• عید مبارک
    اردو اسٹوری ورلڈ فیملی کو
    ٭ دل کی گہرائیوں سے عید مبارک٭

Afsana اشکِ وفا

Joined
Nov 24, 2024
Messages
282
Reaction score
17,636
Location
pakistan
Gender
Male
Offline
چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار ہوگیا تھا۔ سورج کی کِرنیں اپنی روشنی ہر سو پھیلا رہی تھیں۔ دِسمبر کی سرد ہوائیں ایک خوبصورت احساس کی طرح ہر شے کو حسین اِمتزاج بخش رہی تھیں۔ لان میں لگے لہلہاتے پھول اور پتّے مسکراکر اپنے نکھرنے کی نوید دے رہے تھے۔
موسم میں خُنکی شامل ہو گئی تھی۔ کھوئی کھوئی سی عرشیہ اپنے ٹیرس پہ کھڑی کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔اپنے شانے پرکسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کرکے وہ چونکی۔
‘کہاں کھوئی ہوئی ہو کن سوچوں میں گم ہو؟’ وہ اُسکے چہرے کو بغور دیکھتا ہوا بولا
‘ارے آپ کب آئے ؟ ناشتا کرلیا کیا؟’ عرشیہ نے پردے برابر کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ ابھی ابھی جوگنگ کرکے واپس لوٹا تھا
‘ ہم ناشتا آپ کے بغیر کرلیتے؟’ اُس نے اُسکے بالوں کو نرمی سے چھوا
‘میں تو بس موسم کا جائزہ لینے یہاں آگئی تھی کتنا خوبصورت موسم ہورہا ہے نا !! ‘ کِھلی ہوئی مسکراہٹ عرشیہ کے چہرے سے ظاہر تھی۔ صبح کی مدھم روشنی، پھولوں کی دھیمی خوشبو اور گیت گاتے پنچھی اُسے اپنی کمزوری لگا کرتے تھے۔اُسے ہمیشہ سے ایسا موسم بہت دلکش لگتا تھا۔
‘تو کیا خیال ہے پھر؟ کیوں نہ ایسے خوبصورت موسم سے لُطف اُٹھائیں اور کہیں ایسی جگہ چلیں جہاں بس میں اور تم۔۔۔۔’
‘شارق۔۔!! میں آپکی شرارتیں خوب سمجھتی ہوں، موسم کا مزہ بھی لیںگے فالحال تو آپ ڈائننگ ٹیبل پر چلیںامّی ہمارا انتظار کررہی ہونگی، آپ نے مجھے بھی باتوں میں لگا لیا۔’
‘جو حُکم ملکئہِ عالیہ کا۔’ شارق نے سر کو ہلکا سا خم دیا اور محبت سے اُسکا ہاتھ تھام کر باہر کی جانب بڑھ گیا
************************


سُمیر یزدانی اور حیدر یزدانی دونوں بھائی تھے۔ دونوں ‘یزدانی پیلیس’ میں نیچے اوپر کے پورشنز میںرہتے تھے ۔ سُمیر یزدانی، حیدر کے بڑے بھائی تھے اور وہ اوپر والے پورشن میںاپنی بیوی زُنیرہ اور بیٹی عرشیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اُنکی تین ہی بیٹیاں تھیں جسمیں عرشیہ کا نمبر سب سے آخری تھا۔ وہ اُنکی سب سے چھوٹی اورلاڈلی بیٹی تھی۔ اُنکی بڑی دونوں بیٹیاں آئزہ اور مہوش شادیوں کے بعدکینیڈا میںمُقیم تھیں۔ جبکہ حیدر یزدانی نیچے والے پورشن میںاپنی بیوی انیلہ اور بیٹے شارق کے ساتھ رہتے تھے۔ شارق اُنکا اِکلوتاسپوت تھا۔ دونوں گھرانوں کے آپس میں بہت اچھے تعلُقات تھے۔ اِن سب نے اپنا آشیانہ بہت خوبصورتی اورڈھیر ساری مُحبتوں سے سجایا تھا۔اِنکا شُمار نہایت سُلجھے ہوئے گھرانوں میں ہوتا تھا۔
عرشیہ اور شارق ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔اُن دونوں کی مُحبت کسی سے چُھپی ہوئی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچپن سے ساتھ ساتھ ہی رہے تھے اور ہم عُمر ہونے کے باعث دونوں کی اسکولنگ بھی ایک ہی جگہ سے ہوئی تھی۔ دونوں نے ساتھ ہی ایم۔بی۔اے کیا تھا۔وہ دونوں زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوجے کے سنگ رہے تھے۔
