Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ارسی کی محبت بھری داستانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم بوس

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Erotic ارسی کی محبت بھری داستانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم بوس

    ہر ہفتہ ایک خون گرما دینے والی کہانی ہو گی ۔ اتفاقا کسی سے مطابقت ہو سکتی لیکن انہئں میں اپنے لفاظ میں بیان کروں گا ۔ بہت عرصہ سے سوچ رکھا تھا لیکن مناسب وقت کا انتظار تھا اب فیصلہ کیا ہے کہ ارسی کی محبتیں شروع کروں ۔میری پہلی قسط گیمر لڑکی پر منحصر ہو گی ۔​



    انتباہ :میری کہانیاں خیالی ہوں گی حقیقت سے تعلق اتفاقا ہو گا کسی کی دل ازاری ہو تو پہلے سے معذرت خواہ ہوں اور اپنی رائے سے آگاہ ضرور کریں ۔ تو چلئیے پہلی کہانی کی طرف۔۔۔





    میرا نام عرسیہ ہے میں گاوں کی رہنے والی لڑکی ہوں سانولے رنگ کی لیکن پرکشش رنگت اور جسامت کی مالک ہوں میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہوں اگر اج کی بات کریں تو میری جسامت پیچھے سے 38 کمر 34 چھاتی 36 ہے تو میں آپ کو اج سے قریب 20 سال پہلے جب میں جوانی میں قدم رکھا تھا اس وقت کی کہانی بتانے جا رہی ہوں میری پڑوس میں لڑکی رہتی تھی جس کا نام عائشہ ہے وہ ایک اعلی درجے سے تعلق رکھتی ہے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی ماں گھریلو عورت تھی لیکن باپ ایک کاروباری شخص تھا تو ان کی ذرائع امدن کہیں بہتر تھی گھر بھی بہت اعلی تھا میں اس کے گھر کھیلنے جایا کرتی تھی عمر میں وہ مجھ سے تین چار سال بڑی تھی تھی رنگ گورا چٹا اتنی سفید کہ اس کے سامنے دودھ بھی پیلا لگے جسامت سے ایسے تھی جیسے گڑیاں ہو پیچھے سے 32 کمر 38 چھاتی 32 تھی عمر 17 کے قریب میں 14 سال میں تھی میری جسامت اس وقت تو بالکل نہ ہونے کے برابر تھی لیکن رنگت میں بہت کشش تھی وہ بہت آزاد خیال لڑکی تھی اسی وقت وہ فیشنی ملبوسات پہنتی تھی کہ اس کے جسم کے عضاء چھپے ہونے کے باوجود محسوس ہوتے تھے وہ لباس زیادہ وقت استعمال نا کرتی تھی ہم بچپن سے ہی دوست تھے پڑوسی ہونے کی وجہ سے آنا جانا لگا رہتا تھا حالانکہ اس کے والدین کافی مغرور تھے لیکن پھر بھی میرے آنے جانے سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا اس کے والدین اکثر کسی نا کسی دعوت پہ مدعو رہتے تھے اس کی والدہ کی جسم تو کافی بھاری بھرکم تھا لیکن خوب سجھ دجھ کے رہتی تھیں اس کے والد بھی کافی تندرست قدآور اور اچھی خصوصیات کے مالک تھے ہم اکثر گیمز کھیلا کرتی تھیں کیونکہ اسے باہر جانے کی زیادہ اجازت نہ تھی سکول بھی گاڑی پہ آنا جانا تھا انگریزی اسکول تھا ہم اکثر مل کر کئی گیمز کھیلتی تھیں جیسے گاوں کے کھلے گھر ہوتے ہمارا بھی ویسا ہی تھا محلے کے باقی بچیاں بھی آ جاتیں تو ہمارے صحن کھلا ہونے کی وجہ سے بہت سی گیمز کھیلتی اگر ہمارا موڈ باہر کھیلنے کا نا ہوتا تو اس کے گھر میں گیمز کھیل لیتیں جیسے لڈو کیرم کیمپوٹر گیمز وغیرہ کمپیوٹر تو وہی چلاتی تھی میں بس دیکھتی تھی بس ہمارا بچپن گز گیا اور ہم یوں ہی جوان ہو گئی اب میرے نپل بھی چھوٹی گیند نما شکل اختیار کر چکے تھے جبکہ وہ ایک مکمل عورت کی شکل اختیار کر چکی تھی اب جبکہ میں 17 سال میں تھی تو وہ 20 کی ہو چکی تھی محبت رومانس سیکس کے بارے میں جان چکی تھی لیکن میں ان باتوں سے بےخبر تھی وہ کالج میں تھی میں ہائی اسکول گئی

