Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مشن دیکھتےہیںککامیاب ہوتا

    Comment





    • بہت زبردست ۔۔۔۔ دوسرامشن بھی کامیاب ہو گیا ۔۔۔گمنام کا ایک نام بھی مل گیا
      Last edited by Man moji; 01-28-2023, 09:01 AM.

      Comment


      • بہت عمدہ اور شہوت انگیز سٹوری ھے

        Comment


        • bohat zabrdast story.sex aur suspens aik sath.maza aa jata hai update parh ker.top forum ki top story.thanks

          Comment


          • وائٹ فلاور کے دھوکے میں پولیس کے ہاتھوں کون پکڑا گیا اس کے ہوش آنے کا انتظار رہے گا

            Comment


            • بہت خوب

              Comment


              • بہت اچھی اپڈیٹ ہے

                Comment


                • بہت اعلی

                  Comment


                  • kamal ki update hay khani nay pora apnay shar main lya howa hay

                    Comment


                    • 16
                      زید، جنید اور کامران رام ناتھ سہائے کے گودام کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے اروڑا خاندان کی مکمل تفصیلات موجود تھیں اور اب انہیں ڈیم کا ماسٹر پلان حاصل کرنے کے لیے اروڑا خاندان پر کام کرنا تھا۔ کامران نے کہا، "سر، آپ جانتے ہیں کہ میں ایسے منصوبوں کا حصہ بننا پسند نہیں کرتا جہاں لڑکیوں کی شمولیت ہو کیونکہ آپ کو میرے مزاج اور میری جھجک کا پتہ ہے پھر آپ مجھے اس مشن میں کیوں ڈال رہے ہیں" زید اور جنید ہنسنے لگے۔ کامران بہت اچھا ایجنٹ اور جاسوس تھا لیکن اس کی صرف ایک کمزوری تھی کہ وہ ان مشنوں میں ہمیشہ ہچکچاتا تھا جہاں لڑکیاں شامل ہوتی تھیں۔ کامران کا تعلق انتہائی مذہبی گھرانے سے تھا اور یہ اس کی پرورش تھی کہ اسے اپنے مشن میں لڑکیوں کی شمولیت پسند نہیں تھی۔ زید اسپیشل ٹریننگ سینٹر میں اس کا روم میٹ تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن چکے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کو ان کی اچھی بری عادتوں کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔ کامران کو اس بات کا علم تھا کہ زید کو لڑکیوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کی عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے میں کوئی جھجک نہیں تھی اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ زید کسی بھی عمر کی عورت کے ساتھ سونے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرے گا لیکن اسے اس میں کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ وہ وہ جانتا تھا کہ زید ایجنسی کے بہترین ایجنٹوں میں سے ایک تھا اور خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اس کی بری عادت کے باوجود اس نے اپنا مشن مؤثر طریقے سے مکمل کیا۔ کامران کو یہ بھی معلوم تھا کہ سینیرز کو اس عادت سے کوئی پریشانی نہیں ہے اور اب زید کی طرف سے خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے اس ہنر کو استعمال کرکے اتنا اہم مشن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اس اضافی خوبی کی تعریف بھی کی تھی۔ لیکن کامران کی کچھ حدود تھیں جو اس کے والدین نے طے کی تھیں اور اب یہ حدود خطرے میں پڑ گئی تھیں کیونکہ وہ اور زید ایک مشن پر مل کر کام کرنے والے تھے جس میں خواتین کا بہت زیادہ حصہ شامل تھا۔ زید بھی کامران کی ہچکچاہٹ کو سمجھتا تھا کیونکہ محب کے بعد کامران اس کا سب سے اچھا دوست تھا اور کامران نے اسے ان حدود کے بارے میں بتایا تھا جس میں اس کے والدین نے اسے باندھ رکھا تھا۔ جنید نے کہا ’’کامران تم سپاہی ہو اور تمہیں پی ایم اے میں بغیر پوچھے احکامات کو ماننا سکھایا گیا ہے پھر تم اس مشن میں شامل ہونے سے کیوں ہچکچا رہے ہو‘‘ زید نے مسکرا کر کہا ’’سر مجھے معلوم ہے کہ یہ کس ہچکچاہٹ کا سامنا کر رہا ہے۔ اور میرے پاس اس کا حل بھی ہے۔" یہ سن کر کامران کے پریشان چہرے پر مسکراہٹ واپس آگئی۔ جنید نے کہا، "آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ کو حل کی ضرورت کیوں ہے، میرا مطلب ہے کہ آپ دونوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ دونوں ہی عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں یا سیکس کریں" زید نے ہنستے ہوئے کہا، "سر، یہ اس لیے نہیں ہچکچاتا کہ ہم اس سے فلرٹ کرنے کو کہیں گے لیکن یہ ہچکچا رہا ہے کیونکہ یہ جانتا ہے کہ عورتیں ضرور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں گی" جنید نے حیرانی سے زید کی طرف دیکھا اور کہا "کیوں" زید نے ہنستے ہوئے کہا، "س، آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ سیکس کی بھوکی عورتیں ہوتی ہیں اور ہمارا مشن بھی ایسی ہی عورتوں سے بھرا ہو گا، اب آپ کامی اور اس کی شخصیت کو دیکھیں، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ اگر آپ اسے نوکر بننے کا کردار بھی دیں تب بھی سب سے خوبصورت عورت اس کی محبت میں گرفتار ہو جائے گی اس کی شخصیت کی وجہ سے" کامران نے ہاں میں سر ہلایا اور جنید نے تعریف میں کہا، "یہ حالات کا بہت اچھا تجزیہ تھا اور اب ہم دونوں وہ حل سننا پسند کریں گے جو آپ نے سوچا ہے" زید نے کہا، "تعریف کا شکریہ اور ان کا ایک آسان حل ہے کہ کامران خود کو برہم چاری کے طور پر پیش کرے گا۔" کامران نے کہا، "اب یہ کیا بلا ہے؟" زید نے مسکرا کر کہا، "میں تمہیں سمجھاتا ہوں، دیکھو، ہم جانتے ہیں کہ ہندو مختلف قسم کے بھگوانوں کو مانتے ہیں اور ان کے مذہب پر عمل کرنے کا طریقہ بھارت کے مختلف حصوں میں مختلف ہے۔ برہم چاری وہ شخص ہے جو ہنومان کا پیروکار ہے اور یہ لوگ عورتوں سے دور رہتے ہیں اور اپنی پوری زندگی شادی نہیں کرتے" کامران نے کہا، "تمہارا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی کے اس انداز کو نہیں بدل سکتے" زید نے ہنستے ہوئے کہا، "نہیں، بہت سے لوگ۔ ان میں سے اپنی زندگی اسی طرز عمل کے ساتھ گزارتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سے اپنے لیے موزوں خاتون ڈھونڈنے کے بعد اس انداز کو بدل دیتے ہیں اور پھر وہ بھی خوش ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی کے لیے یہ بہترین حل ہے اور تمہیں پڑھنا شروع کر دینا چاہیے کہ برہم چاری کیسے بنتے ہیں" جنید نے مسکرا کر کہا، "سچ کہوں زید، تمہارے پاس شیطان کا دماغ ہے، لیکن اب ہم مشن پر واپس آتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ کیسے تم اروڑہ فیملی کی زندگی میں داخل ہو گے" زید نے کہا، "جی سر" اس نے کہا، "زید، آپ کا نام جیون کمار اور کامران ، آپ کا نام جے رام ہوگا" دونوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ جنید نے کہا "ہم نے آپ کی تعلیم اور خاندانی زندگی کی پس منظر کی تاریخ بنائی ہے اور کل آپ کو تصویریں اور تعلیمی سرٹیفکیٹ مل جائیں گے، اس کے بعد آپ دہلی کے ایک اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو جائیں گے جو ہم نے آپ کے لیے بنائے گئے دستاویزات کی بنیاد پر کرائے پر لیا ہے۔ اور یہ دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ آپ این آر آئی شہری ہیں، آپ اس اپارٹمنٹ کے قریب پارک جانا شروع کر دیں گے اور آپ مارننگ واک اور جاگنگ کریں گے۔ومل اروڑا کی بیٹی نینا اروڑہ بھی اس پارک میں آتی ہیں کیونکہ وہ پارک ان کے گھر کے قریب ہے۔ لیکن آپ پہلے 3 سے 4 دن تک اس پر توجہ نہیں دیں گے، ہم ایسی صورتحال پیدا کریں گے کہ ایک چور نینا کا بیگ چھیننے کی کوشش کرے گا اور آپ وہ بیگ بچا لیں گے لیکن وہ چور آپ کو زخمی کر دے گا کیونکہ آپ جواب نہیں دیں گے اور آپ ایک بہت ہی معصوم اور قانون کی پاسداری کرنے والے این آر آئی کی طرح برتاؤ کریں گے اور آپ یہ بہانہ کریں گے کہ آپ نے پہلی بار ایسا کچھ دیکھا ہے۔یعنی خود کو ایک بکرے جیسا پیش کرنا ہے خاس طور پہ ومل اور رادھا کے سامنے کہ ان کی رال ٹپکنے لگے‘‘ دونوں نے پھر سر ہلایا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "نینا ایک قابل ڈاکٹر ہے اور اس کا پارک کے قریب ایک کلینک ہے جہاں وہ اپنی والدہ رادھا اروڑہ کے ساتھ کام کرتی ہے جو کہ خود ایک بہت مشہور ڈاکٹر ہیں اور یاد رہے این آر آئی دیکھ کے اس کی رال ٹپک جانا لازمی ہے۔ ایک بار جب آپ کو ماں اور بیٹی دونوں کی ہمدردی مل جائے گی تو آپ کے لیے اروڑہ خاندان کے گھر میں داخل ہونا آسان ہو جائے گا اور پھر آپ کو ان کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا پڑے گا تاکہ آپ تلاش کر سکیں ڈیم کا ماسٹر پلان کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ومل اروڑہ نے ماسٹر پلان کہاں رکھا ہے" زید نے مسکرا کر کہا "کیا ہم ماسٹر پلان ملنے کے بعد ومل اروڑہ کو ختم کرنے والے ہیں" جنید نے کہا "یہ بعد میں حالات پر منحصر ہے لیکن ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اس مشن میں خون نہ بہایا جائے۔‘‘ دونوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ زید اور کامران اس فلیٹ میں شفٹ ہو چکے تھے. زید نے لیٹتے ہوۓ کہا "اوۓ لائٹ بند کردے اور مجھے سونے دے" کامران نے کہا "اوہ یار یہ چند چیزیں ناد کرنے دے سالا اب برہمچاری بننا پڑے گا. یہ یاد کرنا بھی تو ایک عذاب ہے" یہ وہ دور تھا جب کتابیں ہی رہنمائی کا راستہ تھیں اور آج کے دور جیسا انٹرنیٹ نہیں تھا. زید نے کہا "ایڈا تو رہندا نئیں وڈا برہمچاری. کیا نام ہے اس کا. ہاں زینت عرف زینی" کامران نے کتاب پھینک کر اس پر جھپٹتے ہوۓ کہا "کمینے میری جاسوسی کب سے کرنے لگا" زید نے کہا "جب ٹریننگ کے شروع کے دنوں میں راتوں کو اس کا نام بڑبڑاتا تھا تو" کامران نے چونک کر کہا "کیا اب بھی......." زید نے اسے ہٹاتے ہوۓ کہا "نہیں ٹریننگ نے تیرا یہ فالٹ ڈیفالٹ کردیا" وہ ہنسا اور بولا "بکا نہ کر یار. تو نہیں جانتا......." زید نے کہا "جانتا ہوں. ایک دفعہ رائٹنگ ٹیبل پہ خط لکھ کہ کھلا چھوڑا تھا تو پڑھ لیا تھا میں نے. پتا ہے تیری پھپھی کی