Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مس نینا ایک لڑکی کی داستان حیات۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت زبردست کہانی ہے خاس طور پر ایک ساتھ کئی اقساط کا آنا ۔۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نینا کا ساتھی کون بنے گا

    Comment


    • خوب لکھا

      Comment


      • بہت ہی زبردست کہانی.. شہوت سے بھرپور.. پڑھ کے مزہ آیا

        Comment


        • کیا ہی زبردست الفاظ کا استعمال کیا ہے... بہت ہی منفرد انداز اور شہوت انگیز کہانی

          Comment


          • مس نینا…ایک لڑکی کی داستانِ حیات
            قسط نمبر21




            سونا پھر شان کی طرف مڑی اور بولی: تم سے تھوڑی دیر صبر نہیں ہوسکتا تھا میرا ویٹ تو کر لیتے اکٹھے ناشتہ کرتے۔۔۔

            شان پہلے کہنے ہی لگا تھاکہ وہ اس نوکرانی نے کہا تھا کہ تم بارہ یا ساڑھے بارہ بجے سے پہلے نہیں جاگو گی لیکن پھر مانو کی حالت دیکھ کر ساری بات اپنے اوپر ہی ڈال لی۔

            شان: دراصل پوری رات تمہارے ساتھ سیکس میں محنت کی نا۔۔۔ تو پیٹ خالی ہوگیا تھا۔ اس لیے مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔اور تمہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا

            شان کی اس بات سے سونا کا ٹمپریچر تھوڑا ڈاون ہوا اور شان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔

            سونا : یار تم ان نوکروں کو پلیز اتنا فری مت کیا کرو۔ انہیں ان کی اوقا ت میں رہنے دو۔

            شان: سونا میں نے اسے کہا تھا کہ اوپر بیٹھو وہ تو بے چارہ نیچے ہی بیٹھا تھا۔

            سونا : کوئی ضرورت نہیں ہمدردی کرنے کی سالے کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے

            شان کو سونا کے اس بے ہیوئیر کے اوپر بہت افسوس ہوا۔ سونا کا یہ روپ شان نے آج سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

            خیر سونا نے پھر جوس کا گلاس لیا اور شان کو یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ ریڈی ہو کر آتی ہے پھر کہیں نکلیں گے گھومنے پھرنے۔۔۔

            شان نے ہاں میں سر ہلایا اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا اور سونا کے بے ہیوئیر مانو کی باتیں آنٹی کا ننگا ہو کر ایسے ہی بے فکر ہو کر سونا ان سب کے بارے میں سوچنے لگا۔

            (سین چینج) نینا اور آنٹی۔۔۔

            ادھر آنٹی نے گاڑی پارکنگ میں پارک کی اور دونوں گاڑی سے اتر کر بلڈنگ میں داخل ہونے لگیں۔

            نینا نے نیچے اترتے ہی سن گلاسز لگا لیے تھے۔ نینا نے آج بہت فٹنگ میں ڈریس پہنا ہوا تھا۔

            بال کندھے تک رول ہو کر آ رہے تھے۔ شرٹ کا گلا تھوڑا گہرا تھا کہ سامنے سے چھاتی دکھ رہی تھی۔

            برا بھی شاید آج تھوڑی ٹائیٹ تھی کہ بوبز نوے ڈگری اینگل پر سٹریٹ (سیدھے) ہوئے پڑے تھے اور کُرتے کے نیچے ٹائیٹ ٹراوزر میں تھائیز اور گانڈ تو ایک آگ ہی برسا رہے تھے۔حتیٰ کہ نینا بالکل ایک ڈریم گرل لگ رہی تھی۔

            دونوں جیسے ہی بلڈنگ میں داخل ہوئیں سیکیورٹی گارڈ نے آنٹی کو سلیوٹ کیا اور پھر نینا کی طرف دیکھا کچھ سیکنڈز کے لیے

            بلڈنگ کےاندر سب لوگوں کی نظر نینا پر ہی تھی۔چلتے چلتے آنٹی نے نینا کو کہا

            نینا آئی ایم گیٹنگ جیلس۔۔۔ پہلے یہ سب مجھے دیکھا کرتے تھے اور آج یہ سب تمہیں دیکھ رہے ہیں

            چلتے چلتے وہ دونوں لفٹ میں چلی گئیں۔

            چوتھے فلور پر جا کر لفٹ رکی اور دونوں لفٹ سے باہر آ گئیں۔

            آنٹی: وہ رہا سامنے ہمارا آفس۔۔۔ آریان کنسلٹنگ ۔۔۔ یہ پورا فلور ہمارے پاس ہے۔۔

            دونوں باتیں کرتی کرتی آگے چلنے لگیں۔ آنٹی جہاں جہاں سے گزرتی سٹاف کھڑا ہو جاتا اور ہیلو بولتا۔

            اور نینا کو ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھتا۔ نینا کو یہ سب کلئیر فیل ہو رہا تھا کہ ہر کوئی اس کے جسم کو دیکھ رہا ہے۔

            چلتے چلتے آنٹی بولیں: آج پورا دن کوئی کام نہیں کریں گے

            نینا: وہ کیوں؟

            آنٹی: آج یہ سب صرف باتیں کریں گے

            نینا: باتیں وہ کیوں؟

            آنٹی: ارے پگلی آج تم جو آئی ہو آفس میں۔۔۔دیکھو کیسے سب کے منہ کھلے ہوئے ہیں ہاہاہاہا

            اور یہ کہتے ہوئے آنٹی نے سامنے سی ۔ ای۔ او کے روم میں چلی گئیں اور نینا بھی فالو کرتے ہوئے روم میں داخل ہوگئیں۔

            نینا نے آفس دیکھا تو حیران ہوگئی۔ بہت ہی فٹ قسم کا آفس تھا سارا۔۔۔

            آنٹی: کیسا لگا آفس

            نینا: اٹس امیزنگ۔۔ بہت خوبصورت آفس ہے بالکل آپ کی طرح ہاہاہاہا دل کرتا ہے کہ میں ادھر ہی جاب کر لوں۔

            آنٹی: کیا؟؟؟؟ دوبارہ بولو کیا کہا

            نینا: یہی ک ادھر جاب کر لوں

            آنٹی: ارے واہ تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی۔۔۔ میں بھی یہی کہنے والی تھی کہ گھر میں اکیلے بور ہونے سے بہتر ہے کیوں نہ تم میرا آفس جوائن کر لو؟

            نینا: نہیں آنٹی جی وہ تو میں نے بس ایسے ہی مذاق میں کہا تھا۔آئی نو شان کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے میری جاب پر

            آنٹی: تم ہو انٹرسٹڈ جاب میں؟

            نینا: جی انٹرسٹڈ تو ہوں مگر۔۔۔

            آنٹی: تو بس تم جاب کر لو شان کو سا تمہارا خیال کرتا ہے۔ دو دن سے گھر نہیں آیا اور نہ اس نے صبح سے تمہیں فون کیا کہ تم کہاں ہو؟اسے کیا فکر ہے تمہاری؟ بس اگر وہ آتا ہے گھر تو اسے کہ دینا کہ تم نے میرے آفس میں جاب کر لی ہے ۔ اگر کچھ بولے تو مجھے بتا دینا میں ہینڈل کر لوں گی سب

            نینا نے آنٹی کی یہ بات سنی تو نینا کو کانفیڈنس آ گیا اور سمائل کرکے ہاں کر دی۔

            ابھی دونوں ایسے ہی باتیں کر رہی تھیں کہ کمپنی کے فنانس ایگزیکیٹیو راجہ صاحب روم میں داخل ہوئے اور آنٹی اور نینا کو ہائے بولا۔

            آنٹی نے انہیں سیٹ پر بیٹھنے کا کہا اور رپورٹس دیکھنے لگیں۔

            نینا سامنے پڑے میگزین کو دیکھنے لگی اور ساتھ ساتھ چائے پینے لگی۔

            نینا نے فیل کیا کہ راجہ صاحب اسے دیکھ رہے ہیں۔ نینا نے ہلکی سی نظر گھما کر دیکھا تو راجہ صاحب کی نظر نینا کے بوبز پر تھی۔

            نینا کو دل ہی دل میں اچھا لگا کہ ایک ایجڈ بندہ بھی اس کے فگر کو دیکھ کر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔

            پھر نینا نے نظر آنٹی پر ڈالی جن کا چہرہ رپورٹس پڑھ کر لال ہو رہا تھا۔

            اس سے پہلے نینا واپس میگزین کی طرف جاتی آنٹی نے بولنا شروع کیا: راجہ صاحب! واٹ دا ہیل؟؟؟ کیا ہے یہ؟ اگر آپ ہی ایسی غلطیاں کریں گے تو جونیئر سٹاف کا کیا قصور؟؟؟ یہ دیکھیں آپ نے یہاں دس ہزار کی بجائے ون ملین لکھ دیا ہے۔0.99 ملین روپے کا کون ذمہ دار ہے؟ آپ کو ذرا بھی آئیڈیا ہے کہ یہ رپورٹ بھیج کر کیا اثر پڑے گا اس بزنس پر؟

            یہ کہہ کر آنٹی نے فائل راضہ صاحب کی طرف اٹھا کر پھینکی اور راجہ صاحب کچھ کہنے ہی والے تھے کہ آنٹی بولیں۔

            آنٹی: اسے دوبارہ چیک کریں اور آئندہ کوئی غلطی نظر نہ آئے راجہ صاحب

            راجہ صاحب نے ہاں میں سر ہلایا۔

            وہ منہ نیچے کیے کمرے سے باہر نکل گئے۔نینانے آنٹی کا یہ روپ آج پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔

            نینا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنے پیار سے باتیں کرنے والی خاتون اتنی سخت بھی ہو سکتی ہے۔

            نینا کچھ نہیں بولی اور خاموشی سے میگزین پڑھنے لگی۔

            آنٹی: یہ بڈھا بھی نا۔۔۔ سارا دن آفس کی لڑکیوں کو تاڑنے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اسے۔۔۔

            نینا: ہمم آئیڈیا ہوا ہے مجھے

            آنٹی: وہ کیسے؟

            نینا: ابھی تھوڑی دیر پہلے جناب میرے بدن کو گھور رہے تھے ہاہاہاہا

            آنٹی: کیا؟؟؟؟ ٹھہرو ابھی سیدھا کرتی ہوں اسے

            نینا: نہیں آنٹی رہنے دیں پہلے ہی بہت ہو گئی ہے راجہ صاحب کی ہااہاہاہاہاہاہا

            آنٹی: یہ سب بہت ضروری ہے۔ اگر نہ ہو تو یہ سب کمپنی کو پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیں۔ خیر میں تھوڑا کام کر لوں تم وہ سامنے سسٹم پڑا ہے اگر انٹرنیت استعمال کرنا ہے تو کر لو پھر دونوں چلتے ہیں لنچ کے لیے

            نینا: اوکے

            ادھر شان سونا کے رویے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہاں سے سونا بہت ہی سیکسی ڈریس میں تیار ہو کر آ گئی۔

            سیکسی ڈریس میں سونا کے بوبز ایک قیامت ڈھا رہے تھے اور گانڈ بھی ایک عجب رنگ جما رہی تھی۔

            شان کا سونا کو اس حالت میں دیکھنا ہی تھا کہ سونا کے بارے میں سارے خیالات خود بخود ختم ہوگئے اور سونا ایک مرتبہ پھر شان کو حسن کی دیوی لگنے لگی۔

            سونا نے آتے ہی شان کو ایک زبردست قسم کی کس کی۔ شان نے بھی بھرپور جواب دیا۔

            سونا شان سے ایسے بے ہیو کر رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور شان کو کہا کہ آج کسی ایسی جگہ لے چلو جہاں صرف میں اور تم پورا دن گزار دیں اور بس

            شان نے اوکے کہااور دونوں ایک ہی گاڑی میں گھر سے نکل گئے۔

            آنٹی اور نینا

            دن یونہی گز ر گیا اور شان کے قریب پانچ بجے آنٹی نے نینا کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور خود اپنے گھر چلی گئی۔

            نینا آج بہت ہی زیادہ خوش تھی اور خوشی خوشی گھر کا گیٹ اوپن کرکے گھر میں داخل ہوگئی۔

            گھر میں جاتے ہی سامنے لگی شان کی تصویر کو دیکھ کر اسے آج پورے دن میں پہلی مرتبہ شان کا خیال آیا۔

            آج شان نے بھی پورا دن نینا کو کال نہیں کی تھی اور نہ ہی نینا نے کال کرکے شان کو پوچھا تھا کہ کہاں ہے؟

            نینا تمام دروازے کو لاک کرکے سامان سائیڈ پر رکھ کر فریش ہونے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔

            نینا اور شان کی زندگی میں چینج آنا شروع ہو گیا تھا اور آج کا دن اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ شان اور نینا ایک دوسرے سے دور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور نینا کی زندگی میں ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔

            نینا باتھ لے کر گھر کا نارمل ڈریس پہن کر باہر آ گئی اور آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔

            نینا کو آج کوئی فکر نہ تھی کہ شان نے کھانا بھی کھانا ہوگا ۔شان سے کال کرکے پوچھ لوں کہ کھانا گھر پر کھائیں گے کہ نہیں

            نینا کو خود ہلکی سی بھوک محسوس ہونے لگی تھی اس لیے کچن میں چلی گئی اور فریج سے کھانا نکال کر گرم کرکے کھانے لگی۔

            رات کو آٹھ بجے ڈور بیل بجی تو نینا نے دروازہ کھولا سامنے شان کھڑے تھے۔

            نینا کچھ نہ بولی اور خاموشی سے مین گیٹ اوپن کرکے اندر آ گئی اور ٹی وی دیکھنے لگی۔

            شان گاڑی لاک کرکے اندر آ گئے اور نینا کا انتظا ر کرنے لگا کہ وہ کچھ بولے اور وہ اس کا بھرپور جواب دے لیکن نینا کچھ نہ بولی اور خاموشی سے ٹی وی دیکھنے میں مگن رہی۔

            شان کو یہ بات بہت زیادہ فیل ہوئی اور اس سے رہا نہ گیا ۔

            وہ بولا: نینا تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ تمہارا شوہر گھر آیا ہے تم اسے پانی ہی پوچھ لو یا اس کا سامان ہی پکڑ کر اس کے کمرے میں رکھ دو؟

            نینا نے اب بھی شان کی بات کا جواب نہیں دیا اور خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی۔

            شان: نینا میں تم سے بات رکر ہا ہوں دیواروں سے نہیں۔۔۔

            جب نینا نے جواب نہ دیا تو شان نے غصے میں آ کر نینا کے ہاتھ سے ٹی وی کا ریموٹ کھینچ لیا اور ٹی وی بند کرکے نینا کو زور کا تھپڑ رسید کر دیا اور غصے سے بولا: ہاو ڈئیر یو کہ میں کچھ کہہ رہا ہوں اور تم مجھے اگنور کرو؟

            نینا: اینڈ ہاو ڈئیر یو ٹو اگنور می لاسٹ ٹو ڈئیز؟؟؟آج آپ کو احساس ہوا کہ میں آپ کی وائف ہوں؟ یہ احساس کہاں تھا دو دن سے؟ ایک دفعہ ہی پوچھ لیا ہوتا کہ جی رہی ہو یا مر گئی ہو؟ آپ کو تو بس اس چڑیل نے جو اپنے بس میں کر لیا ہے اب میری کہاں آپ کو فکر ہونی ہے؟

            اس سے پہلے شان کچھ بولتا نینا دوبارہ بولی: ایک بات اور کان کھول کر سن لو خبردار آج کے بعد یہ ہاتھ مجھ پر اٹھایا تو۔۔۔ یہ آخری مرتبہ تھا اور خبردار مجھ پر اپنے شوہر ہونے کا حق جتایا تو۔۔۔ اگر ٹھیک سے شوہر نہیں بن سکتے تو یہ حق بھی نہ جتایا کرو۔

            شان نینا کے اس روپ کو دیکھ کر چکرا گیا۔

            اسے ذرا برابر بھی امید نہ تھی کہ اسے نینا کی طرف سے ایسا رسپانس ملے گا۔ چپ چاپ منہ لٹکا کر واش روم میں چلا گیا۔

            واش روم جاتے ہی نینا نے فوراً شان کے موبائل کو اٹھایا اور اس میں ریسنٹ کالز اور میسج دیکھنے لگی۔

            ایس ایم ایس میں نینا کو میسج ملا کر یار آج آفس کیوں نہیں آئے؟ جس سے نینا کو یہ پتا چلا کہ شان آج آفس میں نہیں تھا۔

            نیکسٹ میسج میں لکھا تھا کہ آئی مس یو جان

            نینا اس سے پہلے کچھ سوچتی کہ یہ کس کا میسج ہو سکتا ہے شان کے موبائل پر کال آنے لگی اسی نمبر سے

            نینا نے کال اٹینڈ کر لی اور سننے لگی۔ دوسری طرف سونا تھی جو بہت پیار سے بات کر رہی تھی شاید نشے میں تھی۔

            شان جانو کہاں ہو؟ پتا ہے آئی ایم مسنگ یو ویری مچ۔۔۔ جانو آ جاو نا پلیز۔۔۔ مسنگ یور فیٹ پنس۔۔۔ ہاہاہاہا کل رات ۔۔۔ رات کی طرح آج بھی پیار دو نا آ کر مجھے۔۔۔ یقین کرو آج نہیں روکوں گی تمہیں اپنی گانڈ میں لن ڈالنے سے ہاہاہاہا۔۔ جانو بولو نا۔۔۔ بولو نا میرے جانو آ رہے ہو نا تم؟؟؟

            نینا نے ہلکی سی کھانسی کی آواز نکالی جیسے بتا رہی ہو کہ وہ ابھی بات نہیں کر سکتی۔

            سونا بھی شاید سمجھ گئی۔

            وہ بولی: اوکے جانو اپنی منحوس بیوی کے پاس بیٹھے ہوئے ہوگے تبھی نہیں بول رہے۔۔۔ اوکے فری ہو کر جلدی سے آ جاو۔۔۔

            یہ کہہ کر اس نے کال بند کر دی۔

            نینا کے تو پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی کہ شان اس حد تک گر سکتا ہے کہ وہ کل رات ایک لڑکی کے ساتھ گزار کر آیا اور اس کے ساتھ سیکس بھی کر کے آیا ہے۔

