Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

بے لباس محبت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا

    Comment


    • #12
      بہت خوب جناب بہت خوب

      Comment


      • #13
        Boht zabardast aghaz ha Kahani ka

        Comment


        • #14
          چوتھی قسط​​​​​​
          آخرکار اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ آج اپنی پیاس بجائے گا وہ خود سے کہنے لگا "پھر کون لاہور آئے ، ایسا موقع پھر کہاں ملنا ہے اور مجھے کونسا اس سے شادی کرنی ہے ہنہ۔۔" پھر فورا سے انجیکشن کو جوس میں انجیکٹ کیا اور گاڑی کی طرف آیا اور اک فیک مسکراہٹ سے ریما کو جوس دیا ، سینٹر میں لیز اُپن کر کے رکھ دیے اور گاڑی سٹارٹ کردی۔۔
          ریما نے بے تکلفانہ انداز میں ایک دو لیز لیے اور پھر جوس کو پینے لگی اُسے پہلے ہی کافی پیاس لگی تھی۔ جوس کے ختم کرنے سے پہلے ہی اُسکے جسم اک عجیب سی لہر دوڑنے لگی اس سے پہلے وہ سنبھلتی اُسے چکر آنے لگے فوراً سے دانیال کو کہا کہ مجھے گھر چھوڑو مجھے کچھ ہو رہا ہے دانیال خاموشی سے گاڑی تیز دوڑاتا ہوا دوبارہ سنسان جگہ لے آیا
          ریما اب غنودگی کی حالت میں تھی اسکا مائینڈ کچھ کچھ چل ریا تھا لیکن وہ ہمت نہ کر پارہی تھی۔انجکیشن کی وجہ سے اُسکے جسم میں عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔
          دانیال نے ہینڈ بریک لگائی اور گاڑی سے اترا اور ریما کو اک نظر دیکھا اسے اندازہ ہو گیا کہ انجیکشن نے اپنا کام کردیا ہے۔۔۔۔وہ ریما کو اتار کر پیچھلی سیٹ پر لے جا کر لیٹانے لگا۔ اُسنے اُسکے پیچھے پڑے عبایا کو بیک سیٹ کے پیچھے رکھا ور وہاں سے کشن اٹھا کر اس کے سر کے نیچے رکھ دیا اور اس کے جسم کو دیکھنے لگا۔
          وہ موقع کو ضائع کیے بغیر ریما کے اُوپر آنے لگا اور اس کے چہرے سے بالوں کو ہٹا کر اپنے ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں سے ملا کر چوسنے لگا۔ وہ اس کے ہونٹوں کو پینےکے ساتھ اس کی شرٹ کو اُوپر کرنے لگا۔ شرٹ کو اوپر کرنے کے بعد وہ اُس کے بلیک برا کو دیکھتے ہوئے خود سے بولا "آہ کمال کی میچینگ کی ہے" ۔ پھر اس کو کھول کر پینے لگا
          ریما کو محسوس ہو رہا تھا کہ دانیال اس کی شرٹ کو اوپر کر کے اس کے جسم کو بے لباس کر رہا ہے لیکن وہ اس کے جسم میں روکنے کی طاقت نہ تھی ریما بس زبان سےٹوٹے ہوئے لفظوں میں اتنا کہہ پارہی تھی "دانیال نہیں کرو پلیز، خدا کا واسطہ مجھے گھر چھوڑ دو پلیز جانے دو "
          دانیال نے موبائل نکالا اور اس خوبصورت بے لباس ابھاروں سے لطف اُٹھاتے ہوئے کی ویڈیو بنانا سٹارٹ کردی۔
          آخرکار دانیال نے اپنے اور ریما کے نیچے والے حصہ کو بے لباس کر کے ویڈیو بنانے لگا۔ پھر اُس پر جھکنے لگا اور اپنے جسم کو ریما کے جسم سے ملانے لگا۔۔۔۔
          ریما کو انداذہ ہورہا تھا کہ دانیال اُسکی ندی کے آس پاس ہے اور اس کے بند کو کھولنے لگا ہے لیکن وہ روکنے کی حالت میں نہ تھی اُسکا جسم کانپ رہا تھا۔ اچانک اک ذرب سے اُسکی چیخ سی نکلی اسے خود میں کسی اور کو داخل ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وہ درد سے کرہانے لگی اُس کے منہ سے سیسکنے اور آہیں بھرنے کی آواز یں نکلنے لگی۔دانیال اسکی سسکتی آواز کو سن کر اس کی کان کی لو کو کاٹتے ہوئے سرگوشی کرتے بولا " ریمااا بس اسی آواز کو تو ترس رہا تھا اب وہ اُس پر مکمل وزن ڈال چکا تھا ۔۔۔۔وہ اُسے اک جنگلی بھیڑیا کی طرح نوچنے لگا اور وہ اُس پر مسلسل زربوں کی برسات کرتا رہا۔ دانیال یہ جان گیا تھا کہ وہ پہلا مرد ہے جو اس کی نرم زمین پر حملہ آور ہوا ۔۔۔
          دانیال اب کافی تھک چکا تھا اور دونوں کنڈومز کا استمال کر چکا تھا۔۔وہ گاڑی کے باہر آیا اور سگریٹ پینے لگا اور ریما کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
