Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

دل پہ لگے زخم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    Alag topic zabrdst

    Comment


    • #12
      بہت خوب جناب کیا زبردست تحریر ہے

      Comment


      • #13
        اچھا آغاز ہے

        Comment


        • #14
          "۔ مرد کا بے وجہ شک گھر برباد کر دیتا ہے"
          لکھاری کے پختہ طر ز تحریر سے کہانی سائٹ پر ایک عمدہ اضافہ معلوم ہوتی ہے ۔

          Comment


          • #15
            بہترین آغاز ہے - لگ رہا ہے کہانی بہت مزیدار ہونے والی ہے.

            Comment


            • #16
              دل پہ لگے زخم
              ثمرین شاہد
              قسط :02

              ” وہ....وہ میں پوچھنا چا......!“
              زبیر کی کرخت آواز سنتے ہی اس کے ترتیب دیے الفاظ دم توڑ گئے ۔ اس نے ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا مگر اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی گئی ۔
              ”کیا وہ میں لگا رکھا ہے جو بولنا ہے جلدی بولو! میرے پاس اتنا فضول وقت نہیں ہے کہ فون کان سے لگائے کھڑا رہوں ۔“
              زبیر کے لہجے میں سختی اور بے زاری نمایاں تھی۔
              ” میں آپ سے باہر جانے کی اجازت لینا چاہتی تھی زبیر! “ زارا نے لب بھینچے اصل مدعا بیان کیا۔
              ”کیوں.......؟ کیوں جانا ہے باہر ۔“
              اس کے باہر جانے کا سن کر اس نے برہم ہوتے ہوئے پوچھا۔
              ” گھر کا سودا ختم ہوگیا ہے اور...... اور آپ نہیں ہیں تو میں بس چاہتی تھی کہ جاکے لے آؤں ۔“
              اسے غصے میں دیکھ کر اس نے وضاحت دی ۔
              ” ٹھیک ہے چلی جاؤ ۔ صاعقہ خالہ کو ساتھ لیتے جانا اور پیسے وہیں دراز میں پڑے ہیں وہ لے جانا۔“
              آخری جملہ مکمل کرتے ہی دوسری طرف سے لائن کٹ گئی تھی۔
              وہ بت بنے کھڑی فون دیکھ رہی تھی اور حیران بھی تھی کہ اتنی جلدی وہ مان کیسے گیا تھا اور وہ صاعقہ خالہ کے ساتھ کیسے جاتی وہ تو خود بیمار تھیں ۔
              ”میں ایک بار پوچھ لیتی ہوں اگر اکیلے گئی تو یقینًا زبیر ناراض ہوجائیں گے۔“
              اس نے جلدی سے کپڑے تبدیل کرکے ایک بڑی سے چادر اوڑھ لی اور الماری کی دراز میں پڑے پیسے جو زبیر نے بتائے تھے اپنے پرس میں رکھ کے دروازہ لاک کرنے کے بعد صاعقہ خالہ کے گھر کی سمت بڑھ گئی۔باہر نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا نے اس کا استقبال کیا تھا تو اس کے رگ و پے میں خوشی سرایت کر گئی ۔چند قدم کا فاصلہ طے کرتے وہ صاعقہ خالہ کے گھر کے باہر کھڑی تھی ۔ دو تین بار دستک دینے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں اتنے میں ان کا پوتا راحت دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا تھا۔
              ”کیا ہوا اپیا.....آپ یہاں؟ آپ اکیلی آئی ہیں ۔ زبیر انکل نہیں آئے آپ کے ساتھ؟“
              راحت نے اسے تنہا دیکھ کے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں اور ایک ساتھ اتنے سوالات پوچھ لیے ویسے تو وہ بمشکل ہی گھر سے باہر نکلتی تھی ، دو تین بار وہ اس کے گھر آئی تھی تو تب بھی زبیر اس کے ساتھ ہی تھا ۔
              ”وہ شہر سے باہر گئے ہیں چھوٹو!
              پتہ نہیں کب آئیں ۔ تمہاری دادی جان گھر پر نہیں ہیں کیا ؟ میں کب سے دروازہ نوک کر رہی ہوں لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا۔
              وہ سامنے کھڑے سات آٹھ سالہ راحت کے دائیں گال کو پیار سے چھوتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی ۔
              ”نہیں اپیا! دادی جان تو گھر میں نہیں ہیں۔ وہ ساتھ والے گھر نئے آنکل آئے ہیں نا وہ ان کے گھر گئی ہیں ۔ اس بچے نے انگلی سے اس مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا جہاں کچھ دن پہلے نیا ہمسایہ رہنے آیا تھا اور اسی کے مرہون منت اسے آج بھوکا رہنا پڑا تھا۔
              ”اچھا چھوٹے! کیا تم انھیں بُلا دو گے؟“