شارق کے ایم۔بی۔اے کرنے کے دوران ایک دِن اچانک حیدرصاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جسے وہ برداشت نہ کر پائے اور اِس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی شارق اور عرشیہ کی منگنی کر گئے تھے۔ اُنکا سارا بزنس اب شارق بخوبی سنبھال رہا تھا۔ کُچھ عرصے بعد دونوں کی شادی کردی گئی اور اب اُنکی شادی کو ایک ماہ ہو چلا تھا۔ عرشیہ شارق کے ساتھ بہت خوش تھی، یہ زندگی کا وہ خواب تھا جو دونوں نے ساتھ مِل کر دیکھا تھا۔لیکن کبھی کبھی نجانے کونسی ایسی بات تھی جو عرشیہ کو ایک انجانی سی پریشانی میں مُبتلاکر دیتی تھی۔ شارق محسوس کرتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ عرشیہ خود اُسے اپنی پریشانی بتائے۔
************************
عرشیہ مُلازمہ سے سارے کام کرواکراپنے کمرے میں آگئی تھی۔آٹھ بجنے والے تھے، شارق کے آفس سے آنے کا ٹائم ہو رہا تھا۔ وہ تّیار ہو کر کپڑے طے کرنے کی غرض سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا ۔ اُسے کام میں مصروف دیکھ کر شارق کو شرارت سوجھی۔ آج اُس نے شارق کا پسندیدہ لِباس زیب تن کیا تھا۔ سُرخ و سفید فراک اور پاجامے میں ہلکے کام کا سوٹ پہنے وہ پہلے سے بھی زیادہ نِکھری نِکھری اور دلکش لگ رہی تھی۔ بالوں کو پُشت پر کُھلا چھوڑ دیا تھا۔
‘السّلامُ علیکُم’ عرشیہ نے اُسے آتا دیکھ کر سلام میں پہل کی
‘وعلیکُم السّلام! کیسے مِزاج ہیں ہماری مِسز کے؟ اور یہ کیا کام لیکر بیٹھی ہوئی ہو، مُلازمہ ہے نا اِن سب کاموں کیلئے۔’ شارق نے اُسکے ہاتھ میں پکڑی شرٹ لیکر سائیڈ میں پھینک دی۔
‘ارے! کیا کرتے ہیں شارق میں نے ابھی طے کی تھی وہ شرٹ۔ مُجھے آپکے کام کرنا اچھا لگتا ہے اور اگر سب کام مُلازمہ ہی کریگی تو پھر میں کیا کرونگی؟’ عرشیہ نے سارے کپڑے سائیڈ پر کردئیے جانتی تھی کہ اب شارق اُسے کوئی کام نہیں کرنے دیگا۔
‘تُم صرف مجھے یاد کیا کرو جیسے ہر وقت میں تُمھیں کرتا ہوں۔’ شارق نے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر لبوں سے لگا لیا
‘ہیں! آپ مُجھے ہر وقت یاد کرتے ہیں آفس میں تو پھرکام کون کرتا ہے ؟’ عرشیہ نے اُسے چھیڑا۔ وہ اُسکی گود میں سر رکھ کر نیم دراز ہوگیا اور بولا
‘کام کون دیوانہ کرنا چاہتا ہے، ہم تو بس تُمھیں اور صرف تُمھیں یاد کرنا چاہتے ہیں۔’
‘پر اِن یادوں سے پیٹ تو نہیں بھرنے والا نا! چلیں مُجھے بہت بھوک لگی ہے۔آپ چینج کرلیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔ ‘ عرشیہ اُسکی شرارتیں سمجھ گئی تھی تبھی اُٹھتے ہوئے بولی۔
‘یار کبھی تو رومانٹِک ہونے دیا کرو’ اُسنے مُنہ بناکر کہا جس پر عرشیہ کِھلکِھلاکر ہنس پڑی
‘اُس کیلئے ساری عُمر پڑی ہے، چلیں چلیں۔ مُجھے پتا ہے آپکو کتنی بھوک لگی ہوئی ہے ۔ آج میں نے آپکی پسندیدہ ڈِشز بنائی ہیں بِریانی اور شامی کباب۔’ وہ جانتی تھی کہ شارق بھوک کا کتنا کچّا ہے اِس لئے اُسے کھانے کا لالچ دیکر بہلانا چاہا پر شارق پر کوئی اثر نہ ہوا اُلٹا وہ مُنہ بناتا ہوا بولا۔
‘ہونہہ!شامی کباب! مُجھے نہیں کھانے!’ اُسکا موڈ سخت آف ہو چُکا تھا
‘اچھا نا! اب ناراض تو نہ ہو پلیز۔ اِتنے دل سے بنایا ہے میں نے سب کُچھ آپ کیلئے۔’ عرشیہ نے دھیرے سے اُسکے بال بکھیرے اور وہ ہمیشہ کی طرح اُسکی اِس چھوٹی سی ادا پر مان گیا۔
وہ ایسا ہی تو تھا۔۔
عرشیہ کی ایک مُسکراہٹ پر مان جایا کرتا تھا۔وہ اُسے خود سے بھی بڑھ کر چاہتا تھا۔ اپنی زندگی میں شارق نے اگرکسی لڑکی کو بے اِنتہا اور بے حِساب چاہا تھا تو وہ عرشیہ سُمیر ہی تھی۔ اور عرشیہ کا حال بھی اُس سے کُچھ الگ نہ تھا۔ اُسے شارق کے بغیر اپنا آپ نا مکمّل سا لگتا تھا۔ دونوں کی جان بستی تھی ایک دوسرے میں۔