          ریما کا جسم ٹوٹ چکا تھا وہ جیسے جیسے ہوش میں آرہی تھی وہ درد کی شدت کا احساس کر رہی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بے لباس محسوس کرنے کے ساتھ ٹانگوں میں گیلا پن اور اندرون درد کا شدید احساس کرنے لگی وہ جلدی سے اُٹھی اور خود کو دیکھنے لگی خون کے چھیٹے اور لیس دار پانی کو دیکھ کر رونے اور چلانے لگی اور پھر جلدی سے بے لباس جسم کو چھپانے لگی پھر شرٹ کو ٹھیک کرنے اور ٹراوزر پہننے لگی ۔۔
          دانیال اُسکی چیخوں کی آواز سن رہا تھا وہ خاموشی سے اگنور کیے سگریٹ کو ختم کرنے کے لیے کش لگاتا رہا۔۔پھر اچانک آ کر ڑرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
          ریما عبایا میں منہ چھپائے رو رہی تھی کہ دانیال تھوڑا سخت لہجے میں بولا " ریما ایسا کیا ہوا ہے ؟ جو تم اتنااااااااا چلا رہی ہو؟؟؟۔۔۔ یار تم سے پیار کرتا ہوں اور بس ہو گیا۔۔اور یہ ہونا ہی تھا۔۔۔۔
          ریما اک دم بھڑک اُٹھی " بکواااس بند کرو!" ریما نے باہر کا نظارہ دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا ویران جگہ تھی ۔۔۔اس کا سر ابھی بھی بھاری تھا۔۔۔ وہ چلائی "خدا کے واسطہ مجھے گھر چھوڑوووو یا مجھے ابھی اور نوچنا ہے ؟؟؟؟" وہ آنکھیں بند کیے اپنی جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلائی اور چیخ چیخ کر رونے لگی لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔۔۔۔۔وہ دانیال کا چہرہ تک نہ دیکھ پا رہی تھی ۔۔
          دانیال خاموش ہو گیا اور گاڑی کو اُس روٹ کی طرف لے دیا جہاں سے ریما کو اُٹھایا تھا۔
          جیسے گاڑی سٹارٹ ہوئی ریما عبایا پہننے لگی اور دوبارہ دوپٹے سے نقاب لگانے لگی۔ اُسکی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ۔ اُس نے جلدی سے موبائل اُن کیا اور کرن کی دوست کو میسج کیا کے کرن سے کہو گھر آجائے میں گھر ہی آرہی ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر اُس نے دوبارہ نمبر بند کر دیا۔
          بلڈ ابھی بھی اُسکی رگوں سے آہستہ آہستہ بہہ کر اُسکے سفید ٹراوزر پرلگ رہا تھا۔ دانیال وِیو مرر سے ریما کی حالت کو دیکھ کر اب تھوڑا شرمندہ ہو رہا تھا اسے احساس ہو رہا تھا کے آج اس نے غلط کیا ۔ لیکن وہ خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔ اُسی جگہ پہنچ کر دانیال نے گاڑی سلو کرنے کے بعد روک دی اور پوچھا کہ آگے کس طرف جانا ہے لیکن ریما بن کچھ کہے اتری اور ڈور کو بند کرنے سے پہلے روتی ہوئی آواز میں بولی کہ "دانیال ۔۔۔ میں تم پر اعتبار کرکے آئی تھی لیکن آج جو تم نے میرے ساتھ کیا وہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔۔ اور اب میرا خدا تم سے اس کا حساب لے گا " وہ زور سے ڈور کو بند کیے چل دی۔۔
          دانیال کو اس کی بات دل پر لگی وہ ایسے فورا سے روکنا اور منانا چاہ رہا تھا کہ اُس سے غلطی ہوئی ۔ لیکن وہ اب جا چکی تھی ۔ دانیال نے گاڑی کو لاک کیا اور پیچھے جانے لگا جیسے ہی ریما گھر میں داخل ہوئی دانیال دیکھتا رہا پھر دانیال مڑ کر واپس اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔ اک شاپ سے گولڈ لیو لی اور پی کر لمبے لمبے کش لینے لگا۔۔اور گاڑی میں بیٹھ گیا پیچھلی سیٹ کی طرف دیکھا اور بولا " میں نے اس کے ساتھ غلط کیا یار۔۔شیٹ۔۔۔۔" آہ۔ ۔۔۔۔۔پھر موڈ کو بدلنے کے لیے اُس نے موبائل نکالا اور ریما کی تصویر دیکھی اور آہ بھر کر بولا ۔۔۔۔ اتنی جوبصورت لڑکی کو کیسے نہ کام ڈالتا یار؟ ؟ اور وہ اتنا آچھی ہوتی تو آتی ؟؟۔ وہ مطمئن ہو کر مسکرایا اور پھر سے نصرت فتح علی خان کی اک غزل لگی اور ریما کو کال کرنے لگا لیکن نمبر ابھی بھی بند تھا پھر اپنے دونوں موبائل اور وائلٹ کو سائیڈ والی سیٹ پر رکھ کر اس نے ریس بڑھا دی۔۔۔ وہ ریما کو سوچ رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اپنے خاص حصے کو پکڑ کر اُس پر فخر کر رہا تھا ۔۔۔
