Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    Bhot hi ummda story hy

    Comment


    • #12
      3
      چوہدری حیدر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا، وہ اپنے چھوٹے بھائی حبیب کے کمرے میں کھڑا تھا اور تنزیلہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جبکہ چوہدری حیدر کی بیوی تہمینہ اور چوہدری حیات کی بیوی عفیفہ تنزیلہ کے دونوں طرف بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ . چوہدری حیات اپنی اہلیہ اور نعمان کے ساتھ صبح ہی پہنچے تھے کہ انہوں نے چوہدری حیات کے بڑے بیٹے رضوان کی شادی کے انتظامات کو چیک کرنا تھا اس لیے وہ خاندان کے دیگر افراد سے پہلے پاکستان آئے تھے۔ تنزیلہ کو رات کو بخار ہو گیا تھا اور جب چوہدری حیدر کی بیٹی کرن اس کا بخار چیک کر رہی تھی تو اس نے اس کی گردن پر مار کے زخم دیکھے اور پھر زبردستی اس کی کمر چیک کی جو زخموں سے بھری ہوئی تھی.​کرن کی عمر 22 سال تھی اور وہ اب ایک پریکٹس کرنے والی ڈاکٹر تھی کیونکہ اس پچھلے سال ایم بی بی ایس مکمل کیا تھا۔ چودھری حیدر 60 کی دہائی میں ان چند ترقی پسند جاگیرداروں میں سے ایک تھے جن میں بیٹیوں اور بیٹوں میں کوئی فرق نہیں تھا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی میڈیکل کے شعبے میں حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ حبیب ایک تنگ نظر شخص تھا اور اس کا اپنی بیٹی میرب کو پڑھنے کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اسے اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے اجازت دینا پڑی جو خاندان اور علاقے میں اپنی شرافت اور حسن سلوک کی وجہ سے کافی شہرت رکھتا تھا۔ حبیب چوہدری حیدر کے سامنے کھڑا تھا اور چوہدری حیدر نے غصے میں اس سے پوچھا، "تم خاموش کیوں کھڑے ہو، بتاؤ اسے اتنا بخار کیسے ہو گیا" حبیب اپنے بھائی سے نظریں چرا رہا تھا جب اس نے کہا، "بھا جی، پتہ نہیں اسے موسم کی وجہ سے بخار ہو گیا ہو گا" چوہدری حیدر نے غصے سے کہا، "تمہیں لگتا ہے میں بچہ ہوں یا احمق کہ تم میرے سامنے ایسی بیوقوفانہ دلیلیں دے رہے ہو، ایک بار تو میں مان سکتا ہوں کہ بدلتے موسم کی وجہ سے شاید بخار تھا لیکن اس کی پیٹھ پر یہ زخم کیسے آئے۔" حبیب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اس لیے وہ کچھ نہ بولا۔ چوہدری حیدر نے پھر غصے سے پوچھا، "میرے سامنے کھڑے ہو کر خا موش مت رہو اور بتاؤ کہ اس کی پیٹھ پر یہ زخم کیسے لگے؟" چوہدری حیات نے کہا، "حیدر پر سکون رہو، وہ بچہ نہیں ہے جو تم ایسے پوچھ رہے ہو"۔ اس نے غصے سے جواب دیا، "بھا جی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، میں نے اس سے کئی بار کہا تھا کہ یہ اپنی بیوی کو نہ مارے کیونکہ مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانا زیب نہیں دیتا، اب بتاؤ وجہ" لیکن حبیب خاموش رہا۔ وہ تنزیلہ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا، "تم مجھے وجہ بتاؤ کہ اس نے تمہیں کیوں مارا؟" اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور پھر کہا، "میں ان کو مسلسل شہر میں شاپنگ کے لیے لے جانے کا کہہ رہی تھی اور انہوں نے منع کیا تھا, یہ تنگ آگئے، اسی لیےانہوں نے مجھے مارا"اس نے کہا " اب تم مجھے بھی ایسا محسوس کرانے کی کوشش کر رہی ہو جیسے تمہارا شوہر کوشش کر رہا تھا، وہ میرا بھائی ہے اور میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں، یہ وجہ نہیں ہو سکتی کہ اس نے نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہو، اب مجھے وجہ بتاؤ یا میں زید سے پوچھوں گا کیونکہ وہ تمہارے ساتھ تھا اور میں اس سے کسی بھی طرح سے پوچھ سکتا ہوں اور وہ تم دونوں کی طرح جھوٹ نہیں بولے گا جیسے یہ میرے سامنے جھوٹ بول رہی ہے" حالانکہ تنزیلہ کو اپنے شوہر اور اس کے رویے سے نفرت تھی لیکن پھر بھی اس کا اس کی توہین کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا سب کے سامنے لیکن اب اس کے پاس سچ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے اس نے سچ کہا۔ چوہدری حیدر نے کہا، "وہ خاتون کون تھی" اس نے کہا، "پاولیوں کی رحمتے" تہمینہ نے کہا، "اوس کنجری دا مکو تے میں ٹھپ دیاں گی پر حبیب توں وی تھوڑی شرم کرلے، جوان تیری کُڑی تے تو کِداں دے کماں وچ پیا ہوئیاں " حبیب صرف سر جھکا سکا۔ چوہدری حیدر نے کہا"حبیب یہ میری تمہیں آخری وارننگ ہے، اگر میرے سامنے یہ سب دوبارہ ہوا تو تم سوچ نہیں سکتے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا کیونکہ میرے صبر کی ایک حد ہے اور تم اس حد کو پار کر رہے ہو"۔ اس نے صرف ہاں میں سر ہلایا۔میرب، زید، نعمان، کرن اور عادل میرب کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ میرب اپنی ماں کے زخموں کو دیکھ کر رو رہی تھی اور وہ سب اسے تسلی دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔ اگرچہ عادل کو چوہدری حبیب کے حویلی کے حصے میں آنے کی اجازت نہیں تھی لیکن وہ اپنے بھائی اور بہن کا فائدہ اٹھا کر میرب کو تسلی دینے آیا تھاجو ابھی تک رو رہی تھی، وہ میرب کو خوش کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے کہا، "میرب، سوچو کہ اگر میں چاچا جی کی جگہ پرہو تا اور تم چاچی جی کے مقام پر۔" میرب نے روتے ہوئے مگر غصے سے بھرے لہجے میں کہا، "اگر میں امّی جی کی جگہ ہوتی تو اب تک آپ کی ٹانگیں توڑ چکی ہوتی اگر آپ نےمجھے مارنے کی کوشش کی ہو تی تو" عادل نے ڈرتے ڈرتے کہا "دیکھو یہ اپنے باپ کی طرح جارحانہ ہو رہی ہے"زید اور کرن ہنسنے لگے اور جب نعمان کو یہ بات سمجھ آئی تو وہ بھی ہنسنے لگے اور میرب مسکرانے لگی اس کی آنکھوں میں ابھی تک آنسو تھے۔ اور بولی، "عادل تم بہت برے ہو" سب ہنسنے لگے۔ زید اس کی طبیعت پوچھنے چاچی کے کمرے میں گیا اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا، "میں نے سنا کے ابا جی نے چاچا جی کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی" وہ صرف مسکرا دی۔ اس نے کہا، "لیکن یہ پہلی بار نہیں تھا کہ انہوں نے آپ کی پٹائی کی، پھر اس بار آپ کو بخار کیوں آیا" وہ مسکرائی اور سرگوشی کی، "کیونکہ اس بار ایک جنگلی سانڈھ مجھ پر تین بار چڑھا اور ہر بار اس نے اپنا گاڑھا پانی میری پھدی میں چھوڑ ا۔ تو میری پھدی کے اندر اتنا گرم پانی آنے کے بعد مجھے بخار ہونا لازمی تھا" زید ہنسنے لگا۔ رات کو چوہدری حیدر اپنی بیوی تہمینہ کے ساتھ اپنے کمرے میں تھے، وہ بستر پر تھے اور ان کی شلوار ان کے جسم پر نہیں تھی جبکہ تہمینہ کی قمیض بھی اس کے مموں تک اٹھا رکھی تھی۔ اگرچہ ان کی عمر 50 سال کے قریب تھی جب کہ ان کے شوہر چوہدری حیدر کی عمر 50 سال تھی، پھر بھی ان کی آپس میں اچھی کیمسٹری تھی اور وہ باقاعدگی سے چدائی کرتے تھے.اس وقت بھی حیدر کا لن تہمینہ کی پھدی میں اندر باہر ہورہا تھا. وہ لن لیتے ہوئے بولیں"اہہہہہہہہہ آئہہہہہہ حببببیییببب دددےےےے پٹھے کم ودددےےے ای جاااارئےےے" حیدر نے کہا "او نئی ٹل سکدا تے میں اونو ڈرایا وی تنزیلہ دی حد تک ای اے. ویسے وی اونو لت لگی ہوئی اونے باز نہیں آنا" وہ گانڈ اٹھا کر دھکے کھاتی ہوئی بولی "آہہہہہہہ تسسییں اونووووں روکووو ناااں" وہ بولے "ہادی تے عباد رکے جیڑا او رکے گا" وہ حیرت سے بولی " ککی مممطللب آہہہہیہہہ میں گئی" تہمینہ کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور وہ فارغ ہو گئی لیکن حیدر لگے رہے اور چودتے ہوئے بولے "تیرے دویں لاڈلے چاچے آلے کماں تے ای نیں" وہ بولی "اہہہہہہ تے تسسسسیں روکیاااا کیوں نئیں" وہ بولے "عباد نوں روکیا سی پر فر میں اونوں اودے حا تے چھڈ دتا" وہ بولی "کیوووووں"وہ زوردار دھکے مارتے ہوئے بولے"اونو اینا کماں تے سالیا تے ثورے نے لایا سی تے جد پیو نالو بوہتی ثوریاں دی منے گا تے میں بار بار کیوں.....