Offline
- Thread Author
- #1
میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے. ..؟ افراہیم نے اپنی نئی نویلی دلہن سے پوچھا جو دو دن پہلے زبردستی اس کے سر پہ تھوپ دی گئی تھی. .........جی...وہ..وہ..کیا ہوتا ہے اس نے حیرانی سے الٹا سوال کر دیا..وہ اس کی حیرت پہ مزید حیران ہوا..... لیپ ٹاپ....مطلب وہ جس پہ بیٹھ کر میں رات کو اپنے آفس کا کام کرتا ہوں.....اس نے دانت پیس کر کہا. اچھا ....وہ....وہ..تو ہم نے اوپر سامان والے کمرے میں ڈال دیا...معصومیت سے کہا گیا. ........کیا...میرا لیپ ٹاپ تم نے سٹور روم میں ڈال دیا. ..کیوں. .حیرت کے ساتھ ساتھ اسے غصہ بھی تھا....وہ جی ہم کو لگا ...وہ آپ کے کام کی نہیں ہے ایسے فالتو میں یہاں پڑی ہوئی ہے اس لیے ہم اسے اوپر ڈال آئے......اس نے ڈرتے ڈرتے کہا جب کہ افراہیم کا بی پی اوپر جا چکا تھا ..اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ اس لڑکی کا کیا کرے.....جاو ابھی جا کر میرا لیپ ٹاپ لے آو.....اس نے غصے کو کنٹرول کر کے آرام سے کہا....جبکہ وہ ایسے غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ. .اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کر اپنا غصہ باہر نکالنے کی کوشش کی اور بے بسی سے سر تھام کر بیڈ پر بیٹھ گیا.....یہ بانی نامی آفت دو دن پہلے ہی اس کی زندگی میں آئی تھی جسے دادی پوری دنیا ڈھونڈ کر نہ جانے کہاں سے پکڑ کر لائیں تھیں..اتنی بڑی دنیا میں اتنے بڑے پاکستانمیں دادی کو اپنے ہونہار پڑھے لکھے ہینڈسم پوتے کے لیے یہی ایک لڑکی ملی تھی.. جس نے اپنی زندگی میں لیپ ٹاپ کا نام تک نہیں سنا..جو انگریزی تو دور کھبی اردو سکول بھی نہیں گئی.....پتا نہیں دادی کو اس بلا میں ایسا کیا نظر آ گیا جو انہوں نے اس جاہل لڑکی کو اس کے سر پر تھوپ دیا...اسے گونگی مٹی کی مادھو ٹائپ دیسی گاوں کی لڑکیوں سے اسے ہمیشہ سے چڑ تھی.. .اس نے اپنی زندگی میں کئی خوبصورت خواب دیکھے تھے اگر اس نے کسی پرستان کی پری کے خواب نہیں بھی دیکھے تو اس نے اس دیہاتی لڑکی کے بارے میں بھی تو کھبی خواب میں بھی نہیں سوچا...اس نے تو اپنی شادی کے بارے میں بھی ابھی اچھے سے سوچنا بھی شروع نہیں کیا تھا اور اگر سوچتا بھی تب بھی یہ لڑکی اس کی سوچ میں کھبی نہ ہوتی..وہ ایک ایسی ماڈرن اور پڑھی لکھی بیوی کی توقع کر رہا تھاجسے کسی کے سامنے متعارف کراتے ہوئے گردن نہ جھک جائے بلکہ انسان کے اندر فخر پیدا ہو جائے.. .اور یہ لڑکی اس کے ہر خواب کو چکنا چور کرتی اس کے گھر پہ پورے حق سے قبضہ جمانے آ گئی..اور قبضہ جمانے کا حق کس نے دیا اس کی اپنی سگی دادی نے. .........یہ عجیب و غریب لڑکی اس کے سر پر تھوپ کر اس کی دادی محترمہ عمرے کے لیے نکل گئیں بقول ان کے اس کی شادی ہی ان کی راہ کی رکاوٹ تھی جو اب دور ہو گئی ان کی رکاوٹ تو دور ہو گئی مگر انہوں نے اپنے راستے کا پتھر اٹھا کر سیدھا اس کے سر پر دے مارا........میں اپنے پوتے اپنے افراہیم کے لیے چاند سے خوبصورت پری جیسی دلہن لاوں گی...اس کی دادی ہمیشہ یہی کہا کرتی تھی اور وہ ہمیشہ دادی کی اس بات پہ مسکرا دیتا تھا لیکن زندگی میں پہلی بار اسے دادی کی یہ بات یاد کر کے صرف غصہ آ رہا تھا.دادی نے ساریزندگی اپنے یتیم پوتے کی پرورش کر کے اپنے سبھی قرضے ایک ساتھ وصول کر ڈالے .جو محبت کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتی تھیں کہ اتنی محبت تو میں اپنے کسی نواسے یا کسی اور پوتے پوتیوں سے نہیں کرتی جتنی محبت اپنے افراہیم سے کرتی ہوں..دادی کی اگر یہ محبت تھی تو اللہ جانے ان کی نفرت کی کیا حد ہو گی.....پتا نہیں انہوں نے یہ کیسی محبت نبھائی اپنے لاڈلے پوتے کے ساتھ..ہاں اس نے خود انہیں یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی پسند کی بہو تلاش کر کے لائیں اور یہ اختیار بھی اس نے ان کے رونے اور واویلا مچانے پہ ہی دیا تھا ..اس نے کتنے بھروسے کے ساتھ اپنی زندگی کا ساتھی چننے کا حق انہیں دیا تھا اور انہوں نے دنیا جہاں کی ان پڑھ جاہل لڑکی اس کے سر پر مسلط کر دی...یہ انہوں نے سہی نہیں کیا تھا اگر وہ ماڈرن بہو نہیں بھی چاہتی تھیں تو انہیں کوئی بھی لڑکی انتخاب کرنے کا حقبھی نہیں تھا. پتا نہیں کس گاوں سے وہ اس کے لیے یہ لڑکی پکڑ کر لائی تھی اور اس پہ حکم صادر کر کے بولیں...یہ لڑکی اب تماری بیوی ہے اور اسی کے ساتھ تمہیں اپنی پوری زندگی گزارنی ہے............تماری ہونے والی دلہن تو دنیا کی سب سے اچھی لڑکی ہے..ایسی بہو تو تمہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملے گی..وہ جس علاقے میں رہتی ہے وہاں کی سب سے اچھی لڑکی ہے...یہ کچھ مخصوص جملے شادی سے پہلے دادی اس سے کہا کرتی تھی مگر اس وقت دادی کی ان باتوں کا مطلب وہ نہیں سمجھ سکا اگر سمجھ جاتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ وہ اچھی ہے خوبصورت ہے تو صرف دادی کے اپنے حساب سے اور ستر سالہ پرانی دادی اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے. ................وہ ایک کرسی لیے اندر داخل ہوئی وہ حیرت سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا.... میرا لیپ ٹاپ کہاں ہے...اس نے بھرپور حیرانی سے پوچھا. .... یہی تو ہے جی...اس کی زوجہ محترمہ نے نگاہیں نیچے جھکا کر با ادب طریقے سے جواب دیا..... یہ...یہ..تو کرسی ہے...اس کا ایک بار پھر خون کھولنے لگا.....آپ ہی تو بولے تھے جس پہ بیٹھ کر ہم کام کرتے ہیں. .اس کی یہ معصومیت اس کے چودہ طبق روشن کر گئی..اس نے غصے سے آنکھیں بند کیں...مس بانی صاحبہ یہ اس پہ میں ایسے بیٹھ جاتا ہوں..وہ دانت پیس کر کرسی پر بیٹھ گیا وہ موٹی موٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی....اور اس پہ بیٹھ کر جو چیز میں سامنے ادھر رکھتا ہوں اور جس پہ ایسے ایسے انگلیاں چلاتا ہوں میں اس کی بات کر رہا ہوں ..اس نے مکمل طور پر اسے لیپ ٹاپ کا نقشہ کھینچ کر بتایا شاید اس طرح اس کی موٹی عقل میں کوئی بات جاتی......وہ مشین. ...؟. ..وہ اونچی آواز میں بولی..اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی شکر ہے کسی طرح تو سمجھی وہ کرسی سے کھڑا ہو گیا....ہاں جی ....وہ...مشین...وہ اسی کے انداز میں بولا. .وہ تو جی ہم نے سکھانے کے لیے اوپر رکھ دیا ہے. .اس نے اتنی آسانی سے اپنا جملہ مکمل کیا جیسے موسم کا حال سنا رہی ہو محترمہ ...جبکہ اس کا حال ایسا تھا جیسے اسے کسی نے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہو....سکھانے....کے لیے. ...لیکن کیوں.....؟؟؟؟..اس بار وہ زور سے چلایا..اس کے چلانے پہ وہ بہت گھبرا گئی... وہ جی...بہت میلا ہو گیا تھا ..تو ہم نے سوچا اسے دھو دیں...جیسے وہ کوئی رومال دھونے کی بات کر رہی ہو.... کیا...؟.تم نے لیپ ٹاپ دھو دیا ...؟..تم...تمارا ..پاگل....یہ... اور اس کا بلڈ پریشر دو سو کراس کر چکا تھا. غصے سے اس کا منہ لال ہو چکا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اس بھولی بھالی لڑکی کا کیا کرے جو دو دن پہلے دادی جی اسے تحفے میں سونپ کر گئیں تھیں. .ایک بار اس کا دل چاہا کھینچ کر اس کے منہ پہ تماچا مارے ..لیکن خود پہ قابو رکھتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا...............وہ دوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو صاف کرتے کرتے بیڈ پہ بیٹھ گئی...یہ اس کا شوہر تھا جس کے ساتھ دو دنپہلے اس کی شادی ہوئی تھی. اس کے بہت محبت کرنے والے ماموں نے اپنی یتیم بھانجی کو ایک پڑھے لکھے بڑے گھرانے میں بھیج دیا مگر ماموں اس کا رشتہ کرتے وقت یہ بھول گئے کہ بڑے ڈگریوں والے یہ بڑے لوگ اپنے لیے کسی بڑی جیون ساتھی کا خواب دیکھتے تھے اس جیسی ان پڑھ گوار کے نہیں. ......شادی سے پہلے اس کی ساری سہیلیاں کہا کرتی تھیں. .ہائے بانی تیرا شوہر تو بڑا گبرو جوان ہے ایک دم فلمی ہیرو جیسا..مگر ان بیچاریوں کو کیا پتا کہ فلمی ہیرو جیسا دکھنے والا وہ گبرو جوان اپنے لیے کسی فلمی ہیروئین کی ہی توقع کیے بیٹھا تھا...اس کے خوابوں میں اس کی زندگی میں بانی جیسی جاہل لڑکی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا. ..وہ تو زبردستی گھس آئی اس کی زندگی میں. شادی ایک لڑکی کی زندگی کا سب سے خوبصورت خواب ہوتا ہے.. اس نے اپنی آنکھوں میں اپنے ہونے والے شوہرکے ساتھ نئی زندگی کے کئی خواب سجائے تھے..