Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

تراس

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    واہ بھائی واہ ۔۔۔۔نہایت کمال کی اور گرم سٹوری ہے حقیقت سے قریب تر رمنظر کشی ہے

    Comment


    • #52
      ۔ترَاس قسط۔۔۔۔11
      ترَاس
      11ترَاس ۔۔۔
      وہ نسوانی آواز اور کسی کی نہیں ۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔بلکہ یہ آواز تو جیدے کے ساتھ آئی ہوئی ہمارے کام والی خاتون جمیلہ کی تھی اس کی آواز سُن کر میں اس لیئے بھی حیران ہوئی تھی کہ جمیلہ بہت چُپ چاپ اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی اور کم از کم میں نے تو اس میں ایسی کوئی بات نہ دیکھی تھی ۔۔ اسی لیئے میں بڑی حیرانی سے جیدے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسی دورران تیسری دفعہ دروازے پر دستک ہو ئی اور پھر اچانک ہی جیدے نے میری طرف دیکھ کر مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور جییے ہی میں اس کے قریب پہنچی اس نے مجھے اپنی چارپائی پر لٹایا اور میرے اوپر چادر دیکر کر بولا ۔۔آپ نے اپنا منہ چادر کے اندر ہی رکھنا ہے اور خود کو سوتا ہوا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ میں اس کی بات نہ سمجھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے لیکن پھر بھی اس کے کہنے پر میں اس کی چارپائی پر لیٹ گئی اور اپنے منہ کو چادر سے ڈھانپ لیا ۔۔ ادھر جیدے نے دروازہ کھولنے میں مزید چند سیکنڈ لگائے اورپھر نیند بھری آواز میں بولا ۔۔ کون ہے ؟ تو باہر سے جمیلہ کی دبی دبی آواز سنائی دی۔۔ جیدے میں ہوں جمیلہ ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی جیدے نے دروازہ کھولا جمیلہ ایک دم سے اندر کمرے میں داخل ہو گئی اور جیدے سے کہنے لگی اتنی دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی تم نے کھولا کیوں نہیں؟ تو جیدا نیند بھر ی آواز میں بولا نیک بخت تم کو تو پتہ ہی ہے کہ شادی والے گھر میں کتنے کام ہوتے ہیں ۔۔۔ اس لیئے میں بڑا تھکا ہوا تھا اور لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔پھر اس نے جمیلہ کی طرف دیکھا اور اسے کہنے لگا اچھا ۔۔یہ ۔ بتاؤ تم اس وقت کیسے آئی ہو۔۔۔؟؟ ؟؟۔
      جیدے کی بات مکمل ہوتے ہی ۔۔۔ میں نے جمیلہ کی پُر ہوس آواز سنی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔جیدے میرا ۔۔ بڑا دل کر رہا تھا تم سے ملنے کو ۔۔۔ اس لیئے میں تم سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی جیدے نے بھی اسی کی طرح دبی دبی آواز میں جواب دیا وہ کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ جی تو میرا بھی بہت کر رہا تھا کہ تمھاری لوں ۔۔ لیکن کیا کروں ۔۔۔ وہ دیکھو ۔۔۔۔ نیلو باجی ایک مصیبت کو میرے کمرے میں سلا گئی ہے ۔۔۔
      جیدے نے بات کرتے ہوئے شاید اپنی چارپائی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کیونکہ جیسے ہی جیدے نے اپنی بات مکمل کی تھی میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ اور پھر وہ سرگوشی میں جیدے سے پوچھنے لگی ۔۔۔ یہ کون ہے؟ تو جیدا بولا۔۔۔۔۔۔ کسی مہمان کا بچہ ہے اس کو جگہ نہیں ملی تو نیلو باجی نے اسے میرے پاس سلا دیا ہے اور دیکھ لو میں خود نیچے فرش پر سویا ہوا ہوں ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میرے خیال میں جمیلہ نے نیچے فرش پر بنے جیدے کے بستر کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اوہو۔۔۔ باجی نے یہ مصیبت کہاں سے سلا دی ۔۔۔۔۔ آج اتنا زیادہ دل کر رہا تھا۔۔۔ تو جیدے نے اس سے بڑے ہی عاشقانہ لہجے میں کہا ۔۔۔ کوئی بات نہیں یار پنڈ جا کر کر لیں گے۔پھر شاید اس نے جمیلہ کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سنی تھی تھی وہ کہہ تھی ۔۔ یہ کیا کر رہا ہے جیدے۔۔۔۔بچہ اُٹھ جائے گا۔۔۔ جمیلہ کی یہ بات سُن کر میرے کان کھڑے ہو گئے تھے اور میں نے اپنی چادر کو تھوڑا سا سرکایا اور ۔۔۔ باہر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔ اوہ۔۔ کیا دیکھتی ۔۔۔۔ ہو ں کہ جیدے کا پورا ہاتھ ۔۔جمیلہ کی شلوار میں گھسا ہوا تھا ۔۔۔ میری طرح شاید جمیلہ نے بھی الاسٹک والی شلوار پہنی ہوئی تھی۔۔ اسی لیئے اس کی شلوار نیچے نہیں آ ئی تھی۔۔ جیدے نے شاید اپنی ایک انگلی جمیلہ کی چوت میں ڈالی تھی ۔۔ انگلی اندر ڈالتے ہی جیدا ایک دم چونک گیا اور دبی دبی آواز میں جمیلہ سے بولا۔۔۔تیری پھدی نے تو کافی پانی چھوڑا ہوا ہے۔۔۔ تو جمیلہ کہنے لگی ۔۔ اسی لیئے تو تیری پاس آئی تھی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ تھوڑا پیچھے کیا اور جیدے کو چوم کر بولی۔۔۔۔ دوجی وی پا نا۔(میری چوت میں دوسری انگلی بھی ڈالو) ۔اور پھر شاید جیدے نے دوسری انگلی بھی جمیلہ کی چوت میں ڈال تھی۔۔۔ اور پھر وہ اسے تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنے لگا۔۔ جیسے ہی جیدے کی انگلیوں میں تیزی آئی ۔۔ جمیلہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔اپنی چوت میں جیدے کی انگلیوں کا مزہ لینے لگی۔۔۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد۔۔۔ جمیلہ۔۔ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سسکی لی۔۔۔ اور اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔۔۔ اور جیدے سے بولی۔۔۔۔ چھیتی چھیتی انگل مار نا جیدیا( تیز تیز انگلی مارو نا جیدے) اور پھر اگلے چند سیکنڈز کے بعد جمیلہ جیدے کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ وہ۔۔۔ چھوٹ گئی تھی۔۔جمیلہ کے چھوٹنے کے بعد جیدے نے اپنی انگلیوں کو اس کی چوت سے نکلا۔۔ تو میں نے دیکھا کہ جیدے کی موٹی موٹی انگلیوں پر جمیلہ کی منی لگی ہوئی تھی۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک جمیلہ اپنے سانس بحال رکتی رہی۔۔۔ پھر جب وہ شانت ہو گئی تو جیدے نےاس سے کہا ۔۔۔ کج گزارا ہویا اے ( کچھ گزرا ہوا ہے) تو جمیلہ کہنے لگی۔۔۔ چھُٹ تے گئی آں پر۔۔ بھانبڑ ودھ گیا اے ( میں چھوٹ تو گئی ہوں پر میرے اندر لگی آگ اور بھڑک گئی ہے) اس کی بات سن کر جیدا بولا ۔۔۔ فکر نہ کر پنڈ جا کے تمھاری ساری کسر نکال دوں گا۔۔۔۔۔ اور ۔ اور پھر بڑے طریقے جمیلہ کو وہاں سے چلتا کر دیا۔۔۔ اور جب جمیلہ وہاں سے چلی گئی تو جیدے نے پھر سے اپنا دروازے کو بند کیا اور مجھ سے بولا ۔۔۔ آ جاؤ بی بی جی ۔۔۔۔ جیدے کی آواز سنتے ہی میں جمپ مار کر بستر سے نیچے اتری اور جیدے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔ جیدے ۔۔۔ کر لینا تھا نہ اس بے چاری کو۔۔۔۔ تو جیدا میری طرف دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔اور بڑے پراسرار لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔۔ یہاں اتنی وی آئی پی پھدیوں کے ہوتے ہوئے ۔۔۔ میں بھلا اس پینڈو کی پھدی کو کیسے مار سکتا تھا۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر بولا ۔۔۔۔ آپ ٹھہرو میں زرا باہر کا جائزہ لے کر آتا ہوں ۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد آ کر بولا۔۔ سب ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہے اس کی بات سنتے ہی میں بڑے محتاط انداز سے وہاں سے نکلی اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔۔اور سارا راستہ یہی سوچتی رہی ۔۔۔میری پھدی تو اس نے لی نہیں ۔۔صرف اماں کی لی ہے ۔۔۔ تو پھر وی آئی پھدیوں سے جیدے کی کیا مراد تھی۔۔۔ اماں کے علاوہ ضرور اور خواتین بھی ہیں جن کی جیدا پھدیاں مارتا ہے ۔۔ااماں کے علاوہ وہ کون ہو سکتی تھیں ؟۔۔۔۔ میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے لگی۔۔۔۔
      اگلے دن بارات تھی ۔۔۔۔چنانچہ میں صبع صبع اُٹھی اور شادی کی تیاریوں میں اماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ ہم دونوں ماں بیٹی بھائیوں اور ابا کے کپڑے بیگ میں ڈال رہیں تھیں کہ اچانک اماں کی نظر دروازے پر پڑی تو اس وقت عظمٰی باجی کمرے میں داخل ہو رہیں تھیں اماں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔ہما ۔۔۔ اگر تم کو کہیں عظمٰی کی بچی نظر آ گئی نا تو خبردار ۔۔۔ اس سے کو ئی بات نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا ہے۔۔۔ عین اسی لمحے عظمٰی باجی اماں کے قریب پچی چکی تھی اور اس نے اماں کی حقہ پانی والی بات سُن لی تھی۔۔اور اماں کی بات ختم ہوتے ہی اس نے کہا ۔۔۔ ہما ۔۔ کس کی جرات ہے جو مابدولت کا حقہ پانی بند کر سکے ۔۔۔ عظمٰی باجی بظاہر تو مجھ سے مخاطب تھی لیکن درپر دہ وہ اپنی بات اماں کو سنا رہی تھی پھر اس کے بعد اس نے اماں کو کہا ۔۔ سوری آپا ۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی تھی لیکن فائق کی مہندی پر نہ پہنچ سکی تھی۔اس کے لیئے بہت بہت معزرت ۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھا اور بظاہر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ بے شرم عورت تم نے وعدہ بھی کیا تھا کہ کم از کم تم مہندی ضرور اٹینڈ کر و گی۔۔۔ تو عظمٰی باجی بولی ۔۔۔ آپا میں نے کہا تو تھا ۔۔ لیکن مصروفیت ایسی آن پڑی تھی کہ میں چاہ کر بھی نہ آ سکی تھی ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ ابھی بھی ابو لوگ کراچی میں ہی رُکے ہوئے ہیں۔۔۔ اور آپ لوگوں کی شادی کی وجہ سے میں اکیلی ہی کراچی سے آئی ہوں ۔۔ پھر اس کے بعد تھوڑی دیر اور گلے شکوے ہوتے رہے ۔ اور پھر عظمٰی باجی نے اماں کو اپنی مجبوری بتائی کہ کس وجہ سے وہ فائق بھائی کی مہندی میں شامل نہ ہو سکی۔۔۔ ۔۔۔اب میں یہاں اپنے پڑھنے والوں سے عظمٰی کا تعارف کر اتی ہو ں ۔۔ اس خاتون کا پورا نام عظمٰی سرمد ہے اور وہ اماں کی بیسٹ فرینڈ ز میں سے ایک ہے عظمٰی باجی ایک 34/35 سا ل کی خوبصورت ،دل کش ۔۔۔ رکھ رکھاؤ والی اور بڑی ہی نستعلیق قسم کی خاتون تھی ۔۔۔ ان لوگوں کا تعلق کراچی سے تھا اور کراچی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے عظمٰی کا سارا خاندان لاہور شفٹ ہو گیا تھا ۔۔۔ عظمٰی ایک بیوہ خاتون تھی اور اس نے بیوہ ہونے کے بعد بھی اپنے سسرال میں یہ کہہ کر رہنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ کہ میرا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے۔۔ ۔۔۔ ویسے تو عظمٰی باجی کو جاب کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی کہ اس کے سسر کا اچھا خاصہ بزنس تھا ۔۔۔لیکن ۔۔۔ دل بہلانے اور ٹائم پاس کرنے کے لیئے وہ جاب کرتی تھی۔اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں بڑی اچھی پوسٹ پر فائز تھی۔۔۔ بیوہ ہونے کے باوجود ۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہر وقت ایک عجیب سی شرارت رقص کرتی نظر آتی تھی ۔۔۔ اور اس کی خاص بات اس کے سیکسی ہونٹ تھے اور جب وہ اپنے ان سیکسی ہونٹوں پر خاص کر سُرخ رنگ کی لپ سٹک لگاتی تھی تو اس لپ سٹک کی وجہ سے اس کے ہونٹ بڑے ہی جاندار اور سیکسی نظر آتے تھے ۔۔۔ اور اس کے یہ جاندار اور سیکسی ہونٹ دیکھ کر میں نے بڑے بڑے لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ عظمٰی باجی کی شخصیت میں بھی اماں کی طرح ایک خاص ۔۔۔ وقار ، رُعب اور دبدبہ ہونے کی وجہ سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس سے کوئی بات کر سکے ۔۔ یہاں تک کہ میں بھی اب تک اس کے قریب نہ ہو سکی تھی ۔ کیونکہ ایک تو وہ خود بھی سب کے ساتھ ایک خاص فاصلہ رکھنا پسند کرتی تھی ۔ دوسری جاب پر جانے کی وجہ سے وہ کچھ بزی بھی رہتی تھی ۔۔۔ ہاں اماں کی اس خاتون کے ساتھ بہت بنتی تھی۔۔۔ اورہمسائے ہونے کے ناطے ان لوگوں کے ساتھ ہماری بڑی اچھی علیک سلیک بلکہ دوستی تھی۔۔ ۔۔ اماں نے جب عظمٰی باجی کی زبانی اس کی مجبوری سنی تو انہوں نے باجی کی معزرت قبول کر لی ۔۔۔اور پھر عظمٰی باجی بھی مختلف کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ اور پھر کام کرتے ہوئے وہ اماں سے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ باجی پلیز بتاؤ نا ۔۔کہ بارات چلنے کا رائٹس ٹائم کیا ہ ے ؟؟؟۔۔۔ تو اماں ۔۔ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔۔۔ چندا جب تم اور تمھارے جیسی اور بیبیاں تیار ہو جائیں گی ۔۔ نا ۔۔ تو بارات اسی وقت روانہ ہو جائے گی۔۔۔
      اماں کی بات سن کر عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔ پلیز باجی میری بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دو نا ۔۔تو اماں نے ایک دفعہ پھر ہنستے ہوئے اپنی پرانی بات دھرا دی ۔۔۔ اور عظمٰی نے تائید میں سر ہلا دیا اور پھر اماں سے بولی۔۔۔۔۔جیسا کہ آپ کو پتہ ہے باجی کہ میں آج صبع ہی کراچی سے لاہور پہنچی ہوں اس لیئے مجھے پلیز اپنے چلنے کا ٹائم اور اپنا پلان بتائیں تا کہ میں اس کے مطابق تیار ہو سکوں ۔۔۔اس کے بعد عظمٰی باجی نے ایک دفعہ پھر اپنا جملہ دھرایا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ آپ لوگوں کا پلان کیا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ تو اماں نے اس سے کہا کہ یار ہم لوگوں کا پلان تو یہ ہے کہ ہم لوگ یہاں سے 10/12 بجے نکلیں گے ہماری بارات ڈائیریکٹ دلہن والوں کے گھر نہیں جائے گی بلکہ برات یہاں سے بہاولپور کے ماڈل ٹاؤن اے میں جا کر اترے گی جہاں پر میرے فسٹ کزن کے بیٹے کرنل ماجد کی اپنی کوٹھی ہے اور اس نے اصرار کر کے ہمارا سارا بندوبست اپنے ہاں کیا ہوا ہے۔۔۔ وہاں جا کر ہم لوگ ایک رات ریسٹ کریں گے پھر اگلے دن صبع صبع ہماری بارات ایک دوسری گلی میں جو کہ ماجد لوگوں کے قریب ہی واقعہ ہے جائے گی اور ہماری کوشش ہو گی کہ بارہ ایک بجے تک شادی کی ساری رسومات ادا کر کے کہ کہ ہم لوگ ایک دو بجے وہاں سے چل پڑیں تو رات۔۔۔ آٹھ نو بجے تک ہم لوگ واپس لاہور پہنچ جائیں گے ۔۔۔ اماں کا سارا پلان سُن کر عظمیٰ بولی ۔۔۔ ٹھیک ہے باجی میں دس بجے تک تیار ہو کر آ جاؤں گی۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ خبردار عظمٰی کی بچی ۔۔۔دس بجے کا مطلب دس بجے ہی ہو گا۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگی ٹھیک ہے باجی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد گھر آئے ہوئے سب مہمان اُٹھنا شروع ہو گئے اماں نے جلدی سے ان کے لیئے ناشتہ لگوا دیا اور پھر ۔۔۔ ناشتے کے بعد بھا میدا ۔۔۔ اماں کے پاس آیا اور اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ۔۔۔آپ کے حکم کے مطابق ۔ دونوں کوسٹریں آ گئیں ہیں ۔۔۔ اور ایک دم ریڈی ہیں بس آپ لوگوں تیاڑ ہوں تو ہم چلیں ۔اس کی بات سُن کر امان کہنے لگیں شاباش میدے یہ ہوئی نا بات۔۔۔ مہمان ناشتہ کر لیں تو ہم چلتے ہیں ۔۔اماں کی بات ختم ہوتے ہی بھا نے سوالیہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ ۔۔۔ اجازت ہو تو وہ ڈانسر لڑکے بھی ساتھ لے جاؤں؟ ۔زڑا شغل میلا رہے گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اما ں نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔ بلکل کوئی اجازت نہیں ہے اور ہاں خبردار ۔۔۔۔ اپنے ابا سے اس بارے میں بات تک بھی نہ کرنا ۔۔۔۔ تو بھا بولا ۔۔۔ والدہ۔۔۔ وہ۔۔ تو اماں اس کی بات کو کاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ زیادہ ٹر ٹر نہ کر ۔۔۔ جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔اور اب یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔۔ بھا میدا اماں کی جھاڑ سنی اور پھر منہ بناتا ہوا۔۔۔۔۔ کان لپیٹ کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا-۔
      ۔۔۔ اس کے جاتے ہی اماں منہ ہی منہ میں بُڑبڑائی اور بولی ۔۔۔ حرام دا۔۔۔۔ پتہ نئیں کدوں منڈیاں دی جان چھڈے گا ( حرامی پتہ نہیں کب لڑکوں کی جان چھوڑے گا) اس کے بعد کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا۔۔۔ چنانچہ ناشتہ کے بعد اماں اور ابا کی بار بار کی تاکید اور ۔۔۔ محنت سے آخرِ کار سب مہمان گھر سے کوسٹروں میں بیٹھنے کے لیئے ایک ایک کر کے روانہ ہو گئے اور آخر میں ہم ۔۔۔اپنی فیملی کے لوگ ہی ہی رہ گئے ۔۔تب ابا نے بھا میدے کو اپنے قریب بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔۔ حمید تم نے اپنی تیاری کر لی ہے؟ تو بھا میدا ۔۔۔ فخریے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ ابا جی آپ وہم نہ کڑو ۔۔۔ میں نے سب انتظام کڑلیا ہے۔۔ میڑے ساڑے دوستوں کے پاس اسلحہ ہو گا اور ہم دو گاڑیوں میں سوار ہوں گے ایک دلہے کی گاڑی اور مردوں والی کوسٹر کے ساتھ ہو گی جبکہ دوسری گاڑی ۔۔۔ لیڈیز کوسٹر کی حفاظت کرے گی۔۔۔۔۔ تو ابا نے بھا سے بولے حمید ایک تواپنے اپنے اسلحہ کے لائیسنس ضرور ساتھ رکھنا ۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ابا کا لہجہ سخت ہو گیا اور وہ کہنے لگے دوسری بات یہ کہ اپنے اسلحہ کو چھپا کر رکھنا ہے ۔۔۔ خبردار جو کسی نے کسی بھی وقت اپنے اسلحہ کی نمائش کی تو۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد کچھ ضروری باتیں سمجھانےکے بعد ابا اور اماں نے مل کر گھر کو تالا لگایا اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دعا کی اور ہماری بارات بہاولپور کی طرف چل پڑی ۔۔۔
      اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے دلہے کی کار میں فائق بھائی کے ساتھ میں اور ابا بیٹھے تھے جبکہ اماں لیڈیز کوسٹر میں بیٹھی تھیں ۔۔۔ ہم وہاں سے تقریباً گیارہ بارہ بجے کے قریب چلے تھے اور راستے میں ایک دو جگہ رکنے کے بعد شام کو بہاولپور پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ سب سے آگے ہماری گاڑی تھی اور پیچھے دونوں کوسٹریں ۔۔۔ایک میں لیڈیز سوار تھیں جبکہ دوسری جینٹس سے بھری ہوئی تھی۔۔ اور ان کوسٹروں کے پیچھے مختلف دوست احباب کی کاریں تھیں۔۔۔ جیسے ہی ہماری گاڑی رُکی فائق بھائی کی ساس سسر اور دیگر لوگوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور پھر رسمی جملوں اور ہنسی مزاق کے بعد ہم لوگ ماجد انکل کی کوٹھی میں چلے گئے یہ ایک پرانی طرز کی بڑی سی دو منزلہ کوٹھی تھی اور اس میں اوپر نیچے کوئی 25 /30 کمرے تھے ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر اور گیسٹ بیڈ اس کے علاوہ تھے ۔۔۔ ماجد انکل کے گیسٹ بیڈ پر فائق بھائی اور ان کے دوستوں نے قبضہ کر لیا ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر میں ان کے ملازموں کے ساتھ ساتھ ایک دو کمرے جیدے وغیرہ کے لیئے مختض کئے گئے تھے۔۔۔ کرنل ماجد ایک گٹھے ہوئے ۔۔ مضبوط جسم اور خوبصورت باڈی کے آرمی آفیسر تھے ۔۔اور ان کے بارے میں بتا دوں کہ یہ اماں کے فرسٹ کزن کے سب سے بڑے لڑکے تھے اور آجکل کراچی میں پوسٹ تھے ان کی شادی بہاولپور کے کسی نواب کی پڑپوتی سے سے ہوئی تھی ۔ان کی نوابی تو عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی ۔۔۔ جبکہ ان خاتون کی نوابی ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی۔۔۔ماجد انکل کی بیوی تھی تو بہت کیوٹ ۔۔پر۔۔۔۔وہ۔ بڑی ہی مغرور اور تُنک مزاج تھی ۔۔ ۔۔ خواہ مخواہ ہی لیئے دیئے رکھتی تھی ۔۔۔ ہم لوگ اسے نک چڑھی آنٹی کہتے تھے۔۔۔ اس میں ابھی تک نواب ذادیوں والا نخرہ پایا جاتا تھا۔اور یہ کوٹھی انکل کو سسرال کی طرف سے جہیز میں ملی تھی۔۔۔۔۔ آنٹی جس قدر نک چڑھی اور تُنک مزاج تھیں ماجد انکل اسی قدر اچھے اور فرینڈلی بندے تھے اور اماں کے ساتھ تو ان کی بہت زیادہ بنتی تھی کہ کسی زمانے میں یہ لوگ گاؤں میں اکھٹے رہتے تھے ۔۔۔ اماں کی وجہ سے ہی انکل نے ہمارے لیئے نہ صرف یہ کہ ساری کوٹھی خالی کر دی تھی اور خود اپنے سسرال میں رہ رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے لیئے کھانے کا بھی بندوبست کیا ہوا تھا۔۔