************************
کِھڑکی میں کھڑی گُم سُم اور گہری سوچ میں ڈوبی عرشیہ کو دیکھ کر شارق اُسکے قریب چلا آیا۔
‘آشی! کیا سوچ رہی ہو؟’ وہ اُسے اکثر آشی کہہ کر مُخاطب کرتا تھا۔ آج شارق نے سوچ رکھا تھا کہ اُسکی پریشانی کی وجہ جان کر رہے گا۔ وہ کبھی بیٹھے بیٹھے کھو جاتی ۔ اچانک گم سم ہو جایا کرتی۔ بظاہر سب کُچھ ٹھیک تھا، وہ اسکے ساتھ بہت خوش باش بھی تھی لیکن کوئی ایسی بات ضرور تھی جو وہ اپنے دل میں چُھپا کر بیٹھی تھی اورجو کہیں نہ کہیں اسے پریشان کر رہی تھی۔
‘نہیں کسی سوچ میں نہیں۔ میں تو بس یونہی کھڑی تھی۔’ وہ نظریں جُھکا کر بولی جانتی تھی کہ اُسے جھوٹ بولنا بالکل نہیں آتا تھا
‘اِدھر آؤ! یہاں بیٹھو!’ وہ اُسکا ہاتھ پکڑ کر بیڈ کے پاس لے آیا اور بیڈ پر بِٹھا کر خود اسکے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا
‘کیا بات ہے؟ میں بہت دن سے دیکھ رہا ہوں تم کچھ پریشان لگتی ہو۔ تم مجھ سے شئیر کرسکتی ہو۔ بتاؤ کیا اُلجھن ہے؟’
‘نہیں! نہیں تو! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔’ وہ اسکے ا ج اچانک پوچھ لینے پر کچھ گھبراگئی تھی
‘آشی! کیا تمھیں لگتا ہے کہ میں تمھاری پریشانی نہیں سمجھونگا؟ اگر ایسا ہے تو جب میں تمھیں اِس قابل لگنے لگوں تب مجھ سے اپنی پریشانی بانٹ لینا۔’ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھنے کو تھا جب عرشیہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔
‘نہیں پلیز! ایسا کچھ نہیں ہے شیری! میں بس ایک بات کی وجہ سے تھوڑی سی پریشان رہتی ہوں کہ کہیں اسکی مُجرم میں تو نہیں ہوں؟’
‘کس کی مجرم؟ کیا بتانا چاہ رہی ہو جان پلیز کُھل کر بتاؤ۔’ شارق سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
‘روحیل کی!’ عرشیہ نے اُسے آج سب بتانے کا تہےّا کر لیا تھا
‘روحیل ؟ یہ اپنا روحیل سکندر؟ دیکھو مجھے کُھل کر سب بتاؤ تبھی کچھ سمجھ پاؤنگا۔’ وہ اپنائیت سے بولا تو عرشیہ اسکے مقابل کھڑی ہوکر رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
‘آپ مجھے سمجھیں گے نا؟ میری بات کو غلط تو نہیں سمجھیں گے نا؟ میں نہیں چاہتی کہ کوئی چھوٹی سی بات بھی ہمارے اِس پیارے سے رشتے کو خراب کرے۔ میں آپکو کھونا نہیں چاہتی۔’ اُسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ بہت حسّاس طبیعت کی لڑکی تھی۔
‘ارے میری جان! مجھ پر بھروسہ کرو اور کھل کر سب بتاؤ پلیز۔ ہو سکتا ہے میں تمھاری پریشانی دور کردوں۔’ عرشیہ کو اسطرح پریشان دیکھ کر وہ سچ میں کچھ گھبرا گیا تھا۔ شارق نے اسکے گِرد بازو حمائل کر کے اُسے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
عرشیہ کے ذہن کے پردے پر ماضی کے واقعات ایک فلم کی طرح گردش کرنے لگے۔۔۔
************************
عرشیہ اور شارق کی اسکولنگ ایک ہی اسکول سے ہو ئی تھی۔ ان ہی کی کلاس میں ایک روحیل سکندر بھی تھا۔
وہ بہت خوبرو اور اچھی شکل و صورت کا مالک تھا۔
نہایت گوری رنگت۔۔
سُرخی مائل ہونٹ۔۔
کُشادہ پیشانی۔۔
سیاہ روشن آنکھیں۔۔ اُس پرگھنی پلکیں۔۔
سیاہ گھنے بال۔۔
غرض کہ وہ سب لڑکوں میں سب سے اچھے قد کاٹ کا لڑکا تھا۔