            نینا کی نظر میں شان کی رہی صحیح عزت بھی پانی میں مل گئی۔نینا نے فون وہیں رکھا اور شان کو آبزرو کرنے لگی۔

            شان نے آتے ہی اپنا فون اٹھایا اور اس پر کچھ چیک کیا ۔

            نینا کی طرف دیکھا اور کچھ نہ بولا۔

            فون اٹھایا اور سونا کو کال کی۔ ’’ہاں کیا ہوا؟ اوہو۔۔ اچھا؟؟ کیا ایمرجنسی ہے؟ لازمی آنا پڑے گا؟ اوکے اوکے میں آتا ہوں؟ ڈونٹ وری۔۔۔ ‘‘

            فون بندکرکے گاڑی کی چابیاں اٹھائی اور جاتے جاتے نینا کو بولا کہ فرینڈ کے ہاں جا رہا ہوں ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے

            یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔

            نینا کو پتا چل گیا تھا کہ کیا ایمرجنسی ہو سکتی ہے۔ اسی چڑیل کے پاس گئے ہوں گے اس کی سیکس کی گرمی دور کرنے۔۔۔

            جاری ہے۔۔۔​

            Comment


            • مس نینا…ایک لڑکی کی داستانِ حیات

              قسط نمبر22

              بغیر اجازت کہانی کو کاپی کرنے والوں پر ل۔ع۔ن۔ت



              دن یونہی گزرتے گئے اور شان اورنینا کے درمیان نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔

              اب سچویشن یوں تھی کہ شان کا جب دل کرتا گھر آ جاتا اور جب دل کرتا گھر نہیں آتا۔

              نینا کو بھی کوئی فکر نہ تھی اب شان کی نینا نے آنٹی کے آفس میں جاب کر لی تھی اور ایڈمن آفیسر کی پوسٹ پر کام کر رہی تھی۔

              ایک دن نینا کو پتا چلا کہ اس کے پیرنٹس کا کا ر ایکسیڈنٹ ہوا ہے جس میں دونوں کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔

              نینا اکیلی بیٹی تھی اس لیے ساری پراپرٹی اس کے نام منتقل ہو چکی تھی۔

              شان کے والدین تو ویسے ہی اسے پسند نہیں کرتے تھے اور شان کے ساتھ ویسے ہی اس کی زندگی ایک اجنبی کی طرح گزر رہی تھی۔

              شان نے کئی دفعہ سوچا کہ نینا کو طلاق دے دے لیکن پھر یہ سوچ کر رک جاتا کہ اگر طلاق دے دی تو اسے اپنی ساری پراپرٹی کا پچاس فیصد نینا کو دینا پڑے گا۔

              یہ سوچ کر وہ رک جاتا ادھر نینا بھی شان کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھی اس لیے نہیں کہ وہ اس کا شوہر ہے اس لیے کہ وہ اسے دکھانا چاہتی تھی کہ وہ اس کے بغیر بھی جی سکتی ہے اور بہت اچھی طرح

              نینا نے آفس میں ایک فیمس پرسنالٹی کا روپ دھارلیا تھا۔

              ہر کوئی نینا کی خوبصورتی کی تعریف کرتا تھا۔ آفس میں تمام لڑکوں اور مردوں میں کوی ایسا نہیں ہوگا جس نےنینا کے نام کی مٹھ نہ ماری ہو

              یا نینا کو ذہن میں رکھ کر اپنی اپنی بیویوں کو نہ چودا ہو؟ ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی کہ وہ کسی طرح نینا کے بوبز کی ایک جھلک دیکھ لے۔

              ادھر جمی کی سٹڈی بھی مکمل ہو چکی تھی اور اس نے بھی اب آفس جوائن کر لیا۔

              نینا اور جمی آپس میں اب بہت فری ہو چکے تھے۔ ہر طرح کے ٹاپکس (موضاعات) ڈسکس کر لیتے لیکن آفس کے اندر وہ نارمل رہتے تاکہ آفس میں کسی کو بات بنانے کا کوئی موقعہ نہ ملے۔

              جمی نینا کو بہت پیار کرتا تھا اور کئی دفعہ اس بات کا اظہار کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کہتے کہتے رک جاتا۔

              نینا بھی یہ بات خوب جانتی تھی کہ جمی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے مگر وہ ایسا نہیں چاہتی تھی کہ جمی سے شادی کرلے۔

              اتنا زیادہ فری ہونے کے بعد بھی جمی اور نینا کے بیچ ابھی تک کچھ بھی نہیں تھا۔

              نہ کوئی کسنگ نہ کوئی اور کام۔۔۔

              جو کچھ بھی چل رہا تھا وہ آنٹی اور نینا کے بیچ میں چل رہا تھا۔ اب تو یہ روٹین بن گئی تھی کہ کبھی آنٹی نینا کے گھر رات گزارتیں تو کبھی نینا آنٹی کے گھر اور رات بھر دونوں ایک دوسرے کی چوت کا خوب مزہ لیتی۔

              آنٹی نے اپنی زندگی بھر کے تجربے کو نینا کے ساتھ شئیر کیا اور نینا کو بھی لیزبین سیکس میں ایکسپرٹ بنا دیا تھا۔

              نینا اب آنٹی کی گائیڈنس سے سب کام کرتی اور نینا نے اپنے آپ کو بہت فٹ رکھنا شروع کر دیا تھا۔

              سیکسی ڈریس پہننا سیکسی سٹائل سے چلنا سیکسی انداز میں گفتگو کرنا مگر ایک حد میں رہ کر

              جب سے نینا نے آفس جوائن کیا تھا آفس میں امپلائی کی چھٹیاں کم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ ہر کوئی آفس میں آتا تو صرف نینا کو دیکھنے کے لیے۔

              ایک دفعہ تو نینا کے سامنے آفس میں ایک لڑکے کا لن کھڑا ہو گیا جو کہ نینا کو پرنٹیشن دے رہا تھا بہت مشکل سے بے چارے نے کنٹرول کیا۔

              آنٹی بھی نینا کے آفس میں رہنے کی وجہ سے بہت خوش تھیں۔

              ادھر شان سونا کے جال میں بُری طرح پھنس چکا تھا۔ مانو کے جیسے سونا نے اس کا ذہن اپنے قابو میں کر لیا ہو۔

              سونا کہتی دن ہے تو شان کہتا ہے ہاں دن ہے۔ سونا کہتی رات ہے تو شان کہتا ہے ہاں رات ہے۔

              بس ایسی ہی کچھ حالت ہوگئی تھی۔ شان کی ساری سیلری سونا کے نام نخرے اٹھانے میں لگ جاتی اور نینا کے اوپر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرتا۔

              نینا کو بھی اب اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بھی ایک اچھی اماونٹ ارن کر رہی تھی۔

              دن یونہی ہی گزر رہے تھے اور نینا اب اپنی زندگی میں مصروف تھی۔

              نینا نے اب گھر میں ایک نوکرانی بھی رکھ لی تھی جو سورج ڈھلتے ہی اپنے گھر چلی جاتی تھی۔

              یہی وجہ تھی کہ نینان ے اب اپنی فٹنس پر مکمل توجہ دینا شروع کیا ہوا تھا۔

              بس کھانا پینا، ایکسرسائز کرنا اور سیکسی ڈریس پہننا۔۔۔ نینا نے جو پہلے صرف شلوار قمیض میں رہتی تھی اب ہر طرح کے ڈریس پہنتی تھی کہ دیکھنے والے بس ساکت ہو کر رہ جاتے۔

              نینا نے اپنے آپ کو اتنا فٹ کر لیا تھا کہ وہ اپنی عمر سے مزید تین سال کم لگنے لگی۔

              پتلی کمر، ابھری ہوئی گول گانڈ اور سب سے سیکسی اس کے ٹائیٹ چھتیس سائز کے پستان

              پوری دنیانینا کے پیچھے تھی بس شان ہی تھا جس کی آنکھوں پر سونا نے کالی پٹی باندھ رکھی تھی۔

              نینا کو بھی اس کی کوئی فکر نہ تھی کیونکہ اب نینا نے اپنا بیڈروم بھی الگ کر لیا تھا۔

              اب سچویشن مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔

              نینا میں بھی کافی چینج آ چکا تھا۔ بھولی بھالی نینا اب ہر چڑھتے دن رنگ بدل رہی تھی اور یہ سب ہوا تھا شان کی وجہ سے لیکن آنٹی نے نینا کو نیا جنم دیا اور نینا کو بدل کر رکھ دیا۔

              آج کا دن بہت خاص تھا کیونکہ آج نینا کی سالگرہ تھی جو کہ رات بارہ کے بعد شروع ہونا تھا۔

              روٹین کے مطابق شان آج بھی گھر پر نہیں تھا اور نینا گھر پر اکیلی تھی۔

              نینا کو یاد نہیں تھا اپنی سالگرہ کا لیکن جمی نے یاد رکھی ہوئی تھی ڈیٹ اور وہ پچھلی کئے روز سے بے تابی سے انتظار کر رہا تھا نینا کی سالگرہ کا

              آخر آج وہ دن آ ہی گیا اور جمی نے شام چھے بجے ہی نینا کو ڈنر کے لیے آفر کر دی۔

              نینا نے بھی اوکے کر دیا۔

              آنٹی نے آج ایک شادی پر جانا تھا اس لیے انہوں نے انکار کر دیا ساتھ جانے سے

              رات ساڑھے آٹھ بجے جمی نے نینا کو پک کر لیا گھر سے اور دونوں ڈنر کے لیے نکل پڑے۔

              نینا آج پیرٹ گرین اور بلو رنگ کے مکسر ڈریس میں تھی جس میں وہ کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی۔

              نینا اگر حور لگ رہی تھی تو جمی بھی کچھ کم نہیں لگ رہا تھا۔ سکائی بلو جینز اور ڈارک بلیو ٹی شرٹ میں بہت سمارٹ لگ رہا تھا۔

              نینا نے اپنے آپ کو اتنا فٹ کر لیا تھا کہ دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ نینا اور جمی کی عمر میں کئی سال کا فرق ہے۔

              جمی کی کار مین روڈ پر چڑھ چکی تھی اور بہت سلو ڈرائیو کر رہا تھا۔ ابھی تک صرف ہائے ہیلو اور آج دن میں آف کے کچھ کام پر بات ہوئی تھی۔

              جمی نے ڈرائیو کرتے کرتے میوزک پلے کرنے کے لیے اپنا ہاتھ پلئیر پر رکھا۔

              ٹھیک اسی وقت نینا کا بھی ہاتھ وہاں چلا گیا۔

              یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ نینا کا ہاتھ جمی کے ہاتھ کے نیچے آ گیا۔

              جمی ایکدم سے ڈر گیا۔ اسے لگا جیسے سی ڈی پلئیر پر کوئی چیز بیٹھی ہے اور ڈر کے ہاتھ پیچھے کرکے سی ڈی پلئیر کو دیکھنے لگا۔

              نینا نے جمی کی یہ حرکت دیکھی تو اس سے اپنی ہنسی رک نہ پائی اور بہت زور زور سے ہنسنے لگی۔

              جمی: مائی گاڈ۔۔۔ واٹ واز دئیر آن پلئیر؟

              نینا : ہاہاہاہا۔۔۔ کیا ہوا؟

              جمی: آئی گیس۔۔۔ دئیر واز سموتھ تھنک آن پلئیر۔۔۔ ہیو یو سین دیٹ؟

              نینا مسکراتے ہوئے: ہاں۔۔۔ آئی سا دیٹ( میں نے وہ نرم سافٹ چیز دیکھی ہے)

              جمی: واٹ واز دیٹ؟

              نینا: اٹ واز ٹو ڈینجرس تھینگ (وہ دو خطرناک چیزیں ہو سکتی ہیں)

              جمی: کک کیا مطلب؟ ڈینجرس چیزیں؟

              نینا: ٹو ڈینجریس ۔۔۔ نارملی یہ لڑکوں کے گالوں پر کاٹتی ہیں اور پورا گال سرخ کر دیتی ہیں۔

              جمی: رئیلی؟؟؟ بتاو نا ایسا کیا تھا اور ایک دم سے کہاں غائب ہو گئی؟

              نینا: یہاں ہی ہے کار میں۔۔۔

              نینا مسکرا دی۔ نینا کا جمی کے ساتھ مستی کرنے کا من کر رہا تھا۔

              جمی کار سائیڈ پر روکتے ہوئے: پلیز اسے گاڑی سے باہر نکالو

              نینا: نہیں جمی۔۔۔ اسے اب گاڑی سے باہر ڈنر کے بعد ہی نکالا جا سکتا ہے۔

              جمی: مگر کیوں؟؟

              نینا: تم کار چلاو پھر بتاتی ہوں

              جمی نے کار چلانا شروع کر دی اور پوچھا: نینا پلیز مجھے بتاو نا

              تو نینا نے مذاق میں جمی کے دائیں گال پر ہلکا سا تھپڑ رسید کر دیا۔

              وہ بولی: یہ تھی وہ چیز۔۔۔ہاہاہاہاہ

              جمی تو پہلے نینا کے تھپڑ پر حیران ہوا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نینا نے اسے تھپڑ کیوں مارا اور نہ ہی نینا کی مسکراہٹ کی سمجھ اسے آئی۔

              جمی: پلیز کلئیرلی بتاو یہ کیا تھا؟

              نینا نے اپنا ہاتھ پلئیر پر رکھا اور جمی سے کہا: اب بالکل اسی طرح اپنا ہاتھ پلئیر پر لے کر جائے جیسے پہلے لے کر گیا تھا۔

              جمی نے ویسا ہی کیا نینا کا ہاتھ اب دوبارہ جمی کے ہاتھ کے نیچے آ گیا۔

              اس بار جمی نے اپنا ہاتھ ہٹایا نہیں بلکہ نینا کے ہاتھ کو محسوس کیا۔

              نینا کے ہاتھ کا احساس محسوس ہوتے ہی جمی اپنا ہاتھ ہٹانا بھول گیا۔

              نینا بولی تو وہ چونکا: کیوں جناب پتا چلا کہ کیا چیز تھی؟ ہاہاہاہاہا

              جمی ہاتھ ہٹاتے ہوئے: ہممم ہاں لگ گیا پتا۔۔۔ ویری بیڈ۔۔۔ مجھے ڈرا ہی دیا تھا تم نے سچی۔۔۔

              نینا: میں نے کہاں ڈرایا؟ تم خود ڈرے ہو۔۔۔ ہاہاہاہا۔

              جمی: نینا دیٹس ویری بیڈ۔۔۔ دیکھو کتنا زور کا دھڑک رہا ہے دل

              نیناجمی کی چھاتی پر ہاتھ رکھتے ہوئے: ہمم۔۔ہم بھی دیکھیں ک کتنا زور سے دھڑک رہا ہے۔

              نینا نے محسوس کیا کہ واقعی تیز دھڑک رہا تھا نینا کو پھر مستی سوجی

              وہ بولی: دھک دھک کرنے لگا مورا جیا رے ڈرنے لگا۔۔

              جمی کو نینا کی یہ ادا جیسے دل کو چھو گئی اور نیناکی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔

              نینا: ویسے جمی کیا خیال ہے اس خطرناک چیز کو نکال نہ دیا جائے گاڑی سے؟؟؟ ہاہاہاہا

              جمی: نہیں اب ڈنر کے بعد ہی۔۔۔ ہاہاہاہ

              دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے اور اتنے میں ریسٹورنٹ بھی آ گیا۔

              دونوں ریسٹورنٹ میں جا کر بیٹھ گئے۔ جمی نے ٹائم دیکھا تو ساڑھے نو ہو رہے تھے ۔

              جمی اور نینا نے مل کر ڈنر آر ڈر کیا۔

              آرڈر کے بعد جمی واش روم جانے کے لیے ٹیبل سے اٹھ کر چلا گیا۔

              ٹیبل سے اٹھ کر جمی سیدھا منیجر کے پاس گیا اور اسے برتھ ڈے کیک اور کینڈلز وغیرہ ارینج کرنے کا کہہ دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ آرڈر تھوڑا لیٹ سرو کرے تاکہ بارہ تک ہم یہاں ہی رہیں۔

              منیجر نے حامی بھر لی اور مسکراتے ہوئے گلاب کا ایک پھول جمی کو دے دیا اور بولا: فار برتھ ڈے لیڈی فرام ریسٹورنٹ۔۔۔

              جمی نے وہ پھول لیا اور واپس ٹیبل پر آ گیا اور پھول نینا کو دیتے ہوئے بولا: روز فار دی موسٹ بیوٹی فل گرل آن ارتھ ہاہاہاہا

              نینا: اوہ تھینک یو۔۔۔ جمی ۔۔۔ نائس آف یو۔۔۔

              جمی: مائی پلئیرز میم۔۔۔ ہی ہی ہی

              سو ٹیبل پر بیٹھ کر ڈنر ٹاک شروع ہوگئی۔ پلان کے مطابق ڈنر لیٹ سرو ہوا۔

              نینا کو لیٹ سرونگ پر بہت غصہ آیا مگر کچھ نہ بولی کیونکہ اس نے خود ہی یہ وینیو سلیکٹ کیا تھا ڈنر کے لیے۔۔

              اسے کیا پتا تھا کہ یہ سب جمی کے آرڈر پر ہو رہا ہے۔ ادھر جمی بھی نینا کی شکل دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔

              ڈنر سرو ہوگیا اور دونوں نے ڈنر شروع کر دیا۔ ڈنر کرتے وقت دونوں ہنس کھل کر باتیں کر رہے تھے اور ادھر ادھر بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر آئیڈیا لگا رہے تھے کہ کون بی ایف جی ایف ہے؟

              اور کون میاں بیوی ہیں؟

              ڈنر کے بعد جیسے تیسے جمی وقت گزارتے ہوئے رات بارہ بجے تک لے کر گیا اور اسی وقت ٹیبل پر کیک بھی لگ گیا اور کینڈلز بھی

              نینا کے لیے یہ ایک بہت بڑا سرپرائز تھا اور نینا کو بہت خوشی ہو رہی تھی اور جمی کی اس کئیر پر پیار بھی

