Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Boht kamal kahani ha her naye update zabardast hoti ha

    Comment


    • بہت اچھے کمال کی سٹوری ہے

      Comment


      • زبردست مزا آگیا. ایسے لگتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے فلم چل رہی ہے.

        Comment


        • بہت گرم اور مزیدار کہانی ہے جیو بھائی

          Comment


          • بہت خوب لگے رہو اچھی جا رھی ھے

            Comment


            • wah janab wah.kamal ki update thi.bohat zabardast.maza aa gya.bohat bohat shukriya

              Comment


              • achi story hai

                Comment


                • ایک زبردست اپ ڈیٹ... پلاٹ شاندار ہے... اگلی اپڈیٹ کا بے صبری سے انتظار ہے۔

                  Comment


                  • ے اور پلاٹ اچھا ھےبہت عمدہ سٹوری ھ

                    Comment


                    • 13
                      وہ میجر سکھبیر سنگھ کا گھر تھا. اس نے چونک کر خود کلامی کی " وہ عورت اس میجر کی بیوی تو نہیں ہو سکتی. وہ تو اچھی خاصی نوجوان عورت تھی. بیوی نہیں تو بہن. سالا چکر کیا ہے یہ" زید نے گھر آکر ساری صورتحال سے جین کو مطلع کیا تو وہ بولی "اب ہم کیا کریں گے" زید نے کہا "آج بھی ویسے ہی چلنے دو. کل اگر میں گیا تو تم ہمارا پیچھا کرو گی اور دیکھو گی کہ اصل کہانی کیا ہے" اس نے اثبات میں سر ہلا دیا. رات جب زید بیلا لے ساتھ گیا تو وہ چونک اٹھا کیونکہ یہ گھر مختلف تھا. آج بیلا نے اسے پٹی نہین ہٹانے دی اور زید کو اندازہ ہوگیا کہ کمرے میں بیلا اکیلی نہیں اور کم از کم تین سے چار لوگ موجود ہیں. زید نے اندازے سے عورت کو ٹٹولا تع چونک اٹھا. اس کے ممے کل والی عورت کی نسبت بڑے اور سڈول تھے. زید نے اندازہ لگایا کہ اس عورت کا جسم کسی تیس پینتیس سال کی عورت کا تھا اور اس کے منہ میں بھی یقیناُ کپڑا ٹھونسا ہوا تھا. زید نے جب لن اس عورت کی پھدی میں گھسایا تو اسے اندازہ ہوا کہ کھلی پھدی ہے اور شروع کے چند دھکوں کے بعد زید کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ لن آرام سے اندر باہر ہو رہا ہے. زہد نے اس عورت کو جم.کر چودا اور اس کا بھی تین دفعہ پانی نکلوا کر ہی اپنا پانی چھوڑا. بیلا اسے واپس چھوڑ گئی اور کچھ پیسے بھی دے گئی. جین جاگ رہی تھی. زید نے آکر جب نقشہ بنایا تو یہ میجر سکھبیر کے گھر سے مختلف سمت میں تھا. جین نے کہا. "یہ کھیل آخر ہے کیا اور تم مشن سے ہٹ کر ان عورتوں کی چوتوں میں کیوں گھسے ہوۓ ہو" زید نے کہا "میری جان مجھے لگتا ہے کہ یہ ہی وہ بند دروازہ ہے جو کھلے گا" وہ بولی "اور ایسا کیوں لگتا ہے" وہ بولا "اس کو سکستھ سینس یعنی چھٹی حس کہتے ہیں اور میری یہ حس ہمیشہ سچ ہی بولتی ہے" وہ نخوت سے بولی "اونہہ" زید نے شوخی سے کہا "ویسے میری چھٹی حس ایک اور بات بھی بولتی ہے" وہ بولی "وہ کیا" زید نے کہا "یہی کہ میری سرلا اپنے پریم کا پریم انگ اور پریم رس مانگ رہی" یہ کہتے ہوۓ اس نے دھوتی کھولی اور جین کے اوپر آتے ہوۓ اس کی ساڑھی اٹھادی اور لن گیلی پھدی پہ رکھ کر دھکا مارا تو وہ کراہ کر بولی "آآآآآہہہہہہہہہہہہ پپرررررررییمممم ترررررررررسس گئی تھیی تتتییرررررررررررےےےےےےےےے لللوووڑڑڑےےےےےےے کےےےےے لیےےے ااااااااااہہہہہہہہہہہ" زید نے دھکا مارتے ہوۓ اس کا بلاؤز کھول دیا اور ممے دباتے ہوۓ بولا "ہاۓ میری سرلا. اس لوڑے پہ پہلا حق تیرا ہی ہے" یہ کہتے ہوۓ وہ اسے چودنے لگا اور وہ بھی کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی "آآآآووووہہہہہہہہہ چچچوووووددددددددد اااااپپپنننہییییی ببییوووووووووییی ککووووووووووووو چچووووووددددددددد" زید کا لن مسلسل اندر باہر ہوتا رہا یہاں تک کہ جین کے منہ سے زوردار اووہہہہہہ نکلا اور اس کی پھدی پانی برسانے لگی. زید نے ہانپتی جین کو ایسے ہی اپنے اوپر کر لیا. جین اس کے اوپر لیٹ گئی اور ہانپتے ہوۓ بولی "اااااووووووممم آآآآجج کیسےےےے ممییرررررااااا خیاااااااال آگیااااااا" زید نے اسے چومتے ہوۓ کہا "تم بھولی کب تھیں" وہ مسکرائی اور اس کے بال سہلاتے ہوۓ بولی "کاش میں سچ میں تمہاری پتنی ہوتی" زید نے کہا "لیکن تم جانتی ہو یہ ممکن نہیں ہے" وہ بولی "ہاں ممکن تو نہیں ہے لیکن سوچنے کے کونسا پیسے لگتے اچھا یہ چھوڑو اور آآآؤیہہہہہہہہہ " زید نے نیچے سے دھکا مادتے ہوۓ کہا "یہ کیوں بھول گئی کہ ابھی بھی کھڑا لن ہے چوت میں" وہ بھی اچھلنے لگی اور اچھلتے ہوۓ بولی "پپتتتیییی دددددددددییووووووووو آآآآآآپپپ تتھککک ججااااااااؤؤؤ گگےےےےےےےےے اااااتتتتنننییییی چچچدددددداااااااااائییی ککررررر کککررررررر ککےےےے" زید نے اس کا مما منہ سے نکالا جو وہ چوس رہا تھا اور کہا "پتنی جی. آج دکھشا اور نرملا نے چھٹی کی ہے اس لیے آج میں آپ کو جم کر ٹھنڈا کروں گا" اور پھر زید نے ایسا ہی کیا اور جین کو رات میں اتنا چودا کہ صبح اس سے اٹھا نہیں جا ریا تھا. زید نے رات دو بار اپنا پانی نکالا اور دونوں بار جین کو بھر دیا. اگلے روز دکھشا نے الٹی کردی یعنی وہ پریگننٹ ہوگئی. اب دکھشا کی پھدی کا دروازہ بند ہو گیا تاہم نرملا اسے جب دل کرتا بلا لیتی. ایک ہفتے تک یہ سب چلتا رہا تو اب جین نے احتیاطُ زید کا پیچھا کرنا شروع کیا اور دو تین راتیں پیچھا کرنے کے بعد اس نے زید سے کہا "وہاں بیلا کے علاوہ چار عورتیں اور ہوتی ہیں. ایک تو میجر سکھبیر کی بیوی تیجو ہے. کل رات تم اسی پہ چڑھے ہوۓ تھے. باقی تین کا پتا لگانا ہے. ایک شاید اسی گھر میں رہتی ہے جس میں آج تم کو بیلا لے کر گئی تھی اور وہ کسی سویلین کا ہے لیکن کس کا یہ نہیں پتا" زید نے کہا "ہے کونسی" وہ بولی "ارے وہی جس کو تم نے آج چودا ہے" وہ بولا لیکن یہ تین چار گھروں میں لے کر جاتیں مجھے" وہ بولی "فکر نہ کرو کل تک سب پتا کر کے بتادوں گی لیکن فی الحال مجھے ٹھنڈا کرو قسم سے اس عورت کو چدتے دیکھ چوت پنیا گئی ہے" زید مسکرایا اور دھوتی کھول کر جین پر چڑھ گیا. جین نے وعدے کے مطابق اگلے روز ان تمام گھروں کا سروے کیا اور رات کو جب زید واپس آیا اور اس پر چڑھا ہوا تھا تو وہ چدتے چدتے بولی " ااوووووووہہہہہہہہہہ ااانننن مممیییں ااایییک ککککیییپپٹن وووششرررررااااامممم ککیی پپپتتننی ککییرررتتننا ہہہہہےےےے اااوورر دددوووسسسررررررررریییی کککیییپپٹٹننن سسسوووررررررببھ ککککییی پپپتتنننیییی اااااججججووووللللاااا ہہہہہہہےےےےےےےے" زید نے دھکے مارتے ہوۓ کہا "ابھی چدائی پہ توجہ دو بعد میں یہ ڈسکس کریں گے" یہ کہتے ہوۓ وہ اسے چودتا رہا. فارغ ہونے کے بعد اس نے کہا "ہاں اب بولو" اس نے کہا "پوری ریکی کی ہے میں نے. تم سے سیکس تو بس یہ سویلین کی بیوی اور وہ تیجو ہی کرتی ہیں جبکہ یہ دونوں وہاں صرف سیکس دیکھ کر انگلی کرتی ہیں" زید نے ہہممممم کہا اور کچھ سوچ کر بولا "مجھے ناجانے کیوں یہ لگ رہا ہے کہ یہ سویلین کی بیوی ہی وہ چابی ہے جو ہمارے مشن کا تالا کھولے گی. تم ایک کام کرنا پیچھا کرنا اور جس دن یہ مجھے کسی اور کے گھر لے کر جائیں تو اس کے گھر کی تلاشی لینا تا کہ اس کا اور اس کے پتی دیو کا حدود اربا تو سمجھ آۓ ذرا پھر باقی کی کاروائی کریں گے" وہ بولی "ٹھیک ہے" زید کچھ اور بھی سوچ چکا تھا. اگلے روز وہ نرملا کے پاس بھی نہیں گیا اور ان تمام گھروں کی ریکی کی.اس نے اندازہ لگایا کہ کیرتنا پچیس سال سے ذیادہ کی ایک عورت تھی جبکہ اجولا بھی اسی عمر کی تھی. ان میں سے کیرتنا کا ایک بچہ بھی تھا. اب زید ان کو سزا دینا چاہتا تھا. اس نے اس رات بیلا کو منع کردیا کہ وہ.تھک گیا ہے. دراصل اس نے اسی رات ایکشن کا فیصلہ کیا تھا. وہ سب سے پہلے کیرتنا کے گھر میں گھسا. اس نے کیرتنا کو ایک رومال سنگھایا اور وہ بے ہوش ہو گئی. یہ بے ہوشی کی دوا ایک جڑی بوٹی سے بنتی تھی. ٹریننگ کے دوران ان کو نامساعدہ حالات سے نمٹنے کے لیے جن چیزوں کے بارے میں سکھایا گیا ان میں ایک یہ جڑی بوٹی بھی تھی. زید کو اس لیے ذیادہ آسانی ہوئی کہ یہ بوٹی وہاں وافر مقدار میں تھی. اب زید نے اس کی نائٹی کے سٹریپ ہٹاۓ اور جنہی مما چوسا تو دودھ کا ذائقہ آتے ہی اس کے منہ سے نکلا "لعنت ہے یار. میں تو بھول ہی گیا کہ اس کا بچہ دودھ پیتا ہے. خیر اب پی لیا تو پی لیا" اس نے دودھ بھی پیا اور اس کے جسم سے کھیلنے کے بعد لن گھسا دیا. پھدی ذیادہ کھلی تو نہ تھی لیکن بچے کی