لیکن اس گھر میں آ کر اسے پتا چلا خواب اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے. جب اس نے پہلی بار افراہیم کی تصویر دیکھی تو اسے بہت رشک آیا اپنے آپ پہ. لیکن اس کی ساری سوچوں پہ پانی اس وقت پھر گیا جب اس پہ انکشاف ہوا کہ اس کا شوہر اسے نا پسند کرتا ہے. یہ بات کسی بھی لڑکی کے لیے تکلیف دہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے نفرت کرتا ہے. نفرت یا محبت جو بھی تھا اب یہی اس کا شوہر اس کا جیون ساتھی تھا اسی کے ساتھ اس نے اپنی ساری زندگی گزارنی تھی.یہ رشتہ چاہے جن حالات میں جس وجہ سے بھی ہوا ہو مگر اسے یہ رشتہ نبھانا تھا..یکطرفہ رشتہ جوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر وہ ایک عورت تھی جو بیاہ کر اس گھر میں لائی گئی تھی بچپن میں اس کی ماں نے اسے سکھایا تھا لڑکی کا اصل گھر اس کا سسرال ہوتا ہے وہ ایک بار جس گھر میں جائےپھر اس گھر سے اس کا جنازہ ہی نکلنا چاہیے. ..اور یہی بات اس کے ذہن میں اپنے بچپن سے ہی بیٹھ گئی.وہ پوری کوشش کرے گی اپنے گھر کو بچانے کی اس نازک ڈور کو قائم رکھنے کی.وہ نفرت سے محبت کا سفر ضرور طے کرے گی..اس نے اپنے آنسو صاف کر کے ایک مضبوط ارادہ کر لیا ....وہ رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنے آفس کی ایک فائل دیکھ رہا تھا. .اس کی پوری توجہ فائل پر تھی لیکن اچانک قدموں کی چاپ سے اس کی توجہ فائل سے ہٹ گئی..سامنے اس کی وہی حد سے زیادہ سمجھدار ذہین زوجہ محترمہ کھڑی تھی..اسے محترمہ کی صبح والی واردات یاد آئی..اس نے ایک نظر غصے سے اسے دیکھا پھر اپنی توجہ فائل پہ مرکوز کر دی..وہ اسے نہیں دیکھنا چاہتا تھا. ...ہاں البتہ اس لڑکی کی نگاہیں خود پہ ضرور محسوس کر رہا تھا ..اس میں ایک ناگواری کی لہر پیدا ہوگئی...لیکن ناگواری کو اپنے چہرے پہ نا لا کر اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اس لڑکی سے پوچھا... کچھ چاہیے کیا...؟...جی وہ میں سونے آئی ہوں...اسے جھٹکا لگا وہ کسی بھی قیمت پہ اس لڑکی کے ساتھ اپنا بیڈ اپنا روم شئر نہیں کر سکتا تھا کل کی بات اور تھی کل دادی کے سامنے وہ کچھ نہیں بول سکا لیکن آج اسے کوئی مجبوری نہیں تھی اس لیے وہ پوری رات تو کیا ایک لمحے کے لیے بھی اس لڑکی کو اپنے پاس اپنے کمرے میں نہیں برداشت کر سکتا تھا. .........تم یہاں نہیں سو گی...گھر میں اتنے سارے کمرے ہیں کسی اور کمرے میں جا کر سو جاو...وہ نظریں چراتے ہوئے بولا...یہ بات کہنے میں اسے خود بھی عجیب لگ رہی تھی کہ اپنی نئی نویلی دلہن کو سونے کے لیے دوسرے کمرے میں بھیج دے لیکن سچ تو یہی تھا نہ تواس نے اس رشتے کو قبول کیا تھا اور نہ ہی کھبی کرے گا...وہ لڑکی تھوڑی دیر اسے خاموش نظروں سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی.......وہ کمرے سے باہر نکل کر دوسرے کمرے میں چلی گئی. .اپنے مغرور اور گبرو شوہر کے سامنے بہ مشکل اس نے اپنے آنسو روک رکھے تھے لیکن اس کمرے میں آتے ہی اس کے آنسو کا بند ٹوٹ چکا تھا ..اسے بہت شکوے تھے اپنے ماموں سے کیوں کیا انہوں نے اس کا رشتہ اتنے بڑے گھر میں. ..اگر وہ اپنے ہی گاوں میں کسی غریب مزدور کے ساتھ شادی کرتی تو کیا خوش نہیں رہتی وہ ..اسے دو وقت کی روٹی کے ساتھ ساتھ وہ محبت وہ عزت بھی ضرور دیتا جو اس کا حق تھا لیکن یہاں اس شخص کے سامنے اسے اپنی عزت نفس خوداری غیرت سب کچھ کچلنا ہو گا...اسے اپنے ماموں کے ساتھ ساتھ دور کہیں آسمان پہ موجود اس ہستی سے بھی بہت شکوے تھےجنہوں نے اس کے ماں باپ کا سایہ اس کے بچپن میں ہی اس سے چھین لیا پھر اس نے ساری زندگی مامی کی ڈانٹ ان کی نفرت میں گزاری اور اب بھی زندگی اس پہ مہربان نہیں تھی یہ امتحانات کی کڑیاں تو ختم ہی نہیں ہو رہیں تھیں...........اب اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ سونے کا تھی وہ زندگی میں کھبی اکیلی نہیں سوئی ماموں کے گھر پہ بھی اس کی کزنز اس کے ساتھ سوتی تھیں..اکیلے سونے میں تو اسے ویسے بھی ڈر لگتا تھا اور یہ گھر بھی اس کے لیے نیا تھا تو اس کے ڈر میں مزید اضافہ ہو چکا تھا. ..اس کا وہ پڑھا لکھا شوہر جس نے اسے کمرے سے باہر نکال دیا تھا اس نے کیا ایک بار بھی سوچا کہ اس کی بیوی کو اکیلے کمرے میں سوتے ہوئے کتنی گھبراہٹ ہو سکتی ہے.کیا اس نے سوچا وہ اکیلی کیسے سوئے گی...کچھ بھی ہو جائے میں بھی اب اس کے پاس نہیں جاوں گی..چاہے مجھے کتنا ہی ڈر کیوں نہ لگے اکیلے سوتے ہوئے.. لیکن میں اس کا دروازہ نہیں کھٹکٹاوں گی...اس نے مستحکم فیصلہ کر لیا تھا افراہیم کے پاس نہ جانے کا ..لیکن جوں جوں رات کی تاریکی اور خاموشی بڑھتی گئی اس کے فیصلے کی مضبوطی بھی کم ہوتی گئی...وہ اس کے پاس جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر مجبوری تھی اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا اس کے پاس...اسے اپنے آپ پہ پہلی بار اتنی شدت سے ترس آیا. .مجبوری کیا ہوتی ہے. اور مجبور میں انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے یہ وہ اچھے سے سمجھ چکی تھی...................وہ یونہی لیٹے لیٹے چھت کو گھور رہا تھا . زندگی کس قدر الجھی ہوئی تھی کہاں آ کر وہ پھنس چکا تھا..زندگی میں کب کہاں اس نے ایسی غلطی کر دی جس کی اسے یہسزا ملی...دروازے پہ کوئی زور زور سے دستک دے رہا تھا..اس گھر میں ان دونوں کے علاوہ تیسرا کوئی نہیں تو ضرور وہی ہو گی اب اتنی رات کو اس پہ کون سا آسمان گر گیا جو وہ اس طرح دروازہ پیٹ رہی ہے وہ غصے سے اٹھ کر دروازہ کھولنے چلا گیا.......جی اب کیا چاہیے محترمہ. ..اس نے سلگتے ہوئے پوچھا وہ حد سے زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی.... جی وہ ہم کو اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے...اس نے اٹکتے ہوئے کہا...... یہ کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ اس کا جی چاہا وہ غصے سے رو دے.اب کیا کرے...دادی جو اتنی بڑی زمہ داری اس پہ سونپ گئیں تھیں اس کا وہ کیا کرے.....او کے آ جاو .....لیکن میں اپنا بیڈ تمارے ساتھ بالکل بھی شئر نہیں کروں گا باقی اس بیڈ کے علاوہ تمہیں اسکمرے میں جہاں سونا ہے سو جاو.....اس نے خشک لہجے میں اس سے کہا......وہ واپس آ کر بیڈ پہ بیٹھ گیا جبکہ وہ نیچے فرش پہ اپنا بستر بنا رہی تھی..اس نے ناگواری سے اسے دیکھا اور سر جھٹک کر منہ دوسری طرف کر کے سو گیا. پتا نہیں دادی کس عذاب میں ڈال کر گئی تھی اسے..اس کی خوشحال سکون والی زندگی میں یہ لڑکی کہاں سے آ کر ٹپک گئی اس کا سکون غارت کرنے.کہاں وہ دن تھے جب کالج کی لڑکیاں اس پہ جان چھڑکتی تھیں..اس کی آواز سننے کے لیے لڑکیوں کی لائن لگی رہتی تھی..آفس میں بھی کئی لڑکیاں اس سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر چکی تھیں..لیکن وہ یہاں کہاں آ کر پھنس گیا....اس کا دل چاہا ابھی اسے اس کمرے سے تو کیا اس گھر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی سے بھی نکال دے لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا... ایک بار تو اس کا دل چاہاابھی کے ابھی دادی کو فون کر کے بتائے اسے ان کی محبت سے لائی ہوئی یہ انمول گڑیا بالکل نہیں چاہیے وہ جہاں سے اسے لائیں تھیں وہیں جا کر اسے واپس پہنچا دیں..لیکن دادی چونکہ سفر میں تھی اس لیے دور بیٹھی اپنی اس بوڑھی دادی کو وہ یہ صدمہ نہیں دینا چاہتا تھا ویسے بھی بائیس دن کے بعد تو انہیں آ ہی جانا تھا تبھی وہ ان سے صاف صاف کہہ دے گا کہ اسے ان کی یہ سگھڑ ، ہونہار ، ہر کام میں ماہر بہو نہیں چاہیے....لیکن بائیس دن تو دور وہ اسے بائیس سکینڈز بھی کیسے برداشت کر سکتا تھا۔۔۔ کیا کیا نہیں سوچا تھا اس نے اپنی شادی شدہ زندگی کے بارے میں اور یہ کیا ہو گیا .. اسے شدید غصہ تھا دادی پہ بھی خود پہ بھی اور اس لڑکی پہ بھی ..... .اور اس غصے میں جانے کب نیند کی دیوی اس پہ مہربان ہو گئی . صبح آلارم بجنے سے اس کی آنکھ کھل گئی . . بے ساختہ اس کی نگاہ بیڈ سے نیچے گئی شکر ہے جو وہ وہاں نہیں تھی . وہ اپنی صبح کا آغاز اس کا منہ دیکھ کر کھبی نہیں کر سکتا تھا ... وہ جمائی لیتے ہوئے بستر کو چھوڑ کر واش روم کی طرف بڑھا . .. منہ ہاتھ دھونے اور فریش ہونے کے بعد وہ ناشتے کے لیے نیچے چلا گیا ...وہ لڑکی اسے ڈرائنگ روم میں ٹی وی صاف کرتی ہوئی نظر آئی .. اسے ڈر لگا کہیں وہ بے وقوف لڑکی ٹی وی کو بھی نہ دھو دے ...وہ کچن میں چلا گیا جبکہ اس لڑکی کی نظریں خود پہ محسوس کر سکتا تھا وہ .. کچن میں ٹیبل پہ اس کی زوجہ محترمہ نے پہلے آملیٹ اور دودھ کا گلاس تیار کر رکھا تھا .. اور کچن کی حالت دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے دادی کی ہر کام میں ماہر بہو نے بڑی مشقت کے بعد یہ ناشتہ بنایا .. اور وہ بھی کوئی خاص نہیں تھا . ... مگر وہ اس کی بنائی ہوئی چیزوں کو تب ہاتھ لگاتا جب وہ اسے بیوی کا درجہ دیتا .. جب اس نے اس لڑکی کو قبول ہی نہیں کیا تو پتا نہیں وہ گھریلو بیویوں کی طرح گھر کے کام کیوں کر رہی ہے ............... .