Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

تراس

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تراس

    coopied
    ​​​​​ترَاس ۔
    میرا نام ہما نواز ہے اور اس وقت میری عمر 32 سال ہے اور میرا تعلق لاہور کی ایک خوشحال لیکن روایتی قسم کی فیملی سے ہے ۔ میں چار بھائیوں کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن ہوں ۔
    اکلوتی ہونے کے جہاں پر بہت سے فائدے ہوتے ہیں وہاں ایک نقصان یہ بھی ہے کہ سارے بھائی اپنی اکلوتی بہن پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور بے چاری پر بچپن سے ہی بے جا پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ کرو وہ نہ کرو ۔ فلاں گھر جانا ہے اور فلاں گھر کی لڑکیاں سے بلکل دوستی نہیں کرنی کہ ان کا چال چلن درست نہ ہے (خود اپنے چال چلن پر کبھی توجہ نہیں کرتے )۔۔ کبھی کہتے ہیں کہ ۔۔چلتے ہوئے ادھر ادھر نہیں دیکھنا اور ۔کبھی حکم ہوتا ہے کہیں آتے جاتے ہوئے سر سے دوپٹےکو اترنے نہیں دینا وغیرہ وغیرہ ۔لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہونے والی بات ہو کر رہتی ہے۔۔
    ہونی والی بات سے یہاں میری مراد سیکس ہے ۔۔ یہاں میں آپ کو عجیب بات بتاؤں کہ میں وقت سے بہت پہلے ہی جوان ہو گئی تھی اوربہت شروع میں ہی مجھے سیکس کے بارے میں کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ گھر میں ایک تو سب مرد ہی تھے اور جو ایک عورت تھی بھی۔۔۔ وہ میرے سب سے بڑے بھائی فیض کی بیوی تھی جو ظاہر ہے اپنے خاوند کے ساتھ سوتی تھی اس لیئے میرا ان کے ساتھ سونا بہت مشکل تھا ۔
    اور مسلہ یہ تھا کہ مجھے اکیلے سوتے ہوئے بہت ڈر لگتا تھا اس لیئے چار و ناچار میرے والدین مجھے اپنے ساتھ سلاتے تھے ۔۔۔ لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ پلنگ پر نہیں سلاتے تھے بلکہ انہوں نے میرے سونے کے لیئے ایک چھوٹی سی چارپائی بنوائی ہوئی تھی ۔۔ جہاں پر میں سوتی تھی ۔
    جبکہ پلنگ پر میرے والدین سوتے تھے ۔۔۔ ۔ہر چند کے میرے والدین مجھے ساتھ سلاتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے ہوں گے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں وہ بے احتیاطی بھی کر لیتےتھے ۔۔اس سلسلہ میں ایک واقعہ عرض ہے وہ کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو مجھے یاد نہیں کہ اس وقت میری عمر کیا تھی لیکن اس عمرمیں دیکھا گیا ایک ایک سین میرے زہن پر ا یسا نقش ہے کہ آج بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ابھی بھی میرے سامنے ہو رہا ہو۔یہ نیم سردیوں کے دن تھے مطلب یہ کہ ابھی سردیاں پوری طرح سے آئی نہیں تھیں۔۔
    دن کو موسم ٹھیک ، لیکن رات کو بڑی ٹھنڈ ہو جاتی تھی اور آپ ہلکاکمبل یا کھیس لیئے بغیر نہیں سو سکتے تھے یہ انہی راتوں میں سے ایک رات کی بات ہے کہ میں حسبِ معمول ابا اماں کے پلنگ کےساتھ بچھی ایک چھوٹی سی چارپائی پر سوئی ہوئی تھی ۔ رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ اچانک کچھ آوازوں کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی کمرے میں زیرو کا بلب لگا ہوا تھا اور اس زیرو واٹ کے بلب سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔ ۔ ابھی میں ان آوازوں پر غور ہی کر رہی تھی کہ کمرہ ایک بار پھر ۔۔آہوں اور سسکیوں سے گونج اُٹھا ۔
    اس دفعہ ان سسکیوں کی آواز پہلے کی نسبت تھوڑی اونچی تھی ۔۔ اور اسی اثنا میں ایک بار پھر مجھے زنانہ آواز میں ایک تیز سسکی کی آواز سنائی دی ۔ اور میں نے ڈرتے ڈرتے آواز کی سمت دیکھا تو ۔۔وہاں کا منظر دیکھ کر ۔میرا دل دھک رہ گیا۔۔۔کیا دیکھتی ہوں کہ پلنگ پر میری اماں سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور ان کی دونوں ٹانگیں ہوا میں معلق تھیں اور اماں کے عین اوپر اس وقت میرے ابا چڑھے ہوئے تھے ۔
    اور ابا کا نچلا جسم بار بار اماں کے نچلے جسم سے ٹکرا رہاتھا۔۔۔اور جیسے ہی اماں کے جسم کے ساتھ ابا کا جسم ٹکراتا ۔۔۔۔ اماں کے منہ سے ایک کراہ نکل جاتی تھی۔۔ہائے ئے ئے ۔۔ ۔۔۔کراہنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اماں ابا کے ساتھ باتیں بھی کر رہی تھی میں نے کان لگا کر سنا تو وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ زور دی مار۔۔ (زور سے مارو) ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ابا اور طاقت کے ساتھ اماں کو مارتے تو ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اماں کے منہ سے ایک دلکش سی کراہ نکلتی ۔۔ہائے ےےے ے ے۔۔۔اور پھر وہ اسی آواز میں ابا سے دوبارہ کہتی ۔۔۔زور دی مار ۔۔ہور زور دی ۔۔۔۔۔ ۔۔ اور میں اس بات پر حیران تھی کہ ابا اماں کو بار بار کیوں مارتے جا رہے ہیں اور میری ماں کیوں کراہ رہی ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں اماں کا خاصہ ہولڈ تھا اور عام حالت میں ابا اماں سے خاصے ڈرتے تھے ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ابا اماں پر چڑھے ان کو ماری جا رہے تھے اور اماں بجائے ان کو منع کرنے کے آگے سے ان کو ہلا شیری دے رہی تھیں کہ وہ ان کو اور ماریں ۔۔۔۔یہ چیز میرے لیئے بڑی حیرانگی کا باعث تھی ۔۔ خیر میں بستر میں دبکی چپ چاپ ابا اماں کی یہ لڑائی دیکھتی رہی جس میں کہ اب شدت آتی جا رہی تھی اور ابا اماں کی فرمائیش پران کو مزید تیزی کے ساتھ دھکے مار رہے تھے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اماں کے چلانے کی آواز تیز سے تیز تر ہو گئی جسے سُن کر ابا نے تھوڑے کرخت لہجے میں اماں سے کہا ۔۔۔ ہولی رولا ۔۔پا ۔۔۔ کتھے کُڑی نہ اُٹھ جاوے ( آہستہ بولو کہیں لڑکی نہ جاگ جائے) اماں ابا کی بات سُن کربولی۔۔۔ کُڑی نوں گولا مار ۔۔ تو کس کے میری مار۔ اوہ گھوک سُتی پئی اے ( لڑکی کی بات چھوڑو تم مجھے زور کے دھکے مارو کہ لڑکی گہری نیند سوئی ہوئی ہے) اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا کہ جیسے کمرے میں طوفان آ گیا ہو ۔۔۔ ان کا پلنگ بری طرح سے ہلنے لگا اور پھر اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں ابا کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی ۔
    نیلو۔!!!!!!!!!! میں گیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ابا نے ایک بڑی سے چیخ ماری اور وہ اماں کو مزید تیز تیز مارنے لگے اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ انہوں نے اماں کو مارنا بند کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔اماں کے ساتھ والی جگہ پر لیٹ گئے اور گہرے گہرے سانس لینے لگےوہ اتنے زور زور سے سانس لے رہے تھے کہ ان کے سانویں کی آواز میری چارپائی تک صاف سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ میں ابا اماں کا یہ تماشہ دیکھ رہی تھی اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا میری سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ۔
    لیکن فطرتاً چونکہ میں کافی بزدل اور خاموش طبع واقع ہوں اس لیئے صبع اُٹھ کر میں نے اس بات کا کسی سے تذکرہ نہیں کیا ۔۔۔ اور کرتی بھی کس سے؟ گھر میں سب ہی مجھ سے بڑے تھے اور سکول میں کوئی ایسی خاص سہیلی نہ تھی کہ جس سے میں یہ راز شئیر کر سکتی ۔۔۔اس کے بعد میں مجھے ہفتے میں ایک آدھ بار ابا اماں کا یہ ڈرامہ ضرور دیکھنے کو مل جاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ مجھے ان کی اس لڑئی کی بھی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔
    پھر جب میں تھوڑی اور بڑی ہوئی تو ابا اماں کی لڑائی ساری کی ساری سمجھ میں آ گئی تھی ۔۔۔اور میں ان کی چودائی کے منظر بڑے شوق سے دیکھنے لگی ۔۔ پھر شاید ان کو کوئی شک ہو گیا یا جانے کیا بات تھی کہ کچھ عرصہ بعد میرے والدین نے مجھے ایک علحٰیدہ کمرہ دے دیا ۔۔
    علحٰیدہ کمرہ ملتے ہی میں نے ان کی چودائی کے منظر یاد کر کر کے ترسنا شروع کر دیا ۔۔ اس دوران مجھے اور تو کچھ نہ سوجھتا بس میں اپنے سینے پر اگنے والے ابھاروں کو ہی دباتی رہتی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرے سینے کے ابھار بڑھنا شروع ہو گئے اور جب سے میرے سینے کی یہ گولائیاں بڑھتے بڑھتے ٹینس کے گیند کے برابر ہوگئیں تو ایک دن میری سب سے بڑی بھابھی جو کہ فیض بھائی کی بیوی اور رشتے میں میری کزن بھی لگتی تھی نے مجھے اپنے پاس بلا یا اور میرے سینے کے ابھاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے ایک چھوٹا سا لیکچر دیا جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ اب میں بڑی ہو رہی ہوں اور میرے سینے پر اگنے والے اس گوشت کو مجھےاچھی طرح سے ڈھانپ کر رکھنا ہے اور آج کے بعد میں نے کسی بھی صورت دوپٹے کو اپنے سینے سے نہیں ہٹانا اور اس ابھرے ہوئے گوشت کو جسے وہ بریسٹ کہہ کر بلا رہی تھی کو ڈھانپنے کے لیئے مجھے ایک کپڑے کی برا بھی دی گئی اور سختی سے تاکید کی کہ آج کے بعد میں نے ہر وقت اپنے بریسٹ پر یہ برا پہننا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی میرا گھر سے باہر نکلنا بند ہو گیا ورنہ اس سے پہلے میں محلے میں بغیر روک ٹوک پھرا کرتی تھی پھر اس کے بعد جلد ہی مجھے پیریڈز بھی آنا شروع ہو گئے ۔پیریڈز کے آنے کی دیر تھی کہ میرے اندر ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہونا شروع ہو گئی اور خاص طور پر میری دونوں ٹانگوں کے بیچ والی جگہ پر مجھے اتنی زیادہ بے چینی ہوتی کہ میں بتا نہیں سکتی ۔
    پھر ایک د ن کی بات ہے کہ میں پیریڈز کے بعد نہاکر اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اپنی دو رانوں کے بیچ کھجلی سی شروع ہو گئی ۔۔ پہلے تو میں نے اس کھجلی کو اگنور کیا پھر جب کھجلی نے شدت اختیار کر لی تو میں نےاس جگہ کو کھجانا شروع کر دیا ۔۔لیکن میری ۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو میں نے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اُٹھا کر اس سے اس کو کُھجانا شروع کر دیا ۔۔۔ حیرانگی کی بات ہے کہ میں جتنا اس جگہ کو کھجاتی جاتی تھی مجھے اس کام میں اتنا ہی زیادہ مزہ آتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی میری اس جگہ پر کہ جسے چوت یا یونی کہتے ہیں پر خارش تیز ہو گئی تھی اور میں اسے اور بھی تیز تیز کھجا نی لگی ۔۔۔۔ اپنی یونی کھجاتے کھجاتے اچانک میری زہن میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نےفوراً ہی اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ ۔۔فیصلہ کرتے ہی میں نے اپنی چوت کو کھجانا بند کیا اور جلدی سے جا کر اپنے دروازے کو جو کہ پہلے ہی بند تھا اس کو لاک کیا ۔۔ اور اس کے بعد میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی اور ۔۔۔ اور پھر میں نے اپنی شلوار اُتار دی اور قمیض کو بھی اتار لیا اور پھر میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور شیشے کے بلکل قریب جا کر کھڑی ہو گئی اور اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ والی جگہ کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔تو دیکھا کہ میری ٹانگوں کے بیچ والی جگہ پر کافی مقدار میں گوشت ابھرا ہوا ہے ۔۔اور اس ابھرے ہوئے گوشت کے درمیان ایک پتلی سی لکیر تھی اور اس لکیر کے اوپر والے حصےپر یہ بھاری گوشت کو ۔۔۔ میں نے ہاتھ لگا کر چیک کیا تو یہ خاصہ نرم اور تسکین بخش تھا ۔۔ اپنے اس تسکین بخش گوشت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے میں شیشے کے اور قریب ہو گئی اور پاس پڑے سٹول پر ایک پاؤں رکھا اور شیشے میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ سٹول پر ایک پاؤں رکھنے سے میری چوت کی لکیرتھوڑی اور نمایاں ہو گئی ۔۔۔ اور میں نے بڑے غور سے اپنی چوت کو دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔ دیکھا تو اس وقت میری یونی کے نرم گوشت پر سنہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تھے اور ۔۔ میری دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ایریا ۔خاص کر لیکر کے اوپر والا حصہ ۔ پر پنک کلر کا ایک چھوٹا سا دانہ تھا ۔۔۔۔ اور میری چوت کا کہ یہ دانہ ۔ میرے بار بار کھجانے کی وجہ سے اچھا خاصہ سُرخ ہو رہا تھا اب میں نے اپنی دو انگلیوں کی مدد سے اس لکیر کو تھوڑا اور کھولا تو مجھے اپنی چوت کا اندرونی حصہ نظر آیا ۔۔۔۔
    ۔ اندر سے میری یونی گلابی رنگ کی تھی اور اس میں سے دودھیا رنگ کا پانی سا نکل رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور میں نے انگلی سے اس پانی کو چیک کیا تو یہ چپ چپا سا تھا اوراس وقت چوت سے یہ پانی رِس رِس کر میری ٹانگوں سے نیچے کی طرف جا رہا تھا اسی اثنا میں ایک بار پھر مجھے اپنی یونی پر خارش محسوس ہوئی تو میں نے اپنی چوت کے اوپر لگے اس سُرخ سے دانے کو مسلنا شروع کر دیا جوں جوں میں اس کو مسلتی جاتی تھی تو ں توں میری چوت سے ِچپ چپے پانی کا رسنا تیز ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس سرخی مائل دانے کو مسلتے مسلتے میں نڈھال سی ہو گئی اور میرے منہ سے خود بخود لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور اپنی ان لزت بھری سسکیوں کو سُن سُن کر میرے اندر جنسی خواہش جاگنے کا عمل اور بھی تیز ہو تا گیا ۔۔۔ یہاں تک کہ میری سسکیاں اب ہلکی ہلکی چیخوں میں بدل رہیں تھی اور میری انگلیاں تیزی کےساتھ میری چوت کے ساتھ جُڑے دانے کو کھجا رہیں تھیں ۔۔۔۔ جیسے جیسے میری دو انگلیاں میرے چھوٹے سے دانے پر رگڑ کھاتیں اور اسی تیزی سے میری رانیں اس چپ چپے پانی سے بھیگی جا رہیں تھیں ۔
    میں ایک انوکھی لزت سے آشنا ہوتی جا رہی تھی ۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے اس دانے کو مسلنا بند کردیا ۔۔۔۔اور شیشے میں دیکھا تو میرا وہ چھوٹا سا دانہ مسلسل مسلے جانے کی وجہ سے لال سُرخ ہو کر کافی بڑا ہو چکا تھا ۔اور میں نے ایک بار پھر اس دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ۔۔۔ اور پھررررررر ۔۔کچھ ہی دیر کے بعد ۔۔۔ میرے بدن کو جھٹکے لگنے شروع ہو گئے اور پھر میں نے دیکھا کہ پتلا پتلا دودھیا سا پانی میری ٹانگوں سے ہوتا ہوا ۔۔۔ نیچے کی جانب بہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں بند ہو گئیں اور میں مزے کے سمندر میں غوطے کھانے لگی اور میں بے سدھ ہو کر بیڈ پر گر پڑی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔۔ یہ میری زندگی کی پہلی خود لذتی تھی جو میں نے اپنے آپ سے حاصل کی تھی گو کہ اس کام میں مجھے تسلی تو ہر گز نہ ملی تھی لیکن اس عمل سے میں ایک لزت سے بھر پور فعل سے ضرور ۔۔متعارف ہو گئی تھی۔
    جارھی ھے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

