Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت ہی زبردست سٹوری ہے۔۔۔۔۔۔

    Comment


    • زبردست اپڈیٹ کم چک کے رکھو

      Comment


      • گریٹ ہو بھائی

        Comment


        • Zbrdst khani h kmal kar dia agay dekhty hai kon hota us ghr may

          Comment


          • شاندار کہانی،مزہ آ گیا

            Comment


            • Originally posted by jatt-lahoria View Post
              9
              صبح میرب کی آنکھ کھلی تو وہ ابھی تک عادل کی بانہوں میں تھی. دونوں ننگے تھے. اس نے اٹھنا چاہا تو اس کے منہ سے آہہہہہہہہہ نکل گیا. اس کی پھدی میں شدید درد تھا اور جب اس نے اٹھنا چاہا تو درد کی شدت سے آہیں نکلیں اور عادل بھی جاگ اٹھا. اس نے کہا "کیا ہوا" وہ بولی "تم.نے رات جو تباہی پھیری ہے اس کے بعد کیا ہونا ہے" دوپہر تک میرب کو بخار بھی ہو گیا. عادل نے سارا کام خود کیا اور اسے ایک پل نہ ہلنے دیا. تیسرے روز میرب کا بخار اتر گیا. اس کی چھٹیاں بھی ختم ہو گئیں. اگلے روز وہ کالج اور عادل گاؤں آگیا.اگرچہ عادل بھاری دل کے ساتھ گاؤں آیا تھا لیکن وہ پھر بھی میرب کے لیے پریشان تھا۔ چوہدری حیدر نے کہا، ’’تمہیں یہاں دیکھنا میرے لیے بڑا سرپرائز ہے ورنہ میں نے سوچا تھا کہ تم ابھی واپس نہیں آؤ گے اور اپنی چہیتی کو اکیلا نہیں چھوڑو گے۔‘‘ عادل اپنے باپ کی باتوں میں طنز کو سمجھ گیا۔ وہ اپنے خاندان کے اکثر افراد کے اس رویے سے مایوس بھی ہوا تھا تو اس نے جواب دیا، "آپ کو اسی چہیتی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ میں اس کے وعدے کے لیے یہاں ہوں اور میں اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں جو میری پیاری بیوی نے کیا تھا۔" یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور چودھری حیدر اسے دیکھتے ہی رہ گئے کیونکہ یہ پہلی بار تھا کہ ان کو اپنے بچوں کی طرف سے ایسی جوابی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ رات کو جب وہ کمرے میں گیا تو سویرا نے کہا، "میں نے سوچا تھا کہ تم واپس نہ آ پاؤ گے لیکن تم ابھی واپس آئے ہو اور تمہاری چہیتی کا کیا حال ہوگا، وہ تین راتیں تمہارے ساتھ گزارنے کے بعد وہاں کیسے رہے گی۔" عادل کو غصہ آیا سویرا کے طنزیہ لہجے سے تو اس نے اس کا چہرہ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور کہا " میں نے خاندان کے بزرگوں سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہارے پاس آؤں گا اور ایک ہفتے میں 3 دن تمہارے ساتھ رہوں گا۔ دوسرے ہفتے میں چار دن، اب تمہارے 4 دن شروع ہو چکے ہیں اور یہ میرے لیے بدترین دن ہیں لیکن لگتا ہے کہ مجھے ساری زندگی ایسے ہی گزارنا پڑے گا لیکن اگر تم کو کوئی مسئلہ ہے تو تمہارے پاس کمرہ چھوڑنے کا انتخاب ہے یا اگر ذیادہ مسئلہ تو گھر بھی چھوڑ سکتی ہو میں جانتا ہوں کہ میں نے ایسی بات کہی ہے جس سے تمہارا غصہ بھڑکا ہو گا لیکن مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تم باہر جا کر شور مچانے لگو گی کہ میں نے تمہیں اس گھر سے دور جانے کو کہا ہے اور کچھ لوگ تمہیں سپورٹ بھی کریں گے اور اس دن جیسا ڈرامہ ہوگا لیکن میرا کچھ نہیں بگڑے گا اور تمہارے لیے اور نفرت پیدا ہو جائے گی تو اب جو کرنا ہے تم کرو کمرہ چھوڑو یا گھر انتخاب تمہارا ہے" وہ بولی، "اگر تم مجھ سے مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہو تو مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے" عادل نے سکون سے کہا، "جانتی ہو تمہیں چھوڑنا میرے لیے سب سے بڑی خوشی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے ہے کہ نہ تو میری بیوی اور نہ ہی میرے گھر والے چاہتے ہیں کہ میں تمہیں چھوڑوں تو یہ میرے لیے سزا ہے اور میں جانتا ہوں کہ مجھے یہ برداشت کرنا پڑے گی ساری عمر، لیکن اگر تم نہیں چاہتیں کہ میرے ساتھ رہو پھر تمہارے پاس میرے خلاف طلاق کا مقدمہ کرنے کا انتخاب ہے کیونکہ میں اس کے بغیر تمہیں چھوڑنے والا نہیں، مجھے امید ہے کہ تمہارے طعنوں کا کوٹہ پورا ہو گیا ہے اس لیے اب مجھے سونے دو۔" عادل اس کی طرف منہ موڑ کر سو گیا۔ جب کہ وہ صرف اپنے تکیے کو اپنے سر پر مار سکتی تھی۔