              اس نے راحت کو صائقہ خاتون کو بلانے کا کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلا گیا ۔وہ وہاں نہیں جانا چاہتی تھی اس لیے وہیں کھڑی ان کا انتظار کرنے لگی اور اس کی نظریں آس پاس کھیلتے بچّوں پر ٹھہر گئیں ۔اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب وہ گھر میں اپنے بابا کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور وہ اس کے تمام دوستوں کو گھر پر ہی بُلا لیا کرتے تھے۔ وہ دن اسے کسی نعمت سے کم نہیں لگتے تھے وہ خود کو دُنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی سمجھتی تھی لیکن جب اسے پیار دینے والے بابا سپرد خاک ہوئے تو اس کی دُنیا ہی بدل گئی ۔پھولوں کے درمیان رہنے والی جسے زارا کو کانٹوں کی چبھن کا احساس تک نہیں تھا۔ محبت میں پلی بڑھی اس معصوم سی پری کے دامن میں جو کانٹے اُگے تھے اس نے اس کی روح کو بھی زخمی کر دیا تھا ۔اس کا غم کسی سمندر کی گہرائی کی طرح اس کے اندر موجیں مار رہا تھا جو اس کے وجود کو اپنی لہروں میں پھنسائے اسے ساحل سے بہت دور تک لے جاتا اور وہ بے بسی سے خود کو اس بھنور کے زد میں دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پاتی تھی۔
              صاعقہ خالہ اس گھر میں بیٹھیں اپنے نئے ہمسائے سے بات کر رہی تھیں ۔
              "بیٹا تم یہاں اکیلے ہی رہ رہے ۔ تمہاری فیملی نہیں آئی تمہارے ساتھ ، کیا وہ بعد میں آئی گی ؟“
              ”نہیں آنٹی!! میں نے یہ گھر نیا لیا ہے بس اسے دیکھنے کےلیے یہاں آیا تھا ، کچھ دنوں میں چلا جاؤں گا۔“
              جب سے وہ اس کے گھر آئی تھیں سوال پہ سوال ہی کیے جا رہی تھیں۔ اس نے کچن سے نکل کے پلیٹ میز پر رکھ دی اور خود ساتھ والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے انھیں بتایا۔
              ”یہ کیا بات ہوئی۔ بیوی بچّوں کو وہاں تنہا چھوڑ کے تم اکیلے ہی چلے آئے۔“
              ان کی سوئی ایک ہی جگہ پر اٹکی تھی ۔
              ”نہیں..... نہیں آنٹی! آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔ میری تو خیر سے ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔“
              اس نے شرماتے ہوئے گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے مسکرا کے انھیں آگاہ کیا ورنہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار انسان سمجھ بیٹھی تھیں ۔
              ”یہ کھائیں نا پلیز! گھر میں دودھ ختم ہوگیا ہے ورنہ آپ کو چائے ضرور پلاتا۔“
              اس نے نمکو سے بھری پلیٹ ان کے سامنے کرتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
              ”نہیں بیٹا! میں یہ سب نہیں کھا سکتی میرا بلڈ پریشر بڑھا رہتا ہے اور چائے میں زیادہ پیتی نہیں ۔“
              انھوں نے اپنی بیماری کا تذکرہ کرتے ہوئے صاف انکار کردیا تو اس نے پلیٹ سے کچھ نمکو اٹھا کے اپنے منہ میں ڈال لیے۔
              ”میری صبح آپ سے بات ہوئی تھی آنٹی! تو آپ چل رہی ہیں نا میرے ساتھ ؟“ اس نے پہلے سے طے ہوئی گفتگو کا حوالے دیتے ہوئے پوچھا۔
              ”بالکل...... بالکل! تم یہاں نئے ہو۔ تمہیں مدد کی ضرورت پڑے تو میں منع کیسے کرسکتی ہوں ۔“
              انھوں نے خوش دلی سے کہتے ہوئے مسکرا کے اس کی جانب دیکھا۔
              ”دادی جان..... دادی جان!!!“
              اتنے میں راحت انھیں آواز لگاتا دوڑتا ہوا ان کے پاس چلا آیا ۔
              ”ارے دادی کی جان! آپ اس طرح دوڑ کیوں رہے اگر چوٹ لگ جاتی تو ، بیٹا اچھے بچے اس طرح نہیں دوڑتے۔ “
              انھوں نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ بڑھا کے اسے خود سے قریب کیا اور پیار سے سمجھانے لگیں۔
              ”دادی جان...... زارا اپیا آپ کو ڈھونڈھ رہی تھیں آپ سے کچھ کام تھا شاید انھیں ۔“
              اس نے پھولے ہوئے سانس کے درمیان انھیں بتایا۔ وہ خاموشی سے بیٹھا نمکو کھاتے ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا اس نے جلدی سے اٹھ کے میز سے پانی کا گلاس لے کر اسے تھما دیا ۔
              ”یہ لو چھوٹو اسے پی لو ۔“
              بچے نے فورًا سے گلاس پکڑ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گلاس خالی کرکے خالی گلاس سامنے کھڑے نوجوان کو واپس تھما کے ایک بار پھر سے اپنی دادی سے مخاطب ہوا۔
              ”چلیں نا دادی جان! مجھے کھیلنا بھی ہے ۔میرے دوست انتظار کر رہے ہوں گے۔“
              ”اچھا تو بیٹا اب میں چلتی ہوں ، دیکھوں تو ذرا زارا بچے کو کیا کام ہے ۔“
              وہ اس سے اجازت مانگتی کھڑی ہو گئیں ۔
              ”ٹھیک ہیں آنٹی پھر میں تیار ہوکے آپ سے باہر ملتا ہوں ۔ “
              اس نے عقیدت سے سر کو خم کرتے ہوئے کہا اور کھڑا ہوگیا جبکہ وہ راحت کے ساتھ اس کے گھر سے نکل گئی تھیں۔
              ★★★★★

