Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

سالی: پور ے گھر والی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    Bht zbrdst kahani
    Maza agya

    Comment


    • #52
      سالی پورے گھر والی


      قسط 8۔9۔10


      میں نے بھی زیادہ تڑپانا مناسب نہیں سمجھا اور آہستہ آہستہ رضوان کے اوپر جھکنے
      لگی، اب میرا منہ بالکل لن کے قریب تھا اور میرے منہ میں اتنا مضبوط لن دیکھ کر
      پانی آرہا تھا۔ مگر میں ابھی رضوان کو یہی شو کروا رہی تھی کہ مجھے نفرت آرہی ہے
      اور محض رضوان کی خواہش پر میں ایسا کر رہی ہوں۔ رضوان بھی بیتابی سے انتظار
      کر رہا تھا کہ کب میں اسکا لن اپنے منہ ِمیں لیتی ہوں۔
      پہلے میں نے رضوان کے لن کی ٹوپی پر ایک کس کی جس سے اسکے لن کو ایک
      جھٹکا لگا۔ اور پھر میں رضوان کے لن کی سائیڈ پر اپنی زبان آہستہ آہستہ پھیرنے
      لگی۔ مگر اسکو بہت جلدی تھی کہ میں اسکا لن اپنے منہ میں لوں۔ اس نے مجھے کہا
      کہ جلدی کرو دیر نہ کرو پھر گھر بھی جانا ہے۔ اب میں نے اپنا منہ لن کی ٹوپی پر رکھ
      دیا اور اپنے ہونٹ ٹوپی پر گھمانے لگی۔ لن کے منہ سے کچھ قطرے بھی نکل رہے
      تھے جو عموما مرد کے لن سے شدت جزبات سے نکلتے ہیں۔ یہ قطرے بھی میرے منہ
      میں گئے اور میں نے انکا ذائقہ محسوس کیا۔ کچھ دیر ٹوپی پر ہونٹ گھمانے کے بعد
      اب میں ٹوپی پر بھی اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ اور رضوان کے لن کو تھوڑی تھوڑی دیر
      بعد جھٹکے بھی لگتے۔ پھر آہستہ آہستہ میں نےلن کی ٹوپی اپنے منہ میں لے لی اور
      آہستہ آہستہ چوسنے لگی۔ رضوان کے مزے کی کہوئی حد نہیں تھی اسنے ابھی سے
      سسکیاں لینی شروع کر دی تھیں۔ مجھے شرارت سوجھی اور میں نے رضوان کی ٹوپی
      پر اپنے چبھو دیے۔ رضوان کی ایک دم چیخ نکلی اور اسنے ایکدم سے اپنا لن میرے
      منہ سے نکال لیا۔ اسکو شاید کچھ زیادہ ہی تکلیف ہوئی تھی کیونکہ یہ اسکا پہال تجربہ
      تھا۔ اب وہ اپنا لن میرے منہ میں دیتے ہوئے ڈرنے لگا مگر اب کی بار میں نے شرم
      اتار کر سائیڈ پر رکھی اور فل تیاری کر لی کہ اب رضوان کا لن جڑ تک چوس کر
      رضوان کو مزہ دینا ہے۔ میں نے رضوان سے سوری بھی کی کہ اب دانت نہیں لگتے
      غلطی ہوگئی پہلے اب میں پیار سے لن چوسوں گی۔ اب کی بار رضوان نے ڈرتے ڈرتے
      لن میرے منہ میں جانے دیا اور میں نے آہستہ آہستہ پورا لن اپنے منہ میں لے لیا جس
      سے رضوان کی سسکیاں ایک بار پھر سٹارٹ ہوگئیں۔ اب میں بہت مہارت کے ساتھ
      رضوان کا لن چوس رہی تھی جو مکمل طور پر گیال ہو چکا تھا۔ کچھ تو میرے منہ میں
      جانے سے گیال ہوا اور کچھ اسکے لن سے مسلسل چھوٹے چھوٹے مذی کے قطرے
      نکل رہے تھے۔ جو پریکٹس میں نے عمران کے لن پر کی تھی اسکا مکمل استعمال اب
      میں رضوان کے لن پر کر رہی تھی اور بہت مزے کے ساتھ لن کے چوپے لگا رہی تھی
      جس سے رضوان کو بھی بہت مزہ آرہا تھا۔ میں کبھی رضوان کا لن جڑ تک اپنے منہ میں لے لیتی تو کبھی محض آدھے لن سے
      ہی اپنے منہ کی چودائی کرتی۔ کبھی لن باہر نکال کر اسکی ٹوپی پر پیار کرتی تو کبھی
      لن کی سائڈ پر نیچے سے اوپر کی طرف زبان پھیرتی۔ رضوان میری ان حرکتوں سے
      بہت مزے لے رہا تھا اور خوش بھی ہو رہا تھا۔ 5 منٹ تک رضوان اپنے مضبوط لن
      سے میرے منہ کی چدائی کرتا رہا اور پھر بولا کہ وہ اب چھوٹنے واال ہے۔ میں ابھی
      رضوان کی منی اپنے منہ میں نہیں لینا چاہتی تھی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ
      کسی بھی طرح سوچے کہ میں پہلے بھی کسی کے لن کا چوپا لگا چکی ہوں اور اسکو
      مجھ پر شک ہو اسلیے میں نے فورا ہی اسکا لن اپنے منہ سے نکالا اور اسکو کہا منی
      باہر ہی نکالنا۔ رضوان بولا تم اپنے منہ میں نکلوا لو نہیں تو گاڑی خراب ہوگی۔ اب میں
      ادھر ادھر دیکھنے لگی کیونکہ گاڑی میں منی نکالنا بھی ٹھیک نہیں تھا، تو میں نے
      گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسکو باہر کی طرف منہ کرنے کو کہا، اب رضوان باہرکی
      طرف منہ کر کے بیٹھے گیا تہ میں نے پیچھے سے آکر ایک بار پھر اسکا لن اپنے منہ
      میں لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ 9 سے 10 چوپوں کے بعد اسکے لن میں ایک
      بار پھر سے ضرورت سے زیادہ سختی ہوئی تو میں نے لن منہ سے نکالا اور اپنے
      ہاتھ سے اسکی مٹھ مارنے لگی۔ کچھ ہی سیکنڈ میں رضوان کے لن نے منی نکالی جو
      ِھ
      بہت پریشر سے نکلی اور گاڑی سے باہر جا گری۔ کچھ قطرے گاڑی کے دروازے پر
      گرے جسکو رضوان نے فوری طور پر ایک کپڑے سے صاف کر دیا۔
      اب رضوان مکمل فارغ ہو چکا تھا اور میری طرف مشکور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
      رضوان نے کچھ دیر مجھے مزید کسنگ کی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا کہ میں نے آج
      اسکو بہت مزہ دیا۔ میں نے بھی رضوان کو پیار سے ایک کس کی اور کہا کہ چلو اب
      دیر ہو رہی ہے گھر چلیں۔ رضوان نے اپنا لن واپس پینٹ میں ڈال زپ بند کی اور واپس
      اپنی جگہ پر جا کے بیٹھ گیا۔ میں نے بھی ساڑھی کا پلو ٹھیک کیا اور فرنٹ سیٹ پر
      بیٹھ گئی۔ اب ہمارا رخ گھر کی طرف تھا۔
      جب گھر پہنچے تو گھر والے بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہے تھے کیونکہ وہ بارش
      کی وجہ سے پریشان تھے۔ مگر جب ہم خیر خیریت سے ٹائم پر پہنچ گئے تو گھر والے
      خوش ہوگئے۔ رضوان کو ابو نے روک لیا کہ بارش رک جائے تو پھر جانا واپس۔ مگر
      بارش نہ رکی اس لیے رضوان ہماری طرف ہی رک گیا رات کو۔ ہم سب نے ملکر چائے
      پی اور پکوڑے بنا کر بھی کھائے۔ رات کافی دیر جاگنے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سوگئے۔ رضوان کو میرے چھوٹے بھائی حمزہ کے ساتھ سالیا گیا اور میں
      اپنے کمرے میں سوگئی۔
      صبح اٹھے تو ابو کام پر جا چکے تھے اور حمزہ بھی کالج جا چکا تھا۔ گھر میں
      رضوان ، امی اور میں موجود تھے۔ ہم تینوں نے ملکر ناشتہ کیا۔ ناشتہ کرنے کے کچھ
      دیر بعد تک ہم باتیں کرتے رہے کہ اتنے میں ہمسائیوں سے ایک بچی آئی امی کو
      بلانے۔ انکے گھر پر کوئی مسئلہ تھا جسکے لیے امی کو فورا جانا پڑا۔ اور اب گھر میں
      رضوان اور میں اکیلے تھے۔ جیسے ہی امی گھر سے نکلیں، رضوان نے مجھے پکڑ
      کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میں بھی اسی
      موقع کی تلاش میں تھی لہذا میں نے بھی رضوان کا پورا ساتھ دیا اسکے ہونٹ چوسے
      زبان اپنے منہ میں لیکر چوسی۔ رضوان کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ میرے چوتڑ
      دبانے میں بھی مصروف تھا۔ جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیر کسنگ کرنے
      کے بعد رضوان نے میرے ممے پکڑ لیے اور انکو قمیص کے اوپر سے ہی دبانے لگا۔
      رضوان نے آج تک میرے ممے نہیں دیکھے تھے اور آج رضوان چاہتا تھا کو وہ میرے
      ممے دیکھ لے۔ میں بھی چاہتی تھی کہ رضوان کچھ آگے بڑھے، اسکے لن کا تو میں
      چوپا لگا ہی چکی تھی اب میں چاہتی تھی کے رضوان بھی میرے جسم کا مزہ لے اور
      میرے جسم کے ابھاروں سے کھیلے اور میرے جسم سے چھیڑ خانی کرے۔ رضوان نے
      آہستہ آہستہ میری قمیص میں اپنے ہاتھ داخل کیے اور پہلے کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرے
      اور پھر میری قمیص اوپر اٹھانے لگا، میں نے تھوڑی سی برائے نام مزاحمت کی مگر
      کچھ ہی دیر میں قمیص میرے بدن سے جدا ہو چکی تھی اور میں رضوان کے سامنے
      برا پہنے کھڑی تھی۔ رضوان کی آنکھوں میں چمک تھی میرے مموں کا ابھار دیکھ کر۔
      رضوان نے اپنے دونوں ہاتھ میرے مموں پر رکھ دیے اور برا کے اوپر سے ہی دبانے
      لگا اور ساتھ میں ایک بار پھر میرے ہونٹوں سے رس پینے لگا۔ کچھ دیر میرے ممے
      دبانے کے بعد رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ابھار پر رکھ دیے۔ اور میرے
      مموں کو چومنا شروع کر دیا۔
      میرے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی اور میں مزے کی وادیوں میں گم رضوان کو سر
      سے پکڑ کر مموں کی طرف دبا رہی تھی ۔ کچھ دیر رضوان نے ممے پر کسنگ کرنے
      کے بعد میرا برا اتارنا چاہا تو میں نے سختی سے منع کر دیا۔ کیونکہ میں ابھی رضوان
      کو مزید تھوڑا تڑپانا چاہتی تھی اور ایک دم سے اسکو سب کچھ دینے کے موڈ میں
      نہیں تھی۔ رضوان نے بہت کوشش کی کہ وہ میرا برا اتار کر میرے ممے دیکھ سکے
      مگر میں نے منع کر دیا۔ پھر رضوان نے میرا منہ دوسری طرف کیا اور میری کمر پر کسنگ شروع کر دی۔ کچھ دیر میری کمر چاٹنے کے بعد وہ میری گردن پر آگیا اور اپنے
      دونوں ہاتھ سامنے لاتے ہوئے میرے ممے بھی دبانے لگا۔ رضوان کا لن جو پینٹ سے
      نکلنے کے لیے بے چین تھا وہ میری گانڈ میں گھسا جا رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ
      پیچھے کیا اور اسکے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ لن کو چھوتے ہی میری چوت گیلی ہونے
      لگی اور لن حاصل کرنے کو تڑپنے لگی۔ ساتھ ہی رضوان نے بھی ظلم کی انتہا کرتے
      ہوئے ایک ہاتھ میری چوت پر رکھ دیا اور شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت رگڑنے
      لگا۔ اب رضوان کا ایک ہاتھ میرے مموں پر تھا، ایک ہاتھ سے وہ میری چوت رگڑ رہا
      تھا اور اپنے ہونٹوں سے میری گردن کو چوم رہا تھا۔ اور میرا ہاتھ رضوان کے لن پر
      تھا۔ میری تڑپ بڑھتی جا رہی تھی، میں ابھی رضوان کو اپنا مکمل جسم دینے کے موڈ
      میں نہیں تھی مگر چوت پر رضوان کے ہاتھ کی رگڑ اور میرے ہاتھ میں رضوان کا موٹا
      لن مجھے مجبور کر رہا تھا کہ میں آج اپنا سب کچھ رضوان کو سونپ دوں۔ مگر اچانک
      ہی باہر بیل بجی اور ہم دونوں کو ایک کرنٹ لگا اور ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ میں
      نے فورا اپنی قمیص اٹھائی اور باتھ روم میں بھاگی اور رضوان کو کہا کو وہ فورا
      دروازہ کھولے۔
      جب میں اپنی قمیص پہن کر واش روم سے نکلی تو کمرے میں امی موجود تھیں۔ اور
      رضوان بھی کمرے میں ہی بیٹھا تھا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد رضوان نے امی سے
      اجازت لی اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ اس طرح کی چھیڑ خانی کا جب بھی ہمیں موقع ملتا
      ہم ضرور کرتے۔ مگر دوبارہ رضوان کو کبھی میری قمیص اتارنے کا موقع نہیں مال۔ وہ
      اوپر اوپر سے ہی میرے ممے دباتا اور کبھی کبھی میری چوت پر اپنا ہاتھ پھیرتا، البتہ
      میں نے ایک بار پھر سے رضوان کے لن کا چوپا لگا کر اسکی منی نکالی۔
      اب اس واقعہ کو 2 مہینے کا ٹائم گزر چکا تھا۔ ایک دن رضوان نے مجھے بتایا کے
      انکے دوست ایک پارٹی ارینج کر رہے ہیں جس میں انکی گرل فرینڈز بھی انکے ساتھ
      ِھ یہ پارٹی جوائن کروں۔ میں نے حامی بھر
      ہونگی اور رضوان نے مجھے کہا کہ میں ب
      لی مگر مسئلہ ابو سے اجازت لینے کا تھا۔ اور یہ کام میں نے رضوان کے ذمے لگا دیا۔
      رضوان نے جانے ابو کو کیا کہانی سنائی کہ ابو نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔
      رضوان نے مجھے بتایا کہ یہ ہائی کالس پارٹی ہوگی لہذا میں کوئی سیکسی سا ڈریس
      پہن کر جاوں۔ میں نے اپنی ٹائٹ جینز نکال کر پہنی اسکے ساتھ فوم کے کپس واال
      وائرڈ برا پہن لیا اور اپر سے ایک ٹائٹ شرٹ پہن لی۔ میرے ٹائٹ ممے اس شرٹ میں
      پھنس کر رہ گئے اور بڑی مشکل سے سینے کے اوپر واال بٹن بند کیا۔ ساتھ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      سالی پورے گھر والی

      قسط 9
      ایک لمبی سی شال لی اور اپنے کندھوں پر ڈال لی جو میرے گھٹنوں تک جا رہی تھی۔
      یہ تیاری کر کے میں رضوان کے ساتھ ابو کی گاڑی میں پارٹی میں شریک ہونے چلی
      گئی۔ گھر سے تھوڑا دور جا کر میں نے شال اتار دی تو رضوان نے میرے مموں کی
      طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ فائزہ تم بہت سیکسی لگ رہی ہو آج تو مزہ آجائے گا۔ میں
      بھی مسکرا دی۔
      کچھ دیر میں ہم رضوان کے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑی کوٹھی تھی اور
      گھر کے باہر سے ہی پتہ لگتا تھا کہ کو ئی بہت امیر شخص ہوگا اس گھر کا مالک۔ گیٹ
      کھال تھا رضوان نے گاڑی اندر لے جا کر روکی تو رضوان کا دوست ویلکم کرنے کے
      لیے وہیں آگیا۔ اسنے مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا اوپر سے نیچے تک کا جائزہ لیکر
      مجھے تعریفی نظروں سے دیکھا اور پھر رضوان سے مال اور رضوان کو کہا کہ
      بھابھی تو آج قیامت ڈھا رہی ہیں۔ رضوان یہ بات سن کر قہقہ لگا کر ہنسا اور ہم اکٹھے
      اندر چلے گئے۔ اندر جا کر رضوان کا دوست جسکا نام علی تھا وہ ہمیں ایک بیسمینٹ
      میں لے گیا جہاں سے میوزک کی آواز آرہی تھی۔ جبیسے ہی ہم بیسمینٹ میں داخل
      ہوئے تو اند ر کا ماحول میرے لیے بالکل نیا تھا۔ یہ واقعی ایک ہائی کالس پارٹی تھی
      اور لڑکے اور لڑکیاں ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔ کمرے میں قریب 6 لڑکے اور 8
      لڑکیاں موجود تھیں۔ ہمیں مال کر کل 8 لڑکے اور 9 لڑکیاں ہوگئیں تھیں۔ ہمیں اندر آتا
      دیکھ کر سب لوگ ہمیں ملے۔ لڑکے رضوان سے گلے ملے اور میرے ساتھ سب نے
      ہاتھ مالیا۔ جب کہ لڑکیاں مجھ سے بھی گلے ملیں اور 3 لڑکیاں رضوان کے ساتھ بھی
      گلے ملیں جو مجھے بہت عجیب لگا۔ رضوان نے بھی بہت گرم جوشی سے انہیں گلے
      لگایا اور فورا ہی ڈانس دوبارہ شروع ہوگیا۔
      رضوان نے مجھے بھی ڈانس کرنے کی دعوت دی مگر میں جھجھک محسوس کر رہی
      تھی اس لیے رضوان کو کہا کہ وہ ڈانس کرے اور میں خود ایک سائیڈ پر جا کر بیٹھ
      گئی۔ اور رضوان کو ڈانس کرے دیکھنے لگی۔ رضوان دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے
      ساتھ محو ہو کر ڈانس کر رہا تھا۔ تمام لڑکیاں بہت بولڈ تھیں اور بال جھجھک مختلف
      لڑکوں کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھیں۔ مجھے اکیال بیٹھا دیکھ کر علی میرے
      پاس آیا اور مجھے ایک کولڈ ڈرنک آفر کی جو میں نے لے لی۔ اور علی میرے ساتھ ہی
      بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے میرے سے پوچھا کہ میں ڈانس کیوں نہیں
      کر رہی تو میں نے بتا یا کہ میں نے کبھی ڈانس کیا ہی نہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔
      اس پر علی قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال ہم کونسا ایکسپرٹ ڈانسر ہیں۔ بس میوزک کے
      ساتھ ساتھ جسم ہی تو ہالنا ہوتا ہے اور خود بخود ڈانس ہوتا رہتا ہے۔ علی نے مجھے اپنے ساتھ ڈانس کرنے کو کہا مگر میں نے معذرت کر لی۔ جس پر علی نے برا منائے
      بغیر میرے سے باتیں جار رکھیں۔ میری نظریں رضوان پر تھیں۔ رضوان جن لڑکیوں کے
      ساتھ ڈانس کر رہا تھا وہ بہت بولڈ اور سیکسی تھیں۔ رضوان بیچ بیچ میں ان لڑکیوں
      کے چوتڑوں پر بھی ہاتھ پھیرتا اور کبھی کبھی وہ لڑکیاں اپنی گانڈ پیچھے کو نکال کر
      ِھی
      رضوان کے ساتھ ٹچ کرتیں جو تقریبا رضوان کے لن پر ہی لگتی ہوگی۔ باقی لڑکے ب
      اسی طرح کی بیہودہ حرکتیں کر رہے تھے۔ علی نے نوٹ کر لیا کہ میں رضوان کو دیکھ
      رہی ہوں تو اس نے کہا کیا آپکو برا لگ رہا ہے رضوان کا دوسری لڑکیوں کے ساتھ
      ڈانس کرنا ؟؟ تو میں نے کہا نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے عادت نہیں ۔ تو
      اس پر علی نے کہا کہ میں ہمت کروں اور ڈانس شروع کروں۔ اسنے کھڑے ہوکر اپنا
      ہاتھ میری طرف بڑھایا، میں نے کچھ سوچتے ہوئے ڈرنک سائیڈ پر رکھی اور علی کا
      ہاتھ تھام کر ڈانس فلور کی طرف بڑھنے لگی، اب میں بھی ذرا سیکسی انداز میں اپنی
      گانڈ ہلاتے ہوئے چل رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مجھے علی کے ساتھ دیکھ کر رضوان
      ان لڑکیوں کو چھوڑ کر میری طرف بڑھے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ مجھے علی
      کے ساتھ آتا دیکھ کر رضوان نے خوشی سے چیخ ماری اور مجھے ویلکم کہا اور اپنا
      ڈانس جاری رکھا۔
      میں نے بھی پھر چارو ناچار علی کے ساتھ ہی ڈانس کرنا بہتر سمجھا۔ علی نے مجھے
      کہا کہ زیادہ مشکل نہیں بس میوزک کے ساتھ ساتھ جیسے آپکو سمجھ لگے اپنا جسم
      ہالنا ہے۔ میں نے اونچی ایڑی والی ہیل پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میں تھوڑا ڈر
      بھی رہی تھی، مگر باقی لڑکیوں کی طرف دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے
      میوزک کے ساتھ ساتھ ہلکا پھلکا ڈانس شروع کیا۔ علی نے میرا ہاتھ ابھی تک پکڑا ہوا
      تھا اور وہ بھی میرے ساتھ ہلکا ہکا ڈانس کر رہا تھا۔ وہاں تمام موجود لڑکیاں اپنی گانڈ
      ہال ہال کر ہی ڈانس کر رہی تھی اور یہی انکے نزدیک ڈانس تھا۔ میں نے بھی یہی کام
      جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد جب میری جھجھک ختم ہوئی تو میں نے زیادہ اعتماد کےساتھ
      ڈانس کرنا شروع کیا، گانڈ ہلانے کے ساتھ ساتھ میں ہاتھوں اور ٹانگوں کا استعمال بھی
      کر رہی تھی ۔ میرا اعتماد بحال ہوتے دیکھ کر علی نے اپنے ہاتھ میری گانڈ پر رکھ دیے
      ، پہلے تو میں اسکے ہاتھ ہٹانے لگی لیکن پھر میں نے سوچا جب رضوان یہ سب کچھ
      دوسری لڑکیوں کے ساتھ کر رہا ہے تو میں کیوں نا انجوائے کروں۔ لہذا میں نے علی
      کو روکنے کی بجائے اپنی گانڈ کو اور بھی ہالنا شروع کر دیا۔ میرا یہ رسپانس دیکھ کر
      علی کو اور حوصلہ ہوا اور اب اسنے اپنے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ میری گانڈ پر رکھ
      دیے اور اپنے ہاتھوں سے میری گانڈ کو اپنی مرضی سے ہلانے لگا۔ اب میں یہ سب انجوائے کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد رضوان کا ایک اور دوست میرے پاس آیا اور میرا
      ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف موڑ لیا اور علی کسی دوسری لڑکی کی طرف چال گیا۔
      مجھے اس لڑکے کا نام تو نہیں معلوم تھا مگر میں نے ڈانس جاری رکھا اور یہ لڑکا
      مجھ سے علی کے مقابلے میں زیادہ فری تھا۔ اس نے فورا ہی اپنا بازو میری کمر کے
      گرد رکھا اور مجھے اپنے قریب کر کے ڈانس کرنے لگا۔ اب میرا ایک ہاتھ اس لڑکے
      نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور میرا دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر تھا جب کہ اسکا
      دوسرا ہاتھ میری کمر پر اور نظریں میرے مموں پر تھیں۔ کچھ دیر ڈانس کرنے کے بعد
      اسکا ہاتھ بھی میری گانڈ پر چال گیا اور میری گانڈ پکڑ کر اسنے مجھے اپنے ساتھ اور
      بھی مضبوطی سے لگا لیا۔ مجھے اسکے لن کا ابھار محسوس ہوا جو میرے ممے کا
      ابھار دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ پھر اسنے میرا منہ دوسری طرف کیا اور اب میری کمر
      اس لڑکے کی طرف تھی اسنے اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ میرے
      کولہے پر رکھ کر انہیں ہال رہا تھا۔ اسکی پوری کوشش تھی کے میری گانڈ کو اپنے لن
      پر پھیرے جیسے باقی لڑکیاں کر رہی تھی۔ تھوڑی سی جھجھک کے بعد میں نے بھی
      اپنی گانڈ ایک بار اسکے لن پر پھیری۔ اس ڈانس کے دوران میری شرٹ کا سینے کے
      اوپر واال بٹن بھی کھل گیا تھا جس کی وجہ سے میرے مموں کا ابھار اور کلیوج بہت
      واضح نظر آرہے تھے اور سرخ رنگ کا برا بھی تھوڑا سا نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر ڈانس
      کرنے کے بعد میوزک بند ہوگیا اور ڈانس ختم کر دیا سب نے۔
      اب ایک سائیڈ پر کھانا لگنے لگا۔ رضوان بھی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ انجوائے کر
      رہی ہو پارٹی تو میں نے بتایا کہ ہاں مزہ آرہا ہے۔ اسنے میرا کھال ہوا بٹن دیکھا اور
      بوال واہ کیا جلوے دکھا رہی ہو۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بس ڈانس
      کرتے ہوئے کھل گیا اور بند کرنے لگی مگر رضوان نے منع کر دیا کہ کھال رہنے دو
      ِھی پھر بٹن بند نہیں کیا۔ اب کھانا لگ چکا تھا اور سب
      سیکسی لگ رہی ہو۔ ۔ میں نے ب
      لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ کھانا کھانے کے دوران ایک اور لڑکا بھی
      بیسمینٹ میں آگیا اور ہم سب کے ساتھ گرمجوشی سے مال۔ اب تمام کپل اکٹھے بیٹھے
      کھانا کھا رہے تھے۔ ہکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد گیم کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
      Dare or Truth گیم کا نام تھا
      اس گیم میں سب لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ایک لڑکی جو زیادہ
      ہی بولڈ تھی وہ تو اپنے بوائے فرینڈ کی گود میں بیٹھی تھی، رضوان نے مجھے بھی اشارہ کیا تو میں ب
      رضوان بہت خوش ہوا۔ سب سے پہلے ایک لڑکی سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سیلیکٹ کرے
      گی؟ ٹرتھ یا پھر ڈئیر۔ اس نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے سوال پوچھا گیاکہ کیا وہ
      اپنے بوائے فرینڈ سے حقیقی پیار کرتی ہے یا صرف ٹائم پاس۔ تو اسنے ہنستے ہوئے
      اپنے بوائے فرینڈ کی ایک فرینچ کس کی اور کہا کہ ٹائم پاس۔ حقیقی پیار ابھی اسکو
      نہیں ہوا۔
      پھر دوسی لڑکی نے ڈئیر سیلیکٹ کیا تو اسکو کہا گیا کہ وہ شیلہ کی جوانی پر ڈانس کر
      کے دکھائے۔ وہ فورا ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے لیے گانا لگایا گیا۔ جس پر اس نے
      بالکل کترینا کیف کی طرح ڈانس کیا اور سب نے تالیان بجا کر اسکو داد دی۔
      پھر ایک لڑکی نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ اسنے آج تک کتنے لڑکوں
      کے ساتھ سیکس کیا ہے؟؟؟ تو اسنے بھی اپنے بوائے فرینڈ کی طرف دیکھا اور بڑے
      فخر سے بتا دیا کہ 3 لڑکوں کے ساتھ وہ سیکس کر چکی ہے جس پر تمام لڑکوں نے
      ہوٹنگ کی اور کہا ہمیں بھی موقع دو اوروہ لڑکی بھی سب کو انگوٹھا دکھا کر انکار
      کرتی رہی۔
      اسی طرح اور لڑکیوں کو بھی ڈئیر اور ٹرتھ دیے گئے۔ میری باری آئی تو میں نے ڈئیر
      سیلیکٹ کیا۔ جیسے ہی میں نے ڈئیر کا کہا تو علی فورا بوال کے رضوان کے علاؤہ یہاں
      موجود کسی بھی لڑکے کی گود میں بیٹھ کر اسکو پورے 2 منٹ تک فرنچ کس کرو۔
      میں یہ سن کر فورا بول اٹھی کہ یہ کیسا ڈئیر ہے مگر سب نے کہا کہ آپ انکار نہیں کر
      سکتی ہماری مرضی ہم جو مرضی کریں۔ میں نے رضوان کی طرف شکایتی نظروں سے
      دیکھا کہ انہیں منع کرے مگر رضوان نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ میں کیا کر
      سکتا ہوں تم نے ہی ڈئیر کرنے کا کہا ہے تو اب انکی مرضی یہ جو مرضی کریں۔ میں
      کچھ دیر تو خاموشی سے کھڑی رہی مگر پھر سوچا کہ جب رضوان دوسری لڑکیوں کو
      کس کر رہا تھا تو میں کیوں نا کسی اور لڑکے کو کس کروں؟ اور ویسے بھی جب
      رضوان کو اعتراض نہیں تو پھر کیا مسئلہ ہے۔ میں نے تمام لڑکوں کی طرف دیکھا سب
      میری طرف فرمائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میری گود میں آکر بیٹھو۔ میں نے
      پہلے علی کی گود میں بیٹھنے کا سوچا مگر پھر جس لڑکے کے ساتھ بعد میں ڈانس
      کیا تھا اسکی طرف بڑھنے لگی اور اسکی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ ایک سٹول نما
      چئیر پر بیٹھا تھا میں اسکے پاس گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر اسکی گود میں بیٹھ
      گئی۔ اسکو سر سے پکڑ کر اسکے ہونٹ اپنے قریب کیے اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انکو چوسنے لگی۔ اسنے بھی بھرپور رسپانس دیا اور وہ بھی میرے
      ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ چند ہی لمحوں نے اسکے لن نے بھی رسپانس دینا شروع کر
      دیا اور مجھے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہونے لگا مگر میں نے کسنگ
      جاری رکھی۔ 2 منٹ کی کسنگ کے دوران باقی کے لوگ مسلسل تالیاں بجاتے رہے اور
      شور کرتے رہےاور 2 منٹ کی کسنگ سے میری چوت بھی گیلی ہوچکی تھی۔ اور میں
      اپنی زبان بھی اس لڑکے کے منہ میں ڈال چکی تھی جسکو وہ بہت مزے سے چوس رہا
      تھا۔ 2 منٹ پورے ہوتے ہی میوزک سٹارٹ ہوگیا اور سب لوگ دوبارہ سے ڈانس فلور
      پر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ ہم دونوں بھی اٹھے اور ڈانس فلور پر پہنچ کر ڈانس کرنے
      لگے۔ ہم دونوں کے جسم کسنگ کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی گرم تھے اس لیے
      اب میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بال جھجھک بولڈ ڈانس کر رہی تھی۔ بار بار میری
      گانڈ اسکے لن سے ٹچ ہورہی تھی جسکو ہم دونوں ہی انجوائے کر رہے تھے۔ موقع
      ِھی رکھ دیا جس کو اسنے
      دیکھ کر میں نے چند لمحوں کے لیے اسکے لن پر اپنا ہاتھ ب
      بہت انجوائے کیا۔ پھر میں علی کے پاس چلی گئی اور اسکے ساتھ ڈانس کرنے لگی۔
      میں نے بھی مختلف لڑکوں کے ساتھ ڈانس کیا اور انکے لن اپنی گانڈ پر محسوس
      کیے۔
      کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا نہ رضوان کو میری فکر تھی اور نہ مجھے رضوان کی
      فکر۔ لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو مجھے گھر کا بھی خیال آیا دیر ہورہی تھی ، میں
      رضوان کے پاس گئی تو اسنے میری گانڈ پر ہاتھ رکھ کر ویسے ہی ڈانس کرنا شروع
      کر دیا جیسے وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کے گھر سے دیر
      ہورہی ہے چلو چلیں۔ اس نے اسرار کیا کہ ابھی کچھ دیر اور رکو ابھی تو پارٹی لیٹ
      نائٹ چلے گی مگر میں نے بھی واپسی پر اصرار کیا تو چارو ناچار رضوان کو چلنا پڑا۔
      وہ سب دوستوں سے مال اور انسے اجازت لیکر مجھے لیکر بیسمینٹ سے نکل آیا۔
      جیسے ہی بیسمینٹ سے نکلے رضوان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا
      اور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ میں بھی اپنی گانڈ پر مختلف لن محسوس کرکے اس وقت
      گرم تھی میں نے بھی کسنگ میں ساتھ دیا، کچھ ہی دیر بعد میرا کھال ہوا بٹن کھول کر
      رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ابھاروں پر رکھ دیے جو برا سے نظر آرہے
      تھے اور ساتھ ہی میرے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا اور بوال کہ تم
      بہت سیکسی ہو آج تم نے تمام لڑکوں کے لن کھڑے کیے ہیں۔ مجھے رضوان کے منہ
      سے یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ میرے جسم کے ابھار کسی بھی لڑکے کا لن کھڑا کر
      سکتے ہیں۔ رضوان نے میری شرٹ کے بٹن کھول کر میرا برا بھی اتارنا چاہا مگر یہ مناسب جگہ نہیں تھی اور دیر بھی کافی ہورہی تھی تو میں نے رضوان کو منع کر دیا
      اور گھر چلنے کو کہا۔ کچھ دیر مزید میرے مموں پر کسنگ کرنے کے بعد رضوان کا
      جنون کم ہوا تو وہ مجھے لیکر کار تک گیا۔ ہم دونوں کار میں بیٹَھے اور گھر کی طرف
      جانے لگے۔ راستے میں میں نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور دوبارہ سے شال اپنے
      اوپر لے لی۔ راستے میں رضوان نے مجھ سے پوچھا کہ ندیم کی گود میں بیٹھ کر
      کسنگ کرنے کا مزہ آیا؟ تو مجھے پتا لگا کہ اس لڑکے کا نام ندیم تھا۔ میں نے کہا کہ
      تمہیں شرم نہیں آئی تمہیں میرا ساتھ دینا چاہیے تھا اور منع کرتے ان لوگوں کو تو
      رضوان ہنس پڑا اور بوال کہ یار میرے تمام دوست ہائی کلاس فیمیلیز سے ہیں تو انکے
      لیے یہ معمولی بات ہے۔ وہاں منع کرنا عجیب لگتا سب مجھے کہتے کہ تم بھی ہماری
      گرل فرینڈز کو کس کرتے ہو تو تمہاری گرل فرینڈ یا منگیتر ہمیں کس کیوں نہیں کر
      سکتی۔ تو میں نے رضوان کو کہا کہ مزہ تو آیا مگر جو مزہ تمہاری کس میں اور
      تمہارے ہونٹ چوسنے میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میری یہ بات سن کر رضوان بڑا خوش
      ہوا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کسنگ نے میری چوت گیلی کر دی تھی۔
      رضوان نے مجھے گھر چھوڑا اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس چال گیا۔ دن گزرتے
      گئے اور رضوان گاہے بگاہے گھر آتا رہتا۔ اسکو جب بھی موقع ملتا وہ مجھے پکڑ لیتا
      اور کسنگ شروع کر دیتا، میرے ممے دباتا، شلوار میں ہاتھ بھی ڈالتا اور چوتڑوں کو
      بھی دباتا۔ مگر ابھی تک میں نے اسکو اپنے ممے نہیں دکھائے تھے اور نہ ہی چوت
      اور گانڈ دکھائی تھی۔ البتہ جیسے ہی تھوڑا سا بھی موقع ملتا وہ اپنا لن نکال کر میرے
      سامنے کر دیتا اور میں اسکو قلفی سمجھ کر منہ میں لیتی اور دل بھر کر اسکے چوپے
      لگاتی۔ اسکے ٹٹوں سے کھیلتی انکو منہ میں لیتی اور چوپے لگا لگا کر اسکے لن کا
      جوس نکال دیتی۔
      اب گرمیوں کے دن تھے اور میرا کالج بھی بند تھا تو دوستوں سے ملنا جلنا بھی کم
      ہوگیا تھا۔ سارا دن گھر میں بیٹھی بور ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن جب رضوان ہمارے گھر
      آیا ہوا تھا تو میرے کالج کی دوست سائرہ بھی گھر آگئی۔ سائرہ کا تعلق بہت امیر
      گھرانے سے تھا۔ وہ ہمیشہ گاڑی میں کالج آتی تھی کالے رنگ کی مرسڈیز چمکتی ہوئی
      جب کالج گیٹ کے سامنے رکتی تو ڈرائیور فوری سے پہلے اترتا اور سائرہ کے لیے
      دروازہ کھولتا سائرہ کسی مہارانی کی طرح گاڑی سے نکلتی اور ڈرائیور گاڑی کا
      دروازہ بند کر کے گاڑی واپس لے جاتا اور جب سائرہ نے واپس جانا ہوتا تو وہ ڈرائیور
      کو کال کرتی اور ڈرائیور جھٹ سے گاڑی لے کر کالج کے گیٹ کے سامنے پہنچ جاتا۔
      سائرہ کافی حد تک مغرور لڑکی تھی اور لڑکوں سے فلرٹ کرنا اسکا شوق تھا۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      سالی پورے گھر والی