روحیل اور اسکی ایک چھوٹی بہن رابیل تھی۔ یہ دو ہی بھائی بہن تھے۔ اُن کے والدسکندرصاحب کا لیدر گارمنٹس کا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا۔ انکا شمار کراچی کے امیر ترین صنعتکاروں میں ہوتا تھا۔ اپنے ماں باپ کا اکلوتابیٹا ہونے کی وجہ سے وہ کافی لا اُبالی اور لاپرواہ طبیعت کا مالک تھا۔ پڑھائی میں بھی خاص اچھا نہ تھا اور اسی وجہ سے وہ عرشیہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا ۔دوسری طرف وہ بہت ہی سلجھی ہوئی طبیعت کی ، اور ذہین ہونے کے باعث پڑھائی میں بھی بہت تیز تھی۔ہر ٹیچر کی آنکھ کا تارا۔ اِسی ذہانت اور قابلیت کی بدولت اسے ہر سال کلاس کا لیڈر بنادیا جاتا جسکی تمام تر ذمہ داریاں وہ بخوبی سنبھالتی تھی۔
عرشیہ کا مِزاج دھیما ضرور تھا لیکن وہ غصُے کی بہت تیز تھی۔ کسی کی غلط بات برداشت کرنا اُسنے سیکھا نہیں تھا۔ اُسکے غصُے کی وجہ سے ہی کسی بھی لڑکے کی اُس سے بات کرنے کی ہمُت نہیں ہوتی تھی۔اور خصوصاً روحیل سے تو اسے سخت چِڑ تھی، کیوں؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
نویں جماعت کے امتحانوں سے کچھ دن قبل عرشیہ شدید بیمار پڑگئی تھی۔ جب وہ کافی دن کی غیر حاضری کے بعد اسکول آئی تو سب ہی اسکے لئے فکرمند تھے اور اسکی خیریت دریافت کر رہے تھے۔ ایسے میں روحیل بھی اُسکے پاس چلا آیا۔
‘کیسی ہو تم؟ اب طبیعت کیسی ہے تمھاری؟’
‘ٹھیک ہوں!’ عرشیہ نے منہ موڑتے ہوئے ناگواری سے جواب دیا۔ اسوقت روحیل کی موجودگی اسے سخت زہر لگی تھی۔
‘اور تمھارا کام؟ وہ میں کردوں؟’ وہ اپنائیت سے پوچھ رہا تھا
‘جاؤ اپنا کام کرو۔ میرے کام کی فکر نہ کرو۔’
روحیل کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اُداس چہرہ لئے وہاں سے چلاگیا۔
***********************
اُنکی اسکول وین ‘روحیل وِلا’ کے آگے خراب ہوگئی تھی۔ وہ سب کو اپنے گھر کے اندر لے گیا کیونکہ وین ٹھیک ہونے میں ابھی کافی وقت لگنا تھا۔ سب خوشی خوشی اُسکے گھر کے اندر چل دئیے سوائے عرشیہ کے، وہ بار بار بولنے پر بھی اندر نہیں گئی تھی اور باہر ہی کھڑی ہو گئی ۔ اُسے اِسوقت شارق پر شدید تاؤ آرہا تھا جو اُسے باہر اکیلا چھوڑ کر خود اندر جاکر بیٹھ گیا تھا۔ ابھی عرشیہ دل ہی دل میں شارق کو گالیوں سے نواز رہی تھی کہ کسی نے چُٹکی بجا کر اُسے اپنی طرف متوجّہ کیا۔ وہ روحیل تھا۔ اُسے دیکھ کر عرشیہ کا غصّہ اور بڑھ گیا تھا۔
‘تم بھی چلو نا اندر، یہاں کیوں کھڑی ہو؟’
‘نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں!’ عرشیہ نے سپاٹ لہجے میں کہا
‘چلو پلیز کب تک یہاں کھڑی رہوگی، وین ٹھیک ہونے میں ٹائم لگ جائیگا۔’ روحیل نے اسے منانا چاہا
‘کہہ جو دیا کہ نہیں جانا بس، ہر بات میں بحث مت کیا کرو۔’ وہ غصّے سے بولی
‘اچھا ٹھیک ہے مت جاؤ ۔’ یہ کہہ کر وہ بھی اُس سے کچھ فاصلے پر ہی کھڑا ہوگیا
‘اب میرے سر پہ کیوں کھڑے ہو، جاؤ یہاں سے۔ اور پلیز اندر سے شارق کو بھیج دو بد تمیز مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر چلاگیا۔’ وہ اسکے ہٹ دھرمی سے وہیں کھڑے رہنے پر مزید غصّہ ہوئی تھی۔
‘میں۔۔۔۔’ روحیل کے اور کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ اُسے گھورتے ہوئے بولی
‘دفع ہوجاؤ یہاں سے ابھی اسی وقت!’ روحیل اپنی اِس بے عِزّتی پر دانت پیستا تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
***********************
جب سے الوینہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ روحیل عرشیہ کو پسند کرنے لگا ہے تب سے اُسکی نفرت بڑھتی جارہی تھی۔ اُسے وہ شخص ناقابلِ برداشت لگنے لگا تھا جو زبردستی اُسکی پُر سکون زندگی میںداخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ اُسے اکثر نظر انداز کردیتی اور کبھی کھری کھری سنا دیتی ۔ پر عجیب شخص تھا وہ، عرشیہ کی کسی بھی بات کا بُرا نہیں مانتا تھا۔ اسکی ہر کڑوی کسیلی بات کو مسکرا کر سن لیتا اور اُسکا یہی انداز عرشیہ کو اور آگ لگادیا کرتا تھا۔
