Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مس نینا ایک لڑکی کی داستان حیات۔

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مس نینا ایک لڑکی کی داستان حیات۔

    قسط نمبر ایک
    زندگی اچانک سے تبدیل ہوگئی تھی۔
    سب کچھ ایک دم سے بدل گیا تھا۔ بہاریں اچھی لگتی تھی اور نہ ہی کسی چیز میں کوئی مزہ آ رہا تھا۔

    بیڈ روم کی کھڑکی سے آنے والی سورج کی روشنی پہلے کتنی اچھی لگا کرتی تھی لیکن اب اس روشنی میں بھی وہ خوبصورت نہیں رہی تھی۔

    نینا ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ باہر سے شان کی زوردار آواز نے جیسے نینا کو ڈرا سا دیا۔
    شان زور زور سے چلا رہے تھے کہ جلدی ناشتہ لگاو مجھے آفس سے دیر کرواوں گی کیا؟

    یہ سنتے ہی نینا بھاگتی ہوئی کچن کی جانب بھاگی اور فوراً ٹیبل پر ناشتہ لگا دیا۔
    روز کی طرح آج بھی شان کا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔
    ایک وہ دن تھا جب شان صبح کا آغاز نینا کے ہونٹوں پر ایک لانگ ڈیپ کس کے ساتھ کرتے تھے اور جب تک یہ کس نہ ہو جاتا شان کو ناشتہ کرنے کا مزہ نہ آتا تھا۔
    اور ایک یہ دن تھے کہ شان اور نینا ناشتہ کی ٹیبل پر خاموشی سے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں۔

    نینا عمر میں کوئی اٹھائیس برس کی تھی جسم بلکل بائیس سال کی جوان لڑکی کی مانند تھا۔

    پتلی کمر کے دکھنے میں لگے کہ ابھی جھکنے سے جسم دو ٹکڑے ہو جائے گا۔
    گانڈ بھری بھری ہوئی اور پستان ایسے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔

    نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی نینا۔۔۔

    شان بھی کوئی کم خوبصورت نہیں تھے پانچ سے دس انچ چوڑا سینا اور بہت ہی خوبصورت سمارٹ جسم کہ کوئی بھی لڑکی فدا ہو جائے
    لیکن یہ خوبصورتی صرف باہر کے لوگوں کے لیے تھی نہ کہ ان دونوں کے آپس کے بیچ

    ناشتہ کرتے ہوئے نینا نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا کہ آج آفس سے کتنے بجے واپسی ہوگی؟

    شان نے غصے میں جواب دیا: کیوں؟؟؟
    نینا: جی وہ مجھے کچھ کپڑے لینے بازار جانا تھا تو سوچا آپ آ جائیں تو اکٹھے چلیں گے۔
    شان نے دوبارہ غصے کہا کہ تمہارا فضول خرچی کے علاوہ اور کوئی کام ہے بھی یا نہیں؟

    اور غصے سے ناشتہ چھوڑتے ہوئے آفس کی طرف نکل گئے۔

    نینا بس پیچھے سے جیسے آواز ہی دیتی رہ گئی کہ ناشتہ تو کرتے جائیں۔

    نینا پھر وہاں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گئی اور کچھ سوچنے لگی۔
    ایک وقت تھا کہ ناشتے کے ٹیبل پر شان کی باتیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں۔

    صبح کا آغاز اس طرح سے ہوتا تھا کہ جیسے پورے سال کی خوشیاں آج ہی مل جائیں گی۔

    آفس جانے سے پہلے شان نینا کو زور سے گلے لگاتے اور ڈیپ لپ کس کرنے کے بعد روانہ ہوتے۔

    یہی سوچتے ہوئے نینا نے ٹیبل سے تمام برتن اٹائے اور کچن میں رکھ کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنا بستر ٹھیک کرنے لگی اور صفائی کے دوران بیڈ کے تکیے کے نیچے سے شان کی تصویر نکالی اور اس تصویر کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر نینا کہیں ماضی میں کھو گئی۔

    یہ تصویر آج سے تین سال پرانی تھی جب شان کا رشتہ نینا کے لیے مانگا گیا تھا اور یہ تصویر نینا کو دکھانے کے لیے دی گئی تھی۔

