Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

تراس

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    ۔ترَاس قسط۔۔۔۔۔5
    ترَاس
    5ترَاس ۔۔۔
    پلنگ کی طرف بڑھتے ہوئے اس خبیث لڑکے کی گندی نگا ہیں میرے ننگے جسم پر ہی گڑھی ہوئیں تھیں اور وہ مسلسل مجھے ہی گھورے جا رہا تھا ۔۔۔تب اچانک مجھے اپنے ننگے پن کا احساس ہوا ۔۔۔۔چنانچہ اس لڑکے کے پلنگ تک پہنچے سے پہلے ہی میں نے بڑی پھرتی سے شلوار پہن لی اورقمیض کو نیچے کر لیا ۔۔۔۔( کیونکہ سمیر نے قمیض کو اوپر کے میرے بریسٹ چوسے تھے) اور اس کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ وہ بڑے ڈرامائی انداز میں پلنگ کے قریب آ کر رُکا اور پھر اس نے اپنا ایک پاؤں پلنگ کے اوپر رکھا اور اپنا خنجر لہرانے لگا۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بڑی ہی حقارت اور تحقیرآمیز لہجے میں مجھ سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ گشتی کی بچی ۔کپڑے کیوں پہنے ہیں ؟؟۔
    چل انہیں ۔ اتار ۔۔۔۔۔۔ اب تمہیں چودنے کی میری باری ہے ۔ ۔۔۔اس کی بات سُن کر میرا تو دماغ ہی اُلٹ گیا ۔۔۔ اس کے باوجود کہ میں ایک ڈرپوک اور بزدل لڑکی تھی ۔۔۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہ تھا کہ میں کوئی گری پڑی ۔۔۔یا سڑک چھاپ لڑکی ہرگز نہ تھی بلکہ میں تو ایک خوشحال گھرانے کی فرد تھی اور اس کے ساتھ چار بھائیوں کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھی۔جسے اس قسم کے القابات سننے کی عادت نہ تھی ۔ ۔۔۔ اور خاص کر گالی تو میں نے کبھی اپنے باپ کی بھی نہ سُنی تھی۔۔اور دوسری بات یہ کہ گالی سے زیادہ مجھے اس لڑکے کے تحقیر آمیز لہجے نے گرم کر دیا تھا ۔۔۔ اس نے جس لہجے میں مجھ سے بات کی تھی ۔۔اس چیز نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔۔۔۔۔ ۔ اور میں بھول گئی تھی کہ اس وقت میری پوزیشن بڑی ہی کمزور تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھا اور بڑے غصے سے بولی۔۔ ۔۔۔ زبان سنبھال کر بات کرو ۔۔۔ میں کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔میری بات سُن کر وہ کسی پنجابی فلم کے ویلن کی طرح ہنسا ۔۔ ۔اور دانت پیس کر بولا ۔۔۔
    ایسی ویسی لڑکی۔۔۔ مادر چود ۔۔۔تو تو جیسے یہاں ۔۔۔عبادت کرنے کے لیئے آئی تھی ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے مدد کے لیئے سمیر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔تو وہ اس لڑکے کے ساتھ اشارہ بازی کر رہا تھا ۔۔۔۔ اور لمحے کے ہزارویں حصے میں ۔۔۔۔۔ مجھے ساری بات سمجھ آ گئی ۔۔کہ یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے تھے اور اب میرے ساتھ ڈرامہ کر کے یہ لڑکا بھی میری لینے کے چکر میں تھا ۔یہ سب جان کر۔۔۔ میرے اندر شہوت کی جگہ ۔۔ سمیر کے لیئے نفرت کی ایک تیز لہر ابھری ۔۔۔ اور اس سے قبل کہ میں سمیر کی طرف سے دئے۔ گئے اتنے بڑے دھوکے سے پھٹ پڑتی ۔۔۔ میں نے بڑی ہی مشکل سے خود پر قابو پایا ۔۔۔اور زہر کے گھونٹ پی کر چپ رہی ۔۔۔۔اور ان پر کچھ ظا ہر نہ ہونے دیا ۔۔۔اور سر جھکا کر بڑے غصے کے علم میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اس دوران مجھے اسی خبیث لڑکے کی آواز سنائی دی وہ سمیر سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ اوے حرامی چل دفعہ ہو جا یہاں سے۔۔۔ اس پر سمیر نے تھوڑا سا احتجاج کیا ۔۔لیکن جب اس لڑکے نے اسے خنجر دکھایا تو سمیر نے کپڑے پہنے اور مجھ سے نظریں چُراتا ہوا ۔۔وہاں سے۔ باہر نکل گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی سمیر کمرے سےباہر نکلا ۔۔۔وہ لڑکا میری طرف متوجہ ہوا اور اسی تحقیر آمیز لہجے میں بولا ۔۔۔۔چل رنڈی ۔۔کپڑے اتار ۔۔۔ مجھے چودنا ہے تجھے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر میرے دماغ میں گرمی سی بھر گئی ۔۔ لیکن میں نے سوائے ۔۔۔ اس کی طرف مجروح سی نظروں کے دیکھنے کے ۔میں نے اور کچھ نہیں کہا کیونکہ مجھے اپنی پوزیشن کا بخوبی پتہ تھا ۔اور میں نے طے کر لیا تھا کہ میں نے جو بھی کرنا ہے حکمت عملی سے کرنا ہے ۔۔۔۔ویسے بھی میں نے جو کرنا تھا اس کے بارے۔۔۔ میں تھوڑی دیر پہلے سارا پلان تیار کر چکی تھی ۔حیرت کی بات تھی کہ عام حالات میں ، میں ایک بے حد بزدل اور ڈرپوک قسم کی لڑکی تھی ۔۔لیکن سمیر کی بے وفائی اور خاص کر اس خبیث لڑکے کے تحقیر آمیز رویے نے میری عزتِ نفس کو بہت زیادہ مجروح کیا تھا۔۔۔۔ اسی لیے موجودہ صورتِ حال میں میرا سارا۔۔۔ ڈر اور خوف دور ہو گیا تھااور اب میرے من میں ڈر اور خوف کی جگہ نفرت نے لے لی تھی ۔۔۔ اورمیں خود بھی اپنے اس رویے پر حیران تھی کہ کیا ۔۔۔یہ میں ہی ہوں ؟ ۔۔ ۔۔ جس کے دل سے نہ صرف یہ کہ سارا ڈر
    کا فور ہو چکا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔بلکہ اس لڑکے کو سبق سکھانے کے لیئے خود بخود ہی میرے زہن نے ایک پلان بھی تیار کر لیا تھا ۔۔۔اور اب اس پلا ن پر عمل کرنے کی باری تھی۔۔۔۔
    پھر پلان کے مطابق میں نے اس کی طرف بڑی ہی مجبور نظروں سے دیکھا ۔اور بولی ۔۔۔ پلیزز مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔۔مجھے اپنی طرف ایسی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اور شیر ہو گیا اور اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے خنجر کی نوک میرے منہ طرف بڑھائی اور پھر اس نے اپنے خنجر کی نوک میرے گال کے قریب کی اور ( اپنی طرف سے) بڑے ہی خوفناک لیکن اسی تحقیر آمیز لہجے میں بولا ۔۔۔۔ کپڑے اتارتی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے دل پر جبر کر کے خوفزدہ ہونے کی ایکٹنک کی اور اس سے بولی۔۔۔۔ کک۔۔۔کک ۔کیا کر رہے ہو؟ اسے تو ہٹاؤ ۔۔۔۔ اور اپنا منہ پیچھے کر لیا ۔۔۔تو وہ حرامی کہنے لگا کپڑے اتارتی ہو کہ میں یہ تمھارے اس خو صورت سے گال ۔۔ کو خنجر کی نوک سے خراب کر دوں ۔۔ اس کی بات سُن کر ایک دفعہ پھر میں نے خوفزدہ ہونے کی ایکٹنک کی اور اس سے بولی۔۔۔ میں ایک شرط پرکپڑے اتاروں گی کہ پہلے تم مجھے اپنا ۔۔وہ۔۔۔دکھاؤ۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ بڑی حقارت سے ہنسا اور اپنے خنجر کو چوم کر بولا ۔۔یہ ہوئی ناں بات ۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔ تم ۔ میرا لن کیوں دیکھنا چاہتی ہو گشتی؟۔
    تو میں نے گشتیوں ہی کی طرح اس کو جواب دیا ۔۔۔ کیا پتہ تمھارے دوست کی طرح تمھارا بھی چھوٹا سا ہو۔۔۔۔اور ہاتھ لگاتے ہی ٹھس ہو جائے ؟۔۔۔میری بات سُن کر وہ میرے جھانسے میں آ گیا اور سینہ پھیلا کر بڑی شیخی سے بولا۔۔ سمیر بہن چود تو پکا مُٹھل ہے ۔۔۔ اس لیئے ہمیشہ ہی وہ جلد فارغ ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ اپنے جملوں پر غور کرتا ۔۔۔ میں نے جلدی سے کہا چل پھر دکھا اپنا۔۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑے ہی فاتحانہ ۔۔۔ لیکن تحقیر آمیز لہجے میں بولا۔۔۔رنڈی میں ۔ابھی دکھاتا ہوں کہ اصلی مرد کا لن کیسا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس نے اپنا خنجر ایک طرف رکھا اور اپنی قمیض کو اوپر کرے اپنی شلوار کا آزار بند کھولنے لگا۔۔۔۔اور پھر اس نے شلوار اتار کر پرے پھینک دی اور اپنا کالا سیاہ مرجھول سا لن جس کے آس پاس کالے رنگ کے بال ہی بال تھے پکڑ کر میری طرف دیکھنے لگا۔اور اسے ہلاتے ہوئے بولا ۔۔ابھی میرا شیر بیٹھا ہے نا اس لیئے تم کو چھوٹا لگ رہا ہو گا ۔۔۔ جب یہ کھڑا ہو گا تو دیکھنا ۔۔۔ اس کے مسلسل ہلانے سے اب اس کا لن نیم کھڑا ہوگیا تھا ۔۔ چنانچہ اب وہ اپنا نیم کھڑا لن مجھے دکھاتے ہوئے بولا ۔۔ ۔
    ۔۔ کیسا لگا۔۔ میرا لن۔۔۔ اس کے لن کی حالت دیکھ کر مجھے تو ابکائی آ رہی تھی لیکن میں نے اس کو رجھانے کی خاطر کہا ۔۔۔ واہ تمھارا ۔۔۔ ناگ تو بڑا زبردست ہے ۔۔میری بات سن کر وہ بڑا خوش ہوا اور فخر سے کہنے لگا۔۔۔ ۔ ابھی تو ٹھیک سے کھڑا نہیں ہوا ۔۔۔ جب یہ پوری طرح سے کھڑا ہو جائے گا نا تو پھر تم اس کی پھنکار دیکھنا اور پھر بولا ۔۔۔ گشتی اب تُو ۔ میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلا ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن میں اسے اندر ہی اندر پی گئی اور۔۔پھر اس کا لن ہاتھ میں پکڑنے کے لیئے میں پلنگ سے کھسک کر اس کی طرف آئی ۔۔۔اور اسی د وران ایک نظر اپنے ساز و سامان پر ڈالی ۔۔۔۔ میری چادر سامنے تپائی پر پڑی تھی۔۔۔ پھر سکول بیگ کے بارے میں سوچا ۔۔۔تو ۔یاد آیا وہ تو ڈرائینگ روم میں ہی رہ گیا تھا ۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے اپنی جوتی کی طرف غور کیا۔۔تو وہ مجھے پلنگ کے پاس ہی پڑی ہوئی ملی۔۔ ۔۔۔اس طرف سے فارغ ہو کر میں پلنگ سے اتری اور ٹانگیں لمکا کر بیٹھ گئی اتنے میں وہ بھی آگے بڑھا اور میرے منہ کے سامنے اپنا لن کر دیا ۔۔۔۔ اس کے لن کے پاس سے ایک عجیب گندی سی بُو آ رہی تھی ۔جسے میں نے بڑی مشکل سے برداشت کیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا لن پکڑ لیا ۔۔۔اور اپنے دائیں ہاتھ کے انگھوٹھے سے اس کے لن کے ہیڈ پر مساج کرنے لگی۔۔۔