عادل کے لیے میرب سے واپس جا ملنے کا دن یوم آزادی سے کم نہیں تھا. وہ گھر میں داخل ہوا تو میرب کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھی لیکن دروازہ بند کرتے ہی اس نے میرب کو بانہوں میں بھر کر اٹھا لیا. میرب نے کہا"عادل چھوڑو نا کھانا پکانے دو پہلے" وہ اسے کمرے میں لے جاتے ہوئے بولا "بھاڑ میں جائے کھانا" وہ بولی "میں کچھ پکاؤں گی نہیں تو کھائیں گے کیا" وہ کچھ نہ بولا اور اسے بستر پر ڈال کر اپنے کپڑے اتارنے لگا تو میرب شرما گئی. عادل نے کپڑے اتارتے ہی اپنے ہونٹ میرب کے ہونٹوں پر رکھے اور بے چینی سے چومنے لگا جبکہ ساتھ ہی اس کے ہاتھ میرب کے جسم پر چلنے لگے. اس نے پیچھے ہو کر میرب کی قمیض اتاری اور کہا "میرب تم نہیں جانتی کہ اس جہنم میں یہ چند دن میں نے کیسے گزارے" وہ برا اتارتے ہوئے بولی "تمہاری بے چینی سب بتا رہی ہے" عادل نے اپنے ہونٹ اس کے کندھے پر رکھے تو اس کے منہ سے ایک تیز سسکاری نکل گئی. عادل بڑھتا ہوا اس کے مموں تک آیا اور اس کے ایک ممے کو چوستے ہوئے دوسرے سے کھیلنے لگا جبکہ وہ بھی کراہتے ہوئے کہہ رہی تھی"آہہہہہہہ تتتمممم مممجھےےے اسسس سببب کاااا عااااادددی بنااااااا کررررر رہووووو گےےےےے" عادل نے مموں سے کھیلتے ہوئے کہا "تو عادی ہونے میں حرج کیا ہے" وہ مموں سے پیٹ پر آیا اور چومنے لگا تو وہ بولی "عااااااددددلللللل مممتتت تتڑڑڑپااااااااااؤؤؤوووو" عادل سمجھ گیا کہ اب اس کی بیوی لن مانگ رہی ہے تو اس نے مرب کی شلوار اتاری اور اٹھ کر بیگ سے تیل کی بوتل کے آیا جو وہ خاص کاؤں سے لایا تھا. اس نے لن اور پھدی میں تیل لگایا اور میرب کی ٹانگوں میں آگیا. اس نے لن پھدی پہ رکھا اور دھکا مارا تو لن ہلکا سا اندر ہو گیا. اب کی بار عادل نے بھی احتیاط کی اور کچھ وقت لگا کر پورا لن اندر کردیا. میرب اب تک کراہ رہی تھی. اب عادل نے اندر باہر کرتے ہوئے دھکے مارنے شروع کر دیے اور تھپ تھپ کی آوازوں کے ساتھ میرب کی آہیں نکلنے لگیں اور وہ کراہتے ہوئے بولنے لگی "آآآآآآآہہہہہہہہہہہہ عععااااااادددددللل مممییرری جااااان آہہہہہہہہ تم نےےےےےے کیااااااااکررررررددیاااااااا" ایک طرف عادل کے دھکوں کی رفتار بڑھی تو دوسری طرف میرب کے گانڈ اٹھانے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گیا اور اچانک میرب کی ایک تیز آہہہہہہہہ نکلی جبکہ اس کے ساتھ ہی عادل کے منہ سے بھی آہہہہہہہہ نکلا اور ایک طرف میرب نے اپنا پانی چھوڑ دیا تو دوسری طرف عادل کا لن بھی پھدی کو بھرنے لگا. عادل اس پر گر کر ہانپنے لگا. کچھ دیر بعد اس نے لن نکالا تو پک کی آواز آئی اور میرب کی آہہہہ نکل گئی. پھدی ابھی بھی کافی تنگ تھی. میرب نے کہا "تم نے مجھے اتنا تھکا دیا ہے اب کھانا کون بنائے گا" وہ بولا "میں باہر سے لے آتا ہوں" وہ بولی "رکو میں تمہیں پیسے دیتی ہوں" وہ بولا "کیا مطلب" وہ بولی "تایا جی نے کہا تھا نا کہ ان کی جائیداد یا کمائی میں سے ایک پیسہ بھی مجھ پر نہ لگے تو اب ایسا ہی ہو گا" عادل نے کہا "پاگل نہ بنو. وہ تو انہوں نے........." میرب نے بات کاٹ کر کہا "عادل کہہ دیا نا. ان کی جائیداد کے علاوہ کہیں سے کما سکتے ہو تو کماؤ اور مجھ پہ خرچ کرلو لیکن اگر ان کی کمائی کا کچھ بھی آیا تو میں نہیں کھاؤں گی" عادل نے کہا "بلکل اپنے تایا کی بھتیجی ہو. ان کی طرح ضدی اور ہٹ دھرم" رات کو عادل میرب کو پھر سے چود رہا تھا اور پورا زور لگا رہا تھا جبکہ وہ بھی ہر دھکے پر گانڈ اٹھا رہی تھی. اب اس کی پھدی عادل کے لن کی عادی ہونے لگی تھی. پہلے میرب فارغ ہوئی اور پھر عادل نے اپنا پانی چھوڑ دیا.وہ ننگے ہی ایک ساتھ لیٹے ہوئے تھے. میرب نے کہا، "تم مجھے اس سب کا عادی کردو گے" عادل نے جواب دیا، "تمہیں ان سب کی عادت ہو جائے تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔" وہ بولی، "اور ان دنوں میں کیا کروں گی جب تم میرے ساتھ نہیں ہو گے۔ "وہ مسکرایا اور بولا "جب میں تمہارے ساتھ نہیں ہوتا تو بس وہ اچھا وقت یاد کرتا رہتا ہوں جو ہم نے اکٹھے گزارا ہے، تم بھی ایسا کرنا تمہارا وقت آسانی سے گزر جائے گا" وہ بولی، "کیا مطلب، تم یہ سب سویرا کے ساتھ نہیں کرتے" عادل نے کہا، "تم یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں اسے چھو بھی سکتا ہوں" اس نے کہا، "عادل وہ بھی تمہاری بیوی ہے اور اس کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جو میرے ہیں" عادل نے کہا، "میرب۔ میں تم سے پیار کرتا ہوں اور ہماری شادی ہماری سچی محبت کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن سویرا سے میری شادی صرف سزا ہے اس لیے اسے صرف سزا ہی رہنے دو" اس نے کہا "لیکن عادل وہ بھی عورت ہے اور میں عورت کا حق نہیں چرا سکتی" عادل غصے میں آکر بولا، ’’دیکھو میرب، قربانی کا رول ماڈل بننا چھوڑ دو، تمہاری اس عادت کی وجہ سے میں پہلے بھی بہت دکھ اٹھا چکا ہوں اور اب مزید تکلیف نہیں اٹھانا چاہتا، اس لیے بہتر ہے کہ تم۔ بس چپ رہو اور مجھے سونے دو" یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا اور سو گیا. ان کے دن اسی طرح گزرنے لگے. دن میں عادل سوتا اور گھر کے کام کرتا اور شام میں وہ چدائی کرتے جبکہ رات وہ صرف سوتے رہتے کیونکہ میرب نے صبح کالج جانا ہوتا تھا. عادل سویرا کے ساتھ اسی طرح رہنے لگا اور ان کے درمیان سرد جنگ جاری رہی. عادل میرب کو دن میں تین تین چار چار دفعہ چودتا. اس چدائی کا نتیجہ پہلے مہینے ہی آگیا اور میرب کو الٹی آگئی. یہ خبر عادل کے لیے ہر خوشی سے بڑھ کر تھی. گع کہ.میرب نے اسے گھر میں بتانے کو کہا لیکن عادل نے کسی کو نہ بتایا کیونکہ وہ کسی ایسے کو یہ نہیں بتانا چاہتا تھا جو یہ سن کر خوش نہ ہو. عادل کی اس سردمہری کو گھروالوں نے بھی محسوس کر لیا. طاہرہ نے جب سختی سے پوچھا تو سویرا نے سب بتا دیا. طاہرہ آخر ماں تھی اس لیے وہ بیٹی کا دکھ دیکھ کر اس کے کیے سارے کرتوت بھول گئی. اس نے اپنے بھائی سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سویرا کو یہی موقع ایسا لگا جب وہ اپنی ماں کے سامنے نمبر بنا سکتی تھی چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہاکہ وہ اب خاندان توڑنے والی کوئی حرکت نہیں چاہتی اور اس کے نصیب میں عادل تھا تو وہ اس کو مل گیا. طاہرہ نے پھر بھی اپنے بھائی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا.طاہرہ نے کہا" میں نے اپنی بیٹی کی شادی آپ کے بیٹے کے ساتھ اس یقین کے ساتھ کی کہ آپ میری بیٹی کی حفاظت کریں گے کیونکہ وہ آپ کی بھانجی بھی ہے اور اس کی زندگی آپ کے چھوٹے بیٹے نے تباہ کر دی جسے آپ اپنا بیٹا ہونے سے انکار کرتے ہیں لیکن وہ آپ کا بیٹا تھا اس وقت جب اس نے یہ سب میری بیٹی کے ساتھ کیا" چوہدری حیدر نے کہا، "اب کیا مسئلہ ہے" انہوں نے ان کو سب کچھ بتایا اور کہا، "میں نے اپنی بیٹی کے لیے سوتن کوقبول کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارا بیٹا میری بیٹی کی طرف توجہ نہیں دے سکتا اور وہ تمہارے گھر میں ایک بے جان چیز کی طرح پڑی رہے گی" چوہدری حیدر نے کہا "آپا دیکھیں میں نے وہ سب کچھ کر دیا جو میں آپ کی بیٹی کی حفاظت کے لیے کر سکتا تھا، آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں میرب سے کتنی محبت کرتا ہوں لیکن پھر بھی میں نے خرچ کرنے سے انکار کر دیا میری جائیداد کا ایک روپیہ بھی اس پراور اسی لیے عادل میری جائیداد سے کچھ بھی استعمال کیے بغیر کچھ کمانے کے لیے ایک الگ کاروبار کر رہا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ شاید میرب نے اسے میری جائیداد سے کوئی رقم استعمال کرنے سے انکار کر دیا ہو گا۔ عادل آتا ہے اور مناسب وقت دیتا ہے سویرا کو بھی پھر اب مسئلہ کیا ہے" انہوں نے کہا، "سویرا کو صرف وقت ہی نہیں چاہیے بلکہ اسے اپنے شوہر کی توجہ چاہیے جو اسے نہیں مل رہی" انہوں نے کہا، "اب آپ کیا چاہتی ہو مجھ سے" انہوں نے کہا، "تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو بہتر ہے کہ اپنے بیٹے سے اس بارے میں پوچھو۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’آپا، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میرے بچوں نے مجھ سے بغاوت کی اور اگر میں نے ان پر کوئی زبردستی کی تو تباہی ہوگی ہم سب کی، اس لیے بہتر ہے۔ ہمیں درمیان میں کوئی راستہ نکالنا چاہیے" طاہرہ نے اپنے بھائی سے اتفاق کیا اور کہا، "میں کوئی راستہ سوچ کر کل تم سے ملوں گی، اس وقت تک عادل بھی گھر پہنچ جاۓ گا تاکہ ہم اس سے بھی بات کر سکیں۔"اگلے دن عادل اپنے گھر والوں کے سامنے تھا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ سماعت سویرا کی وجہ سے ہے کیونکہ اس نے شاید اس کے بارے میں شکایت کی ہو گی۔ طاہرہ نے کہا " کیسے ہو تم امید ہے سب اچھا ہو گا" عادل نے کہا" اب تک سب اچھا تھا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے سامنے اس سماعت کے بعد سب اچھا ہو گا یا نہیں" طاہرہ نے کہا" یہ کوئی عدالت ہے نہ ہم جج، میں نے تمہیں یہاں صرف بات کرنے کے لیے بلایا تھا اور تم ہمیشہ مجھ سے اپنی ساس جیسا سلوک کیوں کرتے ہو صرف اس لیے کہ میں تمہاری پھپھو بھی تو ہوں۔‘‘ عادل نے قدرے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے غلط رویے پر معذرت خواہ ہوں۔ لیکن آپ سمجھتی ہیں کہ پچھلے کچھ مہینے ہمارے درمیان بہت اچھے نہیں رہے اس لیے میرا رویہ آپ کے ساتھ بہت اچھا نہیں تھا۔" وہ مسکرا کر بولی، "ٹھیک ہے، میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے کیونکہ ہم سب نے تمہارےاور سویرا کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔ " یہ سن کر عادل حیران رہ گیا اور اس نے بھی خود کو ایک بہت بڑے صدمے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا۔ انہوں نے کہا، "ہم سب بزرگ چاہتے ہیں کہ تم اور سویرا مری جاؤ اور وہاں دو ہفتے گزارو کیونکہ تم نے ایک دن بھی اس گھر سے باہر نہیں گزارا اور یہ تمہارے اور تمہاری شادی کے لیے اچھا رہے گا۔" عادل نے گہرا سانس لیا۔ کوئی بہت بڑا بم نہیں تھا کیونکہ وہ اس سے بڑی چیز کی توقع کر رہا تھا لیکن اس نے سوچا کہ وہ اسے آسانی سے سنبھال سکتا ہے تو اس نے کہا، "یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور میں اس فیصلے کا احترام بھی کرتا ہوں لیکن میں اسے قبول نہیں کر سکتا" انہوں نے کہا۔ "تم اس فیصلے کو کیوں قبول نہیں کر سکتے، میں سمجھتی ہوں کہ تم میرب کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن میں اسے اس حویلی میں رہنے کی اجازت لے سکتی ہوں جب تک تم واپس نہیں آ جاتے۔" عادل نے کہا، "اس پیشکش کا شکریہ لیکن میں میرب کی اس حالت میں اس سے دور نہیں جا سکتا۔" تنزیلہ بھی وہیں بیٹھی تھی، وہ فوراً پریشان ہو گئی اور پوچھا، "تمہارا کیا مطلب ہے اس حالت سے، اسے کیا ہوا ہے؟" وہ مسکرا کر بولا، "فکر مت کریں، پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، وہ بچے کی توقع کر رہی ہے۔ اور اس کا تیسرا مہینہ ہے تو میں اسے اتنے دنوں تک کیسے چھوڑ سکتا ہوں" حالانکہ وہاں بیٹھے اکثر لوگ یہ خبر سن کر بہت خوش تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی خوشی کا اظہار نہیں کر رہا تھا۔ طاہرہ نے کہا، "تو اس کے لیے اس گھر میں رہنا بہتر ہوگا تاکہ اس کی ماں اس کا اچھی طرح خیال رکھ سکے۔" عادل نے کہا، "میری بھی یہی خواہش ہے لیکن آپ میرب کو اچھی طرح جانتی ہیں، اس کی ضد اور انا ویسی ہی ہے جیسی میرے اباجی اور زید کی ہے وہ کبھی یہاں آ کر یہاں نہیں رہے گی" نبیلہ نے اچانک کہا، "کیوں نہ میں اس کی ڈیلیوری تک اس کے پاس رہوں" چوہدری حیدر نے کہا، "حالانکہ میرا فیصلہ تھا کہ کوئی رشتہ نہیں ہوگا اس کے ساتھ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس خاندان کے بچے کو جنم دینے جا رہی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ نبیلہ جائے اور اس کی ڈیلیوری تک اس کے ساتھ رہے لیکن عادل کو سویرا کے ساتھ مری جانا ہو گا" حالانکہ عادل کا جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا سویرا کے ساتھ لیکن وہ اس حالت میں میرب کے قریب ایک عورت کی قدر سمجھ گیا تھا اور نبیلہ کی موجودگی اس کے اور میرب کے لیے نعمت کی طرح تھی اس لیے اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا، "ٹھیک ہے پھر مجھے مری جانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مجھے نبیلہ بھابی پر پورا بھروسہ ہے" عادل اور نبیلہ اسی شام میں شہر کے لیے روانہ ہو گئے۔ جہاں عادل نے اپنے گھر میں رات گزارنی تھی اور اسے 2 ہفتوں کے لیے واپس آنا تھا۔ میرب نبیلہ کو اپنے سامنے دیکھ کر زیادہ خوش ہوئی کیونکہ نبیلہ نہ صرف اس کی کزن اور بھابھی تھی بلکہ وہ اس کی بہت قریبی دوست بھی تھی۔ عادل نے اسے بغیر کچھ چھپائے سب کچھ بتا دیا اور وہ توقع کر رہا تھا کہ وہ ناراض ہو جائے گی کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ حمل کے دوران موڈ بدل جاتے ہیں لیکن اس نے کوئی غصہ نہیں دکھایا اور کہا" اچھا ہو گا اگر تم سویرا کے ساتھ کچھ وقت گزارو۔ یہ اور بھی بہتر ہے کہ نبیلہ بھابھی میرے ساتھ ہیں کیونکہ میں انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں اور میرے پاس ان سے کہنے اور پوچھنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں" اگلے دن عادل گھر واپس چلا گیا اور وہ اور سویرا اگلے دن مری کے لیے روانہ ہو گئے۔عادل اور سویرا مری پہنچے لیکن دوران سفر ان میں کوئی بات نہ ہوئی. سویرا سمجھ گئی تھی کہ عادل اس کے ساتھ صرف میرب کی خاطر آیا ہے. سویرا عادل کے ساتھ شادی کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ اس کے دل میں صرف زید تھا لیکن اس کی ماں نے اسے عادل سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا۔ شادی کی پہلی رات عادل کے رویے نے واضح کر دیا کہ اس نے میرب کو بالکل نہیں چھوڑا اور وہ سوچ رہا تھا کہ سویرا سے شادی اس کے لیے صرف ایک سزا ہے۔ لیکن پھر بھی سویرا کو میرب سے ہمدردی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ اس نے اس کے منگیتر کو چوری کر لیا ہے لیکن وہ میرب اور عادل کی شادی کی خبر سن کر ان سے نفرت کرنے لگی۔ سویرا بچپن سے ہی لاڈ پیار میں پلی بچی تھی اور اس نے کبھی کسی کے ساتھ کوئی چیز شیئر نہیں کی تھی لیکن اب اسے اپنے شوہر کو دوسری عورت کے ساتھ شیئر کرنا پڑ رہا تھا اور اس سے اس کا غصہ بڑھ گیا۔ اس نے سب کے سامنے ڈرامہ کرنے کا سوچا کہ عادل نے اسے تھپڑ مارا لیکن وہ بری طرح ناکام ہوا اور اسے لگا کہ وہ اپنے اردگرد موجود ہر شخص کی طرف سے منفی تاثرات سمیٹ رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ اس نے کسی کو نہیں بتایا کہ عادل نے اس کے بعد حقیقت میں اسے تھپڑ مارا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ صرف اس کے خلاف جائے گا۔ صرف ایک چیز جو اسے اس شادی میں روک رہی تھی وہ اس کی ماں تھی اور جب اسے لگا کہ اس کی ماں کو یقین ہے کہ سویرا کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا تو اس نے سمجھا کہ اس کی ماں اس شادی سے نکلنے کی کنجی ہوسکتی ہے لیکن اب جب اس نے اس نے اپنی ماں کے سامنے خیر سگالی حاصل کر لی تو اس لیے وہ چاہتی تھی کہ یہ نیک نامی باقی رہے اور اسی لیے اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ اس شادی کو ختم کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس شادی کو انجام تک پہنچائے گی لیکن وہ عادل کو طلاق دینے پر مجبور کر دے گی تاکہ وہ نہ صرف سب کے سامنے خیر سگالی کا خیال رکھے بلکہ اسے ہمدردی کا عنصر بھی ملے جو کہ اس کے خاندان میں بہت ضروری تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ مری وہ جگہ ہے جہاں اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا آسان تھا کیونکہ اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ایک اور رکاوٹ اس کی بہن نبیلہ تھی جو ہمیشہ اس پر نظر رکھتی تھی اور اسے کوئی غلط قدم اٹھانے نہیں دیتی تھی۔ مری میں ان کی رہائش شاکر علی کے ایک فوجی دوست کے کاٹیج میں تھی اور اس میں ضرورت کی ہر چیز تھی. اس کے علاوہ یہ کاٹیج تھوڑا ہٹ کے ضرور تھا لیکن ایک دم محفوظ تھا.رات کو عادل کمرے میں بیٹھا تھا جب سویرا نائٹی پہن کر اس کے سامنے آئی اور کریم لگانے لگی تاہم عادل نے کوئی ردعمل نہ دیا اور کتاب پڑھتا رہا. اس نے گاؤن اتارا اور اب وہ ایک شارٹ نائٹی میں اس کے ساتھ جا کر لیٹ گئی. عادل نے کوئی ردعمل نہ دیا تو اس نے کتاب پکڑ کر صوفے پر پھینک دی. عادل نے کہا "یہ کیا حرکت ہے" وہ غصے سے بولی "تم یہاں کتابیں پڑھنے آئے ہو. گھر تو کبھی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا تم نے" عادل نے کہا "گاؤں میں ادھر ادھر ہو کر تم.سے جان چھوٹ جاتی تھی لیکن یہاں وقت گزارنے کے لیے کچھ تو چاہیے" وہ بولی "اتنی ہی بری ہوں تو آزاد کردو نا مجھے" عادل نے کہا "مجھے تم نے نہیں بزرگوں کے فیصلے نے باندھ رکھا ہے ورنہ تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی" وہ بولی "تمہاری مردانگی بھی تمہاری طرح دوغلی ہے. اس کمینی کے لیے کچھ اور میرے لیے.............." چٹاخ کی آواز کے ساتھ ایک زوردار تھپڑ پڑا اور وہ رونے لگی اور بولی "ہاں ہاں مارو مجھے یہی تو ہے مردانگی" عادل غصے سے پھنکارتا ہوا باہر چلا گیا. سویرا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی. وہ جانتی تھی کہ.