اس لڑکی کا بنایا ہوا آملیٹ مکمل طور پر نظر انداز کر کے وہ خود اپنے لیے ناشتہ بنانے لگا .. اپنی اس عجیب و غریب شادی سے پہلے بھی وہ اپنے لیے ناشتہ خود ہی بناتا تھا .........ناشتہ کرنے کے بعد وہ کچن سے اپنے کمرے میں چلا گیا وہاں اس نے اپنے آفس کا کچھ سامان بیگ میں رکھا اور کنگھی کر کے آفس کے لیے روانہ ہو گیا . . وہ لڑکی ابھی تک ٹی وی کو رگڑ رگڑ کر صاف کر رہی تھی پتا نہیں اسے ٹی وی سے ایسی کیا دشمنی تھی جو اس کا کباڑا کرنے میں لگی تھی محترمہ .. . اس پر ناگواری سے بھر پور نگاہ ڈال کر وہ گھر سے باہر نکل گیا . .......................وہ صبح جلدی بیدار ہو گئی تھی یہ اس کے روز کا معمول تھا . . نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کے بعد وہ اپنے شوہر محترم کے لیے ناشتہ بنانے نیچے آئی تھی .. آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد بہ مشکل وہ اس بڑے کچن میں مطلوبہ سامان ڈھونڈنے میں کامیاب ہوئی ایسے کچن وہ صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی دیکھا کرتی تھی ... اور سامان ڈھونڈنے کے بعد اگلا مرحلہ تھا چولہا جلانا ... اسنے اپنی زندگی میں ہمیشہ لکڑیوں کا ہی استعمال کیا تھا اس گیس والے چولہے سے اس کا پہلی بار واسطہ پڑ رہا تھا.. اس لیے اگلے تیس منٹ وہ اس چولہے کے ساتھ سر کھپاتی رہی .... اور جب یہ پہلے کچھ مراحل طے ہوئے تو اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور وہ بڑا سا ڈبہ ( فریج ) کھول کر اس میں سے انڈے نکالے .. شکر تھا جو انڈے شہروں اور دیہاتوں دونوں جگہوں پہ ایک جیسے ہوتے ہیں . ......وہ ناشتہ بنانے کے چکر میں کچن پورا پھیلا چکی تھی اور ایک آملیٹ بنانے کے چکر میں دس آملیٹ شہید کر چکی تھی . . پورے دو گھنٹے اور دس آملیٹوں کی شہادت کے بعد بھی اس نے جو کچھ تیار کیا تھا اسے ناشتے کے علاوہ سب کچھ کہا جا سکتا تھا .. اس نے ایک بار پھر سے کوشش کرنی چاہی ..اس کے دل میں گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی اس کا وہ شوہر محترم کیا سوچے گا کیسی بیوی سے واسطہ پڑا ہے جسے ناشتہ تک بنانا نہیں آتا ... اپنے گاوں میں وہ سب سے زیادہ سگھڑ مانی جاتی تھی لیکن یہاں آ کر اس کی ساری قابلیت ہوا ہو چکی تھی ... وہاں وہ اکیلی بیس لوگوں کا کھانا بناتی تھی جبکہ یہاں ایک آملیٹ بنانے کے لیے اسے کتنی محنت کرنی پڑ رہی تھی ......خیر خدا خدا کر کے اس نے کچھ بنا ہی لیا اور آملیٹ کے ساتھ دودھ کا گلاس بھی رکھ دیا ... اور خود باہر آئی باقی گھر کے کام کاج دیکھنے ... .یہاں کی تو روٹین ماحول سب کچھ الگ ہے اس وقت وہ اپنے گھر میں ناشتہ بنانے کے بعد پوری کچی حویلی میں جھاڑو مار رہی ہوتی ... لیکن یہاں وہ کیا کام کرے گھر تو پہلے سے ہی صاف ہے .. کچھ سوچ کر اس نے ایک پرانا کپڑا ڈھونڈا اور دیواروں کے ساتھ ساتھ فوم والی کرسیوں( صوفوں ) کی بھی صفائی کرنے لگی تھی ... اور ان سے فارغ ہو کر وہ ٹی وی کو صاف کرنے لگی جب اس کی نظر اس کے شوہر پہ پڑی وہ بس اسے دیکھتی ہی رہ گئی .. اس نے اپنے گاوں میں کہیں بھی ایسا خوبصورت گبرو جوان نہیں دیکھا تھا .. یہ جو خوبصورت سا شخص تھا یہ صرف اس کی ملکیت تھی . اسے اپنے آپ پہ رشک بھی آیا اور ترس بھی . . اس کا شوہر ایک نظر اسے دیکھ کر کچن میں چلا گیا .... لیکن اسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ اس کی بنائی ہوئی آملیٹ کو چھوڑ کر خود اپنے لیے آملیٹ بنا رہا ہے ...... .اگر گاوں ہوتا تو وہاں کی لڑکیاں ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتیں کہ ایک مرد خود چولہے پہ اپنے لیے ناشتہ بنا رہا ہے .. وہ اس کے پاس جانا چاہتی تھی خود اسے ناشتہ بنا کر دینے کے لیے لیکن پھر یہ سوچ کر رک گئی جب اسنے آملیٹ ہی نہیں کھایا تو وہ اس سے مدد کیسے لے سکتا ہے"افراہیم تو آفس جا چکا تھا جبکہ وہ وہیں ٹی وی کے پاس گم سم سی کھڑی تھی. باقی کا وقت وہ ادھر ادھر گھر کا جائزہ لیتی رہی لیکن ان سب سے بھی اس کی بوریت بالکل ختم نہیں ہوئی حالانکہ وہاں ٹائم پاس کے لیے کافی چیزیں تھیں..میگزین اور ڈائجسٹ یہ تو وہ پڑھ نہیں سکتی تھی اور رہی بات ٹی وی کی تو وہ ڈر کے اسے آن نہیں کر رہی تھی کیونکہ بچپن میں اس نے سنا تھا ان سب چیزوں میں کرنٹ ہوتا ہے اور آن ہوتے ہی پھٹ جاتےہیں. .وہ بچپن کے اس ڈر کو اپنے دل سے نکال ہی نہیں پائی.....دوپہر کا کھانا اس نے خود اپنے لیے بنایا تھا گھر میں ضرورت کی ہر شے موجود تھی یہ الگ بات ہے کہ ان چیزوں کو تلاش کرنے میں اس کا کافی وقت ضائع ہو گیا..امیر لوگوں کی ہر شے الگ ہوتی ہے واش روم سے لے کر کچن تک...جتنا بڑا ان کا واش روم ہوتا ہے وہاں گاوں میں دو کمرے اتنی جگہ پہ بن جاتے ..اور باقی سازو سامان الگ..پہلے پہل تو وہ واش روم کو دیکھ کر حیران ہوئی ..اس کے شوہر محترم شادی کے تیسرے دن ہی آفس چلے گئے اپنی نئی نویلی دلہن کو اتنے بڑے گھر میں اکیلے چھوڑ کر.....................اس نے تو کھبی زندگی میں ان سب چیزوں کی تمنا نہیں کی تھی یہ سب تو اسے بنا مانگے ہی مل گیا لیکن اتنیجلدی اتنی آسانی سے بڑی چیزیں کھبی نہیں ملا کرتیں.......عصر کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں گھس گئی اتنی بڑی عمارت میں اس کی کام کی جگہ صرف کچن ہی تھی...وہ اپنے شوہر کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ اچھا بنانا چاہتی تھی اس لیے وقت سے پہلے ہی تیاری کرنے لگی..وہ جانتی تھی آدھے گھنٹے کے کام میں وہ تین گھنٹے تو ضرور لگا دے گی....اس نے کہیں سنا تھا کہ شوہر کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے اس لیے وہ اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے اس کی پسندیدہ بریانی بنانا چاہتی تھی....اس کی پسند نا پسند اور اس کے بارے میں کچھ اور معلومات دادی نے عمرے پہ جانے سے پہلے اسے فراہم کیں تھیں..چاہے وہ اس سے ناپسند کرے چاہے وہ اسسے نفرت کرے مگر وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ کھبی اس سے نفرت نہیں کرے گی وہ ایک بیوی ہونے کا فرض ضرور نبھائے گی....چاہے وہ شوہر ہونے کا فرض نبھائے یا نا نبھائے......صبح سے کچن میں مختلف الٹے سیدھے تجربات کر کے وہ اب کافی حد تک سمجھ چکی تھی....اسے اس کے واپس آنے کا وقت نہیں پتا تھا اس لیے سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہتی تھی. ..اپنی مطلوبہ ہر شے اس نے اپنے پاس کر لیا..اور پیاز کاٹنے لگ گئی پیاز کاٹنے سے اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے..یہ صرف پیاز کاٹنے کے آنسو تھے یا ان میں کوئی اور آنسو بھی شامل ہو گئے یہ وہ نہیں سمجھ سکی.......فریج سے گوشت نکال کر اس نے پتیلے میں ڈال دیے .اور چولہے کی آگ تھوڑی کم کر کے وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کمرے میں چلی گئی.....جب نماز پڑھ کر واپس آئی تو بریانی تیار ہو چکی تھی اس نے احتیاطی طور پر پہلے خود چیک کر کے دیکھا.اسے تو ٹھیک لگا لیکن پتا نہیں اس کے شوہر محترم کو پسند آئے گا بھی یا نہیں. ..وہ اور بھی کچھ بنانا چاہتی تھی لیکن بریانی بنانے میں ہی اتنا وقت ضائع ہو گیا کہ مزید کچھ بنانے کی گنجائش نہیں رہی..وہ اب آہستہ آہستہ کچن سمیٹنے لگی ایک بریانی بنانے کے چکر میں اس نے پورے کا پورا کچن بکھیر کر رکھ دیا تھا...........اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی وہ بھاگتی ہوئی کچن کے دروازے تک گئی وہ اپنا بیگ اٹھائے اندر داخل ہو چکا تھا. ..اس کے ہاتھوں میں شاید کچھ کھانے کا سامانبھی تھا جو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا اور خود اپنے کمرے کی طرف چلا گیا.ایک تو تھکن کافی محسوس ہو رہی تھی اور اوپر سے ٹینشن اسے کھائے جا رہے تھے اپنے کمرے میں آ کر اس نے بیگ صوفے پہ پھینک دیا اور خود جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹ گیا...یہ شاید اس کی زندگی کے سب سے برے دن چل رہے تھے گھر آتے ہی سب سے پہلے زوجہ محترمہ کے درشن ہو گئے ..وہ پہلے سے ہی بہت ڈسٹرب تھا اور رہی سہی کسر محترمہ نے پوری کر دی..اسے تو یہ سوچ سوچ کر ہی تکلیف ہو رہی تھی یہ ان پڑھ گوارلڑکی اس کی بیوی کی حیثیت سے اس گھر میں موجود ہے.......کافی دیر وہ یونہی بیڈ پہ لیٹا رہا جب تھکن کا احساس کافی حد تک کم ہوا تو اسے بھوک لگنا شروع ہوئی..