          پھر ریما کو سوچتے ہوئے اُس نے ریما کے ساتھ بنائی ہوئی سیکسی ویڈیو چلا کر دینے لگا "کمال یار کیا سائز ہے۔۔۔ کیا چیز تھی مزا آگیا "۔ ۔۔۔ وہ ویڈیو میں کھو سا گیا کہ اچانک اس کی نظر سامنے کتے پر پڑی اُس نے فل زور سے بریک پر پاؤں رکھا لیکن سٹیرنگ ان بیلنس ہو گیا اور گاڑی قلابازیں کھاتی دوسری سائیڈ پر جا گری اور اک تیز رفتار ٹرک سے جا ٹکرائی۔ دانیال کا سر چکرا رہا تھا وہ ہل نہیں پارہا تھا گاڑی کا فرنٹ اندر کی طرف دھنس گیا جس کی وجہ سے دانیال کی ٹانگیں ہل نہ پا رہی تھیں گاڑی میں ہر طرف دھواں تھا۔ وہاں سے گزرتے مسافروں کا رش لگنے لگا لوگوں نے کوشش کر کے فرنٹ ڈور کھلا اور سیٹ بلٹ کو کھلنے لگے۔
          گاڑی کا دھواں کافی بڑھنے لگا لوگوں نے دانیال کو زور سے کھینچ کر گاڑی سے الگ کیا۔ ۔ اُسکے جسم سے خون جگہ جگہ سے نکل رہا تھا خاص کر ٹانگیں خون میں لدی ہوئیں تھی، ایئر بیگ اور سیٹ بیلٹ کی وجہ سے اس کے صرف چہرے اور سر پر ہلکی چوٹ نظر آئی۔ جیسے ہی دانیال کو گاڑی سے الگ کیا گاڑی میں آگ بھڑک اُٹھی جس میں اُس کا وائلٹ اور دونوں موبائل بھی موجود تھے۔
          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          ریما خود کو کنڑول میں کرتے ہوئے گھر داخل ہوئی اور روم میں آگئی جہاں کرن پہلے سے انتظار میں تھی کرن نے جیسے میسج دیکھا تھا گھر آگئی تھی اور مما سے کہا کہ ریما مارکیٹ سے ہو کر آرہی ہے۔
          ریما بغیر عبایا اتارے بستر پر اُلٹی گر گئی اور تکیے میں منہ دیے رونے لگی
          کرن نے کوئی وجہ فلحال پوچھنا مناسب نہ سمجھا بس وہ اتنا جانتی تھی کہ کچھ بہت غلط ہوا ہے۔ ریما پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی کرن مما کو دیکھنے لگی کہ وہ کہیں روم میں نہ آجائیں ویسے وہ اس وقت کچن میں تھیں اور بھابی بھی اپنے میکے گئی تھی کچھ دن سے۔۔۔
          کچھ دیر رونے کے بعد وہ اُٹھی ، عبایا اُتارا اور واش روم چلی گئی۔ ۔
          خشک خون بہنے لگا اسے جگہ جگہ درد ہو رہا تھا جب اُس نے خود کو واش روم کے مرر میں دیکھا تو اُس کی گردن اور اُبھاروں پر کاٹنے کے نشان تھے ۔ غسل کرنے کے بعد اس نے اپنے سفید ٹراوزر کو اک نظر دیکھا اس پر خون کے ہلکے سے نشان تھے۔۔۔ وہ سادہ شلوار قمیض پہنے باہر آگئی ۔۔
          کرن جو اب تک خاموشی سے دیکھ رہی تھی پوچھ ہی لیا کہ کیا ہوا ہے؟
          ریما نے جواب دیا "کیا ہونا تھا؟ اُسکو جو چاہئے تھا وہ لے گیا اور مجھے جو چاہئے تھا وہ مل گیا۔ ۔۔
          کرن: لے گیا؟ مل گیا؟ مطلب
          ریما: اس نے میرے ساتھ سیکس کیا۔ ۔۔۔ وہ بس میرا جسم لینے آیا تھا جو وہ لے گیا ۔۔۔۔۔
          کرن (آہستہ آواز میں پوچھنے لگی) " اور تمہیں کیا ملا؟ ؟"
          ریما: سبق،۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت۔۔۔۔۔۔۔ کہ آئیندہ اعتبار نہ کروں کسی پر۔۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہوگی۔ ۔۔ اور پھر بولی " لیکن یار اب میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں جس پر میں غرور کر سکوں گی"
          وہ پھر خاموش ہوئی اک آنسو بہا اور دانتوں میں ہونٹ بِچتے دوبارہ بولی۔۔
          اس میں یا کسی میں اتنا دم نہیں تھا کہ تمہاری بہن کو حاصل کر سکے اس لیے اُس نے مجھے بےہوش کیا۔ ۔ وہ کرن کی طرف دیکھ کر بولتی لگی۔ ۔۔کرن خود اس کی بات سن کر حیران تھی اور پوچھنے لگی کہ وہ بے ہوش کیسے ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          ریما موبائل کو فلحل آن ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اب دانیال سے رابطہ رکھے یا اُس کے کالز یا میسج دیکھے اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی اب اُس نے ارادہ کر لیا کہ اب وہ ہر وہ اکاؤنٹ اور تعلق ختم کر دے گی جو دانیال سے وابستہ ہوا۔۔۔