              ”تم ہار گئے ہو، تم ہار گئے ہو “
              بچوں میں یکدم شور بڑھ گیا تھا ۔ایک بچے نے چلاتے ہوئے کہا تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
              ”ہاں تم بے ایمانی نہیں کر سکتے ۔ہم تمہیں اپنے ساتھ نہیں کھیلائیں گے۔“
              زارا شور کی وجہ سے ان خیالوں کی دُنیا سے باہر آئی
              اور سامنے بچّوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تو دوڑ کر ان کے پاس چلی آئی ۔ اس نے اگے بڑھ کر انھیں ایک دوسرے سے الگ کیا جو اب مار پیٹ پر اتر آئے تھے۔
              ”کیا ہوگیا ہے بچو! آپ لوگ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں؟ “
              اس نے باری باری ان دونوں بچّے کی طرف دیکھ کے پوچھا تو ایک بچے نے ساری بات بتائی۔ بلال آوٹ ہوگیا تھا لیکن پھر بھی ضد پر اڑا تھا کہ وہ پھر سے کھیلے گا ۔
              ” یہ تو بہت بُری بات ہے نا بلال.....آپ ہار گئے ہو پھر دوسروں کو کھیلنے کیوں نہیں دے رہے ؟“
              اس نے بلال کی جانب دیکھتے ہوئے جاننا چاہا۔
              ”آپی!! مما کہتی ہیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔“
              بلال نے چہرے پر بلا کی معصومیت سجائے بتایا تو وہ مسکرا دی اور باقی بچے زور زور سے ہنسنے لگے۔
              ”تو کیا ہماری باری بھی خود کھیلو گے؟“
              اور ایک بار پھر سے ہنسی گونج اٹھی تھی۔
              ”چپ ہوجاؤ سب! ایسے کسی کی کا مذاق نہیں اُڑاتے ہیں ۔ “
              زارا نے انھیں ڈانٹا تو سب کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔
              ”بلال کی مما بالکل ٹھیک کہتی ہیں ہمیں زندگی میں کبھی ہار نہیں ماننا چاہیے ۔“
              زارا کی بات سُن کر وہاں موجود سبھی حیران ہوئے کہ وہ کیا بول رہی ہے۔زارا نے بلال کو خود سے قریب کیا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
              ”لیکن بلال کھیل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جب ایک کھلاڑی ہارتا ہے تو اُس کی جگہ دوسرے کی باری آتی ہے۔ آپ فرض کریں ۔کوئی بار بار ہار کے بھی کھیلتا رہے گا اور آپ کی باری نہیں آئے گی تو کیا آپ کو اچھا لگے گا ؟“
              اب وہ جواب طلب نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
              ”نہیں۔“ بلال نفی میں گردن ادھر اُدھر ہلاتے ہوئے اداس ہوکے کہا۔
              ”بالکل! پھر آپ اسے گیم سے نکال دو گے یا ایسا کرو گے کہ اس کے ساتھ نہیں کھیلو گے ، ہیں نا؟“
              وہ اس سے پوچھ رہی تھی اور باقی بچّے اسے خاموشی سے سُن رہے تھے جیسے وہ کلاس میں بیٹھے ہوں اور کوئی ٹیچر سبق پڑھا رہا ہو یا کوئی کہانی سُن رہے ہوں جیسے بچے رات کے وقت دادی جان سے کہانی سنتے وقت خاموش رہتے ہیں۔
              ”جی! “ بلال نادم ہوا۔
              ”اور رہی بات آپ کی مما کی تو واقعی ہمیں اپنی زندگی میں کبھی ہار نہیں ماننا چاہیے بلکہ ناکامی کے بعد دوبارہ سے کوشش کرتے ہوئے اپنی ہار کو جیت میں بدل دینا چاہیے ۔ تبھی تو ہم بہادر کہلائیں گے۔