واش روم میں جا کر اس نے ہاتھ منہ دھوئے اور نیچے چلا گیا...اس نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا وہ نظر نہیں آئی..لیکن اسے خود کے اس طرح متلاشی ہو کر دیکھنے پہ بہت غصہ آیا وہ کہاں ہے کیا کر رہی ہے اس سے اسے کیا مطلب جہنم میں جائے اس کی بلا سے.........لیکن ٹیبل کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا مطلوبہ شاپر غائب پایا جس میں وہ ہوٹل سے اپنے لیے کھانا لے کر آیا تھا..ویسے تو وہ ہمیشہ اپنے لیے گھر پہ کھانا خود بناتا تھا لیکن آج تھوڑا تھکا ہوا اور پریشان تھا اس لیے اس نے ہوٹل سے کھانا خرید لیا. .مگر یہ شاپر اچانک کیسے کہاںغائب ہو گئی. ..اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگا یہ ضرور اس کی جاہل زوجہ محترمہ کا کام ہو گا..لیکن وہ اس طرح شاپر لے جا کر کہاں غائب ہو گئی. .کیا اسے بھوک لگ رہی تھی...اور وہ کھانا وہ اپنے لیے لے گئی...لیکن وہ خود بھی تو بنا کر کھا سکتی تھی..بقول دادی کے تو وہ ہوٹلوں سے بھی اچھا کھانا بناتی ہے. .....وہ غصے سے کھولتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا. .....اور آنکھیں بند کر کرسی کی پشت پر ٹیک لگا دی..اور پھر اس نے اپنی آنکھیں تب کھولیں جب اس نے ٹیبل پہ کچھ رکھنے کی آواز سنی...وہ ٹیبل پہ مختلف پلیٹوں میں کھانا لگا رہی تھی...اس نے ایک نظر اسے دیکھا جو حد سے زیادہ خوش فہمی میں نظر آ رہی تھی..اور پھر کھانے کو دیکھنے لگا. .جو وہ بے ترتیبی سے ٹیبل پہ سجا رہی تھی..سالن کے بڑے ڈونگے میں اس نے بریانی ڈالی ہوئی تھی اورچاولوں کی پلیٹ میں اس نے سالن نکالا ہوا تھا اور سب سے عجیب بات اس نے روٹیاں پتیلے میں رکھ دیں تھیں...اس نے غصہ ضبط کر لیا اور صرف خاموشی سے اسے یہ سب کاروائی کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا. .جب وہ سب کچھ مکمل کر چکی تب بھی وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی.....کچھ چاہیے. ..اس نے سرد لہجے میں اسے مخاطب کیا..اسے مخاطب کرنا اس کی مجبوری تھی وہ کھانے کے دوران اسے بالکل بھی اپنے پاس نہیں دیکھ سکتا تھا..وہ اپنی گردن ہلا کر دوبارہ کچن میں چلی گئی اور برتن دھونے لگی لیکن وہ جانتا تھا وہ برتن دھوتے ہوئے بھی اسے ہی دیکھ رہی ہے. .......وہ اسے نظر انداز کر کے کھانے کی طرف متوجہ ہوا.اس کی لائی ہوئی ساری چیزوں کے ساتھ بریانی کا بھی اضافہ تھا .یہ بریانی وہ تو نہیں لایا تھا تو پھر ضرور دادی کیاس سگھڑ بہو نے بنائے ہوں گے .ویسے تو بریانی اس کی پسندیدہ ڈش تھی لیکن یہ چونکہ اس محترمہ نے بنایا تھا اس لیے وہ اس ٹیبل پہ موجود بریانی کو چھوڑ کر ہر ڈش کے ساتھ انصاف کرنے لگا..حالانکہ اس کا دل بہت چاہ رہا تھا وہ بریانی کھائے لیکن دل کی اس خواہش کے درمیان اس کی انا آ رہی تھی اور وہ صرف بریانی کے لیے اپنی انا کھبی نہیں کچل سکتا تھا................کھانے کے بعد ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا وہ لاونج میں رکھی ٹی وی دیکھنے لگا . ٹی وی دیکھتے وقت بھی وہ پتا نہیں کیوں بار بار ادھر ادھر دیکھ رہا تھا. .دو گھنٹے کے بعد وہ ٹی وی کو چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا حالانکہ وہ جو مووی دیکھ رہا تھا اس کے ختم ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا لیکن پتا نہیں کیوں اس کا ٹی وی دیکھنے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا.ایسا پہلے کھبی نہیں ہوا وہ ہر مووی مکمل ہی دیکھا کرتا.....سیڑھیاں عبور کر کے وہ اپنے کمرے میں آیا ..کمرے میں جاتے ہی سب سے پہلی نظر اس پہ ہی پڑی وہ فرش پہ پوری دنیا سے بے خبر سو رہی تھی..کتنے اطمینان سے وہ نیند کی آغوش میں تھی. .اس کا سکون چھین کر ، اس کی خوشی چھین کر......وہ بنا کوئی آواز پیدا کیے بیڈ پہ آ کر لیٹ گیا. نیند کو کافی دیر تک بلانے کی کوشش کرتا رہا..بہرحال رات کے جانے کون سے پہر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو چکا تھا..................پھر اسے کی آنکھ رات کے دو بجے کھلی اس نے اس لڑکی کو دیکھا جو بے خبر سو رہی تھی ..اسے پیاس اور بھوک کا احساس ہوا ..عموماً رات کو اسے بھوک اور پیاس کا احساس ہوتا رہتا اس لیے وہ ہمیشہ اپنے لیےفریج میں کھانا بچا کر رکھتا..لیکن آج جہاں تک اسے یاد پڑ رہا ہے وہ جو کھانا لایا تھا وہ سارا ختم کر چکا تھا اب اسے اپنی بھوک مٹانے کے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ بنانا تھا....وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا..........دروازہ کھلنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی..اس نے سب سے پہلے اٹھ کر دروازے کو نہیں بیڈ کو دیکھا..جب اسے بیڈ سے غائب پایا تو وہ حیرانی سے کھڑی ہوگئی..سامنے دیوار پہ لگی سوئیوں والی گھڑی سے اس نے وقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اسے حیرت ہوئی دو بج رہے تھے. .اتنی رات کو وہ باہر کیا کرنے چلا گیا...پانی پینے. ...؟نہیں پانی کا تو جگ رکھا ہوا ہے پھر کہاں گیا ..اسے تجسس ہونے لگی اور وہ کمرے سے باہر نکل آئی ..آہستہ آہستہ ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے وہ سنگ مرمر سے بنی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی اسے کچن سے کچھآوازیں آنے لگیں...اس نے قدموں کا رخ کچن کی جانب کر دیا .... ..........کچن کے دروازے پہ پہنچ کر اس پہ عجیب انکشاف ہوا ..وہ رات کے دو بجے کھانا کھا رہا تھا اس کا منہ دوسری طرف تھا اس لیے وہ اسے دیکھ نہ سکا....اور غور کرنے پہ اسے پتا چلا وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کھا رہا تھا ..یہ انکشاف خوشگوار تھا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی....رات کے کھانے میں ٹیبل پہ موجود ہر شے کھانے والا اس کا وہ شوہر محترم صرف اور صرف اس کی بنائی ہوئی بریانی کو نظر انداز کر گیا...اسے اس وقت حقیقتاً بہت دکھ ہوا. .وہ کچن میں کافی دیر تک روتی رہی اس نے اتنی محنت سے اس کے لیے بریانی بنائی تھی اور اس نے چکھنا تک گوارا نہیں کیا. .اسے غصہ آیا اپنے مغرور شوہر پہ...اسے جتنا غصہ تھا جتنا دکھ تھا وہ سب اب ختم ہو چکا تھا..رات کے کھانے میں اس کے انا پرست شوہر نے بریانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور اب رات کے دو بجے وہ اس کی بنائی ہوئی بریانی کتنی رغبت سے کھا رہا تھا.............وہ دروازے سے واپس پلٹ آئی ..اور کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گئی..اسے پہلے اگر دکھ کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی تو اب وہ خوشی سے سو نہیں پائے گی............بیس منٹ بعد اس نے دروازے پہ اس کی آمد کو محسوس کیا. .لیکن وہ خود کو سوتا ہوا ظاہر کر رہی تھی ..جبکہ دل ہی دل میں اپنے شوہر کی اس عجیب و غریب چوری پہ مسکرا بھی رہی تھی ......اگلی صبح وقت پہ بیدار نہیں ہو سکا ..اسے آفس جانا تھا اور وہ آدھا گھنٹہ دیر سے اٹھا اور کل کی طرح آج بھی سب سے پہلے اس نے اپنے بائیں جانب اس لڑکی کے بستر کی طرف دیکھا..وہ اسے وہاں نظر نہیں آئی۔ وہ اٹھ کر واش روم کی طرف چلا گیا..اسے آفس جانے میں پہلے ہی دیر ہو چکی تھی .............واش روم سے جب وہ نہا کر تولیے سے بال رگڑتا ہوا باہر آیا تو نیلے رنگ کی شرٹ بیڈ پہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا.. وہ استری کر کے بیڈ پہ رکھ دیا گیا تھا.. اتنے سارے کپڑوں میں اس نے نیلے رنگ کا ہی انتخاب کیوں کیا... گویا اس کی زوجہ محترمہ کو معلوم تھا کہ نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ ہے لیکن یہ اسے کیسے پتا چلا...؟اسے اپنی بیوی کی یہ مشرقی ادا تسکین نہیں پہنچا سکی مزید سلگھا گئی......کیوں ہاتھ لگایا اس نے میرے کپڑوں کو...؟ کس حق سے اس نے میری شرٹ استری کی....؟یہ وہ سوالات تھے جو وہ غصے سے اپنے آپ سے کر رہا تھا. .لیکن وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا جب وہ اسے بیوی تسلیم نہیں کرتا تو وہ اس کے استری کیے ہوئے کپڑے کیوں پہنے... اس نے وہ شرٹ واپس الماری میں رکھی اور ایک سفید رنگ کی شرٹ پہن لی... یہ الگ بات ہے کہ اس سفید شرٹ میں کئی شکنیں پڑ چکی تھیں.. عموماً وہ اپنے سارے کام خود کرتا تھا کھانا پکانے سے لے کر کپڑے استری کرنے تک... لیکن آج تو وہ پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکا تھا اس لیے جیسے تیسے وہ شرٹ پہنکر بالوں میں جلدی جلدی کنگھی پھیر کر وہ بیگ اٹھا کر نیچے آیا.................