          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          گاڑی کا فیول ٹینک پھٹنے سے آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ آگ لگنے سے دانیال کا وائلٹ اور دونوں موبائل کے ساتھ اُس کی گاڑی بھی کافی حد جل گئی۔ موٹر وے پولیس بھی پہنچ گئی تھی ڈیمج کار کو اپنی کسٹیڈی میں لیا اور دانیال کو چیک کرنے لگے۔
          دانیال کا کافی خون ضائع ہوچکا تھا اور وہ بے ہوش تھا۔ اس کے پاس کوئی موبائل وائلٹ کچھ نہ تھا کہ اس کے گھر والوں کو انفارم کیا جا سکے۔ کچھ دیر میں پولیس اور ریسکو والے بھی پہنچ گئے اور ایسے لاہور کے سرکاری ہسپتال میں لے گئے
          دانیال کی حالت کافی سیریس ہو رہی تھی پولیس کے کہنے پر ڈاکٹرز نے آپریشن سٹارٹ کردیا ۔ دانیال کی ایک ٹانگ ایک بازو فریکچر ہونے کے علاوہ اُسے مثانے پر گہری چوٹ آئی تھی اور اس چوٹ کی وجہ سے مثانے میں بلڈ جما تھا جو نفس سے بہہ رہا تھا۔ مثانے کے لیے اک یورولوجسٹ کو بلا لیا گیا۔ یورولوجسٹ کو اندازہ ہو گیا کہ مثانے کی رگوں کے ساتھ پینس کی بھی کافی رگیں ڈیمج ہو چکی ہیں۔
          دانیال کا آپریشن ہوئے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے ۔ اُسے آہستہ آہستہ ہوش آرہا تھا۔ نرس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ " گھبراہیں نہیں لیٹے رہیں آپ ٹھیک ہیں" اور ایک بے ہوشی کا انجیکشن لگا دیا - دانیال جوغنودگی کی حالت میں ہلنے کی کوشش کر رہا تھا، انجیکشن لگنے کے بعد دوبارہ سے بےہوش ہوگیا۔۔۔
          ۔۔۔۔۔۔۔
          مغرب کی آزان ہونے لگی آج کافی دنوں کے بعد ریما نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگی، وہ توبہ کرنے لگی اُسے اپنی غلطی کا احساس تھا وہ رو رو کر اللہ سے معافی مانگنے لگی اور ساتھ دانیال کے برے انجام کی بد دعا کرنے لگی ۔۔۔۔ اُس نے ابھی تک موبائل آف کیے ہوئے تھی۔
          رات سوتے وقت سارا منظر اُسکے سامنے آرہا تھا۔ اچانک وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ یاد کر کے خود سے بولی "اُسکے کنڈوم میں نے خود پھینکے تھے گاڑی سے ۔۔۔۔۔۔ پھر اُس نے دوبارہ یوز کیے تھے یا نہیں؟ کہیں میں پرگنینٹ ۔۔۔" یہ سوچ کر اُسکے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ۔ "اب کیسے کروں؟ یا کروں " وہ پریشان ہونے لگی۔۔۔ اُسے اب پھر سے ڈر لگ رہا تھا کہ دانیال کی وجہ سے پریگنینٹ نہ ہوجائے۔۔ وہ اب سوچنے لگی۔۔۔۔۔
          ریما نے موبائل ان کیا اور سیدھا دانیال کو کال کی لیکن اُسکا نمبر بند تھا اُس نے میسنجر بھی چیک کیا لیکن بند تھا۔ اُسے اب اور غصہ آنے لگا وہ اُٹھی اور اس غصے کو اپنے لمبے بالوں پر نکال دیا اور ان کو اوپر تک کٹ کر دیے۔۔۔۔
          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          دانیال کو جب دوبارہ ہوش آنے لگا وہ اب اتنے ہوش میں تھا کہ بول پا رہا تھا اُس نے پانی مانگا ، نرس نے پانی پلایا اور ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی ۔ دانیال نے اپنی حالت کو دیکھنے لگا۔وہ بس اک جبہ میں تھا بغیر شلوار کے،اس نے دیکھا نفس پر اک بھاری پٹی ہے اور اک پیشاب کی ٹیوب لگی ہے اور اُسکا اک کندھا اور اک ٹانگ پوری (ران سے پاوُں تک) پلستر میں تھے۔دوسری ٹانگ پر بھی بینڈیج کی ہوئی تھی دوسرے ہاتھ میں اک ڈرپ لگی ہوئی تھی اُسے سر پر ہلکی پٹی کا احساس ہوا۔ وہ بس دعا کر رہا تھا کہ کوئی ذیادہ مسئلہ نہ ہوا ہو ۔ اتنے میں ایک پولیس والا اور ڈاکٹر روم میں آئے۔ ڈاکٹر معائنہ کرنے لگا اور ساتھ پوچھنے لگے، "بیٹا کیسی طبیعت ہے؟ ؟ زرا اپنے بارے میں بتاو؟
          دانیال نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے ہے ۔ پھر نرس کو دیکھتے ہوئے بولا " میرا موبائل کہاں ہے مجھے ڈیڈ کو کال کرنی ہے وہ اب کافی پریشان تھا ۔تب پولیس والے نہ مزید کہا کہ آپ کی جیب سے کچھ نہیں ملا، اور آپ کی گاڑی مکمل طور پر جل چکی ہے ۔۔ اب آپ اپنے ابو کا نام اور نمبر بتا دیں تاکہ اُن کو آگاہ کر سکیں۔ ۔۔
          جاری ہے۔۔۔۔