      قسط 10

      کسی بھی لڑکے کو وہ ضرورت سے زیادہ فری نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ یہ چاہتی تھی
      کہ وہ ہر لڑکے کو اپنی مرضی سے ٹریٹ کرے۔ جب سائرہ چاہے اسکے ساتھ فلرٹ
      کرے اور جب چاہے اسکو کسی جوتی کی طرح اتار کر سائڈ پر پھینک دے۔ وہ اپنے
      حسن کے جلوے دکھا کر لڑکوں کو گرماتی تھی مگر کبھی اپنا جسم کسی لڑکے کے
      حوالے نہیں کیا تھا۔ کالج میں اسکی دوستی میرے ساتھ بھی اتفاق سے ہوگئی کالج کا
      پہال دن تھا اور وہ کالس روم میں آئی تو اسکو میرے ساتھ والی سیٹ ہی خالی ملی۔ اور
      اکثر وہ اسائنمنٹ بھی میری ہی کاپی کرتی تھی اس لیے اس کی میرے سے دوستی
      ہوگئی۔
      سائرہ پہلے بھی بہت بار ہمارے گھر آچکی تھی مگر یہ اسکا بڑا پن تھا کہ اسنے کبھی
      گھر آتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی اور کوئی نخرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن میں
      اسکے گھر کبھی نہیں گئی تھی۔ اسکا ڈرائیور اسے چھوڑ کر واپس چال گیا تھا۔ سائرہ
      آتے ہی مجھ سے گلے ملی پھر امی سے ملی اور رضوان پر نظر پڑی تو اسنے میری
      طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ یہ کون ہے تو میں نے رضوان کا تعارف کروایا۔
      سائرہ رضوان سے بھی بڑی زندہ دلی سے ملی اور آگے بڑھ کر ہاتھ مالیا۔ میں سائرہ
      کے لیے چائے بنا کر الئی اور ساتھ میں نمکو اور بسکٹس وغیرہ رکھے۔ دوپہر کا ٹائم
      تھا تو سائرہ نے بتایا کہ اسکی بھابھی بھی آئی ہوئی ہے اور اس نے مجھے دعوت دی
      کہ میں اسکے گھر چلوں اسکی بھابھی سے بھی ملوں۔ میں تو پہلے ہی اسکا گھر
      دیکھنا چاہتی تھی اس نے آج تک کبھی دعوت ہی نہیں دی تھی۔ میں نے فورا حامی
      بھری اور امی سے اجازت مانگی تو امی نے کہا کہ اپنے ابو سے فون کرکے پتا کر لو۔
      یہ کام میں نے سائرہ کو کہا، سائرہ نے میرے موبائل سے ابو کو فون کیا اور اپنی
      خواہش کا اظہار کیا۔ ابو پہلے سائرہ سے بہت بار مل چکے تھے اور جانتے تھے لہذا
      ابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی پوچھا کہ جاو گی کیسے اور
      فائزہ کی واپسی کیسے ہوگی؟ تو سائرہ نے کہا کے میں ڈرائیور کو بلوا لیتی ہوں اور
      اسی کے ساتھ فائزہ واپس آجائے گی یا پھر رضوان بھائی بھی گھر پر ہیں تو رضوان
      بھائی ہمیں لے جائیں اور واپسی فائزہ کو لے بھی آئیں گے۔ ابو نے یہ بات مان لی
      کیونکہ ابو نہیں چاہتے تھے کہ میں کسی بھی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی واپس آوں ۔ ابو
      نے رضوان کو فون کیا اور کہا کہ میرے آفس آکر اپنی موٹر سائکل مجھے دے جاو اور
      میری گاڑی لے جاو۔ ابو کا آفس گھر سے محض 2 کلومیٹر ہی دور تھا۔ رضوان فورا
      ہی آفس سے گاڑی لے آئے اور ہم 30 منٹ بعد سائرہ کے گھر کے سامنے تھے۔
      سائر کا گھر کیا تھا بس ایک محل تھا۔ شہر سے باہر ایک بڑی حویلی تھی جسکا اونچا گیٹ اور گیٹ پر 2 گن مین کھڑے تھے اور اندر داخل ہوئے تو ایک بڑی سی روڈ تھی
      جو کم سے کم 300 میٹر لمبی تھی اور اسکے ارد گرد بڑا لان تھا جس میں درخت اور
      پودے لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بادشاہ کے گھر آگئے ہوں۔ ایک
      سائیڈ پر ایک بڑا سا گیراج تھا جس میں کوئی 5 کے قریب لمبی لمبی کاریں اور لینڈ
      کروزر کھڑی تھیں اور انکے سامنے ہماری گاڑی کوئی کھلونا لگ رہی تھی۔ رضوان
      بھی یہ شان و شوکت دیکھ کر ایک دم دنگ رہ گیا تھا۔ اور میری بھی آنکھیں کھلی کی
      کھلی رہ گئیں تھیں۔ ہم نے ایک سائڈ پر گاڑی کھڑی کی تو سائرہ ہمیں لے کر اندر چلی
      گئی۔ یہ ایک بڑا ہال نما کمرہ تھا جس میں صوفے رکھے تھے اور ایک سائڈ پر ڈائنگ
      ٹیبل رکھا تھا۔ ہمارے اندر جاتے ہی ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص دوڑتا ہوا آِیا اور
      سائرہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور حکم کا انتظار کرنے لگا۔ دور سے آتا ہوا
      تہ مجھے یہی لگا کہ یہ سائرہ کا بھائی ہوگا لیکن جس طرح سے وہ کھڑا تھا وہ ملازم
      تھا۔ سائرہ نے اسکو کہا کہ پہلے رضوان صاحب اور فائزہ میم کے لیے پانی لیکر آو
      اسکے بعد انکے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرواو اور پانی میرے کمرے میں ہی لے
      آنا۔ وہ ج بی بی جی کہتا ہوا الٹے قدموں واپس چال گیا۔
      سائرہ نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا کہا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ اسکا
      کمرہ بھی بہت اچھے انداز میں دیکوریٹد تھا۔ کسی ماہر انٹیریر ڈیکوریٹر سے کمرہ
      سیٹ کروایا گیا تھا۔ ایک سائِد پر بڑے سے شیشے والی کھڑکی تھی جسکے باہر نیچے
      ایک سوئمنگ پول نظر آرہا تھا۔ جس میں صاف شفاف نیال پانی نظر آرہا تھا۔ سائرہ نے
      ہمیں یہیں بیٹھنے کو کہا اور بولی میں بھابھی کو بالا لوں۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئی
      اور کچھ ہی منٹ بعد دروازے پر ناک ہوئی اور وہی ملازم ٹرے میں پانی لے کر آن کھڑا
      ہوا۔ اسنے ٹرے پہلے رضوان کے آگے کی اور پھر میرے آگے کی۔ اور خالی ٹرے لیکر
      مؤدب انداز میں گلاس خالی ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔ ہم نے پانی پی کر خالی گلاس
      واپس رکھے اور وہ ایسے ہی واپس چال گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ کمرے میں داخل
      ہوئی تو اسکے ساتھ ایک اور لڑکی تھی جو سائرہ کی بھابھی تھی۔ سائرہ نے اس سے
      میرا اور رضوان کا تعارف کروایا تو وہ بڑی گرمجوشی کے ساتھ مجھ سے گلے ملی
      اور رضوان سے بھی ہاتھ مالیا۔ اور اس نے مجھے بتا یا کہ اسنے میرے بارے میں
      بہت سنا ہے سائرہ سے۔ سائرہ کی ٹوٹل 3 یا 4 ہی دوست تھیں ملتان میں جن میں سے
      ایک میں بھی تھی لہذا اس نے میرا تذکرہ اپنی بھابھی سے کیا تھا۔
      اب سائرہ نے اپنی بھابھی کا بھی تعارف کروایا، اسکا نام سمیرا تھا۔ جی ہاں وہی سمیرا
      جسکا ذکر میں نے اپنی دوسری کہانی "تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے" میں کیا تھا۔ سائرہ نے بتایا کہ سمیرا کا تعلق اسالم آباد سے ہے اور یہ اپنی چھٹیاں گزارنے ہمارے
      ہاں آئی ہے۔ گھر میں اس وقت ہم 4 لوگوں کے علاؤہ صرف ملازم تھے۔ کچھ دیر ہم
      آپس میں باتیں کرتے رہے۔ بہت خوشگوار ماحول میں ہم نے وقت گزارا، رضوان کو
      ِھی بوریت کا احساس نہیں ہوا کیونکہ سمیرا اور سائرہ دونوں ہی بلا جھجک رضوان
      سے بات کر رہی تھیں اور ہم چاروں ایسے خوش گپیوں میں مصروف تھے جیسے سب
      ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہوں۔ سمیرا خاص طور پر بہت اچھے اخلاق کی
      مالک تھی اور رکھ رکھاو والی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ملازم نے آکر اطلاع دی کہ
      کھانا تیار ہے تو ہم چاروں نے نیچے جا کر کھانا کھایا۔ کھانا بہت ہی پر تکلف تھا اور
      بہت اقسام کی ڈشز میز پر موجود تھیں۔
      کھانا کھانے کے بعد سائرہ نے مجھے کہا کہ چلو سوئمنگ کرتے ہیں۔ میں سوئمنگ
      کرنا نہیں جانتی تھی تو سائرہ نے کہا کوئی بات نہیں ہمارا پول گہرا نہیں ہے تم نہیں
      ڈوبتی اس میں۔ گرمی بہت ہے تو سوئمنگ پول میں نہا کر تھوڑا فریش ہوجائیں گے۔
      میں نے حامی بھر لی۔ سمیرا بھی تیا ر تھی۔ مگر مسئلہ رضوان کا تھا کہ وہ اکیال تھا۔
      سائرہ نے رضوان کو کہا کہ اب کچھ دیر آپکو اکیلے بیٹھ کر بور ہونا پڑے گا۔ یا تو
      میرے بھائی کے کمرے میں جا کر کوئی مووی دیکھ لیں یا نیچے لان میں چہل قدمی
      کریں ۔ سائرہ کا بھائی گھر پر موجود نہیں تھا ابو اسکے ویسے ہی گھر پر نہیں ہوتے
      تھے اور امی بھی گاوں گئی ہوئیں تھیں۔ رضوان نے کہا کہ آپ بے فکر ہوکر سوئمنگ
      کرو میں لان میں چہل قدمی کر لوں گا۔
      سائرہ نے ملازم کو بال کر کہا کہ رضوان صاحب کو لان تک لے جاو اور ہم تینوں
      سوئمنگ پول کی طرف چلی گئیں۔ سوئمنگ پول کے چاروں سائڈ پر بڑی چار دیواری
      ِھی کم و بیش 2 کنال کی ہوگی۔ اور بیچ میں ایک سوئمنگ پول
      تھی۔ یہ چار دیواری ب
      تھا۔ یہ اصل میں سوئمنگ پول اور ٹیوب ویل کا مکسچر تھا۔ اس میں سوئمنگ پول کی
      طرح پانی کھڑا نہیں تھا بلکہ مسلسل ایک سائڈ سے پانی آرہا تھا اور دوسری سائیڈ
      سے پانی خارج ہو رہاتھا۔ سائرہ نے بتایا کہ یہ سارہ دن چلتا ہے اور پول میں پانی تازہ
      رہتا ہے۔ اور جو پانی خارج ہورہا ہے وہ حویلی کی پچھلی سائڈ پر انکی زمینوں کو
      سیراب کرتا ہے۔ پول کے اندر نیلے رنگ کی ٹائلز لگی ہوئیں تھیں۔ اس مٹی نام کی
      کوئی چیز نہیں تھی۔ پانی بالکل شفاف تھا اور نیلی ٹائل کی وجہ سے اور بھی نیال لگ
      رہا تھا۔ پانی کی گہرائی تقریبا 5 فٹ سے کچھ اوپر تھی اور یہ اوپن ائیر میں تھا۔ یعنی
      چار دیواری تو تھی مگر چھت نہیں تھی۔ اور آس پاس دور دور تک کوئی گھر بھی نہیں
      تھا۔ کیونکہ انکی یہ حویلی شہر سے باہر تھی اور اور آس پاس کی ساری زمین انکی اپنی تھی۔
      پول پر پہنچتے ہیں سائرہ اور سمیرا نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ دونوں نے
      اپنی قمیص اتاری اور پھر شلوار بھی اتار دی۔ اب دونوں محض برا اور پینٹی میں تھیں۔
      دونوں نے اپنے کپڑے ساتھ پڑے ہوئے بینچ پر رکھے جس پر پہلے سے ٹاول بھی
      رکھے ہوئے تھے۔ سائرہ کو میں نے پہلی بار بغیر کپڑوں کے دیکھا تھا۔ وہ ایک
      سمارٹ اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اسکا رنگ گورا تھا اور چکنا جسم تھا۔ جسم پر بالوں
      کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اسکے ممے میرے مموں جتنے ہی تھی یعنی کہ 34 سائز
      تھے مگر گانڈ میرے سے چھوٹی تھی۔ سائرہ کی گانڈ 32 کی تھی اور پیٹ بھی نہ
      ہونے کے برابر تھا۔ اسکے مقابلے میں سمیرا کے ممے ہم دونوں سے بڑے تھے۔ 36
      سائز کے مموں پر بلیک برا میں سمیرا کا دودھیا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ گانڈ بھی 36
      ِھی۔ میں نے ابھی تک کپڑے نہیں اتارے
      سائز کی تھی اور گوشت سے بھری ہوئی ت
      تھے اور حیرانگی سے ان دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے ایسے اپنی طرف
      دیکھتے ہوئے سمیرا بولی کیا ہوا پہلے کبھی کسی ننگی لڑکی کو نہیں دیکھا؟ اور تم تو
      ایسے دیکھ رہی ہو جیسے کوئی لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو ننگا دیکھ لے۔ میں اس بات پر
      ہنس پڑی اور کہا نہیں ایسی بات نہیں، تم دونوں سوئمنگ کرو میں باہر ہی بیٹھوں گی۔
      میری یہ بات سن کر دونوں آگے بڑھیں اور کہا ایسے نہیں اتارتی کپڑے تو ہم خود اتار
      دیتے ہیں تمہارے کپڑے۔ اور انہوں نے میری قمیص اتارنی شروع کی میں نے ہلکا سا
      روکا مگر سائرہ میری قمیص اتار چکی تھی اور سمیرا میری شلوار اتار رہی تھی۔ اب ہم
      تینوں کے کسے ہوئے ممے برا میں تھے اور نیچے سے ہم تینوں نے پینٹی پہن رکھی
      تھی۔ سمیرا نے میرے مموں پر ایک چماٹ ماری اور بولی کے بڑے ٹائٹ ممے ہیں
      تیرے تو۔ اور یہ کہ کر سوئمنگ پول میں جمپ لگا کر کسی مچھلی کی طرح تیرنے لگی۔
      اسکے بعد سائرہ نے بھی چھلانگ لگائی اور مجھے اپنے پیچھے پانی میں آنے کو کہا۔
      میں ایک سائیڈ پر گئی جہاں سیڑھیاں نظر آرہی تھی جو پول کے اندر اتر رہی تھیں، میں
      ان سیڑھیوں کی مدد سے ڈرتے ڈرتے پول میں اتری۔ پانی میرے مموں سے اوپر
      کندھوں تک تھا اور میرا محض سر ہی پانی سے باہر تھا۔ پانی چونکہ بہ رہا تھا اور
      ٹیوب ویل سے تازہ پانی آرہا تھا اس لیے بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ وہ دونوں پول کا ایک چکر
      لگا کر میرے پاس آئیں اور مجھے بھی تیرنے کو کہا، میں نے کہا کہ مجھے تیرنا نہیں
      آتا تو انہوں نے مجھے ایک سائڈ سے پکڑا اور پانی میں آگے لے گئیں اور کہا کہ
      کوشش کرو تیراکی کی دونوں نے مجھے پیٹ سے سہارا دیا اور کہا کہ ہاتھ اور مار کر پانی پر تیرنے کی کوشش کروں، میں نے کوشش کی مگر سیدھا پانی میں غوطہ لگ
      گیا۔ سمیرا نے مجھے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھڑا کیا تو میں نے توبہ کی کہ مجھے نہیں
      تیرنا، میں ایسے ہی کھڑی ہوں تم لوگ تیراکی کرو۔ میں ایسے ہی انجوائے کر لوں گی۔
      اس پر سائرہ پول سے باہر نکلی اور ایک کونے میں پڑی ٹیوب اٹھا لائی جو انسان کو
      ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ سائرہ نے وہ ٹیوب مجھے دی اور کہا اسکی مدد سے تیراکی
      کرو۔ میں نے وہ ٹیوب اپنی کمر کے گرد ڈال لی اور اب پانی پر با آسانی تیرنے لگی۔
      کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ شروع میں تو پانی میرے کندھوں تک
      تھا مگر تھوڑا آگے جا کر پول کی گہرائی زیادہ تھی جس کا مجھے سائرہ نے بتا دیا
      تھا۔
      کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ میرے لیے یہ پہلا ایکسپیرینس تھا
      اور کچھ دیر کی تیراکی کے بعد میں نے کم گہرائی والے پانی میں آکر ٹیوب کے بغیر
      بھی تیراکی کی کوشش کی تو کسی حد تک کامیابی ہوئی مگر محض کچھ سیکنڈ کے
      لیے ہی میں پانی میں تیر سکی اسکے بعد پھر سے غوطہ لگ گیا تو میں نے دوبارہ
      ٹیوب پکڑ کر تیراکی جاری رکھی۔ اب سائرہ میرے پاس آئی اور میرے جسم سے چھیڑ
      خانی کرنے لگی۔ اس نے میرے مموں پر ہاتھ رکھا اور بولی کے بہت پیارے ممے ہیں
      تمہارے اور انکی گولائی تو رضوان بھائی کو پاگل کر دے گی۔ پھر میری گانڈ پر ہاتھ
      رکھ کر بولی کہ یہ بھی بہت زبردست ہے میں ہنسی اور کہا تجھے کیوں فکر ہورہی ہے
      میری، اپنی بھابھی کے ممے اور گانڈ دیکھ اور سوچ تیرے بھائی کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
      یہ بات سن کر سائرہ زور سے ہنسی جبکہ سمیرا کے گال شرم سے سرخ ہوگئے۔ پھر
      سائرہ نے میرے جسم کا بغور جائزہ لیا اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر اچانک بولی کہ یار
      رضوان بھائی باہر بور ہورہے ہونگے انکے بھی بال لیتے ہیں ادھر ہی۔ میں ایک دم ہکا
      بکا رہ گئی اور کہا یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟ سمیرا نے بھی کہا کہ نہیں رضوان کو
      ادھر نہں بالو ہم نے کونسا سوئم سوٹ پہنا ہوا ہے ہم تو برا اور پینٹی میں ہیں۔ لیکن
      سائرہ بضد رہی کہ نہیں انہیں بولنا چاہیے۔ فائزہ تو ویسے ہی اسکی منگیتر ہے اسنے
      لازمی اپنے حسن کے جلوے پہلے بھی دکھائے ہونگے رضوان کو اور مجھے کوئی
      فکر نہیں اگر وہ مجھے اس حالت میں دیکھ بھی لے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ
      کونسا میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ مگر سمیرا پھر بھی نا مانی تو سائرہ نے سمیرا کو کہا
      کہ وہ باہر نکل کر اپنا گاون پہن لے۔ میں رضوان کو بال رہی ہوں۔ وہ بھی فائزہ کے
      ساتھ تھوڑا سا انجوائے کر لیں تو کیا حرج ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ
      کیا کروں۔ سمیرا نے میری حالت دیکھی تو ہنستی ہوئی سوئمنگ پول سے باہر نکل گئی۔
      جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      Comment