    تو اس نے مجھ سے پوچھا کیا" تم سہاگ رات کے بارے میں جانتی ہو کیا ہوتی ہے اور کیا کرتے ہیں "

    میں نے جواب دیا " نہیں"

    تو اس نے پوچھا "کیا تم جاننا چاہو گی ؟"

    میں نے کہا " کیوں نہیں"

    تو وہ بولی " ٹھیک ہے لیکن وعدہ کرو کسی سے اس کا ذکر نہیں کرو گی"

    تو میں بولی " ٹھیک ہے وعدہ رہا"

    میری بہت گہری دوستی اور وابستگی تھی اس سے بہت یقین کرتی تھی اس پر اس لئیے اس سے ہر قسم کا مذاق رہتا تھا وہ اکثر میرے جسم سے شرارت کرتی تھی جسے پیچھے ہاتھ لگانا انگلی کرنا نپل پہ کاٹنا لیکن لاعلمی کی وجہ سے کبھی محسوس نہ کیا تھا پھر اس نے مجھے ان سب حالات سے آشنا کروایا کہ کیسے مرد اور عورت ایک دوسرے سے ملاپ کرتے ہیں

    وہ بولی " سہاگ رات وہ ہوتی ہیں جس میں مرد عورت ننگے ہو کر ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں چومتے چاٹتے ہیں پھر بچہ ہوتا ہے"

    میں ہنس دی اور بولی " ایسا تھوڑی ہوتا ہے اپنی طرف سے بےحیائی والی باتیں نہ کرو"

    پھر وہ ایک کتاب اٹھا لائی جس میں سہاگ رات کے متعلق تصاویر بنی ہوئی تھیں کہ کیسے مرد کمرے میں داخل ہوتا کنڈی لگاتا پھر دلہن کے پاس آ کر گنگھٹ اٹھا اور اسے لٹا کر ننگا کر دیتا اور خود بھی ہو جاتا میں یہ سب دیکھی جا رہی تھی اور میری دھڑکن تیز ہو رہی تھی جب میں نے مرد کو ننگا دیکھا تو کانپ سی گئی کیونکہ مرد کی تصویر سامنے سے دکھائی گئی تھی کہ وہ ننگا کھڑا ہے اور اس کا لن نیچے کی طرف لٹکا ہوا ہے اتنے میں میرے کندھے پہ اس کا ہاتھ آیا تو میرے جسم میں کپکپی سے ہونے لگی میں نے کتاب بند کردی اگلے کچھ نا دیکھا

    تو وہ بولی " مکمل تو دیکھو اصل معاملہ تو آگے ہے سارا رک کیوں گئی"