          Comment


          • #15
            شاندار اور جاندار اپڈیٹ. شکاری اپنے شکار کو دبوچنے کے لیے بالکل تیار ہے

            Comment


            • #16
              اچ

              Comment


              • #17
                اچھی اپڈیٹ ہے مزہ آگیا سبق آموز کہانی ہے

                Comment


                • #18
                  Boht zabardast or sabakamoz Kahani

                  Comment


                  • #19
                    کمال

                    Comment


                    • #20
                      بےلباس محبت
                      پانچویں قسط۔۔۔
                      ڈاکٹرز کے جانے کے بعد دانیال نرس کو دیکھنے لگا جو خود بہت حسین تھی۔ وہ خود سے کہنے لگا " کیا قسمت ہے یار میری ماشاءاللہ ، ہر طرف حسن ہی حسن مل رہا ہے۔ ۔ جاتے وقت تک اس سے دوستی تو کر ہی لوں گا" ۔۔پھر وہ نرس سے مخاطب ہوا " آئینہ ہے؟"
                      نرس: سوری؟ ؟؟؟؟؟؟ آئینہ؟؟؟؟ کیوں؟
                      دانیال: چہرا دیکھنا ہے کہ کوئی خراش تو نہیں آئی؟؟؟
                      نرس نے نہیں کا جواب دیا اور ڈرپ اُتار۔کر وہاں موجود دوسرے مریض کے پاس چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
                      دانیال کے ابو اطلاع ملتے ہی ہسپتال پہنچے اور وہ اُسے اس حالت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئے پھر اس سے ملنے کے بعد ڈاکٹر سے ملے۔۔ ڈاکٹر نے اُن کو اپنے بیٹے کی رپوٹ اور حالت تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کی وجہ سے اُس کے مثانے اور پینس پر شدید چوٹ آئی ہے جس کی وجہ سے وہ اب شادی کرنے کے بلکل قابل نہیں رہا۔۔ یہ خبر سن کر اس کے ابو کے پاوں کے نیچے سے زمین نکل گئی اُنہوں نے اس کا حل جاننا چاہا کہ کوئی حل ؟؟؟ وہ اس علاج کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لیے تیار تھے لیکن ڈاکٹر نے صاف صاف کہہ دیا کہ نفس کی رگیں بلکل ختم ہوچکی ہیں اب اس کا کہیں کوئی حل نہیں۔
                      چار دن بعد جب ہسپتال سے ڈسچارج ہونے لگے تو دانیال کو اندازہ ہوا پیشاب کی نالی اب تک نہیں ہٹائی گئی تب اُسے اپنی رپورٹ کی حقیقت کا پتہ چل گیا ۔ وہ وہیں ہسپتال میں چلا چلا کر رونے لگا ۔ اُس کے ماں باپ نے اُسے تسلی دی لیکن وہ چھوٹے بچے کی طرح روتا رہا۔ اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ لٹ چکا ہے اُسے کیے کی سزا مل گئی ہے ۔ وہ شرمندگی کی وجہ سے نظر تک نہ اُٹھا پا رہا تھا اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اک ذندہ لاش ہے وہ ابھی کے ابھی مرنا چاہ رہا تھا کیونکہ وہ اب جانتا تھا کہ اب مرنے سے بھی بدتر زندگی ہونے والی ہے۔ ۔۔ اس کے دماغ میں ریما کی آخری بات یاد آرہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جان گیا کہ اس کو کیے کی سزا مل گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                      ریما دو دن تک دانیال کا نمبر ملاتی رہی لیکن اس کا نمبر بند تھا اُسے اندازہ ہوگیا کہ دانیال جیسے لڑکے مطلب نکال لینے کے بعد نمبر چینج کر لیتے ہیں۔۔ وہ جلد کچھ کرنا چاہتی تھی ، پیریڈز کو ابھی سات آٹھ دن پڑے تھے لیکن وہ اتنا انتظار بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اُس نے اپنی ایک دوست نور سے بات کرنے کا سوچا۔
                      وہ جانتی تھی کہ نور اک اُپن مائنڈِڈ لڑکی ہے جو سموکنگ ، ڈرنک کے ساتھ ساتھ اکثر ڈیٹ وغیرہ پر بھی جاتی ہے وہ ضرور اس کا حل بتائے گی۔
                      ریما نےنور کو کال کی اور بتایا کہ اس کے ایک کزن نے اس کے ساتھ سیکس کیا ہے تو اب وہ اپنی پریگنینسی چیک کرنا چاہتی ہے تو کیا وہ اُسے سٹرپ لے کر دے سکتی ہے۔ نور پہلے تو اس بات سے کافی حیران ہوئی کہ وہ ایسے کیسے سیکس کروا سکتی ہے کیونکہ اول تو وہ ایسی ہے نہیں دوسرا سٹارٹ سے اسد کا ذکر کرتی تھی اور نور یہ بھی جانتی تھی کہ اسد فیلحال باہر ہے۔ خیر اُس نے تفصیل ریما سے مل کر پوچھنے کا سوچا اور جواب دیا کہ وہ خود تو کبھی سٹرپ لینے نہیں گئی۔ بلکے عمیر (اس کا بی ایف ) لے دیتا ہے۔
                      "مجھے لے دو کل ہی پلیز " ریما نے جلدی سے اس کی بات کو ٹوکتے ہوئے بولا ۔۔
                      " او-کے او-کے میں عمیر سے کہتی ہوں پھر کل ہی تمہارے پاس لیتی آوں گی پھر چیک کر لینا۔ "
                      نور اس بات سے حیران تھی ویسے تو یہ دونوں کافی کلوز فرینڈز تھی لیکن ریما اس سے اس بات سے اکثر چڑتی کہ وہ کیسے عمیر سے مل لیتی ہے اکیلے میں بغیر شادی کہ۔۔۔۔۔
