Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

ایک گھر-- تین کہانیاں۔۔۔۔۔ تحریر شاہ جی۔۔۔۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Originally posted by salaam khan View Post
    Bohat hi aala bohat hi behtreen aur shandar story hai haqeqat se qareeb tar shah ji aik manjhey Huey writer hain in ki her story aik shahkar Hoti hai ye bhi lajawab story hai ab app ke intekhab ki dad na Dena nainsafi bohat lajawab intekhab hai
    کہانی کی تعریف کے لیئے بہت شکریہ جناب

    Comment


    • Originally posted by Haris1234 View Post
      Uff intehai garam or lajawab update shah g ki to kya bat ha rukhsana or sultana ko to bahrpor chod chuka ha ab un ki ammi ki bari b aane wali ha
      بہت بہت شکریہ سر

      Comment


      • Originally posted by Udaas Larka View Post
        Zbrdst ghr ki 2 khanian to ho gayi ab aunty ki bari ahr aunty betion sa zyada maza de gi shah g ko qalamkar sir thnx u so much story ka lia
        آنٹی کی سٹوری مزہ دیتی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا فیصلہ تو پڑھنے والے ہی کریں گے

        Comment


        • Originally posted by Khan Baloch View Post
          جناب ایڈمن سے گذارش ہے کہ وہ محترم مصنف کو بتائیں کہ اس گھر کی درجنوں کہانیاں لکھی جاسکتی ہیں، مگر جو بھی اب تک لکھا ہے شاہکار لکھا ہے، کمال لکھا ہے، الفاظ کا صحیح جادو جگایا ہے
          محترم آپ کا تبصرہ پڑھ کے تیسری کہانی کی ایک قسط بڑھا دی گئی ہے۔۔۔اب خوش؟

          Comment


          • ایک گھر تین کہانیاں
            تیسری کہانی۔۔۔۔۔۔سلیمہ آنٹی


            پیارے دوستو۔۔میں ہوں آپ کا دوست شاہ جی۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے آپ اسی سلسلہ کی دو کہانیاں پڑھ چکے ہیں۔۔آج پیش خدمت ہے تیسری اور آخری کہانی۔۔۔۔امید کرتا ہوں کہ پہلی دو کہانیوں کی طرح یہ بھی آپ کو خوش آئے گی۔۔۔۔اگر پسند آئی تو پلیز رائے سے ضرور نوازیئے گا۔۔تو پیارے قارئین۔۔۔اس سے پہلےآپ پڑھ چکے ہیں ۔کہ کس طرح میں نے رخسانہ اور اس کی چھوٹی بہن سلطانہ کو چودا۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات یاد آ گئی۔۔۔۔جب یہ سٹوریز پبلش ہوئیں تھیں تو اس وقت بعض دوستوں نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا ۔۔۔۔کہ یہ کیسےممکن ہے۔۔؟تو اس کے جواب میں عرض کیا تھا کہ اس زمانے میں ۔۔۔۔ بندہ ایک گنجان آبادی والے محلے میں رہا کرتا تھا۔۔اس لیئے محلے داری کی وجہ سے ۔۔۔ہم ایک دوسرے کے گھروں میں پوری آزادی سے آتے جاتے تھے۔۔۔۔یوں آذادانہ آنے جانے سے۔۔۔۔وہ خواتین یا لڑکیاں ۔۔۔جو کہ سیکس میں دلچسپی رکھتی تھیں۔۔۔وہ ہم جیسے ٹین ایجر لڑکوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا کرتی تھیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ یہ کام اس مہارت سے کرتی تھیں کہ ہم جیسے بےوقوف لوگ یہ سمجھا کرتے تھے کہ ان کی بجائے ہم نے انہیں پھنسایا ہے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے ۔۔بتایا بھی کرتے تھے کہ ہم نے فلاں آنٹی کو پھنسا لیا ہے۔۔اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں ۔۔کہ بھلا ایک زمانہ شناس اور میچور عورت کو ایک اناڑی۔۔۔اور ٹین ایجر لڑکا کیسے پھنسا سکتا ہے؟۔۔۔جب تک کہ اس مرضی شامل نہ ہو۔۔۔ چونکہ اس زمانے میں محلے داری کی وجہ سے میل جول عام تھا۔۔۔اس لیئے ایسی وارداتوں کا چلن۔۔۔۔ کم ہی سہی ۔۔۔ لیکن تھا ضرور ۔تو چلیں دوستو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ۔۔۔باجی رخسانہ اور ۔۔چھوٹی باجی کے بعد۔۔میں نے ۔۔۔ان کی اماں۔۔۔ جسے میں آنٹی سلیمہ کہتا تھا ۔۔۔کوکیسے چودا ؟۔۔۔۔