      چنانچہ رسمی عیلک سیلک اور گپ شپ کے بعد کرنل ماجد ابا کے پاس آئے اور بولے ۔۔۔ میاں جی پہلے چائے پیو گے یا کھانا لگوا دوں ؟؟ ۔۔۔تو ابا نے حسبِ عادت سارا ملبہ اماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ یار نیلو سے پوچھ لو ۔۔۔۔ جیسے وہ کہتی ہے کر لو۔۔۔ تو ماجد انکل بولے ۔۔۔ کُچ تُسی وی دس دیا کرو میا ں جی (کچھ آپ بھی بتا دیا کرو میاں صاحب ) تو ابا ہنس کر بولے۔۔۔ سمجھا کر نا یار۔۔۔۔ اور پھر وقار انکل کےساتھ ایک جانب بڑھ گئے ۔۔۔اب انکل نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ہما اپنی اماں کو تو بلا کر لاؤ۔۔۔میں نے ان کی بات سُنی اور اندر چلی گئی۔۔۔ اور تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں کو ڈھونڈھ لیا اماں عظمٰی باجی کا فائق بھائی کی ساس کے ساتھ تعارف کروا رہی تھیں ۔۔۔ اور ابھی مزید بات چیت سے پہلے ہی میں اماں کے پاس پہنچ گئی اور ان کو بتایا کہ اماں آپ کو ماجد انکل بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر اما ں نے عظمٰی سے معزرت کی اور میرے ساتھ چل پڑی ۔۔راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا تیرا انکل؟ تو میں نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔ میری بات سُن کر اماں بولی۔۔۔ مجال ہے جو یہ شخص خود پر بھی کبھی کوئی بات لے ۔۔۔ اتنے میں ہم لوگ کرنل ماجد کے پاس پہنچ گئے تھے وہ سامنے صوفے پر بیٹھے کسی کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے اماں کو دیکھتے ہی تیر کی طرح ان کے پا س آئے اور بولی۔۔۔ کی خیال اے باجی کھانا لگا دوں یا چائے شائے چلے گی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ یہ بات میاں صاحب سے پوچھو نا ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ماجد انکل ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔۔۔ جی میں نے ان سے پوچھا تھا ۔۔۔ اور حسبِ روایت انہوں نے گیند آپ کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور ۔۔ انہوں نے آپ سے ملنے کو کہا ہے ۔۔۔ اس پر اماں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ویسے کھانے کا ٹائم تو ہو ہی رہا ہے۔۔ چلو ایسا کرو۔۔۔ تم پے ج کھانا لگوا دو۔۔۔۔
      میں وہاں سے نکلی اور مین حال کی طرف چل پڑی کہ جہاں ساری برات والی خواتین۔۔ بیٹھی ڈھولکی پر شادی کے گیت گا رہیں تھیں ۔۔۔دیکھا تو وہاں تھوڑی سی خواتین ڈھولکی بجا رہیں تھیں جبکہ ان کے آس پاس ٹھرکی ٹائپ لڑکے کھڑے ان کو تاڑ رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی میں حال میں پہنچی ایک بہت ہی گُڈ لُکنگ قسم کا لڑکا اچانک میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا۔۔۔۔ ہما جی میرا نام ۔۔ دوست نواز ہے اور میں آپ کی بھابھی کا کزن بلکہ بھائی ہوں ۔۔۔ پھر اس نے اپنا اتھ آگے کیا اور بولا ہائے ہما۔۔۔ مجھے اس لڑکے کی بات کرنے اور ہاتھ آگے بڑھانے کا یہ انداز بہت برا لگا ۔۔۔۔ اور میں اسے نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کے پاس جا بیٹھی۔۔۔ اور ان کے ساتھ مل کر گیت گانےاور تالیاں بجانے لگی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔ ایک خادمہ وہاں آئی اور بولی ۔۔۔ تمام لیڈیز ۔۔ باہر لان میں آ جائیں کہ وہاں کھانا لگ گیا ہے ۔۔۔ کھانے کا نام سنتے ہی خواتین میں بھگڈر سی مچ گئی اور وہ اُٹھ کر تیزی کے ساتھ لان کی طرف جانے لگیں۔۔۔ جبکہ میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔ اور رش کم ہونے کا انتظار کر نے لگی۔۔۔اور جب خواتین کا رش کچھ کم ہوا تو میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور باہر کی طرف جانےلگی ۔۔۔ تو دروازے پر پھر وہی لڑکا مل گیا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوہو ۔۔۔ میں آپ ہی کو لینے کے لیئے آ رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ کمرے سے لان تک وہ میرے کان کھاتا رہا لیکن ۔۔۔ میں نے بہت پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ چاہئے کچھ بھی ہو ۔۔۔ میں نے کھبی بھی کسی بھی صورت میں کسی اجنبی بندے کو کوئی لفٹ نہیں دینی۔۔۔
      وہ لڑکا باہر لان تک میرے ساتھ آیا اور اس نے مجھ سے بات کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔۔۔۔ ادھر میں نے اس کے ساتھ بڑا ہی سرد رویہ رکھا ۔۔۔ لیکن وہ ایک عجیب ڈھیٹ ہڈی تھی کہ لان تک میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم لان میں داخل ہوئے ماجد انکل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نواز جی۔۔۔۔ سروس تیز کر واؤ ۔۔۔۔ اور میں ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اماں کے پاس چلی گئی ۔۔ جہاں پر اماں دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور مین وہاں بیٹھ گئی۔۔۔۔ جبکہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ خواتین سے باتیں بھی کر تی جا رہیں تھیں۔۔۔ اماں کی دوسری طرف عظمٰی سرمد بھی بیٹھی ہوئی تھی اور حسبِ معمول اس کی اماں کے ساتھ کسی بات پر بحث ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ اماں سےمخاطب ہو کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ نیلو جی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟ تو اماں کہنے لگیں ۔۔ جی فرمایئے کونسی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آئی ؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ جب آپ لوگو ں نے شادی سے ایک رات قبل یہاں سٹے کرنا تھا تو ۔۔۔ پھر آپ لوگوں نے الگ الگ سے مہندی کیوں رکھی ہے ؟ اور کہنے لگی ۔۔۔قسم سے اگر آج دونوں کی اکھٹا مہندی ہوتی تو کتنا مزہ آتا ۔۔۔ پھر اس نے اماں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میری بات کو جواب نہیں دیا آپ نے نیلو باجی۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ جواب کیا دینا ۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ کارڈ چھپاتے وقت تک ہاورا پروگرام یہ تھا۔۔۔ کہ ہم شادی والے دن صبع صبع گھر سے نکلیں گے اور پھر رات گئے تک۔۔۔۔۔ واپس لاہور پہنچ جائیں گے۔۔۔ لیکن پھر عین وقت پر ماجد نے اصرار کیا کہ اس کے ہاں ایک رات ٹھہرا جائے۔۔۔ کیونکہ اس کے خیال میں ہمارے پروگرام کے مطابق عمل ہوا تو بارتی سمیت سب لو گ تھک کر چُور ہو جائیں ۔۔ اور شادی کو ٹھیک سے انجوائے نہیں کر سکیں گے۔۔ اس لیئے ۔۔۔ چندا ۔۔۔ پبلک کے پُر زور اصرار پر ہم لوگ۔۔۔۔ یہاں ایک رات رُکنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔ تو عظمٰی کہنے لگیں ۔۔۔۔ تو کیا ہوا ۔۔۔ آپ پھر بھی مہندی کا پروگرام اکھٹے کر سکتے تھے۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے مجھے گلاس میں پانی بھرنے کا کہا اور میں نے جلدی سے ان کے گلاس میں پانی بھرا ۔۔۔تو اماں نے گلاس کو اپنے ہونٹوں کےساتھ لگایا اور ۔۔۔۔۔ پانی کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر ا۔۔۔ پھر انہوں نےعظمٰی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔سوری یار ۔۔۔۔ گلے میں روٹی کا نوالہ پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر ایک لمبی سانس بھر کے بولیں ۔۔جو بات تم نے کہی ہے نا عظمٰی۔۔ یہ بات ہمارے بھی دماغ میں آئی تھی۔۔۔ لیکن تم کو تو اپنے بھائی جان (ابا) کا پتہ ہے ۔۔۔ کہ ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ تجویز سُن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ کہ میں اپنے آفس والوں اور سب عزیزو اقارب و مہندی کے کارڈ وغیرہ دے چکا ہوں ۔۔۔ اور دوسری ا ور اصل بات یہ ہے میاں صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مخلوط فنگشن انہیں ہر گز پسند نہ ہیں ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمٰی ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ رہنے دیں باجی۔۔۔ آپ نے چاہا ہی نہیں ہو گا۔۔۔ ورنہ ۔۔ میاں جی کی کیا مجال ۔۔۔۔ ہے۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ اماں اس بات کا کوئی جواب دیتی ۔۔۔ عظمٰی کی بات پر لیڈیز کا ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔۔۔ اور بات آ ئی گئی ہو گئی۔۔
      جاری ھے۔
      Vist My Thread View My Posts
      you will never a disappointed