اس کا ناشتہ کرنے کا آج بالکل ارادہ نہیں تھا وہ وہیں آفس میں ہی کچھ نہ کچھ لے لیتا .. پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی اس لیے وہ جلدی جلدی بڑے بڑے قدم اٹھاتا ہوا گھر کے بڑے دروازے تک گیا.. ابھی اس نے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اپنی زوجہ محترمہ کی آواز پہ رک گیا...........سنو جی....اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی اسے اس طرح اپنا پیچھے سے آواز دے کر بلانا بالکل بھی اچھا نہیں لگا. اس نے کوئی بات تو نہیں کی البتہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے ضرور دیکھا. .........وہ جی گھر کا تھوڑا سامان لانا ہے... اس نے ججھکتے ہوئے کہا. . جبکہ اسے اس طرح پیچھے سے بلایا جانااور اب پورے حق کے ساتھ گھر کے سامان کا آرڈر دینا بالکل ناگوار گزرا اور یہ ناگواری اس کے چہرے سے بھی عیاں تھی..............کیا لانا ہے....؟ چہرہ سپاٹ تھا...... وہ..جی چینی اور چائے کی پتی......بس...؟.. نہیں وہ سرخ مرچ اور پیاز بھی ختم ہو گیا....وہ پوری کی پوری مشرقی ادا میں مخاطب تھی........اوکے...اور کچھ. ...؟..... سبزی بھی ختم ہو گئی اس ڈبے سے... کون سے ڈبے سے..؟.وہ حیران تھا.....وہی جی..جو اندر رکھا ہوا ..جسے کھولو تو سرخ بتی جلتی ہے...اس نے دماغ پہ زور دیا..... وہ...وہ...اسے فریج کہتے ہیں بے وقوف. ...اس نے عجیب نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا. ....ہاں جی وہی فراج سے .... فراج نہیں فریج....اس نے اپنے لفظوں پہ زور دیا... کیا جی....فا ریج ..؟..اس نے بھول پن سے سوال کیا. .فا ریج..نہیں. ....اچھا چھوڑو یہ بتاو اور کیا کیا لانا ہے..وہ دانت پیس کر بولا....دہی بھی جی اور....اور.....وہ کچھ سوچنے لگی. .. اگر اس کی کوئی پڑھی لکھی بیوی ہوتی تو وہ ایک منٹ میں ہی لسٹ بنا کر دیتی اسے لیکن یہ گاوں کی گوار اسے دو گھنٹوں سے گھر کا سامان رٹوا رہی ہے....... کچھ یاد آیا محترمہ...یا پھر میں یہیں بیٹھ کر آپ کی یادداشت واپس آنے کا انتظار کروں...اس نے طنز بھرےلہجے میں اس مخاطب کیا. وہ پتا نہیں اس کے طنز کو سمجھ سکی یا نہیں بہرحال اس نے اپنی زبان کو تھوڑی تکلیف ضرور دی. .......وہ جی وہ جو لال لال سی ہوتی ہے....اب اسے حقیقتاً غصہ آیا....لال لال سی کوئی ایک چیز نہیں ہوتی ..اور کیا میں بازار میں جا کر یہ کہوں گا محترمہ بانی صاحبہ کسی لال چیز کا کہہ رہیں تھیں آپ مجھے وہی لال چیز دے دیں..اب کی بار وہ غصہ نہیں چھپا سکا وہ اس کے غصے سے ڈر گئی...............میں سب سودے بھجوا دوں گا...او کے...اس کی آنکھوں میں بھرے وہ آنسو دیکھ چکا تھا اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا وہ اس کے سامنے کوئی سیلاب جاری کرے وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا..وہ وہیں کھڑی اپنے آنسو پہ قابو پانے کی کوشش کرتی رہی..اسے دکھ اس کے رویے سے نہیں بلکہ اس بات سے پہنچا ہے کہ وہ شرٹ جو اس نے اتنی محبت کے ساتھ استری کی وہ کیوں نہیں پہن کر گیا...باقی کا سارا دن بھی وہ اداس رہی اس نے دوپہر کو ہی ایک ملازم کے ذریعے گھر کا سارا راشن بھیج دیا تھا وہ بھی جو اس نے کہا اور وہ بھی جو وہ نہ کہہ سکی ..باقی کا بہت سارا وقت اس نے سامان کو ترتیب دینے میں گزار دی ..اس لیے اسے کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی سبزی آ چکی تھی اس نے کچھ سبزیاں فریج میں ڈالیں اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے آلو اور قیمہ الگ کرنے لگی...اب وہ ایک کام میں تو ماہر ہو چکی تھی کھانا بنانے میں. .ایسا نہیں تھا کہ اسے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لیکن اس عجیب کچن میں کھانا بنانے کا اس کا تجربہ نیا تھا... یہاںسب کام آسان تھے گاوں کی نسبت. .. یہاں چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہیں لانی پڑتیں تھیں... پانی کا انتظام پاس میں ہی تھا اور ہر چیز علیحدہ علیحدہ صاف نظر آ رہا تھا جبکہ وہاں سالن میں نمک ڈالو تو دو گھنٹے تک مرچوں کا ڈبہ نہ ملے.... یہاں ساری سہولیات ہونے کے باوجود بھی وہ شروع شروع میں کچھ جھجک رہی تھی لیکن اب چونکہ وہ کچن کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر چکی تھی اس لیے اسے کام کرنے میں بہت مزا آ رہا تھا ..روز بروز نئی نئی چیزوں سے آشنا ہو رہی تھی. .. قیمہ تیار ہونے میں ابھی کافی وقت تھا اس لیے وہ اپنے کمرے میں آئی اسے ایک بار اس کی ایک سہیلی نے بتایا تھا....بانی یہ جو شہری مرد ہوتے ہیں ان کو کریم پاوڈر والی لڑکیاں بہت پسند آتی ہیں..اس وقت تو اس نے اس بات پہ غور نہیں کیا لیکن اب چونکہ مصیبت سر پہ آن پڑی تھیتو ان سب چیزوں کو استعمال کرنا تھا..وہ میک اپ کا ڈبہ جو دادی نے اسے دیا تھا وہ جوں کا توں پڑا ہوا تھا اس نے ہاتھ تک نہیں لگایا .اسے میک اپ سے ہمیشہ چڑ ہوا کرتی تھی اور اسے اچھے سے میک اپ آتا بھی کہاں تھا اس نے کھبی میک اپ کیا ہی نہیں کھبی ضرورت ہی نہیں پڑی وہاں پہ بھی صرف صابن سے منہ دھویا کرتی تھی...............اس نے اپنی پرانی لوہے کی پیٹی سے وہ میک اپ والا ڈبہ باہر نکالا.. اس ڈبے میں ایسی چیزیں تھیں جن کے نام تو دور شکل تک کھبی نہیں دیکھی اس نے.. اب ایسے میں انہیں استعمال کرنا کافی مشکل تھا..اس نے سارا سامان الٹ پلٹ کر دیکھا اسے ان سیکڑوں چیزوں میں جو کام کی چیز لگی وہ منہ پہ لگانے والیکریم، لپ اسٹک، اور آئی شیڈ تھی..باقی سارا کا سارا سامان اس کے لیے بے کار تھا....... یہ تینوں چیزیں لے کر وہ آئینے کے سامنے بیٹھ گئی. کریم تو جیسے تیسے لگا ہی لیا اس نے آئی شیڈ بھی ترتیب اور بے ترتیبی سے لگ گیا اب اصل مسئلہ لپ اسٹک کا تھا... اس نے کھبی خود لپ اسٹک نہیں لگایا بچپن میں بھی جب کوئی شادی وغیرہ ہوتی تو اس کی کزنز اس کو زبردستی لپ اسٹک لگایا کرتیں اسے ان سب چیزوں میں کھبی کوئی دلچسپی نہیں تھی.......دس مرتبہ اس نے لپ اسٹک لگایا اور ایک مرتبہ بھی سہی نہ لگا سکی لیکن اس نے کوشش کرنا نہیں چھوڑا.. وہ تب تک لگاتی رہی جب تک سہی نہیں لگا اور بیس منٹ کی مشقت کے بعد بہرحال اس نے کچھ ڈھنگ سے لپ اسٹک لگا ہی لی... اسے بالکل پرفیکٹ تو خیر اب بھی نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن پہلے کی نسبت کافی بہترتھی.... اس نے نیلے رنگ کی فراک پہن رکھی تھی نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا اس لیے اس نے اس کی پسند سے ہی خود کو تیار کیا"دس مرتبہ اس نے لپ اسٹک لگایا اور ایک مرتبہ بھی سہی نہ لگا سکی لیکن اس نے کوشش کرنا نہیں چھوڑا..وہ تب تک لگاتی رہی جب تک سہی نہیں لگا اور بیس منٹ کی مشقت کے بعد بہرحال اس نے کچھ ڈھنگ سے لپ اسٹک لگا ہی لی...اسے بالکل پرفیکٹ تو خیر اب بھی نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن پہلے کی نسبت کافی بہتر تھی....اس نے نیلے رنگ کی فراک پہن رکھی تھی نیلا رنگ اس کا پسندیدہ رنگ تھا اس لیے اس نے اس کی پسند سے ہی خود کو تیار کیا ........اور پھر میک اپ کے بعد کچن میں آئی آلو قیمہ کے ساتھ ساتھ اس نے میٹھے میں کھیر بھی بنائی...وہاں تو وہصرف سالن بناتی تھی اور روٹیاں..بس اس کے علاوہ وہاں کوئی دوسرے لوازمات نہیں ہوتے تھے لیکن یہاں تو پندرہ طرح کے کھانے بنتے ہیں..............وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا بیگ اس نے صوفے پہ رکھ دیا اور کھانا جو وہ ہوٹل سے اپنے لیے لایا تھا وہ بھی اس نے وہیں رکھ دیا اور خود بھی گرنے کے انداز میں صوفے پہ بیٹھ گیا. ...اس نے ناگواری سے ادھر ادھر دیکھا. ...وہ اسے نظر آ ہی گئی...اسے دیکھ کر ایک پل کے لیے وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا...اس نے جو عجیب و غریب میک اپ کر رکھا تھا اس سے وہ خوبصورت تو کیا خاک لگتی الٹا عجوبہ بن چکی تھی اس کا یہ میک اپ دیکھ کر اس کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا ...تو وہ پاگل لڑکیاسے پٹانے کے لیے ان سب چیزوں پہ اتر آئی ہے مگر وہ جو کر لے وہ اسے کھبی قبول نہیں کرے گا................وہ اب اس کا بیگ اٹھانے لگی وہ منہ دوسری طرف کر کے خاموش بیٹھا تھا. .وہ بیگ اٹھا کر جانے کہاں لے گئی..جبکہ وہ فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے میں آ گیا....جب وہ نیچے کھانے کے لیے گیا تب تک وہ کھانا میز پر سجا چکی تھی ..وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا جبکہ وہ وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی. ....کھانا کھایا تم نے...؟ ..