Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

نوکر نے بنایانوکریانی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • نوکر نے بنایانوکریانی

    امید ہے کہ سب ممبرز خیر وآفیت سے ہو نگے۔ یہ تحریر ایک کاپیڈ ہے۔ جو کہ ایک رومن کہانی سےمتراجم ہے۔ اگر اپڈیٹ پسند آے تو روزانہ کی بنیاد پر آپڈیٹ پوسٹ ہو گی۔
    کرن:- (فون پر) نوید!! والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ ہسپتال میں داخل ہے۔
    نوید:- کیا ہوا ؟
    کرن:- پتا نہیں کیا ہوا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ہمارے کیئر ٹیکر نے فون کر کے ہمیں بتاےہے کہ ابو سٹی ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کرایا گیا ہے۔ اب مجھے جانا ہے.
    نوید:- لیکن تم کیسے جاو گی ۔
    میں:- میرے لیے کار سے جانے میں کوئی مسلہ نہی۔
    پانچ سے چھ گھنٹوں کا سفر ہے اور میں کال میں آپ سے رابطےمیں رہوں گئ۔
    ​کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ ساماں جلدی پیک کرنا پڑے گا۔ آدھے گھنٹے میں میں اسلام آباد سے ڈی جی خان کی طرف سفر کر رہی تھی۔ لیکن اس سفر نے میری زندگی میں کتنا کچھ کیا ہے، آپ کو مستقبل میں پتہ چل جائے گا۔ فی الحال،میرے تعارف۔
    میں کرن ہوں، میرا قد 5.9میری عمر 25 سال ہے۔

    ​​​​​d- 36-42 فگر
    ۔
    دراصل میرا تعلق ڈی جی خان کے علاقے سے ہے۔ میرے والد نے اپنے بچپن کے دوست کے بیٹے نوید سے شادی کی جس کا اصل تعلق خانیوال سے تھا۔ میری والدہ کا انتقال آج سے 15 سال پہلے ہوا تھا۔ یامیرے والد بیماری اور زمین کے معمالات کی وجہ سے ہمارے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے ہم نے کچھ دیر پہلے اس کے لیے ایک کیئر ٹیکر کا انتظام کیا۔ جبک میں یا میرا شوہر اپنی ملازمت کی وجہ سے اپنے خاندان سے دور اسلام آباد میں رہتے تھے۔ آج تک ہماری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ڈاکٹروں نے مجھے چیک کیا تھا، ورنہ ہم دونوں بالکل فٹ تھے۔ آج صبح 10 بجے مجھے والد کے کیئر ٹیکر عثمان کا فون آیا جسے سن کر میں پریشان ہو جاتی ہوں اور مجھے ڈی جی خان کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ راستے میں جب بھی مجھے ایندھن کے لیے کہیں رکنا یا آرام کرنا پڑتا تو مجھے اپنے شوہر کو میسج کرتی۔ وہ مجھے اپنا خیال رکھنے کو کہتا ہے۔ اس طرح شام چھ بجے میں اپنے گھر پہنچاگئ۔ جہاں عثمان میرا انتظارکر رہا تھا۔
    وہ میرا سامان گھر لے گیا یا مجھے میرے والد کی حالت کے بارے میں بتانے لگا۔ اسکے مطابق والد صاحب کی حالت پہلے سے بہتر ہے اور ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا کہا ہے۔ اب میں آپ کو عثمان کے بارے میں بتاتا ہوں جو کہانی کا بہت اہم حصہ ہے۔
    عثمان کا پورا نام عثمان خان ہے۔ جس کا قد کم از کم 6 فٹ یا 6 انچ ہو۔ ہمارا جسم بہت زیادہ توانہ ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت محنت کرتا ہے اور بہت زیادہ ورزش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کھانے کی عادات ہم سے بالکل مختلف ہیں۔ میں نے دیکھا کہ عثمان کی عمر تقریباً 40 سال تھی لیکن اس کی توند دوسرے مردوں کی طرح بالکل نہیں نکلی تھی۔ ​
    46
    کہانی جاری رہنی چاہیے۔
    100.00%
    46
    کہانی بند کردینی چاہیے۔
    0%
    0

