Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت ہی زبردست گرما گرم اور شہوت سے بھرپور اپڈیٹس دیں ہیں

    Comment


    • انتہائی گرم اور شہوت انگیز اسٹوری ہے

      Comment


      • Wah bht alaa maza aa gaya

        Comment


        • مزہ آگیا کمال کی اپڈیٹ دی ھے

          Comment


          • زبردست اپڈیٹ تھی
            مزہ آگیا۔

            Comment


            • بہت ہی گرم اور​ زبردست اپڈیٹ تھی
              مزہ آگیا۔

              Comment


              • میں اندر آیا تو نصرت اور سونیا ایک دوسرے کو فرنچ کس کرتی چوم رہی تھیں میں پاس گیا تو دونوں اٹھیں اور مجھے اپنے ساتھ لٹا کر چومنے لگیں میں بھی دونوں کو باہوں میں بھر کر چومنے لگا نصرت کے جسم پر پہلی والی ماری ہوئی سوٹیوں کے نشان پڑے تھے نصرت کے ممے سوج رہے تھے نپلز پر لگی سوٹیوں کی وجہ سے نصرت کے نپلز لال سرخ ہو رہے تھے نصرت کے جسم پر جگہ جگہ سے نشان نظر آرہے تھے میں نصرت کے جسم پر سوٹیوں کے نشان دیکھ کر شرمندگی سے بولا نصرت تیرے جسم تے توں نشان بن گئے نصرت مسکرا کر بولی توں جے ظالم ہی ایڈا ایں سوٹیاں مار مار کے مینوں لال کر دتا ہئی میں بولا سوری میری جان اس ٹائم توں وی تے آپ آکھیا نصرت مجھ بولی نہیں میری جان کوئی گل نہیں میرا جسم تیرا ہی اے توں جو مرضی کر میرے نال مینوں کوئی اعتراض نہیں میں تیرے واسطے حاضر آں میں یہ سن کر آگے ہوکر نصرت کو چومنے لگا سونیا بھی میرے ساتھ لگ گئی میں نصرت اور سونیا کے درمیان سینڈوچ بنا تھا سونیا مجھے چوم رہی تھی دونوں کے ممے میرے سینے پر دبے تھے نصرت اٹھی اور میری شلوار اتار دی میرا بازو جتنا لن تن کر کھڑا تھا نصرت میرے لن کو مسل رہی تھی سونیا مجھے فرنچ کس کرتی ہئی سسک رہی تھی میں مزے سے نڈھال ہو کر فل گرم ہو رہا تھا نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر مسلتی ہوئی چومنے لگی جس سے میں نصرت کے نرم ہونٹوں کے لمس کو پن پر محسوس کرکے مچلنے لگا سونیا نصرت کو دیکھ کر مجھے چھوڑ کر اٹھی اور میرے لن کے پاس جا کر وہ بھی اپنے ہونٹوں کو میرے پر مسلتی ہوئی لن کو چومنے لگی میں سسک کر کراہ رہا تھا پہلے نصرت ہی نہیں قابو آ رہی اب سونیا بھی مجھے نڈھال کر رہی تھی دونوں بہنیں میرے لن کو ہونٹوں میں دبا کر چوستی ہوئی اوپر نیچے ہوکر لن کو ہونٹوں سے مسل کر زبان سے چاٹ رہی تھیں میں تڑپ سا جاتا تھا جس سے میری آہیں نکل رہی تھیں نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی نیچے جڑ پر جا کر میرے ٹٹے چاٹنے لگی جبکہ نصرت اوپر میرے لن کے ٹوپے کو دبا کر چوس رہی تھی میں مچل کر سسک رہا تھا نصرت اپنی زبان پورے لن پر مسل کر چاٹ رہی تھی سونیا میرے لن کو اپنے مموں کے درمیان رکھ کر دبا کر مسل رہی تھیں میں مزے سے نڈھال تھا نصرت میرا لن مسلتی ہوئی بولی کالو آج لن میں منہ آلو لینڑا اے میں مسکرا کر بولا نصرت لئے لیسیں نصرت بولی کیوں نہیں توں ٹرائی تے کر سونیا بولا باجی ایڈا لن کیویں کیویں گئی نصرت ہنس دی اور بولی سونیا ویکھیں توں اور ہنس دی میرا بھی دل کر رہا تھا لن نصرت کے منڈ میں مند کر پھدی سے نکال لوں میں اوپر اٹھ گیا نصرت لیٹ کر بیڈ کے کنارے پر سر رکھا اور اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں میں بیڈ سے اترا اور نصرت کے منہ کی طرف آگیا نصرت نے اپنا سر بیڈ کے کنارے سے تھوڑا نیچے سرکا لیا جس سے اس کا منہ کھل س گیا میں نے لن آگے نصرت کے منہ پر رکھا تو نصرت میرے لن کو پکڑ کر چوم کر منہ کھولا اور لن منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا میں سسک گیا نصرت نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا میں نصرت کو دیکھا ور لن دبا کر نصرت کے منہ اتار کر نصرت کے حلق تک اتار دیا سونیا ہمیں دیکھ رہی تھی نصرت نے ٹانگیں ہوا میں اٹھا رکھیں تھیں میں نے نصرت کی ٹانگیں ہاتھو میں پیروں کے پاس سے پکڑ لیں اور گانڈ کھینچ کر ہلکا سا دھکا مارا جس سے میرا لن نصرت کا حلق کھولتا ہوا نصرت کے گلے میں اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر بکا گئی اور نصرت نے ہلکی سے غراہٹ ماری جو میرے لن پر دب کر غووووووووں غووووووووں کی آواز نکالنے لگی میرے لن کا ٹوپہ نصرت کے گلے میں اتر چکا تھا میں نصرت کے گلے میں پن اتار کر سسک رہا تھا کیونکہ لن نصرت کے منہ نے دبوچ رکھا تھا میں نے لن کھینچ کر کس کر دھکا مارا جس سے لن نصرت کا گلہ کھول کر نصرت کی خوراک کی نالی کو کھولتا ہوا نصرت کے سینے میں اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر ہینگ کر بکا گئی اور تڑپ کر مچھلی کی طرح تڑپتی ہوئی ہینگ کر زور سے دھاڑ کر بکا گئی نصرت کے سینے سے اونچی بااااااں بااااااں کی آواز غووووووووں غووووووووں کی صورت میں نکلی جس سے میں رک گیا نصرت کا منہ لال ہونے لگا اور وہ تڑپ کر پھڑکتی ہوئی غووووں غووووں کرتی کرلا ے لگی میرا لن نصرت کے منہ میں دب کر سینے تک اتر چکا تھا میں ایک لمحے کےلیے رکا اور نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر نیچے نصرت کے کندھوں کی طرف دبا دیں جس سے نصرت کی ٹانگیں نصرت کے کندھوں سے لگ گئی اور نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی میں نے نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر نیچے کرتا ہوا اور اپنا زور ڈال کر نیچے بیڈ سے زور سے لگا دیں جس سے نصرت نصرت دوہری ہوکگئی اور نصرت کی ٹانگیں نیچے بیڈ سے لگی تھیں اور نصرت کی پھدی کھل کر میرے سامنے تھی نصرت بھی تڑپتی ہوئی غووووووووں غووووووووں کرتی تڑپنے لگی میں نصرت کی ٹانگیں دبا کر اوپر جھکا ہوا تھا میں نے گانڈ کھینچ کر کس پوری شدت سے دھکا مارا جس سے میرا لن نصرت کے منہ کو کھول کر نصرت کے سینے کو کھولتا ہوا نصرت کے ہاں میں اتر گیا لن کے اندر سینے میں اترنے سے اندر سے پھڑچ کی آواز آئی اور نصرت کے سینے کو کھول کر نصرت کے ہاں میں اترا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی پھڑک پھڑک کر مرنے والی ہو رہی تھی نصرت کی حال حال کی آواز میرے لن پر دب رہی تھی نصرت تڑپتی ہوئی غووووووووں غووووووووں کرتی پھڑک ے لگی تھی میرا لن نصرت کے منہ اور سینے نے دبا کر مجھے نڈھال کر رکھا تھا میں تڑپ کر نصرت کی ٹانگیں دبا کر پوری شدت سے لن کھینچا اور کس کر جرک مار کر لن نصرت کے منہ کے پار کرنے لگا جس سے میرا لن نصرت کے ہاں کو کھولتا ہوا نصرت کی بچہ دانی میں اتر آیا جس سے میں مزید تڑپ سا گیا نصرت میرے نیچے پھڑکتی ہوئی بااااااں بااااااں کرتی ہینگ رہی تھی مجھے نصرت کی کوئی فکر نا تھی مجھے بس اب اپنا مزہ چاہئیے تھا میں نے گانڈ کھینچ کر ایک اور دھکا مار کر لن نصرت کی بچہ دانی سے پار کردیا سونیا نصرت کی حالت دیکھ کر پاس آئی اور بولی ہالوے کالو بس کر نصرت جلدی جان لئو ایں میں اب رکنا نہیں چاہتا تھا میں نے سونیا کو اگنور کرکے گانڈ کھینچ کر جرک ماری جس سے میرا لن جڑ تک نصرت کے منہ میں اتر کر نصرت کی بچہ دانی کھولتا ہوا جرررررر کی آواز سے نصرت کی پھدی کو کھول کر باہر نکل آیا جس سے نصرت بری طرح پھڑکتی ہوئی بکاتی ہوئی ہینگنے لگی میرا لن جڑ تک نصرت کے منہ میں اتر کر نصرت کو درمیان سے کھولتا ہوا نصرت کی پھدی سے نکل آیا تھا جسے دیکھ کر سونیا ہکا بکا ہوکر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر جاواں نصرت کی پھدی سے باہر نکلا لن نصرت کی پھدی دبا رہی تھی میں نے لن کھینچ لیا جو پھدی کے اندر چلا گیا میں نے کھینچ کر دھکا مارا جس سے لن پھدی سے پٹک کی آواز سے باہر نکل آیا نصرت تڑپتی ہوئی صرف غوں غوں ہی کرتی جارہی تھی سونیا نیچے ہوئی اور میرے پھدی سے۔ اپر نکلے لن کو منہ میں بھر کر دبوچ کر چوس لیا جس سے میں کرہ کر تڑپ سا گیا میں پہلے ہی نڈھال تھا سونیا کے لن چوسنے سے میں کرہا گیا میں نے لن کھینچ کر پھدی کے اندر کھینچ لیا سونیا نے یہ دیکھ کر منہ نیچے نصرت کی پھدی سے جوڑ لیا میں دھکے مارتا ہوا لن نصرت کے منہ کے اندر باہر کرنے لگا جس سے میرا لن نصرت کی پھدی کے اندر باہر ہونے لگا آگے سونیا نے منہ نصرت کی پھدی کے بالکل ساتھ لگا رکھا تھا جس سے میرا لن نصرت کی پھڈی سے نکل کر سونیا کے منہ میں اتر جاتا میں مسلسل دھکے مارتا ہوا کراہنے لگا لن کو ایک تو نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل رہے تھے ساتھ ہی سونیا کے منہ کے ہونٹ بھی میرے لن کو مسل رہے تھے جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا اور ایک دو دھکے مار کر نڈھال ہوکر لن جڑ تک نصرت کے منہ میں اتار کر نصرت کی پھدی سے باہر نکلا کر فارغ ہوگیا نصرت کی پھڈی سے باہر نکلے لن کو سونیا دبا کر چوس رہی تھی میں سونیا کے منہ میں کراہ کر فارغ ہونے لگا اور اوپر دوہرا ہوگیا نصرت کی پھدی اور سونیا کے منہ نے مجھے نچوڑ لیا جس سے میں تڑپ کر کراہنے لگا سونیا میری ساری منی نچوڑ کر پی گئی تھی میں نصرت کو تڑپتا دیکھ کر لن کھینچ کر نصرت کے منہ سے نکال لیا نصرت تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح پھڑکتی ہوئی منہ کھول کر دھاڑنے لگی سونیا نصرت کو سنبھلنے لگی میں پیچھے بیڈ پر لیٹ کر سستانے لگا نصرت نے میرا لن نچوڑ کر رکھ دیا تھا میں تڑپ رہا تھا نصرت آہیں بھرتی دھاڑتی آدھے گھٹنے تک تڑپتی رہی میرے لن نے نصرت کا منہ کھول کر سینہ چیر کر بچہ دانی کھول کر نصرت کی پھدی کھول کر باہر نکلا تھا جو نصرت اب برداشت کر رہی تھی آدھے گھنٹے بعد نصرت آہیں بھرتی لیٹی تھی سونیا آٹھ کر میرے پاس آئی اور بولی ہالوے کالووو نصرت دا تے کم کر دتا ہئی میں اٹھا اور نصرت کو باہوں میں بھر کر بولا نصرت ہمت آلی ہے نہیں کم ہوندا اسدا جس پر وہ مسکرا سدی اور ہانپتی ہوئی اٹھی اور بولی میں ہنڑ ٹھیک آں ہنڑ سونیا نوں پھدی اچ لن منڈ آج اسدیاں بکاٹیاں کڈھ جس پر نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی دبانے لگی سونیا اور نصرت دنوں مل کر میرے لن کو چوستی ہوئی مسلتی رہیں جس سے میرا لن تن کر پھر سے تیار کھڑا تھا نصرت اور سونیا دبا کر لن کو چوس رہی تھی میں سسک رہا تھا نصرت اٹھی اور سونیا کو پکڑ کر لٹا کر نصرت سونیا کے سر کی طرف آئی اور سونیا کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر سونیا کے کاندھوں سے لگا دیں جس سے سونیا کی بند ہونتوں والی ایک پیک پھدی کھل کر میرے سامنے تھی نصرت کی ٹانگیں دبانے سے سونیا کے چڈے فل کھل کر میرے سامنے تھے سونیا کے موٹے چوتڑ ہوا میں کھڑے تھے جنہیں میں دیکھ کر مچل رہا تھا سونیا کی گانڈ ہوا میں کھڑی تھی سونیا آہیں بھرتی کراہتی ہوئی مزے سے کانپنے لگی تھی میں لن سونیا کی پھدی پر مسلتا ہو آگے ہوا تو نصرت نے میرے ہونٹ چوم کر کان میں سرگوشی کی کالو آج لن ہک جھٹکے اب ہی سونیا دی پھدی اچ پار ہوکے سونیا دے منہ آلو کڈھ دے میں یہ سن کر سسک گیا میرے سامنے سونیا کی ایک پیک پھدی کھلی پڑی تھی سو یا کی پھدی ہے جڑے ہونٹ میرے سامنے تھے جبکہ پھدی کا دہانہ کھلتا بند ہوتا نظر آرہا تھا میں نے لن سونیا کی پھدی کے دہانے سے لگایا تو سونیا سسک کر کراہ گئی نصرت نے مسکرا کر مجھے آنکھ ماری اور نیچے ہوکر سونیا کی ٹانگیں فل دبا کر بیڈ سے لگا کر سونیا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چوم ے لگے سونیا کہ ٹانگیں بیڈ سے ٹکرانے سے چڈے فل کھل گئے جس سے سونیا کراہ کر تڑپ کر بولی اوئے ہالنی نصرت چڈے چیر دتے نی اففففف میں نے موٹا لن پکڑ کر پھدی کے دہانے پر سیٹ کرکے پوری طاقت سے گانڈ کھینچ کر جرک ماری جس سے لن کا ٹوپہ سونیا کی سیل پیک پھدی کو چیرتا ہوا یک لخت ایک ہی دھکے میں آدھا سونیا کی پھدی پھاڑ کر سونیا کہ بچہ دانی چیر کر سونیا کے سینے میں چبھ گیا سونیا ایک پیک جرک میں لن سینے تک لے کر زور سے تڑپ کر بلبلا کر اچھلی اور پوری شدت سے چیخ مار کر دھاڑتی ہوئی ہلال ہوتی بکری کی طرح باااااااااااں باااااااااں کرکے بلانے لگی نصرت سونیا کی ٹانگیں دبا کر ہونٹوں کو دبا کر سونیا کا منہ قابو کرکے سونیا کی آواز دبانے لگی میرے بازو جتنا لن جیسے آگ میں اتر اہوا تھا میں تڑ کر کانپ رہا تھا میرا لن کی جرک نے سونیا کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا جس ے سونیا پھڑکتی ہوئی بجائے جا رہی تھی سونیا کی آواز نصرت کے منہ میں دب رہی تھی نصرت نے مجھے آنکھ ماری کے سارا مند میں نیچے ہوکر ہاتھوں سے سونیا کے چوتڑ دبا کر لن کھینچ کر پوری شدت سے جرک ماری جس سے میرا لن سونیا کے سینے کو چیرتا ہوا سوہنا کے ہاں میں اتر کر گلے کے قریب آگیا جس سے سونیا پھڑک پھڑک کر جان دینے لگی میرا لن سونیا نے دبوچ رکھا تھا جس سے میں تڑپ کر کراہ رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے لن کھینچ کر پوری شدت سے جرک ماری جس سے میرا لن جڑ تک سونیا کی پھدی میں اتر کر سونی کا گلہ کھول کر سونیا کے منہ سے باہر نکل آیا جس پر نصرت مسکرا کر بولی نی اماں میں صدقے جاواں سونیا کی پھدی کو میرا لن پن چیر کر سونیا کو درمیان سے چیر کر سوہنا کے سینے کو چیر کر منہ سے باہر نکل آیا تھا جس سے سونیا پھڑکتی ہوئی غوبببب غووووووووں کرتی کرلا رہی تھی نصرت نے مجھے روک دیا اور لن ہلانے نہیں دیا اور اوپر سے لن صاف کرکے خود ہی چوپے مارتی میرا لن چوسنے لگی اسے پتا تھا کہ سونیا نے بڑی مشکل سے لن پھدی سے لے کر منہ نکالا ہوا ہے اس لیے سونیا کےلیے اس لن سے چدوانا مشکل ہوگا جس پر سونیا خود چوپے مارتی میرے لن کو چوس چوس کر مجھے فارغ کرکے نڈھال کر دیا میں فارغ ہوکر کراہ رہا تھا۔ نصرت بولی سونیا نوں چھڈّ ہنڑ مردی پئی کدائیں میں نے لن کھینچ کر سونیا کے اندر سے نکال لیا میرے لن کی جرکوں نے سونیا کی پھدی ڈل کر رکھ دی تھی جس سے سونیا تڑپتی ہوئی بکا بکا کر دھاڑنے لگی میرے لن نے سونیا کی پھدی کے ہونٹ چیر کر الگ کر دئیے تھے جس سے سونیا کی پھدی سے خون ہی خون نکل رہا تھا اور تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی نصرت سونیا کو سنبھالنے لگی پر یہ اس کے بس کی بات نہیں تھی اس نے اسے پین کلر دی اور بولی کالو سونیا نوں گھر چھوڑ اوئے امی اس نوں سنبھال لیسی میں یہ سن کر اٹھا اور سکوٹر نکال لایا نصرت سونیا کو۔ چادر میں لپیٹ لیا کپڑے تو پہنائے نہیں بس ننگی ہی چادر میں تھی میں نے اسے اٹھا کر سکوٹر پر بٹھایا سونیا بے سدھ تھی اور ہم اسے گھر کے آئے گھر آئے تو باقی آیا ہوا تھا اور آنٹی رفعت کو پوری شدت سے چود رہا تھا آنٹی کی راہیں نکال رہا تھا ہم جب اندر کمرے میں آئے تو ابا آنٹی رفعت کے اندر فارغ ہوگیا نصرت اسے دیکھ کر ہنس دی رفعت کو دیکھ کر رفعت نے ابے کو اوپر سے اتارا اور رفعت کو دیکھنے لگی نصرت کو دیکھ کر ابا تھوڑا سا شرما گیا کیونکہ پہلے ابا نصرت کے سامنے ننگا نہیں ہوا تھا کبھی ابے نے لن کپڑے سے چھپانا چاہا تو نصرت ہنس کر بولی واہ ماموں جی آج تے امی دیاں چیکاں کڈھ رہے ہو ابے کو لن چھپاتا دیکھ کر بولی ماموں جی ہنڑ لکاو نہیں ہنڑ نہوں توں کہڑا پردا اور اگےںاہتھ کر کے کپڑا ہٹا دیا نیچے سے ابے کا مرجاتا لن دیکھ کر نصرت ہنس دی اور بولی واہ ماموں جی تھواڈا لن وی چنگا تگڑا اے ابا ہنس کر بولا رفعو تیریاں دھیاں وی تیرے آر چنگیاں گشتیاں ہینڑ رفعت سونیا کی پھدی دیکھ رہی تھی جو میرے لن نے ڈل کر رکھ دی تھی اور اس کو صاف کرتی دبا رہی تھی سونیا کی پھدی سے کٹا ماس باہر نکلا تھا رفعت بولی تیریاں وی دھیاں ہینڑ تیرا وی اپنا اچ حصہ اے نہیں ابو ہنس دیا تو نصرت بولی سچی امی رفعت ہنس کر بولی ہور کی میری جان تیرے پیو نال شادی توں پہلے ہی رحموں مینوں حاملہ کر دتا ہا تے توں ہیں ہی رحموں دی ناجائز اولاد نصرت بولی ہہہاااا امی سچی میں رحموں دی سکی دھی آں آنٹی بولی ہور کی نصرت بولی امی اسدا مطلب وت کالو تے میرا بھرا اے رفعت بولی ہور کی نصرت ابے کے ساتھ لگ کر بیٹھ چکی تھی اور بولی رحموں توں تے میرا پیو نکلیا ابا ہنس کر بولا حرامدی سہی ناجائز ہوونڑ دا حق ادا کر رہی نصرت ہنس کر ابے کو باہوں میں بھر کر ابے کے قریب ہوئی اور بولی اففففف ابااا توں مینوں جمیا اے تے وت ہنڑ میری آگ وی توں ہی بجھانی اے اور آگے ہوکر اپنے ہونٹوں ابے کے ہونٹوں سے دبا کر جوڑ کر ابے کے ہونٹ چوسنے لگی ابے نے بھی نصرت کا ساتھ دیا اور نصرت کے ہونٹ چومنے لگا میں حیران ہوا کہ نصرت بھی ابے اور آنٹی رفعت کی ناجائز اولاد ہے یہ تو پھر میری بہن تھی میں اب تک بہن کو ہی چودتا رہا یہ سوچ کر عجیب سا کرنٹ لگا مجھے اور میں مچل سا گیا آنٹی نصرت کو چومتا دیکھ کر بولی نصرت وت پیو نال رنگ رلیاں منا لویں پہلے پانی گرم کر کیا نصرت ابے کو دبا کر چومتی ہوئے ابے کو پیچھے لٹا کر ابے کے اوپر چڑھی تھی دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے سے چمٹے چوم رہے تھے نصرت بولی امی آپ ہی کر جو کرنا ہئی میں تے ہنڑ ابے کولو چدوا نا لواں سکون نہیں ملنا یہ کہ کر وہ ابے ہو چومنے لگی وہ مجھ سے بولی جا صدف نوں آکھ سو کیچن اچ ہونی ابھی اتنا ٹائم نہیں ہوا تھا میں باہر نکلا صدف سب سے چھوٹی تھی اس کی عمر 17 یا 18 سال تھی نئی نئی جوان ہو رہی تھی میں کیچن میں گیا تو وہ کھڑی تھی مجھے دیکھ کر چونک گئی میں اسوقت بھی بغیر قمیض کے تھا اور اوپر چادر کر رکھی تھی جس سے میرا جسم جھانک رہا تھا میں بولا صدف آنٹی آکھ رہی پانی گرم کر لیا وہ میرے جھانکتے جسم کو دیکھ کر مجھے دیکھا تو میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا وہ بھی مجھے مدہوش نظروں سے دیکھ کر مسکرا دی مجھے یہ دیکھ کر ہمت ہوئی میں نے چادر اتار کر ہٹا دی صدف نے آگے چولہے پر جا کر پانی گرم کرنے کےلیے رکھ دیا اور پانی کو گرم کرتی دیکھنے لگی میں پیچھے سے اس کے قریب ہوا اور بولا کی گل اے کوئی گل نہیں کر یںوہ مجھے اتنا قریب دیکھ کر چونک گئی پر پٹی نہیں میں بھی نہیں ہٹا وہ بولی نہیں ایویں ہی توں پہلے میریاں بھیناں نال تے گلاں کر لئے مڑ میرے نال وی کر لویں اور مسکرا دی صدف کی بے باکی دیکھ کر میں چونک گیا وہ ابھی بچی تھی چھوٹی سی اس کا قد بھی چھوٹا تھا وہ میرے سینے تک پہنچ رہی تھی میں نے ہاتھ اٹھا کر اسکے کاندھوں پر رکھے اور بولا میری جان تسی اکھو تے پہلے تھواڈے نال کر لیندے آں اور نیچے جھک کر صدف کی گال چوم کی صدف نے سسک کر مدہوش آنکھوں سے مجھے دیکھا تو میں نے آگے ہو کرصدف کے ہونٹوں کو چوم لیا صدف ہانپ گئی میں نے صدف کی بے قراری دیکھ کر اسے اپنے سینے سے لگا کر چومنے لگا وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی صدف کے جسم سے گرمی اور آگ نکل کر میرے جسم میں سرائیت کرنے لگی صدف کے چھوٹے ممے میں دبا کر اسے اپنے سینے سے ملسے لگا میرا بےقابو لن اس کے چڈوں میں گھسنے لگا جسے وہ دبا کر دبوچتی ہوئی اپنے چڈوں میں رگڑ کر میرے ہونٹوں کو دبا کر چوس رہی تھی وہ بھی ہانپتی ہوئی کانپنے لگی تھی جس سے صدف کی آہیں نکلنے لگیں میں تڑپ رہا تھا صدف کی کچی جوانی مجھے نڈھال کرگئی اور کراہتا ہوا صدف کے چڈوں میں فارغ ہونے لگا اسی لمحے سعدیہ بھی اندر ا گئی اور سامنے صدف کو سینے سے لگا رک چوم کر باہوں میں دبوچے مجھے کانپتا ہوا فارغ ہوتا دیکھ کر بولی واہ وے کالو صدقے جاواں تیرے آج تے تیرے مزے ہی ڑ آج تے صدف وی تیرے ہتھے چڑھ گئی میں ابھی تک فارغ ہوتا ہوا کانپتا آہیں بھر رہا تھا اس لیےسعدو کو کوئی جواب نا دے سکا وہ مجھے فارغ ہوتا دیکھ رک بولی صدقے جاواں اے لن کدو میری پھدی اچ فارغ ہوسی میں کداہتاںہوا فارغ ہوکر پیچھے ہوا تو صدف بھی فارغ ہوکر آگے سنک پر جھک کر آہیں بھرتی ہانپ رہی تھی میں ہانپتا ہوا اسے دیکھ کر ہانپنے لگا میری شلوار میری منی سے بھر رہی تھی اور لن آگے سے تنا نظر آرہا تھا سعدیہ لن کو جھٹکے مارتا دیکھ کر قریب آئی اور میرے ہونٹ کو چومتی ہوئی بولی صدقے جاواں اے منی کم دی اے اور نیچے بیٹھ کر میرے لن کی شلوار پر لگی منی زبان سے چاٹتی ہوئی پینے لگی میں سعدیہ کو اپنی منی چوستا دیکھ رہا تھا اس نے منی چوس کر لن کا ٹوپہ شلوار کے اوپر سے ہی منہ میں بھرا اور چاٹ کر اوپر ہوکر بولی کالو اپنے بھرا نقل میری گل کریں ہا وت میں مسکرا کر بولا میری جان کیوں کاہلی ہو گئی ہیں صبح کرساں گیا سعدیہ بولی کالو ہنڑ تے صبر نہیں ہو دا صبح اس نوں سد لئے تے چدوا مینوں میں بولا اچھا جی جناب صبح ہی یہاں دیندا آں وہ ہنس دی صدف بولی کالو پانی گرم ہوگیا میں نے پانی اور کچھ مرہم اٹھایا اور اندر چلا آیا اندر آیا تو سامنے ابا نصرت کو لٹا کر نصرت کی ٹانگیں اٹھائے کس کس کر دھکے مارتا نصرت کی پھدی میں اپنا لن دبا کر مارتا ہوا نصرت کو چود رہا تھا نصرت آہیں بھرتی کراہتی ہوئی مزے سے مچل کر چدوا رہی تھی میرا لن لے کر نصرت کو کوئی مسئلہ نہیں تھا اس لیے وہ ابے کا لن آسانی اور مزے سے لے کر چدوا رہی تھی میں یہ دیکھ کر مزے سے مچل گیا ابا ہے ہٹ کر اپنی دھی نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا نصرت بھی کراہتی ہوئی مزے سے لن لیتی ہوئی کراہ رہی تھی نصرت کی پھدی میں لن تیزی سے اندر باہر ہورہا تھا کہ چند منٹوں میں ابا نصرت کے اندر فارغ ہوگیاکر نصرت کے اوپر گر کر ہانپنے لگا نصرت بھی ابے کو باہوں میں بھر کر دبوچ کر چومتی ہانپتی ہوئی آہیں بھرتی کانپ کر فارغ ہورہی تھی نصرت اور ابا لیٹ کر سانس بحال کرنے لگی آنٹی رفعت نے مجھے دیکھا تو میری شلوار آگے سے گیلی تھی آٹنی ہنس دی اور بولی لگدا میری دوجیاں دھیاں وی تینوں لفٹ کروا