              ”وہ کیسے؟“ اس نے ناسمجھی سے سوال کیا۔
              ”دیکھو جب آپ سبق یاد کرتے ہیں اور وہ یاد نہیں ہوتا تو آپ کو لگتا ہے آپ فیل ہو جائیں گے۔ اس وقت آپ کو ہمت ہارنے کی بجائے دوبارہ پڑھنا چاہیے اس طرح بار بار کوشش کرتے رہنے سے آپ کو آپ کا سبق یاد ہوجائے گا اور آپ اپنے امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے ۔محنت نہ کرنے سے انسان ہار جاتا ہے ۔آپ کی مما اس لیے کہتی ہیں کہ ہار مت مانو بلکہ کوشش کرتے رہو ۔اب سمجھے بدھو! “
              وہ اس کے بالوں پر انگلی پھرتے ہوئے وہاں سے اُٹھ گئی۔ بچّے اب سکون سے کھیل رہے تھے اس نے انھیں اُنھیں تسلی بخش جواب دے کر سمجھا دیا تھا۔
              راحت کے ساتھ صاعقہ خالہ جو تقریبًا پچپن سال کے لگ بھگ خاتون تھیں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کی سمت آ رہی تھیں۔ انھیں دیکھ کے وہ آگے بڑھ گئی اور انھیں سلام کیا۔
              ”وعلیکم السلام زارا بچے بہت شکریہ میری بچی!، اگر اس دن تم نہ آتی تو ناجانے میرا کیا ہوتا دائم اور رانیہ تو اپنی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے ۔“
              انھوں نے اپنے بیٹے اور بہو کی غیر موجودگی کا ذکر کیا اور اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر میں پھیرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرنے لگیں۔
              زارا کو کبھی ماں کا پیار نہیں ملا تھا ملتا بھی کیسے اس کی ماں اس کے اس دُنیا میں آتے ہی مالک حقیقی سے جا ملی تھی۔ اس کے ماں باپ عباس صاحب ہی تھے ۔اپنی بڑی پھپھو سے وہ بچپن میں ملی تھی اب تو اسے ان کی شکل تک ٹھیک سے یاد نہیں تھی ناجانے وہ پردیس جاکے انھیں بھول کیوں گئی تھیں اور اتنے دنوں میں ایک بار بھی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی حالانکہ وہ اپنے بابا سے حلیمہ پھوپھو کی خوش اخلاقی اور ملنساری کے قصے سنتی آئی تھی۔ اگر وہ اتنی اچھی تھیں تو کبھی پلٹ کر اپنے بھائی کا حال کیوں نہیں پوچھا تھا۔ اپنے باپ کے دل میں ان کے لیے والہانہ محبت دیکھ کر اسے حیرانی ہوتی تھی۔کبھی کبھار تو اسے شک گزرتا کہ وہ واقعی اتنی اچھی تھیں یا ان کے بابا اس کا دل بہلانے کے لیے من گھڑت کہانی سناتے تھے پھر اس خیال کو خود ہی جھٹک دیتی کیوں کہ ان کے متعلق بات کرتے عباس صاحب کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک ہوتی تھی اور چھوٹی پھپھو کے ظلم نے تو اس کا خونی رشتے پر سے اعتبار اٹھا دیا تھا ۔اسے رہ رہ کر ماں کی کمی محسوس ہوتی اور جب بھی وہ کسی ماں بیٹی کو پیار کرتے دیکھتی تو یہی سوچتی کہ کاش اس کی ماں بھی اس کے پاس ہوتی تو وہ اپنی ماں سے لپٹ جاتی اور کبھی انھیں خود سے دور نہیں جانے دیتی ۔شفقت بھرا لمس پاتے ہی وہ غمگین ہورہی تھی تبھی صاعقہ خاتون نے اسے پکارا ۔
              ”کیسی ہو زارا بچے؟“