  • #2
    ترَاس قسط۔2
    ترَاس ۔۔۔
    یہ سب کچھ تو میں کر لیا تھا ۔۔۔ لیکن سیکس کے بارے میں میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا میں اس بارے میں جانا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یونی کو کھجانے سے مزہ کیوں ملتا ہے ۔اور چوت سے یہ چپ چپا سا پانی کیوں نکلتا ہے ؟؟؟؟؟؟۔
    وغیرہ وغیرہ.۔
    اس قسم کے کئی سوالات تھے جو میں جاننا چاہتی تھی لیکن ۔۔۔۔ میں ڈر کی وجہ سے کسی سے بھی بات نہ کر سکتی تھی وجہ ۔۔۔وہی گھر کا سخت اور روایتی سا ماحول کہ جس میں سیکس کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا ۔۔۔سیکس کے بارے میں، میں معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن کسی سے بات کرتے ہوئے ڈرتی تھی اس لیئے میں چاہنے کے باوجود بھی۔۔ میں کسی سے سیکس بارے میں بات نہ کر سکی اور بس یوں ہی اپنی یونی کے دانے کو رگڑ رگڑ کر گزارا کرتی رہی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک بات کا تو مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میری دو ٹانگوں کے درمیان والی جگہ جسے ہم چوت کہتے ہیں ۔گیلی لکڑی کی طرح ہر وقت تڑپتی سُلگتی رہتی تھی۔
    اور ۔۔۔ بہت زیادہ ڈیمانڈنگ تھی اور جب تک میں اس پر لگے دانے کو اچھی طرح سے کھجا نہ لوں یا اس کو کہیں رگڑ نہ لوں میری بے چینی دور نہ ہوتی تھی - اور اتنے زیادہ رگڑنے کے باوجود بھی یہ ہر گز ٹھنڈی نہ ہوتی تھی ۔۔ہاں تھوڑا وقتی سکون ضرور مل جاتا تھا ۔۔
    مجھے سکول چھوڑنے کا کام ابا کے ذمہ تھا وہ مجھے اپنے آفس جاتے وقت سکول چھوڑ جاتے تھے جبکہ سکول سے واپسی پر میں اپنی سہیلی نسرین کے ساتھ آتی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے ایک دو گلیاں پہلے آتا تھا جبکہ سکول ہمارے گھر سے پانچ چھ گلیاں دور تھا ۔ میرے لڑکپن کا دور کا قصہ ہے کہ اس وقت میں سویٹ ٹین میں تھی اور میری جوانی کی اُٹھان بڑی زبردست تھی ۔۔۔میری خوبصورتی کی سبھی تعریف کرتے تھے اورایک دن کی بات ہے کہ حسبِ معمول چھٹی کے بعد میں نسرین کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے گھر کی طرف لوٹ رہی تھی کہ اتنے میں .... میں نسرین کا گھر آگیا ۔۔۔اور وہ مجھے بائے بائے کرتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔ اس کے بعد مجھے دو تین گلیاں اور کراس کرنا تھیں تو آگے والی گلی میں میرا گھر تھا ۔۔۔ جیسے ہی نسرین مجھے ٹا ٹا کر کے اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔۔ ایک لڑکا تیزی سے آگے بڑھا اور میرے آگے آگے چلنا شروع ہوگیا ۔۔۔اس نے ایک دو دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن میں نے ڈر کے مارے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ سر جھکا کر چلتی رہی ۔۔۔ پھر اس کے بعد اس لڑکے کا یہ معمول بن گیا تھا کہ جیسے ہی نسرین اپنے گھر میں داخل ہوتی پتہ نہیں وہ لڑکا کہاں سے نازل ہو جاتا اور پھر میرے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ۔۔۔
    شروع شروع میں تو مجھے بہت الجھن ہوئی لیکن اس کے بعد میں اندر ہی اندر اس کا انتظار کرنی لگی ۔۔۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ اندر سے میں بہت بزدل تھی اور خاص کر میں بھائیوں سے بہت ڈرتی تھی کیونکہ میرے بھائیوں نے مجھے صاف کہہ رکھا تھا کہ اگر انہوں نے میرے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات سُن لی تو وہ نہ صرف یہ کہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے بلکہ مجھے سکول سے بھی اُٹھوا لیں گے ۔۔۔ اور مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور میں پڑھنا چاہتی تھی اس لیئے پہلے تو میں اس لڑکے کو اگنور کرتی رہی لیکن وہ تھا بھی ایک ڈھیٹ قسم کا عاشق تھا روز میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے چلتا ۔اور۔ مجھ سے بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن میں ڈر کے مارے اس سے کوئی بات نہ کرتی تھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے بھائیوں کا بھی بہت ڈر تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نے نہ تو اس بات کا نسرین اور نہ ہی کسی اور سے ا س لڑکے کا ذکر کیا ۔۔۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری دوست نسرین پیٹ کی بہت ہلکی ہے ۔۔اور اگر میں اس سے اس لڑکے کا تزکرہ کر دیتی ہوں ۔۔تو اس نے جھٹ سے یہ بات سارے سکول کو بتا دینی تھی ۔۔۔ اور اسی سکول میں فیض بھائی کی سالی بھی پڑھتی تھی اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا کوئی سکینڈل نکلے اور مجھے سکول سے ہاتھ دھونے پڑیں ۔۔ لیکن ۔۔۔۔ بھائیوں کی دھمکیاں اپنی جگہ۔۔۔ لیکن میرے نیچے بھی ایک چیز لگی ہوئی تھی۔۔۔جو بہت پیاسی تھی اور ۔۔۔ ہر وقت مجھے تنگ کرتی رہتی تھی ۔۔ اور خاص کر اس ہینڈ سم لڑکے کو تو دیکھ کر ۔۔۔اب مجھے بھی کچھ کچھ ہونے لگا تھا ۔۔۔اور اس کی تیز نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔۔۔میرے من کی کچی کلی بھی مہکنے لگی تھی اور ۔۔۔ شاید یہ اس کچی کلی کی مجبوری تھی ۔۔۔
    ۔کہ ایک دن میں بھی اس کی طرف دیکھنے لگی ۔وہ ایک گورا چٹا اور کیوٹ سا لڑکا تھا جو ہمارے سکول سے آگے ایک بوائز کالج میں پڑھتا تھا ۔۔قد اور عمر میں مجھ سے کافی بڑا ہو گا ۔۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور ناک نقشہ بہت اچھا تھا ۔۔ میں نے اسے دیکھا اور ۔۔من ہی من میں اسے پاس کر دیا۔۔۔۔۔ ۔۔اسی طرح ایک ہفتہ اور گذر گیا۔۔ وہ روزانہ بڑی باقاعدگی سے میرے ساتھ ساتھ یا میرے آگے پیچھے چلتا اور جب میں گھر داخل ہو جاتی تو وہ بھی واپس چلا جاتا تھا۔۔۔ ایک دن جب میں گلی میں اکیلی جا رہی تھی تو اس نے تھوڑی ہمت کی اور بولا ۔۔۔ ہیلو آپ کیسی ہیں ؟ لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اور چُپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔۔ اسی طرح دو تین دن اور گزر گئے ۔۔وہ روز مجھ سے یہی بات کرتا تھا لیکن میں کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔ اور ایک دن جب میں اسی گلی داخل ہوئی جو کہ عام طور پر سنسان ہی رہتی تھی ۔۔۔۔تو وہ ایک دم میرے سامنے رُک گیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔ پلیز میری بات کا جواب تو دو۔۔۔ تو میں نے کہا ہاں بولا کیا بات ہے تو وہ کہنے لگا۔۔۔ شکر ہے آپ بولی تو ۔ورنہ تو میں سمجھا تھا کہ آپ گونگی ہیں ۔۔