            Comment


            • ایک دن کی بات ہے کہ اماں حضور صبع سویرے ہی۔۔ مجھے بری طرح جھنجھوڑتے ہوئے بولیں۔۔۔ جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جاؤ۔۔۔اماں کے سٹائل سے ہی میں سمجھ گیاتھا کہ جاگے بنا چارہ نہیں۔۔۔۔چنانچہ میں اچھے بچوں کی طرح پلنگ سے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔اور آنکھیں ملتے ہوئے بولا ۔۔۔ ایک تو آپ نے اتنی صبع اٹھا دیا ہے۔۔۔۔ اوپر سے تیار ہونے کا بول رہیں ہیں ۔۔یہ بتائیں کہ معاملہ کیا ہے؟۔۔۔یہ سن کر وہ میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔۔۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت صبع نہیں ۔۔۔۔بلکہ اچھا خاصہ دن نکلا ہوا ہے۔۔۔جلدی تیار ہونے کا ۔۔۔اس لیئے کہہ رہی ہوں کہ کچھ دیر پہلے سلیمہ آئی تھی۔۔۔ اس کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔ان کی حالت بہت سیریس ہے۔۔تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ فہد ابھی بہت چھوٹا ہے۔۔۔بھائی صاحب کو چھٹی نہیں ملی۔۔۔جبکہ رخسانہ اور سلطانہ نے بوجہ ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ہے۔۔۔اس لیئے انہوں نے تمہیں ساتھ لے جانے کا پوچھا۔۔ تو ۔۔۔میں نے ہاں کر دی ہے ۔۔پھر تیوری چڑھا کر بولیں ۔اس لیئے شاہ جی۔۔ اٹھ کر تیار ہو جاؤ کہ تم لوگوں کو ابھی نکلنا ہو گا۔۔۔ ناں ں ں ں۔۔۔ ۔اور وہ بھی اماں حضور کو۔۔یہ تو کسی کتاب میں بھی نہیں لکھا تھا۔۔۔اس لیئے میں بادل نخواستہ بستر سے اٹھا۔۔۔اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے واش روم کی طرف چل دیا۔۔۔ پھر دل ہی دل میں سوچا کاش۔۔۔۔آنٹی اکیلی ہی جاتی تو ۔۔۔پیچھے سے میں ان کی دونوں بیٹیوں کو جی بھر کے چود لیتا ۔۔(جن کے بارے میں مجھے پکا یقین تھا کہ وہ دونوں آپس میں ملی ہوئیں تھیں۔۔اور میرے ساتھ سیکس کرنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کی سہولت کاری بھی کیا کرتی تھیں)۔۔۔اس دوران میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں جانے سے انکار کر دوں۔۔۔اس سوچ کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے اماں حضور کا پاپوش مبارک گھوم گیا۔۔۔۔جو اتنا بدتمیز تھا کہ لگتے وقت اس چیز کا بلکل بھی خیال نہیں کرتا تھا کہ۔۔۔وہ سر پر لگ رہا ہے یا۔۔کمر پر۔۔۔یہ تو ایک پاپوش مبارک مطلب اماں کی جوتی کا حال تھا۔۔۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس مزید زنانہ ہتھیار از قسم بیلن۔۔۔کپڑے دھونے والا ڈنڈا ۔۔گو کہ واشنگ مشین کی آمد کے بعد۔۔اس ڈنڈے کا کام توکب کا ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ لیکن اماں نے اسے ابھی تک ہمارے لیئے رکھ چھوڑا تھا۔۔۔۔ان سب زنانہ اوزار کا خیال آتے ہی میں نے ایک جھرجھری سی لی۔۔۔۔اور پھر رخسانہ اور سلطانہ باجیوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے تیار ہونے لگا کہ ۔۔۔۔یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ۔۔۔وصال یار۔۔۔۔۔۔لگا تار۔۔۔۔اور بار بار ہوتا۔۔ ۔۔۔ ۔



              ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بیگ پکڑا۔۔۔جو کہ اماں نے پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا۔۔۔۔اور آنٹی کے گھر پہنچ گیا۔۔۔بیل کے جواب میں چھوٹی باجی نے دروازہ کھولا۔۔۔پھر جیسے ہی میں اندر داخل ہونے لگا۔۔۔۔وہ آہستہ سے بولیں۔۔۔سالے !!۔۔۔۔۔میں نے تیرے ساتھ انجوائے کرنے کے لیئے۔۔۔۔ انکار کیا تھا ۔۔۔۔اور تو منہ اٹھا کے۔۔۔تیار بھی ہو گیا۔۔پھر دانت پیستے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ گانڈو آدمی انکار کیوں نہیں کیا؟۔۔۔۔اس پر میں بڑی بے چارگی سے بولا ۔۔چھوٹی باجی ۔۔انکار کیسے کرتا ؟۔۔۔ کہ حکم حاکم تھا۔۔۔تو وہ میرے ساتھ چلتے ہوئے بولیں ۔۔ ڈرپوک سالا ۔۔کوئی بہانہ بنا لیتے۔۔انہی باتوں کے دوران میں کمرے میں داخل ہو گیا۔۔۔جہاں آنٹی۔۔چہرے پر تفکرات سجائے پہلے سے ہی تیار بیٹھیں تھیں ۔۔۔جبکہ انکل نے ہمارے لیئے ریل کار کی بکنگ بھی کروا رکھی تھی۔۔چنانچہ ہم مقررہ وقت پر ریلوے سٹیشن پہنچ گئے ۔۔۔ریل میں سوار ہونے کے بعد۔۔۔۔آنٹی سارے راستے اپنے والد اور۔۔۔۔فیملی کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔۔۔۔میں بظاہر تو ان کی باتیں سن رہا تھا۔۔ لیکن۔۔ رہ رہ کر۔۔۔مجھےان کی دونوں بیٹیاں یاد آ رہیں تھیں۔۔۔۔جن کے ساتھ میں نے (آنٹی کی غیر موجودگی میں) داد عیش دینی تھی۔۔۔لیکن۔۔افسوس۔۔بلکہ سوا صد افسوس ۔یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔اسی دوران حسب روایت ریل کار دو تین جگہ خراب ہوئی۔۔۔۔یہ تو ریلوے والوں کی عین نوازش تھی کہ ۔۔انہوں نے اسے ٹھیک کرنے کی زحمت گوارا کرلی۔۔۔۔۔اگر وہ ایسا نہ بھی کرتے۔۔۔تو ہم نے کیا کر لینا تھا؟۔۔۔لیٹ در لیٹ ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔ ہم رات گئے لاہور پہنچے۔۔۔۔۔۔ایک اور بات پنڈی سے لاہور کا ہمارا۔۔۔ سارا سفر ایک خالہ اور اس کے فرمانبردار بھتیجے والا تھا۔ اور اس میں سیکس یا لڑکیوں یا اس طرح کی کوئی لغو بات شامل نہیں تھی۔۔۔۔ ۔۔البتہ بندہ اپنے دل ہی دل میں ۔۔ان کی دونوں بیٹوں کے بارے میں سوچ سوچ کے کڑھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔



              اب میں سلیمہ آنٹی کے بارےمیں کچھ بتاتا ہوں ۔۔۔وہ ایک باوقار اور بڑی ہی نفیس خاتون تھیں ۔۔۔۔۔ان کی اصل عمر کا تو مجھے معلوم نہیں۔۔۔لیکن خوشحال ہونے ۔۔۔اور اپنے آپ کو مینٹین رکھنے کی وجہ سے ۔۔۔وہ باجیوں کی ماں نہیں بلکہ ان کی بڑی بہن لگتی تھی۔۔۔ ان کا جسم باجی رخسانہ سے کافی مشابہت رکھتا تھا۔۔۔۔۔انہی کی طرح بڑی بڑی چھاتیاں۔۔۔بھرا بھرا جسم۔۔۔۔ اور بہت پرکشش گانڈ تھی۔۔رخسانہ کے برعکس۔۔۔ان کا پیٹ تھوڑا باہر کو نکلا ہوا تھا۔۔۔جبکہ اوور آل وہ ایک پرکشش ۔۔خوبصورت اور سیکسی لیڈی تھیں۔۔۔ جس وقت جب ہم ان کے میکے پہنچے ۔۔تو اس وقت گھر میں صرف ان کی بھابھی اور بڑی بہن ہی موجود تھیں۔۔بھائی کے بارے میں پتہ چلا کہ چونکہ اگلے دن ان کے والد صاحب کا آپریشن تھا۔۔۔۔اس لیئے وہ ضروری اقدامات کرنے کے لیئے ۔۔ہاسپیٹل گئے ہوئے تھے۔جبکہ بچوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ انکل کے ہارٹ اٹیک سے ایک دن پہلے ہی۔۔شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلےتھے۔



              گھر کا دروازہ ان کی بھابھی نے کھولا۔۔۔جس کے بارے میں پہلے ہی انہوں نے بتا رکھا تھا کہ یہ ان کی بچپن کی دوست اور کالج فیلو تھیں۔ ۔۔آنٹی کی ایما پر ہی یہ رشتہ ہوا تھا۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔۔وہ ابھی تک نند بھاوج کی بجائے دوست کی طرح ہی ملتی تھیں۔ ان کے بارے مزید یہ کہ۔۔۔۔ وہ کافی بے تکلف کھلی ڈھلی۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ۔۔۔ بہت منہ پھٹ قسم کی لیڈی بھی تھیں ۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ دروازہ ان کی بھابھی جس کا نام نورین تھا۔۔جو کہ آنٹی کی ہم عمر۔۔۔ دل کش اور ان ہی طرح سیکسی لیڈی تھیں۔۔۔۔۔کشمیری ہونے کی وجہ سے رنگت میں آنٹی کی نسبت بہت ہی گوری چٹی ۔۔اور خوبصورت تھیں۔۔اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔ ان کی بڑی بڑی چھاتیوں۔۔اور۔۔ موٹی گانڈ کو دیکھنے میں الگ ہی مزہ تھا۔۔۔۔۔ انہوں نے پہلے دن ہی مجھے آنٹی کہنے سے منع کر دیا۔۔۔۔بلکہ با اصرار کہنے لگیں کہ مجھے بھابھی بولو۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بیل کے جواب میں انہوں نے ہی دروازہ کھولا۔۔۔۔اوراپنے سامنے سلیمہ آنٹی کو دیکھتے ہی ایک پرزور نعرہ بلند کیا۔۔۔۔پھر ان کے گلے لگتے ہوئے بولیں۔۔۔ کمینی تو ابھی تک ویسی کی ویسی ۔۔۔فریش اور سندر دکھتی ہے۔۔۔میں اس وقت آنٹی کے عین پیچھے کھڑا تھا۔۔جیسے ہی نورین بھابھی کی نظر مجھ پر پڑی۔۔۔تو وہ انہوں نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا۔۔۔پھر آنٹی کی طرف مڑتے ہوئے۔۔ بڑے ہی ذومعنی لہجے میں بولیں۔۔۔اچھا تو آج کل اس چاکلیٹ کو کھایا جا رہا ہے۔اس پر آنٹی جھٹ سے بولیں۔۔جو منہ میں آتا ہے بکے جاتی ہو۔۔یہ میرا بھانجھا ہے۔۔۔تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں ۔۔محترمہ تمہارا ایک ہی بھانجا ہے جو کہ یورپ میں ہوتا ہے۔یہ دوسرا کہاں سے لے آئی ہو؟۔۔۔اس پر آنٹی نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔۔۔اور دھیرے سے بولیں اندر چل کے بتاتی ہوں۔۔۔۔