  • #2
    لیکن اس کا توند بالکل مردوں جیسا نہیں نکلا تھا۔ اس کے ڈولے تنگ ٹی سرٹ میں صاف محسوس ہوتے ہیں. میں اس کو دیکھ کر اتنا حیران ہوئی کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنی دیر سے پانی کا گلاس لیے میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں ابھی صوفے پر بیٹھا اپنے عضو تناسل کے اس حصے کو گھور رہی تھی جو ایک خاص جگہسے پھول گیا تھا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھی کہ ایسے فٹ آدمی کا عضو تناسل کتنا مست ہو گا۔

    عثمان:- اگر تمھے چاہتےتو باہرنکال لو ؟

    کرن اچانک ہوش میں آتے ہو کیا؟



    عثمان:- کچھ نہی پانی پیالو ۔ پھر آپ کے والد سے ملنے چلتے ہیں۔



    میں:- ٹھیک ہے...



    یہ کہہ کر میں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا۔ اس دوران میرا نرم و نازک ہاتھ ان کے ہاتھ سے چھو گیا جس کی وجہ سے مجھے اپنے جسم میں کرنٹ محسوس ہوا۔ بہرحال میں نے جلدی سے پانی کا گلاس ختم کیا۔ ایک بار پھر جب ہمارے ہاتھ لگے تو میں نے کچھ مختلف محسوس کیا۔ پھر وہ سیاہ کپڑوں میں آیا، اس بار اس نے جینز کے ساتھ لمبا کرتہ پہن رکھا تھا۔ آپ کو ایک بار پھر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔



    عثمان:- چلیں؟؟؟



    میں:- ہاں چلو...!



    یہ کہہ کر ہم دونوں گھر سے باہر نکلے، میں نے ڈرائیونگ سیٹ لی یا عثمان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اور ہسپتال کی طرف چل پڑے۔



    عثمان:- میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔



    میں:- کیا؟؟؟
    عثمان:- کل! ہسپتال والوں نے بغیر کسی رشتہ دار کےانکل کو داخل کرنے سے انکار کر د ۔ اس لیے میں نے اپنا سسر بتا کر انہیں داخل کرایا۔ اگر یہ نہ کرتا تو اں کی جان کو خطرہ ہوتا۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گئ۔



    اس کی باتیں سن کر میں خاموش ہوگی۔ وہ یہی کہہ رہا تھا۔ ہم نے یہ قدم ہسپتالوں سے انکار ہونے کے بعد اٹھایا۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ باپ کی جان نہی سکے گی۔ یہ سوچ کر میں ایک بارمیں خاموشہو گی اور ۔ ساتھ ہی میں دل ہی دل میں عثمان کا شکریہ ادا کرتا رہا کہ اس نے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا۔​

    Comment


    • #3

      میں:- عثمان جی آپ نے بلکل ٹھیک سوچا۔ حالات کےمطابق آپ نے جو بھی کیا، ۔ اب کم از کم والد صاحب کا اچھا علاج ہو رہا ہے۔



      عثمان:- ہاں! یہ شہر کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ فکر نہ کرو۔ چچا جی (میرے والد) کا یہاں علاج بہت اچھا ہے۔ اب میری آپ سے ایک درخواست ہے۔



      میں:- کیا درخواست تھی؟



      عثمان:- جب ہم ہسپتال میں پھنچ کر تو آپ بالکل بیوی کی طرح برتاؤ یا ردعمل کرنا ہے ۔



      میں:- میں نہیں سمجھی۔



      عثمان:- تمہیں میری بیوی بن کے جانا ہو گا۔ براہ کرم میرا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مجھے کسی ڈاکٹر یا نرس کے سامنے بلانا ہوگا جیسے آپ اپنی شوہرکی طرح بلانا ہو گا ۔ ۔ تاکہ اس کے ذہن میں کوئی شک باقی نہ رہے۔



      عثمان سے یہ سب سن کر مجھے شرم محسوس ہوئی۔ ایک اجنبی، میرے والد کی دیکھ بھال کرتے ہے، جو کے مجھے ہسپتال لے جا رہا تھا۔ اب مجھے اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا ہے جیسا کہ ایک بیوی اپنے شوہر کے ساتھ کرتی ہے۔ صرف اس کے بارے میں سوچنے سے میری سانس تیزی سے چلنےلگی اور میری پھدی گیلی ہونا لگی ۔ میرے ساتھ پہلی بار ایسا ہوا تھا۔ میری پھدی کسی اور انسان کے قریب ہونے سے گیلی ہونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ہم کار سے نیچے اترے۔ وہ گاڑی سے باہر آیا اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔
      dataurl995550.pngمیں نے چونک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ عثمان کے رویے کی وجہ سے میری حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ میرے بے چارے جسم میں ایک عجیب بے چینی کا احساس اٹھنے لگی