      • #53
        سالی پورے گھر والی
        قسط 12+13+14
        کاٹ رہا تحا اور میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں نے رضوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے اور مسلسل سسک رہی تھی۔ میری سسکیاں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں اور مزے کی شدت سے میں نے خود ہی رضوان کے لن پر اپنی پھدی کا دباو بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ رضوان بھی آج فل موڈ میں تھا۔ اسکو پہلی بار میرے ننگے ممے ملے تھے اور نیچے اسکے لن پر میری پھدی کا احساس بھی اسکو پاگل کیے جا رہا تھا۔اب اس نے مجھے گود سے اتارا اور نیچے پانی میں غوطہ لگایا اور میری پینٹی اتار دی۔ پینٹی اتار کر وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا اور اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا۔ میری سسکاری نکل گئی۔ اب رضوان میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور نیچے ہاتھ سے میری پھدی مسل رہا تھا۔ میں بھی پاگل ہوئے جا رہی تھی۔ مجھے اب اچانک عمران کی یاد آئی۔ جب پہلی بار میں نے عمران کا لن چوسا تھا تو میں نے عمران کو کہا تھا کہ میری پھدی چاٹیں مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ یہ یاد آتے ہی میں نے رضوان کو بے اختیار کہ دیا کہ جان پلیز میری پھدی چاٹو۔ میرے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے
        رضوان نےمجھے گود میں اٹھایا اور سیڑھیوں پر لیجا کر بٹھا دیا۔ اب رضوان نےمجھے پیچھے کی طرف لیٹنے کو کہا، میں کہنیوں کے سہارے سے تھوڑا پیچھے کو
        لیٹی تو رضوان نے میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھے اوپر اٹھایا اور بال جھجک اپنا منہ میری پھدی پر رکھ دیا۔ جیسے ہی رضوان کی زبان میری پھدی کے
        لبوں سے ٹکرائی میں تو جیسے ایک علیدہ ہی دنیا میں پہنچ گئی۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب کسی نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھا ہو۔ عمران کو بہت بار کہا مگر عمران نے ایسا نہیں کیا تھا اور باآلخر آج رضوان نے میری پھدی چاٹنی شروع کی تھی۔ رضوان نے یہ سب فلموں میں دیکھ رکھا تھا اس لیے اسے اندازہ تھا کہ پھدی کو کیسے چاٹا جاتا ہے۔رضوان کی زبان میری پھدی میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھدی ٹائٹ ہونے کی وجہ سے وہ محض اوپر ہی اوپر پھیر رہا تھا زبان کو۔ جب رضوان پھدی چاٹ رہا تھا تو میری پھدی نے بہت شدت کے ساتھ لن مانگنا شروع کر دیا۔ لیکن ساتھ ہی میرے دل میں ڈر بھی پیدا ہوا کہ کہیں رضوان کو پتہ نہ چل جائے کہ میری پھدی پہلے بھی کسی مرد کا لن لے چکی ہے اور میں اب کنواری نہیں رہی۔ جیسے ہی یہ خیال میرے ذہن میں آیا میرےپورے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور میری ساری گرمی دور ہونے لگی اور میں سوچنے لگی کہ اب کیا کروں۔ پھر میں نے سوچا کہ عمران کا لن
        لیے 6 ماہ ہوچکے اب تک تو میری پھدی دوبارہ سے پہلے کی طرح ٹائٹ ہو چکی ہے لہذا رضوان کو پتہ نہیں چلے گا۔ یہ سوچ کر مجھے کچھ حوصلہ تو ہوا مگر پھر بھی ڈر موجود تھا۔ پھر اچانک ہی مجھے یاد آیا کہ جب عمران نے میرے واش روم میں موجود ٹب میں میری چودائی کی تھی تو میری پھدی بہت زیادہ ٹائٹ ہورہی تھی۔ پھدی سے نکلنے والا پانی بھی پھدی کو چکنا نہیں کر رہا تھا کیونکہ پھدی میں دوسرے پانی
        کی وجہ سے گیلی ہو رہی تھی۔ اور جب پانی سے باہر نکل کر عمران نے میری پھدی کو خشک کر کے چدائی شروع کی تو پھدی کے پانی نے فورا ہی پھدی کو چکنا کر دیا
        تھا اور لن دوبارہ سے روانی سے چدائی کر رہا تھا۔جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو میں نے سوچا یہ سب سے بہتر موقع ہے
        چدائی کرنے کا۔ پانی کے اندر چدائی ہوگی تو پھدی میں چکناہٹ پیدا نہیں ہوگی اور رضوان کا لن مشکل سے ہی اندر جائے گا جس سے رضوان کو احساس نہیں ہوگا کہ پھدی پہلے پھٹ چکی ہے۔ یہ سوچ کر میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ آج رضوان کے لن کو لازمی پھدی کی سیر کروانی ہے۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے میری پھدی خشک ہوگئی تھی اور اسکی چکناہٹ ختم ہوگئی تھی کیونکہ میرا ذہن سیکس کی طرف نہیں تھا۔ مگر
        جیسے ہی دوبارہ میں نے توجہ رضوان کی طرف دی جو مسلسل میری پھدی چاٹ رہاتھا تو مجھے دوبارہ سے مزہ آنے لگا اور کچھ ہی سیکنڈ میں میری پھدی کی چکناہٹ واپس آگئی۔ کچھ دیر مزید پھدی چاٹنے کے بغیر رضوان نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور میری پھدی پر سیٹ کرنے لگا تو میں نے اسکو منع کر دیا اور کہا تھوڑا اور انتظار کرے۔ یہ کہ کر میں دوبارہ پانی میں آگئی تاکہ پھدی کی چکناہٹ کو پول کا پانی ختم کر
        دے اور لن ڈالنے میں مشکل ہو۔ پانی میں آکر میں نے ایک بار پھر رضوان کا لن اپنے منہ میں لیا تاکہ رضوان کے لن کو تھوڑا مزہ دیا جاے پھدی میں جانے سے پہلے۔
        کچھ دیر رضوان کا لن چوسنے کے بعد رضوان نے کہا اب بس بھی کرو اب مجھےتمہاری پھدی چاہیے میں واپس پانی میں لے آئی رضوان کو اور اسے کہا کہ مجھے
        ادھر ہی چودو۔ رضوان نے کہا ادھر مشکل ہوگی پانی سے باہر نکل آو تاکہ آسانی سے کر سکیں، میں نے کہا نہیں مجھے شرم آتی ہے تم ادھر ہی نیچے سے اپنا لن ڈال دو۔۔۔ یہ سن کر رضوان نے میری ایک ٹانگ تھوڑا اوپر اٹھائی اور اپنا لن میری چوت پرسیٹ کیا اور ایک جھٹکا مارا۔ مگر لن چوت کے اندر نا جا سکا۔ کیونکہ ایک تو رضوان اناڑی تھا دوسرا ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ جس میں لن ڈالنا مشکل ہوتا ہے اور پھر
        6 ماہ پہلے کی چدائی کی وجہ سے اب پھدی دوبارہ ٹائٹ ہوچکی تھی۔ رضوان نے ایک بار پھر لن چوت پر رکھا اور دھکا مارا مگر پھر اسکو ناکامی ہوئی۔ تو وہ شرمندہ ہوا کہ لن اندر نہیں جا رہا، میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور کہا فکر نہیں کرو چال جائے گا کنواری پھدی میں مشکل سے ہی جاتا ہے، یہ کہ کر میں نے اسکا لن پکڑا اور اپنی چوت پر سیٹ کیا اور کہا کہ اب دھکا نا مارو بلکہ آہستہ آہستہ زور لگاو۔
        رضوان نے ایسا ہی کیا اور میری چوت پر اپنے لن کا دباو بڑھانے لگا۔ میں نے بھی لن کو ہاتھ میں پکڑ کر چوت پر رکھا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ لن کا دباو بڑھنے پر کچھ
        حصہ چوت میں داخل ہوا تحا مگر ابھی یہ نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔ اس طرح چدائ کروانا واقعی فائدے میں رہا میرے لیے کیونکہ رضوان کا لن پھدی میں نہیں جا رہا تھا اور الٹا وہ شرمندہ ہو رہا تھا کیونکہ اسنے اپنے دوستوں سے سن رکھا تھا کہ وہ ایک ​​​​​​ہی جھٹکے میں پھدی پھاڑ دیتے ہیں۔ خیر اب تھوڑی مزید کوشش کے بعد لن کی ٹوپی میر پھدی میں جا چکی تھی اور میرا تکلیف سے برا حال تحا۔ کیونکہ میری پھدی دوبارہ سے ٹائٹ ہو چکی تھی اور چکناہٹ بھی نہیں تھی۔ اب میں نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹا لیا اور رضوان کو کہا کہ وہ دباو بڑھانا جاری رکھے اور ساتھ ہی میری چیخیں​​​​​​نکلنے لگیں۔ میں نے اپنے دانت تکلیف کی شدت سے رضوان کی گردن میں جڑ دیے
        تھے۔ رضوان کے بڑھتے ہوئے دباوسے اب لن کچھ مزید اندر جا چکا تھا تو میں نے رضوان کو کہا کہ اب جھٹکا مارو زور سے، رضوان نے تھوڑا سا لن باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی تھی اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو آدھا لن میری پھدی میں چال گیا اور میری درد کے مارے زور دار چیخ نکلی۔ اور آنکھوں سے پانی نکل آیا۔ یہ دیکھ کررضوان پریشان ہوگیا اور بولا کہ سوری زیادہ زور سے ہوگیا میں باہر نکال لیتا ہوں۔ میں نے اسکو فورا منع کیا کہ باہر مت نکالنا اندر ہی رہنے دو میں تکلیف برداشت کر
        لوں گی۔ رضوان پھر بھی پریشان تھا، میں نے رضوان کو کہا کہ آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرے مگر باہر نہ نکالے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا اور آہستہ آہستہ لن اندر باہر
        کرنے لگا۔ مگر لن اب بھی بہت پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا کیونکہ پھدی میں
        چکناہٹ بالکل نہیں تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میں نے رضوان
        کو کہا کہ ایک اور جھٹکا مارو اور پورا لن میری پھدی میں ڈال دو۔ پھاڑ دو میری
        کنواری پھدی کو، مگر رضوان نے کہا کہ تمہیں درد ہوگی، میں نے کہا میری درد کی
        فکر نہ کرو بس تم اپنا کام کرو اور اپنا مزہ لو۔ رضوان نے کہا پھر تیار ہوجاو رضوان
        نے دوبارہ سے لن تھوڑا سا باہر نکالا اور ایک زور دار جھٹکا مارا۔ مجھے ایسا لگا
        جیسے کوئی لوہے کی راڈ میری پھدی کو چیرتی ہوئی اندر تک چلی گئی، میری ایک
        اور زور دار چیخ نکلی اور میں زور سے رضوان کے ساتھ لپٹ گئی۔ اور اب میرا جسم
        کانپ رہا تھا۔ لن پورا میرے اندر جا چکا تھا۔ میں نے رضوان کو خوشی سے کسنگ
        بھی شروع کی اور اسکو شاباش دی کہ اس نے آج میری پھدی پھاڑ دی۔ رضوان بھی بہت خوش تھا کیونکہ اسکو نہ صرف پہلی بار پھدی ملی تھی بلکہ اسکی دانست میں
        اسنے اپنی منگیتر کا کنوارہ پن ختم کر دیا تھا۔
        اب رضوان نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس میں بہت مشکل
        ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میرے برداشت بھی جواب
        دینے لگی اور اب مجھے ایک جاندار چدائی کی ضرورت تھی تو میں نے رضوان کو کہا
        چلو اب پانی سے باہر نکلو۔ رضوان نے ایسے ہی باہر کی طرف نکلنا شروع کیا تو میں
        نے کہا اپنا لن نکال لو باہر۔ رضوان بولا کہ پھر تمہیں دوبارہ تکلیف ہوگی تو میں نے
        کہا نہیں ایک بار لن اندر تک چال گیا ہے تو اب دوبارہ بھی چال جائے گا۔ پھر رضوان
        نے لن باہر نکالا اور پول سے باہر نکل کر بینچ پر جا کر لیٹ گئی میں۔ اب رضوان
        میری پھدی کی طرف دیکھ رہا تھا تو میں نے رضوان کو کہا اسکو تھوڑا سا اور چاٹو
        تو آسانی ہوگی چدائی میں۔ رضوان نے میری دونوں ٹانگیں پھیلائیں اور بیچ میں آکر
        میری پھدی کو چاٹنے لگا تو میری پھدی نے فورا ہی چکناہٹ پیدا کرنی شروع کر دی۔
        رضوان جب میری پھدی چاٹ رہا تحا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ہمیں
        دیکھ رہا ہے، میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھردیکھا تو کوئی نہیں تھا، آس پاس کوئی
        بلڈنگ بھی نہیں تھی، سائرہ کے کمرے کی طرف دیکھا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ تو
        میں نے سوچا کہ میرا وہم ہے اور دوبارہ سے اپنی پھدی چٹوانے لگی۔ جب پھدی
        دوبارہ سے چکنی ہوگئی تو میں نے رضوان کو کہا اب وہ بینچ پر لیٹ جائے۔ رضوان
        بینچ پر لیٹا تو میں نے رضوان کا لن منہ میں لیا اور اور 3 ،4 چوپے لگا کر لن کو
        بھی گیلا کیا، پھر اس پر تھوک پھینک کر ہاتھوں سے تھوک اس پر مسل دی اور پھر 2
        چوپے لگائے اور رضوان کے اوپر آکر بیٹھ گئی اسکا لن اپنی چوت پر رکھ کر اندر
        لینے کی کوشش کرنے لگی تو ایک بار پھر تکلیف ہونے لگی۔ میری پھدی واقعی میں
        پہلے کی طرح ہو چکی تھی فل ٹائٹ تھی اور کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ میں پہلے لن
        لے چکی ہوں۔ میں نے آہستہ آہستہ لن پر اپنا وزن بڑھایا تو آدھا لن میری چوت میں جا
        چکا تھا مگر تکلیف سے میری بس ہو چکی تھی۔ تو میں نے رضوان کو کہا ایک زور
        دار جھٹکا مارہ نیچے سے اور پورا لن گھسا دو، یہ سنتے ہی رضوان نے جھٹکا مارا
        اور پورا لن میرے اندر تھا۔ مگر اب کی بار درد کچھ کم تھی کیونکہ میری چوت کافی
        چکنی ہو رہی تھی۔ اب آہستہ آہستہ رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے تو میں
        رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا لی تاکہ رضوان با آسانی دھکے لگا
        سکے۔۔۔ کچھ دیر بعد جب لن آسانی سے اندر باہر ہونے لگا تو میں نے رضوان کو کہا
        دھکوں کی سپیڈ بڑھا دے۔۔۔ رضوان نے جیسے ہی دھکوں کی سپیڈ بڑھائی میری سسکیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ۔۔ اف اف اف ف ف ف ف۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ، ، ہائے میری
        جان۔۔ ُپھاڑ ڈالی میری پھدی۔۔۔ اآہ آہ آہ آہ، ام ام ام۔۔۔۔ اس طرح کی آوازیں مسلسل میرے
        منہ سے نکل رہی تھی جنکو سن کر رضوا کے دھکے اور بھی تیز ہورہے تھے۔ کچھ
        مزید دھکے لگے اور میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اب رضوان نے اپنے دھکے روک
        لیے اور پانی دیکھنے لگا۔ میں نے رضوان کو اٹھنے کا کہا اور اسکو بولا کہ میری
        ٹانگیں اوپر اٹھا کر چودو مجھے۔
        اب میں بینچ پر لیٹ گئی اور رضوان نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھون پر رکھیں
        اور لن میری چوت پر سیٹ کر کے ایک ہی دھکےمیں پورا لن اندر ڈال دیا۔ رضوان کا
        لن اب با آسانی میری چدائی کر رہا تھا۔ رضوان زور زور سے دھکے لگا رہا تھا۔ کچھ
        دھکوں کے بعد میں نے اپنی پوزیشن چینج کی اور رضوان کو کہا کہ میری ٹانگیں
        سائیڈ پر پھیلا دے اور میرے اوپر جھک کرمجھے چودے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا
        میری ٹانگیں سائیڈ پر پھیلا دیں اور خود میرے اوپر جھک کر مجھے چودنے لگا۔ اب
        میرے دونوں ہاتھ رضوان کی گردن کے گرد تھے اور رضوان نے میرے ایک ممے کو
        اپنے منہ میں لیا ہوا تھا جبکہ دوسرے کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا جبکہ نیچے سے
        اسکے لن کی ضربیں میری پھدی کو سکون بخش رہیں تھیں۔ رضوان بڑی شدت سے
        میرے ممے چوس رہا تھا اور میں اپنی گانڈ ہال ہال کر چودائی میں رضوان کا بھرپور
        ساتھ دے رہی تھی۔ چودائی کے ساتھ ساتھ میں رضوان سے چودائی کا موازنہ عمران
        سے کروائی ہوئی چدائی سے کر رہی تھی اور اندازہ لگا رہی تھی کہ کس کی چدائی
        سے زیادہ مزہ آیا؟/ ت مجھے لگا کہ عمران کی چدائی زیادہ جاندار تھی اور اس میں
        زیادہ مزہ آیا تھا۔ اسکی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ میرا بہنوئی تھا
        اور یہ احساس کچھ عجیب سا تھا کہ میں اپنے بہنوئی کی گود میں بیٹھی چدائی کروا
        رہی ہوں اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ عمران چدائی میں ایکسپرٹ تھا آخر
        وہ 6 ماہ سے میری بڑی بہن کی جم کے چوت مار رہا تھا۔
        لیکن اس وقت تہ میری چوت میں رضوان کا لن تھا جو مسلسل میری سسکاریاں نکلوا
        رہا تحا۔ رضوان کے بے تحاشہ دھکوں کے آگے میری چوت نے ایک بار پھر ہار مان
        لی اور پانی چھوڑ دیا۔ اب کی بار میں نے رضوان کا لن نکاال، اسکو بینچ پر لٹایا اور
        خود اسکے اوپر اسطرح لیٹ گئی کہ میری پھدی رضوان کے منہ پر تھی اور میرا منہ
        رضوان کے لن کی طرف۔ اب رضوان میری پھدی چاٹ رہا تھا اور میں اسکے لن کے
        چوپے لگا رہی تھی جس میں مجھے اپنی پھدی کے پانی کا ذائقہ بھی مل رہا تھا جو کہ
        رضوان کے لن پر لگا ہوا تھا۔ ہم 69 پوزیشن میں تھے جو رضوان اور مجھے دونوں



        سالی پورے گھر والی
        فز کامران
        قسط 13
        کو ہی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ عمران نے تو میری پھدی چاٹنے سے ہی انکار کر دیا
        تھا اس لیے اس وقت میں وہ مزہ نہیں لے سکی مگر رضوان کے ساتھ میں نے یہ
        ِھ میری زندگی کا پہال تجربہ تھا۔ فلموں میں دیکھ رکھا تھا 69
        تجربہ بھی کیا۔ یہ ب
        پوزیشن میں لن اور پھدی چاٹنا مگر حقیقت میں یہ پہلی بار ہورہا تھا۔ کچھ دیر اسی
        پوزیشن میں مزہ لینے کے بعد میں دوبارہ سے رضوان کے لن پر آکر بیٹھ گئی اور ایک
        ہی جھٹکے میں پورا 7 انچ کا لن اپنی پھدی کی گہرائیوں میں اتار لیا تھا۔ اور میں
        مسلسل رضوان کے لن کے اوپر چھالنگیں لگا لگا کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ نیچے
        پڑے بینچ کی بھی میری چھالنگوں سے چیخیں نکالن شروع ہوگئی تھیں کچھ دیر چھالنگیں لگانے کے بعد میں تھک گئی تو میں رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اب نیچے سے رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے۔ میں نے رضوان سے کہا کہ جتنی زور سے چود سکتے ہو چود دو مجھے تو رضوان نے اپنے دھکوں کی رفتار اور بھی تیز کر دی۔ اب اسکے طوفانی دھکوں نے مجھے تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا ۔جہاں بس مزہ ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر تک رضوان کے لن نے اپنی سپیڈ اور تیز کی اور رضوان بوال کہ اسکا مکھن نکلنے واال ہے، میں نے رضوان کو کہا بس کچھ دیر اور روک کے رکھو میری بھی منزل قریب ہی ہے، تو رضوان نے اپنی سپیڈ تھوڑی سلو کر دی۔۔۔ میں نے اپنا ایک مما رضوان کے منہ میں ڈال دیا اور اسکو کہا کےدھکے بھی جاری رکھے اور میرے ممے کو بھی چوس چوس کر بڑا کر دے۔ رضوان نے بہت ہی شدت سے مما چوسنا شروع کیا تو اس ڈبل مزے سے میری منزل بھی قریب آنےلگی۔
        میں نے رضوان کو کہا کہ بس میں بھی اب چھوٹنے لگی ہوں تو اپنی سپیڈ بڑھا دو، یہ سنتے ہی رضوان نے ایک بار پھر سے چودائی کی اس گاڑی کا پانچواں گئیر لگا دیا
        اور سپیڈ پر پورا پاوں رکھ دیا۔ میری پھدی میں جیسے کوئی مشین چل رہی تھی تو مسلسل میری پھدی کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اچانک ہی رضوان کے لن نے سپیڈ ختم کر دی مگر رک رک کر زور زور سے دھکے مارنے لگا۔ رضوان کی منی نکل چکی تھی اور انہی سلو مگر زور دار جاندار دھکوں نے مجھے بھی فارغ کر دیا تھا۔ ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہوگئے تھے۔ کچھ دیر دونوں کے جسم نے جھٹکے لیے اور پھر جیسے سکون آگیا۔ رضوان نے اب میرا بدن چومنا شروع کر دیا۔ اور مجھے کہا کہ آج اسکو بہت مزہ آیا ہے۔ وہ ساری زندی اپنی یہ پہلی چودائ نہیں بھولے گا۔ میں نے بھی اسکو کہا کہ آج تم نے اپنی فائزہ کو معصوم لڑکی سےعورت بنا دیا ہے اور لن کے مزے سے آشنا کر دیا ہے۔اب ہم نے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور واپس سائرہ کے کمرے کی طرف جانے لگے تو سمیرا ہِمں بڑے حال میں ہی مل گئی ہمیں دیکھتے ہی بولی ہاں جی گئی آپ لوگوں کی سوئمنگ؟؟ تو میں نے شرماتے ہوئے کہا ہاں جی ہوگئی۔ اتنے میں سائرہ بھی سیڑھیاں اتر کر نیچے آگئی اور رضوان کو آنکھ مار کر بولی رضوان بھائی فائزہ کو زیادہ تکلیف تو نہیں دی آپ نے؟؟؟ یہ بات سن کر رضوان پہلے تو تھوڑا جھجک گیا کہ کیا جواب دے مگر پھر بوال کہ نہیں سوئمنگ میں کیسی تکلیف۔ البتہ آپکا شکریہ جو آپ نے مجھے فائزہ کے ساتھ سوئمنگ کرنے کا موقع دیا ۔
        پھر سائرہ کا ملازم ہم لوگوں کے لیے جوس لے آیا۔ جو پی کر ہم لوگوں نے اجازت چاہی تو سمیرا نے کہا تم دوبارہ بھی چکر لگانا میں ایک مہینہ ادھر ہی ہوں۔ میں نے
        اسے کہا ہاں جی اگر سائرہ نے آنے دیا تو میں ضرور آوں گی۔ پھر میں دونوں سےگلے ملی اور رضوان کے ساتھ گاڑی میں واپس گھرآگئی۔ راستے میں رضوان بار بار مجھے کہتا رہا کہ چوپے لگوا کر اور مٹھ مار کر کبھی وہ مزہ نہیں مال جو آج تمہاری پھدی نے دیا ہے۔ میں نے اسے کہا تمہا لن بھی بہت جاندار ہے، شروع میں مجھے بہت تکلیف دی مگر پھر مزہ بھی بہت آیا۔ ایسے ہی ہم گھر پہنچ گئے۔ گھر پہنچ کر رضوان کچھ دیر رکا اور پھر واپس چال گیا۔ ابو پہلے سے ہی گھر پر تھے۔ میں نے کھانا تیار
        کیا ابو امی کے ساتھ کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔کمرے میں جا کر میں نے اپنا موبائل آن کیا اور فیس بک پر رضوان کو میسج کرنے لگی۔ جب موبائل پر فیس بک میسج کھولے تو کسی انجان آئی ڈی سے مجھے میسج آیا ہوا تھا۔ میں نے جب وہ میسج کھولا تو میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ اس میسج میں میری اور رضوان کی چدائی کی تصویریں اور ایک چھوٹی سی چدائی کی ویڈیو تھی۔ اور نیچے لکھا تھا کہ اگر تم نے اپنی چوت مجھے نہ دی تو میں یہ تصویریں اور ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیلا دوں گا۔ ابھی میں یہ میسیج ہی پڑھ رہی تھی کہ مجھے موبائل نمبر پر بھی ایک انجان نمر سے ایس ایم ایس آگیا۔ اس میں لکھا تھا کہ
        اگر تم نے چوت دینے سے انکار کیا تو تمہاری عزت انٹرنیٹ پر سِر عام پھیال دوں گا تم اور تمہارا یار دونوں بدنام ہوجائیں۔ گے۔ چوت کس دن دینی ہے اسکا میں تمہین بعد میں بتاوں گا۔یہ میسج پڑھ کر میرا دماغ بالکل ماوف ہوگیا اور مجھے ایسے لگا جیسے میرے ہر
        طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
        کافی دیر تک تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ پھر جب کچھ
        حواس بحال ہوئے تو میں نے ایک بار پھر سے فیس بک میں میسج اوپن کیا اور وہ تصویریں دوبارہ دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی دوبارہ دیکھی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بالکل اسی اینگل سے بنائی گئی ہیں جو اینگل سائرہ کے کمرے سے بن رہا تھا جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوا کہ ویڈیو بنانے واال سائرہ کے کمرے میں موجود تھا۔ یہ خیال پختہ ہوا تو میں نے سائرہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ کہیں اسنے تو یہ ویڈیو نہیں بنائی؟؟؟ مگر پھر سوچا کہ آخر اسکو کیا فائدہ ہوگا میری ایسی ویڈیو بنانے کا اور پھر مجھے بلیک میل کرنے کا؟؟؟ پھر میں نے سائرہ کے بھائی حیدر کے
        بار میں سوچا کہ ہوسکتا ہے اسنے یہ ویڈیو بنا لی ہو؟ مگر پھر سوچا کہ اس دن تو وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔ جب ہم سائرہ کے گھر گئے اس وقت سے لیکر جب اسکے گھر
        سے واپس نکلے تو حیدر گھر پر نہیں تھا۔پھر میں سوچنے لگی کہ اگر سائرہ بھی نہیں اور حیدر بھی نہیں تو پھر آخر کون بنا سکتا ہے یہ ویڈیو؟ کافی دیر سوچنے کے بعد اچانک مجھے سائرہ کے اس ملازم کا خیال آیا جو ہمارے لیے پانی لیکر آیا تھا۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا تھا کہ سائرہ کے سامنے تو وہ بہت مؤدب اور آنکھیں جھکا کر کھڑا تھا مگر اسکی نظریں میرے مموں کا دیدار ضرور کر رہی تھیں اسکی آنکھوں میں میرے مموں کی طلب موجود تھی جیسے وہ انہیں فورا اپنے ہاتھوں میں لیکر دبا دینا چاہتا ہو۔ اسکا خیال آتے ہی میرے
        ذہن نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ یہ حرکت اسی کمینے ملازم کی ہوگی۔اب میں سوچنے لگی کہ صبح ہوتے ہی اسکی شکایت سائرہ سے کروں گی اور ساری بات اسکو بتاوں گی۔ مگر پھر سوچا کہ سائرہ کیا کر لے گی؟ زیادہ سے زیادہ اس سے موبائل لے کر وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گی اور اسکو نوکری سے نکال دے گی؟؟ مگر اب تک تو وہ ملازم میری ویڈیو کو نجانے کہاں کہاں سیو کر چکا ہوگا بیک اپ کے طور پر۔ اور اگر سائرہ کو شکایت لگانے پر اسکو غصہ آگیا تو وہ میری ویڈیو لازمی انٹرنیٹ پر ڈال دے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنا ارادہ کینسل کر دیا۔ پھر سوچا کہ کیوں نہ رضوان کو بتاوں وہ خود ہی اس سے نمٹ لے گا۔ مگر پھر سوچا کہ اگر رضوان نےغصے میں آکر اسکو قتل کر دیا تو رضوان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ تو تباہ ہوجائے گا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الٹا وہ ملازم رضوان کو کوئی نقصان پہنچا دے اور اس میں
        بھی پھر وہی رسک تھا کہ اگر اس نے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی پھر رضوان بھی میری عزت نہیں بچا سکے گا۔ آخر کافی سوچنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچی کہ اسکو چوت دینے کے علاؤہ اور کوئی حل نہیں اس مسئلے کا۔ یہ سوچ سوچ کر میں روتی رہی اور نجانے کب میری آنکھ لگی۔ صبح اٹھی تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اورآنکھیں سوج چکی تھیں۔ امی نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں
        نے کہا کہ ساری رات سر میں درد ہوتی رہی اس لیے طبیعت خراب ہے۔ امی نے مجھے ناشتہ کروایا اور گولی دی۔ میں بھی سارا دن اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔ یہ دن
        بھی پریشانی میں گزر گیا اور پھر اگلا دن بھی پریشانی میں ہی گزرا۔ 4 دن گزرنے کے بعد جب میں کسی حد تک اس واقعہ کو بھول چکی تھی تو مجھے پھر سے فیس بک پر اسی کا میسج آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آج جمعرات ہے، اتوار والے دن تم نے اپنی چوت مجھے دینی ہے ورنہ تمہاری چودائی کی ویڈیو پورا پاکستان اور پوری دنیا
        دیکھے گی۔یہ میسج پڑھ کر میں پھر سے پریشان ہوگئی اور سوچنے لگی کہ آخر اس مصیبت سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ مگر کچھ سمجھ نہیں آئی۔ پھر میں نے اس ملازم کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا، وہ کافی لمبا چوڑا اور مضبوط جسم کا انسان تھا۔ اسکے
        بارے میں سوچتے ہوئے مجھے اسکے لن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اسکا لن بھی کافی بڑا اور مظبوط ہوگا۔ آہستہ آہستہ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ میری چودائی کیسے کرے گا؟ کیا وہ وحشیوں کی طرح میرا جسم نوچ لے گا یا پھر کسی محبوب کی طرح میرے جسم کو پیار کرے گا اور میری چودائی کرے گا؟ یہ سوچ سوچ کر مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میری شلوار گیلی ہو رہی تھی۔ تب مجھے شرمندگی
        ہوئی تھوڑی کہ وہ زبردستی میری چدائی کرنے کو تیار ہے اور میں اسکے بارے میں سوچ رہی ہوں کہ وہ میری چودائی کیسے کرے گا۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ اسکے چوت دیے بغیر کوئی اور راستہ نہیں مگر کیوں نہ میں بھی اس چودائی کی ویڈیو بنا لوں، ہوسکتا ہے بعد میں میرے کسی کام آسکے۔ کیونکہ ظاہری بات ہے وہ
        مجھ سے ملتے ہی میری چوت میں اپنا لن تو نہیں گھسائے گا بلکہ کچھ باتیں کرے گا۔
        اور اس دوران میں کوشش کروں گی کہ کچھ ایسی بات ہوجائے جس سے اسکو بعد میں
        بلیک میل کیا جا سکے اور اس مصیبت سے جان چھڑوائی جا سکے۔
        یہ خیال آتے ہی میں نے فورا شہر کا رخ کیا اور خان پالزہ جا کر ایک خفیہ کیمرہ خرید
        لیا جو ایک پین کی کیپ میں لگا ہوا تھا۔ یہ کیمرہ مجھے محض 3500 روپے میں مل
        گیا۔ گھر آکر میں نے اس خفیہ کیمرے کو اپنے بیگ میں فٹ کر دیا اور چیک کرنے کے
        لیے اس سے ویڈیو بنا کر دیکھی۔ میں نے بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور کمرے میں ادھر
        ادھر پھرنے لگی۔ روشنی بھی کم زیادہ کر کے دیکھی اور بعد میں ویڈیو چیک کی تو
        بالکل صحیح اور واضح ویڈیو تھی آواز کی ریکارڈنگ بھی زبردست تھی۔ یہ کیمرہ 2
        گھنٹے تک کی ویڈیو بنا سکتا تھا جو اچھا خاصا ٹائم ہے۔ اب میں پر سکون ہوکر اتوار
        کا انتظار کرنے لگی۔
        ہفتے کی رات کو مجھے پھر انجان نمبر سے کال آئی، میں نے ہیلو کہا تو آگے سے من کل کے لیے پھر تیار رہنا اور اپنی چوت کو بھی میرے لیے تیار رکھنا۔
        آواز آئی جا
        یہ بہت بھاری آواز تھی جیسے کوئی 35 ،40 سال کا مرد بول رہا ہو۔ میں نے اسکو
        گالی دی اور کہابہن چود آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ تجھے جتنے پیسے
        چاہیے بتا میں تجھے دیتی ہوں جا کر کسی چکلے پر کسی رنڈی کی چدائی کر لے میرا
        ِن من تمہاری چوت
        پیچھا چھوڑ دے۔ میری باتیں سن کر اس نے قہقہ لگایا اور بوال جا
        کی بھی بھال کوئی قیمت ہو سکتی ہے؟ مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہاری چوت
        کے۔ اسکے بعد اس نے غصے میں غراتے ہوئے کہا کہ اپنی چوت کی صفائی کر کے
        آنا مجھے بالوں والی چوت پسند نہیں۔ اور اچھی طرح تیار ہوکر آنا ورنہ تمہاری
        تصویریں فیس بک پر تمہاری پروفائل پر اپلوڈ ہوجائیں گی۔ یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیا
        اور میں پھر سے رونے لگ گئی۔ پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ کافی دیر رونے
        کے بعد میں نے سوچا کہ جب چوت دینی ہی ہے تو کیوں نے آرام اور سکون سے دی
        جائے۔ پریشان ہونے کا کیا فائدہ؟ جب اس چوت میں ایک لن جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس
        لن کا مزہ بھی لیا جائے اور پریشان ہوکر بلوجہ اس مزہ کو کرکرا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ
        سوچ کر میں اٹھی اور میں نے واش روم جا کر اپنی چوت اور انڈر آرم بال صاف کیے
        اور آرام سے آکر سوگئی۔ صبح 10 بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور 11 بجے کے قریب
        مجھے کال آئی کہ 30:12 منٹ تک گلگشت میں موجود پیزا ہٹ کے ساتھ گول باغ
        کے سامنے آکر کھڑی ہوجاو اور مجھے کال بیک کرو۔ میں پھر بتاوں گا کہ تمہیں کہاں
        آنا ہے۔
        میں کال سن کر اٹھی اور تیاری کرنے لگی۔ میں نے ایک جی سٹرنگ نیٹ کی پینٹی پہنی
        اور اسکے ساتھ ایک ٹراوزر پہنا۔ اوپر سے میں نے انڈر وائرڈ برا پہنا نیلے رنگ کا
        جس نے میرے مموں کو اوپر اٹھا کر اور بھی سیکسی بنا دیا۔ اب دونوں ممے آپس میں
        جڑے ہوئے تھے اور سینے کی لائن یعنی کے کلیوج کافی واضح ہوگئی تھی۔ اسکے
        اوپر میں نے ایک لوز اپر پہنا۔ تھوڑا سا میک اپ کیا اپنے آپ کو شیشہ میں دیکھا۔ لوز
        اپر میں سے کلیوج کافی واضح نظر آرہی تھی جس سے میں بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
        اوپر سے میں نے ایک چادر لی اور امی کو بتایا کہ میں دوست کے گھر جا رہی ہوں۔
        امی نے دوست کا نام پوچھا تو میں نے سائرہ کا ہی نام بتا دیا اور باہر نکل کر سائرہ کو
        کال کی کہ میں رضوان سے ملنے جا رہی ہوں اگر امی کا فون آئے تو بتا دینا کہ میں
        تمہارے گھر پر ہی ہوں۔ سائرہ نے بھی کہا کے بے فکر ہوکر جاو آنٹی کا فون آیا تو
        میں سنبھال لوں گی۔
        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