وجہ سے ذیادہ تنگ بھی نہ تھی. وہ بس کسمسا سکی. زید نے جم کر اس کی پھدی چودی اور پانی اندر ہی چھوڑ دیا. زید وہاں سے گھر آیا اور چین کی نیند سویا. اس نے یہی کام بعد میں بھی کیا اور دودن بعد اجولا کو بھی چود دیا. آخر ان کی محنت رنگ لائی اور جین نے اس سویلین کے گھر سے گوہر نایاب حاصل کر لیا. وہ بولی "اس سویلین کا نام سنتوش کمار ہے. اور یہ ایک میزائل ایکسپرٹ ہے" زید نے چونک کر کہا "میزائل ایکسپرٹ" اس نے ہاں میں سر ہلایا تو زید نے کہا "تو یہ بہن کے لوڑے ڈیم کی آڑھ میں میزائل بیس بنا رہے تھے. ان کی ماں کو لن دوں. تم کوئی ثبوت بھی لائی ہو یا نہیں" اس نے چند کاغذات دکھاۓ تو زید نے کہا "ونڈرفل. اب مشن پورا کرتے ہیں" جین نے کہا "تمہیں کچھ اور بھی بتانا ہے" وہ بولا "ہاں بولو" وہ بولی "میرے پیٹ میں تمہارا بچہ ہے" زید نے چونک کر کہا "یہ کیا بول رہی ہو" وہ بولی "بولنا کیا ہے ہو گیا بس. مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ پروٹیکشن بھی لینی ہے" زید نے کہا "اب پھر" وہ بولی "اب پھر کیا مشن پورا کرتے ہیں تم اپنے راستے اور میں اپنے. بچہ تو یہ میں پیدا کروں گی چاہے نوکری چھوڑنی پڑے. تمہیں اس لیے بتایا کہ تمہیں پتہ ہو کہ یہ ہمارا بچہ ہے. باقی میرے عاشق بہت ہیں وہاں جہاں میں رہتی ہوں. کوئی کام کا مرغا پھنسا لوں گی اور دنیا کی نظر میں بچے کا وہی باپ ہو گا" زید نے کہا "جین وہ................" وہ نم آنکھوں سے اس سے لپٹ گئی اور بولی "پریم جی اپنی سرلا کو بس یاد رکھنا اتنا کافی ہے میرے لیے" زید مسکرا اٹھا. اب وہ ہفتے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسے ہفتے کی رات ایکشن لینا ہے اور اتوار کو بڑا دھماکہ ہو گا۔ اسے ڈیم کی جگہ پر دھماکے کے لیے دھماکہ خیز مواد کی ضرورت کا علم تھا اس لیے اس نے بھارتی فوج کے گولہ بارود کے ذخیرے سے دھماکہ خیز مواد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اس کے بارے میں جین کو بتایا اور جمعرات کی رات گولہ بارود کے ذخیرے پر حملہ کرنے کے لیے نکلا۔ یہ یا تو اس کی قسمت تھی یا قدرت اس پر احسان کر رہی تھی کہ جمعرات کی رات بارش ہو رہی تھی اور گولہ بارود کے ذخیرے پر صرف ایک گارڈ ڈیوٹی پر تھا۔ گارڈ اس کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس نے آسانی سے اپنی گھڑی کی سوئی سے گارڈ کو مار ڈالا تھا، اس نے شک کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے ایسا کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ گارڈ کی موت کو قدرتی موت سمجھا جاۓ گا اور پوسٹ مارٹم نہیں ہو گا۔ وہ اپنے ساتھ کافی دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ لے گیا اور ڈیم کی جگہ کے قریب چھپا دیا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ سب کچھ اس کے منصوبے کے مطابق ہوا اور گارڈ کی موت کو فطری موت سمجھا گیا اور رسمی تقریب کے بعد اس کی میت کو اس کے گھر روانہ کر دیا گیا۔ جمعے کی رات کو زید نے جین کو بہت پیار سے چودا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا دوبارہ ملنا مشکل ہے. اگلا دن ہفتے کا تھا. زید نرملا کے گھر تھا. یہ عورت اس جگہ کی عورتوں میں واحد تھی جس کی وہ دل سے عزت کرتا تھا. اس زوز نرملا نے اسے کچھ نہ کرنے دیا اور خود اس کے لن پہ سوار ہو کر چدائی کی. جب وہ فارغ ہوۓ تو زید نے اس سکے ممے سے کھیلتے ہوۓ کہا" میڈم جی آپ آج کچھ ذیادہ ہی جوش میں تھیں" وہ بولی "ہاں کیونکہ تم نے مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے اس عمر میں" زید نے کہا "میں سمجھا نہیں" وہ بولی "ارے پگلے تو نے صرف دکھشا کو ہی ماں نہیں بنایا بلکہ مجھے بھی بنا دیا ہے" وہ مسکرا کر بولا "اور کرنل صاحب" وہ بولی "ہاں تو ایک آدھ دفعہ انہوں نے بھی کیا تھا پر یہ بچہ تمہارا ہے" زید مسکرادیا. وہ رات کارروائی کی رات تھی، دونوں ڈیم کی جگہ کے قریب پہنچے اور دھماکہ کرنے کے لیے اسلحہ اور بارودی مواد نکال لیا۔ زید نے کہا، "جین، میرے پیچھے رہو اور صرف مجھے کور دو" اس نے کہا، "لیکن کیوں، میرا مطلب ہے کہ ہم دونوں اس مشن میں برابر ہیں" اس نے جواب دیا، "ہم برابر تھے لیکن اب تم زیادہ اہم ہو کیونکہ تمہارے اندر ایک اور زندگی پل رہی ہےاور میں اس زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔" وہ مسکرا کر بولی، "کیا تمہیں میرے اندر پل رہی اس زندگی کی اتنی فکر ہے" اس نے کہا، "مجھے نہیں معلوم شاید اس لیے کہ میں تمہارے اندر پلنے والی اس زندگی کے ابھرنے کی وجہ ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے تمہاری حفاظت کرنی ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ تم میرے پیچھے رہو۔" وہ مسکرا کر بولی، "جیسا کہ آپ حکم دیں جناب" زید مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے اپنی بندوق پر سائلنسر لگا رکھا تھا اور وہ گارڈز کی پوزیشن سے بھی واقف تھا۔ صرف 4 سے 5 آدمی اس کے راستے میں آئے اور اس نے ان سب کو مار کر ان کی لاشیں ڈیم کی سرنگوں میں چھپا دیں۔ اس کے بعد اس نے دھماکہ خیز مواد کو ان جگہوں پر رکھا جہاں وہ اسے پھٹنا چاہتا تھا اور دھماکے کے لیے ٹائمر لگا دیا۔ اس نے دھماکے کی شدت کا اندازہ لگایا تھا اور وہ جانتا تھا کہ ان دھماکوں سے علاقے کے آس پاس رہنے والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اب اس کے اگلے ہدف کا وقت تھا اور یہ ریسٹ ہاؤس تھا جہاں اس نے جا کر پارٹی میں شامل تمام افسران کو مار ڈالا اور ان افسران میں کیپٹن سوربھ اور کیپٹن وشرام بھی شامل تھے۔ اگرچہ اس کا ابتدائی ہدف صرف سنتوش کمار تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر وہ صرف اسے مار ڈالے گا تو اس سے اس کے ملک کی طرف شکوک پیدا ہوں گے اور اس کا اپنے ملک کی طرف کوئی شکوک پیدا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے اور جین نے اس سڑک کی طرف پیدل سفر کرنا شروع کیا جو اس علاقے سے 10 کلومیٹر دور تھی کیونکہ وہ سڑک سری نگر کی طرف جاتی تھی جہاں سے جین کو اپنے راستے پر جانا تھا جبکہ زید کو بارڈر کراس کرنا تھا۔ وہ 5 کلومیٹر چلنے کے بعد رک گئی اور بولی، "کیا ہم یہاں کچھ دیر آرام کر سکتے ہیں، مجھے پہلے 10 کلومیٹر تک چلنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن اب مجھے تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے شاید حمل کی وجہ سے" زید نے کہا، "ٹھیک ہے" اس نے کہا۔ "کیا میں کچھ پوچھ سکتی ہوں" اس نے صرف ہاں میں سر ہلایا۔ اس نے کہا، "یہ ڈیم کل تباہ ہو جائے گا لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کہ وہ باز نہیں آئیں گے اور وہ دوبارہ یہاں ڈیم بنانے کی کوشش کریں گے" وہ مسکرا کر بولا، "وہ ضرور نہیں رکیں گے لیکن تم یہ کیوں سوچتی ہو کہ ہم روکیں گے، جب بھی وہ ایسا کچھ کرنے کی کوشش کریں گے، مجھ جیسا کوئی گمنام سپاہی بارڈر کراس کر کے اسے دوبارہ تباہ کر دے گا کیونکہ یہی ہمارا مقدر ہے اور ہم کسی کو اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے۔‘‘ وہ صرف مسکرا دی. زید نے وہاں کچھ سفید پھول دیکھے تو اس نے ان پھولوں کا ایک دائرہ بنا کر پھولوں سے ہی پاکستان زندہ باد لکھ دیا. وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ پھول اسے ایک عجیب شناخت دینے والے ہیں ۔ وہ سڑک پر پہنچے اور سری نگر کے لیے ایک بس بھی حاصل کر لی۔ کالونی میں صبح ہوئی تو کرنل ڈوگرہ اور نرملا اپنے کمرے میں تھے. دونوں ننگے تھے اور کرنل ڈوگرہ جب بیدار ہوا تو نرملا کے بڑے نپل اس کو سینے میں چبھ رہے تھے. کرننل ڈوگرہ نے رات اس کو پوری طاقت سے چودا تھا اور دوبار اپنا پانی اس کی پھدی میں بہایا تھا. نرملا کی آنکھ اس وقت کھلی جب کرنل کا لن اس کی پھدی کے اندر باہر ہونے لگا. کرنل نے پورے زور سے چودنا شروع کردیا اور نرملا کراہنے لگی"ااہہہہہہہہہہہہ وووووکککککررررررمممممم کککیییپپپ فففکککنننگگگگگ مممیییی للللااااااائییکککککک ددددددددسسسسس اااااااہہہہہہہہہہہہہہہ ہہہہہوووووووو اااااااوووووہہہہہہ" کرنل نے نرملا کو جم کر چودا اور اس کی پھدی میں فارغ ہو گیا. نرملا کرنل ڈوگرہ کو اب بتانا چاہتی تھی کہ وہ پریگننٹ ہے. وہ اس بارے میں کچھ کہنے ہی والی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور دستک دینے کے انداز نے بتایا کہ جو شخص دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے وہ جلدی میں ہے۔ کرنل ڈوگرہ نے اٹھ کر اپنا انڈرویئر اور نائٹ گاؤن پہنا، وہ اپنے دروازے پر میجر سکھبیر سنگھ اور میجر راکیش راٹھی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اتوار کا دن تھا اور عام طور پر یہ سب بہت دیر سے جاگتے تھے اور ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ ان میں سے کوئی اتنی صبح کسی دوسرے افسر سے ملنے جاتا۔ اس نے کہا، "جی جنٹلمین کیا بات ہے" میجر سکھبیر نے کہا، "جناب ہمیں آپ کو پریشان کرنے کا بہت افسوس ہے لیکن مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ ہمیں آپ کو شامل کرنا پڑا" کرنل ڈوگرہ نے کہا، "کیا ہوا" میجر راٹھی نے جواب دیا، " جناب دراصل کسی نے افسروں کی پارٹی میں گھس کر سب کو مار ڈالا" کرنل ڈوگرہ یہ سن کر چونک گیا اور بولا "میجر کیا آپ ہوش میں ہیں" اس نے کہا "جناب کاش میں نشے میں ہوتا لیکن بدقسمتی سے جو بتا رہا ہوں بالکل وہی ہوا ہے. کسی نے ریسٹ ہاؤس کے گارڈز کو مار ڈالا اور پھر ریسٹ ہاؤس میں پارٹی کرنے والے تمام افسران کو بھی مار دیا" کرنل ڈوگرہ نے کہا، "آپ کا سب سے کیا مطلب ہے؟" اس نے کہا، "سر تمام سویلین افسران کیونکہ وہ سب پارٹی کر رہے تھے اور ہمارے سوربھ اور وشرام بھی ساتھ تھے" کرنل ڈوگرہ نے کہا، "تم دونوں یونیفارم پہن کر آؤ اور میں بھی یونیفارم پہنتا ہوں، میں نرملا کو جگا کر وشرام اور سوربھ کے گھر بھیج دوں گا اور آپ کو اپنی بیویوں کو بھی وہاں بھیجنا چاہیے، میں اور راکیش کریں گے جا کر ریسٹ ہاؤس چیک اور تم صرف یہ چیک کرو کہ اگر کوئی اس علاقے سے غائب ہے کیونکہ اگر ہمارے درمیان کسی نے ایسا کیا ہے تو وہ یہاں نہیں رکا ہو گا۔‘‘ ڈوگرہ واپس کمرے میں آیا اور نرملا کو صورتحال بتائی تو وہ بھی یہ سب سن کر چونک گئی. وہ کالونی جو ہفتے کی رات خوشی سے سوتی تھی اب سوگ کی جگہ بن چکی تھی۔ اہلکاروں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لے جایا گیا اور خواتین کالونی کے ہال میں جمع تھیں۔ نرملا اور دیگر خواتین مردہ افسروں کی بیویوں کو تسلی دے رہی تھیں۔ کرنل ڈوگرہ وہیں کھڑا تھا اور وہ سنتوش کمار کی بیوی کو بھی تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ سکھبیر اندر داخل ہوا اور بولا، "جناب، میں نے چیک کیا ہے کہ مرنے والوں کے علاوہ باقی سب لوگ موجود ہیں لیکن مالی پریم اور اس کی بیوی سرلا ان کے گھر میں موجود نہیں" اس سے پہلے کہ کرنل ڈوگرہ کچھ کہتے، زمین یوں ہلنے لگی جیسے ایک زلزلہ آیا ہو جو بہت عام تھا لیکن اس بار بڑی آواز آئی جیسے دھماکہ ہوا ہو۔ لوگ ابھی اندازہ لگا ہی رہے تھے کہ کیا ہوا جب لیفٹیننٹ ڈی سوزا دوڑتے ہوئے آئے اور کہا، ’’جناب، ڈیم کے مقام پر کئی دھماکے ہوئے ہیں اور جگہ پوری طرح تباہ ہو گئی ہے‘‘۔ کرنل ڈوگرہ نے جھٹکا کھاتے ہوۓ کہا "لعنت ہو. وہ پریم اور سرلا کہاں ہیں ڈھونڈو ان کو" فوجی عجلت میں بھاگے تا کہ پریم اور سرلا کو ڈھونڈیں جبکہ پریم سے چدنے والی عورتوں کے دماغوں میں آندھیاں چل رہی تھیں. نرملا خود کو کوس رہی تھی کہ وہ لن کی طلب میں اتنی اندھی ہوگئی کہ اس کے مسلمان ہونے کے اتنے بڑے ثبوت کو نظر انداز کر گئی جبکہ امرتا, تیجو. کیرتنا اور اجولا کو ابھی الٹیاں کرنی تھیں. زید اس کالونی کی سات عورتوں کو پیٹ سے کر گیا تھا جب میں بیلا بھی شامل تھی. زید ان کی پہنچ سے بہت دور سری نگر پہنچ چکا تھا اور اب جین کو اسے دوسرے ایجنٹ کے حوالے کرنا تھا جو بس اڈے پہ ہی ٹھیلا لگاتا تھا. بس سے اتر کر وہ اس ایجبٹ کے ٹھیلے پر گۓ تو اس نے کوڈز کے تبادلے کے بعد کہا "کل کشمیریوں نے بڑی کاروائی کی ہے. بارڈر پر ہائی الرٹ ہے. ان حالات میں بارڈر پار نہیں ہو سکتا"زید نے کہا "اور ہم نے جو کیا ہے اس کی ان کو جب خبر ہوگی تو وہ کتوں کی طرح میری بو سونگھیں گے" اس نے کہا "یہاں چھپے تو مارے جاؤ گے" چین نے کہا "امرتسر چلتے ہیں" زید نے کہا" پہلے تو یہ کپڑے بدلیں اور دوسرا اب ہم الگ سفر کریں گے. اگر ہم الگ ہوگۓ تو ہی فائدہ ہے" جین نے اتفاق کیا. زید نے ریلوے سٹیشن جاکر جالندھر کے لہے سلیپر بک کیا اور ٹرین میں سوار ہو گیا. اس کی منزل بھارتی دارالحکومت دہلی تھا. اسکا