    وہ کچھ دیر تو چوکنا ہو کر میری ہر ہر حرکت کو نوٹ کرتا رہا ۔۔۔ لیکن جب میں نے بڑی شرافت سے اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔ اور بڑے پیار سے اس کےہیڈ پر مساج کرنے لگی ۔۔۔تو۔۔۔تو ۔۔ کچھ دیرتک وہ میری طرف دیکھتا رہا ۔۔لیکن پھر اپنے لن پر میرے نرم ہاتھوں کےاور خاص کر اپنے ہیڈ پر ۔مساج سے وہ گرم ہوتا گیا اور اب اس کا لن بھی پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ اور اب میں نے اس کے لن کو پکڑ کر اس کو آگے پیچھے کرنے لگی تھی ۔۔۔ پھر وہ مست ہو گیا اور مستی سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔اسی دوران میں نے غیر محسوس طریقےسے اپنے پاؤں بڑھا کر ان میں اپنی جوتی پہن لی تھی ۔۔ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے لن کو بھی بڑے ہی پیار سے سہلاتی جا رہی تھی ۔۔۔اب وہ پوری طرح مست ہو گیا تھا ۔۔اور میرا خیال ہے کہ وہ اب وہ میری طرف سے پوری طرح مطمئن بھی ہو گیا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ کچھ ہی دیر کے بعد اس نے اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ اور میرے مساج کو انجوائے کر رہا تھا ۔۔پھر میں نے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ شہوت زدہ لہجے میں بولا۔۔۔تھوڑا منہ میں بھی ڈال نا ۔گشتی۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ پہلے مجھے ہاتھ میں پکڑنے کا تو مزہ لینے دو نا ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے ہیڈ پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ اسنے لن کے ہیڈ پر میری زبان کا لمس پاتے ہی اس نے ایک گہری سانس لی اور بولا۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ اور پھر میری زبان کے مزے سے اس کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔۔۔۔ جب وہ پوری طرح مست ہو گیا ۔۔۔ تو
    ا چانک میں نےاپنے دائیں سے بائیں ہاتھ میں اس کا لن پکڑلیا اور ۔۔۔دایاں ہاتھ ہاتھ اوپر کیا اور پھر پوری قوت سے اس کے بالز (ٹٹوں ) پر مکا دے مارا۔۔۔۔۔۔۔
    جونہی میرا مکا اس کے بالز (ٹٹوں ) پر پڑا ۔۔۔ اس خبیث کے منہ سے ایک خوف ناک چنگھاڑ برآمد ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ا س نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے بالز پر رکھے اور ۔۔۔اور اوع۔ع۔ع۔ع۔ کرتے ہوئے نیچے کی طرف جھکنے لگا۔پھر میں نے غصے کی حالت میں اپنی جوتی کی نوک سے اس کے ہاتھوں پر ایک دو تین اور زور دار ککس ماریں جنہیں کھا کر ایک بار پھر اس کے حلق سے ایک غیر انسانی آواز برآمد ہوئی اور وہ ۔۔۔اوع ع۔ع۔ کرتا ہوا ۔۔۔ نیچے فرش پر گر گیا اور لوٹنیاں لینے لگا۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ خبیث فرش پر گرا میں نے جلدی سے سائیڈ پر رکھا اس کا خنجر اُٹھایا اور سامنے پڑی تپائی سے اپنی چادرپکڑی اور بھاگ کر سیدھی ڈرائینگ روم میں جا پہنچی جہاں پر میں نے اچھی طرح سے چادر اوڑھی اور اور اپنا بیگ اٹھا کر تقریباً دوڑتی ہوئی مین گیٹ کی طرف بڑھی۔۔۔حیرت ہے کہ مجھے وہاں کہیں بھی ۔۔۔سمیر نظر نہ آیا۔۔گھر کا مین گیٹ کھلا ۔ہوا تھا ۔۔شاید سمیر باہر گیا تھا ۔۔ خیر میں نے تیزی کے ساتھ گیٹ کھولا اور ۔۔۔ باہر گلی میں آکر ۔۔۔تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی مین روڈ کی طرف چلی گئی۔۔۔ مین روڈ پر چلتے ہوئے ابھی مجھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ مجھے اپنی طرف آتا ہوا ایک رکشہ نظر آ گیا ۔۔۔ جسے میں نے ہاتھ دے کر روک لیا اور اس کو سکول کا اڈریس بتا کر اس میں بیٹھ گئی ۔۔
    چار منٹ بعد ہی رکشہ میرے سکول کے پاس رُک گیا اور میں نے رکشے والے کو پیسے دیئے اور ایک جگہ کھڑی ہو کر سوچنے لگی کہ اب کیا کروں ؟؟؟۔۔۔ کیونکہ اگر اسی وقت میں گھر جاتی تو مجھ سے سو سوال پوچھے جانے تھے ۔۔۔ اس لیئے میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔ پر اندر سے مجھے شدید خوف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں وہ لوگ میرا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک نہ آ جائیں ۔۔ابھی میں اسی شش و پنج میں تھی کہ سکول کی طرف سے مجھے آدھی چھوٹی ہونے کی گھنٹی کی آواز سنائی دی ۔۔۔ اور پھر ایک خیال کے آتے ہی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی اور سنسان گلی میں داخل ہو کر میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔تو گلی خالی تھی چنانچہ میں جلدی جلدی اپنے جسم سے وہی چادر اتاری اور اسے بیگ میں رکھ دیا ۔۔۔اور سکول کے حلیئے میں آ گئی اور پھر چلتی ہوئی اپنے گھر میں داخل ہو گئی ۔۔۔ مجھے یوں گھر داخل ہوتے دیکھ کر اماں بڑی حیران ہوئی اور میری شکل دیکھ کر بولی ۔۔ کیا ہوا بیٹی ۔۔؟ تو میں نے جواب دیا کہ میرے سر میں شدید درد تھا اس لیئے میں ٹیسٹ دے کر چھٹی لے لی ہے۔۔ ۔۔۔ میری حالت دیکھ کر اماں بولی ۔۔۔۔ ٹیسٹ کو دفعہ کرنا تھا ۔۔ تمھاری طبیعت مجھے صبع سے ہی ٹھیک نہ لگ رہی تھی ۔۔۔ اب تم اپنے کمرے میں جاؤ میں ڈسپرین لے کر آتی ہوں ۔۔ میں سیدھا اپنے کمرے گئی اور بنا لباس تبدیل کیئے بستر پر دراز ہو گئی اور آج کے حادثے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
    ابھی میں بیڈ پر جا کر لیٹی ہی تھی کہ اماں ڈسپرین لے کر آ گئی ۔۔۔ میں نے بہتیرا منع کیا لیکن انہوں نے مجھے زبردستی ڈسپرین کے ساتھ پینا ڈول بھی پلا دی ۔۔ اور پھر مجھے آرام کا کہہ کر چلی گئیں ۔۔ جیسے ہی اماں کمرے سے نکلیں ۔۔پتہ نہیں کیوں مجھے رونا آ گیا اور میں نے بڑی کوشش کی کہ میں نہ روؤں پر ۔۔۔۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں کافی دیر تک سرہانے میں منہ دیئے روتی رہی ۔۔۔اور پھر پتہ نہیں کس وقت میری آنکھ لگ۔۔ گئی ۔۔۔شام کو میری آنکھ کھلی تو اس وقت میں خود کو کافی حد تک پہتر محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ پھر مجھے واش روم کی حاجت ہوئی ا ور ۔۔واش روم میں جا کر جیسے ہی میں نے اپنی شلوار اتاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے مجھے ایک ایک کر کے صبع کے سارے سین یاد آ گئے ۔۔۔۔۔ اور میں نے ان پر غور کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اس حرامی کو تو میں نے ایسا سبق سکھا یا تھا کہ مجھے امید تھی کہ آئیندہ وہ کسی لڑکی کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں کرے گا۔۔۔ اس کے بعد میں نے سمیر کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔۔شکل سے وہ کس قدر معصوم اور بھولا بھالا لگتا تھا اور کردار اس کا کس گھناؤنا تھا ۔۔۔۔ ۔۔پھر میں نے سوچا کہ اس نے ۔۔۔ کس قدر مکاری سے اس نے مجھے اپنے شیشے میں اتارا ۔۔۔ تھا ۔۔یہاں میں اپنے پڑھنے والی کم سن لڑکیوں کو جو کہ سکو ل کالج جاتی ہیں ۔۔۔ ہاتھ جوڑ کے ایک نصیحت کروں گی کہ وہ کبھی بھی کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ ڈیٹ پر نہ جائیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ ڈیٹ کے ٹائم بظاہر تو ایک ہی لڑکا ہوتا ہے لیکن فکنگ ٹائم پتہ نہیں کیسے ایک سے دو اور بعض کیسوں میں تین بھی ہو جاتے ہیں اور ۔۔ ضروری نہیں کہ سب کا معاملہ میرے جیسا ہی ہو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد میں نے خود سے وعدہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو ۔۔۔۔آج کے بعد میں کسی بھی اجنبی لڑکے کو نہ تو لفٹ دوں گی اور نہ ہی اس کے ساتھ کہیں جاؤں گی۔۔۔۔ اور یقین کریں اس کے بعد بھی بہت سے لڑکوں نے مجھ پر بڑی بڑی ٹرائیاں کیں لیکن میں نے کسی کو بھی لفٹ نہیں دی تھی ۔۔۔
    اگلے دو تین دن تک میں بیماری کا بہانہ کر کے سکول نہیں گئی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اندر سے میں کافی ڈری ہوئی تھی۔۔۔۔ خیر ۔۔۔ تین دن کے بعد میں سکول گئی اور ڈرتے ۔۔۔ ڈرتے ہوئے واپس آئی۔۔لیکن کچھ نہ ہوا ۔۔۔ مجھے سمیر کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔۔۔۔۔ اور میں مطمئن ہو گئی۔۔۔ پھر اگلے کچھ دنوں تک ایسا ہی چلتا رہا ۔۔۔ یہ اس واقعہ سے کوئی دس پندرہ دن بعد کا قصہ ہے کہ ۔میری طبیعت نارمل ہو گئی تھی اور آہستہ آہستہ وہ خوفناک واقعہ میرے زہن سے اترتا جا رہا تھا۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ نسرین مجھے ٹاٹا کر کے اپنے گھر داخل ہوئی اور میں دھیرے دھیرے اپنےگھر کی طرف چلنے لگی ۔۔۔ ابھی میں نسرین کے گھر سے تھوڑی ہی دور گئی ہوں گی کہ اچانک۔۔۔ پتہ نہیں کہاں سے سمیر نازل ہو گیا۔۔اسے یوں اپنے پاس دیکھ کر میں نہ صرف میں یہ کہ بھونچکا رہ گئی بلکہ اندر سے سخت ڈر بھی گئی تھی ۔۔لیکن میرے خوف سے بے خبر سمیر میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اسی ٹون میں بولا ہیلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔ کیسی ہو ہما ۔؟؟۔۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ میرے اندر کے خوف سے بے خبر ہے تو میں نے ۔۔۔۔ بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بولی کیوں تمھیں اس سے کیا ؟؟؟؟؟؟؟ مجھے غصے میں دیکھ کر اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہنے لگا۔۔۔ آئی ایم سوری یار۔تم جو سزا دو مجھے منظور ہے پر ۔۔۔ پلیز میری بات تو سنو۔۔۔پھر میرا جواب سنے بغیر ہی وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ وہ وہ۔۔ اس دن صورتِ حال ہی کچھ ایسی بن گئی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد اس نے گھڑ کے ایک ایسی جھوٹی کہانی سنائی کہ اگر میں اپنی آنکھوں سے اسے اس لڑکے کے ساتھ ۔۔۔اشارہ بازی کرتے ہوئے نہ دیکھ لیتی تو ۔۔۔۔ فوراً ہی میں نے اس کی گھڑی ہوئی کہانی پر بھروسہ کر لینا تھا ۔۔۔ ۔۔ وہ میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنی بکواس کیے جا رہا تھا ۔۔۔لیکن میں چُپ تھی ۔۔۔۔۔اسی اثنا میں ہماری گلی آ گئی ۔۔ اور وہ مجھے ایک بار پھر سوری کہتا ہوا ۔۔۔ چلا گیا۔
    جاری ھے۔
    Vist My Thread View My Posts
    you will never a disappointed

    Comment


    • #22
      ۔ترَاس قسط۔۔۔۔۔6
      ترَاس
      6ترَاس ۔۔۔
      اگلے دو تین دن تک وہ مسلسل مجھے اپنی بے گناہی کا یقین دلاتا رہا ۔۔۔۔ لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر اچانک ہی ایک دن اس کی ٹون تبدیل ہو گئی اور وہ مجھے دھمکی دیتے ہوئے بولا کہ اس دن جس لڑکے کے ٹٹوں پر تم نے مارا تھا وہ تین دن ہسپتال میں داخل رہا ہے اور اب ٹھیک ہو کر اور مجھ سے تمھارا پتہ مانگ رہا تھا ۔۔ پھر مکاری سے کہنے لگا۔۔۔۔ تم کو معلوم ہے نہ کہ وہ کس قدر خطرناک لڑکا ہے اگر میں نے اس کو تمھارا پتہ دے دیا تو وہ تم کو اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ اور پھر جو حشر وہ تمھاے ساتھ کرے گا اس سے تم بخوبی واقف ہو۔۔۔۔۔ اس لیئے تمھارے لیئے بہتری اسی میں ہے کہ تم میرے ساتھ دوبارہ سے دوستی کر لو۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
      اور پھر وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی دھمکی سے میں کافی حد تک خوف ذدہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس کی بلیک ملنگ نے مجھے مزید مشتعل کر دیا تھا ۔۔۔ویسے بھی چونکہ پانی سر سے بڑھ گیا تھا اس لیئے میں نے سمیر کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
      دوستو۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں ۔۔۔سب سے بڑے فیض بھائی ہیں لیکن میرے سب سے چھوٹے بھائی جن کا نام حمید ہے ان کے ساتھ میری بڑی بنتی ہے اور حمید بھائی کوئی کام نہیں کرتے بلکہ تھوڑی بہت پہلوانی کا شوق تھا۔۔۔ گھر میں ابا کےبعد میرا سب سے پکا ووٹ حمید بھائی ہی تھے میں کیا سارا محلہ انہیں بھا میدا ۔۔ کہتا تھا ۔۔سمیر کی دھمکی نے مجھے کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔ اس لیئے گھر آ کر بھی میں کافی دیر تک اسی کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر میرے زہن میں بھا میدا ۔۔۔ آ گیا ۔۔۔ اور میں اس کی طرف چل پڑی ۔۔ بھا میدے کا کمرہ گھر کے پیچھے کی طرف تھا ۔۔ جہاں پر ایک کمرہ تھا ۔۔۔جسے بھا میدا ۔۔۔۔ اپنا ڈیرہ کہتا تھا ۔۔۔۔ جب میں اس کے کمرے کے قریب پہنچی تو اس وقت وہ کمرے کے باہر ایک بڑے سے ڈول میں چمچ ڈالے کچھ ہلا رہا تھا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا اور خالص لاہوری اور پہلوانی لہجے میں بولا ۔۔ وہ آئی میری پتڑ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔آجا ۔۔پتڑ۔۔۔میں نے بڑے مزے کی سردائی بنائی ہے تُو بھی پی لے۔۔۔ لیکن میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ان کے سامنے دھرے مُوڑھے پر بیٹھ گئی۔۔وہ کچھ دیر تک تو مجھے دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے ڈول میں چمچ ہلانا بند کیا اور اُٹھ کر میرے پاس کھڑے ہو گئے اور ۔۔ میرے سر پر ہا تھ پھیر کر بولے۔۔ کیا بات ہے میرا پتڑ ۔۔۔ بڑ ی پریشان لگ رہی ہو۔۔۔۔ان کے پیار سے پتہ نہیں کیوں میں بلک پڑی اور سسکیاں لے لے کر رونےلگی۔۔۔مجھے روتا دیکھ کر بھا ایک دم گھبرا گیا اور کہنےلگا۔۔۔ بات تو بتا کیا ہوا۔۔۔۔ تب میں نے۔۔۔ ان سے کہا ۔۔ بھا جی ایک لڑکا ہے جو روز مجھے سکول سے آتے ہوئے تنگ کرتا ہے۔۔۔ اور آج اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس سے بات نہیں کروں گی تو وہ مجھے اُٹھا کر لے جائے گا ۔۔۔ میری بات سُن کر بھا میدا ۔۔۔ حیرت سے بولا ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو پتڑ ۔۔۔ ایسا کون ہے جو میدے پہلون کی بہن کو اُٹھانے کی بات کر رہا ہے ؟؟؟ ۔۔۔ اسے معلوم نہیں کہ تم کس کی بہن ہو ۔۔تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ پتہ نہیں ۔۔۔ اسے معلو م ہے کہ نہیں ۔۔۔ لیکن اس نے میری زندگی عذاب کی ہوئی ہے ۔اور میرا سکول سے آنا حرام کیا ہوا ہے ۔۔میری بات سُن کر بھا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔۔۔۔ کما ل ہے یہ بات تم نے پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ آپ کو فیض بھائی کا پتہ ہی ہے ۔۔۔ وہ پہلے ہی میرے پڑھنے کے سخت خلاف ہے ۔۔اس لیئے ۔۔۔ تو میری بات سمجھ کر وہ کہنے لگا۔۔۔ اوہو ۔۔ جھلیئے ۔۔۔ تم نے فیض کو نہیں مجھے بتانا تھا نا ۔۔۔ پھر بولا ۔۔۔ خیر ۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔ میرا پتڑ تم بے فکر ہو کر سکول جاؤ ۔۔ کل کے بعد کوئی لڑکا تو کیا ۔۔ پرندہ بھی تمھاری طرف نہیں دیکھے گا ۔۔۔ پھر اس نے مجھ سے سکول سے واپسی کا ٹائم اور راستہ پوچھا ۔۔۔ میں نے اسے سب بتایا اور جانے لگی تو پھرایک بار پھر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ بھا پلیز ۔۔۔ یہ بات فیض بھائی کو نہ بتانا ۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ بے فکر ہو کے جا ۔۔۔ میرے پتڑ۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا ۔۔۔ اگر ایسی کوئی بات ہو تو پہلے بتا دیا کر۔۔۔ تیرا بھائی ابھی زندہ ہے۔۔۔ اور میں ۔۔۔وہاں سے چلی گئی۔۔۔
      اگلے دن چھٹی کے وقت میں نے دیکھا تو بھا اور اس کے دو تین دوست گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ لیکن مجھے دیکھ کر بھا نے منہ پھر لیا ۔۔۔۔ بھا کو دیکھ کر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور سخت ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں میرا راز نہ فاش ہو جائے ۔۔ لیکن اب تیر کمان سےنکل چکا تھا۔۔۔اور میں کچھ بھی نہ کر سکتی تھی ۔۔۔۔ راستے میں دو تین دفعہ نسرین نے مجھ سے اس بارے پوچھا بھی ۔۔۔ لیکن میں اس کو ٹال گئی ۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد نسرین کا گھر آ گیا اور وہ ۔۔۔ حسبِ معمول ٹاٹا کر کے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔ اس کے جاتے ہی میں بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی لیکن اب میرے قدم من من بھر کے ہوگئے تھے اور ڈر کے مارے مجھ سے ٹھیک سے چلا بھی نہ جا رہا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح میں چلتی رہی ۔۔ نسرین کے گھر سے تھوڑا آگے ہی گئی تھی ۔۔ کہ سمیر ۔۔حسب، معمول ۔۔اچانک ۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔آج اس کے ساتھ وہی خبیث شکل والا لڑکا بھی تھا ۔۔۔ اسے دیکھ کر میری تو روح ہی فنا ہو گئی اور بہت زیادہ خوف ذدہ ہو کر اس لڑکے کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ تبھی ۔۔ سمیر ۔ دھمکی آمیز لہجے میں بولا ۔۔ یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تم ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلو ۔۔۔ تو۔۔۔ یہ تم کو معاف کر سکتا ہے ورنہ ہم مجبوراً تم کو اُٹھا کر لے جائیں گے ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ابھی سمیر نے اتنی ہی بات کی تھی ۔۔۔کہ پیچھے سے بھا نے اس کو گریبان سے پکڑا ۔۔ اور بولا ۔۔۔ کس کو اُٹھا نے کی بات کر رہےہو تم ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟۔۔ میں ایک دم رُک گئی ۔۔۔ تو بھا نےمجھے کہا ۔۔۔میں اس کو اس کے سورمے کو دیکھ لو ں گا ۔۔۔۔ تو گھر جا ۔۔۔۔ اور ۔۔ بھا کی بات سُن کر میں نے ایک بار بھی مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور تیز تیز قدم اُٹھاتی ہو ئی گھر آ گئی۔۔۔۔۔
      مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد سمیر اور اس اوباش لڑکے کے ساتھ بھا میدے اور اس کے دوستوں نے کیا سلوک کیا تھا ۔۔ہاں میں نے ان کا انجام جاننے کی کوشش ضرور کی تھی ۔۔۔ اور اس بارے میں میں نے بھا سے بات بھی کی تھی ۔۔ لیکن میری بات سُن کر اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ ۔۔۔بے فکر ہو جاؤ پتڑ۔۔آج کے بعد کوئی بھی تم کو نہیں ستائے گا۔۔۔۔۔ ہاں میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس دن کے بعد سمیر تو کیا میں نے اس کا سایہ بھی اپنے سکول کے آس پاس نہیں دیکھا ۔۔
      اس واقعہ کا مجھ بڑا شدید جزباتی اور نفسیاتی اثر ہوا تھا ۔۔ اور میں اتنا ڈر گئی تھی کہ میں نے قسم ڈال لی تھی کہ آئیندہ میں کسی راہ چلتے ہوئے کسی لڑکے کو کبھی بھی لفٹ نہیں بھی دوں گی۔اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی بات کروں گی ۔۔ اور اس کے بعد میں بڑے آرام سے گھر سے سکول اور سکول سے گھر آتی جاتی تھی۔۔۔ اس حادثے کا مجھ پر دوسرا اثر یہ ہوا تھا کہ کافی عرصہ تک میں سیکس کو بھول ہی گئی تھی ۔۔ اس طرح ۔۔۔کافی عرصہ بیت گیا ۔۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ میرے ذہن کے پردے سے بھی یہ حادثہ بھی محو ہوتا گیا۔۔۔ ۔۔ اورزندگی اپنےڈگر پہ چلنے لگی ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن میرے پیریڈز ختم ہوئے تھے اور صبع سے ہی مجھے اپنے جسم میں ایک عجیب سی بے چینی نظر آ رہی تھی ۔۔۔ لیکن میں نے اس پر دھیان نہ دیا ۔۔۔اور روز مرہ کے کام کاج کے بعد سو گئی ۔۔۔ رات کا جانے کون سا پہر تھا کہ۔۔۔اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ دیکھا تو میرا سارا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا۔۔۔۔ اور انگ انگ دُکھ رہا تھا اور ایک عجیب سی بے چینی ۔۔۔اور گرمی نے میرے سارے جسم میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔۔ میں بستر سے اُٹھی اور باہر جا کر فریج سے ٹھنڈے پانی کی پوری بوتل پی۔۔۔ لیکن۔کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔۔ گرمی تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لی اور کمرے میں آ گئی ۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت اچانک میری نظریں ۔۔۔ سامنے پڑے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑیں ۔۔۔ اور پھر اچانک۔۔۔ مجھے یاد آ گیا ۔۔۔ کہ یہ اتنی گرمی کیوں آ رہی ہے۔۔ یہ بات یاد آتے ہی میں نے جلدی سے درازے کو لاک کیا پانی کی بوتل تپائی پر رکھی اور کمرے کی لائیٹ آن کر کے ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور ۔۔۔ شیشے کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے دھیرے ۔۔۔۔ اپنے کپڑے اتارنے لگی ۔۔۔ سب سے پہلے میں نے اپنی شرٹ اتاری ۔اور اپنے جسم کو دیکھنے لگی۔۔۔۔میرے موٹے موٹے بریسٹ برا سے ڈھکے ہوئے تھے ۔۔۔ اس وقت میں نے سکن کلر کی برا پہنی ہوئی تھی۔۔ اور سکن کلر کی برا سے میرے اکڑے ہوئے نپل صاف نظر آ رہے تھے ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ابھی برا پھاڑ کر باہر آ جائیں گے ۔ میں نے برا کے اوپر سے ہی ان کو پکڑا اور ان کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلنے لگی۔۔جس سے میرے جسم میں اور آگ بھڑکنا شروع ہو گئی ۔۔ اور میں نے جلدی سے نپلز کو چھوڑا اور برا بھی اتار دی
      ۔۔اب میں آئینے کے سامنے ننگے بریسٹ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ بڑے دنوں کے بعد میں نے شہوت بھری نظروں کے ساتھ اپنے بریسٹ کو دیکھا ۔میرے بریسٹ پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑے ہو گئے تھے ۔۔۔ اور ان کی اُٹھان بھی پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی تھی۔۔ اس پر سونے پہ سہاگہ میرے ۔۔۔ پنک کلر کے نپلز تھے۔ جو میرے اُٹھے ہوئے مموں پر ایک عجیب شان سے اکڑے کھڑے تھے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے ۔۔مجھے اپنے ممے اور نپلز دیکھ کر بڑی ہوشیاری آئی اور میں نےاپنے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑا پھر اپنا سر جھکا یا اور اپنی لمبی سی زبان اپنے منہ سے باہر نکالی اور اپنے نپل کو چاٹنے لگی۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ میرے ایسے کرنے سے نیچے میری چوت میں ہلکی ہلکی آگ لگنا شروع ہو گئی خیر کچھ دیر تک تو میں باری باری اپنے دونوں نپلز کو چاٹتی رہی ۔۔ پھر جب نیچے سے میری پھدی کی فریاد کافی تیز ہو گئی تو میں نے ۔اپنے ممے دبانے اور نپلز چاٹنے بند کر دیئے اور ۔۔۔ ۔۔۔۔پھر میں نے اپنی شلوار اتار کر ایک سائیڈ پر پھینک دی اور ۔۔۔ اب میں ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے الف ننگی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میں نے خود کو دیکھا ۔۔تو ۔شہوت کے مارے ۔۔ میرے نپلز ۔۔۔ میری چوت ۔۔چوت کا دانہ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری چوت کے پھڑکتے ہوئے ہونٹ ۔۔۔۔۔ اور ۔۔میں ۔۔۔ہم سب ۔۔ایک اَن دیکھی آگ میں جل رہے تھے اور یہ آگ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔میرا جسم ٹوٹ رہا تھا