کسی بھی جذبات سے عاری اس نے سنجیدہ لہجے میں اس سے پوچھا. .....نہیں آپ کھا لیں جی ہم بعد میں کھائیں گے..اس نے شرماتے ہوئے کہا وہ سمجھ نہیں سکا اس میں شرمانے والی بات کون سی تھی........تو بیٹھو کھانا کھاو....اس نے اپنی پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے کہا. .... جی...وہ..ہم...؟ اس کی اس جی میں حیرت کم اور انکار زیادہ تھی........ ہاں تم...اور کوئی نظر آ رہا ہے اس گھر میں. اس بار وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا.......... ہمارے گاوں میں رواج ہے۔ پہلے شوہر کھانا کھالے اس کے بعد بیوی اس کا بچا ہوا کھانا کھاتی ہے...اس نے سادگی سے کہا...جبکہ وہ حیران بھی تھا اور خود کے شوہر کہے جانے پہ تھوڑا غصہ بھی تھا لیکن اس نے مزید اسرار نہیں کیا...وہ کچھ دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر وہاں سے چلی گئی لیکن وہ جانتا تھا وہ جہاں کہیں بھی گئی ہے اسے دیکھ رہی ہو گی...کیا مصیبت ہے. ..؟ وہ نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے بڑبڑایا...اس نے پہلی بار کھانے کی ٹیبل پہ نگاہ دوڑائی آج کل کی نسبت بہت ڈشز بنائی گئی تھیں۔آلو قیمہ اس کا پسندیدہ تھا لیکن چونکہ یہ اس نے بنایا ہے اس لیے وہ کھانا نہیں چاہتا تھا .کل رات اس کے ہاتھ کی بنی بریانی کھا کر ہی اس نے اعتراف کیا وہ کھانا واقعی بہت اچھا بناتی ہے اور اب قیمے کی بھی زبردست خوشبو آ رہی تھی وہ کھانا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی کھانا چاہتا تھا۔اس نے چور نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا جب اسے وہ نظر نہ آئی تو بچوں کی طرح چوری کرتے ہوئے اس نے تھوڑا قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا اور پھر ڈونگے کے اوپر ویسے ہی ڈھکن رکھ دیا یہ ظاہر کرنے کے لیے اس نے قیمے کو ہاتھ تک نہیں لگایا. .پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی اسے ایک خوشگوار احساس ہوا ، ہوٹل کے کھانوںمیں وہ ذائقہ کھبی نہیں آ سکتا جو گھر کے بنائے کھانوں میں ہوتا ہے اور ایک مرد چاہے کتنا بھی اچھا کھانا کیوں نہ بناتا ہوں لیکن ایک عورت سے اچھا کھانا وہ کھبی نہیں بنا سکتا۔وہ خود ہمیشہ ٹی وی پہ ریسپیز دیکھ دیکھ کر مختلف پکوان بناتا تھا اس نے خود قیمہ بھی کئی بار بنایا لیکن اس میں یہ ذائقہ کھبی نہیں تھا جو اس کے بنائے ہوئے قیمے میں تھا.............کھانے سے فارغ ہو کر وہ صوفے پہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے لیے چائے بنائے لیکن اس کی سوچ سے بھی پہلے وہ اس کے لیے چائے لیے اس کے پاس کھڑی تھی. .اب وہ چائے اس کی طرف بڑھا رہی تھی اس نے چائے کا کپ اس کے ہاتھوں سے لے لیا حالانکہ اس کا کپ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھاپھر بھی پتا نہیں کیوں اس نے کپ تھام لیا اور اب جب کپ اس کے ہاتھوں میں تھا تو مطلب اسے چائے بھی پینی تھی....وہ بھی اس کے برابر رکھے صوفے پہ بیٹھ گئی اس کا اس طرح بیٹھنا اسے بہت برا لگا..لیکن وہ اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا.!!.یہ کیا ہے جی...؟..اس نے ٹی وی کی طرف اشارہ کیا... ٹی وی ہے ..اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا. ...یہ ٹی بی کرنٹ تو نہیں مارتا جی....... نہیں اگر اسے انسانوں کی طرح آن کیا جائے تو....وہ ناگواری سے بولا.......یہ کدھر سے آن ہوتا ہے جی ...اس نے ایک اور سوال کیا.....وہ اس بڑے والے بٹن سے....اس نے ٹی وی کے بٹن کی طرف اشارہ کیا. ....چائے پیتے ہوئے اس نے محسوس کیا وہ کھانے کی طرح چائے بھی زبردست بناتی ہے.. ....اور یہ کیا ہے جی....اب اس کا اشارہ ریموٹ کی طرف تھا...... یہ ریموٹ ہے....وہ شدید کوفت میں مبتلا ہو چکا تھا... یہ رٹوٹ ( ریموٹ ) کیسے چلتا ہے جی....اس نے معصومیت سے ایک اور سوال کیا...اس کے ریموٹ کورٹوٹ کہنے پہ بے ساختہ اس کے ہونٹوں پہ تبسم پھیل گئی........ اس سے آواز کم اور زیادہ ہوتا ہے..اور یہ بٹن چینل تبدیل کرتا ہے ..وہ ریموٹ اٹھا کر اسے کسی چھوٹے بچے کے انداز میں سمجھا رہا تھا...... یہ چینل کیا ہوتا ہے جی....اور اس کا دل چاہا ریموٹ اپنے سر پہ دے مارے...... چینل مطلب. ..یہ فوٹو تبدیل ہوتے ہیں. ..اب کی بار وہ زرا غصے سے بولا. .... اچھا جی آپ کتنے پڑھے ہوئے ہو...اب اس کی زاتی زندگی پہ سوال کیا گیا. ..... ایم بی اے کیا ہوا ہے میں نے. ..وہ تنک کر بولا. ..یہ کتنا ہوتا ہے جی....اور وہ یہ کیوں بھول گیا کہ اس کی زوجہ محترمہ پڑھی لکھی نہیں ہے. ...سولہ جماعتیں....اس نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا...لیکن اس نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا. ... آپ کہاں سے پڑھے ہو جی....لندن سے....اس نے چائے کا گھونٹ بھر کر کہا..لیکن اگلا سوال سب سے زیادہ عجیب و غریب تھا..... لندن کون سے صوبے میں ہے....؟..اس سوال پہ اس نے گھور کر مخاطب کو دیکھا. ... لندن....لندن...یہاں نہیں ہے لندن جہاز پہ جاتے ہیں وہ بہت دور ہے......وہ ایک ایک لفظ کھینچ کر بولا. .. جہاں دادی گئی ہیں جی...؟..اب وہ چائے ختم کر چکا تھا..... { ناول دلہن تحریر ناصر حسین }ہاں....اس نے مزید سوالات سے بچنے کے لیے سراسر جھوٹ بولا....لیکن اس نے سوالات کا سلسلہ منقطع نہیں کیا...........آپ گاڑی خود چلاتے ہوئے. ...پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے یہ سوال کیا.....جی ہاں....... آپ کو گاڑی چلانا آتا ہے جی...اس نے ایک بار پھر حماقت سے بھر پور سوال کیا......ظاہر ہے میں اگر گاڑی چلا کر آفس جاتا ہوں تو مجھے گاڑی چلانا آتا ہے....اب کی بار وہ تیز آواز میں بولا. ..اور وہ شاید اس کے جواب سے زیادہ اس کے لہجے سے گھبرا گئی تبھی وہ کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی. ..اس نے ایک بار پھر ٹی وی دیکھنے کی کوشش کی. .لیکن اب وہ ٹی وی نہیں دیکھ پا رہا تھا. اس کا دماغ کہیں اور تھا...اسے الجھن تھی...ٹی وی پہ اسے صرف تصویریںنظر آ رہی تھیں آواز وہ نہیں سن پا رہا تھا...اسے اچانک کیا ہو گیا تھوڑی دیر پہلے تو وہ بالکل ٹھیک تھا..جب وہ یہاں بیٹھی تھی تو اس کا دل چاہا وہ یہاں سے چلی جائے تا کہ وہ ٹی وی دیکھ سکے اور اب جب وہ چلی گئی..تو اس کا ٹی وی دیکھنے کو بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا...ٹی وی بند کر کے وہ اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلا گیا..صبح صبح اٹھ کر اس نے نماز قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتہ بنایا...وہ ابھی تک گہری نیند میں تھا وہ کافی دیر تک اس کے چہرے کو دیکھتی رہی ..وہ اس وقت نیندمیں ساری دنیا سے بے خبر بہت معصوم لگ رہا تھا...اس پر سے نظریں ہٹا کر اس نے الماری سے اس کے کپڑے نکالے اور وہ ڈسڑب نہ ہو اس لیے انہیں استری کرنے دوسرے کمرے میں لے گئی..........کل صبح تو جناب نے اس کی استری کی ہوئی شرٹ نہیں پہنی لیکن آج وہ اس کے سارے شرٹس نکال لائی تھی. .وہ کوئی نہ کوئی شرٹ تو ضرور پہنے گا....اگر وہ ضدی ہے تو اسے راہ راست پہ لانے کے لیے وہ بھی ضدی بن جائے گی...اس کا وہ شوہر محترم اس کی استری کی ہوئی شرٹ نہیں پہنتا اس کے بنائی ہوئی بریانی نہیں کھاتا لیکن رات کو دو بجے بریانی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے..اس سے نظریں بچا بچا کر قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا جاتا ہے ...اس کے ہاتھوں کی چائے پی جاتی ہے...کب تک بچیں گے آپ شہری بابو.....وہ استری کرتے ہوئے سوچ رہی تھی...اس کے سارے کے سارے کپڑے استری کرنے کے بعد وہ انہیں واپس الماری میں رکھ آئی وہ بیدار ہو چکا تھا کیونکہ واش روم سے آواز آ رہی تھی...وہ نیچے کچن میں اس کے لیے ناشتہ لگانے چلی آئی...............واش روم سے نکل کر اس نے الماری کھولی اور ایک شرٹ نکال کر پہننے لگا تب اسے احساس ہوا یہ اس لڑکی نے استری کی...اس نے ایک اور شرٹ نکالی وہ بھی استری شدہ ملی...پھر تیسری چوتھی حالانکہ اس کے سارے کپڑے استری ہو چکے تھے....اسے تھوڑا غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی جانے کب اٹھ کر اس نے یہ سارے کپڑے استری کیے.............لیکن وہ بھی ایک نمبر کا ضدی تھا اس نے وہی پرانی شرٹ پہن لی جو اس نے کل سے پہنی ہوئی تھی. ..وہ جب سیڑھیاں اتر کر نیچے جا رہا تھا تو اس نے دیکھا وہ اسے غور سے دیکھ رہی ہے اور نہ صرف دیکھ رہی ہے بالکل مسکراہٹ ضبط کرنے کے لیے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے ہے ...وہ قطعی طور پر اسے نظر انداز کرتا ہوا کھانے کی ٹیبل پہ جا کر بیٹھ گیا. .