              جمی نے پورا انتظام کیا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک خوبصورت سا کارڈ اور بہت ہی زبردست نیکلس گفٹ کیا۔

              نینا کو اپنی پوری زندگی میں کسی نے ایسا برتھ ڈے وش نہیں کیا تھا۔

              نینا کو جمی کا یہ انداز ایک عجیب کشش پیدا کر رہا تھا۔ خیر برتھ ڈے کی شارٹ پارٹی کے بعد دونوں ریسٹورنٹ سے باہر آ گئے اور نینا نے جمی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

              جمی نے ایکسپکٹ نہیں کر رہا تھا مگر اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا۔

              نینا: تھینکس جمی۔۔۔ یو آر سو نائس۔۔۔

              جمی: مائی پلئیزر۔۔۔ تو کیا لگا سرپرائز؟؟؟

              نینا: بہت خوبصورت۔۔۔ تمہیں کیسے پتا چلا کہ آج میرا برتھ ڈے ہے؟ تم نے تو کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں میری ڈیٹ آف برتھ؟

              جمی: ارے نینا جی۔۔ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ تو پھر برتھ ڈیٹ ہے ہاہاہاہا

              نینا بھی جمی کے اس ڈائیلاگ پر مسکرا دی اور دونوں گاڑی میں بیٹھ گئی۔

              جمی نے ڈرائیو کی اور گھر کی طرف چل دیا۔ سڑک پر رش کم ہو چکا تھا اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔

              شاید بارش ہونے والی تھی۔ اتنے میں جمی کا فون بجا۔

              جمی: ہیلو موم؟؟؟ وائے مو؟ اوکے اوکے ڈونٹ وری موم۔۔۔ اوکے ٹیک کئیر۔۔۔

              نینا: از ایوری تھینگ اوکے؟؟؟

              جمی: ہاں وہ موم کہہ رہی ہیں کہ وہاں تیز بارش ہو رہی ہے تو آ نہیں سکیں گی واپس۔۔۔

              نینا: اوہ اوکے۔۔۔

              ابھی نینا نے اوکے ہی بولا تھا نینا کے فون پر آنٹی کی کال آ گئی۔

              نینا : جی آنٹی؟ جی ہم ساتھ میں ہی ہیں۔۔۔ وہ ٹھیک ہے آنٹی لیکن ۔۔ اوکے ٹھیک ہے ڈونٹ وری۔۔۔ ٹیک کئیر۔۔ بائے

              فون بند کرتے ہی نینا جمی سے بولی: تو جناب صاحب کو اکیلے میں ڈر لگتا ہے؟

              جمی: ہاں کبھی اکیلا رہا ہی نہیں اس لیے خیر نینا گھر آ گیا ہے۔

              نینا: جی نظر آ رہا ہے لیکن تم گاڑی اپنے گھر لے جاو میں آج وہیں ہی رہ لیتی ہوں تاکہ جناب کو ڈر نہ لگے اوکے؟

              جمی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا نینا کو خاموشی سے دیکھنے لگا پھر نینا کے دوبارہ کہنے پر گاڑی اپنے گھر ہی لے گیا۔

              گاڑی پارک کرنے کے بعد جمی اور نینا گھر میں داخل ہوگئے۔ جمی نینا کو فریش ہونے کا بول کر خود اپنے کمرے میں جانے لگا تو نینا نے کہا،

              نینا: کیا یہاں سلیپنگ ڈریس نہیں ہے؟

              جمی نے اسے اپنی موم کے نائیٹ ڈریس دکھا دئیے اور چلا گیا۔

              نینا کو جمی پر آج بہت پیار آ رہا تھا مگر وہ انتظار کر رہی تھی کہ جمی کیا کرتا ہے یہ کرتا ہے آج کی رات؟؟؟

              وہ سوچتے ہوئے باتھ روم میں چلی گئی۔ باتھ روم میں جا کر نینا ایک دم ننگی ہوگئی اور شیشے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگی۔

              نینا نے آج کافی دنوں بعد اپنے آپ کو ننگا دیکھا تھا۔ جسم پہلے سے زیادہ سیکسی ہوگیا تھا۔

              بوبز راونڈ شیپ میں نینا کے جسم کو چار چاند لگا رے تھے۔ نینا نے پھر شاور کھولا اور باتھ لے کر آنٹی کا نائیٹ سوٹ پہن کر باہر آگئی

              ٹی وی لاونج میں جمی پہلے سے موجود تھا ٹراوزر شرٹ میں۔۔۔

              نینا کی گیلی لُک میں آج پلی دفعہ دیکھتے ہی جمی کے اندر دس ہزار واٹ کا کرنٹ دوڑنے لگا اور نینا بھی برا پہننا بھول گئی تھی۔

              کیونکہ وہ اپنے گھر پر رات کے وقت بغیر برا کے سوتی تھی۔

              گیلا جسم ہونے کی وجہ سے نائیٹ ڈریس بدن سے چپک سا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نپل واضح ہو رہے تھے۔

              نینا نے پہلے سوچا کہ برا پہن آئے مگر پھر یہ سوچ کر نہیں پہنا کہ جمی کو شاید اچھا نہ لگے کہ اس کی وجہ سے وہ ریورز ہو رہی ہے۔

              نینا جمی کے قریب ہی آ کر بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگی۔

              جمی بھی باتھ لیتے وقت نینا کے بارے میں سوچ کر آیا تھا کہ آج موقع اچھا ہے اسے سب بول دینا چاہیے۔۔۔

              جمی نے باتوں باتوں میں شان کا ذکر شروع کیا کہ اس کا ایسے گھر سے غائب ہونا اور گھومتے گھماتے اپنی بات پر آ گیا۔

              جمی: نینا وہ میں کافی دنوں سے ایک بات کرنا چاہ رہا تھا۔

              نینا کو فوراً اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کیا بات کرے گا اور وہ بولی: جی بولو کیا بات ہے؟

              جمی: وہ دراصل۔۔۔ میں چاہ رہا تھا کہ۔۔۔ وہ یہ۔۔۔ کہ۔۔۔ اگر کبھی میں آپ کو شادی کے لیے کہوں تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟

              نینا : اس وقت کے حالات کیا ہوں گے یہ اس پر منحصر ہے۔

              جمی: اور اگر میں ابھی پرپوز کر دوں تو؟؟؟

              نینا: تو آئی ول آسک کہ۔۔۔وائے ڈو یو وانٹ ٹو میری می؟

              جمی: تو آئی ول انصر کہ ۔۔۔ آئی لو یو نینا۔۔۔

              نینا: واٹ؟؟؟ آر یو سیریس؟

              جمی:ہاں میں بے حد سنجیدہ ہوں۔۔۔ مجھے نہیں پتا کہ میں آپ کو کیسا لگتا ہوں مگر آئی لو یو آ لاٹ۔۔۔ اور میں آپ کو دنیاکی ہر خوشی لا کر دوں گا اور بہت خوش رکھوں گا۔

              جمی ایک دم سے ایموشنل ہو گیا تھا۔

              نینا کو جمی آج ڈنر کے وقت سے ہی پیار ا لگ رہا تھا اور اوپر سے جمی کی اس حرکت نے نینا کے دل میں اور پیار بڑھا دیا تھا۔

              نینا ابھی کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ جمی نے آگے بڑھ کر نینا کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور بولا: کوئی جلدی نہیں ہے آپ آرام سے سوچ کر مجھے بتا دینا۔۔۔

              نینا اور جمی ایک دوسرے کے کافی قریب آ چکے تھے اور ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے۔

              نینا چاہتی تو جمی کی اس حرکت پر اسے بہت کچھ سنا سکتی تھی مگر نینا نے پھر سوچا کہ آج وہ جو کچھ بھی ہے جمی کی موم کی وجہ سے ہے۔

              اگر اس نے جمی کو ذرا سا بھی غلط ڈیل کیا تو شاید آنٹی اس کی فیور کرنا بند کر دیں۔

              اسے جاب سے نکال دیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ سوچنے کے بعد وہ جمی سے بولی۔

              نینا: دیکھو جمی۔۔۔ میں تمہارے پیار کی قدر کرتی ہوں مگر کیا پیار کے لیے ضروری ہے کہ شادی کی جائے؟ کیا تم مجھے شادی کے بغیر وہ سب نہیں دے سکتے جو تم کہہ رہے ہو؟؟؟؟

              جمی تھوڑا سوچتے ہوئے: جی کیوں نہیں ۔۔۔ دےسکتا ہوں

              نینا: پھر شادی کو بھول جاو اوکے؟؟؟

              جمی: مگر شادی نہیں ہوگی تو؟

              نینا: تو؟

              جمی: تو آپ وہ مجھے سب کیسے دیں گی جو ایک بیوی اپنے شوہر کو دیتی ہے؟

              جمی کے اس سوال پر نینا کو پھنسا دیا تھا اور نینا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔

              کافی دیر سوچنے کے بعد نینا بولی: کیا یہ سب ضروری ہے؟

              جاری ہے۔۔۔۔

              Comment


              • مس نینا
                ایک لڑکی کی داستانِ حیات
                قسط نمبر 23

                کاپی پیسٹ کرنے والے پر ل ع ن ت


                جمی: ہاں نا۔۔۔آپ نے ہی تو کہا ہے کہ بغیر شادی کیے اگر میں آپ کو خوش رکھ سکتا ہوں تو کیا آپ ایگری ہو؟ آپ بتائیں آپ ایگری ہیں؟
                اور یہ کہہ کر وہ نینا کے مزید قریب ہوگیا۔
                وہ ایک مرتبہ پھر بولا: ایگری ہیں؟
                اور اپنا چہرہ نینا کے قریب لے گیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت پیار سے بولا: ایگری ہیں؟
                اور اسی وقت نینا کے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی۔ جمی کو اپنے اتنے قریب پا کر اور آہستہ سے بولی: ہاں میں ایگری ہوں
                نینا کے اقرار پر جمی نے بغیر دیر کیے نینا سے لپٹ گیا اور اپنے ہونٹ نینا کے ہونٹوں سے ملا دئیے۔
                کئی مہینوں کے بعد آج نینا کے ہونٹوں پر کسی مرد کے ہونٹ آئے تھے۔
                ہونٹوں کے ٹچ ہوتے ہی نینا مدہوش سی ہوگئی اور جمی کی بیک پر ہاتھ موو کرکے جمی کے کس کا رسپانس دینے لگی۔
                جمی نے نینا کو ایسے ہی صوفے پر لیٹا دیا اور خود اوپر آ گیا۔
                نینا اور جمی کے ہونٹ مکمل جوسی ہو چکے تھے اور دونوں کی سانسیں بھی تیز ہو چکی تھیں۔
                دونوں میں سے کسی ایک کا بھی ہونٹ علیحدہ ہوتا تو لو یو آہ کی ہلکی سی آواز سنائی دیتی۔
                جمی نینا کی زبان چوس رہا تھا اور نینا جمی کی۔۔۔۔ کسنگ کے وقت ہی نینا کو آئیڈیا ہو گیا تھا کہ جتنا مرضی لیزبین سیکس کرلو لیکن جو مزہ مرد سے پیار لینے کا ہے وہ لیزبین سیکس میں نہیں ہے۔
                دس منٹ یونہی کسنگ جاری رہی اور جمی نے آہستہ آہستہ نینا کی شرٹ کو اوپر کرنا شروع کر دیا۔
                اگلے منٹ میں نینا کی شرٹ اس کے جسم سے علیحدہ ہو گئی اور جمی نے بھی اپنی شرٹ اتار دی۔
                جمی نے نینا کے سیکسی بوبز دیکھے تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ وہی بوبز ہیں جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پورا آفس ترستا ہے۔
                یہ سوچتے ہی وہ کسی بھوکے شیر کی مانند بوبز پر ٹوٹ پڑا۔ نینا آنکھیں بند کرکے سسکیاں لے رہی تھی۔
                جمی کبھی نینا کے ایک نپل تو کبھی دوسری نپل کو چوس رہا تھا۔ جمی دیوانوں کی مانند نینا کے بوبز چوس رہا تھا۔
                جس سے نینا کے نپلز مزید ٹائیٹ اور سرخ ہو گئے تھے۔ نینا آنکھیں بندکرکے جمی کے پیار کو محسوس کر رہی تھی۔
                نینا کی چوت مکمل طور پر بھیگ چکی تھی اور پیار مانگ رہی تھی۔ جمی کسنگ کرتا کرتا نینا کے پیٹ پر آ گیا اور نینا کے پیٹ پر ڈھیر ساری کسنگ کی اور کسنگ کرتا کرتا نیچے آ گیا۔
                جمی نے دیکھا کہ چوت کے قریب سے نینا کا ٹراوزر مکمل بھیگ چکا تھا اور چوت سے چپک سا گیا تھا۔
                یہ دیکھ کر جمی سے رہا نہ گیا اور اگلے ہی لمحے نینا کو بالکل ننگا کر دیا۔
                چوت دیکھ کر جمی پاگل سا ہوگیا۔ صاف ستھری اور پنک لپس والی چوت اور ہونٹوں کے اندر سے نکلتے ہوئے سفید گاڑھے پانی نے جمی کو بے چین کر دیا تھا اور جمی نے اپنا ٹراوزر اتار دیا۔
                نین آنکھیں بند کرکے مدہوش پڑی ہوئی تھی ۔ جمی نے نینا کی چوت میں ایک انگلی ڈالی جس سے نینا کے منہ سے آہ کی آواز نکل گئی۔
                جمی نے تیزی سے اپنی انگلی کو چوت میں ڈال کر موو کرنا شروع کر دیا۔
                نینا کی آہ آہ کی آواز پورے کمرے میں آنے لگی۔ نینا اب تک ایک بار فارغ ہو چکی تھی اور دوسری مرتبہ فارغ ہونے کے قریب تھی۔
                تبھی جمی نینا کی ٹانگوں کے بیچ میں آ گیا اور نینا کی ٹانگوں کو کھول دیا۔
                نینا نے اب کی بار آنکھیں کھول کر جمی کے لن کی طرف دیکھا تو حیران ہوگئی۔
                جمی کا لن کافی بڑا تھا۔ نینا کی چوت میں کئی مہینوں سے لن نہیں گیا تھا۔ لن کو دیکھتے ہی نینا نےجمی کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ ڈالو نا۔۔۔
                جمی نے فوراً اپنا لن نینا کی چوت پر رکھا نینا نے ایک لمبی سی آہ بھری اور جمی نے اگلے ہی لمحے اپنا سات انچ کا لن نینا کی گرم چوت میں اتار دیا اور ساتھ ہی آہ کی آواز نکل گئی۔
                نینا کو تھوڑا درد ہوا کیونکہ لن شان کے لن سے لمبا اور کچھ موٹا تھا۔ جمی بہت آرام سے نینا کو چود رہا تھا۔
                پورے کمرے میں دونوں کے سیکس کی آوازیں پیدا ہو رہی تھی۔
                جمی کے لن کا نینا کی چوت میں بار باراندر باہر آنے جانے سے پچک پچک کی آواز نے ماحول کو سیکسی بنا دیا تھا۔
                نینا اب دوسری مرتبہ فارغ ہو چکی تھی وہ فارغ ہونے کے وقت جمی کے خوبصورت جسم کو چومتی چلی جا رہی تھی۔
                اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ جمی کو خود میں سما لے ۔
                جمی بھی مسلسل ایک ہی انداز میں نینا کی چوت کو چود رہا تھا۔ نینا اپنے نازک مخملی ہاتھوں سے جمی کی پیٹھ کو سہلا رہی تھی کچھ ہی دیر میں اس کی انگلیوں کے ناخن جمی کی کمر کو کھریدنے لگے تھے۔
                نینا کے ہلتے ہوئے پستان اور جمی کا پسٹن نما لن سیکس سین کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔
                نینا کے دوسری مرتبہ فارغ ہونے کے بعد اب نینا دوبارہ گرم ہونے لگی تھی۔
                وہ مستی میں ڈوبی ہوئی جمی کو چومے چاٹے جا رہی تھی وہ اب مکمل طور پر جمی کی دیوانی ہو چکی تھی۔
                تھوڑی دیر بعد جمی کے لن سے نکلتی منی نے نینا کی چوت کو بھر دیا جو نینا کی چوت سے بہنے لگی۔
                جمی نینا کے اوپر گر گیا اور دونوں آنکھیں بند کیے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
                کافی دیر یونہی لیٹے رہنے کے بعد جمی کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نینا اس کے اوپر اپنی ٹانگیں رکھے ہوئے گہری نیند میں سو رہی ہے۔
                جمی نے آرام سے نینا کو خود سے علیحدہ کیا اور نینا کے پورے جسم کو دیکھنے لگا۔
                جوش میں آ کر اس نے نینا کو پیار تو کر دیا تھا مگر جسم ابھی تک نہیں دیکھا تھا۔
                کیا خوبصورت جسم تھا۔ بھرے ہوئے بھاری پستان، پتلی کمر، بھری ہوئی گول گانڈ اور گوری نرم ٹانگوں کے درمیان صاف ستھری چوت کے دیکھتے ہی کس کرنے کا دل کر نے لگا ۔
                پھر جمی نے نینا کے اوپر چاد ر ڈال دی اور خود ٹراوزر پہن کر نیچے سو گیا۔
                صبح اتوار تھا۔ نینا کی آنکھ کھلی اپنے آپ کو ننگی حالت میں دیکھ کر گھبرا گئی۔
                جلدی سے ڈریس پہنا اور سوچنے لگی کہ اگر آنٹی نے دیکھ لیا ہوتا تو کیا سوچتی؟
                باتھ روم سے فریش ہو کر آئی تو دیکھا کہ جمی نے ناشتہ بنانا شروع کر دیا ہے جو کہ ٹھیک سے نہیں بن رہا ہے۔
                نینا نے مسکراتے ہوئے جمی کے پاس گئی اور اس کی مدد کرنے لگی۔
                دونوں رات کے ہونے والے سیکس سین پر کوئی بات نہیں کر رہے تھے بس مسکرا رہے تھے۔
                اچانک جمی نے نینا کو اپنی بانہوں میں بھرلیا اور کچن میں ہی نینا کو ڈیپ لپ کس کی اور نینا کو آئی لو یو اور رات کے لیے تھینکس بولا۔
                نینا کے لیے کس بہت سرپرائزنگ تھا اور جمی کا یہ سب بولنا اسے بہت اچھا لگا تھا۔
                نینا کو یوں فیل ہونے لگا تھا کہ ٹائم واپس چلا گیا ہے دو سال پیچھے ایسے ہی شان بھی کسنگ کرتے کچن میں جب نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
                مگر پھر شان کا موجودہ بے ہیور(رویہ) سو چ کر ذہن میں آنے لگا کہ کہیں جمی بھی ایسا نہ کرے۔۔۔
                پھر خیال آیا کہ جمی میرا شوہر بھی تو نہیں ہے نا۔۔۔ اس لیے اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دے کر خود ہی مسکرا دی اور ناشتہ سرو کرنے لگی۔
                یونہی کل رات کی وجہ سے نینا جمی کے ساتھ فیزیکل ریلیشن شپ میں کنورٹ ہوگئی جس کا اسے کوئی غم نہ تھا بلکہ کل رات کی وجہ سے اسے یہ یقین ہو چکا تھا کہ اب وہ کبھی بھی سیکس کی پیاس میں نہیں جلے گی۔
                دل کیا تو آنٹی کے ساتھ اور دل کیا تو جمی کے ساتھ۔۔۔ جمی بھی نینا سے مزید اوپن ہو گیا اور اب دونوں کے درمیان شرم کے تمام پردے ہٹ گئے تھے۔
                سین چینج
                ادھر شانکو سونا کی کمپنی نے بدل کر رکھ دیا تھا۔ شان اب شراب نوشی بھی کرنے لگا تھا اور پارٹیز میں بھی جانا لگا تھا۔
                سونا کے ساتھ سیکس کرنا روٹین بن گیا تھا۔ اسے اپنے گھر میں ذرا بھی مزہ نہیں آتا تھا۔
                شان کا بینک بیلنس اور پراپرٹی کافی زیادہ تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اکلوتا بیٹا تھا اور یہ بات سونا اور اس کے گھر والے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔
                اسی لیے انہوں نے شان کو اپنے جال میں پھنسا لیا تھا اور اسی جال کو مزید مضبوط کرنے کے لیے سونا نے اپنی بڑی بہن (طلاق یافتہ) کو استعمال کیا۔
                شان آج آفس سے واپس آیا تو سونا کا فون آ گیا کہ جلدی پہنچے۔ اس لیے شان سونا کی طرف نکل پڑا۔ نینا بھی گھر پر تھی لیکن اب کوئی ایک دوسرے سے نہ ہی پوچھتا تھا اور نہ ہی بتاتا تھا۔
                شان سیدھا سونا کے ہاں پہنچا اور وہاں جا کر دیکھا کہ سونا اور اس کی بہن موجود تھی۔
                سونا: ہائے جانو۔۔۔
                اور لپٹ کر لپ ٹو لپ کس کرنے لگی۔شان بھی اس کی کسنگ کا رسپانس دینے لگا تھا۔
                سونا: یونو۔۔۔ ہم نے ایک پلان بنا یا ہے۔۔۔
                شان: کیسا پلان؟
                سونا : کہ ہم تینوں یعنی میں ، میری بہن، اور آپ ۔۔۔ایک ہفتے کے لیے چھٹیاں گزارنے کے لیے ایک خوبصورت جگہ جائیں گے۔
                شان: کیا؟؟؟ ایک ہفتہ؟؟؟ لیکن میری چھٹیاں؟؟؟
                سونا: جانو پلیز نا۔۔۔ آفس سے چھٹی لے لو نا۔۔۔
                شان : مگر یہ ممکن نہیں ہے جانو۔۔۔
                شان کے دو دفعہ انکار کرنے پر سونا ناراض ہو گئی اور کہنے لگی: تم نے میری بہن کے سامنے میری انسلٹ کر دی۔ میں انہیں روز کہتی ہوں کہ شان مجھے کبھی انکار نہیں کرتا اور آج بہن کے سامنے ہی انکار کر دیا؟؟؟
                یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔شان کے لیے اب ہاں بولنے کے سوا کوئی حل نہ تھا اور سونا کو کہہ دیا کہ وہ چلے گا۔
                اس پر سونا نے شان کو کس کیا اور تھینک یو بولا اور اپنی بہن کو آنکھ مار دی۔
                تین دن بعد شان ایک ہفتے کی چھٹی لے کر سونا اور اس کی بہن کے ساتھ نکل گیا اور اس مرتبہ نینا کو انفارم کرکے گیا کہ ایک ہفتہ وہ گھر نہیں آئے گا۔
                نینا نے بھی زیادہ نہیں پوچھا اور اوکے بول دیا۔
                شان کو اس وقت نینا کا کس یادآ گیا جب وہ اسی طرح آفس کے ٹور پر جاتا تو نینا لپٹ کر ہاٹ کس کرکے اسے بائے کہتی تھی۔
                ایک پل کے لیے خیال آیا مگر سونا ذہن میں آ گئی۔
                نینا کو ایک ہفتے کے لیے اکیلا چھوڑ کر شان سونا اور اس کی بہن کے ساتھ آوٹنگ کے لیے نکل گیا۔
                آوٹنگ پر شان نے محسوس کیا کہ سونا کی بڑی بہن اس میں بہت دلچسپی لے رہی ہے اور شان کے سامنے سیکسی ڈریس پہن کر آتی جس سے اس کے بھرے ہوئے 38 سائز کے پستان شان کے آنکھوں کے سامنے آ جاتے اور شان بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔
                شان کا بہت دل کرتا کہ وہ سونا کی بہن کی چوت کا مزہ لے مگر سونا کی وجہ سے آگے نہ بڑھ پاتا۔
                آج کا ٹور کا تیسرا دن تھا اور تینوں بیچ(سمندر کنارے) پر سیر کرنے نکلے ہوئے تھے اور وہاں سے نائیٹ کلب ۔۔۔
                سونا اپنی بہن کے سامنے ہی شان کو کس کرتی کبھی شان کے لن کو ہاتھ لگاتی اور سیکسی نظروں سے شان کو دیکھتی۔۔۔
                جبکہ شان اور سونا کو دیکھ کر سونا کی بہن مسکرا دیتی اور شان کو بہت سیکسی انداز سے دیکھتی۔۔۔
                نائیٹ کلب میں ایک طرف کچھ کپلز ڈانس کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ کسنگ بھی۔۔۔
                شان کا بھی ڈانس کا دل کرنے لگا اور اس نے سونا کو ڈانس کا کہا مگر سونا نے ڈرنک کا کہہ کر انکا ر کر دیا اور بولی: آپی سے پوچھ لو اگر وہ کرتی ہیں ڈانس تو ان کے ساتھ کر لو۔۔۔
                شان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا کہ سونا خود کہہ رہی ہے ڈانس کا وہ بھی اپنی بہن کے ساتھ ۔۔۔
                شان نے دیر نہ کی اور سیدھا سونا کی بہن کے پاس چلا گیا اور بولا: لیٹس ڈانس؟؟؟
                سونا کی بہن نے سونا کی طرف دیکھا مسکرائی جیسے کہہ رہی ہو کہ ایوری تھینگ از گوئنگ ویل ایز پر پلان۔۔۔
                اور وہ دونوں ڈانس فلور پر چلے گئے۔
                ڈانس کرتے کرتے شان نے اپنے ہاتھوں کو سونا کی بہن کے پورے جسم کی سیر کروائی ۔ کبھی کمر تو کبھی گانڈ کبھی پیٹ تو کبھی بوبز۔۔۔
                سونا کی بہن بھی خوب ساتھ دے رہی تھی شان کا۔۔۔
                اور دونوں میوزک کے ساتھ ساتھ جھوم رہے تھے۔
                ادھر سونا کی حالت زیادہ ڈرنگ کرنے کی وجہ سے آوٹ آف کنٹرول ہو گئی اور کچھ شرابی لڑکے اس کے قریب آ گئے۔
                شان اور سونا کی بہن نے فوراً ڈانس فلور چھوڑا اور سونا کو لے کر گاڑی میں آ گئے۔
                سونا مکمل ٹن تھی شراب کے نشے میں۔ وقت بھی رات کا ایک بج رہا تھا اس لیے دونوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور دو بجے وہ ہوٹل پہنچے جہاں وہ رکے ہوئے تھے۔
                سونا کو دونوں سہارا دے کر کمرے تک لے کر آئے اور آتے ہی سونا بیڈ پر گر گئی اور پانچ منٹ میں ہی گہری نیند میں سو گئی۔
                شان اپنی قسمت پر رونے لگا کہ اچھا خاصا ڈانس چل رہا تھا اور کسنگ بھی ہونے کے قریب تھی مگر یہ ٹن ہوگئی۔
                شان ابھی یہی سوچ رہا تھاکہ سونا کی آواز سنائی دی: اب یہ کل دن سے پہلے نہیں جاگے گی۔۔۔ سو۔۔۔ کم ہئیر اسے سونے دو۔
                شان نے لائیٹ آف کی اور دوسری طرف چلا گیا وہاں سونا کی بہن نے کافی ریڈی کی ہوئی تھی۔ کافی پیتے ہوئے سونا کی بہن نے بات شروع کی۔
                سونا کی بہن: کتنا اچھا ڈانس چل رہا تھا نا
                شان: ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔ سونا۔۔۔
                سونا کی بہن: ہاں سونا۔۔۔ سارا ٹیمپو توڑ دیا۔۔۔
                شان: ہممم۔۔۔ سیم فیلنگز ہئیر۔۔۔
                سونا کی بہن: ویسے تمہارے ہاتھ بہت تیزی سے موو کرتے ہیں
                شان تھوڑا سا گھبرا گیا اور بولا: کک کیا؟؟؟
                سونا کی بہن: اتنے معصوم مت بنو۔۔۔ ڈانس کے وقت تو کوئی جگہ نہیں چھوڑی تم نے جہاں تمہارے یہ شیطان ہاتھ نہ گئے ہوں
                شان سجھ گیا کہ سونا کی بہن فل موڈ میں ہے اور وہ بولا: آپ ہیں ہی ایسی کہ خود بخود شیطانی کرنے کا دل کرتا ہے۔
                سونا کی بہن: اچھا جی۔۔۔ تو کیا کیا دل کرتا ہے جناب کا؟؟؟
                شان آگے بڑھتے ہوئے سونا کی بہن کے قریب آ گیا اور بولا: دل کرتا ہے کہ۔۔۔
                سونا کی بہن: کیا دل کرتا ہے؟
                اس دفعہ آواز تھوڑی رومانٹک تھی۔
                شان: دل کرتا ہے کہ یہ ہاتھ ایسے ہی شیطانی کرتے رہیں آپ کے ساتھ
                سونا کی بہن: اگر دل کرتا ہے تو ابھی ہاتھوں کو کیا ہوگیا ہے؟ شیطانی کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ اب تو ویسے بھی سونا سو چکی ہے۔۔۔
                جاری ہے۔۔۔