    تب میں نے اس سے کہا تم روز کیوں میرا پیچھا کرتے ہو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    اور کہ کر چلنے لگی تو وہ بولا ۔۔ میں آپ کی اس بات کا ۔۔۔۔آپ کو کل جواب دوں گا او ر میرے آگے آگے چلنے لگا ۔۔ اگلے دن جب میں اسی سنسان گلی میں داخل ہوئی تو اچانک وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور بولا کل آپ نے پوچھا تھا نہ کہ میں روز آپ کا پیچھا کیوں کرتا ہوں تو میں نے اس کی ساری وجہ اس خط میں لکھ دی ہے پلیز اسے پڑھ لو اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے وہ خط دینا چاہا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ چلتی رہی ۔۔۔ وہ سارا رستہ میری منتیں کرتا رہا لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اسی طرح تین چار دن اور گذر گئے وہ روز مجھے خط دینے کی کوشش کرتا اور میں اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتی تھی ۔اصل میں ۔۔ میں اس کا خط لینے سے اس لیئے ڈرتی تھی ۔۔ کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔۔۔۔ اسی طرح کافی دن گزر گئے اور آخر ایک دن مجھے اس پر ترس آ گیا اور میں نے اس سے کہا اس خط میں کیا لکھا ہے تو اس نے بڑے رومینٹک لہجے میں جواب دیا کہ اس خط میں میں نے اپنا حالِ دل لکھا ہے تم پلیز اسے ایک بار پڑھ تو لو۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے سوچا اس کا خط پڑھ کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے اور اس سے وہ خط وصول کر لیا ۔۔۔
    ۔ جیسے ہی میں نے اس کے ہاتھ سے وہ خط لیا وہ یوں میرا شکریہ ادا کرنے لگا کہ جیسے میں نے اس پر کوئی بہت بڑا احسان کر دیا ہو۔۔۔ خیر میں نے اس سے وہ خط لیا اور سیدھا گھر آ گئی اور اپنے کمرے میں جا کر سب سے پہلے اسے لاک کیا اورپھر دھڑکتے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کا خط کھولا ۔۔ جیسے ہی میں نے اس کے دیئے ہوئے خط کو کھولا۔۔تو سارا کمرہ ایک بہت ہی عمدہ سے پرفیوم کی خوشبو سے مہک اُٹھا ۔۔جو اس نے سارے خط پر چھڑکا ہوا تھا ۔۔۔۔ اتنی اچھی خوشبو سُونگھ کر میرا موڈ خوش گوار ہو گیا ۔اور نے اسے کھول کر پڑھا ۔۔تو اس نے لکھا تھا ۔۔۔ میری اپنی ۔۔اور بہت پیاری ۔۔ ہما جی (پتہ نہیں اس کو میرے نام کا کیسے پتہ چل گیا تھا ) ۔۔۔۔دل کی گہرائیوں سے آپ کو میرا محبت بھرا سلام قبول ہو ۔۔۔ ۔۔پھر آگے لکھا تھا ۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کی اس بات کا بہت بہت ۔۔۔۔ شکریہ کہ آپ نے اپنے نازک ہاتھوں ۔سے میرا خط لیا ۔۔۔اور اس وقت میرا یہ خط آپ کی پیاری پیاری اور سرمگیں آنکھوں کے سامنے ہے ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔ یقین کریں اوپر والے نے آپ کو فرصت میں بیٹھ کر بنایا ہے۔۔۔ اور میں آپ کے اس ملکوتی حُسن کا دیوانہ ہوں ۔۔۔ جب سے میں نے آپ کو دیکھا ہے میں خود کو بھول گیا ہوں ۔۔پتہ نہیں آپ نے مجھ پر کیا جادو کر دیا ہے کہ ۔ سوتے جاگتے اُٹھتے بیٹھے۔ چلتے پھرتے۔۔۔۔بس۔۔ آپ ہی کی موہنی صورت میری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہتی ہے۔پھر آگے اس نے ایک مشہور گانے کا یہ شعر لکھا ہوا تھا ۔۔
    تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں ۔۔
    چاروں طرف دیکھتے ہیں تمھیں۔
    کلیوں میں تم ہو ۔بہاروں میں تم ۔
    اس دل کے ہر ایک نظاروں میں تم ۔۔۔۔۔۔۔
    ۔پھر لکھا تھا ہما جی ۔پتہ نہیں آپ کی حسین آنکھوں میں کیا جادو ہے کیا کشش ہے کہ میں ہر وقت ان میں ہی گُم رہتا ہوں ۔۔ہما ۔۔جی ۔۔ میں آپ کا بیمارِ محبت ہوں اور شفا صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔۔ جس دن آپ نظر نہیں آتیں ہیں وہ دن میرا بہت خراب گزرتا ہے ۔اور جس دن آپ نظر آ جاتیں ہیں وہ دن میرے لیئے عید کا دن ہوتا ہے ۔۔۔۔اس طرح کی رومانوی باتوں کے ساتھ ساتھ اس نے اس خط میں اور بھی بہت سارے محبت بھرے شعر لکھے ہوئے تھے جو کہ اس وقت مجھے یاد نہ آ رہے ہیں ہاں ان اشعار کا لبِ لباب یہ تھا کہ وہ مجھ سے بہت حد محبت کرتا تھا ۔۔۔ اور اس کے لیئے میں دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی اور ہاں خط کے سائیڈوں پر بڑے بڑے حاشیئے بھی لگے ہوئے تھے اور ان حاشیوں کے ایک طرف ترتیب کے ساتھ بہت سے سرخ رنگ کے دل بنے ہوئے تھے اور ان دلوں میں تیر کھبے ہوئے تھے ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تیر کے لگنے کی وجہ سے اس دل سے خون بھی ٹپک رہا تھا ۔۔۔ آخر میں اس نے لکھا تھا صرف اور صرف تمھارا اپنا ۔۔۔۔۔ سمیر۔۔
    ۔۔ اس سمیر نامی لڑکے کا وہ خط چار صفحات پر مشتمل تھا ۔اور اس کے ہر صفحے پر محبت بھرے ڈائیلاگ لکھے ہوئے تھے جن کو پڑھ کر میں بڑی متاثر ہوئی تھی ۔۔سمیر کے ہاتھ کا لکھا وہ خط ۔۔۔ میں نے بے شمار دفعہ پڑھا اور جب مجھے وہ خط زبانی یاد ہو گیا تومیں نے اسے پرزہ پرزہ کر کے فلش میں بہا دیا ۔۔۔ اور پھر سارا دن سمیر کے خط کے مندرجات پر غور کرتی رہی کہ آیا واقعہ ہی میں اتنی خوبصورت ہوں یا کہ وہ ایسے ہی بلف مار رہا ہے؟
    اس کے ساتھ ہی میں ڈریسنگ کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئی اور بڑے غور سے اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ اس میں تو کوئی شک نہ تھا کہ میں ایک گوری چٹی۔۔ چمکتے ہوئے رنگ ۔۔۔اور بہت اچھے نین نقش والی لڑکی تھی گو کہ میرے بریسٹ ابھی چھوٹے تھے لیکن اتنے چھوٹے بھی نہ تھے ۔۔۔اور ابھی سے میرے سینے کی اُٹھان ایسی غضب تھی کہ جب میں سینہ تان کر چلتی تھی تو بڑے بڑے لوگوں کے دل ہل جاتے تھے –
    اور یوں میری اس لڑکے سے کہ جس کا نام سمیر تھا سے دوستی کی ابتدا ہو گئی اور اب تو وہ روز ہی مجھے خط دینے لگا تھا جسے میں گھر آ کر دو تین دفعہ پڑھتی تھی ۔۔اور پھر اسے فلش میں بہا دیتی تھی ۔۔۔پتہ نہیں وہ اتنے رومینٹک الفاظ کہاں سے ڈھونڈ کر لکھتا تھا کہ جن کو پڑھ کر میں گھائل ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ پہلے پہلے تو اس نے اپنے خطوط میں بڑی ہی رومانوی باتیں لکھی تھیں کہ جن کو پڑھ کر میں سپنوں کی دنیا میں کھو جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ اس کے خط کے مندرجات بدلنے لگے ۔۔۔ اور اب وہ اپنے خطوط میں مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرنے لگا ۔۔۔گو کہ میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں اسے اکیلے میں ملوں لیکن میری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ میں اسے مل نہ سکتی تھی ا سی طرح دن گزرتے رہے ۔۔۔ اب میں اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی لگانے لگی تھی اور وہ خاص کر میری خوبصورتی کی بڑی تعریف کرتا تھا اور زبانی بھی ملنے کی درخواست کرتا رہتا تھا ۔اور اس کے ساتھ ساتھ خطوط بھی جاری تھی ۔۔۔ جن میں کہ وہ مجھ سے ملنے کا تقاضہ کرتا تھا ۔۔۔ ۔۔ پھر کچھ عرصہ بعد سمیر کے خطوط کا لہجہ مزید بدل گیا اور اب وہ وہ رومانوں باتوں کے ساتھ ساتھ میرے جسم خاص کر میرے بریسٹ کی بڑی تعریف لکھنا شروع ہو گیا ۔۔۔ جسے پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگتا تھا اس کےساتھ ساتھ اب وہ چلتے چلتے مجھے ٹچ بھی کر لیتا تھا مجھے یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ اس نے مجھے ٹچ کیا تھا تو میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی تھی ۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ عموماً مجھے ضرور چھوتا تھا اور اس کا اس طرح سے مجھے چھونا مجھے بہت اچھا لگتا تھا ۔۔