      Comment


      • #53
        ۔ترَاس قسط۔۔۔12
        ترَاس
        12ترَاس ۔۔۔
        کھانا کھانے کے بعد سب لوگ خاص کر لیڈیز وہیں لان میں ہی بیٹھ گئیں اور نیچے گھاس پر دری بچھوا کر وہاں ڈھولک رکھ لی گئی اور ایک بار پھر سے شادی کے گیت شروع ہو گئے۔۔۔ میں نے کچھ دیر تو ان کا ساتھ دیا ۔۔ پھر مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اور میں وہاں سے اُٹھ کر اندر روم کی طرف چل پڑی ۔۔۔ تو دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے کوئی گھسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں گیلری میں اس انتظار میں کھڑی ہو گئی کہ جونہی واش روم فارغ ہو تو میں ۔۔۔ جاؤں۔۔۔اتنے کیا دیکھتی ہوں کہ وہی ڈھیٹ لڑکا۔۔۔ میرے پاس آ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ آپ کس کو تلاش کر رہی ہیں۔۔۔ تو میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ اور خاموش کھڑی رہیں ۔۔۔ پھر اس لڑکے نے میرے طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ہما ۔۔ جی پلیز آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔۔۔۔۔۔ میں بس ۔۔۔ میں بس۔۔۔۔۔ آپ مجھے بہت اچھی لگیں ہیں۔۔۔۔ تو میں نے بظاہر فرش پر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ زلیل آدمی کو ٹھیک سے لڑکی بھی پٹانی نہیں آتی۔۔۔ پتہ نہیں کیسے اس نے میرے دل کی بات سُن لی اور کہنے لگا۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔۔ آپ یقین کریں میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں ۔۔۔ میں تو ۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ یقین کریں ہما جی ۔۔۔ خود میرے پیچھے بہت سی لڑکیا ں پھرتی ہیں۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ سامنے کمرے والے واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔ واش روم سے جیدا باہر نکل آیا ۔۔۔ اور جیسے ہی جیدا واش روم سے باہر آیا ۔۔۔ میں نے اس لڑکے جس نے اپنا نام دوست نواز بتایا تھا ۔۔ کی بات کا کوئی جواب دیئے بغیر ۔۔۔ آگے بڑھی اور واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔
        کچھ دیر بعد جب میں فارغ ہو کر باہر نکلی تو دیکھا کہ وہی لڑکا جیدے کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔۔ ۔۔اور پھر مجھے دیکھتے ہی وہ لڑکا وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔۔۔ اور اب اکیلا جیدا ہی وہاں کھڑا رہ گیا تھا ۔۔۔پتہ نہی کیوں ۔ جیدے کو دیکھ کر ایک دم میرے اندر کی۔۔۔تراس ۔۔۔ بھڑک اٹھی ۔۔۔۔ اور ۔۔ ایک دم سے ہی میری ہوس نے سر اُٹھایا ۔۔۔۔اور اس کےساتھ ہی نیچے میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔ اور میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے جیدے کے پاس پہنچ گئی۔۔۔ اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتی وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی آپ کو ایک بات بتاؤں ۔۔ تو میں نے اس سے کہا بولو۔۔ جناب۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ جو لڑکا یہاں کھڑا تھا کون ہے؟ تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی یہ لڑکا۔۔۔ایک بہت بڑے زمیندار کا اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے برا سا منہ بنایا اور بولی۔۔۔ اکلوتا ہو یا کھوتا ۔۔۔ مجھے اس سے کیا؟ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ یہ صبع سے ایویں ہی میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر جیدا کہنے لگا بی بی کوئی بھی ایسے ہی نہیں کسی کے پیچھے پڑتا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ دفعہ کر جیدے ۔۔۔ اور پھر میں نے گیلری میں ادھر ادھر دیکھا اور اس کو کمرے کے اندر آنے کا بولا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔ میں نے اپنا ہاتھ جیدے کی دھوتی میں ہاتھ ڈالا اور اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اس وقت تک جیدے کالن ایک چھیچھڑا سا بنا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلنا شروع کیا تو اس چھچھڑے میں جان آنا شروع ہو گئی ۔۔۔چنانچہ میں اسے مزید مسلتے ہوئے جیدے سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔جیدے آج رات پھر تم نے مجھ سےملنا ہے ۔۔۔میری حرکت دیکھ کر ۔۔۔۔۔اور میری بات سن کر جیدا کچھ گھبرا سا گیا اور اس سے پہلے کہ اس کا لن لوہے کی طرح اکڑ جاتا ۔۔ اس نے میرے ہاتھ سے اپنا لن چھڑایا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ہما۔۔۔۔ ۔۔۔ اور بولا ۔۔۔ یہاں کوئی بھی کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے لن کو دھوتی میں کر لیا۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی ۔۔۔ اس انجان جگہ پر ہم کیسے مل سکتے ہیں؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ یہ انجان جگہ نہیں ہے اور تم نے مجھ سے ضرور ملنا ہے تو وہ میرے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔ایک تو تم بچوں کی طرح ہر بات میں بڑی ضد کرتی ہو۔۔۔ پھر بولا۔۔۔ لیکن اس دفعہ تم نے مجھے بتانا ہے کہ میں نے تمھارے ساتھ کہاں جانا ہے۔ اور مجھ سے اپنا لن چھڑا کر باہر نکل گیا۔۔۔
        کچھ دیر بعد میں بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر آ گئی اور لان کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔تو اچانک ایک خوبصورت سی خاتون نے میرا راستہ روک لیا اور بولی۔۔۔ کیسی ہو ہما۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن پہچان نہ پا ئی تاہم میں نے بڑی خوش اخلاقی سے اس کی باتوں کا جواب دیا۔۔۔ اور پھر اس خاتون سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اماں کی طرف چلی گئی۔۔۔۔ جہاں اماں ایک اجنبی خاتون کے ساتھ بڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچی ۔۔۔۔ تو اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ ہما بیٹی خالہ کو سلام کرو ۔۔۔ تو میں نے اس خاتون کو بڑے ادب سے سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں باتیں کر رہیں تھیں کہ مجھے عظمٰی باجی نے آواز دیکر اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔ اور بڑے معنی خیز لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ کیسی لگی میڈم ؟ تو میں نے عظمٰی باجی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا مطلب ہے جی آپ کی بات کا۔؟؟۔ تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ ابھی پتہ چل جائے گا بچہ۔۔۔۔ اور چپ ہو گئی۔۔۔ اب میرے دل میں اس بات کی کھد بُد شروع ہو گئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔۔ آخر لاکھ منتوں اور ترلوں کے بعد عظمٰی باجی کہنے لگیں ۔۔۔جہا ں تک میرا قیاس ہے یہ خاتون اپنے بیٹے کےلیئے تمہاری اماں کے پاس آئی ہے۔۔
        عظمٰی باجی کی بات سُن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔ اور حیرت کے مارے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔اور میں کبھی عظمٰی باجی کی طرف اور کبھی اس خاتون کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ مجھے یوں حیران ہوتا دیکھ کر عظمٰی باجی ۔۔ گنگنا نے لگی۔۔۔ چھوڑ بابل کا گھر۔۔۔۔تم کو پیا جی کے گھر ۔۔۔ ایک روز جانا پڑے گا۔۔۔ ادھر میں بڑی حیرانی سے سوچ رہی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔ اسی دوران وہ خاتون اماں کے پاس سے اُٹھ کر جانے لگی۔۔۔ تو احتراماً اماں بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور کافی آگے تک اس خاتون کو چھوڑ کر آئی۔۔۔۔ جیسے ہی اماں واپس اپنی کرسی پر بیٹھی۔۔۔ میں عظمٰی باجی سے اُٹھ کر اماں کے پاس پہنچ گئی اور جاتے ہی اماں سے پوچھنے لگی۔۔۔ اماں یہ خاتون کون تھی ؟ میری بات سنتے ہی اماں نے ایک نظر عظمٰی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ بڑی کمینی ہے یہ عورت ۔۔۔۔اس کے پیٹ میں تو کوئی بات رہتی ہی نہیں ہے۔۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ارے تم ان کو نہیں جانتی ۔۔۔ یہ اپنی شفقت آپا تھیں ۔۔۔۔ چاچے منظور کی بیوی ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا وہ تو ٹھیک ہے پر اماں یہ بتاؤ ۔۔کہ ۔ یہ محترمہ آپ کے پاس کیا کر رہی تھی ؟ تب اماں اچانک سنجیدہ ہو گئی اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ دیکھ ہما ۔۔۔۔گو کہ انہوں نے خود تو نہیں کہا ۔۔۔ لیکن میں نے ادھر ادھر سے سنا ہے کہ یہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔تمہارے رشتے کے سلسلہ میں بڑی دل چسپی رکھتے ہیں۔۔۔ تو میں نے ایک دم اماں سے کہہ دیا کہ اماں ابھی میں نے پڑھانا ہے اور میں نے ابھی سے کوئی شادی وادی نہیں کرنی ۔۔۔ تو اماں نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا کہاکہ میری جان۔۔۔ کون کافر تمھاری شادی کروا رہا ہے ۔۔۔ ابھی تو ان لوگوں نے کسی کی معرفت صرف اس بات کے اشارے دیئے ہیں۔۔آگے نصیب میں ہوا تو ۔۔۔ تمھارے رشتے کی بات پکی ہو جائے گی ۔۔۔
