Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    اچھی سٹوری ہے جلدی اپ ڈیٹ کریں

    Comment


    • #52
      لو جی سمیرا بهی آ گئی۔۔۔۔گیم میں کامیاب ہو گئیں دونوں لگتا ھے

      Comment


      • #53
        wah g wah karin aur nabella dono alag maza tha . zaid kay bad ab numan bi jandar ha

        Comment


        • #54
          8
          دروازہ کھلا اور سمیرا اندر آگئی. نعمان کی تو گانڈ پھٹ گئی اور اس نے اٹھنا چاہا مگر نبیلہ نے گانڈ کے گرد ٹانگوں کی قینچی بنا لی. سمیرا نے کہا "کمینی اٹھنے دے نا اسے" وہ بولی "نہ ایسے نہیں. پہلے ننگی ہو نا" سمیرا نے کہا "تو بہت کمینی ہے" نعمان حیرت سے فوت ہونے کو تھا. نبیلہ نے اس کی گانڈ پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا. "تم کیوں رک گئے" نعمان نے دیکھا کہ سمیرا بھی کپڑے اتارنے لگی ہے تو وہ حیرت ذدہ تھا. نبیلہ نے کہا "حیران مت ہو. یی میری جان ہے اور یہ ہماری خفیہ جگہ. ہم دونون ہی شوہروں کی ستائی ہوئی ہیں. اوپر سے بچپن کی سہیلیاں. میں نے کہا نا کہ ہم میں سے ند کردار کوئی نہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسے کو ٹھنڈا کیا کریں گی. کل رات جب تو نے مجھے ٹھنڈا کردیا تو میں نے اس کو بھی بلا لیا. جب یہ میرا دکھ میں ساتھ دے سکتی تو خوشی میں کیوں نہیں. اب کر بھی" نعمان نے دیکھا کہ سمیرا ننگی ہو کر نبیلہ کے برابر لیٹی اور اس کے ممے چوسنے لگی. نعمان بھی پھر سے دھکے مارنے لگا اور کہا "میں نے تو سوچا تھا کہ یہ سب بس یورپ میں ہی ہوتا ہو گا مگر یہ کام تو یہاں بھی عام ہے" نبیلہ نے کہا "للللننن پپہھدددی کککاااااااا ککککھیییلللل ہہہہہہررررررررر جججگگگہہہہہہہ چچچللللتتتاااا اااااببببب ززززوووررررر سسسسےےےےے چچچوووودددددددد ہہہہہاااااااا" نبیلہ کی پھدی چند مزید دھکوں کے بعد آنسو بہانے لگی اور وہ اس کو سینے پر ہاتھ رکھ کر روکتے ہوئے اور ہانپتے ہوئے بولی "چل اب بس کرررر . مجھے سانس لینے دے اور چڑھ جا اپنی سالی پہ" نعمان نے لن نکال لیا تو چمکتے لن کو دیکھ کر سمیرا نے کہا "ارے واہ مجھے تو لگا تھا کرن ایویں لمبی لمبی چھوڑ رہی مگر میں تو حیران ہوں کہ یہ سانڈ کا لن اس نے اپنی کنواری پھدی میں لے کیسے لیا" نعمان اب جھجک رہا تھا. سمیرا ہنسی اور اسے اپنے اوپر کھینچتے ہوئے بولی "بہنوئی جی. آدھی گھروالی تو میں پہلےبہی ہوں. اب پوری بنا لو پر ذرا ہاتھ ہولا رکھنا کیونکہ اتنا بڑا میرے بندے کا تو ہے نہیں" نعمان نے بھی خود سے کہا. "جب ان کو شرم نہیں تو میں کیوں کروں" اس نے سمیرا کے ممے چوسے اور دبائے تو وہ کراہ کر بولی "آہہہہہ نبیلہہہہ ااااسسس کے ہااااتھوں میں توووو جاااااادو ہے" اب نعمان نے لن پھدی پہ رکھا اور دھکا مارا تو لن آرام سے آدھا گھس گیا. لیکن جیسے ہی دوسرے دھکے میں پورا لن اندر گیا تو وہ چیخ اٹھی "ہہہہہااااااااااۓ ااااامممییی مممماااااااررررررر سسسسٹٹٹٹییااااااااااااااا" نبیلہ نے اس کے منہ اور ممے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا "فٹے منہ پورا پنڈ کٹھا کریں گی. اور تو تجھے کہا بھی تھا ہتھ ہولا رکھیں" وہ سمیرا کا ایک مما چوسنے لگی جبکہ نعمان دوسرا اور ساتھ ہی اس کے پیٹ پر بھی ہاتھ پھیرنے لگا. سمیرا کو مزہ آنے لگا اورنعمان آہستہ آہستہ اسے چودنے لگا. اب نعمان کے دھکوں کی رفتار بڑھنے لگی اور سمیرا بھی جوش میں گانڈ اٹھا اٹھا کر چدواتے ہوئے کہہ رہی تھی "آہہہہہہہ آہہہہہہہہ ہورررررر زوررررع نااااااال آہہہہہہہ" کمرے مین تھپ تھپ کی آواز گونج رہی تھی. سمیرا لمبے لن کے آگے ذیادہ دیر ٹک نہ پائی اور اپنا پانی چھوڑ دیا جبکہ چند دھکوں کے بعد نعمان نے بھی آہہہہہ کرتے ہوئے سمیرا کی پھدی کو سیراب کردیا اور کچھ دیر ہانپنے کے بعد لن نکال کر اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا. نبیلہ نے پھدی سے باہر آتے پانی کو دیکھ کر کہا "واہ نی سمیریے اینے تے تینو پورا اتے تک بھر دتا" یہ سلسلہ ولیمے کے دن تک چلتا رہا. نعمان کا کام اچھا کھانا اور ان دونوں کو چودنا تھا. اس نے چود چود کر دونوں کی پھدیوں کے پھدے بنا دیے. ولیمہ انتہائی دھوم ددھام سے ہوا لیکن طاہرہ کے خاندان سے کوئی نہ آیا. ولیمے کی رات نعمان کمرے میں داخل ہوا تو کرن باتھ روم میں تھی. اس نے دروازہ بند کیا اور ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ کرن باتھ روم سے آگئی. اس نے ایک شارٹ نائٹی پہنی تھی اور قیامت ڈھا رہی تھی. وہ آئی اور نعمان کی گود میں بیٹھ گئ. نعمان نے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا "آج تو جبگلی بلی ٹائپ کچھ لگ رہی ہو" اس نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے کہا "یہ تو میں ہی جانتی ہوں کہ تمہارے بغیر یہ کچھ دن کیسے گزارے" نعمان نے اسے چومتے ہوئے کہا "میں بھی تو ٹانگوں میں تکیے دے کر سویا یہ چند دن" اس نے کرن کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھے اور اسے چومنے لگا. کرن بھی اس کے چومنے کا جواب دینے لگی. اس کا لن نیچے کھڑا ہو گیا. نعمان نے چومتے ہوئے کرن کے ممے نائٹی کے اوپر سے ہی دبانے شروع کر دیے. پھر اس نے کرن کے کندھے کو چوما اور نائٹی کے باہر مموں کے حصوں کو اچھے سے چاٹا. کرن نے آہ بھرتے ہوئے کہا "آآآآآہہہہہہہہ ننووممی تمم ببہت اچچھےےے ہہہو" نعمان نے آہستہ سے نائٹی کا سٹریپ ہٹا کر ایک مما ننگا کیا اور چوسنے لگا. جبکہ اس نے دوسرا مما دبانا جاری رکھا. کرن اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی. نعمان نے دوسرا مما بھی ننگا کیا اور چوسنے لگا. کرن کی آہیں نکل رہی تھیں. ممے اچھی طرح چوسنے کے بعد اس نے کرن کو بیڈ پر لٹایا اور خود ننگا ہو گیا. لن پھنکارے مارتا ہوا باہر آگیا. نعمان نے کرن کی نائٹی اوپر کی تو نیچے کچھ نہیں پہنا تھا. وہ اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور لن کو پھدی کے منہ پر رکھ دیا. کرن نے ہونٹ بھینچ لیے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ لن اسے پھر تکلیف دے گا. نعمان نے ابکی بار کچھ نہ لگایا کیونکہ پھدی اس قدر چکنی تھی کہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہ تھی. نعمان کے دھکے سے لن اندر گھساتو کرن کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور وہ کراہ کر بولی "آآآآآآآآآآآآآآہہہہہہہہہہ آآرررااااااامممم سسےےےے" نعمان نے لن پیچھے کیا اور ایک زوردار دھکے میں پورا لن گھسا دیا. اب کی بار کرن چیخ اٹھی "اہہہیہہہہہ آہہہہہہہہ مممیییں تتممہہہاااااارررریییی بیووووییی ہہہہووووں ککیا جااااان سسسےےےے مممااااااررررررنا ہہہہےےےے" نعمان کرن کے مموں سے کھیلتا ہوا آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنے لگا جبکہ کرن بھی اس کے دھکے برداشت کرنے لگی اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آنے لگی. نعمان کے دھکے تیز ہونے لگے اور کرن کے منہ سے کراہ نکلی "آہہہہہہہ نننووومممییی میییں ..........