رہیاں میں ہنس دیا تو آنٹی بولی صدف تے فارغ ہویا ہیں میں مسکرا کر بولا آنٹی صدف وی کمال چھویر ہے آنٹی ہنس دی اور بولی دل ہے صدف دا میں بولا کوئی تھوڑا جیا اے مینوں اس ہی فارغ کیتا اے آنٹی ہنس دی اور بولی وت اسدا مطلب او وی تیار اے چدوانے کانڑ میں بولا تے ہور کی آنٹی ہنس کر مجھ سے بانی لیا آنٹی رفعت سونیا کی پھدی کو گرم پانی سے دھو کر مریم لگانے لگی مرہم لگا کر اس نے پھدی کو ڈھانپ دیا اور بولی رحموں ہک گل دس ابا اوپر ہوکر بولا جی کراں آنٹی ہنس دی اور بولی اے دس تیرے چھوار کی کردے ہینڑ ابا بولا کجھ نہجںکم ہی کردے ہنڑ وہ بولی کی کم کردے اے پچھ رہی آں ابا بولا وڈا صدو شہر اچ ہک وڈیرے کول گارڈ ہوندا اے اسدا بڑا خاص بندہ اے تے دوجا عنصر وی اس اپنے انل گاڈ پی رکھیا ہویا ہے دوویں اکھٹے ہوندے رفعت ہنس دی اور بولی ہلا ابا بولا کیوں رفعت بولی رحموں نصرت تے کالو سنبھال کئی اے اے تے ہنڑ پکی کالو دی مشوق ہو گئی اے میرا دل ہا کہ سونیا تے سعدیہ وی تیرے پتراں نال سیٹ ہوجاندیاں ابے نے اوپر ہوکر دیکھا اور مسکرا دیا رفعت بولی تینوں پتا میرے پتر تے آوارہ ہینڑ میریاں دھیان دا اوہناں نوں تے دھیان ہے نہیں او تے آدھے بس گھر ہی بیٹھیاں رہن سونیا تے سعدیہ اکھدیاں ہینڑ سانوں کسے نال نسا دے میرا دل ہا کہ تیرے پتر سونیا تے سعدیہ نوں کڈھ کے نسا لئے جاونڑ۔ ابا بولا سو تے ہنڑ میرے پتراں نوں پتا پر تیرے پتر کی کراں جے اوہناں نوں پتا لگا رفعت بولی او میں سنبھال لیساں ویسے وی تیرے پتر دی شہر اچ جان پہچان ہے او کڈھ کے لئے گئے تے آپے اگاں میرے پتراں نوں سنبھال لیسیں گے پہلی گل تے اوہناں نوں پتا نہیں لگنا کہ کون کئے گیا جے لگ گیا تے ویکھیا جاسی ابابولا وت کل میں صدو نوں بلا لیندا گل کر لئو رفعت ہنس دی نصرت جو نیچے پڑی تھی وہ ابت کو چومنے لگی رفعت بولی کالو سونیا نوں اسدے کمرے اچ چھور ا میں سونیا کو اٹھا کر اکنر میں چھوڑ آیا واپس وہاں سعدیہ بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر پکڑ لیا کچھ دیر میں اسکے ساتھ چوما چاٹی کی اور پھر واپس کمرے میں آیا تو ابا نصرت کو گھوڑی بنا کر چود رہا تھا ابے نے نصرت کی گت کھینچ کر پیچھے کو کھینچ کر نصرت کر دہرا کر رکھا تھا اور پوری شدت سے دھکے مارتا نصرت کو چود رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر رکلا رہی تھی دو چار منٹوں میں ابا نصرت کے اندر فارغ ہوکر نڈھال وہنر اوپر گر گیا میں نصرت کو ابے سے چدتا دیکھ کر ہنس دیا نصرت ہاپنتی ہوئی آہیں بھرتی ہانپ رہی تھی میں آگے گیا اور بولا نصرت کی خیال اے میرے نالا نا کہ ابے نال ہی رہوں نصرت مسکرا آکر پیچھے ابے کو چوم کر بولی میری جان آج تے میں اپنے پیو نال ہی رات رہنی آج ساری رات ابے دے لن کولو چدوانا اے کل تیرے نال سوساں اور ہنس دی میں یہ سن کر ہنسدیا کہ آج ساری رات نصرت ابے سے ہی چدواںا چاہتی ہے میں نکلا تو سامنے مجھے سعدیہ روک لیا اور بولی کالو وت آج کر نا اپنے بھرا نال گل میں ہنس دیا اور بولا میری جان آج ہی کردا آں پر اے دس میرا حق تے ادا کر سعدو ہنس دی اور بولی وے کالو میں تے آپ بڑی کاہلی ہاں میں مسکرا دیا اور بولا آج تے نہیں پر کل راتیں تیری پھدی پاڑساں گیا جس پر سعدو ہنس دی اور بولی ہک شرط تے میں بول او کی وہ بولی کل میری وی گل کروا ہ ہئی میرے یار نال میں ہنس کر بولا ٹھیک اے میری جان اور ڈیرے پر آگیا میں ڈیرے پر آگیا نصرت تو آج ساری ابے سے پھدی مروان تھی میں نے سعدیہ کا سوچا اور عنصر کو کال ملا دی ہم اسے انچھی کہ کر بلاتے تھے کال دو بیل پر انچھی نے اٹھا لی اور بولا ہا بھراوا کی حال اے میں ہنس دی اور بولا بھراوا چنگے ہی حال ہی ڑ وہ ہنس دیا اور بولا چنگے ہی ہونے تیرے جے گڑ اچ رمبے ہینڑ میں یہ سن کر ہنس دیا اور بولا اوہ کنج وہ بولا پتا تے تینوں ہے نا آج کل رفعت کول ہوندا ایں تے مزے ہی مزے کر رہی ایں میں ہنس کر بولا تینوں کس دسیا وہ بلو اور ویکھ لئے سانوں وی پتا اے میں بولا وت وی وہ بولا صدو دس رہیا ہا میں زور۔ سے ہنس دیا وہ بولا بھراوا اے تے زیادتی ہے کلے کلے ہی مال کھا رہیا ایں سانوں وی حصہ ونڈا میں ہنس دیا اور بولا جناب تھواڈے حصے دا وی رکھیا ہویا اے وہ بولا سچی میں بولا جناب میں کوئی ہکلا کھانا تھواڈے واسطے وی مال رکھیا ہویا وہ بولا ہلا کون ہئی میں بولا رفعت دی وڈی دھی نصرت تے میرے نال سیٹ اے نکی سونیا صدو نا سیٹ کروانی اے اس توں نکی سعدیہ اے اور تیرے نال سیٹ کروانی اے انچھی ہنس کر بولا واہ یار سچی میں بولا تے ہور کی میں ہکلا نا مال کھانا تھوانوں وی کھواساں وہ ہنس دیا میں بولا ویسے یار چھویر بڑی تتی اے اس نال میں تیری گل کیتی ہا توں بڑا پسند آیا ایں اس نوں آکھدی کل ہی اس نوں آکھ آکے مینوں نسا لئے جاوے انچھی اس بات پر ہنس دیا اور بولا نا کر میں بولا سچی یار سعدو تیرے نال نسنڑ کانڑ تیار اے او آکھدی پئی اے بے شک مینوں کڈھ کے لئے جا تے او لئے وی جانا چاہندی وہ بولا ہلا یار ویسے ہک گل دساں اگر انج تے ہو جاوے سعدیہ میرے نال پکی پکی آجاوے تے میں وی بڑا خوش ہوساں تینوں پتا بھراوا ہنڑ کلا نہیں رکھیندا تگڑی چھویر دی لوڑ اے میں ہنس کر بولا یار تے وت تیار ہیں نا وہ بولا ہاں یار پر میں وڈے چوہدری اوراں نال گل کر لواں آخر چھویر کڈھ کے لئے انی اوہناں نوں وی پتا ہووے میں بولا گل کر لئے تے صدو وی سونیا کڈھ کے لئے جانی ہے دوویں بھرا دل کے ہی کڈھ کے لئے جاوو وہ ہنس کر بولا چل فر صلاح کردے آں میں یہ سن کر مسکرا دیا اور کال کاٹ کر سونے لگا میں سو گیا جبکہ دوسری طرف ابا ساری رات نصرت کو چود چود کر نڈھال کر گیا تھا پر نصرت کی آگ اس سے بھی بڑی تھی وہ کہاں قابو آنے والی تھی میں سو گیا صبح اٹھا دودھ دوہا تو ندیم آگیا وہ دودھ لے کر چلا گیا میں نے کچھ کام کیا تو پھر دیمی آیا اور ناشتہ دے گیا میں نے ناشتہ کیا اور پھر ریڑھا کے کر پٹھے لینے چلا گیا پٹھے کے کر آیا تو دوپہر کا وقت ہو رہا تھا میں جیسے ہی اندر آیا تو مجھے صدو کی بائیک کھڑی نظر آئی جو کھڑی تھی لیکن وہ نظر نہیں آیا میں نے ریڑھا کھڑا کیا اور اندر گیا تو سامنے چارپائی پر نصرت کو لٹا کر صدق اس کے اوپر چڑھا تھا نصرت کے ممے ننگے کرکے صدو نصرت کو چومتا ہوا فرنچ کس کر رہا تھا وہ قمیض اتار کر نصرت کے اوپر چڑھا تھا میں بولا واہ بھروا میری مشوق تے ہی چڑھ گیا ایں دونوں نے چونک کر مجھے دیکھا اور مسکرا دئیے صدو اوپر لیٹا ہوا ہی بولا بھراوا تیری میری کوئی ونڈی ہوئی اے میں ہنس دیا نصرت بولی کالو تیرا بھرا ہی ہے کوئی غیر تے نہیں میرا دیر ہی ہے میں اپنے دیر نال اپنی آگ بجھا لواں کوئی اعتراض تے نہیں تینوں میں ہنس کر بولا نصرت انج میں تیری بھیناں دے نیڑے جاواں تے توں آکھدی میرے کولو اجازت کئے ہن میرے بھرا ہیٹھ پئی این تے تینوں اجازت دی لوڑ نہیں نصرت نے صدق کی شلوار کو ہاتھ ڈالا اور لن کھینچ کر نکال لیا صدق کا لن بھی کہنی جتنا لمبا تھا لیکن موٹا اور ٹھوس تھا جس سے مسل کر نصرت سسک کر بولی اففف کالو میں کوئی روکدی آں توں نا میں روک صدو اٹھ کر بیٹھ گیا نصرت بھی اٹھ کر اپنا قمیض اتار کرننگی ہو کر صدو