                Comment


                • مس نینا
                  ایک لڑکی کی داستانِ حیات
                  قسط نمبر 24
                  شان کے لیے یہ اوپن آفر تھی اور شان نے بنا دیر کیے اپنے ہونٹ سونا کی بہن کے ہونٹوں پر رکھ دئیے۔
                  سونا کی نسبت اس کی بہن ہیلتھی تھی بھرا ہوا جسم بھرے ہوئے پستان بھری ہوئی تھائیز اور گول گول موٹے ابھری ہوئی گانڈ اور جسم فوم کی مانند نرم تھا۔
                  سونیا(سونا کی بہن) شان کا انتظار کر رہی تھی اور شان کی کسنگ کا بھرپور جواب دینے لگی۔
                  سونیا نے اٹھ کر ہلکا سا میوزک آن کر دیا اور بولی: وہاں سے ہی شروع کرو جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
                  شان نے آگے بڑھ کر سونیا کو اپنی بانہوں میں تھام لیا اور میوزک پر جھومنے لگا۔
                  شان کے ہاتھ اب صرف گانڈاور بوبز پر ہی موو کر رہے تھے اور ڈیپ کسنگ بھی جاری تھی۔
                  سونیا سونا سے زیادہ تجربہ کار اور میچور تھی اس لیے بہت پیار کے ساتھ اور آرام آرام سے پیار کا مزہ لے رہی تھی۔
                  شان کی کسنگ لپس سے بڑھ کر گردن تک چلی گئی تھی اور سونیا کی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔
                  شان بھی گرم ہو چکا تھا اور دونوں کو پسینہ بھی آنا شروع ہوگیا تھا۔
                  شان نے آہستہ آہستہ سونیان کا ٹاپ اتارنا شروع کیا اور اگلے لمے میں سونیا صرف برا میں شان کے سامنے تھی۔
                  اِدھر سونیان نے بھی فورا ًشان کی شرٹ اتار دی اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر ڈانس کرنے لگے۔
                  شان کی تو جیسے لاٹری لگ گئی تھی کہ سونا کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کا جسم بھی آج اس کے سامنے کھل گیا تھا۔
                  اففف کیا جسم تھا سونیا کا۔۔۔۔
                  پنک برا میں بڑے بڑے غباروں کی مانند 38 سائز کے بوبز باہر آنے کے لیے ترس رہے تھے اور ان سے زیادہ شان پیاسا ہو رہا تھا انہیں ننگا کرکے منہ میں لے کر چوسنے چاٹنے اور کاٹنے کے لیے۔۔۔
                  سونیا بھی فوراً سمجھ گئی اور آہستہ سے پیچھے ہو کر برا اتار دی اور جا کر بیڈ پر کمر کے بل لیٹ گئی۔
                  شان بھوکے کتے کی مانند سونیا کے اوپر چڑھ گیا اور بڑے بڑے غبارے نما پستانوں کو باری باری پاگلوں کی طرح چوسنے لگا تھا۔
                  شان بھی اب کافی تجربہ کار بن چکا تھا فوراً سمجھ گیا کہ نیچے چوت میں آگ لگ چکی ہے اور آگ کو مزید بڑھکانے کے لیے اس نے اپنی انگلی اس میں گھسا دی۔
                  جس کی وجہ سے سونیا کے منہ سے سسکی نکل گئی۔
                  شان اب کبھی سونیا کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا توکبھی اس کے پستانوں کے نپلز کو مگر اس کی انگلی مسلسل سونیا کی چوت کو چود رہی تھی۔
                  سونیا مکمل طور پر ڈوب گئی تھی پیار میں۔۔۔ آہ ۔۔۔ آہ۔۔۔کی آواز کے ساتھ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر جواب دے رہی تھی چوت میں ڈالی ہوئی انگلی کا۔۔۔
                  شان آہستہ آہستہ کسنگ کرتا ہوا سونیا کے پیٹ اور پھر چوت کے قریب آ گیا۔
                  سونیا کی چوت سونا کی چوت سے بڑی تھی اور پھولی ہوئی تھی۔
                  سونیا کی چوت سونا کی پھدی سے زیادہ سفید تھی اور اس وقت مکمل طور پر گیلی ہو رہی تھی۔
                  شان نے ٹشو کے ساتھ پوری چوت کو صاف کیا اور پھر اپنے ہونٹ چوت پر رکھ دئیے۔
                  سونیا تو پاگل سی ہوگئی اور اونچ اونچی آوازمیں آہیں بھرنے لگی تھی۔
                  پھر شان کو آئیڈیا ہوگیا سونیا اب اینڈ پر ہے تو شان نے اپنا لن چوت میں گھسانے لگا اور سونا کو دو سے تین دھکوں سے اپنا لن اس کی پھدی میں گھسا دیا۔
                  شان سونیا کی پھدی میں لن گھسا کر سونیا اور سونا کی چوت کا موازنہ کرنے لگا تھا اور اسی دوران سونیا اپنی چوت میں شان کا گرم لن محسوس کرکے پرسکون ہونے لگی۔
                  وہ شان کے گرم لن کی گرمی کو برداشت نہ کر سکی اور فارغ ہونے لگی تھی۔
                  شان اب کچھ لمحے رکنے کے بعد اپنے لن کو آگے پیچھے کرکے سونیا کو چودنے لگا آہستہ آہستہ اس کے چودنے میں تیزی آنے لگی۔
                  پورے کمرے میں تھپ تھپ کی آواز گونجنے لگی اور آہ آہ کا میوزک بھی بجنے لگا تھا۔
                  اگلے پانچ منٹ یونہی چدائی کا سلسلہ جاری رہا اور پھر شان کے لن سے نکلی پچکاری نے چدائی کا سلسلہ روک دیا اور وہ سونیا کے اوپر گر گیا۔
                  شان کو اور کیا چاہیے تھا ایک کے ساتھ ایک مفت والا سین ہوچکا تھا۔
                  سونا کے پیار کےساتھ ساتھ سونیا کا پیار بھی مل گیا تھا۔
                  ایک غیر شادی شدہ چوت کے ساتھ ساتھ ایک شادی شدہ (طلاق یافتہ) چوت کا بھی مزہ مل گیا تھا۔
                  سونا جسم میں دبلی پتلی تھی اور سونیا کا جسم بھرا ہوا تھا اور زیادہ نرم بھی کہ چودنے میں مزہ ہی آ جائے۔
                  مزہ کیوں نہ آتا؟؟ سونیا خود ہی اتنی ہاٹ تھی کہ شان کو کوئی کمی نہ آنے دی پیار میں۔۔۔
                  لیکن شان کو نہیں پتا تھا کہ یہ سب ایک بہت بڑی سازش کا حصہ ہے۔
                  شان ابھی بھی اسی طرح ننگی سونیا کےاوپر لیٹا ہوا تھا اور سونیا نیچے ننگی لیٹی گرم سانسیں لے رہی تھی۔
                  شان سونیا کے اوپر سے علیحدہ ہوا تو سونیا نے واپس نیچے کی طرف کھینچ لیا جیسے کہہ رہی ہو کہ آگ تو ابھی ٹھنڈی ہوئی ہی نہیں اور شان کے چہرے کو اپنے بڑے بڑے بوبز پر رکھ کر پریس کر دیا۔
                  شان نے سونیا کی طرف دیکھا اور سونیا کی آنکھون میں پیار کی گرمی کو دیکھ کر سونیا کے ہونٹوں پر کس کر دیا۔
                  اور یوں پیار کا ایک گرم سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
                  اُدھر نینا شان کے جانے کے بعد گھر میں بالکل اکیلی تھی اور اسے شان کی بھی کوئی فکر نہ تھی۔
                  جمی کے ساتھ اس کا سیکس انکاونٹر تو ویسے ہی ہو چکا تھا اور اب اسے بھی اپنے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے جمی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
                  لیکن وہ خود سے جمی کو کبھی بھی نہیں کہنے والی تھی یہ بات۔۔۔
                  ادھر آنٹی بھی پارٹی سے واپس آ چکی تھیں اور نینا سے جمی کے ساتھ گزری ہوئی رات کے بارے میں پوچھنے لگیں۔
                  آنٹی: ہاں نینا کیسی رہی رات؟ جمی نے تنگ تو نہیں کیا؟
                  نینا : نہیں نہیں۔۔۔ آنٹی ہی از اے ویری نائس گائے اور وہ بچہ تھوڑا ہی نہ ہے جو تنگ کرے گا؟؟؟
                  آنٹی : ارے میرے لیے تو وہ ابھی بھی بچہ ہے نا۔۔۔ ویسے بتاو نا تنگ تو نہیں کیا؟
                  اور یہ کہہ کر آنکھ مار دی۔
                  نینا: ارے کیسا تنگ کرنا اس نے۔۔۔ بس لگا رہا اپنے کاموں میں
                  نینا: ارے کیسے تنگ کرنا اس نے۔۔۔ بس لگا رہا اپنے کاموں میں
                  آنٹی: اپنے کاموں میں؟؟؟ صحیح صحیح بتاو نینا۔۔۔
                  اور وہ مسکرا دی۔
                  نینا: جی بتایا نا۔۔۔ لگا رہا اپنے کاموں میں
                  آنٹی: اچھا اب مجھ سے بھی چھپائے گی؟؟؟ چل صحیح صحیح بتا۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو اور جمی اکیلے ہوں اور کچھ ہوا بھی نہ ہو؟؟؟؟ جب کہ جمی تمہیں اپنی جان سے بھی بڑح کر چاہتا ہے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا؟ میری بھی پوری عمر گزر گئی ہے میں سب جانتی ہوں۔
                  نینا: اگر آپ جانتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں؟ ہہاہاہاہاہاہا
                  آنٹی: چل اب باتیں نہ بنا۔۔۔ بتا کہ کیا ہوا؟
                  نینا: ویسے جمی بہت ہاٹ ہے۔۔۔ اور اس کا تو وہ بھی کافی ٹائیٹ ہے۔
                  آنٹی: کیا؟؟؟ یعنی تو رات کو جمی سے۔۔۔
                  نینا: ہاں۔۔نا۔۔۔ کیا کرتی آپ کے بیٹے سے صبر کہاں ہو رہا تھا؟؟؟ اگر خود سے نہ دیتی اسے تو زبردستی لے لیتا وہ میری۔۔۔ ہا ہاہاہاہا
                  آنٹی: اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔ آنٹی کے ساتھ ساتھ آنٹی کے بیٹے پر بھی ہاتھ صاف کر لیا۔ گڈ جی۔۔۔ چلو اچھا ہے اسے بھی تجربہ ہو جائے گا شادی سے پہلے چدائی کا اور تمہاری سیٹیسفیکشن بھی۔۔۔
                  یہ کہہ کر وہ مسکرا دی۔
                  آنٹی یہی سوچ رہی تھی کہ چلو اچھا ہے جمی اور نینا کا ریلیشن شپ بھی شروع ہو گیا ہے۔ ویسے بھی دونوں نے شادی تو کر لینی ہے۔ پھر ہنسی خوشی زندگی گزار لیں گے۔
                  ادھر نینا آنٹی کی سوچ کو پڑھ چکی تھی کہ آنٹی کے مائینڈ میں کیا چل رہا تھا۔ لیکن آنٹی کو یہ نہیں پتا تھا کہ جمی اور نینا عدہ کر چکے ہیں کہ وہ شادی نہیں کریں گے۔۔۔
                  جمی کہیں باہر کام سے گیا ہوا تھا اور گھر میں صر ف نینا اور آنٹی ہی تھیں۔
                  نینا اپنے گھر کی بجائے آنٹی کے پاس ہی تھی کہ اپنے گھر میں وہ اکیلی ہی تھی تو آنٹی نے اسے اپنے گھر ہی بلا لیا۔
                  شان کے جانے کے بعد نینا نے یہاں ہی رہنا شروع کر دیا۔
                  رات کا ڈنر کر کے آنٹی سونے کے لیے چلی گئی اور نینا صبح کے لیے اپنے ڈریس پریس کرنے لگی،
                  جمی اپنے روم میں آفس کے کچھ کاغذات کو سیٹ کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد نینا اپنا ڈریس پریس کرکے سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
                  جاتے ہوئے نینا نے آنٹی کی طرف بھی ایک نظر ڈالی جو کہ گہری نیند میں سو رہی تھیں اور پھر جمی کے کمرے میں جلتی لائیٹ دیکھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
                  اپنے کمرے میں جانے کے بعد نینا وہاں ہی اپنا ڈریس چینج کرنے لگی اور نائیٹ ڈریس پہننے لگی۔
                  نینا نے روم لاک نہیں کیا تھا کیونکہ آنٹی گہری نیند سو رہی تھی اور جمی اپنے کمرے میں تھا،
                  نینا نے اپنی شرٹ اتاری اور ابھی بیڈ پر رکھی ہی تھی کہ روم کا دروازہ کھلا ۔
                  نینا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جمی کھڑا تھا اور نینا کے خوبصورت جسم کو دیکھ رہا تھا۔
                  نینا اپنی شرٹ سے اپنے پستانوں کو چھپاتے ہوئے: جمی تم یہاں؟؟؟ آنٹی جاگ گئیں تو؟؟؟
                  جمی: موم تو گہری نیند سو رہی ہیں وہ ایک دفعہ سو جائیں تو پھر صبح ہی جاگتی ہیں ڈونٹ وری۔۔۔
                  نینا: مگرررر۔۔ پھرررر بھی اٹس اے رسکی۔۔۔
                  جمی نینا کے قریب آ چکا تھا اور نینا کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے بولا: کوئی رسک نہیں جان۔۔۔
                  اس سے پہلے نینا کچھ کہہ پاتی جمی کے ہونٹوں نے اس کے ہونٹوں کو سیل کر دیا۔۔۔
                  ہونٹوں کا ہونٹوں پر آتے ہی نینا کے ہاتھ سے اپنی شرٹ گر گئی اور نینا کے بازووں خود بخود جمی کی کمر پر چلےگئے۔
                  جمی: آئی لو یو نینا۔۔۔
                  نینا: آئی لو یو ٹو جمی۔۔۔
                  جمی: یو آر سو بیوٹی فل جانو۔۔۔ اینڈ آ ئی لو یور دِس میرون برا۔۔۔
                  نینا: اوہ۔۔۔ جمی۔۔۔ آنٹی۔۔۔ نہ آ۔۔۔ جائیں۔۔۔
                  جمی: نہیں آئیں گی جان۔۔۔
                  اور کسنگ کے ساتھ ساتھ نینا کی زبان کو بھی چوسنےلگا۔۔۔
                  نینا مائنڈ میں سوچا کہ آنٹی جاگ گئیں تو کیا ہوگا؟؟؟
                  پھر ذہن میں آیا کہ آنٹی کو تو سب پتا ے میرے اور جمی کے بارے میں۔۔۔ جاگ بھی گئیں تو کیا ہوگا؟؟؟
                  یہ سوچنے کے بعد جمی سے لپٹ گئی اور کسنگ کا رسپانس دینے لگی۔
                  جمی کو احساس ہوگیا کہ نینا بھی ذہنی طور پر تیار ہوگئی ہےیہ سوچتے ہی جمی نے نینا کو بیڈ پر لٹا دیا اور اپنی شرٹ اتار کر نینا کے اوپر آ کر کسنگ کرنے لگا۔
                  نینا کو جیسے سب کچھ واپس مل گیا۔۔۔
                  پیار بھی اور فیملی بھی۔۔۔
                  جمی بہت پیار سے نینا کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا ۔ جمی کے ہونٹ کبھی نینا کے اوپر والے ہونٹ کو چوستے تو کبھی نچلے ہونٹ کو اور کبھی نینا کی زبان ، جمی کی زبان میں آ جاتی۔۔۔
                  نینا اب آہستہ آہستہ بے چین ہونا شروع ہو رہی تھی اور سانسیں تیز ہونا شروع ہو رہی تھیں۔
                  جمی تو بس کس کیے جا رہا تھا اور کس کی آواز بھی آنا شروع ہوگئی کیونکہ ہونٹ دونوں کے مکمل گیلے ہو چکے تھے اور ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ آواز بھی
                  لو یو جانو۔۔۔ لو یو ٹو۔۔۔ جانو۔۔۔
                  نینا: روز ایسے ہی پیار کیا کرو نا۔۔۔
                  جمی: جی جان۔۔۔ روز کیا کروں گا۔۔۔ پیاررررر
                  کسنگ کرتے کرتے جمی نے اپنے ہاتھ نینا کی کمرکے نیچے لے جا کر نینا کی سیکسی برا کے ہک اوپن کر دی۔
                  ہک اوپن کرنے سے برا ایک دم لوز ہوگئی اور جمی نے فرنٹ سے برا کو اوپر کرتے ہوئے نینا کے راونڈ سیکسی بوبز پر کس کرنا شروع کر دی۔
                  نینا: آہ۔۔۔ اففف۔۔۔ لو۔۔۔ یو۔۔۔ جان۔۔۔ برا ۔۔۔ نکال ۔۔۔ دو۔۔۔ اففف
                  جمی نے نینا کو تھوڑا اوپر کیا اور برا نکال کر سائیڈ پر رکھ دی اور سیدھا اپنے ہونٹ نینا کی گردن پر رکھ دئیے۔
                  گردن پر ہونٹوں کا آنا ہی تھا کہ نینا کی سانسوں میں آگ بڑھک اٹھی۔
                  چوت تو جمی کے لپ کسنگ ک وجہ سے پہلے ہی گیلی ہو چکی تھی۔ جمی کے گرم اور گیلے ہونٹوں نے نینا کے اندر گردن کی جگہ سے آگ ڈال دی۔
                  نینا اب دوسری دنیا میں داخل ہو چکی تھی۔
                  آنکھیں بند تھیں اور بس پیار ہی پیار تھا۔۔۔
                  جمی کسنگ کے ساتھ ساتھ نینا کی گردن، بازووں پر زبان بھی موو کر رہا تھا۔
                  کسنگ اور لکنگ کا یہ سلسلہ نینا کی چھاتی پر آ گیا۔
                  جمی نینا کی بھری ہوئید ودھ کی طرح سفید چھاتی پر لکنگ کر رہا تھا اور کسنگ۔۔۔
                  نینا کے ہاتھ جمی کے سر میں گھوم رہے تھے۔
                  جمی کا لن بھی مکمل ٹائیٹ ہو چکا تھا مگر وہ اسے ابھی نینا کی چوت میں نہیں ڈالنا چاہ رہا تھا۔
                  اسے فارپلے میں زیادہ مزہ آ رہا تھا اور وہ نینا کو مدہوشی کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دیر تک دیکھنا چاہتا تھا۔
                  نینا اس وقت ایک مرتبہ فارغ ہو چکی تھی۔ کسنگ سٹارٹ کیے ہوئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے اور اگلے ہی لمحے جمی نےاپنے گرم ہونٹ نینا کے بوبز کے نپلز پر رکھ دئیے۔
                  جمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے نینا کے بوبز کو پکڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے نپلز 90 ڈگری اینگل پر اوپر کی طرف اٹھ گئے تھے۔
                  جمی کبھی دائیں تو کبھی بائیں نپل کو چوس رہا تھا اور جیسے ہی جمی کے ہونٹ نینا کے نپلز پر پڑتے نینا کے منہ سے سسکی نکل جاتی۔
                  نینا اب نیچے سے اوپر کی جانب اٹھ اٹھ کر جمی کے ساتھ اپنے جسم کو ٹچ کر رہی تھی۔ کسنگ کی وجہ سے نینا کے نپلز سرخ ہو رہے تھے ۔
                  بوبز کے اوپر جمی کی انگلیوں کے نشان کیونکہ جمی نے کافی دیر سے نینا کے پستانوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔
                  جمی نے محسوس کیا کہ نینا کی چوت سے بہتے ہوئے پانی نے نینا کی شلوار کو بھی گیلا کر دیا تھا اور شلوار اتنی زیادہ گیلی تھی کہ جیسے نینا کا پیشاب اندر ہی نکل گیا ہو
                  مگر یہ پیشاب نہیں گیلا پن تھا جسے محسوس کرتے ہی جمی پاگل سا ہوگیا تھا اور نینا کی شلوار کو فوراً اتار کر اس کے جسم سے علیحدہ کر دیا۔
                  نینا بھی شاید یہی چاہ رہی تھی کیونکہ اسے اپنی گیلی شلوار بہت تنگ کر رہی تھی اپنی گیلی چوت پر۔۔۔
                  جمی نے بھی اپنا ٹراوزر اتار دیا اور سیدھا اپنے ہونٹ نینا کے پیٹ پر رکھ دئیے اور پورے پیٹ کو کس کرنے لگا۔
                  نینا آہ آہ کرکے جمی کی کسنگ کا رسپانس دینے لگی تھی۔
                  جمی کسنگ کرتے کرتے نینا کی چوت کے ایریا پر آ گیا۔
                  جو کہ اس وقت مکمل گیلی تھی۔ جمی نینا کی بھری ہوئی تھائیز کو دیکھا اور اس پر ہاتھ موو کرنے لگا۔
                  اففف نرم و ملائم تھائیز پر ہاتھ موو کرکے جمی کا لن جھٹکے مارنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ مجھے جلد سے جلد چوت کے اندر لے جاو۔
                  مگر جمی اپنے آپ پر کنٹرول کررہا تھا اور نینا کو پاگل۔۔۔
                  نینا کی تھائیز تک گیلا پن آ چکا تھا جمی نے نینا کی ٹانگوں کو کھولا اور تھائیز کے انر سائیڈ پر کسنگ شروع کر دی۔
                  نینا: آہ۔۔۔ جمی۔۔۔ جانو۔۔۔ آہ۔۔۔ پلیززززز اندر۔۔۔ ڈالو۔۔۔ نا۔۔۔ آہ۔۔۔
                  نینا آنکھیں بند کیے سب بول رہی تھی اور اپنی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھا اٹھا کر درخواست کر رہی تھی کہ لن ڈالو اندر۔۔۔
                  جمی نے آہستہ آہستہ تھائیز پر کسنگ کرتے کرتے اپنے ہونٹ نینا کی چوت پر رکھ دئیے۔
                  جیسے ہی ہونٹ نینا کی چوت پر آئے نینا نے اونچی آواز میں آہ کی ، جو کہ پورے کمرے میں سنائی دی۔
                  آنٹی کے بعد آج جمی کےہونٹوں نے نینا کی چوت کو ٹچ کیا تھا۔
                  جمی نے آہستہ آہستہ چوت پر کسنگ شروع کی اور کرتے کرتے ایک دم سے اپنی زبان چوت میں ڈال دی۔
                  نینا تو بس اپنے بس میں ہی نہیں تھی۔
                  گانڈ کو اٹھا اٹھا کر جمی کے منہ میں اپنی چوت ڈال رہی تھی۔
                  جمی نے جہاں تک ہو سکتا تھا وہاں تک اندراپنی زبان ڈال کر لکنگ شروع کر دی۔
                  نینا: آہ۔۔ لو یو۔۔۔ آہ۔۔۔ آئی۔۔۔ لو۔۔۔ یو۔۔۔ جانو۔۔۔ پلیزززز ۔۔۔ یہ۔۔۔ سب ۔۔ نہ ۔۔۔ کرووووو
                  اور چوت سے تیزی سے پانی نکلنے لگا۔ یقینا ً دوسری دفعہ نینا جھڑ (فارغ) چکی تھی۔
                  جمی نے سکنگ تیز ک ردی اور کرتے کرتے پھر چوت سے اپنی زبان کو علیحدہ کردیا۔
                  جمی کی طرف نینا نے اب کی دفعہ آنکھ کھول کر دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ یہ ظلم کیوں کر دیا ایک دم سے چوت سے زبان نکال کر؟؟؟
                  جمی بھی نینا کی اس پیاسی نظر کو سمجھ گیا اور اپنا لن نینا کے سامنے کر دیا۔
                  نینا نے بغیر دیر کیے جمی کا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔
                  اب کی بار آہ آہ کی آواز جمی کے منہ سے نکلنے لگی۔
                  جمی ک واپنے لن پر نینا کے نرم گرم ہونٹ محسوس ہو رہے تھے اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے کا پورا لن نینا کے منہ میں گھسا دے مگر نینا بہت پیار سے اس کے لن کو چوس رہی تھی۔
                  دوسری طرف جمی نینا کی چوت پر فنگر ڈال کر تیزی سے موو کر رہا تھا کہ کسی بھی طرح نینا کا مزہ کم نہ ہو۔
                  جمی کے لن کی دو منٹ کی سکنگ کے بعد جمی نے نینا کے منہ سے اپنا لن نکالا اور نینا کے بیچ میں آ گیا۔
                  نینا تو اسی پل کا انتظار کر رہی تھی۔ فوراً اپنی ٹانگیں کھول کر اوپر اٹھا لیں اور اپنی پیاسی چوت کو جمی کے سامنے کر دیا۔
                  جمی نےبھی اپنا پیاسا لن بنا دیر کیے نینا کی چوت میں داخل کر دیا۔
                  جیسے ہی لن چوت میں گیا، دونوں کے منہ سے ایک ساتھ سکون بھری آہ کی آواز نکلی اور لو یو کی آواز سنائی دی۔
                  پھر لن چوت کے اندر باہر موو ہونے لگا۔
                  تھوڑی ہی دیر میں پورے کمرے میں چدائی کی شہنائی بجنے لگی اور بیڈ کی آواز کے ساتھ ساتھ تھپ تھپ کی آواز بھی پورے کمرے میں گونجنے لگی۔
                  دونوں کو اس وقت اور کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا کیونکہ دونوں پیار کی دنیا میں تھے اس وقت۔۔۔ اور بس ڈوبے ہوئے تھے اور اونچی اونچی آواز میں آہیں بھر رہے تھے۔
                  ان کی چدائی کی آواز کے ساتھ ساتھ ان کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں کمرے سے باہر جانے لگی تھی۔
                  ادھر آنٹی نے کروٹ لی تو آنٹی کے کان میں یہ آواز سنائی دی۔
                  پہلے تو آنٹی نے سمجھا کہ ٹی لگا ہے لیکن پھر آواز بغور سننے پر آئیڈیا ہوا کہ نینا کے کمرے سے آواز آ رہی ہے جہاں پر ٹی وی موجود نہیں ہے
                  آنٹی فوراً اٹھی اور آہستہ آہستہ نینا کے کمرے کی طرف چل دی۔
                  دروازہ پہلے سے ہی ہلکا سا کھلا تھا۔ آنٹی نے دیکھا تو جمی اور نینا پاگلوں کی طرح چدائی میں مصروف تھے۔
                  آنٹی دونوں کو دیکھ کر مسکرا دی اور جا کر واپس اپنے بیڈ پر لیٹ گئیں۔
                  ادھر جمی کے لن کے آخری جھٹکے کے ساتھ ہی نینا چوتھی مرتبہ فارغ ہوگئی اور جمی نے لن باہر نکال کر ساری کی ساری منی نینا کے پیٹ پر گرا دی اور سائیڈ پر گر گیا۔
                  جاری ہے۔۔۔​