وہ اندر سے اس کے لیے ناشتہ لے آئی...آج اس نے خود ناشتہ نہیں بنایا جب اس کے ہاتھ کی بنی بریانی وہ کھا سکتا ہے چائے پی سکتا ہے تو ناشتہ کیوں نہیں. .....؟وہ ناشتہ رکھ کر اندر چلی گئی جبکہ وہ آرام سے ناشتہ کرنے لگا ..ناشتے کے بعد وہ آفس کے لیے نکل گیا..........جبکہ وہ ٹیبل پر سے برتن سمیٹنے لگی..سارے کام مکمل کرنے کے بعد اس ڈرتے ڈرتے ٹی وی آن کیا .. ٹی وی خوبصورت تصویریں دیکھ کر وہ وہیں صوفے پہ بیٹھ گئی. .کوئی گانوں کا چینل لگا تھا وہ حیران ہو کر پوری طرح ٹی وی پہ متوجہ تھی...وہ ہیرو اور ہیروئین کو بہودہ ڈانس کرتے دیکھ کر انہیں دل ہی دل میں ملامت کر رہی تھی اور کافی شرما بھی رہی تھی حالانکہ گھر میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا پھر بھی وہ بار بار ادھر ادھر دیکھ رہی تھی. ........کل افراہیم نے جو اسے چینل بدلنا سکھایا تو انہی بٹنوں کو دباتے ہوئے وہ مختلف چینلز تبدیل کرتی رہی..اچانک فون کی گھنٹی پورے گھر میں گونج اٹھی اس نے حیران ہو کر پیچھے دیکھا اور نظر انداز کر دیا. ...ٹرن....ٹرن....ٹرن....ایک بار گھنٹی سنائی دی اس بار وہ بدک کر صوفے سے کھڑی ہو گئی گھبراہٹ کے مارے اسے پسینہ آ گیا وہ سمجھ نہ سکی یہ ٹرن ٹرن کی آواز کہاں سے آ رہی ہے......کہیں کوئی جن بھوت تو نہیں ہیں اس گھر میں. ...وہ ڈرتے ڈرتے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی. ....گھنٹی ایک بار پھر سنائی دی. ..اب کی بار وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹی........گھنٹی مسلسل بجتی ہی جارہی تھی..اس نے آواز کا تعاقب کرنے کی کوشش کی. .تب اسے پتا چلا یہ گھنٹی کی آواز اس چھوٹے ڈبے سے آ رہی ہے.......کچھ سوچنے پہ اسے یاد آیا ایسا ہی ایک ڈبہ اس کی سہیلی نجمہ کے گھر بھی تھا جس سے وہ اپنے ابو جو سعودی عرب میں تھے ان سے بات کرتی...لیکن اس سےبات کیسے ہوتی ہے....وہ سوچ رہی تھی جبکہ گھنٹی بجی جا رہی تھی. ...اس نے درود پاک کا ورد کرتے ہوئے اس چھوٹی چیز کو اٹھا ہی لیا جو اس کے اوپر رکھا تھا. ..تب اسے آواز سنائی دی......ہیلو.....ہیلو.... کوئی ہے.....بات کرو ....وہ اس آواز کو پہچان گئی یہ افراہیم کی آواز تھی.. جی آپ...وہ.....اس نے کچھ کہنا چاہا جب کہ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا ......سنو ...شام کو میرے آفس کے کچھ دوست کھانے پہ آ رہے ہیں ہوٹلوں کا کھانا وہ نہیں کھاتے اگر تم بنا سکو تو......جی ہم بنا دیں گے. .وہ جلدی جلدی بولی.... ٹھیک ہے میں بھی جلدی آ جاوں گا. ..جو سامان ختم ہو چکا ہے وہ بتاو میں آتے وقت لے آوں گا....اس نے سامان جو ختم ہو گیا تھا وہ اسے بتائیں...اور آخر میں جب وہ پوچھنے لگا بس اور تو کچھ نہیں تب وہ بولی.....جی وہ یہ ٹی بی بند کیسے ہوتا ہے ..اس نے چلا تو لیا اب اسے بند کرنے کا نہیں پتا ...کل بھی اس نے نہیں پوچھا تھا....اسی بٹن سے جس سے تم نے آن کیا.....اس نے سنجیدگی سے کہہ کر فون کٹ کر دیا...اس نے بھی وہ چیز دوبارہ اپنی جگہ پہ رکھ دی. ..اسے ویسے تو اس کی آواز ہمیشہسے پسند تھی لیکن فون پہ اس کی آواز اسے ہمیشہ سے بھی زیادہ اچھی لگی اور اس کا اس طرح اسے کھانا بنانے کا کہنا یہ بات بھی اسے اچھی لگی............ٹی وی بند کر کے وہ سیدھا کچن میں گھس گئی.وہ سامان چیک کرنے لگی اور اپنی ضرورت کی تمام اشیا الگ کرنے لگی..کوئی مہمان پہلی بار گھر آ رہا تھا اس لیے وہ کوئی بھی کمی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی..اس نے بہت سامان استعمال کے لیے علیحدہ کر کے رکھ دیا اسے مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی. ...سارے کام چھوڑ کر وہ نماز ادا کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی. ..وہ نماز کو اپنی ہر ضروری سے ضروری کام پر ترجیح دیتی..اس کے ماموں نے بچپن میں ہی اسے ایک بات سکھائی تھی جو اسے نے ایک گانٹھ باندھ کر محفوظ کر لی.............ہم انسان بھی بہت عجیب ہوتے ہیں کامیابی کو ہر جگہ ڈھونڈتے ہیں حالانکہ ہمیں دن میں دس بار آواز آتی ہے.ِ َح َّى َعلَى ا ْلفَلاَح ِ َح َّى َعلَى ا ْلفَلاَح (آو کامیابی کی طرف ) ( آو کامیابی کی طرف)ہم اس آواز کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں ہم اپنے چوبیس گھنٹوں پہ مشتمل طویل دن میں سے صرف ایک گھنٹہ بھی خدا کو نہیں دے سکتے جو ہمیں اتنا کچھ دیتا ہے......وہ ہمیں نماز کی طرف بلاتا ہے ہم انکار کر دیتے ہیں اور اس کی رحمت تو دیکھو وہ پھر بھی ہمیں کھانا دیتا ہے ہماری ضروریات پوری کرتا ہے..اگر وہ ہم سے کہے آج تو آپ نے نماز نہیں پڑھی آج آپ کو کھانا کیوںدوں...؟..لیکن وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب میں ننانوے ناموں سے ایک نام رحمن بھی ہے. ................یہ بات اسے اس کے ماموں نے اس انداز میں سمجھائی کہ وہ دوبارہ کھبی اپنا کوئی نماز نہیں چھوڑ سکی..اور جو بھی کام کر رہی ہوتی اذان کی آواز سن کر وہ کام ادھورا چھوڑ کر نماز ادا کرنے جاتی....نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں آئی..وہ الماری میں سے خوبصورت برتن بھی نکالنے لگی اپنی طرف سے وہ جتنا سمجھ سکتی تھی اتنا کرنے لگی..اسے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی وہ کچن سے باہر نکل آئی ..افراہیم بیگ اٹھائے اندر آ رہا تھا. .اس نے بتایا تھا وہ جلدی آئے گا لیکن اتنی جلدی آئے گا یہ اس نے نہیں سوچا تھا...وہ کچن میں اس کے لیے ایک گلاس پانی لےآئی ....اس نے ایک نظر پانی کو اور ایک نظر اسے دیکھا اور پانی پی لیا..وہ خالی گلاس لے کر جب واپس پلٹنے لگی تو اس نے آواز دے کر اسے صوفے پہ بیٹھنے کو کہا وہ ججھکتے ہوئے بہرحال بیٹھ ہی گئی....سنو. . میرے آفس کے کچھ دوست شام کو کھانے پہ آئیں گے وہ لوگ دس بارہ کے قریب ہوں گے..میں نہیں چاہتا ان لوگوں کے سامنے ہماری شادی شدہ زندگی کے غلط اثرات پڑیں...اس لیے میں چاہتا ہوں تم اچھے سے تیار ہو جانا ...کپڑے بھی میں لا دوں گا اور ایک بات نیلے رنگ کے کپڑوں کے ساتھ کالے رنگ کی آئی شیڈ کوئی نہیں لگاتا ....او کے.......وہ غور سے اس کی بات سن رہی تھی.وہ اسے کل کے میک اپ کی بات جتا رہی تھی.......اچھا چھوڑو میں تمہیں بیوٹی پارلر لے کر جاوں گا وہیں سے تیار ہو جانا اور ابھی ان کے آنے میں کافی وقت ہے. ......جی ..کون سا کارلر.....کارلر نہیں بیوٹی.....بیوٹی....ب...ی...و...ٹ...ی...پا...رلر... اس نے ایک لفظ الگ الگ کر کے اسے سمجھانے کی کوشش کی. ....ببٹی پرلر جی....؟..اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا جبکہ اس نے زور سے اپنے ماتھے پہ ہاتھ مارا....ببٹی نہیں ...بیوٹی....اچھا چھوڑو...اس بات کو.....تم ان لوگوں کے سامنے کوئی بات نہیں کرو گی او کے. ..اگر تم بات کرو گی تو انہیں پتا چلا جائے گا کہ تم ان پڑھ ہو.....سلام دعا کے علاوہ اور کوئی بھی بات نہیں کرو گی تم اور سلام دعا بھی مدھم آہستہ آواز میں کرنا....ویسےنہیں جیسے فون پہ چلا چلا کر بات کر رہی تھی. .کوئی بہرہ نہیں ہوتا ..او کے ...... اس نے اپنی گردن ہلائی.. ..اور اتنے لوگوں کا کھانا بنا لو گی. ..؟.. جی ہم بنا لیں گے ......ٹھیک ہے تم ابھی سے تیاری شروع کرو کیونکہ وقت بہت کم ہے اور بعد میں بیوٹی پارلر بھی جانا ہے او کے .....وہ حکم صادر کر کے کمرے میں فریش ہونے چلا گیا.......وہ بھاگتے ہوئے کچن میں چلی گئی اس کے پاس جناب کے کہے ہوئے کسی بات کو بھی سوچنے کا وقت نہیں تھا .جلدی جلدی وہ ہاتھ چلانے لگی.!!.اس وقت مغرب کی اذان ہو رہی تھی جب وہ کچن سے بہ مشکل فارغ ہوئی کئی قسم کے کھانے وہ بنا چکی تھی میٹھے میں بھی بہت کچھ بنایا تھا اس نے. ...کھانا اچھا ہے یا برا یہ فیصلہ وہ نہیں کر سکتی تھی اس فیصلے کا حق ان مہمانوں کو تھا.. ..اس نے تو اپنے گاوں کے مطابق سارے کھانے بنائے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ڈر بھی رہی تھی..پتا نہیں ان لوگوں کو کھانا پسند آئے گا بھی یا نہیں.وہاں کی بات الگ تھی وہاں گاوں میں تو سبھی اس کے ہاتھوں کے بنی کھانوں کی تعریف کرتے تھے اور آس پاس کے پڑوسی تو اس سے فرمائش کر کے مختلف پکوان بنواتے تھے لیکن یہ شہر ہے یہاں کی طرز زندگی مختلف ہے. ..یہاں گاوں کے دیسی کھانوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہو گا..... .......مغرب کی نماز ادا کر کے وہ ایک بار پھر کچن میں آئی ..وہ بھی چیزوں کا جائزہ لینے کچن میں آ گیا اب وہ اس سے ایک ایک چیز کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور ساتھہی ساتھ اپنی رائے کے ساتھ ساتھ اسے کچھ خصوصی نصیحتیں بھی کر رہا تھا.............. اچھا کھانا تو بن گیا اب چلو بیوٹی پارلر. ..