      Comment


      • #4
        آدمی:- ارے عثمان بھائی۔ آپ آ گے اور ساتھ میں بھابھی کو بھی لے آے ۔ بہت اچھاکیا



        عثمان:- ہان جمیل بھائی۔ آپ نے بتایا کہ یہ بیگم جاب کے سلسلےمیں ٹور پر گئی تھی ابھی شام میں آئی ہیں۔ اسے کوہی لینےآگیا تھا۔



        جمیل:- ویسے کیہناپڑے گا۔ آپ دونوں کی جوڑی کمال ہے



        عثمان نے مجھےکمر پکڑ کر اپنے قریب کر لیا ۔ میں اس کے جسم کی خوشبو کو محسوس کرنے کے لگی۔ اور ایسا محسوس کرتے ہی میری آنکھین بند ہونے لگی۔

        ​​
        ہم ابھی اپنے چچا سے مل لین



        جمیل:- مریض کے پاس جانے کا وقت نہیں ہے۔ ابھی ڈاکٹر چیک آپ کے لیےآنے والے ہیں۔ آپ 10 منٹ کے لیے ان سے مل لیں۔



        عثمان نے ابھی تک میرے کمر سے ہاتھ نہیں ہٹایا تھا اور نہ ایسے ہی مجھے والد صاحب کے کمرے کی طرف لے گئے تھے۔ ہم والد صاحب کے سامنے کہیں بیٹھ گئے۔ وہ ہوش میں نہی تھے۔ اس کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگایا گیا اور اس کے دل کی پیمائش کرنے والی مشین کے علاوہ اسے ڈرپ بھی لگی ہوئ تھی۔


        Comment


        • #5
          بہترین کہانی ہے ساحل بھائ کے درشن ہو گئے نوازشات ادھر بھی کاری رکھیے گا

          Comment


          • #6
            اس کے چہرے پر ان کی حالت زیادہ مستحکم دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ لیکن عثمان کے مطابق وہ پہلے سے بہتر تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجھے تھوڑا سکون ملا کہ میں اپنے والد کے قریب ہوں۔ انکو چھو سکتی ہوں ۔ میں ان کی طرف دیکھنے میں اتنا مصروف تھا کہ مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ عثمان نے میرا ہاتھ ابھی تک تھامہ ہوا تھا۔ وہ مجھے والد کی حالت کے بارے میں بتا رہا تھا ۔ کچھ دیر میں بری نرس کمرے میں آئی یا میں نے اسے یہ کہہ کر بھیجا کہ یا تو ہم گھر چلے جائیں اور یا کل صبح 11 سے 12 بجے کے درمیان والد سے ملنےآہیں۔ عثمان نے نرس کی بات سن کر مجھ سے کہا۔
            عثمان:- اب چچاکو دیکھ کر تسلی ہو گی؟ اب چلین؟ کل صبح میں ہم دوبارہ ہسپتال آجاہیں گے۔ ….
            میں نے سر ہلایا اور پھر ہم نے ایک بار پھر ایک دوسرے کے ہاتھ کو پکڑ کر۔ 5 منٹ کے اندر ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ ا ورہم گھر کی طرف چلنے لگے۔
            عثمان:- حمیرا! میں معافی چاہتا ہوں. میں نے ہسپتال میں آپ کا ہاتھ تھا۔ لیکن یہ ضروری تھا۔

            میں:- میں جانتی ہوں عثمان جی۔ آپ نے یہ کیا، آپ نے یہ بالکل درست کیا۔ ؟ مجھے آپ کے اس طرح کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
            عثمان:- بہت شکریہ۔ تم نے میرے دماغ سے بوجھ ہٹا دیا ہے۔