      ۔ اس سے پہلے کہ یہ آگ مجھے جلا دیتی میں نے ا پنی دو انگلیاں اپنے منہ میں ڈالیں اور ان کو اچھی طرح گیلا کیا پھر۔۔۔ پھر میں نے ڈریسنگ ٹیبل والی چھوٹی سی سٹول نما کرسی کو اپنے نزدیک کیا اور اپنی ایک ٹانگ اس پر رکھ دی اور پھر اپنی چوت کے لبوں کو کھو ل کر بڑے ہی غور سے ان کو دیکھنی لگی۔۔میری چوت سے کافی مقدار میں رس ٹپک رہا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے میری چوت کا اندرونی حصہ ۔۔۔ آف وائیٹ پانی سے بھرا ہوا تھا ۔۔ میں نے وہی گیلی انگلیوں کو چوت کے ہونٹوں کے اندر ڈِپ کیا ۔۔اور انگلیوں کو اپنی چوت کے پانی سے اچھی طرح بھگو کر ۔۔۔۔۔۔ اپنے دانے پر رکھا ۔۔۔۔۔ اور ۔انہیں ایک ۔ گول دائرہ سا بنا کر دانے پر آہستہ آہستہ مساج کرنے لگی۔۔۔ دانہ مست تو پہلے ہی تھا ۔۔۔اب ۔۔۔ مزید شہوت میں آ کر ۔۔۔۔ مچلنے لگا۔۔اور مزید پھول گیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے سارے بدن میں ۔۔۔ مزے کی لہریں ۔۔ دوڑنے لگیں ۔۔۔اور ادھر ۔۔ دانے پر مساج کی وجہ سے میری چوت میں چدنے کی خواہش شدید سے شدید تر ہونے لگی۔۔۔۔ اور میری چوت کے ہونٹ بے قرار ہو کر خود بخود ۔۔کُھل بند ہونے لگے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے دانے پر ہلکا مساج چھوڑا اور ۔۔اور اس پر تیز تیز رگڑائی کرنے لگی۔۔ مین جتنی تیزی سے ۔۔۔دانے کو رگڑتی مجھے اتنا ہی زیادہ مزہ ملتا تھا ۔۔۔ پھر میں نے اس دانے کو کو جو رگڑائی کی وجہ سے کافی سُرخ ہو رہا تھا اور تیزی سے رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ تیززززززز۔۔۔ اور۔۔ تیززززززززززززز۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اور مجھ پر ایک عجیب سی خماری چھانے لگی اور اس خماری کی وجہ سے خود بخود میری آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔ اور ۔۔پھر میری پھدی میں ایک شدید قسم کی اکڑن پیدا ہو گئی ۔۔میں ۔۔۔ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئی ۔۔تھی ۔۔۔۔ اور پاگلوں کی طرح اپنے دانے کو رگڑے جا رہی تھی ۔۔۔رگڑے ۔۔جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔ایسا کرتے کرتے میں بے حال سی ہو گئی۔۔۔ اور مجھ میں اپنے دانے پر مزید انگلیاں چلانے کی ہمت نہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھرررررررر۔۔۔بھی میں نے آخری دفعہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے دانے پر ۔۔دونوں انگلیاں پھیریں اور پھر شدتِ جزبات میں آ کر میں نے اپنی پھدی کے نرم گوشت کو اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور اسے بُری طرح مسلنے لگی۔۔۔۔پھدی کا نرم گوشت ۔۔ مسلتے مسلتے ۔۔۔ ایک دم سے میری ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور ۔۔پھر اچانک میری پھدی سے پانی کا ایک سیلاب نکلا ۔۔اور میری ٹانگوں کے راستے نیچے کی طرف بہنے لگا ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ چھوٹ رہی تھی۔۔ خود کو چھوٹتا دیکھ کر ۔۔ مجھ میں مزید ہمت نہ رہی اور میں اپنی پھدی ہاتھ رکھے رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے دم سی ہو کر پلنگ پر گر گئی اور ۔۔۔ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ میری چوت سے نکلنے ولا گرم پ انی نیچے کی طرف بہتا جا رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ بہت عرصے بعد میں نے یہ کام کیا تھا ۔۔ اس لیئے میری چوت ۔۔سے نکلنے ولا پانی کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔۔۔۔پھر ۔لمبے لمبے سانس لیتے ہوئےپتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      سویرے جو پھر آنکھ میری کھلی ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ میں بستر پر ایک عجیب بے ہنگم سے انداز ننگی سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ میری چوت اس آس پاس کے ایریا پر ۔۔۔ گاڑھے ہلکے زردی رنگ کا مادہ لگا ہوا تھا اور۔۔ بستر کی چادر میری چوت کا پانی جزب کر کر کے اکڑی ہوئی تھی ۔۔گویاکہ میری صبع کہہ رہی تھی میرے رات کا فسانہ۔۔۔ ۔۔اور رات کے واقعہ کے بعد میں کافی فریش ہو گئی تھی۔۔۔اور میں نےخود کر کافی ہلکہ پھلکا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      پھر اس کے بعد میں اپنی اُسی پرانی روٹین پر آ گئی اور ہر دوسرے تیسرے دن ۔۔۔ اپنی انگلیوں سے کام چلا کر اپنا گزارہ کرنے لگی۔۔۔ا س دوران کافی لڑکوں نے مجھ پرڈورے ڈالنے کی کوشش کی لیکن میں نے کسی کو کوئی لفٹ نہ دی ۔۔ میں خاموشی سے سکول اور سکول سے گھر آتی تھی ۔۔۔ یوں میرے کیس سے بات نہ کرنے اور نہ ہی کسی کو لفٹ کرانے سے گلی محلے میں میری شہرت ایک شریف لڑکی کی بن گئی ۔۔۔ کالج پہنچنے تک میں اپنے آپ سے بہت زیادہ لزت حاصل کر تی رہی ۔۔اور اب چونکہ میں فُل جوان ہو گئی تھی اس لیئے اب میری چوت انگلیوں کے علاوہ ۔۔۔۔۔ کچھ اور چیز بھی ڈیمانڈ کر نے لگی تھی ۔۔ اور چونکہ میں نے اپنے آپ سے پکا وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں باہر کسی بھی لڑکے کو لفٹ نہ دوں گی۔۔اور میں اپنے وعدے پر قائم تھی ۔۔ اس لیئے ۔۔ میں نے کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالے رکھا تھا ۔۔۔۔۔ پھر میرے بڑے بھائی فائق کی شادی آ گئی ۔۔۔بھائی کو ایک ملٹی نیشن کمپنی میں ایک بہت اچھی جاب ۔مل گئی تھی۔۔۔ اور وہاں سیٹ ہوتے ہی انہوں نے ابا اماں کو اپنی پسند بتا دی تھی بھائی کی پسند یدہ لڑکی کا نام عطیہ تھا ۔۔عطیہ کی امی اور میری اماں آپس میں دور پار کی کزن بھی تھیں ۔ وہ لوگ بہاولپور رہتے تھے اور بھائی نے اماں کی فیملی کے کسی فنگشن میں عطیہ بھابھی کو دیکھا تھا اور تب سے اس پر لٹو ہو گیا تھا ۔۔۔میرے ولدین نے بھائی کی پسند قبول کر لی اور پھر ۔۔ اماں نے اپنی فیملی کی ۔۔۔ایک دو عورتیں بیچ میں ڈالیں اور ۔۔ ان لوگوں سے عطیہ بھابھی کے رشتے کی بابت پوچھا ۔۔تو ۔۔۔ انہوں نے جھٹ سے ہاں کر دی ۔۔۔ اس کی ایک وجہ ہم لوگوں کا خوشحال ہونا ۔۔۔۔ اور دوسری وجہ۔ ۔۔۔۔ لڑکے کی بہت اچھی جاب ہونا تھی جبکہ تیسری اور سب سے آخری وجہ یہ تھی کہ ۔۔۔ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے ۔۔اور یہ ایک طرح سے ان کے پسند کی شادی تھی۔۔۔۔۔ چنانچہ ادھر سے ہاں ہوتے ہی ۔۔اماں ۔۔ابا۔۔ فیض بھائی کی بیوی ۔۔۔ اورمیں۔۔بہالپور چلے گئے ۔۔۔ اور نہ صرف یہ کہ وہاں جا کر ہم فائق بھیا کی منگی کر آئے بلکہ شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئے ۔
      بہاولپور سے واپس آتے ہی اماں نے بڑے زور وشور سے فائق بھائی کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ۔۔۔ چونکہ شادی میں وقت کم تھا ۔۔۔ اس لیئے ہر کام جلدی جلدی ۔۔۔ میں ہو رہا تھا ۔۔۔اور پھر اسی گہما گہمی میں شادی کے دن نزدیک آگئے ۔۔۔ جیسے ہی شادی کے دن قریب آئے اماں نے چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے اپنے گاؤں سے دو تین کامے (کام کرنے والے ) منگوا لیئے تھے ۔۔جو دو عورتوں اور ایک مرد پر مشتمل تھا ۔۔۔ عورتیں گھر کے کام کاج اور خاص کر کچن کے کام کے لیئے تھیں اور مرد ۔۔ جس کا پورا نام تو پتہ نہیں کیا تھا پر سب اس کو جیدا سائیں کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔ جیدا سائیں اچھے ڈیل ڈول والا ۔۔ پکی عمر کا ۔۔۔۔ مضبوط جسم اور گہری سانولی رنگ والا آد می تھا ۔۔۔ ہمارے گھر ہر غمی خوشی کے موقعہ پر باقی لوگوں کے ساتھ جیدا سائیں ضرور آیا کرتا تھا ۔اس کے علاوہ بھی جیدے سائیں کا جب بھی لاہور آنا ہوتا تھا تو وہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا ۔۔بلکہ ہمارے پاس ہی رہا کرتا تھا ۔یہ شخص اماں لوگوں کا خاندانی نوکر تھا اس لیئے اماں اس کا بڑا لحاظ کرتی تھیں اور اپنی ہر غمی خوشی کے موقعہ پر اسے ضرور بلایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔ جیدا اچھا خاصہ سیانہ بیانہ اور عقل والا آدمی تھی اور کسی طرف سے بھی سائیں نہ لگتا تھا ۔۔ ۔۔ مجھے یاد ہے کہ ۔۔ ایک دفعہ میں نے اماں سے ویسے ہی مزاق میں پوچھا تھا کہ اماں یہ جیدا تو اچھا خاصہ عقل مند آدمی ہے ۔۔ پھر اسے سائیں ۔۔سائیں ۔۔کیوں کہتے ہیں تو اماں نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ بیٹا۔۔۔ جیدے کو سائیں کا خطاب ۔۔ تمھارے نانا نے دیا تھا ۔۔۔وہ یوں کہ بچپن میں یہ ۔۔۔ بہت سادہ اور موٹی عقل والا بچہ تھا جس کو بڑی مشکل سے کوئی بات سمجھانا پڑتی تھی ۔۔۔ ایک دن تنگ آ کر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ یار جیدے ۔۔تو ۔۔۔تو سائیں لوک ہے ۔۔ بس اسی دن سے سائیں کا یہ دم چھلا اس کے نام کے ساتھ لگ گیا ہے۔ ۔۔۔
      یہ سہ پہر کا وقت تھا کہ جب جیدا سائیں گاؤں کی دو عورتوں کو لیکر ہمارے گھر آ گیا ۔۔۔ چائے پانی کے بعد اماں نے عورتوں کو تو مختلف ڈیوٹیوں پر لگا دیا ۔اور حسبِ معمول جیدے کو اپنے پاس بٹھا کر اس سے گاؤں کا حال احوال لینے لگیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت اماں چارپائی پر بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی "چوکی " پر جیدا بیٹھا ان کو گاؤں کے حالات سنا رہا تھا ۔۔۔ جو کہ اماں بڑے شوق سے نہ صرف سُن رہیں تھیں بلکہ بیچ بیچ میں کرید کرید کر مختلف سوالات بھی پوچھے جا رہیں تھیں کہ فلا ں کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔چونکہ میرے لیئے یہ خاصہ بورنگ سبجیکٹ ہوتا تھا ۔۔ اس لیئے جیسے ہی جیدے سائیں نے گاؤں کی روداد سنانی شروع کر دی تو میں کسی حیلے بہانے سے وہاں سے کھسک آئی ۔۔۔ میری دیکھا دیکھی وہاں پر بیٹھی اور بھی رشتے دار خواتین آہستہ آہستہ وہاں سے کھسکنا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور حسبِ معمول آخر میں ۔۔ اماں اور جیدا سائیں ہی رہ گئے ۔۔جو بڑے جوش میں اماں سے گاؤں کے حالات شئیر کر رہا تھا۔۔۔
      یہاں میں آپ کو ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ برآمدے میں جس جگہ اماں بیٹھی چاول صاف کر رہیں تھیں وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے عین سامنے تھی ۔۔۔اور پوزیشن یہ تھی کہ میری کھڑکی سے تھوڑی ہی دور چارپائی پر اماں بیٹھی تھیں ۔۔ اوراماں کے عین سامنے جس چوکی پر جیدا سائیں بیٹھا اماں کو گاؤں کے حالات سے آگاہ کر رہا تھا ۔۔۔ وہ جگہ میرے کمرے کی کھڑکی کے بلکل نیچے واقعہ تھی ۔۔۔
      جیدے اور اماں سے اُٹھ کر میں سیدھی ڈرائنگ روم چلی گئی تھی جہاں پر فیض بھائی کی بیگم اپنی دوستوں/رشتے داروں کے ساتھ بیٹھی گپیں لگا رہیں تھیں اور ٹاپک یہی شادی کی تیاریاں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوئی تو بھابھی مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ کیا صورتِحال ہے امی کے پنڈ کی؟؟؟
      تو میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔ جیدا سائیں ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ میں وہاں سے کھسک آئی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر میں ا ن کے سامنے صوفے پر جا بیٹھی ۔۔۔۔ اور ہم باتیں کرنے لگیں ۔۔ دورانِ گفتگو بھابھی کی ایک دوست نے کہا کہ ۔۔۔ تمہارا شادی کا سوٹ کیسا ہے ؟ تو بھابھی نے اپنے سوٹ کی تفصیل بتانی شروع کر دی اور پھر کپڑوں سے ہوتی ہوئی بات جوتوں کے ٹاپک پر آ گئی۔۔۔ جیسے ہی جوتوں کا ٹاپک شروع ہوا تو ۔۔۔ بھابھی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ۔یار جوتی تو ہما لے کر آئی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ تھوڑی مہنگی ہے پر۔۔۔۔ کیا یونیک سٹائل ہے اس کا ۔۔۔۔ پھر وہ مجھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔ ہما۔۔ ذرا اپنی مہرون والی جوتی تو لیکر کر آنا جو کل شام تم امی کے ساتھ لبرٹی سے لائی تھی ۔۔۔۔ میں نے بھابھی کی بات سُنی اور جی اچھا کہہ کر اُٹھی اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔
      ۔۔۔۔۔۔۔۔
      جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #23
        یہ ایک بہت ہی بہترین کہانی ہے

