائیں. زید کے دل میں آیا کے اگر کبھی زارا کو یہ معلوم ہو گیا کہ زید نے اس کی امانت میں خیا نت کی یعنی لن جس پر پہلا حق زارا کا تھا سے پہلی پھدی جھندو کی چود ڈالی تو اس کو کیسا لگے گا. چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ چدائی سے متعلق معاملات سے دور رہے گا. زارا کا خط پڑھ کر زید مسکرا رہا تھا جب کسی نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر زید کا دھیان اس کی طرف مبذول کرایا تو یہ عادل تھا جس نے کہا، "میں نے سوچا کہ شاید تمہیں یہ سن کر بہت دکھ ہوا ہوگا کہ تایا جان اور ان کے گھر والے پاکستان نہیں آرہے ہیں ان گرمیوں میں" زید نے مسکرا کر کہا "تم جیسے ہر کوئی خوش نصیب نہیں کہ تم نے اس لڑکی سے منگنی کر لی جس سے تم بچپن سے پیار کرتے تھے" اس نے کہا، "تمہیں نہیں لگتا کہ تم زیادہ بولنے لگے ہو" وہ مسکرایا اور بولا۔ "کم از کم میں تم سے اور میرب سے کم بولتا ہوں" یہ کہہ کر وہ بھاگا جیسے عادل اسے تھپڑ مارنے ہی والا تھا۔ زید نے خود سے وعدہ تو کرلیا لیکن دو دن بعد ہی وہ اس وعدے کو ایک طرف رکھنے پر مجبور ہوگیا جب اس نے ایک عورت کو مشکوک انداز میں اپنے چچا حبیب کے ڈیرے میں داخل ہو تے دیکھ لیا. اس کے ذہن میں چھندو کی چوہدریوں کے متعلق باتیں آئیں اور وہ تجسس میں پڑ گیا. یہ ڈیرا ان ڈیروں میں سے تھا جو مزیروں کو نہیں دیے گئے تھے اور مہمانوں کے لیے مختس تھے یا چوہدری خود استعمال کرتے تھے. زید اس عورت کا چہرہ نہ دیکھ سکا اور وہ اندر چلی گئی لیکن زید ہاں ناں کے دوراہے پر کھڑا تھا.آخر اس نے آگے بڑھنے لگا اور ڈیرے کی دیوار تک جا پہنچا. ڈیرے کی پانچ فٹ کی دیوار اس جیسے پہلوان کے لیے کطھ نہیں تھی اور ویسے بھی نہ تو ان ڈیروں میں کچھ قیمتی تھا اور نہ ہی چوہدریوں کے ڈیروں میں گھسنے کی کسی میں ہمت. زید دیوار پھاند کر دوسری طرف کودا لیکن کھڑکی دوسری طرف تھی. جیسے ہی وہ دوسری طرف پہنچا تو جھٹکا کھا گیا کیونکہ ایک لڑکی پہلے سے ہی کھڑکی سے لگی اندر جھانک رہی تھی. زید اس لڑکی کے پیجھے کھڑا ہوگیا لیکن اس کو پتہ نہ چلا کیونکہ وہ اندر چلتے کھیل کو دیکھنے میں مگن تھی. اند ایک عورت بستر پہ جھکی ہوئی تھی اور اس کا منہ نیچے تھا اور نظر نہیں آرہا تھا جبکہ حبیب پیچھے سے تیزی سے اس کی پھدی میں لن اندر باہر کر رہا تھا. اندر کا منظر دیکھ کر زید کا لن کھڑا ہو گیا اور سامنے کھڑی لڑکی کی گانڈ سے ٹکرا گیا. لڑکی چونکی اور مڑی مگر زید نے اس کے بولنے سے قبل ہی منہ پر ہاتھ رکھ دیا. یہ سترہ سالہ لڑکی رانی تھی جو حبیب کے مزیرے شکورے کی بیٹی تھی. تبھی اند رسے آہہہہہہ کی آواز آئی. حبیب فارغ ہو چکا تھا. اس نے لن پھدی سے نکالا تو وہ عورت سیدھی ہوئی اور اس کو دیکھ کر زید کو حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ وہ عورت..........
    جاری ہے​
    Last edited by Man moji; 01-09-2023, 10:12 PM.