            ہم دونوں خاموش اپنے خیالوں میں اداس تھے کہ حال ہی میں ہسپتال میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ عثمان کو پتا نہیں تھا لیکن اس وقت تک میری پینٹی پوری طرح گیلی ہو چکی تھی۔ میں جلد از جلد گھر جا کر انہیں تبدیل کرنا چاہتاہتی تھی۔ بظاہر عثمان میری حالت کو بخوبی جانتا تھا، اسی لیے وہ بار بار مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھنے لگا۔ اس طرح ہم گھر پہنچ گئے۔ ہم نے گھر سے تھوڑا
            ​​​​​ پہلے ایک ہوٹل سے کھانا پیک کیا تاکہ گھر میں کھا سکیں۔​

            Comment


            • #7
              گھر پہنچ کر ہم دونوں فریش ہو کر کھانے کی میز پر پہنچ گئے اور سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کھانے سے فراغت کے بعد میں ا ورعثمان ٹی وی کے سامنے سنگل صوفے پر بیٹھ جاتے۔ صورتحال یہ تھی کہ میرے سامنے ٹی وی تھا یا میرے دائیں طرف عثمان بیٹھے ہوئے تھے یا ہمارے دائیں طرف ٹی وی تھا یا ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں کرنے لگے


              وہ میرے خاندان کے بارے میں بات کر رہا تھا، وہ میرے شوہر کے گھر والوں کا پوچھ رہا تھا۔ اور میں اس کے سوالوں کا جواب دیتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد میں کہیں کھو گی تو عثمان کو دوبارہ اپنا سوال کرنا پڑا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ عثمان اپنی جگہ سے کھڑا ہو چکے تھے۔ اس کے لن کا ابھار کااس کے پجامے سے نظر آرہا تھا۔جسے دیکھ کر میں گھبراہٹ محسوس کروں گا۔ لیکن وہ گیا اور کچن سے پانی کا گلاس لے کر واپس آیا یا اور میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ایک بار پھر مجھے اپنی پتلون میں بنا ابھار کو دیکھتے ہوے



              عثمان:- (ہاتھ میں گلاس) پکڑے ہوے؟ آگے بڑھو یا اپنی پیاس بجھاؤ۔ یہ آپ کے لیے ہے… میں جانتا ہوں کہ آپ کو بہت پیاس لگ رہی ہے۔



              میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں مجھے ایک عجیب سی مسکراہٹ نظر آئی۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے گلے میں پڑا بڑا تھوک نگلا یا عثمان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت میرے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کی پینٹ کھولنے لگی۔ اس کی پینٹ کی بیلٹ کو کھولنے میں چند سیکنڈ لگے۔ میں نے اپنی جینز کا بٹن کھولا اور زپ کو نیچے کھینچ لیا یا اپنی پتلون کے اوپر سے نیچے کھینچ لیا۔ چند لمحوں میں اس کی پتلون اس پاؤں پر گر گئی۔
              dataurl253587.png