حلیہ اب درمیانے درجے کے تاجروں والا تھا. یہ اس کی قسمت تھی کہ اس کی ٹرین نکلنے کے پانچ منٹ بعد ہی فوج نے سٹیشن گھیر لیا. لیکن وہ بے فکر تھا اب. جموں ایک خطرناک سٹیشن تھا تاہم یہاں بھی کچھ نہ ہوا. زید کے سلیپر میں اچانک ایک عورت داخل ہوئی. وہ پہناوے سے ہی کسی بڑے خاندان کی پنجابن لگ رہی تھی. زید خاموش بیٹھا رہا مگر پانی کی بوتل کے تبادلے پر ان کے درمیان رسمی علیک سلیک ہوئی اور اس عورت نے بتایا کہ اس کا نام پاروتی ہے اور اس کا شوہر فوج کے میس کا ٹھیکیدار ہے پٹیالہ میں. وہ تیس پینتیس سال کی خوبرو عورت تھی اور اس نے باتوں باتوں میں یہ بھی بتایا کہ اس کا شوہر اسے وقت نہیں دیتا اور وہ اکیلی سیر کرنے کشمیر گئی تھی اور اب اپنے میکے گڑ گاواں جا رہی تھی. زید نے اسے یہ کہانی چیپی کہ وہ اخروٹ کا تاجر ہے. پاروتی کی باتوں سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے سخت نالاں ہے. زید کو محسوس ہوا کہ تھوڑی کوشش کے بعد وہ اس عورت کو اپنی ڈھب پہ لا سکتا ہے. اس نے بھی یہ کہانی چلادی کہ بیوی سوشل ورکر ہے اور اسے وقت نہیں دیتی. وہ بولی "ویسے عورتیں ذیادہ پڑھی لکھی ہوں نا اوپر سے یہ ناس پٹا سوشل ورک کرتی ہوں تو بہت تنگ کرتی ہیں. آپ کو بھی ایسی چلتر ہی ملی تھی شادی کرنے کو" زید نے کہا "آپ بھی کمال کرتی ہیں پاروتی جی. ماں پاپا نے ڈھونڈی تھی میں نے تھوڑی اور یہ سب شادی کے بعد شروع ہوا" وہ بولی "تو آپ وقت نہیں دیتے ہوں گے" زید نے کہا "مجھ سے بچنے کے لیے ہی تو اس نے خود کو یہاں بزی کر لیا" وہ بولی "کیوں آپ سے پیار نہیں کرتی" وہ بولا "ایسی بات نہیں ہے, بہت پیار کرتی ہے لیکن میرے پیار کا ہی تو مسئلہ ہے" وہ بولی "کیا مطلب" زید نے کہا "وہ جی اب کیسے بتاؤں شرم آتی ہے" وہ حیرت سے بولی "ایسا کیا ہے جو شرم آتی ہے" وہ بولا "جی وہ..............وہ............ مجھے شرم آتی ہے کیسے بتاؤں" وہ بولی "ایسا کیا ہے کہ آپ کو شرم آتی ہے" زید نے شرمانے جی ایکٹنگ کی تو اس نے کہا "ارے اب بتا بھی دیں" وہ بولا "وہ........وہ ........ جی.....دراصل میرے........ پیار کرنے سے اس کو جو درد ہوتا وہ اس سے برداشت نہیں ہوتا اس لیے وہ مجھ سے دور بھاگتی" وہ کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی اور بولی "اس میں ایسا کیا ہے. درد تو ایک آدھ دفعہ ہر عورت کو ہی سہنا پڑتا تو اس کو کیا تکلیف,سہہ لے تھوڑا درد پھر مزہ ہی مزہ ہے" وہ شمانے کی ادا کاری کرتے ہوۓ بولا "وہ ....... آپ........ سمجھی نہیں........ دراصل وہ.......... اس کو ہر دفعہ ہی درد ہوتا تھا اس لیے اب بس کبھی دل کر جاۓ تو کرنے دیتی ہے ورنہ تکیہ ٹانگوں میں دے کہ سونا پڑتا ہے" وہ بولی "ارے تو ایسا کیا ہے جو ہر دفعہ اس کو درد ہوتا ہے. جب عادت پڑ جاۓ تو درد نہیں ہوتا. وہ کونسی انوکھی ہے جس کو ایویں درد ہوتا" زید نے کہا "وہ جی............. میرااا............. وہ ............ ذرا ......بڑا ہے" وہ چونک کر بولی "کیا مطلب کیا بڑا ہے, شرما تو عورتوں کی طرح رہے ہو, کھل کے بولو" وہ یکدم بولنے کی اداکاری کرتا ہوا بولا "جی ...... میرا ہتھیار...... بڑا ہے اور میں ٹائم بھی ذیادہ لگاتا" زید کی بات سن کر وہ متعجب ہو کر بولی "ہیں... لیکن ہتھیار تو جتنا بھی بڑا ہو عورت کو اور مزہ آتا ہے. تمہاری بیوی جھلی ہے پھر" زید نے کہا "اب کیا کہہ سکتا ہوں... اس بات پہ تو کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتا" وہ خاموش ہو گئی لیکن زید نے اس کی آنکھوں کی حوس کو محسوس کر لیا تھا. کچھ دیر بعد وہ بولی " ویسے ایک بات بتاؤ ہے کتنا بڑا جو تمہاری بیوی کی جان جاتی لیتے ہوۓ" زید نے کہا "ججی.........." وہ بولی "ہاں اتنے حیران کیوں ہو بتاؤ بھی کہ کتنا بڑا ہے" زید نے کہا "جی میں کیسے بتا سکتا ہوں بھلا, مجھے تو شرم آتی ہے" وہ بولی "اس میں شرم کی کیا بات ہے. ہتھیار تو سب مردوں کے ہی ہوتے ہیں" وہ جھجکنے کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ لن کے اصل سائز سے تھوڑا کم بتانے لگا تو وہ بولی "اتنا بڑا تو جسی گدھے کا ہی ہو سکتا. بندے کا کہاں اتنا بڑا ہوتا ہے" زید نے کہا "جی اب آپ کو نہیں یقین آتا تو میں کیا کہہ سکتا ہوں ویسے میرا اتنا ہی ہے" اس گفتگو سے گرم وہ دونوں ہی ہو رہے تھے. پینٹ میں زید کا لن تنگ کرنے لگا تھا تو پینٹی میں اس کی پھدی بھی گرم ہوکر پانی بہانے اور لن مانگنے لگی تھی. وہ خمار آلود آواز میں بولی "اچھا اگر اتنا ہی بڑا ہے تو دکھاؤ" زید نے کہا "ججی........." وہ بولی "ارے دکھاؤ بھی دو اب ایسی بھی کیا شرم میں عورت ہو کر نہیں شرما رہی تم آدمی ہو کر.........." زید نے دیکھا کہ اب اس کا صبر جواب دے رہا ہے تو اس نے اٹھ کر پینٹ نیچے کردی. لن پھنکارتا ہوا جب باہر آیا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی "ہے بھگوان. اینا وڈااااا" زید خامشی سے کھڑا رہا. اچانک اس نے ہاتھ میں پکڑا تو لن نے دو جھٹکے کھاۓ. وہ بولی "ہاۓ یہ تو اصلی ہے" زید دل ہی دل میں مسکرا اٹھا. وہ آہستہ آہستہ لن پر ہاتھ چلانے لگی. لن کی رگیں مزید تن گئیں. اس نے کچھ دیر ہاتھ چلانے کے بعد کہا "سنو تمہاری بیوی تم کو وقت نہیں دیتی اور میرا پتی مجھ کو اور اس کا تو اس سے آدھے سے بھی چھوٹا ہے. یہ جگہ بھی ٹھیک ہے. ایک کام کر نا آج مجھے اپنی پتنی سمجھ لے" زید نے حیرت کی اداکاری کرتے ہوۓ کہا "ججی.........." وہ بولی کچھ نہ اور زید کو دھکا دے کر سیٹ پر لٹا دیا. اس نے سلیپر کے دروازے کو اندر سے کنڈی لگا دی زید کا لن سیدھا کھڑا ہو گیا تھا. اس نے اپنی پینٹی اتاری اور اس کے اوپر بیٹھتے ہوۓ لن پہ پھدی رکھ دی اور آہستہ سے بیٹھی تو لن تھوڑا سا اندر گیا تو وہ کرا اٹھی "ہہہہہہہہہہاااااااااااۓےےےےےےے ااااااااااییییننننننناااااااااااا ووووووڈڈڈڈڈآاااااااااا آآآآآہہہہہہہہہہہہہ" زید نے اس کے چوتڑ پہ ہاتھ رکھا اور نیچے سے ہلکا سا دھکا مارا تو لن تھوڑا اور اندر گیا. وہ چلا اٹھی "ہہہہہہہہہہہاااااااااااا پپپپپھھھٹٹٹٹ گگگئییییی" وہ اتنے لن پر ہی اوپر نیچے ہونے لگی. زید اس کے چوتڑ مسل رہا تھا. اس کے چوتڑ تھے بھی کافی بڑے اور سڈول. وہ اوپر نیچے ہوتے ہوۓ مدحوش سی ہوگئی تو زید نے ایک اور دھکا مارا اور لن اور اندر ہوگیا تو وہ چیخی "اااااااہہہہہہہہہہہہ ببببہہہننن چچچووودددددد مممممیییییرررررییییی پپپھٹٹٹ گگگئیییی ااااوووووووہہہہہہہہہہہ" زید نے اس کے ننگے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور ناف میں انگلی کی تو اس کے جسم کو جھٹکے لگے اور وہ فارغ ہو کر زید پر گر پڑی. زید نے اسے اٹھا کر سیٹ پر لٹایا اور اٹھ کر اپنے کپڑے اتارے. پھر اس کو بھی مکمل ننگا کر کے لٹایا اور اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ کر چومنے لگا. وہ اس کے اوپر اس طرح لیٹا کہ لن پَھدی پہ رگڑنے لگا اور وہ بھی اس کو چومنے لگا. زید نیچے آیا اور اس کے ممے دباتے ہوۓ گردن کو چوما اور ممے دبانے لگا تو وہ کراہی "اااااہہہہہہہہہہہہ تتووووو ککککممممااااااللللل ہہہہہہہےےےےےےےے اااااااووووووہہہہہہہہہہہہہ" زید نے مموں کے درمیان کی وادی میں زبان پھیری تو اس کا جسم تڑپا اور پھدی کا پانی زید کی ٹانگوں کو بھگونے لگا.وہ کراہ کر بولی "ااااااہہہہہہہہہہہ ااااسسسس بببھھڑڑڑڑووووووےےےےےے سسسسےےےےے اااییییکککک بببااااااااارررررر پپپااااااانننیییییی نننہہہہیییییں ننننککااااااالللااااااااا ججااااااتتتاااا ااااووووررررر تتتوووووو نننےےےےےےے دددووووو بببااااارررر پپااااااانننییییی نننکککااااااااللللل دددددیییااااااااااااااا" زید نے اب اس کے ممے چوسنے شروع کر دیے اور ساتھ ہی انگلی پھدی پہ چلنے لگی. وہ جانتا تھا کہ امرتسر تک ان کے پاس کھلا ٹائم تھا اور وہ اسے آرام سے چود سکتا تھا. وہ اس بات سے بھی آگاہ تھا کہ اس کے بعد وہ اس عورت سے پھر کبھی ملنے والا نہیں تواس نے سوچا کہ اپنی اور اس کی کھل کے کسر نکالے اور ویسے بھی اس کی پھدی کی تنگی اور گرمی زید کو پسند آگئی تھی اور وہ اسے تسلی سے چودنا چاہتا تھا. دوسری طرف پاروتی کو سہاگ رات سے اب تک کبھی اتنا مزہ نہیں آیا تھا. زید نے ممے چوسنے کے بعد اپنا سفر پیٹ تک جاری رکھا لیکن اس کا پھدی پہ چلتا ہاتھ نہ رکا. وہ بولی "آاااااااااہہہہہہہہہہہہہ کککککییییوووووووں تتڑڑپپپاااااااااااا ررررررررہہہہہہہےےےےےےے ہہہہہہہہووووووووو" زید سمجھ گیا کہ وہ لن مانگ رہی ہے. اس نے