آہہہہہہہہ" حیدر اپنی بیوی کی پھدی میں فارغ ہوۓ اور ہانپنے لگے. لن سکڑ کر باہر آگیا تاہم وہ مموں سے کھیلتے رہے اور بولے "جد نبیلہ دے پیو پھرا نوں پرواہ نئیں تے میں بار بار کیوں روکا تے گندیاں ہواں" تہمینہ نے کہا"تے ہادی" وہ بولے "جناب اونے وی نئیں رکنا تے اودا حل ایہہ ہی کہ کوئی چنگی کڑی ویکھو تے ویاہ کریے اودا" وہ بولی "چلو ویکھدے آں" کرن کلینک میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جہاں اس نے انٹرن شپ شروع کی تھی، نعمان کمرے میں داخل ہوا اور اسے سلام کیا۔ وہ بولی، "آج تم میرے کلینک کا راستہ کیسے بھول گئے" نعمان اور کرن اچھے دوست تھے کیونکہ دونوں میڈیکل کے پیشے سے منسلک تھے کرن پریکٹس کرنے والی ڈاکٹر تھی جبکہ نعمان میڈیکل کے تھرڈ ایئر میں تھا۔ نعمان جب میڈیکل کے پہلے سال میں تھا تو وہ بیمار ہو گیا جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان میں تھا اس لیے اسے کافی عرصے تک پاکستان میں رہنا پڑا اور یہ کرن ہی تھی جس نے اس کی پڑھائی میں مدد کی اسی لیے وہ دونوں بہت فرینک تھے ایک دوسرے کے ساتھ. اس نے کہا، "میرا ایک دوست کے ساتھ لنچ پر جانے کا پلان تھا لیکن اس نے آخری وقت میں پلان منسوخ کر دیا اور جب میں یہاں قریب سے گزر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ میں آپ کو اپنے ساتھ لنچ آفر کر لوں" اس نے مسکرا کر کہا۔ "میں بہت شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے اپنے ساتھ لنچ کرنے کے لیے چنا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ لندن نہیں ہے اور یہ جنوبی پنجاب ہے اور یہاں کسی مرد کزن کے ساتھ لنچ کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا" اس نے کہا، "میں جانتا ہوں لیکن ریسٹورنٹ اونچے درجے کا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ صرف ایک لنچ سے کوئی مسئلہ ہو گا"وہ اب اسے کیا بتاتی کہ داور جیسے تنگ نظر آدمی سے منگنی سے اس کے لیے کتنے مسائل پیدا ہو گئے تھے تاہم وہ کچھ دیر سوچ کر بولی "ٹھیک ہے میرا انتظار کرو، میں اپنی ڈیوٹی ختم کرکے آرہی ہوں" نعمان خوشی خوشی باہر نکل گیا اور کرن کا انتظار کرنےلگا-کرن باہر نکلی اور اس نے گاڑی ریسٹورنٹ کی طرف موڑ دی جہاں ان کے لیے ٹیبل پہلے سے بک ہوئی ہوئی تھی اس لیے میز پر بیٹھتے ہی کھانا پیش کیا گیا اور وہ کھانا کھانے لگے۔ جیسے ہی وہ فارغ ہوئے، نعمان نے ویٹر سے کہا، "سویٹ ڈش لے آؤ" کرن نے کہا، "لیکن سویٹ ڈش تو پہلے ہی موجود ہے" ویٹر نے ایک پلیٹ لا کر کرن کے سامنے رکھ دی، پلیٹ پر ڈھکن لگا ہوا تھا، کرن نے ڈھکن ہٹایا اور اندر ایک پیسٹری تھی لیکن یہ ایک مصنوعی پیسٹری تھی کیونکہ اس پر انگوٹھی سجا دی گئی تھی۔ کرن کو حیرت ہوئی لیکن نعمان نے انگوٹھی لے لی اور ایک گھٹنے پر بیٹھتے ہوئے کرن کو انگوٹھی پیش کی۔ کرن نے غصے سے کہا، "نومی یہ کیا بچکانہ پن ہے، کھڑے ہو جاؤ کیونکہ کوئی بھی ہمیں اس طرح دیکھ سکتا ہے اور یہ میرے لیے بہت شرمناک ہے" وہ جانے ہی والی تھی کہ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "کوئی ہمیں نہیں دیکھ سکتا کیونکہ مکمل ریسٹورنٹ میری طرف سے بک کیا گیا تھا، پلیز تھوڑی دیر انتظار کریں اور میری بات سنیں پھر آپ جا سکتی ہیں" کرن وہیں کھڑی رہی۔ اس نے کہا " میں جانتا ہوں کہ ہمارے درمیان بہت سی رکاوٹیں ہیں، آپ کی عمر 22 سال ہے اور میں 19 سال کا ہوں اور سب سے بڑھ کر آپ کی منگنی ہمارے کزن داور کے ساتھ ہوئی ہے، یہ اس وقت شروع ہوا جب ہم میری بیماری کے دوران ساتھ تھے، میں نے محسوس کیا کہ یہ پسندیدگی کے احساس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ آپ نے میری پڑھائی میں مدد کی لیکن میں انگلستان جانے کے بعد آپ کے بارے میں سوچنا بند نہ کر سکا اور پھر مجھے احساس ہوا کہ مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے اور اسی لیے میں نے سوچا کہ آپ کو بتاؤں گا اپنے جذبات اس حقیقت کے باوجود کہ شاید آپ مجھے ایک دم رد کر دیں گی لیکن پھر بھی میں اپنے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں رکھنا چاہتا کہ میں نے آپ کے لیے اپنے جذبات کے بارے میں آپ کو بتانے کی کوشش نہیں کی۔" کرن نے کہا، "تو تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ تم نے اپنے دوست کے ساتھ منصوبہ بنایا تھا لنچ کا لیکن تم نے ہمارا وقت ضائع کیا کیونکہ تمہیں میرا جواب پہلے سے معلوم ہے"، یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ دوسری طرف گاؤں میں شام کے وقت زید بھینسوں کے باڑے میں تھا. اس باڑے میں چھندو دودھ لینے آتی تھی. اس وقت وہ پرالی پر گھوڑی بنی ہوئی تھی اور زید اس کی کمر پکڑے دھنا دھن چود رہا تھا جبکہ اس نے صرف شلوار نہچے کی تھی اور زید ممے بھی قمیض کے اوپر سے دبا رہاتھا. ان کو لگتا تھا کہ وہ ایک محفوظ جگہ سیکس کررہے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا. جھندو کی تیس سالہ جیٹھانی نسرین ان کو غصے سے دیکھ رہی تھی. وہ چھندو سے ملنے آئی تھی اور یہاں یہ. سب حیرت سے دیکھ رہی تھی. وہ اوٹ سے باہر آنے ہی والی تھی کہ زید نے چھندو کی پھدی سے لن نکال لیا کیونکہ چھندو فارغ ہو کر ہانپ رہی تھی. نسرین پھدی کے پانی ست لتھڑا اتنا چمکدار لن دیکھ کر حیران تھی کہ کسی آدمی کا اتنا بڑا بھی ہو سکتا اور کوئی عورت وہ لے بھی سکتی ہے اپنے اندر. اب اسے سمجھ آئی کہ چھندو نے منہ میں دوپٹہ کیوں لیا ہو تھا. زید نے چھندو کو کمر کے بل لٹایا اور پھر سے چودنے لگا جبکہ نسرین وہیں رک گئی. وہ تیس سال کی تھی اور دو بچوں کی ماں تھی اور اس کا شوہر اس کی پھدی کو ٹھنڈا کر لیتا تھا لیکن زید کے لن نے نسرین کو للچا دیا اور اس نے بھی اتنا بڑا لن لینے کا فیصلہ کیا اور دل میں سوچا کہ ابھی زید اور چھندو کو پکڑنے کا وقت نہیں. وہ ان کے فارغ ہونے تک یہ نظارہ دیکھتی رہی اور چھندو کی پھدی سے نکلتے سفید پانی نے بھی اس کا دل مچلا کر رکھ دیا-ایک صبح کرن ہنسی کی آواز سے اٹھی. وہ اور اس کی بھابی نبیلہ چھت پر گرمیوں کے دنوں میں سوتے تھے کیونکہ یہ علاقہ صحرا کے ساتھ تھا اس لیے یہاں ہوائیں چلتی رہتی تھیں.ہنسنے والے اس کے دونوں بھائی عادل اور ہادی تھے. وہ اٹھ کر گئی اور سامنے کا منظر دیکھ کر ایک دفعہ تو وہ بھی مسکرا اٹھی کیونکہ ٹریک سوٹ میں نعمان بھاگ رہا تھا اور گاؤں کے کچھ آوارہ کتے اس کے تعاقب میں تھے. یہ تو اس کی خوش قسمتی کہ جیسے ہی وہ حویلی کے قریب آیا زید باہر نکلا اور اس نے کتوں کو جھڑک کر بھگا دیا. نعمان کے ہاتھ پر خون دیکھ کر کرن کی ہنسی کو بریک لگ گئی اور وہ اپنے بھائیوں سے بولی"ہادی بھائی.عادل بہت بری بات. وہ زخمی ہے اور آپ........ مجھے آپ سے ایسی امید نہیں تھی" وہ نیچے بھاگی اور اپنا میڈیکل باکس لے کر نعمان کے پاس گئی جہاں زید اس کے زخم دھوتے ہوئے پوچھ رہا تھا "کسی کتے نے کاٹاتو نہیں" اس نے کہا "نہیں بس گرنے سے لگی ہے" زید نے کہا "یہ جاگنگ کا خیال کیسے آگیا" وہ بولا "بس یار ایسے ہی لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ یہاں کے کتے جاگنگ کرنے والوں کے پیچھے لگ جاتے" زید نے کہا "یہ گاؤں ہے اور یہاں ٹریک سوٹ عام نہیں اس لیے یہ کتے آپ کو خلائی مخلوق سمجھ کر آپ کے پیچھے لگ گئے تھے" اتنے میں کرن پاس گئی اور بولی "زیدو یہ کیا کر رہے ہو ایسے زخم صاف نہیں خراب ہوتا ہے" زید نے کہا "اب کیا کروں میں نے پانچ سال میڈیکل میں سر نہیں کھپایا. آپ کا مریض آپ کو مبارک میں کپڑے بدل لوں اب ان میں تو باہر جا نے سے رہا" یہ کہتے ہوئے وہ چلا گیا جبکہ کرن نے مہارت سے زخم صاف کر کے دوائی لگا دی اور ٹیٹنس کا انجیکشن لگا کر بولی "اب درد تو نہیں ہو رہا" اس نے پتھریلی سنجیدگی سے کہا"دنیا میں کوئی درد میرے لیے آپ کے انکار سے بڑا نہیں" یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ کرن وہیں حیرت ذدہ سی بیٹھی رہی. اسے نعمان سے اس قدر ظالمانہ جواب کی امید نہیں تھی. دوسری طرف زید جب اندر گیا تو اس کی چاچی تنزیلہ نے کہا"دوپہر کو نہر کے ساتھ والے ڈیرے پہ ملنا مجھے. تیرا چاچا شہر جا رہا آج" زید یہ سن کر خوش ہو اور وقت پر ڈیرے پر پہنچ گیا. اندر جاتے ہی دونوں ایک دوسرے پر ٹوٹ ہی پڑے اور ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے اور جسموں پر ہاتھ پھیرنے لگے. تنزیلہ نے کہا "زید تو نے مجھے کیا بنا دیا آہہہہہہ زور سے دبا ان ببوں کو آہہہہہ" زید نے بھی مد ہوشی میں کہا "چاچی آپ میں جو نشہ ہے وہ کسی اور میں نہیں" اہک دوسرے کو اچھے سے چومنے چاٹنے کے بعد انہوں نے خود کو لباس کی قید سے آزاد کر لیا. اب وہ چارپائی پر تھے جہاں زید تنزیلہ کے فٹ بال جیسے مموں سے کھیل رہا تھا اور اس کے نپل چوس رہا تھا جبکہ وہ اس کے لن کی مٹھ مارتے ہوئے اسے دبا رہی تھی. وہ کہہ رہی تھی"آہہہہہ کیا للاااااا ہہہے تیرااااااا آہہہہہہہہہ اس کا سوچ کررررررر ہی پھدی ہر وقت گیلی رہتی ہے آہہہہہہہ زور سے دبا اور چوس آہہہہہہہ دودھ نکال دے ان ببوں کااااااااآہہہہہہہہ" زید ممے دباتے ہو بولا "چاچی یہ کتنے سخت ہیں" وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی"تیرررررےےےے چاچے کووووو ان گشتیوووووں سے فرصت ملے تووووو ان کو ہااااااااتھ لگااااائے نا آہہہہہہہہہ" زید اب ممے چھوڑ کر پیٹ پر آگیا جو تھوڑا سا ابھرا ہوا تھا اور ناف کافی گہری تھی. زید پیٹ کو چومتا چاٹتا رہا جبکہ تنزیلہ اس کا سر اپنے پیٹ پر دباتی رہی. اب زید اس کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور اپنا لن پھدی پہ رکھا تو وہ بولی "آہہہہہہہہ ڈال دے اندرررررر" زید نے ایک کرارا دھکا مارااور لن آدھا اندر گھس گیا جبکہ تنزیلہ کی اردو پنجابی میں بدل گئی کیونکہ وہ کراہ کر بولی "ہااااااائے ماررررررر سٹیاااااااا کنجراااااا اکوووو واااررر وچ پاااا دتااااا اندرررررر آہہہہہہہہ........... ہاااااااا میری مااااں مرررررر گئ پوراااااااتن چھڈیااااااااااآہہہہہہہہہ" زید کا پورا لن پھدی کے اندر تھا. اس نے مموں کو دبایا اور آہستہ آہستہ دھکے مارنے لگا تاہم اس کی رفتار مسلسل بڑھتی ہی گئی جبکہ تنزیلہ کراہ رہی تھی اور کہہ رہی تھی "آہہہہہہ ہوررررر زوووورررر ناااالللل آہہہہہہہہ تیرررررے لووووڑے وچ سواااااد ااای وکھراااااااا آہہہہہہہ" زید اب پوری رفتار دے اس کو چود رہا تھا اور وہ گانڈ اٹھا اٹھا کر چدوا رہی تھی. آخر تنزیلہ کی پھدی نے زید کے موسل کے آگے ہار مان لی اور اس کا جسم اکڑا اور وہ کراہتے ہوئے بولی "آہہہہہہہہ میں چھٹی آہہہہہہہہہہہ" اس کا جسم کانپا اور ڈھیلا ہونے لگا جبکہ زید کو اس کا گرم پانی اپنے لن پر محسوس ہوا. زید نے ہانپتی تنزیلہ کو پلٹ دیا اور گھوڑی بنا دیا. تنزیلہ کو جیسے ہوش آیا اور وہ بولی "آہہہہہہ بنڈ وچ نہ پاااااااا دویں آہہہہہہہہہ" زید نے لن پیچھے سے پھدی میں ڈال دیا اور کمر پکڑ کر تیزی سے چودنے لگا. تنزیلہ کو مزہ آنے لگا اور وہ بولی"آہہہہہہہ ہوررررر جااااان ناااااالل ماررررر کھسسسے آہہہہہہہہہہ" تنزیلہ کی گانڈ سے زید کے پٹوں کے ٹکراؤ سے تھپ ٹھپ کی آواز آرہی تھی. گیلی پھدی کی وجہ سے پچ پچ کی آواز بھی آ رہی تھی. زید نے جھک کر مموں کو پیچھے سے پکڑا اور دبانے لگا جبکہ وہ آگے کو لیٹ گئی اور زید اس کے اوپر لیٹ کر دھکے مارنے لگا. تنزیلہ کی پھدی نے دوسری بار ہار مان لی لیکن اس دفعہ زید کے منہ سے بھی آہہہہہہ نکلا اور لن نے پھدی کے اندر ہی اپنے پانی کی الٹیاں کرنے لگا. زید تنزیلہ پر گرا اور ہانپنے لگا جبکہ وہ بھی ہانپ رہی تھی. کچھ دیر بعد وہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اور چارپائی پے لیٹے تھے. تنزیلہ نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا"تو آج کل اس رانی سے چودنے کے مختلف طریقے سیکھ رہے" اس نے مسکرا کر کہا "رانی سے تو مل ہی نہیں سکا اس دن کے بعد. یہ آپ کے شوہر نامدار نے سکھایا. اس روز سبو کو اسی طرح تو چود رہے تھے" وہ بولی "تم بھی نا اس کا نام لے کر سارے موڈ کا ستیاناس کر دیتے ہو" زید نے کہا "اب تو خوش ہو جائیں آپ سے پیار کرنے کے لیے میں ہوں نا. ویسے سوچیں اگر میری جگہ کوئی اور.........." وہ غصے سے بولی"مطلب کیا ہے تمہارا. کیا مین گشتی ہوں جو ہر ایک کے لیے ٹانگیں کھول دوں گی"زید نے کہا "نہیں لیکن صاف سی بات ہے کہ چاچا جیسے آدمی کے ساتھ رہتے ہوئے آپ کی برداشت کی حد ہونی تھی اور شاید وہ حد پار ہوئی تو آپ میرے ساتھ آج ننگی لیٹی ہو. چاچا نہ اچھے باپ بن سکے نہ شوہر. میرب چاچا سے نفرت اور ابا جی سے محبت کرتی ہے" وہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر بولی"تمہارا چاچا مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا. میں شاکر بھائی کے وٹے میں جو آئی تھی اور میرب سے وہ کیوں پیار کرے گا اس کو بیٹا چاہئے تھا جو ہوا نہیں" وہ بولا "لیکن پھر آپ کے ہا اولاد ہوئی بھی تو نہیں" وہ بولی "اولاد کے لیے بندے کے لن کے مال میں دم ہونا چاہیے اور تیرا چاچا سارا مال مزیروں کی عورتوں کی پھدیوں میں چھوڑتا ہے بلکہ وہاں بھی اکثر پانی یا کسی عورت کے پیٹ مموں یا گانڈ پہ چھوڑتا ہے. میرے اندر کچھ جائے تو بچہ آئے گا نا. اچھا مٹی ڈالو اس سب پے اب میں چلتی ہوں" وہ حیرت سے بولا"لیکن چاچا تو شام کو آئیں گے" وہ بولی "میں یہاں تہمینہ باجی سے اجازت لے کے آئی تیرے چاچا سے نہیں اور میں ان کو مشکوک نہیں کر سکتی" زید نے ہاں میں سر ہلا دیا. اس رات تنزیلہ مزے سے سورہی تھی. اسے لگا کہ کوئی اس کی خواب میں ہی ٹانگیں کھول رہا ہے لیکن زور لگا تو اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے ننگا حبیب اس پر جھکا ہوا تھا اور اس کے جسم پر بھی شلوار نہیں تھی اور قمیض بھی اٹھی ہوئی تھی. حبیب نے اس کی کھلی آنکھیں دیکھیں تو بولا "لتاں تے کھول فیر تو کہندی توجہ نہیں دیندا ہن دے ریاں تے کھول ہن لتاں" تنزیلہ نے ٹانگیں کھول دیں اور حبیب اس کی پھدی میں لن ڈال کر چودنے لگا. زید سے چدنے کے بعد تنزیلہ کے لیے حبیب کے لن میں کوئی مزہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ آہیں نکال رہی تھی تاکہ حبیب مشکوک نہ ہو. حبیب نے اسے چودا اور اس کا پانی نکالنے کے بعد اپنا پانی بھی نکالا اور سو گیا جبکہ تنزیلہ بھی سو گئی. دو دن بعد زید چھندو کے گھر پر تھا وہ دونوں ننگے تھے اور زید چھندو کی ٹانگوں کے درمیان گھسا اس کی پھدی سے لن اندر باہر کر رہا تھا. چھندو کی ساس گاؤں گئی تھی اور اس کے واپس آنے کے خاص امکانات نہیں تھے اس لیے وہ مزےسے چدائی میں مصروف تھے. چھندو کراہتے ہوئے کہہ رہی تھی "آہہہہہہہہ ہورررع ززززوووررر نااااللل پااااااا ہاااااائ" اس کے ممے اوپر نیچے جھول رہے تھے اور کمرے میں تھپ تھپ اور چارپائی کی چوں چوں ہو رہی تھی. اچانک چھندو کا جسم اکڑا اور وہ بولی "آہہہہہہ میں گئی آہہہہہہ" اس کی پھدی کا پانی زید کو اپنے لن پر محسوس ہوا اور اسے رکنا پڑا جبکہ وہ ہانپنے لگی. ابھی وہ سنبھلے نہ تھے کہ دروازہ کھلا اور نسرین اندر داخل ہوئی. اس کو دیکھتے ہی چھندو جھٹکا کھا گئی زید نے لن نکالا تو پک کی آواز سے لن نکل آیا اور چھندو نے خود کو دوپٹے سے ڈھانپتے ہوئے کہا "نن.......نس.....رین......تو....