    شان تصویر میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ شان اور ان کے والدین آج سے تین سال پہلے نینا کی فیملی کے ساتھ ملے تھے اور انہیں پہلی نظر میں ہی نینا اچھی لگ گئی اور رشتہ مانگ لیا۔

    نینا کی امی اور شان کی امی ایک ہی سکول اور کالج میں پڑھی تھیں اور شادی کے بعد پھر دوبارہ اس وقت ملی جب دونوں کے بچے جوان ہوچکے تھے۔

    نینا اکلوتی بیٹی جبکہ شان بھی اکلوتا ہی بیٹا تھا۔ دونوں فیملیز کی ملاقات اچانک ایک دن ائیرپورٹ پر ہوگئی۔
    شان کی فیملی امریکہ سے آ رہی تھی اور نینا اور اس کی فیملی نینا کے ابو کو سی آف کرنے گئے تھے۔

    نینا اس دن کالے شلوار قمیض میں تھی۔ ائیرپورٹ پر ہر بندہ بس نینا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔

    جسم ایسا کہ جیسے کسی نے سنگ مرمر کو تراش کے ایک مورت بنا دی ہو۔ کالے لباس میں نینا کا صاف شفاف چہرہ سب کو واضح دکھ رہا تھا۔
    پتلی کمر ، گول گانڈ، پستان ایسے کہ دل کرے کہ نظر ہی نہ ہٹے اور ایسے میں شان کی نظر اس پر پڑی تو بس جیسے دیوانہ سا ہوگیا اور ائیرپورٹ پر ہی اپنے والدین سے کہہ دیا کہ مجھے تو بس نینا سے ہی شادی کرنی ہے۔

    نینا کو بھی شان ایک ہی نظر میں جیسے پسند آ گیا ہو اور اسی طرح ائیرپورٹ پر ڈیرھ ساری باتیں کرتے ہوئے دونوں فیملیز اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔

    اگلے دن نینا سو کر اٹھی تو امی نے اسے بتایا کہ جلدی سے تیار ہو جاو تمہارے رشتے کے لیے آ رہے ہیں شان اور اس کی فیملی والے۔

    یہ سوچ کر جیسے حیران سی ہوگئی کہ ابھی کل ہی ملاقات ہوئی اور آج رشتہ۔۔۔
    اتنے میں نینا کی امی نے دوبارہ شان کی امی سے بات کی اور کہا کہ شان کی کچھ تصاویر بھی ساتھ لے آئیے گا فیملی والوں کو دکھانے کے لیے اور یہ کہہ کر کچن میں چلی گئیں۔
    نینا ابھی اس تصویر کو لے کر خیالوں میں گم تھی کہ اچانک ڈور بیل بجی اور اسے خیال آیا کہ دودھ والا کب سے بیل دے رہا تھا اور وہ اس تصویر کو ماضی میں ہی گم ہوئی پڑی ہے۔

    جلدی سے کچن سے برتن لیا اور دودھ لے کر کچن میں چولہے پر چڑھا آئی ابالنے کے لیے اور دوبارہ کمرے میں آ کر چیزیں سمیٹنے لگی۔

    سارا کمرہ صاف کرنے کے بعد وہ فوٹو البم لے کر بیٹھ گئیں اور اپنی منگنی کی تصاویر دیکھنے لگی۔

    رشتے سے تو انکار جیسے کیا ہی نہیں تھا نینا یا اس کی فیملی نے اور جٹ پٹ دونوں خاندان ایک ہوگئے تھے۔

    اگلے ہفتے ہی منگی کی رسم رکھ دی۔ منگنی والے دن تو جیسے نینا نے قیامت ہی ڈھا دی تھی شان پر

    گلابی رنگ کے جوڑے میں کسی گلاب سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ شان کا تو جیسے دل کر رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور یہاں سب کےسامنے نینا کو اپنی بانہوں میں لے لے دنیا سے بے خبر ہو کر پیار میں گم ہو جائے۔

    لیکن ایسا ہو نہیں سکتا تھا نینا بھی شان کی آنکھوں میں یہ دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ شان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور دوپٹے سے اپنا سینہ چھپا لیا اور تھوڑا شرما سی گئی۔