        اپنے رشتے کی بات سُن رک میرے من میں ایک عجیب سی سرسراہٹ سی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دلہے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔اور دلہے سے ہوتی ہوئی بات ۔۔سہاگ رات تک گئی ۔۔۔اور سہاگ رات کا سوچ کر میری چوت کی تراس۔۔۔ مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔ اور چوت صاحبہ جو کہ پہلے ہی جیدے کا لن دیکھ کر کافی گرم ہو رہی تھی اب مزید گرم تر ہو گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ رات کو جیدے سے ملنا تو ہے ۔۔۔ پھدی کی گرمی ختم نہ سہی اس کا لن کم تو کر ہی دے گا۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پھر وقتی طور پر شانت ہوگئی۔۔۔۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ عظمٰی باجی کی آواز میرے کانوں میں گونجی وہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ ہما ہم سب فائق کے سسرال اس کی دلہن سے ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ چل پڑی ۔۔فائق بھائی کے سسرال کا گھر وہاں سے تھوڑا ہی دور تھا۔۔۔ میں عظمٰی اور تین چار اور خواتین ۔۔۔ ان کے گھر چلے گئے۔۔۔ دلہن کے گھر کے بڑے لوگ یعنی کہ اس کیے ماں باپ اور بڑے ۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ ماجد بھائی کی کوٹھی میں تھے اور وہ بے چارے اماں ابا اور بارات کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے ۔ اور ایک ایک بندے سے پوچھ رہے تھے کہ سر چائے ہو جائے ۔۔۔ اور کوئی چیز تو نہیں چاہیئے۔۔وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ ادھر عطیہ بھابھی کے گھر میں اس کی قریبی دوست اور رشتے دار خواتین بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ میں خواتین کو لیئے ہوئے سیدھا ہال میں چلی گئی۔۔۔ جہاں دلہن درمیان میں اور باقی ۔۔۔لڑکیاں اس کے آس پاس بیٹھیں ہوئیں تھیں اور وہ ذور ذور سے کسی بات پر ہنس رہیں تھی ۔۔۔ عطیہ بھابھی کے سامنے ایک ڈھولک بھی پڑی تھی ۔۔۔ لیکن اس وقت وہ سب لیڈیز ڈھولک کی بجائے آپس میں خوش گپیاں لگا رہیں تھیں۔۔۔ ۔۔۔
        ہمارے داخل ہوتے ہی ۔۔۔ وہاں پر ایک دم شور مچ گیا ۔۔۔ اور دو تین لڑکیاں عطیہ بھابھی کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں ۔۔ کل سے پہلے آپ لوگوں کا داخلہ اس گھر میں منع ہے تاہم ۔۔۔ کچھ دیر کی گفتگو ۔۔منت سماجت ۔۔اور ۔۔۔ بات چیت کے بعد ۔۔۔۔ وہ لڑکیا ں عطیہ بھابھی کے سامنے سے ہٹ گئیں ۔۔۔ اور ہمیں عطیہ بھابھی کے پاس بیٹھنے کی جگہ دی۔۔۔۔ ابھی ہم لوگ عطیہ بھابھی سے باتیں ہی کر رہے تھے کہ چائے کا دور شروع ہو گیا ۔۔۔ اور اچانک پتہ نہیں کہاں سے وہی لڑکا نمودار ہوا ۔۔۔ اور مجھے چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے بولا۔۔کیسی ہو ہما۔۔۔۔ اس کو یوں اپنے ساتھ بے تکلف ہوتے دیکھ کر مجھے غصہ تو بہت آیا ۔۔۔ لیکن میں خود پر جبر کر گئی ۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی پکڑنے کے لیئے جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔ اس نے پیالی دیتے ہوئے بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے میرے انگوٹھے کے ساتھ اپنا انگھوٹھا ٹچ کیا ۔۔۔۔ میں اس کی شرارت سمجھ تو گئی ۔۔ لیکن موقعہ ایسا تھاکہ میں اس کو کوئی جواب نہ دے سکتی تھی۔۔۔ اس لیئے خون کے گھونٹ پی کر چپ رہی۔۔۔
        عطیہ بھابھی کے پاس ہم کافی دیر تک رہے ۔۔پھر رات کافی ہو گئی تو عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔۔ کہ اب ہمیں چلنا چاہیئے۔۔۔۔ ان لوگوں نے ہمیں روکنے کی کافی کوشش کی لیکن ۔۔۔ ہم لوگ وہاں نہ رُکے اور جب واپس آنے لگے تو ان میں نے دو تین خواتین اور وہی لڑکا ۔۔۔۔۔ ہمیں چھوڑنے کے لیئے ماجد بھائی کی کوٹھی تک آیا ۔۔۔۔۔ کوٹھی پہنچتے ہی ہمارا ٹاکرا ۔۔۔ اماں کےساتھ ہو گیا وہ ہمارا ہی انتظار کر رہیں تھیں ۔اور انہوں نے ہمیں اپنے اپنے کمروں کا بتایا اور سونے کی تاکید کرتے ہوئے خود وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی میں نے اپنا بیگ کھولا ۔۔۔ اور رات کے پہننے والے کپڑے نکال لیئے۔۔۔ اور پھر کپڑے تبدیل کرنے کے لیئے جیسے ہی واش روم کی طرف بڑھی۔۔۔ تو وہاں خواتین کی لمبی قطار کو دیکھ کر میں وہاں سے باہر آ گئی اور کوئی اور کمرہ دیکھنے لگی ۔۔ لیکن اتفاق سے میں جس کمرے میں بھی جھانک کر دیکھا اسے ہاؤس فُل ہی پایا۔۔۔ اور پھر میں اپنے کپڑے ہاتھ میں لیئے وہاں سے آگے چلی جاتی ۔۔۔ اس طرح چلتے چلتے میں گیلری کے آخری سرے تک پہنچ گئی ۔۔۔ یہاں پہنچ کر میری نظر ایک چھوٹے سے دروازے پر پڑی ۔۔ اور میں بلا سوچے اس میں گھس گئی۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں سرخ رنگ کا دبیز ساقالین بچھا ہوا تھا ۔۔۔ اور اس کمرے میں دو تین کرسیاں اور وکٹورین سٹائل کے دو سنگل سیٹر صوفے ایک طرف پڑے تھے جبکہ ان کے بلکل سامنے دو ٹرپل سیٹر صوفے پڑے تھےاور دیواروں پر بھاری پردے لگے ہوئے تھے میں نے ان پردوں ہٹا کر دیکھا تو یہ کھڑکیاں تھیں جو کہ باہر ۔۔لان کی طرف کھلتی تھیں۔۔۔ ۔۔۔ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ان کی سیٹنگ کی بلکل کوئی سمجھ نہ آئی اور میں نے ایک نظر کمرے کی طرف دیکھا اور جلدی سے پکڑے تبدیل کیئے اور باہر نکل آئی۔۔۔ اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ راستے میں اچانک مجھے ایک خیال آ گیا اور میں دوبارہ بھاگتی ہوئی اس کمرے کی طرف چلی گئی اور اب ایک نئے اینگل سے اس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔ اور مجھے یہ کمرہ اپنے کام کے لیئے نہایت مناسب معلوم ہوا ۔۔ کیونکہ ایک تو یہ برآمدے میں سب سے آخر میں تھا۔کہ جہاں لوگوں کا آنا جانا بہت کم تھا ۔۔ اور دوسرا اس کی بناوٹ ایسی تھی کہ دور سے کسی کو گمان بھی نہ ہوتا تھا ۔۔۔ کہ یہاں کوئی کمرہ ہے ۔۔اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں گئی اور کپڑوں کو رکھ کر میں سیدھا سرونٹ کوارٹر کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور پھر جیدے کو ایک مخصوص اشارہ کیا ۔۔۔ اور خود باہر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد جیدا ۔۔ میرے پاس کھڑا تھا اور وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بظاہر بڑی نیازی سے پوچھ رہا تھا کہ کہاں چلنا ہے؟ لیکن میری نظر اس کی دھوتی پر تھی ۔۔ جو اس کے رضامندی کا ثبوت دی رہی تھی ۔۔ دھوتی میں جیدے کا لن نیم کھڑا تھا۔۔۔پھر میں نے اس کو مطلوبہ کمرے کی لوکیشن سمجھائی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ لیکن وہاں تو کوئی کمرہ نہ ہے ؟ تو میں نے کہا یہی تو بات ہے وہاں پر ایک خفیہ کمرہ ہے اور پھر اس سے کہا کہ وہ مناسب فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے آجائے ۔۔۔
        جیدے کو ہدایت دے کر میں آگے بڑھی اور اس خفیہ کمرے کی طرف چلنے لگی۔۔۔۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد جیدا بھی اس کمرے میں آگیا ۔۔۔ اور کمرے داکل ہو کر اس کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔۔ اور بولا۔۔۔ کمال ہے بی بی جی ۔۔۔ میں نے صبع سے اس برآمدے کے کوئی سو چکر لگائے ہوں گے ۔۔ لیکن مجھے اس کمرے کا بلکل بھی پتہ نہیں چلا ۔۔۔ ابھی جیدے یہ کہہ رہا تھا کہ میں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئی۔۔۔۔جیدے کی دھوتی سے اس کا لن نکال لیا۔۔۔ اور اس کی طر ف دیکھنے لگی۔۔۔ جیدے کا کالا لن ۔۔۔ ابھی نیم کھڑا تھا۔۔۔۔ میں نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور اسے کو دبانے لگی۔۔۔میرے نرم ہاتھوں کا لمس پاتے ہی جیدے کا لن ۔۔۔ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اور میں اس کے شیش ناگ کو پھن پھیلاتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ جیدے کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور میں اس کے شاندار لن کا جائزہ لینے لگی تو جیدا بولا ۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔ زرا میرے ٹوپے پر اپنی زبان تو پھیرو۔۔۔ اور میں نے اس کی طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔ اور اپنا منہ جیدے کے لن کے قریب لے گئی اور سب سے پہلے تو اس کے موٹے ٹوپے کو اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر چوم لیا ۔۔۔ اس کا لن کافی تپا ہوا تھا۔۔۔ پھر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور جیدے کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔میری زبا ن کا لمس جیسے ہی اس کے ٹوپے پر لگا۔۔۔ جیدے کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔ اور وہ بولا۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔ ہما۔۔۔ میرا لن منہ میں ڈال ۔۔۔ اور میں نے اس کے لن کو اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔۔اور دو تین چوپے ہی لگائے ہوں گئے کہ اس کے لن نے مزی (پری کم) چھوڑنا شروع کر دی۔۔۔۔ اس کے لن سے نکلنے والی گرم مزی کا زائقہ کافی نمکین تھا اور پھر اس کے لن نے اتنی مزی چھوڑی کہ میرا منہ نمکین پانی سے بھر گیا۔۔۔۔۔ابھی میں جیدے کا لن چوس ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک جیدے نے میرے منہ سے اپنا لن کھینچا اور مجھے اوپر اُٹھا لیا ۔۔۔تو میں نے اوپر اُٹھتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ کیا ہے تھوڑا سالن تو اورچوسنے دو نا۔۔۔ تو وہ بولا۔۔۔ لیکن میں تمھارے ممے چوسنا چاہتا ہوں اور اس نے میری قمیض اوپر کی ۔۔۔۔ حسبِ روایت کپڑے تبدیل کرتے وقت برا میں نے پہنی ہی نہ تھی ۔۔۔ اس لیئے اس نے میری قمیض اوپر کی اور پہلے تو میرے نپلز سے کھیلنے لگا ۔۔۔ پھر جیدے نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں میں میرے دائیں ممے کا نپل لیا اور کسی بچے کی طرح اسے چوسنے لگا۔۔۔۔اس کے ممے چوسنے کی وجہ سے میری چوت میں آگ لگنا شروع ہو گئی اور پھدی میں پانی جمع ہو گیا ۔۔۔اور مین مزے سے ہلکی ہلکی کراہیں بھرنے لگی۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اورجیدے سے بڑی ہی شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔۔۔ جیدے میرا مما منہ میں لے کر چوس نہ ۔ نا۔۔۔ میری شہوت بھری آواز نے جیدے کومزید مست کر دیا تھا اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ہاں تیرا مموں کو اپنے منہ میں لے کر ہی چوسوں گا۔۔۔ اور ۔۔۔بڑے زور و شور سے میرے ممے چوسنے لگا۔۔۔
        Vist My Thread View My Posts
        you will never a disappointed