        سالی پورے گھر والی
        قسط 14
        فون کر کے میں رکسشے میں بیٹھی اور گول باغ جا کر اسکو کال کی۔ اس نے کہا کہ
        اب ایسا کرو گردیزی مارکیٹ آجاو۔ یہ مارکیٹ یہاں سے تھوڑا ہی دور تھی میں نے پھر
        رکشہ لیا اور گردیزی مارکیٹ چلی گئی۔ وہاں سے میں نے پھر کال کی تو اسنے مجھے
        ایک ہوٹل کا نام بتایا اور ایڈریس بتایا کہ اس ہوٹل میں آجاو اور باہر کھڑی ہوکر مجھے
        کال کرو۔ یہ کہ کر اسنے کال بند کردی اور میں کھڑی اسکو گالیاں دینے لگی کہ ایک تو
        میری چوت مارنا چاہتا ہے زبردستی اوپر سے مجھے جگہ جگہ ذلیل کر رہا ہے۔ پھر
        میں نے رکشہ پکڑا اور اسکے بتائے ہوئے ہوٹل کے سامنے پہنچ کر اسکو دوبارہ کال
        کی تو اسنے کہا اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 203 میں آجاو۔
        میں ہوٹل کی ریشیپشن پر گئی اور کمرہ نمبر 203 کا پوچھا۔ انہوں نے مجھے سیکنڈ
        فلور پر جا کر رائٹ سائد پر تیسرے کمرے کا بتایا۔ میں لفٹ سے اوپر پہنچی اور 203
        نمبر کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر اب میری ٹانگیں کانپ رہی تھی
        اور میں سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا اور یہ شخص میرے ساتھ کیا کرے
        گا۔ کمرے کے سامنے پہنچ کر میں نے چادر اتار کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالی اور بیگ
        میں فِٹ کیا ہوا کیمرہ آن کر دیا۔ پھر حوصلہ جمع کیا اور دروازہ ناک کیا۔ اندر سے آواز
        آئی کون؟ میں نے اپنا نام بتایا تو دوبارہ آواز آئی اندر آجاو۔ یہ آواز مجھے جانی پہچانی
        سی لگی۔ میں نے دروازہ کھوال اور اندر داخل ہوگئی۔ میرے سامنے ایک ڈبل بیڈ تھا
        جسکے ساتھ ایک صوفہ پڑا تھا اسکے سامنے ایک ٹیبل پڑی تھی جس پر کچھ مشروب
        رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک شیشے کی ونڈو تھی جسکے سامنے ایک چھوٹے قد کا
        شخص کھڑا تھا۔ میں نے پہلے تو پیچھے مڑ کر دروازہ بند کیا کنڈی لگائی اور مناسب
        جگہ ڈھونڈنے لگی بیگ رکھنے کے لیے جہاں سے ویڈیو بن سکے۔ میں نے سامنے
        ٹیپبل پر ہی بیگ رکھ دیا کیونکہ یہاں سے بیڈ کی ویڈیو با آسانی بن سکتی تھی کیونکہ
        آخر کر چدائی تو بیڈ پر ہی ہونی تھی۔
        اب میں نے اس شخص کی طرف دیکھا، اسکی پیٹھ میری طرف تھی۔ میں نے اندازہ لگا
        لیا کہ یہ وہ مالزم تو ہرگز نہیں کیونکہ اسکا قد بڑا تھا۔ پھر سوچنے لگی کون ہو سکتا
        ہے یہ مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ پھر میں نے حوصلہ کیا اور اپنا اعتماد بحال کرتے
        ہوئی بولی کہ اب میں اپنی چوت دینے آ گئی ہوں تو اپنی شکل بھی دکھا دو۔ وہ میری
        بات سن کر آہستہ آہستہ مڑا اور جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔
        یہ کوئی اور نہیں بلکہ سائرہ کا بھائی حیدر ہی تھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکال حیدر
        تم؟؟؟؟؟ وہ میرے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا
        تھا۔ میں دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی کہ حیدر آخر تم نے یہ سب کیوں کیا؟ مگر وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہ نہیں پا رہا تھا۔ میں آگے گئی اور اسکا
        ہاتھ پکڑ کر اسکو بیڈ پر بٹھایا۔ اسکا ہاتھ بہت گرم تھا جیسے اسے 104 ڈگری بخار
        ہو۔ مگر یہ گرمی بخار کی نہیں بلکہ میری چوت کو چودنے کے لیے تھی۔ اسکو بٹھا کر
        میں خود اسکے ساتھ بیٹھ گئی اور اپنے بیگ کی طرف دیکھا۔ اینگل سے مجھے اندازہ
        ہوگیا کہ یہاں کی ویڈیو با آسانی بن رہی ہوگی۔ پھر میں نے حیدر سے پوچھا کہ حیدر یہ
        سب آخر کیوں؟ تو اسکے منہ سے صرف اتنا ہی نکال کہ "سوری فائزہ آپی"۔ حیدر
        سائرہ سے چھوٹا تھا اور وہ مجھے آپی کہتا تھا۔ میری حیدر سے پہلے بھی کافی بار
        ملاقات ہوئی تھی ۔ اکثر جب ڈرائیور کی غیر موجودگی میں سائرہ کو کالج سے گھر جانا
        ہوتا تو حیدر لینے آتا تھا اور میری بھی ملاقات ہوجاتی تھی۔
        میں نے حیدر سے پوچھا کہ آخر یہ سب تم نے کیوں کیا؟؟؟ وہ پھر بھی خاموش بیٹھا
        رہا۔ اور صرف اتنا ہی بوال کہ میں بس آپکو چودنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا وہ تو مجھے
        بھی پتا ہے میں اسی لیے آئی ہوں، مگر میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ
        مجھے بلیک میل تم کر رہے ہو؟ اب میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں جو مجھے پریشان
        کر رہے ہیں۔ جب تک تم انکے جواب نہیں دیتے تب تک مجھے سکون نہیں ملے گا۔ اور
        اس حالت میں سیکس کرنے کا بالکل مزہ نہیں آتا۔ تم میرے سوالوں کے جواب دو
        اسکے بعد جو چاہو میرے ساتھ کر لینا۔ تاکہ میں سکون سے کروا سکوں اور چودائی
        کا مزہ بھی لے سکوں۔ میری یہ بات سن کر حیدر کچھ مطمئن ہوا اور بوال کہ پوچھیں
        آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟
        میں نے پوچھا کہ تم اتنے امیر ہو تمہارے پاس پیسہ بھی ہے گاڑی بھی ہے اور بہت
        سی لڑکیاں تم پر مرتی ہیں۔ وہ خوشی خوشی تم سے دوستی کرنے ک لیے تمہیں اپنی
        چوت دینے کو بھی تیار ہیں پھر آخر تم نے میرے ساتھ ہی ایسا کرنے کو کیوں سوچا؟
        حیدر نے جواب دیا کہ مجھے کبھی کوئی لڑکی پسند نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو میں
        اپنی شرم کی وجہ سے اسکو اپنی طرف مائل نہیں کر سکا۔ محض باتھ روم جا کر
        اسکے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مار کر گزارا کرتا رہا۔
        حیدر واقعی میں ایک شرمیلا لڑکا تھا۔ میں نے اگلا سوال کیا کہ اگر تمہیں اتنی شرم آتی
        ہے تو تم نے مجھے چودنے کے بارے میں کیسے سوچ لیا؟ اور اتنی ہمت کیسے کر
        لی؟
        تو اسنے بتایا کہ میں آپکو شروع سے ہی پسند کرتا ہوں۔ جب آپ سائرہ آپکی کے ساتھ
        مجھ سے ملتی تھیں تب سے ہی مجھے آپکے ہونٹ بہت پسند تھے میں آپکے ہونٹوں
        کو چوسنا چاہتا تھا اور آپکے بڑے بڑے ممے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے تو میرا دل کرتا تھا کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیار کروں انکو دباوں اور انہیں
        اپنے منہ میں لے کر چوس لوں۔ اب جب آپکی ویڈیو اور تصویریں دیکھیں اور آپکو
        اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو میرا صبر جواب دے گیا اور میں
        نے ارادہ کر لیا کہ اب آپکو ہر صورت میں حاصل کرکے آپکے ممے دبانے ہیں اور
        آپکی چوت مارنی ہے۔
        پھر میں نے پوچھا کہ یہ ویڈیو تم نے کیسے بنا لی ، تم تو اس دن گھر پر تھے ہی
        نہیں۔
        اس پر پہلے وہ خاموش رہا پھر بوال کہ اس بات کو رہنے دیں آپ۔ میں نے کہا نہیں
        مجھے یہ جاننا ہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا اور کہا پھر آپ مجھ سے وعدہ کریں
        کہ آپ اس بارے میں سائرہ آپی کو کچھ نہیں بتائیں گی اور ان سے دوستی بھی ختم
        نہیں کریں گی۔ اور انہیں کبھی نہ پتا چلے کہ میں نے یہ بات آپکو بتائی ہے۔ میں نے
        وعدہ کیا تو حیدر بوال کہ اصل میں یہ ویڈیو میں نے نہیں بنائی، میں واقعی اس دن گھر
        پر نہیں تھا۔
        تو میں نے حیرانگی سے پوچھا اگر تم نے نہیں بنائی تو پھر کس نے بنائی؟ اور
        تمہارے پاس کیسے آئی۔ تو حیدر نے بتایا کہ یہ ویڈیو سائرہ آپی نے بنائی ہے اور
        انہوں نے ہی مجھے دی ہے۔
        یہ سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا
        کہ واقعی حیدر نے سائرہ کا نام لیا ہے یا پھر بات کچھ اور ہے؟ میں نے پھر حیدر سے
        پوچھا کہ سائرہ نے کیوں بنائی یہ ویڈیو؟ اور آخر اس نے تمہیں کیوں دی؟؟
        اس پر حیدر نے کہا کہ یہ لمبی کہانی ہے۔ میں ایک دن سائرہ آپی کو لیکر انکی ایک
        دوست کے گھر گیااور انہیں دوست کے گھر چھوڑ کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ
        مارکیٹ چال گیا۔ 3 ،4 گھنٹے بعد میں دوبارہ سائرہ آپکے کی دوست کے گھر گیاانہیں
        لینے کے لیے اور گھر کے اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ سامنے ہی گاڑی میں
        سائرہ آپی بیٹھی تھیں اور انکے ساتھ انکی فرینڈ کا بھائی تھا۔ دونوں گاڑی کی پچھلی
        سیٹ پر بیٹھے تھے اور کسنگ کر رہے تھے۔ وہ لڑکا سائرہ آپی کے ہونٹ چوس رہا
        تھا اور سائرہ آپی بھی کسنگ میں اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں۔ سائرہ آپی اس
        لڑکے کی گود میں بیٹھیں تھیں اور ہلکا ہلکا اچھل رہی تھیں جیسے اسکے لن کے اوپر
        اپنی چوت کو دبا رہی ہوں۔ اور لڑکے کے ہاتھ سائرہ آپی کے مموں پر تھے۔ اور وہ
        مسلسل کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سائرہ آپی کے ممے دبا رہا تھا۔ اچانک ہی سائرہ
        آپی کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو وہ ہڑ بڑا کر اسکی گود سے اتر گئیں اور اس لڑکے نے بھی مجھے دیکھا تو چپ چاپ گاڑی سے نکل کر واپس اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔
        سائرہ آپی فورا گاڑی سے باہر آئیں اور مجھے کھینچتے ہوئے گاڑی کے اندر بٹھا کر
        دروازہ بند کیا اور میری منتیں کرنے لگ گئیں کہ پلیز یہ بات کسی کو مت بتانا۔ میں تو
        ایسے ہی اسکے ساتھ مستی کر رہی تھی جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کوچھ نہیں۔ مستی
        کے علاؤہ اور کچھ نہیں کیا میں نے اسکے ساتھ صرف کسنگ ہی کی ہے۔ میں نے
        غصے سے کہا آپ اسکی گود میں بیٹھیں کیا کر رہی تھیں؟ صرف کسنگ؟ تو سائرہ آپی
        شرمندہ ہوکر بولیں وہ میں ویسے ہی اسکو چھیڑ رہی تھی تنگ کرنے کے لیے لیکن
        پلیز میرے بھائی یہ بات کسی کو نا بتانا پلیز پلیز۔
        مزید حیدر نے کہا کہ جب میں نے اس لڑکے کو سائرہ آپی کے ممے دباتے ہوئے دیکھا
        تو مجھے فورا آپکی یاد آگئی اور میرا بہت دل کیا کہ اس وقت اس لڑکے کی جگہ میں
        ہوتا اور سائرہ آپی کی جگہ فائزہ میری گود میں بیٹھی ہوتی اور میں فائزہ کے ممے
        دباتا ایسے ہی۔ جب سائرہ آپی نے میری منتیں کیں تو میں نے سوچ لیا کہ اب سائرہ آپی
        ہی مجھے یہ موقع دیں گی کہ میں آپکے ممے حاصل کر سکوں۔ تبھی میں نے سائرہ
        آپی کو آپکے بارے میں بتایا کہ میں آپکو بہت پسند کرتا ہوں۔ اگر سائرہ آپی آپکو میرے
        بیڈ روم تک پہنچا دیں تو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاوں گا اور سائرہ آپی فورا ہی مان
        گئیں میری بات۔ اور ساتھ ہی کہا مجھے پہلے ہی شک تھا تم جس طرح بھوکی نظروں
        سے فائزہ کے مموں کی طرف دیکھتے تھے مجھے پتا تھا تم اسکے مموں کو حاصل
        کرنا چاہتے ہو۔ اسکے بعد ہم گھر واپس آگئے اور سائرہ آپی نے وعدہ کیا کہ وہ اس
        معاملے میں میری پوری مدد کریں گی۔
        پھر اس دن جب سائرہ آپی آپکے گھر آئیں تو انکا مقصد یہی تھا کہ آپکا ہمارے گھر آنا
        جانا شروع ہو اور آہستہ آہستہ آپکی میرے ساتھ بھی فریکنیس بڑھ جائے تو آسانی
        ہوجائے گی آپکے ممے حاصل کرنے میں ۔ ساتھ میں آپکے منگیتر بھی آگئے ہمارے
        گھر۔ اور جب آپ لوگ سوئمنگ کر رہے تھے تبھی سائرہ آپی نے سوچا کہ آپکو اور
        آپکے منگیتر کو موقع دیں کہ آپ ایکدوسرے کو پیار کرو۔ سائرہ آپی کو پتہ تھا کہ جب
        آپکے منگیتر آپکو برا اور پینٹی میں گیلے جسم کے ساتھ دیکھیں گے تو وہ آپکو پیار
        ضرور کریں گے اور سائرہ آپی آپکی تصویریں بنا لیں گی۔ مگر آپ دونوں نے تو حد ہی
        کر دی سائرہ آپی نے صرف پیار کرنے کا موقع دیا تھا اور آپ لوگوں نے وہیں پر چدائی
        بھی شروع کر دی۔ اور اس طرح میرا کام بن گیا۔
        یہ آخری الفاظ کہتے ہوئے حیدر کا لہجہ بڑا معنی خیز تھا جیسے اسنے کوئی فتح
        حاصل کر لی ہو اور جو وہ چاہتا تھا وہ ہوگیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری منگیتر سمیرا کو بھی اس بارے میں علم ہے؟
        تو اسنے بتایا کہ نہیں سمیرا کو اس پورے معاملے کا کوئی علم نہیں۔ جب سائرہ آپی
        اوپر سے آپ دونوں کو سوئمنگ پول میں پیار کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں تو سمیرا
        بھی ساتھ تھی، مگر جیسے ہی آپکے منگیتر نے اپنا لن باہر نکالا تو سمیرا کمرے سے
        باہر چلی گئی اور سائرہ آپی نے کمرے کی کنڈی لگا کر آپکا پورا چدائی کا شو ریکارڈ
        کیا اور بعد میں ویڈیو اور تصویریں مجھے دے دیں کہ اب آگے جو کرنا ہے تم خود
        کرو۔
        یہ سب سن کر ہم دونوں کافی دیر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آخر
        سائرہ نے ایسا کیوں کیا؟ اسنے اپنی عزت بچانے کے لیے میری عزت داو پر لگا دی۔
        مجھے غصہ بھی آرہا تھا۔ اب مجھے اس ہوٹل کے کمرے میں آئے ہوئے قریبا آدھے
        گھنٹے سے زیادہ کا ٹائم گزر چکا تھا۔ پھر میں اپنی سوچوں سے نکل کر واپس کمرے
        میں آئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ اس وقت ایک لڑکا بیٹھا ہے جو مجھے
        چودنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور میں بھی اس سے اپنی چوت مروانے کے لیے
        اپنے بال صاف کرکے آئی ہوں۔ یہ سوچ کر میرا جسم گرم ہونے لگا۔
        اور میں نے سوچا کہ اب جس کام کے لیے آئی ہوں وہ کر لینا چاہیے۔ میں نے حیدر کا
        ہاتھ پکڑا تو وہ اب ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگ پر رکھ دیا۔ اور اپنا
        ہاتھ اسکی ٹانگ پر رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ میں اسکی تھائی کو دبانے لگی اور اس سے
        پوچھا اب تم اپنی فائزہ آپی کے ممے دبانا چاہتے ہو یا نہیں؟؟ تو حیدر خوشی سے بوال
        اسی کے لیے تو اتنی محنت کی ہے۔ اسکی اس بات کے مکمل ہوتے ہی میں اٹھی اور
        اسکی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے ہونٹ حیدر کے ہونٹوں پر رکھ کر
        انکو چوسنا شروع کر دیا۔ حیدر نے بھی اپنے دونوں ہاتھ میری گردن پر رکھے اور
        میرے ہونٹوں پر ااپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چوسنے لگا۔ وہ بڑی بیتابی اور شدت سے
        میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کی زبانیں آپس میں لڑائی کر رہی
        تھی اور ایکدوسرے کو خوب ٹکریں مار رہی تھیں۔ میں نے اپنا منہ کھوال اور حیدر کی
        زبان کو اپنے منہ میں داخل ہونے دیا۔ اسنے جیسے ہی زبان میرے منہ میں ڈالی میں
        نے اسکو بڑی گرمجوشی کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں کی کسنگ جاری
        تھی، میں نے حیدر کے ہاتھ پکڑے اور گردن سے ہٹا کر اپنی گانڈ پر رکھ دیے اور کہا
        اپنی فائزہ آپی کے چوتڑ بھی دباو۔ اس نے جیسے ہی میرے چوتڑ محسوس کیے جو
        گوشت سے بھرے ہوئے تھے تو فورا ہی انکو دبانا شروع کر دیا۔ اب اسکی کسنگ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        جاری ہے ملتے ہیں جلد ہی اگلی قسط میں جلی ہی خوش رہو اور آباد رہو ۔۔۔۔

        Comment


        • #54
          سالی پورے گھر والی
          قسط 15
          اور بھی تیزی آگئی تھی اور اسکی گرم سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔
          کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کرنے کے بعد میں اسکی گود سے اٹھی اور منہ دوسری
          طرف کر کے دوبارہ اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اب میری کمر حیدر کی طرف تھی اور میں
          اپنی ٹانگیں موڑ کر حیدر کی گود میں بیٹھی تھی میری گانڈ حیدر کے لن کے بالکل اوپر
          تھی ۔ اسطرح بیٹھنے کے بعد میں نے حیدر کی طرف گردن موڑی اور دوبارہ سے اپنے
          ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے اور اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ
          دیے۔ حیدر کے ہاتھوں نے جیسے ہی میرے مموں کی نرمی کو محسوس کیا تو اسکو
          تو جیسے ایک کرنٹ لگ گیا اور اس نے انکو زور زور سے دبانا شروع کر دیا اور بہت
          ہی بیتابی کے ساتھ میرے ہونٹ بھی چوسنا شروع کر دیے۔ اب اسکے ہونٹ جیسے
          میرے ہونٹوں کو چھیل رہے تھے اور وہ مسلسل میرے مموں کو مسل رہا تھا اپنے
          ہاتھوں سے۔ مجھے نیچے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہو رہا تھا۔ جب حیدر
          میرے ممے زیادہ ہی دور سے دباتا تو درد کی شدت سے میں اپنی گانڈ اوپر ہوا میں
          اٹھا لیتی اور میرا جسم اکڑ جاتا۔ وہ میرے مموں کو اور زور سے دبا کر مجھے دوبارہ
          سے اپنی گود میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتا۔ 2 منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ اب میں پھر
          اسکی گود سے اتری اور اسکی طرف منہ کر کے پھر سے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں
          سے مالدیے اور ساتھ ہی اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ سارے بٹن کھول کے میں
          نے اسکی شرٹ اتار دی اور اسکو دھکا دیکر بیڈ پر لٹا دیا۔ اب میں اسکے اوپر جھک
          کر اسکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ اسکا سینہ بالوں سے صاف تھا اور میں اپنی زبان
          سے اسکا سینہ چاٹ رہی تھی۔ کبھی اسکے نپلز پر اپنی زبان پھیرتی تو کبھی اسکا
          سینہ چاٹنے لگتی۔ اس نے بھی میرا اپر کمر سے اوپر کر دیا اور اپنے ہاتھ میری کمر
          پر مسلنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے میرا اپر بھی اتار دیا۔ اب میرے بڑے بڑے ممے
          اسکے سامنے برا میں قید تھے۔ اسنے مجھے اپنے اوپر سے ہٹایا اور مجھے بیڈ پر لٹا
          کر خود میرے اوپر آگیا۔
          میرے اوپر آتے ہی اس نے پہلے تو اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنا شروع
          کیے اور ساتھ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو برا کے اوپر سے ہی
          دبانے لگا۔ پھر وہ میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر میرے سینے پر زبان پھیرنے لگا اور
          وہاں سے ہوتا ہوا اب اسکی زبان میری کلیوج کی گہرائی میں داخل ہوکر گویا میری
          کلیوج کی چدائی کر رہی تھی۔ حیدر بڑی شدت سے میری کلیوج کو چاٹ رہا تھا اور
          دونوں ہاتھ سے میرے مموں کو دبا بھی رہا تھا۔ اسنے میرا برا اتارنے کی کوشش کی
          تو میں نے منع کر دیا کہ نہیں ابھی نہیں۔ پھر وہ مزید میرے ممے برا کے اوپر سے ہی چوسنے لگا اور مموں سے ہوتا ہوا وہ نیچے آنے لگا۔ ناف پر زبان پھیرنے کے بعد وہ
          مزید نیچے آیا اور ٹانگوں اور پیٹ کے ملاپ والی جگہ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔
          مجھے حیدر کا اسطرح میرے جسم کو چاٹنا بہت اچھا لگ ر ہا تھا۔ اب اس نے میرے
          ٹراؤزر کو پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر بھی اتار دیا۔ میں اب حیدر کے
          سامنے ننگی لیٹی تھی، میرے جسم پر محض ایک برا اور ایک جی سٹرنگ پینٹی تھی۔
          اب وہ اپنے ہاتھ میری تھائیز پر پھیر رہا تھا اور انہیں دبا دبا کر خوش ہورہا تھا۔ بالوں
          سے پاک نرم اور ملائم تھائیز پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب اسنے میری تھائیز کو زبان
          سے چاٹنا شروع کر دا جس سے مجھے عجیب گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ میری چوت
          کے بالکل قریب اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا اور زبان میری تھائز پر مسلسل نیچے سے اوپر
          کی طرف پھیر رہا تھا۔ میری چوت گیلی ہو رہی تھی اور یہ گیلا پن پینٹی کو بھی گیلا کر
          چکا تھا۔
          اب حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگا دیں۔
          میری گانڈ اوپر اٹھ چکی تھی۔ میرے چوتڑوں پر بھرا بھرا گوشت دیکھ کر حیدر کے منہ
          میں پانی آنے لگا اور وہ فورا میرے چوتڑوں کے اوپر جھک کر ان پر اپنی زبان
          پھیرنے لگا۔ میرے مکمل چوتڑ ننگے تھے اور دودھ کی طرح سفید تھے۔ جی سٹرنگ
          پینٹی کی بیک سائڈ محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ چوتڑوں کی لائن میں جا کر گانڈ کے
          سوراخ کو ڈھانپ سکے۔ اسکے علاؤہ تمام چوتڑ ننگے ہوتے ہیں اور حیدر اسکا
          بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے چوتڑ چاٹ رہا تھا، آہستہ آہستہ اسکی زبان چوتڑوں
          کے گوشت سے ہوتی ہوئی گانڈ والی لائن میں جانے لگی۔ تھوڑی دیر اس نے گانڈ والی
          لائن میں اپنی زبان پھیری جس نے میری چوت کو اور بھی گیلا کر دیا ۔
          اب حیدر نے میری پینٹی اتارنی چاہی تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا وہ نیچے
          لیٹے۔ وہ نیچے لیٹ گیا تو میں نے اوپر آکر اسکا ٹراوزر اتار دیا۔ اب وہ بھی میرے
          سامنے ننگا تھا محض انڈر وئیر پہنا ہوا تھا۔ انڈر وئیر میں اسکے لن کا ابھار کافی
          واضح تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اسکے لن کے اوپر رکھا اور اسکا سائز ماپنے کی کوشش
          کی۔ اسکا لن چھوٹا تھا شاید 5 انچ سے کچھ زیادہ ہوگا۔ یا پھر 6 انچ کا ہوگا مگر اس
          سے زیادہ نہیں تھا۔ اب میں اسکے لن کے اوپر بیٹھ گئی اور اپنی گانڈ پر اسکے لن کو
          محسوس کرنے لگی۔ اسکا لن میری چوت سے ٹکرا رہا تھا جس نے میرے شہوت میں
          اور بھی اضافہ کر دیا۔ اب میں نے اسکے اوپر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھ کمر پر لیجا
          کر اپنے برا کی ہک کھول دی اور اپنے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ میرے
          ممے برا کی قید سے نکلتے ہی حیدر کی آنکھوں کے سامنے اچھلنے لگے۔ میں آہستہ آہستہ اسکے لن پر اچھل رہی تھی جسکی وجہ سے میرے 34 سائز کے ممے میرے
          سینے پر لہرانے لگے۔ انکو دیکھ کر حیدر کی تو رال ٹپکنے لگی اور اس اب حیدر سے
          مزید نہ رہا گیا اور اسنے فورا ہی مجھے کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔ اور میرے
          ممے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اسنے میرے دونوں ممے اپنے دونوں ہاتھوں
          سے پکڑے ہوئے تھے اور ایک مما منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر
          بعد مما چینج کر کے اپنے منہ میں لیتا اور اسکو چوسنے لگتا۔ حیدر کا بس نہیں چل رہا
          تھا کہ وہ پورے کا پورا مما اپنے منہ میں لیکر کھا جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ منہ
          میں لینے کی کوشش کر ررہا تھا۔ تھوڑی دیر میں نے اسکو ایسیے ہی ممے چوسنے
          دیے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ میرے نپل بھی منہ میں لیکر انکو کاٹے اور انکو
          چوسے۔ اسنے فورا ہی میرے نپل کو منہ میں لے لیا اور اسکو ایسے چوسنے لگا
          جیسے بچہ اپنی ماں کے سینے سے دودھ پیتا ہے۔ میرے نپل مکمل تنے ہوئے تھے۔
          اور حیدر مسلسل اسکو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ کبھی نپل کو چوستا تو
          کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا تو کبھی اپنی زبان پھیرتا میرے نپلز پر۔
          میرے منہ سے مسلسل اف اف اف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکل رہی
          تھیں مگر میری آواز دھیمی تھی کیونکہ یہ ہوٹل کا کمرہ تھا اور آواز باہر جانے کا
          خطرہ تھا۔
          جب حیدر نے دل بھر کر میرے ممے چوس لیے تو میں دوبارہ سے اسکے اوپر بیٹھ
          گئی۔ اسکا لن میری گانڈ کی لائن میں مجھے محسوس ہورہا تھا۔ اب میں نے اسکے لن
          کے اوپر مچلنا شروع کر دیا۔ میں اسکے لن پر مسلسل اپنی گانڈ کو گھما گھما کر مزے
          لے رہی تھی اور حیدر میرے اچھلتے ہوئے ممے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ ساتھ
          ساتھ اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ میں مسلسل اسکے لن پر اچھل
          رہی تھی اور اپنی گانڈ کو اسکے لن پر گول گول گھما رہی تھی، اچانک حیدر کا جسم
          اکڑنے لگا اور اسکے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ اور مجھے نیچے سے اپنی گانڈ
          گیلی محسوس ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو حیدر کا انڈر وئیر گیلا تھا اور اسکی منی
          نکل چکی تھی۔ یہ دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کر
          دیا۔ میں مسلسل ہنس رہی تھی اور حیدر تھوڑا شرمندہ تھا۔ میں نے اسے کہا کیسے مرد
          ہو یار تم ابھی تو تمہارا لن باہر بھی نہیں نکالا اور اس نے پانی بھی چھوڑ دیا۔۔۔ اس
          سے کوئی بات نہیں ہورہی تھی بس چہرے سے شرمندگی ٹپک رہی تھی۔ پھر میں نے
          اسے حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں تم نے کبھی کسی لڑکی کی چودائی نہیں کی تو
          ہوجاتا ہے ایسے۔ ابھی دوبارہ کھڑا ہوجائے گا۔ یہ کہ کر میں خود لیٹ گئی اور اسکو کہا تم نے فرمائش کی تھی چوت کے بال صاف کرنے کی اب چوت نہیں دیکھو گے میری؟
          میری یہ بات سن کر وہ فورا اٹھا، سب سے پہلے اس نے اپنا انڈر وئیر اتار کر سائیڈ پر
          پھینکا نیچے اسکا چھوٹا سا لن تھا جو پانی چھوڑنے کے بعد سُکڑ گیا تھا اور اب 2
          انچ کا رہ گیا تھا۔ اسکو حیدر نے پاس پڑے ٹشو پیپر کے ڈبے سے ٹشو نکال کر صاف
          کیا اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر میری چوت پر پینٹی کے اوپر سے ہی
          ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ میری چوت ایک بار پھر سے گیلی ہونے لگی، حیدر نے پینٹی
          اتارے بغیر ہی اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور پینٹی کے اوپر سے ہی میری چوت
          چاٹنے لگا۔ اب میری سسکیاں تیز ہوگئیں تھیں اور میں چاہنے کے باوجود بھی اپنی
          آواز نیچی رکھنے میں ناکام تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی میری چوت چاٹنے کے بعد حیدر
          نے میری پینٹی اتار دی۔ نیچے اس میری بالوں سے پاک صاف ستھری پھدی نظر آئی۔
          وہ شکاری نظروں سے میری پھدی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور پھر آہستہ آہستہ
          جھکتا گیا اور اپنی زبان میری پھدی سے کچھ اوپر پھیرنےلگا جس سے میرے جسم
          میں جھر جھری سی آئی اور میری سسکیاں اور تیز ہوگئیں۔ میں نے اسکو سر سے پکڑ
          کر اپنی پھدی کے اوپر دبانا شروع کر دیا۔ پھر حیدر نے اپنی زبان نیچے کی اور میری
          پھدی کے لبوں پر زبان پھیرنے لگا اب میری پھدی مکمل طور پر گیلی تھی اور مسلسل
          سسکیوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ کچھ دیر پھدی کے لبوں کو چوسنے کے بعد حیدر نے
          اپنی زبان میری چوت کے اندر داخل کر دی اور اپنی زبان سے میری چوت چاٹنے لگا۔
          میں پاگل ہورہی تھی اور بری طرح مچل رہی تھی۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں فولڈ کی
          ہوئی تھیں اور میری ٹانگوں کے درمیان حیدر کا سر تھا اور زبان مسلسل میری پھدی
          کی چدائی میں مصروف تھی۔ کچھ دیر مزید پھدی کی چدائی کے بعد اس نے میری
          ٹانگیں اوپر اٹھا کر فولڈ کیں اور سینے سے لگا دیں۔ اور میرے چوتڑون والی لائن میں
          اپنی زبان پھیرنے لگا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی لڑکا میری گانڈ چاٹ رہا تھا اپنی زبان
          سے۔ اس نے اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اس پر زور زور
          سے ٹکرانے لگا۔ یہ بالکل نیا احساس تھا میرے لیے۔ میری چوت سے شہوت کا پانی
          بہہ رہا تھا اور میری سسکیاں تھیں کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایسے تو
          رضوان نے بھی چوت نہیں چاٹی تھی جیسے حیدر چاٹ رہا تھا اور ساتھ میں وہ گانڈ کو
          بھی چاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری چوت میں زبان
          پھیرنے لگا۔ اب اسکی زبان بہت تیزی کے ساتھ میری چوت کی چدائی کر رہی تھی
          اورمیری برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ دیر مزید زبان کی چدائی کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور چند جھٹکوں کے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔
          اب میں حیدر کے نیچے سے نکلی تو اسکا لن دوبارہ سے تھوڑا سخت ہو چکا تھا۔ میں
          نے اسکو نیچے لٹایا اور اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی کو
          پاکر حیدر کے لن میں اور سختی آنے لگی اور اسکی لمبائی میں بھی اضافہ ہونے لگا۔
          کچھ ہی دیر چوسنے کے بعد اسکا لن 5 سے 6 انچ تک لمبا ہو چکا تھا اور اسکی
          سختی دوبارہ سے واپس آ چکی تھی۔ میں اپنے ہاتھ سے اسکے لن کو مسل بھی رہی
          تھی اور اسکی ٹوپی کو منہ میں لیکر چوس بھی رہی تھی۔ میں نے اسکے لن کی ٹوپی
          پر تھوڑا سا تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے اسکے پورے لن پر مسل دیا
          اور پھر سے اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اب اسکا پورا لن میرے منہ میں تھا
          اور میں اسکو مسلسل اندر باہر کر رہی تھی۔ لن منہ میں اندر باہر کرنے کے ساتھ ساتھ
          میری زبان بھی لن کا مساج کرنے میں مصروف تھی۔ ابھی لن چوستے ہوئے مجھے 3
          منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ حیدر کے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اسکی
          ساری منی میرے منہ میں ہی نکل گئی۔ اس بات پر مجھے بے تحاشہ غصہ آیا۔ وجہ یہ
          نہیں تھی کہ میرے منہ میں منی کیوں نکالی بلکہ غصے کی وجہ یہ تھی کہ دوسری بار
          اس نے بہت جلدی منی چھوڑ دی تھی۔ میں ابھی اسکے لن کو اپنی چوت میں ڈالنے کا
          سوچ ہی رہی تھی کہ اسکے لن نے منی چھوڑ دی۔
          میں نے حیدر کی طرف غصے سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ دوسری بار بھی تم
          اتنی جلدی فارغ ہوگئے۔ تو حیدر نے کہا معلوم نہیں کیا ہورہا ہے مٹھ مارتے ہوئے تو
          6 ،7 منٹ مسلسل مٹھ مار لیتا ہوں اسکے بعد ہی منی نکلتی ہے۔ آج بہت جلدی نکل
          رہی ہے۔۔ میں نے اسے غصے سے کہا اب اسکوجلدی کھڑا کرو اور میری چوت میں
          داخل کرو۔ حیدر شرمندہ ہوکر واش روم گیا۔ وہاں جا کر اسنے اپنے لن کو دھویا اور پھر
          میں نے جا کر کلی کی اور اپنا منہ صاف کیا۔ حیدر کا لن اب پھر سے سُکڑ کر 2 انچ کا
          ہوچکا تھا جسکو حیدر مسلسل ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور
          میں مسلسل غصے میں اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ 2 ،3 منٹ تک انتظار کرنے کے
          باوجود جب اسکا لن کھڑا نہیں ہوا تو میں لیٹ گئی اور اسکو کہا دوبارہ سے میری
          چوت کو اپنی زبان سے چاٹے شاید تھوڑا ٹائم گزرنے کے بعد لن کھڑا ہوجائے۔
          میری چوت اب بالکل خشک ہو چکی تھی، حیدر نے میری ٹانگیں کھول کر دوبارہ سے
          میری چوت پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی تو آہستہ آہستہ میری چوت کا گیلا پن واپس
          آنے لگا اور میرا جسم ایک بار پھر سے گرم ہونا شروع ہوگیا۔ اس بار حیدر اور بھی
          زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اب میں مکمل طور پر گرم ہوچکی۔

