Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

یک نہ شد دو شد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • یک نہ شد دو شد

    یک نہ شد دو شد
    علیزہ کوچنگ اکیڈمی جانے کیلئے تیار ہورہی تھی اس دوان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اسکے موبائل کی اسکرین وقفے وقفے سےروشن ہو رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر چیک کیا تو دیکھا کہ ناصر کے آٹھ میسجز آئے ہوئے تھے۔اس نے باری باری تمام میسیجز چیک کئےجس میں ناصر نے ایک ہی سوال پوچھا تھا کہ وہ کوچنگ کب تک پہنچے گی؟

    علیزہ نے رپلائی کیا کہ چار بجے تک۔یعنی ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ناصر کو اکیڈمی پر ملے گی۔

    ناصر کےساتھ علیزہ کی دوستی ابھی مہینہ پہلے ہی شروع ہوئی تھی اور وہ اسکا محلہ دار بھی تھا ۔علیزہ محلہ کی سب سے خوبصورت "بچی " تھی جو ناصر کی ذرا سی محنت سے اس کی جھولی میں آگری تھی۔آج کے دور میں موبائل پر لڑکوں لڑکیوں کی دوستی کا ہوجانا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔سو ناصر نے بھی موبائل کا ہی سہارا لیکر علیزہ سے دوستی کی تھی۔مگر دونوں کی یہ دوستی ابھی صرف فون پر بات چیت تک ہی محدود تھی۔ علیزہ اگرچہ آج کے دور کی لڑکی تھی مگر ناصر کے پرزور اصرار پر بھی وہ اس کے ساتھ باہر ملنے کےلئے رضامندنہیں تھی وہ جانتی تھی کہ بوائے فرینڈز اپنی گرل فرینڈز سے باہر کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ ناصر کو کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا کرتی تھی۔جبکہ ناصر جلد از جلد وہ مقصد حاصل کرنا چاہ رہا تھا جس کے لئے اس نے علیزہ جیسی حسین آفت کواپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔ ناصر کا اصرار جب حد سے بڑھنے لگا تو علیزا نے اک بار پھر اسے ٹالنے کی کوشش کی :ناصر مجھے ڈر لگتا ہے اگر کسی نے مجھےتمھارے ساتھ باہر دیکھ لیا تو میری شامت آجائیگی۔

    جوابا" ناصر اسے تسلی دیتا کہ کچھ نہیں ہوتا یار ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم فکر مت کرو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو میں اسکا منہ بند کرنا جانتا ہوں۔(اسکا یہ کہنا کسی حد تک صحیح بھی تھا کیونکہ وہ شہر کی اک با اثر سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا جسکی وجہ سے علاقہ میں اسکا کافی رعب اور دبدبہ تھا)

    لہذا ناصر کے بہت ہمت دلانےاور اصرار پر آج وہ پہلی بار اس کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لئے تیار ہوئی تھی۔لیکن اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اگر ناصر نے اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہیں دیگی ۔پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ جب وہ کوچنگ پہنچے گی تو ناصر اسے وہاں سے پک کر لےگا۔

    مگر مسئلہ یہ تھا کہ علیزہ کے ساتھ اسکی چھوٹی بہن پری شاہ بھی اسکے ساتھ کوچنگ جاتی تھی۔پری شاہ میٹرک کی اسٹوڈینٹ تھی جبکہ علیزہ فائنل ائیر میں تھی۔

    علیزہ نے ناصر کو جب یہ مسئلہ بتایا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہم پری شاہ کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں گے۔ویسے بھی وہ ہماری رازدار تو پہلے سے ہی ہے۔ناصر کی اس بات سے علیزہ کو کچھ اطمینان ہوا کہ پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناصر اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔

    مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ناصر کی حقیقت اک پلے بوائے کی تھی جو لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت یا دوستی کا جھانسہ دیکرانکے جسموں سے کھیلتا تھا۔ان چھوئی کلیوں کا رس پینا اس کا مشغلہ تھااور جب کسی لڑکی سے اس کا دل بھر جاتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر کسی نئی کلی کی تلاش شروع کر دیتا۔علیزہ بھی اس کے لئےاپنی جنسی پیاس کی تسکین کا محض ایک ذریعہ تھی۔