              وہ اکثر اس کے چہرے پر اداسی دیکھتی تھیں لیکن کبھی پوچھنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ کیوں اس طرح اداس رہتی ہے ۔
              ”جی جی میں بالکل ٹھیک ہو خالہ! “
              اس نے ڈھیروں آنسو اپنے اندر اتارتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے بڑی مہارت سے جھوٹ بولا۔
              ”مجھ سے کوئی کام تھا بچے؟ راحت بتا رہا تھا تم مجھے بلا رہی تھی۔“ انھوں نے پوچھا۔
              ” جج جی..... گھر میں سارا سامان ختم ہوگیا تو زبیر نے کہا کہ میں اکیلی نہیں جاؤں بلکہ آپ کے ساتھ جا کے لے آؤں۔“ اس نے جیسے یاد آنے پر انھیں بتایا۔
              ”چلیں خالہ؟ “ وہ سوچ رہی تھی ناجانے وہ اس کے ساتھ جائیں گی بھی یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو اسے اکیلے ہی جانا پڑے گا۔
              ”جی بچے! چلتے ہیں پہلے اُسے آ لینے دو پھر ساتھ چلیں گے۔ اُس نے بھی آج ہی کہا ہے ۔“ انھوں نے کسی کا ذکر کیا تھا شاید وہ کسی کا انتظار کر رہی تھیں ۔
              ”کون ؟ کسے آنے دوں خالہ“
              اس نے ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کیا
              ۔”آپ میری بات کر رہی ہیں نا آنٹی؟ “
              صاعقہ خاتون کو دیکھتے ہی وہ مسکراتے ہوئے پر جوش انداز میں بولا ۔ زارا کی سماعت سے ایک شناسا آواز ٹکرائی جو اس کے عقب سے آئی تھی تو وہ فوراً پلٹ گئی۔
              یہ وہی جن تھا جس کی وجہ سے آج صبح اتنی محنت سے بنائے کیک پر پانی پِھر گیا تھا اسے دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگوار لکیریں ابھر گئیں۔ اس بار وہ رف سے حلیے میں نہیں تھا بلکہ پوری طرح تیار جینز کے ساتھ اسٹرپ شرٹ کے آستین کو فولڈ کیے تھا اور بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ پچھلی ملاقات سے قدرے مختلف نظر آرہا تھا ۔
              ”تم! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“
              وہ اپنے چہرے پر ناگواری سجائے دانت پیستے ہوئے چیخ کر بولی ۔ صبح کے بعد وہ اس سے کبھی ملنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک ہی دن میں دو دو بار ایسے شخص سے ملنا جس سے پہلی ملاقات ہی تکرار کا باعث بنی ہو کافی ناپسندیدہ مرحلہ ہوتا ہے۔
              ”جی محترمہ.....میں! “
              وہ اگے چلا آیا اور اپنی انگلی کو سینے پر رکھتے ہوئے بولا۔
              ”آپ بہت مینر لیس ہیں ۔ بندہ کسی کو دیکھ کر سلام کرتا ہے اس سے اس کا حال احوال پوچھتا ہے مگر آپ ہیں کہ سیدھا لڑنے لگتی ہیں قسم سے آپ جیسی عجیب و غریب مخلوق سے میرا پالا پہلی بار ہی پڑا ہے ۔“
              وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا اس نے اپنا حساب برابر کر لیا تھا۔ وہی انداز چھوٹے سے سوال کے جواب میں پوری تقریر کرنا جس کا پسندیدہ کام تھا گویا وہ اپنی بات چند الفاظ میں کرے گا تو اوسکر ایوارڈ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