        Comment


        • #24
          Zabardast update ji.. huma ka commando action

          Comment


          • #25
            زبر دست

            Comment


            • #26
              ترَاس قسط۔۔۔۔۔7
              ترَاس
              7ترَاس ۔۔۔
              میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔سامنے ریک پر وہ مہرون رنگ والی جوتی ڈبے میں پڑی تھی ۔۔۔میں چلتی ہوئی ریک کے پاس پہنچی ۔اور۔۔۔ ۔۔ہاں میں آپ کو یہ بات بتانا تو بھول ہی گئی ہوں کہ میرا جوتیوں والا ریک کھڑکی کے پاس رکھا ہوا تھا ۔۔۔اور دن کے وقت عموماً میں اپنی کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے رکھتی تھی ۔۔ اس زمانے میں میری کھڑکی پر باریک سی لوہے کی جالی لگی ہوتی تھی ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس جالی کا یہ کمال ہے کہاگر کمرہ اندر سے روشن ہو یعنی کہ کمرے کی لائیٹ آن ہو تو باہر والے کو اندر کا سین نظر آتا ہے اور اگر کمرہ روشن نہ ہو تو باہر سے کچھ نظر نہیں نظر آتا ہے۔۔ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں چلتی ہوئی گئی اور ریک سے اپنی جوتی کا ڈبہ اُٹھایا ۔۔۔ اور واپس ہوتے وقت حسبِ عادت ایک نظر باہر ڈالی تو سامنے اماں اور جیدا بیٹھے نظر آئے ۔۔۔ میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور جیسے ہی واپسی کے مُڑی میرے کانوں میں اماں کی ۔۔۔۔کھنکھناتی ہوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ وہ جیدے سائیں کی طرف دیکھ کر کہہ رہیں تھیں ۔۔۔۔ ایہہ ۔۔شیطان اجے مریا نئیں؟؟؟۔
              ۔(یہ شیطان ابھی مرا نہیں )۔ اماں کی بات سُن کر میں تھوڑی حیران ہوئی کہ اماں سائیں سے کس شیطان کے مرنے کی بات کر رہیں ہیں؟ پھر میں محض اپنا تجسس دور کرنے کے لیئے کھڑکی کے اور قریب چلی گئی اور کان لگا کر ۔۔۔۔ اوراماں اور سائیں کے درمیان ہونے والی باتیں سننے لگی۔۔۔ چونکہ میرے کمرے کی لائیٹ ۔۔۔ آف تھی اس لیئے مجھے باہر سے دیکھے جانے کا کوئی ڈر نہ تھا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر سائیں بولا ۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ ایہہ شیطان تے مریا ہویا سی ۔۔۔ پر ۔۔۔ تہاڈے سوہنے جئے پٹ ویکھ کے ۔۔۔۔ ایدے کولوں ریا نہیں گیا ۔۔۔( باجی یہ شیطان تو مرا ہوا تھا لیکن آپ کی خوب صورت رانیں دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا ) ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میں نے ایک دم اماں کی طرف دیکھا تو واقعہ ہی وہ چارپائی پر اس اس زاویہ سے بیٹھی ہوئیں تھیں کہ جس سے ان کی بڑی سی گانڈ اور موٹی موٹی لیکن سیکسی رانیں ۔۔واضع طور نظر آ رہی تھی۔۔میرا خیال ہے کہ اماں کی سیکسی گانڈ دیکھ کر ہی سائیں کا شیطان (لن) کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔اماں اور جیدے کی یہ گفتگو سُن کر میرا رنگ سُرخ ہو گیا ۔۔۔ادھر اماں سائیں کی بات سُن کر کہہ رہیں تھیں۔۔ اب میری رانیں کہاں خوب صورت رہی ہے ۔۔۔ ہاں کسی زمانے میں یہ بڑی بمب ہوتی تھیں ۔۔۔ تو سائیں کہنے لگا ۔۔۔ نیلو باجی ۔۔۔آپ کی رانیں اور۔۔۔گانڈ اب بھی بڑی بمب ہے ۔۔۔دیکھو ۔۔ نا باجی ان پر ایک نظرپڑتے ہی میرا لن کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔۔ چونکہ جیدے سائیں کی میری طرف پشت تھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے اس کا لن نظر تو نہیں آ رہا تھا ۔۔ لیکن میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ۔ان کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا اور ۔۔۔ ان کی نظریں سائیں کی دو ٹانگوں کے عین بیچ میں گڑھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور وہ بڑے غور سے جیدے سائیں کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ جیدے !! اپنی دھوتی کو تھوڑا اور کھول ۔۔۔ اور اپنا سارا لن میرے سامنے کر ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے سائیں کی طرف دیکھا تو چوکی پر بیٹھے بیٹھے وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول رہا تھا ۔۔۔ اور پھر شاید اس نے اپنے لن کو پورا ۔۔۔ ننگا کر لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے اماں کی طر ف دیکھا تو وہ جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان درمیان دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں ۔۔۔ اور جیدے کا لن دیکھتے ہوئے ان کے گال جوش کی وجہ سے تمتما رہے تھے ۔۔۔اور اماں کی آنکھوں میں سائیں کے لن کے لیئے ۔۔شہوت صاف نظر آرہی تھیں ۔۔ اماں نے کچھ دیر تک جیدے کے لن کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔۔ اور پھر ۔۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ جیدے ایہہ شیطان پہلے توں کُج زیادہ ووڈا تے موٹا نئیں ہو گیا؟ ( جیدے تیرا لن پہلے سے کچھ زیادہ بڑا اور موٹا نہیں ہو گیا ؟) تو میں نے دیکھا کہ اماں کی بات سُن کر جیدے سائیں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے کیا اور غالباً اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اے گل نئیں نیلو باجی۔۔ چونکہ ۔ تُسی بڑے عرصے بعد اس شیطان نوں دیکھیا اے ۔۔۔ اس لیئے ایہہ تہانوں وڈا ۔۔وڈا ۔۔ لگ رہیا اے ۔۔( ایسی بات نہیں ہے نیلو باجی ۔۔ چونکہ آپ نے بڑے عرصے بعد میرا لن دیکھا ہے اس لیئے آپ کو کچھ زیادہ بڑا بڑا سا لگ رہا ہے) جیدے کی بات سُن کر اماں بولیں ۔۔۔۔۔تیرا شیطان ویکھ کے میں تے گیلی تے گرم ہو گئیں آں ۔۔۔(جیدے تیرا لن دیکھ کر میری چوت گیلی اور میں گرم ہو گئی ہوں )
              پھر میں نے دیکھا کہ جیدے سائیں کا اپنی ٹانگوں میں گیا ہوا ہاتھ ۔۔۔ تیزی سے ہل رہا ہے ۔۔۔۔ میرے خیال میں وہ اماں کو رجھانے کے لیئے ان کے سامنے مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔ یا شاید وہ اماں کے سامنے اپنا لن ہلا ہلا کر ۔۔ان کو ترسا رہا تھا ۔۔اور میں نے اماں کی طرف دیکھا تو ان کی نظریں ابھی بھی جیدے کی ٹانگوں کے درمیان اس کے لن پر گڑی تھیں ۔۔اور وہ جیدے کے لن کو دیکھ کر مسلسل اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہیں تھیں اور ہوس کے مارے ان کے گال لال ٹماٹر ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ ان کا بس نہیں لگ رہا ورنہ وہ ابھی جیدے کا لن اپنے اندر لے لیتیں۔۔۔ پھر میں نے جیدے کی ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ اسے ہلاتے ہوئے اماں سے کہہ رہا تھا ۔۔۔نیلو باجی فئیر کی خیال اے اَج ہو نہ جائے ؟ ( نیلو باجی پھر کیا خیال ہے آج فکنک نہ ہو جائے) جیدے کی بات سُن کر امان نے ایک بار پھر اس کے ہلتے ہوئے لن کی طرف دیکھا اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولیں ۔۔۔ نہیں آج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ کام کل کریں گے ۔۔۔تو جیدا بولا ۔۔ باجی اپنی گانڈ دکھا کر گرم تم آج کیا ہے اور دو گی کل۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک بات نہیں ۔۔۔ تو اماں مسکرا کر بولی ۔۔۔ تم کو گرم کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔ پھر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گئیں تمہیں پتہ ہے کہ میرا گھر بہوؤں بیٹوں والا گھر ہے اور اوپر سے کافی مہمان بھی آئے ہوئے ہیں ۔۔اس لیئے آج نہیں ہو سکے گا ۔۔۔ ہاں کل فائق کی مہندی ہے ۔۔۔ اور میں نے دو تین بیوٹی پارلر والیوں کو گھر پر بُلایا ہے تا کہ لڑکیاں تیار کر سکیں ۔۔ اور تم کو پتہ ہے بیوٹی پارلر والیوں جب گھر آئیں گی تو سب لڑکیاں اور عورتیں ان کے ہی آس پاس ہوں گی اور اس دوران میں اور تم سٹو ر میں چیزیں نکلالنے کے بہانے ۔۔اپنا کام کر لیں گے ۔۔۔
              اماں کی بات سُن کر جیدا قدرے مایوسی سے بولا ۔۔۔ جیسے تمھاری مرضی ۔۔نیلو۔۔۔۔۔پر کل منکر نہ ہو جانا ۔۔۔تو اماں اس کی بات سُن کر بولی۔۔ فکر نہیں کرو میں ہر گز منکر نہیں ہوں گی ۔۔۔ کیونکہ کافی دنوں سے میں خود بڑی گرم ہو رہی ہوں ۔۔ اور میری پھدی ایک سخت لن مانگ رہی ہے ۔۔تو اماں کی بات سُن کر جیدا کہنے لگا۔۔۔ کیا بات ہے آج کل بھائی جان آپ کی نہیں مار رہے ؟؟ ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ وہ تو بس اب مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہی مارتا ہے ۔۔ لیکن اب اس کے لن میں وہ تڑ نہیں رہی ۔۔ بلکہ کافی ڈھیلا ہو گیا ہے اور تم کو پتہ ہے کہ میری چوت کو تمھارے جیسا ایک سخت اور اکڑا ہوا لن چاہیئے ۔۔۔
              پھر اچانک اماں جیدے سے کہنے لگیں ۔۔۔ لن کو دھوتی میں کر لو ۔۔ اور گاؤں کی باتیں شروع کر دو کہ ایک عورت ہماری طرف آ رہی ہے ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں نے بھی سامنے دیکھا تو ۔۔۔ فیض بھائی کی ساس اماں کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔
              اماں اور جیدے کی باتیں سُن کر ایک بات تو مجھے کنفرم ہو گئی کہ اماں اور جیدے کا بڑا پرانا معاملہ چل رہا تھا۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ان کی باتیں سُن سن کر میں بڑی گرم ہو گئ تھی ۔۔۔ اور اسی گرمی کے تحت میں نے اپنی الاسٹک والی شلوار میں اپنا ہاتھ ڈالا اور چوت کو چیک کیا ۔۔ ۔۔۔ تو اماں کی طرح میری چوت بھی کافی گیلی ہو رہی تھی پھر میں نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھا ۔۔۔تو۔۔۔۔تو وہ گرم آگ ہو رہی تھی۔۔۔ اور میں اپنی گرم پھدی پر مساج کرنے لگی۔۔۔ اپنی چوت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے مجھے جیدے سائیں کا لن یاد آ گیا ۔۔۔ اورمیں سوچنے لگی ۔۔ کہ جس لن کی تعریف اماں جیسی جہاندیدہ اور ۔۔۔۔ میچور خاتون کر رہیں ہیں وہ لن کیسا ہو گا ؟؟؟؟؟۔۔۔۔ اور پھر میرے اندر سے جیدے سائیں کا لن دیکھنے کی خواہش بڑھنے لگی۔۔۔ اور پھر جیدے کا لن دیکھنے کی میری خواہش جب شدید ہو گئی تو میں نے اپنی شلوار سے ہاتھ نکلا اور سوچنے لگی۔۔۔ کہ میں جیدے سائیں کا لن کیسے دیکھوں ؟؟ سوچتے سوچتے ایک آئیڈیا میرے دماغ میں آیا اور میں نے ۔۔۔ جوتی کا ڈبہ اُٹھایا اور بھابھی کی طرف چل پڑی۔۔۔
              وہاں جا کر میں نے جوتی کا ڈبہ بھابھی کے حوالے کیا اور خود باہر آ گئی۔۔۔ اور سیدھی اماں کے پیچھے جا کر ۔۔ بیٹھ گئی کہ۔۔۔اور ان کے کندھے دبانے لگی۔۔۔اماں کے ساتھ فیض بھائی کی ساس بیٹھی ہوئیں تھیں اور سامنے جیدا سائیں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔۔۔ میں بظاہر تو اماں کے کندھے دبا رہی تھی لیکن میری نظریں جیدے سائیں کی ٹانگوں کے درمیان تھیں ۔۔۔ گو کہ جیدے سائیں نے اپنے لن کو دھوتی کے اندر کر لیا تھا لیکن ۔۔مجھے ۔۔۔ابھی بھی دھوتی میں سے اس کے لن کا ابھار نظر آ رہا تھا۔۔۔ مجھے اماں کے کندھے دباتے ہوئے دیکھ کر فیض بھائی کی ساس بولی۔۔۔۔ کیا بات ہے پتر اپنی اماں کی بڑی خدمتیں ہو رہیں ہیں ۔۔۔۔ ان کی بات سُن کر میری بجائے اماں ہنس کر بولیں ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ کیوں میری خدمت کر رہی ہے ۔۔۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ہاں جی میری گڑیا کو کیا چاہیئے۔۔۔۔ ؟؟ میں نے محض جیدے سائیں کے لن کے لیئے اماں کے پاس آئی تھی اور ابھی بھی میری نظریں اس کی دھوتی کے ابھار پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اماں کی بات سن کر ایک دم چونک گئی اور ۔۔۔ پھر سوچتے ہوئے بولی۔ اماں کل جو لبرٹی میں شاکنک پنک ۔۔۔ جوڑا دیکھا تھا ۔۔۔ لے دو نا۔۔۔ اور پھر جیدے سائیں کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ ادھر میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں۔۔۔ تم کو اتنے سوٹ جو لے کر دیئے ہیں ۔۔۔ وہ کافی نہیں ہیں کیا۔۔؟ تو میں نے جیدے کے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اماں پلیز !!!! ۔۔۔ تو میری بات سُن کر اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ایسے ہی میرے کندھے دباتی رہو میں غور کرتی ہوں ۔۔۔ اور میں اماں کے کندھے دبانے لگی اور ساتھ ساتھ جیدے سائیں کے لن پر نظریں گاڑھے رکھیں۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھ کر اور خاص کر اپنی دھوتی کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر جیدا سائیں کچھ بوکھلا سا گیا ۔۔۔ اور اس نےجلدی سےاپنا لن اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں کیا اور ان کو جوڑ لیا ۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ لیکن اس وقت میں اتنی گرم ہو رہی تھی کہ پھر بھی میں نےاس کی ٹانگون کے بیچ میں دیکھنا جاری رکھا ۔۔۔ جلد ہی جہاندیدہ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ عورتوں کا شکاری ۔۔۔(یہ بات مجھے بعد میں پتہ چلی) جیدا ۔۔۔ میری تکلیف سمجھ گیا ۔۔ اور پھر اس نے ایک نظر میری ماں کی طرف دیکھا جو بڑے زور و شور سے فیض بھائی کی ساس کو شادی کی شاپنگ کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔ اور بڑے طریقے سے اپنی ٹانگوں کو کھول دیا اور اپنا لن کو میرے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ۔ف۔ف۔۔ف میں دیکھا تو اس کی دھوتی میں ایک بہت بڑا تنبو سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میں لال ہو گئی اور میری پھدی پہلے سے زیادہ گیلی ہو گئی۔۔۔ جیدے نے اپنے لن کی بس ایک جھلک ہی مجھے دکھائی اور پھر وہ چائے پینے لگا ۔۔۔ اور بڑی خاص نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے میں تھوڑا گھبرا گئی اور میں نے اپنی نظریں نیچی کر لیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد جیدا چوکی سے اُٹھا اور اماں کو مخاطب ہو کر بولا ۔۔۔۔ باجی میرے لئے کیا حکم ہے ۔۔۔؟؟ ۔۔۔تو اماں نے اسے ایک چھوٹا سا کام دیا اور بولیں یہ کر کے جلدی کہ تم کو اور بھی کافی کام کہنے ہیں ۔۔۔جیسے ہی جیدا گیا ۔۔۔ میرے لیئے وہاں بیٹھنے کی کشش ختم ہو گئ تھی اس لیئے میں نے اما ں سے پوچھا ۔۔۔ اماں جی مجھے وہ سوٹ لے دو گی ناں؟ تو اماں بولی ۔۔ ایک شرط پر۔۔۔کہ تم مجھے دس منٹ تک اور دباؤ۔۔۔۔۔
              جیسے تیسے اماں کو دبا کر میں اُٹھی اور وہاں سے جانے لگی تو آگے سے مجھے جیدا نظر آ گیا ۔۔۔اس نے مجھے دیکھ کر کہا ۔۔ ایک منٹ گڈی۔۔۔۔ اور پھر اماں کے سامنے مجھے کھڑا کر کے بولا۔۔۔ نیلو باجی ۔۔ آپ کی لڑکی بلکل آپ پر گئی ہے۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔ جیوندی رہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔اور پھر اپنا ہاتھ میرے سر سے پیچھے لے آیا اور میری گانڈ پر ہاتھ لگا کر اسے تھوڑا سا دبا دیا۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ لیکن میں نےکوئی رسپانس نہ دیا۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔
              اسی دن رات کا واقعہ ہے کہ ۔۔ ہم سب مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے جبکہ دو کام والیاں اور جیدا ہمیں کھانا وغیرہ دینے کے فراض سر انجام دے رہے تھے ۔۔۔ جب کھانا ختم ہوا ۔۔۔ اور باقی سب تو اُٹھ کر چلے گئے بس ابا ہی رہ گئے جو کہ جیدے کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے۔۔۔ اچانک میں کسی کام سے وہاں گئی تو جیدے نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور ابا کے سامنے کر کے بولا۔۔۔۔ میاں جی ۔۔۔ آپ کی یہ لڑکی تو بلکل اپنی ماں پر گئی ہے اور پھر ابا کے سامنے ہی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ۔۔۔ پھر ہاتھ کو واپسی کے بہانے میرے بریسٹ کے ساتھ پریس کر دیا۔۔۔۔ادھر ابا نے اس کی بات سنی اور بولے ۔۔ ہاں یار ۔تم ٹھیک کہتے ہے ۔۔ ہما بلکل ۔۔۔اپنی ماں کی کاپی ہے ۔۔ جیدا ۔۔۔ جو بڑے طریقے سے میرے پیچھے ہو گیا تھا ۔نے ۔ابا کی ہاں میں ہاں ملائی اور اپنا ہاتھ بڑھا کر واضع طور پر میری گانڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ میرے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔ اور میں نے بھی اپنی گانڈ کو غیر محسوس طریقے سے تھوڑا پیچھے کیا اور اس نے اپنی ایک انگلی میری گانڈ کی دراڑ میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔
              اگلے دن پھر اس نے اس طرح کے ایک دو ہاتھ کیئے اور بہانے سے میرے بریسٹ اور گانڈ دبائی ۔۔۔ لیکن اس کے علاوہ ۔۔۔ اور کچھ کرنے کا اسے موقعہ نہ ملا۔۔۔اسی طرح شام ہونے کو آئی ۔۔۔ اور اماں نے سب لڑکیوں کو بلا کر کہا کہ مہندی کے فنگشن کی تیاری کے لیئے میں نے دو تین بیوٹی پلرز والی خواتین کو بلایا ہے وہ بس آتی ہی ہوں گی۔۔۔ اماں کی بات سُن کر میں چپکے سے وہاں سے نکل آئی اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سیدھی سٹور روم میں پہنچی۔۔۔۔ ہمارے گھر کا سٹور گیلری کے بلکل آخر میں واقعہ تھا ۔۔ اور وہاں پر عام حالات میں بھی کوئی آتا جاتا نہ تھا ۔۔لیکن آج چونکہ خاص موقعہ تھا اس لیئے میں اس وقت اس سٹور میں کھڑی تھی۔۔۔ اماں کی باتیں سُن کر کل ہی میں نے طے کر لیا تھا کہ مجھے کہاں چھپنا ہے ۔۔۔۔ یہ جگہ۔۔۔ ایک کونے میں تھی ۔۔۔ جہاں پر گھر کا ٹوٹا ہوا فرینچر اور ۔۔دیگر ۔۔۔ کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ میں جلدی سے جلدی سے ایک پیٹی کے اوپر چڑھی اور پھر وہاں سے رینگتی ہوئی۔۔۔ اسی کونے میں چھت کے قریب پہنچ گئی۔اور وہاں پر جا کر ایک پرانے سے صندوق کے اوپر دبک کر بیٹھ گئی اور ۔۔۔ اور اپنے اوپر ۔۔۔ ۔۔۔ایک پرانا سا کپڑا لے لیا ۔ جو کہ میں نے آج صبع اسی کام کے لیئے وہاں پر رکھا تھا ۔۔۔۔ اپنے اوپر۔۔ کپڑا ڈالنے کا یہ فائدہ تھا کہ اگر بھولے سے اماں یا جیدے کی نظر اوپر پڑ بھی جاتی تو ۔۔۔ میں نظر نہ آ سکتی تھی۔۔میں نے جان بوجھ کر ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ جہاں پر ان کی نظر بلکل نہ پڑتی تھی لیکن مجھے وہاں سے نہ صرف یہ کہ سارا نظارہ صاف صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔ بلکہ ان کی آوازیں بھی صاف سنائیں د ینی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔پھر ۔ میں نے خود کو اچھی طرح سے کیمو فلاج کیا اور ان کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