وقت اپنی رفتار سے چل رہا تھا یہاں تک کہ انکے اسکول کے آخری ایاّم بھی آگئے۔ میٹرک کے امتحانات سے فراغت کے بعد سب فئیروِل کی تےّاریوں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ اور پھر فئیروِل کا آخری دن بھی آپہنچا۔
پورے اسکول کی عمارت جدید برقی قمقموں سے جگمگا رہی تھی۔ گراؤنڈ کو بھی نہایت خوبصورتی اور نفاست سے سجایاگیاتھا ۔ گراؤنڈ کے بیچ و بیچ بڑا سا اسٹیج بڑی مہارت سے بنایا گیا تھا جس کی ڈیکوریشن سے اُس جگہ کی خوبصورتی اور کُھل کر سامنے آرہی تھی۔
بلیک جینز پر آف وائٹ فُل سلیوز کی شرٹ پہنے روحیل کا سراپا قابلِ ستائش لگ رہا تھا۔ سلیقے سے سجائے گئے گھنے بال اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔ لیکن جس وجود کی روحیل کی آنکھوں کو تلاش تھی وہ دشمنِ جاناں ابھی تک سامنے نہ آئی تھی۔ وہ یونہی انتظار میں ٹہل رہا تھا جب الوینہ نے اسکے شانے پردھموکہ دیا۔
‘کیا بات ہے ہینڈسم اتنی عُجلت میں کیوں ہو؟’
‘یار وہ ابھی تک نہیں آئی۔’ روحیل نے بے خیالی میں کہہ ڈالا اور پھر خجل سا ہو گیا
‘کون؟ کس کی بات کر رہے ہو؟ میں سمجھی نہیں!’ الوینہ نے شرارت سے اسے دیکھا
‘بکو مت! سب کچھ جاننے کے بعد بھی انجان بننے کا کیا مطلب ہے؟ ‘ روحیل اسے گھورتا ہوا بولا۔ الوینہ اور وہ کلاس فیلوز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے دوست بھی تھے۔ دونوں کے گھر بھی ایک دوسرے کے برابر برابر ہی تھے۔
‘ہا ہا ہا ہا۔۔ ارے میرے اچھے دوست میں تو مذاق کررہی تھی۔ ویسے تم نے کافی مشکل لڑکی پسند کرلی ہے پھر بھی میں دعا گو رہونگی کہ الّلہ ہمیشہ تمھارا ساتھ دے۔ اور میری ابھی نشاء سے بات ہوئی تھی وہ بس پہنچنے ہی والی ہوگی۔’ اور یہ کہتے ہی الوینہ نے گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شرارت سے کہا
‘لو! آگئی تمھاری بد تمیز سی عرشیہ۔’ روحیل نے اسے گھور ا اور پوری طرح سے گیٹ کی طرف گھوم گیا
سیاہ رنگ کا چوڑی دار پاجامہ اور فراک۔۔
کان میں چھوٹے سے چمکتے ہوئے جُھمکے۔۔
چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے بے نیاز۔۔ انتہائی سادہ حسن۔۔
کمر تک آتے لمبے بالوں کی نفاست سے چوٹی بنائے وہ کوئی اپسرہ لگ رہی تھی۔۔
کچھ شریر لٹیں اُسکے چہرے پر جھول رہی تھیں جن سے الجھتے ہوئے وہ بار بار انکو کان کے پیچھے اُڑس رہی تھی۔ سر پر دوپٹّہ ہونے کے باوجود لٹیں بار بار اُسکے خوبصورت چہرے کا احاطہ کر رہی تھیں۔ روحیل نے نوٹ کیا تھا اسکے سر پر ہمیشہ دوپٹّہ رہتا تھا۔
ایسا کیا تھا عرشیہ میں؟ روحیل نے اپنی سترہ سالہ زندگی میں اپنے آس پاس اس سے کہیں زیادہ حسن دیکھا تھا۔ جس کلاس سے وہ تعلق رکھتا تھا وہاں حسن ایک عام سی بات تھی، اُسکے اپنے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود تھی۔لیکن کوئی خاص بات تو تھی عرشیہ میں جو وہ اسکے معصوم حسن سے گھائل ہوا تھا۔ شاید سادگی حسن کو اور خوبصورت بنا دیتی ہے۔


وہ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا جب عرشیہ کی زوردار آواز سے وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا۔
‘کہاں ہے وہ؟ شارق کے بچّے۔۔۔ ‘ وہ گلا پھاڑ کر چیخی اور اسکی چیخ سن کر سب اسکے قریب آگئے تھے۔ روحیل بھی اسکی جانب بڑھا تھا۔