              وہ خاموشی سے اُسے غصّے سے گھور رہی تھی۔
              ”میں یہاں کیا کر رہا ہوں یہ آپ آنٹی سے کیوں نہیں پوچھ لیتیں ؟“
              اس نے صاعقہ خاتون کی سمت دیکھتے ہوئے کہا۔

              صائقہ بیگم خاموشی سے کھڑی ان دونوں کو بحث کرتے دیکھ رہی تھیں۔
              ”تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو ؟“
              باری باری ان دونوں کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات نوٹ کرنے کے بعد انھوں نے پوچھا۔ ان کی گفتگو سے تو یہی لگ رہا تھا کہ وہ دونوں نہ صرف پہلے مل چکے تھے بلکہ ان کی ملاقات کافی تلخ رہی تھی۔

              ”جی آنٹی.....آج صبح ہی ملاقات ہوئی تھی میری ان سے ۔ کافی کنجوس ہیں محترمہ!! میں ان سے چائے کے لیے دودھ مانگنے گیا تھا تو انھوں نے صاف انکار کرتے میرے منہ پر دروازہ بند کرنے کی حماقت کردی۔“
              وہ مظلموں سی شکل بنائے بولا
              ” تو پھر ؟“
              اس کی بات سُنتے ہی وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکیں
              ”پھر کیا تھا ، میں بھی ضد پر اڑ گیا کہ جب تک یہ کنجوس مکھی چوس میرا مطالبہ پورا نہیں کر دیتیں تب تک میں یہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلوں گا اور مجبوراً انھیں ہتھیار ڈالنے پڑے ۔دودھ تو نہیں مگر چائے لا کے تھما دی ۔
              وہ اس طرح بتا رہا تھا جیسے وہ چائے کے متعلق بات کرنے کی بجائے کوئی جنگ کے قصّے سنا رہا ہوں جس میں بڑے تناسب سے کامیابی ملی ہو۔
              صاعقہ خاتون ہنسنے لگیں پھر ہنسی پر قابو پاتے زارا سے مخاطب ہوئیں۔