                  Comment


                  • مس نینا


                    ایک لڑکی کی داستانِ حیات

                    قسط نمبر25



                    کہتے ہیں کہ جیسا مرد ہو عورت بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے اور ایک گھریلو عورت کبھی بھی اپنی عزت کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کے حوالے نہیں کرتی

                    اگر اس کا شوہر اس کا مکمل خیال رکھے اور اس کی سیکسوئیل اور لائف کی دوسری ضروریات کو بھی پورا کرے۔

                    سیم کنڈیشن شان اور نینا کے کیس میں چل رہی تھی۔

                    شان ادھر سونا اور اس کی بڑی بہن سونیا کی چوت کے مزے لے رہا تھا اور ادھر نینا اپنی سیکس کی آگ جمی کے ذریعے دور کر رہی تھی۔

                    نینا کی زندگی میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔

                    وہ اپنا ماضی ہر نئے دن بھولتی جا رہی تھی۔ ولدین تھے نہیں ، شان ویسے ہی اس کی پرواہ نہیں کرتا تھا اور شان کے والدین بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔

                    نینا کے لیے اب اس کی پوری دنیان صرف آنٹی اور جمی ہی تھے۔

                    نینا آج جو کچھ بھی تھی وہ آنٹی کی ہی وجہ سے تھی۔ ایک ہیپی لائف، اچھی جاب آنٹی کی ہر قدم پر گائیڈنس اور بونس میں جمی کا پیار۔۔۔

                    جمی اور نینا کا سیکس اب روٹین بن گیا تھا اور آنٹی بھی انٹر فئیر نہیں کرتی تھیں بلکہ نینا کو اپریشیٹ کرتی تھیں کہ تمہاری وجہ سے کم از کم جمی غلط لڑکیوں میں تو نہیں جا پھنسے گا۔۔۔

                    بس اسے اپنے سے دور نہ ہونے دینا۔ اس کے بدلے میں نینا کو جو چاہیے تھا وہ آنٹی دینے کو تیار تھیں۔

                    آنٹی کے لیے ان کی سب سے بڑی دولت ان کا بیٹا جمی ہی تھا جس کے لیے وہ سب کچھ قربان کرنے کو ریڈی تھیں۔

                    ادھر شان سونا اور سونیا کے جال میں بہت بُرا پھنس گیا تھا اور اسے دو دو پھدیاں ایک ساتھ میں کھانے کو مل رہی تھیں۔

                    اسے نہیں معلوم تھا کہ سونا جانتی ہے کہ وہ شان اور سونیا کے ریلیشن بن چکا ہے۔ شان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سونا اور سونیا کا یہ مشترکہ پلان تھا۔

                    آج ٹور کا تیسرا دن تھا شان ، سونا اور سونیا بیچ سے اور ڈنر کرکے واپس اپنے ہوٹل پر پہنچتے ہیں۔

                    سونا آتے ہی باتھ روم میں فریش ہونے چلی جاتی ہے اور باہر صرف سونیا اور شان رہ جاتے ہیں۔

                    سونا کے باتھ روم میں جاتے ہی شان نے سونیا کو آ کر اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کسنگ کرنے لگا۔

                    شان کو سونا سے زیادہ اب سونیا پر پیار آنا شروع ہوگیا تھا۔

                    سونیا: نہ کرو نا جی۔۔۔

                    شان: کیا نہ کروں؟؟؟

                    سونیا: یہی۔۔۔ اففف۔۔۔ آہستہ۔۔۔ آہ۔۔۔ پریس کرو نا۔۔۔ اتنے نرم نرم۔۔۔ بوبز پر کتنا اااااا۔۔۔ ظلم کر رہے ہو۔۔۔۔

                    شان: ارے ان پر جتنا بھی ظلم کیا جائے کم ہے

                    یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھوں میں لے کر پریس کرنے لگتا ہے۔

                    شان: آج پتا نہیں آپ کا ساتھ ملے گا کہ نہیں۔۔۔ آج تو سونا بھی ڈیمانڈنگ ہے کافی۔۔ اسے بھی میرے پیار چاہیے مگر مجھے تو آپ بھی چاہیے آج کی رات۔۔۔

                    سونیا: اچھا تو یہ بات ہے؟ رکو ذرا بتاتی ہوں نینا کو تمہاری حرکتوں کے بارے میں

                    شان سونیا کی کمر کو تھام کر اپنے لن کو اس کی گانڈ میں دباتے ہوئے: کوئی طریقہ کریں نا۔۔۔ کہ آپ کا پیار بھی مل جائے اور سونا کو میرا پیار بھی۔۔۔

                    سونیا: رکو سوچنے دو۔۔۔اور انتظار کر و یہیں ۔۔

                    یہ کہہ کر وہ باتھ روم میں چلی جاتی ہے جہاں پہلے سے سونا موجود تھی۔

                    سونیا نے جاتے ہی سونا کو بتا دیا کہ پلان ایک دم فٹ جا رہا ہے۔ جیسا انہوں نے سوچا تھا بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے اور اگلے پلان کا پوچھتی ہے۔

                    شان تو بے چارہ باہر بیٹھ کر یہی سوچ رہا تھا کہ سونیا اس کے لیے اتنی محنت کر رہی ہے اور سمجھ دار سونیا کچھ نہ کچھ راستہ نکال لے گی اور آج کی رات سونیا کی چوت کا مزہ دوبارہ مل جائے گا۔۔۔

                    شان ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ سونیا باہر آ گئی اور بولی: بہت مشکل ہے ۔۔۔ سونا تو بہت گرم ہوئی پڑی ہے۔ آج تو پوری رات تمہیں اسے ہی چودنا پڑے گا۔

                    یہ سن کر شان کا چہرہ لٹک گیا۔

                    سونیا یہ کہہ کر ٹی وی جا کر دیکھنے لگی۔

                    شان کا لن ایک دم سے سر جھکا کر اندر کی طرف مڑ گیا۔

                    اتنے میں اسے باتھ روم سے سونا کی آواز آئی: شان

                    شان اٹھ کر باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔

                    سونا اس وقت باتھ روم کے ٹب میں بالکل ننگی لیٹی ہوئی تھی۔ شان نے سوچا چلو اب سونیا کی ہی پھدی کو ملنے سے رہی سونا کی ہی چوت مار لی جائے وہ بھی اسی ٹب میں۔۔۔

                    یہ سوچ کر شان نے اپنے کپڑے اتارے اور باتھ ٹب میں اتر گیا۔

                    سونا: جانو! آج مجھے تم اپنے ہاتھوں سے نہلاو نا۔۔۔

                    شان: اوکے جانو۔۔۔

                    اور یہ کہہ کر سونا کے ہونٹوں پر نرمی سے کس کرنے لگا ۔ شان کے ہاتھ سونا کے ننگے جسم پر موو ہونے لگا۔

                    کچھ دیر بعد وہ اپنے ہاتھوں سے سونا کے جسم پر صابن لگانے لگا۔

                    شان: جانو۔۔ آج کتنا پیار دو گے مجھے؟

                    شان: بہت زیادہ۔۔۔

                    سونا: جانو۔۔۔ بتاو نا۔۔ کیسے کرو گے پیار مجھے آج؟؟؟

                    شان، سونا کے پستانوں پر صابن لگاتے ہوئے: جیسے ہر دفعہ کرتا ہوں ویسے ہی۔۔۔

                    سونا: نہیں نا۔۔۔ جانو۔۔۔ بتاو نا۔۔۔ تفصیل سے۔۔۔ مکمل سیکسی ہو کر۔۔۔

                    شان: اوکے جانو۔۔سب سے پہلے اپنی جان کو ڈھیڑ ساری لپ کسنگ کروں گاپھر پورے جسم پر ڈھیر ساری کسنگ اور لکنگ کروں گا … کافی دیر تک تمہارے نپلز سک کروں گا۔۔۔

                    سونا گہری سانس لیتے ہوئے: آہ۔۔۔ اوررررر جانو۔۔۔

                    شان: پھر اپنی جانو کی چوت کو لک کروں گا اور بہت زیادہ گرم کرکے اس کی آگ کو اپنے لن کے پانی سے بجھا دوں گا۔

                    سونا: آہ۔۔۔ جانو۔۔۔ آئی ایم۔۔۔ یورز۔۔۔ لگا دو نا آگ جانو۔۔۔

                    شان: ناو۔۔۔ یور ٹرن۔۔۔ اب تم بتاو کہ کیسے کرو گی پیار؟

                    سونا جیسے ہی بتانے والی تھی کہ باتھ روم کا دروازہ ناک ہوا۔

                    سونیا بولی: مجھے بہت زور کی لگی ہے اور واش روم ایک ہی ہے پلیز مجھے استعمال کرنا ہے۔ کین آئی کم اِن؟؟؟

                    شان کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا اس پر لیکن بس سونا کو دکھانے کے لیے سونا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا جیسے پوچھ رہا ہو کہ واٹ ٹو ڈو؟

                    کیونکہ اس وقت بالکل ننگے تھے اور باتھ روم ٹب میں تھے۔

                    سونا نے خود ہی بول دیا: آ جاو آپی۔۔۔

                    سونیا یہ کہہ کر باتھ روم میں آ گئی۔ سونیا کپڑے چینج کرکے آئی تھی اور صرف نائٹی میں تھی بغیر برا کے۔۔۔

                    سونیا نے دونوں کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور جا کر سیٹ پر بیٹھ گئی۔

                    سونیا اس وقت تقریباً آدھی ننگی تھی کیونکہ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے اپنی نائٹی اوپر کر لی تھی اور گانڈ سے پیروں تک بالکل ننگی تھی۔

                    شان نے تھوڑی دیر سونیا کو دیکھا اور پھر سونا کی طرف دیکھنے لگا۔

                    سونا : اچھا تو تم کیا پوچھ رہے تھے جانو؟

                    شان آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہنے والا تھا سونا فوراً سمجھ گئی کہ شان سونیا کے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔

                    شان کی اس بات کو اگنور کرتے ہوئے بولی: پوچھو نا۔۔۔

                    اور شان کے چہرے پر کس کر دی۔

                    شان کچھ نہ بولا تو سونا خود ہی سونیا کو بولی: سونیا دیکھو کیسے شرما رہے ہیں؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے سیکسی باتیں کر رہے تھے اور اب آپ کو دیکھتے ہی سانپ سونگھ گیا۔ حالانکہ جتنی آپ سیکسی ہیں اور جتنی آپ اس وقت ننگی ہیں اس حالت میں آپ کو دیکھ کر تو سیکس کا جنون اور زیادہ تیز ہو جانا چاہیے شان کا؟؟؟ کیوں شان؟

                    شان کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟

                    سونا اپنی بڑی بہن کے سامنے اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ اسے کہے کہ آج وہ کیسے چدوائے گی مجھ سے ۔

                    یہ سوچ رہا تھا کہ سونیا کی آواز آئی۔

                    سونیا: ہیلو شان کہاں کھو گئے؟ ہماری چھوٹی بہناکو روز کیا ایسے ہی ترساتے ہو؟

                    شان: نہیں میں تو بس ایسے ہی۔۔۔

                    سونیا: ایسے ہی کیا؟ چلو پوچھو اس سے ۔۔۔ذرا میں بھی تو سنو کہ ہماری چھوٹی بہنا کا آج کیا موڈ ہے؟

                    شان سونیا کی بات سن کر پراعتماد ہوگیا کہ کچھ گڑ بڑ نہیں ہے۔ اگر وہ پوچھ لے گا اور سونا سے پوچھا: اوکے بتاو کیسے کرو گی پیار؟

                    سونا: یہ کیا اتنا روکھا ہو کر بول رہے ہو؟ ایسے ہی بولو نا جانو جیسے پہلے بول رہے تھے

                    اور اٹھ کر شان کی ٹانگوں پر بیٹھ گئی اور دوبارہ بولی: بولو نا جانو۔۔۔

                    شان نےاب کچھ دیکھے سنے بنا ہی سونا کو بول دیا: جانو۔۔۔ بتاو نا ۔۔۔ آج کیسے چدواو گی مجھ سے؟

                    سونا: آج دل کر رہا ہے کہ ایسے طریقے سے پیار کریں جیسے پہلے کبھی نہ کیا ہو۔۔۔

                    شان: کیسے جانو؟

                    سونا: آج دل کر رہا ہے کہ مجھے ہر طرف سے پیار ملے۔۔۔ جسم بہت گرم ہو رہا ہے۔ آج دل کر رہا ہے کہ میرے سامنے کوئی سیکس کرے اور جب میں بہت گرم ہو جاوں تو وہ بندہ پہلے والاسیکس چھوڑ کر سیدھا میری چوت میں لن ڈال دے۔

                    شان کو سونا کی باتیں عجیب ہی لگ رہی تھیں۔ آج سے پہلے سونا نے ایسی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔

                    شان: مگر جانو یہاں تو صرف میں اور تم ہی ہیں اور ہم دونوں آپس میں سیکس کر سکتے ہیں ۔۔۔ تو کیسے دیکھاو گی؟؟؟ جانو۔۔۔

                    سونا: آہ۔۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔۔

                    اور شان کو پاگلوں کی طرح کسنگ کرنے لگی۔

                    ادھر سونیا، سونا اور شان کے پیار کو دیکھ کر آہستہ آہستہ گرم ہونے لگی اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی چوت پر ہاتھ موو کرنے لگی اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی چوت پر ہاتھ موو کرنے لگی۔

                    شان کی نظر سونیا پر پڑ گئی جو کہ چوت مسل رہی تھی۔

                    شان کے ذہن میں فوراً آئیڈیا آیا اور سونیا سے بولا: سونیا! آپ نے سنا سونا کیا کہہ رہی ہے؟

                    سونیا: ہاں۔۔۔ سنا۔۔۔

                    اور سیکسی نظروں سے شان کو دیکھنے لگی۔

                    سونا نے شان کی یہ بات سنی اور سونیا کی طرف مڑ کر بولی: آپی! بہت دل کر رہا ہے کسی کو چدواتے ہوئے دیکھ کر گرم ہونے کا۔۔۔ آہ۔۔۔

                    اور اپنی چوت کو رگڑنے لگی۔

                    سونیا: تو میں کیا کروں؟؟؟

                    سونا: آپی۔۔۔ آپ بھی آ جاو نا۔۔۔ بہت مزہ آئے گا۔۔۔

                    سونیا: مم۔۔ میں؟؟؟ پاگل ہوگئی ہو کیا؟؟؟؟ میں اور وہ بھی شان کےساتھ؟؟؟

                    سونا: پلیززززززززززززززززززز لو یو سونیا آپی ۔۔۔ پلیزززز

                    یہ کہہ کر وہ باتھ ٹب سے اٹھ کر سونیا کے پاس چلی گئی اور جا کر سونیا کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔

                    یہ سین دیکھ کر شان کے لن کو 11000 واٹ کا جھٹکا لگا اور اسے اپنی خواہش پوری ہوتی ہوئی نظر آنے لگی کہ آج اسے سونا کی چوت کے ساتھ ساتھ سونیا کی چوت بھی مل ہی جائے گی۔

                    سونا نے کسنگ کرتے کرتے سونیا کی نائٹی اتار دی اور سونیا کا ہاتھ پکڑ کر باتھ ٹب کے پاس لے آئی اور باتھ ٹب میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

                    سونیا باتھ ٹب میں بیٹھتی چلی گئی۔

                    سونا: شان جانو۔۔۔ پیار کرو نا میری آپی کو۔۔۔

                    اور خود یوار کے ساتھ ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی اور اپنی چوت کو مسلنے لگی۔

                    ادھر شان کی ٹانگوں پر آ کر سونیا ایسے بیٹھ گئی کہ سونیا کی ٹانگیں شان کے اردگرد آ گئی اور دونوں کے ہونٹ بنا دیر کیے آپس میں آ ملے۔

                    شان کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے من کی آس ایسے پوری ہو جائے گی۔ آج اگر وہ کچھ اور بھی مانگتا تو وہ بھی مل جاتا۔۔۔

                    اسے س اتنا ہی پتا تھا کہ سونیا اور اس کے درمیان جو پہلے سے سیکس کا رشتہ چل رہا ہے وہ صرف سونیا اور وہ جانتے ہیں۔

                    بس یہی سوچ کر اس نے سونیا کی آنکھوں میں پیار بھری نظروں سے دیکھا اور ہونٹوں کو چوسنے لگا۔

                    اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ سونا یہ بات بھی جانتی ہے کہ شان صرف اسے ہی چودتا بلکہ اس کی سونیا آپی بھی شان کے لن کا بھرپور مزہ لیتی ہے۔