‘کیا ہوا؟ کیوں چیخی تم؟’ نشاء نے فکرمندی سے پوچھا۔ سب حیران کھڑے تھے۔
‘کہاں ہے شارق؟ آج میں اُسے چھوڑونگی نہیں۔۔’
‘ارے ہوا کیا ہے کچھ تو بتاؤ لڑکی؟’ نشاء نے اسے گھورا
‘یار میں قریب ہی بیکری پر چاکلیٹس لینے اُتری اور شارق سے کہا کہ انتظار کرو میں بس ابھی ا ئی ۔وہ مجھے وہاں اکیلا چھوڑ کر خود یہاں بھاگ آیا۔ اگر مجھے راستے میں سجل نہ ملتی تو میں کیسے آتی یہاں وہ بھی اتنی تیاری کے ساتھ۔’ وہ پریشانی سے کہتے ہوئے وہیں قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی
‘سوری یار معاف کردو’ شارق نجانے کہاں سے نمودار ہوا
‘دفع ہو جاؤ بد تمیز بات مت کرو مجھ سے۔ گھر چلو چاچا سے خوب ڈانٹ پڑواؤنگی تمھیں۔’ وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولی
‘یار بابا کو بیچ میں کیوں لا رہی ہو، غلطی ہوگئی نا اب بلیک میل تو مت کرو بابا کے نام پر۔ آئی ایم سوری نا!’ وہ اتنی معصومیت سے بولا کہ عرشیہ کو ہنسی آگئی لیکن وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی۔
‘بہت ستاتے ہو تم! میں ڈر گئی تھی اگر کچھ ہو جاتا تو؟’
‘ارے ایسے ہی کچھ ہونے دے دیتا میں تمھیں۔ یار میں وہیں تھا بس تمھیں تنگ کرنے ادھر اُدھر ہوگیا تھا وہ تو سجل نے این ٹائم پر آکر سارا کھیل خراب کردیا۔’ عرشیہ اسکی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی اورکچھ فاصلے پر کھڑے روحیل کو لگا جیسے کسی نے اس کے آس پاس پھول ہی پھول بکھیر دئیے ہوں۔ روحیل کی پُر تپش نگاہوں کو محسوس کرکے اسنے اپنا چہرہ اٹھا کر سامنے دیکھا اور کچھ لمحے دیکھتی رہ گئی۔
‘کیا بلا کاحسن ہے اس بندے میں۔’ اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی سوچ پر لاحول پڑھتی اٹھ کھڑی ہوئی
سب گراؤنڈ کی طرف چلے گئے تھے۔ عرشیہ بھی گراؤنڈ کی جانب بڑھنے لگی جب روحیل اسکی راہ میں آگیا۔
‘یہ کیا بد تمیزی ہے؟’ وہ غصّے سے بولے
‘تم آج بہت اچھی لگ رہی ہو ۔’ وہ اپنائیت سے کہہ رہا تھا۔ آنکھوں میں چمک در آئی تھی۔
‘معلوم ہے مجھے۔ آپکو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔’
‘کبھی تو پیار سے بات کرلیا کرو۔’ وہ افسوس سے کہہ رہا تھا جس پر عرشیہ دبی دبی آواز میں چیخی
‘شٹ اپ! اپنی اوقات مت بھول جایا کرو۔ تم ہو کون جس سے میں پیار سے بات کروں۔ اینڈ فار گاڈ سیک آج میرا موڈ خراب مت کرو۔’
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی ۔ روحیل اسے بے بسی سے جاتا دیکھتا رہا۔نجانے وہ کیوں اتنا بے بس ہو جاتا تھا اُسکے سامنے۔
(اتنی نفرت۔۔ کیوں عرشیہ؟) وہ بس سوچ کر رہ گیا۔
***********************
فئیرول کی تقریب رات تک اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔
جہاں سب نے اس ایونٹ کو انجوائے کیا تھا وہیں سب کے چہروں پر افسردگی بھی تھی۔ نجانے کس کی قسمت کہاں لے جاتی۔ آج اُنکے ساتھ کا آخری دن تھا اور وہ سب یہاں سے بہت اچھی یادیں سمیٹ کر لے جارہے تھے۔ جہاں سب افسردہ تھے وہاں روحیل سب سے زیادہ گم سم اور اُداس تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکی نہایت ہی قیمتی چیز اس سے دور جا رہی ہو۔ وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں عرشیہ کو دیکھے جارہا تھا جیسے اس منظر کو ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا ہو۔ عرشیہ اور شارق سب سے ملکر نکلنے لگے تھے لیکن عرشیہ نے ایک نگاہِ غلط بھی روحیل پر نہ ڈالی۔ وہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن عرشیہ نے اُس سے ملنا تک گوارہ نہ کیا ۔ اِس عزّت افزائی پر روحیل بیچ و تاب کھا کر رہ گیا لیکن بول کچھ نہ سکا، دل کے ہاتھوں مجبور جو تھا۔ وہ عرشیہ کے سامنے خود کو ہمیشہ ایسے ہی بے بس اور کمزور محسوس کرتا تھا۔