بیٹی ہے اور تیری اماں کا ازلی جھگڑا ہے تیری پھپھو سے" کامران نے کہا "لعنتی. کہاں کہاں تک پہنچا ہوا ہے تو" زید نے کہا "فکر نہ کر. اپنے گھر والوں سے مجھے ملا تو تیرا جگاڑ لگا لیتے کوئی. نہیں تو بھگا لیں گے اس کو" وہ ہنسا تو کامران نے کہا "او نہیں یار میں ایسا کچھ نہیں چاہتا. محبت کی ہے جرم تھوڑی اور تجھے گھر لے جانے کا مطلب تجھے نۓ شکار دینا ہے" زید نے کہا "او کامی تو نے مجھے بغیرت سمجھا ہے کیا" وہ گڑبڑا کر بولا "او نہیں یار یہ بات نہیں ہے. تجھے اندرون شہر کا نہیں پتا. ایک سے ایک پٹاخہ ہے وہاں. یہ تو شکر ہے میں فوج میں ہوں ورنہ حال تو میرا بھی آصف شاہ جیسا ہی ہے" زید ہنس پڑا اور بولا "چل جیسے تیری مرضی" وہ بولا "مشن سے واپسی پہ ملاتا نا تجھے اپنے گھروالوں سے. اب بعد میں تیرے لیے رشتے آۓ تو مجھ سے لڑیں نا کیونکہ تو ہے ہی ایسا گھبرو" وہ ہنس پڑا. کامران نے کہا "زید اس کو خط بھیجتا کیوں نہیں جسے لکھتا تھا" زید مسکرایا اور بولا"کیونکہ ہر جگہ جگاڑ نہیں چلتا اور وہ لڑکی مجھ جیسا فلرٹی نہیں کوئی اچھا سا بندہ ڈوزرو کرتی ہے اور تو نے کیا مجھے ناکام محبت یاد کرادی. ابھی دو چار دن میں اس نینا سے کرنی ہے نا کامیاب محبت" کامران ہنس پڑا لیکن اس نے زید کے اس موضوع بدلنے اور پھیکی ہنسی کو محسوس کیا اور کہا "زیدے دکھ بانٹنے سے کم ہوتا ہے. بتا نا کہ اس ہنستے ہوۓ چہرے کے پیچھے غم کیا ہے. موضوع مت بدل نا یار" زید نے کچھ سوچا اور اسے سب بتادیا. کامران یہ دم بخود سنتا رہا اور بولا "یار زیدے آج تک میرے دل میں تیری قدر تھی پر اب عزت بھی ہے. تو تو بہت بڑا آدمی ہے یار" وہ ہنسا اور بولا "او پھا مینو او فلرٹی ای رین دے" دونوں ہنس پڑے" نینا پارک میں جاگنگ کر رہی تھی کہ ایک چور اس کا پرس چھین کر بھاگنے لگا لیکن راستے میں ایک نوجوان آیا اور اس نے چور کو روک کر چور سے پرس چھین لیا لیکن چور نے نوجوان کو ٹکر مار کر زمین پر گرا دیا۔ . نینا نوجوان کی طرف بھاگی اور اسے اٹھنے میں مدد کی۔ اس نے پرس واپس کرتے ہوئے کہا، "آپ کا پرس" نینا نے نوجوان کے بازو پر خون دیکھا اور کہا، "اوہ آپ زخمی ہیں" ایک اور نوجوان بھاگتا ہوا ان کی طرف آیا اور زخمی نوجوان کو پکڑتے ہوئے کہا، "جیون، کیا ہوا تجھے" اس نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ جیون کے دوست نے کہا، "میں نے تم سے سو بار کہا ہے کہ لڑکی نام کی اس مخلوق سے دور رہو لیکن تم ہمیشہ لڑکیوں کی وجہ سے مصیبت میں پڑ جاتے ہو، اب چلو میرے ساتھ چلو میں تمہیں ہسپتال لے چلوں" نینا نے کہا، "معاف کرنا۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میرا کلینک یہاں سے چند فٹ کے فاصلے پر ہے تو آپ اسے وہاں کیوں نہیں لے جاتے۔" وہ دونوں مان گئے اور جیون کو نینا کے کلینک میں لے جایا گیا۔ ڈیوٹی پر نینا کی دوست ہی تھی. اس نے جیون کا زخم دیکھتے ہوۓ کہا "اتنی بڑی باڈی ہے اور اتنے نازک آدمی ہو اوپر سے انجیکشن سے ڈر رہے ہو" دوسرے نوجوان نے کہا "لے. لے لے انعام. اور مدد کر" نینا نے کہا "کیا کرتی ہو ان کو چوٹ میری وجہ سے آئی ہے. معف کیجیے یہ میری سہیلی ہے ڈاکٹر شوبھا جئے رام" دوسرے نوجوان نے کہا "چھی چھی چھی" وہ دونوں حیران ہوئیں تو جیون نے کہا "ارے اس کا وہ مطلب نہیں ہے. اس کا نام جۓ رام ہے اور یہ برہمچاری ہے" ان دونوں کے منہ سے اوہ نکل گیا.اتنے میں ایک خاتون کی آواز آئی، "کیا ہوا لڑکیو" نینا نے کہا، "یہ میری ماں ڈاکٹر رادھا اروڑہ ہیں اور ماں ایک چور نے میرا پرس چھیننے کی کوشش کی اور مسٹر جیون نے اس سے بچایا اور وہ اس کی وجہ سے زخمی ہو گئے، لہذا میں ان کو کلینک لے آئی اور یہ مسٹر جئے رام ہیں، یہ مسٹر جیون کے دوست ہیں" حالانکہ نینا اپنی ماں سے بات کر رہی تھی لیکن آسانی سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ وہ صرف موقع کی وجہ سے بات کر رہی تھی. رادھا نے کہا، "شکریہ بیٹا، تم کہاں رہتے ہو اور کیا کرتے ہو؟" جیون نے کہا، "آنٹی، ہم دونوں ابھی کچھ دن پہلے ہندوستان آئے ہیں۔ ہمارے والدین امریکہ میں سیٹل ہیں اور ہم این آر آئی شہری ہیں۔ میں ایک وکیل ہوں اور اس نے انگریزی میں ماسٹرز مکمل کر لیا ہے، میں زخمی ہو گیا کیونکہ یہ پہلی بار تھا جب میں نے اس طرح کی صورتحال کا سامنا کیا تھا" این آر آئی کا سن کر رادھا کی واقعی رال ٹپکنے لگی تھی. وہ دونوں پٹی کرواکر وہاں سے نکل گۓ.ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور وہ بہت جلد قریب آنے لگے. یہ جنید کا پلان تھا جو تیزی سے کام کررہا تھا اور زید اور کامران اس میں اب ایڈجسٹ ہونے لگے تھے. ایک رات ڈائننگ ٹیبل پر ومل نے کہا "نینا. اگر وہ لڑکا اچھا لگتا ہے تو بیٹا اسے گھر بلا لو اور اس سے کہو کہ اپنے ماتا پتا سے بات کرے" وہ بولی "ڈیڈ جب اس کا ٹائم آۓ گا تب دیکھ لیں گے لیکن اپنی وائف سے کہہ دیں کہ اس بار سوشیل کمار جیسی واردات دوبارہ نا ڈال دے" یہ کہہ کر وہ ٹیبل سے اٹھ گئی جبکہ رادھا سلگ کر رہ گئی. سوشیل کمار بھی ایک این آرآئی ہی تھا جسے نینا پسند کرتی تھی اور ان کا شادی کا ارادہ تھا. ایک رات جب نینا ایک پارٹی میں گئی تو وہ پارٹی کا سامان ہی گھر بھول گئی اور اسے واپس آنا پڑا لیکن اس کو اپنے ماں باپ کے کمرے سے آہوں کی آوازیں آئیں. اس کو لگا کہ اس کے ماں باپ چدائی میں مصروف ہیں لیکن تبھی اس کے کانوں میں اس کی ماں کی آواز آئی "ففففااااااااسسسسسسٹتتتتررررررررر سسسسسششششییییلللللللل فففکککککک فففففاااااااااسسسسسٹٹٹررررررررررر اااااااااااہہہہہہہہہہہہہہہہ" نینا نے جا کر دروازہ کھولا تو اندر اس کی ماں گھوڑی بنی ہوئی تھی اور اس کا منگیتر سشیل پیچھے سے اس کی ماں کو چود رہا تھا. نینا نے سشیل سے رشتہ توڑ دیا. اس کو یقین تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ دے گا لیکن اس کے باپ نے اس کی ماں کو معاف کردیا. رادھا نے اس کے جانے کے بعد کہا "ومل کب تک میں اس کی نفرت سہوں گی. دو سال ہوگۓ ہیں لیکن یہ اب تک نہیں بھولی" وہ بولا "اس لڑکے سے شادی ہو گہ تو بھول جاۓ گی" وہ بولی "کاش اس رات تم تھوڑا صبر کر لیتے" وہ بولا "کیا مطلب" وہ چڑ کر بولے "تمہیں ہی تو اس سشیل کی ماں کی لینے کی جلدی تھی اسی لیے مجھے یہاں بلانا پڑا اور نینا نے سب دیکھ لیا" وہ کھسیا سا گیا. اس وقت نینا بھی اپنے کمرے میں شوبھا سے فون پر بات کررہی تھی. شوبھا نے کہا "ارے یار اتنا پسند ہے تو بول دے نا اس کو" نینا نے کہا "ارے بول تو دوں پر وہ برہمچاری پیچھا چھوڑے تو ہے نا. جونک کی طرح تو چپکا رہتا ہے" شوبھا نے کہا "ارے یار ہے تو وہ بھی کافی ہینڈسم لیکن............ اچھا ایک کام کر تو کسی طرح جیون جی کو شملہ جانے کے لیے منا لے" وہ چونک کر بولی "ارے کیا فاعدہ. وہ بلا وہاں بھی ساتھ ہی ہو گی" شوبھا نے کہا "ارے فکر نہ کر میں ساتھ جاؤں گی اور اسے سنبھال لوں گی" وہ بولی "سچ میں" شوبھا نے کہا "ارے تو بس شملہ.چل باقی مجھ پے چھوڑ دے نا" وہ مان گئی.
                      زید اور کامران کو دہلی میں چھوڑ کر چلتے ہیں پنجاب کے اس گاؤں میں جس میں دیپ کا گھر تھا اور اب وہاں آصف اور فتح داد رہ رہے تھے. فتح داد گاؤں سے تھا اور اس کے لہے سکھ کا روپ دھارنا آسان تھا اس لیے وہ جانوروں کے بڑے میں رہ رہا تھا. آصف شرمیلا تھا اور اسے چھپانا آسان نہ تھا اس لیے اسے گھر کے اندر کے کمرے میں رکھا گیا تھا اور وہ صرف رات کو ہی چہل قدمی کے لیے صحن میں نکلتا تھا. آصف کو نیند نہیں آرہی تھی اور ویسے بھی وہ ایک جیل سے نکل کر دوسری جیل میں اکتایا اکتایا سا محسوس کر رہا تھا کیونکہ یہاں سہولیات تو تھیں پر وہ.خود کو قید ہی محسوس کررہا تھا. وہ باہر نکلا اور سوچا کہ فتح داد سے مل لے. گو کہ فتح داد اس کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن اس پراۓ دیس میں وہ اس کا واحد اپنا تھا اور آصف کو اس کی جھڑکیاں کھانے میں بھی کوئی پریشانی نہیں تھی. مگر باڑے میں تو ایک اور ہی منظر اس کا منتظر تھا. وہاں چارپائی پر فتح داد ایک عورت کو چودنے میں مصروف تھا. فتح داد اور اس عورت کی دھوتیاں زمین پے تھیں اور وو پوری طاقت سے اسے چود رہا تھا. آصف نے اس کو چھوڑا اور واپس آ کر صحن میں ٹہلنے لگا جب ایک کمرے سے آہوں کی آواز آئی. وہ متجسس ہو کر اندر جھانکنے پر مجبور ہو گیا. اندر پریما کی ٹانگیں کھلی تھیں اور دیپ اسے چودنے میں مصروف تھا. آصف یہ منظر دیکھنے میں اس قدر منہمک تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے ہے. کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ پلٹا اور ایک کرپان اس کی گردن پے آگئی. کرپان رکھنے والی دیپ کی بہن سکھشندر کور عرف سکھو تھی.مگر آصف کو دیکھ کر وہ خاموش ہو گئی اور کرپان ہٹالی. ڈر کے مارے آصف کو یہ احساس نہ ہوا تھا کہ دو عورتوں کو چدتے دیکھ کر اس کا لن کھڑا ہو گیا تھا. اور اس کے مڑنے سے اس کا لن سیدھا سکھو کی ٹانگوں کے بیچ پھدی پہ ٹکرایا تھا. سکھو اٹھائیس سال کی شادی شدہ عورت تھی اور اس کا شوہر ایک دن پہلے ہی جیل پکڑا گیا تھا تو وہ اپنے میکے آگئی تھی. یہ ڈاکؤوں کا خاندان تھا اور ان عورتوں کے لیے مردوں کے جیل کے دن ہی میکے کے ہوتے تھے. سکھو کی شادی کو آٹھ سال ہوۓ تھے. وہ دو تین بار پیٹ سے ہوئی بھی لیکن بچہ نہ ہوا. اس کا شوہر جیتا دارو پی کے اس کو جم کر چودتا تھا اور پکڑے جانے سے ایک رات قبل بھی اس نے اس کی لی تھی تاہم وہ دو سال سے حاملہ نہیں ہو رہی تھی. آصف کا لن لگنے سے پھدی سلگ اٹھی. آصف شرمندہ سا کمرے میں چلا گیا. کچھ دیر بعد سکھو آئی. اس کے ہاتھ میں دودھ تھا. اس نے دروازہ بند کیا اور اس کے پاس بیٹھ گئی. آصف نے تھوک نگلتے ہوۓ شرمندگی سے کہا "دیکھیں میں معافی چاہتا ہوں. وہ نیند آ نہیں رہی تھی اور ٹہلتے ٹہلتے وہ کراہنے کی آواز آئی تو خود کو روک نہیں پایا اور............." وہ مسکرائی اور بولی "کوئی نہ جی پروہنے او تسیں ویسے اک گل دسو. ویکھ کے مزہ آیا" وہ چونک اٹھا اور حیرت سے کہا "جی....." وہ بولی "او جی شرمانا چھڈو تے دسو نا. ویسے سودا تے واوا وڈا پالیا