                    ادھر سونیا اور شان آپس میں کسنگ کر رہے تھےا ور ادھر سونا اپنی چوت کو مسل مسل کر آہ آہ کی آوازیں نکال رہی تھی۔

                    شان آج اپنے آپ کو ہوا میں ارٹا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

                    اس کی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ ایک ننگی عورت اس کے بدن کے ساتھ لپٹی تھی اور دوسری ننگی لڑکی اس کے سامنے اپنی چوت کو مسل رہی تھی۔

                    شان کا لن 90 ڈگری اینگل پر کھڑا ہو کر سونیا کی چوت کو سلامی دینے لگا۔

                    سونیا کو بھی اپنی چوت پر شان کا لن محسوس ہونے لگا تھا۔

                    سونیا فوراً شان سے علیحدہ ہوگئی اور سیکسی نگاہ سے پہلے شان کی طرف دیکھا اور پھر سونا کی طرف اور پھر شان کے اکڑے ہوئے لن کی طرف۔۔۔

                    اس سے پہلے شان کچھ کہتا سونیا نے جھک کر فوراً شان کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔

                    شان کو ایسے فیل ہوا جیسے اس کا لن اس کے جسم سے علیحدہ ہو رہا ہو پگل رہا ہو۔۔۔

                    ادھر آہستہ آہستہ سونا چوت مسلتے مسلتے شان کے قریب ہو گئی اور شان نے ایک سونا کی چوت پر رکھ دیا

                    اور سونا نے بڑھ کر اپنی چوت شان کے حوالے کر دی۔

                    شان نے اپنی ایک انگلی سونا کی چوت میں گھسا دی اور سونا کے منہ سےا ٓہ نکل گئی۔

                    نیچے سونیا شان کے لن کو لالی پاپ کی طرح چوس رہی تھی۔

                    تھوڑی ہی دیرمیں سونا سونیا سے بولی: سونیاآپی! اپنی چوت میری طرف کرو نا۔۔۔ آہ۔۔۔

                    سونیا نے لن منہ سے نکالے بغیر اپنی پوزیشن چینج کی اور گانڈ سونا کی طرف کر دی۔

                    اب پوزیشن کچھ یوں تھی کہ شان سیدھا لیٹا ہوا تھا اور سونیا اس کی رائیٹ سائیڈ پر ڈوگی سٹائل میں اس کے لن کو چوس رہی تھی۔

                    سونیا کی گانڈ کی سائیڈ پر سونا بیٹھی تھی جو اپنی ٹانگیں کھول کر اپنی چوت شان کے سامنے کرکے بیٹھی تھی۔

                    سونا نے اپنا ہاتھ سیدھا سونیا کی چوت پر رکھ دیا اور سونیا کی چوت مسلنے لگی۔

                    اب ایک ہی وقت میں تینوں کا پیار چل رہا تھا۔

                    شان کا لن سونیا کے منہ میں تھااور سونیا کی چوت سونا کے ہاتھوں میں مسل رہی تھی اور سونا کی چوت پر شان اپنا ہاتھ صاف کر رہا تھا۔

                    تینوں کے منہ سے آہیں نکل رہی تھی سونا کوشش کر تھوڑا قریب ہوئی اور شان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور دونوں نے سکنگ شروع کر دی۔

                    باتھ روم میں تینوں ننگے ہوکر ایک دوسرے کے پیار کی پیاس بجھانے میں مصروف تھے۔

                    اچانک سے سونیا نے شان کے لن سے اپنا منہ ہٹا دیا۔

                    شان نے سوالیہ نظروں سے سونیا کی طرف دیکھا جیسے شان کے اوپر سونیا نے ظلم کر دیا ہو ایک دم لن سے ہونٹ ہٹا کر۔۔۔

                    سونیا نے اپنی گانڈ کو بھی سونا سے دور کر دیاا ور باتھ روم کے فریش پر لیٹ کر اپنی ٹانگیں کھول کر دعوت گناہ دینے لگی۔

                    سونیا: شان! سونا کی چوت کا مزہ تو لیتے ہو ۔۔ کیا میری چوت کا مزہ نہیں لوگے؟؟؟

                    سونیا مکمل طور پر گرم ہو چکی تھی اور ایک دفعہ فارغ ہو چکی تھی۔۔۔

                    سونا اپنا پانی دو دفعہ نکال چکی تھی۔

                    شان نے سونا کی طرف دیکھا جیسے اجازت لے رہا ہو۔ سونا شان سے علیحدہ ہوئی اور جا کر سونیا کی چھاتی پرایسے بیٹھ گئی کہ سونا کی چوت سونیا کے منہ پر آ گئی۔

                    سونا آنکھیں بند کرکے بولی: آہ۔۔۔ لو یو سونیا۔۔۔آپی ی ی ی ی ی ی

                    شان یہ سین دیکھتے ہی پاگل سا ہوگیا تھا اور سیدھا اپنے ہونٹ سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر چپکا دئیے۔

                    سونیا آہیں بھرتی ہے تو اس کی آہوں کی آوازیں سونا کی چوت کے اندر ہی دب کر رہ جاتی ۔

                    سونیا کی گیلی چوت پر شان پاگلوں کی طرح لکنگ کر رہا تھا۔ سونیا گانڈ اٹھااٹھا کر شان کے ہونٹوں میں اپنی چوت دبا رہی تھی۔

                    چوت چٹائی کا یہ سلسلہ پانچ منٹ تک چلا اور سونیا دوسری مرتبہ شان کے ہونٹوں کی گرمی سے فارغ ہوتی چلی گئی اور فرط جذبات میں آ کراپنے ہاتھوں سے شان کے سر کو اپنی چوت میں دبا لیا۔

                    سونا بھی فوراً سمجھ گئی کہ سونیا دوسری مرتبہ فارغ ہو چکی ہے کیونکہ سونیا کی لکنگ کچھ دیر کے لیے رک گئ تھی۔

                    سونا موقع دیکھتے ہی سونیا کے اوپر سے ہٹ گئی اور سونیا کے ساتھ ایسے ہی ٹانگیں اوپر کرکے لیٹ گئی۔

                    شان کے سامنے اب دو دو پھدیاں کھلی پڑی تھیں۔ ایک سونا کی اور دوسری سونیا کی۔۔۔

                    شان نے دونوں چوتوں کو اکٹھا دیکھا اور موازنہ کرنے لگا۔

                    سونیا کی چوت تھوڑی موٹی تھی اور تھوڑی پنک بھی۔۔۔ جبکہ سونا کی چوت کے لپس تھوڑے براون تھے اور چوت تھوڑی اندر کی طرف دبی ہوئی تھی۔

                    شان یہی سوچ رہا تھا کہ سونا بولی: جانو! میری چوت۔۔۔ بھی آہ۔۔۔۔

                    شان تھوڑا سے سائیڈ پر ہوا اور اپنے ہونٹ سونا کی چوت میں ڈال دئیے۔

                    سونا سونیا سے زیادہ گیلی ہوئی پڑی تھی۔ شان نے سونا کی چوت میں جہاں تک ہو سکتی تھی زبان ڈال دی اور سونا سسکیاں لیتی ہوئی آئی لو یو جانو اور چاٹو اور چوسو کا کہنے لگی تھی۔

                    سونیا کو بھی فری ہونا اچھا نہیں لگا اور سونیا نے کروٹ لے کر سونا کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔

                    دونوں کی کسنگ شروع ہوگئی۔

                    سونیا نے اپنے ہاتھ سونا کے بوبز پر رکھ دئیے اور انہیں مسلنےلگی۔

                    سونا نے بھی اپنے آزاد ہاتھوں کو سونیا کے بوبز پر رکھ دیا اور مسلنے لگی۔

                    سونیا پھر سے گرم ہونے لگی تھی۔ شان کا منہ مصروف تھا لیکن ہاتھ نہیں

                    شان نے اپنے ہاتھوں کاصحیح استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو سیدھا سونیا کی چوت پر رکھ دیا اور اپنی فنگر اندر ڈال دی۔

                    اب سچویشن یوں تھی کہ تینوں کے جسم کا کوئی حصہ فری نہیں تھا۔

                    ایک ایک حصہ پیار کے طوفان میں ڈوب گیا تھا۔ سونیا بہت زیادہ گرم ہوگئی تھی اور سونیا تیسری مرتبہ فارغ ہونے لگی تھی جس سے شان کا منہ اس کی چوت کے پانی سے بھر گیا تھا۔

                    شان سے اب مزید کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور اس نے سونا کی چوت سے اپنے منہ کو ہٹایا۔

                    سونا ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی اس لیے اسے ابھی لن نہیں چاہیے تھا لیکن سونیا گرم ہو چکی تھی اور تیسری مرتبہ فارغ ہونے کے لیے لن مانگ رہی تھی۔

                    شان کو تو آج سونیا کی چوت چاہیے تھی۔

                    بنا کسی انتظار کے اپنے لن کو سونیا کی چوت میں داخل کر دیا ۔ سونیا آنکھیں بند کرکے بلند آواز میں سسکی اور لذت آمیز آواز میں بولی: آہ۔۔۔۔ شان ن ن ن ن مارررررر ڈالااااااا۔۔۔آہ۔۔ فک۔۔۔ می۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔ اففف۔۔۔ آئی۔۔۔ ایم۔۔۔ یورز۔۔۔ سونا۔۔۔۔ از ۔۔۔ یورز۔۔۔ آہ۔۔۔ اففف۔۔۔ ہماری چوتیں صرف تمہارے لیے بنی ہیں۔۔۔ اففف ۔۔۔ ان میں ایسے ہی روزانہ ہم دونوں بہنوں کی پھدیوں کو اپنے گرم لن سے ٹھنڈا کرتے رہنا۔۔۔ آہ۔۔۔ شان۔۔۔پلیز ہمیں چھوڑ کر کبھی بھی نہ جانا۔۔۔ پلیزززززز۔۔ اففف میں مر گئی۔۔۔ شان ن ن ن

                    شان یہ سب سن کر اور جوش میں آ گیا اور جنگلی کتے کی مانند سونیا کی چوت میں لن اندر باہر کرنے لگا۔

                    سونا جو کہ تین مرتبہ فارغ ہو چکی تھی مگر چوت ابھی بھی لن کی آس لگائے بیٹھی تھی۔

                    شان نے لن کے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لن سونیا کی چوت سے نکالا اور سونا کی چوت میں ڈال دیا ۔

                    سونا کو ایسے فیل ہوا کہ ایک مرتبہ پھر سے وہ جنت میں آ گئی ہے۔

                    گیلی چوت میں لن جاتے ہی پچ پچ کی آواز آنے لگی۔ سونیا کو شان کی یہ حرکت بہت بری لگی کہ اس کی پیاسی چوت کو ایسے ہی چھوڑ کر سونا کی چوت کی طرف چل دیا۔

                    مگر شان بھی آج ایسے نہیں بیٹھنے والا تھا۔

                    ایک منٹ سونا کی چوت میں لن ڈالتا تو ایک منٹ سونیا کی چوت میں۔۔۔

                    دونوں ٹانگیں کھولے ہوئے شان کےلن کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ تینوں کے جسم پسینے سے شرابور ہو چکے تھے اور شان کی حالت تو بہت ہی بری ہوئی پڑی تھی ایک ساتھ دو پھدیوں میں لن ڈال ڈال کر ۔۔۔

                    شان نے ایک زور دار جھٹکا اب کی بار سونیا کی چوت میں مارتے ہوئے سونیا کے ننگے وجود سے لپٹ گیا جس سے سونیا کی آنکھیں اوپر کو چڑھ گئی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے منہ سے زور دار چیخ بھی نکل گئی مگر کچھ ہی دیربعد اسے سکون بھی آنے لگا تھا۔

                    شان کے اگلے جھٹکے آخری جھٹکے ثابت ہوئے اور سونا چوتھی مرتبہ فارغ ہوتی چلی گئی۔

                    شان کا لن سونا کے گرم پانی سے نہانے لگا تھا۔

                    شان بھی فارغ ہونے کے بالکل قریب تھا اس نے اپنے لن کا پانی سونیا کی چوت کو پلانے کا فیصلہ کیا۔

                    شان جلدی سے سونا کے جسم سے علیحدہ ہوا اور سونیا کی کھلی ٹانگوں کو مزید کھول کر اپنا لن سونیا کی پانی سے لبریز چوت میں ڈالتا چلا گیا۔

                    سونیا کے منہ سے ایک بار پھر اونچی آواز میں سسکی نکلی اور ایک تیز چیخ اس کے منہ سے نکل کر باتھ روم کے درو دیوار کو لرزا گئی۔

                    شان نے چند مزید زور دار جھٹکے مارے اور اپنے لن کے منی سے سونیا کی چوت کو سیراب کر دیا۔

                    سونیا بھی شان کے گرم پانی کو اپنی پھدی میں محسوس کرکے فارغ ہونے لگی۔

                    شان سونیا سے لپٹا ہوا تھا تینوں اپنی اپنی بے ہنگم سانسوں کو درست کرنے میں مصروف تھے۔

                    جاری ہے۔۔۔​




                    مس نینا
                    ایک لڑکی کی داستانِ حیات
                    قسط نمبر26