        Comment


        • #54
          ۔ترَاس قسط۔۔...13
          ترَاس
          13ترَاس ۔۔۔
          ابھی جیدے کو میرے ممے چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہمیں باہر سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں ۔۔۔ ا ن آوازوں کو سننا تھا ۔۔۔ کہ میں نے اور جیدے نے بیک وقت کمرے میں پڑے ٹرپل سیٹر ۔۔۔ صوفے کی طرف دوڑ لگائی اور اگلے ہی لمحے ہم دونوں ۔۔ اس ٹرپل سیٹر کے پیچھے دبکے ہوئےتھے۔۔۔اب آوازیں اور نزدیک سے سنائی دے رہیں تھی۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ مجھے کرنل ماجد کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ارے باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں شکریہ کی کیا با ت ہے۔۔۔آپ میری بڑی بہن ہو ۔۔۔ اور آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔۔۔ کرنل کی بات سن کر۔۔۔۔ جیدا ۔۔۔ جو کہ میرے ساتھ ہی صوفے کے پیچھے دبکا ہوا ۔۔پکڑے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔ اور ادھر ڈر تو مجھے بھی بہت لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن میری مہم جو طبیعت مجھے اس بات پر اُکسا رہی تھی کہ میں اُٹھ کر سامنے کا نظارہ دیکھوں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو جیدے نے ہاتھ بڑھا کر مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔۔۔لیکن میں بھلا ۔۔ جیدے کی کہاں سننے والی تھی۔۔ چنانچہ میں بڑی ہی احتیاط سے اوپر اُٹھی اور ۔۔ پھر۔۔ آہستہ ۔۔۔آہستہ ۔۔۔اُٹھ کر ۔۔۔۔ پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر پردے کا وہ حصہ تلاش کرنے لگی کہ جہاں سے پردہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔۔۔ خوش قسمتی سے پردے کا وہ والا حصہ قریب سے ہی مل گیا ۔۔۔۔۔ اور میں کھسکتی کھسکتی ۔۔۔۔ عین اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر بڑی ہی احتیاط سے ۔۔۔۔ پردے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔ وہ ٹوٹل تین نفوس تھے ۔۔۔ ایک کرنل ماجد۔۔۔۔ دوسرا اماں ۔۔۔ اور تیسرا ۔۔۔ کرنل کی نک چڑھی بیوی تھی۔۔۔
          کرنل اور اماں سنگل سیٹر پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ ان کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ کرنل کی بیوی کی پشت میری طرف تھی ۔۔۔ اور میری سیدھ سے تھوڑا ہٹ کر اماں اور کرنل بیٹھے ہوئے تھے۔۔ موضوع بارات اور صبع کا ناشتہ تھا ۔۔۔ اماں کرنل سے کہہ رہیں تھیں کہ ناشتہ صبع 7 بجے سرو کر دیا جائے اور ناشتے میں چائے اور بسکٹ یا کیک دیا جائے ۔۔۔ جبکہ کرنل اور اس کی نک چڑھی بیوی کا خیال تھا کہ 8/9 بجے تک ہلکا پھلکا ناشتہ دیا جائے۔جبکہ اماں اصرار کر کے کہہ رہیں تھیں کہ ۔۔کیونکہ بارہ ایک بجے تو برات کا کھانا تھا۔۔۔۔اس لیئے آپ لوگ صرف ہلکا سا ناشتہ ہی دیں۔۔۔ اس کے بعد وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔ زیادہ تر باتیں کرنل اور اماں ہی کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ بہت کم لیکن بڑے نخرے سے بات کرتی تھی۔۔۔کوئی پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد اچانک کرنل کی بیوی نے اپیئ کلائی اوپر ۔۔۔ اور پھر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی۔۔۔۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ نیلو ۔۔ باجی۔اجازت دیں کہ ۔۔ ہمارے سونے کے ٹائم سے بھی وقت کافی اوپر ہو گیا ہے۔۔۔ اور آپ نے بھی ریسٹ کرنا ہو گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اس سے قبل کہ اماں کوئی جواب دیتیں ۔۔۔ کرنل نے اپنی بیوی سے کہا ۔۔۔ ڈارلنگ اتنے سالوں کے بعد تو آپا ملی ہے ۔۔۔ اور سارے دن کے بعد ابھی ہی تو موقع ملا ہے ۔آپا اور میاں صاحب سے محفل جمانے کا۔۔ کرنل کی بات سُن کر اس کی بیوی بولی ۔۔۔ لیکن میاں صاحب تو مجھے ابھی تک نظر نہیں آئے تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ وہ اپنے دوست وقار صاحب کے ساتھ تھوڑے بزی تھے۔۔۔ بس کسی بھی لمحے آنے والے ہوں گے۔۔۔ ۔۔۔ کرنل کی بات سُن کر ۔۔ نک چڑھی آنٹی کہنے لگیں ۔۔ سوری ۔۔ مجھے تو بہت سخت نیند آ رہی ہے اور تم تو جانتے ہی کہ میں اتنی رات گئے تک جاگنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔ اس لیئے میں تو چلی ۔۔ تم بھی آ جانا۔۔۔ تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ بری بات ہے ۔۔۔ میاں صاحب آنے والے ہیں ۔۔۔۔ وہ کیا سوچیں گے ۔۔ لیکن نک چڑھی آنٹی نے ان کی ایک نہ سُنی اور کہنے لگی۔۔۔ سوری ۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔سوری باجی۔۔۔۔ میں مزید نہیں رُک سکتی اور پھر ۔۔ وہ کرسی سے اُٹھی اور سونے کے لیئے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔۔
          نک چڑھی آنٹی کے جانے کے بعد ۔۔۔ کچھ دیر تک تو کمرے میں ایک گھمبیر سناٹا سا چھا گیا ۔۔ اور اماں اور انکل ۔۔۔۔ سر جھکائے ۔۔۔ چپ چاپ ساتھ ساتھ سنگل سیٹر پر بیٹھے رہے ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ کمرے میں اماں کی آواز گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں ۔۔ یہ ابھی تک میاں صاحب نہیں آئے۔۔۔ اماں کی بات سُن کر کرنل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی۔۔۔ اور وہ بولے ۔۔۔۔ میاں صاحب کیسے آئیں گے ان کو تو بتایا ہی نہیں گیا۔۔۔ انکل کی بات سُن کر امان بڑی حیران ہوئی اور ان کی طرف بڑی حیرانی سے تکتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لیکن ابھی تو ۔۔ابھی تو۔۔۔۔ اماں کی حالت دیکھ کر کرنل نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اماں کی نقل اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جی ابھی تو ۔۔ابھی تو جو کہا گیا تھا ۔۔۔ وہ جسٹ اپنی بیگم صاحبہ کو مطمئن کرنے کے لیئے کہا گیا تھا۔۔۔۔ انکل کی بات سُن کر اماں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بڑے معنی خیز ۔۔۔۔ نظروں سے انکل کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ بات تھی۔۔۔
          اس کے بعد ایک دفعہ پھر کمرے میں چند سیکنڈ کے لیئے گہرا سناٹا چھا گیا۔۔اور پھر اس دفعہ بھی اماں نے ہی اس سناٹے کو توڑا اور پھر میں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔ اماں کے چہرے پر ایک شہوانی سے مسکراہٹ ابھرآئی تھی۔۔۔ اور انہوں نے سامنے دیکھتے ہوئے کرنل کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔اج کل ۔۔۔۔ کی حال اے تیرے گھوڑے دا۔۔۔۔۔ ( آج کل تمھارے گھوڑے کا کیا حال ہے ) امان کی بات سُن کر ۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔ اچانک ہی انکل کے چہرے پر بھی ایک شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی تھی اور انہوں نے بھی اماں کی طرح سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی تسی گھوڑے دا حال پچھ رے او۔۔۔۔۔ یا۔۔ لوڑے دا۔۔۔ ( باجی آپ گھوڑے کا حال پوچھ رہی ہو یا لوڑے (لن) کا ) تو اماں اٹھلاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ جو مرضی سمجھ لو ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ اپنی پینٹ کی طرف بڑھایا اور ۔۔۔ اس کو زپ کو کھول کر اپنا لن باہر نکلا ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اماں کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ کر بولے۔۔۔گھوڑا تے ٹھیک اے۔۔ لوڑے دے حال آپی پچھ لو( گھوڑا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔لن کا حال آپ خود ہی معلوم کر لو) اب میری نظریں انکل کے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ اماں نے اپنی انگلی کی پوریں انکل کے لن کے ٹوپے پر پھیرنے شروع کر دیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اماں یہ کام بڑی ہی مہارت سے کر رہیں تھیں ۔۔ اور میں دیکھا کہ ۔۔۔ انکل کا لن جو شروع میں ایک مردہ چھپکلی کی طرح سے تھا ۔۔۔ اماں کی انگلیوں کے کمال سے اب آہستہ آہستہ جان پکڑنے لگا تھا۔۔۔ اور انکل ۔۔۔ بڑے غور سے اماں کی یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔۔۔اب آہستہ آہستہ انکل کا لن کھڑا ہو تا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ ان کا لن مکمل کھڑا ہوتا ۔۔۔ اچانک انکل نے اماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔۔۔ میں زرا کنڈی لگا آؤں ۔۔۔۔ اور اپنی سیٹ سے اُٹھ گئے ۔۔۔ ان کے سامنے ہی تو پردے کے پیچھے میں کھڑی تھی جبکہ میرے نیچے جیدا ۔۔۔ لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ اور اب اس کے بدن کی کپکپاہٹ قدرے کم ہو گئی تھی اور اب وہ بھی میری طرح اُٹھ کر کھڑے ہو کر نظارہ دیکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
          انکل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے اس جھری کو بھی بند کر دیا۔۔کہ جس سے میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور ان کے جانے کا انتظار کرنے لگی چند سیکنڈ کے بعد مجھے۔۔۔ کمرہ لاک کرنے کی مخصوص آواز سنائی دی۔۔۔ پھر انکل کی واپس صوفے پر بیٹھنے کی آواز سنائی دیتے ہی میں نے بردے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔انکل صوفے پر بیٹھ چکےتھے ۔۔۔ اور اب دوبارہ سے اماں نے انکل کے لن کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ اور ان کے ٹوپے پر ہلکہ ہلکہ مساج کر رہیں تھیں۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ انکل کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔۔جسے دیکھ کر ۔۔۔۔ میرے تو منہ میں پانی بھر آیا۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف انکل کا لن ۔۔۔ جیدے کی طرح خاصہ لمبا اور موٹا تھا ۔۔۔ جیدے کے لن کا رنگ کالا جبکہ انکل کا لن کافی گورا تھا ۔۔۔۔ اور ان کے لن کی خاص بات یہ تھی کہ ٹوپے سے تھوڑا نیچے ان کے لن میں ہلکا سا خم تھا۔۔۔۔ یعنی کہ انکل کا لن تھوڑا ٹیڑھا تھا۔۔۔۔انکل کا خوبصورت سا لن دیکھ کر میرے بدن میں بھی خماری چڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ ۔۔ میں نے جیدے ( جو کہ اتنی دیر میں کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔ اور میری طرح ۔۔۔ پردے کی جھری سی سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ ) چونکہ قد میں۔۔۔ میں جیدے سے تھوڑی شارٹ تھی اس لیئے پردے کے نیچے والی جھری سے میں جبکہ میرے ساتھ کھڑا جیدا ۔۔۔ اپنی گردن ٹیڑھی کر کے اور تھوڑا سا میری طرف جھک کر ۔۔۔۔عین میرے سر کے اوپر سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میں نے بھی۔۔۔اپنا ہاتھ بڑھا یا اور جیدے کی دھوتی سے اس کا نیم کھڑا ۔۔۔ لن نکال لیا ۔۔۔اور اسے اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔اور اماں کی طرح جیدے کے لن کے ٹوپے پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں میں آ کر جیدے کا لن کسی مست ناگ کی طرح کھڑا ہونے لگا ۔۔۔۔ اور جیدے کے لن کی گرمی ۔۔۔۔ میرے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی سیدھی میری چوت میں ۔۔ داخل ہونے لگی۔۔۔۔