    وہ رات تو جیسے نینا اور شان کے لیے زندگی کی سب سے لمبی رات تھی ادھر شان نینا کو سوچ سو چ کر تڑپ رہا تھا اور ادھر نینا خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔

    بس وقت تھا کہ جیسے گزر ہی نہیں رہا تھا۔ ایک دم سے جیسے زندگی میں بہت کچھ حاصل ہوگیا ہو۔۔۔

    نینا ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ کچن سے کوئی آواز آئی اور ایک دم سے دوڑتے ہوئے وہ کچن میں گئی اور دیکھا کہ دودھ بوائل ہو کر برتن سے باہر گر گیا تھا اور اپنے آپ کو کوستے ہوئے چولہا صاف کرنے لگی۔

    نینا کچن سے واپس آئی اور دوبارہ تصاویر کو دیکھنے لگی اور ماضی میں کھو گئی۔

    منگنی کے بعد شان کا نینا کے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ شان کو ایک کمپنی میں پروجیکٹ منیجر کی پوسٹ پر نوکری مل گئی تھی اور نینا کا گھر اس کی کمپنی کے راستے میں ہی پڑتا تھا۔
    شان ہر دوسرے دن آفس سے واپسی پر نینا کےگھر سے چکر لگاتا ہوا جاتا تھا۔

    منگنی کو کوئی تین مہینے ہی گزرے تھے اور شان اب نینا کے گھر ایک فیملی ممبر کی طرح ہو گیا تھا۔

    اس لیے اگر کبھی شان نینا کے کمرے میں چلا جائے یا دونوں اکیلے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں تو نینا کے والدین میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔۔۔
    جاری ہے۔۔۔

  • #2
    Achi love story hai perh ker maza aya

    Comment


    • #3
      اس کہانی کا مجھے بہت دیر سے انتظار تھا یہ کہانی بہت ہی سیکسی ہے ۔
      اس کہانی کا پلاٹ بھی بہت اچھا ہے۔

      Comment


      • #4
        بہت زبردست کہانی ہے۔ پڑھنے میں مزہ آتا ہے ۔ کہانی کو مکمل ہونے تک جاری رکھیں

        Comment


        • #5
          Achha aghaz he

          Comment


          • #6
            بہت شاندار کہانی لگ رہی۔ فورم کی رونق دوبالا کردے گی۔

            Comment


            • #7
              Kahani tho jaandhar ha koun k plat main bohat wousat ha

              Comment


              • #8
                larkiyan itna nazuk dil ki tab hoti hain jb unko shoka khana ka shoq hota ha

                Comment


                • #9
                  شان کی بے رخی نینا کی زندگی میں لونڈوں کی آمد کا سبب بنے گی شاید

                  Comment


                  • #10
                    episode no:02

                    نینا ابھی تصاویر ہی دیکھ رہی تھی کہ اگلی تصویر نے جیسے ایک دم سے ایک نئی داستان سنا دی ہو۔
                    تصویر میں نینا ایک ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑٰ تھی اور ایک ہاتھ میں آئس کریم تھی۔
                    یہ وہ رات تھی جس میں نینا کی زندگی میں ایک بہت بڑا ٹیوئسٹ آیا تھا۔
                    یہ وہ رات تھی جب نینا اور شان پہلی مرتبہ ڈنر کے لیے اکیلے گئے تھے۔
                    نینا کے ابو بزنس مین تھے اس لیے انہیں ہر مہینے انٹرنیشنل وزٹ کے لیے جانا پڑتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ شان اور نیان کا ملاپ بھی ائیرپورٹ پر ہی ہوا تھا کہ نینا اور اس کی امی سی آف کرنے گئی تھیں اور شان اور اس کی فیملی امریکہ سے آ رہی تھی۔

                    آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا نینا کے ابو کو تین دن کے لیے آوٹ آف کنٹری جانا تھا اور وہ صبح کی پہلی فلائیٹ سے چلےگئے۔