              ”اور زارا بچے! تم نے کچھ نہیں کہا اسے؟ “
              زارا سامنے کھڑے اس لڑکے کی بات سُن کر پیچ و تاب کھا رہی تھی ۔صاعقہ خاتون کو ہنستا دیکھ کر وہ اداس ہوگئی اُسے لگا تھا وہ اس کا ساتھ دیں گی۔

              ”خالہ!!! آپ بھی اس کی باتوں میں آگئیں ۔یہ انسان ایک نمبر کا بدمعاش ہے ۔اس نے مجھے اس قدر پریشان کر دیا کہ کوئی حد نہیں ۔آج اس کی وجہ سے میرا پورا پین کیک بھی جل گیا ۔“ اس نے دہائی دی ۔

              ”آنٹی!....“ وہ اگے کچھ کہتا اس سے پہلے ہی صاعقہ خاتون نے اُسے درمیان میں ہی ٹوک دیا تھا

              ”بس بھی کرو بچّو! اب کسی کو دیر نہیں ہو رہی ہے اگر تم دونوں کا اس طرح لڑنے کا ارادہ ہے تو میں جارہی ہوں آرام کرنے ۔“
              اس جملے کی ادائیگی کرتے وہ سچ میں جانے کے لیے پلٹی تھیں ۔ ان کا یہ عمل جیسے ان دونوں کو وارن کرنے کے لیے تھا۔

              ”نہیں، نہیں خالہ!! آپ میرے ساتھ چلیں اور باقی لوگ جہاں بھی جائیں ۔“
              اس نے خاص کر اس کی طرف دیکھ کے کہا اور اگے بڑھ کر صاعقہ خاتون کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔وہ دونوں آگے بڑھیں تو وہ بھی خاموشی سے ان دونوں کے پیچھے چلنے لگا ۔

              مارکیٹ میں رش ہونے کی وجہ سے ان کی واپسی تین چار گھنٹے بعد ہوئی تھی۔ وہ سامان لیے گھر میں داخل ہوئی تو تھکاوٹ سے بُرا حال تھا ۔تمام چیزوں کی ان کی جگہیں پر رکھتے ہوئے کافی وقت بیت گیا تھا ۔ ان سب سے فارغ ہو کے اس نے اپنے لیے چائے بنائی ۔پورا دن خواری کے بعد اس کا سر بُری طرح دکھ رہا تھا اوپر سے بھوک بھی لگی تھی ۔

              چائے کپ میں انڈیل کر اس نے پلیٹ میں کیک رکھ کر اس کے کچھ ٹکڑے کیے جسے وہ اپنے لیے خرید لائی تھی اور دونوں چیزیں اپنے ہمراہ لیے کھڑکی کے قریب آ کر بیٹھ گئی ۔

              سورج غروب ہونے والا تھا ایسا معلوم ہوتا جیسے آسمان نے نارنجی اور آسمانی رنگ کی چادر اُوڑھ رکھی ہے۔ چرند پرند اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ وہ باہر اٹھتے شور کو بآسانی سن سکتی تھی۔ اس کی نظروں کا زاویہ بدلا تو کچھ ہی فاصلے پر وہ اُسے بّچوں کے ساتھ کھیلتا دکھائی دیا ۔