عادل اسے ہاتھ بھی نہیں لگائے گا. اس کی ماں کا حکم تھا کہ رات میں نائٹی پہنا کرے تا کہ عادل کا دل اس کی طرف مائل ہو لیکن اس کا عادل کو زچ کرنے کا منصونہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا. اچانک عادل کمرے میں آیا تو اس نے آنکھیں بھینچ لیں کیونکہ وہ ایک بار پھر پٹنے کو تیار تھی لیکن اچانک اس کی ٹانگیں کھلیں. اس نے آنکھیں کھول کر دیاکھا تو عادل اس کی ٹانگوں میں تھا. اسے احساس ہوا کہ اس کا منصوبہ الٹا پڑنے والا ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی. لن اس کی پھدی پہ لگا اور ایک تیز دھکے سے کچھ لن اس کی تنگ کنواری پھدی میں داخل ہو گیا. اس کی ایک چیخ نکل گئی "آآآآآہہہہہہہہہہہہ ااااممممییی ججییی" مگر عادل رحم کے موڈ میں نہیں تھا اور اس نے ایک اور زوردار دھکا مارا اور اس دفعہ لن پھدی کو چیرتا ہوا آدھا گھس گیا. وہ چلائی "آہہہہہہہہ ددددررردددد ہہہووووو رررررہہہااااااا ہہےےےے ررک جااااااؤ" وہ دھڑا "بہت شوق تھا نا مردانگی دیکھنے کا. لے دیکھ مردانگی" یہ کہتے ہوئے اس نے ایک اور زوردار دھکا مارا اور پورا لن اندر کردیا. وہ ایک بار پھر چلا اٹھی "آہہہہہہہہہ اممممییی ممممرررررررر گگگگئی آہہہہہہہہہہہ" مگر عادل پر تو جیسے جنون سوار تھا اور اس نے کسی قمسم کا توقف کیے بغیر ہی لن اند باہر کرنا شروع کردیا اور کمرے میں تھپ تھپ اور سویرا کی چیخیں گونجنے لگیں. وہ روتے ہوئے چلا رہی تھی "آآآآآہہہہہہہہہ رررررککک جااااااؤ دددرررردددددد ہہہوووووو رررہہہاااااااااا" مگر عادل دھکے لگانے میں مگن رہا اور سویرا کے لیے تھوڑا درد اس وقت کم ہوا جب اس کی پھدی کا پانی نکلا. عادل بھی ذیادہ دیر ایک کنواری پھدی کا مقابلہ نہ کرسکا اور آہہہہہ آہہہہہ کرتا ہوا اس کی پھدی کے اندر چھوٹا اور اسے پورا بھر دیا. کچھ دیر ہانپنے کے بعد اس نے لن نکالا اور ساتھ لیٹ گیا. سویرا نے ہلکا سا آتھ کر جب کرہتے ہوئے اپنی پھدی پہ نظر ڈالی تو دہل اٹھی کیونکہ وہاں ایک سوراخ تھا جو اس کے کنوارے پن کے خون سے لال تھا اور خون کے ساتھ ساتھ عادل کی منی اس کی پھدی سے باہر آرہی تھی. وہ روتے ہوئے بولی "آہہہہہ تتم نے ممجھے برباد کردیا زبردستی کر کے" عادل مسکرایا اور بولا "زبردستی کا پبوت کہاں ہے. تمہاری اس جگہ تو یہ ہونا ہی تھا جب اتنے بڑے ہتھیار نے اس میں گھسنا تھا تو. رہی بات برباد کرنے کی تو جاؤ جا کر اعلان کردو کہ میں نے یہ سب کر کے تمہیں برباد کردیا. میں تو لگا سونے" عادل کو نیند تو ویسے بھی آئی تھی لیکن کنواری پھدی کا افتتاح کرنے کی سرشاری نے ہی اسے مزید غنودگی میں مبتلا کردیا اور وہ لن دھوئے بغیر سو گیا جبکہ سویرا اس کے پاس بیٹھی رو رہی تھی اور خود کو کوس رہی تھی کہ کیوں اس نے نائٹی پہن کر عادل کی مردنگی کو للکارا. اب تک وہ عادل کی نام کی بیوی تھی لیکن پھدی کے افتتاح نے اس کو حقیقی بیوی بنادیا تھا. عادل اگلی صبح اٹھا تو دیکھا کہ سویرا اس کے قریب ویسے ہی بیڈ سے ٹیک لگائے سو رہی ہے. وہ باتھروم گیا اور لن دھویا تو دیکھا کی پھدی کی تنگی نے لن بھی کچھ جگہ سے چھیل دیا تھا تاہم اس نے اچھی طرح گرم پانی کا شاور لیا اور باہر آیا تو سویرا کی ٹانگوں میں لگے خون کو دیکھ کر اسے ترس بھی آیا کہ سویرا اسکی بیوی تھی اور اس کی یہ حالت اسی نے کی تھی. وہ بتھروم میں گیا اور گرم پانی لا کر سویرا کو لٹایا اور اس کی پھدی کو صاف کیا تو وہ صرف کسمسا سکی. عادل کمرے میں واپس آیا اور سویرا کو جگانے کی کوشش کی کیونکہ اس نے اس کے ساتھ ناشتہ کرنے کا سوچا تھا لیکن وہ دو تین آوازوں کے بعد بھی نہیں اٹھی اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو یہ جان کر چونک گیا کہ وہ جل رہی ہےبخار سے اور یہ بخار تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی اور اسی وجہ سے جب وہ اسے صاف کر رہا تھا تو وہ نہیں اٹھی۔ عادل بیک وقت پریشان بھی تھا اور شرمندہ بھی کیونکہ سویرا کی یہ حالت اس کی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ بخار کی وجہ نہ صرف سردی کا موسم تھا بلکہ وہ درد بھی تھا جسے وہ ساری رات سہتی رہی تھی اور وہ آرام سے سو رہا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر کو بلانے کا وقت تھا لیکن ڈاکٹر کو بلانے سے پہلے اسے اس کے کپڑے بدلنے پڑے۔ ڈاکٹر نے سویرا کو چیک کیا اور اسے ایک انجکشن دیا جبکہ اس نے عادل کو بھی کہا کہ وہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگاتا رہے۔ عادل نے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیا اور اس نے کچھ نہیں کھایا کیونکہ سویرا کے ٹینشن کی وجہ سے اس کی بھوک مٹ گئی تھی۔ اگرچہ وہ سویرا کو ناپسند کرتا تھا اور اس کا اس سے شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن حالات کے پیش نظر اسے اس سے شادی کرنی پڑی تھی اور اس کا ساری زندگی اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اب وہ اس کی ذمہ داری تھی اور جیسا کہ اس نے اپنی بیوی کے طور پر قبول کیا تھا تواس کا خیال رکھنا اس کا فرض تھا اور وہ اس وقت یہی کر رہا تھا۔ سویرا اٹھی اور اٹھنے کی کوشش کی جب اس نے عادل کو اپنے پیروں میں سوتا دیکھا۔ جب اس نے خود کو دیکھا تو وہ چونک گئی کیونکہ یہ ایک الگ لباس تھا اور وہ پٹیوں اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے ٹھنڈے پانی سے بھی سمجھ گئی تھی کہ عادل یہ پٹیاں اس کے ماتھے پر کر رہا تھا اور وہ بخار میں مبتلا ہے۔ اس کے منہ سے ایک کراہ نکلی جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور اس کراہ کی آواز سے عادل بیدار ہو گیا۔ اس نے اسے تھام کر لٹاتے ہوئے مسکرا کرکہا "لیٹی رہو. شکر ہے تمیں ہوش آگیا ورنہ میں تو سچ میں ڈر ہی گیا تھا" اس نے کہا "میرے کپڑے" اس نے کہا "میں نے بدلے ہیں. اب ظاہر ہے تمہیں نائٹی میں تو اس ڈاکٹر کے سامنے لا نہیں سکتا تھا" وہ حیرت سے بولی "اور یہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں" وہ بولا "اوہ یہ ابھی اور کرنی ہیں. دیکھو توشام بھی ہوگئی. مجھے پتا ہی نہیں چلا. اچھا تم یہاں لیٹو میں نیچے سے تمہارے لیے کچھ لے آؤں کھانے کو. تمہارے چکر میں کھایا تو میں مے بھی کچھ نہیں. اگر میں بیمار ہو گیا تو کون سنبھالے گا. اچھا تم لیٹو میں آتا ہوں" وہ گیا جبکہ سویرا حیران تھی کہ یہ کون ہے کیونکہ یہ وہ عادل تو نہیں تھا جسے ان چند ماہ میں اس نے دیکھا تھا. عادل تو غصے اور نفرت کی علامت تھا لیکن یہ کیا. یہاں تو صرف فکر اور پریشانی تھی. اس نے خود سے کہا "تو کیا ایک رات نے مجھے اس کے لیے اتنا اہم کر دیا. نہیں خواب نہ ہی دیکھوں اور اس کی ہمدردی کو کچھ اور نہ سمجھوں تو بہتر ہے" عادل جب واپس آیا تو سویرا کو بستر پر نہ پا کر چونک اٹھا. اس نے دیکھا سویرا ایک دیوار سے لگی دہشت ذدہ کھڑی سامنے کھڑکی پہ بندر کو دیکھ رہی تھی. عادل مسکرا اٹھا اور جیسے ہی وہ کھڑکی کی طرف بڑھا تو اچانک سویرا نے گرتے پڑتے اسے تھام کر کہا "نہیں. مت جاؤ. میں نہیں جانے دوں گی" عادل تو حیرت سے فوت ہونے کو تھا کہ یہ لڑکی جو سر سے پیر تک سراپا نفرت تھی وہ کیسے اسے روک رہی تھی. اس نے کہا "سویرا اسے بھگانے دو" لیکن وہ اس سے لپٹے ہوئے بولی "میں نہیں جانے دوں گی" عادل نے کہا "اچھا نہیں جاتا" اس نے سویرا کی آنکھوں میں نقاہت محسوس کی اوراسےبیڈ پر لے گیا. وہ اب تک ڈری ہوئی تھی. اس نے کہا "لیٹو یہاں" وہ جانے لگا تو وہ روک کر بولی "نہیں" وہ اب واقعی حیرت ذدہ تھا کیونکہ وہ اتنا انسان شناس تھا کہ ڈرامہ پکڑ سکتا تھا اور وہ.یہ.سمجھ گیا تھا کہ سویرا ڈرامہ نہیں کر رہی. اس نے کہا "ارے بابا چھوڑو گی نہیں تو کھانا کیسے لاؤں گا" لیکن سویرا تو کسی ضدی بچے کی طرح اس سے چپکی رہی اور تب تک اسے نہ جانے دیا جب تک کہ وہ بندر کھڑکی سے چلا نہ گیا. عادل کھانا لایا اور سویرا کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھ کر اس نے خود اسے کھانا کھلایا. پھر خود کھایا اور دوائی بھی دی. ابھی وہ برتن سمیٹ کے واپس آیا ہی تھا کہ بندروں کی آوازیں آئیں اور سویرا پر خوف کا ایک.