                    شان نے رات کو نینا اور اس کی امی کے ساتھ ڈنر کا پلان کیا اور انہیں فون پر بتا دیا کہ وہ آج کہیں آوٹ آف ہوم ڈنر کریں گے۔

                    نینا کی امی نے تو جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنی عمر گزار لی اب تم دونوں چلے جاو اور کہاں میں کباب میں ہڈی بن کر تم دونوں کو ڈسٹرب کرتی رہوں گی۔

                    شان کی تو جیسے چاندی ہی ہوگئی ۔ ٹھیک رات آٹھ بجے وہ نینا کے گھر پہنچ گیا اور جا کر نینا کی امی سے گپ شپ کرنے لگا۔
                    نینا کہیں نہیں دکھ رہی تھی شان کے پوچھنے پر نینا کی امی نے کہا کہ تیار ہو رہی ہے اپنے کمرے میں اور بس آتی ہی ہوگی۔

                    تھوڑی ہی دیر میں نینا اپنے کمرے سے نکلی اور شان کو تو جیسے رات میں ہی دن لگنے لگا۔

                    نینا سرخ رنگ کے بہت ہی فٹنگ والے ڈریس میں ملبوس تھی۔

                    اونچی قمیض شلوار جیسے گانڈ سے چپک سی گئی ہو اور آج تو قمیض کا گلا بھی کافی ڈیپ تھا کہ نینا کا سینا بھی دکھ رہا تھا۔
                    شان تو جیسے دیکھتا ہی رہ گیا نینا کی خوبصورتی کو اور دل ہی دل میں جیسے شکر ادا کرنے لگا اوپر والے کا کہ اس نے اسے اتنا خوبصورت جیون ساتھی دیا۔

                    نینا انہی سوچوں میں گم تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔
                    دوسری طرف شان نے غصے سے کہا کہ تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ میری چیزوں کو مت چھیڑا کرو جہاں پڑی ہوتی ہیں وہاں ہی پڑی رہنے دیا کرو۔ میری ایک فائل تھی وہ اب گاڑی میں نہیں ہے کہاں گئی؟؟؟

                    نینا نے نہایت دھیمی آواز میں کہا کہ وہ فائل تو آپ نے کل واپس آفس بھجوا دی تھی کیونکہ آپ کے اکاونٹنٹ نے اس پر کچھ ورک کرنا تھا۔

                    بجائے اس کے کہ شان نینا کو سوری کہتا اپنے اس رویے پر الٹا نینا کو ہی غصہ ہو کر بولا تو صبح بتا نہیں سکتی تھی مجھے؟
                    اور غصے سے فون بند کر دیا۔ نینا تو جیسے الفاظ میں منہ میں دبائے ہی رہ گئی۔

                    واپس آ کر دوبارہ تصاویر کو دیکھنے لگی۔ شان نے نینا کو پک کیا اور ڈنر کے لیے نکلنے لگے۔
                    گاڑی میں بیٹھے تھے کہ نینا کی امی کی آواز آئی کہ احتیاطاً گھر کی چابیاں لے جاو۔ میں میڈیسن لے کر سو جاوں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ آو اور میں سوتی رہوں۔

                    نینا نے گھر کی چابیاں لی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ شان کی گاڑی سیدھا ایک بہت ہی اچھے ریسٹورنٹ میں پہنچ گئی اور وہاں وہ ڈنر کرنے لگے۔

                    ڈنر کے بعد وہ ایک سئیڈ پر پیدل چل دئیے اور سیدھے پھولوں والی دکان سے نینا کے لیے کچھ پھول خریدے شان نے۔

                    دونوں نے فیصلہ کیا سامنے آئس کریم پارلر سے آئس کریم کھائی جائے اور وہاں آئس کریم کھانے لگے اور وہاں شان نے یہ تصویر اپنے کیمرے میں سیو کرلی۔
                    (جو اس وقت نینا کے سامنے پوری داستان سنا رہی تھی۔)

                    رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ نینا نے گھڑی کو دیکھا اور شان کو کہا کہ کافی دیر ہو گئی ہے اب گھر چلنا چاہیے۔آپ مجھے ڈراپ کر دیں۔