              اس کا دل کیا وہ کھڑکی کا پردہ گرا دے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کچھ دیر وہ وہاں بیٹھی رہی پھر وہاں سے اٹھ کے کمرے میں چلی آئی، وضو کرکے نماز پڑھنے کے بعد وہ کچھ دیر آرام کی نیت سے بستر پر لیٹ گئی تھی۔

              ★★★★★
              زبیر کو گئے آج تیسرا دن تھا اور آج بھی وہ بمشکل سو پائی تھی حالانکہ اب تک اسے تنہائی کی عادت ہو جانی چاہیے تھی کیوں کہ یہی زبیر کا معمول تھا۔ وہ اسے گھر میں قید کرکے چلا جاتا اور پیچھے کئی کئی دنوں تک گھر نہیں آتا اور وہ تنہا بیٹھی ماضی میں کھو جاتی ۔صبح اٹھ کے ناشتے کے بعد کام سے فارغ ہوکے وہ کھڑکی کے قریب چلی آئی۔ اندر سے چاہے کتنی بھی اداس کیوں نہ ہوتی باہر کی رونق اور دلکش مناظر کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے اندر سکون اترتا محسوس کرتی تھی اور اس طرح وہ کچھ دیر لیے لیے ہی سہی پر اُمید ہو جایا کرتی تھی ۔ وہ بیٹھی بچّوں کو کھیلتا دیکھ رہی تھی ان کی زندگی سے بھر پور ہنسی سنتے ہی اسے ان پر رشک آنے لگا ۔تبھی لینڈ لائن پر بیل ہوئی اور اس کی محویت ٹوٹ گئی۔ آواز سن کر وہ کھڑکی کا پردہ گرا کے وہاں سے اُٹھ گئی اور ہال میں چلی آئی ریسیور کان سے لگاتے ہی سب سے پہلے سلام کیا پھر پوچھا ۔
              "کون ؟ "
              ” کیا کون..... ؟ زبیر بات کر رہا ہوں اور کہاں تھی تم اتنی دیر سے “
              دوسری طرف چھت پھاڑ لہجے میں جواب دیا گیا ۔
              ”آپ....آپ کیسے ہیں زبیر اور کب آرہے ہیں؟“ زارا نے اس کی آواز سنتے ہی پوچھا۔

              ”مجھے کیا ہونا ہے ،ٹھیک ہوں میں اور ابھی نہیں آ سکتا تھوڑا وقت لگے گا ۔تم میری فکر مت کرو ۔میں نے تمہیں یہ بتانے کےلیے فون کیا ہے کہ میری چاچی جان آرہی ہیں کچھ دیر میں پہنچتی ہوں گی ساتھ شزا اور علی بھی آرہے ہیں ان کے کھانے پینے کا انتظام کردینا۔“وہ اسے اطلاع نہیں حکم دے رہا تھا کہ کوئی غلطی نہ ہو اور زارا نے ایک فرمانبردار بیوی کی طرح اس کی حکم پر لبیک کہا تھا۔
              وہ کچھ دیر یونہی فون کان سے لگائے کھڑی رہی کہ شاید وہ اُس کے بارے میں پوچھے گا لیکن دوسری طرف لبنیٰ خاتون اور ان کی فیملی کی آمد کی خبر دیتے ہی لائن کٹ گئی تھی۔ وہ بے دلی سے فون رکھ کے کچن میں آگئی۔

              ★★★★★

              جاری ہے...​

              Comment


              • #17
                Boht zabardast kahani ha zara ki zindagi mushkilat ma deakhte han kn sa farishta a ka us ko in mushkilat sa nikalta ha

                Comment


                • #18
                  بھترین انداز میں پیش کی گئی کھانی

                  Comment


                  • #19
                    بہت ہی کلاسک سی کہانی لگ رہی ہے۔۔

                    Comment


                    • #20
                      Buhat umda, buhat hi achey andaaz mein kahani ko agey berha rahey hein.

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X