ہویا" آصف پنجابی بولتا نہیں تھا مگر سمجھتا تھا. وہ بولا "سودا...." وہ اس کے کھڑے لن پر ہلکا سا ہاتھ رکھ کر بولی "ایدی گل کر رئی" وہ حیران سا ہوا اور شرما گیا تو وہ بولی "اوۓ تیرے سودے ورگا سودا ہووے تے لوکی پھدی دی بو شکاری کتیاں وانگو سنگھدے پھردے تے اک زنانی تیرے کول آ کے ایہو جیاں گلاں آپ کردی پئی تے تینو شرماں چڑھیاں ہوئیاں" وہ چونک اٹھا. وہ اسے کھسیٹ کر ہاس کرتے ہوۓ بولی "اوۓ تیرے سودے دی رگڑ نے پھدی وچ اگ لا دیت اے تے ہن ٹھنڈی وی کر نا" آصف تو ابھی تک حیرت اور ڈر سے کانپ رہا تھا. وہ بولا "دیکھیں میں ایسا نہیں ہوں. پہلے بھی اسی طرح کے کام کی وجہ سے جیل جیسی جگہ پہنچ گیا" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. اس نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور خود سے لپٹاتے ہوۓ بولی "اوۓ روندا کیوں پیا. اچھا دس مینو کی ہویا سی تے رو تے نا. وہکھ ایڈا گبھرو انج روندا ویسے ای زہر لگدا" آصف کو کچھ دلاسا ملا تو اسنے ہچکیوں کے درمیان اپنی آپ بیتی بیان کی تو سکھو کو اس پر ترس آیا اور بولی "ویکھ تو اے گل میرے نال کر دتی کسے ہور نال نہ کریں. سانوں تے پتا کہ دیپا پاکستانیاں نال رلیا ہویا پر نا اے میرے ثوریاں نو پتا تے نہ دیپے تے بسنتی پہن دے ثوریاں نوں تے اوہ اوندے جاندے نے ایتھے. میں سمجھدی آں کے ساپ دا ڈسیاہویا رسی کولوں وی ڈردا. ڈاکو دی کڑی آں بچپن تو اج تک لوکاں دے بڑے رنگ ویکھے نے. سوں وڈے مہاراج دی تو پہلا ایں جو دلوں چنگا لگا. ہیگی تے ویاہی وری پر اوس کنجر نو وی ایس نمانی پھدی دی خاطر برداشت کردی نہیں تے اودے ورگا جنانی باز بندہ جنواں ای نہیں پسند مینو. تینو تے تیرے سودے نو ویکھ کے لگا سی کہ تھوڑا پیار مینو وی لبھ جاؤ گا. پر لگدا ای کے میرے نصیب وچ ہے نہیں. چل کوئی نا تیرا دل تے ہؤلا ہویا نا او جانے کوئی گل نہیں" وہ اٹھ کر جانے لگی تو آصف نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے واپس بٹھا کر بولا "تمہارا نام کیا ہے" وہ بولی "سکھشندر کور پر سارے سکھو آندے مینو" وہ بولا "سکھو مت جاؤ" وہ حیران ہوئی. اس نے سکھو کے گال کو چوم لیا تو وہ مسکرا کر اس سے لپٹ گئی. سکھو جانتی تھی کہ اس کے شرمانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا یہ دوسری بار ہے. وہ اس کے جسم کو بھینچتی رہی اور پھر اس نے کہا "چل ننگے ہو جائیے تے تینو دساں کہ زنانی پیار کنج کردی" اس نے اٹھ کر اپنی قمیض اتار دی پر آصف اب بھی بیٹھا تھا. سکھو مسکرائی اور اس کو اٹھا کر اس کے کپڑے اتارنے لگی. ننگے ہونے کے بعد سکھو بستر پہ لیٹی اور اسے اپنے ساتھ لٹا لیا. اس نے آصف کو اچھی طرح چوما اور اس کے جسم کو خود سے لپٹا کر اچھی طرح رگڑا. پھر اس نے آصف کا منہ مموں کی طرف کیا تو وہ ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑا اور چوسنے اور دبانے لگا. وہ کراہ رہی تھی "ااااااااااااااووووووہہہہہہہہہہہہہ ہہہہہہہوووووورررررررر ککککررررررررررررر چچچوووووووپپپپپپپ اااانننناااااااااں نننوووووووو ددددددبببببب ززززززوووووورررررر نننااااااالللللل ککککڈڈڈڈ للللللللےےےےےےےےے رررررررررسسسسسسسس اااااااااانننناااااااااااااااں ددددددداااااااااااااااا" اس نے اچھی طرح دونوں مموں کو چوسا پھر سکھو نے اسے روکا اور کہا "رک ہن. اؤ تیل دی بوتل چک ذرا" تیل کی بوتل جب آصف لایا تو اس نے پہلے آصف کے لن کی تیل سے مالش کی اور پھر پھدی کو تیل میں بھگویا اور اسے اپنی کھلی ٹانگوں کے اندر بلاتے ہوۓ کہا "آجا تے نالے مینو میرا دوپٹہ پھڑا" اس نے دوپٹہ پکڑ کر کہا "ویکھ پچھلی وار تے تو کیتا سی اوس بی بی ناں جنگلیاں آلا کم تے اے میرے دوداں تے نشان وہ ندیدیاں وانگ پاۓ نے. تو جد وہ ایتھے آئیں گا سکھو دیاں لتاں کسے ہور لئی کھلن نا کھلن تیرے لئی کھلن گیاں تے ہن بندیاں وانگو کرنا جنگلیاں وانگو نئیں. میں دوپٹہ منہ وچ لے لواں گی تے تو دو تن دھکیاں وچ پورا اندر کرنا. ہؤلی ہؤلی لیا تے بوہتا درد ہؤو گا ایس لئیی میں اکو وار اچ ای پورا لینا تے چیکاں میں گھٹ لواں گی. فر تو رک جانا تے جد تک میں نہ آکھاں ہلنا نئیں" آصف نے اس کی ہدایات سنیں اور ان پے عمل کا فیصلہ کیا. وہ اس کی ٹانگوں کے بیچ آیا اور تیل سے چکنالن پھدی پہ رکھ کے اندر کیا تو لن تین انچ تک جاگھسا. سکھو کا ردعمل نارمل تھا. اس نے اگلا دھکا مارا تو مزید تین انچ اندر ہو گیا. اس نے ٹوپے تک کھینچ کر ایک دھکا فوراُ ہی مار دیا اور سکھو جو ابھی پچھلے دھکے کا ردعمل نہ دے پائی تھی وہ اس دھکے اور لن کے پورا گھسنے پر تڑپنے لگی. آصف اس پر لیٹ گیا. اس نے آصف کا ہاتھ پکڑ کر ممے پر رکھا اور اشارے سے چوسنے کا بھی کہا. آصف فرمانبرداری سے ممے چوسنے لگا. اس نے دوپٹہ نکال کر سانس بحال کرتے ہوۓ کہا "ااااااوووووووہہہہہہہہہہ ہہہہہہہؤؤلللییییی ااااااگگگگگےےےےےےےےے پپپپچچچھھےےےےےےےے ککککرررررر ہہہہہاااااااااااااااۓےےےےےےےے پپپپاااااااااااااااٹٹٹ گگگگگگگئیییییییی آآآآآہہہہہہہہہہہہہہہہہ" سکھو کی پھدی گرم تھی اور لن کو بھینچ رہی تھی. آصف کے تھوڑا تھوڑا آگے پیچھے کرنے سے سکھو کومزہ آنے لگا اور اس کی گانڈ بھی اٹھ اٹھ کر لن پھدی میں لینے لگی. وہ کراہ رہی تھی "ہہہہہہہہہااااااااااااااااۓےےےےےےے ووووووووےےےےےےےے تتتووووووووو تتتےےےےےےےےے پپپپااااااااااااڑڑڑ ککککےےےےےےےےےے ررررررکککککھھ دددددتتتتییییییی اااااااوووووووۓےےےےےےےےےے" اچانک اس کا جسم کانپنے لگا اور کی پھدی سے فوارہ چل گیا. اس کا پانی اس قدر گرم تھا کہ آصف کا لن بھی سہہ نہ پایا اور اس کی پھدی میں الٹیاں کرنے لگا. آصف مدحوش ہو کر اس پر گرا اور کچھ دیر بعد لن نکال کر ساتھ لیٹ گیا.