              Comment


              • #8
                میری آنکھوں کے سامنے سفید انڈرویئر تھا جس میں ایک بہت بڑا خیمہ بنا ہوا تھا۔ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے نیچے اتارا ۔ انڈرویر کے اترتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اس کا لن اچھل کر باہر آگیا۔
                اس کا لن بہت زیادہ بڑا اور موٹا تھا … کیونکہ میں نے اپنے خوابوں میں ایسا لن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا سائز کم از کم 9-10 انچ تھا۔ عثمان کا لن میری کلائی سے بھی موٹا لگ رہا تھا۔ اس کے علاوہ ٹینس سائز کی گیندیں لٹک رہی تھی ۔ یہ منظر اس موٹے لن کو اور بھی خطرناک بنا رہی تھی۔ اک انوکھی خوشبو مجھے اس کی طرف کھنچ رہی تھی اس سے دور رہنا اب مشکل ہو ریا رہا تھا۔ آج تک میں نے صرف اپنے شوہر سے پھدی مروائی تھی۔ اس کو لن چسوانے کے لیے لیے مجھے گفٹ کرنا پڑتا تھا پھر جا کر میں کہیں اپنے شوہر کا لن کا چوپا لگاتی تھی۔ مگر اس کا لن دیکھ کر ہی میری پینٹی گیلی ہو گی تھی۔
                عثمان:- کرن کو کیا ہوا؟؟؟بجھا لو اپنی پیاس بجھاؤ…. میں آپ کے لئے ہی یہاں ہوں.
                میں نی جانتی کہ وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے مجھے ایک گلاس پانی دینا چہتا تھا لیکن میں اس کے لن کے لیے پیا سی ہو رہی تھی۔۔ میں کچھ سوچا اور آگےہو کر اس کا موٹا ٹوپا اپنے منہ میں ڈال لیا۔
                اس کے موٹے لن کے ٹوپے سے میرا منہ بھر گیا تھا۔ اس سے مجھے ابنے جسم میں سکون کا احساس پیدا ہونے لگا۔ گویا کسی انسان کو اس کی من پسند چیز مل گی ہو۔ اس کی برسوں پرانی خواہش پوری ہو رہی ہو۔
                میں مدہوشی سے اس کے لن کو چوس رہی تھی۔ اور اپنے ہاتھوں سے اس لن کو سہلا بھی رہی تھی۔ جو کہ اب پوری طرح سے تیار تھا ۔ تھوڑی دیر کے بعدعثمان نے اپنا لن میرے منہ سے نکالا اور صوفے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اور میں ایک پالتو کتیا کی طرح چلتے ہوے اس کی طرف لپکی تاکہ اپنے من پسند لن سے اپنی برسوں پرانی پیاس بجھاسکوں۔
                میں نے پھر سے لن کو اپنے منہ میں بھر کر چوسنا اور اس لو چوسنا شروع کر دہا۔ جب کہ عثمان کے منہ سے ہنسی آنے لگی۔ گویا وہ اپنے جیت پر خوش ہو رہا ہے۔ لیکن مجھے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ مجھ کو صرف یہ لن چاہیے تھا۔ لمبا، موٹا سیاہ لن۔ یہ میرے منہ میں اندر باہر ہو رہا تھا۔ میری منہ سے تھوک نکل کر اس کے لوڑے پر گر رہا تھا۔ چونکہ اس کے لوڑے کے موٹے ہونے کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ شاید یہ خوشی کے آنسو تھےجو کہ میری پھدی بھی چھوڑ رہی تھی۔



                مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب میرا ڈک میری شلوار یا پینٹی اتارنے کے بعد میری بلی سے کھیلنے لگا۔ اس وقت کتیا پورے جوش و خروش سے عثمان کا لنڈ چوس رہی تھی۔​

                Comment


                • #9
                  مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب میرا ہاتھ میری شلوار یا پینٹی اتارنے کے بعد پھدی سے کھیلنے لگا۔ اس وقت میں ایک کتیا کی طرح پورے جوش و خروش سے عثمان کا لن چوس رہی تھی۔
                  جو میرے منہ میں صرف 4-5 انچ تک غائب تھی۔ تھوڑی دیر بعد عثمان نے اپنا لوڑا میرے منہ سے نکالا یا مجھے اپنے ٹٹوں کو چوسنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اب تک ٹٹوں کو نہیں چاٹا تھا لیکن میں عثمان کے لن کو بانے کے لیے ہر ممکن کام کرنے کو تیار تھی۔
                  میں اس کے لن کے نیچے لٹکتی جھومتی گیندوں کو جوس رہی تھی چاٹ رہی تھی۔ گیندوں ست پسینے، پیشاب کی سمیل آرہی تھی جو کہ مجھے مدہوش کر رہی تھی۔ کچھ دیر دونوں گیندوں کو چاٹنے کے بعد عثمان کا لن میرے منہ کو چودنے لگا۔ پتہ نہیں کتنا وقت مجھے اس کے لن کو چوستی رہی ۔ مجھے ہوش تب آیا جب اس کا لوڑا میرے منہ میں پھولنے لگا۔ چند سیکنڈوں میں اس کی رفتار بڑی اور منی کی دھار میرے گلے میں گرنے لگی۔ اس کو محسوس کرتے ہی میرے پھدی نے بھی پانی چھوڑ دیا۔ اس قدر مزا آیا کہ میری آنکھین کچھ لمہے لیے بند ہو گی۔
                  اگلے ہی پل منی کی ایک اور دھار میرے گلے سے ٹکرای اور میں جلدی سے اسے نگلنا شروع کردیا۔ ایک طرف میری پھدی پانی چھوڑ رہی تھی اور دوسری طرف اس کا لن میرے منہ میں پانی برسا رہا تھا۔
                  تھوڑی دیر بعد جب یہ سلسلہ رکا تو میں نے دیکھا کہ عثمان کے لوڑے کے پانی اس کی گیندوں اور صوفے کو گیلا کر رہا دیا تھا۔ میں سامنے عثمان کے لن کو چوسنے لگی۔ جو منی اس کے لن پر لگی تھی اور پھر میرے پیٹ میں پہنچ گئی تھی اور اس کا لن صاف ہو گیا تھا۔ عثمان کا لن ابھی پوری طرح ڈھیلا نہیں ہوا تھا۔ میں اسے اب بھی چوس رہی تھی۔ جیسے میں ابھی بھی پہاسی تھی۔ اچانک عثمان بے میرے منہ سے اپنا لوڑا نکال لیا؟ میں نے ایک آہ بھری آپ کی طرف دیکھنے لگا۔ جیسے سوال پوچھ،رہی ہو کہاں رہ رہے ہو؟ میری پیاس اب بھی نہیں بجھی۔ لیکن عثمان نے اپنا پاجامہ درست کیا یا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے بعد میں وہیں بیٹھی سوچوں میں گم ہو گی۔​