    ہمارے سکول سے گھر کے راستے میں اس سنسان گلی کے نکڑ پر ایک ایسا گھر بھی پڑتا تھا کہ جس کے آگے ایک باڑھ سی لگی ہوئی تھی اور اس باڑھ نے اس گھر کو تین طرف سے گھیر رکھا تھا ۔۔۔۔ان کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو تو گیٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس لان کے کونے میں درھیک کے دو تین درخت اکھٹے ہی لگے ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہاں ایک چھوٹی سے آڑ سی بن گئی تھی ۔۔۔۔ اور ان درختوں سے ہٹ کر یعنی کہ ایک سائیڈ پر اس گھر کا گیٹ تھا ۔۔ اس گھر میں دو ہی لوگ رہتے تھے ایک میاں اور ایک اس کی بیوی اور یہ دونوں ہی خاصے بوڑھے تھے مرد تو کام کے لیئےصبع سویرے ہی گھر سے نکل جاتا تھا ۔۔ جبکہ خاتون گھر میں ہی اکیلی ہی رہتی تھی ان کے بچے وغیرہ اگر تھے بھی تو وہ ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے ۔۔۔ یہ باتیں مجھے سمیر نے بتائیں تھیں ہوا یوں کہ سکول سے واپسی پر حسبِ معمول اس نے ملنے کی تکرار کی ۔۔۔ تو میں نے بھی اسے روز والی بات کی کہ تم تو جانتے ہی کہ میرا گھر سے نکلنا کتنا مشکل ہے ۔۔ تب وہ کہنے لگا کہ اچھا ایسا کرو کہ تم مجھ سے یہاں ہی مل لو ۔۔تو میں نے کہا روز تو ملتی ہوں تو وہ بڑے ہی حسرت بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔۔ نہیں ایسے نہیں نا میری جان میں تم سے گلے ملنا چاہتا ہوں تمھارے یہ رس بھرے ہونٹ چوسنا چاہتا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میں تمھارے یہ چٹانوں جیسے ۔۔۔ بریسٹ اپنے سینے سے لگانا چاہتا ہوں وہ ظالم باتیں ایسی کررہا تھا کہ میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی میں اس کو اپنے سینے سے لگا لوں ۔۔۔ اور نیچے میری دونوں رانوں کے بیچ والا سوراخ بھی اس بات کی تاکید کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے لیئے مسلہ یہ تھا کہ میں کسی بھی صورت ایسا نہ کر سکتی تھی اور جب میں نے اس سے یہ بات کی تو وہ کہنے لگا اچھا اگر تم کو میں اس گلی میں ہی ملنے کو کہوں تو۔۔!!!
    تو میں نے اس کو کہا کہ اس گلی میں تو ہم روزانہ ہی ملتے ہیں تب اس نے اس باڑھ واے گھر کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتلایا ۔۔۔ اور ساتھ ہی اس کی نشاندہی بھی کی۔۔۔۔ تو میں نے اس کو بولا پہلے میں خود اس بارے میں جان لوں تب ہی کچھ فیصلہ کروں گی ۔۔۔۔ تو وہ بولا جان ۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں اور ویسابھی وہاں ہم نے بس ایک ٹائیٹ سی جھپی ہی تو لگانی ہے ۔۔۔۔ اور اگر ٹائم ہوا تو تھوڑی سی کسنگ کر لیں گے ۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اسے بغیر تحقیق کے ملنے سے صاف انکار کر دیا اور بولی جب تک میں خود تسلی نہ کر لوں میں تمھارے ساتھ وہاں نہیں جاؤں گی ۔۔۔ تو وہ مان گیا ۔۔۔ اور بولا ۔۔ لیکن پلیز ۔۔۔اپنی تحقیق جلدی کرنا ۔۔۔ کہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔۔۔اس کی بات سُن کر میں نے ہان میں سر ہلادیا ۔۔۔۔۔۔ اگلے دو تین دن میں نے بڑے طریقے سے اپنی کلاس فیلوز سے اس جگہ کے بارے میں معلومات لی تو جس طرح سمیر نے اس جگہ کے بارے میں بتلایا تھا وہ جگہ ویسی ہی نکلی ۔۔ اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد میں نے اس جگہ سمیر سے ملنا کا پروگرام بنا لیا۔۔۔۔
    اگلے دن جب میں سکول سے نکلی تو گرمی بڑے زور کی پڑ رہی تھی ۔۔۔ اور ویسے بھی گرمیوں کی چھٹیاں ہونے میں ابھی ایک مہینہ باقی تھا ۔۔سمیر کو میں نے ایک دن پہلے ہی اس جگہ ملنے کا گرین سگنل دے دیا تھا۔۔۔۔چنانچہ اس دن پروگرام کے مطابق میں جلدی ہی سکول سے باہر آ گئی اور نسرین کا انتظار کرنے لگی اور ادھر ادھر دیکھا تو تھوڑا آگے مجھے سمیر نطر آ یا اور اس نے اشارے سے بتلایا کہ وہ اسی باڑھ والی جگہ درختوں کے پاس ہی ہو گا میں سیدھی وہاں آ جاؤں ۔میں نے اس کی طرف دیکھا اور سر ہلا دیا میرا اشارہ دیکھ کر وہ واپس مُڑا اور چلا گیا اور اسے جاتے دیکھ کر میرے سارے بدن میں ایک عجیب سی سنسنی پھیل گئی ۔۔۔ کیونکہ یہ میری پہلی ڈیٹ تھی اس لیئے میری ٹانگیں بھی کانپ رہیں تھیں اور دل بھی بہت کر رہا تھا کہ میں جا کر سمیر کے گلے لگ جاؤں اور اپنے بریسٹ اس کے سینے سے چپکا دوں ۔۔۔
    نسرین سے الوداع ہو کر چلتے ہوئے میں اسی سنسان گلی میں پہنچی ۔۔ ۔جس کے کونے پر وہ باڑھ والا گھر تھا میں کن اکھویں سے ساری گلی کا جائزہ لیتے لیتے جب اس باڑھ والے گھر کے قریب پہنچی تو شدتِ جزبات سے میرا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور میری دو رانوں کے بیچ ایک عجیب سی ہل چل مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ گیٹ کے قریب پہنچ کر اچانک میرا سکول بیگ زمین پر گر گیا اور یہ میں نے جان بوجھ کر کیا تھا ۔۔چنانچہ میں بیگ اُٹھانے کے لیئے نیچے جھکی اور اسی بہانے میں نے ایک دفعہ پھر سارا گلی پر نظر پر ڈالی تو حسبِ سابق مجھے وہ گلی ویران نظر آئی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں جلدی سے اُٹھی اور گیٹ جو کہ ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا ۔کے اندر داخل ہو گئی سامنے ہی درختوں کے پاس سمیر کھڑا تھا اور مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا میں نے سر ہلا یا اور دبے پاؤں ان درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔اور پھر ہم دونوں جڑے ہوئے درختوں کے دوسری طرف ہو گئے اب پوزیشن یہ تھی کہ ایک طرف تین چار درخت اکھٹے کھڑے تھے اور ان درختوں کے سامنے گھنی باڑھ تھی ان درختوں اور باڑھ کے درمیان ایک تنگ سی جگہ تھی جہاں اس وقت میں اور سمیر کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے باڑھ اور درخواں کے ایک سائیڈ پر ایک پتلی سی گلی نما راستہ تھا اور اس راستے سے ہو کر ہم اس جگہ تک پہنچے تھے ۔اس طرح ہمارے تین ا طراف میں قدرتی طور پر ایک محفوظ سی جگہ بن گئی تھی ۔ چوتھی جگہ گو خالی تھی لیکن وہ اتنی تنگ تھی کہ اگر کوئی درختوں کی آڑ میں ہو جائے تو دور سے کچھ نظر نہ آتا تھا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں نے ایک دفعہ پھر چاروں اطراف کا جائزہ لیا اور پھر مطمئن ہو گئی اور سمیر سے پوچھا کہ اس نے یہ جگہ کیسے ڈھونڈی ۔۔۔ ؟ میری بات سُن کر سمیر نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور محبت بھرے لہجے میں کہنے لگا ۔۔ محبت سب کرواتی ہے میری جان ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اسے اپنے ہوٹوں تک لے گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کے ہونٹوں نے میرے ہاتھ کی پشت کو چھوا ۔۔۔۔میرے سارے بدن میں ایک جھرجھری سی پھیلی اور ۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے اس طرح جگر پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر مجھے شرم آ گئی ۔۔۔ اور میں نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ میری اس ادا پر سمیر تو مر ہی گیا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور پھر میرا منہ اوپر کر کے بولا۔۔۔۔ میری طرف دیکھو نا میری جان ۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیا کہ ۔۔۔۔ مجھے شرم آ رہی ہے تب وہ آگے بڑھا اور اپنا منہ میرے گالوں کے قریب کر کے بولا ۔۔۔۔۔۔ہما جی اگر۔۔۔ اجازت ہو تو میں آپ کے شرم سے لال ہوتے ہوئے گال چوم لوں ۔۔۔ میں کچھ نہ بولی ۔۔۔تو اس نے اس بات کو میری رضامندی سمجھا اور آگے بڑھ کر اس نے میرے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ان کو چوم لیا ۔۔۔۔۔اپنے گالوں پر اس کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی ۔۔۔ میں ۔۔۔ بے حال ہی گئی لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔۔ اور خود کو اس کے حوالے کر دیا ۔