    Comment


    • #3
      2
      زید نے جب اس عورت کا چہرہ دیکھا تو اسے شدید حیرت ہوئی کیونکہ وہ عورت کوئی اور نہیں بلکہ رانی کی ماں اور شکورے کی بیوی تھی جس کا نام صابرہ تھا لیکن اسے عرف عام میں صبو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ زید یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رانی اپنی ہی ماں کا لائیو سیکس دیکھ رہی تھی۔ زید نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اس کے کان میں سرگوشی کی، ’’اگر آواز کیتی تے اگ عالی لکڑبند اچ واڑ دیوان گا‘‘ وہ اس کی دھمکی سے نہیں ڈری بلکہ اس بات سے زیادہ ڈر گئی کہ زید چوہدری حبیب کا بھتیجا تھا۔ اور اس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا جب وہ اپنی ماں کو چوہدری حبیب کے ہاتھوں چدتے دیکھ رہی تھی۔ حبیب اور صبو نےاپنے کپڑے سمیٹے اور دروازے بند کر کے باہر نکل گئے (یہ 60 کی دہائی کا زمانہ تھا جب کھیتوں کے گھروں میں کوئی قیمتی سامان نہیں ہوتا تھا اس لیے ان کو تالے نہیں لگائے جاتے تھے اور اگر وہ گھر کسی چوہدری کا ہوتا تو عام بات تھی کہ لوگ بغیر اجازت جا نے کا سوچا بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ اس وقت برصغیر کے بیشتر علاقوں میں جاگیردار بہت طاقتور تھے)۔ زید 17 سال کی لڑکی کو گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے گیا اور غصے سے بولا، "کدوں تو آ گند مچایا ہوا تیری ماں نے" اس نے جواب دیا، "مینو کی پتا" زید نے کہا، "ایڈی پہولی تو ہے نئی ویسے، تئینو پتا ہونا سب تانہی تو۔ اپنی ماں نو پھدی مرواندے ویکھن آئی سی" رانی نے بھی غصے سے کہا، "فیر کی کریں گا، جا کے اپنے چاچے نو شکائت کریں گا" رانی میں کچھ ہمت آئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زید نے بھی اپنے چچا کو سیکس کرتے دیکھا تھا اس لیے وہ دونوں برابر تھے کم از کم اس معاملے میں. لیکن زید رانی سے کہیں زیادہ ہوشیار تھا اس لیے اس نے جواب دیا، "نا مینو کالے کتے نے وڈیا جو چاچے ہونا کو جاواں، میں جا کے تیری ماں نو دسانگا کے اونو چاچے دا لن لیندے ہوئے تو ویکھیا سی" یہ بات رانی کے لیے پریشان کن تھی۔ وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی ماں کو اس کے بارے میں پتہ چلے۔ اس نے کہا، "نا……… اینج نا کریں…………. تو میری ماں نو جاندا نئی، اوہ مار مار کے سب کج سجا دئے گی میرا" زید نے ہنستے ہوئے کہا، "اوہ نئی دسانگا، مذاق کر ریا سی"۔اس نے کہا، "تےفر کی چاہی دا" زید نے کہا، "اوہی جو تیری ماں میرے چاچے نو دے رئی سی" رانی بھی اپنی ماں کا لائیو سیکس سین دیکھ کر گرم ہو گئی تھی اور باقی گرمی اس کے جسم میں آگئی تھی زید کے لن کے اس کی گانڈ پر چھونے سے اور اب وہ بھی اپنی پھدی میں لن چاہتی تھی۔ رانی کنواری نہیں تھی اور اسے پڑوسی لڑکے کے ساتھ ساتھ اس کی بڑی بہن کے شوہر نے بھی چودا تھا جبکہ زید جس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ سیکس نہیں کرے گا اپنا وعدہ بھول گیا تھا اور اس میں موجود شیطان پھر سے جاگ اٹھا تھا۔ . اس نے کہا، "چل جے اینی جئی گل تے کوئی مسلہ نئی" یہ کہہ کر وہ چارپائی پر لیٹ گئی اور اپنی شلوار کھول دی۔ زید دوسری طرف سے بہت اوتاولہ تھا اس لیے اس نے دھوتی اتار دی کیونکہ اس نے صرف دھوتی کرتہ پہنا ہوا تھا۔ وہ اپنا کُرتا اتارنے ہی والا تھا کہ رانی نے کہا، "اوئے کی کری جان ڈیاں، کُرتا نہ لاہ، کوئی وی کسے ویلے وی آ ساکدا، اپنا لُن کڈ تےآ کے میری پھدی وچ پا دے" رانی اتنی پر اعتماد تھی کہ اُس نے اپنی ٹانگوں کو کھول دیا۔ کیونکہ اس نے سوچا کہ اس نے اپنے بہنوئی کا 6 انچ بڑا لن لے لیا ہے تو زید کے لن کا شاید کوئی مسئلہ نہ ہو۔ دوسری طرف زید نے اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اپنا بڑا لن اس کی پھدی پر رکھ دیا اور پھر بولا "اوئے تھوری قمیص تے چک، اپنے ممے تے وکھا مینو" رانی کو اپنی قمیض اٹھانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور زید نے ٹینس بال کے سائز کو مموں کے ساتھ ساتھ تیز نوکیلے نپلز کو دیکھا، اس نے اپنے ہونٹ ایک بوب پر رکھے جب کہ وہ دوسرے کو دبانے لگا۔ رانی نے کراہتے ہوئے کہا "آہ ہہہہہیہہ ہاااائے کی بچیاں طررررح چوسی جان ڈیا ااااااں" زید نے اس کے ممے چوستے ہوئے ایک دھکا دیا اور اس کا لن اندر گھس گیا لیکن وہ پوری طرح اندر نہیں گیا تو اس نے لن پیچھے لہٹا کر ایک گہرا دھکا دیا، یہ ایک زوردار دھکا تھا۔ تو لن پھدی میں پوری طرح گھس گیا اور وہ زور سے چلائی، "ہاااااااااااااااااائےےےےےے میں مررررررررررر گئی، میری پھددددددددددددددددددی پھااااااااااااسااساڑ دتی، ہائے میں مرررررررررررررررر گئی آہ بہار کڈ اس ہتھورےےےےےےےےےےےےے…….."زید نے دوپٹہ اس کے منہ میں ڈالا اور غصے سے بولا، "پہنچودے پوراپنڈ کٹھا کرینگی، کرن تے انج ڈئی سی جیویں روز لن لیندی ہوویں تے ہن جے وڑ ای گیا تاں انج رولا پا رئی جیویں کدی لولن لیا ای نہ ہووے" لیکن پھر بھی رانی اس کے درد کو کم کرنے کے لئے اس کے ہاتھ اور پیروں کومسلسل مار رہی تھی. اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ زید کے دماغ میں صرف پھدی تھی اس لیے اس نے درد کے باوجود رانی کو چودنا شروع کر دیا اور کمرے میں رانی کے منہ سے گھوں گھوں کی آواز آ رہی تھی جبکہ تھپ تھپ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں لیکن ایسا تواتر سے نہیں تھا کیونکہ زید کا لن کسی مشکل سے اندر اور باہر ہو رہا تھا اس لیے دھکے باقاعدگی سے نہیں ہو رہے تھے۔ کمرے میں ایک اور آواز چارپائی کی چوں چو کی تھی لیکن زید چودتا رہا اور رانی کی پھدی آہستہ آہستہ زید کے بڑے لن کی عادت ہوگئی اور اس کی پھدی سے دو بار پانی نکلا جس سے اسے کچھ سکون ملا جب کہ زید اپنی تال میں چود رہا تھا تو اس نے کہا اپنے منہ سے دوپٹہ نکالنے کے بعد، "آہہہہہہہہہہہہہہہ، ہووووووووووللللللی کرررررررر، میں کوووووووووووئی گششتی نئی آہ جیڑی روززززززززززز لن لیندددددددددی آہ ہہہہہہہہہہ ہووے" لیکن زید چودتا رہا اور پھر اس نے اچانک آواز دی، "آہ آہ آہ" اس کا لن پوری طرح رانی کی پھدی کے اندر داخل ہو گیا اور اس کی پھدی کے اندر پانی چھوڑنے لگا۔ جیسے ہی رانی کو یہ احساس ہوا اس نے اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی لیکن مضبوط اور بھاری زید اس کے اوپر گرا اور اس کے لن نے اس کی پھدی میں اپنا پانی خالی کردیا۔ اس نے اسے دور دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے چیخ کر کہا، "لکھ لعنت ای اندر اکڈ دیتااااااااااااا سارااااااااا، پراں ہٹ ائے کی کررررررررررردتا"۔زید جو اس کے اوپر ہانپ رہا تھا کہنے لگا، "فیر کی ہو گیا، نالے اندر نہیں تے ہور کتھے کڈی دا" رانی زید کے معصومانہ سوال سےچڑ گئی اور چلائی، "تئنو نئی پتا کی ہوندا" زید نے سر اٹھا کر نہ میں سر ہلایا۔ ، وہ درست تھا کیونکہ اسے صرف جنسی تعلقات کے بارے میں انتہائی بنیادی معلومات تھیں۔ وہ بولی، "اوہ چولہ بچہ ہو جاندا ہور کی ہوندا آہہہہہہہہہہہ" یہ کراہ آخر میں اس کی پھدی میں درد کی وجہ سے آئی جیسے زید سن کر فوراً اٹھا، اس نے اس کی پھدی سے اپنا لن نکالا جہاں سے ان کے پانیوں کا مرکباورخون نکل رہا تھا. اس نے بدحواسی کے عالم میں کہا، "ہون کی کراں گے" رانی نے اٹھتے ہوئے کہا، "آہ، اوہ مینو کپڑا پھڑا …… ہااااااااائے میں مررررررر گئی…. وے تیرا بندے دا اے کے کھوتے دااااا… ویکھ پاڑ دتی میری پھددددددی…‘‘ زید نے اسے کپڑے کا وہ ٹکڑا دیا جس سے کچھ دیر پہلے رانی کی ماں نے خود کو صاف کیا تھا۔ رانی اپنی پھدی صاف کرنے لگی جب زید نے کہا، "ہُن کی ہئو گا جے تئینو بچا ہو گیا، نالے تیرا خون وی نکل گیا" رانی درد میں بھی ہنس پڑی اور بولی، "تُو پہلی واری تےنہیں کیتا" زید قریب ہی تھاکہ نہ کہہ دیتا لیکن پھر اس نے ہاں میں سر ہلایا، اس نے کہا، "تانہی اداں دیاں یبلیاں ماری جان ڈیا توں، کج نئی ہندا، میں آپے گولی لے لواں گی پر اداں اندر ای نئی چھڈی دا، تے نالے جتھے تک خون دی گل تے۔ اپنا لوڑا دیکھ، توتے کسے وڈے پھدے آلی گشتی دیاں وی چیکاں کڈا سکدا میں تے فیر حالے جوان کڑی آں تے ایڈی پھدی مروائی وی نئی پر توں جیڑا میرا حشر کیتا، مینو نئی لگدا ک میں اک ہفتے وچّ انگل وی لے سکاں گی، جا جا کے اپنا لن تے صاف کر لے خون انج ای لگا ہویا میری معصوم پھدی دا آہہہہہہ" وہ کھڑی ہو گئی اور درد نے اس کی کراہ نکال دی۔ زید باہر نکلا اور صفائی کر کے اپنے گھر چلا گیا۔ دوپہر کو اس کی چاچی اس کے کمرے میں آئی اور کہنے لگی، "زید بیٹا جا کر میرب کو اس کے کالج سے لے آؤ" میرب قریبی قصبے کے گرلز کالج میں پڑھتی تھی، اس نے کہا، "چاچی جی، میں ابھی جا تا ہوں " وہ چلا گیا موٹرسائیکل پر جو ان دنوں بہت نایاب تھا اور گاؤں کے لوگ اسے نقل و حمل کا ایک اجنبی ذریعہ سمجھتے تھے کیونکہ یہ بہت کم لوگوں کے پاس تھا۔ وہ ابھی گاؤں کے مضافات میں پہنچا ہی تھا کہ عادل نے اسے روکا، اس نے کہا، "بھائی، میں میرب کو کالج سے لینے جا رہا ہوں" عادل نے مسکرا کر کہا، "میں اپنے پیارے بھائی کو جانتا ہوں، اسی لیے تمہارا انتظار کر رہا تھا، اب یہ موٹرسائیکل مجھے دے دو اور یہاں ہمارا انتظار کرو"۔زید نے کہا، "بھائی کسی دن مرواؤ گے مجھے تم" وہ ہنسا اور بولا، "فکر نہ کرو، کچھ نہیں ہو گا" عادل چلا گیا اور زید ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا جب کوئی قریب آیا اور بولا، "ہا وے چوہدری، تو ایتھے کی کری جاندا" زید تھوڑی دیر کے لیےجز بز ہو گیا لیکن چھنڈو کو دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا اور کہا، "اوہ توں قسمے ڈرا دتا مینو" اس نے کہا، "تو اُتھے کردا کی پیاں" زید نے کہا، "انتظار" اس نے کہا۔ "کیدا" اس بار زید نے غصے میں آکر کہا، "تیرے بندے دا تا کہ اونو دس سکاں کہ اودی زنانی نو میں یدیا" چھندو نے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا، "ہا بیشرما تو مینو گھروں کڈئنگا" زید نے کہا، " اوہ یار تینوں ہن میں کی دساں، بندے نو سو کام ہوندے نے تو آ کے آتے دپٹیاں طرح پچھ پریت کرینگی تے سدھا جواب کتھوں ملے گا" اس نے کہا، "میں آکھیا تینوں یاد کرا دیواں کے تو دوبارا آیا ای نئی" زید نے کہا، آ جاواں گا" اس نے کہا، "کل دوپہر میری سس پنڈ جاوے گی تو چپ کر کے آ جاویں میں تیرا انتظار کراں گی" زید نے صرف ہاں میں سر ہلایا۔ چھندو چلی گئی اور زید نے بھی تسلی کی کہ وہ چلی گئی ہے۔ عادل کو موٹرسائیکل پر دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا۔ وہ اس کے سامنے رکے تو اس نے کہا، "تم دونو کسی دن خود بھی مرو گے اور مجھے بھی مرواؤگے" عادل نے موٹر سائیکل سے اترتے ہوئے کہا، "کمینے، ہم دونوں تمہاری اور زارا کی محبت کو سپورٹ کرتے ہیں پھر تم کیوں نہیں سپورٹ کر سکتےہماری محبت کو" زید نے موٹرسائیکل کا ہینڈل پکڑتے ہوئے کہا، "کیونکہ ہم اتنے رسک نہیں لیتے جتنے تم لیتے ہو" عادل نے ہنستے ہوئے کہا، "اوہ کملیا، میں رسک لیتا ہوں تاکہ کسی دن ہم پکڑے جائیں، تم جانتےہو۔ ہم دونوں کی منگنی ہو چکی ہے اس لیے اگر پکڑے گئے تو سزا صرف شادی ہو گی اور اس سے بہتر کوئی سزا نہیں ہو سکتی۔" میرب نے عادل کی پیٹھ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا، "تم واقعی بےشرم ہو، چلو زیدوچلیں، پتہ نہیں مجھے آج امی سے کتنے جھوٹ بولنا پڑیں گے تاکہ ان کو سمجھا سکوں کہ مجھے کسی وجہ سے دیر ہو گئی"۔عادل اور زید دونوں ہنس پڑے جبکہ زید نے موٹرسائیکل اپنے گھر کی طرف موڑ دی۔ اگلے دن زید چھندو کے گھر کے سامنے انتظار کرنے لگا اور اس کی ساس گاؤں گئی تو زید چھندو کے گھر کے اندر چلا گیا۔چھندو نے دروازہ بند کر دیا اور وہ دونوں کمرے کے اندر چلے گئے۔ چھندو اس کے لیے پانی لے کر آئی اور سامنے بیٹھتے ہوئے بولی، "کل تو پنڈوں بہار کی کر ریا سی تے ایڈا عجیب طرح کیوں لگ ریا سی" زید نے کہا، "عجیب دا کی مطلب آے تو مینو سڑک تے آ کے انج بولیں گی۔ ہور میں تیرے چڑھاوے چڑھاواں گا، تو دس کے تو مینو سدیا کیوں" وہ اٹھی اور اس کی گود میں بیٹھتے ہوئے بولی، "ہُن آئیڈا تو پھولا و نئی کے تِنو ہر واری دسنا پؤ گا کے تینو کیوں سدیا" زید نے مسکرا کر کہا۔ "سدی ترہ کہہ کے پھدی وچ اگ لگی ہوئی" اس نے ہنستے ہوئے کہا، "آہو لگی ہوئی اگ، ہون ٹھنڈا کر نا" یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہونٹ زید کے ہونٹوں پر رکھ دیے اور اس نے ہونٹ ہٹاتے ہوئے کہا، "اے کی کرن ڈئی۔ "وہ بولی، "او کملیا پیار ای کرن ڈئی آں ہور میں کی کرنا" زید نے کہا، "آے کیویں دا پیار ای" وہ ہنس کر بولی، "تئنو کی لگدا ای کے پیار صرف لن نو پھدی وچ پان نال ہو جاندا، پہلے۔ چوما چاٹی ہوندی، چل میں تئینو سکھاندی آں، جیویں مین کراں مینو کرن دے تے جیویں میں آکھاں اوویں ں ای کردا جا" زید نے صرف ہاں میں سر ہلایا کیونکہ وہ نا تجربہ کار تھا۔ سیکس کے شعبے میں اور چھندو سیکس میں اس کی پہلی استاد تھی۔ وہ اس کے ہونٹوں پر چومنے لگی اور وہ بھی جواب دینے لگا۔ اس نے اس کا ہاتھ لیا اور اس کے چھاتی پر رکھ دیا، پھر اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دبایا جو اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ اسے اس کے مموں کو دبانا چاہئے تو وہ اس کے مموں کو دبانے لگا۔ اس کے ہونٹوں پر بوسہ لینے کے بعد اس نے زید کے گالوں پر بوسہ دیا اور اس نے بھی اس کی چھاتیوں پر بوسہ دیا اور پھر اس نے اس کا منہ اس کی گردن تک لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی، "ایس ہاتھ نوں کمیز دے وچ پا تے میرے ٹڈ تے پھیر، بی بی نوں جنا ارام نال تے پیار نا ہاتھ پھیرو اونا اونو مزہ آندا، تے فیر آ ہتھ کمیز دے اندرون میرے ممیاں تے رکھ د تے اے ہتھ شلوار دے وچ پا کے میری پھدی رگڑ خاص طورتے پھدی دا چھولا ضرور رگڑ عورتاں نو مزہ آندا جے چھولا رگڑیا جاوے" زید نے الجھن سے دیکھا۔ اس نے کہا، "جدوں ہاتھ پاویں گا تے پتا لگ جاؤ گا" زید نے چھندو کے کہنے کے مطابق کرنا شروع کیا اور وہ مزہ لینے لگی اور خوشی سے کراہنے لگی، "آہہہہہہہہہ انج ای کرررررررررررر شاباااااااااااااااشششششششش چوہدری آہہہہہہہہہہہیہ تیرے ہاتھوچ تے جادو ای" جب زید مصروف تھا اس کے بوب اور پھدی سے کھیلنے میں اس نے زید کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا تھا اور اب وہ اس کے لن کو بھی دبا رہی تھی۔ تھوڑی دیر ایک دوسرے کے جسموں سے کھیلنے کے بعد چھنڈو اٹھی اور بولی، "چل چوہدری ہون ننگے ہو ن دا ویلا آ گیا" وہ دونوں اٹھے اور دونوں نے اپنے کپڑے اتار لیے، کچھ دیر بعد دونوں چارپائی پرلیٹ گئے۔ جہاں زید چھندو کے نپل چوس رہا تھا اور وہ اس کے لن سے کھیل رہی تھی اور کراہ رہی تھی، "انجے چوسسسسسسس میرررررررررررررررررے ممیاں نووووووو ں آہہہہہہہہہہہہہہ انج ای چوہدری آہہہہہہہہہہہہہہہہ کی چوسدا تو ہاااااااااااااااائے" اس نے پھر زید کا سر اپنے پیٹ کی طرف دبایا اور کراہتے ہوئے کہا۔ "اینو چٹ تے چوس تینو وی مزہ آئے گا تے مینو وی" زید نے اس کے پیٹ کو چومنا شروع کیا اور اس کی ناف کو چاٹنا شروع کیا اور پھر بولی، "آہہہہہہہہہہہ، آ جا ااااااااااااااااااااااااااچوہدررررررررررررررری آہہہہہہہہہہہہہ، ہن پا دے پھدی وچ آہہہہہہہہہہہ" زید اس کی ٹانگوں کے درمیان میں آیا اور جب وہ اپنا لن اس کی پھدی میں ڈالنے ہی والا تھا جو پہلے سے گیلی تھی، اس نے اسے رکنے کو کہا اور کہا، "رک زرا، تیرے ایڈے وڈے موسل نو پون تو پہلاں کج لا لیا کر لن تے وی پھدی۔ تے وی، تیل ہووے تے ٹھیک نہیں تے تھوک ای لا لیا کرتا کے جان لگا بی بی نو تکلف نہ دیوے تیرا اے بڑا ظالم ee ای تے بہت تباہی پھیردا" یہ کہہ کر اس نے لن اور پھدی پر تیل لگایا اور لیٹتے ہی پھدی کے منہ پر رکھ دیا۔ زید نے ایک دھکا دیا اور لن پھدی کے اندر داخل ہوا، اس نے ایک اور دھکا دیا اور اس بار وہ زور دار تھا اور لن اس کی پھدی کے اندر بہت گہرائی میں گھس گیا اور وہ چیخ کر بولی، "آ ہہہہہہہہہ ہئااااااااااے ماررررررررررر دیتا ظالما فیر اکو وار اچ پورا کلا گڈ دتا۔ میررررررررررری پھددددددددددددددی وووووووووووچ آہہہہہہہہہہ" لیکن اس بار زید اس کے لیے تیار تھا اور اس نے اسے چومنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اس کے بوب کو دبانا شروع کر دیا اور اپنے سینے کو اس کے سینے سےرگڑنا شروع کر دیا۔ چھندو کو اچھا لگ رہا تھا جیسے زید اب اسے چود رہا تھا اور وہ کہہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہہہہہہہ تیرے للے ورگا للا پورے علاقے وچ کسے دددددددددددددداااااااااااااا نہیں، تیرے لوڑے دااااااااااااااااااااااا سواد ای ہور ترہ دا ای آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ ہور کھچ مار چھٹکے آہہہہہہہہہہہہہہہہہہ" زید چودتا رہا۔ دھکوں کی تال تھپ تھپ کی آواز پیدا کر رہی تھی اور کمرے میں چارپائی کی چون چون کی آواز بھی گونج رہی تھی۔ اچانک چھندو کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور زید کے دھکے کے جواب میں اس نے اپنی گانڈ کو مزید تیز کرنا شروع کر دیا اور پھر وہ چلائی، "آہہہہہہہہہہہہہہہہ آہہہہہہہہہہہہ" چھندو کی پھدی سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور وہ ہانپنے لگی جب کہ زید چودتا رہا جبکہ اس نے کہا "آہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااائے رک جااااااااااا زرا، او زرررررررررا مینو ساہ لین دے فیر تینو کج ہور وی سکھاندی آں" زید رک گیا اور پھر اس نے چھندو کی پھدی سے اپنا لن نکالا جو چھندو کی پھدی کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ چھندو پھر اٹھی اور اس نے اپنا رخ اس کی طرف موڑا اور کتیاکی طرح ڈوگی کے انداز میں کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی، "آ تے پچھوں پا" زید نے لڑکوں سے اینل سیکس کے بارے میں سنا تھا تو اس نے کہا، "کی مطلب، پچھون بنڈ اچ..." اس نے روکا اور کہا، "خبردار جے بنڈ نو ہاتھ وی لایا تے، تیرا اڈا وڈا لن ای تے بنڈ دے چکراں وچ پئے کے اودا بیڑہ غرق کروا لواں" زید نے سسپنس کی وجہ سے کہا، "کی مطلب" وہ چڑ گئی اور بولی۔ "تو پچھوں پھدی وچ پاتے پِہلاں مینو چنگی ترہ یہہ تے لے، اے گلاں بعد اچ وی ہو سکدیاں۔‘‘ زید نے بھی یہ بات سمجھ لی اور اپنا لن پیچھے سے چھندو کی پھدی پر رکھ کر اس کی پھدی کے اندر گھسا دیا لیکن اس بار لن آسانی سے اندر چلا گیا۔ پھدی تیل کی وجہ سے چکنی بھی تھی اور ابھی اس کا پانی چھوٹا تھا اور اب اسے زید کے لن کی عادت ہو گئی تھی۔ وہ کراہ رہی تھی اور کہہ رہی تھی، "میررررررررے ممیا ں نو پھڑ تے نپ پِچھوں آہہہہہہہہہہہہہ" زید جو اُسے پیٹھ سے پکڑے بیٹھا تھا اب جھک گیا اور اُس کے دونوں مموں کو پیچھے سے پکڑے اور دبانے لگا جب کہ وہ اُسے چودتا بھی رہا۔ وہ اب کراہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ ہورررررررررررر کھچ کے ماررررررررررر چھٹکےآ ہہہہہہہ ہااااااااااااااااااااااائے تیرے لن نے اندر تک کھول دتا مینوووووووووووووو ہاااااااااااااااااااااااااااائے آہ" زید نے بھی کہا، "ہور رررررررررکنی کھچ کے ماراں آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ تیرے ممے تے پھدی وی رج کے مزے دندے مینو" اس کی چودائی اور تھپ تھپ اور پھچ پھچ کی آوازیں اب کمرے میں چھنڈو کی آہوں کے ساتھ سنائی دے رہی تھیں، کچھ دیر بعد چھندو نے دوسری بار اپنا پانی چھوڑا اور چارپائی پر گری تو زید کا لن بھی اس کی پھدی سے باہر نکل گیا۔ اس نے کہا، "آہہہہہہہہہہہہہہہہہ مزہ آ گیاااااااااااااااااااااااا قصمے، اینے سالاں دی پیاس بجھا دتی میررررررررررررررررررررررری، انتا میں کدی وی نئی چھٹی جنا میرا پانی تو انا دو دنا دے وچ کڈ دتا، آ جا کڈ لے اپنا پانی وی"یہ کہہ کر وہ سیدھی لیٹ گئی اور زید پھر سے چودنے لگا۔ جب زید اپنا پانی چھوڑنے والا تھا تو اس کے ذہن میں رانی کی باتوں کے خیالات تھے اور وہ اپنا لن نکالنے ہی والا تھاکہ اس کے منہ سے آہہہہہ نکلا لیکن چھندو نے اپنی ٹانگیں زید کی گانڈ کے گرد لپیٹ لی تھیں اور وہ اس سے حرکت کرنے سے قاصر تھا۔ لن نے پھر سے اپنا پانی چھندو کی پھدی کے اندر چھوڑ دیا جبکہ اس نے بھی تیسری بار اپنا پانی چھوڑ دیا۔ زید کچھ دیر ہانپتا رہا پھر اس نے چھندو کی پھدی سے اپنا لن نکالا اور اس کے پاس لیٹ گیا، اس نے کہا، "تو مینو کڈن کیوں نہیں دتا، میرا پانی تیرے اندر ڈگ گیا، کتے تو نویں ددوں ہو گئی تے" چھندو مسکرائی اور کہا، "واہ اوئے چوہدری، تئینوا ئے گلاں کنے سخادتیاں" زید نے کہا، "او چڈ تے مینو اے دس کے بچے ہو گیا تے فیر" وہ ہنس کر بولی، "ہو گیا تے ہو گیا" اس نے کہا، "فر تیرا بندہ تئینو کھروں نئی کڈدیوے گا" وہ ہنستے ہوئے بولی، "اوہ کملیا اونو تھوڑی دساں گی کے نیانا اودا نہیں تیرا، ویاہی وری بی بی نو نیانا ہونا عام جئی گال ای، ایتھے کئی بیبیاں جنا دے بندیاں نو نئیں پتہ کہ نیانےاونا دے نہیں بلکے کئی بیبیاں نوں تے اے وی نہیں پتا کے نیانا کیڑے چوہدری دا پر تینو کنے دسیا اے سب” زید نے کہا، “تو اوہ چھڈ تے مینو دس کہ تو اے کیوں کہندی کے اینی واری کدی نہیں چھٹی، کی تیرا بندہ۔ …………”وہ ہنسنے لگی اور کہنے لگی، ’’اوہ میرے کملے چوہدری، ہر بندے دا لن تیرے وانگو ں سندے دےلن ورگا تھوری ہندا، اوہ وی کردا ائے پر مینو ٹھنڈا نئی کردا، اودا وی قصور نی، سارا دن کام کر کر کے تھکیہ ہندا تے میرے تے چڑھکے کنا کر سکدا، بس اپنا پانی کڈکے سوں جاندا، کئی واری تے سوتے پئے نو اُتوں لئونا پیندا تے اودا لُن پھدی چوں کڈ کےصاف کرنا پیندا" زید نے کہا، "تواودن پھدی وچ اُنگلی کیو ں کردی پئی سی"۔ وہ ہنسی اور کہنے لگی، "اُنگل لین دا شوق سی ایس لئی کردی پئی سی" زید بھی مسکرایا اور بولا، "دس وی دے ہن" اس نے کہا، "ظاہر اے جدوں پھدی بندے دے لن ناں ٹھنڈی نہیں ہندی تے انگلی نا ٹھنڈی کر لیندی"۔ زید نے سیدھا سوال کیا، "چاہے حبیب تو علاوہ ہور کیڑا چوہدری اے سارے کام کردا اے" وہ یہ بتانے کے موڈ میں نہیں تھی اس لیے بولی، "چودھری کوئی ہور گل کر" اس نے اس کا نپل نچوڑ کر کہا، "اج تئینوداسنا پئے گا" اس نے کہا، "چودھری تیراکج جانا نئی تےجے کسے نو پتا لگ گیا تے میرے کجھ بچنا نئی" زید نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرے تے انا یقین ہے کہ پھدی دے سکدی پر ائے سب نئی دس سکدی" اس نے کہا، "گل یقین دی نئی، گل ڈر دی ائے" زید نے کہا، "ہون تو مینو دس نئی تے مینو ائے ہو ای لگنا کے تئینو میرے تے یقین کوئی نئی" اس نے کہا۔ "چوہدری حبیب دا کتھوں پتہ لگا" زید نے کہا، "میں آپ ویکھیا سی" اس نے کہا، "کدے نال، ماچھیاں دی سبو دے نال یا پاولیاں دی رحمتے دے نال" زید نے کہا، "سبو دے نال کھو آلی پیلی دے وچ جیڑا ڈیرہ اودے وچ"وہ مسکرا کر بولی، "باقی وی انج ای، کسے نا کسے مزارے دے گھر دی زنانی پھسی ہوئی تے موجاں لگیاں ہویاں" اس نے کہا، "کی مطلب، میرے ابا جی" وہ کہنے لگی، "نہ، چوہدری حیدر تے نیک روح نے۔ نئی اوہ نئی پر تیرا چاچا تے تیرا پھپڑ چوہدری شاکر، اونا کولوں تے وڈے وڈے پناہ منگدے نے” زید نے کہا، “کی مطلب اوہ زبردستی کردے نے” اس نے کہا، “اوہ نئی، زبردستی آلا کوئی کھاتا نہیں چوہدریاں دا ایس گلوں سارے ای چنگے نے، تیرے چاچے حبیب نے میرے تےآکھ رکھی سی پر اونے کدی زبردستی نئی کیتی، ویکھ چودھریاں دا سیاپا تے ائے ہندا کے ددھ کھیو دے پلے ہُندے نےتے لن ہر ویلے تنگ کردا نالے زنانیاں روز روز پھدی دندیاں نئیں۔ اوہ وی تے آخر چودھرانیاں ہندیاں نی تے فیر باہر منہ مار لیندے نے۔ جتھے تک اناں کامیاں دی زنانیاں دی گل تے اینا نو تگڑا لُن لبھدا تے لتاں تے بنڈچک چک کے پھدی مرووندیاں جیویں میں تیرے کولوں مرواؤندی، ہور چوہدری کوئی پیسہ پوساوی دے دندے تے آٹے دانے وی کردندے نالے ہور بڑی تھاں کم آ جاندے" زید اب متجسس ہو رہا تھا اور اس نے کہا، "ہور کیڑی تھا کام آنڈے، مثلاً" وہ مسکرا کر بولی، " یاد ای پچھلے سال کسائیاں دی تے نائیاں دی لڑائی ہوئی سی تاں اودے وچ نائیاں دا پلہ پھارا ریا سی، اودے وچ بوہتا کمال نائیاں دی ناجو تے اودی پھدی دا ای سی۔‘‘ زید نے کہا، ’’کی چولاں ماری جان ڈئی، اودا فیصلہ تے ابا جی نے کیتا سی تے ہونےآپ ای آکھیا کے ابا جی تے نیک بندے‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اوہ۔ تے نیک ای نے، نازو دیاں لٹاں تے چوہدری ہادی اگے کھلیاں سی۔‘‘ زید نے کہا، ’’اوہ ایدا مطلب، پھاعباد تے عادل وی…‘‘۔اس نے کہا، ’’نہ، چوہدری عادل تےنرا چوہدری صاب ورگا، چوہدری عباد وی پہلے انج دا نہیں سی پر لگدا کے تیری پرجائی اونو بوہتا نیڑے لگن نئی دیندی تے سالیاں نال رہ کے اونا ورگا ہو گیا، چوہدری خاور تے فیر کج مٹھا اے۔ پر چوہدری داور کولوں تے شیطان وی پناہ منگدا تے چوہدری ہادی وی کھٹ نئی پر چوہدری داورتے اودا ابا تے سرخیل نے پھدی بازاں دے” زید نے چھنڈو سے علاقے کی سیاست کے ساتھ ساتھ جنسی عمل اور صحت کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں۔اس نے اسے وہ کھانا بتایاجو اس کے لن کو فٹ رکھ سکتا تھا، اس نے اسے ایک بار پھر چودا اور گھر آگیا۔ اگرچہ اس نے دو لڑکیوں کے ساتھ سیکس کیا تھا اور ایک بہت چھوٹی تھی لیکن پھر بھی اسے سیکس کی کوئی ہوس نہیں تھی اور وہ اپنی سیکس کی ضرورت کو پرسکون کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کیونکہ اگلے دو دنوں تک وہ چھندو سے نہیں ملا تھا۔ تیسرا دن تھا اور اس نے اور چھندو کو ملنا تھا کیونکہ چھندو کی ساس کو گاؤں جانا تھا اور زید اس خاتون کے جانے کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ جانے ہی والی تھی کہ بارش بوندا باندی شروع ہو گئی اور وہ خاتون واپس مڑ کر گھر چلی گئیں۔ زید بھی سمجھ گیا کہ اس کا گاؤں جانے کا کوئی موڈ نہیں ہے اس لیے وہ بھی پلٹ کر گھر کی طرف چلا گیا کیونکہ چھندو سے ملنے کی امید نہیں تھی۔ اس نے زید سے کہا تھا کہ وہ دوسرے چوہدریوں کی طرح نہ بنے کیونکہ جو لوگ ہر وقت اپنی ہوس کی وجہ سے پھدی کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی عزت نہیں کی جاتی تھی، یہ بھی ایک حقیقت تھی کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ عام لوگوں کی گپ شپ میں رہتے ہیں اور زید نے خود دیکھا کہ اس کا باپ اور عادل اور وہ خود بھی دوسرے چودھریوں کے مقابلے میں قابل احترام تصور کیے جاتےتھے اس لیے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ پھدی کے لیے ہر عورت کے پیچھے نہیں جائے گا اور وہ چھندو کی پھدی سے خوش رہے گا یا پھر موقع ملا تو رانی کو چودلےگا۔ زید نے رانی کے ساتھ اپنے جنسی تعلقات کے بارے میں چھندو کو کچھ نہیں بتایا کیونکہ چھندو نے اسے خود بتایا تھا کہ یہ عورتیں چوہدریوں کے لن لیتی ہیں اور پھر اپنی گپ شپ میں ان کے بارے میں بات کرتی ہیں اور اسی طرح بات پھیل جاتی ہےاور جو چوہدری پھدی کی حوس میں مبتلا ہوتے تھے وہ خود ان عورتوں کو پیسے دے کر یہ باتیں مشہور کرواتے جو ان سے چدتی تھیں تا کہ ان کے لن کی طاقت اور فیا ضی کےقصے سن کر مزید عواتیں تگڑے لن اور پیسوں کے چکر میں ان کے پاس آئیں لیکن زید ایسا نہیں چاہتا تھا اس لیے اس نے اس معاملے میں خود پر اعتماد اور کسی دوسرے پر بھروسہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔جب وہ کھیت میں پہنچا جہاں اس کے چچا حبیب کا ڈیرہ تھا بارش اپنی معمول کی رفتار کو پہنچ چکی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک عورت تیز رفتاری سے ڈیرے کی طرف جارہی ہے اور اسے تجسس ہوا کہ اس قسم کی بارش میں کون سی عورت اس کے چچا کے پاس جارہی ہے۔ ڈیرےکا دروازہ اندر سے بند تھا اور زید نے غور سے دیکھا تو اس خاتون کو اس لباس سے پہچانا جو اس نے پہن رکھا تھا۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ اس کے چچا حبیب کی بیوی اور اس کی چاچی تنزیلہ تھی۔ وہ صورت حال دیکھنے کے لیے درخت کے پیچھے چھپ گیا، تنزیلہ نے غصے سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد حبیب نے دروازہ کھولا تو اس نے صرف دھوتی پہنی ہوئی تھی جبکہ اس پر قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔ تنزیلہ اسے ایک طرف دھکیل کر اندر چلی گئی جبکہ حبیب بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ زید مزید قریب آیا اور اسے ڈیرے کے اندر لڑائی کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں لیکن بارش کی آواز کی وجہ سے آوازیں صاف نہیں ہو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک خاتون ڈیرےسے باہر آئی اور وہ جلدی میں تھی جبکہ اس نے جو لباس پہنا ہوا تھا وہ بھی ٹھیک طرح سے ایڈجسٹ نہیں ہوا تھا کیونکہ لگتا تھا کہ اس نے عجلت میں لباس پہنا ہے۔ وہ خاتون رحمتے تھی جو ایک دبلی پتلی خاتون تھی اور اس کی عمر 40 سال سے زیادہ نہیں تھی۔ زید کو پھر اندر سے لڑائی کی آوازیں سنائی دیں اور اس بار آوازیں بالکل واضح تھیں کیونکہ یہ حبیب اور تنزیلہ کی لڑائی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ حبیب تنزیلہ کو مار رہا ہے۔ وہ تنزیلہ کو اس کے شوہر کے غصے سے بچانے کے لیے اندر بھاگا، حبیب غصے سے تنزیلہ کو پیٹ رہا تھا جب وہ اندر پہنچا تو اسے کچھ کوشش سے اسے روکنا پڑا اور وہ اسے تنزیلہ سے دور لے گیا لیکن حبیب اتنا غصے میں تھا کہ اسے مارنا ہی چاہتا تھا۔ . زید نے کہا "چاچو کیا کر رہے ہو، چاچی کو کیوں مار رہے ہو" بھتیجے کی آواز سن کر غصے میں حبیب کو خود کو پرسکون کرنا پڑا کیونکہ اس کے پاس بھتیجے کو بتانے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ یہ 60 کی دہائی کا زمانہ تھا اور بزرگوں میں کچھ وضع داری تھی اور وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کے سامنے اپنی ساکھ کا خیال رکھتے تھے۔ تنزیلہ زور زور سے رو رہی تھی کیونکہ اسے اس نے شوہر نے بہت غصے سے مارا تھا۔ حبیب نے جس ڈنڈے سے اسے مارا تھا اسے دور پھینک کر غصے سے کہا "یہ اس سب کی مستحق ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ یہ گھر سے باہر میری زندگی میں مداخلت نہ کرے لیکن یہ میری بات نہیں مانتی" تنزیلہ نے اسے جواب دینا چاہا لیکن زید کی موجودگی کی وجہ سے اسے خود کو روکنا پڑا کیونکہ زید عادل کا بھائی تھا جو عنقریب اس کا داماد ہونے والا تھا اور اس کا اسے اپنے شوہر کے غلط کاموں کے بارے میں بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ حبیب اپنی قمیض پہننے لگا اور غصے سے بولا "خبردار اگر اس حالت میں گھر آئیں اور میرے بڑے بھائی یا بھابھی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی" اس نے اپنی قمیض پہنی اور کہا "زید میرے ساتھ چلو" وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا اور کیبنٹ سے میڈیکل باکس نکالا۔اس نے کہا" یہ میڈیکل کاڈبہ لے جاؤ اور اس کے زخموں کا علاج کرو، میں اس کا چہرہ اس طرح نہیں دیکھنا چاہتا اور بارش ہو رہی ہے اس لیے شام تک اس کے پاس رہو جب تک کہ بارش نہ رک جائے اور اس کے لیے کچھ اور کپڑے لانے کی کوشش کرو کیونکہ اس نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں وہ کچھ جگہوں سے پھٹ گئے ہیں اور ویسے تم یہاں اس بارش میں کیا کر رہے تھے" اس نے کہا، "میں ایک دوست سے ملنے کے بعد گھر آ رہا تھا کہ مجھے یہاں سے لڑائی کی آوازیں آئیں لیکن مجھے نہیں معلوم آپ نے چاچی کو اتنا مارا کیوں" وہ غصے سے بولا، "تمہارا کوئی کام نہیں اس لیے ان باتوں سے دور رہو اور اب جب تم یہاں آگئےہو تو بس اس کے ساتھ رہو اور جب وہ بہتر ہو جائے تو اسے گھر لے آنا، تب تک اگر کوئی پوچھتا ہے میں خود سنبھال لوں گا" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا اور زید کو اندر سے دروازہ بند کرنے کا حکم دیا۔ زید واپس اس کمرے کے اندر گیا جہاں تنزیلہ ابھی تک رو رہی تھی، اس نے کہا، "چاچی مجھے اپنے زخموں کا علاج کرنے دیں ورنہ خون بہنے لگے تو روکنا مشکل ہو جائے گا" اس نے غصے سے اسے دیکھا لیکن پھر اس نے سوچا کہ اس سب میں اس کا کیا قصور ہے۔ اور اس نے صرف اپنا سر نیچے کر لیا. زید نے قریب آکر اس کے بازو کو پکڑ لیا اور اس کے زخموں پر ٹنکچر لگانے لگا۔ یہ زخم اس وقت لگے تھے جب اس نے چھڑی کو لگنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ وہ درد کی وجہ سے رو رہی تھی اور کراہ رہی تھی۔ اب دوسرے زخم اس کی کمر پر تھے اور اس نے قمیص پہنی ہوئی تھی، زید نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا جیسے اسے اب علم ہو گیا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ تنزیلہ کو یہ بات سمجھ آئی اور اس نے اپنا رخ اس کی طرف موڑ کر قمیض اٹھا لیا جب کہ وہ اس کے زخموں پر ٹنکچر لگانے لگا۔ تنزیلہ کی عمر صرف 38-39 سال تھی، وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کی حبیب سے شادی ہوئی اور پھر شادی کے 2-3 سال بعد ان کی ایک ہی بیٹی ہو ئی۔ اس کی خوبصورتی اور دلکشی اب بھی موجود تھی کیونکہ اس کے پاس صحت بخش کھانا تھا اور گھر میں کرنے کو کچھ زیادہ نہیں تھا۔ حالانکہ وہ زید کی چاچی تھی لیکن پھر بھی وہ ایک خوبصورت عورت تھی۔ زید اس کی ننگی پیٹھ کی طرف دیکھنے سے بچنا چاہتا تھا کیونکہ اس کا لن کھڑا ہونا شروع ہو گیا تھا جو وہ نہیں چاہتا تھا کیونکہ تنزیلہ اس کی چاچی تھی اور وہ ایسا کچھ سوچنے سے بچنا چاہتا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سیکس کے معاملے میں چھندو اور رانی پر ہی گزارہ کرے گا لیکن اس کا لن اس کی مرضی کے بغیر مسلسل کھڑا تھا اور اب اس کی شلوار میں جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ تنزیلہ کی برہنہ پیٹھ کی طرف دیکھنے سے بھی بچنا چاہتا تھا جو اس کی پیٹھ کی برہنگی کے حوالے سے لاپرواہ تھی اور وہ اس بات سے بھی بے خبر تھی کہ اس نے اپنی قمیض کے نیچے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا اس لیے اس کے مموں کے حصے اطراف سے نظر آرہے تھے اور اس کے ممے بھی اچھے خاصے بڑےتھے۔ زید آنکھیں بند نہ کر سکا کیونکہ اسے زخموں پر ٹکنچر لگانا تھا اور زخم دیکھے بغیر ٹکنچر لگانا ناممکن تھا۔ زید نے اپنے ذہن میں ان خیالات سے بچنے کے لیے تنزیلہ سے بات کرنے کا سوچا۔اس نے کہا "چاچی آپ ہمیشہ چاچا جی سے لڑتی کیوں رہتی ہیں، ہم بچپن سے یہی دیکھ رہے ہیں کہ آپ دونوں آپس میں لڑتے اور صلح کرتے ہیں اور لڑائی اور صلح کے دوران وہ آپ کو ہر وقت مارتےہیں اور آپ ہمیشہ اس طرح روتی ہیں جیسے آپ اب رو رہی ہیں۔ " وہ غصے سے بولی، "تمہیں نہیں لگتا کہ تم کچھ زیادہ بول رہے ہو؟" اس نے کہا، "میں صرف اتنا کہنا چاہتاہوں کہ آپ چاچا جی کو ان کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتیں اور ان کو جو چاہیں کرنے د یں۔" وہ لمحہ جب تنزیلہ نے روانی میں کہا، "تمہارا کیا مطلب ہے، کیا میں تمہارے چاچا کو جس عورت کو وہ چاہے چودنے دوں؟"زید نےبھی روانی میں یہ کہا، "اگر وہ ان عورتوں کو چود رہےہیں تو ظاہر ہے کہ آپ ان کو آپ کو اتنا نہیں چودنے دیتیں جتنا وہ آپ کو چودنا چاہتے ہیں " یہ گفتگو بھتیجے اور چاچی کے رشتے کی حد سے آگے نکل چکی تھی۔ اسی وقت زید مموں کے قریب زخموں پر ٹنکچر لگا رہا تھا اور زید کے جواب سے چونکنے والی تنزیلہ کو ایک اور جھٹکا اس وقت لگا جب اس کے شوہر کے 16 سالہ بھتیجے نے اس کا ممے کو پکڑ کر دبادیا۔ اگرچہ زید نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا اور تنزیلہ ہی تھی جس نے حرکت کی اور زید کا ہاتھ ممے تک پہنچ گیا لیکن ابتدائی طور پر جو غلطی کی وجہ سے ہوا وہ جان بوجھ کر ایکشن بن گیا جب زید نے اپنی چاچی کا مما دبادیا۔ وہ مما کو دباتا رہا لیکن تنزیلہ ابھی اس صدمے میں تھی کہ وہ کوئی رد عمل ظاہر نہیں کر پا رہی تھی اور زید نے سوچا کہ یہ اس کی ہاں ہے جبکہ ایک نئی پھدی کا خیال اس کے ذہن پر سوار ہو چکا تھا۔ وہ ممے کو آہستہ سے دباتا رہا اور اس کے بڑے نپل کو نچوڑتا رہا جس سے تنزیلہ کو اس درد میں اچھا محسوس ہورہا تھا جو اسے اپنے شوہر کی مار پیٹ کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ زید نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا، وہ اپنی چاچی کے سامنے آیا، اس نے اسے کندھے سے دھکا دیا اور وہ چارپائی پر گر پڑی، اس سے پہلے کہ وہ کوئی رد عمل ظاہر کرتی، زید نے اپنے ایک ہاتھ سے اپنی شلوار کا نالہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے۔ تنزیلہ کی شلوار کا نالہ کھولا۔ اس نے شلوار کو نیچے کھینچ لیا اس سے پہلے کہ تنزیلہ ا بھی ٹھیک سے رد عمل ظاہر کر پاتی شلوار اس کی ٹانگوں سے باہر آ گئی اور وہ نیچے سے ننگی ہو گئی۔ زید کی شلوار پہلے ہی زمین پر تھی۔ اس نے اسے چارپائی پر ایڈجسٹ کیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ تنزیلہ ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ وہ اسے روکنا چاہتی تھی لیکن اس کا دماغ اور جسم اسے روکنے میں اس کی مدد نہیں کر رہے تھے۔ زید نے اپنے لن پر تھوک دیا اور پھر پھدی کے منہ پر رکھ دیا۔ اس نے ایک دھکا دیا اور لن آسانی سے تنزیلہ کی پھدی کے اندر گھس گیا۔ ایک بھتیجے نے اس کے اور اس کی چاچی کے درمیان رشتہ توڑ دیا تھا۔ تنزیلہ کے منہ سے صرف آہ نکلی لیکن جب زید نے اگلا دھکا دیا جو کرارا تھا تو لن مزید گہرا اندر ہو گیا اور اب تنزیلہ کو محسوس ہوا کہ اس کی پھدی میں موجود لن کوئی عام لن نہیں ہے اور اس نے تقریباً چیخ کر کہا، "آہہہہیہہ۔۔۔ اے کی کر چھڈیااااااااا، ہاااااااااااااائے آہہہہہہہہہہہ، باہرررررررر کڈ، کی کری جانداااااااااااااں ............... آہہہہہہہہہ، ہااااااااائے میں مرررررررررررر گئی آہہہہہہہہہہہہ، باہر کڈتو ہور اندر کر دتا ااااااااااااآہہہہہہہہہہہہہ" جیسے وہ اب تھی اسے روکنے کی کوشش کررہی تھی زید نے ایک اور دھکا دیا تھا اور تنزیلہ کی پھدی میں لن مزید گھس گیا ۔ اگرچہ حبیب کا لن لمبائی اور چوڑائی میں بہت چھوٹا نہیں تھا لیکن اسے لگا کہ زید کا لن ا اس کے شوہر کے لن سے بڑا ہے۔ زید نے قمیض میں ہاتھ گھسائے اور اس کے دونوں ممے پکڑے اس نے ایک اور دھکا دیا اور تنزیلہ کی پھدی میں لن پوری طرح سے گہرائی میں گھس گیا اور وہ چلائی، "آہہہہہہہہہہہ، اوووووووووووئے کی کر دتا اااااااااااآہہہہہہہہہہہ، میری پاااااااااڑ کے رکھ دتی آہہہہہہہہہہہہہہہ، کڈااااااااااا وڈاااااااااا سودا ای تیرا آہہہہہہہہہہ، باہر کڈلے غلط کردددددداااااااااااااا پیاں... آہہہہہہہہہہ"لیکن زید سننے کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ وہ تنزیلہ کی پھدی میں اپنے بڑے لن کو گھساتا رہا اور اس نے اس کی آہوں کی پرواہ نہیں کی اور اب وہ ٹھیک سے چودنے لگا اور کمرا تنزیلہ کی کراہوں سے ہی نہیں تھپ تھپ کی آوازوں سےبھی اور چارپائی کی چوں چوں کی آواز بھی سے بھی گونجنے لگا۔ زید اس کی پھدی کے اندر مزید گہرائی تک گھسا رہا تھا اور لن کا ٹوپا اب تنزیلہ کی بچےدانی کو چھو رہا تھا جب کہ وہ کراہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہ، نا کر آہہہہہہہہہہ رک جااااااااااااااا نااااااااااااں، ائے غلط ہو ن ڈیا آہہہہہہہہہہ، تیرے لن نے مینوں اندرررررررررر تک کھول دتا آہہہہہہہہ، اپنے چاچے نالوں وڈا ائے تیرااااااااااااا آہہہہہہہہہہہہہ" تنزیلہ کوئی ان پڑھ خاتون نہیں تھی اور اس نے ایف اے کر رکھا تھا جو کہ اس وقت مردوں کے لیے بھی بڑی ڈگری تھی لیکن خواتین کے لیے اس وقت پی ایچ ڈی کی طرح تھی اور اسے اردو پر اچھاعبور حاصل تھا اور وہ اردو میں ہی بولتی تھی معمول کی زندگی میں لیکن اس وقت وہ پنجابی میں بول رہی تھی اور اس کی پھدی میں زید کے لن کے دھکے اس کی ہلکی سی مزاحمت کو کمزور کر رہے تھے جو وہ اس کے دھکوں کو دکھا رہی تھی۔ اچانک اس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور وہ کانپنے لگی جب وہ کراہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہہہہہہہ، مینوووووو کج ہو رررررررریا، آہہہہہہہہہہہ میررررررری جان گئی آہہہہہہہہہہہہہ" وہ بغیر کسی سوچ اور تال کےالاں بلاں بول رہی تھی اور اچانک اس کی پھدی نے اپنا پانی چھوڑنا شروع کر دیا اور اس کا جسم جو پہلے سخت ہو گیا تھا اب پر سکون ہونے لگااور وہ چارپائی پر پیچھے کوگر کر ہانپنے لگی۔ زید نے اسے موقعہ سمجھ کر اپنا لن اس کی پھدی کے اندر ہی رکھا اور اس نے قمیض اتارتے ہوئے تنزیلہ کو تھوڑا سا اوپر کیا اور تنزیلہ کے ہانپتے ہوئے جسم سے زید نے اس کی قمیض بھی اتار دی۔ تنزیلہ اب مکمل طور پر ننگی ہو چکی تھی اور اس کے اکڑے اور بڑے بڑے ممے اپنی پوری شان کے ساتھ زید کے سامنے ننگے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ حبیب نے کبھی اس کے مموں کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ وہ اگرچہ بڑے تھے لیکن وہ 16 سال کی لڑکی کے مموں کی طرح سخت تھے، زید کو لگا کہ تنزیلہ کے ممے رانی کے مموں سے زیادہ سخت ہیں جو تنزیلہ سے تقریباً 21-22 سال چھوٹی تھی۔ . تنزیلہ کی مزاحمت اس وقت ختم ہو گئی تھی جب اس نے اپنی پھدی سے پانی چھوڑ دیا تھا اور اب وہ ہانپ رہی تھی جب زید نے اس کےایک مضبوط ممے کو دبانا شروع کیا جبکہ وہ دوسرے کے نپل کو چومنے، چاٹنے اور پھر چوسنے لگا۔ اس کا لن ابھی بھی تنزیلہ کی پھدی میں تھا اور اس نے آہستہ سے اس کی پھدی میں دھکے دینا شروع کر دیے اور تنزیلہ کراہنے لگی، "آہہہہہہہہہہ، تم نے مجھے کیا کرررررررر ددددددددیا، میں نہیں جانتی کہ میں تمھیں روک کیوں نہیں پا رہی آہہہہہہہہہہ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ ہم غلط کر رہےہیں، آہہہہہہہہہہ" زید کے دھکوں کی رفتار بڑھنے لگی اور زید کو محسوس ہو رہا تھا کہ تنزیلہ کی مزاحمت ختم ہو گئی ہے اور لگتا ہے کہ وہ سیکس کا مزہ لینے لگی ہے، اس کی پھدی میں اچانک اور زبردست گرمی پیدا ہو گئی تھی اور اب زیدوہ گرمی اپنے لن پر محسوس کر رہا تھا۔لن تنزیلہ کے پانی چھوڑنے کے بعد باقاعدگی سے اندر اور باہر جا رہا تھا اور وہ اب کراہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہ، ہوررررررر تیز زززززززکررررررر، مجھے تیززززززززی سے چوددددددوووووو، آہہہہہہہ، ہاااااااااااائے مینو وووووووکی ہو گیااااااااااااااا، آہہہہہہہہہہ" زید نے اسے اپنے سینے سےلگایا اور اپنی چھاتی کو اس کے مموں پر دباتے ہوئے مضبوطی سے گلے لگایااور اس کو پوری رفتار کے ساتھ اسے چودنا شروع کر دیا. وہ کراہ رہی تھی، "آہہہہہہہہہہہ، زوررررررر نال آہہہہہہہہ، تیرے وچ تے تیرےلن وچ کجھ خاص ای آہہہہہہہہہہ، تمہاری شخصیت میں کچھ عجیب سا جادددددد وووووو ہے، آہہہہہہہہہ، میں مزید نہیں روک سکتی، آہہہہہہہہہ، آہہہہہہہ" تنزیلہ کا جسم پھر اکڑ کر کپکپانے لگا۔ جو پھر سے اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنا پانی چھوڑنے والی تھی لیکن اس بار زید بھی جھڑنے کے قریب تھا اس لیے وہ پوری طاقت سے آخری دھکے دیتا رہا اور پھر اس نے کراہتے ہوئے کہا "آہہہہہہہہ، آہہہہہہہہ" باہر بارش ہو رہی تھی پوری رفتار سے اور اندر ایک بھتیجا اپنی چاچی کی پھدی میں اپنے لن کے پانی کی بارش کر رہا تھا۔ زید تنزیلہ پر گرا اور ہانپنے لگا جب کہ تنزیلہ پہلے ہی ہانپ رہی تھی اور وہ دونوں پسینے میں ایسے بھیگے ہوئے تھے جیسے ابھی نہا ئےہوں۔ زید کا سر تنزیلہ کے کندھے پر تھا اور وہ سو چکی تھی جبکہ زید بھی اونگھنے لگا جبکہ اس کا لن اب بھی تنزیلہ کی پھدی میں تھا۔تنزیلہ پھر سے جاگی جب اسے اپنی پھدی میں زید کے لن کے دوبارہ دھکےلگے کیونکہ اس نے پہلے پانی چھوڑنے کے بعد اس کی پھدی سے اپنا لن نہیں نکالا تھا اور اب اس کا لن پھر سے پھدی کے اندرہی کھڑا ہو گیا تھا اور وہ پھر سے اپنی چاچی کو پوری رفتار سے چود رہا تھا۔ وہ اس کے نپل بھی چوس رہا تھا اور اس کے مموں کو بھی دبا رہا تھا۔ تنزیلہ صرف مزے میں کراہ رہی تھی کیونکہ وہ آدھی نیند میں تھی لیکن وہ صرف سیکس کا مزہ لے رہی تھی۔ زید نے پھر تنزیلہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اسے چومنا شروع کر دیا جب کہ اس نے بہت پہلے مزاحمت ترک کر دی تھی تو اس نے اس کے بوسے کا جواب دینا شروع کر دیا جبکہ زید نے تنزیلہ کی پیٹھ کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسے اوپر کیا تو وہ خود بھی کھڑا ہو گیا اور اسے چومنے لگااورکھڑی پوزیشن میں اس کی چاچی کو چودنے لگا . تنزیلہ کوئی بہت ہلکی پھلکی یا دبلی پتلی خاتون نہیں تھی اور اگرچہ وہ خوبصورت تھی لیکن اس کا جسم ایک ایسی خاتون کا تھا جس کی عمر 35 سال سے زیادہ تھی اور اس میں اتنا موٹاپا تھا جو 35 سال کی عمر کے بعد آتاہے۔ زید جیسے پہلوان کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا جو 16 سال کی عمر میں بھی 20 جیسا نظر آتا تھا اور اس کا لن اس عمر میں تقریباً 9 انچ سے زیادہ لمبا اور 2.5 انچ سے زیادہ موٹا تھا۔ تنزیلہ نے بوسہ توڑا اور کراہتے ہوئے بولی، "آہہہہہہ، تم بہت طاقتور رررررررہو ووووووآہہہہہہہہہہہ، وے تو کھاندا کی ایں جیڑا اینج کھڑا ہو کے یہہن ڈیاں آہہہہہہہہہہہہہ" وہ بیک وقت پنجابی اور اردو دونوں بول رہی تھی، اس کا جسم پھر اکڑ گیا اور اس نے دوبارہ پانی چھوڑ دیااور اس بار کھڑے ہونے کی حالت میں ہوا۔ زید کے لن اور تنزیلہ کی پھدی کے پانی کا آمیزہ ان کی ٹانگوں پر پہلے سوکھ گیا تھا اور اب پھر تنزیلہ کی پھدی کا پانی ان دونوں کی ٹانگوں کے نیچے سفر کر رہا تھا۔ زید نے تنزیلہ کو واپس چارپائی پر لٹایا اور پوری رفتار سے اسے پھر سے چودا اور پھر تنزیلہ کی پھدی میں اپنا گرم پانی چھوڑ دیا اور اس پر گر کر ہانپنے لگا۔ کچھ دیر بعد زید نے اپنا لن نکالا اور اس کے پاس لیٹ گیا۔ وہ دونوں ننگے تھے، دونوں کو پسینہ آ رہا تھا اور زید کا لن اس کے پانی کے ساتھ ساتھ تنزیلہ کی پھدی کے پانی میں بھیگاہوا تھا اور تنزیلہ کی پھدی سے وہی مرکب نکل کر اس کی ٹانگوں اور اس کی گانڈ تک جا رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرنے میں ہچکچا رہے تھے اور اب وہ شرم محسوس کر رہے تھے۔ زید نے پھر کچھ ہمت کی اور اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر اس سے کھیلنے لگا۔ تنزیلہ نے بھی کچھ ہمت کی اور کہا، "زید تم جانتے ہو کہ ہم نے جو کیا غلط ہے اور ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا" وہ اس کے ممے کے ساتھ کھیلتارہا اور بولا، "مجھے اس کے بارے میں نہیں معلوم لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ ہے آپ کو آپ کے درد سے نجات دلانے کا واحد طریقہ اس لیے میں خود کو روک نہیں پایا اور آپ بھی بہت خوبصورت ہیں......... مجھے امید ہے آپ سمجھ گئی ہوں گی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں"اس نے کہا، "اس نے مجھے حبیب کے درد سے تو نجات دلائی لیکن اب اس نے مجھے ایک احساس جرم میں ڈال دیا تھا کہ میں نے بہت غلط کیا ہے، میں نے اپنے شوہر کو دھوکہ دیا ہے اور وہ بھی اپنے شوہر کے بھتیجے کے ساتھ جو میری بیٹی سے بھی چھوٹا ہے اور جو جلد ہی میری بیٹی کا دیور بننے والا ہے" زید نے مسکرا کر اس کا نپل دبایا جس کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک آہ نکلی اور اس نے کہا، "آپ یہ سب کیوں سوچتی ہو، بس یہ سمجھو کہ میں آپکا دوست ہوں جس نے آپ کی مشکل وقت میں مدد کی" وہ بولی، "کیا اتنا آسان ہے ایسا سوچنا اور اس پر یقین کرنا" اس نے اس کی پیشانی کو ہاتھ سے پکڑا اور اس کے چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا، "یہ تو بس دماغ کا کھیل ہے۔ آپ جس بات پر یقین کریں گی یہ اس پر یقین کرے گا" وہ اس کے مموں سے کھیلنے اور اس کے چہرے پر چومنے سے رک نہیں رہا تھا۔ اس نے کہا، "اگر کسی کو اس بات کا علم ہو گیا تو کیا ہو گا" یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اس رشتے کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہے تو زید نے مسکرا کر کہا، "کسی کو پتا نہیں چلے گا، بس مجھ پر بھروسہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔" وہ مسکرا کر بولی "تم نے پہلے ہی دو بار میری پھدی میں اپنا پانی چھوڑدیا ہے اس لیے میرے لیے تم پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے" وہ مسکرایا اور بولا، "مجھے امید ہے کہ آپ میرے پھدی میں پانی چھوڑنے پر ناراض نہیں ہوں گی جیسے... ............" وہ روانی میں رانی کا نام لینے ہی والا تھا لیکن آخری لمحے رک گیا۔ وہ بھی مسکرائی اور کہنے لگی، "جیسے کہ تم مجھے کچھ بتانے والے تھے" زید نے کچھ نہ کہا وہ ی رہا تھا، وہ بول "دیکھو تم نے کہا تھا کہ میں تمہیں دوست سمجھوں پھر دوستوں میں کوئی راز نہیں رہنا چاہیے، میں جانتی ہوں کہ میں تمہار ی زندگی کی پہلی عورت نہیں، میں حبیب اور خاندان کے دیگر تمام افراد کی سرگرمیوں سے واقف تھی جو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن میں نے تمہارے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا" زید نے اسے مضبوطی سے گلے لگایا اور کہا، "نہیں، میں نہیں ہوں ان کی طرح اور نہ ہی میں ہمیشہ تمام خواتین کے لیے ہوس کا شکار ہوں، یہ حادثاتی طور پر ہوا ہے اور اگر راز افشا کرنے سے ہماری دوستی مضبوط ہو سکتی ہے تو مجھے اپنے راز آپ کو بتانے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔" یہ کہہ کر اس نے اسے رانی کے بارے میں بتایا لیکن وہ بھی چھندو کے ساتھ اپنا معاملہ چھپانے میں کامیاب رہا۔ جیسا کہ اس نے سوچا کہ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اس کے کم راز جانے۔ وہ ہنس دی اور اسے مضبوطی سے گلے لگاتے ہوئے اور اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی "تو تمہاری زندگی میں جو دونوں عورتیں آئی ہیں وہ تمہارے چچا حبیب کی وجہ سے آئی ہیں" زید بھی ہنسنے لگا کیونکہ وہ اس معاملے میں ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اس کا لن پھر سے اٹھنے لگا تھا اور تنزیلہ نے اسے دیکھا تو اس نے کہا "کیا کھاتے ہو، یہ پھر سے کھڑا ہو گیا ہے" اب زید اسے کیا بتاتا کہ اس نے وہ کھانے کی چیزیں کھا ئی ہیں جو چھندو نے اسے کھانے کو کہا تھا اور گرمی جو تنزیلہ کی پھدی میں خارج ہوئی وہ اس کے لیے نہیں چھندو کے لیے تھی۔زید پھر سے اپنی چاچی پر چڑھ گیا اور اسے تیسری بار چودا اور تنزیلہ بہت تھک چکی تھی، وہ پہلے اپنے شوہر سے پٹائی کرا چکی تھی لیکن وہ درد دور ہو گیا تھا جبکہ زید کے ساتھ اتنی بے تحاشہ چدائی کی وجہ سے اس کی پھدی سوج گئی تھی۔
      جاری ہے​
      Last edited by Man moji; 01-09-2023, 10:10 PM.

      Comment


      • #4
        kamaal

        Comment


        • #5
          Well played lagy rho

          Comment


          • #6
            بہت شاندار،مجھے اپنی گاوں کی کئی چدائیاں یاد آ گئی ہیں،کہانی کار کو کرداروں کے تسلسل اور منظری واقعات سے دلچسپی پیدا کرنے پر خراج_تحسین

            Comment


            • #7

              Comment


              • #8
                نہایت بہترین کہانی ہے

                Comment


                • #9
                  بہت جاندار پلاٹ ھے۔ کرداروں کا چناو٭٭٭٭٭
                  عمدہ منظر نگاری۔ مجموعی طور پر "گل اگے تک جائے گی۔

                  Comment


                  • #10
                    یار یہ کہانی کمال ہے جب بھی پڑھتا ہو مزہ آجاتا ہے قسم سے کام رائیٹر ہے جس نے بھی لکھی ہے یہ اس کومیرا دونو ہاتھوں سے سلام ???

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X