                      نور نے جب عمیر کو سٹرپ کا کہا تو اُس نے وجہ پوچھی تو نور نے بتا دیا کہ اس کی ضرورت میری ایک ایسی دوست کو ہے جو سیکس سے بھاگتی تھی وہ آج مانگ رہی ہے۔ عمیر کے دل میں اک خواہش سی پیدا ہونے لگی۔ لیکن اُس نے فل وقت کوئی سوال نہ کیا۔ اور کہنے لگا "ٹھیک ہے کل پھر ملتے ہیں دو سٹریپ دی دوں گا" ۔۔۔ "دو کیوں؟ ؟" نور نے پوچھا ۔۔۔ " اب ملنےآو گی ایسے تو نہیں جاو گی وہ ہنسا" ۔۔۔ عمیر بسس کر دو ، میں تھک جاتی ہوں لیکن آپ نہیں۔۔
                      نور ٹھہر کے پھر بولی کریں گے فل حال کل اس سے ہو لوں پھر دیکھتے ہیں۔۔۔۔
                      نور سٹرپ لے کر ریما کے گھر پہنچ گئی۔ریما نے کرن کو چائے بنانے کا کہا، چائے دینے کے بعد کرن مما کے روم میں چلی گئیں۔۔ نور نے سٹرپ دی اور سٹرپ کے استعمال کا طریقہ بتایا اور ریما کچھ دیر بعد واش روم گئی ۔۔۔ اُس کے دل کی دھڑکن تیز تھی ۔ کچھ پل کے بعد اُس نے سٹرپ کو دیکھا وہاں ایک سرخ لکیر تھی اُس نے اک پھولا ہوا سانس نکالا اور نور کے ساتھ ریلیکس ہو کر لیٹ گئی۔ شکر بچ گئی ۔۔۔ ریما مسکراتے ہوئے بولی۔۔ نور اس کی گال پر ہاتھ لگا رہی تھی اُسکی گال کافی نرم و ملائم تھی اُس کا دل کر رہا تھا کہ اسے زووور سے چوم لے۔۔۔۔ اتنے میں ریما اُٹھ کر بیٹھ گئی ، نور نے موڈ میں ہوتے ہوئے پوچھا کس خوش نصیب نے چوس لیا اس خوبصورت جسم کو ، وہ اس کے جسم پر نظر گھما رہی تھی۔۔۔ ریما نے اک آہ بھری اور خاموش ہوگئی وہ کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی ۔۔ ۔ پھر اک جھوٹی کہانی بنا دی کہ اک دور کا کزن آیا ہوا تھا وہ گھر اکیلی تھی اور اُس نے زبردستی کی ۔۔۔۔۔۔
                      نور مسکرائی اور بولی یہ کزن بھی عجیب ہوتے ہیں مفت میں مزے لے لیتے ہیں۔۔۔۔
                      دو ہفتے گزر گئے لیکن دانیال کا نمبر اب تک بند تھا۔ ریما اس تجسس میں ملا لیتی کہ بند کیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
                      بہت دنوں کے بعد اچانک اسد نے کال کی اور کہا کہ"میری ٹکٹ ہو چکی ہے میں ایک ہفتے تک پاکستان آرہا ہوں" تم شادی کے لیے تیار ہوجاو، 6 ماہ کی چھٹی لے کر آرہا ہوں۔ اور واپس اپنے ساتھ دبئی لے جاوں گا۔ وہ اچانک اسد کی اس کال سے حیران رہ گئی ۔۔۔
                      اس نے اب اپنی سم بدل لینے کا ارادہ کیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ دانیال اب کبھی اس سے رابطہ کرے وہ اسد کہ واپس آنے پر اب اتنا خاص خوش نہ تھی۔ لیکن اسے لگا شاید اسد کے سامنے ہونے پر وہ دانیال اور اس واقعے کو بھول سکے گی اور شاید اسد کے ساتھ ویسے ہوجائے گی جیسے پہلے تھی۔۔۔۔۔
                      اسد کے ابو نے اسد کے کہنے پر ریما کے گھر والوں سے تین ماہ کی ڈیٹ دے دی۔
                      2 دن بعد رات کے ڈھائی بج رہے تھے کہ ریما کے گھر پر دستک ہوئی ، اتفاق سے ریما کے ابو پر گھر تھے وہ دروازے پر پہنچے اور پوچھا کون؟ جواب ملنے اور آواز پہنچاننے کے بعد دروازہ کھولا تو سامنے اسد تھا وہ یوں اچانک اسد کو سامنے دیکھ کر حیران رہ گئے۔
                      اسد کو سرپرائز دینے کی بھی عادت تھی اُس نے سب کو اک ہفتہ کا کہا، جبکہ اُسکی فلائٹ دوسرے دن تھی ۔ وہ ویسے تو ریما سے دور رہتا تھا اور لڑکیوں میں لگا رہتا لیکن اسے ریما پر ٹرسٹ تھا اور اس ٹرسٹ کی وجہ سے اسے پسند کرتا اُسے پتا تھا کہ وہ کہیں بھی منہ مار لے اُسے اس جیسی لڑکی نہیں ملنی۔
                      ریما کے ابو اور امی سے ملنے کے بعد اسد ریما کہ روم میں گیا ۔۔ روم میں اک زیرو واٹ بلب جل رہا تھا۔ اسد نے روم کی لائٹ ان کی اور اک پلاسٹک چیر لے کر ریما کے بیڈ کے پاس بیٹھ گیا۔ ۔ ریما پینک کلر کے نائٹ ڑریس میں اُلٹی سو رہی تھی اُس کا چہرہ دوسری طرف تھا۔ اس کا خوبصورت جسم دیکھ کر اسد کا دل اسے چھونے کا کر رہا تھا لیکن وہ ریما کی عادت سے واقف تھا۔۔۔۔ ۔ وہ ابھی اس کو جگانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کرن (جو اسد کی بیک سائیڈ پر لیٹی ہوئی تھی) کی آنکھ کھل گئی ۔ اس نے جب ریما کے بیڈ کے قریب کسی کو دیکھا چلا اُٹھی۔ "بھوووووووووت ، چورررررر چووررررر ، پاپااااا مماااااا ۔ اسد اچانک ڈر گیا اور مڑ کر کرن کو دیکھنے لگا جو اب آنکھیں بند کیے چلائے جا رہی تھی ۔ ریما کے پاپا مما ان کے روم کے باہر ہی تھے آواز سن کر فوراً اندر آگئے اور بولے " کیا مصیبت ہے دیکھ نہیں سکتی کہ کون ہے ؟
                      تمہارے اسد بھائی ہیں۔ ۔"
                      اسد نے واپس مڑ کر دیکھا تو ریما اُٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور گھور کر اسد کو دیکھ رہی تھی۔ "تم ؟؟ تم کب آئے؟ وہ جلدی سے بال سیٹ کرتی بولی۔