کا لن مسل رہی تھی میں بولا نصرت توں وی نہیوں رجدی لن تو رستہ ساری رات ابے دے لن توں نہوں تھکی نصرت سسک کر ہااا کالو ابے دے لن تے بہوں سواد دتا راتی کالو نا پچھ ابے تے سادی رات یدھا ہے پر میری آگ تے ہور ودھ گئی اے میں ہنس دیا اور بولا صدق میری مشوق دی آج توں ہی آگ کڈھ چنگی طرح وہ ہنس دیا اور بولا بھراوا فکر نا کر آج میں اپنا ساری آگ نصرت تے ہی کڈھساں بڑے دن ہوگئے کوئی ایو جئی چھویر نہیں لدھی یہوں کانڑ اور نصرت کے ممے دبانے لگا نصرت نیچے ہوکر صدق کا پن چوستی ہوئی چوپے مارنے لگی دو چار منٹ تک وہ دبا کر چوپے مارتی رہی اور صدو نصرت کے منہ میں فارغ ہوکر کراہ گیا نصرت صدو کی منی پی گئی میں نکلا اور پٹھے کتر کر ڈالنے لگا تو اندر سے نصرت کے بکانے کی آوازیں ا رہی تھی میں اندر گیا تو صدو نصرت کی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر کاندھوں سے لگا کر پوری طاقت سے اپنا لن نصرت کی پھدی میں پھیر رہا تھا جس سے نصرت کرلاتی ہوئی تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی نصرت کی پھدی میں صدق کا پن پوری شدت سے اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کو چیر کر کاٹ رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی باک رہی تھی صدق گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنا کہنی جتنا لن یک لخت پوری شدت سے نصرت کی پھدی کےا ر پار کرتا نصرت کو چود رہا تھا دو چار منٹ مزید طاقتور چدائی کے بعد صدق کراہتا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہوکر نڈھال ہوکر نصرت کے اوپر گر کر نصرت کو چوم ء لگا نصرت بھی کراہتی ہوئی آہیں بھرتی ہینگتی ہوئی کراپنے لگی نصرت اور صدو فارغ ہوکر ایک دوسرے کو باہوں میں بھر کر پڑے تھے میں نکل کر کام کرنے لگا میں کترا ڈالنے لگا کہ اتنے میں کچھ ہی دیر بعد پھر اندر سے نصرت کی حال حال سنائی دینے لگی میں اندر گیا تو صدو نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر پوری شدت سے دھکے مارتا اپنی گانڈ اٹھا کر مارتا اپنی کہنی جتنا لمبا موٹا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا ہوا نصرت کو چود رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکاٹیاں مارتی کراہ رہی تھی صدو کا لن تھوڑا موٹا تھا جو نصرت کی پھدی کو رگڑ کر مسل رہا تھا جس سے پھدی کے ہونٹ صدو کے لن سے رگڑ کھا کر جل رہے تھے جس سے نصرت تڑپ رہی تھی نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی بجائے جارہی تھی صدو ہٹ ہٹ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا نصرت کو چود رہا تھا نصرت کراہتی ہوئی تڑپ رہی تھی صدو کے زور دار دھکے سے چارپائی بھی اب ککڑکتی ہوئی آوازیں دینے لگی تھی پر صدو کی سٹین رک نہیں رہی تھیں تین سے چار منٹ کی جاندار چدائی کے بعد صدو ایک بار پھر نصرت کے اندر فارغ ہو کر کراہتا ہوا نصرت کے اوپر گر کر ہانپنے لگا نصرت کی کاندھوں سے لگی ٹانگیں کانپنے لگی تھی نصرت بھی فارغ ہوتی تھی اور صدو کے لن کی منی اپنی بچہ دانی میں بھر کر نچوڑ گئی صدو کراہ کر ہانپنے لگا نصرت بھی ہانپتی ہوئی ہانپ رہی تھی صدق کے لن نے نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر چیر کر رکھ دئیے تھے دونوں پڑے لیٹ کر آرام کر رہے تھے میں نکلا اور کام کرنے لگا میرا بھائی بھی نصرت کی پھدی کو صحیح معنوں میں استعمال کر رہا تھا نصرت تڑپ کر کراہ گئی تھی صدو کے لن کی دو چدائیوں پر ہی نصرت کی پھدی کی بس بس ہوگئی اور وہ تڑپتی ہوئی آہیں۔ بھرتی کراہ رہی تھی میں کافی دیر کام میں مصروف رہا پر اندر سے اب نصرت کی کوئی آواز نہیں ق رہی تھی دونوں شاید تھک چکے تھے اس لیے آرام کر رہے تھے میں جائزہ لینے اندر گیا تو صدو نصرت کو اپنے زمانے گھوڑی بنا کر اس کی گانڈ کھول کر اپنا لن نصرت کی گانڈ پر سیٹ کر کے نصرت کی گت کو ہتھیلی پر ولیٹ کر اپنا لن نصرت کی گانڈ میں پار کرنے کو تیار کھڑا تھا نصرت ہانپتی ہوئی سسک رہی تھی میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو صدو نے کھینچ کر دھکا مار کر نصرت کی گت اپنی طرف کھینچ لی جس سے صدو کا لن نصرت کی گانڈ کو چیر کر آدھے سے زیادہ یک لخت گانڈ کھول کر اندر اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر اچھلی اور بکا کر منہ چھت کی طرف کرکے پوری شدت سے دھاڑی اور اپنے ہاتھ اٹھا کر اپنی گت پر رکھ کر مچھلی کی طرح پھڑکتی ہوئی دھاڑنے لگی صدو کے جھٹکے نے نصرت کی گانڈ چیر کر رکھ دی اور اس کی گت پٹ کر رکھ دی نصرت درد سے بوکھلا کر چیخنے لگی صدو سسک کر گانڈ کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے دھکا مارا اور اپنا پورا لن جڑ تک نصرت کی گانڈ کے پار کر دیا جس سے صدو کا لن نصرت کی گانڈ پھاڑ کر چیرتا ہوا جڑ تک نصرت کے ہاں سے جا لگا اور ساتھ ہی گت مزید کھینچ کی جس سے نصرت پوری شدت سے ارڑا کر دھاڑی اور دھاڑتی ہوئی مچھلی کی طرح پھڑک پھڑک کر تڑپنے لگی گت کھینچنے سے نصرت فل دوہری ہوئی صدو کے سینے سے لگی تڑپ کر ارڑا کر دھاڑ رہی تھی نصرت کا منہ لال سرخ تھا اور س بری طرح کانپ رہا تھا جبکہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے نصرت روتی ہوئی مسلسل دھاڑیں مار کر بکانے لگی صدو کے موٹے لن نے نصرت کی گانڈ چیر کر پھاڑ کر رکھ دی جس سے میری آنکھوں کے سامنے لن نصرت کی گانڈ کو فل کھول کر جڑ تک اتر تھا میری نظر پڑی تو صدو کے نصرت کی گانڈ میں تھکے لن سے خون ٹپکتا ہوا نیچے گرنے لگا جس کے ساتھ ہی نصرت تھر تھر کانپتی ہوئی چیخنے لگی میں سمجھ گیا کہ آج نصرت نہیں بچے گی میں نصرت کو چیختا دیکھ کر آگے بڑھا تو کل کی سوٹیوں کے نشان نصرت کے جسم پر نظر آ رہے تھے میں مچل سا گیا اور آگے جا کر نصرت کے ممے دبا کر مسلتا ہوا نیچے ہوکر چوسنے لگانصرت دوہری ہوکر پیچھے صدو کے سینے لگی دھاڑیں مارتی ہوئی ہینگنے لگی تھی جس سے نصرت کے موٹے تنے ممے نکل ہوا میں تن کر کھڑے تھے جنہیں میں دبا کر چوستا ہوا مسلنے لگا صادقی نے نصرت کی گت کھینچنے ہوئے لن کھینچا اور گانڈ کھینچ کر مارتا ہوا اپنا لن نصرت کی گانڈ کے آر پار کرتا پوری طاقت سے نصرت کی گانڈ کو چیرنے لگا جس سے نصرت کی گانڈ جو پہلے ہی صادقی کے لن نے پھاڑ کر رکھ دی تھی رہی سہی کثر بھی نکال کر رکھ دی تھی صادقی کا لن تیزی سے نصرت کی گانڈ کے اندر باہر ہوتا نصرت کی گانڈ کو چیر کر چود رہا تھا جس سے گانڈ کے اندر سے بھی بھچ کی آوازیں نکل کر نصرت کی درد بھری آرٹسٹوں کے ساتھ گونجنے لگیں نصرت تڑپتی ہوئی بکا بکا کر ارڑاتی حال حال کرتی ہوئی بے سدھ ہونے لگی صادقی کا موٹا لن نصرت کی گانڈ کو چیر کر کاٹ رہا تھا جس ے نصرت کی ہمت جواب دیے رہی تھی اور نصرت پھڑکتی ہوئی حال حال کرتی ہمارے ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگی پر صادقی کہاں رکنے والا تھا اس نے بھرپور طریقے سے نصرت کی گانڈ کو چود چود کر چھلنی کردیا اور لن کا کھردرا ماس گانڈ کو چیر کر کاٹ رہا تھا جس سے نصرت کی ہمت جواب دے گئی اور نصرت تڑپتی ہوئی بے سدھ ہونے لگی صادقی کا بھی کام تمام ہوگیا جس سے صادقی نے لن