گئ آہہہہہہہہ" کرن کی پھدی کا گرم پانی نعمان کو اپنے لن پر محسوس ہوا. نعمان نے لن نکالا اور ہونپتی ہوئی کرن کو پلٹ کر لن پیچھے سے ڈال پہلو میں لیٹ گیا اور ٹانگ اٹھا کر لن پھر سے اندر باہر کرنے لگا جبکہ اس کے مموں کو بھی دبانے لگا. کرن ایک دفعہ پھر فارغ ہو گئی تو نعمان نے اسے سیادھا کیا اور ٹانگیں کھول کر چودنے لگا اور اس بار کرن کا پانی نکلا تو نعمان بھی آہہہہہہ کرتا ہوا اس کے اندر فارغ ہو گیا اور اس پر گرپڑا. کچھ دیر بعد وہ اس کے ساتھ لیٹ گیا تو کرن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا "نومی تم نے پھر مجھے تڑپا کر رکھ دیا" نعمان نے مما دباتے ہوئے کہا "بہت تیز ہو ویسے تم. پہلے یہ نائٹی پہن کر مجھے بھڑکایا اور اب بول رہی کہ میں نے تڑپایا" وہ ہنس کر بولی "اب مجھے کیا پتا تھا کہ میرے شوہر کا اتنا بڑا ہو گا. سمیرا آپی اور بھابی کو تو یقین ہی نہیں" نعمان بولا "نہیں ہے تو نہ سہی. اس بڑے نے تمہاری چھوٹی میں جانا ان کی چھوٹی میں نہیں" کرن نے چپت لگاتے ہوئے کہا "بہت بے شرم ہو تم" وہ دونوں ہنسنے لگے.
          کچھ عرصے بعد
          زید نے پی ایم اے کی ٹریننگ تو پوری کرلی تاہم اسے ایس ایس جی کے لیے چن لیا گیا. پی ایم اے کی ٹریننگ کے دوران ہی پاک بھارت جنگ بھی ہوئی لیکن زید اس کا حصہ نہ بن سکا. اب وہ ایس ایس جی کی ٹریننگ لے رہا تھا. کرن اور نعمان لندن چلے گئے. اس دوران عروج اور رضوان دو بچوں کے والدین بن گئے جبکہ کرن اور نعمان کے ہاں بھی بیٹی پیدا یوئی. نبیلہ اور سمیرا کے ہاں بھی بیٹے پیدا ہوئے اور دونوں جانتی تھیں کہ ان کا باپ نعمان ہے. ہادی کی سنبل نامی لڑکی سے شادی ہو گئی اور ان کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہو چکا تھا. چوہدری حیات چوہدری حیدر اور ان کی بہن کے خاندانوں کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار تھی۔ اگرچہ چوہدری حیات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی بہن سے بات کر کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کرن اور نعمان کی شادی نے بڑے مسائل کو جنم دیا کیونکہ کرن کبھی داور کی منگیتر تھی اور منگنی توڑنے کی وجہ نعمان تھا۔ چوہدری حیات نے اپنی بہن کو نعمان اور کرن کے ولیمہ کی تقریب میں مدعو کیا لیکن طاہرہ کے خاندان میں سے کوئی بھی تقریب میں شریک نہیں ہوا اور چوہدری حیدر نے بھی سوچا کہ اس شادی کے بعد کچھ خلا ضرور ہو کیونکہ طاہرہ اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ کوئی آسان بات نہیں تھی ہضم کرنے کے لیے. اب کچھ سال گزر چکے تھے اور چونکہ خاندان کا زید سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا لہٰذا چوہدری حیات نے فیصلہ کیا کہ یہ مسئلہ حل کرنے اور اپنی بہن کے ساتھ دوبارہ ملنے کا وقت ہے۔ وہ اپنی بیوی، بیٹی، نعمان، کرن اور ان کی بیٹی کے ساتھ پاکستان آۓ۔ نعمان نے ایم بی بی ایس مکمل کر لیا تھا اور اب اس نے اور کرن نے امریکہ میں سیٹل ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ کرن نے میڈیکل کا اسپیشل کورس کیا تھا جب وہ نعمان کے ساتھ لندن میں رہ رہی تھی اور اب ایک امریکی ہسپتال نے اسے اچھی نوکری کی پیشکش کی تھی اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نوکری قبول کر لے گی اور وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ساتھ امریکہ چلی جائے گی۔ چوہدری حیدر اور ان کی اہلیہ تہمینہ اپنی نواسی کو دیکھ کر بہت خوش تھے جبکہ سب دوبارہ ملنے پر خوش تھے۔ نعمان نبیلہ کے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ اپنے بیٹے کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ نعمان نے ایک نظر لڑکے پر ڈالی اور کہا "مبارک ہو لڑکا بہت پیارا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت ہینڈسم آدمی نکلے گا" وہ مسکرا کر بولی، "کاش یہ بھی کسی دن تم جیسا مضبوط آدمی بن جائے۔ "وہ مسکرایا اور بولا، "میرے جیسا کیوں، اس کے پاپا عباد بھائی جیسا کیوں نہیں" وہ مسکرائی اور اس کے کان میں سرگوشی کی، "کیونکہ عباد اس کا باپ نہیں بلکہ تم ہو" نعمان کے لیے یہ ایک جھٹکا تھا اور اس نے بھی سرگوشی کی، "بھابی، کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں" اس نے کہا، "میں جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ عباد میں اتنی طاقت کہاں سے آئی کہ وہ چند مہینوں میں بچہ پیدا کر سکے جب وہ مجھے اتنے سالوں میں حاملہ نہ کر سکا۔ ظاہر تھا کہ نطفہ جس نے مجھے حاملہ کیا وہ تمہارا تھا اور نہ صرف میں بلکہ سمیرا کے حمل کے ذمہ دار بھی تم ہی ہو اور اس کے بیٹے کے والد بھی تم ہو اور یہ ٹھیک ہے، اب جب یہ ہوگیا ہے تو اسے رہنے دو ایسے ہی اور عباد اور خاور دونوں کو یہ سمجھنے دو کہ وہ بیٹوں کے باپ ہیں" نعمان اٹھ کر جانے لگا تو وہ بولی "اگر تمہاری بیٹی اس کی بہن نہ ہوتی تو قسم سے رشتہ مانگ لیتی ابھی سے کیونکہ بہت خوبصورت ہے. نعمان مسکرا اٹھا. وہ جانے لگا تو وہ بولی "موقع بنا تو اسی جگہ مل لینا مجھ سے اور سمیرا سے" نعمان مسکرایا اور کمرے سے نکل گیا. رات کو نعمان بیڈ پر لیٹا تھا جب کرن اپنی بیٹی کو سلا کر اس کے ساتھ آکر لیٹ گئی. نعمان نے اس چوما تو وہ مسکرا اٹھی اور بولی "تم نہیں سدھرو گے. تم باپ بیٹی مجھے بہت تنگ کرتے ہو. پہلے وی نہیں سونے دیتی اور جب وہ سو جائے تو تم نہیں سونے دیتے. امریکہ میں ایسا نہیں چلاے گا. مجھے وہاں نوکری کرنی ہے. نعمان نے اس کو اپنے ساتھ لپٹایا اور بولا "جان من تمہاری زندگی کی بہار بھی تو میں اور ہی ہیں نہیں تو.............." وہ بولی "ہممم تو شوہر نامدار احسان جتا رہے" وہ اس کی نائٹی پر مموں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی کلیویج کو مسلتے ہوئے بولا "اب احسان چکا بھی دو زوجہ محترمہ" وہ کراہ کر بولی "آہہہہہ نومی وہاں مت دباؤ نا درد ہوتا ہے" وہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا "کیا یار کرن تمہیں پتا ہے کہ مجھے تمہارے یہ کتنے پسند ہیں" وہ اس کے چہرے کو چومتے ہوئے بولی "کبھی کبھی تم ہماری بیٹی رانیہ سے بھی ذیادہ بچے بن جاتے ہو. مجھے پتا ہے کہ جناب کو یہ اتنے پسند کہ میرے نوویں مہینے تک ان لو چوسنا نہیں چھوڑا پر تمہاری بیٹی کو بھی بہت پسند ہیں. اب تم جانتے ہو کہ اس کے لیے میرا دودھ کتنا ضروری ہے" نعمان نے مسکراتے ہوئے کہا "کاش میری بیٹی تم پہ ہی چلی جاتی" وہ ہنسنے لگے جبکہ نعمان نے اس کو چومنا شروع کردیا. کرن نے بھی ہتھیار ڈال دیے کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کا شوہر اس کی لیے بغیر نہیں مانے گا. نعمان نے اپنی شرٹ اتادی اور کرن کی نائٹی اوپر کردی. کرن پچی کو دودھ پلانے کی غرض سے رات کو نائٹی ہی پہنتی تھی اور نعمان کا موڈ ہوتا تو وہ بھی اس پر چڑھ لیتا. نعمان نے اس کے پیٹ کو چوما اور چاٹا تو وہ کراہتے ہوئے اس کے بال سہالانے لگی. نعمان نے اپنا ٹراؤزر بھی اتار دیا. اس نے کرن کو کہا "جان آج تم شروع کرو نا" کرن نے کہا "کنڈوم کہاں ہے" نعمان نے کہا "نہیں ہے" اس نے کہا "پھر!!!!" نعمان نے کہا "نکال لوں گا فارغ ہونے سے پہلے" کرن اب اتنی گرم ہو چکی تھی کہ اب وہ رکنا نہیں چاہتی تھی چنانچہ وہ اٹھی اور نعمان کے اوپر آتے ہوئے لن پکڑ کر اپنی پھدی پر رکھا اور بیٹھ گئی.آدھا لن اندر گیا تو اس کے منہ سے آہہہہہہ نکل گیا.نعمان نے نیچے سے دھکا مارا اور پورا لن اندر گھس گیا جبکہ کرن نے نعمان پر گرتے ہوئے کہا "آآآآآہہہہہہہہہہ بےےےےےےے صبررررررےےےےےےے ممییں ککرررررر تتووووووو رررررہہہہہہی تھیی آہہہہہہہہہ" نعمان کرن کے کندھے چومنے لگا اور دھکے مارنے لگا اور اس کے ساتھ ہی مموں سے نائٹی ہٹا لی اور مموں کے ارد گرد چومنے لگا. کرن بھی اوپر نیچے ہوتے ہوئے بولنے لگی "آآآہہہہہہہہ تتمم ببہت بے صبررررررےےے ہہوووو. آہہہہہہہہہ تتممم ننےےےےےےےے مجھےےےےے پپااااااااگلل کرررررررر ددددیاااااااا ہہہہےےےےےےے آآآآہہہہہہہہہ میں گئی آہہہہہہہہہہہہہ" کرن نعمان پر گر پڑی اور ہانپنے لگی. نعمان نے کرن کو نیچے لٹا دیا اور آہستہ آہستہ دھکے مارنے لگا اور اب دھکے تیز ہونے لگے. کرن بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر چدوانے لگی اور تھپ تھپ کی آواز آنے لگی. کرن جب دوسری بار فارغ ہوئی تو اس کی ٹانگیں اکڑ گئیں اور اس نے ٹانگیں نعمان کی گانڈ کے گرد قینچی جیسے کر لیں اور ساتھ ہی نعمان کی گانڈ کو یوں دبایا جیسے اپنے اندر سمانا چاہتی ہو. نعمان سے یہ برداشت نہ ہوا اور اس کے منہ سے غراہٹ نکلی. وہ لن باہر نکالنا چاہتا تھا لیکن وہ کرن کی ٹانگوں کے شکنجے میں تھا اور کرن فارغ ہونے پر اتنی مدحوش تھی کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ نعمان کا لن اس کے اندر اپنا مال بھر رہا ہے.کچھ دیر ہانپنے کے بعد جب نعمان علیحدہ ہوا اور کرن نے اپنی پھدی کو اٹھ کر دیکھا تو لگ بھگ چیخ کر بولی "یہ کیا کیا" وہ بولا "تو کیاکرتا. میڈم نے قابو جو کر رکھا تھا" اس نے کہا "لیکن نومی تم اتنی جلدی تو نہیں ہوتے" وہ بولا "اب پتا نہیں کیا ہوا تھا لیکن جو بھی تھا میں خود کو روک نہیں پایا اور ویسے بھی میں اتنا طاقتور نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں تمہیں ماں بنا دوں" کرن نے کہا "اور اگر ہوگیا تو" اس نے کہا "تو کوئی بات نہیں. رانیہ سال سے ذیادہ کینہے مطلب دو سال کا فرق پڑ جانا تو اور کیا چاہیے" وہ بولی "یعنی تمہیں کوئی مسئلہ نہیں" وہ بولا "ہاں مسئلہ تو کوئی نہیں" وہ مسکرائی اور اس کے نیم کھڑے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بولی "تو ایک بار اور کرو نا" وہ دونوں ہنس پڑے.اگلے دن وہ دن تھا جب چوہدری حیدر اور چوہدری حیات اپنی بہن سے بات کرنے گئے۔ عفیفہ اور تہمینہ بھی ان کے ساتھ تھیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صلح کر لیں اور خاندان کو متحد کر لیں۔ چوہدری شاکر نے اپنے گھر پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ چودھری حیدر نے اپنے چچا چودھری شکور سے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے درمیان ثالثی کریں کیونکہ وہ خاندان کے بڑے تھے اور سب ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ طاہرہ نے کہا " میں اپنے گھر میں آپ کی توقع نہیں کر رہی تھی کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ میرے بھائیوں نے میری قبر پر مٹی ڈال دی ہے اور آپ نے اتنے سالوں میں جس طرح مجھے نظر انداز کیا ہے، مجھے لگا کہ آپ نے مجھے اپنے لیے مردہ سمجھ لیا ہے" چودھری شکور نے حقے کا کش لیتے ہوئے کہا " کڑیے کیہو جییاں گلاں کرن ڈئی ایں تو. پہناں کدی پھراواں لئی مر سکدیاں پھلا. تسیں آپس وچ گل بات کرو پہلاں فیر میں فیصلا کراں گا" طاہرہ نے کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ اب ہمارے درمیان بات کرنے کے لیے کچھ باقی ہے" چوہدری حیات نے کہا، "طاہرہ سال گزر گئے لیکن تمہارا غصہ ابھی تک وہیں ہے" اس نے کہا، "آپ ٹھیک کہتے ہہں کہ میرا غصہ اب بھی ہے اتنے سالوں سے لیکن بڑھ گیا ہے" چوہدری حیات نے کہا "دیکھ بہنا ہم سب بوڑھے ہو چکے ہیں اور ہمارا انجام آنے والا ہے لیکن ہمارے بچوں کے پاس جینے کے لیے زندگی ہے پھر ہم اپنی انا کی وجہ سے ان کے درمیان مسائل کیوں پیدا کر رہے ہیں، ہم یہاں موجود ہیں اور مقصد تمہاری بات سننا ہے تاکہ ہم آپس کے مسائل کو حل کر سکیں"۔ اس نے کہا، "مسائل۔ جب رشتہ ہی نہیں ہے تو ہمارے درمیان کیسی پریشانیاں کیونکہ اگر رشتہ ہوتا تو میرے بغیر شادیاں نہ ہوتیں"۔ چودھری حیدر نے کہا "دیکھیں باجی مارے درمیان کشیدگی تھی اسی لیے ہم آپ کو اپنے بچوں کی شادیوں پر بلانے سے قاصر تھے لیکن آپ نے اپنے بیٹے کی شادی پر بھی تو نہیں بلایا اور ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اصل میں آپ نے گاؤں میں شادی کی تقریب منعقد نہیں کی تھی اور یہ لاہور میں کیا گیا تھا جبکہ ہم نے آپ کے گاؤں کے لوگوں سے آپ کے بیٹے کی شادی کی خبر اس کی شادی کے اتنے دنوں بعد سنی تھی" وہ غصے سے بولی، "ہاں میں نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی تھی اور اس کی شادی کی تقریب بھی میں نے کی تھی لاہور میں اور میں نے یہ آپ کی وجہ سے کیا۔ میرے بیٹے کی شادی تمہاری بیٹی کرن سے ہونی تھی لیکن تم نے منگنی توڑ دی اور پھر تم نے اپنی بیٹی کی شادی اسی لڑکے سے کر دی جو اس شادی کے ٹوٹنے کی وجہ بنا تھا"، چوہدری حیدر نے کہا،" آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیا ہوا تھا اس دن اور آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں کہ میں آپ کے بیٹے کو اپنی بیٹی سے شادی کرنے دیتا" اس نے کہا "پھر تم نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے 3 سال چھوٹے لڑکے سے کیوں کی؟" چوہدری حیدر کچھ کہنے ہی والے تھے کہ چوہدری حیات نےہاتھ اٹھایا تو چوہدری حیدر کو خاموش رہنا پڑا جب کہ چوہدری حیات نے کہا " اگر تم کسی پر الزام لگانا چاہتی ہو تو تم مجھے اس پر الزام دو کیونکہ میں نے یہ شادی طے کی تھی اور میں نے یہ اس لیے کیا کہ میں نہیں چاہتا تھا میرے بیٹے کا نام لے کر میری بھتیجی کو طعنہ دیا جائے اسی لیے میں نے اس کی شادی اپنے بیٹے سے کی ہے"، اس نے کہا، "آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنی بھتیجی کو تکلیف پہنچانے دیتی، سمیرا بھی یہاں رہتی ہے، اس سے پوچھیں کہ اسے کسی نے تکلیف دی ہے کبھی؟" چوہدری حیدر نے کہا "آپا میری بیٹی شادی شدہ ہے اور اس کی اب ایک بیٹی ہے اور آپ کا بیٹا بھی شادی شدہ ہے۔ دونوں میاں بیوی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں پھر اب اس معاملے کو کیوں گھسیٹ رہی ہیں" وہ بولی "تمہیں لگتا ہے کہ تم نے اس منگنی کو توڑتے ہوئے میری جو توہین کی تھی وہ میں بھول گئی ہوں"چوہدری حیات نے کہا " اس شادی کی وجہ یہ تھی کہ تم اور تمہارے بیٹے نے کرن پر تشدد کر نا ہی تھا اور پہلے وجہ صرف نعمان تھا لیکن پھر زید نے بھی وجوہات میں اضافہ کیا لیکن اب میں یہاں ہمارے درمیان مسائل حل کرنے آیا ہوں۔" وہ بولی "مسئلہ ہمیشہ رہے گا کیونکہ میری بیٹی ابھی تک گھر میں بیٹھی ہے، تمہارے بیٹے نے اس کے ساتھ بدترین سلوک کیا اور پھر اس سے شادی سے بھی انکار کر دیا" چوہدری حیدر نے کہا " وہ اب میرا بیٹا نہیں رہا اور میں نے اسے بیٹا ماننے سے انکار کر دیا جس دن اس نے آپ کی بیٹی کے ساتھ یہ کیا اور اس کے بعد سے میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی میرے گھر والوں کا اس سے کوئی رابطہ ہوا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اسے اس معاملے میں نہ لائیں" اس نے کہا، "ٹھیک ہے میں مانتی ہوں کہ تم نے اسے سزا دی لیکن میری بیٹی کا کیا ہوگا" چوہدری حیدر نے کہا، "آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں؟" اس نے کہا، "میں چاہتی ہوں تم اپنے بیٹے عادل کی شادی میری بیٹی سویرا سے کرو" اس پر سب حیران رہ گئے اور چوہدری حیات اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے، "کیا تم پاگل ہو طاہرہ، تمہیں پتا ہے کہ وہ پہلے ہی میرب سے منگنی کر چکا ہے" اس نے کہا، "میری بیٹی پر لگنے والا داغ جیسا کوئی داغ میرب پر نہیں ہے اور وہ داغ آپ کے گھر سے آیا ہے، تو ایسا بہتر ہے کہ آپ اس داغ کو صاف کریں۔ میں کل آپ کا انتظار کروں گی کہ آپ بارات لے آئیں اور اپنی بیٹی کی شادی آپ کے بیٹے عادل سے کر دوں گی۔ اگر آپ برات لے آئے اور نکاح ہو گیا تو ہمارے رشتے بحال ہو جائیں گے اور اگر نہیں آئے تو پھر میرے گھر مت آنا اور میرے جنازے میں شرکت کی کوشش بھی نہ کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے مر جاؤں گی اور تم میرے لیےمر جاؤ گے" یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئیں جب کہ سب ہکا بکا رہ گئے سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اسی دوران چوہدری شاکر اپنے کمرے میں آیا اور پوچھا "تمہارا کیا خیال ہے کہ طاہرہ تم کیا کر رہی ہو" وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ۔ سویرا بھی کمرے میں داخل ہوئی اور بولی "امی آپ کیا کر رہی ہیں" اس نے کہا، "تم دونوں بس چپ رہو اور ایک لفظ بھی مت بولو، میں تم میں سے کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتی اور اگر تم اس گھر جاؤ گی پھر تمہارا باپ میرے گھر والوں کو نقصان پہنچانے سے پہلے سو بار سوچے گا" شاکر نے کہا، "کیا تم صرف مجھ پر اتنا ہی بھروسہ کرتی ہو" اس نے کہا، "تم نے میرے معصوم بھتیجے کے ساتھ جو کیا اس کے بعد تم نے اپنا بھروسہ کھو دیا ہے اور وہ بھی اپنی ہی بیٹی کو استعمال کر کے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بیوقوف لڑکی نے اپنے آپ پر داغ لگا دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ان سالوں میں اس کی شادی نہیں کرا سکے اور اس کی وجہ ہمیشہ زید ہی تھا۔ عادل کے ساتھ اس کی شادی سے اس کی زندگی کے مسائل حل ہو جائیں گے" شاکر نے کہا، "اور میرب کا کیا ہوگا"اس نے کہا" وہ نہ صرف تمہاری بہن کی بیٹی ہے بلکہ وہ میرے بھائی کی بھی بیٹی ہے اور میں اس کا اتنا ہی خیال رکھتی ہوں جتنا تمہارا خیال ہے اور میں دعا کروں گی کہ اسے عادل سے بہتر آدمی ملے اور کیوں تم اتنا سوچتے ہو، ہمیں نہیں معلوم کہ میرے بھائی کل آئیں گے یا نہیں اور اگر وہ نہیں آئے تو وہ تم سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رہیں گے لیکن اگر وہ آئے تو میرے پاس ان کو نہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ تو میں سمیرا سے کہوں گی کہ شادی کی تیاری کر لے" دوسری طرف چوہدری حیدر کی حویلی میں سب خاموش تھے اور سب پریشان تھے کیونکہ سب طاہرہ کی طبیعت کو جانتے تھے جبکہ عادل اس شادی کے لیے تیار نہیں تھا اور کوئی زبردستی نہیں کر رہا تھا۔ اگلے دن میرب نے ہادی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سنبل نے دروازہ کھولا۔ میرب اندر داخل ہوئی اور بولی "ہادی بھائی آپ کی شادی کا جوڑا کہاں ہے؟" ہادی نے کہا، "میرب کیوں پوچھ رہی ہو اور کیا کرنے جا رہی ہو" وہ بولی، "آپ نے عادل کی بارات لے جانی ہے اور کسی نے خریدا نہیں۔ شادی کا جوڑا تو مجھے امید ہے کہ آپ کا عروسی لباس عادل کے لیے موزوں ہو گا" سنبل نے کہا، "عادل کسی قیمت پر نہیں مانے گا" اس نے کہا، "عادل راضی ہو گا، آپ مجھے سوٹ دیں" وہ سوٹ لے کر چلی گئی۔ عادل کے کمرے میں عادل اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ اس نے اسے عروسی لباس دیتے ہوئے کہا، "یہ لے جاؤ اور تیار ہو جاؤ" اس نے کہا، "میرب کیا تم پاگل ہو؟" وہ بولی، "دیکھو عادل، زید کی نافرمانی سے تایا جی کا دل پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے، میں جانتی ہوں کہ وہ بے قصور تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے تمہارے باپ کی نافرمانی کی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تمہیں کچھ نہیں کہا لیکن اگر تم آج نہ گئے تو میرے بابا اور تمہارے ابو اپنی بہن کو کھو دیں گے اور میں نہیں چاہتی کہ ایسا ہو۔" عادل نے کہا۔" میں ایسا کرنے پر موت کو ترجیح دے سکتا ہوں" اس نے اچانک چھری نکالی اور گردن پر رکھتے ہوئے کہا "پھر تم پہلے میری لاش دیکھو گے" اس نے کہا "میرب!!!!!!" اس نے کہا، "یہ پہن لو ورنہ تم مجھے بھی کھو دو گے" عادل نے عروسی لباس پہنا اور سب بیک وقت خوش اور اداس دونوں تھے کیونکہ یہ سب جانتے تھے کہ میرب نے اپنے گھر والوں کی خاطر ایک بڑی قربانی دی تھی۔ چھوٹی سی بارات لے جائی گئی اور عادل اور سویرا کا نکاح ہوگیا۔ یہ ایک عجیب تقریب تھی کیونکہ حاضرین میں سے کوئی بھی خوش یا غمگین ہونے کے قابل نہیں تھا اور وہ سب صرف الجھن میں تھے کیونکہ وہ خوش تھے کہ خاندان دوبارہ مل گیا ہے لیکن وہ سب اس قیمت کی وجہ سے اداس تھے جو میرب کو اور عادل کو ادا کرنی پڑی.لیکن جس شخص کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی وہ میرب تھی اور وہ خود کو ایک کمرے میں بند کر کے گھنٹوں روتی رہی۔ وہاں کوئی رسم نہیں تھی کیونکہ یہ سہولت کی شادی تھی اور دلہن کو اس کے کمرے میں لے جایا گیا جو عجلت میں سجا ہوا تھا۔ سویرا عادل کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا اور جب وہ آیا تو اس نے صرف لباس بدلا اور اس سے بات کیے بغیر بستر پر چلا گیا۔ اگلے دو دن تک گھر کا ماحول عجیب سا رہا کیونکہ کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ صرف نبیلہ اپنی بہن کا خیال رکھ رہی تھی اور عادل اس سے بات نہیں کرتا تھا اور دونوں کے درمیان ایک جملے کا تبادلہ بھی نہیں ہوا تھا۔ عادل داخل ہوا تو کرن اور نعمان اپنے کمرے میں تھے۔ اس نے بیٹھتے ہوئے کہا، "مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے" نعمان نے کہا، "کیسی مدد، ہم دونوں آپ کی مدد کے لیے تیار ہیں" اس نے کہا، "میں نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے" کرن نے کہا، "کیا فیصلہ" اس نے کہا، "میں میرب سے شادی کرنے جا رہا ہوں" یہ سن کر دونوں چونک گئے۔ کرن نے کہا، "کیا تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟" اس نے کہا، "دیکھو بجو، میں اس طرح نہیں رہ سکتا، آپ کو نہیں معلوم کہ میں نے یہ پچھلے 2 دن کتنے بری طرح گزارے ہیں اور میں اس طرح یہ سب جاری نہیں رکھ سکتا" کرن نے کہا، "لیکن........." اس نے کہا، "مجھے دو گواہوں کی ضرورت ہے، نومی، تم نے ایک بار بتایا تھا کہ تمہارا ایک دوست ہے جس کا ایک بڑا ریستوراں ہے اور وہ بہت وسائل والا ہے۔" نعمان نے کہا، "ہاں وہ ہے لیکن تم اس سے کیا چاہتے ہو؟" عادل نے کہا، "میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے بات کرو اور نکاح کی تیاریاں کرو" کرن نے کہا، "میرب......" اس نے کہا، "وہ میرا مسئلہ ہے اور میں ضرور لاؤں گا۔ اس لیے اس کی فکر نہ کریں۔" اگلے دن عادل میرب کے کالج کے سامنے پہنچا۔ اس نے ماسٹرز مکمل کر لیا تھا اور اب وہ کالج میں بطور لیکچرار کام کر رہی تھی۔ عادل اپنی گاڑی پر تھا، وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔عادل نے کہا، "میراب، گاڑی میں بیٹھو ہمیں بات کرنی ہے" وہ بولی، "عادل لیکن......." وہ غصے سے بولا، "اگر تم ابھی گاڑی میں نہ بیٹھیں تو میں اسے مار دوں گا کہیں بھی۔" میرب اس کی باتوں سے نہیں ڈری تھی لیکن جس انداز میں اس کے الفاظ کہے اس سے وہ ڈر گئی اور وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ گئی اور اس نے گاڑی بھگا دی۔ اس نے کہا، "تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو" اس نے کہا، " جلد پتہ چل جائے گا" اس نے ہوٹل کے سامنے گاڑی روک دی، اس نے کہا، "عادل تم کیا کرنے جا رہے ہو، ہم یہاں کیوں ہیں" اس نے کہا۔ "تم نے مجھے جہنم میں ڈال دیا ہے اور اب یا تو تم مجھے اس سے نکالو گی یا میں خود کو جلا دوں گا" وہ بولی، "کیا مطلب" وہ غصے سے بولا، "تم نے مجھے اس لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ ہے ہمارے گھر میں میرے بھائی کی عدم موجودگی اور یہ تمہارا قربانی کا جنون تھا جس نے مجھے اس کمرے میں پھینک دیا جو میرے لیے جہنم کی طرح ہے جب میں سویرا کو اپنے سامنے دیکھتی ہوں تو" اس نے کہا، "دیکھو عادل، وقت گزرنے کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا"۔ اس نے کہا، "تمہارا کالج تمہارے لیکچرز کے لیے کافی ہے، میں یہاں تم سے کوئی لیکچر سننے نہیں آیا، میں نے اپنا فیصلہ کیا ہے اور میں تمہیں اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے یہاں لایا ہوں" وہ بولی، "کیا فیصلہ" وہ بولا، "یا تو اب مجھ سے شادی کرو گی یا میں خود کو مار لوں گا کیونکہ میں سویرا کے ساتھ اس طرح نہیں رہوں گا" اس نے کہا، "کیا تم پاگل ہو" اس نے کہا، "ہاں میں 2 دن گزارنے کے بعد ہو گیا ہوں پاگل اور اس کے ساتھ، میں دیوانہ ہو گیا ہوں اور اب اگر تم نہیں چاہتی کہ میں اس جنون میں کوئی بڑا کام کروں تو میرے ساتھ نکاح کے لیے آؤ ورنہ آج شام تک میری لاش دیکھنے کے لیے تیار ہو جاؤ" اس نے کہا، "عادل...... .." اس نے کہا، "اس طرح تم نے مجھے وہ عروسی لباس پہننے پر مجبور کیا تھا اور اب میں تمہیں ایسا کرنے کو کہہ رہا ہوں یا .............." وہ کچھ دیر سوچ کر بولی." کیا تم نے اس فیصلے کے انجام کے بارے میں سوچا ہے" اس نے کہا "یہ سویرا کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے سے زیادہ برا نہیں ہوگا" میرب نے کچھ نہیں کہا اور وہ دونوں اوپر کی طرف چلی گئیں۔ دونوں کی شادی سادگی سے نکاح کی تقریب میں ہوئی۔ عادل بولا، "آپ کی مدد کا شکریہ نعمان، اب تم دونوں گھر چلو اور کسی کو یہ مت بتانا کہ تم اس شادی میں شامل ہو، باقی میں خود سنبھال لوں گا" کرن نے میرب کو گلے لگاتے ہوئے کہا، "تو میرے پاگل بھائی نے آخر تمہیں میری بھابھی بنالیا" وہ مسکراتے ہوئے بولی "میں نے کبھی دوسری بیوی بننے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن تمہارے بھائی نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے اور میں اسے اس طرح تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی اس لیے مجھے اس فیصلے میں اس کا ساتھ دینا پڑا۔ اب دیکھتے ہیں اس فیصلے پر اہل خانہ کا ردعمل کیا ہو گا"میرب اور عادل ایک ساتھ گھر آئے تھے، طاہرہ اور اس کے گھر والے سویرا سے ملنے آئے تھے جو وہیں بیٹھی تھی اور میرب اور عادل کو ایک ساتھ دیکھ کر سب چونک گئے۔ سمیرا نے کہا، "عادل یہ کیا کر رہے ہو، میرب کے ساتھ کیا کر رہے ہو اور تم نے اپنی نئی نویلی بیوی کو اکیلا کیوں چھوڑ اہوا ہے" عادل کچھ کہنے ہی والا تھا کہ تنزیلہ نے اٹھ کر کہا، "میرب تم اس کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟ یہ اب تمہارا منگیتر نہیں ہے پھر تم اس کے ساتھ گھر کیسے آسکتی ہو" وہ قریب آئی اور میرب کا ہاتھ پکڑنے ہی والی تھی کہ عادل نے اسے روکتے ہوئے کہا "آپ ٹھیک کہہ رہی ہو چاچی، یہ اب میری منگیتر نہیں ہے اور میرے پاس اس کے ساتھ رہنے کا حق ہے کیونکہ یہ اب میری بیوی ہے" اس پر سب حیران رہ گئے۔ چوہدری حیدر نے کہا، "تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہے ہو" اس نے آہستگی سے کہا، "ہاں جی میں جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اب یہ میری بیوی ہے" چوہدری حیدر نے قریب آ کر عادل کو تھپڑ مارا اور کہا، "یہ تم نے کیا کیا؟" عادل نے کہا۔ "آپ کی خواہش پوری کرنے کے بعد میں نے اپنی خواہش پوری کر دی" چوہدری حیدر نے اسے دوبارہ تھپڑ مارنا شروع کر دیا جب چوہدری حیات اور نعمان نے ان کو پکڑ لیا۔ حبیب اپنی بیٹی کو تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ عادل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "چاچا جی، میں نے کہا تھا کہ اب یہ میری بیوی ہے، آپ اسے چھو نہیں سکتے" یہ صورتحال دیکھ کر سب دنگ رہ گئے، چوہدری شاکر نے کہا، "سب کو پرسکون ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ آپس میں لڑ کر حل نہیں ہو سکتا۔" کچھ دیر بعد فیصلہ ہوا کہ حالات کو خاندان کے بڑوں کے سامنے رکھا جائے گا اور وہ فیصلہ کریں گے۔ عادل میرب کو اپنے کمرے میں لے گیا اور سب فیصلے کا انتظار کرنے لگے کیونکہ شام کو بزرگوں کا اجتماع ہونا تھا۔میرب نے کہا، "میں نے تم سے کہا تھا کہ ایسا ہو گا اور دیکھو اب سب ہم سے ناراض ہیں" عادل نے کہا، "ان سے ڈرنا بند کرو، اب تم صرف میری منگیتر نہیں ہو، تم میری بیوی ہو اور میں اپنی بیوی کی حفاظت کرنا جانتا ہوں" اس نے کہا، "عادل، مجھے ڈر ہے کہ خاندان کے بزرگ کیا فیصلہ کریں گے" اس نے کہا، "ہم دیکھیں گے" خاندان کے بزرگ حویلی کے صحن میں بیٹھے تھے۔ میرب اور عادل مشتبہ مجرموں کی طرح ان کے سامنے کھڑے تھے اور باقی فیملی ان کے سامنے بیٹھی تھی۔ چوہدری شکور نے کہا" آپ کو کیا لگتا کون ہیں آپ دونوں اور آپ کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ خاندان میں کسی کو بتائے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھائیں"، عادل نے کہا" یہ میرا فیصلہ تھا اور میں نے خاندان میں کسی کو نہیں بتایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ کوئی بھی نہیں جو اے مانے" چوہدری مراد نے کہا "جب تمہیں اس بات کا علم تھا کہ کوئی نہیں مانے گا تو تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا، تم پہلے سے شادی شدہ ہو پھر تم نے یہ شادی کیوں کی" عادل نے کہا، "میں نہیں مانتا اس کو شادی، یہ ایک ایسی سزا ہے جس کا اعلان میرے بھائی کے لیے ہوا تھا لیکن اس نے انکار کر دیا اور اب مجھے یہ برداشت کرنا پڑرہی ہے" چوہدری شکور نے غصے سے کہا، "پہلے تمہارے بھائی نے اس لڑکی کی زندگی تباہ کی اور اب تم نے وہ کیا جو کسر تمہارے بھائی نے چھوڑی تھی وہ بھی پوری ہو گئی" اس نے کہا، "میں نہیں مانتا کہ میرا بھائی ایسا کچھ کر سکتا ہے" چوہدری مراد نے کہا، "ابھی اس شادی کی بات ہے زید نامی باغی کی بات نہیں" چوہدری شکور نے کہا، "اب تم نے نکاح کر لیا ہے اور ہمیں اسے توڑنے کا حق نہیں ہے لیکن تمہیں ہم سب کو زبان دینا ہو گی کچھ باتوں پر" عادل نے کہا، "میں آپ سے کوئی بھی وعدہ کر سکتا ہوں کیونکہ میری ترجیح میرب کے ساتھ اپنی شادی کو بچانا ہے" چوہدری مراد نے کہا، "جیسا کہ چوہدری شکور نے کہا کہ نکاح کا مطلب ٹوٹنا نہیں ہے اس لیے تمہیں وعدہ کرنا ہوگا۔ کہ تم سویرا کو کبھی نہیں چھوڑو گے" عادل نے جواب دیا، "میں سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اسے نہیں چھوڑوں گا" چوہدری مراد نے کہا، "تم اور میرب اس حویلی میں نہیں رہ سکتے، تمہارے پاس بس ایک دن ہے، تمہیں گھر کا بندوبست کرنا ہے اور اسے یہاں سے لے جاؤ۔" عادل نے صرف اثبات میں سر ہلایا۔ چودھری شکور نے کہا "تم دونوں نے خاندان کے اصول توڑ دیے ہیں اور سزا تم دونوں کو ملنی تھی لیکن سویرا کی وجہ سے ہم نے تمہیں بخشنا ہے، تم اس حویلی میں آ سکتے ہو لیکن تمہاری بیوی کا کوئی رشتہ نہیں ہو گا یہاں کے لوگوں سے اور نہ ہی وہ دوبارہ اس حویلی میں واپس آسکتی ہے۔‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔چوہدری شکور نے کہا" اب تمہاری دو بیویاں ہیں تو تمہیں ان دونوں کے ساتھ برابر وقت گزارنا ہوگا، ایک ہفتے میں تم 3 دن ایک بیوی کے ساتھ اور چار دن دوسری کے ساتھ گزارو گے جبکہ اگلے ہفتے میں تم 4 دن اس بیوی کے ساتھ گزارو جس بیوی کے ساتھ تم نے پچھلے ہفتے 3 دن گزارے ہوں گے"، عادل نے کہا،" لیکن آپ نے کہا کہ میرب دوسرے گھر میں رہے گی، پھر جب میں یہاں ہوں گا تو وہ اکیلی کیسے رہ سکتی ہے، چوہدری مراد نے کہا، "یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ اور تمہیں خود ہی اس کا خیال رکھنا ہے" عادل کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میرب نے کہا، "میں خود انتظام کر لوں گی" چوہدری شکور نے کہا، "کیا تم میں سے کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے" چوہدری حیدر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ "میں نہیں چاہتا کہ یہ میری جائیداد میں سے ایک روپیہ بھی اس لڑکی پر خرچ کرے" میرب ان باتوں سے سخت دکھی ہوئی اور بولی، "اس کا انتظام بھی میں خود کروں گی" چوہدری مراد نے کہا، "اب جب ہم دونوں بیٹھے ہیں پھر ہم فیصلہ کر رہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، زید اور میرب دوبارہ اس خاندان میں داخل نہیں ہو سکتے۔" عادل اور سویرا کی شادی کے بعد سوچا گیا تھا کہ یہ خاندان پھر سے ایک ہو گیا ہے لیکن عادل اور میرب کی شادی سے اس اتحاد کو نقصان پہنچا اور شاکر علی کے اس شادی کو قبول کرنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ میرب ان کی اپنی بہن کی بیٹی تھی اور وہ ان کو بہت زیادہ پیاری تھی۔ میرب کو اپنی رات اکیلے گزارنی پڑی جبکہ عادل کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا جہاں سویرا بیڈ پر بیٹھی تھی اور اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ شادی کے بعد دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی تھی۔ سویرا نے کہا، "اگر آپ کا مجھ سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو آپ نے میری زندگی کیوں تباہ کر دی" عادل خاموش رہا۔ وہ بیڈ سے اٹھی اور اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولی "میں آپ سے بول رہی ہوں ان دیواروں سے نہیں" عادل نے اسے دھکا دیا اور وہ واپس بیڈ پر گر گئی۔ اچانک وہ رونے لگی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔ عادل ایک بار پھر اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے سامنے تھا اور اس بار اس پر اپنی بیوی کو مارنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سویرا رو رہی تھی اور وہ اپنی بہن سے لپٹ گئی تھی۔ چوہدری حیدر نے عادل کو تھپڑ مارا اور کہا " اپنی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو" عادل نے باپ کا ہاتھ تھاما اور باپ کے ہاتھ سے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے زور سے کہا، "آپ صرف ایک تھپڑ سے کیوں رک گئے، تھپڑ مارتے رہیں۔ جب تک میرا چہرہ سرخ نہیں ہوجاتا، یہ ہمیشہ جھوٹ بولے گی اور آپ ہمیشہ یقین کریں گے، ذرا میرا ہاتھ دیکھیں، اگر میں اسے کسی پر رکھ بھی دوں تو یہ نشان چھوڑ جائے گا، پھر اس سے کہین کہ مارنے کا کوئی نشان دکھاۓ" سویرا خاموش رہی کیونکہ مارنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔چوہدری حیات نے صورت حال کو سمجھا اور کہا، "سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جائیں، سویرا نے میرب سے شادی کر کے عادل نے جو اس ساتھ کیا ہے اس کا ردعمل ظاہر کیا" سویرا خاموش رہی کیونکہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ نبیلہ نے اسے خود سے الگ کیا اور پھر اچانک تھپڑ مارتے ہوئے کہا" اگرچہ یہ میری بہن ہے لیکن میں اسے اس گھر کا سکون برباد نہیں کرنے دوں گی اس لیے اس تھپڑ کو یاد رکھنا اس سے پہلے کہ تم دوبارہ ایسا کچھ کرو کیونکہ یہاں کوئی نہیں مانتا کہ زید غلط تھا اور نہ ہی تمہاتے ڈرامے پر کوئی یقین کرے گا، بہتر ہو گا کہ تم اپنے اچھے برتاؤ سے اس گھر کے لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کرو ورنہ یہ ڈرامے ہم پر بالکل نہیں چلیں گے۔" عادل کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اس نے دروازہ بند کیا اور فوراً سویرا کو تھپڑ مارتے ہوئے کہا، "اب جا کر بتاؤ کہ میں نے تمہیں تھپڑ مارا ہے" عادل اندر گیا اور لباس بدل کر بستر پر چلا گیا جبکہ سویرا رات بھر بس روتی رہی۔اگلے دن میراب ہمیشہ کے لیے حویلی سے چلی گئی کیونکہ عادل کو کالج کے قریب ہی ایک گھر ملا تھا اور وہ کالج کے اساتذہ کی کالونی تھی جو کہ پرائیویٹ کالونی تھی لیکن ماحول اچھا تھا اور کافی محفوظ لگ رہا تھا۔ میراب اور عادل رات تک گھر کا کے سامان بندوبست کرتے رہے اور جب سونے کے لیے گئے تو دونوں بری طرح تھک چکے تھے۔ عادل کی آنکھ لگ چکی تھی لیکن میرب کے سسکنے پر کھل گئی. اس نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا"جان....." وہ اور سسکنے لگی. عادل نے کہا"کیوں رو رہی ہو. اگر تمہیں لگتا ہے کہ ان شرائط کو اپنے لیے قبول کیا ہے تو نہیں. تمہارے لیے قبول کیا ہے کہ کبھی نہ کبھی گھر والوں کا دل پگھل ہی جائے گا ورنہ میں زید سے کم نہیں کہو تو سویرا کو.........." میرب نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا "خبردار. قسم کھاؤ میرے سر پر ہاتھ رکھ کے کہ کل رات جیسے چاہے وہ روز ڈرامے کرے لیکن تم کبھی گھروالوں سے کیا وعدہ نہیں توڑو گے" وہ بولا "میری پیاری بیوی. یہ ڈھول میرے گلے میں تمہارے ایثار کے جذبے کی وجہ سے ہی ڈلا ہے" وہ بولی "اسی لیے تم سے شادی کی اور یہ سزا بھگت رہی ہوں. تمہیں اکیلا نہیں کیا اور اب تمہارے ساتھ ہوں. میری نیت واضع تھی کہ خاندان جڑ جائے لیکن........" عادل نے اس کا چہرہ چومتے ہوئے کہا "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" وہ شرما کر بولی "چلو اب سونے دو نا" وہ مسکرایا اور بولا"اتنی بھی جلدی کیا ہے بیگم صاحبہ" عادل اس کا چہرہ چومنے لگا. وہ شرما رہی تھی. ایسا نہیں تھا کہ عادل نے اس کو پہلی بار چوما ہو لیکن اس وقت وہ اسے چومنے دیتی تھی کہ وہ جانتی تھی کہ عادل آگے نہیں بڑھے گا مگر اب وہ اس کی بیوی تھی اور اب عادل کسی بھی وقت آگے بڑھ سکتا تھا. عادل کے ہونٹ جیسے ہی اس کی گردن پر آئے تو پورے جسم میں جھر جھری سی ہوئی اور اس کے منہ سے نکلا "آآآآآآہہہہہہہہ عادل" عادل نے گردن سے کچھ نیچے قمیض کا بٹن کھول دیا اور اس کی کمر کے اوپری حصے کو چومنے لگا اور وہ اپنے جسم میں سنسناہٹ کی وجہ سے جھٹکے کھانے لگی. عادل نے اسی دوران اپنی قمیض اتار دی اور اسے چومتے ہوئے سیدھا کیا اور خود سے لپٹایا تو میرب کو پہلی بار اپنے شوہر کے ننگے سینے کا احساس ہوا اور وہ جھٹکے کھاتی ہوئی فارغ ہوگئی اور اس کی شلوار گیلی ہونے لگی. عادل کے ہونٹ اس کے گلے سے ہوتے اس کی کلیویج پر گئے تو وہ آہ بھر کر رہ گئی. عادلنے جیسے ہی اس کے مموں کے درمیان کی لکیر کو چوما تو وہ تھرا اٹھی. اس نے قمیض اٹھانی شروع کی تو میرب نے خاموشی سے ہاتھ اٹھادیے. قمیض اتری تو نیچے ایک کالے رنگ کی برا میں قید دو سڈول ممے تھے اور گورا جسم تھا. عادل نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا. وہ اکیس سال کی اہک دراز قد لیکن تھوڑی پتلی لڑکی تھی اور اس کا پیٹ ایک دم سپاٹ جبکہ ممے بھی کچھ خاص بڑے نہ تھے. عادل کے ننگے جسم سے ننگے جسم کا ٹکراؤ ہوا تو دونوں ہی تھرا اٹھے. عادل نے ہونٹ اس کے کندھوں ہر رکھے تھے تو وہ تھرا کر سمٹنے لگی. عادل چومتا ہوا مموں کے باہر نکلے حصوں پر آیا اور چومنے لگا. میرب سمٹ رہی تھی اور شرما رہی تھی. جبکہ عادل کی گستاخیاں اب بڑھ رہی تھیں اور میرب کی شلوار کا گیلا پن بڑھتا ہی جا رہا تھا. عادل نے برا کو مموں سے اوپر کیا اور پھر نکال دیا. گول سڈول اور سخت ممے اس کے سامنے تھے. عادل نے ایک کو دبایا اور دوسرے پر جیسے ہی ہونٹ رکھے تو میرب کے منہ سے آہہہہ نکل گیا. عادل دونوں مموں کو باری باری چوسنے لگا. پھر وہ نیچے پیٹ پر آیا اور اسے چوما اور میرب کی شلوار اتارنے لگا مگر میرب نے آنکھین بند کر لیں اور شلوات تھام لی تاہم عادل نے اتار ہی لی جہاں ایک کلی پھول بننے کے لیے عادل کے لن کی منتظر تھی. اس کا آٹھ انچ کا لن شلوار میں جھٹکے کھا رہا تھا. دونوں نے اپنا کنوارہ پن ایک دوسرے کے لیے سنبھال کر رکھا تھا