                      کرن نے سلام کیا اور۔ بولی " سوری اسد بھائی میں ڈر گئی تھی" ۔۔ کیوں میں بھوت جیسا لگتا ہوں؟ ہینڈ سم نہیں ہوں؟ پھر وہ ریما کی طرف دیکھنے لگا ، اور بولا نیند میں پیاری لگ رہی تھی، پھر کرن سے بولنے لگا کہ تم مجھ سے ڈر گئی اور اس کے خوفناک خراٹوں سے نہیں ڈرتی؟ اس کی بات سے سب ہنسنے لگے۔۔ریما شرمندہ ہوتے ہوئے بولی تم نے کب خراٹے میرے سن لیے۔ ۔ اسد پیار سے بولا " اکثر خیالوں میں " پھر اسد ریما کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ اسد کافی ہینڈ سم لگ رہا تھا ، لیکن ناجانے کیوں اسد اُس کے سامنے تھا پر اس کا دل مطمئن نہ تھا۔
                      شادی کی تیاری کا سلسلہ اگلے کچھ ہی دنوں میں شروع ہو گیا ۔ ریما نے بھی نمبر بدل لیا کے کہیں دانیال اب رابطہ نہ کرے اور ویسے بھی وہ شادی کے بعد اسد کے ہمراہ باہر جانے والی تھی۔ ریما کی بھابی کو بھی کاشف نے ان کے ساتھ آنے کو کہہ دیا۔
                      دوستوں اور رشتے داروں کی دعوتوں اور ملاقاتوں کے بعد وہ کچھ وقت اپنی شوپنگ اور کچھ وقت ریما کے گھر دیتا۔ ویسے بھی اسد لوگوں کا گھر بھی ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔
                      ایک بار وہ صبح سویرے ناشتہ کے ارادے سے ریما کے گھر آیا اور ریما کو خود ناشتے بنانے کا کہا۔ اس میں کوئی شک نہ تھا ریما کے ہاتھ میں ٹیسٹ تھا اور وہ اسد کی پسند کو ویسے ہی جانتی تھی۔۔ وہ ناشتے میں مصروف ہوگئی اور اسد باہر ہال میں بیٹھ گیا، کرن کمروں میں جھاڑ پونج کرنے کے بعد صحن میں جھاڑو لگانے لگی جو اُس کا روز کا معمول تھا۔ وہ روز کی طرح جھک کر جھاڑو دے رہی تھی اُس کے گلے میں دوپٹہ نہ تھا اور ویسے بھی اُن کے گھر کم ہی مرد رہتے تھے تو کام کرتے وقت وہ دوپٹہ کم استعمال کرتی تھی۔ اسد کی نظر اچانک کرن کی طرف پڑی کرن نے نائٹ شرٹ ابھی تک پہنی ہوئی تھی جس کا بڑا گلا تھا وہ جیسے جھکی ہوئی تھی اُس کے اُبھار پنک برا سے اُسے صاف دیکھ رہے تھے۔ اسد باغور اس کا جائزہ لینے لگا۔ اُسے آج کرن کی جوانی کا اندازہ ہوا۔
                      اچانک کرن کی نظر اسد پر پڑی جو اُسے غور سے دیکھ رہا تھا پہلے تو اس نے دھیان نہ دیا لیکن جب اُسے احساس ہوا کہ دوپٹہ اُس کے گلے میں نہیں ہے وہ فوراً سے اندر گئی اور دوپٹہ سے اپنے سینے کو ڈھانپا اور دوبارہ کام کرنے لگی۔اب اسد جان بوج کر اُس پر نظر جمائے ہوئے تھا کرن کن آکھیوں سے باربار دیکھ رہی تھی کہ اسد اُسے باغور دیکھ رہا ہے۔ اُسے شرم سی آرہی تھی ایسا اُس کے ساتھ پہلی بار ہو رہا تھا۔۔ وہ کام ختم کر کے اندر جانے لگی تو اسد نے آہستہ آواز سے کہا پنک کلر پیارا ہے۔ کرن نے سن لیا تھا وہ روم میں آئی اور بیٹھ گئی اس کا جسم ٹھنڈا پڑھ گیا۔ اُسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ دوبارہ اسد کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی۔
                      اسد کے جسم میں اک لہر سی دوڑ گئی تھی اسے اندازہ نہ تھا کہ کرن کی ایسی جوانی کا۔۔۔ ناشتہ کرنے کہ بعد وہ وہیں چائے پینے اور سب سے گپ شپ کرنے بیٹھ گیا وہاں ریما ،ریما کی بھابھی(فوزیہ) کرن اور ریما کی مما تھیں۔ باتوں ہی باتوں میں اسد نے سب کے سامنے ریما سے کہا کے "کرن ماشاءاللہ سے بڑی ہوگئی ہے میں نے آج اسے غور سے دیکھا" اور کرن کو دیکھنے لگا۔ کرن شرمسار سی ہونے لگی اس نے اسد کو اک نظر دیکھا جو ہاتھ میں کپ لیے اُسے ابھی بھی غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔جس پر ریما نے فخرانہ انداز میں جواب دیا "آخر بہن کس کی ہے؟ ؟"۔۔۔
                      اسد کرن کے جسم کو دیکھنے کے بعد اس کے ارد گرد رہنے لگا۔۔۔ اس نے سوچ لیا کہ ریما تو ویسے ہی ہے پڑی کیوں نہ وہ کرن کے جسم کا بھی مزہ لیتا جائے ۔ اب وہ بس موقع کی تلاش میں تھا۔
                      آک بار اس نے دیکھا ریما اپنی کسی کسٹمر کا میک آپ کرنے میں مصروف ہے پھر اُس نے اک جھلک کرن کو دیکھا جو اپنے روم میں سو رہی تھی اس نے یہی موقع اچھا سمجھا وہ اُس روم میں آہستہ سے گیا اور کرن کو دیکھنے لگا ۔۔ اسد کے جسم میں آگ سی لگنے لگی۔ وہ جیسے ہی کرن کے بیڈ کے قریب آیا کرن جاگ گئی اسے محسوس ہوگیا کوئی اس کے قریب ہے لیکن اُس نے ڈر کے مارے آنکھیں نہ کھولیں اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسد روم میں ہے۔ اسد نے آہستہ سے کرن کی گال کوچوم لیا اور اک ہاتھ سے اس کی کمر پر لگاتا ہوا ہپ پر لے گیا اور دبانے لگا وہ ساتھ ساتھ اندر زور دینے لگا اُس نے کرن کے ہاتھوں کو دیکھا جو زور سے مٹھی بند کیے ہوئے تھی اُسے اندازہ ہوگیا کہ وہ جاگ رہی ہے۔ ۔ کرن کو جیسے جیسے وہ چھو رہا تھا اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی اُس کے جسم میں عجیب سی فیلنگز آنے لگیں وہ اپنے کنٹرول کو کھو رہی تھی ۔اسد اس کے نرم جسم کو دباتا رہا پھر اُٹھا اور روم سے باہر چلا گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی آجائے لیکن اُسے اندازہ ہوچکا تھا کہ کرن اب راضی ہے اسے بس اب اکیلے میں ملنا ہے۔۔۔۔