ایتھے...." اس نے کہا"آہو مین ایتھے" زید کی پکڑے جانے پر باقاعدہ گانڈ پھٹ گئی تھی اور وہ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ اس نے خود کو ڈھانپا بھی نہ تھا اور اس کا پھدی کے پانی سے چمکتا لن ابھی تک ہوا میں جھول رہا تھا. چھندو نے کہا "تو ایتھے کدوں آئی" نسرین نے کہا "اودوں ای جدوں تو لتاں کھول کے تے بنڈ چک چک کے لن اندر لے رئی سی. توانوں تے پتہ وی نئی لگا کے میں کدوں کند ٹپی تے اند آگئ" چھندو نے کہا "ویکھ تو میرے نال جو کرنا کر لے پر اینو جان دے اینو تے اینا کماں دا پتہ وی نئی سی تے جو کیتا میں ای کیتا" نسرین نے کہا "اینو کینویں جان دیواں" زید کی گانڈ مزید پھٹ گئی. چھندو نے کہا "میں کیہا نا کہ جو کیتا میں کیتا" نسرین نے کہا "مینو اینا تے پتہ سی کہ طیفے کولوں تینو ٹھنڈا نئیں کیتا جاندا تے تو کسے نہ کسے چوہدری دے لن تھلے آای جانا اک نہ اک دن پر مینو اے نئی پتہ سی کہ تو چوہدریاں دا سب تو سنکھا منڈا پھسا لینا. نی ایدا لن تے ویکھ کینویں ڈنڈے وانگو سدھا کھڑا" زید نے جب یہ سنا تو اس کا طویل سانس نکل گیا. چھندو نے حیرت سے کہا "ایدا مطلب تو سانوں نئیں پھڑوونا" وہ زید کے پاس آتے ہوئے بولی "اوہ بےوقوفے جے میں توانوں پھسونا ہندا تے اودن باڑے وچ ای پھسا دیندی تے مین کرن وی ایہو ای لگی سی پر اوسے ویلے اینے تیری پھدی چوں لن کڈلیا تے میں رک گئی. ہائے کی کن ای ایدا میں تے ویکھدی ای فدا ہوگئی ایدے لن تے. ویسے تے شیفا مینو ٹھنڈا کر لیندا پر ایدا لن ویکھن تو بعد جد وی اینو یاد کردی تے پانی پانی ہو جاندی" زید ایک بات سمجھ گیا تھا کہ اس کا بڑا لن اس کی بہت بڑی طاقت ضرور تھا لیکن چدائی کے کھیل کا کھلاڑی بننے کے لیے اسے جو سب سے اہم دو اصول اپنانے تھے وہ ڈھٹائی اور بے شرمی تھے چنانچہ جیسے ہی قریب آکر نسرین نے اس کا لن پکڑا اس نے بھی اس کے دونوں ممے اس قدر زور سے پکڑ کر دبائے تو اس کے منہ سے زوردار آہہہہہہہہہ نکل گئ. زید نے کہا "تے تو وی یوون آئی ایں" نسرین کچھ نہ بولی تو زید نے ہاتھ ڈال کر شلوار کا نالہ ڈھونڈا اور کھول دیا. اس کی شلوار نیچے گر گئی. یہ اچانک تھا. زید نے اسے دھکا دے کر چارپائی پر گرایا اور ٹانگوں میں آگیا. وہ بولی "وے تو تے نرا بے شرم ایں مینو میری درانی سامنے ننگا کر دتا" زید نے لن پھدی کے منہ پر رگڑتے ہوئے کہا "جے تو اونو یواندے ویکھ سکدی تے او کیوں نئیں"وہ بولی "وے تو تے باقی چوہدریاااااں آہہہہہ تو وی آہہہہہہ لنگ گیااااااا آہہہہہہہہ" اس کی آہیں زید کے لن رگڑنے پر نکل رہی تھیں. زید نے کہا "میں اونا ورگا نئیں. میں پھدی پچھے پاگل نئیں ہندا اونا طرح. میرے کول جو وی پھدی آئی آپ چل کے آئی. پہلاں ایہہ تے ہن تو. تے جے تو کسے ہور نو میرے بارے دسیا تے تیری پھدی تے بنڈ وچ بلدیاں لکڑاں تن دیاں گا فر لن چھڈ انگل وی نئیں لے سکیں گی. جے منظور تے ٹھیک نئی تے جا اٹھ کے تے جو کرنا کر لے" زید ساتھ ساتھ لن رگڑ کر آہیں نکلوا رہا تھا. وہ سمجھ گیا تھا کہ لن کی طلب میں ٹانگیں کھولے لیٹی عورت سے تگڑے لن والا مرد کچھ بھی منوا سکتا. وہ بولی "آہہہہہہہ تو جداں کویں گا کراں گی بس لن پاااااا ددددےےے" زید نے چھندو سے کہا "اؤ تیل پھڑا تے آ کے اپنے ممے وی چسوا تے ویکھ ہن اپنی جیٹھانی نو لن لیندیاں تے تو اے قمیض لا نئی تے پاڑ دیاں گا" حیرتذدہ چھندو اٹی اور تیل پکڑا دیا جبکہ نسرین نے ججھکتے ہوۓ قمیض اتار دی. اس کے ممے کا فی بڑے تھے. زید نے لن پھدی کو تیل میں نہلاتے ہوئے کہا "اپنا دوپٹہ منہ وج لے لے کیونکہ پہلی وار درد ہؤ گا تے میں نئیں چاہندا کہ تیریاں چیکاں پنڈ کٹھا کرن" چھندو زید کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ممے چسوانے لگی جبکہ زید نے لن پھدی پہ رکھا اور زور سے دھکا مارا اور لن کا ذیادہ تر حصہ نسرین کی پھدی میں گھس گیا. نسرین ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی مگر زید نے اس کے ممے تھام کر اگلا دھکا لگایا اور لن پورا اندر گھس گیا. زید نے جھک کر اس کے مموں کو چوسا جبکہ وہ منہ میں دوپٹہ ہونے کی وجہ سے گھوں گھوں کی آوازیں نکال رہی تھی. زید نے دھکے مارنے شروع کیے اور کچھ ہی دیر میں اس کا لن رواں ہوگیا اور وہ اسے چودنے لگا. کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آرہی تھی. نسریں کی پھدی بڑے لن کے آگے ذیادہ دیر نہ ٹک پائی اور اس کی پھدی سے پانی نکل آیا. تبھی چھندو جس کے ہاتھ زید کے جسم پر چل رہے تھے نے زید کی گانڈ دبائی. یہ زید کا چوک پوأئینٹ تھا. زید کے منہ سے اچانک آہہہہ نکلا اور اس کا لن نسرین کی پھدی کی گہرائی میں فارغ ہونے لگا. وہ نسرین پر گر کر ہانپنے لگا. نسرین نے منہ سے دوپٹہ نکال کر کہا "آہہہہہہہہ وووےےے چوہدرررررری توووو تےےے پااااااڑ چھڈی پررررر ٹھااااااارررر وی دددتتی" اس کے بعد زید نے ایک دفعہ پھر دونوں کا پانی نکالا مگر اس دفعہ خود وہ چھندو کی پھدی میں فارغ ہوا.کرن اپنے کلینک میں بیٹھی نعمان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کے دل میں اس کے لیے جذبات نہیں تھے، اس نے بھی اسے اس وقت پسند کرنا شروع کر دیا تھا جب وہ بیمار تھا اور اسے طویل عرصے تک پاکستان میں رہنا پڑا۔ لیکن وہ معاشرے اور خاندان کی زنجیروں میں بندھی ہوئی تھی۔ وہ 22 سال کی تھی اور نعمان کی عمر 19 سال تھی، اس لیے وہ اس سے 3 سال چھوٹا تھا۔ اس کی منگنی داور سے ہوئی تھی اور اگرچہ اس نے داور کو کبھی پسند نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اس کے خاندان میں منگنی کا مطلب تقریباً شادی ہی تھا کیونکہ اس وقت تک خاندان میں کوئی منگنی نہیں ٹوٹی تھی۔ اس صبح ہونے والی گفتگو کے بعد وہ نعمان سے بچنا شروع کر چکی تھی کیونکہ اس کے جواب سے اس کا دل چھد گیا تھا اور وہ احساس ندامت میں گرفتار ہو گئی تھی۔ ایک نرس کمرے میں آئی اور اسے حادثے کی ہنگامی صورت حال کے بارے میں بتایا جہاں ایک اسکول وین ایک کار سے ٹکرا گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ دوسرے مریضوں کی دیکھ بھال سینئر ڈاکٹر کررہے ہیں اور کرن کو اپنے کزن کا خیال رکھنا چاہئے جو بچوں کو بچانے کے دوران زخمی ہوا ہے۔ کرن نے کہا، "کون سا کزن" اس نے کہا، "وہ انگلینڈ والا کزن، جو اس دن بھی آپ سے ملنے آیا تھا" کرن کے منہ سے نعمان کا نام نکلا اور وہ اس کمرے کی طرف بھاگی جہاں نعمان اپنی قمیضخون سے لال کر کے بیٹھا تھا۔ اس نے اسے دیکھا اور ٹٹولتے ہوئے کہا "نن.....ننو....می...کہاں لگی ہے تمہیں" نرس نے کہا "میڈم فکر نہ کریں ان کے ماتھے ہر خراشیں آئی ہیں" کرن جو جذبات میں بہہ سی گئی تھی سنبھلی اور بولی "ٹھیک ہے تم جاؤ میں یہاں سنبھال لوں گی" اس نے زخم صاف کرتے ہوئے دوائی لگائی تو نعمان نے کہا "اتنی فکر دکھانے کی کیا ضرورت تھی آپ کو میرے درد سے کیا" کرن نے زخمی سی نظروں سے اس کو دیکھا اور کچھ نہ کہا. وہ بولا "مت دوا لگائیں ایسے ہی کترائیں جیسے اتنے دنوں سے کترا رہی ہیں آپ کا یہ فکر کرنا اور درد دیتا ہے مجھے لیکن یہ درد کچھ نہیں کہتا مجھے, اب تو زندگی کا مطلب ہی نہیں رہا کاش میں مر ہی......." چٹخ کی آواز سے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا اور کرن آنسوؤں سے پھٹ پری. وہ روتے ہوئے بولی "مجھے فق پڑتا ہے. جب بھی تمہیں تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی درد ہوتا ہے. ہاں کیونکہ.......... کیونکہ پیار کرتی ہوں تم سے........... ہاں نعمان حیات میں کن حیدر نا چاہتے ہوئے بھی چاہنے لگی ہوں تمہیں. میں تم سے دور رہنا چاہتی ہوں لیکن نہیں رہ سکتی کیونکہ زندگی ہو تم میری" نعمان نے کرن کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے بولی "میں نہیں جانتی کہ اس کا انجام کیا ہو گا لیکن کرن اب سے تمہاری ہے اور اگر تم نے مرنے کی بات کی تو ٹانگیں توڑ دوں گی تمہاری" نعمان مسکرا رہا تھا اور اس کو خود سے علیحدہ کر کے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا "جب میری کرن میرے ساتھ ہے تو میں پوری دنیا سے لڑ سکتا ہوں. ڈیوٹی ختم کریں اور لنچ پہ چلیں" وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ نرس آگئی اور نعمان نے کہا "کرن میرے ساتھ چلیں مجھ سے گاڑی نہیں چلنی" وہ نرس کو دیکھ کر بولی"میں ڈیوٹی ختم کر کے آتی ہوں تم گاڑی میں آرام کرو" نعمان گاڑی میں کرن کا انتظار کرنے لگا، وہ اپنی ڈیوٹی ختم کر کے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھی، وہ گاڑی چلانے لگا۔نعمان نے کہا "آپ......" وہ بولی "اب سے مجھے تم کہنے کے تمام جملہ حقوق تمہارے ہیں الٹا مجھے تمہیں آپ کہنا ہو گا" وہ بولا "نہیں ابھی جیسا ہے ویسا چلنے دیں اور مجھے آپ سے خود کو آپ کہلوانے کا کوئی شوق نہیں" اس نے کہا، "ویسے ہم ابھی کہاں جا رہے ہیں کیونکہ یہ راستہ ہمارے گاؤں کی طرف نہیں جاتا" اس نے کہا، "میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم اسی ہوٹل میں لنچ کرنے جا رہے ہیں جہاں میں نے آپ کو پرپوز کیا تھا کیونکہ میں نے دوبارہ بک کر لیا ہے ہمارے لنچ کے لیے پورا ریسٹورنٹ" اس نے کہا، "لیکن ہوٹل تو دوسری طرف ہے پھر ہم اس طرف کیوں جا رہے ہیں" وہ مسکرا کر بولا، "میڈم، کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں اپنی پہلی ڈیٹ پر خون سے سرخ شرٹ کے ساتھ جاؤں؟ ، یہ راستہ بازار کی طرف جاتا ہے جہاں میں پہلے نیا لباس خریدوں گا۔" وہ مسکرائی اور وہ بازار میں رک گئے اور اس نے اپنے کے لیے نیا لباس خرید لیا۔ وہ ہوٹل پہنچے اور میز پر بیٹھ گئے۔ نعمان نے اسے ایک پھول دیا اور کہا، "دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون کو میرا پہلا پھول" اس نے وہ پھول لے کر کہا، "پھول کے لیے شکریہ لیکن کیا تمہیں یہ نہیں لگتا کہ تم اس خوبصورت عورت پر بہت زیادہ پیسے برباد کر رہے ہو کیونکہ تم پہلے ایک بار پورا ریسٹورنٹ بک کروایا اور اب تم نے پھر بک کروایا" اس نے کہا، "اگر یہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں اب تک یہ ہوٹل خرید چکا ہوتا کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے پہلی بار آپ سے اپنی محبت کا اعتراف کیا تھا لیکن فکر مت کریں کیونکہ میں اس ریستوراں کی بکنگ کے لیے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتا" وہ حیرت سے بولی"مگر کیوں" اس نے کہا، "کیونکہ اس ہوٹل کا مالک انگلینڈ میں میرا ہم جماعت ہے" اس نے کہا، "پھر یہ دوست بہت سخی دوست ہو سکتا ہے جو صرف ایک کال پر آپ کے لیے پورا ریستوراں بک کر دیتا ہے" وہ مسکرا کر بولا "ایسی بات نہیں. وہ محبت کا مارا ہے اور میں نے اس کا ساتھ دیا تھا تو اب وہ بھی میرا ساتھ دے رہا ہے" کرن نے حیرت سے کہا "محبت کا مارا" اس نے کہا "ہاں ایک گوری سے عشق کر بیٹھا اور میں نے دونوں کی مدد کی شادی کرنے میں" وہ بولی "تو کیا اس کے گھروالے مان گئے" وہ ہنس کر بولا "گوری کے گھروالوں کو کیا اعتراض ہونا. اتنا تابعدار داماد مل گیا ہے اور کیا چاہیے اور ابھی میرے دوست نے یہ بم اپنے گھر نہیں پھاڑا لیکن جبپھاڑے گا تو مجھے ہی بلائے گا بچانے کے لیے" وہ ہنسی اور بولی "اور جب ہمارے گھر ہماری محبت کا بم پھوٹے گا تب" وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا "فکر نہ کریں مجھ پہ بھروسہ رکھیں کہ ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا آپکا" وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی "جب محبت کر ہی لی تو انجام کی کدے پرواہ ہے. جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا. یا تو ساتھ جئیں گے یا.........." وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولا "جئیں گے. ابھی ہمیں بہت سی خوشیاں ساتھ منانی ہیں" انہوں نے لنچ کیا اور گھر کی راہ لی جہاں ان کی محبت کا پہلا امتحان ان کا منتظر تھا.طاہرہ داور کے ساتھ نبیلہ سے ملنے آئی ہوئی تھی اور ساتھ میں سویرہ بھی تھی جو زید کے پیچھے پڑی تھی کیونکہ زید کے جوڑ کی خاندان میں وہی لڑکی تھی جبکہ زارا کے بارے میں سب کا خیال تھا کہ اس کی شادی انگلینڈ میں ہی ہو گی اور اس کی ماں کے خاندان میں تو ہو سکتی مگر اپنے خاندان میں نہیں. زید اس سے بچتا پھر رہا تھا کہ تبھی نعمان اور کرن آگئے. باقی سب تو نعمان کی چوٹیں دیکھ کر پریشان ہو گئے لیکن داور کے ماتھے پر بل کرن کو نعمان کے ساتھ دیکھ کر پڑے. سب نعمان سے باتیں کر رہے تھے اور اس کی خیریت پوچھ رہے تھے۔ کرن لباس بدلنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئی لیکن داور نے راستے میں اس کا بازو پکڑ لیا اور بازو مروڑتے ہوئے کہا، ’’مجھے تمہاری میڈیکل پریکٹس پر اعتراض تھا لیکن تمہارے والد کی وجہ سے مجھے چپ رہنا پڑا لیکن اب بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ تم اب اس ولائتی بندر کے ساتھ آوارہ گردی کرنے لگی ہو" یہ کرن کے لیے توہین آمیز الفاظ تھے. اس نے غصے سے داور کے منہ پر زوردار تھپڑ مارا اور آواز پوری راہداری میں گونجی. اتفاق سے نعمان اور نبیلہ بھی اسی وقت راہداری میں آئے کیونکہ طاہرہ نے نبیلہ کو نعمان کو ہلدی والا دودھ دینے کا کہا تھا. کرن دھاڑی "خبردار جو میرے کردار پر انگلی اٹھائی تو" وہ چلایا "ایک تو گلچھرے اڑاتی ہے اوپر سے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تیری......." وہ کرن کو مارنے والا تھا کہ نعمان اور نبیلہ بھی بڑھے مگر داور کی بد قسمتی کہ سویرا سے بچنے کے لیے زید عادل کے پاس گیا تھا اور عادل زید سے جان چھڑا کر میرب سے ملنے چھت پر جانا چاہتا تھا اور اسی گو مگو میں وہ دونوں بھی راہداری میں آگئے اور جیسے ہی ان کی نظر پڑی تو ان کا خون کھول اٹھآ. دونوں بھائی داور ہر پل پڑے. شور سن کر گھروالے بھی آئے مگر تب تک دونوں بھائی داور کی درگت بنا چکے تھے. بڑوں نے آکر چھڑایا اور اب سب چوہدری حیدر کے سامنے تھے. طاہرہ نے کہا "کوئی ایسے وحشیوں کی طرح مارتا ہے کیا" زید کو ابھی بھی حبیب اور ہادی نے پکڑ رکھا تھا جبکہ عادل کو نعمان اور عباد نے قابو کر رکھا تھا. کرن میرب کے ساتھ تھی جبکہ باقی لوگ وہیں بیٹھے تھے اور زید اور عادل غصے سے ابل رہے تھے. طاہرہ نے کہا "کیا اس گھر میں دامادوں کی ایسے عزت........." اچانک حیدر بولے "بس...... بہت ہو گیا داماد داماد....... شکر کریں یہ زندہ کھڑا ہے........ اس نے میری بیٹی پر ہاتھ اٹھایا اور اس سے بھی بڑھ کر میری بیٹی کے کردار پر کیچڑ اچھالا" حیات نے کہا "حیدر طاہرہ تحمل سے بیٹھ کر ......" طاہرہ نے کہا "آپ نے دیکھا نہیں کیسے میرے بیٹے کو مارا اور اب ایسی باتیں کر رہے" داور غصے سے بولا "یہ کمینی اس یار......" پٹاخ کی آواز سے ایک تھپڑ پڑا اور اس بار مارنے والی نبیلہ تھی جو دھاڑی "بے غیرت تو خود سارے مزیروں کے گھروں میں منہ مارتا ہے تو تو نے اس کو بھی اپنے جیسی سمجھ لیا. اس کے کردار کی گواہی میں دیتی ہوں کوئی اور کیا دے گا" طاہرہ نے کہا "نبیلہ....." وہ غصے سے بولی "میرے لیے شرم کی بات ہے کہ یہ بے غیرت میرا بھائی ہے" وہ اندر چلی گئی اور عباد اس کے پیچھے بھا گا. حیات نے کہا "طاہرہ تمہارا بیٹا شادی سے پہلے یہ سب کر رہا تو شادی کے بعد ........." حیدر نے کہا "کوئی شادی نہیں ہو گی رشتہ ختم اور یہ اگر مجھے میری بیٹی کے آس پاس بھی نظر آگیا تو اس کے ٹکڑے کر کے کتوں کو ڈال دوں گا" طاہرہ نے کہا "تم یہ اچھا نہیں کر رہے اگر رشتہ ختم کیا تو......." انہوں نے غصے سے اٹھ کر کہا "تو کیا ہو گا ہاں. رشتہ توڑیں گی تو توڑ دیں آپکو تو آپ کی بیٹی سے جواب مل گیا کسی اور کی کیا ضرورت" طاہرہ سویرا اور داور وہاں سے اپنے گھر آئے. داور کو یقین تھا کہ اس کا باپ اس کا بدلہ لے گا لیکن شاکر علی نے سب سن کر الٹا داور کو ہی دو تھپڑ لگا دیے- شام کو کرن چھت پر بنے کمرے میں نعمان کے ساتھ تھی اور نعمان اس کے بازو پر دوائی لگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا "مجھے نہیں پتہ تھا وہ اتنا گھٹیا ہے چلو شکر کرو تھوڑے سےدرد نے آپ کو ساری زندگی کے درد سے بچا لیا. ویسے آپ کے بھائی بہت وحشی ہیں بچ کر رہنا پڑے گا ان سے" کرن پھیکی سی ہنسی ہنس کر بولی "بکو مت تم" اور دونوں ہنسنے لگے-
      جاری ہے.....​​​
      Last edited by Man moji; 01-10-2023, 10:59 PM.