          Comment


          • #55
            Maza aagya yaha haider ny video bhe bnai hogi

            Comment


            • #56

              سالی پورے گھر والی
              قسط 16
              تھی اور اب میری چوت تیار تھی لن لینے کے لی۔ حیدر نے اب پیچھے ہٹ کر دوبارہ سے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو جھٹکےمارنے لگا۔ اب اسکا لن آہستہ آہستہ کھڑا ہو رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکا لن مکمل طور پر کھڑا ہوگیا تو میری جان میں جان آئی۔ میں نے اسکو کہا اب میری ٹانگیں اٹھائے اور اپنا لن داخل کر دے میری چوت میں۔حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اورآگے بڑھ کر اپنے لن کی ٹوپی میری چوت پر سیٹ کی اور ایک دھکا لگایا۔ میری چیخ نکل گئی کیونکہ میری پھدی ابھی اتنی کھلی نہیں ہوئی تھی کہ اتنی آسانی سے لن اندر جا سکے۔ میں نے اسکو کہا کہ آرام آرام سے داخل کرو۔ اب حیدر نے آہستہ آہستہ اپنے لن کا پریشر میری پھدی پر بڑھایا تو لن اندر جانے لگا۔ اور مجھے درد بھی شروع ہوگئی تھی۔ کچھ دیر زور لگانے کے بعد حیدر کا پورا لن میری چوت میں داخل ہو چکا تھا۔ اور اسکے چہرے پر خوشی تھی کہ آخر کار اسنے میری چوت حاصل کر لی تھی۔ کچھ دیر لن اندر رہنے کے بعد میں نے اسے کہا کہ اب آہستہ آہستہ دھکے مارنے شروع کرے تو حیدر نے میری چودائی شروع کر دی۔ اسکے دھکوں سے میرے ممے ہلنے لگے تو اسنے میرے اوپر جھک کر ممے چوسنے شروع کر دیے اور نیچے سے اپنے دھکے جاری رکھے۔ اب میری چوت مکمل طور پر گیلی ہو چکی تھی اور حیدر کا لن بڑے آرام کے ساتھ میری چودائی کر رہا تھا۔ میں نے حیدر کو کہا کہ اب اپنے لن کی سپیڈ تھوڑی بڑھاو۔ حیدر جیسے اسی بات کے انتظار میں تھا۔ میری بات سنتے ہی اسنے ایک دم سے زور دار دھکے لگانے شروع کر دیے۔مگر اسکے یہ زور دار دھکے ابھی محض 5 ،6 ہی لگے تھے کہ اسکے جسم کو جھٹکے لگے اور اسکے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اب تو جیسے میرا سارا صبر جواب دے گیا۔ میں نے اسکو پیچھے دھکا دیا اور ایک بڑی ساری گالی دی۔ اور کہا کہ شوق تمہیں چوت لینے کے ہیں اور لن تمہارا 2 منٹ سے زیادہ چدائی نہیں کر سکتا۔ اب میرا موڈ بری طرح خراب ہوچکا تھا۔ حیدر کا لن 3 بار پانی چھوڑ چکا تھا جبکہ میری چوت ابھی محض ایک بار ہی پانی چھوڑ سکی تھی۔میں بستر سے اٹھی ٹشو اٹھا کر اپنی چوت کو صاف کیا اور کپڑے پہننے لگی۔ حیدر چپ چاپ بیڈ پر بیٹھا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا تھا جبکہ میں غصے سے اسے گھور رہی تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد میں نے پانی پیا، اپنا بیگ اٹھایا اور اسکو پھر سے ایک گالی دی اور نا مردی کا طعنہ دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ ہوٹل کے گیٹ پر آگئی۔ اب میں روڈ پر کھڑی تھی اور غصہ میرا اچھا خاصا تھا، مگر میری چوت کو ابھی بھی لن چاہیے تھا۔اور مجھے اس وقت بہت شدت کے ساتھ کسی اصل مرد کے طاقتور لن کی ضرورت تھی ۔ بالآخر میں نے فون نکالا اور رضوان کو کال کر کے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہے؟ اس نے پوچھا خیریت ہے بہت غصے میں لگ رہی ہو۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں غصے میں نہیں ہوں مگر اس وقت تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان نے پھر پوچھا کہ تم ہو کہاں؟ تو میں نے بتایا کہ میں سائرہ کے گھر گئی تھی اور سوئمنگ کی تو مجھے وہی وقت یاد آگیا جب تم میری چدائی کر رہے تھے۔ اور اب میری چوت گیلی ہو رہی ہے میں شہر میں آچکی ہوں اور تم جیسے بھی ہو ایک بار مل لو میرے سے۔ یہ بات سن کر وہ ہنسا اور کہا واہ کیا بات ہے۔ اس نے مجھے بتایا کو وہ علی کے گھر ہے۔ وہی علی جسکے گھر وہ مجھے ایک بار پہلے پارٹی پر لے گیا تھا۔ رضوان نے مجھے کہا کہ یہاں اور لوگ بھی آئے ہوئے ہیں تم بھی یہیں پر آجاو۔ میں نے فون بند کیا اور ایک رکشہ روک کر اسکو ایڈریس بتا کر رکشے میں بیٹھ گئی۔ رکشے میں بیٹھ کر میں نے موبائل واپس بیگ میں ڈالا تو میری نظر خفیہ کیمرے پر پڑی میں نے کیمرے کی ریکارڈنگ بند کی اور پین کو محفوظ جگہ پر بیگ کے اندر والی جیب میں رکھ دیا۔ اب میرا رخ علی کے گھر کیطرف تھا اور میں اس وقت رضوان کے لن کے لیے بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔کچھ ہی دیر میں رکشہ علی کے گھر کے سامنے رکا۔ میں نے رکشے والے کو پیسے دیے اور گیٹ سے علی کے گھر میں داخل ہوگئی۔ مین گیٹ کھال تھا لہذا میں بے دھڑک اندر چلی گئی۔ اندر جا کر اب میرا رخ اسی دروازے کی طرف تھا جس دروازے پر پہلےرضوان نے میرے ممے دبائے تھے۔ میں جب اس دروازے پر پہنچی تو وہاں علی اپنیگرل فرینڈ کے ساتھ موجود تھا۔دونوں آس پاس سے بے خبر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے۔ میں انکے پاس پہنچی مگر انہیں پتہ نہیں چال۔ میں نے ہلکا سا اونہہ اونہہ کیا، یعنی کے ہلکا سا کھانسی تو علی کو ہوش آیا۔ اس نے اپنی گرل فرینڈ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور میری طرف دیکھا۔ میں نے ہائے بولا تو علی فورا آگے بڑھااور مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا حال وغیرہ پوچھا۔ میں نے کہا میں ٹھیک ہوں آپ سنائے کیا چل رہا ہے۔ تو علی مسکرایا اور کہا جو چل رہا تھا تم نےدیکھ ہی لیا ہے۔ یہ کہ کر اس نے قہقہ لگایا اور میرے مموں پر نظر گاڑتے ہوئے بوال جاو نیچے رضوان نیچے ہی ہے۔ میں فورا نیچے چلی گئی، نیچے پہنچ کر جیسے ہی مین ہال میں داخل ہوئی تو وہاں جو میں نے دیکھا وہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میرے سامنے ندیم بالکل ننگا کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا جسکے ساتھ میں نے ڈانس کیا تھا اور ڈانس کرتے ہوئے وہ بار بار اپنا لن میری گانڈ سے ٹچ کر رہا تھا اور ایک بار میں نے اسکی گود میں بیٹھ کر اسکو کسنگ بھی کی تھی اور موقع ملنے پر اسکے لن پر اپنا ہاتھ بھی رکھا تھا۔جو لن میں نے کپڑوں میں چھپا ہوا محسوس کیا تھا آج اس لن کو دیکھ بھی لیا۔ ندیم کا لن مکمل کھڑا تھا اور اسکے سامنے ایک لڑکی بیٹھی تھی وہ بھی ننگی تھی ایک ہاتھ سے وہ اپنا ایک مما دبا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے ندیم کا لن پکڑا ہوا تھا۔اور منہ میں ڈال کر ندیم کا 8 انچ لمبا اور موٹا لن چوس رہی تھی۔ میرے قدموں کی آواز سن کر ندیم میری طرف متوجہ ہوا تو لڑکی نے اسکا لن اپنے منہ سے نکال دیا۔ جیسے ہی اس لڑکی نے ندیم کا لن چھوڑا وہ ایک دم سے تن کر کھڑا ہوگیا اور اسکا رخ چھت کی طرف تھا۔ میں اتنا بڑا لن دیکھ کر کھڑی پھٹی آنکھوں سے اسکو دیکھنے لگی تو اچانک مجھے ندیم کی آواز آئی "ہیلو فائزہ کیسی ہو تم؟" اسکی آواز سن کر میں نے اسکی طرف دیکھا اور رضوان کے بارے میں پوچھا اور دوبارہ اسکا لن دیکھنے لگی تو ندیم نے کہا رضوان اندر کمرے میں ہے تم چلی جاو کمرے میں۔ جس کمرے کا ذکر کیا ندیم نے وہ اسکے ساتھ ہی تھا جہاں ہو کھڑا تھا۔ میں ندیم کی طرف بڑھنے لگی اور میری نظریں مسلسل ندیم کے لن پر تھیں جس کو اب اس لڑکی نے دوبارہ سے منہ میں لے لیا تھا اور اسکو چوس رہی تھی۔ ندیم کے پاس پہنچ کر میں بائیں جانب بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ میری پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی اور اب میں جلد سے جلد رضوان کے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چاہتی تھی۔ جیسے ہی میں نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اندر کا نظارہ دیکھ کر تو میری ساری شہوت ختم ہوگئی اور اسکی جگہ غصے نے لے لی۔ میرے سامنے رضوان ایک لڑکی کے ممے چوسنے میں مصروف تھا۔ لڑکی کی گانڈ میری طرف تھی اور وہ مکمل ننگی تھی۔ موٹی گانڈ پر رضوان کے ہاتھ تھے اور وہاسکی گانڈ کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔ جبکہ اسکے ممے رضوان کے منہ میں تھے۔یہ دیکھ کر میں نے زور سے چیختے ہوئے رضوان کا نام لیا، رضوان کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا اور اسنے ایک دم اسکے مموں کو چھوڑ کر میری طرف دیکھا۔ میں چلائی کہ یہ کیا کر رہے ہو تم؟ تو رضوان اسکو چھوڑ کر میری طرف بڑھا اور کہا کچھ نہیں یار تمہارا انتظار کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی تو ۔۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی بوال تھا کہ میں دوبارہ چلائی "تو تم نے دوسری لڑکی کو پکڑ لیا؟" وہ بولا "نہیں یار، یہ میرے کمرے میں آئی تو میں تو بس کسنگ کر رہا تھا جیسے اس دن پارٹی میں بھی کی تھی مگر پھر ۔۔۔۔۔۔۔" یہ کہ کر اس نے سر جھکا لیا۔ وہ شرمندہ تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال پا رہا تھا۔ میں زور سے چلائی کہ اب اسے سے کام چالو اور آئندہ میرے بارے میںسوچنا بھی مت۔یہ کہ کر میں کمرے سے نکلی اور واپس جانے لگی تو رضوان میرے پیچھے بھاگا اور سوری فائزہ، سوری یار کہتا ہوا مجھ تک پہنچ گیا اور مجھے منانے لگا۔ مگر میں نے اسکو سختی سے منع کر دیا کہ خبردار جو مجھے چھوا بھی ۔ رضوان میرا راستہ روک کر کھڑا تھا اور مسلسل مجھ سے معافی مانگ رہا تھا مگر میں تھی کہ اسکی ایک بات سننے کو تیار نہیں تھی۔ میرے ساتھ ہی ندیم اسی لڑکی کی چدائی میں مصروف تھا جو کچھ دیر پہلے اسکا لن چوس رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے لن اس لڑکی کی چوت سے نکالا اور ہماری طرف آکر بولا کہ کیا ہوا کس بات پر لڑائی ہو رہی ہے۔ تو رضوان نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار وہ اندر رافعہ تھی نا میں اسکے ممے چوس رہا۔تھا تو یہ دیکھ کر فائزہ کو غصہ آگیا۔ میں ایک بار پھر چلائی کے میرے راستے سے ہٹ جاو اور جا کر اپنی رافعہ کے ساتھ ہی مستی کرو۔ یہ سن کر ندیم نے رضوان کو کہا تم اندر جاو میں فائزہ سے بات کرتا ہوں۔ میں نے کہا مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں غصے سے کانپ رہی تھی اور اس وقت مجھے ندیم کے کھڑے ہوئے لن میں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ندیم نے ایک بار پھر رضوان سے کہا یار تو اندر کمرے میں جا فائزہ ابھی تیرے پاس آجائے گی۔ رضوان نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار میں تو فائزہ سے سوری کر رہا ہوں مگر یہ مان ہی نہیں رہی۔ میں پھر سے چلائی کے رضوان میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔یہ سن کر ند یم غصے سے بوال "ابے میں تجھے کہ رہا ہوں نہ تو اندر جا میں فائزہ سے بات کرتا ہوں ابھی یہ تیرے پاس آجائے گی تو جا اندر یہ کہتے ہوئے ندیم نے رضوان کو دھکہ دیا اور رضوان مرے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں جانے لگا، میں باہر نکلنے لگی مگر اب کی بار ندیم اپنے لن کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔ اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا۔ میں اب چپ چاپ کھڑی تھی مگر پھر مجھے غصہ آیا اورمیں نے اب کی بار ندیم کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔ رضوان کمرے میں جا چکا تھا۔ ندیم بولا کیوں واپس جانا ہے تمہیں؟ تم تو یہاں رضوان سے چدوانے آئی تھی اب ایسا کیا ہوگیا کہ واپس جانا ہے؟ اسکے منہ سے یہ بات سن کر میں ایک دم چونکی کہ اسکو کیسے پتا کہ میں نے رضوان کو فون پر یہ کہا تھا؟ مگر میں نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہے تم بیچ میں نہ آو۔میری یہ بات سن کر ندیم غصے میں مگر آہستہ آواز میں بولا، ابے او رنڈی بند کر یہ ڈرامہ بازی اور چپ چاپ کمرے میں چلی جا اور اپنی چوت مروا۔ خود بھی مزے کر اور ہمیں بھی مزے کرنے دے۔ ورنہ میں رضوان کو بتا دوں گا کہ تو رضوان سے چدوانے سے پہلے بھی اپنی چوت کسی اور سے مروا چکی ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ اور غصے میں مجھ سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ میرےچہرے کا رنگ بھی غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ مگر پھر میں ہمت کر کے بولی یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ ندیم بوال کہ رضوان سیدھا سادھا لڑکا ہے وہ تیرے بارے میں نہیں جانتا مگر سب رضوان جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے تو اس دن پارٹی میں ہی پتا چل گیا تھا کہ تو کنواری نہیں ہے جب کہ رضوان ہم سب کے سامنے قسمیں کھاتا تھا کہ اسکی منگیتر بہت شریف ہے۔ اسی کی خاطر کسی نے تیری طرف بری نظر سے نہیں دیکھا ورنہ ہم تو تجھ جیسا مال چھوڑتے ہی نہیں۔میں اپنے دانت پیستے ہوئے بولی یہ کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ میری بات سن کر وہ ہنسا اور بوال یہ معصومیت کا ناٹک رضوان کے سامنے ہی کرنا میں تو لڑکی کی شکل دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہ لن لے چکی ہے یا نہیں۔ اور پھر وہ بولا اس دن میری گود میں بیٹھ کر جس طرح تو نے اپنی گانڈ میرے لن پر گھمائی تھی میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ تو پہلے لن کا مزہ لے چکی ہے۔ اور پھر تو نے ڈانس کرتے ہوئے جس طرح بار بار اپنی گانڈ میرے لن پر دبائی تھی اس سے بھی اندازہ ہو رہا تھا مجھے کہ تیری چوت کو اس وقت لن کی طلب ہو رہی ہے۔ اور پھر جس طرح تو نے اپنا ہاتھ میرے لن پر پھیرا تھا اس سے تو مجھے یقین ہی ہوگیا کہ تو کنواری نہیں۔ یہ تو ہمارا دوست ہی معصوم ہے جس نے کبھی کسی لڑکی کو نہیں چھوا اور ہماری پارٹیز میں شامل ہوتا بھی تھا تو کبھی ڈانس اور کسنگ سے بات آگے نہیں بڑھائی تھی۔ میں نے پھر دانت پیسے ہوئے کہا تم بکواس کر رہے ہے۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا میں نے کسی سے چوت نہیں مروائی۔ مگر یہ بات کرتے ہوئے میری اپنی آواز کانپ رہی تھی اور میری بات میں بالکل بھی اعتماد نہیں تھا۔ کیونکہ ندیم صحیح کہ رہا تھا۔ میں پہلے ہی اپنی چوت اپنے بہنوئی سے مروا چکی تھی۔ میری بات سن کر ندیم ایک بار پھر ہنسا اور بولا بند کردو اب یہ ڈرامہ۔ چپ چاپ اندر جاو اور رضوان کے لن کو سکون دو۔ اپنی چوت کو بھی سکون دو۔ میں اسکو کبھی نہیں بتاوں گا کہ تم پہلے کسی اور سے چدوا چکی ہو۔ لیکن اگر تم نے یہ ڈرامہ بند نہیں کیا تو میں ابھی جا کر بتا دوں گا اسے اور میرے لیے یہ بات ثابت کرنا بھی مشکل نہیں ۔

              Comment


              • #57
                سالی پورے گھر والی قسط 17


                مجھے نہیں معلوم تھا کہ ندیم کو واقعی یقین تھا کہ میں پہلے چوت مروا چکی ہوں یا
                پھر وہ ہوا میں تیر چھوڑ رہا تھا۔ اگر اس نے ہوا میں تیر بھی چھوڑا تھا تب بھی وہ
                بالکل ٹھیک نشانے پر لگا تھا اور اب میرے دل میں خوف تھا کہ اگر اس نے رضوان
                کو یہ بات کر دی تو رضوان یقین نہ بھی کرے مگر اسکے دل میں شک تو پیدا ہوجائے
                گا۔ اور اب میں اپنی جگہ پر ساکت کھڑی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں
                کیا کروں۔ اتنے میں مجھے ندیم کا قہقہ سنائی دیا اور وہ بولا اب کیا ارادہ ہے؟ اگر میرا
                لن چاہیے تو یہیں کھڑی رہو اور اگر رضوان کا لن چاہیے تو اندر چلی جاو۔ اسکا اتنا
                کہنا تھا میں فورا واپس مڑی اور کمرے میں چلی گئی۔
                اندر گئی تو بیڈر پر رضوان اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا اور دوسری لڑکی اسکے ساتھ
                بیٹھی اسے کہ رہی تھی کم سے کم میرے ساتھ تو سیکس کرو پورا فائزہ کو بعد میں
                مناتے رہنا، مگر رضوان نے کہا پلیز اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ پھر میں بولی
                رافعہ تم پلیز باہر چلی جاو۔ میری آواز سن کر رضوان نے چونک کر میری طرف دیکھا
                تو اسکے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے آثار تھے ،وہ ایک دم اپنی جگہ
                سے اٹھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور دوبارہ سوری کرنے لگا۔ میں نے کہا
                کوئی بات نہیں بھول جاو اس بات کو اب۔ اتنے میں رافع نے اپنا برا اور اپنے کپڑے
                اٹھائے اور مجھے گھورتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
                اسکے جاتے ہی میں نے رضوان کو پیچھے کیا، کمرے کا دروازہ بند کیا اور واپس آکر
                رضوان کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پینٹ اتار کر میں نے
                رضوان کا انڈر وئیر بھی اتار دیا اور اسکا 7 انچ لمبا لن فورا ہی اپنے منہ میں لے لیا
                اور اسکے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔ رضوان نے اوپر سے میرا سر پکڑ لیا اور
                میرے منہ کو زور زور سے لن کے اوپر دھکیلنے لگا تاکہ پورا لن میرے منہ میں جا
                سکے۔ اب میری چوت بھی گیلی ہونے لگی تھی اور میں بہت مزے کے ساتھ رضوان کا
                لن چوسنے میں مصروف تھی، میرے ذہن میں اس وقت حیدر کا لن آرہا تھا جس نے 3
                بار منی چھوڑی تھی مگر میری چودائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اور ایک طرف اب یہ
                رضوان کا لن تھا جس نے میری چدائی تب تک کرنی تھی جب تک کہ میں تھک نا جاوں۔
                میں نے رضوان کے لن پر تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر
                مسل دیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر چوستی رہی۔ کچھ دیر بعد رضوان نے مجھے
                کھڑا کیا اور فورا ہی میرا اپر اتار دیا۔ میرا اپر اتارتے ہی رضوان نے بغیر دیر لگائے
                میرا برا بھی اتارا اور پھر میرا ٹراوزر اور پینٹی اتارنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔
                میری پینٹی اتار کر رضوان نے فورا ہی کھڑے ہوکر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور بڑی ہی شدت کے ساتھ میرے مموں کو چوسنے لگا۔ میرے تنے ہوئے نپلز پر وہ
                اپنی زبان پھیرتا اور انکو دانتوں سے کاٹتا تو میری سسکیاں نکلنے لگ جاتی۔ نیچے
                سے ایک ہاتھ سے رضوان میری چوت کو مسل رہا تھا جو مکمل طور پر گیلی ہو چکی
                تھی۔ کچھ دیر ممے چاٹنے کے بعد رضوان نے مجھے تھوڑا سا پیچھے دھکیلا اور
                مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اور نیچے بیٹھ کر میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے
                پر رکھی اور اپنی زبان میری چوت پر پھیرنی شروع کر دی۔ رضوان کی اس حرکت نے
                میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میرا پورا جسم جلنے لگا۔ وہ میری ٹانگ اپنے
                کندھے پر رکھے مسلسل اپنی زبان کو میری چوت میں پھیر رہا تھا۔ میرے منہ سے بے
                ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں آہ آہ آہ۔۔۔۔ اف اف اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ میری جان۔۔۔۔ اور زور سے
                چاٹو میری چوت کو، میری چوت کو زبان سے چودو، اف اف اف۔۔۔ مسلسل سسکیوں
                سے رضوان کا جوش بھی بڑھتا جا رہا تھا، کچھ دیر چوت چٹوانے کے بعد مجھے
                دوبارہ سے حیدر یاد آیا جس نے پہلی بار میری گانڈ چاٹی تھی۔ جیسے ہی مجھے گانڈ
                کی چٹائی یاد آئی میں نے اپنی ٹانگ رضوان کے کندھے سے نیچے اتاری اور دیوار کی
                طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکالا جس سے میری
                کمر اندر کی طرف دہری ہوگئی اور میں نے رضوان کو کہا میری گانڈ بھی چاٹے۔ میری
                اس فرمائش پر رضوان نے حیرت سے میری طرف دیکھا مگر پھر بغیر کچھ کہے اپنے
                ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو کھولا اور اپنی زبان میری گانڈ پر رکھ کر اسکو بھی
                چاٹنا شروع کر دیا۔ اُف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مزہ آیا تھا مجھے جب رضوان نے میری گانڈ
                چاٹنی شروع کی۔ میری مسلسل سسکیاں نکل رہی تھی۔
                کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد رضوان کھڑا ہوا، میں نے سیدھے ہونے کی کوشش کی تو
                رضوان نے مجھے روک دیا اور کہا ایسے ہی کھڑی رہو، یہ کہ کر اس نے اپنا ایک
                ہاتھ میری چوت پر رکھا اور اپنی انگلی میری چوت میں داخل کر دی۔ میں کانپ کر رہ
                گئی۔ اسکی انگلی پوری کی پوری میری چوت میں داخل ہوگئی تھی اور وہ انگلی سے
                میری چوت کی چودائی کرنے لگا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا لن پکڑا اور
                اس پر اپنا تھوک پھینک کر اسکی مٹھ مار کر اسکو تیار کرنے لگا کچھ ہی دیر بعد
                رضوان نے میری چوت سے اپنی انگلی نکالی اور پیچھے سے اپنا لن میری چوت پر
                رکھا کر ہلکا سا زور لگایا تو چوت کے گیلے پن کی وجہ سے رضوان کی ٹوپی میری
                چوت میں چلی گئی اور میری ہلکی سی چیخ نکلی، پھر رضوان نے ایک زور کا دھکا
                لگایا تو پورا لن میری چوت میں تھا اور پورا کمرہ میری چیخ سے گونج گیا۔ میری چیخ
                لازمی طور پر بھی باہر سنائی دی ہوگی مگر مجھے اس وقت اسکی فکر نہیں تھی، رضوان کا لن مسلسل میری پھدی میں دھکے لگا رہا تھا اور میں دیوار کے ساتھ ہاتھ
                لگائے انکو مسلسل برداشت کر رہی تھی۔ رضوان کے لن کی ضربیں بہت شدید تھیں،
                جب پورا لن میری چوت میں جاتا تو اسکے ٹٹے بھی میری چوت کے قریب ٹکراتے جن
                سے بڑا مزہ آرہا تھا اسکے ساتھ ساتھ رضوان کا جسم جب میرے گول، نرم اور گوشت
                سے بھرے ہوئے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آواز گونجتی۔ غرض
                اس وقت کمرے میں سیکس کا ماحول گرم تھا اور میری سسکیاں اور دھپ دھپ کی
                آوازیں ماحول کو اور سیکسی بنا رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کی چودائی کے بعد میری چوت
                نے رضوان کے لن کی زور دار ضربوں کے آگے ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ پانی
                چھوڑتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھی اور جسم اکڑ گیا تھا۔ جیسے ہی مکمل پانی
                چھوڑ دیا چوت نے تو میں سیدھے ہوگئی اور لن میری چوت سے نکل گیا۔
                اب رضوان نے میرا منہ اپنی طرف کیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنے
                لگا اور ساتھ ہی مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھا کر اسنے دوبارہ سے میری
                کمر دیوار کے ساتھ لگائی اور نیچے سے اپنا لن میری چوت میں داخل کر دیا۔ میں نے
                اپنی ٹانگیں رضوان کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اسے زور لگا کر اپنے قریب کر لیا
                تاکہ لن اپنی جڑ تک میری چوت میں جا سکے۔ اب میں رضوان کی گود میں تھی اور
                رضوان کا لن میری چوت میں تھا۔ رضوان نے ایک بار پھر سے میری چوت میں زور
                دار ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ اس بار میری سسکیاں دب رہیں تھیں کیونکہ رضوان
                نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالی ہوئی تھی اور میں مسلسل اسکی زبان چوس رہی
                تھی۔ اب کی بار لن کی ضربیں پہلے سے زیادہ شدید تھیں کیونکہ اب لن سامنے سے
                اندر ڈاال ہوا تھا۔ میں اب زیادہ سے زیادہ مزہ لینے کے لیے اپنی چوت کو تنگ کر رہی
                تھی۔ میں نے اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا۔ جب رضوان نے لن باہر نکالنا ہوتا تو میں چوت
                کو ڈھیلا چھوڑ دیتی، مگر جیسے ہی لن ٹوپی تک باہر نکلتا اور رضوان دوبارہ سے
                اندر دھکا لگانے لگتا تو میں اپنی چوت کو دوبارہ ٹائٹ کر لیتی۔ اس سے لن میری چوت
                کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا اندر تک جاتا اور میری شہوت کو اور زیادہ بڑھانے
                لگا۔
                اب میری لن کی ہوس اتنی بڑھ چکی تھی کہ رضوان کا لن کافی نہیں تھا۔ اب میرے ذہن
                میں ندیم کا 8 انچ لمبا لن گھوم رہا تھا جسکو میں کچھ ہی دیر پہلے باہر دیکھ کر آئی
                تھی۔ میری چوت ابھی بھی رضوان کے لن کی ضربیں سہ رہی تھی اور میں نے اپنا سر
                اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور میری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ مگر
                میرے دماغ میں ندیم کا لن گھوم رہا تھا اور سوچ رہی تھی آخر اسکا لن کیسے لوں؟ اچانک ہی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا۔ میری چودائی جاری تھی میں نے ایسے ہی
                سر اٹھایا اور رضوان کی آنکھوں میں پیار سے دیکھنے لگی، اس نے بھی خوش ہوکر
                مجھے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا میرے آنے سے پہلے تم نے صرف رافعہ کے
                ممے ہی چوسے تھے یا کچھ اور بھی کیا تھا؟ تو رضوان کے چہرے پر شرمندگی آئی
                اور اس نے اپنے لن کی ضربیں روک دیں اور بولا یار اب بھول جاو اس بات کو۔ میں
                نے رضوان کو کہا تم چودائی جاری رکھو اسکو نہ روکو تو اس نے دوبارہ سے ضربیں
                لگانا شروع کر دیں، پھر میں نے پوچھا کہ بتاو نا صرف ممے چوسے تھے یا کچھ اور
                بھی کیا تھا؟ تو اسنے کہا کہ میں نے رافعہ کی چوت بھی چاٹی تھی اور جب ممے چاٹ
                رہا تھا تو تم آگئی۔ تو میں نے پوچھا کیسی تھی اسکی چوت؟ تو رضوان نے بتایا کہ
                تمہاری چوت اس سے اچھی ہے۔ میں نے کہا مکھن نہیں لگاو صحیح صحیح بتاو۔ اس
                پر رضوان نے پھر کہا کہ ہاں تمہاری چوت کافی ٹائٹ ہے کیونکہ تم تو صرف دوسری
                بار ہی چدائی کروا رہی ہو اور میں نے خود تمہاری ٹائٹ چوت کا پردہ پھاڑہ تھا پچھلے
                ہفتے۔ مگر رافعہ کی چوت بہت کھلی ہے۔ وہ بہت عرصے سے لن کی سواری کر رہی
                ہے۔ ندیم اور علی کے علاؤہ بھی وہ بہت لڑکوں کے لن لے چکی ہے اپنی چوت میں۔
                میں نے شرارتی انداز میں پھر پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا کہ اسکی چوت کھلی ہے ؟ کیا
                تم نے لن ڈال کے دیکھا ہے تو بولا نہیں یار انگلی ڈالی تھی۔ اور زبان سے چاٹتے
                ہوئے بھی صاف پتہ لگ رہا تھا اسکی چوت کے لب کھلے ہوئے تھے مگر تمہارے
                ٹائٹ ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
                میں نے محسوس کیا کہ اب رضوان کا لن اور زیادہ سخت ہوگیا تھا اور اسکی ضربوں
                کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا جو مجھے اپنی چوت کی گہرائی تک محسوس ہو رہی
                تھی۔ پھر میں نے پوچھا، اچھا یہ بتاو اسکے ممے کیسے ہیں۔ اس پر وہ بولا کہ اسکے
                ممے تمہارے مموں سے بڑے ہیں۔ اسکا سائز36 ہے اور انکو دبانے میں زیادہ مزہ
                آرہا تھا۔ میں نے پوچھا اب دبانا چاہتے ہو اسکے ممے؟؟؟ تو رضوان نے بے یقینی
                سے میری طرف دیکھا لیکن پھر بولا، نہیں میں بس اپنی فائزہ کے ممے ہی دباوں گا
                اور اسی کی چوت کو چودوں گا۔ میں نے پھر ہنستے ہوئے پوچھا نہیں مجھے بتاو اگر
                تم اسکے ممے دوبارہ دبانا چاہتے ہو اور انکو چوسنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی
                اعتراض نہیں ہوگا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ رضوان کے لن کی ضربوں میں اور بھی شدت
                آگئی۔ میں ابھی تک رضوان کی گود میں تھی اور میری چوت ایک بار پھر سے پانی
                چھوڑنے کے قریب تھی۔ رضوان نے میری طرف دیکھا اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا
                کہ وہ رافعہ کے ممے چوسنا چاہتا تھا مگر بول نہیں رہا تھا۔ بس اسکے جسم کا بڑھتا ہوا جوش مجھے بتا رہا تھا کہ اسکے دماغ میں ابھی رافعہ کے ممے ہی گھوم رہے ہیں
                جسکی وجہ سے میری چودائی میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے ہونٹ
                رضوان کے ہونٹوں پر رکھ کر ایک بھرپور کس کی، اور اپنی گانڈ زور زور سے ہال کر
                رضوان کا ساتھ دینے لگی۔ جس سے میری سسکیاں اور بھی بڑھ گئیں۔ اور ہم دونوں
                کو مزہ آنے لگا۔ میں نے ایک بار پھر رضوان کو کہا بتاو نا جان، کیا تم رافعہ کے ممے
                چوسنے چاہتے ہو؟ کیا تم اسکے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبانا چاہتے ہو؟ کیا تم
                اسکے نپلز کو اپنی انگلیوں سے رگڑنا چاہتے ہو؟؟؟ میرے لہجے میں ہوس ہی ہوس
                بھری ہوئی تھی اور رضوان کی برداشت بھی اب جواب دے چکی تھی اس نے بھی
                کانپتی ہوئی آواز میں کہ دیا کہ ہاں رافعہ کے ممے چوسنے کا بہت مزہ آیا تھا مجھے
                اسکے ممے چاہیے، کہ کہتے ہی اس نے کچھ زور دار ضربیں لگائیں میری پھدی میں
                اور اسکے لن نے میری پھدی کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ ان آخری دھکوں نے میری
                ِھی پانی چھوڑ دیا۔
                چوت کی برداشت کو بھی ختم کر دیا اور میں نے ب
                اب رضوان نے مجھے اپنی گود سے اتارا تو میں کچھ تھک چکی تھی، میں نے رضوان
                کو بیڈ کی طرف دھکیلا اور اسکو بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر چڑھ گئی اور اسکے
                ہونٹ چوسنے لگی۔ رضوان کا لن اب سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا۔ میں نے کچھ دیر
                رضوان کو کسنگ کی اور دوبارہ سے اسکو پوچھا کہ رافعہ کو بالوں اندر ؟؟ تم اسکے
                ممے چوس لینا جی بھر کے؟؟ اسنے للچائی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا مگر
                منہ سے کچھ نہیں بولا میں اسکا اشارہ سمجھ گئی اور ایسے ہی میں باہر چلی گئی۔
                میں بالکل ننگی تھی اور میری ٹانگوں پر ابھی رضوان کی منی اور اپنی چوت کا پانی
                چمک رہا تھا۔ میں باہر نکلی تو رافعہ ایک ٹیبل پر الٹی لیٹی ہوئی تھی اور ندیم نے
                اسکی گانڈ میں اپنا لن ڈالا ہوا تھا۔ اور دوسری لڑکی جو پہلے ندیم سے چدائی کروا رہی
                تھی وہ اپنی چوت رافعہ کے منہ کے ساتھ لگا کر بیٹھی تھی اور رافعہ اپنی زبان سے
                اسے چاٹ رہی تھی۔ میں باہر نکلی تو رافعہ اور ندیم نے میری طرف دیکھا۔ رافعہ کی
                نظروں میں حیرت تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے جس طرح میں نے اسکو کمرے سے نکالا
                تھا اور اب میں ننگی کمرے سے باہر نکل آئی تھی یہ اسکے لیے حیران کن تھا۔ مگر
                ندیم کی آنکھوں میں شیطانیت تھی اور وہ میرا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ ایک ایسا اشارہ جو
                میں نے کیا بھی نہیں تھا محض میرے دماغ میں ہی تھا، مگر ندیم اسکو بھی سمجھ گیا۔
                میں نے اسکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور رافعہ کو کہا کہ پلیز تم اندر آسکتی ہو
                کمرے میں؟ تو ندیم نے اسکی گانڈ سے اپنا لن نکال دیا اور دوسری لڑکی کی طرف اپنا
                لن کیا جو فورا ہی اس کے اوپر جھک کر اسکو چاٹنے لگی۔
                ...........................................