              Comment


              • آنٹی کےآبائی گھر کا شمار اپنے وقت کے پوش ایریاز میں ہوتا تھا۔۔اس گھر کے دو پورشن تھے ۔۔نیچے ڈرائینگ ڈائینگ کے ساتھ کچن اور دو بڑے کمرے تھے۔۔۔ایک میں ان کے بھائی اور نورین بھابھی ۔۔جبکہ دوسرے میں آنٹی کے والد رہتے تھے۔۔۔۔جبکہ سیکنڈ پورشن میں ان کے بچوں کے لیئے مختص تھا۔۔۔۔۔نورین بھابھی ہمیں ڈرائینگ روم میں لے آئی۔۔وہاں پہنچ کر آنٹی بولیں۔۔۔باجی نظر نہیں آ رہیں ؟ ۔۔۔تو وہ جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔ تمہارا انتظار کر کرکے۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی ہیں۔پھر کہنے لگی چونکہ وہ نیند کی گولیاں لے کر سوتی ہیں اس لیئے ان کو اٹھانا بے کار ہے۔رہا تیرا بھائی اور میرا پتی دیو ۔۔تووہ آپریشن کے لوازمات پورے کرنے کے لیئے کب کے ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔۔۔ابھی تک واپس نہیں آئے۔پھر وہ آنٹی سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔تم اور چاکلیٹ فریش ہو جاؤ ۔۔۔اتنی دیر میں۔۔میں کھانا گرم کرتی ہوں۔۔کہ تیرے انتظار میں ۔۔میں نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ کھانے کی میز پر صورتحال کچھ یوں تھی کہ میز کے ایک طرف میں ۔۔۔۔ جبکہ میرے سامنے دونوں خواتین بیٹھیں تھیں۔۔۔کھانے کے دوران ایک دفعہ پھر نورین بھابھی نے میری طرف دیکھا اور پھر آنٹی سے بولیں۔۔ویسے تیرے انتخاب کی داد دینی پڑے گی۔۔اس پر آنٹی سرخ ہوتے ہوئے بولی۔۔پلیزز یار۔۔۔ تو نورین ہنستے ہوئے بولیں۔۔بیٹا ہم سے چالاکیاں ۔۔۔پھر بڑے ذومعنی الفاظ میں بولیں ۔



                ۔اچھا
                یہ تو بتاؤ کہ۔۔۔تم اتنی نیک کب سے ہو گئی ہو؟۔۔اس پر آنٹی نے بڑی بے بسی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔تو اس پر نورین بھابھی منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔اوکے بابا۔۔نو ۔۔مور۔۔ ٹالک۔۔۔میں ان دونوں دوستوں کی باتوں کے بیچ ۔۔بظاہر تو سر جھکائے کھانا کھا رہا تھا۔۔ ۔۔لیکن اندر کھاتے ۔۔۔بڑے غور سے نہ صرف سن رہا تھا۔بلکہ سمجھ بھی رہا تھا۔۔دوسری طرف نورین بھابھی اپنی بات پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی ۔۔کھانا کھاتے کھاتے اچانک وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔بچے آپ کو کچھ چایئے تو بتاؤ ؟۔۔اس پر میں ان کو انکار کرنے ہی لگا تھا کہ وہ آنٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔اچھا یہ بتاؤ۔۔تمہیں سلیمہ کیسی لگتی ہیں؟۔۔تو میں بڑی خوش دلی سے بولا۔۔۔۔آنٹی بڑی مہربان ۔۔۔اور بہت اچھی خاتون ہیں۔۔۔تو وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولیں۔بس؟ کیا یہ خوبصورت نہیں ہے؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔پھر اچانک ہی کہنے لگی۔۔اور سیکسی؟۔۔۔تو میں نے بظاہر شرما کر سر جھکا لیا۔۔۔اس طرح کی باتوں میں کھانا کھایا گیا۔۔۔۔۔۔کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔۔۔اس دوران بھی نورین ہلکی پھلکی باتیں کرتی ہیں۔پتہ نہیں وہ مجھے بار بار چاکلیٹ ۔۔کیوں کہہ رہیں تھیں؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔شاید میری سانولی رنگت کی وجہ سے؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ویسے ان کی باتوں سے ایک بات تو کنفرم ہو گئی تھی ۔۔۔ کہ آنٹی بھی سیکس کی شوقین اور شکاری قسم کی لیڈی تھی۔۔۔اور اس بات کو میں نے اپنے پلو سے باندھ لیا۔۔۔تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔۔



                چائے کے دوران ہی آنٹی کا بھائی بھی آ گیا ۔۔ان کے آتے ہی خواتین میں جاری سپائسی باتیں ختم ۔۔۔اور والد صاحب کی بیماری اور آپریشن کا ٹاپک شروع ہو گیا۔۔۔جسے سنتے ہی اچانک میری آنکھوں میں نینداور تھکاوٹ اتر آئی۔۔۔اس دوران نورین بھابھی کی مجھ پر نظر پڑ گئی۔۔۔اور وہ مجھے ساتھ لیئے۔۔ اپر سٹوری آ گئیں اور گیسٹ روم میں سلا دیا۔۔۔چونکہ میں بہت تھکا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے میں نے بیگ سے بمشکل رات کے پہننے کے لیئے پاجامہ بنیان نکالا۔۔۔۔پھر واش روم میں جا کر کپڑے چینج کیئے۔۔اور پھر ۔۔۔۔بستر پر گرتے ہی سو گیا۔