      Comment


      • #13
        jatt-lahoria
        بھائی فونٹ سائز 28 یا 26 رکھا کرے ۔آپ 48 رکھ دیتے ہیں جس سے موبئل یوزرز کو کافی مشکل ہوتی ہے ۔
        جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
        ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

        Comment


        • #14
          wah g wah achi story ha maza a raha ha

          Comment


          • #15
            مزہ آگیا

            Comment


            • #16
              Originally posted by Man moji View Post
              jatt-lahoria
              بھائی فونٹ سائز 28 یا 26 رکھا کرے ۔آپ 48 رکھ دیتے ہیں جس سے موبئل یوزرز کو کافی مشکل ہوتی ہے ۔
              آئندہ احتیاط کروں گا. سائز بڑا اس لیے رکھتا کہ نظر کا مسئلہ مجھے لیکن آئندہ کم رکھوں گا

              Comment


              • #17
                4
                رضوان کی شادی قریب آ چکی تھی اور سب لوگ پاکستان آچکے تھے. یہ چند ماہ زید نے زارا کے شدت سے انتظار میں گزارے تھے. گو کہ وہ چدائی نہ کرنے کے فیصلے پر قائم نہ رہ پایا اور تنزیلہ تب تک اس سے چدتی رہی جب تک کے وہ پیٹ سے نہ ہوئی. حبیب اسے اپنا کارنامہ سمجھ کر مونچھوں کو تاؤ دیتا تھا لیکن زید اور تنزیلہ جانتے تھے کہ اس بچے کا اصل باپ زید تھا. چھندو کی ماں فوت ہو گئی تو وہ اپنی ماں لے گھر چلی گئی جبکہ نسرین کو بھی حمل ٹھہر گیا. وہ یہ بچہ گرانا چاہتی تھی لیکن اس کی بدقسمتی کہ اس کے حاملہ ہو نے کا اس کی ساس کو پتہ لگ گیا اور اسے بچہ رکھنا پڑا کیونکہ اس کا شوہر تو یہ ہی سمجھتا تھا کہ اسی نے حاملہ کیا نسرین کو. زید رانی سے چند بار ملا لیکن اس طرح کھل کے چدائی کا موقع نہ ملا اور بس جلدی میں ہی چدائی ہوئی.اس وقت زید اور زارا باغ کے ایک کونے میں بیٹھے تھے. یہ ان کی خفیہ جگہ تھی جس سے صرف ان کے رازدان ہی آگاہ تھے. زارا کا سر زید کے کندھے پر تھا. وہ بولی "زید تمہاری امتحانوں کی تیاری کیسی ہے" وہ بولا "فکر نا کرو تمہیں مایوس نہیں کروں گا" وہ مسکرا کر بولی، "امتحانات میں تمہارا اچھا نتیجہ ہمارا راستہ بہت آسان کر دے گا کیونکہ اگر تم نے اچھے نمبر حاصل کیے تو انگلستان کی کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینا تمہارے لیے آسان ہو جائے گا اور جب تم انگلستان آ جاؤ گے تو ہمارا ملن آسان ہو جائے گا کیونکہ میں نے تمہارے بارے میں اپنی مما کو بتا دیا تھا" زید نے چونک کر کہا، "کیا، لیکن کیوں؟ میرا مطلب ہے کہ کیسے" وہ پھر مسکرا کر بولی، "فکر نہ کرو وہ انگلینڈ ہے پاکستان نہیں اور میری ممابہت وسیع النظر خاتون ہیں، وہ میری دوست ہیں اور میں اپنے تمام راز ان سے شیئر کرتی ہوں" زید نے تھوک نگلا اور کہا، "کیا کہا انہوں نے" زارا نے زید کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا، "تم بہت پیارے ہو، کوئی تمہیں کیسے رد کر سکتا ہے" زید نے تجسس سے کہا، "تمہارا مطلب ہے........." وہ مسکرائی اور اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی، "ان کو یہ جان کر خوشی ہوئی اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میرے بھائی کی شادی کے بعد میرے بابا سے بات کریں گی" زید نے مسکرا کر کہا "پھر ہمارا راستہ واقعی آسان ہو جائے گا کیونکہ تایا جان کو یقین ہو گیا تو میرے ابا جی کو راضی کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور ابا جی اپنی اکلوتی بھتیجی کو کیوں ٹھکرائیں گے۔‘‘ وہ دونوں ہنسنے لگے۔وہ دونوں بے خبر تھے کہ دو آنکھیں انہیں دیکھ رہی تھیں اور اس شخص نے وہ سب کچھ سنا جس کے بارے میں وہ بات کر رہے تھے۔ سویرا نے زید کو باغ میں جاتے دیکھا تھا تو وہ اس کے پیچھے چلی آئی تھی اور اس نے اسے زارا کے ساتھ دیکھ لیا۔ اس نے فضا میں کئی قلعے بنائے تھے لیکن زید اور زارا کو ایک ساتھ دیکھ کر وہ سب تباہ ہو گئے۔ وہ اس حقیقت سے واقف تھی کہ اس کی ماں اور اس کے ماموں کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے اور زارا اس سے بہت بہتر تھی تو اس کے ماموں کے لیے زارا کے حق میں فیصلہ کرنا بہت آسان تھا، مزید یہ کہ زید کو زارا سے محبت تھی جو کہ بڑا مسئلہ تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے فیصلوں پر موقف اختیار کر نا جانتا ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ زید کی کسی سے منگنی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بہت چھوٹی تھی اور اس کا دل ابھی ٹوٹا تھا جو اس کے لیے اتنا مایوس کن تھا کہ اس نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ خودکشی کرنے ہی والی تھی لیکن اس کی ماں نے اسے پکڑ لیا اور جلد ہی اس کے والد کو بھی اس صورتحال کا علم ہوگیا۔ شاکر علی اپنی بیٹی کے بہت قریب تھا اس لیے اس نے طاہرہ کو کمرے سے باہر بھیج دیا اور سویرا سے وجہ پوچھی جس کی وجہ سے وہ اتنا انتہائی قدم اٹھانے جارہی تھی۔ سویرا اپنے والد سے بہت فرینک تھی اس لیے اس نے بغیر کچھ چھپائے سب کچھ بتا دیا۔ شاکر علی نے اسے تسلی دی اور وعدہ کیا کہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہو گا لیکن اس نے وعدہ لیا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی جیسا اس نے کیا ۔ اس نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ ایسا منصوبہ بنائے گا کہ زید اس سے دور نہ جا سکے گا۔ سویرا نے اپنے والد پر بھروسہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ کوئی احمقانہ کام نہیں کرے گی۔رات کو شاکر اور طاہرہ اپنے کمرے کے بیڈ ہر تھے اور چدائی کر رہے تھے. دونوں ننگے تھے اور شاکر کا لن طاہرہ کی پھدی کے اندر باہر ہو رہا تھا. کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آرہی تھی لیکن یہ تھپ تھپ لن پھدی کے ملن سے ذیادہ دونوں کے پیٹ آپس میں ٹکرانے سے آ رہی تھی. طاہرہ جوانی میں بھی کافی ہٹی کٹی تھی تاہم چار بچوں کی پیدائش اور بڑھتی عمر کی وجہ سے وہ مزید موٹی ہوگئی تھی. لیکن باوجود اس کے کہ وہ موٹی تھی اور پچاس سے اوپر کی تھی پھر بھی شاکر اس ہفتے میں ایک دو دفعہ لازمی چودتا تھا. اس کی کئی وجوہات تھیں. طاہرہ اس کے ماموں کی بیٹی تھی اور اس کی والدہ سے بہت محبت کرتی تھی اور اس نے آخری عمر میں جی جان سے ان کی خدمت کی تھی. وہ شاکر کے چار بچوں کی ماں تھی اور ایک اچھی ماں تھی اور اس نے کبھی شاکر کے باہر منہ مارنے پر اعتراض یا گلہ نہیں کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شاکر چاہے جتنی مرضی عورتوں کو چود لیتا لیکن سکون بیوی کی پھدی میں ہی تھا. طاہرہ نے دن میں بہت کوشش کی تھی شاکر سے سویرا کی اس حرکت کے پیچھے کی وجہ جاننے کی لیکن اس نے ٹال دیا تھا کہ بیٹی سے وعدہ کیا ہے اور اس بارے میں اور کوئی جانتا بھی نہیں تھا. وہ جانتی تھی کہ شاکر علی پھدی میں لن ڈال کر مدہوش ہو جاتا تھا اور سب اگل دیتا تھا چنانچہ اس نے پھر چدتے ہو ئے وہی سوال کیا مگر شاکر مدحوش نہیں ہوا تھا اس لیے اس کا بڑا مما دباتے ہوئے بولا"میں نے اس سے وعدہ کیا ہے تم مجھ سے وعدہ خلافی نہ کرواؤ بس مجھ پر بھروسہ کرو کہ میں سب ٹھیک کردوں گا" وہ چپ ہو گئی اور وہ چودتے ہوئے اپنے دیرینہ منصوبے کے بارے میں سوچنے لگا. شاکر کو اپنے ماموں کے خاندان سے خار تھی اور اس کی وجہ وہ زمیں تھی جو ہائی وے بیچ سے گزرتی تھی اور اس کا مالک اس کا ماموں چوہدری ہدایت تھا. اس نے اپنے ماموں سے اس زمین کا تقاضہ کیا تو چوہدری ہدایت نے ناصرف اسے خود ڈانٹا بلکہ اس کی ماں کو بھی بتا دیا جو ایک عرصہ اس سے ناراض رہی تاہم ان دونوں نے اور کسی کو کچھ نہ بتایا. چوہدری ہدایت نے وہ زمین حیدر کو دی اور پوتوں میں اس کا لاڈلا زید تھا چنانچہ اس نے حیدر کو تاکید کی کہ وہ زمین زید کو ہی دے. وہ داور کی کرن سے شادی کے بعد سویرا اور زید کی بات چلانے کا تھا لیکن داور نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا لیکن اب اس نے سویرا کی خوشیاں اور زمین دونوں حاصل کرنے لے لیے منصوبہ بنا لیا تھا. طاہرہ کی آہہہہہہ اس کو اس کے خیالات سے باہر لائی کیونکہ وہ فارغ ہو چکی تھی تاہم اس کا پانی نکلنا بند ہو چکا تھا. شاکر نے بھی چند دھکوں کے بعد اس کی پھدی میں پانی چھوڑا اور سو گیا. رضوان کی شادی دھوم دھام سے ہوئی اور بارات کو شہر سے گاؤں آنا تھا اس لیے وہ شام کو ہی آگئی. رات آٹھ بجے عورتیں دلہن سے رسمیں کر رہی تھیں اور مرد دولہے کو چھیڑ رہے تھے. زید اپنے کمرے میں آیا اور کپڑے بدلے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی. اس نے کرتے کے بٹن بھی بند نہ کیے تھے کہ دروازہ کھٹک گیا تو اس نے ایسے ہی کھو ل دیا. سویرا اندر آئی اور دروازہ بند کر دیا. زید حیران ہوا اور بولا "یہ کیا کرہی ہو" وہ بولی "مجھے تم سے بات کرنی ہے" وہ بولا "یہ کیا طریقہ ہے" وہ بولی "اور کیا کروں تم مجھے دیکھ کر بھاگ جو جاتے ہو" وہ بولا"یہ جگہ اور وقت صحیح نہیں ہے" وہ بولی "یہی صحیح وقت ہے. مجھے تم سے محبت ہے اور میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں" وہ بولا "سویرا دیکھو اسی لیے تم سے بھاگتا تھا میں کیونکہ میری زندگی میں کوئ اور ہے" وہ بولی "لیکن میں تمہیں اس کتیا زارا کا نہیں ہونے دوں گی. تم میرے ہو اور میرے ہی رہو گے" وہ غصے سے بولا "خبردار جو ایک لفظ بھی کہا اس کے بارے میں " وہ بولی "تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے" وہ بولا "ہاں اور اب تم جاؤ" وہ اجانک اپنے کپڑے پھاڑنے اور بال خراب کرنے لگی تو زید حیرت سے بولا "پاگل ہوگئی ہو کیا کر رہی ہو" وہ بولی "کہا تھا نا تم میرے ہو اس کے نہیں" اس سے پہلے زید کچھ سمجھتا. سویرا نے اس کا گریبان پھاڑا اور اس کے سینے پہ ناخن مارنے لگی تو زید نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے تبھی وہ چلائی "بچاؤ...........