                    اس پر شان نے کہا کہ اس کے والدین بھی گھر پر نہیں ہیں اس لیے وہ بھی نینا کے گھر ہی رہے گا اور آنٹی وک وہ پہلے ہی بتا کر آیا تھا۔

                    پہلے تو نینا تھوڑا ڈر سی گئی لیکن جب شان نے کہا کہ وہ آنٹی کو بتا کر آیا ہے تو نینا کو تسلی ہوئی۔

                    ٹھیک بارہ بجے وہ دونوں گھر پہنچ گئے۔ دونوں نے آرام سے مین گیٹ اوپن کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگئے۔

                    نینا کی امی گہری نیند سو رہی تھیں نینا نے شان کو اس کا کمرہ دکھا دیا اور خود اپنے کمرے میں چلی گئی۔

                    لیکن شان کو تو جیسے نیند ہی نہیں آ رہی تھی اور وہ بھی نینا کے کمرے میں چلا گیا۔

                    نینا گھبرا سی گئی اور نظروں ہی نظروں میں جیسے سوال کیا ہو کہ میرے کمرے میں کیوں آئے ہو؟

                    تو شان نے کہا کہ بیٹھو باتیں کرتے ہیں نا۔۔۔ نیند نہیں آ رہی
                    نینا نے کہا اوکے بابا لیکن پہلے چینج تو کر لیں ڈریس

                    اور نینا نے شان کو ایک ٹراوزر شرٹ نکال کر دی جو غالباً اس کے ابو کا تھا اور کہا کہ اپنے کمرے میں جا کر تبدیل کرکے آ جائے اورخود بھی تبدیل کرنے چلی گئی۔

                    شان جلدی سے کمرے میں گیا اور چینج کرکے نینا کے کمرے میں واپس آ گیا۔
                    نینا ابھی واش روم میں ہی تھی اور شاید باتھ لے رہی تھی۔ شان وہاں بیٹھ گیا اور سامنے پڑی کتابوں پر ایک نظر ڈالنے لگا۔

                    تھوڑی دیر میں باتھ روم کا دروازہ کھلا اور نینا باہر آئی۔

                    شان کو ایک دفعہ پھر دس ہزار واٹ کا زور کا جھٹکا لگا۔

                    نینا گیلے بالوں میں نائیٹ ڈریس پہنے ہوئے باہر نکلی۔ افففف کیا قیامت برسا رہی تھی۔

                    نہا کر تو جیسے ایسے لگ رہی تھی جیسے گلاب کے پھول کے اوپر شبنم کے قطرے گرے ہوئے ہوں۔

                    کپڑے جیسے جسم کے ساتھ چپک سے گئے تھے۔ جسم گیلا ہونے کی وجہ سے پورا جسم ایک آگ برسا رہا تھا
                    تھوڑا سا غور کرنے پر پتہ چلا کہ نینا کے بریسٹ میں کچھ چینچ دکھ رہا ہے۔ تھوڑا مزید غور کیا تو پتہ چلا کہ نینا نے تو برا پہنا ہی نہیں۔۔۔

                    ایک اور کرنٹ کا جھٹکا شان کو جیسے تڑپا سا گیا۔

                    نینا آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور بولی: جی جناب کیوں نہیں نیند آ رہی آپ کو؟؟؟
                    ابھی نینا نے سوال پوچھا تھا تو شان نے کہا کہ ایک منٹ میں واش روم سے ہو کر آتا ہوں

                    اور سیدھا نینا سے اجازت لے کر نینا کے کمرے کا واش روم میں چلا گیا۔

                    دروازہ لاک کرتے ہی سب سے پہلے اس نے وہاں لٹکے نینا کے کپڑے دیکھے اور اس کا شک ٹھیک نکلا۔
                    نینا کے کپڑوں کے نیچے اس کی برا موجود تھی۔ آہ۔۔۔ یہ وہی برا تھی جس نے آج پورا دن نینا کے دودھ سے سفید بریسٹ کو اپنے اندر چھپا رکھا تھا۔