    علیزہ ٹھیک چار بجے پری شاہ کے ساتھ اکیڈمی پہنچ چکی تھی جہاں کچھ فاصلے پر ناصر اپنی کار میں بیٹھا انکا منتظر تھا۔

    علیزہ اور ناصر کے درمیان چل رہے معاملے کا پری شاہ کو مکمل علم تھاکیونکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرہ استعمال کرتی تھیں اور علیزہ پری شاہ کی موجودگی میں ہی ناصر کے ساتھ گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتی تھی۔آج کے پروگرام کے بارے میں علیزہ نے رات کو ہی پری شاہ کو بتا دیا تھا۔لہذا دونوں آرام سے چلتی ہوئی بجائے اکیڈمی میں داخل ہونے کے ناصر کی کار میں جا بیٹھیں۔ ان کے بیٹھتے ہی ناصر نے جھٹکے سے کار آگے بڑھادی۔

    دس منٹ بعد ناصر دونوں کو لئے ایک فلیٹ میں تھا ۔یہ فلیٹ اسکے دوست وسیم کی ملکیت تھا جسے دونوں دوست صرف عیاشی کے لئے استعمال کرتے تھے ۔کبھی اکھٹے اور کبھی الگ الگ۔علیزہ فلیٹ کو خالی پاکر گھبرا سی گئی تھی مگر پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تھوڑی مطمئن بھی تھی۔

    ناصر!تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ علیزہ نے سوال کیا ۔

    تاکہ تمھیں یہ ڈر نہ ہو کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔یہاں ہم سکون سے بیٹھ کر باتیں کرینگےاس کے بعد میں تمھاری کلاس ختم ہونے کے ٹائم پر تمہیں کوچنگ چھوڑ دونگا۔ناصر نے علیزہ سے کہا۔

    ٹھیک ہے۔علیزہ بولی۔

    ارے پری شاہ تم یہاں آؤ نا، میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں،ناصر نے پری شاہ کو مخاطب کیا جو فلیٹ کی ڈیکوریشن میں کھوئی ہوئی تھی۔

    کیا ناصر بھائی؟ پری شاہ نے پوچھا۔

    ناصر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا،

  • #2
    بہت دلچسپ کہانی لگ رہی ہے
    ​ بہت زبردست
    ​بہت ھی سنسنی خیز اور دلچسپ کہانی ھے​

    Comment


    • #3
      آغاز اچھا ہے

      Comment


      • #4
        کیا ناصر بھائی؟ پری شاہ نے پوچھا۔

        ناصر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا، جہاں بالکل سامنے کی دیوار پر 60 انچ کی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ساونڈ سسٹم بھی نصب تھا، یہ ایک لگژری فلیٹ تھا،ناصر نے ریموٹ اٹھا کر اسکرین آن کی اور ریموٹ پری شاہ کو تھماتے ہوئے کہا کہ تم یہاں اپنی پسند کی کوئی بھی مووی انجوائے کرو،فریج میں ڈرنکس وغیرہ موجود ہیں جو لینا ہو بلا تکلف لے لینا۔او کے۔

        اور ہاں جب تک ہم نہ بلائیں آپ یہیں رہنا ٹھیک ہے؟

        ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ پری شاہ مسکراتے ہوئے بولی ۔

        گڈ گرل!!!! ناصر نے پیار سے پری شاہ کے ملائم گال تھپتھپائے اور ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ناصر ایک ہاتھ علیزہ کی گردن میں ڈالے اس کے نرم و ملائم ہونٹ چوس رہا تھاجبکہ دوسرا ہاتھ وہ اسکی قمیض کے اندر ڈالے اسکےمخروطی ابھاروں کوسہلا دبا رہا تھا۔ علیزہ اس کیفیت میں تھی کہ جس کا نام کوئی عورت نہ جان سکی،اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں وہ تو علیزہ بھی نہیں جانتی تھی مگر یہ ایسا تھا کہ علیزہ کہہ رہی تھی کہ پلیز ناصر مت کرو،مگر دل سے چاہ رہی تھی کہ رکو مت،اس سے بھی آگے جاؤ۔ اس کا ضمیر اور شریف ماں باپ کی اولاد ہونے کی تربیت کہہ رہی تھی کہ ناصر یہ غلط ہے اور جسم کی بڑھتی طلب کہہ رہی تھی کہ تم میری مت سنو اور زبردستی کر ڈالو۔