بچاؤ........" زید نے اس کے ہاتھ چھوڑے تو وہ دروازے کی طرف بھاگی اور باہر نکلی جہاں سب جمع تھے, وہ بھاگ کر اپنی ماں سے لپٹ گئی اور رونے لگی جبکہ طاہرہ نے اس کو چادر سے ڈھانپتے ہوئے کہا"کیا ہوا میری جان" زید باہر آ چکا تھا لیکن وہ سمجھ چکا تھا کہ معاملہ اس کے خلاف جانے والا ہے. سویرا نے کہا "اس.......میری.....عزت پر........حملہ کیا..." وہ رونے لگی جبکہ زید نے کہا "جھوٹ بول رہی ہے میں نے ایسا........" چوہدری حیدر کے زناٹے دار تھپڑ نے اسے ہلا کر رکھ دیا.وہ اسے مارتے ہوئے کہہ رہے تھے "کمینے تجھے شرم نا آئی اس خاندان کے کسی مرد نے کسی مزارعوں کی عورت سے زبردتی نہیں کی اور تو نے اپنے ہی گھر میں......... تجھ پر تو مجھے مان تھااور تو ایسا نکلا ......." وہ مار کھاتے ہوئے اپنی صفائیاں دیتا جا رہا تھا. گھروالے سب حیران تھے اور کسی کی بھی حمایت سے کترا رہے تھے. یہ شاکر علی کا ماسٹر پلان تھا اور زید بری طرح پھنس چکا تھا. اب شاکر علی کی باری تھی جس نے حیدر کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا "بس کرو حیدر شور مچانے سے کیا ہو گا گھر کی بات پورے گاؤں کو بتاؤ گے" حیات نے زید کو تھاما جو روتے ہوئے صفائی دے رہا تھا. حیدر نے اسے شاکر کے آگے پھینکتے ہوئے کہا "یہ رہا آپ کا مجرم جو کرنا ہے کریں" شاکر نے کہا "حیدر دیکھو بچے غلطیاں کرتے ہیں لیکن ہمارا کام ان کو ٹھیک کرنا ہے اس نے میری بیٹی کی عزت پر حملہ کیا تو وہ اسی کی عزت بنے گی. اس کا اور سویرا کا ابھی نکاح ہو گا" زید پھونچکارہ رہ گیا جبکہ حیدر نے کہا "ایسا ہی ہو گا. اس کمینے کی یہی سزا ہے عباد, عادل جاؤ مولوی جی کو نکاح کے رجسٹر سمیت لے کر آؤ" زید نے کہا "کون سا نکاح. کیسا نکاح. میں کوئی نکاح نہیں کروں گا" وہ غصے سے بولے "کیا کہا" زید اب کافی حد تک سنبھل چکا تھا اور اسے یہ بھی سمجھ آگئی تھی کہ سویرا کے اس پلان میں اس کا پھپھا بھی شامل ہے بلکہ پلان ہی اس کے پھپھا کا ہے. وہ صحیح سوچ رہا تھا کیونکہ شاکر وہ زمین سویرا کے نام حق مہر میں لکھوانا چاہتا تھا اور زید اور سویرا ابھی اٹھارہ سال کے نہین تھے تو نگران وہی بننے والا تھا لیکن اب زید کے اندر کا باغی اور اڑیل زید واپس آچکا تھا. وہ تن کر کھڑا ہوا اور بولا "میں نکاح نہیں کروں گا. میں نے جب کچھ کیا ہی نہیں تو سزا کس چیز کی. زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا میں آپ کے یا ان لوگوں کے ہاتھوں مارا جاؤں گا تو مجھے موت قبول ہے لیکن یہ نکاح کے نام پر ذلت کا طوق نہیں" زید کے اس اعتماد پر سب ششدر تھے. اس کے بہن بھائی اور اس کے تایا کے بچے بھی یہ سمجھتے تھے کہ اس نے ایسا نہیں کیا,ہو گا مگر ایک آدمی تھا جس نے کھڑکی سے سب دیکھا تھا اور مصلحتاً خاموش تھا. چوہدری حیدر نے کہا، "تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے" زید نے کہا، "بالکل" انہوں نے کہا، "پھر اپنا بیگ باندھو اور یہاں سے جو چاہو لے جاؤ اور ابھی میرے گھر سے نکل جاؤ، اب سے تم میرے لیے اور پورے خاندان کے لیے مرگئے اور اگر کسی نے تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ شخص بھی میرے لیے مر جائے گا۔‘‘ اس فیصلے پر سب دنگ رہ گئے اور توقع تھی کہ وہ اپنے والد سے رحم کی بھیک مانگے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اورچپ کر کے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ چند لمحوں بعد ہاتھ میں کچھ کاغذات لیے باہر آیا اور کہنے لگا، "میں نے اپنی زندگی میں صرف یہ اکیڈمک اور غیر نصابی سرٹیفکیٹ حاصل کیے تھے، اس لیے میں انہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں اور آپ کے گھر سے کچھ نہیں لے جا رہا، بہتر ہے کہ وہ گھر چھوڑ دوں جہاں مجھ پر کوئی بھروسہ نہ کرے۔‘‘ چوہدری حیات نے کہا، ’’زید وہیں رک جاؤ حیدر، کیا تم پاگل ہو، یہ تمہارا بیٹا ہے..............‘‘ وہ غصے سے بولا۔" میرا بیٹا تھا لیکن اب یہ میرے لیے مر چکا ہے، اب سے میرے صرف تین بیٹے ہیں" زید باہر نکل گیا، گھر والوں نے اسے روکنا چاہا لیکن کسی نے ایسا کرنے کی ہمت نہیں کی۔ تہمینہ اپنے بیٹے کے پیچھے جانے کے لیے آگے بڑھی لیکن اس کے شوہر نے کہا، "اگر تم اس کے پیچھے چلو گی تو تم صرف اس کی ماں بن کر رہو گی اور تم میری بیوی نہیں رہو گی۔" وہ پیچھے ہٹی اور صرف رونے لگی۔ چوہدری حیدر نے کہا، "آج اس گھر میں شادی ہوئی ہے اس لیے آپ سب شادی کی خوشیاں منائیں، آج جو تماشہ ہوا تھا وہ اب ختم ہو گیا ہے۔" حیات کچھ کہنے ہی والا تھا کہ شاکر نے حیات کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ "فکر نہ کریں وہ جوان اور جذباتی ہے اور وہ دنیا کی گرم اور سرد کا اندازہ نہیں ہے اس کو، وہ جلد واپس لوٹ آئے گا" طاہرہ کی آواز اچانک آئی، " چوہدری حیدر یہ اس طرح ختم نہیں ہوگا اور میں آج اسے ایسے ختم نہیں ہونے دوں گی۔ پہلے تم نے کہا تھا کہ میرا بیٹا اس گھر میں نہیں آئے گا اور اب میں یہ کہہ کر بات ختم کر رہی ہوں کہ ہمارا تم سے رشتہ ختم ہو گیا، میری بیٹی تمہارے بیٹے کی بیوی ہے اور تمہاری بیٹی میرے بیٹے کی بیوی ہے، ہم تمہاری ی بیٹی کو اس گھر میں آنے سے نہیں روکیں گے اور یہ تم پر منحصر ہے کہ تم ہماری بیٹی کو ہمارے گھر آنے دیتے ہو یا نہیں لیکن تم نے نا صرف اپنا بیٹا کھویا ہے بلکہ تم نے اپنی بہن اور اس کے خاندان کو بھی کھو دیا ہے"۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹی کو تقریباً گھسیٹ کر لے گئی۔ سب کو دوبارہ دنگ چھوڑ کر باہر نکل گئی اور نبیلہ بھی ان کے پیچھے چلی گئی. زید ابھی گاؤں سے باہر نہ گیا تھا کہ ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی. یہ محب کی گاڑی تھی. وہ باہر آیا اور زید سے کہا "زیدے گاڑی میں بیٹھ" زید نے کہا "محب تو جا یار میں کچھ اپنا دیکھ........" وہ غصے سے بولا "ایک جھانپڑ لگاؤں گا اگر بکواس کی تو. چل گاڑی میں بیٹھ تجھے تیرے گھر نہیں اپنے گھر لے جا رہا ہوں" زید نے کہا "یار انکل آنٹی نے بھی سب دیکھا ہے.کیوں خود بھی گھر سے نکلے گا. میں اپنا کچھ کر ہی لوں گا" وہ بولا " بک نہ اوئے. مجھے ان ہی دونوں نے بھیجا ہے اور تیرے پھپھے کے ٹھنڈے مزاج اور نکاح والی شرط سے میرے اما ابا کو سمجھ آگئی ہے کہ تیرا پھپھا اور ان کا خاندان ملے ہوئے اس سازش میں" زید نے کہا "نہیں یار میں پھپھو کو جانتا ہوں وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتیں. یہ سازش تو پھہھا کی ہی ہے لیکن شاکر پھپھا اتنے بے وقوف نہیں کہ صرف سویرا کے لیے اتنی بڑی سازش کریں. معاملہ کچھ اور ہےاور.............." ایک گاڑی زن سے ان کے پاس سے گزری اور ایک اور گاڑی اس کے بعد. محب نے کہا "اوئے یہ پچھلی گاڑی تو عباد بھائی کی ہے" زید نے کہا "اور اگلی گاڑی پھپھا کی. چل ذرا دیکھیں تو کہانی کیا ہے" گھر پر داور تھا کیونکہ اس کا اس حویلی میں آنا منع تھا. سب جب آئے اور سویرا کی حالت دیکھی تو وہ چونکا اور اس کے پاس گیا تو وہ اس سے لپٹ کر رونے لگی اور وہ بولا"کیا ہوا" شاکر نے کہا "طاہرہ یہ کیا کیا تم نے" طاہرہ نے اچانک سویرا کو بازو سے دبوچ کر داور سے علیحدہ کیا اور ایک زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا "کمینی تو اتنا گر گئی کہ اپنی عزت پر حملے کا ڈرامہ کر دیا" سب یہ سن کر چونکے اور شاکر نے چلا کر کہا "طاہرہ....." وہ دھاڑی "چلاؤ مت شاکر علی. یہ سب کھیل تمہارا رچایا ہوا تھا. اب میں سمجھی کہ اس دن خودکشی کی کوشش کیوں کی تھی اس نے اور تم نے اسے اتنی جلدی رام کیسے کرلیا. زید کے لیے ہے نا. بول کمینی" داور نے کہا "کوئی مجھے بتائے گا ہوا کیا ہے" وہ اسے تھپڑ مارتے ہوئے بولی "تیرے باپ اور بہن نے تیرا بدلہ لیا ہے زید سے" شاکر نے کہا "تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے" وہ بولی "شاکر علی یہ سفید بال جو میں تمہارے لیے کالے کرتی ہوں میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیے. میرے باپ کی نسل سے ہے وہ اور میرے باپ کی گود میں بچپن گزرا ہے اس کا. جانتی ہوں کہ وہ مر جائے گا لیکن غلط بات پہ سر نہیں جھکائے گا. آج قبر میں پڑے میرے باپ کو اس پر فخر ہو گا اور مجھے...... بتا سچ کیا ہے ورنہ........" اس نے سویرا کو چھوڑا اور پاس پڑا فروٹ کاٹنے والا چاقو اپنی گردن پہ رکھ کر کہا "میں خود کو مار لوں گی" وہ تینو چلائے "امی......" ایک لمحے کو تو باہر کھڑے زید اور محب کی بھی جان حلق میں آگئی. شاکر نے کہا "طاہرہ کیا پاگل پن ہے چاقو رکھو" وہ دھاڑی "تم نے پاگل پن دیکھا کہاں ہے میرا" اس نے ہلکا سا چاقو ہلایا تو سویرا چلائی "امی وہ سب میں نے کیا تھا اور ابا کو بھی میں نے مجبور کیا تھا اندھی ہو گئی تھی زید کی محبت میں" داور نے کہا "تو پاگل ہے سویرا اور ابا آپ بھی..... امی اس نے سچ بتا دیا اب ہٹا لیں" وہ بولی "آدھا سچ بولا اس نے" سویرا نے روتے ہوئے کہا "امی اس کے علاوہ کوئی سچ نہیں ہے" وہ بولی "باقی سچ تیرا باپ بولے گا. کیوں شاکر علی وہ ہائی وے کی زمین لکھوانے والے تھے نا حق مہر میں. اسی کے لیے بیٹی کے جذبات کی آڑھ لی" وہ روانی میں بولا "ہاں لیکن تمہیں کیسے پتہ چلا" وہ بولی "میری ساس میری پھپھی تھی اور مجھے سب بتاتی تھی لیکن میں نے چپ سادھ لی کہ جب میرے باپ اور میری پھپھی نے تمہارا پردہ رکھا تو میں کیوں کچھ کہوں لیکن تم...... میں نے یہ سب وہاں کیوں نہیں کہا اور سارے رشتے کیوں توڑے یہی سوچ رہے ہو تو وہ اس لیے کہ اس نامراد کی زندگی تباہ ہو جاتی. وہ بد نصیب تو لڑکا ہے کچھ کر لے گا لیکن یہ........