سکھو نے آنکھیں کھولیں اور اٹھی تو کراہ اٹھی "آآآآآآہہہہہہہہہ" آصف بھی اٹھا. لالٹین کی روشنی میں اس کی پھدی سے پانی اور خون ایک ساتھ باہر آرہے تھے. اس نے درد سے کراہتے ہوۓ کہا "وے تو تے سچیو ای پاڑ دتی اے. ویکھ نکی جئی پھدی داپھدا بنا کے رکھ دتا" آصف تھوڑا گھبرایا تو وہ بولی "او فکر نہ کر تے چل مینو لے کے چل ہن نلکے تے. پہلاں تے اے خون صاف کریے" آصف اسے لے کر نلکے تک گیا اور دونوں نے اپنی اپنی شمگاہ دھوئی پھر آصف اسے سٹور نما کمرے تک لایا اور اس نے نئی چادر نکال کر دی کیونکہ بستر کی پرانی چادر خون سے لبالب تھی. پھر آصف تو مست ہو کر سو گیا جبکہ وہ بھی گرتی پڑتی اپنے کمرے میں آگئی.صبح آصف کو کھانا پریما نے دیا اور وہ اسے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوۓ وہاں سے چلی گئی. دوپہر کو بسنتی آئی اور کھانے کے بعد دودھ لائی.اس نے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا "ہور فیر راتیں مزہ آیا میری پہن دے نال" وہ چونک کر بولا "ججی......." وہ بولی "اوۓ اینا حران نہ ہو میں ویکھیا سی تینو تے اونوں راتیں" وہ ڈر گیا. لیکن بسنت نے لیٹتے ہوۓ کہا "او ہن بہتا حران نہ ہو تے چل آ مینو وی ٹھنڈا کر ہن. رات دی اگ لگی ہوئی پھدی وچ. سوچیا تے ایہو ای سی کہ جواک ہون تک پھدی تالا بند ای پر کوئی نہ ہن اے لن چھڈن نوں دل نئیں کردا" اس نے اپنی دھوتی کھولی اور قمیض اٹھا لی" کچھ دیر بعد آصف کالن اس کی پھدی میں تھا. آصف کو ڈر تھا کہ اس کا بھی خون نکلے گا لیکن اس کی پھدی نے تو آرام سے اس کا لن اپنے اندر سما لیا اور آصف کے دھکوں پر کراہتے ہوۓ بول رہی تھی "ااااااااااااااہہہہہہہہہہہہہ چچچسسسسسسسسس آآآآآگگگگگئییییییی ہہہہہہہہہہہہہااااااااااااااۓےےےےےےےےے تتتتتتیییییرررررررااااااااااااا للللووووووڑڑڑڑاااااااااااااااا ووووووویییییییی رررررررررررججججج کککککےےےےےےےےے سسسسسسوووووواااااااااااااددددددیییییییی ہہہہہہہووووووورررررررررر زززززززووووووررررررر ننناااااااااالللللللل ممماااااااااااااررررررررر ددددددھھکککککککککااااااااااااا ککککککھھچچچ ککککےےےےےےےےےےے ااااااااوووووووووووۓےےےےےےےےےے مممممییییرررررررررریییییی پپپہھھدددددددییییییی آآآآہہہہہہہہہہہہہ" اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور پھدی کا پانی نکل گیا. اس نے آصف کو لٹایا اور اس کے اوپر آکر لن اندر لینے لگی. آصف مزے سے اس کے لٹکتے ممے چوسنے لگا اور وہ کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی "آآآآآہہہہہہہہہہہہ چچچووووووپپپپپپ ہہہہہہہوووووووررررررر چچچچچووووووپپپپپ تتےےےےےےے ززززززووووووررررررر ککککےےےےےےےے ددددددببببببب آآآْہہہہہہہہہہہہہہہ" آصف کے لن نے اس کو دوسری بار فارغ کیا تو اب آصف کو اس نے پیچھے سے چودنے کو کہا. آصف نے اسے گھوڑی بنا کر چودا اور پھدی میں جھڑ گیا. کچھ دیر بعد وہ ایک ساتھ لیٹے تھے. وہ بولی "ہن راتیں تو سکھو دی پھدی دا پھدا بنا دتا تے او شاید کل وی نہ کروا سکے تے مینو وی تو ہن ٹھنڈا کر دتا تے نالے میرے ٹڈ وچ جواک وی اے تے تیرا سودا وی تگڑا تے راتیں کی کریں گا" وہ چونک اٹھا. وہ کچھ سوچ کر بولی "چل دیپا اج شہر چلا گیا تے پریما آجاؤ گی. ویسے وی تو اونوں کرووندے تے ویکھ ای لیا سی تے چل ہن آپ وی کر لئیں اودے نال پر او ذرا شرمیلی اے ایس لئی پہل آپ ای کر لئیں"آصف اس سب پر از حد حیران تھا. اس نے سکھو کے حکم کی تعمیل کی اور رات پریما کا ہاتھ تھام لیا اور اسے کھینچا تو وہ پکے ہوۓ پھل کی طرح اس کی گود میں آگری. اس کے بعد اس کے لیے باقی سب آسان تھا کیونکہ پریما چپ چاپ آہہہہہ آہہہہہہ کرتی ہوئی تعاون کرتی گئی اور کپڑے اترنے اور چوما چاٹی کے بعد ممے چوسنے دبانے تک وہ بس آہیں ہی بھرتی رہی. آصف کو ڈر تھا کہ یہ نئی کلی اس کا لن کیسے لے گی چنانچہ اس نے لن اور پھدی کو تیل سے نہلا لیا اور ڈرتے ڈرتے لن اندر کیا اور آنکھیں بند کر لیں. لیکن پریما کی ہلکی سی آہہہہہہہہہ سنائی دی اور لن آرام سے اندر ہوتا چلا گیا. وہ اس سب پر حیران تھا کیونکہ اس کا لن آسانی سے پورا اندر چلا گیا اور پریما نے اس کے ہر دھکے کا گانڈ اٹھا اٹھا کر ساتھ دینا شروع کردیا. اس نے بسنتی کو تو تین بار فارغ کرایا تھا لیکن پریما ذرا ذیادہ جوان اور گرم تھی اور پریما کے دوسری بار فارغ ہوتے ہی وہ بھی آہہہہہ آہہہہہہ کرتا یوا پریما کے اندر ہی فارغ ہوگیا. کچھ دیر بعد وہ ایک ساتھ لیٹے ہوۓ تھے تو تجسس سے مجبور ہو کر آصف نے کہا "آ..... پریما جی ایک بات پوچھوں" اس نے اثبات میں سر ہلادیا وہ بولا "جب میں نے سکھو جی کے ساتھ کیا تو ان کو اتنا درد ہوا اور خون بھی کافی نکلا. پھر بسنتی جی کے ساتھ کیا تو سب آرام سے ہوگیا ہو سکتا ہے کہ ان کے شوہر کا بھی اتنا ہی ہو لیکن آپ کے نازک پن کی وجہ سے میں نے تو وہ اندر بھی ڈرتے ڈرتے کیا لیکن آرام سے ہو گیا اور آپ کے شوہر کا تو دیکھا ہے میں نے وہ تو چھوٹا ہے کافی. اس کا ہرگز مطلب آپ کی توہین نہیں تھا. بس تجسس سے مجبور پو کر پوچھ بیٹھا" وہ شماتے ہوۓ بولی "کوئی گل نئیں جی.