    جارہی ھے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #3
      ترَاس قسط ۔۔3۔
      ترَاس ۔
      میرے گالوں کو چومتے چومتے ۔۔۔ اچانک ہی سمیر نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر مجھے اپنے سینے کے ساتھ چپکا کر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے ۔۔جیسے ہی اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے تو مجھے اس کے منہ سے سگریٹ کی بو کا ایک بھبکا سا آیا ۔۔اور میں نے گھبرا کر اس کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا ۔ مجھے یوں پیچھے ہٹانے پر وہ حیران رہ گیا اور بولا ۔۔۔ کیا ہوا ہما جی ۔۔ ہونٹ چوسنے دیں نا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا نہیں تم میرے ہونٹوں کی طرف مت آؤ تو وہ بولا کیوں کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا اس لیئے کہ تمھارے منہ سے سگریٹ کی گندی بُو آ رہی ہے ۔۔۔ ۔۔ میری بات سُن کر وہ بڑا شرمدہ ہوا اور بولا سوری ہما جی اور ۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کو سگریٹ کی بو پسند نہیں ہے ۔۔۔اس لیئے اب آپ کی ہونٹوں پر چما نہیں ہو گا لیکن باقی جگہوں پر تو آپ کو پیار کر سکتا ہوں نا؟ ۔۔ ۔۔اور اس کےساتھ ہی اس نے دوبارہ سے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔اور اپنا سارا بدن میرے بدن کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔۔ سمیر کا بدن میرے بدن کے ساتھ جُڑتے ہی مجھے اپنی رانوں پر کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی ۔۔۔ اور ۔۔اور ۔۔۔۔ اس تصور کے ساتھ ہی کہ میرے رانوں سے سمیر کا لن ٹچ ہو رہا ہے مجھ پر ایک نشہ سا طاری ہو گیا ۔۔۔اور میں اپنی دونوں رانوں کے بیچ سمیر کا لن ۔۔۔ انجوائے کرنے لگی ۔۔ ادھر سمیر نے مجھے درخت کے ساتھ ٹیک لگا نے کو کہا اور پھر خود ہی اس نے نیچے سے میری دونوں ٹانگیں کھول دیں اور پھر شلوار کے اوپر سے ہی میری پھدی پر اپنا لن رگڑنے لگا ۔۔۔ اُف ف ف ف ف ف ۔۔ مجھے اتنا مزہ آیا کہ۔۔۔ اس کے لن کی پہلی ہی رگڑ سے ہی میری پھدی کا جوس نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن چونکہ اس جگہ بہت خطرہ تھا۔۔اس لیئے میں کھل کر اسکے گھو ڑے کا لطُف بھی نہ ا ُٹھا سکتی تھی مجھے ہر دم یہی ڈر لگا رہا کہ کہ کہیں کوئی آ ۔۔۔نا جائے ۔۔ اس کے باوجود میں نے کچھ دیر تک سمیر کو گھسے مارنے دئیے اور وہ میری پھدی کے نرم لبوں پر اپنا سخت لن رگڑتا رہا ۔۔۔اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میری پھدی سے پانی کا ایک ریلہ نکل کر میری ٹانگوں سے نیچے بہہ رہا ہے ۔۔ میں چھوٹ گئی تھی ۔۔ چنانچہ جیسے ہی میں فارغ ہوئی ۔۔ میں نے سمیر کو ایک دم دھکا دیا اور اسے پیچھے دھکیل کر کے بولی ۔۔۔۔ آج کے لیئے بس اتنا ۔۔۔یہ سُن کر وہ میری منتیں کرنے لگا کہ ۔۔۔ ہما پلیز ۔۔۔ بس ایک دو گھسے اور مارنے دو ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی ایک نہ سنی ۔۔۔ اور جانے لگی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ اچھا جاتے جاتے میرا ایک آخری کام تو کر دو ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔وہ کیا۔۔۔؟ تو اس نے کہا کہ ۔۔۔بس ایک بار میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے تھوڑا سا ہلا دو۔۔ کہ میں آخری منزل پر ہوں ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں لال سُرخ ہو گئی ۔۔ کیونکہ دل تو میرا بھی یہی کر رہا تھا ۔۔ لیکن اوپر اوپر سے ناز نخرے کرنے لگی ۔۔۔آخر بصد منتوں اور ترلوں کے بعد میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کے لن پر رکھ دیا ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ اس کا لن بہت گرم تھا۔۔۔۔ اس وقت پتلے اور موٹے کا اتنا پتہ نہیں ہوتا تھا اس لیئے مجھ تو سمیر کا لن بہت بڑا لگا ۔۔۔ خیر میں نے بس ایک دفعہ ہی اس کا لن اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور پھر چھو ڑ دیا۔جیسے ہی مین نے اس کا لن چھوڑا اس نے تیزی سے اپنے ہاتھ میں لن پکڑا اور اسے مسلنے لگا ۔۔۔میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ کہ پہلے میں جاؤں گی تم بعد میں آنا۔اس نے میری بات سُن کر مجھے جانے کا اشارہ کیا ۔۔اور اپنے لن کو آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا ۔اور ادھر ادھر دیکھتی ہوئے وہاں سے باہر نکل گئی۔۔
      اس دن جب میں گھر پہنچی تو میری دونوں ٹانگوں کے بیچ والے سوراخ کا بہت برا حال تھا ۔۔۔ گھر جا کر میں سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور اپنی شلوار اتار کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور جب جب اپنی ننگی ٹانگوں پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ میری چوت کا جوس رِس رِس کر میرے ٹانگوں سے بھی نیچے بہہ رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے اپنی دو انگلیاں اپنی چوت کے جوس سے گیلی کیں اور پھر انہیں اپنے پھولے ہوئے دانےپر رکھ کر اسے رگڑنے لگی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ یہ تصور بھی کرتی جا رہی تھی کہ یہ میری انگلیاں نہیں بلکہ سمیر کا سخت لن ہے جو میری چوت سے رگڑ کھا رہا ہے ۔۔۔ دانے پر مساج کرتے کرتے اچانک میرے سارے بدن نے جھٹکا کھایا اور میرے چوت سے ایسے پانی نکلنے لگا کہ جیسے چوت میں پانی کا نل لگا ہوا ہو۔۔۔ اس دن میں نے سمیر کے لن کا تصور کر کے کوئی چار پانچ دفعہ اپنی چوت کو رگڑا ۔۔اور فارغ بھی ہوئی ۔ لیکن میری شہوت تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔
      اگلے دن سکول سے واپسی پر حسبِ معمول سمیر مجھے ملا اور مجھے دوبارہ سے وہاں جانے کا بولا ۔۔۔ میں تو پہلے سے ہی تیار تھی اس لیئے تھوڑے سے ناز نخرے کے بعد میں نے اسے کہا کہ وہ پہلے وہاں پہنچے میں آتی ہوں ۔۔۔ چونکہ اب ہمارا تکلف کافی حد تک کم بلکہ ختم ہو چکا تھا اس لیئے جیسے ہی میں درختوں کے پاس پہنچی تو سمیر نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرے گالوں کو بے تحاشہ چومنے لگا پھر کچھ دیر بعد اس نے میرا کندھا پکڑ کر میری درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگوائی اور مجھے اپنی دونوں ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔ اور اس کے بعد جیسے ہی اس نے اپنی شلوار اتارنے کے لیئے اپنے آزاز بند پر ہاتھ گیا تو میں نے اسے منع کر دیا تو وہ بولا پھر کیا کروں جان؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو میں نے شرماتے ہوئے اس سے کہا کہ ایسے ہی کر لو ۔۔۔۔ میری بات سُن کر اس کے چہرے پر ایک دم شہوت سوار ہو گئی اور اس نے اپنی شلوار کے اوپر سے ہی اپنے لن کو پکڑا اور میری چوت کے لبوں پر رکھ کر گھسے مارنے لگا ۔۔۔ اس کے سخت لن کا سخت ٹوپا میری چوت کے نرم لبوں سے رگڑ کھانے لگا اور اس کے ساتھ ہی میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ گئی اور میری چوت سے تیزی کے ساتھ جوس نکلنے لگا۔۔۔ اس کا مارا ہوا ہر گھسہ مجھے مزہ کی ایک انوکھی دنیا سے متعارف کروا رہا تھا۔۔۔ میں اس سے زیادہ مزہ لینا چاہتی تھی لیکن وقت کی کمی آڑے آرہی تھی اس لیئے جلد ہی میں نے اسے رکنے کو کہا اور بولی ۔۔۔بس ۔۔ کرو ۔۔ کوئی آ جائے گا ۔۔ تاہم میرے منع کرنے کے باوجود بھی اس نے دو تین گھسے مار ہی دیئے اور پھر وہ مجھ سے الگ ہوکر ہانپنے لگا ۔۔ اور بڑا جزباتی ہو کر بولا ۔۔۔۔ ہما ۔۔ میری جان میں تمھاری بغیر نہیں رہ سکتا اور میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور اس کے بعد وہ مجھے پھر سے چومنے لگا۔۔۔ پھر میں نے خود کو بمشکل اس الگ کیا اور ہم واپس آ گئے ۔۔۔۔