        علیزہ نے شروع میں تھوری مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی مگرناصر جیسے شکاری کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور اسکو ہار ماننی پڑی ۔ اب وہ اسکی اعضائی چھیڑ چھاڑسے بھر پور لطف اندوزہوتے ہوئے اس کی بانہوں میں سسک رہی تھی جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔

        علیزہ کا دماغ کہتا تھا کہ یہ کرنا شدید برائی ہے اور جسم کا انگ انگ کہہ رہا تھا کہ میں تھوڑا کر رہی ہوں ناصر کر رہا ہے۔ میں نے تو منع کیا ہے اور وہ میری سننے کو تیار نہیں۔ذہن کے اندر دہائیاں چل رہی تھیں کہ ناصر رک جاؤ جبکہ شلوار کے اندر سے وہ تمنا کر رہی تھی کہ کاش ناصر میری ہر بات کو نظرانداز کر دے اور مجھے برباد کر دے۔

        تنہائی ہو ،دو جوان جسم ہوں،اور موقع بھی ہو تو بہکنا لازم ہو جاتا ہے، علیزہ بھی بہک رہی تھی اور کیوں نہ بہکتی ناصر جیسے شخص کا ساتھ جو تھا وہ بن کھلی کلیوں کو اپنے نیچے لٹانے کا ہنر خوب جانتا تھا،یہ سیکس میں اس کی مہارت ہی تھی کچھ ہی دیر میں علیزہ کی قمیض بمع برا کے اسکے قدموں میں اور شلوارگھٹنوں میں تھی ۔

        یہ سب بھی مرحلہ وار ہوا تھا،جب ناصر نے پستان پکڑا تھا تو وہ بدک گئی تھی کہ ناصر نہیں،یہاں مت چھوؤ۔ شریف گھرانے کی لڑکیاں تو اپنے زیرجامے بھی کسی غیر مرد کو نہیں دکھا پاتیں،یہ تو اصل متنازعہ عضو کو پکڑ رہا ہے۔اف توبہ۔

        اس نے ہونٹوں کو چوستے چوستے جب وہی عمل قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر کیا تو بدکنا سسکنے میں بدل گیا۔ناصر ہونٹوں کو چوستے گردن پر پہنچا اور یہاں سے نیچے قمیض کا پہرا تھا۔ ناصر نے قمیض اٹھائی اور برا ہٹا کر نپل پر زبان پھیری۔وہ ناگواری جو پہلی بار چھاتی کو چھونے میں محسوس کی تھی وہ لیس دار پانی کی بوند کے ساتھ شلوار میں بہہ گئی۔

        اس کے کب قمیض اتری اور کب برا کی ہک کھل گئی،علیزہ کو پتا ہی نہ چلا۔ اس نے ناصر کو خود کو بےلباس کرنے کی اجازت نہیں دی تھی مگر سچ یہ تھا کہ ناصر نے اجازت طلب کی ہی نہیں تھی۔

        وہ بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی ناصر اسکے اوپر لیٹا اپنا وزن اس پر ڈالے اسکے ایک نپل کو منہ میں میں لیکر چوس رہا تھاجبکہ دوسرے ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے اسکے دوسرے ابھار کے گلابی نپل کو مسل رہا تھا۔علیزہ جیسے اسکی بانہوں میں مچل رہی تھی اسکے لبوں پہ دھیمی دھیمی سسکیاں تھیں اور جسم میں جیسے آگ سی لگی ہوئی تھی۔ناصر باری باری دونوں مموں کو چوس رہا تھا کبھی نپلز کو کاٹ بھی لیتا ۔علیزہ مزے سے پاگل ہو رہی تھی۔ جن نپلز کو محض چھاتی کا وزن سمجھتی تھی آج وہ اسے لطف کی اونچائی پر لے جا رہے تھے۔