اور تعلق اس کیے توڑا تاکہ جیسے میرے بھائی کے ایک بیٹے کی زندگی تباہ کی ہے ویسے باقیوں کی نہ کر سکو اور وہ تمہارے شر سے محفوظ رہیں.......اور تو ویسے تو بڑی سگی بنتی ہے ان کی اور آج منہ اٹھا کے یہاں چلی آئی" وہ بولی " امی وہ میں....." وہ بولی تم سب آج طہہ کر لو کہ یا تو ان کا پیچھا چھوڑو گے یا ایسے ہی ان کو برباد کرنے کی کوشش کرو گے..... اگر ایسا ہی کرنا ہے تو اس گھر کی بڑی میں ہوں پہلی لاش میری ہی گرے گی" شاکر نے چیخ کر کہا "رکو.... میں سویرا اور نبیلہ کی قسم کھاتا ہوں جو تم کہو گی وہ کرونگا" وہ بولی "اگر ایسا نا ہوا تو دوسری بار میں دھمکی نہیں دوں گی" اس نے چاقو ہٹا یا تو نبیلہ نے ہلکا سا خون دیکھ کر کہا "امی خون...." وہ بولی "تو ابھی کے ابھی جا یہاں سے اور جو بہانہ ہو مار دئیں لیکن خبردار عباد کو سچائی کا پتہ چلا تو. اتنے سے زخم سے نہیں مرتی میں" زید اور محب تب تک ویاں سے ہٹ چکے تھے اور گاڑی کے پاس آ چکے تھے. محب نے کہا"تیرا پھپھا تو کھلاڑی ہے یار. چل جا کے سب کو سچ بتائیں" زید نے کہا "ہم لاہور جا رہے ہیں " وہ بولا "ابھے تو پاگل تو نہیں" زید نے کہا "یار میں پھپھو کا مان نہیں توڑ سکتا. سویرا نے میرے ساتھ برا کیا لیکن باپ کے ہاتھوں استعمال ہوئی بیچاری. اس کی زندگی تباہ کر کے مجھے کون سی خوشی مل جانی. تو ہے نا میرے ساتھ کافی ہے" محب نے کہا "یار تو بہت بڑا آدمی ہے" زید نے کہا "بک نا اور چل" اچانک نبیلہ نے زید کو آواز دی. وہ پلٹا تو وہ بھاگی آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی. زید نے کہا "اچھا نا اب مت روئیں" وہ ہاتھ جوڑ کر بولی "ان کو معاف......" وہ ہاتھ تھام کر بولا" یہ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اچھے لگتے اور میرے بعد سب کا خیال رکھنا اور بھابی اگر کبھی یہ سچائی کھل بھی گئی تو بھی عباد بھائی کو یہ مت بتانا کہ آپ کو سب معلوم تھا" وہ جانے لگا تو وہ بولی "رک زرا" اور پرس کھولا جس میں سلامی کے پیسے تھے اور کافی تھے. اس نے وہ دیے تو زید نے کہا "یہ تو سلامی کے ہیں" وہ بولی "میں نے گنے ہیں تو فکر نہ کر میں گھر جا کے الماری سے لے لوں گی لیکن تو اپنی خودداری پہ سمجھوتہ نہیں کرے گا تیرا حق تجھے ملے گا" وہ بولا "بھابی......." وہ بولی "پگلے. تیری بھابی بعد میں ہوں اور بہن پہلے. تو تو میرا فخر ہے. لے ان کو. بہنوں کو نہ نہیں بولتے" زید نے پیسے لےلیے اور اس نے لاہور کی راہ لی جبکہ نبیلہ نے گھر کی. نیا جوڑا عروج اور رضوان اپنے کمرے میں تھے, حویلی میں ہر اہک اپنے کمرے میں اپنی ہی سوچوں گم تھا. کوئی غصہ تھا, کوئی پریشان اور کوئی خاموش رہ کر پشیمان لیکن یہ نیا جوڑا تھا اور یہ ان کی سہاگ رات تھی.عروج لال جوڑا پہنے رضوان کی منتظر تھی.رضوان کچھ دیر بعد آیااور اس نے عروج کا گھونگھٹ اٹھایا اور رسمی باتوں کے بعد بولا "آج جو کچھ بھی ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا. میں تم سے معذرت خواہ ہوں کہ میں دیر سے آیا. دراصل بابا کو سلا رہے تھے. ان کو بہت پیار تھا زید سے اور وہ اس کے جانے سے بہت دکھی ہیں" وہ بولی"کوئی بات نہیں لیکن زید لگتا تو ایسا نہیں تھا" وہ سوچ کر بولا "میرا دل ابھی نہیں مان رہا کہ اس نے ایسا کچھ کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے والے اتنے پراعتماد نہیں ہوتےاور اس کی آنکھوں میں جو ایک بے خوفی تھی.............. خیر چھوڑو اس بات کو اور یہ لو" رضوان نے منہ دکھائی دی تو عروج کی جان میں جان آئی کیونکہ اس نے اہنا کنوارہ پن اسی دن کے لیے سنبھال کر رکھا تھا اور وہ سہاگرات کے درد اور مزے کے لیے تیار اور پر جوش تھی.رضوان نے منہ دکھائی دے کر کہا "اب میں چینج کر لوں تھک گیا ہوں اور تم بھی چینج کر لو پھر سوئیں صبح اٹھنا بھی تو ہے" یہ بول کر رضوان نے عروج کے ارمانوں پر اوس ڈال دی اور اندر چلا گیا. کچھ دیر بعد وہ سو رہاتھا اور نائٹی پہنے اس کے پہلو میں لیٹی عروج زید کو اس سب کا ڈمہ دار سمجھتے ہوئے کوس رہی تھی. مگرایک گرم اور کنواری پھدی اگر پہلو میں ہو وہ بھی اپنی ہی بیوی کی تو انسان کب تک خود کو روک سکتا ہے. ایسا ہی رضوان کے ساتھ بھی ہوا اور اس نے اچانک پہلو بدلا اور جاگتی ہوئی عروج کو دیکھا اور اچانک اس سے لپٹ گیا. عروج کے تو جیسے بھاگ ہی کھل گئے کیونکہ وہ ذہنی طور پر سہاگ رات کو کنوارے سونے پر تیار ہو چکی تھی لیکن رضوان نے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور اس کے ہاتھ عروج کے مموں سے کھیلنے لگے اور عروج مچلنے لگی. کچھ دیر کسنگ کے بعد رضوان نے اپنی شرٹ اور عروج کا گاؤن اتار دیا اور اب رضوان صرف ڑاؤزر جبکہ عروج صرف ایک شارٹ نائٹی میں تھی جہاں اس نے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا. رضوان عروج کے اوپر آگیا اور اب عروج کو ٹراؤزر میں اپنے شوہر کا لن اپنی پانی بہاتی پھدی پر محسوس ہونے لگا. اس نے اس کے ممے دباتے ہوئے چوما اور وہ آہہہ آہہہ کر رہی تھی. رضوان نیچے آیا اور اس کے مموں سے نائٹی ہٹادی. سڈول ان چھوئے موٹے ممے اور کھڑے نپل اس کاا ستقبال کررہے تھے. اس نے ایک ممے کے نپل کو منہ میں لیا اور چوسا تو وہ کراہ اثھی. اس کی کراہیں اس قدر سیکسی تھیں کہ رضوان کو ڈر تھا کہ وہ ایسے ہی چھوٹ نہ جائے چنانچہ اس نے دراز سے امپورٹڈ جیلی نکالی اور اپنا ٹراؤر اتار کر لن پر ملنے لگا. دونوں کو ودیسی دوستوں نے سیکس کے کئی طریقے بتائے تھے پر اس وقت رضوان بس لن پھدی میں ڈالنا اور عروج ڈلوانا چاہتی تھی کیونکہ وہ خشک سہاگرات نہیں چاہتے تھے. رضوان نے نائٹی پھدی سے اوپر کی تو عروج کی آہ نکل گئی. اس نے جیلی لگائی اور پوزیشن سنبھال لی. عروج ہونٹ بھینچے درد سہنے کو تیار تھی کہ تبھی رضوان نے دھکا مارا. درد عروج کی توقع سے ذیادہ تھا اس لیے اس کے منہ سے چیخ نما آہہہہہہہ نکلا. لن ابھی تھوڑا سا گیا تھا. رضوان نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پہ رکھے اور ممے پکڑ کر پوری جان سے دھکا مارا تو لن ساری رکاوٹیں توڑتا ہوا پورا اندر گھس گیا اور عروج ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگی لیکن رضوان نے نہ ہونٹ چھوڑے نہ ممے اور آہستہ آہستہ اندر باہر کرتا رہا. عروج پرسکون ہوئی تو اس نے منہ ہٹا لیا. عروج نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا "آہہہہہہہہہ دررررددددد ہوووو ررررہااااا ہہہہہےےے" وہ اس کو چوم کر بولا "ٹھیک ہو جائے گا میری جان" وہ آہستہ آہستہ دھکوں کی رفتار بڑھاتا گیا. عروج کی پھدی نے سرنڈر کیا اور اس کا جسم اکڑا اور منہ سے آہہہہہ نکلا. گرم پانی پڑتے ہی رضوان کا لن بھی پست ہو گیا اور وہ آہہہہہ کرتا ہوا اپنی بیوی کی پھدی میں فارغ ہو گیا.کچھ دیر بعد وی لن نکال کر سو گیا. عروج بھی ایسے ہی سو رہی تھی اور اس کی ٹانگوں میں اس کی پھدی کا خون اور شوہر کی منی لگے ہوئے تھے. عروج کی سہاگرات تو خالی نہ گئی لیکن اس کے دل میں زید کے لیے بغض ہمیشہ رہا.
                ​جاری ہے...........

                Comment


                • #18
                  اردو سٹوری ورلڈ پر ایک سے ایک بہترین کہانی اور ناول آرہے ہیں۔ ماننا پڑے گا۔ ایڈمن حضرات اور سٹوری رائٹر واقعی میں بہت محنت کر رہے ہیں۔

                  Comment


                  • #19
                    زبردست کہانی ہے موجودہ معاشرہ کی عکاسی کرتی ہے کے خود تو کتوں کی طرح ہر جگہ منہ مار لیتے ہیں اور عورتوں کے اوپر الزام تراشی کرنا اس سب کے علاوہ یہ بھی ہے کہ جیسے کو تیسا یعنی جو جیسا ہو گا اس کو ویسا ہی ملے گا

                    Comment


                    • #20
                      اعلیٰ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X