اور دورہ پڑا اور وہ عادل سے چپک گئی. عادل نے کہا "مجھے پٹیاں تو کرنے دو"وہ بولی "نہیں بس مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا میں مر جاؤں گی" عادل حیران ساتھا. وہ اس کے ساتھ لیٹ گیا اور وہ اس سے لپٹ کر سو گئی. صبح جب سویرا اٹھی تو وہ عادل سے لپٹی ہوئی تھی. بخار اتر گیا تھا اور نقاہت تو تھی پر اتنی نہیں. اس نے عادل کو دیکھا جو سکون سے سو رہا تھا اور دل ہی دل میں کہا "سویرا تو کہاں منزل ڈھونڈ رہی تھی اور کہاں ملی. عادل کاش میں آپ کا یہ پہلو پہلے ہی دیکھ لیتی" اس نے عادل کو چوما اور اٹھ گئی. عادل جاگ رہا تھا اور اس کی ساری حرکات دیکھ رہا تھا تاہم وہ خود کو سویا ہوا ظاہر کر رہا تھا. کچھ دیر بعد سویرا کی آواز آئی"اٹھیں ناشتہ کر لیں" عادل نے دیکھا تو وہ ناشتہ بنا لائی تھی. عادل نے کہا "تمہارا بخار......." وہ بات کاٹ کر بولی "اب میں بہت بہتر ہوں. نقاہت ہے لیکن میں ٹھیک ہوں" وہ اٹھا اور ناشتہ کرنے لگا اور دل ہی دل میں بولا "یار یہ میرب سے اور کسی چیز میں اچھی ہو نہ ہو کم از کم کھانا اس سے بہتر پکاتی ہے" میرب واقعی میں بہت اچھی کک نہیں تھی اور کھانا بس گزارے لائک بنا لیتی تھی.کھانے کے بعد اس نے صفائی کی اور دل ہی دل میں کہا "کتنا گند پھیلاتا ہے یہ. وہ اتنی صفائی پسند میرب اس کو جھیل کیسے لیتی ہے" وہ دونوں ایک دوسرے سے جھجک رہے تھے. سویرا نے دن میں کپڑے دھوۓ تھے وہ اب سوکھ گئے تھے اور ان میں اس رات والی نائٹی بھی تھی. اس نے کچھ سوچا اور وہ نائٹی پہن کر عادل کے ساتھ جا کر لیٹ گئی. عادل اس کی حرکات دیکھ رہا تھا تاہم وہ خاموش تھا. سویرا چپ چاپ لیٹی رہی. عادل نے اسے دیکھا تو نائٹی میں اس کا سانس لینے پر اوپر نیچے ہوتا بدن دیکھ کر عادل خود کو روک نہ پایا اور اس سے لپٹ گیا. اس نے چپ چاپ اپنا ٹراؤزر نیچے کیا اور لن نکال لیا. وہ اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا تو اس دفعہ اس نے ٹانگیں کھول دیں. عادل نے لن پھدی پہ رگڑا تو وہ کراہی "اہہہہہہہہ" عادل نے لن اندر دھکیلا اور آرام آرام سے اند کرنے لگا. سویرا بس کراہ رہی تھی. اچانک عادل نے زور کا دھکا مارا تو اس کے منہ سے نکلا "آہہہہہہہ اممییی ججیی" عادل کا لن پورا اندر جا چکا تھا. عادل نے اس کے ممے ننگے کردیے. اس کے گول ممے میرب سے بڑے تھے. میرب اس کے مقابلے میں کافی پتلی تھی. وہ آہستہ آہستہ اس کے بھرے مموں کو دبانے لگا اور چوسنے لگا جبکہ وہ آہیں بھر رہی تھی.عادل کی رفتار بڑھتی گئی جبکہ سویرا بھی آہیں بھرتے ہوئے گانڈ اٹھا اٹھا کر چد رہی تھی. اس کا جسم اکڑا اور اس کے منہ سے زوردار آہہہہہہہ نکلی اور پھی پانی برسانے لگی. عادل بھی اس کی گرمی کے آگے ذیادہ ٹک نہ پایا اور آہہہہہ کرتا ہوا اس کی پھدی میں فارغ ہو گیا.کچھ دیر بعد وہ اس کے ساتھ لیٹا تھا. سویرا نے کہا "عادل آپ مجھے خود سے الگ تو نہیں کریں گے" اس سوال پر عادل جزبز ہو گیا کیونکہ سوال اچانک اور انتہائی غیر متوقع تھا. وہ بولی "میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے شاید کبھی ایک اچھا مقام نہ دے پائیں تو محبت بہت بڑی چیز ہے. وہ میرب کا حق تھا سو اس کو مل گیا. لیکن کیا ہم ایسے ہی ماضی بھلا کر اچھے دوست نہیں بن سکتے. ان دو دنوں نے ہمیں ایک بات سمجھادی ہے کہ ہم.دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو نہ ہو کم از کم ایک دوسرے کی پرواہ ہے اور میرے لیے یہ بہت ذیادہ ہے" عادل نے کہا"جب تم حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہی ہو اور خود کو اور میرب کو کمپیر نہیں کر رہی اور اپنے فرائض مان رہی ہو تو میں پاگل نہیں کہ تمہارے جائز حقوق تم سے چھینوں" وہ ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی "آج سے ماضی کا ذکر بھول کر زندگی میں آگے بڑھتے ہیں. فرینڈز" اس نے اس کھیچا اور خود سے لپٹاتے ہوۓ کہا "میاں بیوی ایسے فریںڈز بنتے ہیں اور وی بھی پکے والے" وہ دونوں مسکرانے لگے اور سویرا نے شرما کر منہ عادل کے سینے میں چھپا لیا.
              جاری ہے............​
              Ye to dill jeet liya dono ne

              Comment


              • میرے پاس الفاظ نہیں ہے بیان کرنے کو کیا کمال کا لھک رہے ہو واہ ایک کے بعد ایک زبردست

                Comment


                • لاجواب تحریر بہترین کہانی مزہ آگیا یار

                  Comment


                  • زید. صاحب جس رفتار سے جا رھے ھیں اس سے تو محب کی امی بھی نہیں بچنی چاھیئے

                    Comment


                    • Originally posted by ara View Post
                      زید. صاحب جس رفتار سے جا رھے ھیں اس سے تو محب کی امی بھی نہیں بچنی چاھیئے
                      میں تو کہتا ہوں کہ سویرا کی امی سے شروعات ہونی چاہئے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X