اس کی ٹانگیں کھولیں اور درمیں میں آکر لن پھدی پہ رکھا اور ایک دھکے میں آدھا لن گھسا دیا. اس کے منہ سے آآآآہہہہہہہہہہ نکلی لیکن زید نے پیچھے ہو کر ایک جاندار دھکا مارا اور پورا لن اندر جا گھسا. وہ چلا اٹھی "ہہہہہہہااااااااااااااۓۓےےےےےےےے ممممممرررررررررررر گگگگئییییییی اااااااااااوووووووووہہہہہہہہہہہہہ مممممممااااااااااااررررررررر دددددیییییااااااااااا ظظظاااااااااالللللمممممممم اااااووووووہہہہہہہہہہہہہ پپپپھھھٹٹٹٹ گگگگئییییی اااااااااہہہہہہہہہہہہہ" زید کو چیخ کی اتنی فکر اس لیے نہیں تھی کہ وہ ٹرین کے شور اور سیٹی کی آواز میں کہیں دب گئی تھی. زید ممے چوستے ہوۓ آہستہ آہستہ چودنے لگا جبکہ پاروتی کی آہیں بلند ہو رہی تھیں. زید کا لن آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگا. اب وہ کرہتے ہوۓ کہہہ رہی تھی اوووووہہہہہہہہہہہ ححححؤؤؤلللللیییییی چچچوووددددددد تتتییییرررررراااااااااا للللننننن وووووڈڈڈڈاااااااااا اااااااایییییی اااااوووووہہہہہہہہہہ" زید لگا رہا اور اس کے ایک بار پانی نکلنے کے بعد اس نے دوسری بار پانی نکالنے کے ساتھ اپنا لن اس کی پھدی میں خالی کرنا شروع کردیا. زید اس پر گر کر ہانپنے لگا اور پھر لن نکال کر ساتھ چپک گیا. وہ جیسے یکدم ہوش میں آتے ہوۓ اٹھی اور اس کے منہ سے ااووووہہہہہہ نکلا. اس نے اپنی پھدی دیکھ کر کہا "آہہہہ ظالم آدمی تتم نے تو اس کو بھر ہی دیا. اتنا پانی چھوڑتے ہو" زید نے کہا "اب آپ نے کہا نہیں کہ اندر نکالوں یا باہر تو" وہ بولی "چل کوئی نا نکال بھی لیا تو کیا ہوا. کچھ نہیں یوتا. ویسے بھی دو بچے ہیں میرے ایک اور بھی ہوگیا تو کیا ہوگا" زید ہنس دیا. اس نے سامان سے اوپر لینے کے لیے چادر نکلوائی اور زید سے لپٹ کر سو گئی. ان کی آواز دروازے کے کھٹکھٹانے سے کھلی. پاروتی نے خمار آلود آواز میں کہا "کون ہے" باہر سے آواز آئی "جالندھر پولیس" زید نے ہلکا سا پردہ ہٹا کر دیکھا تو جالندھر ہی تھا. اس کی تو گانڈ پھٹ گئی لیکن پاروتی نے اٹھتے ہوۓ کہا "ان کی ماں کولن دوں سالوں نے نیند خراب کردی, ان کو میں دیکھتی یوں" اس نے چادر سے اپنا جسم ڈھانپا تاہم کندھے ننگے ہی رہے.اس نے زید پہ اپنی ساڑھی ڈالی اور ہلکا سا دروازہ کھول کر بولی "ہاں کون ہے اور کیا تکلیف ہے" باہر انسپیکٹر نے کہا "میڈم میں جالندھر پولیس سے انسپیکٹر ملہوترا. آپ یہاں کس کے ساتھ ہیں ہمیں تلاشی لینی ہے" وہ غصے سے بولی "کنجری کے بچے میں اپنے پتی کے ساتھ ہوں اور میں ننگی حالت میں تیری بیوی کے یار کے ساتھ ہوتی اور ایک تو نے ہماری نیند توڑی اوپر سے مجھے تلاشی کا بول رہا" انسپیکٹر اس قسم کی گفتگو کی توقع نہیں کررہا تھا. سلیپر ہونے کی وجہ سے اس نے نرم زبان میں بات کی تھی کیونکہ سلیپر میں ڈیادہ تر ہائی جینٹری کے لوگ ہی سفر کرتے تھے. وہ بولا "دیکھیے میڈم تمیز سے بات............." وہ دھاڑی "اوۓ تمیز ڈال اپنی گانڈ میں. تیرا کمشنر مہتہ کزن ہے میرا. تمہاری کلکٹر سمترا سنگھ کلاس فیلو ہے میری. کہہ دینا جا کے کہ کمپارٹمنٹ میں پاروتی شرما ملی تھی اور گالیاں دے رہی تھی. اب چل دفع ہو نہیں تو ایسے ہی جا کے فون کروں گی ان دونوں کو اور پھر تیرا جو ہونا تجھے پتا ہی ہے" انسپیکٹر یہ کا دم یہ دو نام سن کر ہی نکل گیا تھا اوپر سے عورت جس اعتماد سے گالیاں دے رہی تھی اس سے وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ.عام عورت نہیں اس لیے وہ سوری کرتا یوا نکل گیا. پاروتی نے واپس لیٹتے ہوۓ کہا "مادرچود نے موڈ کا ستیاناس کردیا" زید نے مما دبا کر کہا "موڈ ٹھیک کر دوں" وہ لجھا کر بولی "کرو نا پتی دیو" زید اس کے اوپر آگیا اور کچھ دیر میں اس کا لن پھر پاروتی کی پھدی میں اندر باہر ہو رہا تھا. سلیپر میں تھپ تھپ اور پاروتی کی کراہیں گونج رہی تھیں. زید نے اس جم کر چودا اور پھدی میں فارغ ہوگیا. گڑگانواں میں وہ اتر گئی اور زید نے ملنے کا وعدہ کیا جو کہ کبھی پورا نہیں ہونا تھا. وہ.دہلی پہنچ گیا اور اب اس کی منزل اپنے ایجنٹ کا گھر تھا جب سٹیشن پر اس کی نظر.................
                      جاری ہے................​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X