              میرے چھپنے کے کوئی پندرہ بیس منٹ ( جو کہ مجھے پندرہ بیس گھنٹے لگے ) اماں اور جیدا سٹور روم میں داخل ہوئے۔۔۔۔اس وقت اماں نے ایک ڈھیلا ڈھالا سا سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اتنا باریک تھا کہ ۔اس میں سے ان کا گورا جسم صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔ میری طرح اماں کے بریسٹ بھی تنے کھڑے تھے ۔۔۔اور مجھے یقین تھا کہ جب اماں اپنی قمیض اتاریں گئیں تو ان کی نپلز اکڑے ہوئے ہوں گے۔۔۔۔ جبکہ جیدے سائیں نے ۔۔حسبِ سابق خانوں والی دھوتی اور آف وائیٹ قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔۔ سٹور میں داخل ہوتے ہی اماں نے سٹور کو اندر سے کُنڈی لگائی اور پھر جیدے سے کہا کہ وہ ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی دروازے کے آگے رکھ دیں۔۔۔ جب جیدا سائیں یہ کر چکا ۔۔۔ تو وہ اماں کے قریب آ گیا اور ہلکی سے سرگوشی میں شرارت سے بولا۔۔۔ ہور کی کراں جناب؟۔۔(اب کیا کروں جناب) تو اماں جو کہ شہوت کے نشے میں ٹُن تھیں ۔۔۔ نے جیدے کی دھوتی کے اوپر ہی سے اس کا لن پکڑا اور بولیں۔۔۔ ہور میری پھدی مار۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔ وہ جیدے سائیں کے ساتھ چمٹ گئیں ۔۔۔ قد میں جیدا اماں سے تھوڑا لمبا تھا ۔۔۔ اس لیئے اماں نے اپنی ایڑیاں اُٹھائیں ۔۔۔اور جیدے کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔ فضا میں کسنگ کی مخصوص پوچ پوچ کی آوازیں گونجنے لگیں۔۔۔۔ اماں اور جیدا ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے کسنگ کے مزے لے رہے تھے اور ادھر یہ نظارہ دیکھ کر میری پھدی گرم ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ پھر میں نے جیدے کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ نیلو جی ۔۔۔ آپ کے ہونٹ بڑے نرم ہیں۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں ترنت ہی بولیں ۔۔۔ تو چوس نہ ان کو۔۔۔ یہ بات سُن کر جیدے نے پھر سے ۔۔۔اماں کے ہونٹ اپنے منہ میں لیئے اور ان کو چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو اس کا ایک ہاتھ ۔۔ اماں کے بریسٹ ٹٹول رہا تھا۔۔۔ ان کو دبا رہا تھا۔۔۔۔ اور میں دیکھا کہ اماں کا ہاتھ بھی جیدے کی دھوتی کے اندر تھا۔۔۔ یقیناً وہ جیدے کا موٹا لن اپنےہاتھ میں پکڑے دبا رہی ہوں گی ۔۔ یہ سوچ کر میری چوت سے پانی کا ایک قطرہ نکلا اور میری شلوار کو گیلا کر گیا۔۔۔۔
              اماں اور جیدے کافی دیر تک آپس میں ہونٹوں سے ہونٹ ملائے کھڑے رہے اس دوران اماں جیدے کا لن دباتی رہیں ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ اماں کے موٹے موٹے ممے مسلتا رہا۔۔۔ پھر ۔۔جیدے نے اپنا منہ اماں کے منہ سے ہٹایا اور خود ہی اماں کی قمیض کو اوپر کیا اور پھر برا ۔۔ ہٹا کر اماں کے بڑے بڑے سفید مموں کو ننگا کر دیا ۔۔ اور اپنے ان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔ نیلو۔۔۔ جی۔۔۔۔آپ کے ممے تو ابھی تک ویسے کے ویسے ہیں ۔۔۔ اس عمر میں بھی یہ کیسے سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ جیدے باتیں نہ چود ۔۔۔ میرے ممے چوس۔س س س س س س۔۔۔۔۔اور جیدے اپنا سر جھکایا اور اماں کا ایک ممااپنے منہ لیکر اس کو چوسنے لگا۔۔۔ اماں کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔۔۔۔ ہائے ۔ئے ۔۔ ئے۔ ئے ۔۔ اور مستی میں کہنے لگیں ۔۔۔زور دی چوس س سس س ۔۔۔۔۔۔ اور جیدا کافی دیر تک اماں کے مموں کو چوستا رہا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔اماں نے خود ہی اس کے سر کو اپنے مموں سے ہٹایا اور بولیں۔۔۔ اب میری پھدی چاٹو۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اماں نے اپنی شلوار اتاری اور اپنی دونوں ٹانگوں کو کھلا کر کے کھڑی ہو گئیں۔۔۔ یہ دیکھ کر جیدا بھی اکڑوں بیٹھ گیا ۔۔۔ اور اس نے اماں کی پھدی پر منہ رکھا اور پھر ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ان کو اپنا اوپری دھڑ تھوڑا پیچھے کرنے کو کہا ۔۔۔۔ جیدے کا اشارہ سمجھ کر اماں نے پیچھے پڑی بڑی پیٹی پر ٹیک لگائی اور اپنا اوپری دھڑ کوتھوڑا ۔۔۔ پیچھے کر لیا۔۔۔ جیدے نے ان کی چوت پر زبان رکھی اور بولا۔۔۔۔۔ نیلو جی۔۔۔ آپ تو بہت خارج ہو رہیں ہیں ۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں۔۔ اتنے دنوں بعد کوئی من پسند لن ملا ہے تم اب کی بات کر رہے ہی ۔۔۔ میری چوت تو کل سے خارج ہو رہی ہے۔۔۔ پھر بولیں ۔۔۔ اپنی ساری جیب (زبان) کو میری پھدی میں گھساؤ۔۔۔ اور غالباً جیدے نے ایسا ہی کیا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ مجھے اماں کی تڑپتی ہوئی آواز سنائی دی تھی۔۔۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ جیدے میری پھدی چوس نا۔۔۔۔۔اور پھر میرے خیال میں اماں کی چوت شاید پانی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ کیونکہ اماں اپنا سر ادھر ادھر پٹخ رہی تھیں ۔۔۔اور ساتھ ساتھ ۔۔۔ سرگوشیوں میں ۔۔۔۔ بو ل رہیں تھیں۔۔۔ جیدے میری ۔۔۔۔۔چوت ت ت ت ت ت ت ت۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف ف ف ف ف ف ف ۔۔۔ساری کھا جا۔۔۔۔۔۔جیدے مجھے اور چُھٹا ۔۔۔۔ میں اور۔۔چھوٹنا ۔۔۔آہ ہ ہ ہ۔۔اس کے بعد کچھ دیر مزید جیدے نے اماں کی چوت چوسی ۔۔۔۔ پھر وہ اوپر اُٹھا۔۔۔ اور پلے اس نے اپنی قمیض کو اتارا۔۔۔پھر اس نے اپنی دھوتی اتاری۔۔۔۔اور ۔۔۔ جیسے ہی میری نظریں جیسے سائین کے لن پر پڑیں۔۔۔۔ حیرت کے مارے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔ اس کا لن کالا سیاہ ، بہت موٹا اور لمبا تھا ۔۔۔میرے خیال میں گدھے کے لن سے تھوڑا ہی چھوٹا ہو گا ۔۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔ف۔ف جیدے کا لن دیکھ کر میرے منہ میں پانی پھر آیا اور میرا جی چاہا کہ میں ابھی نیچے اتروں جیدے کا لن اپنی گیلی پھدی میں لے لوں ۔۔۔۔۔
              ادھر جیسے ہی جیدا ننگا ہوا ۔۔ تو وہ سیدھا اماں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ جیدے کا لن دیکھ کر اماں کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی اور انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا لن پکڑ لیا۔۔۔ اور بولیں ۔۔ جیدے میں ٹھیک کہتی تھی ۔۔۔۔ تمھارا لن پہلے سے زیادہ بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ پھر ۔۔اماں لن کو غور سے دیکھ کر بولیں۔۔۔ ہوں ں ں ں ں ۔۔۔ اور موٹا بھی پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے ۔۔۔ پھراماں نے اپنے نرم ہاتھوں سے جیدے کا لن آگے پیچھے کرنے لگیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں کے نرم ہاتھوں کا لمس اپنے لن پر پاتے ہی۔۔۔ مستی کے مارے جیدے کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔۔۔اور جیدے کا لن دیکھ دیکھ کر میری پھدی خود بخود بند اور کھل رہی تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی شلوار میں ہاتھ ڈالا اور ایک انگلی اپنی چوت کے اندر ڈالی اور اپنے ۔۔دانے کو مسلنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔ سامنے کا نظارہ بھی دیکھنے لگی۔۔۔۔ جہاں جیدا اماں سے کہہ رہا تھا ۔۔ نیلو جی ۔۔۔ اب میرے لن کو چوس نا ۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے ایک نظر جیدے کو دیکھا اور بولیں ۔۔۔۔ تم چوسنے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔ میں تو اس کو کھا جاؤں گی۔۔۔۔ بلا شبہ اماں ایک گرم عورت تھی ۔۔۔ اور اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ جیدے کا لن کھا بھی جاتی سو میں اپنی گیلی چوت کے ساتھ اماں کو دیکھنے لگی کہ وہ جیدے کا لن کیسے چوستی ہے؟؟؟ ۔۔ اور میں نے دیکھا کہ سٹور کے فرش پر اماں اکڑوں بیٹھی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ میں جیدے کا کالا موٹا سا لن تھا اور اما ں بڑی شہوت بھری نظروں سے اس کے لن کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کےبعد دھیر ے دھیرے اماں نے اپنا منہ کھولا۔۔۔ اور اپنے ہونٹو ں کو جیدے کے لن کی سمت لانے لگیں۔۔۔۔ پھر ان کے ہونٹ جیدے کے لن کے اور قریب آئے اور ۔۔۔ اس سے پہلے کہ اماں کے ہونٹ ۔۔ جیدے کے لن سے ٹچ ہوتے ۔۔۔ ان سے پہلے ہی اماں نے اپنی لمبی سی زبا ن باہر نکالی اور ۔۔۔ جیدے کا لن کو چاٹنے لگیں۔۔۔۔۔۔اماں کے زبان کا لمس ۔۔۔۔ پاتے ہی۔۔۔۔ جیدے کے منہ سے سسکیوں کا طوفان ۔۔ نکلنے لگا۔۔۔ سس سس۔۔سس۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔ اور وہ بولا۔۔۔ نیلو۔۔۔۔میرے لن کو اپنے منہ میں لو نا۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے ایک گول دائیرے کی شکل میں جیدے کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیری اور پھر دھیرے دھیرے ۔۔۔ اس کا لن اپنے منہ میں لینے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔
              اما ں کے لن چوسنے کا یہ دل کش نظارہ دیکھ کر میں تو پاگل ہو گئی ۔۔۔اور ایک بار پھر میرا جی چاہا کہ میں نیچے چھلانگ لگاؤں اور ۔۔اماں سے جیدے کا لن چھین کر اپنے منہ میں ڈال لوں۔۔۔۔۔ پھر بڑی مشکل سے میں نے اپنی اس خواہش پر قابو پایا ۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ اپنے دانے کو رگڑتے ہوئے نیچے کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔
              کافی دیر تک اماں جیدے کا لن اور بالز(ٹٹے) نہ صرف یہ کہ چوستی رہی تھی بلکہ چاٹتی بھی رہی تھی۔۔۔ پھر اماں اُٹھی ۔۔۔اور جیدے کو پرے ہٹا کر اس کی جگہ خود کھڑی ہو گئی اور اپنے گداز جسم کو تھوڑا ڈھیلا چھوڑا ۔۔اور اپنی بڑی سی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کیا ۔۔۔اور دونوں انگلیوں سے اپنی چوت کے لب کھول دیئے ۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ اماں کی چوت بڑی ہی پُر گوشت اور کافی کھلی تھی۔۔۔۔۔اور اندر سے سُرخ اور چکنی تھی۔۔۔ مجھے اوپر سے بھی ان کی چوت کے لبوں کے اندر پڑا ہوا پانی صاف نظر آ رہا تھا اب میں نے دیکھا تو جیدا اماں کے عین پیچھے آ گیا تھا اور اب اس نے اپنا شاندار لن۔۔۔ اماں کے چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔ اور ٹوپے کو ان کی چوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔ کچھ دیر تو اماں نے صبر کیا ۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔ جیدے مستی نہ کر ۔۔۔۔ لن کو مر ے اندر ڈال۔۔۔۔۔۔ یہ سُن رک جیدے نے اپنا ٹوپا ۔۔۔اماں کی چوت کے لبوں کے اندر رکھا اور ۔۔ایک ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔۔ لن پھسل کر اماں کی کھلی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔ اور اماں نے ایک ۔۔ مستی بھری ۔۔۔۔سسکی لیکر کہا ۔۔۔۔۔۔۔ سارا ڈال۔۔۔ اور جیدے نے اگلا گھسا مارا ۔۔۔اور اس کا لن سارے کا سارا ۔۔۔اماں کی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔ پھر اس نے اماں کو اپنے دونوں ہاتھ پیٹی پر رکھنے کو کہا اور ۔۔۔۔ اور پھر جیدے نے اماں کی چوت کی پٹائی شروع کر دی۔۔۔۔ اس کے ہر گھسے پر۔۔۔۔ اماں ۔۔ کہتی ۔۔۔۔ زور دی جیدے ۔۔۔ زور دی۔۔(جیدے زور سے مار) اور جیدا مزید زور سے گھسہ مارتا ۔۔ اس طرح کوئی 10، 15 منٹ تک جیدا مختلف زاویوں سے اماں کی چوت مارتا رہا۔۔۔۔ادھر شہوت کے مارے میرا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور میں اپنی چوت کے دانے کو رگڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔رگڑتی جا رہی تھی۔۔۔۔اور پھر اپنی چوت کو رگڑتے رگڑتے اچانک میری نظر چھت پر گئی تو مجھے ایک۔موٹی تازی۔۔۔ چھپکلی ۔۔۔ نظر آئی۔۔ جو رینگتی ہوئی میری طرف آ رہی تھی ۔۔ چھکلی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میری روح فنا ہو گئی لیکن عین اس وقت میں نے جیدے سائیں کی آواز سُنی وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا ۔۔۔اور کہہ رہا تھا۔نیلوووووووو۔۔۔۔۔ باجی ی ی ی ی ی ی ی۔۔۔۔۔۔۔ میں چھوٹ رہا ہوں۔۔۔ اور میں اس موٹی ۔۔۔۔چھپکلی کو بھول کر نیچے کی طرف متوجہ ہو گئی جہاں ۔۔۔ جیدے کو چھوٹتا دیکھ کر اماں بھی دھائی دے رہیں تھیں ۔۔ جیدے میری پھدی میں چھوٹنا ۔۔۔ میری پھدی میں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ اماں کا پورا جسم بڑی زور سے کانپا۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی جیدا بولا۔۔۔۔۔۔ نیلو ۔۔۔۔تیری پھدی تنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ اور پھر میں نے اماں کی آواز سُنی وہ کہہ رہیں تھی۔۔۔شاباش جیدے اور چُھوٹ ۔۔۔۔۔۔تمھارا ۔۔پانی میں اپنی چوت میں محسوس کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر جیدا بھی کہنے لگا۔۔ نیلو۔۔ جی نیلو ۔۔۔ میری جان۔۔۔ تمھاری چوت کا پانی میرے لن سے ہوتا ہوا ۔۔۔ باہر نکل رہا ہے ۔۔آآآآ۔۔۔ہ ہ۔۔۔ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔اور اس کےساتھ ہی جیدے نے اماں کی ہپس کو پکڑا ۔۔۔اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد۔۔۔۔و ہ ایسے ہی رہا ۔۔۔ پھر اماں نے اسے پیچھے ہٹنے اور اپنی چوت سے لن نکلنے کا کہا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر جیدا نے پیچھے ہٹ کر اماں کی پھدی سے اپنا لن نکلا ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ جیدے کا لن نیم کھڑا تھا ۔۔اور اس نیم کھڑے لن پر چاروں طرف ۔۔۔۔ منی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ اب اماں بھی سیدھی ہو گئیں تھیں اور انہوں نے جیدے کا لن ۔۔جو کہ منی سے لتھڑا ہوا تھا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے تھوڑا سا ہلا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ صواد (مزہ) آگیا جیدے۔۔اور پھر پاس پڑے کپڑے سے جیدے کا لن اچھی طرح صاف کیا اور پھر اسی کپڑے سے اپنی پھدی کو صاف کیا ۔۔۔اور پھر جلدی سے کپڑے پہنے ۔۔ادھر جیدے نے بھی جلدی قمیض پہنی اور دھوتی پہن کر اماں سے بولا ۔۔۔ اب کیا کرنا ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔ پہلے میں نکلوں گی۔۔۔ تم یہ منجھی (چارپائی) اور تکیئے لیکر کر لان میں آ جانا ۔۔
              ان دونوں کی فراغت کے بعد مجھے چھپلیی کی یاد آئی تو میں نے ڈرتے ڈرتے اوپر نگاہ کی تو وہ موٹی چھپکلی سرکتے ہوئے اب ۔۔۔۔ عین میرے سر پر پہنچ چکی تھی۔اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورے جا رہا تھ۔۔ اور اتنے قریب سے چھپکلی کو دیکھ کر مجھے ابکائی سی آ گئی۔۔۔۔ لیکن میں نے بڑی مشکل سے اس کو روکا۔۔۔۔ اور دعا کرنے لگی کہ چھپکلی یہاں سے دفع ہو جائے ۔۔۔ پر۔۔۔۔ وہ نہیں گئی۔۔۔ اور اب وہ تھوڑا اور سرک کر میرے پاس آ گئی تھی۔۔۔ یہ وہی ٹائم تھا۔۔۔ کہ جب جیدے نےدروازے کے آگے پڑی ہوئی چارپائی ہٹائی تھی ۔۔۔۔۔اور اماں دروازے سے باہر جانے لگی تو میں نے ہاتھ بڑھا کر چھکلی کو دور کرنے بڑی کوشش کی لیکن جتنا میں اس کو اپنے دور کرتی۔۔۔ وہ اتنا ہی میرے پاس آتی۔۔۔ میں نے ایک نظر نیچے دیکھا۔۔۔۔ اماں جانے وقت جیدے کے ہونٹؤں کو چوم رہی تھی ۔اماں تو جیدے کے ساتھ کسنک کر رہی تھی اور ادھر ۔ اوپر میری جان کو بنی ہوئی تھی۔۔۔ اور میں دل ہی دل میں کہہ رہی تھی ۔۔۔اماں پھدی مروا لی ہے۔۔۔ پلیززززززززز ۔۔۔اب چلی بھی جاؤ۔۔ ادھر چھپکلی ۔اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورتی جا رہی تھی۔۔۔اور میری طرف بڑھ رہی تھی اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ڈر کے مارے میرا پِتہ پانی ہو رہا تھا ۔۔۔ اور نیچے جیدے اماں کا کسی نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح بوسہ لمبا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔آخر۔۔۔اماں نے جیدے کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے۔۔۔ اور بولی دل تو یہی کر رہا ہے کہ ایک دفعہ پھر تمھارا لن لوں لیکن۔۔۔۔۔ پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔اور وہ باہر جانے لگی۔۔۔اماں کو جاتے دیکھ میں نے شکر کیا۔۔لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے دیکھا تو ۔۔۔۔ وہ موٹی چھپکلی۔۔۔ میری کپڑے پرچڑھ چکی تھی۔۔۔ ۔۔۔چھکلی کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے چھپکلی سے بچنے کے لیئے میں نے زور سے ہاتھ ہلایا ۔۔اور غلطی سے میرا ہاتھ اتنی زور سے ہل گیا کہ ۔۔ کہ میں اپنا توزن برقرار نہ رکھ سکی اور ۔۔۔میں ۔اس ٹوٹے ہوئے فرینچر سے ہوتی ہوئی۔ایک زور دار آواز سے ۔۔نیچے فرش پر گر گئی۔۔مجھے ۔نیچے گرتے دیکھ کر جیدے کی آنکھیں حیرت کے مارےپھٹنے کے قریب ہو گئیں ۔۔۔اور پھر میں نے باہر سے اماں اور ۔۔کسی دوسرے مرد کی آواز سنی ۔۔ وہ کہہ رہے تھے کیا ہوا ۔؟؟ ۔کیا ہوا۔؟؟؟؟؟؟۔۔ ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔ اماں کے ساتھ اس مرد کی آواز سنتے ہی ڈر کے مارے میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔میں نے جیدے کی طرف دیکھا ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
              Vist My Thread View My Posts
              you will never a disappointed

              Comment


              • #27
                Jaiday nay kamal kar diya.. anni daal di

                Comment


                • #28
                  Acchi story hay

                  Comment


                  • #29
                    اف اف بھائی کیا کمال کہانی ہے

                    Comment


                    • #30
                      لاجواب جناب ۔ کہانی کا پلاٹ تو شاندار ہے۔ کہانی لمبی چلے اور مزید کردار بھی آئیں تو شہکار میں بدل جائے گی۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X