                Comment


                • #58
                  wah kia bat hai, bohat hi garam kahani hai

                  Comment


                  • #59
                    سالی پورے گھر والی




                    قسط 18




                    ہوگئی اور اسنے کہا کیوں کیا ہوا؟ تو میں نے اسے کہا ک رضوان تمارے ممے چاٹنا
                    چاہتا ہے آجاو پلیز۔ یہ کہتے ہوئے میری نظریں ندیم کے لن پر ہی تھیں اور میرے
                    چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ تھی جو ندیم کے لیے واضح اشارہ تھا۔ رافعہ نے میری
                    بات سن کر میری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا تو پہلے تمہیں کیا تکلیف
                    ہوئی تھی۔ یہ کہ کر وہ میری طرف بڑھی اور ہم دونوں اکٹھی ہی واپس کمرے میں
                    آگئیں۔ 2 ننگی لڑکیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر رضوان کا چہرہ خوشی سے چمک
                    اٹھا۔ رافعہ نے بھی جیسے ہی ندیم کو ننگا دیکھا تو فوار ہی اسکے اوپر چھالنگ لگا
                    دی اور اپنے ممے رضوان کے حوالے کر دیے۔
                    رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی ہوئی تھی، وہ ڈوگی سٹائل میں تھی، اپنی کہنیوں کے بل وہ
                    رضوان کے اوپر اس طرح چھکی کہ اسکے ممے رضوان کے منہ کے اوپر لٹکنے
                    لگے جنکو فورا ہی رضوان نے ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے دبایا اور ایک مما اپنے
                    منہ میں ڈال کر اسکو کسی بچے کی طرح چوسنے لگا۔ پیچھے سے رافعہ اپنے گھٹنوں
                    کے بل بیٹھی تھی جس سے اسکی گانڈ کافی انچی اور اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ میں نے
                    اسکی گانڈ پر نظر ڈالی تو وہ کسی حد تک کھلی ہوئی تھی، میں رافعہ کے پیچھے گئی
                    اور اپنی زبان رافعہ کی گانڈ پر رکھ کر چاٹنے لگی۔
                    رافعہ کی گانڈ پر زبان رکھی تو مجھے اسکا ٹیسٹ کچھ نمکین سا لگا۔ وہ کچھ دیر پہلے
                    ہی ندیم سے گانڈ مروا رہی تھی تو اسکے لن کا ذائقہ بھی اسکی گانڈ سے آرہا تھا۔
                    رضوان رافعہ کے ممے چوسنے میں مصروف تھا اور میں پیچھے سے رافعہ کی گانڈ
                    چاٹنے میں مصروف تھی۔ رافعہ شاید بہت عرصے سے چدوا رہی تھی اس لیے وہ
                    چدائی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا جانتی تھی۔ جیسے ہی میں نے اسکی گانڈ
                    پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی تو اس نے منہ سے سسکیاں نکالنا شروع کر دیں۔ اسکی
                    سسکیاں بہت سیکسی تھیں اور اسکی آواز میں موجود چاشنی کسی بھی سوئے ہوئے
                    لن کو جگانے کے لیے کافی تھی۔ اسی وجہ سے رضوان کا لن جو میری چدائی کے بعد
                    اب سو چکا تھا رافعہ کی سیکس سے بھرپور آوازیں سن کر اس نے ایک بار پھر اپنا
                    سر اٹھانا شروع کر دیا۔ میں پیچھے سے گانڈ چاٹتے ہوئے تھوڑا نیچے ہوئی رافعہ کی
                    چوت پر اپنی زبان رکھی تو وہ بہت گیلی ہو رہی تھی۔ اس پوزیشن میں چوت چاٹنا کافی
                    مشکل تھا کیونکہ مجھے کافی جھکنا پڑ رہا تھا۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے میں
                    لیٹ گئی، میرا سر رضوان کے لن کے تھوڑا ہی اوپر تھا اور میرا منہ اوپر رافعہ کی
                    چوت کی طرف تھا۔ لیٹنے کے بعد میں نے رافعہ کو چوتڑوں سے پکڑ کر اسکو چوت
                    کو نیچے کیا تو اس نے فورا ہی اپنی چوت میرے منہ کے اوپر رکھ دی۔ اسکی چوت کافی کھلی تھی اور میری زبان بہت ہی آرام سے اسکی چوت کی سیر کر رہی تھی۔
                    مجھے اپنی گردن پر رضوان کے لن کا دباو بھی محسوس ہو رہا تھا جو اب کسی ناگ
                    کی طرح کھڑا ہوجانا چاہتا تھا۔
                    رافعہ کی چوت کے گیلے پن میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا جسکا مطلب تھا کہ وہ چدائی
                    کے لیے مکمل تیار تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لڑکی چاہے جتنی بھی ماہر ہو چدائی کی
                    اور جتنے بھی لن لے چکی ہے، نئے لن کے لیے اسکی چوت ہمیشہ ہی مچلتی ہے۔ اور
                    یہی کچھ رافعہ کے ساتھ بھی ہورہا تھا۔ رضوان کا لن اسکی چوت کے لیے بالکل نیا تھا
                    اور اسکو لینے کے لیے وہ مکمل تیار تھی۔ سو میں نے اسکی چوت کو چاٹنا چھوڑ کر
                    اپنی جگہ سے اٹھی اور رضوان کا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی، تھوڑا سا لن
                    چوسنے کے بعد جب لن گیلا ہوگیا تو میں نے رضوان کے لن کو پکڑ کر رافعہ کی چوت
                    پر رکھ دیا، رافعہ اپنی چوت پر لن کو محسوس کر کے فورا ہی پیچھے ہوئی اور لن کی
                    ٹوپی بڑے آرام سے اسکی چوت میں داخل ہوگئی، ساتھ ہی رضوان نے ہلکا سا دھکا
                    مارا اور رضوان کا پورا لن جڑ تک رافعہ کی چوت پر تھا۔ اور رافعہ بہت ہی حیرت
                    انگیز طور پر فورا ہی رضوان کے لن پر اچھلنے لگی۔ رضوان ساکت لیٹا تھا اور رافعہ
                    اپنی گانڈ ہال ہال کر اپنی چوت کو چدوا رہی تھی۔ تھوڑی دیر یہ چدائی دیکھنے کے بعد
                    میں اٹھی اور رافعہ کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ رضوا نیچے لیٹا تھا میں اسکے
                    اوپر بیڈ پر کھڑی تھی اور رافعہ اپنی چوت رضوان کے لن سے چدوا رہی تھی۔ میں نے
                    اپنی چوت رافعہ کے سامنے کی تو اسنے فورا ہی اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی۔
                    میری چوت مکمل خشک ہو چکی تھی ، رافعہ کی زبان کو محسوس کرتے ہی مجھے
                    چوت کے اندر گیلا پن محسوس ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی لڑکی نے میری چوت پر
                    اپنا منہ رکھا ہو۔ اس سے پہلے میری چوت کو صرف عمران، حیدر اور رضوان نے ہی
                    چاٹا تھا۔ مگر آج رافعہ میری چوت کو چاٹ رہی تھی۔ میں نے اسکا سر پکڑ کر اپنی
                    چوت کی طرف دھکیلا ہوا تھا اور رافعہ بہت مہارت کے ساتھ میری چوت چاٹ رہی تھی
                    اب رافعہ نے اپنی گانڈ ہلانا بند کر دی تھی کیونکہ وہ میری چوت چاٹنے میں مصروف
                    تھی مگر رضوان کے لن کی ضربیں رافعہ کی چوت میں مسلسل لگ رہی تھی اور
                    رضوان بھی ہلکی ہلکی آوازیں نکال رہا تھا۔ اسکے لن کو بھی ایک نئی چوت مل گئی
                    تھی جس پر وہ خوش تھا۔ رافعہ نے میری چوت بہت مہارت سے چاٹی، اسکے بعد اس
                    نے اپنا منہ میری چوت سے ہٹایا اور اپنی 2 انگلیاں ایک دم سے ہی میری چوت میں
                    داخل کر دیں۔ رافعہ کا یہ حملہ میرے لیے بالکل غیر متوقع تھا جسکی وجہ سے میری
                    چیخ نکل گئی۔ رافعہ نے بھی بغیر انتظار کیے اپنی دونوں انگلیوں کو میری چوت میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پھر رافعہ نے اپنی دونوں انگلیاں باہر نکالیں اور انکو اپنے
                    منہ میں ڈال کر چوسنے لگی۔ وہ اصل میں میری چوت کا پانی چاٹ رہی تھی۔ انگلیاں
                    چاٹتے ہوئے اسکی آنکھیں بند تھی اور چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ اپنی چودائی کو
                    انجوائے کر رہی تھی ۔ جبکہ میں ندیم کا انتظار کر رہی تھی کہ کب وہ کمرے میں آئے
                    اور میری چدائی شروع کرے۔ مگر اسکے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
                    رافعہ نے ایک بار پھر سے اپنی انگلیاں میری چوت میں داخل کر دیں اور اپنی انگلیوں
                    سے ہی میری چدائی کرنے لگی۔ وہ اپنی انگلیوں کو میری چوت کے اندر مسلسل گھما
                    رہی تھی اور میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ رہی تھی جیسے کچھ تلاش کرنا
                    چاہتی ہو۔ اچانک ہی اسکی انگلی میری چوت کے ایک اندر ایک مخصوص جگہ کو ٹچ
                    ہوئی تو میری سسکی نکل کر رہ گئی۔ رافعہ فورا میری طرف متوجہ ہوئی اور دوبارہ
                    اسی جگہ کو چھوا تو میری پھر سے سسکی نکلی۔ رافعہ سمجھ گئی کہ یہی میرا جی
                    سپاٹ ہے۔ اس نے اب مسلسل میرے جی سپاٹ کو مسلنا شروع کر دیا تھا اور میری
                    سسکیاں اب ایسے نکل رہی تھیں جیسے کوئی بڑا سا لن میری چدائی کر رہا ہو۔ میری
                    سسکیاں بہت شدید تھیں اور میری آوازیں لازمی طور پر کمرے سے باہر جا رہی تھیں۔
                    میری سسکیاں سن کر رضوان کے جوش میں بھی اضافہ ہوگیا اور اسنے رافعہ کی
                    چوت اور بھی زور سے مارنی شروع کر دی تھی۔ اوپر سے میری برداشت بھی جواب
                    دے رہی تھی کیونکہ رافعہ کی انگلیاں مسلسل میرے جی سپاٹ کو سہلا رہی تھیں۔ رافعہ
                    یقینا بہت ماہر تھی سیکس میں تبھی اس نے فورا ہی میری چوت میں جی سپاٹ کو
                    ڈھونڈ لیا تھا اور اب مجھے ایسے ہی مزہ آرہا تھا جیسے مجھے کوئی لن چود رہا ہو۔
                    میں نے اپنے دونوں ممے اپنے ہاتھوں سے دبانے شروع کر دیے اور اپنے نپلز کو
                    مسلنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں میری سسکیاں اب چیخوں میں تبدیل ہوگئیں اور
                    میری ٹانگیں سختی سے اکڑنے لگیں اور میں نے اپنی چوت کو بھی دبانا شروع کر دیا۔
                    میری یہ حالت دیکھ کر رافعہ سمجھ گئی کہ میں اب فارغ ہونے والی ہوں، اسنے اپنی
                    انگلیوں کو مزید تیزی کے ساتھ حرکت دینا شروع کر دی اور جیسے ہی میری چوت نے
                    پانی چھوڑا اس نے اپنی انگلیاں نکال کر اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور زبان نکال
                    کر میری چوت کو مسلنے لگی۔ میری چوت کا پانی رافعہ کے منہ میں گیا اور رضوان
                    کے اوپر بھی گرا۔
                    جب میری چوت سے سارا پانی نکل گیا تو میں نے رافعہ کی طرف دیکھا اس نے پوچھا
                    سناو مزہ آیا؟؟؟ میں نے جواب دینے کی بجائے نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ رافعہ کے
                    ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اس نے بھی فور ہی اپنی زبان نکالی اور میرے منہ میں داخل کر دی۔ اسکی زبان پر میری چوت کے پانی کا ذائقہ تھا جو مجھے بڑا ہی اچھا لگا اور میں
                    نے اسکی زبان کو چاٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر رافعہ سے کسنگ کرنے کے بعد میں
                    تھوڑا نیچے جھکی اور رافعہ کے ممے چاٹنے لگی۔ اسکے 36 سائز کے ممے مجھے
                    بڑے ہی پیارے لگے۔ کبھی کسی لڑکی کے ممے میں نے نہیں چاٹے تھے یہ میرا پہلا
                    تجربہ تھا اور مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ آگے سے میں رافعہ کے ممے چاٹنے لگی
                    اور اپنا ایک ہاتھ رافعہ کی گانڈ پر لیجا کر اسکے چوتڑ دبائے اور پھر اپنی بڑی انگلی
                    رافعہ کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی اور ہلکا سا دباو ڈاال تو میری انگلی بہت ہی آرام
                    سے رافعہ کی گانڈ میں چلی گئی۔ نیچے اسکی چوت میں رضوان کا لن تھا اور پیچھے
                    گانڈ میں میری انگلی گئی اور رافعہ کے ممے میرے منہ میں تھے۔ اتنا مزہ رافعہ کی
                    برداشت سے باہر ہونے لگا تو کمرہ اسکی سسکیوں سے گونجنے لگا اور کچھ ہی دیر
                    بعد اس نے جھٹکے مارنے شروع کیے۔ اسکی چوت اب پانی چھوڑ چکی تھی۔
                    رافعہ اب رضوان کے لن سے اتری اور فورا ہی اسکا لن اپنے منہ میں لیکر چاٹنے
                    لگی۔ رافعہ کی چوت کا پانی رضوان کے لن کو بھگو چکا تھا اور رافعہ اب رضوان کے
                    لن سے اپنی چوت کا پانی چاٹنے میں مصروف تھی۔ رضوان نے پیچھے سے میرے
                    چوتڑوں کو پکڑا اور کھینچ کر اپنے منہ کی طرف کر لیا اور میری گانڈ چاٹنے لگا۔ گانڈ
                    چٹوانے میں ایک بار پھر بہت مزہ آرہا تھا مجھے۔ کچھ دیر رافعہ نے رضوان کا لن چاٹا
                    اور پھر مجھے دعوت دی کہ میں رضوان کے لن کی سواری کروں۔ اصل میں تو مجھے
                    ندیم کا انتظار تھا کہ کب وہ کمرے میں آئے اور کب میں اسکا لن اپنی چوت میں لوں
                    مگر اب وہ تو آیا نہیں سو مجھے رضوان کے لن سے ہی اپنی پیاس بجھانی تھی۔ میں
                    فورا اٹھی اور اپنی چوت رضوان کے لن پر رکھ دی۔ رضوان نے ہلکا ہلکا دباو بڑھانا
                    سروع کیا تو میں نے کہا ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن میری چوت میں داخل کر دو۔ یہ
                    سن کر رضوان نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن میری چوت میں تھا۔
                    میری ایک دلخراش چیخ نکلی اور مجھے ایسا لگا جیسے کوئی لوہے کا راڈ میری چوت
                    کی دیواروں کو رگڑتا ہوا میری چوت کی گہرائیوں تک جا چکا ہو۔
                    رضوان نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا تھا اور میرے ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور نیچے
                    سے اسکا لن میری چوت چودنے میں مصروف تھا۔ میں جھکی تو رافعہ نے اپنی زبان
                    میری گانڈ پر رکھ دی اور اسکو چوسنے لگی۔ رافعہ نے جیسے ہی اپنی زبان میری
                    چوت پر رکھ کر اسکو چوسا تو بولی کہ ارے فائزہ تمہاری گانڈ تو ابھی تک کنواری
                    ہے۔ کبھی گانڈ نہیں مروائی کیا؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی نیچے سے رضوان
                    بول پڑا کہ اسکی چوت بھی کنواری ہی تھی جو میں نے ایک ہفتہ پہلے ہی پھاڑی ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے رضوان کے لہجے میں فخر تھا کہ اس نے ایک کنواری چوت کو
                    پھاڑا تھا۔ اس پر رافعہ نے کہا ارے تم تو بہت خوش نصیب ہو۔ پھر تو تمہیں میری چوت
                    سے وہ مزہ نہیں مال ہوگا جو فائزہ کی چوت مزہ دے رہی ہوگی۔ رضوان نے کہا کہ تم
                    ایکسپرٹ ہو، تم جانتی ہو کہ اپنی چوت سے مرد کو مزہ کیسے دینا ہے۔ تمہیں چودنے
                    میں بھی بہت مزہ آیا ، مگر فائزہ کی چوت واقعی میں بہت ٹائٹ ہے اس میں میرا لن
                    جکڑا ہوا ہے اور اسکی چوت کا علیحدہ ہی مزہ ہے جو کسی اور چوت میں نہیں مل
                    سکتا۔
                    اب میں رضوان کے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی مگر میری گانڈ تھوڑا نیچے تھی اور میں
                    ہاتھوں کے بل رضوان کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ میری چوت میں مسلسل رضوان کا لن
                    ضربیں مار رہا تھا جس سے میرے ممے رضوان کے اوپر جھول رہے تھے اور دائیں
                    بائیں ہل رہے تھے جنکو دیکھ کر رضوان بہت خوش ہو رہا تھا۔ اتنے میں مجھے
                    دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے گردن موڑ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ندیم کمرے
                    میں آ چکا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ جس مقصد کے لیے رضوان کو
                    اجازت دی تھی غیر لڑکی کو چودنے کی بالآخر وہ مقصد پورا ہونے لگا تھا۔ اور وہ
                    مقصد یہی تھی کہ میں بھی ندیم کا لن اپنی چوت مین داخل کر سکوں۔ ندیم میرے قریب
                    آیا اور رضوان سے پوچھا ہاں بئی چیتے سنا کیسا لگ رہا ہے 2 ،2 لڑکیوں کی چدائی
                    کر کے۔ رضوان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ بوال بس یار آج تو ایسا لگ رہا
                    ہے جیسے میری عید ہوگئی ہو۔ ندیم نے ایک شارٹ پہن رکھا تھا جس میں اسکا لن
                    کھڑا نظر آرہا تھا۔ شارٹ تھوڑا ٹائٹ تھا اسلیے اس میں سے ندیم کے لن کا ابھار بہت
                    واضح نظر آرہا تھا۔
                    اب ندیم نے اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیرنا شروع کر دیا اور بولا تم سناؤ فائزہ کیسا لگ
                    رہا ہے رافعہ کے ساتھ ملک کر رضوان سے چدائی کروانا۔ میں بھی بولی کہ اچھا لگ
                    رہا ہے۔ وہ مسلسل اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیر رہا تھا اور مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ مگر
                    حیرت کی بات یہ تھی کہ رضوان نے بھی برا نہ منایا۔ جس سے مجھے حوصلہ ہوا۔ کمر
                    پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ندیم اپنی انگلی میری گانڈ پر لے گیا اور انگلی میری گانڈ میں
                    داخل کرنے کی کوشش کی تو میں نے گانڈ زور سے دبا لی۔ اور اسکی انگلی میری گانڈ
                    میں نہ جا سکی۔ تو وہ بھی حیران ہوا اور کہا واہ تمہاری گانڈ تو بالکل ان ٹچ ہے۔ کسی
                    نے تمہاری گانڈ نہیں ماری کیا؟ اس پر رضوان پھر بولا یار تجھے بتایا تو تھا کہ ابھی
                    پچھلے ہفتے ہی میں نے فائزہ کا کنوارہ پن ختم کیا ہے۔ اس پر رضوان زیِر لب مسکرایا
                    . ...................
                    ............
                    ......
                    ...
                    ..
                    .