      اسی طرح اس ہفتے میں ہم نے اس باڑھ والے گھر میں دو تین اور ملا قاتیں کیں اور ہر ملاقات پہلے سے زیادہ گرم ہوتی تھی پھر ایک دن کا زکر ہے کہ حسبِ پروگرام سمیر پہلے ہی درختوں کے پاس موجود تھا اور جیسے ہی میں گیٹ عبور کر کے درختوں کے پاس پہنچی تو اچانک ایک زنانہ آواز نے مجھے للکارا اور بولی ۔۔ ٹھہر جاؤ حرام ذادی ۔گھر سے تم پڑھنے آتی ہو اور یہاں آ کر یار کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی ہو ۔۔۔تم نے یہ کیا تماشہ بنا رکھا ہے ۔میں نے آواز کی سمت نگاہ کی تو دیکھا کہ درختوں کے عین سامنے ایک کھڑکی تھی جس کے آگے جالی لگی ہوئی تھی اور یہ آواز اسی جالی میں سے آ رہی تھی ۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے اس جالی کو نہیں دیکھا تھا ۔۔ یا شاید ۔۔۔ شہوت نے ادھر دیکھنے ہی نہ دیا تھا ۔۔ادھر خاتون کے منہ سے گالیوں کا ایک سیلاب نکل رہا تھا اور ۔۔لمحہ بہ لمحہ خاتون کی آواز بلند ہو رہی تھی ۔ادھر ۔۔۔ جیسے ہی میں نے اس خاتون جو کہ یقیناً مالک مکان تھی کی آواز سنی میں تو میں ایک سکتے میں آ گئی اور میری حالت ایسی ہو گئی کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر سمیر ایک دم آگے بڑھا اور اس نے نے مجھے کندھے سے پکڑا اور اسے زور سے ہلا کر بولا ۔۔۔ ہما ۔۔ بھاگو۔۔۔۔۔ سمیر کی آواز سُن کر میں ایک دم ہوش میں آ گئی اور میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی ۔۔۔ اور گرتی پڑتی گھر پہنچ گئی۔۔۔۔ اور گھر پہنچ کر بھی بڑی خوفزدہی کہ کہیں اس بڑھیا نے مجھے پہچان نہ لیا ہو۔۔۔۔اور دل ہی دل میں خود کو کوستی رہی ۔۔کہ میرا پہلے اس کھڑکی کی طرف دھیان کیوں نہیں گیا تھا ۔۔۔۔
      اگلے دن جب میری سمیر سے ملاقات ہوئی تو ہم سارا راستہ اسی حادثہ کے بارے میں باتیں کرتے رہے ۔۔ اور دوسری بات یہ کہ میں نے اس گلی کا راستہ تبدیل کر لیا اور اب میں ایک اور گلی کی طرف سے گھر جانے لگی ۔۔۔ یہ گلی گھر سے تھوڑا دور تو پڑتی تھی لیکن ۔۔۔ میں اس بات پر خوف زدہ تھی کہ کسی دن وہ بڑھیا ۔۔۔اپنے گیٹ میں نہ کھڑی مل جائے ۔۔۔اسی طرح کچھ دن اور گز ر گئے۔اور گھر میں بھی خیریت رہی تو میرا ڈر کچھ کم ہو ا۔۔۔ ورنہ تو اندر اندر مجھے یہ خو ف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں وہ بڑھیا ہمارے گھر نہ آ جائے لیکن جب ایسا کچھ نہ ہوا تو میرا ۔۔ ڈر کچھ کم ہوا۔۔سمیر سے حسبِ معمول ملاقاتاتوں کا سلسلہ جاری تھا ۔
      ایک دن میرے ساتھ چلتے چلتے سمیر بولا ۔۔۔ ہما جی آج تو آپ بڑی ہی کیوٹ لگ رہی ہو اور خاص کر آپ کے یہ بریسٹ تو مجھ پر بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں اس کی بات سُن کر میں نے کن اکھیوں سے اپنی چھاتیوں کی طرف دیکھا تو وہ ویسی کی ویسی ہی تھیں یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا کیوں جھوٹ بول رہے ہو یہاں تو سب نارمل ہے تو سمیر ایک دم سنجیدہ ہو گیا اور کہنے لگا ہما جی آپ کے ہاں نارمل ہو گا لیکن ۔۔پھر اس نے اپنے نیچے لن کی طرف اشارہ کیا اور بولا ۔۔۔پر یہاں کچھ بھی نارمل نہیں ہے ۔۔ اور میں نے جو نیچے دیکھا تو سمیر کا لن ہلکا سا تنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں بھی گر م ہو گئی اور بولی ۔کیا ہوا اس کو ۔۔؟؟؟۔۔ تو وہ کہنے لگا یہ تمھاری طلب کر رہا ہے ۔۔۔۔ سمیر کی بات سُن کر میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اوربولی ۔۔۔ کیا کروں سمیر دل تو میرا بھی بہت چاہ رہا ہے ۔۔ پر کیا ہو سکتا ہے ۔؟؟۔۔ میری بات سُن کر وہ کہنے لگا ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے میری جان ۔۔۔۔۔ بس تمھاری اجازت درکار ہے ۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا کہ ۔۔۔۔۔۔ میں تمھارا مطلب سمجھی نہیں۔؟؟ ۔ اس پر وہ بولا ۔۔۔ میرا ایک دوست ہے وہ اور اس کے سارے گھر والے مری کی سیر کو جا رہے ہیں ۔۔۔ اور گھر کی چاپی میرے حوالے کر گئے ہیں تا کہ پیچھے سے میں ان کے گھر کی دیکھ بھال کروں ۔اس لیئے کچھ دنوں کے لیئے میرے دوست کا گھر بلکل خالی ہو گا ۔۔اور اگر آپ کہو تو ہم وہاں مل سکتے ہیں ۔۔وہاں آپ کے اور میرے علاوہ کوئی نہ ہو گا ۔۔۔ ہم تم ہوں گے اور ۔۔ ۔۔۔پھر اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑی اور پیار بھرے لہجے میں کہنے لگا ہما جی ۔۔۔ میں آپ کے ساتھ اپنے زندگی کے کچھ لمحے جینا چاہتا ہوں ۔۔۔ میں آپ کے کے گالوں کی سُرخی محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔اور ۔میرےبریسٹ کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔ میں ان چٹانوں کی چوٹیوں کو سر کرنا چاہتا ہوں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرا بھی دل کر رہا تھا کہ میں سمیر کی باہنوں میں جاؤں اور وہ میرے برسیٹ چوسے اور میرے گالوں کو چومے اور بدلے میں میں اس کا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑوں اسے دباؤں اور ۔۔۔۔ اس سے کھیلوں ۔۔ لیکن اس پر میں اپنے ان جزبات کا اظہار نہ کرنا چاہتی تھی اس لیئے میں نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو نا ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ہم بال بال بچے ہیں اس لیئے میں مزید رسک نہیں لینا چاہتی اور اس کی ملنے والی بات سختی سے رد کر دی۔اس نے میری بات سُن کر ہاں میں سر تو ہلا دیا لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور ۔۔اگلے دو تین دن وہ حسبِ معمول میری منتیں کرتا رہا ۔۔۔۔ اندر اندر سے دل میرا بھی بہت کر رہا تھا لیکن بوجہ میں اس پر ظاہر نہ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ خیر ایک دن اس نے حد ہی کر دی اور بولا ۔۔۔ ہما تم کس قدر کھٹور دل ہو میں تمھارے لیئے جیتا مرتا ہوں اور تم ہو کہ مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کرواتی ہو۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنی محبت کے بارے میں بڑی ہی جزباتی سی باتیں کیں ۔جنہیں سُن کر میں پگھل سی گئی ۔۔۔ اور اس کی باتیں سُن کر میرے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا ۔۔۔