    میری زبان کپکپا رہی تھی الفاظ نہیں نکل رہے تھے دل تو جیسے چھاتی سے مکا بازی کر رہا تھا وہ میرے کندھے مسل رہی تھی کہ اچانک ایک ہاتھ میرے ممے پہ لے آئی اور نپل کو چھٹکی کاٹی میں نے وہ پہلی بار محسوس کیا اور سسکی بھری "سسسییییی" اس نے مما جو کہ ربڑی گیند جتنا آدھا کٹا ہوا تھا پکڑ کر دبایا کچھ وہ پہلے سخت تھا کچھ وہ یہ سب دیکھ کر ہو گیا تھا میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور وہاں سے بھاگ کے گھر آ گئی اور کمرے میں چلی گئی لیکن وہی خیال آ رہے تھے جسم تو جیسے تندور کی طرح تپ رہا تھا میں لیٹی خیالوں میں اور سو گئی لیکن پھر سے وہی خواب مجھے عائشہ ننگا کر رہی ہے اور میرے جسم کے ساتھ کھیل رہی ہے عجیب بات یہ تھی کہ میں نے عائشہ کے مموں کے ساتھ اس کا ویسا لن دیکھا جیسا کتاب میں تھا میں قریب دو گھنٹے سوئی ہوں گی جب اٹھی تو شلوار گیلی ہو چکی تھی مجھے لگا میرا پیشاب نکل گیا لیکن اس پانی نے صرف شلوار کو تر کیا تھا لہذا میں اٹھی اور دوسری شلوار لے کر حمام چلی گئی اور اپنی پھدی کو صاف کیا میں نے اس لیس دار مادے کو انگلی پہ لگایا اور سونگا تو عجیب سی بدبو آ رہی تھی مجھے کچھ بھی سمجھ نا آیا میں خوف زدہ ہو گئی کہ کسی بیماری میں مبتلہ ہو گئی ہوں ۔ عائشہ جانتی تھی کہ مجھے اس کی طلب واپس کھینچ لائے گی اس لئیے وہ پیچھے نا آئی اور نا ہی خیریت دریافت کی میں نے جیسے تیسے دو دن نکالے لیکن وعدہ کی وجہ سے کسی سے بیان نہ کیا میں نے ہمت کی اور اس کے گھر گئی وہ کمرے میں اپنی کتابوں میں مگن تھی آنٹی کو سلام کیا اور اس کے کمرے میں چلی گئی کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی اس نے اپنی کتاب بند کی اور

    مجھ سے مخاطب ہوئی " تو پھر اس دن مزہ پورا کئیے بنا بھاگ گئی سکون کیسے ملتا تمھے"

    میں ویسے ہی چپ بیٹھے رہی وہ بولتی گئی " کہا تھا پورا دیکھو کوئی بھی ادھورا علم تسکین کا باعث نہیں ہوا یہ وہ باتیں ہیں جو مستقبل میں کام آئیں گیں یہ سب تمھے تجربہ کے لئیے ہیں تم نے وعدے کا مان رکھا اور کسی کو خبر نہ کی مجھے فخر ہے تم پر کہ تم جیسی دوست ملی اگر تم بتا دیتی تو نا صرف دوستی ختم ہوتی گھر والوں کے سامنے زلیل بھی ہو جاتیں میری بات مانو گی تو سکون بھی ملے گا خوشی بھی"

    میں نے ہمت جٹائی اور بات کی " وہ لیس ۔۔۔ شلوار "

    وہ سمجھ گئی اور بولی " یہی وہ مادہ ہے جو نکلتا ہے تو جسم کو سکون ملتا ہے لیکن اس کے کچھ طریقہ کار ہیں جو میں تمھے سکھاوں گی وقت کے ساتھ اس دن موقع تھا لیکن تم نے گنوا دیا لیکن کل پھر ہم کوشش کریں گیں"