                    سالی پورے گھر والی




                    قسط 19




                    جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ یہ چوت کنواری نہیں تھی، مگر بوال کچھ نہیں وہ۔
                    پھر وہ بوال کہ آج تو فائزہ کی گانڈ کی بھی چدائی ہونی چاہیے۔ جس پر میں فورا بول
                    اٹھی کہ نہیں مجھے نہیں اپنی گانڈ مروانی۔ اس پر ندیم ہنس پڑا اور بولا اچھا ڈرو نہیں
                    آرام سے فی الحال اپنی چدائی کرواو اور عیش کرو۔ اس نے پھر سے میری کمر پر ہاتھ
                    پھیرنا شروع کیا اور اب میرے چوتڑوں پر ہاتھ بھی مارنے لگا۔ وہ میرے چوتڑوں پر
                    زور سے ہاتھ مارتا تو کمرے میں آواز گونجتی اور میری ہلکی سی سسکی بھی نکلتی۔
                    جب میں نے دیکھا کہ رضوان نے اس بات کا بھی برا نہیں منایا کہ ندیم میری گانڈ کو
                    چھو رہا تھا اور میرے چوتڑوں کو دبا رہا تھا تو میں نے ہمت کی اور رضوان کے لن
                    پر سیدھی ہوکر بیٹھ ہوگئی اور اپنا ہاتھ ندیم کے شارٹ پر سے اسکے لن پر رکھ دیا۔
                    نیچے سے چوت میں رضوان کا لن دھکے مارنے میں مصروف تھا اور اوپر سے میں
                    اپنا ہاتھ ندیم کے لن پر پھیر رہی تھی۔
                    پھر میں نے اپنا ہاتھ ندیم کی شارٹ میں داخل کر دیا۔ اور پہلی بار اسکے لن کو چھوا
                    اور سائز کا اندازہ کرنے لگی۔ پھر میں نے اسکا لن باہر نکال لیا تو ندیم نے بھی اپنی
                    شارٹ اتار دی اور اپنا 8 انچ کا موٹا تازہ لن میرے سامنے کر دیا۔ میں نے کچھ دیر تو
                    للچائی ہوئی نظروں سے اسکے لن کو دیکھا اور کہا کہ بہت مظبوط لن ہے تمہارا۔ جس
                    پر ندیم بوال کہ یہ چودتا بھی بہت خوب ہے۔ میں پھر سے ندیم کے لن پر ہاتھ پھیرنے
                    لگی تو ندیم بوال اسکو منہ میں نہیں لوگی؟ تو میں نے اسکو قریب کیا اور اسکے لن
                    کی ٹوپی پر ایک کس کی۔ پھر اس پر اپنے ہونٹ پھیرنے لگی۔ پھر اپنی زبان نکالی اور
                    ندیم کے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔ اسکا لن آگ کی طرح گرمی چھوڑ رہا تھا جس
                    نے میری چوت کی گرمی کو بھی بڑھا دیا تھا۔ اور اب میں ندیم کا لن اپنے منہ میں لیکر
                    اسکو چوس رہی تھی۔ رضوان نے جب مجھے غیر مرد کا لن چوستے ہوئے دیکھا تو
                    بجائے غصہ کرنے کے اس نے اور بھی شدت کے ساتھ میری چدائی شروع کر دی۔ اب
                    میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب تھی میں نے اپنے منہ سے ندیم کا لن نکاال اور
                    رضوان کو کہا اور زور سے چدائی کرو میری اور زور دار جھٹکے مارو، میری بات
                    سن کر رضوان کے دھکوں میں اور اضافہ ہوا ، میرے ہاتھ میں ابھی بھی ندیم کا لن تھا
                    مگر اسکو اب میں نے منہ میں نہیں لیا کیونکہ اب سسکیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں
                    اور کمرہ میری آوازوں سے گونج رہا تھا۔ رضوان کے دھکے حیرت انگیز طور پر پہلے
                    سے بہت زیادہ ہو چکے تھے اور اسکا جسم بھی اب لذت کی انتہا پر تھا۔ پھر اچانک ہی
                    ہم دونوں کے جسم کو جھٹکے لگے اور ہم دونوں نے ایک ساتھ پانی چھوڑ دیا۔
                    جب ہمارے جھٹکے ختم ہوئے اور سارا پانی چھوڑ چکے تو میں رضوان کے لن سے اتر گئی، ندیم نے فورا ہی مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور بوال اپنی چوت کا پانی تو ٹیسٹ
                    کرواو کیسا ہے۔ اور یہ کہ کر وہ میری چوت کو چاٹنے لگا میری ٹانگوں پر میری چوت
                    کا پانی تھا اسنے میری ٹانگوں سے چوت کا پانی چاٹا اور مزے لیکر زبان اپنے ہونٹوں
                    پر پھیرنے لگا۔ دوسری طرف رضوان کا لن رافعہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی رضوان
                    کی منی اور میری چوت کے پانی کا مکسچر رضوان کے لن سے چوس رہی تھی۔ ندیم
                    نے جب میری چوت سے سارا پانی چوس لیا تو دوبارہ اپنا لن میرے آگے کر دیا اور
                    میں بیٹھ کر اسکا لن چوسنے لگی۔ میں بیڈ پر ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی جبکہ ندیم بیڈ
                    سے نیچے کھڑا تھا اور میں ندیم کا لن چاٹنے میں مصروف تھی۔ دوسری طرف رافعہ
                    بیڈ پر لیٹی تھی اور رضوان اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنا سر اسکی چوت پر رکھے اسے
                    چاٹ رہا تھا۔ رافعہ نے اپنے ہاتھ رضوان کے سر پر رکھے ہوئے تھے اور رضوان
                    مسلسل رافعہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اتنے میں رافعہ بولی کہ تم نے آج تک کسی گانڈ
                    کا مزہ نہیں لیا لہذا اب تم میری گانڈ میں لن ڈال کر گانڈ کا مزہ لو۔ تو رضوان بوال آج تو
                    تمہاری گانڈ بھی ماروں گا اور فائزہ کی بھی۔ اس پر ندیم بوال کہ تم پہلے رافعہ کی گانڈ
                    مار لو، فائزہ کی گانڈ میں لن پہلے میں ڈالوں گا، تمہیں تجربہ نہیں تم ڈالو گے تو فائزہ
                    کو درد زیادہ ہوگا۔ میں طریقے سے اسکی گانڈ پھاڑوں گا جس سے اسکو کم سے کم
                    تکلیف ہو۔ پھر بعد ِمں تم جب چاہو فائزہ کی گانڈ مار لینا۔
                    اس پر رضوان نے تو ہاں میں سر ہال دیا مگر میں چالئی کہ آخر تم لوگ میری گانڈ کے
                    پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ مجھے نہیں گانڈ مروانی تم بس میری چوت میں لن ڈالو اور
                    ِن من ایک بار گانڈ مروا کر تو دیکھو بہت مزہ آئے گا
                    بس۔ اس پرندیم ہنسا اور بوال جا
                    تمہیں۔ اور ویسے بھی جب تمہاری چوت کھلی ہوجائے گی تو رضوان کو اسکا مزہ نہیں
                    آئے گا، پھر وہ بھی تمہاری گانڈ سے ہی مزہ لیا کرے گا۔ تو جب کل بھی گانڈ مروانی ہی
                    ہے تو کیوں نہ آج ہی مروا لی جائے۔ میں نے ایک بار پھر انکار کیا اور کہا نہیں بس
                    میری چوت میں لن ڈالو۔ اس پر ندیم نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے منہ
                    دوسری طرف کرنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی بیڈ پر منہ دوسری طرف کیا میں ابھی
                    بھی ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی اور ندیم بیڈ سے نیچے تھا۔ رضوان نے اب اپنی
                    انگلیاں میری چوت میں داخل کیں اور گیلے پن کو چیک کرنے لگا۔ میری چوت پہلے
                    سے ہی گیلی تھی اورندیم کے لن کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے گیلے پن کو محسوس
                    کرکے ندیم سمجھ گیا کہ میری چوت چدائی کے لیے مکمل تیار ہے۔
                    اس نے اپنا لن میری چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک ہی دھکے میں اپنا 8 انچ کا
                    لن میری ٹائٹ چوت میں داخل کر دیا۔ میری دلخراش چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ گونج اٹھا اور میں نے ندیم کو کہا کہ آرام سے کرو۔ تو وہ بوال آرام سے کرنے کا مزہ
                    نہیں آتا۔ اور ساتھ ہی اسنے میری چوت کی تعریف کی کہ یہ واقعی بہت ٹائٹ ہے عرصہ
                    ہوگیا ایسی ٹائٹ چوت کی چدائی کیے ہوئے۔ آج تو بہت مزہ آئے گا، یہ کہ کر اس نے
                    میری چوت میں اپنا لن تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شدید
                    درد ہوئی کیونکہ ندیم کا لن نہ صرف رضوان کے لن سے لمبا تھا بلکہ وہ موٹائی میں
                    بھی موٹا تھا اور اسکے دھکوں کی سپیڈ بھی شروع سے ہی تیز تھی جبکہ رضوان
                    شروع میں آرام سے چودتا تھا بعد میں سپیڈ پکڑتا تھا۔ ندیم نے سٹارٹ میں ہی تیزی
                    سےچودنا شروع کیا، مگر تھوڑی ہی دیر بعد اب میرا درد مزے میں بدل چکا تھا ۔ میں
                    ڈوگی سٹائل میں بہت مزے سے اپنی چوت چدوا رہی تھی تو دوسری طرف رافعہ بھی
                    ڈوگی سٹائل میں بیٹھ چکی تھی مگر رضوان نے اپنا لن اسکی چوت پر رکھنے کی
                    بجائے اسکی گانڈ پر رکھا اور زور دار دھکا مارا مگر لن گاند میں نہیں گیا۔ پھر اس نے
                    دوبارہ سے گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور آہستہ آہستہ دباو ڈالنا شروع کیا تو رضوان
                    کے لن کی ٹوپی رافعہ کی گانڈ میں جا چکی تھی مگر رافعہ کے چہرے پر تکلیف کے
                    آثار تک نہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان کا پورا لن رافعہ کی گانڈ میں تھا۔ اور
                    رضوان آہستہ آہستہ گانڈ میں لن داخل کرتا اور نکالتا۔
                    رضوان کے چہرے کے تاثرات اور اسکی آوازوں سے واضح پتہ لگ رہا تھا کہ رضوان
                    کو گانڈ چودنے میں بے حد مزہ آرہا ہے۔ رافعہ کی گانڈ چاہے کتنی ہی کھلی کیوں نہ ہو
                    مگر بحر حال وہ میری چوت سے تو تنگ ہی تھی۔ جسکو رضوان بہت مزے سے چود
                    رہا تھا۔ اور جب رضوان نے اپنے دھکوں کی سپیڈ بڑھائی تو اب رافعہ کی بھی سسکیاں
                    نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کی چدائی کو انجوائے کرنے لگی۔ ادھر میری چوت بھی
                    ندیم کے دھکوں سے بے حال ہوئے جا رہی تھی۔ اب ندیم نے آگے بڑھر کر میرے
                    مموں کو بھی دبانا شروع کر دیا۔ڈوگی سٹائل میں چدائی کرواتے ہوئے میرے ممے ہوا
                    میں لٹک رہے تھے جنکو اب ندیم اپنے ہاتھوں سے دبا رہا تھا۔ پھر اچانک ندیم نے
                    مجھے سینے سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھڑا کر لیا، میں اب بیڈ پر گھٹوں کے بل
                    ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی مگر میری کمر ندیم نے کھینچ کر اپنے قریب کر لی،
                    اورمیرے مموں کو مسلنے لگا۔ میں نے بھی ایک ہاتھ ندیم کی گردن میں ڈال لیا اور منہ
                    انچا کر کے اپنے ہونٹ ندیم کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا لن میری چودائی کر رہا
                    تھا اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوس رہے تھے ایک ہاتھ سے وہ میرے ممے دبا
                    رہاتھا اور دوسرا ہاتھ وہ آگے سے میری پھدی مسل رہا تھا اور لائن پر مسلسل ہاتھ پھیر رہا تھا جس سے میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔
                    ندیم نے اب دھکے بہت ہی زیادہ سپیڈ سے مارنے شروع کیے اور چند ہی دھکو ں کے
                    بعد میری چوت جواب دے گئی اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنے دھکے سہنے کے بعد
                    میں اب بری طرح سے تھک چکی تھی۔ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ دوسری
                    طرف رافعہ نے اب اپنی پوزیشن چینج کر لی تھی۔ وہ اب بیڈ پر لیٹی تھی اور اسنے اپنی
                    دونوں ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا رکھی تھیں۔ رضوان اسکے اوپر آیا اور اسکی ٹانگوں
                    کو فولڈ کر کے اسکے سینے سے لگا دیا۔ اب رضوان کے لن کی ذد میں رافعہ کی پھدی
                    اور گانڈ دونوں ہی تھے، رضوان نے رافعہ کی گانڈ کا انتخاب کیا اور ایک بار پھر اپنا
                    لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر دیا، اس پوزشن میں شاید رافعہ کو کچھ تکلیف ہوئی اور
                    اس نے ہلکی ہلکی چیخیں مارنی شروع کر دیں تھی۔ رضوان بہت ہی مزے سے گانڈ
                    مارنے میں مصروف تھا۔
                    اب ندیم نے مجھے ایک بار پھر سے بیڈ پر الٹا لٹا دیا اور میرے چوتڑ کھول کر اپنی
                    زبان میری گانڈ پر چالنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب وہ میری گانڈ مارنا چاہتا ہے۔
                    مگر میجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی اتنا بڑا لن اپنی گانڈ میں لینے کی۔ مگر میں فی
                    الحال مزاحمت بھی نہیں کر رہی تھی کیونکہ گانڈ چسوانے میں آج مجھے بہت مزہ آرہا
                    تھا، پہلے حیدر نے میری گانڈ چوسی، پھر رضوان نے پھر رافعہ نے اور اب ندیم میری
                    گانڈ چوس رہا تھا، پھر اس نے میرے چوتڑوں کو اوپر اٹھایا اور اپنی زبان میری چوت
                    پر پھرینے لگا اور اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ میری گانڈ ندیم
                    کے تھوک سے اب کافی چکنی ہو چکی تھی، اسکی آدھی سے کم انگلی اب میری گانڈ
                    میں تھی اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ میں مرچیں لگ گئیں ہوں۔ میں
                    نے ندیم کو سختی سے کہا کہ میری گانڈ سے انگلی نکال لے۔ مگر اس نے نہ نکالی
                    اور آہستہ آہستہ انگلی میری گانڈ میں گھمانے لگا اور نیچے سے میری چوت بھی چاٹتا
                    رہا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گانڈ میں ندیم کی انگلی کی درد زیادہ ہے یا پھر
                    چوت چاٹنے سے جو مزہ مل رہا ہے وہ زیادہ ہے۔
                    ندیم کی اب آدھی سے زیادہ انگلی میری گانڈ کو چیرتی ہوئی گانڈ میں جا چکی تھی اور
                    میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ندیم کو پھر کہا کہ میری گانڈ کا پیچھا
                    چھوڑ دے اور جتنی بار چوت چودنا چاہے چود لے۔ پھر اچانک ندیم نے اپنی انگلی میری گانڈ سے نکال دی اور رافعہ کو کہا فائزہ کی گانڈ مارنے میں مدد کرے۔ یہ بات
                    سن کر رافعہ نے رضوان کو پیچھے کیا اور اپنی گانڈ سے رضوان کا لن نکال لیا۔ ایک
                    الماری کھول کر وہ ایک کریم لے آئی اور ندیم کو پکڑا دی۔ اور خود بیٹھ کر ندیم کا لن
                    اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ دوسری طرف رضوان میرے قریب آیا اور اپنا لن
                    میرے منہ میں داخل کرنے لگا، میں نے رضوان کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکو
                    چوسنے لگی۔ ندیم نے اپنی انگلی پر کریم لگائی اور میری گانڈ کے سوراخ پر مسلنے
                    لگا جس سے میری گانڈ کی چکناہٹ میں اضافہ ہونے لگا۔
                    اب رافعہ ندیم کا لن چوس رہی تھی، رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور ندیم کی انگلی
                    میری گانڈ کے اندر کریم لگا کر گانڈ کو اندر سے بھی چکنا کرنے میں مصروف تھیں۔
                    جب رضوان نے اچھی طرح میری گانڈ پر کریم لگا دی تو رافعہ اٹھی اور ایک اور کریم
                    لے کر آئی وہ کریم رافعہ نے خود کھولی اور ندیم کے لن پر مسلنے لگی، ندیم نے اپنی
                    پوری انگلی میری گانڈ میں داخل کی ہوئی تھی مجھے اس سے تکلیف تو ہو رہی تھی
                    مگر اتنی نہیں جتنی پہلے تھی۔ شاید اسکی وجہ یہ کریم تھی جس نے میری گانڈ کو
                    چکنا کر دیا تھا۔
                    جب رافعہ نے ندیم کے لن پر وہ کریم اچھی طرح مسل دی تو ندیم نے میری گانڈ سے
                    انگلی نکال کر میری دونوں ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا لیا، میں اندر ہی اندر ڈر رہی تھی
                    کیونکہ آنے واال وقت بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ میں نے ایک بار پھر کہا کہ پلیز میری گانڈ
                    کو بخش دو چوت جتنی مرضی مار لو۔ مگر ندیم نے میری بات کو سنی ان سنی کر دیا۔
                    اب ندیم میری ٹانگیں اٹھائے میری گانڈ پھاڑنے کے لیے تیار کھڑا تھا تو رافعہ نے
                    رضوان کو کہا کہ اگر تمہیں اپنا لن پیارا ہے تو فائزہ کے منہ سے نکال لو ورنہ یہ کاٹ
                    ڈالے گی تمہارے لن کو۔ رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال دیا تو رافعہ نے
                    مجھے کہا اپنی منہ میں کوئی کپڑا ٹھونس لو درد کی شدت کم ہوجائے گی، تو میں نے
                    پاس پڑا ندیم کا شارٹ اٹھایا اور اسکو اپنے منہ میں ڈال لیا۔
                    اب میں ذہنی تور پر گانڈ مروانے کے لیے تیار تھی مگر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
                    رافعہ میرے ساتھ لیٹ گئی اور میرے نپلز اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی، رافعہ الٹی
                    لیٹی تھی اور میری ممے چوس رہی تھی، اس نے رضوان کو اپنے پیچھے آنے کو کہا
                    اور کہا چوتڑ کھول کر گانڈ میں ڈال دو لن۔ رضوان فورا رافعہ کے اوپر آیا اور اسکے

                    .................................
                    ......................
                    ............
                    ........
                    ....
                    ..
                    .

                    سالی پورے گھر والی





                    قسط 20




                    چوتڑ کھول کر اپنا لن اسکی گانڈ میں داخل کر دیا اور چودنے لگا۔ اب ندیم نے اپنے لن
                    کی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور مجھے کہا کہ تیار ہوجاو، اور ساتھ ہی
                    ایک زور دار جھٹکا مارا۔ کپڑا منہ میں ہونے کے باوجود میری ایک زور دار چیخ نکلی
                    اور میں نے اپنے آپ کو ندیم سے چحڑوانا چاہا مگر ناکام رہی۔ ندیم کے لن کی ٹوپی
                    میری گانڈ میں تھی اور میرا درد کے مارے برا حال تھا۔ میری آنکھوں سے ایک ہی
                    دھکے میں آنسو نکل آئے تھے۔ درد اتنی شدید تھی کے میری ٹانگیں اور پورا جسم
                    بری طرح کانپ رہا تھا جب کہ رافعہ میرے اوپر میرے نپل چوسنے میں مصروف تھی۔
                    گانڈ کی درد اتنی شدید تھی کہ نپل چوسنے کا مزہ بھی اب محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ندیم
                    نے میری دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھیں تاکہ میں چھڑوا نہ سکوں۔
                    کچھ دیر بعد ندیم نے ایک اور زور دار دھکا مارا اور اب کی بار میری چیخ پہلے سبھی
                    زیادہ تھی۔ اور میں نے مسلسل چیخنا شروع کر دیا تھا اور اپنے جسم کا پورا زور لگانا
                    شروع کریا کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں گانڈ مروانی۔ مگر ندیم نے مجھ پر ذرا بھی
                    رحم نہ کھایا اور میرے جسم کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ میں نے رضوان کی بھی
                    منتیں کیں کہ پلیز مجھے اس مصیبت سے نجات دلواو مگر وہ تو اس وقت رافعہ کی
                    گانڈ مارنے میں مصروف تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ایک بار میری بھی گانڈ کی چودائی
                    کرے ندیم تاکہ بعد میں رضوان بھی میری گانڈ مار سکے۔ لہذا وہ بھی میری مدد کو نہ
                    آیا اور مجھے تسلی دینے لگا کہ حوصلہ رکھو ابھی تمہیں مزہ آنے لگے گا جیسے
                    رافعہ مزے سے گانڈ چدوا رہی ہے۔ آخر کار ندیم نے ایک اور آخری دھکا مارا اور اسکا
                    لن کافی حد تک میری گانڈ میں غائب ہوچکا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے
                    میں ابھی بے ہوش ہوجاوں گی۔ ایک تو ندیم کا لن بہت موٹا تھا اوپر سے وہ میری گانڈ
                    میں تھا۔ میری چیخیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اور میری ٹانگیں اب
                    کانپ رہی تھیں۔ اور ٹانگوں میں جسیسے جان بالکل ختم ہوچکی تھی۔ آنکھوں سے
                    مسلسل آنسو جاری تھے۔ ندیم کچھ دیر ایسی ہی میری گانڈ میں لن ڈالے کھڑا رہا۔ جب
                    میری درد کی شدت کچھ کم ہوئی تو ندیم نے لن باہر نکالنا شروع کیا تو میری درد ایک
                    بار پھر تیز ہوگئی اور میں نے پھر سے اسکی منتیں کیں کہ پلیز میری گانڈ مت مارو۔
                    مگر ندیم نے اپنا پورا لن میری گانڈ سے نکاال صرف ٹوپی اندر رہنے دی اور ایک بار
                    پھر ایک زور دار دھکا مارا تو اسکا لن میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر تک چال گیا۔ اور
                    ایک بار پھر میری چیخوں سے کمرہ گونجنے لگا۔ ندیم نے پھر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر سے لن باہر نکال کر دھکا مارا ۔ اب کی بار وہ
                    انتظار نہیں کر رہا تھا وہ بہت آہستہ آہستہ اپنا لن باہر نکالتا اور اک دم سے دھکا مار
                    کر میری گانڈ پھاڑ کر رکھ دیتا۔ ہر دھکے پر مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میری گانڈ کو
                    کسی لوہے کے راڈ نے چھیل کر رکھ دیا ہو۔ 10 منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ندیم
                    آہستہ آہستہ لن باہر نکالتا اور پھر ایک زور دار دھکا مار کر لن اندر ڈال دیتا۔ اور میں
                    مسلسل 10 منٹ سے تکلیف میں تھی ۔ اب تو میری چیخیں بھی نکلنا بند ہوگئی تھیں
                    کیونکہ گال خشک ہو کا تھا۔ رضوان ان 10 منٹ کے دوران اپنی منی رافعہ کی گانڈ میں
                    نکال چکا تھا۔ اور اب رافعہ میرے نپل چھوڑ کر اسکا لن چوسنے میں مصروف تھی۔
                    میرا درد اور پیاس سے برا حال تھا۔ میں نے پانی مانگا تو رافعہ نے مجھے پانی پالیا
                    تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اب ندیم نے ایک بار اپنا لن میری گانڈ سے نکاال تو مجھے
                    لگا کہ اس تکلیف سے نجات مل گئی۔ مگر ندیم نے میری گانڈ میں ایک بار پھر کریم
                    لگائی اور بوال کہ تمہاری گانڈ کچھ زیادہ ہی ٹائٹ ہے، رافعہ کی گانڈ بھی پہلی بار میں
                    نے ہی پھاڑی تھی مگر وہ اتنی ٹائٹ نہیں تھی اور 5 منٹ بعد ہی رافعہ مزے میں تھی۔
                    مزید کریم لگا کر ندیم نے ایک بار پھر لن میری گانڈ پر سوراخ پر رکھا اور ایک ہی
                    دھکے میں پورا لن میری گانڈ میں داخل کر دیا۔ اور مجھے ایک بار پھر لگا کہ میری
                    گانڈ میں پہلی بار لن گیا ہے۔ لیکن اب کی بار ندیم نے رکنے کی بجائے مسلسل میری
                    گانڈ کی چدائی جاری رکھی۔ میری آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھے۔ مگر اب تکلیف کا
                    احساس آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا۔ مگرمزے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں
                    تھا۔ مزید 5 منٹ کی چدائی کے بعد اب ندیم کا لن روانی کے ساتھ میری گانڈ میں داخل
                    ہو رہا تھا اور اب اسکو میری گانڈ کی چدائی کا مزہ آرہا تھا۔
                    اب رافعہ اٹھی اور اپنی چوت میرے منہ پر رکھ کر بیٹھ گئی تو میں نے اسکی چوت
                    چاٹنا شروع کی۔ میرا دھیان رافعہ کی چوت کی طرف ہوا تو مجھے اپنی گانڈ کی درد اور
                    تکلیف ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی میرے منہ میں رافعہ کی چوت کا
                    پانی تھا اور ندیم ابھی تک میری گانڈ کی چدائی میں لگا ہوا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ میری
                    چوت پر اپنا ہاتھ بھی پھیر رہا تھا جس سے مجھے مزہ آنے لگا تھا۔ اور کچھ دیر بعد
                    میرے منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ابھی بھی یہ مزہ ویسا تو نہیں تھا
                    جیسا کہ چوت کی چودائی میں آتا ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مزہ آنے لگا تھا۔ رافعہ
                    نے ایک بار پھر رضوان کا لن چوس چوس کر کھڑا کر دیا تھا۔ ندیم کو میری گانڈ کی
                    چودائی کرتے ہوئے 25 منٹ ہو چکے تھے۔ اور بالا آخر میری گانڈ میں اپنی منی چھوڑ دی۔ منی چھوڑنے کے بعد وہ میرے اوپر گرگیا اورمجھے چومنے لگا اور کہا آج
                    بہت عرصے بعد اتنی ٹائٹ گانڈ ملی ہے مزہ آگیا تمہاری گانڈ مار کر۔اب رضوان میری
                    طرف متوجہ ہوا اور بوال اب میری باری ہے فائزہ کی گانڈ مارنے کی۔
                    میں نے رضوان کو کہا پلیز اب نہیں۔ پھر کبھی سہی۔ رضوان نے کہا نہیں پلیز مجھے
                    اپنی گانڈ مارنے دو۔ میں نے پھر اسے کہا کہ آج مزید ہمت نہیں مجھ میں ۔ میری گانڈ
                    بھی تمہاری ہے میری چوت بھی تمہاری ہے۔ پھر کسی دن مار لینا لیکن آج نہیں پلیز۔
                    جس پر رضوان نے مجھ پر ترس کھایا اور ایک بار پھر اپنا لن رافعہ کی چوت میں داخل
                    کر دیا۔ رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی اپنی چوت کی چدائی کروا رہی تھی۔ اور اپنی گانڈ ہال
                    ہال کر لن کے مزے لے رہی تھی۔ اتنے میں ندیم کا لن دوبارہ کھڑا ہوا تو اس نے اپنے
                    لن کا رخ رافعہ کی گانڈ کی طرف کیا۔ وہ رضوان کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور رافعہ
                    کو گانڈ تھوڑی اونچی کرنے کو کہا۔ رافعہ کی چوت میں رضوان کا لن تھا۔ اس نے گانڈ
                    تھوڑی اونچی کی تو پیچھے سے ندیم نے اپنا 8 انچ کا لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر
                    دیا۔ رافعہ کے چہرے پر اب تکلیف کے آثار تھے اور وہ ہلکی ہلکی چیخیں مار رہی
                    تھی۔ اب رضوان اور ندیم دونوں ملکر رافعہ کی چودائی کر رہے تھے۔ میں نے ایک ہی
                    ٹائم میں چوت اور گانڈ میں لن لیتے ہوئے فلموں میں دیکھا تھا۔ اور آج اصل زندگی میں
                    رافعہ اپنی گانڈ اور چوت ایک ہی وقت میں چدوا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اسکی تکلیف
                    مزے میں چینج ہوگئی۔ وہ حیرت انگیز طور پر رضوان اور ندیم کے طوفانی دھکے اپنی
                    گانڈ اور چوت میں برداشت کر رہی تھی اور اسکی سسکیاں ماحول کو اور سیکسی بنا
                    رہی تھیں۔
                    کچھ دیر بعد ان دونوں نے پوزیشن چیج کی۔ اب ندیم کا لن رافعہ کی چوت میں تھا اور
                    رضوان کا لن رافعہ کی گانڈ میں ۔ 10 منٹ کی چودائی کے بعد دونوں نے اپنی منی
                    رافعہ کی گانڈ اور چوت میں چھوڑ دی۔ اس دوران رافعہ بھی 3 بار اپنی چوت کا پانی
                    چھوڑ چکی تھی۔ اس زبردست چدائی کے بعد بھی رافعہ بہت مزے میں تھی جب کہ میرا
                    انگ انگ دکھ رہا تھا کیونکہ آج پہلی بار میری گانڈ ماری تھی کسی نے اور وہ بھی 8
                    انچ کے لمبے اور موٹے لن کے ساتھ۔
                    کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے وہیں پر کھانا کھایا اور پھر رضوان نے مجھے گھر
                    پر چھوڑ دیا۔ گھر جا کر میں مطمئن تھی۔ گانڈ کی درد تو ابھی بھی محسوس ہو رہی تھی مگر اب یہ اطمینان تھا کہ رضوان نے اپنی آنکھوں کے سامنے مجھے کسی اور لڑکے
                    سے چدواتے ہوئے دیکھا تھا تو آئندہ بھی مجھے اسکے کسی دوست کا لن لینے میں
                    مشکل نہیں ہوگی۔
                    مگر اسکے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں سائرہ اور حیدر گھوم رہے تھے۔ ان دونوں نے
                    میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ سائرہ نے میری ویڈیو بنا کر حیدر کو دی تاکہ اسکی اپنی
                    عزت بچ سکے اور حیدر نے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ یہ اور بات کے
                    اسکا لن اس قابل نہیں تھا کہ میری چوت کو سکون بخش سکے 2 جھٹکوں سے زیادہ
                    وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور منی چھوڑ دیتا تھا۔ اب میں اپنے ذہن میں دونوں سے
                    بدلہ لینے کا سوچ رہی تھی۔ وہ امیر فیملی اور اثرو رسوخ والی فیملی تھی ان سے بدلی
                    لینا آسان نہیں تھا۔ میں مسلسل 3 گھنٹوں سے اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ آخر ان
                    دونوں بہن بھائیوں سے کیسے بدلہ لیا جائے۔ آخر کار حیدر سے بدلہ لینے کی ترکیب
                    میرے ذہن میں آگئی جو بہت آسان تھی مگر سائرہ سے بدلہ لینے کی ابھی تک کچھ
                    نہیں سوجھی تھی۔
                    آخر کار میں نے سوچا کہ پہلے حیدر سے تو بدلہ لیا جائے بعد میں سائرہ کے بارے
                    میں بھی سوچ لیں گی۔ اب میں سکون سے لیٹ گئی اور دوبارہ سے ندیم کے تگڑے لن
                    سے چدائی کے مزے کو یاد کرنے لگی اور یہی یاد کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی۔
                    صبح بیدار ہوئی تو جسم کو کافی حد تک سکون مل چکا تھا مگر ابھی بھی گانڈ ایسے
                    جل رہی تھی جیسے کسی نے اندر مرچیں ڈال دیں ہوں۔ گانڈ کی پہلی چودائی میں مزہ نہ
                    ہونے کے برابر تھا۔ میں بستر سے اٹھی تو چلنے میں بھی دشواری محسوس ہوئی۔
                    واش روم جا کر میں نے نہانا شروع کر دیا تو مجھے کل کی چودائی دوبارہ یاد آنے
                    لگی۔ ندیم کا 8 انچ کا لن جب میری چوت کو بے دردی سے چود رہا تھا وہ سین اب
                    میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ میری ڈوگی سٹائل میں اپنی چوت مروا رہی تھی
                    اور میرے ممے لٹکنے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے ہل رہے تھے۔ یہ یاد آیا تو میں نے
                    شاور لیتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے مموں پر
                    شاور کا پانی گر رہا تھا اور نیچے بہ رہا تھا، واش روم میں لگے ہوئے بڑے شیشے
                    میں جب میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے اپنے اوپر پیار آنے لگا۔ میں اپنے مموں
                    کو دیکھنے لگی جو پانی سے بھیگے ہونے کے باعث بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ میں شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے مموں کو دبا رہی تھی اور میرے منہ سے سسکیاں
                    نکل رہی تھیں۔ پھر میں نے اپنے نپلز کو بھی مسلنا شروع کر دیا۔ مجھے اور مزہ آنے
                    لگا اور اب میری چوت میں بھی خارش ہونے لگی تو میں نے اپنی انگلی چوت میں ڈال
                    دی اور اسکو رگڑنے لگی۔ لن والا مزہ تو نہیں تھا مگر پھر بھی انگلی چوت میں ڈال
                    کر سکون مال تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے خود ہی انگلی سے اپنی چودائی شروع کر دی
                    اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو بھی دباتی رہی۔ آہستہ آہستہ میری سسکیوں میں
                    اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور میرے جسم میں جیسے سوئیاں سی چبھنے لگیں تھیں۔ کچھ
                    دیر مزید آنکھیں بند کر کے میں اپنی انگلی سے اپنی چوت کی چودائی کرتی رہی آخر
                    کار میری چوت نے ایک دم سے پانی چھوڑ دیا جس سے میرے پورے جسم میں سکون
                    کی لہر دوڑ گئی۔
                    اسکے بعد اچھی طرح نہانے کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور باہر آگئی۔ باہر آکر میں
                    نے ناشتہ کیا اور واپس اپنے کمرے میں آکر اپنا خفیہ کیمرے والا پین نکالا اور اسمیں
                    موجود ویڈیو کو اپنے کمپیوٹر میں سیو کر نے کے بعد اس پر پاسورڈ بھی لگا دیا تاکہ
                    کوئی اور اسکو نہ دیکھ سکے۔ میں نے ایک بار ویڈیو خود سے بھی دیکھی جس میں
                    حیدر میری چوت اور گانڈ کو بہت مزے سے چاٹ رہا تھا مگر آخر میں اسکا کمزور لن
                    میری چدائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ابھی میں یہ ویڈیو دیکھ ہی رہی تھی کہ حیدر کی
                    کال آگئی میرے موبائل پر۔ کال اٹینڈ کی تو پہلے تو وہ کافی دیر خاموش رہا پھر کچھ
                    حوصلہ کر کے مجھ سے معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ فائزہ آپی میں آپ سے
                    بہت شرمندہ ہوں، میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میری ہوس نے مجھے ایسا کرنے
                    پر مجبور کر دیا۔ آپ پلیز کسی کو مت بتائیے گا اس بارے میں۔
                    اسکی بات سن کر میں نے اسکو کہا کہ تم فکر نہیں کرو۔ بس میں تم سے ملنا چاہتی
                    ہوں ایک بار۔ جب سائرہ اور سمیرا گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا۔ میں تم سے ملنے
                    آوں گی۔ یہ سن کر وہ حیران ہوا اور بوال کہ خیریت تو ہے؟ مگر میں نے اسکو کچھ
                    بھی بتانا مناسب نہین سمجھا اور کہا بس جب وہ گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا میں ملنا
                    چاہتی ہوں تم سے۔ جس پر اس نے مجھے بتایا کہ کل سائرہ اور سمیرا گھر والوں کے
                    ساتھ بہاولپور جا رہی ہیں اپنے رشتے داروں کے گھر تو وہ گھر پر اکیلا ہوگا لہذا کل
                    ملاقات ہو سکتی ہے۔ میں فورا تیار ہوگئی اور اسکو کہا کہ کل میں خود ملنے آوں گی
                    لہذا وہ گھر پر ہی رہے۔