        وہ اسکی گردن کو پیار کرتا ہوا کندھوں اور پھر ناف پر آگیا۔جونہی اس نے علیزہ کی ناف میں زبان گھمائی وہ زور سے سسک اٹھی۔وہ کچھ دیر ایسے ہی پورے جسم کو چومتے چاٹتے اسکی کمسن اور کنواری چوت پر آگیا۔

        بالوں سے پاک ،نرم، گلابی اور ابھری ہوئی چوت دیکھ کر ناصر کے منہ میں جیسے پانی ہی آگیا تھا۔اس نے نرمی سے چوت کی بند دراڑ میں انگلی پھیری تو محسوس کیا کہ چوت کے دونوں لب آپس میں سختی سے ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے کبھی جدا نہیں ہونگے۔ناصر نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے چوت کے لبوں کو کھولااور درمیانی انگلی سے اسکے گلابی دانہ شہوت کو رگڑنے لگا۔علیزہ کے منہ سے بے اختیار "آہ" نکل گئی۔

        یہ اسکا سیکس کا پہلا تجربہ تھاوہ اپنے جسم میں مزے کی لہروں کو باقاعدہ محسوس کر رہی تھی۔اور یہ آہ کچھ اور بلند ہو گئی جب ناصر نے اپنی انگلی اسکی چوت مین ذرا سی داخل کی۔وہ مزے میں ڈوبی ہوئی ہواوں میں اڑ رہی تھی۔

        Comment


        • #5
          یہ اسکا سیکس کا پہلا تجربہ تھاوہ اپنے جسم میں مزے کی لہروں کو باقاعدہ محسوس کر رہی تھی۔اور یہ آہ کچھ اور بلند ہو گئی جب ناصر نے اپنی انگلی اسکی چوت مین ذرا سی داخل کی۔وہ مزے میں ڈوبی ہوئی ہواوں میں اڑ رہی تھی۔ہلکی سی تکلیف کا احساس تب ہوا جب ناصر نے آدھی انگلی اسکی چوت میں گھسادی۔

          ناصر پلیز درد ہو رہا ہے اندر مت کرو یار۔ وہ تکلیف سے بولی۔

          میری جان یہی درد تو بعد میں مزہ دیتا ہے۔یہ کہتے ہوئے ناصر نے انگلی تھوڑ ی سی باہر نکالی اور پھر اندر داخل کردی۔یہ عمل پانچ سے چھ بار کیا جس سے علیزہ کی چوت مین گیلا پن آگیا تھا۔ناصر سمجھ گیا کہ "اب وقت آگیا ہے" ۔

          اس نے بیڈ کی دراز میں سے اولیو آئل کی بوتل نکالی اور تھوڑا سا آئل اپنی ہتھیلی پر انڈیل کرلن پر اچھی طرح لگالیا۔اسکے بعد اس نے علیزہ کے گھٹنوں کوبیڈ سے تھوڑا سا اوپر اٹھایااور ٹانگوں کو کھول کر انکے درمیان میں بیٹھ گیاایک ہاتھ سےچوت کے لبوں کو کھولا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے لن کو پکڑکرچوت کے سوراخ پر ٹکادیا۔علیزہ نے چونکہ فور پلے کو انجوائے کیا تھا اسی لئے اسکی چوت قدرے گیلی تھی جسکی وجہ سے ناصر نے جیسے ہی چوت پر اپنے لن سے دباو ڈالا لن کا حشفہ چوت میں داخل ہو گیا۔علیزہ کے چہرے پر صاف تکلیف کے آثار نظر آئے۔ بس تھورا سا اور برداشت کرلو جان، اسکے بعد پھر یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوگی۔یہ کہہ کر ناصر نے ایک زوردار دھکا مارا ۔اور لن پردہ بکارت کو اپنے ٹوپے تلے روندتا ہوا چوت کی گہرائیوں میں غائب ہوگیا۔علیزہ کے نازک لبوں سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ناصر کے ہاتھ اگر اس کے ہونٹوں پر نہیں ہوتے تو شائدبرابر والے روم سے پری شاہ کو آجانا تھا جو یہاں اپنی بہن کی حالت سے بے خبرمزے سے کوک کا کین ہونٹوں سے لگائےاپنی من پسند مووی دیکھ رہی تھی۔