                  Comment


                  • #10
                    اس کے بعد میں فریش ہونے کے لیے واش روم گی اور واپس اپنے کمرے میں آئی۔ پھر مجھے یہ خیال آیا کہ میںنے اپنے شویر سے بات نہی کی۔ میں نے اپنے موبائل پر نظر ڈالی تو مجھے 10-15 پیغامات نظر آئے۔ جس میں وہ میری اور میرے والد کی صحت کا پوچھ رہے تھے۔ آخری پیغام ایک گھنٹہ پہلے آیا تھا۔ میں نے وقت دیکھا تو رات کا صرف ایک بج رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نوید اب تو سو رہے ہونگے ۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ میرے پیغامات سے پریشان ہوں ۔ اس لیے میں نے صبح سویرے اسے میسج کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر میں نے سونے کا سوچا اور کچھ ہی لمحوں میں گہری نیند میں چلی گی۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت صبح کے دس بج رہیے تھے۔
                    فریش ہونے کے بعد کمرے سے ایک باہر گی تو باہر خاموشی ہی خاموشی تھی ۔ کوئی نہی تھا ۔میں حیرت سے ادھر اودھر دیکھنے لگی تو تہہ خانے کا دروازہ کھلا اور عثمان باہر نکلے۔ اس وقت اس کا جسم بالکل برہنہ تھا۔ جب اس نے صرف سوتی پاجامہ پہن رکھا تھا۔ جو کافی پتلا تھا۔ ایک بار جب میں نے اس کے مضبوط جسم کو دیکھا ، میں پھر سب کچھ بھول گی۔ عثمان کی نظر مجھ پر پڑی جیسے اس کی آنکھوں میں ہوس نظر آئی۔

                    عثمان:- (میری طرف دیکھتے ہوئے) کرن جی۔ زارا تولیہ لے کر آئی جو سامنے صوفے پر رکھا ہے؟؟؟

                    میں:- جی…. ہاں لاتی ہوں ۔

                    یوں لگا جیسے میں ٹرانس میں ہوں ۔ صوفے سے تولیہ اٹھا کر عثمان کے قریب پہنچ گی ہ۔ اس وقت اس کا جسم پسینے میں بھیگ رہا تھا، شاید وہ ورزش کر رہا تھا۔

                    عثمان:- سوری حمیرا جی۔ کیا آپ کو تکلیف ہوئی؟ اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اپنے جسم کو صاف کرتا ہوں۔

                    لیکن میں نے اسے تولیہ نہیں دیا۔ میں خود آگے آئی اور عثمان کے جسم کو صاف کرنے لگا۔ میں اس کے جسم کی صفائی کر رہی تھی۔ میرے جسم کی سختی کو محسوس کر رہا تھی۔ اس کی خوشبو محسوس کر رہا تھی اور میں ایک بار پھر سے اس کے جسم کے نشہ میں کھونے لگی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں عثمان کی قریب رہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا جسم بالکل صاف ہو چکا تھا۔ اب میں نے ہمارے سامنے کھانا کھایا ہے۔ میرا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے نیچے دیکھا تو ایک بار پھر اس کا لوڑا کھڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔ عثمان میرا حالت سمھج ریا تھا۔ اس لیے وہ خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ تب سے اس نے مجھے چھوا تک نہیں۔ جب میں وہاں کھڑی اس کے لوڑے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ چند سیکنڈ کے بعد مجھے اپنے کندھوں پر ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا جس کی وجہ سے میں نیچے بیٹھنے لگی۔ میرے گھٹنوں کے بل عثمان کے سامنے بیٹھ گئی۔