                Comment


                • دوستو!!۔۔۔جیسا کہ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ صبح سویرے ہر ٹین ایجر کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی ۔۔۔۔ اس کا لنڈ ہوشیار باش۔۔۔۔۔مطلب کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ اس دن بھی ٹھیک ایسا ہی ہوا۔۔۔میں لمبی تان کے سویا ہوا تھا کہ اپنے نزدیک کھسر پھسر کی آوازیں سن کر میری آنکھ کھل گئی۔۔۔میں اٹھنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں میں نورین بھابھی کی آواز گونجی۔۔وہ کہہ رہیں تھی کہ میں ادھر سے گزر رہی تھی کہ میری نظر چاکلیٹ ۔۔اور اس کے ہتھیار پر پڑی۔۔۔۔۔اور میں تمہیں بلا لائی۔۔اب غور سے اپنے شاہ جی عرف چاکلیٹی بوائے کو دیکھ۔۔۔۔جسے تم بچہ کہہ رہی تھی۔۔۔زرا اس کا ہتھیار ملاحظہ فرما۔۔۔۔ پھر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔تیرے بھائی کے لنڈ سے تو اس کا بڑا ہے۔۔۔۔ اس پر آنٹی سرگوشی میں بولیں۔۔گشتی دھیرے بول ۔۔۔ بچہ کہیں اٹھ ہی نہ جائے ۔۔تو وہ چپکے سے کہنے لگی۔۔۔بالی عمر میں ۔۔اتنی آسانی سے آنکھ کہاں کھلتی ہے۔۔ یہ بتا ۔۔تجھے اس کا لنڈ کیسا لگا؟۔۔۔اس پر آنٹی سرگوشی کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔کافی بڑا ۔۔اور۔۔ ایمپریسیو ہے۔۔۔اس پر نورین کہنے لگی۔


                  ۔۔چیک
                  کر کے دیکھ۔۔مجھے تو بہت اچھا۔۔۔۔اور خاصہ۔ سالڈ لگ رہا ہے۔۔اس پر آنٹی کی آواز سنائی دی۔۔وہ کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔کہیں یہ اٹھ ہی جائے۔۔۔۔اس پر نورین کہنے لگی۔۔۔اٹھنا ہوتا تو اب تک اٹھ چکا ہوتا۔۔۔ یہ بے چارہ تو رات کو ہی کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔میرے خیال میں تو۔۔۔۔آسانی سے نہیں اٹھے گا۔۔جب نورین بھابھی کی ہلا شیری دینے کے باوجود بھی آنٹی۔۔۔میرا لن پکڑنے پر تیار نہ ہوئی تو۔۔۔ اس پر نورین بھابھی کی سرگوشی سنائی دی۔۔۔وہ بولی۔۔۔تو ڈرتی رہ۔۔۔۔ میں پکڑ کے بتاتی ہوں۔۔۔۔۔یہ سن کر کہ نورین بھابھی میرے لن کو پکڑنے والی ہیں ۔۔۔میرے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔۔۔اور دل کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا۔۔۔میں نے سانس روک لی۔۔۔۔اور پھر چند سیکنڈ ز کے بعد ۔۔مجھے اپنے لن پر ایک سافٹ سی گرپ فیل ہوئی۔۔۔۔بھابھی نے میرے لوڑے کو ایک لحظے کے لیئے پکڑا۔۔۔تھوڑا سا دبایا۔۔اور پیچھے ہٹ گئیں۔۔۔پھر مجھے آنٹی کی اشتیاق بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔وہ پوچھ رہیں تھیں۔۔۔ کیسا لگا؟۔۔ اس پر بھابھی دھیرے سے بولیں۔۔بڑا سالڈ ڈک ہے سالے کا۔۔۔اتنا کہہ کر دونوں کمرے سے باہر نکل گئیں۔۔۔

                  پھر کوئی دس منٹ بعد میرے کانوں میں آنٹی کی آواز گونجی ۔۔وہ دور سے ہی اونچی اونچی آوازوں میں کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔شاہ جی۔۔۔اٹھو ۔۔۔۔۔۔۔ناشتہ کرلو۔۔۔جیسے ہی میرے کانوں میں آنٹی کی آواز گونجی۔۔۔۔جاگ تو میں پہلے سے ہی رہا تھا۔۔۔۔ان کی آواز سن کر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔۔۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میں نے بستر سے جمپ ماری۔۔۔اور دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔۔۔عین اسی وقت وہ کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔ تو میری پوزیشن یہ تھی ۔۔۔کہ میں بظاہر ان کی آمد سے بے خبر ۔۔پلنگ کے پاس کھڑا ۔۔۔انگڑائی لے رہا۔۔۔۔اور میرا بڑا سا لن۔۔۔پاجامے میں سیدھا کھڑا۔۔۔جھومتے ہوئے صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔اسی لمحے اچانک ہی وہ کمرے میں داخل ہوئیں۔۔