          یار بہت درد ہو رہا ہے ہٹ جاو پلیز۔علیزہ تقریبا روتے ہوئے بولی۔

          بس میری جان درد کا ٹائم چلا گیا ۔اب زندگی بھر انجوائے کرو۔یہ کہہ کر ناصر نے نیچے سے ہلکا ہلکا ہلنا شروع کردیا۔اگرچہ چوت ٹائیٹ تھی مگر تھوڑی ہی دیر میں لن چوت میں رواں ہو گیا۔

          علیزہ کو درد کا احساس تھورا کم ہو گیا تھا اور اب اس کو بھی کچھ کچھ مزہ آنے لگا تھا۔ویسے بھی ننگی حالت میں ایک ننگے مرد کے نیچے لیٹنے اور اپنے جسم سے اس کا جسم مسلا جانا خود اپنے آپ میں ایک سرور ہے۔چوت میں چلنے والی کاروائی تو بونس تھی۔ لن کا سب سے موٹا حصہ اس کی ٹوپی تھا جو اندر تھا،اب باہر رہنے والا حصہ درد نہیں کر رہا تھا۔

          ٹوپی بھی اندر کی چکناہٹ کی بدولت پھسل رہی تھی اور اس کی چوت کی دیواروں میں لطف بھری رگڑ لگ رہی تھی۔

          ناصر نے اپنی اسپیڈ بڑھادی تھی اور وہ اب زور زور سے دھکے لگا رھا تھا۔اسکا ہر دھکا علیزہ کو ہواوں میں اڑا رہا تھا۔سات آٹھ منٹ اسی طرح تیز تیز چودتے ہوئے وہ ایک بھرپور آرگیزم لیکر علیزہ کی چوت میں ہی فارغ ہوگیا۔اسکے لن سے منی دھار کی صورت میں خارج ہوئی تھی جسے علیزہ نے اپنی چوت میں گرتے ہوئی محسوس کیا تھا۔

          اسے پہلی بار پتا چلا کہ مرد کا منی کس قدر زور سے عورت کی چوت میں خارج ہوتا ہے اور عورت کو مرد کا چھوٹنے کا بڑی وضاحت سے پتا چل جاتا ہے۔

          اس دھواں دھار پہلی چدائی کے بعد علیزہ میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ ناصر نے فریج میں سے اسے فریش جوس نکال کر دیا جسے پینے کے بعد اس کے حواس کچھ بحال ہوئے اور وہ اٹھ کر واش روم کی طرف چلدی۔ واش روم جا کر اس نے ناصر کی منی اور اپنے پردہ بکارت کے پھٹنے سے نکلنے والے خون سے اپنی چوت کو اچھی طرح واش کیا پھر ایک مختصر سا شاور لیکر واش روم سے باہر آکر اپنے کپڑے پہننے لگی۔ وہ چوت کے لبوں اور سوراخ کے دہانوں میں درد محسوس کر رہی تھی مگر چوت میں گہرائی اور اندورنی حصوں میں لطف کی لہریں تھرتھرا رہی تھی۔ ایسا لگا رہا تھا جیسے جسم کے ساتھ کوئی وائربیشن والا موبائل اٹیچ کیا ہواور لطف بھری گدگدی ہو رہی ہو۔

          اس ساری کاروائی میں چالیس منٹ صرف ہوئے۔اور اگلے بیس منٹ بعد وہ دوبارہ اکیڈمی کے گیٹ پر تھے۔ مگر اس سے پہلے ناصر علیزہ کو ٹیبلیٹ کھلانا نہیں بھولا تھا۔وہ کبھی کنڈوم استعمال نہیں کرتا تھا۔اسکی واحد وجہ یہ تھی کہ اس کےنیچے آنے والی ہر لڑکی کنواری ہی ہوتی تھی۔