                    میرے سامنے چند انچ کے فاصلے پر میرا سامنے اس کا لوڑا ٹراوزر میں قید تھا۔ایک بار پھر میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور نیچے سے اس کے لن کو چھوا۔ اس کے لن کی گرمی ایک لمحے کے لیے میرے جسم میں چھا گی۔ عثمان نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوے بولا۔
                    عثمان: باہر نکال لو اسے کرن۔
                    جیسے ہی اس کا پجامہ نیچے ہوا ۔ وہ میرے سامنے بلکل ننگا تھا۔ میرے منہ کے سامنے اس کا کالا، موٹا، لمبا لوڑا پھن پھلاے کھڑا تھا ۔
                    میں نے فورں دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑ لیا۔ اور اپنے چہرے کو آگے بڑھا کر اپنی زبان اس کے موٹے ، کالے ، لمبے لوڑے بر پھرنے لگی۔
                    لوڑے پر زبان پھرتے ہوے میرے منہ میں پسنے کا نمکین زاقھہ آرہا تھا۔ جس کی میں نے پر وہ نہ کی اور سارے لوڑے پر زبان پھرے کے بعد اس کو اپنے منہ میں کے کر چوسنے لگی۔اور دوسرا ہاتھ میرا شلوار کے اندر تھا جس سے میں اپنی پھدی کو سہلا نا شروع کردیا۔ اپنی پھدی کے ساتھ کھلتے ہوے اس کے لوڑے کو چوس رہی تھی۔ جیسے میرے لیے دنیا کی قیمتی چیز ہو۔ لیکن عثمان کا ارادہ کچھ اور تھا۔ اس نہ اپنے لوڑے لو میرے منہ سے اپنے لوڑے لو نکالا اور صوفے پر جاکر بیٹھ گیا۔ میں حیران ہو گی۔ اور کچھ سمجھ نہی آرہا تھا کہ اچانک کیا ہوا۔
                    پھر میں نے اس کے پاس جانے سوچا۔ اور اس کی طرف دیکھا۔ اور اپنی جگہ سے کھڑی ہونے لگی مگر اس نے اشارہ سے مجھے روکا اور اپنے لوڑے کو ہلاتا رہا۔ اور اس نے اشارے سے مجھے اپنے ہاتھ اور گھٹنون کے بل چلنےکا اشارہ کیا اور میں دل میں کچھ سوچ کے کیسی کتیا کی طرح اس کی طرف جانے لگی۔ اور اس طرح مجھے دیکھ کر اس کی مسکراہٹ کافی گہری ہو گی۔ اور میں گھٹنوں کے بل اس کے پیروں کے پاس بہنچ کر اس کے لوڑے کو پکڑنے لگی تو اس نے اپنا لوڑا پھچے کو کر لیا۔ تو میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ تو اس کیا کہ تم صرف اپنے منہ کا استعمال کرو گئی۔ عثمان کی بات سن کر میں مسکرائی اور اپنے ہاتھوں کو اس کی ٹانگوں پر رکھ لیا۔ اور اپنا منہ اس کہ لوڑا پر اور چوسنا شروع کردیا۔
                    کچھ ہی پلوں میں اس کا لوڑا تین سے چار انچ میرے منہ میں تھا۔ اور میرا تھوک/ رال اس کے لوڑے کو بگھوتی ہوئی میری چھاتی کو بگھو رہی تھی۔ ایساکرتے ہی میری آنکھوں میں نمی بھی آنے لگی۔
                    تبھی اس نے میرے بالوں کو پکڑ کر کھنچا جس سے اس کا لوڑا میرے منہ سے نکل گیا۔ اور میں کھلے منہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ تب ہی اس نے ایسی حرکت کی جس کا میں سوچ بھی نہی سکتی تھی۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X