    میں نے گردن نیچے کر لی تو وہ میرے پاس بیڈ پہ آ گئی اور میرے پٹ پہ ہاتھ رکھ لیا تو میرا جسم بھی سے کپکپانے سا لگا وہ ہاتھ آگے پیچھے کر کے ہاتھ پھدی تک لے گئی تو جیسے ہی انگلی نے چھوا میں تو جیسے کانپ گئی اس کا کمرہ اوپر والی منزل پہ تھا جہاں والدین کم ہی آتے تھے اور دروازہ خود بند ہو جاتا تھا کھلتا ہینڈل لاک سے تھا اس نے ہاتھ پھدی پہ رکھا اور دوسرا گردن کے پیچھے اور اپنے ہونٹوں کے قریب کر کے بولی " آج پہلا سبق ہے زرا اس کا مزہ لو" وہ میرے اتنے قریب تھی کہ اس کی سانسیں محسوس ہورہی تھیں اس کی سانسیں مجھے مدہوش کر رہی تھی اس نے باتوں باتوں میں اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ دئیے میں پہلی دفعہ کر رہی تھی بلکہ بھی علم نہی تھا میں نے اپنا منہ بند رکھا وہ کبھی اوپر کے ہونٹ چوستی کبھی نیچے کا کبھی زبان دونوں ہونٹوں پہ پھیرتی نیچے وہ پھدی کے ارد گرد انگلیاں گھوما رہی تھی میں مدہوش ہو گئی اور دانتوں کو ڈھیلا کر دیا اس کی زبان کو رستہ ملا زبان کی زبان سے نوک ملی تو میرے جسم میں کرنٹ دور گیا نپل اکڑ گئے ٹانگیں سخت ہو گئی اس نے کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر گود میں لے لیا اور ہونٹوں کی چسائی جاری رکھی اب مجھے بھی کچھ علم ہوا ہوس کی گرفت میں آ گئی تو میں بھی اس کے ہونٹ چوسنے لگی اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالی جسے میں چوس رہی تھی وہ پھدی رگڑے جا رہی تھی کہ اسی اثنا میں میرا جسم جھٹکے کھانے لگا میری آنکھیں بند ہو گئیں اس کی زبان میرے منہ میں تھی تو پورے شدت سے چوستی اور میں ڈسچارج ہو گئی میں اس شدت میں آئی کہ عائشہ کو گلے لگا لیا اور جب تک آخری قطرہ نا گر چکا میں لپٹی رہی قریب 10 منٹ یہ کھیل چلا اور 5 منٹ گلے لگی رہی جب سامنے ہوئی تو ناجانے کیا شرارت سوجھی میں نے عائشہ کا گال چوم لیا میری شلوار اپنے پانی سے بھیگ چکی تھی اس نے مجھے اپنے حمام جانے کو کہا اور اپنی شلوار دی اور کہا کہ میری شلوار ادھر چھوڑ جائے میں نے پوچھا بھی تو کہنے لگی کوئی وجہ نہیں تم نشانی کے طور پہ چھوڑ جاو تو میں مسکرا کے راضی ہو گئی میں نے اپنا سارا نیچے کا حصہ دھویا اور اس کی شلوار پہن کے واپس آ گئی اور ہم باتیں کرنے لگیں کوئی قریب 1 گھنٹہ رکی اور گھر گئی کہ جب موقع ملے گا تو اسے مکمل مزہ دے گی ہفتے کی رات کو وہ موقع میسر آ گیا جب عائشہ کی فیملی کو ایک دعوت پہ مدعو کیا گیا تو عائشہ نے بہانہ بنا کر جانے سے انکار کردیا اور میرے والدین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ رہیں جب تک واپس آتے




    جاری ہے ۔۔۔!​
    جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

  • #2
    Kahani ka aghaz boht zabardast ha

    Comment


    • #3
      بہت ہی شاندار کہانی ہے ۔۔۔۔
      پہلی ہی قسط میں اگ لگا دی۔۔

      Comment


      • #4
        zabardast start.shehwat angaiz.maza aa gya

        Comment


        • #5
          Agaz to acha hai

          Comment


          • #6
            Shandar aghaz
            naza aya parh kar

            Comment


            • #7
              شاندار کہانی ہے

              Comment


              • #8
                بہت عمدہ آغاز کیا ہے، لگتا ہے یہ ایک بہترین سلسلہ ثابت ہو گا

                Comment


                • #9
                  زبردست آغاز

                  Comment


                  • #10
                    Acha agaz hy

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X