اور اب یہ ایک دوسرے کے سپرد کرنے کا وقت تھا. میرب اس کھیل میں تو نئی تھی لیکن یہ اس کے لیے نیا نہیں تھا کیونکہ اس نے بچپن میں کئی بار اپنے باپ کو اپنی ماں پر چڑھتے دہکھا تھا. عادل شلوار اتار کر میرب کی ٹانگوں کے درمیان آگیا. دونوں اناڑی تھے اور دونوں ہی ہتھیار کو چکنا کرنے کی بات سے نابلد تھے چنانچہ نتیجہ واضع تھا کہ ہتھیار بار بار پھسل جاتا. عادل بار بار اندر کرنے کی کوشش کرتا اور پھسل جاتا. میرب نے جھلا کر کہا "اس پر کوئی تیل ہی کگا لو" یہ محض اتفاق تھا کہ تیل باتھ روم میں تھا. عادل تیل لے آیا اور اپنے ہتھیار کو لگا لیا. پھر وہ پھدی پر آیا اور اندر کرنے کی کوشش کی تو ایک دو بار پھسلنے کے بعد ٹوپا پھنس گیا. عادل نے دھکا مارا تو ٹوپا اندر گیا لیکن ساتھ ہی میرب کے منہ سے ایک چیخ سی نکل گئی "آہہہہہہہہہ دررررددددد ہہہووو رررہہہاااا ہہےےےےےےےے ننننککککاااالللوووووووو" عادل نے ہلکا سا پیچھے کیا اور پوری طاقت سے دھکا مارا تو لن کنوارے پن کی جھلی توڑتا ہوا آدھا گھس گیا اور میرب ایک چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی. عادل نے اسے ہلایا جلایا لیکن وہ نہ اٹھی تو اس نے منہ پہ پانی ڈالا اور وہ ہوش میں آئی لیکن فوراً ہی پھدی میں درد پر رونے لگی. عادل.اسے تسلی دینے لگا تو وہ غصے سے بولی "تم نے اتنا درد دیا مجھے. ایسے کرتا ہے کوئی کیا وہ بھی اپنی ہی بیوی کے ساتھ. عادل اسے باتھ روم لے گیا اور اپنا لن اور اس کی پھدی دھو دی. خون تو صاف ہوگیا پر درد اب بھی برقرار تھا. عادل نے کہا "میرب اب میں اس کی وجہ سے تمہیں ہسپتال تو لے کر جا نہیں سکتا" وہ غصے سے بولی " میں نے کب کہا کہ لے کر جاؤ بس کچھ کرو اس درد کا" بے دھیانی میں جب عادل نے میرب کا مما دبایا تو اسے سنسنی محسوس ہوئی. اس نے عادل کے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھتے ہوئے کہا "عادل ادھر دباؤ" عادل بھی سمجھ گیا اور وہ ممے دباتے ہوئے اسے چومنے لگا. اب میرب کو مزہ آنے لگا. اب پھدی میں درد کی جگہ لن کی طلب نے لے لی. میرب نے کہا "عادل آرام سے کرو نا. دل بھی کر رہا اور تمہارے اس اتنے بڑے سے ڈر بھی لگ رہا. عادل کے لیے تو خوشی کی انتہا تھی کیونکہ وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ آج اسے فارغ ہوئے بغیر ہی سونا ہے. اس بار اس بے لن اور پھدی کو تیل میں نہلا دیا اور اندر کرتے ہوئے مموں کو دبانے اور چوسنے لگا تو لن جتنا پہلے گیا تھا اتنا تو آرام سے چلا گیا. وہ بولا "میرب تھوڑا درد اور برداشت کرلو. پورا اندر کردوں" میرب تو مدحوش تھی. اس نے کہا "جو کرنا ہے کرو" اس کی بات سن کر عادل نے لن پیچھے کیا اور ایک زوردار دھکامارا تاہم.اس بار اس نے میرب کے ہونٹ اہنے ہونٹوں میں رکھے اور پورا لن اندر کردیا. میرب درد سے جھٹپٹائی مگر اتنا درد نہیں ہوا اور عادل کے ممے دبانے سے اس کو سکون ملا اور عادل آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگا. لن کی حرکت سے شروع میں تو پھدی کو تکلیف ہوئی مگر آہستہ آہستہ میرب کو مزہ آنے لگا اور وہ اس کا ساتھ دینے لگی. عادل نے ہونٹ اٹھا لیے اور وہ کراہ کر سانس بحال کرتے ہوئے بولی "آآآآآررررراااااممممم سسسےےےےےے ہہہہہہہہہاااااااائئ تمہااااااارررررااااااا بہہہہہتت بڑااااا ہہہہےےےےے" اب میرب کو مزہ آ رہا تھا اور وہ چھوٹنے کے قریب ہوئی تو وہ کراہی "عااااااددددددللل مجھےےےےےے ککچھ ہہہہوووووو ررررررہہہہااااااااہہہہےےےےےے" عادل بھی تو عروج پہ پہنچ چکا تھا اس نے سنی ان سنی کی اور دھکے جاری رکھے. تھپ تھپ کی آواز تیز ہوئی اور پہلے میرب کی کراہ نکلی "آہہہہہہہہہہہہہ یییہہہہہہہ ککییییااااااااا" اس کا جسم اکڑا اور اس کی عادل پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ساتھ ہی اس کی پھدی کا پانی نکل گیا. ابھی وہ ڈھیلی پڑ ہی رہی تھی کہ عادل کے منہ سے آہہہ نکلا اور اس کا لن میرب کی پھدی میں الٹیاں کرنے لگا. وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہانپتے رہے. عادل نے میرب کی پھدی سے لن نکالا تو پانی تو نکلا تہم خون نہ نکلا کیونکہ وہ صاف کر چکا تھا. عادل نے اسے چوم لیا اور اس سے لپٹ گیا اور بولا "تو ہم نے سہاگرات منا ہی لی"میرب نے کہا، "آج تم نے مجھے بہت تکلیف دی ہے" عادل نے کہا، "میں نے سنا تھا کہ عورت کو پہلی بار بہت درد ہوتا ہے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اتنا درد ہوتا ہے" اس نے کہا"یہ تمہارے ہتھیار کی جسامت کی وجہ سے اتنا تکلیف دہ تھا، میں حیران تھی کہ یہ میرے ابا کے ہتھیار سے بھی بڑا ہے" عادل یہ سن کر چونک گیا اور بولا، " ہیں ہیں تم نے اپنے ابا کا ہتھیار کہاں دیکھا؟" وہ شرما کر بولی، "بدھو اور کہاں دیکھنا تھا میں بس اپنے والدین کا لائیو سین کئی بار دیکھ چکی ہوں" عادل نے کہا، "بےشرم تم نے یہ سب دیکھتے ہوئے کبھی شرم محسوس نہیں کی" وہ کہنے لگی، "وہ اتنا شور مچاتے تھے کہ میں متوجہ ہو گئی اور پہلی بار دیکھنے کے بعد میں خود پر قابو نہ رکھ سکی اور میں بار بار دیکھتی رہی" عادل نے ہنستے ہوئے کہا، "اور اگر ہمارے بچے ہمیں ایسا کرتے ہوئے دیکھیں تو" اس نے کہا، "پہلے تو میں ان کا منہ نا توڑ دوں گی اور ہم شور نہیں کریں گے اور........ بیشرم تم نے مجھے یہ سب کہنے پر مجبور کیا" یہ کہہ کر اس نے نرمی سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا کیونکہ وہ عادل کی شرارت سمجھ گئی تھی اور وہ دیر تک ہنستا رہا۔ وہ ایک دوسرے کی بانہوں میں سو گئے۔
          جاری ہے............​
          Last edited by Man moji; 01-18-2023, 09:46 AM.

          Comment


          • #55
            ہر اپڈیٹ میں نیا موڑ۔ کیا بات
            Last edited by Man moji; 01-18-2023, 11:08 AM.

            Comment


            • #56
              زبردست مزہ دار اپڈیٹ گڈ لک

              Comment


              • #57
                amzaing story

                Comment


                • #58
                  Just wowww..... each update contains a new thrill in it..that makes the story more interesting ?

                  Comment


                  • #59
                    زبردست

                    Comment


                    • #60
                      سٹوری بہت اچھی جا رھی ھے۔ رایٹر کے لکھنے کا انداز بہترین ھے۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X