                  ۔۔۔۔دروازے
                  کے سامنے ہی میں ۔۔۔ انگڑائی لے رہا تھا مجھے ابھی تک یاد ہے کہ انہوں نے میرے لنڈ کو کس طرح دیکھا تھا۔۔جیسے ہی ان کی نظر میرے تنے ہوئے لن پر پڑی۔۔۔چند سیکنڈ کے لیئے وہ سٹل ہو کر اسی کی طرف دیکھتی رہیں۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ ان کا منہ اور ہونٹ سیٹی مارنے کے سٹائل میں کھل گئے۔۔اوہ۔۔۔لنڈ کا نظارہ دیکھ کر۔۔ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور وہ اسے دیکھتے ہوئے۔۔ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں۔پھر اچانک ہی انہیں ہوش آیا۔۔اور وہ ہکلاتے ہوئے بولیں۔۔شش۔۔شش۔شاہ جی ۔۔جلدی سے تیار ہو کر نیچے آ جاؤ ۔۔ناشتہ کرو ۔۔۔کہ ہمیں ہسپتال بھی جانا ہے۔۔اس پر میں نے۔۔۔بظاہر چونک کر آنٹی کی طرف دیکھا۔۔پھر شرمندہ ہونے کی۔۔۔ایکٹنگ کرتے ہوئے واش روم کی طرف بھاگ گیا۔۔۔پھرآنٹی کے بارے میں سوچتے ہوئے نہانےلگا۔۔۔ناشتہ کرنے کے بعد ہم ہسپتال کے لیئے روانہ ہو گئے۔ہمارے ساتھ آنٹی کی بڑی بہن اور نورین بھابھی بھی تھیں۔۔جبکہ انکل پہلے ہی جا چکے تھے۔۔اس لیئے راستے میں کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔۔۔۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ انکل کے آپریشن میں ابھی دیر کافی دیر ہے۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔ان کا آپریشن سب سے آخر میں رکھا گیا تھا۔۔۔ ۔۔لیٹ آپریشن کا سن کر نورین بھابھی کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھیں رہیں۔۔۔ پھر آنٹی اور ان کی بڑی بہن نے انہیں کھانا وغیرہ بنانے کے لیئے واپس گھر بھیج دیا۔۔۔ ۔۔جبکہ ہمارے پاس انتظار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔۔ادھر آنٹی تو اپنی بڑی بہن اور بھائی کے ساتھ گپ شپ کرتی رہیں۔۔۔ جبکہ میں ان کے ساتھ بیٹھا بور ہوتا رہا۔

                  Comment


                  • آخر اس بوریت کا حل یہ نکالا کہ میں آنٹی کو بتا کر ہسپتال میں بھونڈی کرنے نکل پڑا۔۔۔ ۔ کافی دیر بھونڈی کرنےکے بعد میں واپس اپنی جگہ پر آیا تو۔۔۔۔نورین بھابھی کو پہلے سے ہی موجود پایا۔۔وہ آنٹی اور انکل سے دور۔۔۔۔۔ایک الگ صوفے پر بیٹھیں تھیں۔۔۔مجھے آتے دیکھ کر انہوں نے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔۔۔۔پھر جیسے ہی میں ان کے قریب بیٹھا تو وہ ۔۔۔ بڑی ہی بے تکلفی سے کہنے لگیں۔۔۔۔ اوئے۔۔چاکلیٹ کہاں گیا تھا؟۔تو میں ان سے بولا۔۔۔۔ویسے ہی باہر گھومنے پھرنے گیا تھا۔۔۔تب وہ میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بڑے شرارتی لہجے میں بولیں۔۔۔۔گھومنے پھرنے گئے تھے۔۔یا لڑکیاں تاڑنے؟۔۔۔اس پر میں انجان بنتے ہوئے بولا۔۔۔تاڑنے؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔تو وہ ہنس کر بولیں۔۔۔۔اس طرح کی ایکٹنگ نا۔۔۔۔۔ اپنی آنٹی کے سامنے کیا کر۔۔۔۔۔۔وہ تیری بات پر یقین بھی کر لے گی۔۔۔۔۔۔پھر بڑے ہی خاص انداز سے کہنے لگیں۔۔میں سب سمجھتی ہوں۔۔۔۔اس کے بعد وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔۔۔سچ بتاؤ۔۔۔تم بھونڈی کرنے گئے تھے نا؟۔۔۔بھابھی کا لگاوٹ بھرا لہجہ۔۔۔۔اور بات کرنے کا مخصوص انداز۔۔۔مجھے جس چیز کا اشارہ دے رہا تھا ۔۔۔اسے میں اچھی طرح سے سمجھ رہا تھا ۔۔۔


                    ۔مجھے اس بات کی سمجھ آر ہی تھی کہ۔۔۔۔ وہ مجھے دانہ ڈال رہی ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔ میں یہ دانہ چگنے سے۔۔۔ تھوڑا سا ڈر رہا تھا۔۔۔کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔۔اسی کشمکش میں لن صاحب کی آواز سنائی دی۔۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ۔۔ سالے۔۔۔جلدی سے دانہ چگ لے ۔۔۔۔کہ ۔۔۔ بچ (کتیا) بہت ہیٹ میں لگ رہی ہے۔۔۔اگر تو نہیں چگا۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کوئی اور چگ لے گا ۔۔۔۔پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔گھبرا مت۔۔۔۔ جا بیٹا۔۔۔چڑھ جا سولی کہ ۔۔۔۔۔ رام بھلی کرےگا۔۔۔اس پر میں تھوڑا جھجھک کر بولا۔۔لیکن یار!!!!!!۔۔۔۔۔تو لن سختی سےبولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ نا سالے۔۔۔آنٹی لفٹ دے رہی ہے تو ۔۔۔۔لفٹ لے ۔۔کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ ۔۔۔جس نے کی شرم ۔۔اس کے پھوٹے کرم۔۔۔چنانچہ لن کی بات مانتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایکٹنگ کرتے ہوئے ۔۔۔۔ بظاہر گھبراہٹ میں بولا۔۔آ۔۔آ۔۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا؟؟؟؟؟؟۔۔۔میری بات سن کر ان کی آنکھوں ایک چمک سے آ گئی۔۔۔اس دوران میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا ۔۔چناچہ اس خیال کے آتے ہی میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔وہ جی آپ درست کہہ رہیں ہیں ۔۔ ۔۔۔میری بات سن کر وہ خوشی سے چٹکی بجاتے ہوئے بولیں۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔اب بتا کہ کوئی ملی؟۔۔تو میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔کیا بتاؤں بھابھی۔۔۔۔یہاں بیوٹی تو بہت ہے۔۔۔لیکن لفٹ کوئی نہیں۔۔۔۔اس پر وہ اسی لگاوٹ بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔۔ تم ناحق باہر گئے تھے ۔۔۔ذرا غور کرو تو تمہارے آس پاس ہی بہت کچھ ہے۔۔اس سے قبل کہ میں ان سے کچھ مزید کہتا ۔۔ ۔۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔




                    ۔۔پھر پاس پڑے ایک شاپر سے۔۔۔برگر نکالا۔۔۔۔۔پھر ایک نظر اپنے گھر والوں کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔لیکن وہ تینوں بڑے ہی ذور و شور سے کسی ٹاپک پر بحث کرنے میں مصروف تھے۔۔ادھر سے مطمئن ہونے کے بعد۔۔۔۔۔وہ میرے سامنے جھکیں۔۔۔۔۔اف۔۔۔اس وقت انہوں نے ۔ کالے رنگ کی۔۔۔ کھلے گلے والے ۔۔ قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔یہ گلا اس قدر کھلا تھا کہ ۔جس کی وجہ سے ان کی حسین اور سفید رنگ کی۔۔۔بھاری بھر کم۔۔۔۔۔۔۔ چھاتیاں صاف دکھائی دے رہیں تھیں۔۔۔۔پھر انہوں نے جھکے جھکے ہی شاپر سے برگر اور ٹن پیک کولڈ ڈرنک نکالی۔۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔تم نے بہت سے برگر کھائے ہوں گے۔۔اس کے بعد۔۔وہ غیر محسوس طریقے سے چھاتیوں کو چھلکاتے ہوئے بولیں۔۔لیکن میرا دعوٰی ہے کہ ایسا ٹیسٹی برگر تم نے کبھی نہیں کھایا ہو گا۔۔ اتنا کہہ کر انہوں نے۔۔۔۔۔۔
                    برگر میرا ہاتھ میں پکڑایا۔۔۔اور خود دوبارہ سے صوفے پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے برگر کھانا شروع کر دیا۔۔پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔واقعی اس کا ٹیسٹ بہت اعلیٰ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی دیر میں آنٹی بھی اٹھ کر ہماری طرف آ گئیں تھی۔۔۔۔ان کے آتے ہی بھابھی نے ٹاپک چینج کر دیا۔۔۔۔۔۔۔اس طرح کافی وقت گزر گیا۔۔۔ زیادہ تر لوگوں کے آپریشن ہو چکے تھے ۔۔۔اب صرف ہم اور ایک آدھ اور لوگ ویٹنگ ایریا میں بیٹھے تھے۔۔۔اس دوران انکل کی باری بھی آ گئی تھی۔۔۔

                    Comment


                    • ہم لوگ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھ کر انتظار کرتے رہے ۔۔چونکہ آپریشن کافی طویل تھا۔۔اس لیئے میں بیٹھے بیٹھے تھک کر اٹھا۔۔۔۔اور ٹہلتے ٹہلتے۔۔۔ وویٹنگ روم کے ایک کونے میں آ کر بیٹھ گیا۔۔ جبکہ سلیمی آنٹی ان کی بہن۔۔۔۔نورین بھابھی اور انکل مجھ سے کافی دور۔۔۔۔دو صوفوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔وہ بظاہر تو آپس میں باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔لیکن دراصل ۔۔اپریشن تھیٹر سے کسی بھی متوقع اور غیر متوقع۔۔ رزلٹ کے انتظار میں تھے ۔۔کچھ دیر بعد سب اپنی سیٹوں سے اٹھے۔۔پھر آنٹی نے دور سے ہی مجھے چائے پینے کا اشارہ کیا۔۔۔ لیکن میں نے منع کر دیا۔۔میرا انکار دیکھ کر وہ باہرکنٹین کی طرف چل پڑے۔۔۔جبکہ میں ڈبل سیٹر صوفے پرہاتھ رکھے بڑے اطمینان سے بیٹھا رہا۔۔۔ کہ اچانک نورین بھابھی میری طرف آتے ہوئے بولیں۔۔۔وہ سب چائے پینے کنٹین گئے ہیں ۔۔چونکہ میرا موڈ نہیں تھا۔۔۔اس لیئے سوچا کیوں نہ تمہارے ساتھ گپ شپ لگائی جائے۔۔۔۔
                      انہیں آتے دیکھ کر میں نے جگہ خالی کرنے کی غرض سے جیسے صوفے پر رکھا اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا۔۔تو انہوں نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔اور پھر بڑے اطمینان سے ا س پر بیٹھ گئیں۔۔اس دوران میں نے جیسے ہی کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا۔۔۔۔تو وہ ۔۔ ۔۔شش۔شش۔۔کی آواز نکالتے ہوئے بولیں۔۔چپ!!۔۔۔ بولنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ۔۔۔اور میرے ہاتھ پر اپنی بھاری گانڈ رکھ دی۔۔۔ان کی اس حرکت پر میں نے خوف زدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ڈرو مت ۔۔۔اس وقت وویٹنگ روم میں صرف ہمی لوگ بیٹھے ہیں۔۔میں نے نگاہ دوڑا کے دیکھا تو واقعی سارا حال خالی پڑا تھی۔۔۔بس کہیں کہیں۔۔۔۔ اکا دکا سٹاف کے لوگ آ جا رہے تھے۔۔۔۔ادھر سے مطمئن ہونے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی میرے ہاتھ کو ان کی نرم گانڈ کا احساس ہوا۔۔۔تو میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔۔۔ ادھر صوفے پر بیٹھتے ہی انہوں نے ایک اور عجیب حرکت کی ۔۔۔اور وہ یہ کہ جس سائیڈ پر میرا ہاتھ تھا۔انہوں نےصوفے پہ بیٹھ کر۔۔۔ ایک ٹانگ کو اٹھا کر دوسری ٹانگ پر رکھ کر اپنے جسم کوتھوڑا سا موڑلیا۔۔جس سے ان کی گانڈ کا ایک پٹ نمایاں ہو کر سامنے آ گیا۔۔