کھینچ کرٹوپے تک نکال کر رکھ کر جرک ماری اور یک لخت پورا لن جڑ تک نصرت کی گانڈ میں پار کرکے نصرت کی گانڈ سینے تک چیر رک رکھ دی جس سے نصرت بے اختیار اچھلی اور بلبلا کر تڑپ کر پوری شدت سے منہ کھول کر ارڑاتی ہوئی لمبی باااااااااااں باااااااااں کرتی چنگھاڑنے لگی صادقی بھی کراہ گیا اور لن کھینچ کر پوری طاقت سے دوسری جرک ماری جس سے لن گانڈ چیر کر نصرت کے ہاں سے جا لگا جس سے چنگھاڑتی ہوئی نصرت پوری شدت سے ارڑا کر ایک لمحے کےلیے خاموش ہوکر پھڑکنے لگی میں نے دیکھا تو نصرت بے ہوش ہو چکی تھی اس کا جسم بری طرح سے پھڑک رہا تھا جبکہ اسکی آواز اور آنکھیں بند ہو چکی تھیں اسی لمحے اندر آنٹی رفعت داخل ہوئی تو نصرت کو صادقی کے ہاتھوں میں دوہرا ہوکر سینے سے لگی تڑپتا دیکھ کر بولی ہالنی اماں میں مر جاواں وے تسی تے میری دھی نوں چیر پاڑ گئے ہو درندیاں آر اسی لمحے صادقی فارغ ہوگیا اور آہیں بھرتا ہوا نصرت کے اوپر نڈھال ہوتا نصرت کو آگے چارپائی پر لٹاتا آہ اہ کرتا نصرت کی گانڈ میں فارغ ہونے لگا آنٹی رفعت نے نصرت کی گانڈ کا حشر دیکھا تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی ہالنی اماں میں کدے جاواں وے حرامدیاں ہو نصرت دی چت ہی پاڑ کے رکھ دتی نہیے صادقی نصرت کو چارپائی پر رکھ کر اوپر لیٹتا کانپتا ہوا فارغ ہو رہا تھا جسے دیکھ کر آنٹی آگے ہوئی اور اس کے ہاتھ سے نصرت کی گت کھینچ کر چھڑوا کی صادقی بھی کراہتا ہوا ڈھیلا پڑ چکا تھا اور آگے ہوکر نصرت کی گالیں چومتا آہیں بھرتا فارغ ہورہا تھا نصرت بے سدھ پڑی بس کانپتی ہوئی ہینگتی ہوئی بے ہوش ہو چکی تھی میری نظر پڑی تو لن نصرت کی گانڈ میں جڑ تک اترا تھا اور گانڈ سے ہلکا ہلکا خون اور ساتھ میں کچھ پانی بہ رہا تھا اور ساتھ میں گانڈ سے کٹا ماس بھی نظر آرہا تھا آنٹی بولی وے ہنڑ بس کر نصرت دی جان ہی کڈھ لئی ہئی وہ یہ سن کر پیچھے ہوا تو آنٹی رفعت کو دیکھ کر نسکرا دیا آنٹی بھی مسکرا کر بولی میں باہر نصرت دی چیکا سن کے ہی سمجھ گئی ہاس کے صادقی ا گیا اے وہ ہنس کر بولی آنٹی کی حال اے آنٹی رفعت نے ایسے ہی اسے ہاتھ پھیرا اور بولی میں ٹھیک توں سنا بڑے دن ہو گئے کدی آیا ہی نہوں صادقی مسکرا کر بولا بس ہنڑ آگئے ہاں نا آنٹی مسکرا دی اور بولی ہلا ہنڑ مینوں نصرت نوں سنبھالنے دے صادقی نے پیچھے ہوکر لن کھینچ کر نصرت کی گانڈ سے نکال لیا نصرت کی گانڈ سے پڑچ کیا آواز سے لن نک آیا جو خون سے بھرا تھا آنٹی بولی ہالوے تیرا لن وی چنگا تگڑا اے میرے چھوریں دے تے کڑاکے کڈھ دیسی آگے کالو ہا ہنڑ توں وی ہیں وہ ہنس دیا ور کیٹ گیا جبکہ نصرت تھر تھر کانپتی ہوئی پھڑکنے لگی اور بکاتی ہوئی باں باں کرتی کرلانے لگی نصرت کی گانڈ میں کھپا ہوچکا تھا جو صاف نظر آ رہا تھا میں یہ دیکھ کر مچل گیا کہ نصرت میں بڑی آگ تھی آج صادقی نے بڑی اچھی طرح آگ نکالی تھی نصرت پھڑک رہی تھی آنٹی اسے سنبھال رہی تھی آنٹی نے دوسری حویلی میں سامان رکھا ہوا تھا مرہم کا اسلیے وہ صادقی سے بولی نصرت نوں چاہئے اس حویلی اچ چلئیے میں ادھر بھی ساتھ تھا ہم نصرت کو وہاں کے گئے اور اسے مرہم لگا دیا وہ آرام کرنے لگی آنٹی رفعت مجھ سے بولی کالو دسدا تے سہی کہ صادقی آنا اسی اس واسطے وی روٹی بنا رکھدے میں بولا بس اس دسیا ہی نہیں آنٹی بولی تیرا کھانا کئے آئی ہاں وے میں صادقی نوں جھٹ تک لئے جاندی آں گھر سونیا نال وی ملاقات کرویندی آں توں کھانا کھا میں کھانا کھانے آگیا کھانا کھا کر میں نے کچھ دیر کام کیا دوسری حویلی سے ابھی تک دونوں نہیں نکلے تھے میں سمجھ گیا کہ آنٹی بھی اپنی پھدی مروا رہی ہو گی میں اندر گیا تو صادقی آنٹی کو گھوڑی بنا کر پوری شدت سے دھکے مارتا چود رہا تھا آنٹی بھی کراہتی ہوئی اسکا ساتھ دے رہی تھی میں واپس آگیا اور اپنے کام میں لگ گیا تھوڑی دیر بعد آنٹی کمر پر ہاتھ رکھے اندر آئی اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا اور بولا وے تسی سارے پیو پتر تے بہوں بلائیں ہو بندے دا اندر ہی ہلا دیندے ہو میریاں دھیان نوں تے چیر پاڑ دیسو میں بولا آنٹی تیریاں دھیاں وی گھٹ نہیں آنٹی ہنس دی میں بولا نصرت دس کی حال ے وہ بولی ہنڑ آرام اے میں صادقی نال جاندی پئی آں گھر توں اس نوں گھر لئی آویں میں بولا اچھا میں وہیں سیکنڈ ٹائم تک کام کیا تب تک نصرت آرام ہی کرتی رہی چار بج چکے تھے میں صفائی کر رہا تھا ڈنگروں کی کہ نصرت دوسری طرف سے کمر پر ہاتھ رکھے ہوئی لنگڑا کر چلتی ہوئی اندر آئی اس کا چہرہ اتر آتا اور آنکھیں باہر کو نکلی صادقی کے لن کی چدائی کا بتا رہی تھیں میں یہ دیکھ کر ہنس دیا اور بولا سنا نصرت تیری آگ کجھ مٹھی ہوئی کے نہیں نصرت پاس آئی اور میرے سینے سے لگ کر بولی اففف کالو تسی سارے پیو پتر تے بلائیں ہو کھا گئے ہو مینوں تے میں ہنس دیا اور نصرت کو پکڑ کر چارپائی کی طرف لانے لگا نصرت میرے سہارے سے چلتی ہوئی بولی کالو راتیں تیرے ابے ہک منٹ نہیں آرام کرن دتا ساری رات میری پھدی ماری ہیس تے ہنڑ رہندی کسر تیرے بھرا کڈھ دتی ہے ہلے ہنڑ تیرا وی دل کر پونا میں ہنس دیا اور نصرت کو کٹا کر نصرت کو چومتا ہوا بولا میری جان فکر نا کر میں تینوں ہنڑ کجھ نہیں آکھدا نصرت کمر دباتی لیٹ گئی صادقی کے لن نے نصرت کو اندر سے ہلا کر نچوڑ لیا تھا نصرت لیٹی پڑی تھیں میں نصرت کو کٹا کر چومنے لگا نصرت بھی میرے ساتھ فرنچ کس کرتی ہوئی سسک کر آہیں بھر رہی تھی میں نے اٹھ کر دودھ چوہا اور پھر ڈرمی میں ڈالا اور نصرت کو بائیک پر بٹھا کر اپنے ساتھ کے کر گھر کی طرف آگیا ہلکی ہلکی شام تب تک ہو رہی تھی میں گھر آیا تو آنٹی رفعت نصرت کو لنگڑا کر چلتا دیکھ کر بولی صدقے جاواں نصرت کجھ آرام آیا نصرت مسکرا دی اور بولی امی آج تے اہناں پیو پتراں میری لمب پٹ دتی پاس کھڑی صدف یہ سن کر ہنس کر مجھے مدہوش نظروں سے دیکھا تو میں بھی ہنسدیا آنٹی رفعت اسے پکڑ کر اندر لے گئی اور صدف سے بولی کہ پانی گرم کرے کے میں نے پوچھا کہ صادقی چلا گیا آنٹی رفعت ہنس دی اور بولی سونیا اپنے یار نوں جاونڑ دیندی بھلا دوویں عاشق معشوق اندر بیٹھے ہینڑ میں ہنسدہا اور کمرے کی طرف چل پڑا میں اندر گیا تو سامنے بیڈ پر سونیا اور صادقی لیٹے ہوئے ایک دوسرے کو باہوں میں بھر کر چوم رہے تھے میں ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا سونیا نے قمیض اتارا وہاتھا اور وہ ننگی صرف شلوار میں تھی جبکہ صادقی ننگا تھا سونیا اس کے لن کو مسل رہی تھی اتنے میں پیچھے سے مجھے سعدیہ نے باہر کھینچ کیاا ور بولی وے تینوں آکھیا نا میری گل کریں اپنے بھرا نال میں ہنس دیا اور بولا میری جان کیتی ہے گل تیری وی وہ مسکرا آکر بولی سچی وت او آیا نہیں میں بولا او اجاسی کل سعدو بولی ہلا وت گل کروا میری میرے کولو رہیا نہیں جا رہیا اس توں بغیر میں ہنس دیا اور موبائل نکال کر ویڈیو کال ملا دی تو اس نے کال اٹھا سعدو میرے پاس ہی کھڑی تھی میں بولا لئے انچھی اپنی مشوق نال گل کر وہ ہنس دیا اور سعدو نے فون پکڑ کر سامنے کیا تو وہ اس کو دیکھ کر مسکرا دی اور بولی صدقے جاواں وے میرا یار تے سوہنا ہے سعدیہ پہلی بار کسی لڑکے سے بات کر رہی ہوگی شاید