‘تم یہاں رکو میں ڈرائیور کو دیکھ کر آتا ہوں، پتا نہیں گاڑی لیکر کہاں کھڑا ہے وہ!’ شارق نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
‘نہیں شیری اتنے اندھیرے میں مجھے ڈر لگے گا، دیکھو تو کتنا سنسان ہورہا ہے۔’ اسنے جھرجھری لی
‘اوہو یار! تم اتنا ڈرتی کیوں ہو؟ پتا نہیں بعد میں میرا کیا ہونے والا ہے’ شارق نے شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر عرشیہ جھینپ سی گئی۔ ابھی شارق کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ روحیل گیٹ سے باہر آتا دکھائی دیا۔ اسنے وہیں سے ہانک لگائی۔
‘اوئے روحیل سُن!’
اسے دیکھتے ہی عرشیہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی اور ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں(اسکو بھی ابھی آنا تھا)
‘ارے تم لوگ ابھی تک یہیں ہو؟’ روحیل اُنکے پاس چلا آیا
‘ ہاں یار میں ذرا ڈرائیور کو دیکھ کر آتا ہوں، تم عرشیہ کے پاس رُکو اصل میں اِن محترمہ کو ڈر بہت لگتا ہے اندھیرے سے۔’ وہ شرارتی انداز میں بولتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا اور عرشیہ دانت پیس کر رُخ موڑ گئی (اسے بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے) روحیل نے چونک کر عرشیہ کو دیکھا تھا (بظاہر اِتنی مضبوط نظر آنے والی لڑکی اندر سے اتنی ڈرپوک ہے) اور اس سوچ کے ساتھ ہی روحیل کے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ اُمڈ آئی۔
‘عرشیہ!’ روحیل نے آواز دی جسے وہ نظر انداز کر گئی
‘عرشیہ!’ روحیل اِس بار تیز آواز میں بولا تھا اِسلئے جواب دئیے بِنا چارا نہ تھا۔ اسنے سپاٹ لہجے میں پوچھا
‘جی فرمائیے؟’
‘تم مجھے اتنا بُرا انسان کیوں سمجھتی ہو کہ کبھی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتی؟ ایسا کیا کردیا ہے میں نے جو تم کبھی بھی پیار سے بات کرنے کے قابل نہیں سمجھتی مجھے؟’
‘اوہ پلیز روحیل! کیا ہر وقت پیار کا راگ الاپتے رہتے ہو، اسکے علاوہ بھی کوئی کام ہے تمھیں؟’ وہ ناگواری سے بولی
‘ہاں نہیں ہے کوئی اور کام! کسی کو پسند کرنا کوئی غلط نہیں ہے اور تم نے کبھی مجھے کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ کبھی سنا ہی نہیں کہ میرا دل کیا چاہتا ہے۔ میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔’
‘کیا مطلب ہے تمھارا؟ میں کوئی راہ چلتی گری پڑی لڑکی ہوں جو تمھیں موقع فراہم کرونگی!’ اسنے ایک ایک لفظ چبا کر بولا
‘ نہیں نہیں! میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔ تم غلط سمجھ رہی ہو۔ میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ۔۔۔’
‘بس بس! مجھے کچھ نہیں سُننا۔ اور آئندہ مجھ سے کوئی فضول بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سمجھے تم!’ اس بات پر روحیل کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی
‘مطلب تمھیں اُمید ہے کہ آئندہ بھی ہم ضرور ملیں گے؟’ روحیل کے جملے میں چھپا طنز وہ بخوبی سمجھ گئی تھی
‘خدا کرے ہم کبھی نہ ملیں روحیل سکندر! مجھے تم جیسے نا قابلِ برداشت اور قابلِ نفرت شخص کو اپنی زندگی میں دوبارہ کبھی نہ دیکھنا پڑے!’