          ادھر جیسے اماں کے ہاتھ میں انکل کا لن کھڑا ہوا۔۔۔ اماں نے انگلیاں چھوڑ اب اپنے ہاتھ کر گرفت میں انکل کا لن لیا اور کہنے لگیں۔۔۔۔یہ بد معاش تے اجے وی اسی طرں ۔۔۔۔۔ لوے دا لویا اے۔۔۔ اینوں کی کھلاناں ایں ( تمہارا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ۔۔۔ لوہے کر طرح ہے تم اسے کیا کھلاتے ہو؟)۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ ۔۔۔ اماں کی شلوار میں ڈال دیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ شہوت بھری آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ ایدی خوراک پھدی اے۔۔۔ تے میں اینوں ۔۔ پھدیاں کھلانا واں ( اس کی خوراک چوت ہے اور میں اس کو چوتیں کھلاتا ہوں) پھر اس نے غالباً ۔۔ اماں کی چوت میں ۔۔ انگلی ڈالی تھی۔۔ کیونکہ اچانک ہی میں نے اماں کے منہ سے ایک دلکش سی ۔۔۔ شہوت بھری آواز سنی تھی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔ انکل اماں سے کہنے لگے۔۔۔۔ باجی ۔۔۔تیری پھدی بلکل ویسے کی ویسے ہی ہے۔۔۔ گرم۔۔۔۔ جوان ۔۔۔ اور پانی سے بھر پور۔۔۔انکل کی بات سنتے ہی اماں ن اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی کرنل اماں کی چوت میں اپنی انگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ یہ نظارہ دیکھ کر میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا جیدے کا لن ۔۔جوش میں آ کر ۔ بار بار اکڑنے لگا۔۔۔ اور میں بھی بڑے پیار اور جوش سے اس پتھر کو دبانے لگی۔۔۔میرے بار بار دبانے سے جیدا بڑا مست ہو گیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔ بڑی گشتی ہے تیری ماں۔۔۔۔
          ادھر کچھ دیر تک تو انکل اماں کی چوت میں اپنی سخت انگلیوں کو اندر باہر کرتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی انگلی کو اماں کی چوت سے نکالا اور ۔۔۔۔کہنے لگی۔۔۔۔۔۔نیلو باجی۔۔۔۔ میرا جی کر رہا ہے کہ جیسے آپ میرے بچپن میں میرے ساتھ کیا کرتے تھیں آج بھی ویسا ہی کرو نا۔۔۔۔۔آپ یوں سمجھ لو کہ ماجد وہی میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے جو آپ کے گھر پڑھنے کےلیئے آیا ہے۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔کرنل نے صوفے کے ساتھ اپنی پشت لگا دی ۔۔۔۔ اب اماں اپنی جگہ سے اُٹھیں ۔۔۔۔ اور سب سے پہلے اپنی شلوار کو اتار دیا ۔۔۔۔ پھر وہ نیچے قالین پر بیٹھ گئیں اور کرنل کی پینٹ ۔۔۔ اتاری اور پھر اس کا انڈر وئیر بھی اتار دیا۔۔۔۔ اب کرنل ۔۔۔ صرف شرٹ پہنے ۔۔۔ صوفے پر بیٹھا ۔۔۔ تھا۔۔۔۔اور اماں نے بھی ابھی تک صرف اپنی شلوار اتری تھی ۔۔۔ جبکہ ابھی قمیض ابھی تک ان کے جسم پر پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ انڈوئیر اتارتے ہی۔۔۔ اماں ۔۔اما ں نے کرنل کے موٹے اور لمبے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔ اور اسے ہلانے لگیں۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ اماں نے کرنل کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ اس کے لن کی طرف منہ بڑھایا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ سب سے پہلے۔اپنی ۔۔ زبان نکال کر اس کے لن کے گرد پھیرنے لگی۔۔۔۔ اماں کو کرنل کا لن چوستے دیکھ کر میں بھی جوش میں آ گئی اور میں نے جیدے کا لن آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔ادھر جیدا ۔۔۔۔اپنا ایک ہاتھ میری شرٹ کے اندر لے گیا۔۔۔۔۔ اور میرے ممے دبانے لگا۔۔۔جبکہ ہم دونوں کی نظریں سامنے ۔۔۔ اماں پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔ جہاں اماں ۔۔۔ کرنل کا لن اپنے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی۔۔۔۔ اماں کرنل کر لن چوستے ہوئے جیسے ہی اپنی گانڈ اٹھاتی ۔۔۔ تو جیدا جھک کر میرے کان میں کہتا ۔۔۔ تیری ماں دی بنڈ بڑی ودیا اے ( تمھاری اماں کی کتنی پیاری گانڈ ہے) میرا سارا دھیان چوپے کی طرف تھا۔۔ لیکن جیدے کے کہنے پر میں نے اماں کی گانڈ کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گئی۔۔۔۔ اماں کی گانڈ ۔۔ بہت گول اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور جو دیکھنے میں کافی موٹی اور بڑی ہی پُر کشش تھی ۔۔۔۔اتنی پیاری گانڈ دیکھ کر میں نے جیدے ہاتھ بڑھا کر جیدے کا منہ نیچے کیا اور اس سے پوچھا ۔۔۔۔ توں کدی لئی اے؟ ( تم نے کبھی اماں کی بنڈ ماری ہے ) تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔کئی واری(بہت دفعہ ماری ہے) تو میں نے اسے کہا کہ میری وی لے نا ( میری بھی گانڈ مار نا) تو وہ اسی سرگوشی میں بولا ۔۔۔ اجے نئیں( ابھی نہیں ) تو میں نے اسے کہا وہ کیوں ؟ تو اس نے اسی سرگوشی میں بتلایا کہ پہلی دفعہ بہت درد ہوتا ہے اس لیئے ۔۔۔۔
          اماں کافی دیر تک انکل کا لن چوستی رہی ۔۔۔۔ اور انکل۔۔۔۔ مستی میں وہی ۔۔مست آوازیں نکالتے رہے ۔۔ جو ہر آدمی چوپا لگاتے ہوئے نکلتا ہے۔۔۔ جیسے ۔۔۔ پورا ۔۔ لو نا۔۔۔۔ یس۔۔یس۔س۔س۔س۔س۔۔۔ تھوڑا ٹوپا منہ میں ۔۔۔ لو۔۔۔ اور اماں کرنل کی ہر ہدایت پر یوں عمل کرتی جیسے کہ وہ ان کی رنڈی ہوں ۔۔۔ پھر امان نے انکل کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنی قمیض اوپر کی اور اپنے ممے نکال کر انکل سے بولیں ۔۔۔ لو بیٹا دودھ پی لو۔۔۔اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا منہ پورا منہ کھولا ۔۔۔ اور اما ں کے مموں کو بارے بارے چوسنے لگا۔۔۔ اور پھر وہاں سے منہ ہٹا کر کہنے لگا۔۔۔ باجی تیرے مموں کی اٹھان ابھی بھی وہی ہے۔۔۔ زرا فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ کرنل کی بات سُن رک اماں کہنے لگی۔۔۔ دودھ پی بیٹا دوھ پی۔۔۔۔۔۔۔اور کرنل سچ مُچ اماں کا ایسے دودھ پینے لگا کہ جیسے کرنل کوئی چھوٹا بچہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ ادھر دودھ پینے والا سین دیکھ کر ۔۔۔۔ جیدے نے بھی میرے مموں پر اپنی گرفت سخت کر لی تھی ۔۔۔۔اور اب اس کا لن میری گانڈ کے چھید سے ہوتا ہوا۔۔اس کا ٹوپا ۔۔ میرے سوراخ تک آ پہنچا تھا۔۔ اور ۔۔۔ اس کا لن میری گانڈ کے عین اوپر آ کر ایڈجسٹ ہو گیا تھا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ جیدا ہے۔ ہلکے گھسے بھی مار رہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          کرنل کر اپنے ممے چوستے وہئے دیکھ کر امان نے کرنل کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں۔۔۔ بس کرو ۔۔ بیٹا ۔۔۔ اب دودھ کا ٹائم ختم ہو گیا ہے ۔۔ تو کرنل نے اماں کے ممے سے سر ہٹا کر کہا تو کس کا ٹائم شروع ہے باجی؟؟ تو اماں نے ۔۔۔۔ بڑی ہی مستی میں کرنل کو جواب دیا۔۔۔ اب تیرا جوس پینے کا ٹائم ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ صوفے پر کھڑی ہو گئیں اور اپنی دونوں ٹانگیں کھلی کر کے دیوار پر لگی ایک بڑی سی تصویر کو پکڑ لیا اور اپنی چوت کرنل کے منہ پر رکھ دی۔۔۔پردے کے پیچھےکھڑی مجھے اور جیدے کو اماں کی چوت چاٹنے منظر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ کیونکہ ہمارے سامنے اماں کی پشت تھی۔۔۔ اور ا ن کی پھدی کرنل کے منہ کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور وہ ہلکہ ہلکہ کراہتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا گرم جوس۔س۔س۔س۔۔۔۔ میرے خیال میں کرنل نے اپنی زبان سے اماں کی چوت کی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا تھا کوانکہ پیچھے سے ۔ہمیں اماں کرنل کے چہرے پر برش کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ اماں کے باقی مناظر کی طرح یہ منظر بھی کافی کمال کا تھا۔۔۔ اور میری ٹانگوں کے بیچ میری گرم چوت ۔۔۔ بھی بار بار مجھ سے اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی ۔۔۔ کہ کرنل کی طرح جیدا بھی اسے چاٹے ۔۔ چنانچہ میں نے جیدے کو اشارہ کیا ۔۔۔۔ غالباً جیدا بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے میری چوت کی چٹائی کرے ۔۔۔اس لیئے وہ بڑی احتیاط سے نیچے قالین پر بیٹھا ۔۔۔اور پھر کھسکتا ہوا ۔۔۔ میری ٹانگوں کے بیچ آ گیا ۔۔۔۔اماں کی طرح میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھولا ۔۔۔۔اور جیدے کے ہونٹوں پر اپنی پھدی رکھ دی۔۔۔۔ جیدا میری نو جوان پھدی کی مہک پا کر اتنا مست ہوا ۔۔۔۔ کہ اس نے میرے دانے کو اپنے منہ میں لیا اور دانتوں سے کاٹ دیا۔۔۔۔۔۔ درد اور مزے کی بڑی ہی شدید لہر میرے وجود میں پھیلی ۔۔۔۔ اور میں نے بڑی مشکل سے اپنے حلق تک آئی ہوئی اپنی ۔۔ چیخ کو بڑی مشکل سے ضبط کیا۔۔۔۔لیکن جیدے کو کچھ نہیں کہا ۔۔۔ ادھر سمجھدار جیدا ۔۔۔۔فوراً بات کو سمجھ گیا اور پھر اس کے بعد اس نے میری پھدی کو دانتوں سے بلکل نہیں کاٹا۔۔۔۔۔۔۔
          کافی دیر تک اماں نے اپنی چوت کو کرنل کے منہ کے ساتھ جوڑی رکھا۔۔۔ اور اس دوران مراے خیال میں اماں کی چوت نے دو دفعہ پانی چھوڑا ہو گا وہ یوں کہ۔۔۔ کم از کم دو دفعہ میں نے اماں کے جسم کو کانپتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔اورا دھر خود میں بھی جیدے کے منہ میں دو تین دفعہ فارغ ہو چکی تھی۔۔۔۔