پر اسکے اعتماد اور بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ لڑکے کےلیے بے تاب ہے انچھی بھی ہنس دیا اور بولا واہ سعدیہ توں وی سوہنی ایں جس پر سعدیہ مسکرا دی اور بولی جناب کی حال چال وہ بولا میں ٹھیک جس پر سعدیہ بولی تیرے بھرا میری گل کیتی تیرے نال انچھی ہسن کر بولا میری ساری گل ہو گئی اے جناب سعدیہ بولی وت کی صلاح ہے کل آجا میرے کول وہ بولا کل اساں سعدیہ فون لے کر اندر چلی گئی امبھی سے بات کرتی میں نے اندر جھانکا تو سونیا صادقی کے ٹانگوں میں آکر جھک کر صادقی کا لن منہ میں دبا کر کس کر چوپے مارتی ہوئی لن چھوڑ کر چاٹ کر اپنے مموں میں دبا کر مسلا اور پھر منہ نیچے کرکے کس کر چوپے مارتی صادقی کا لن چوس رہی تھی سونیا کی موٹی گانڈ ہوا میں کھڑی نظر آرہی تھی میں اسے دیکھ کر مچل گیا سونیا صادقی کے لن کو دبا کر چوستی چوپے مارتی ہانپ رہی تھی دو تین منٹ میں ہی صادقی کراہ کر سونیا کے منہ میں فارغ ہوگیا جبکہ سونیا صادقی کی ساری منی نچوڑ کر پی کر لن کو صاف کر گئی اور مسکراتی ہوئی آگے کر صادقی کے سینے پر لیٹ کر سینہ چومنے لگی میں اسے دیکھ کر مسکرا گیا ور بولا واہ عاشق معشوق فل جوبن تے ہینڑ سونیا یہ سن کر ہنس دی اور بولی جناب آگئے میں مسکرا کر پاس بیٹھ گیا صادقی لیٹا تھا بولا کالو اے بھیناں تے ہک توں ودھ کے گرم ہینڑ میں بولا بھائی ہنڑ آگیا ایں ہنڑ ایہناں دی آگ کڈھنی ہئی سونیا بولی کالو صادقی تے میں کل نس جانا ہے کالو مینوں کڈھ کے لئے جانا اے میں اس بات پر ہنس دیا اور بولا اچھا جی صادقی من گیا سونیا ہنس کر بولی اسدی کی مجال کیوں صادقی صادق ہنس کر بولا میری جان میں کوئی منع کر کیتا میں تے تیار آں تینوں کے کے جاونڑ تے میں ہنسدیا اور بولا تیرے بھراواں دا کی بنسی سونیا بولی ہک واری صادقی مینوں کڈھ کے لئے گیا وت پچھے کس آنا نالے امی آکھیا تیرے بھراواں نوں میں سنبھال لیساں میں ہنس دیا اور مڑ کر واپس باہر نکل آیا شام ہو رہی تھی کھانے کا وقت تھا مجھے بھوک لگی تھی میں کیچن کی طرف گیا تو سامنے میری نظر صدف پر پڑی جو سنک پر کھڑی تھی میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا اس نے مدہوش نظروں سے مجھے دیکھا اور ہنس دی وہ چھوٹی سی تھی پر اس کی آگ اسے بڑا بنا رہی تھی میں اس کے قریب گیا اور بولا جناب آوری کیچن اچ ہکلے ہی وہ ہنس دی اور بولی ہنڑ تو آ نہیں گیا ہنڑ اسی دو ہو گئے میں اس کی بات سمجھ کر مسکرا دیا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھیل لیا جس سے وہ میری طرف منہ کرکے مچل سی گئی میں نے نیچے ہوکر صدف کو چوم ے لگا جس سے صدف بھی میرا ساتھ دیتی مجھے چوم کر سسکنے لگی صدف کی کچی جوانی بہت ہی مزیدار تھی جس سے میں سسک کر کراہنے لگا میرا لن صدف کے جسم کی آگ سے گرم ہونے لگا جس سے میں کراہ رہا تھا صدف کی گرمی میرے لن کو کھڑا کر رہی تھی صدف میرے لن کو دباتی ہوئی مسل کر مجھے چوم رہی تھی میں صدف کو چومتا ہوا سسک رہا تھا صدف میرا نالا کھول کر میرا لن باہر نکال کر مسلنے لگی جس سے صدف کا چھوٹا سا نرم ہاتھ میرے لن پر پڑتے ہی میں مچل کر سسک گیا صدف میرے لن کو پکڑ کر سسک کر رہا گئی اور دبا کر میرے ہونٹ چومتی ہوئی پیچھے ہوئی اور نیچے میرے لن کے سامنے بیٹھ گئی صدف میرے بازو جتنے لن کے سامنے بالکل چھوٹی سی لگ رہی تھی صدف میرے لن کے سامنے بیٹھ کر دونوں ہاتھوں ۔یں لن پکڑ کر مسلتی ہوئی لن کو ٹوپے پر ہونٹ رکھ کر فرنچ کس کرتی ہوئی مدہوشی سے مجھے دیکھنے لگی صدف کے نرم ہونٹوں اور نرم ہاتھوں کی رگڑ سے میں مچل کر کراہ رہا تھا صدف میرا لن چومتی ہوئی سسک کر منہ کھولا اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے میں تڑپ کر رہا سا گیا صدف کا منہ کا دہانہ چھوٹا تھا جس ے لن کا ٹوپہ مشکل سے اندر گیا تھا جسے صدف منہ میں دبا کر چوستی ہوئی سسکنے لگی میں تو صدف کے گرم منہ کا لمس محسوس کرکے کراہ کر تڑپ گیا میرا جسم کانپنے لگا صدف ہونٹ دبا کر میرا لن چوس رہی تھی ۔جھے ایسے لگا کہ صدف کا منہ میرے اندر سے جان کھینچ رہا ہو جس سے میں تڑپ کر کراہ سا گیا صدف میرے لن کو دبا کر چوس رہی تھی جس سے میں صدف کے سامنے ہمت ہار گیا اور کراہ کر تڑپ کر آہیں بھرتا لمبی لمبی منی کی پچکاریاں مارتا صدف کے منہ میں فارغ ہونے لگا صدف بھی ہانپتی ہوئی کرلا کر کراہ کر میری منی چوستی ہوئی پینے لگی میں تڑپ کر آہیں بھرتا صدف کے منہ میں فارغ ہونے لگا جسے صدف پی رہی تھی اتنے میں آنٹی رفعت اندر آئی اور ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا دی میں آہیں بھرتا صدف کے منہ فارغ ہو چکا تھا جبکہ صدف میرا لن نچوڑ کر پی گئی تھی میں تڑپ کر کراہ سا گیا آنٹی واہ میری دھی میں صدقے جاواں توں وی آج کالو نوں نچوڑ لیا اے صدف پچ کی آواز سے لن چھوڑ کر مسکرا دی میں نے ہانپتے ہوئے پیچھے ہوکر شلوار اوپر کر لی تو آنٹی بولی وے کالو ہنڑ صدف تے نصرت تیرے کول رہ جانا اہناں میریاں دھیان نوں راجی رکھیں اور آگے ہوکر صدف کا ماتھا چوم لیا صدف مسکرا کر ہنس دی اور ہٹ کر کام کرنے لگی میں کچھ دیر وہاں رہا اور کھانا کھا کرمیں واپس ڈیرے پر آکرسو گیا آج صبح اٹھا اور نہا کر کام کرنے لگا میں نے دودھ دوہا اور کچھ کام کیا تو اتنے میں ارمان آگیا ارمان نے دودھ لیا اور چلا گیا اتنے میں ندیم کھانا لے کر آیا آج دونوں بھائی گھر پر تھے میں سوچ رہا تھا کہ خیریت ہے جو دونوں یہاں ہیں آج میں نے ناشتہ کیا اور کام کرنے لگا آج دونوں بھائی یہیں تھے اس لیے میں بھی اپنے کام میں مصروف رہا شام کو میں دودھ لے کر گھر پہنچا ان کو دودھ دیا آج کچھ کرنے کو موڈ نہیں تھا کیونکہ آج دونوں بھائی گھر تھے میں کھانا کھا کر واپس آگیا اگلے دن صبح کا کھانا کھا کر میں کام پر جانے لگا کہ اتنے میں انچھی آگیا وہ مجھے ملا ہم باتیں کرنے لگے کہ اتنے میں نصرت اور سونیا دونوں آگئیں وہ انچھی کو دیکھ کر اس سے ملیں انچھی بھی اچھے خاصے تگڑے جسم کا مالک تھا نصرت پہچان گئی اور بولی توں عنصر این کالو دا بھرا وہ بولا ہاں جی نصرت بولی واہ میرا دیر تے چنگا تگڑا ہے اور ہنس کر آگے اس کے سینے سے آلگی انچھی تھوڑا گھبرا گیا کہ یوں سرعام ہی اس سے مل رہی ہے میں مسکرا کر بولا کیوں گھبرا رہیا ایں مل اگاں نصرت ہنس کر منہ اوپر کرکے اسے چوم ے لگی دونوں بڑھتے بڑھتے فرنچ کس تک پہنچ گئے تھے میں یہ دیکھ کر ہنس گیا نصرت اسے لے کر اندر چلی گئی اور تھوڑی ہی دیر تک اندر سے کراہوں کی آوازیں آنے لگیں انچھی نصرت کو دبا کر چود رہا تھا نصرت کی ٹانگیں دبا کر کاندھوں سے لگا کر ہٹ ہٹ کر دھکے مارتا ہوا انچھی نصرت کو پوری شدت سے چود تا ہوا نصرت کے اندر فارغ ہوگیا میں پٹھے لینے چلا۔ گیا واپس آیا تو انچھی ابھی تک نصرت کو چود رہا تھا میں ہنس دیا کہ نصرت تو ابھی تک دل نہیں بھرا کچھ دیر بعد انچھی سونیا کو بھی دبا کر چودنے لگا پھر وہ فری ہوئے تو وہ بولا کہ مجھے سعدیہ سے تو ملاؤ نصرت سونیا سے بولی کہ ااسے گھر کے جاؤ سونیا انچھی کو گھر لے کر چلی گئی جبکہ نصرت میرے پاس ہی تھی میں کام کرکے فری تھا وہ مجھے چومتی ہوئی سسک کر بولی کالو ہک گل دس میں بولا بول میری جان نصرت بولی کالو توں تے میں وی نا نس جاوئیے میں بولا سوہنیے تینوں مینوں نسنڑ دی کی لوڑ کم تیرا میرا تے چل رہیا روز چدویندیںایں وہ بولا ہاں پر جدو سونیا تے سعدیہ تیرے بھراواں نال نس جانا تے میرے بھراواں میرے تے وی سختی کردیں وت کنج ملساں گئے میں بولا او ویکھی جاسی ہک واری تے موجاں کر اے دس صادقی تے تیری بند ہی پاڑ دتی ہا نصرت ہنس دی اور بولی سواد بڑا آیا ہا صادقی کول میں مسکرا دیا اور بولا نصرت تینوں درد دے کے مزہ بڑا آندا نصرت اور میں باہر صحن میں ہی چارپائی پر لیٹے تھے نصرت میرے اوپر لیٹی تھی مجھے دیکھ جر ہنس کر بولی سچی میں بولا مچی نصرت بولی او بھلا کنج میں بولا نصرت پرسوں جہڑا سوٹیاں نال ماریا ہا نا مزہ بڑا آیا ہا مارن دا نصرت مسکرا کر ہنس دی اور بولی ویسے تیری گل سہی اے سواد تے واقعی مینوں وی آیا خاص کر تیری جہڑی سوٹی پھدی تے لگی ہا س نال مزہ بڑا آیا میں بولا سچی نصرت بولی تیری قسم میں اسے چوم کر بولا نصرت وت آج مڑ مارا نصرت بولی کالو پھدی تے اج سوٹیاں مار میں نصرت کی آگ دیکھ کر مچل سا گیا تھا نصرت خود پھدی پر سوٹیاں مروانا چاہ رہی تھی یہ سوچ کر میں بھی مچل گیا تھا مجھے ایک آئیڈیا آیا میں نصرت کو اٹھا کر اندر چل پڑا اور اندر جا کر نصرت فل ننگی ہوگئی میں نے دو رسیاں اٹھائیں اور ایک چادر زمین پر بچھا کر نصرت کو لٹا دیا میں نے دیکھا تو کمرے میں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ڈنگروں کو باندھنے کےلیے دو کلے تھے میں نے نصرت کے پیروں میں رسی باندھ کر باندھ دیا اور رسیاں کھینچ کر دونوں طرف کلے سے باندھ دیں جس سے نصرت کی ٹانگیں کھینچ کر فل کھل سی گئیں اور نصرت کے چڈے فل کھل کر پھدی کو کھول کر میرے سامنے کر دیا نصرت مزے سے ہانپتی ہوئی مجھے یہ سب کرتا دیکھ کر مچل رہی تھی میں اب سوٹی ڈھونڈنے لگا نصرت سمجھ گئی اور مسکرا بولی کالو او سوٹی پئی ہئی میں نے دیکھا تو بانس کی موٹی سوٹی پڑی تھی جس سے پہلے نصرت کو مارا تھا میں سوٹی اٹھا کر بولا نصرت برداشت کر جاسیں نصرت بولی آگے کر گئی ہاں تے اج وی کر جاساں سوٹی ڈنگروں کو مارنے والی موٹی بانس کی سوٹی تھی میں نے سوٹی اٹھا کر پاس آیا اور اٹھا کر ہلکی ہلکی نصرت کے چتڑوں اور رانوں پر مارنے لگا جس سے چٹک چٹک کہ آواز نکل کر مجھے نڈھال کرنے لگی نصرت کی رانیں اور چتر سوٹیاں لگنے سے لال ہورہے تھے نصرت تھر تھر کانپتی ہوئی کراہ رہی تھی مجھے نصرت کو سوٹیاں مار کر مزہ ا رہا تھا نصرت کے پاو بندھے تھے پیچھے اور چڈے کھلے تھے پھدی سے مزے سے پانی بہ رہا تھا جس سے میں مچل گیا نصرت سسک کر ہاپنتی ہوئی بولی اففف کالووو پھدی تے مار سوٹیاں میں یہ سن کر مچل گیا اور سوٹی کا سر نصرت کی پھدی پر رکھ کر مسلا نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسلسل چدائیوں سے ہلکے براؤن ہورہے تھے میں نے پھدی پر سوٹی رکھ کر ہلکی سی اٹھا کر پھدی پر سوٹی ماری جس سے چٹک کی آواز سے سوٹی نصرت کی پھدی کے دہانے اور ہونٹوں پر لگی جس سے نصرت درد اور مزے سے کرلا کر بکا گئی اور تڑپتی ہوئی ارڑا کر بولی اوئے ہالیوئے اماں مجھے نصرت کی پھدی پر مار کر مزہ آگیا میں نے رکے بغیر اٹھا کر ہلکی سی دبا کر سوٹی پھدی کے اوپر ماری جس سے سوٹی ذرا زور سے پھدی کے ہونٹوں اور دہانے پر لگی جس سے نصرت تڑپ کر ارڑا کر بکاتی ہوئی کرلانے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور ٹانگیں ہلنے لگیں میں لگاتار سوٹی اٹھا اٹھا کر کھینچ کر نصرت کی پھدی پر ماری جس سے سوٹی نصرت کی پھدی کے ہونٹ اور دہانے پر زور سے لگی جس سے نصرت بکا کر تڑپ کر کرلانے لگی نصرت کی پھدی سوٹیاں لگنے سے لال ہو رہی تھی نصرت تڑپ تڑپ رک حال حال کرتی بکا کر تڑپ رہی تھی۔ میں نے مچل کر سوٹی اٹھا کر اپنے کاندھے تک لاکر کھینچ کر پورے زور سے سیدھی نصرت کی پھدی پر ماری جس سے سوٹی زور سے نصرت کی پھدی کے ہونٹوں اور پھدی کے دہانے پر لگی جس سے نصرت کی پھدی پھڑک گئی اور نصرت پوری شدت سے ارڑا کر چلائی اور بکا کر حال حال کرتی ہوئی کھوتی کی طرح ہینگتی ہوئی چنگھاڑنے لگی میں مزے سے مچل گیا سوٹی زور سے لگنے سے نصرت درد سے تڑپ اٹھی اور نصرت کی پھدی کے ہونٹ اور دہانہ زخمی ہونے لگا میں نے پھر اسی طرح زور سے کس کر سوٹی نصرت کی پھدی مارنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی۔ چنگھاڑنے لگی میں مسلسل سوٹیاں نصرت کی پھدی پر مزے سے مار رہا تھا میں سوٹیاں مارتا ہوا مزے سے اتنا مچل گیا کہ مجھے کچھ سمجھ نا لگی اور میں نصرت کی پھدی پر سوٹیاں مسلسل مارتا چلا گیا جس سے نصرت کی پھدی کے ہونٹ پھٹ گئی اور پھدی لال سرخ ہوکر پھٹ گئی جس سے خون بہنے لگا نصرت مسلسل پھدی پر سوٹیاں کھا کھا کر برداشت نا کر پائی اور چلاتی ہوئی بے سدھ ہوکر بے ہوش ہونے لگی میں یہ دیکھ کر چونک گیا اور رک کر نصرت کو دیکھا تو وہ پھڑکتی ہوئی کرلا رہی تھی میں نے نصرت کو چھوڑ دیا اور رسیاں کھول دیں نصرت تڑپتی ہوئی آہیں بھرتا دوہری ہوکر گھٹنے سینے سے لگا کر تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی میں نصرت کی پھدی کو دبا کر ٹکور کرنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر کراہ کر سنبھلنے لگی اور بے سدھ ہوکر لیٹ گئی میں بیٹھک سے مرہم لایا اور نصرت کو لگا کر لٹا دیا نصرت آرام کرتی سو گئی میں کام کرنے لگا نصرت کچھ عرصے بعد اٹھی تو اسے کچھ سکون تھا لیکن اس کی پھدی سوج چکی تھی اس سے چلا نہیں گیا میں اسے سکوٹر پر گھر چھوڑ آیا میں واپس آکر کام کرنے لگا شام کو صادقی بھی آگیا ہم سب ملکر گھر گئے اور کھانا کھانے لگے آج سونیا اور سعدیہ نے صادقی اور انچھی کے ساتھ بھاگ جانا تھا وہ دونوں بڑی خوش تھیں صادقی اور انچھی شہر کے کسی وڈیرے کے گن مین اور خاص بندے تھے اس لیے انہیں کوئی ڈر نہیں تھا جو مسئلہ ہوتا انہوں نے سنبھال لینا تھا کافی رات بعد کھانا وغیرہ کھا کر انچھی اور صادقی نصرت کی بہنوں اور ندیم اور ارمان کی بہنوں سونیا اور سعدیہ کو بھگا کر لے کر چلے گئے نصرت بھی ایکسائیٹڈ تھی دیم اور ارمان کی بہنوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ بھگا کر میں واپس ڈیرے پر آگیا دل ڈر بھی رہا تھا کہ پتا نہیں ان کے بھائیوں کو پتا لگا تو یہ کیا کریں گے پر دل کو حوصلہ بھی تھا کہ کچھ نہیں ہوگا انہی سوچوں کے ساتھ میں سو گیا۔

                Comment


                • بہت ہی گرم اپڈیٹ ہے۔
                  بہت ہی شہوت انگیز ۔

                  Comment


                  • مزے سے بھرپور اپڈیٹ ھے ۔۔۔ سب سے مزہ پھدی کو سوٹی سے مارنے والے منظر پر آیا۔۔۔ ویسے تو ہم پھدی اور گانڈ کو لن سے مارنے کے قائل ہیں ۔۔۔ لیکن تحریر کے حساب سے مز۔۔۔مز۔۔۔مزہ آگیا جناب ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

                    Comment


                    • Bohat achi kahani hai

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (1 members and 0 guests)

                      Lan750
                      Working...
                      X