Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

یک نہ شد دو شد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    عمدہ سٹوری ہے
    ایک کیساتھ ایک فری

    Comment


    • #32
      شاندار لا جواب
      اب پری شاہ لگتا ہے سب جانتی ہے اس کا دل کر رہا ہو گا سیکس کو
      انتظار رہے گا اپڈیٹ کا

      Comment


      • #33
        Yeh bht lajawab story hony ja rahi h

        Comment


        • #34
          لاجواب سٹوری

          Comment


          • #35
            لاجواب اسٹوری کیا بات ہے مزہ آگیا

            Comment


            • #36
              بہت گرم کہانی ہے.
              لکھتے رہیں اور قارئین کو اپنا مداح بنائیں

              Comment


              • #37
                Bohat achi story hai g continue it

                Comment


                • #38
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی صبح پری شاہ تیسری بار ناصر کے فلیٹ میں موجود تھی مگر آج پہلی بار علیزہ کے بغیر۔اس کے باوجود وہ بہت پر اعتماد تھی اس کی آنکھوں میں اس ڈر کا شائبہ تک نہیں تھا جس خوف کو لیکر علیزہ پہلی بار ناصر کو ساتھ فلیٹ میں آئی تھی اگرچہ اس وقت اس کے سا تھ پریشاہ بھی تھی۔

                  ناصربھائی آپ علیزہ آپی کو ایک کوبصورت سا گفٹ بھجوادیں جسے پاکر آپی کا غصہ کچھ کم ہو جایئگا۔ باقی میں اپنے موبائل سے آپ کی بات آپی سے کرادونگی پھر آپ سنبھال لیجیےگا۔

                  پری شاہ نے مزے سے چاکلیٹ کا بائٹ لیتے ہوئے ناصر کو مشورہ دیا۔ دونوں اس وقت دیو ہیل ایل ای ڈی کا سامنے لگے صوفے پر ایک ساتھ برا جمان تھے۔ پری شاہ مووی بھی دیکھ رہی تھی اور ناصر کے ساتھ باتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ناصر نے اس کے اس آئیدیے کو بھی پسند کیا۔

                  دونوں ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ اچانک پری شاہ کے ہاتھ سے ریموٹ چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ پری شاہ جیسے ہی ریموٹ اٹھا نے کے لئے نیچے کی طرف جھکی تو ناصر کی نظر اس کے اسکول کے سفید یونیفارم کے گلے سے جھانکتے ابھاروں پر پڑی۔ایک لمحے کے لئے ناصر حال بھول گیا۔اس کے زہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اسے وہ منظر یاد آگیا جب وہ علیزہ کی چدائی کر رہا تھا اور ڈرائنگ روم کے دروازے کی اوٹ سے اسے ایک سایہ سا محسوس ہوا تھا۔ وہ بلاشبہ پری شاہ ہی تھی جو چھپ کر دونوں کو زندگی کے رنگوں سے رنگین ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ یہ منظر یاد کرتے ہوئے اسکی نظر ابھی تک پری شاہ کے سینے کے ابھاروں پر ہی اٹکی ہوئی تھی جو کب کی سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔

                  کوئی بات نہیں کامیابی کا جشن منانے کے لئے علیزہ نہ سہی پری شاہ ہی سہی۔ ویسے بھی جشن کامیابی کے شایان شان ہونا چاہئے۔اگر مجھے پہلی بار کوئی عہدا ملا ہے تو اس خوشی میں پری شاہ کو بھی پہلی بار لن کا مزہ ملنا چاہئے۔ یہ سوچتے ہوئے ناصر من ہی من مسکرا دیا۔

                  مووی دیکھنے کے دوران ناصر غیر محسوس طور پر پری شاہ کے بالکل قریب سرک آیا جو پہلے سے ہی اس کے ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی،اور پھر جب ناصر نے دیکھا کہ پری شاہ مووی کے سحر میں کھوئی ہوئی ہے تو اس نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر اس کے کندھے پر رکھ دیا اور پری شاہ کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔مگر اس کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا اور وہ اسی انہماک سے فلم دیکھنے میں مصروف رہی۔ اب ناصر نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنا ہاتھ کندھے سے نیچے گراتے ہوئے اسکے ایک پستان سے مس کردیا۔ پری شاہ پر سکون تھی پوری توجہ مووی پر مرکوز کئے وہ ناصر کی حرکان و سکنات سے لا تعلق بنی بیٹھی تھی۔ ناصر نے ہاتھ آئے موقع کو غنیمت جانا اور اپنا پورا ہاتھ اس کے پستا ن پر رکھ دیا۔ پری شاہ اب زرا کسمسائی مگر نگاہیں اسکرین سے نہ ہٹیں۔ناصر نے پستان کو ہلکا سا دبایا۔پری شاہ کے بدن مین ارتعاش پیدا ہوا مگر چہرہ پر اسکا کوئی اثر نہ تھا۔ ناصر نے دوبارا پستان کو دبایا تیسری بار، پھرچوتھی بار،اورپانچویں بار قمیص کے اوپر سے ہی نپل کو ٹٹول لیا۔پری شاہ بظاہر انجان بنی ہوئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اسکی طرف سے خاموش اجازت ہو ۔