                    ---------------------------------------

                    سالی پو​​​​​رے گھر والی





                    قسط 21



                    کل رات میں جو پالن بنایا تھا میں نے بدلہ لینے کا اسکا وقت آگیا تھا۔ اگلے دن میں نے
                    خود حیدر کو 12 بجے کال کی تو اسنے بتایا کہ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ نکل جائیں
                    گے تو میں 1 بجے تک اسکے گھر آسکتی ہوں۔ یہ سن کر میں نے کال بند کردی اور
                    خود تھوڑا تیار ہونے لگی۔ تیار ہو کر میں نے اپنے خفیہ کمیرے سے میموری کارڈ
                    نکاال اور اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ پھر انٹرنیٹ کنیکٹ کر کے اس ویڈیو کو یو ٹیوب پر
                    اکاونٹ بنا کر اس پر اپلوڈ کر دیا۔ مگر اس ویڈیو کو میں نے یو ٹیوب میں پرائیویٹ
                    سیٹنگ کے ساتھ اپلوڈ کیا اور اس کو پاسورڈ پروٹیکٹیڈ بھی کر دیا۔ اور پھر میں نے
                    گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو پہلے ایک سکارف بھی اٹھا لیا جس سے میں نقاب کر
                    سکوں۔ وہ سکارف بھی میں نے اپنے بیگ میں رکھا چادر لی اور امی کو دوست کے
                    گھر جانے کا کہ کر پھر گھر سے نکل گئی۔ اور باہر جا کر رکشے میں بیٹھ کر سکارف
                    لیا اور نقاب کر لیا۔ اور پھر اوپر سے چادر بھی لپیٹ لی۔ رکشہ واال بھی حیرانی سے
                    دیکھنے لگا کیونکہ لڑکیاں عموما گھر سے نقاب کر کے نکلتی ہیں مگر باہر نکل کر
                    نقاب اتار دیتی ہیں۔ جبکہ میں گھر سے بغیر نقاب کے نکلی اور رکشے میں بیٹھ کر
                    نقاب کیا۔
                    اسکی وجہ یہ تھی کہ میں عام روٹین میں نقاب نہیں کرتی تھی باہر جاتے ہوئے، اس
                    لیے میں نے امی کے سامنے نقاب نہیں لیا کو وہ زیادہ سوال نہ پوچھیں کہ آج کیسے
                    نقاب کر کے جا رہی ہو؟ انکے سوالوں سے بچنے کے لیے اور انکو کسی قسم کا شک
                    نہ ہومیں بغیر نقاب کے نکلی تھی۔ مگر نقاب کرنا ضروری تھا کیونکہ آگے جو میں
                    کرنے جا رہی تھی اس میں ضروری تھا کہ کوئی مجھے پہچان نہ سکے۔ شہر کے ایک
                    گنجان آباد عالقے میں رکشہ داخل ہوا تو میں نے اسکو ایک بڑے میڈیکل سٹور کے
                    سامنے رکوا لیا۔ وہاں اتر کر میں سٹور میں داخل ہوئی اور اسکو ایک پرچی تھما دی
                    جو میں نے گھر پر ہی لکھ لی تھی۔
                    اس پرچی پر مردانہ ٹائمنگ بڑھانے کے لیے ایک گولی لکھی تھی اور ساتھ میں کنڈوم
                    کا پیکٹ تھا۔ اس گولی کے بارے میں مجھے ایک بار کالج میں ایک لڑکی نے بتایا تھا
                    جو اکثر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس کرتی تھی اور اسکا بوائے فرینڈ ٹائمنگ
                    بڑھانے کے لیے گولی کا استعمال کرتا تھا۔ اور کنڈوم کا بھی اسی نے بتایا تھا جو ڈاٹڈ
                    ہوتے ہیں۔ ان پر چھوٹے چھوٹے ڈاٹ لگے ہوتے ہیں جو چودائی کے دوران عورت کوزیادہ مزہ اور زیادہ رگڑ دیتے ہیں۔ دکاندار نے وہ پرچی دیکھی اور مجھے گھور گھور
                    کر دیکھنے لگا، میں نے بھی کڑک آواز میں کہا جو لکھا ہے جلدی دے دو میں نے
                    آگے جانا ہے۔ جس سے اس نے میری مطلوبہ چیزیں مجھے دیں اور مجھے معنی خیز
                    نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ انکے پیسے دینے کی بجائے بس اپنی
                    چوت مجھے دے دو۔ مگر میں نے اسکو پیسے تھمائے اور فورا رکشے میں جا کر بیٹھ
                    گئی اور حیدر کے گھر پہنچ کر حیدر کو کال کی۔ وہ باہر آیا اور مجھے لیکر اندر چال گیا۔
                    ہمارا رخ حیدر کے کمرے کی طرف تھا۔ اسکے کمرے میں جا کر سب سے پہلے میں
                    نے اسے کمپیوٹر آن کرنے کو کہا۔ اسنے مجھے سے کھانے پینے کا پوچھا تو میں نے
                    کہا وہ بھی بتادوں گی مگر پہلے اپنا کمپیوٹر آن کرو۔ اس نے کمپیوٹر آن کیا تو میں نے
                    اسے میموری کارڈ دیا اور کمپیوٹر میں لگانے کو کہا۔ اسنے پوچھا اس میں کیا ہے؟
                    میں نے کہا تم لگاو تو تمہیں بتاتی ہوں۔ اسنے کارڈ لگایا تو میں نے اسکو وہ ویڈیو
                    دکھا دی جو میں نے خفیہ کیمرے سے ہوٹل روم میں بنائی تھی۔
                    جیسے ہی وہ ویڈیو سٹارٹ ہوئی حیدر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ، وہ کبھی
                    مجھے دیکھتا اور کبھی ویڈیو کو۔ پھر وہ کپکپاتی آواز میں بوال ۔ ۔ ۔ ف ف ف ف فائزہ آ
                    آ آ پی یہ ک ک ک کیا؟؟؟؟ میں نے اسکو زہریلی نظروں سے دیکھا اور کہا کہ تم کیا
                    سمجھتے ہو تم ویڈیو بنا کر کسی لڑکی کو بلیک میل کرو گے اور وہ اپنی حفاظت کے
                    لیے کچھ نہیں کرے گی؟؟؟ یہ سن کر اسنے فورا وہ ویڈیو بند کی اور کارڈ سے ڈیلیٹ
                    کرکے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ تو میں نے ایک قہقہ لگایا اور کہا تم کیا
                    سمجھتے ہو میں اتنی پاگل ہوں کہ ویڈیو کا بیک اپ لیے بغیر کارڈ تمہیں ال دوں گی؟؟
                    میں نے اسے بتایا کہ یہ ویڈیو میرے پاس اب سی ڈیز میں بھی محفوظ ہے، میرے
                    کمپیوٹر میں بھی محفوظ ہے یو ٹیوب پر بھی اپلوڈ ہو چکی ہے مگر اسکو دیکھ کوئی
                    نہیں سکتا ابھی کیونکہ وہ میں نے پاسورڈ پروٹیکٹیڈ رکھی ہے۔ مزید میں نے اسکو
                    فیس بک پیج دکھایا ایک جو میرا تھا اور میں اس پر کچھ سیکسی چیزیں پوسٹ کیا کر
                    تی تھی۔ اس پیج پر 000،50 کے قریب فین بھی تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے
                    ویڈیو کو ایڈیٹ بھی کیا ہے جہاں جہاں میری شکل ہے وہاں سے میں نے ویڈیو کاٹ دی
                    ہے جہاں میری پیٹھ ہے یا صرف چوت یا گانڈ کیمرے کے سامنے ہے وہ حصہ رہنے
                    دیا ہے مگر تمہاری شکل بھی ویڈیو میں ہے اور تمہاری وہ ساری باتیں بھی جو تم نے
                    میرے سے کیں اور اپنی بہن سائرہ کے بارے میں بتائیں کہ کیسے اسنے ویڈیو بنائیاور مجھے بلیک میل کرنے کا راستہ فراہم کیا۔ اور ویڈیو کے آخر میں تمہارے ابو کا نام
                    انکا فون نمبر، تمہارا فون نمبر، تمہاری بہن کا نمبر، نام اور اسکا کالج میں موجود
                    رولنمبر سب کچھ ویڈیو میں دے دیا ہے۔ تاکہ جو بھی وہ ویڈیو دیکھے وہ تمہاری
                    پوری فیملی تک رسائی حاصل کر سکے۔ اور اس ویڈیو کو ایڈیٹ کرنے کے بعد اور یہ
                    نمبرز اور تمہاری فیملی کے تفصیالت دینے کے بعد میں نے وہ ویڈیو اپنے اس فیس
                    بک پیج پر شیڈیول پوسٹنگ میں لگا دی ہے۔ اگر تم نے یہاں مجھے مارنے کی کوشش
                    کی یا مجھے قید کرنے کی کوشش کی یا مجھے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا تو
                    ٹھیک 2 دن کے بعد وہ ویڈیو خود بخود فیس بک پر پبلش ہوجائے گی اور تمہاری
                    پوری فیملی بدنام ہوگی۔
                    لیکن اگر تم میرے ساتھ معامالت طے کر لو تو میں اس ویڈیو کو پوسٹ ہونے سے
                    پہلے اسکی ڈیٹ اور آگے بڑھا دوں گی۔ لیکن رہے گی وہ شیڈیولنگ پر ہی اور میں
                    گاہے بگاہے اسکی ڈیٹ آگے بڑھاتی رہوں گی جب تک تم میرے ساتھ تعاون کرتے رہو
                    گے۔ جس دن تم نے میرے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا یا پھر مجھے کوئی نقصان پہنچایا
                    تو میں اس ویڈیو کی ڈیٹ مزید آگے نہیں بڑھا سکوں گی اور وہ خود ہی پوسٹ ہوجائے
                    گی۔ اور تم اپنی بہن اور پوری فیملی سمیت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔
                    میری توقعات کے عین مطابق میرا پھینکا ہوا یہ تیر بالکل نشانے پر جا کر لگا۔ حیدر کا
                    رنگ سفید پڑ چکا تھا اور کمرے میں اے سی چلنے کے باوجود اسکو پسینے آرہے
                    تھے۔ کافی دیر کمرے میں خاموشی رہی اور میں فاتحانہ نظروں سے اسکو گھورتی
                    رہی۔ پھر جب اسکے کچھ حواس بحال ہوئے تو اسنے مجھ سے پوچھا بتاو تمہیں کیسا
                    تعاون چاہیے۔ اور کتنے پیسے چاہیے؟ مگر پلیز میری فیملی کو بدنام نا کرنا تمہیں
                    نقصان میں نے پہنچایا ہے میری بہن یا میری فیملی کو بیچ میں نہ الو۔ اس پر میں چال
                    کر بولی کہ تمہاری بہن بھی اس سارے پالن میں شامل ہے۔ لہذا اسکو بھی سزا ملنی
                    چاہیے۔ اور پیسے مجھے نہیں چاہیے۔ بس تمہارا تعاون چاہیے۔
                    وہ بوال کہ بتاو تم کیا چاہیتی ہو؟ سب سے پہلے تو میں نے اس سے اسکا موبائل مانگا۔
                    اور اسکو کہا اس میں ویڈیو دکھائے میری اور رضوان کی ویڈیو کہاں پڑی ہے۔ اس نے
                    ایک فولڈر اوپن کیا جس پر پاسورڈ لگا ہوا تھا اسکے اندر میری اور رضوان کی ویڈیو
                    پڑی تھی۔ میں نے وہ ڈیلیٹ کروائی۔ پھر اسکا پورا میموری کارڈ چیک کیا اور جو جوفولڈر الک تھے ان سب کو اوپن کروا کر چیک کیا کہ کہیں اور تو میری ویڈیو نہیں پڑی۔
                    مگر اور مجھے پورے موبائل میں کہیں ویڈیو نہیں ملی تو میں نے اسکے موبائل کا
                    میموری کارڈ کمپیٹر میں لگایا اور اسکو کہا اس کارڈ کو فامیٹ کر دو۔ تاکہ اگر کوئی
                    فولڈر میری نظروں سے رہ بھی گیا ہو تہو بھی وہ ڈیلیٹ ہوجائے۔ کارڈ فامیٹ کرنے کے
                    بعد میں نے اسکا کارڈ لیا اور اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنے
                    موبائل کو بھی فیکٹری ریسیٹ کرے۔ جس پر وہ بوال کہ وہ موبائل کو ریسیٹ نہیں کرے
                    گا کیونکہ موبائل کی میموری میں اسکا ضروری ڈیٹا، سمیرا کے کچھ پیار بھرے
                    میسیجز اور دوستوں کے ضروری نمبرز وغیرہ بھی ہیں۔ میں نے اسے کہا انتخاب تم
                    نے کرنا ہے۔ سمیرا کے میسیج اور دوستوں کے نمبر بچالو یا پھر اپنی بہن کی اور اپنی
                    فیملی کی عزت بچا لو۔ میری یہ بات سن کر وہ بے بسی سے مجھے دیکھنے لگا اور
                    آخر کار اس نے اپنا موبائل بھی ریسیٹ کر دیا۔ موبائل ریسیٹ کرنے کے بعد وہ اسکو
                    واپس اپنے پاس رکھنے لگا تو میں نے کہا یہ موبائل بھی مجھے دے دو۔ اس نے
                    پوچھا وہ کیوں تو میں نے کہا فکر نہ کرو اسکی جو قیمت ہے وہ میں تمہیں دے دوں
                    ِھی تمہارے کسی کام کا نہیں سارا ڈیٹا تو
                    گی مگر یہ موبائل تم نہیں رکھ سکتے ویسے ب
                    اڑ گیا ہے اسمیں سے۔ اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر
                    موبائل بھی مجھے دے دیا۔
                    پھر میں نے اسکو کہا کہ اسکے پاس کوئی اور موبائل بھی ہے تو بتائے اسنے کہا
                    اسکے پاس کوئی اور موبائل نہیں۔ میں نے اسکے کمرے میں موجود تمام دراز اور
                    الماریاں چیک کیں مجھے ایک نوکیا کے پرانے موبائل کے عالوہ اور کچھ نہیں مال۔ نہ
                    کوئی سی ڈی نہ کوئی میموری کارڈ وغیرہ۔ وہ موبائل جو مال وہ اس قابل نہیں تھا کہ
                    اس میں کوئی ویڈیو سیو کی جا سکے لہذا وہ میں نے اسکو ویسے ہی واپس کر دیا۔
                    پھر میں نے اسکو کہا اپنا فیس بک کا اکاونٹ اوپن کرے۔ اسنے اکاونٹ اوپن کیا تو
                    اسکے اکاونٹ میں ویڈیو اور تصویریں پڑی تھیں۔ میں نے اسکے فیس بک اکاونٹ سے
                    ساری تصویریں ڈیلیٹ کروائیں جو میری اور رضوان کی تھیں اور اسنے مجھے میسج
                    کی تھی۔اسکے میسجز میں وہ تصویریں محفوظ تھیں۔ وہاں سے ڈیلیٹ کر کے میں نے
                    اسکے فوٹو البم چیک کیے تاکہ وہاں بھی اگر اسنے پرائیویسی لگا کر اپلوڈ کی ہوں تو
                    میں ڈیلیٹ کر سکوں۔ اسنے مجھے یقین دالیا کہ ان میسیجز اور موبائل کے عالوہ
                    تمہاری تصویریں اور کہیں نہیں ۔ اب تم بالکل محفوظ ہو۔ مگر میں اتنی آسانی سے
                    کیسے یقین کر لیتی۔ میں نے اسکے براوزر کی ہسٹری اور پاسورڈ سیو سیٹنگ میں جاکر چیک کیا کہ وہ کون کونسے ای میل کے ساتھ فیس بک استعمال کرتا ہے۔ مجھے 2
                    ای میل اور ملے جن کے ذریعے اس نے فیس بک پر اکاونٹ بنائے ہوئے تھے۔ میں نے
                    اسکو کہا کہ ان دونوں اکاونٹ کو الگن کرو۔ اس نے فورا الگن کر دیے تو میں نے انکو
                    بھی اچھی طرح چیک کیا۔ مگر ان میں کچھ نہیں تھا۔
                    پھر میں نے اسکی براوزنگ ہسٹری میں سے جی میل، یاہو، اور ہاٹ میل کے تمام
                    اکاونٹس چیک کیے جن جن پر وہ الگن کرتا تھا۔ وہ الگن کروا کر میں نے تمام اکاونٹس
                    کی ای میلز کو اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں اس نے میری کوئی ویڈیو تو نہیں رکھی۔
                    مجھے ادھر بھی کچھ نہیں مال۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنی ہارڈ دسک کو بھی
                    فارمیٹ کر دے۔ جس پر وہ بلبال اٹھا کہ آخر تم چاہتی کیا ہو۔ میرا بہت ضروری ڈیٹا پڑا
                    ہے اس میں۔ میں نے کہا میری عزت سے زیادہ ضروری نہیں ہو سکتا وہ۔ لہذا میں
                    کسی بھی قسم کا رسک نہیں لے سکتی لہذا تم بھی وہی کرو جو میں کہ رہی ہوں
                    کیونکہ تماری بہن کی عزت بھی قیمتی ہے۔ جس پر اس نے مجھ سے اجازت مانگی کہ
                    کچھ ضروری ڈیٹا وہ میرے سامنے کسی اور جگہ پر سیو کر سکتا ہے ؟؟؟ تو ِمیں نے
                    اجازت دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک ایک چیز مجھے دکھا کر سیو کرے گا مگر
                    اسمیں کوئی تصویر یا کوئی ویڈیو نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ڈاکومنٹس ہیں تو انکو سیو کر
                    لے۔ جس پر اس نے اپنے کچھ ضروری ڈاکومنٹس کو اپنے ای میل ایڈریس پر سینڈ کر
                    دیا۔ اب اسکا ضروری ڈیٹا محفوظ تھا جس میں کوئی بھی تصویر یا ویڈیو نہیں تھی،
                    میں نے اسکی ہارڈ دسک فارمیٹ کروائی اور اور اسکو کہا اب کمپیوٹر بند کرے اور یہ
                    ہارڈ دسک بھی اتار کر مجھے دے دے۔ جس پر اس نے دوبارہ مجھے کھا جانے والی
                    نظروں سے دیکھا اور غصے میں بوال اب کیا کرو گی اسکا سب کچھ تو تم نے ڈیلیٹ
                    کروا دیا ہے۔ میں نے اسے کہا میں اتنی بھولی نہیں کہ یہ ہارڈ تمہارے پاس چھوڑ
                    جاوں اور تم دوبارہ سے ڈیٹا ریکور کر کے مجھے پھر سے بلیک میل کرو۔ میری یہ
                    بات سن کر وہ بوال بہت تیز ہو تم۔ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ میں
                    ایسا کروں گا نہ ہی میرا کوئی لمبا چوڑا پروگرام تھا تمہیں بلیک میل کرنے کا میں تو
                    بس ایک بار تمہارے ممے چوسنا چاہتا تھا۔ اس پر میں نے کہا میں نہیں جانتی تمہارا
                    کیا پروگرام تھا مگر اب میں تم پر کسی بھی طرح اعتبار نہیں کر سکتی۔ لہذا مجھے اپنی
                    حفاظت کے لیے جو چیز بہتر لگے گی اور سمجھ میں آئے گی وہ میں کروں گی۔ آخر
                    کار اس نے اپنی ہارڈ ڈسک اتاری اور وہ بھی مجھے دے دی۔ وہ میں نے اپنے بیگ
                    میں رکھ لی۔

                    Comment


                    • #60
                      سالی پورے گھر والی



                      قسط 22



                      یہ سب کرنے کے بعد اب میں نے اسکو ذرا پیار سے دیکھا۔ مگر وہ مجھے کھا جانے
                      والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میں جا کر اسکی گود میں بیٹھ گئی جس پر وہ بہت
                      حیران ہوا۔ میں نے اسکو ایک کس کی اور کہا کہ جسطرح تم نے کل میری چوت چاٹی
                      اور گانڈ چاٹی تم نے تو مجھے پاگل ہی کر دیا تھا۔ تب سے میری چوت میں خارش ہو
                      رہی ہے اور میرے نپلز کھڑے ہیں تمہاری زبان کے لمس کو محسوس کرنے کے لیے۔
                      وہ حیران اور پریشان میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا غصہ نہ کرو تم سمجھ
                      سکتے ہو کہ یہ سب کچھ میں نے اسی لیے کیا کہ کبھی غلطی سے بھی تمہارے پاس
                      سے یہ ویڈیو اور تصویریں لیک نا ہوجائیں اور کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ جس
                      طرح تمہیں اپنی بہن اور فیملی کی عزت عزیز ہے ٹھیک اسی طرح مجھے بھی اپنی
                      عزت عزیز ہے۔ اور یہ سب کرنا میری مجبوری ہے۔ تم نے ایک غلطی کی ہے اسکی
                      سزا تو ملے گی۔ مگر میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ صرف اپنی حفاظت کے لیے
                      ضروری اقدامات کیے ہیں۔ اور تم اپنی فیملی کی فکر نہ کرو میں گھر جا کر فیس بک پر
                      تمہاری ویڈیو کو ایک مہینہ آگے کر دوں گی شیڈیول۔ اور ہر مہینے کی 15 تاریخ کو تم
                      مجھے میسیج کر کے یاد کروا دیا کارہ میں ویڈیو ایک مہینہ آگے شیڈیول کر دیا کروں
                      گی تاکہ وہ کبھی بھی پوسٹ نہ ہونے پائے۔
                      تم نے ایک غلط چیز کا آغاز کیا۔ لہذا اب میں تم پر مکمل اعتماد تو نہیں کر سکتی فوری
                      طور پر۔ مگر کچھ عرصے بعد جب مجھے یقین ہوجائے گا کہ تم مجھے کسی قسم کا
                      نقصان نہیں پہنچاو گے تو میں وہ ویڈیو پرمانینٹ ڈیلیٹ کر دوں گی۔ جس پر حیدر کچھ
                      مطمئن ہوا اور کہا تم ٹھیک کہ رہی ہو غلطی میری ہی ہے اور یہ سب جو تم نے کیا
                      میرا ڈیٹا ڈیلیٹ کروایا اتنی سزا تو ملنی ہی چاہیے مجھے مگر پلیز وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر
                      دو قسم سے تمہاری ویڈیو اب میرے پاس کہیں بھی محفوظ نہیں۔ میں نے کہا فکر نہیں
                      کرو کر دوں گی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد جب مجھے تم پر یقین ہوجائے گا۔
                      اس نے کہا ٹھیک ہے تم میرے پر مکمل اعتبار کر سکتی ہو۔ جب تک چیک کرنا چاہو
                      کر لو پھر اسکو ڈیلیٹ کر دینا۔
                      میں نے کہا بھول جاو اب اسکو، اور میری طرف دھیان دو۔ جن مموں کو تم چوسنا
                      چاہتے تھے وہ تمہارے سامنے ہیں اپنا کام شروع کرو۔ تم نے اس دن مجھے پاگل کر دیا تھا۔ مجھے آج پھر وہی مزہ دو جو اس دن دیا تھا۔ یہ کہ کر میں نے خود ہی اپنی
                      ِھی فورا ہی کھول دی۔ میرے ممے اب تنے ہوئے
                      قمیص اتار دی۔ اور اپنی برا کی ہک ب
                      حیدر کے سامنے تھے جنہیں دیکھتے ہی وہ پاگل ہوگیا اور سب کچھ بھول کر انکو
                      چوسنے لگا۔ اسنے مجھے فورا ہی بیڈ پر لٹا لیا اور میرے اوپر لیٹ کر میرے مموں کو
                      زور زور سے دبانے لگا۔ میرے نپلز پکڑ کر وہ انکو دباتا اور کبھی منہ میں لیکر
                      چوستا۔ میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اسکی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اور اسکے بالوں
                      میں مسلسل ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی۔ کچھ دیر وہ میرے ممے چوسنے کے
                      بعد نیچے چوت کی طرف جانے لگا تو میں نے اسکو روکا اور کہا ابھی مزید ممے
                      چوسے ابھی میرے مموں کو سکون نہیں مال۔ تو اسنے دوبار سے میرے نپلز منہ میں
                      لیکر زور زور سے چوسنا شروع کر دیے۔ کبھی وہ دانتوں سے کاٹتا میرے نپلز پر تو
                      کبھی اپنی زبان پھر کر انکے تناو میں اور اضافہ کرتا۔ کوئی 5 سے 10 منٹ تک وہ
                      بے دردی سے میرے مموں کو چوستا رہا اور میرے نپلز کو مسلتا رہا۔ اسکے بعد اس
                      نے پھدی کی طرف رخ کرنا چاہا تو میں نے اسکو روکا اور بیگ سے ٹائمنگ بڑھانے
                      والی گولی نکال کر اسے دی اور کہا اسے پانی کے ساتھ نگل لے۔ اسنے پوچھا یہ کیا
                      ہے تو میں نے بتایا کہ اس سے تمہارا لن منی جلدی نہیں چھوڑے گا اور تم مجھے
                      چود بھی سکو گے اچھی طرح۔ جس پر وہ خوش ہوگیا اور فورا ہی گولی پانی سے لے
                      لی۔ جتنی دیر میں اسنے گولی نگلی اتنی دیر میں میں اپنی شلوار اور پینٹی اتار کر سائیڈ
                      پر پھینک چکی تھی اور بیڈ پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گئی۔
                      گولی کھانے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری طرف آیا اور اب اسکی زبان میری چوت کو
                      چاٹنے میں مصروف تھی۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ کبھی
                      میری چوت کے دانے کو زبان سے مسلتا تو کبھی اپنی زبان میری چوت میں داخل کر
                      میری چدائی کرتا۔ میری چوت اس عمل سے گیلی ہو رہی تھی اور مسلسل گرم سے گرم
                      تر ہو رہی تھی۔ پھر میں نے حیدر کہ کہا کہ اپنی انگلی ڈال کر میری چدائی کرے تو
                      اسنے میری چوت میں اپنی انگلی داخل کر دی اور تیزی سے انگلی کو اندر باہر کرنے
                      لگا۔ اس عمل سے محض 2 منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا جو حیدر کے
                      سینے پر جا کر گرا۔ چوت کا پانی نکالنے کے بعد اس نے میری ٹانگیں اٹھا لیں اور
                      گھٹنوں سے لگا کر میری گانڈ اوپر کر دی۔ اور میری گانڈ کو چاٹنے لگا۔ اسکو شاید اس
                      بات کا احساس نہیں ہوا کہ جس گانڈ کو اس نے 2 دن پہلے چوسا تھا وہ گانڈ اب
                      کنواری نہیں رہی بلکہ اس میں ندیم کا 8 انچ کا لن چا چکا ہے۔ وہ تو بس گانڈ کو چوسنے میں مصروف تھا جس سے میری سیکس کی خواہش میں مزید اضافہ ہوتا جا
                      رہا تھا۔
                      تھوڑی دیر گانڈ چٹوانے کے بعد میری برداشت جواب دے گئی تو میں نے حیدر کو
                      سائیڈ پر کیا اور فورا ہی اسکی پینٹ اتار کر اسکا لن انڈر وئیر سے باہر نکال لیا۔ 5 انچ
                      کا لن دیکھ کر مجھے دل ہی دل میں ہنسی آئی مگر فی الحال اسی 5 انچح کے لن سے
                      مجھے اپنی چودائی کروانی تھی۔ حیدر کا لن مکمل کھڑا تھا اور اسمیں سختی بھی تھی۔
                      میں نے اسکے لن کو منہ میں لیا اور اسکے 2 ،3 چوپے لگائے۔ جس سے حیدر کے
                      منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں تھیں۔ میں نے اسکا لن زیادہ نہیں چوسا کیونکہ میں
                      نہیں چاہتی تھی کہ اسکا لن پانی چھوڑ جائے۔ جس لڑکی نے مجھے ٹائمنگ والی گولی
                      کا بتایا تھا اور نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب لن پھدی میں ڈلوانا ہو اس سے 15 سے
                      20 منٹ پہلے یہ گولی کھانی ہے۔ اور اسکا اثر لن پر صرف تب تک رہے گا جب تک
                      وہ پانی نہ چھوڑ جائے۔ ایک بار پانی چھوڑ دیا تو دوسری بار یہ گولی اثر نہیں کرے
                      گی۔
                      لن کے 2 ،3 چوپے لگا کر میں نے لن کو گیلا کر دیا اور پھر اسکا انڈر وئیر اتار کر
                      بیگ سے کنڈوم کا پیکٹ نکالا اور ایک کنڈوم نکال کر اسکے لن پر چڑھانے لگی۔ جس
                      پر حیدر ہنسنے لگا کہ آج تو تم پوری تیاری کے ساتھ آئی ہو۔ جس پر یں نے اسکو کہا
                      ِن من تم پھدی ہی اتنی چاہت سے چوستے ہو کہ میں تمہاری دیوانی ہوگئی ہوں۔ لن
                      جا
                      کے بغیر گزارہ بھی نہیں اسلیے لن سے چدائی کروانے کے لیے یہ بندوبست کرنا پڑا۔
                      کنڈوم لن پر چڑھانے کے بعد ایک بار پھر میں بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر
                      اسکو اپنی پھدی کا راستہ دکھایا، اس نے ایک بار پھر سے اپنی زبان میری پھدی پر
                      پھیر کر اسکو گیلا کیا اور اپنا لن میری پھدی پر سیٹ کر دیا۔ اور آہستہ آہستہ زور
                      لگانے لگا تو اسکا لن آسانی کے ساتھ پھسلتا ہوا میری پھدی میں مکمل چال گیا۔ 5 انچ
                      کا لن بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ کنڈوم بھی تھا جس پر ڈاٹ لگے
                      ہوئے تھے جو میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے جس سے مجھے
                      مزہ مل رہا تھا۔ حیدر نے آہستہ آہستہ دھکے لگانے شروع کیے تو میں نے اسے کہا فل
                      زور کے ساتھ دھکے لگائے۔ میری بات سن کر اسنے اپنی سپیڈ تیز کر دیا اور میری
                      ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر زور زور سے دھکے لگانے لگا۔ اس چودائی میں رضوان اور ندیم سے کروائی گئی چدائی کا تو مزہ نہیں تھا مگر پھر
                      بھی حیدر کی اس دن کی ملاقات سے بہت بہتر چدائی تھی یہ۔ کچھ دیر ایسے ہی دھکے
                      لگانے کے بعد حیدر بوال پلیز گھوڑی بن جاو میں تمہیں گھوڑی بنا کر چودنا چاہتا ہوں۔
                      میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور اسکو کہا جان جیسے تم چاہو میری چدائی
                      کر سکتے ہو۔ میں تمہاری ہوں۔ یہ کہ کر میں اسکے سامنے گھوڑی بن گئی اور اسنے
                      پیچھے سے اپنا لن میری چوت میں رکھا اور ایک ہی دھکے میں لن اندر ڈال کر پھر
                      سے دھکے لگانے شروع کر دی۔ میرے ممے ہلنے لگے اسکی چدائی سے۔ اور میں
                      نے اسکو خوش کرنے کے لیے زور زور سے سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔ بیچ بیچ
                      میں ہلکی سی چیخ بھی مار دیتی۔ اگرچہ مجھے مزہ تو آرہا تھا مگر اتنا نہیں تھا کہ
                      میری چیخیں نکلتیں۔ حیدر نے میرے ممے ہلتے ہوئے دیکھے تو اسکے منہ میں پانی
                      آگیا اور اسنے فورا ہاتھ آگے بڑھا کر میرے مموں کو پکڑ لیا اور پیچھے سے چدائی
                      جاری رکھی۔ گولی اپنا کام دکھا رہی تھی اور حیدر کے لن نے ابھی تک پانی نہیں چھوڑا
                      تھا۔ اور کنڈوم بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔
                      کچھ دیر ایسے ہی گھوڑی بنا کر وہ مجھے چودتا رہا۔ اور اسکے دھکوں میں مسلسل
                      اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے کھڑا ہوکر چودے۔ یہ سن کر وہ بیڈ
                      سے اتر گیا اور میں بھی نیچے اتر کر کھڑی ہوگئی۔ میں اسکے کمپیوٹر ٹیبل کے قریب
                      گئی اور اسکو کہا میری ٹانگ اٹھا کر ٹیبل پر رکھے جس پر اس نے میری ایک ٹانگ
                      اٹھائی اور میں نے اپنی وہ ٹانگ کمپیوٹر ٹیبل پر رکھ دی، اور اسنے نیچے سے اپنا لن
                      میری چوت میں گھسا کر میری چودائی شروع کر دی۔ اب اسکا منہ میری طرف ہی تھا
                      تو اسنے چوت کی چودائی کے ساتھ ساتھ میرے ممے بھی چوسنا شروع کر دیے۔ یہ
                      پوزیشن میں لیے مشکل تو تھی مگر ایسے میں پہلی بار چودائی کر وا رہی تھی اور
                      فلموں میں بھی لڑکیوں کو ایسے چدائی کرواتے ہوئے دیکھا تھا اس لیے میں برداشت
                      کرتی رہی۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے ٹانگ اٹھا کر نیچے لے آئی دوبارہ اور اسکا لن
                      اپنی چوت سے نکال دیا۔ میں نے ٹیبل کی طرف منہ کیا اور ٹیبل کے اوپر چھک گئی اور
                      اپنے چوتڑ باہر کی طرف نکال دیے اور حیدر کو کہا اب لن ڈالے۔ اس نے اپنا لن میری
                      چوت میں داخل کیا اور پیچھے سے میری چودائی کرنے لگا۔ کمرے میں دھپ دھپ کی
                      آوازیں آرہی تھیں اور حیدر بڑی خوشی سے میری چودائی کر رہا تھا۔ پھر ایک دم سے
                      اسکی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا اور دھکے میں بھی زور آگیا۔ جس سے میں سمجھ گئی کہ
                      اسکے لن کی بس ہو چکی ہے اور اب وہ پانی چھوڑنے واال ہے۔ میں نے بھی اپنی گانڈ کو زور زور سے ہالنا شروع کر دیا اور اپنی چوت کو تھوڑا دبا کر ٹائٹ کر لیا۔ جس
                      سے کنڈوم کے ڈاٹس کی رگڑ اور بھی زیادہ ہوگئی۔ اور کچھ ہی جھٹکوں کے بعد میری
                      چوت اور اسکے لن نے اکٹھے ہی پانی چھوڑ دیا۔
                      پانی نکلنے کے بعد حیدر کچھ دیر کھڑا لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ اسنے تقریبا 10
                      منٹ میری چودائی کی تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہی گولی رضوان
                      کو کھالوں تو وہ ایک گھنٹے سے بھی زیادہ میری چودائی کر کے میری چوت سُجا دے
                      گا مگر یہ صرف 10 منٹ ہی چود سکا گولی کھا کر بھی۔ مگر یہ چیز میرے لیے بہتر
                      بھی تھی کیونکہ حیدر سے چدائی کروا کر میرا مقصد مزہ لینا نہیں تھا بلکہ اپنا بدلہ لینا
                      تھا اور اسی پالن پر عمل کرنے کے لیے میں حیدر کے لن سے چدائی کروا رہی تھی۔
                      میں نے حیدر کو پیار کیا اور اسکی تعریف کی کہ تم نے تو آج جم کے چودائی کی ہے
                      میری مزہ آگیا۔ پھر میں بیڈ پر بیٹھ گئی اور اسکو کہا اب کچھ کھالو مجھے بہت بھوک
                      لگی ہے۔ جس پر وہ فریج میں سے پھل نکال الیا۔ میں نے پھل کاٹے اور ہم دونوں نے
                      ملک کر پھل کھائے۔ پھل کھانے کے بعد وہ فریج سے جوس نکال کر الیا جو میں نے
                      خوب مزے سے پیا۔ جوس بہت ٹھنڈا تھا اور تازہ پھلوں کا بنا ہوا تھا۔ ہم دونوں ابھی
                      تک ننگے تھے جوس پینے کے بعد میں نے ایک بار پھر حیدر کا لن اپنے منہ میں لے
                      لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ وہ کنڈوم اتار چکا تھا۔ میں نے لن اپنے منہ میں لیکر خوب
                      چوسا اور کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا۔ لن کھڑا ہوا تو میں نے حیدر کو کہا چلو
                      اب 69 پوزیشن بنائیں تم میری چوت چاٹو اور میں تمہارا لن چوسوں گی دیکھتے ہیں
                      کسکا پانی پہلے نکلتا ہے۔ یہ کہ کر وہ فورا ہی میرے اوپر آگیا مجھے لٹا کر اپنا لن
                      میرے منہ میں دیا اور خود میری پھدی کی طرف منہ کر کے پھدی کے اوپر جھک کر
                      پھدی چاٹنے لگا۔ اسکی سپیڈ بہت تیز تھی کیونکہ وہ جلد سے جلد میرا پانی نکلوان
                      چاہتا تھا۔ وہ پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی انگلی بھی میری چوت پر پھیر رہا تھا
                      جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اس بار میری چوت بہت
                      جلدی پانی چھوڑ جائے گی۔ ساتھ ساتھ میں حیدر کا لن چوس رہی تھی۔
                      اور پھر وہی ہو جسکی مجھے امید تھی۔ حیدر کی زبردست مہارت تھی چوت چا ٹنے کی
                      جس کی وجہ سے میری چوت نے تو پانی چھوڑ ہی دیا فورا مگر جو چیز میں چیک
                      کرنا چاہتی تھی وہ بھی ہوگیا۔ یعنی حیدر کے لن نے بھی محض2 منٹ میں پانی چھوڑ
                      دیا۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X