‘اور میں دعا کرونگا کہ ہم دوبارہ ضرور ملیں!’ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اسکی یہ مسکراہٹ عرشیہ کو آگ ہی لگا گئی تھی
‘ہونہہ! تم جیسوں کی تو دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔’ الفاظ تھے یا نشتر۔۔ اُسکا چہرہ تذلیل کے احساس سے سُرخ پڑگیا
‘تم! تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو؟’
‘میں جو بھی سمجھتی ہوں وہ تمھیں بتانا ضروری نہیں ۔ اب میرا خیال ہے کہ تمھیں یہ آخری ملاقات ہمیشہ یاد رہے گی۔ خدا حافظ!’
یہ کہہ کر وہ رُکی نہیں تھی، شارق بھی گاڑی لیکر وہاں پہنچ چکا تھا۔ روحیل پیر پٹختا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔وہ تینوں ہی نہیں جانتے تھے کہ آگے آنے والے کچھ سالوں میں قسمت ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔ کیونکہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو انسان سوچتا ہے، جو اِنسان چاہتا ہے بلکہ کبھی کبھی انسان قسمت کے ہاتھوں مات کھا جاتا ہے پھر وہ دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں جن کا قبول ہوناہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
************************
زندگی کے چار سال بے حد مصروف لیکن مزے میں گزرے تھے۔ عرشیہ اور شارق نے حال ہی میں شاندار نمبروں سے گریجویشن مکمل کیا تھا۔ گریجویشن مکمل ہونے کے ساتھ ہی دونوں کی منگنی کی رسم طے پائی تھی۔
‘اُف اُف! ! شارق بھائی کی تو خیر نہیں آج!’ وانیہ عرشیہ کو دیکھتے ہی اسکے گلے لگی تھی۔ اِن دونوں کی دوستی کالج میں ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی تھی۔
‘کہو پھر کیسی لگ رہی ہے ہماری عرشیہ؟’ عرشیہ کی بڑی بہن آئزہ نے اُسکو پچکارتے ہوئے پوچھا۔ آئزہ اور مہوش دونوں منگنی میں شرکت کیلئے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔
‘ہائے آپی کیا بتاؤں! میں نے تو ہمیشہ عرشیہ کو اتنا سادہ دیکھا ہے کہ آج اس روپ میںدیکھ کر سچ میں شارق بھائی سے جیلسی ہورہی ہے۔’
عرشیہ نے حیران ہوکر اُسے دیکھا۔
‘کیوں؟ اُن سے جیلسی کیوں؟’
‘کہ کاش میں لڑکا ہوتی تو کبھی تمھیں اُنکا نہ ہونے دیتی’ وانیہ ایسی آنکھیں پٹپٹا کر بولی کہ سب کی ہنسی نکل گئی۔ آئزہ اُسکا گال تھپتھپا کر عرشیہ کو باہر لانے کا اِشارہ کرکے چلی گئیں اور اُنکے جاتے ہی عرشیہ نے اُسکے شانے پر ایک مکّا رسید کیا۔
‘اوئی ماں! کتنی زور کا مارا ہے ظالم۔ بعد میں شارق بھائی کا بھی یہی حال کروگی کیا؟’
‘وہ تمھاری جیسی باتیں نہیں کرتے!’ عرشیہ نے ہنستے ہوئے کہا
‘پھر کیسی باتیں کرتے ہیں وہ جناب؟’ وانیہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئی جس پر عرشیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ محبت وہ خوبصورت احساس ہے جس کے مِلتے ہی اُس رِشتے سے جُڑے لوگوں کے ساتھ گُزرا ہر پل پُر اثر اور پُر رونق ہوجاتا ہے۔یہی حال عرشیہ کا بھی تھا۔ شارق سے جُڑی اُسکی محبت بہت خالص تھی۔وہ آج بہت زیادہ خوش تھی اور یہ خوشی اُس کے گُلاب رنگ چہرے سے صاف ظاہر تھی۔ وہ اسے سہارا دیتے ہوئے باہر لان میں لے آئی جہاں اسٹیج بنایا گیا تھا۔
 
You must log in or register to view this reply
 
You must log in or register to view this reply
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top Bottom