          پھر اماں نے کرنل کے منہ سے اپنی پھدی کو ہٹایا اور بولیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا ۔۔جوس ۔۔۔۔ تو کرنل اپنے ہونٹوں کے ارد گرد لگی اماں کی منی کو اپنی زبان سے صاف کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ باجی آپ کا یا آپ کی چوت کا جوس۔۔۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ چوت بھی تو میری ہے نا جان۔۔۔ اور پھر وہ نیچے اتری اور بولی ۔۔۔۔ اب میں تمھارے لن کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ۔۔۔۔ اپنی گانڈ کرنل کی طرف کر دی۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں کھلی کر کے کرنل کے لن پر تھوڑا سے تھوک لگا کر اسے چکنا کیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں کی یہ ساری کاروائی بلکل میری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی ۔۔اور فرسٹ تائم میں نےامان کی چوت دیکھی تھی۔۔۔۔۔ اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ بناوٹ میں میری اور اماں کی چوت ایک جیسی تھی۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا۔۔۔ کہ اماں کی چوت کے ہونٹ کثرتِ استعمال کی وجہ سے کافی لٹک گئے تھے جبکہ میری چوت کے ہونٹ ابھی تک اندر کی طرف مُڑے ہوئے تھے اور اپنی نیچرل حالت میں تھے۔۔۔۔ ادھر اماں کی چوت کا دانہ بھی میرے دانے سے کافی موٹا تھا ۔۔۔ باقی اماں کی چوت بھی میری چوت کی طرح کافی ابھری ہوئی اور گوری تھی ۔۔۔ میری چوت کے ہونٹوں کا رنگ پنک سا تھا اور یہ اپنی اوریجنل حالت میں تھے۔۔۔ جبکہ اماں کی چوت کے ہونٹ گھسے مروا مروا کے کافی سیاہ ہو چکے تھے۔۔۔۔ اوورآل۔تھوڑے سے فرق کے ساتھ ۔ میری اور اماں کی چوت بلکل ایک جیسی تھی۔۔۔
          ادھر اماں نے کرنل کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔۔۔ اور اسے اپنی چوت کے لبوں پر رگڑ رہیں تھیں۔۔۔پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے آہستہ آہستہ ۔۔۔ کرنل کے لن کو اپنی چوت کے لبوں کے اندر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ کرنل کا اتنا بڑا لن ۔۔ اماں کی چوت میں غائب ہو گیا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ جیسے ہی کرنل کا سارا لن اماں کی چوت میں گھسا ۔۔۔۔ اماں نے ایک ہلکی سی چیخ ماری۔۔۔س۔س۔۔سس۔۔۔اور بولی۔۔۔ چلا گیا تیرا۔۔ لن میری پھدی میں۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر پیچھے سے کرنل بولا۔۔۔۔ تو اب جھٹکے مار باجی۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ تیری پھدی کتنی گرم ہے۔۔۔۔ جلدی سے گھسے مار۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔اور کرنل کی سیکسی بات کو سُن کر اماں نے کرنل کے لن پر تیز تیز اٹھک بیٹھک شروع کر دی۔۔۔ ادھر میری آنکھوں کے سامنے کرنل کا بڑا سا لن اماں کی چوت میں آ جا رہا تھا۔۔ یہ منظر اتنا دل کش اور ۔۔۔سیکسی تھا کہ میں نے اپنی چوت کو جیدے کے منہ سے ہٹایا اور اس کے لن پر بیٹھنے کو کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ ادھر جیدے نے پہلے تو اپنا لن میری چوت میں ڈالنے سے کچھ پہلو تہی کی لیکن جب میں نے سختی کے ساتھ اس کا لن پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔ تو ۔۔وہ سمجھ گیا کہ ایسے جان نہیں چھوٹے گی ۔۔چنانچہ اس نے اپنا لن کو نیچے سے اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور لن کے ٹوپے کو میری چوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کا لن اپنی چوت میں اتاروں لیکن ۔اس نے بڑی چالاکی سے ۔۔ ٹوپے کے نیچے اپنی مُٹھی میں لن پکڑا ہوا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے۔۔۔ محض اس کا ٹوپہ ہی میری چوت کے لبوں میں ان اؤٹ ہو رہا تھا۔۔۔
          ادھر کی کشمکش سے فارغ ہو کر میں نے سامنے دیکھا تو ۔۔۔ اماں گھوڑی بنی ہوئی تھی اور کرنل فُل سپیڈ سے گھسے مار رہا تھا۔۔۔ اور اس کا لن کسی پسٹن کی طرح تیزی سے چلتا ہوا اماں کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔ پھر کرنل رُک گیا اور بولا۔۔۔۔ باجی اب تم دوبارہ سے لن پر بیٹھو۔۔۔۔ اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔اب اماں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو پہلے کی طرح میز کھلا کیا ۔۔۔۔۔۔ اور جلدی سے کرنل کے لن کو اپنی چوت میں لے لیا ۔۔۔۔اور جمپ مارنے لگی۔۔۔۔ ادھر میں بھی جیدے کے لن پر بیٹھی تیزی سے اٹھک بٹھک کر ر ہی تھی۔۔۔۔۔ اور ۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔۔ اور میں تھوڑی شانت ہو کر جیدے کے لن سے اُ ٹھ گئی اور پوری توجہ سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔میرا خیال میں ادھر اماں کا بھی فائینل راؤنڈ چل رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اماں کے منہ سے نکلنے والی سیکسی آوازوں میں اب شدت آ رہی تھی۔۔۔اور پھر میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اماں کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے۔۔۔۔ کرنل کے لن نے بھی منی اگلی ۔۔۔۔ جو اماں کی چوت سے ہوتی ہوئی۔۔۔کافی حد تک باہر بہہ گئی۔۔۔۔اور میرے سامنے اماں کی چوت۔۔ آف وائیٹ پانی سے برت گئی اور گاڑھا سا مادہ ان کی چوت کے لبوں سے نکل نکل کر باہر بہنے لگا۔۔۔۔۔
          اپنا اپنا مواد نکالنے کے بعد وہ دونوں کچھ دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے ۔۔۔۔ پھر سب سے پہلے اماں اُٹھیں اور انہوں نےاپنی شلوار کی اوپر کی جانب سے کرنل کا لن صاف کیا پھر اپنی پھدی کے اندر تک اپنی شلوار کا کپڑا پھیرا۔۔اور اپنی پدھی کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ۔ ا۔۔ وہی شلوار پہن کر کرنل کو پینٹ پکڑائی اوربولی۔۔ جلدیکرع۔۔۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں کرنل نے پینٹ پہنی اور وہ دونوں باری باری کمرے سے نکل گئے۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکلے میں اور جیدا بھی صوفے کے پیچھے سے باہر آ گئے اور میں جیدے کو آنکھیں دکھاتے ہوئی بولی۔۔۔ پورا کیوں نہیں لینے دیا مجھے۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولا۔۔وجہ ۔ تم کو معلوم ہی ہے پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔ کہ اس سے پہلے کہ کوئی اور یہاں آ جائے چل چلیں۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ میں برآمدے کی جانب سے جاؤں گا۔۔۔ تم دوسری طرف لان سے ہوتی ہوئی چلی جانا۔۔۔ اور پھر اس نے دروازے سے تھوڑا سا سر نکالا اور۔۔۔۔مجھے اشارہ کرتا ہوا باہر غائب ہو گیا۔۔۔ میں نے بھی چند سیکنڈ کا وقفہ دیا اور پھر ۔۔۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔۔۔رات کافی ہو گئی تھی لیکن چاندنی رات اور لائیٹس کی وجہ سے سب نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ رات کے پچھلے پہر اگر کوئی دیکھ لیتا تو جواب دہی مشکل ہو جانی تھی۔۔۔ چنانچہ میں نے روشنی سے بچنے کے لیئے سامنے والے لان کی بجائے کوٹھی کی پچھلی طرف سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ۔ کیونکہ یہاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے میرا پہچاننا کافی مشکل تھا۔۔ ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔ میں گھوم کر کوٹھی کی پچھلی سائیڈ پر دبے پاؤں چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کوٹھی کے وسط میں پہنچی۔۔۔۔ اچانک میرے کانوں میں دبی دبی ۔۔۔ سرگوشیوں کی آوازیں آئیں ۔۔۔ اور میں اک دم چونک گئی۔۔۔۔ میری چھٹی حس بیدار ہو گئی اور میں وہیں رُک کر آوازوں کی سمت معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ جلد ہی مجھے ان سرگوشیوں کی سمت معلوم ہو گئی ۔۔۔ یہ آوازیں مجھ سے کچھ دور درختوں کے پیچھے سے آرہیں تھیں۔۔۔ ان درختوں کو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔۔ کہ کیسے میں بھی اپنے یار کے ۔۔ساتھ ابھی میں نے اتنا ہی سوچا تھا ۔۔۔ کہ ایک نسبتاً اونچی آواز۔۔میں سسکی کی آواز سنائی دی۔۔۔ آؤؤؤؤ۔۔۔چ۔چ۔چ۔چ۔چ۔۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ ان درختوں کے پیچھے کیا سین ہو سکتا ہے۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی۔۔۔ درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں ان درختوں کے پاس پہنچی وہی ۔۔۔ مترنم ۔۔۔سیکسی اور ۔۔۔ دل کش آواز میں سسکی سنائی دی۔۔۔۔ اُوئی۔۔ ماں ۔۔ دانت تو نہ کاٹیں نہ۔۔۔۔یہ دل کش ۔۔۔۔ مترنم اور سیکسی آواز میں نے پہچان لی تھی۔۔۔۔ یہ آواز عظمٰی باجی کی تھی۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ کون تھا جو ان کو دانتوں سے کاٹ رہا تھا ۔۔ یہ جاننے کے لیئے میں آگے بڑھی ۔۔۔۔ تو میں دیکھ کہ ۔۔۔۔ عظمٰی باجی ۔۔۔ کی قمیض اوپر ہے اور انہوں نے درخت کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی ہے اور ایک شخص ان کے ممے چوس رہا ہے۔۔۔۔اور ممے چوستے چوستے جیسے ہی اس شخص نے سر اُٹھا کر عظمٰی باجی کی طرف دیکھ۔۔۔۔ تو میں نے اس بندے کو پہچان لیا۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔
          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی۔۔۔۔باقی۔۔ آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔
          Vist My Thread View My Posts
          you will never a disappointed

          Comment


          • #55
            Acchi Story Hai

            Comment


            • #56
              Wah kaya zabardast scene thay. Aur ab uzma ki jasossi hogi.

              Comment


              • #57
                زبردست اپڈیٹ ریٹ

                Comment


                • #58
                  Kudi k andar buhat aag lagi hui hai, jab tak bujhay gi nahi isnay rukna nahi. Jaiday ki shamat muft main aai hui hai aur uski lottery nikli hui hai. Hot hot hot

                  Comment


                  • #59
                    بہت گرم اور شہوت انگیز ہے

                    Comment


                    • #60
                      فورم کی بہترین سٹوریز میں سے ایک ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X