                    آخری قسط


                    تینوں باتھ روم میں تیس منٹ تک یونہی ننگے لیٹے رہے اورجب ہوش آیا تو تینوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اکٹھے نہانے لگے۔
                    نہانے کے دوران ایک بار پھر ہلکی پھلکی مستی چلتی رہی ۔
                    یونہی مستی مذاق میں نہا کر تینوں ایک ہی بیڈ پر آ گئے اور شان درمیان میں ، لیفٹ سائیڈ پر سونا اور رائیٹ سائیڈ پر سونیا لیٹ گئی۔
                    تینوں ابھی تک بالکل ننگے ہی تھے۔ شان نے کروٹ لے کر اپنا رخ سونا کی طرف کر لیا اور سونا نے فوراً شان کی گردن میں بانہیں ڈال لی۔
                    سونیا نے بھی شان کو پیچھے سے ہگ کر لیا اور سونا نے اپنی ایک ٹانگ شان کے اوپر رکھ دی۔
                    سونیا بھی پیچھے کہاں رہنے والی تھی اس نے بھی اپنی ٹانگ شان کی ٹانگ پر رکھ دی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر شان کی چھاتی کو سہلانے لگی۔
                    یوں شا ن ایک ہی رات میں ایک ہی بستر پر آگے پیچھے سے حسیناوں کے نرم جسم میں آنکھیں بند کرکے سوچنے لگا کہ ایسی زندگی تو اسے نینا کے ساتھ رہ کر خواب میں بھی نہیں ملتی۔
                    کتنی اچھی ہیں کہ آج ہی انہیں چودنے کا من کر رہا تھا اور آج ہی انہون نے تمام کر دکھایا۔
                    اور کتنی اچھی ہے سونا جس نے ذرا بھی برا نہیں منایا اور خوب چدائی میں میرا اور سونیا کا ساتھ دیا۔
                    شان نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب وہ زندگی بھر سونا اور سونیا کا ساتھ نہیں چھوڑے گا چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
                    ادھر سونا اور سونیا آج دن کی چدائی کے بعد من ہی من میں اپنے پلان کے کامیاب ہونے کا سوچ رہی تھیں اور ان کے من میں وہی چل رہا تھا جو شان اس وقت سوچ رہا تھا۔
                    انہیں کنفرم ہو گیا تھا کہ شان اب انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا اور اب ہم جو بھی کہیں گی وہ مانے گا۔
                    ناجانے کب سوچتے سوچتے تینوں کی ایسے ہی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ اس وقت کھلی جب ویٹر نے آ کر روم ناک کیا ۔
                    تینوں نے ایک ایک کرکے بیڈ کو چھوڑا اور فریش ہو گئے۔
                    بریک فاسٹ کے دوران رات کی چدائی کی باتیں کرنے لگے۔ باتوں کے دوران اب کبھی سونیا شان کی گود میں بیٹھ جاتی تو کبھی سونا ۔۔۔
                    سین چینج۔۔۔
                    ادھر شان سونا اور سونیا کی چوت کے مزے لے رہا تھا تو ادھر اپنے جسم کی پیاس نینا جمی سے دور کر رہی تھی۔
                    پچھلی تین راتوں میں روز جمی نے نینا کو دل سے پیار کیا تھا۔
                    نینا اور جمی کے اس پیار کا آنٹی کو بھی علم ہو چکا تھا اور جمی کو نینا نے یہ بات بتا دی کہ اس کی موم کو ان کے سیکس ریلیشن کا علم ہو چکا ہے اور انہیں اس رشتے سے کوئی پرابلم نہیں ہے اور وہ جب چاہے پورے گھر میں کہیں بھی اپنے پیار کی آگ کو بجھا سکتے ہیں۔
                    نینا کی آج کی صبح آنٹی کے ڈور ناک کرنے سے ہوئی۔
                    نینا کی آنکھ کھلی تو وہ جمی کی بانہوں میں ننگی لیٹی ہوئی تھی اور جمی کی ٹانگ اس کی گانڈ کے اوپر رکھی ہوئی تھی۔
                    یعنی اب نینا نے جمی کے روم میں ہی رات گزارنا شروع کر دی تھی۔
                    نینا نے آہستہ سے جمی کی ٹانگ اپنے اوپر سے ہٹائی اور جا کر روم کا دروازہ کھول دیا۔
                    سامنے آنٹی کھڑی تھیں ۔ نینا ایسے ہی ننگی آنٹی کے سامنے کھڑی تھی۔
                    نینا کی کوئی چیز آنٹی سے چھپی ہوئی نہیں تھی اس لیے نینا کو بھی کوئی شرم نہیں تھی کہ وہ آنٹی کے سامنے ایسے ہی ننگی کھڑی تھی۔
                    آنٹی: کیسی رات ؟؟؟ میری جان
                    نینا: روز کی طرح گرما گرم۔۔۔
                    اور نینا شرما کر نیچے دیکھنے لگی۔
                    آنٹی: ارے تجھے جمی کیا مل گیا تُو تو مجھے ہی بھول گئی ۔۔۔
                    آنٹی نے دروازے میں کھڑے کھڑے نینا سے کہا۔
                    نینا پاس پڑے تولیے سے اپنے جسم کو ڈھانپتے ہوئے: ارے نہیں میری پیاری آنٹی جی۔۔۔ آپ کی جگہ کو ئی لے سکتا ہے بھلا؟؟؟
                    آنٹی: چل اب باتیں نہ بنا یہ بتا کہ میری باری کب آئے گی؟ رات بھی تم دونوں کو سیکس کرتا دیکھ کر کھڑکی سے چوت کو انگلی ڈال ڈال کر سمجھایا کہ صبر کر جا تیری آگ نینا ہی بجھائے گی۔۔۔ صبر کر
                    نینا: ایسی کیا بات ہے میری سویٹ آنٹی جی۔۔ جمی تو گہری نیند میں سو رہا ہے اور اگلے ایک گھنٹے تک اس کے جاگنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ چلیں آئیں آپ کے بیڈ روم میں چلتے ہیں۔۔۔
                    آنٹی: ہیں؟؟؟؟ ابھی؟؟؟
                    نینا: ہاں اور تو نہیں کیا؟؟؟ اب چلیں نا۔۔۔
                    اور آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ روم میں چل پڑی۔
                    کچھ دیر بعد نینا نے آنٹی کو اور آنٹی نے نینا کو تین مرتبہ ٹھنڈا کیا اور فریش ہونےکے بعد تینوں نے ناشتہ اکٹھا کیا ۔
                    کچھ دیر بعد تینوں تیار ہوکر آفس کے لیے نکل پڑے۔ آنٹی نے آج کسی کام سے جانا تھا اس لیے وہ آفس پہنچنے سے پہلے ہی ان سے علیحدہ ہو گئی تھیں۔
                    نینا کی کار ، کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد جب وہ کار سے اتری تو ہر ایک کی نظر نینا پر ٹکی ہوئی تھی۔
                    پورے پلازے میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے نینا کو ایک مرتبہ دیکھا اور دوبارہ پلٹ کر نہ دیکھا ہو۔
                    جمی اپنے آپ کو بہت پراعتماد محسوس کر رہا تھا۔ اسے بہت خوشی تھی کہ اس کے ساتھ ایک خوبصورت، سیکسی اور ایک پروقار لڑکی تھی۔
                    آفس میں بھی سب کا یہی حال تھا اور ہر کوئی نینا کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستا تھا۔
                    دوسری جانب سونا اور سونیا شان کی سیونگ پر ہاتھ صاف کرنے کا مکمل پلان بنا چکی تھی مگر یہ پلان ابھی پلان ہی تھا اور اس پلان کو مکمل کرنے کے لیے انہیں اور بھی بہت کچھ کرنا تھا۔
                    شان: اچھا تم لوگوں نے سوچا ہے کہ بزنس کیا شروع کریں گے ہم؟
                    سونیا: ہاں ۔۔ کافی سارے آپشن ہیں لائیک ایکسپورٹ آف گارمنٹس ، پروڈکشن ہاوس، ہوٹلنگ وغیرہ۔
                    شان: ہمم۔۔۔ اوکے واٹ اباوٹ ایکسپورٹ آف گارمنٹس؟
                    سونیا: بھئی پیسہ تم نے لگانا ہے جو تمہاری پسند وہ ہماری پسند ہوگی۔
                    شان: اوکے میں ایک دوفرینڈز سے مشورہ کر لوں
                    سونیا کو ایسا لگا کہ جیسے شان انکار کر رہا ہے۔
                    سونیا: یعنی تم ابھی تک کنفیوز ہو کہ بزنس کرنا چاہیے یا نہیں
                    شان: نہیں سونیا۔۔۔ آئی مین ٹو سے۔۔۔ کہ مشورہ یہ کرنا ہے کہ کون سا بزنس شروع کر نا چاہیے
                    سونیا: او اچھا۔۔۔ پھر ٹھیک ہے
                    اور وہ مسکرا دی۔
                    سونا: سونیا آپی! آج آخری دن ہے یہاں۔۔۔ چلو شاپنگ کرتے ہیں آج۔۔۔
                    سونیا: مجھے تو اعتراض نہیں شان سے پوچھ لو
                    شان: اوکے۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔ یہاں سے نکل کر شاپنگ کرنے ہی چلیں گے
                    واپس آ کر سونا سوئمنگ کے لیے چلی گئی۔ شان سونیا سے سیکس کرنے لگا سیکس کے دوران شان نے اپنا لن سونیا کی کنواری گانڈ میں گھسا دیا۔
                    شان کے فارغ ہونے کے بعد سونیا باتھ روم میں جب گئی تو وہ سوچنے لگی کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔
                    ایک دن یہی شان گڑ گڑائے گا اور ہم دونوں بہنیں اس کی حالت کو دیکھ کر لطف اندوز ہوں گی۔
                    اُدھر دوسری جانب نینا سارا دن آفس کے کاموں میں مصروف رہتی ہے اور پتا ہی نہیں چلا کہ کب آفس کا وقت ختم ہوگیا۔
                    نینا ے آفس کی کافی ساری ذمہ داری پر کنٹرول کر لیا تھا۔
                    آنٹی اور جمی اب سب سے زیادہ نینا پر ٹرسٹ کرنے لگے تھے کیونکہ کچھ ہی عرصے میں اس نے آفس کے تمام کاموں پر کنٹرول کر لیا تھا اور پورا ٓفس بھی اس کی خوبصورتی اور اچھے بے ہیور(رویے) کی وجہ سے بہترین پرفارمنس دے رہا تھا۔
                    اس کم وقت میں نینا کے چرچے نے صرف آفس میں بلکہ پورے پلازہ میں ہوگئی تھی۔
                    سیکورٹی گارڈ سے لے کر مختلف آفس(ز) کے ٹاپ منجمنٹ کے لوگ بھی نینا کا ذکر کیے بغیر نہ رہ پاتے تھے۔
                    آج تو نینا ویسے ہی صبح سے ٹائیٹ جینز اور منی شرٹ میں آگ برسا رہی تھی۔
                    تھوڑی ہی دیر میں نینا کے آفس میں جمی آیا اور بولا: جی نینا جی۔۔۔کیا پلان ہے پھر آج گھر نہیں چلنا کیا؟
                    نینا: بس ۔۔۔ یہ آخری ای میل ہے وہ کر لوں تو چلتے ہیں
                    جمی: جنا ب جلدی کیجئے آپ آفس ٹائم سے دو گھنٹے اوپر بیٹھ چکی ہیں۔ پورا سٹاف جا چکا ہے اور ہم ہی ہیں آپ کے انتظار میں۔۔۔۔ کہ کب میری نینا یہ سیٹ چھوڑیں گی۔
                    نینا: واٹ؟؟؟ آٹھ بج گئے؟؟؟
                    جمی: جی جناب یہی تو کہہ رہا ہوں میں۔۔۔ چلو جلدی سے بند کرو سب۔۔۔ ای میل صبح کرلینا ۔۔۔
                    یہ کہہ کر وہ نینا کی کرسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور نینا کی گردن پر کس کرنا شروع کر دی۔
                    نینا: اوکے۔۔۔۔۔ بند کرتی ہوں۔۔۔ مگر یہ آفس میں یہ سب۔۔۔۔ نن۔۔۔ نہیں یا د نہیں ؟؟؟
                    جمی:اوہ۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔ مجھے یاد ہے مگر۔۔۔ تم آج بہت سیکسی اور ہاٹ لگ رہی ہو کنٹرول نہیں ہو رہا جان
                    نینا: اوکے گڈ بوائے۔۔۔ نیکسٹ ٹائم بی کئیر فل۔۔۔
                    اور لیپ ٹاپ کو ڈاون کرکے بولی: آہ۔۔۔ آج تو تھک گئی کام کرکرکے۔۔ اوکے لٹس موو۔۔۔
                    گھر پہنچ کر فریش ہوئے کھانا کھانے کے لیے ٹیبل پر آئے مگر تب تک آنٹی گھر نہیں پہنچی تھیں۔ رات کے نو بج چکے تھے۔
                    نینا: جمی! ذرا آنٹی کا تو پتا کرنا کہاں رہ گئی ہیں
                    جمی: سوری جان۔۔ بتانا بھول گیا وہ آج نہیں آئیں گی
                    نینا: مگر کیوں؟؟؟سب ٹھیک ہے نا؟
                    جمی: ہاں ان کی کوئی دوست ہے اس کے گھر پر کوئی پارٹی ہے اس لیے وہ وہیں ہیں۔
                    نینا: ویسے آنٹی پارٹیز کچھ زیادہ ہی نہیں اٹینڈ کرنے لگی ہیں؟
                    جمی: ہاں۔۔ دراصل ڈیڈ کے گز ر جانے کے بعد تین ہی چیزیں رہ گئی ہیں ان کی زندگی میں۔۔۔ میں ، آفس اور یہ فرینڈز پارٹیز۔۔۔ اس لیے موم انہی پر خوش ہیں اور میں بھی ان کو نہیں روکتا،
                    نینا: اوکے۔۔۔ چلیں کھانا شروع کرتے ہیں۔
                    کھانا کھانے کے بعد جمی نے پیزا منگوا لیا۔پیزے جیسے ہی ختم ہوا جمی اور نینا ایک دوسرے میں کھوتے چلے گئے۔
                    ادھر دوسری جانب شان نے سونا کو بھی گانڈ مروانے کے لیے راضی کرلیا اور ہوٹل میں شراب کے نشے میں ڈوبے ہوئے تینوں نے خوب انجوائے کیا۔
                    شراب کےنشے میں شان نے سونا کی گانڈ کو پھاڑ کر رکھ دیا تھا۔
                    واپس آنے کے دو ہفتے تک تو شان سونا کے گھر نہ جا سکا کیونکہ ابھی اس کو اپنے بزنس کو سمیٹنا تھا اور بہت سارے کام کرنا تھے۔
                    لیکن فون پر روزنہ سونا اور سونیا سے بات ہوتی رہتی تھی۔
                    آج بھی وہ صبح سے اپنے آفس کے کاموں میں ہی لگا ہوا تھا۔ لنچ ٹائم پر اس نے سوچا کہ آج لنچ سونا کے ساتھ ہی کرنا چاہیے اور یہی سوچ کر وہ اٹھا اور کار میں سونا کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
                    راستے میں ایک ہوٹل سے لنچ پیک کروایا اور سونا کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ سونا کے گھر میں کھڑی گاڑی کو دیکھ کر شان کچھ اندازہ نہ لگا سکا۔
                    ڈرائنگ روم خالی دیکھ کر وہ کچھ مایوس ہوگیا اور سمجھا کہ شاید سونا گھر میں نہیں ہے۔
                    مگر اچانک اس کو کچھ مدہم سی آواز نے اپنی طرف کھینچا جو کہ اوپر کے کمرے سے آ رہی تھی وہ سمجھ گیا کہ سونا اپنے کمرے میں ہی ہے ۔
                    وہ اس کی طرف جانے لگا ۔ جیسے ہی وہ سونا کے کمرے کے دروازے کے پاس پہنچا تو اس کو سونا کی آواز آئی۔
                    ’’اوہ جانو۔۔ تم تو مجھے مار ہی ڈالو گے۔۔۔ اور کتنا تڑپاو گےاب صبر نہیں ہوتا ڈال دو اپنا موٹا اور لمبا لن۔۔۔بجھا دو میری چوت کی آگ۔۔۔‘‘
                    یہ سنتے ہی شان کو ایک جھٹکا لگا اور اس نے آہستہ سے دروازہ پش کیاتو دروازہ کھلتا چلا گیا اور اندر کا منظر دیکھ کر تو وہ پاگل ہی ہوگیا۔
                    اس نے دیکھا کہ سونا کے بیڈ پر ایک آدمی ننگا لیٹا ہوا ہے اور سونا اس کے لن پر بیٹھ کر اچھل کود کر رہی ہے۔
                    صوفے پر سونیا ننگی بیٹھی ہوئی ہے اور اپنی چوت میں انگلی کر رہی ہے۔ تینوں اپنی اپنی ہوس میں اتنی گم تھی کہ ان کو شان کے دروازے پر ہونے کا علم نہ ہوسکا۔
                    ادھر شان کی حالت تو ایسی تھی جیسے بدن میں تو جیسے لہو بھی نہیں تھا اور نہ جانے ایک ہی لمحے میں اس کے ذہن میں کیا کیا کچھ ہونے لگا اور وہ فوراً پلٹا اور اپنی کار کی طرف دوڑنے لگا اور اپنی کار کے ڈیش بورڈ سے پسٹل نکالی اور اوپر آکر لات مار کر ایک دھماکے سے دروازہ کھول دیا۔
                    ادھر سونا اور سونیا تو اپنی ہی مستی میں گم تھی لیکن جیسے ہی شان نے دروازہ کھولا تو دونوں ہی حیرت سے اس کو دیکھنے لگی۔
                    سونا کا منہ کھلاکا کھلا رہ گیا اور اس کو یہ بھی احساس نہ ہوا کہ وہ لن پر بیٹھی ہوئی ہے اور جیسے ہی ہوش آیا توفوراً لن سے اتری اور اپنے کپڑوں کی طرف بڑھی مگر شان اس کو بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکا دیا اور نیچے پھینک دیا اور پاگلوں کی طرح اس کو لاتوں سے مارنا شروع کر دیا ۔
                    شان: تم رنڈی ہو ۔۔۔ تم گشتی ہو۔۔۔ میں نےتمہارے لیے کیا کیا سوچا تھا اور تم کیا نکلی۔۔۔ تمہارے لیے میں نے اپنی خوبصورت اور وفادار شوہر بیوی کو چھوڑا اور تم نے۔۔۔
                    اور یہ کہتے ہی اس نے سونا کو شوٹ کر دیا۔
                    بیڈ پر گم سم لیٹا ہوا مرد فوراً اٹھا اور چھلانگ لگا کر بیڈ سے اترا اور ننگا ہی دوڑ کر روم سے بھاگ گیا۔
                    اب تو شان بالکل پاگل ہی ہوگیا تھا اس نے پسٹل کی ساری گولیاں سونا کے جسم میں اتار دی اور سونا بے حس و حرکت ہو گئی۔
                    سونیا نے یہ دیکھا تو چیخنے لگی تو شان سونیا کی طرف پلٹا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے سونیا کا گلا پکڑ کر دبانے لگا اور دباتے دباتے اسے بھی مار ڈالا۔
                    جب سونیا کا جسم ڈھیلا پڑ گیا تو شان نے اسے چھوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
                    اس کی آنکھوں سے آنسو روانہ ہو چکے تھے لیکن یہ آنسو سونا یا سونیا کے لیے نہیں تھے بلکہ اپنی بے وفائی کے تھے۔
                    جو اس نے اپنی بیوی سے کی تھی پھر بے اختیار وہ روتا چلا گیا اور اس کو یہ بھی پتا نہیں چلا کہ وہ کب پولیس سٹیشن پہنچ گیا اور پولیس سٹیشن میں پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔
                    نینا کو پولیس سٹیشن سے ایس ۔ ایچ۔ او ۔ کی کال آئی تو وہ فوراً جمی کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچتی ہے۔
                    شان کو اس حالت میں دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں لیکن شان اس کے ساتھ آنکھیں نہیں ملا پاتا۔
                    تقریباً تین مہینے شان کا مقدمہ چلتا ہے اور عدالت شان کو دو بار عمر قید کی سزا سناتی ہے۔
                    اس دن بھی نینا کورٹ روم میں موجود تھی جیسے ہی جج صاحب نے سزا سنائی تو نینا نے شان کی طرف دیکھا۔
                    شان کا چہرہ پرسکون تھا ۔ نینا کی طرف بڑھا اور صرف اتنا کہا: نینا پلیز مجھے معاف کر دینا۔۔۔ اور اپنی زندگی میں آگے بڑھ جانا۔۔۔
                    وہ صرف اتنا کہہ پاتا ہے کیونکہ اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے پاتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
                    شان نے اپنے وکیل کے ذریعے کچھ دنوں بعد نینا طلاق نامہ بھیج دیا تھا اور اپنی تمام جائیداد اور بزنس نینا کے نام کر دی۔
                    ایک مہینے تک تو نینا صدمے سے دو چار رہی اور اس سارے عرصے میں وہ آفس بھی نہ جا سکی۔
                    مگر اس سارے دورانیے میں آنٹی اور جمی نے اس کا مکمل خیال رکھا اور اسے موٹیویٹ کرتے رہے۔
                    آج بھی آنٹی اس کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔ آنٹی: نینا! جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اب تم کیوں اپنی زندگی کو خراب کرنے پر تلی ہوئی ہو؟ اور دیکھو تمہاری وجہ سے جمی بھی کتنا پریشان رہنے لگا ہے۔ خود کو سنبھالو پلیز۔۔۔ ایسا کب تک چلےگا؟؟؟
                    نینا: کیا کروں آنٹی؟؟؟ مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی اگر آپ اور جمی نہ ہوتے تو پتا نہیں میرا کیا ہوتا؟
                    اور یہ سنتے ہی آنٹی نے فوراً کہا: ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔۔۔ اور جو کچھ بھی میں نے کیا وہ کوئی تمہارے لیے تھوڑی کیا تھا۔۔۔ وہ تو میں نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے کیا ہے۔
                    یہ سنتے ہی نینا چونک گئی اور آنٹی کو دیکھنے لگی،
                    آنٹی : ہاں نینا۔۔۔ میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔ میں تمہیں اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں بولو تمہیں کیا منظور ہے؟
                    اور یہ سنتے ہی نینا نے شرم سے سر جھکا لیا۔
                    کچھ دنوں بعد آنٹی کی بدولت نینا نےشادی کے لیے ہاں کر دی اور کچھ دنوں میں دھوم دھام سے نینا اور جمی کی شادی ہو گئی۔
                    سہاگ رات کو جمی نے نینا صبح تک جگایا رکھا۔ شادی کے تین مہینوں بعد ہی نینا جمی کے بچے کی ماں بن گئی۔
                    آنٹی: میں نے کہا نہیں تھا تم ایک دن ضرور ماں بنو گی ۔۔۔
                    ختم شد۔۔۔
                    Dosto a story kais lagi comment ma lazmi barna aur story ko bi like krya ga is traha ki aur story k ap sb mera hi raha ga

                    Comment


                    • Janab jitni tareef ki jay kam he
                      bohot achhi kahani thi jo apny happy ikhtatam pe pohnchi

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X