          تجھے کیا بتاۓو یار کیا غضب کا مال ہے۔مکھن ملائی ہے بالکل۔دودھ جیسی سفید ۔ہاتھ لگاو تو میلی ہوجائے۔جس جس کے بھی نیچے لیٹے گی اس کی تونکل پڑے گی۔ ناصر اپنے دوست وسیم کوعلیزہ کے ساتھ ہونے والی پہلی چدائی کا احوال سنا رہا تھاجسے وسیم ہوس کی تصویر بنےبڑے انہماک سے سن رہا تھا ۔وہ فلیٹ جس میں ناصر نے علیزہ کو چوداتھا وہ وسیم کا ہی تھا۔ناصر کو جب بھی کسی گرل فرینڈز کی لینا ہوتی تھی وہ بلا جھجک وسیم سے فلیٹ کی چابی مانگ لیتا تھااور وسیم نے بھی کبھی ناصر کو فلیٹ کےلئے انکار نہیں کیا تھاکیونکہ

          Comment


          • #6
            کہانی بہت ہی شاندار، حقیقت سے قریب تر اور سبق آموز لگ رہی ہے ۔
            عشقِ ممنوع

            Comment


            • #7
              کہانی بہت ہی شاندار۔
              پہلی قسط سے سیکس اور ہوس سے بھرپور۔
              مزیدار۔

              Comment


              • #8
                Bohat hobbbb lajwab update hy

                Comment


                • #9
                  وہ فلیٹ جس میں ناصر نے علیزہ کو چوداتھا وہ وسیم کا ہی تھا۔ناصر کو جب بھی کسی گرل فرینڈز کی لینا ہوتی تھی وہ بلا جھجک وسیم سے فلیٹ کی چابی مانگ لیتا تھااور وسیم نے بھی کبھی ناصر کو فلیٹ کےلئے انکار نہیں کیا تھاکیونکہ ایک تو ناصر اسکا دوست تھا دوسرے یہ کہ ناصر ایک مظبوط سیاسی حیثیت رکھتا تھاجسکا وسیم وقتا فووقتا فائدہ اٹھاتا رہتا تھا۔ ناصر کئی بار آڑے وقتوں میں اسکے کام آیا تھا۔اسوقت یہ دونوں محلہ کے قریب واقع یک پارک میں موجود تھے۔ابھی یہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ عرفان وہاں آٹپکا۔

                  کیا حال چال ہیں بھائی لوگوں؟کیا میٹنگ چل رہی ہے؟

                  عرفان انکے قریب آکر گھاس پہ ہی بیٹھ گیا۔

                  کچھ نہیں یار۔تم سناو کہاں آوارہ گردی کررہے ہو؟ناصر نے پوچھا

                  ارے کہیں نہیں ناصر بھائی۔بس زرا یونہی ٹہلتا ہوا پارک کی طرف نکل آیا تمھیں بیٹھے دیکھا تو اسی طرف آگیا۔

                  عرفان علیزہ کا کزن اور تقریبا" اسکا ہم عمر بھی تھا۔علیزہ اسکی چچا زاد تھی۔

                  آپ سناو ناصر بھائی کسی مہ جبیں کا انتظار ہو رہا کیا پارک میں؟عرفان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

                  نہیں یار تجھے تو معلوم ہے کہ تیرا بھائی پارک وغیرہ کے چکروں میں پڑکر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔بس بچی سیٹ کی اور لے گئے سیدھے فلیٹ پر۔ادھر کپڑے زرا نیچےہوئے ادھر ٹانگیں پوری اوپر۔۔ ہاہاہاہاہا۔

                  ناصر نے فخر سے اتراتے ہوئے کہا۔

                  ہاں یار یہ بات تو ماننے والی ہے تمہاری۔ویسے ناصر بھائی کبھی ہمیں بھی دیدار کرادو کسی پھدی کا۔قسم سے اب تو مٹھ میں بھی مزا نہیں آتا۔عرفان ایسی لاچاری سے بولا کہ ناصر اور وسیم کی ہنسی نکل گئی۔عرفان ان لڑکوں میں سے تھا جنہوں نے چوت صرف پورن موویز یا ننگے رسالوں میں ہی دیکھی تھی و رنہ حقیقت میں تو اسکا چوت سے تعلق صرف اتنا تھا کہ یہ ا س میں سے نکلا تھا۔ ایسے لڑکے اول تو کوئی لڑکی پھنسا نہیں پاتے اور اگر اتفاق یا بد قسمتی سے(لڑکی کی)کوئی پھنس بھی جائےتو اسکو جگہ یا موقع نہ ہونے کیوجہ سے چود نہیں پاتے۔