                  پری شاہ ایک بات پوچھوں؟ ناصر اب باقاعدہ اسکا نپل آہستگی سےمسل رہا تھا۔

                  جی ناصر بھائی پوچھیں۔۔۔۔۔۔۔۔اب پری شاہ کی آواز تھوڑی بھاری تھی۔

                  تم اس دن دروازے کی آڑ سے ہمیں ہی دیکھ رہیں تھی نہ؟ناصر نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک سوال کیا۔

                  جوب میں پری شاہ خاموش رہی۔

                  جواب دو پری شاہ۔ تم ہمیں ہی دیکھنے وہا ں کھڑیں تھیں نا؟ پری شاہ نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔

                  کیوں؟۔ کیوں دیکھ رہیں رہیں تھیں تم ہمیں چھپ چھپ کر؟ اب ناصر نے اسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔ پری شاہ خالی خالی نظروں سے ناصر کو تکتی رہی۔ پھر اچانک وہ ناصر کی طرف جھکی اور اسکے ہونٹوں پراپنے نازک نازک لب رکھدیئے۔

                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                  ناصر کو پری شاہ کی جانب سے اس حرکت کی زرا بھی توقع نہین تھی بلکہ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا اور جب سمجھ آیا اس وقت تک پری شاہ اپنی زبان ناصر کے منہ میں داخل کر چکی تھی۔اور بھرپور جذباتی انداز میں اسکے ساتھ کسنگ کر رہی تھی۔اسکی کسنگ ناصر کے تمام سوالوں کا جواب تھی۔ویسے بھی اب سوالوں میں الجھنے کا وقٹ نہیں تھا۔نا صر نے اسے بانہوں میں اٹھایا اور بیڈروم میں لا کر بیڈ پر پٹخ دیا۔اور خود اسکے اوپر گر کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے جکڑلیا۔ اس کے نازک گلابی ہونٹ چوستے چوستے ناصر نے اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کی جسے پری شاہ نےپیار سے چوسناشروع کردیا۔دونوں باری باری ایک دوسرے کی زبان چوس رہے تھے۔یہاں تک کہ دونوں ہانپ گئے۔ناصر نے پری شاہ کے پیٹ سے قمیض ہٹانی چاہی تو وہ بولی ۔ ایک منٹ رکیں زرا۔

                  Comment


                  • #39
                    اپ سب دستوں کا شکریہ !

                    Comment


                    • #40
                      ۔ ایک منٹ رکیں زرا۔ یہ کہہ کر وہ کھڑی ہوئی اور خود ہی اپنی قمیض اتار دی۔اور ہاتھ پیچھے لے جا کر برا کا ہک کھولا اور اسے بھی اتار کر سائیڈ پہ رکھ دیا۔علیزہ کی نسبت پری شاہ زرا بولڈ ثابت ہورہی تھی۔۔اب وہ بیڈ پر آلیٹی اور مسکراتے ہوئے ناصر کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے اپنے اوپر گرالیا۔ ناصر نے دونوں ہاتھوں میں اس کے درمیانے سائز کے پستانوں کو تھاما اور ایک کو منہ لے لیا۔ نپل منہ میں جاتے ہی پری شاہ کے لبوں سے آہیں نکلنے لگیں۔اس نے ناصر کی گردن میں ہاتھ ڈالکر اسے اپنے پستانوں پر دبانے لگی۔ ناصر نے بھی اسکے ابھاروں کو زور زور سے دبانے اور چوسنے لگا۔اسکا نپل چوستے چوستے اچانک ناصر نے اسکے ایک نپل کو دانت سے کاٹ لیا۔ پری شاہ نے زور سے ایک آہ بھری۔ پری شاہ مزے سے سسک رہی تھی اور اسکی سسکیاں ناصر کے جنون میں اضا فہ کر رہی تھیں ۔ناصر اسکے ابھاروں کو چوستا چاٹتا پیٹ کو جگہ جگہ سے چومتا ہوا ناف پر پہنچ گیا۔ اور ناف کی گہرائی میں زبان ڈالکر اسکو اپنی زبان سے ناپنے لگا۔ ناصر کی ہر ہرحرکت پری شاہ لطف کو وادیوں میں میں دھکیل رہی تھی۔ اب اس نے اپنے گھوڑے کو کمسن ،کنواری۔اور کم عمر چوت کی سیر کو بھیجنے سے پہلے آخری راونڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور پری شاہ کی یونیفارم کی شلوار کا ازار بند کھینچ دیا۔شلوار ڈھیلی ہوگئی جسے ناصر نے جھٹکے سے اسکی ٹانگوں سے جدا کردیا۔ اب ناصر نے جو پری شاہ کی چوت کی طرف نگاہ کی تو جیسے اچھل ہی پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واووووو۔۔کیا چوت ایسی بھی ہوتی ہے ؟اس نے خود سے سوال کیا ۔