اوہ سکھو پہن نے پہلی وار ایڈا وڈا لیا سی تے تاں اودی ایہہ حالت ہوئی. بسنتی پہن دے بندے دا وی دیپ جی ورگا ای اے. دراصل تواڈے آڑی یعنی دوست جنے توانوں بچایا سی. پہلے بسنت پہن نے اودے نال کیتا تے فر میں کیتا. اودا تواڈے تو وی لمبا سی پر موٹا ذرا تھوڑا سی. اودوں سانوں وی درد ہویا سی پر ہن تے عادت پے گئی اے. بسنت پہن دے جواکداپیو وی او ہی اے" آصف کے منہ سے لمبا سانس نکل گیا. اسے نہیں معلوم تھا کہ کون سا دوست اور اسے جاننا بھی نہیں تھا کیونکہ اس کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا. صبح اس نے پریما کو ایک بار اور چودا. اس کے دن ایسے ہی گزرنے لگے. اسے بس تین وقت کھانے پینے اور چودنے کا ہی کام تھا. بسنتی اور سکھو نے اسے اس کام میں ماسٹر بنا دیا تھا. اب اس کی فتح داد سے بھی بننے لگی تھی. ایک دن اس نے کہا "فتح بھائی آپ مجھے میرے ممی ڈیڈی پنے کی وجہ سے پسند نہیں کرتے نا" وہ مسکرایا اور بولا "اوہ ایسی بات نہیں ہے یار. اس دن تو بس ایسے ہی...... میں بھول گیا تھا کہ تم ایک تو اکلوتے ہو اوپر سے تمہاری پرورش ہماری طرح گاؤں میں نہیں ہوئی اور تم فوجی نہیں ہو. میرا گلہ تو ایک ایسے فوجی سے تھا جو بیچارہ فوج سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رکھتا" وہ ہنسنے لگا اور پھر کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا "واپس جا کر میں تمہیں تھوڑی ٹریننگ دے دوں گا. دینے کو یہاں بھی دے دیتا پر یہاں ذرا خطرہ ہے" آصف مسکرا اٹھا. فتح داد نے کہا "یار تمہارا دل نہیں کرتا اپنے ان لالچی ماموں سے بدلہ لینے کا" وہ بولا "بدلہ کیا لوں گا میں. میں تو خود دربدر ہوں. پر فرض کریں آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے" فتح نے مونچھ کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا "یار کم از کم اس جھوٹے الزام کے ساتھ نہ جیتا" وہ حیرت سے بولا "تو کیا مر جاتے" وہ غصے سے بولا "او نئیں او گھامڑ مریں میرے دشمن" آصف ڈر گیا تو وہ نرم پڑتے یوۓ بولا "او یار چھوٹے ایک تو تو ڈر جاتا فوراُ. خیر تیری جگہ میں ہوتا تو اس الزام کو سچ کرتا اور ایسا سچ کرتا کہ مامے ساری عمر یاد رکھتے" وہ سمجھتے ہوۓ بولا "مطلب اصل میں ریپ کرتے " وہ بولا "ہاں نا تا کہ دل تو مطمئن ہوتا" وہ کچھ سوچ کر بولا "لیکن میں بدلا کیسے لوں گا" وہ بولا "تیرے ماموں کا حدوداربعہ تو بتا" آصف نے کہا، "میرے بڑے مامو کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک شادی شدہ ہے اور دوسرا ابھی تک غیر شادی شدہ ہے جبکہ میرے دوسرے مامو کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی شادی شدہ ہے" فتح داد نے کہا، "اور تمہاری ممانیوں کا کیا میرا مطلب ہے کہ وہ دونوں کس قسم کی عورتیں ہیں" آصف نے کہا، "دونوں ہی بہت برے ذہن کی عورتیں ہیں اور دونوں کا اپنے شوہروں پر گہرا اثر ہے" فتح داد نے کہا، "اگر مجھے ان سے بدلہ لینا ہوتا تو میں ان سب عورتوں کی عصمت دری کرتا اور پھر پولیس میں رپورٹ کرنے کا کہتا" آصف نے کہا، "یہ مجھے قانونی معاملات میں مزید غرق کر دے گا" فتح داد نے ہنستے ہوئے کہا، "چھوٹے تم بہت معصوم ہو کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ کوئی نہیں اٹھاتا اپنے ہی پیٹ سے کپڑا۔پچھلی بار بھی آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑا تھا اور آپ کے خلاف اتنے گواہ تھے لیکن اس بار کیسے ثابت کریں گے کیونکہ ہم ایک بھی گواہ نہیں چھوڑیں گے۔" آصف نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ پھر میں اس کے لیے تیار ہوں لیکن میری اس دوسری بھابی سے کوئی دشمنی نہیں" وہ کمر پہ یاتھ مار کر بولا "ہن لگا ایں چیتا" دودن بعد وہ بیٹھے تھے اور دیپ بھی تھا. فتح داد نے کہا "میری دیپ سے اس معاملے پہ بات ہوگئی ہے. یہ آدمیوں کا بندوبست کردے گا. باقی رہی بات ان لوگوں کی تو وہ وہاں سے ساری نقدی اور زیور لوٹ لیں گے اور باقی کام ہمارا ہوگا اور یہ کام ہم کل ہی کریں گے" دیپ نے بھی ہاں میں ہاں ملادی. آصف اندر سے ڈرا ہوا ضرور تھا پر اس کو اپنے ماموؤں پر اتنا غصہ تھا کہ وہ یہ سب کرنے کو تیار تھا. اگلی رات وہ مالیر کوٹلہ میں آصف کے ماموں کے گاؤں میں تھے. انہوں نے خاموشی سے سب کو آنگن میں باندھ دیا تھا اور ڈرا دھمکا کر سارا زیور اور نقدی لوٹ لی تھی. ڈاکو باہر جاکر آپس میں حساب کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اور گھروں کو بھی لوٹ رہے تھے. اس کے بڑے ماموں نے کہا "تم نے سب تو لے لیا ہے اب اور کیا چاہتے ہو" آصف نے نقاب ہٹا کر کہا "بدلہ" سب کی آنکھیں پھیل گئیں. آصف کے ماموں کا ہی منہ کھلا تھا باقیوں کے منہ میں کپڑے تھے. اس کے ماموں نے کہا "آ........