                      اتنے کلئیر اشارےکو دیکھ کر میں بھی شیر ہو گیا۔۔پھر میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ کو ان کی نمایاں نظر آنے والی۔۔۔ بنڈ پر رکھ دیا۔۔۔۔اور پھر ان کے رد عمل کا جائزہ لینے کے لیئے ۔۔۔جب ان کی طرف دیکھا تو۔۔۔۔۔۔وہ بڑی نشیلی نظروں سے میری طرف دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔جس سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا ۔اور اب کی بار میں اپنے ہاتھ کو ان کی نرم گانڈ پر پھیرنے لگا۔۔پھر جیسے ہی میرا ہاتھ ان کی گانڈ سے ٹچ ہوا۔۔۔۔۔انہوں نے اسی لمحے دوپٹہ نما۔۔۔۔ بڑی سی چادر سے اپنا نچلا پورشن کچھ طریقے سے ڈھک دیا۔۔کہ دور سے دیکھنے کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ چادر کن نیچے کیا چل رہا ہے۔۔۔پھر وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولیں۔۔کیسا لگ رہا ہے چاکلیٹ؟۔۔۔۔ تو میں ان کی دراڑ میں انگلی پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔بہت اچھا۔۔اس پر وہ دھیرے سے کہنے لگیں۔۔۔تھوڑا سا اورآگے جاؤ نا۔۔۔۔تومیں شہوت سے بولا۔۔۔پھدی پر لے جاؤں؟۔۔تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔یسس۔س۔س۔س۔۔۔۔۔اس پر میں اپنی انگلیوں کو گانڈ سے نکال کر ان کی چوت کی دراڑ میں پھیرنا شروع ہو گیا۔۔۔پھدی کی لکیر میں انگلیاں پھیرتے وقت ۔۔۔شروع شروع میں۔۔۔ میں تو ان کی شلواربلکل خشک تھی۔۔پھر آہستہ آہستہ۔۔۔۔۔وہ گیلی ہونا شروع ہو گئی۔۔۔یہاں تک کہ میری انگلیوں کے مساج سے ان کی "جائےمخصوصہ " والی جگہ بہت زیادہ گیلی ہو گئی۔۔۔اس دوران میرا لن۔۔۔اکڑاہٹ کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔چنانچہ۔۔۔۔ وہ میری پینٹ میں بنے ابھار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔تیرا منا بھی بڑا ہونا شروع ہو گیا ہے۔۔


                      ۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔ ان کا ہاتھ سرکتا ہوا۔۔پینٹ میں بنے ابھار پر آ گیا۔۔۔۔اور وہ اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔۔۔چاکلیٹ !!!!!!۔۔۔۔ تیرا منا بہت تگڑا ہے ۔۔۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔کیونکہ اس وقت میری انگلیاں چوت کی دراڑ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔۔۔۔اور میں ان انگلیوں کو بڑے پریم سے اوپر سے نیچے تک پھیرتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔ میرے ایسا کرنے سے اچانک ہی۔۔۔ انہوں نے میرے لوڑے کو سختی کے ساتھ پکڑا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                      گہرے گہرے سانس لینے لگیں۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی انگلی کو تھوڑا اور اندر تک ۔۔۔۔ گھسا دیا۔۔۔۔اس دفعہ انہوں نے بڑی مست نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔اور بڑے دل نشین لہجے میں بولیں۔ اف ف ف ف ف ف۔۔۔۔۔تم نے تو مجھے بہت گیلا کر دیا ہے۔۔۔تیری انگلیوں کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔میری چوت چپ چپ کر رہی ہے۔۔۔۔۔ پھر شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ تم کو بھی مزہ مل رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں ان کی چوت میں انگلی گھساتے ہوئے بولا۔۔بھابھی آپ کی چوت تو اس لیس دار پانی سے بھری ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ دھیرے سے بولیں۔۔یہ سب تیری انگلیوں کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔۔۔پھدی نے پانی تو چھوڑنا ہی تھا ۔۔۔۔پھر میری طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔


                      ۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X