      اور میں نے اس سے تنہائی میں ملنے کا پروگرام بنا لی اور اس سے پوچھا کہ کیا گارنٹی ہے کہ تمھارے دوست کے گھرمیں اور کوئی نہ ہو گا ؟؟ مجھے نیم رضامند دیکھ کر اس کی تو باچھیں کھل گئیں اور وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان جیسا کہ میں نے تم کو بتایا ہے کہ دوست کے سارے گھر والے سیر کے لیئے مری گئے ہوئے ہیں ۔۔۔ اور پھر وہ بڑے رومینٹک لہجے میں کہنے لگا کہ میری جان تمھارے لیئے سب سے بڑی گارنٹی تو میں خود ہوں۔۔۔۔ تمھار ا۔۔۔سمیر ۔۔۔ جانی ۔۔۔تمھارا ۔۔لور ۔۔اور تمھارا۔۔ عاشق۔جس کی جان تم میں اٹکی ہوئی ہے اور ۔جو تم پر جیتا مرتا ہے۔۔۔سمیر کی یہ بات میرے دل کو لگی اور ۔یوں میں اس کے ساتھ جانے کے لیئے رضا مند ہو گئی اور اس سے کہا پلیز کل اچھی طرح سے چیک کر کے آنا کہ وہاں آس پاس کسی قسم کا کوئی خطرہ تو نہیں ہو گا ۔۔نا ۔۔اتنے میں وہ گلی ختم ہو گئی اور ہم ایک دوسرے سے الگ الگ ہو گئے۔
      اگلے دن اس نے مجھے آل اوکے کی رپورٹ دی اور پھر اس نے مجھے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اس بات کا بھی یقین دلا دیا کہ میرے وہاں جانے سے کوئی خطرہ نہ ہے اور نہ ہی کچھ ہو گا ۔بس ہم دونوں سکون سے تھوڑی سی دیر بیٹھ کر گپ شپ لگا سکیں گے ۔اور اپنے مستقبل کے بارے میں ڈسکس کریں گے کہ شادی کے بعد کیا کیا کرنا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔میں نے سمیر کی یہ باتیں بڑے غور سے سنیں اور پھر اگلے دن میں نے اس کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔۔۔ جسے سُن کر وہ بہت خوش ہوا ۔۔۔۔اور پھر ہم اگلے دن کا پروگرام طے کرنے لگے ۔۔۔ تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد یہ پروگرام بنا کہ میں کل سکول نہیں جاؤں گی ہاں ابا کے سامنے گیٹ کے اندر داخل ہوں گی اور پھر کوئی بہانہ بنا کر باہر آ جاؤں گی جہاں پر سمیر رکشہ لیکر پہلے سےتیار کھڑا ہو گا اور میں اس کے ساتھ رکشہ میں بیٹھ کر اس کے ساتھ چلی جاؤں گی اور چھٹی کے ٹائم واپس گھر آ جاؤں گی ۔یہ پروگرام طے کر کے وہ تو صبع آنے کا کہہ کر چلا گیا مجھے اس رات نیند نہیں آئی اگلے دن کا سوچ سوچ کر ایک عجیب سی شہوت میرے انگ انگ میں بھرنے لگی ۔۔ اور ۔۔۔ میری چوت سے خواہ مخوہ ہی پانی رسنے لگا تھا ۔۔چنانچہ اس رات میں نے کم از کم تین چار دفعہ اپنے دانے کو خوب مسلا تھا ۔۔۔ اس رات میں کافی دفعہ فارغ بھی ہوئی تھی ۔۔۔۔ لیکن مجھے کسی طور چین ہی نہ آ رہا تھا ۔۔۔ بار بار میری آنکھوں کے سامنے سمیر کا تنا ہوا لن آ جاتا تھا ۔۔۔ جسے سوچ کر میری چوت گیلی ہو جاتی تھی ۔اور نپل اکڑ جاتے تھے ۔۔ اور میرے جسم میں ایک ایسا بارود بھر جاتا تھا ۔۔۔ کہ میں بے قرار ہو کر پھر سے اپنے دانے کو مسلنا شروع ہو جاتی تھی یہاں تک کہ میری چوت کا جوس نکل جاتا ۔۔۔ اسی طرح کرتے کرتے ۔۔جانے رات کے کس پہر میری آنکھ لگ گئی تھی ۔لیکن اس رات خوابوں میں بھی مجھے ہر طرف سمیر کا لن ہی نظر آتا رہا ۔۔ اس طرح کسی نہ کسی طور رات گزر ہی گئی لیکن اگلے دن بہت صبع میری آنکھ کھل گئی اور مجھے پھر سے سمیر اور اس کا لن یاد آ گیا اور میں آیئنے کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔
      ۔۔ اور سمیر کو یاد کر کے اپنے ممے دبانے لگی۔۔۔ پھر میں نے اپنی شلوار بھی اتار دی اور ایک ٹانگ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اور اپنی چوت کو بڑے غور سے دیکھنے لگی جس میں آج سمیر کا لن جانے والا تھا ۔۔۔یہ سوچ کر ایک دفعہ پھر مجھے ہوشیاری آ گئی اور میں نے اپنی چوت کے دونوں لب کھولے اور بڑے غور سے اپنی چوت کے اندر کا معائینہ کرنے لگی ۔میری چوت کا اوپری حصہ بہت گداز تھا ۔۔۔ اور اس پر سنہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔۔۔ سفید رنگ پر سنہرے بال بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔اوپری حصے کی طرح ۔میری چوت کے ہونٹ بھی بہت موٹے موٹے تھے جو اس وقت آپس میں ملے ہوئے تھے اور میں نے ان ہونٹوں کو کھول کر دیکھا تو ان ہونٹوں کے بیچ گلابی رنگ کے چوت کے ٹشو تھے جو اس وقت پانی سے نم تھے ۔اور پھر میں نے اپنی چوت کا سوراخ دیکھا جو بہت چھوٹا تھا اور پھر سمیر کے لن کے بارے میں سوچا جو کہ میری چوت کے سوراخ کی نسبت بہت بڑا تھا ۔۔۔اور سوچنے لگی کہ میری چوت کے اس چھوٹے سے سوراخ میں سمیر کا ہٹا کٹا لن کیس طرح داخل ہو گا ؟؟؟ ۔یہ سوچتے سوچتے مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی اور پھر میں یہ بات سوچتی جاتی اور ساتھ ساتھ اپنے پھولے ہوئے دانے کو بھی مسلتے جاتی تھی ۔ ۔۔۔ یہاں تک کہ میری پھدی نے کوئی ساتویں آٹھویں دفعہ اپنے اندر کا سارا جوس چھوڑ دیا۔۔۔۔۔
      جیسے ہی میں فارغ ہوئی تو اچانک میری نگاہ گھڑی کی طرف پڑگئی اور دیکھا تو میرے سکول جانے کا ٹائم قریب آ گیا تھا چنانچہ میں جلدی جلدی تیار ہوئی اور کھانے کی ٹیبل پر پہنچ گئی میں ناشتہ کر رہی تھی کہ اچانک اماں نے میری طرف دیکھ کر کہا ہما ۔۔ خیر تو ہے یہ تمھاری آنکھوں سے لگ رہا ہے کہ تم ساری رات سوئی نہیں ہو ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں گھبرا گئی اور بولی ۔۔۔ نہیں اماں ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ آج اکھٹے ہی دو تین ٹیسٹ ہیں ۔۔۔اس لیئے ان کی تیاری میں رات دیر تک جاگنا پڑا ۔۔۔ تو میری بات سُن کر اماں کہنے لگی ۔۔۔ بیٹی پڑھو ضرور لیکن اس کےساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو ۔۔۔۔ اور پھر اسی طرح کی باتوں میں اچانک مجھے ایک آئیڈیا ایا اور میں نے ناشتہ کیا اور پھر واش روم کا بہانہ کر کے وہاں سے اُٹھی اور جا کر واش روم میں گھس گئی اور جان بوجھ کر وہاں پر کافی دیر لگا دی ۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ میرے اندازے کے عین مطابق اماں نے دروازے پر دستک دی اور بولی بیٹا جلدی کرو تمھارے ابا دفتر سے لیٹ ہو رہے ہیں اماں کی بات سُن کر میں نے بس آئی کہا اور باہر نکل آئی۔۔۔ گیرج میں ابا گاڑی سٹارٹ کر کے میرے ہی انتظار میں کھڑے تھے ۔۔۔ جیسےہی میں سیٹ پر بیٹھی تو ابا نے گاڑی چلا دی اور بولے ۔۔۔ سوری بیٹا میں آفس سے کافی لیٹ ہو گیا ہوں اس لیئے میں آپ کو سکول کے گیٹ کے آگے نہیں اتار سکوں گا اس لیئے آج آپ کو سڑک کے پاس ہی اترنا پڑے گا ۔۔۔۔ ابا کی بات سُن کر میں اندر سے خوش ہو گئی کیونکہ یہی تو میں چاہتی تھی کہ ابا مجھے گیٹ کے پاس نہ اتاریں کہ اس طرح کوئی نہ کوئی کلاس فیلو مل جاتی تھی اور سکول سے نکلنا مشکل ہو جانا تھا ۔۔۔۔ جبکہ سڑک پر اتارنے سے مجھے اتنا زیادہ رسک نہیں لینا پڑتا تھا کیونکہ ہمارا سکول مین سٹرک سے تھوڑا آگے تھا ۔۔ چنانچہ ابا نے مجھے سڑک پر اتارا اور قبل اس کے کہ میں کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر ان کو ٹا ٹا کرتی ابا پھریہ جا وہ ۔
      جارہی ھے ۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #4
        Shandar aghaz ha ab deakhte han aye kya hota ha

        Comment


        • #5
          اف اف بھائی کیا کمال کہانی ہے ،،میرے تو جذبات سے ہر چیز کھڑی ہو گئی

          Comment


          • #6
            بوہت الا حقیقت کے بوہت قریب شاندار

            Comment


            • #7
              Shuruwaat to bht achi hy

              Comment


              • #8
                زبر دست

                Comment


                • #9
                  Acchi Story Hay

                  Comment


                  • #10
                    چلو جی کڑی تو بڑی ہوگئی ہے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X