                    شان تو جیسے پوری برا کا ایکس رے کر رہا تھا کہ اچانک نظر برا پر لگی سٹیکر پر پڑی۔

                    چھتیس کالج گرل سائز یعنی نینا کا سائز چھتیس تھا۔
                    نینا کے برا کو ہاتھ میں لے کر شان کو ابھی سے نینا کے بریسٹ اپنے ہاتھوں میں فیل (محسوس) ہونے لگے اور شان کو ٹراوزر کے اندر کچھ حرکت محسوس ہونے لگی۔

                    شان نے فوراً برا کو اپنی جگہ رکھا اور خود پر کنٹرول کیا اور منہ ہاتھ دھو کر واش روم سے باہر آ کر مسکرانے لگا۔

                    شان اور نینا آپس میں باتیں کرنے لگے اور شان تھا کہ اس سے اس کی مسکراہٹ کنٹرول نہیں ہو رہی تھی کیونکہ باتھ روم کے اندر ابھی ابھی جو وہ حرکت کرکے آیا تھا وہ اس کے ذہن میں بار بار آ رہی تھی۔

                    نینا بھی شان کو دیکھ کر شان کی مسکراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے آخر بول ہی پڑی کہ شان خیر تو ہے نا میں نوٹ کر رہی ہوں جب سے آپ واش روم سے واپس آئے ہیں مسکرائے جا رہے ہیں۔

                    شان اب نینا کو کیا بتائے کہ وہ کیوں مسکرا رہا ہے۔ بس کہہ دیا کہ ’’نہیں کوئی بات نہیں ایسے ہی مسکرا رہا ہوں‘‘

                    لیکن نینا نے کہا کہ شان کچھ تو وجہ ہے جو آپ ایسے مسکرا رہے ہیں۔
                    شان نے کہا: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

                    نینا نے کہا: اوکے اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو آپ اپنے کمرے میں جا کر سو جائیں

                    یہ سن کر شان نے سوالیہ نظروں سے نینا کو دیکھا ایک منٹ کے لیے کچھ سوچنے لگا اور پھر نینا کو بولا
                    نہیں میں نہیں بتاوں گا مجھے ڈر ہے کہ تم سن کر ناراض ہو جاو گی۔

                    نینا : ارے ایسی بھی کیا وجہ ہے کہ میں ناراض ہو جاوں

                    شان : نہیں نا۔۔۔ پلیز وجہ ہے ہی ایسی کہ میں نہیں بتا سکتا
                    اور پھر مسکرا دیا۔
                    دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ نینا کو کیا بتائے کہ وہ اس کی برا سے کھیل کر آیا ہے واش روم میں

                    نینا : ارے ڈرئیے نہیں ویسے بھی رات کا ایک بج رہا ہے اور اس وقت میرے اور آپ کے علاوہ کمرے میں ہے بھی کوئی نہیں اس لیے ریلیکس اور بتا دیں۔

                    یہ سن کر شان کو تھوڑا حوصلہ ہوا اور مسکرا کر بولا کہ میں بتاوں گا نہیں لیکن کچھ کر کے دکھاوں گاجس سے تمہیں وجہ سمجھ آ جائے گی میرے مسکرانے کی

                    نینا تھوڑا حیران ہوئی لیکن پھر بولی اوکے

                    شان:اوکے ویٹ۔۔ میں ابھی آیا
                    اور یہ کہہ کر واش روم میں چلا گیا۔
                    واش روم میں جا کر شان نے اپنی شرٹ اتاری اور نینا کی برا پہن لی۔ ہک تو بیک سے بند نہ ہو سکی لیکن ایسی ہی لٹکا لی جسم پر اور واش روم سے ہی نینا کو آواز لگائی کہ اپنی آنکھیں بند کرے۔

                    نینا نے کہا اوکے
                    شان نے واش روم سے پہلے اپنا منہ باہر نکالا پھر نینا کی آنکھیں بند ہونے پر وہ واش روم سے باہر آ گیا۔
                    شان نے کہا: اوپن یور آئیز۔۔۔
                    نینا نے اپنی آنکھیں کھولی تو جیسے ایک دم سے گھبرا گئی شان کی اس حرکت پر لیکن اگلے ہی لمحے شان کی حالت دیکھ کر اپنے زور سے قہقے پر کنٹرول نہ کر سکی اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے ہنسنے لگی اور ساتھ ساتھ شان کو بولنے لگی