                      اسد کے جانے کے بعد کرن نے دیکھا اس کا جسم بھیگ چکا ہوا ہے ۔ اس کو ڈر سا لگنے لگا کہ وہ کیوں نہ روک سکی ؟وہ اس کی بہن کا ہونے والا شوہر ہے اور وہ خود اسے بھائی سمجھتی ہے۔۔ اُسکی آنکھوں میں اب آنسو آنے لگے اور وہ تکیے میں منہ دے کر رونے لگی ، اس نے اب سوچ لیا کہ وہ اب ہر وقت ریما یا مما کے ساتھ رہے گی اور اسد نے اگر اب کچھ کیا تو سب کو بتا دے گی۔۔۔۔۔۔
                      ایک دن ریما نے اسد کو کال کی کہ وہ آج مما کے ساتھ مارکیٹ جا رہی ہے۔ اُس کی اب یہ عادت تھی کہ ہر بات اسد سے پوچھ کر کرنے لگی۔۔ اس کی یہ عادت دانیال نے ڈال دی تھی۔ ۔۔ اسد یہ بات سن کر خوش ہوا۔ کچھ وقت کے بعد وہ ریما کے گھر پہنچ گیا۔ دروازہ اسد کی بہن فوزیہ نے کھولا، اس نے بتایا کہ ریما نہیں ہے تم دوسرے روم میں بیٹھ جاو، پانی وغیرہ پینے کے بعد اُس نے یہیں آرام کرنےکا بہانہ کیا اور فوزیہ اپنے روم میں چلی گئی۔ اسد کچھ پل کے بعد اُٹھا اور کرن کے روم کی طرف بڑھا۔۔۔
                      کرن بیٹھی اپنے نوٹس بنا رہی تھی وہ اس کے روم میں گیا۔ اسد کو ایسے اپنے روم میں دیکھ کر وہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ اسد نے فوراً سے پکڑ کر منہ پر ہاتھ دے دیا اور دیوار سے لگا دیا۔ اسد کی باڈی اور طاقت کے سامنے وہ کچھ نہ تھی۔ وہ ہل نہ پا رہی تھی اسد نے ایک ہاتھ بڑھا کر دروازے کو لاک کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے منہ کو پکڑے رکھا۔ ۔ لاک لگانے کے بعد وہ اسے چومنے لگا ۔ اس کے بالوں سے کس کے پکڑ کر کرن کو تھوڑا اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔۔اور آنکھیں بڑی کرتے ہوئے آہستہ آواز لیکن سخت لہجے میں بولا "چپ۔۔۔بس چپ" کرن اپنے ہاتھوں سے خود چھڑوانے کی نا کام کوشش کر ہی تھی ۔ آخر اسد اس کے ابھاروں کے ساتھ جسم کے خاص نرم جگا کو مسلنے لگا۔ بہت جلد کرن تھکنے اور کمزور پڑنے لگی اور ڈھیلی ہونے لگی اُس نے اسے اُٹھایا اور بیڈ پر لیٹا دیا اور جسم کو پینے لگا آہستہ آہستہ وہ اس کے جسم کو بے لباس کرتا گیا کرن اب اپنی آنکھیں بند کیے مزاحمت کر رہی تھی لیکن اب وہ چلا نے کی کوشش نہیں کر رہی تھی بے لباس کرنے کے بعد اسد اس کو زور سے پکڑ کر اُوپر آنے لگا وہ اسد کے بھاری جسم کو اپنے اُوپر آتا محسوس کر رہی تھی۔ اسد نے اپنے جسم کو کرن کے جسم سے ملا کر زور دیا۔ کرن کی اک چیخ زور سے نکلی اسے اپنے جسم کے کٹ جانے کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ رونے لگی اور اسد کو اُتارنے کی پوری کوشش کرنے لگی وہ اسے ناخون مار رہی تھی کاٹ رہی تھی لیکن اسد کو اس کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا۔۔ وہ مسلسل مسلسل وار پر وار کر رہا تھا۔کرن درد سے چلا رہی تھی ۔ کچھ وقت کے بعد کرن نڈھال ہوگئی اور اپنے جسم کو ڈھیلا کر دیا۔۔۔دوسری بار اسد کے کرنے پر پہلے اسے دوبارہ درد ہوا لیکن اس بار اس نے زیادہ مزاحمت نہ کی وہ اب خود اسد کو اندر سے قبول کرنے لگی اور وہ اسد کو کس کرنے لگی کرن کے چومنے سے اسد کے جسم میں اور آگ آگئی اور وہ زور سے اپنے جسم کا احساس دلانے لگا اچانک کرن کا جسم ٹوٹ کر بہنے لگا اور وہ مکمل نڈھال ہوگی۔ اسد اُسکی گہرائی میں اپنے نقش کو اتارنے اور تھک جانے کے بعد اس کے اوپر سے اُترا کچھ پل ساتھ لیٹا رہا اور کھڑا ہوکر آہینہ میں خود کو دیکھنے لگا اس کی چیسٹ پر جگہ جگہ کرن کے ناخونوں کے نشان تھے۔ پھر مڑ کرکرن کی حالت کو دیکھنے لگا بستر پر خون کے ساتھ اُن دونوں کی جوانی کے ثبوت جگہ جگہ تھے۔ کرن کا لباس کمرے میں الگ الگ بکھرا ہوا تھا وہ اب بیڈ کی چادر کو زور سے تھامے ہوئے تھی پھر بولی "یہ غلط کیا آپ نے ۔۔۔۔ آپ تو ریما سے پیار کرتے ہیں پھر میرے ساتھ یہ سب، وہ بیڈ کی شیٹ میں خود کو اکھٹا کرتے ہوئے بولی اسد مسکرانے لگا اور پینٹ پہننے لگا ، وہ پھر بولی اسد ؟ آپ واقعی ریما سے پیار کرتے ہو؟ اسد نے جب کرن کے منہ سے صرف اسد سنا تو پھر سے مسکرا دیا اور جواب دیا " نہیں۔۔ بس فیملی کی وجہ سے کر رہا ہوں "۔۔ ۔ اسد نے اس کے کپڑوں کو اُٹھایا اور اس کی طرف پھینکا اور بولا "کپڑے پہن لو" ۔ وہ کپڑے پہننے لگی اور ساتھ بولی " کیا یہ پیار تھا ہم دونوں میں ہوا؟ ؟"۔۔اسد نے سن کر خاموش ہو گیا وہ کرن کے قریب آیا اور گہرایوں کے ساتھ ہونٹوں کو چوما اور آہستہ آواز میں بولا اب تم صرف میری ہو اور یہی پیار ہے پھر خود روم سے باہر نکلنے لگا۔ جیسے وہ روم سے باہر نکلا سامنے اُس کی بہن فوزیہ ٹھہری تھی۔۔ جو غصے سے لال آنکھیں کیے ہوئے اُسے دیکھ رہی تھی۔ ۔۔
                      جاری ہے۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X