                      اب سولہ سال کی بچی کی چوت ایسی نہیں ہوگی تو کیسی ہوگی؟ جواب بھی خود ہی دے ڈالا۔

                      اس نے پری شاہ کی دونوں تانگوں کو کھولا اور اسکے بیچ آ بیٹھا۔اور غور سے اس بند کلی کی مانند چوت کا معائنہ کرنے لگا۔چوت کے موٹے موٹے جیسے سوجے ہوئے لبوں کے درمیان باریک سی دراڑ اور اس دراڑ کے آغاز پر اوپر کی جانب بھورے رنگ کے ہلکے ہلکے بال چوت کو مزید دل کش بنا رہے تھے۔ناصر نے بے خودی کے عالم میں چوت کے لبوں پر اپنے لب رکھ دئے اور انھیں چوسنے لگا۔ پری شاہ کا نازک بدن مچل اٹھا۔

                      ناصر نے پری شاہ کی کمسن چوت کو خوب چوسا اور جب تشنگی نہ ہوئی تو اسکی دراڑ میں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کی جانب زبان پھیرنے لگا۔پری شاہ بار بار اپنے نچلے حصے کو ناصر کے منہ کی طرف اچھانے لگی۔اور ناصر'ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے' کے مصداق پوری تندہی سے چوت کا زبانی مساج کر رہا تھا۔پری شاہ کی کمسن چوت نے ناصر کے ذہن سے علیزہ کے تصورکو حرف غلط کی طرح مٹا دیا تھا۔اب ناصر نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کی مدد سے اسکی چوت کے لبوں کو کھولا اور ایک انگلی سے چوت کے دانے کا مساج کرنے لگا پری شاہ کی ہلکی ہلکی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو گئی۔نا صر نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کی چوت کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اوراسے چوسنے لگا۔پری شاہ لطف کی وجہ اپنے جسم کو اٹھا اٹھا کر بیڈ پر پٹخنے لگی ناصر یہاں ر کا نہیں بلکہ لگاتار چوت کے دانے کو چوستا رہا یہاں تک کہ پری شاۃ کا بدن اکڑنے لگا اسکی ہلکی ہلکی چیخیں بلند ہو نے لگیں پھر کچھ لمحوں بعد اس نےناصر کے سر کو اپنی دونوںرانوں کے درمیاں جکڑ لیا اور ایک بلند چیخ کے ساتھ اپنی چوت سے زندگی کا پہلا امرت رس بہا دیا جسے ناصر نے ضائع کئے بغیر اپنے منہ میں منتقل ہونے دیا۔پری شہ کو آرگیزم ہو رہاتھا اور وہ آنکھیں بند کئے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ناصر نے اسکی چوت کے رس سے بھیگے اپنے لبوں کو پری شاہ کے لبوں پر رکھ دئے اور انہیں چوسنے لگا۔چند لمحوں بعد پری شاہ اٹھی اور ناصر کو دھکا دیکر بیڈ پر گرادیا اور خود اس کے پیٹ پر بیٹھ گئی۔ اور ناصر کے بالوں سےبھرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ہاتھ پھیرتے پھیرتے پری شاہ جھکی اور ناصر کے سینے کے نپل چوسنے لگی۔اس نے کچھ دیر باری باری دونوں نپلز کو چوسا اور ہاتھ پیچھے لے جا کر ناصر کے ٹراوزر میں داخل کر دیا اور اپنے چھوٹے اور نازک ہاتھوں سے ناصر کا لن سہلانے لگی۔ناصر کو بے انتہا مزہ آرہا تھا۔ پری شاہ اس کے اوپر سے اتری اور اس کی ٹانگوں میں بیٹھ گئی۔ اور ٹراوزر نیچے کر کے ناصر کا لن باہر نکال لیا۔ناصر کا صحت مند لن دیکھ کر پری شاہ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک آگئی تھی۔لن سہلاتے ہوئے اس نے ناصر کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ کے لئے ایک تحفہ ہے۔ کیسا تحفہ؟ ناصر نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

                      پہلے آپ اپنی آنکھیں بند کریں پھر بتاونگی۔پری شاہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                      او کے بابا۔ یہ لو بند کرلی میں نے اپنی آنکھیں۔ یہ کہہ کر ناصر نے آنکھیں موندلیں۔آنکھیں بند کرتے ہی ناصر کو اپنے لن پر اک گرماہٹ کا سا احساس ہوا۔ناصر نے فورا آنکھیں کھول کھولی تو دیکھا کہ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X