آآ.......صصففف......" اس نے کہا "ہاں میں. آپ جائیداد چاہیے تھی تو مانگ لیتے ہمارے ہاس کونسی کمی تھی لیکن آپ نے اپنی ان مردود بیویوں اور اس گھٹیا بہو کے پیچھے لگ کر اپنی بہن اور اس کی اکلوتی اولاد تک کو نہیں بخشا" اس کے ماموں نے کہا "مممااااا......فففف.... ککرررددےےے بییٹااااا" وہ رو رہے تھے پر آصف نے اس کا منہ پہ کپڑا چڑھاتے ہوۓ کہا "نہ ماموں نہ. آپ نے میری ماں کو رلایا ہے. بدلہ تو لیا جاۓ گا" پھر اس نے اپنے چھوٹے ماموں کی بہو کو پکڑا تو وہ جھٹپٹانے لگی. آصف نے کہا "بھابی. میری آپ سے کوئی دشمنی نہیں نہ ہی آپ ان سب کے پلان میں شامل تھیں اس لیے میں آپ کو اندر لے جا رہا ہوں تا کہ آپ کو یہ سب نہ دیکھنا پڑے. گزارش ہے کہ تعاون کریں" وہ ڈرتے ڈرتے اٹھی. اس کے پیر بندھے ہوۓ تھے تو آصف نے اسے سہارا دے کر کمرے میں لٹا دیا. وہ واپس آیا اور شمائلہ کا کپڑا ہٹاتے ہوۓ بولا "ہاں بھابی بڑا شوق ہے ریپ کا ڈرامہ کر کے مظلوم بننے کا. اب آپ کا لگایا الزام سچ کرنے کا وقت ہے" وہ روتے ہوۓ بولی "آصف ایسا مت کرو" وہ بولا "اب ایک نہیں دو دو ہتھیار تمہاری عزت لوٹیں گے کیونکہ ایک سوراخ تو پچھلی دفعہ میں نے ہی پھاڑ دیا تھا" وہ گڑگڑاتے ہوۓ بولی "میں پیٹ سے ہوں اور ساتواں مہینہ ہے" وہ غصے سے بولا "تو میں کیا کروں" وہ بولی "یہ......یہ......تمہارا بچہ ہے" آصف اور سب چونک اٹھے. وہ کچھ سوچتا ہوا بولا "ویسے تو آپ کی بات کا کوئی اعتبار نہیں لیکن وقت وہی تھا جب میرے ساتھ آپ نے کیا تھا تو یہ سچ ہی ہو گا ویسے بھی اس نامرد کی تو للی ہو گی جو لن لیتے ہی پھدی کا پھدہ بن گیا اور خون نکل آیا" فتحداد نے کہا "اب کیا کریں" وہ بولا "اب یہ دونوں فساد کی جڑ ہیں نا. ذرا بوڑھی ہیں ہر ہم نے کونسا چومنا ہے. ہم نے بھی تو بدلہ لینا" ان سب کی آنکھیں پھیل گئیں. فتح داد نے کہا "تو چلو" آصف اپنی بڑی ممانی پر جھپٹا جبکہ فتح داد چھوٹی پر. کچھ ہی دیر میں ان کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور وہ ننگی تھیں. آصف نے اپنا ڈنڈے جیسا لن اپنی مامی کی پھدی مین زبردستی گھسا دیا. وہ سب گھوں گھوں کر رہے تھے. آصف اس کے ممے دباۓ چوسے اور کاٹے اور بے رحمی سے لن اندر باہر کرنے لگا. اس کی مامی درد سے جھٹپٹا رہی تھی. اس کی چھوٹی مامی پرسکون تھی کیونکہ.فتح داد کا لن عام سا ہی تھا اور وہ چھوٹ بھی جلدی ہی گیا. بندھے ہوۓ افراد جھٹپٹا رہے تھے کیونکہ سامنے ننگی عورتیں کسی کی بیوی تو کسی کی ماں اور کسی کی بھابی تھیں.آصف نے جم کر ممانی کو چودا اور اند ہی فارغ ہو گیا. وہ جب ہٹا تو مامی کی پھدی کا پھدہ بن چکا تھا اور منی کے ساتھ خون بھی آرہا تھا. کچھ دیر بعد دونوں کے لن پھر کھڑے ہو گۓ. فتح داد نے کہا "یار تو نے اس مامی کو تو بیکار کردیا. اس میری.کسر تو یہ شمائلہ ہی نکالے گی. تعاون کرے گی تو بچے کو کچھ نہیں ہو گا" اس نے شمائلہ کو ننگا کردیا اور پیچھے لیٹ کر لن جب گانڈ پہ رکھا تو شمائلہ کی آنکھیں پھیل گئیں. مگر اس کا لن سنسناتا ہوا اندر یوگیا اور اسے چودنے لگا. شمائلہ جھٹپٹانے کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل نہ تھی. ادھر آصف نے اپنی مامی کی پھدی میں تباہی پھیر دی اور جب وہ فارغ ہوا تو اس کی حالت بڑی مامی سے ابتر تھی. فتح داد اور آصف نے خود کو صاف کیا اور پھر اچانک بندھے ہوۓ پانچوں مردون کی شلواریں اتار دیں کھڑے لن دیکھ کر وہ دونوں ہنس پڑے. فتح داد نے کہا "ان دونوں کے لن کھڑے ہونے کی سمجھ بھی آتی ہے کہ ان کی بیویاں چدی ہیں. ان حرامخوروں کے ماں اور چاچی کو دیکھ کہ لن کھڑے ہوگۓ" آصف نے کہا "فتح سنگھ جی وقت نہیں ہے اب چلو بھی" اس نے کہا "آخری کام تو پورا کر دیں" انہون نے پاس پڑی لکڑیوں کے ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا مردوں کی گانڈ میں گھسا دیا اور چھوڑ دیا. وہ سب جھٹپٹاۓ. فتح داد نے کہا "اوۓ پاکستانی اب سمجھ آئی فتح سنگھ سے یاری اور ستنام سنگھ کی مدد کرنے کا انعام" اس نے ہاں میں سر ہلا دیا جبکہ اس نے کہا "ماما جی اب لٹی ہے عزت. جاؤ پیٹو ڈھنڈورا اب" وہ وہاں سے چلے گۓ اور ان لوگوں کو صبح لوگوں نے چھڑایا مگر ان کی حالت گاؤں کے اکثر افراد نے دیکھ لیا. پولیس کو انہوں نے ڈر کے مارے نامعلوم ڈاکو کہا اور ستنام سنگھ اور فتح سنگھ کے نام دیے لیکن آصف کا نام نہ دیا کیونکہ اب وہ اس سے ڈرنے لگے تھے جبکہ آصف اس وقت مزے سے سکھو کی بانہوں میں سو رہا تھا.
                      جاری ہے......................​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X