                  یار ایک بچی ہے تو سہی مگر وہ تجھ سے چدنے پر راضی نہیں ہوگی۔ناصر نے کہا۔

                  کیوں راضی نہیں ہوگی بھائی؟عرفان نے استفسار کیا،

                  پہلی بات تو یہ کہ وہ ایک شریف گھر کی ستھری بچی ہے مطلب جگہ جگہ چدنے والی نہیں ہے۔میں نے خود اسے مشکل سے باہر بلا کر چودا ہے۔اور دوسری بات یہ کہ وہ تجھے اچھی طرح جانتی ہے۔اسلئے تجھے نہیں دیگی کہ کہیں میرا راز نہ کھل جائے۔ناصر نے اسے سمجھایا۔ کون ہے وہ اور مجھے کیسے جانتی ہے؟ عرفان نے سوال کیا۔

                  تیری کزن ہے تو تجھےجانے گی ہی نہ بھائی۔ناصر نے ایکدم ہی دھماکہ کردیا۔

                  مم میری کزن؟؟؟؟؟ عرفان ہکلایا۔

                  ہاں تیری کزن۔ناصر نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔کک کونسی کزن؟ ناصر نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔

                  علیزا۔ تیری چچا زاد یار۔یہ سنکر اب تو عرفان کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔اسکی حالت دیکھنے والی تھی۔

                  کیا بات کر رہے ہو ناصر بھائی؟کیا تم نے واقعی علیزہ کو چود دیا ہے؟عرفان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی بھولی بھالی اور معصوم دکھنے والی کزن ناصر سے چد گئی ہے۔

                  تو کیا میں مذاق کر رہا ہوں ۔ بھائی گھر کی مرغی گھر والوں سے تو بچ سکتی ہے مگر محلہ والوں سے نہیں۔ناصرنے عرفان پر طنز کرتے ہوئےکہا۔

                  کہہ تو تم صحیح رہے ہو ناصر بھائ مگر اپنی ایسی قسمت کہاں کہ علیزہ جیسی بچی پہ ہاتھ صاف کریں۔ عرفان افسردگی سے بولا۔

                  او بھائی قسمت ،تقدیر یہ سب بیکار کی باتیں ہیں ہمت ہونی چاہیں بندے میں ہمت۔جس میں دم ہو وہ بازی مار لے ورنہ ساری عمر صرف مٹھ ہی مارتا رہے۔ وسیم گفتگو میں پہلی بار شامل ہوا۔

                  یار کسی طرح مجھے بھی دلادو علیزہ کی۔عرفا ن باقاعدہ ناصر کی مننت کرنے لگا۔

                  مشکل ہے یار یہ کام میں نہیں کرسکتا۔دیکھو دوست کوئی اور کام ہو تو بتانا البتہ چوت اپنی اپنی۔اور ویسے بھی ابھی تو وہ میری گرل فرینڈ ہے ۔ناصر بولا۔

                  یہ سب مجھے نہیں معلوم ناصر بھائی۔تمہیں مجھے علیزہ کی دلانی ہوگی پلیز۔عرفان منمنایا۔

                  یار یہ چوت کا نشہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے۔جسے حاصل کرنے کیلئے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لو کہ عرفان اپنی ہی کزن کو چودنے کیلئےناصر کی مننتیں کر رہا تھا۔

                  اچھا چلو بھائی میں کچھ کرتا ہوں تمہارے لئے۔ناصر نے اسے ٹالنے کیلئے جھوٹی تسلی دی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ناصر نے اپنی گرل فرینڈ کبھی وسیم سے بھی شیئر نہیں کی تھی جسکا وہ فلیٹ بھی اسی مقصد کیلئے استعمال بھی کرتا تھا۔

                  شکریہ ناصر بھائی تمہارا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔

                  یہ کہہ کر عرفان اپنی آنکھوں میں علیزہ کو ننگا کر کہ

                  چودنے کا خواب سجائے وہاں سے واپس ہولیا۔

                  ارے ناصر بھائی مووی دیکھنے کا موقع کب دے رہے ہیں دوبارہ؟پریشاہ نے شرارتی لہجے میں ناصر سے پوچھا۔

                  Comment


                  • #10
                    Kamal awesome story ? ❤️

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X