                    نینا: بہت بہت بہت برا مذاق ہے۔۔۔ بھلا کوئی کسی کے واش روم کی تلاشی تھوڑی لیتا ہے؟

                    اور بیڈ سے اٹھ کر شان کی طرف بڑھی اور شان کے سینے سے اپنی برا کھینچ کر اتار لی اور شرماتے ہوئے الماری جا کر رکھ دی اور شا ن کو پیار سے ڈانتے ہوئے واپس بیڈ پر بیٹھ گئی جیسے خفا سی ہو۔

                    شان واپس واش روم سے اپنی شرٹ پہن کر آیا اور نینا کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا اور سوری کہنے لگا۔

                    نینا نے کہا: اب ذرا بتائیے کہ کیا کر رہے تھے آپ واش روم میں؟

                    تو اس پر شان نے ساری بات نینا کو بتا دی اور اپنی فیلنگز بھی بتا دی نینا کے پستانوں کے متعلق۔۔۔
                    نینا تو جیسے شرم سے اپنے ہی اندر سمٹ کر رہ گئی تھی اتنے میں شان نینا کے قریب ہوا اور نینا کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت پیار سے بولا۔

                    نینا ! آئی رئیلی لوو یو آ لاٹ رئیلی سوری اگر تمہیں یہ سب برا لگا۔

                    نینا کچھ نہ بولی اور صرف مسکرا دی اور اگلے ہی لمحے شان کے ہونٹ سیدھا نینا کے بائیں گال کے اوپر جا چپکے اور شان نے نینا کو ایسے کس کیا جیسے کوئی معصوم بچے کو کس کرتا ہے اور نینا کے قریب ہوگیا۔

                    شان اور نینا ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے اور نینا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے شان کو منع کرے گی تو کہیں شان ناراض نہ ہو جائیں اور اگر اسی طرح چلنے دیتی ہے تو شادی سے پہلے یہ سب ٹھیک نہیں اور اگر امی جاگ گئیں اور انہوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گی۔

                    ایک دم سے کئی سوال نینا کے دماغ میں جنم لینے لگے۔ یہی سوچ رہی تھی کہ شان کا اگلا وار سیدھا نینا کے دوسرے گال پر ایک اور کس کی شکل میں ہوا اور شان جیسے نینا سے لپٹ سا گیا۔
                    نینا ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ زور کی ڈور بیل بجی اور نینا دوڑتی ہوئی دروازے پر پہنچی۔

                    باہر منا کھڑا تھا۔ منا پڑوسن کا دس سالہ بیٹا تھا جو ہاتھ میں بریانی کی پلیٹ لیے کھڑا تھا کہ آپی نے بجھوایا ہے۔

                    نینا نے پلیٹ لی اور منا کو بھی اندر آنے کو کہا اور سیدھا کچن میں چلی گئی۔
                    وہاں سے بریانی اپنے گھر کے برتن میں ڈالی اور پلیٹ دھونے لگی اور ساتھ ہی منے سے اس کے گھر والوں کی خیرت اوراس کی پڑھائی کے بارے میں پوچھنے لگی اور یہ بھی پوچھ لیا کہ سب کیا کر رہے تھے اور یہ بریانی کس خوشی میں؟

                    منے نے معصومیت سے جواب دے دیا اور پلیٹ واپس لے کر چلا گیا۔
                    نینا جا کر دروازہ بند کرکے آگئی اور واپس کمرے میں آ گئی۔

                    نینا پورا دن گھر پر اکیلی ہوتی تھی اور کام گھر کا اتنا تھا کہ بس صبح ہی کٹم ہو جاتا تھا اور پورا دن نینا اور اس کی سوچیں ہی اس کی ساتھی ہوتی تھی۔

                    وقت دیکھا تو دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔
                    پتہ ہی نہیں چلا کہ کب دو گھنٹے یوں ہی سوچوں میں گزر گئے تھے لیکن نینا کرتی بھی کیا؟؟؟

                    دوبارہ سے فوٹو البم اٹھایا اور تصاویر دیکھنے لگی۔

                    جاری ہے۔۔۔

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X