اس نے بریانی ٹیسٹ کر کے کہا....... جی اچھا ہم تیار ہو کر آتے ہیں.محترمہ آپ تیار ہونے کے لیے ہی بیوٹی پارلر جا رہی ہیں. .چلو تھوڑی دیر میں وہ لوگ آ جائیں گے. ..دیر ہو رہی ہے....وہ کچن سے باہر نکل گیا جبکہ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے پورچ میں آئی..........وہ اس کے لیے کار کا دروازہ کھول چکا تھا وہ بیٹھ گئی. .وہ زندگی میں پہلی بار کار میں بیٹھ رہی تھی اس لیے نہیں جانتی تھی کہ کار میں بیٹھنے کے کیا طریقے کار ہوتے ہیں.اور وہ تھوڑا ڈر بھی رہی تھی ......اس نے بیک ویومر سے اسے دیکھا اور گاڑی سٹارٹ کر سڑک پہ لے آیا...وہ دونوں ہاتھوں سے سیٹ قابو کر کے بیٹھی تھی. جبکہ وہ اس کی اس حرکت کو نوٹ کر چکا تھا.....مس بانی صاحبہ یہ کار ہے موٹر سائیکل نہیں. .آپ اگر ہاتھ چھوڑ کر بھی بیٹھیں گی تب بھی نہیں گریں گی..اس نے طنزیہ لہجے میں اسے مخاطب کیا. ..اس نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ چھوڑ ہی دیے.........آپ کو گاڑی چلانا اچھے سے آتا ہے ناں جی....اس نے گھبراتے ہوئے پوچھا. جبکہ وہ بے اختیار مسکرا دیا....نہیں مجھے تو نہیں آتا گاڑی چلانا اس وقت گاڑی کو ایک فرشتہ چلا رہا ہے...کیا پتا کب یہ کسی بڑے ٹرک سے ٹکرا جائے اور آپ بیوٹی پارلر کی جگہ اوپر پہنچ جائیں...اس لیے درود کا ورد جاری رکھیے....اس نے تو یونہی مذاق کیا تھا جبکہ وہ سچ مچ درود پڑھنے لگی.......پتا نہیں کہاں سے پکڑ کر لائیں ہیں دادی اس انمول تحفے کو...اس نے دل ہی دل میں سوچا. ..اور گاڑی پارلر کے سامنے روک دی پہلے وہ خود گاڑی سے نیچے اترا اور اس کے لیے دروازہ کھول دیا وہ بھی ہونٹ ہلاتی نیچے اتری............وہ اس کی تقلید میں چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی وہ اتنے عالیشان اتنے خوبصورت پھولوں سے سجی اس پارلر کو دیکھ کر حیران رہ گئی. .وہ گھور گھور کر میک اپ کراوتی لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی. .کتنی پر اعتماد اور بولڈ لڑکیاں تھیں جو انگریزی میں بات کر رہیں تھیں...ہنس رہیں تھیں مسکرا رہیں تھیں ...اسے رشک محسوس ہوا ان سبھی لڑکیوں پہ جو اتنی خوبصورت تھیں اتنی پر اعتماد....اتنی اچھی انگلش بولتی تھیں...ان سب کے شوہر تو انہیں بہت پسند کرتے ہوں گے اس نے دل ہی دل میں سوچا.......کاش میں بھی ان سب میں سے ایک ہوتی ..میں بھی اتنی اچھی انگلش بول سکتی کاش میں نے بھی کسی بڑے ادارے سے کوئی بڑی ڈگری حاصل کی ہوتی. .تو افراہیم مجھے بہت پسند کرتا...ان ماڈرن لڑکیوں کو دیکھ کر بے اختیار اس کے دل میں ایک عجیب و غریب خواہش پیدا ہوئی....اس نے گردن موڑ کر افراہیم کو دیکھا جو اس پارلر والی سے انگلش میں کوئی بات کر رہا تھا......کتنا خوبصورت لگ رہا تھا افراہیم اس وقت اس کے ساتھ تو ان سب میں موجود کوئی لڑکی خوبصورت لگتی اس جیسی ان پڑھ جاہل دیہاتی ہر گز نہیں. .........سنو....میں جا رہا ہوں ایک گھنٹے بعد تمہیں لینے آوں گا ٹھیک ہے یہیں اندر اس کرسی پہ بیٹھ کر میرا انتظار کرنا کہیں باہر مت نکل جانا اوکے....؟..اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اس نے اثبات میں گردن ہلائی اور وہ مطمئن ہو کر چلا گیا..........پھر وہ لڑکی جس سے ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ بات کر رہا تھا وہ اسے ایک دوسرے کمرے میں لے گئی..اس کمرے میں ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی..اس لڑکی نے اسے ایک کرسی پہ بٹھا دیا...... ..اس نے آئینے میں خود کو دیکھا تو بے اختیار آنکھیں بند کر دیں...اسے نہیں پتا وہ لڑکی اس کے ساتھ کیا کیا کرتی رہی۔کھبی اس کے بالوں پہ کوئی مشین چلاتی تو کھبی رخسار پر کوئی کریم لگاتی تو کھبی آنکھوں پہ......اس کے لیے یہ سب نیا تھا اس کی نظر میں میک اپ لپ اسٹک اور آئی شیڈ تک ہی محدود ہے لیکن وہ بے وقوف تھی آئی شیڈ اور لپ اسٹک تو کچھ بھی نہیں. .یہاں تو اور بھی کئی طرح کا میک اپ ہوتا تھا.... ...ایک گھنٹے بعد جب وہ مکمل طور پر تیار ہوئی تو آئینے کو دیکھ کر ساکت رہ گئی...وہ اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی ہے یہ بات اسے پہلے کھبی نہیں معلوم تھی..وہ بس آئینے میں خود کو دیکھتی رہی اسے یقین نہیں آ رہا تھا آئینے میں کھڑی وہ حسین و جمیل لڑکی کوئی اور نہیں وہ خود ہے...میک اپ سے اس کا خوبصورت چہر نکھر آیا تھا...کالے رنگ کے ریشمی فراک کے ساتھ وہ کسی پرستان کی پری لگ رہی تھی. !!.ایسی خوبصورت لڑکیاں تو وہ ٹی وی میں دیکھا کرتی تھی ..وہ بے یقینی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو اپنے گالوں کو چھو کر دیکھ رہی تھی.تھوڑی دیر پہلے وہ ان سب لڑکیوں پہ رشک کر رہی تھی اب میک اپ کر کے وہ ان سب سے اچھی لگ رہی تھی اب اسے افراہیم کے ساتھ چلنے میں کوئی شرم نہیں ..اسے ڈر تھا کہیں اسے اپنے آپ کی ہی نظر نہ لگ جائے..اس کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی ایک بار افراہیم اسے دیکھ لے تب اسے پتا چلے گا اس کی بانی کتنی خوبصورت ہے. ...وہ تو نظریں ہی نہیں ہٹا سکے گا......تھوڑی دیر بعد اس لڑکی نے آ کر اطلاع دی کہ اس کا شوہر آ چکا ہے وہ آرام سے چلتے ہوئے باہر آئی تو افراہیم اسے دیکھ کر جیسے سانس لینا بھول گیا ہو....وہ ایک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا.اس کی دھڑکن کی رفتار بے ترتیب ہونے لگی تھی .اس نے بھی شرما کر نگاہیں نیچے کر رکھیں تھیں....بہت دیر بعد وہ خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہوا ...چلیں....؟...اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے. .اب وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی تھی.....Nice Couple…..پیچھے سے ایک لڑکی کی آواز آئی اس کی اس بات کا مطلب وہ تو نا سمجھ سکی البتہ افراہیم نے مسکراتے ہوئے اسے کچھ جواب دیا..........وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ آ کر بیٹھ گیا. .وہ بھی بیٹھ چکی تھی اس نے کار سٹارٹ کر کے گھر کے راستے کی طرف موڑدی..وہ بار بار بیک مرر سے اسے دیکھ رہا تھا اسے دیکھ کر اس کا دل ہی نہیں بھر رہا تھا... آج وہ اتنی خوبصورت جو لگ رہی تھی.........کیا یار. ..دماغ خراب ہے اس دیہاتی جاہل کو کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو...مانا کہ وہ خوبصورت ہے لیکن خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوا کرتی...یہ لڑکی وہ نہیں ہے جس کے ساتھ تو نے اپنی پوری زندگی گزارنی ہے. ...جس لڑکی کو ٹی وی آن کرنا ہی نہ آتا ہو وہ اس کے ساتھ کیسے ساری زندگی رہ سکتا ہے. .یہ صرف ایک سمجھوتہ ہے بس اور کچھ نہیں. ...اس نے خود کو ملامت کیا....لیکن یہ سب سوچنے کے باوجود بھی وہ بار بار بیک ویومر سے اسے دیکھتا رہا جب کہ وہ اس سے بے نیاز سڑک پہ چلتی گاڑیوں کو دیکھتی رہی. .......گھر پہنچ کر وہ سیدھا کچن میں گھس گئی جو تھوڑا بہت کام باقی رہ گیا تھا وہ کرنے ..مہمانوں کے آنے میں ابھی تھوڑا وقت باقی تھا...کچن سے مطمئن ہو کر نکلنے کے بعد وہ ڈائٹنگ ٹیبل پہ آئی وہاں کی صفائی کے ساتھ ساتھ اس نے پھول بھی ٹیبل پہ رکھ دیے..اگر اسے زیادہ نہیں بھی معلوم تھا تو اپنے اندازے کے مطابق کچھ نہ کچھ تو وہ کر رہی تھی.........اس نے ایک سرسری سے نگاہ صوفے پہ بیٹھے افراہیم پہ ڈالی وہ تھکے ہوئے لگ رہے تھے وہ کچھ سوچ کر کچن میں گئی اور گرما گرم تازہ چائے بنا کر اس کے پاس ٹیبل پہ جا کر رکھ دی. .چائے رکھنے کی آواز پہ اس نے اپنی بند آنکھیں کھولیں........اس کا اس وقت چائے پینے کا موڈ لگ رہا تھا لیکن یہ بات اسے کیسے پتا چلی اس بات پہ وہ تھوڑا حیران ضرور تھا..........کچھ ہی دیر میں اس کے آفس کے سارے دوست آ گئے وہ سب سے گرم جوشی سے ملا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نئی نویلی دلہن صاحبہ کو بھی دیکھ رہا تھا کہیں وہ کوئی غلطی نہ کردے...وہ اس کی نصیحت کے مطابق صرف سلام دعا کی حد تک ہی بات کر رہی تھی....سارے مہمانوں جو تین سٹائلش لڑکیاں تھیں وہ بڑے اچھے طریقے سے اس کا جائزہ لے رہی تھیں...یا پھر شاید یہ دیکھ رہی تھیں کہ اس میں ایسی کیا بات ہے جو افراہیم صاحب نے ہم جیسی لڑکیوں کو نظر انداز کر دیا. ............ارے یار کمال کی بیوی ڈھونڈ کر لائے ہو کون سے حسین وادی سے پکڑ کر لائے ہو اس پری کو...؟..اس کے ایک دوست نے جو کچھ زیادہ ہی شوخ مزاج تھا اس نے کمنٹ پاس کیا..اور آواز اس کی اتنی اونچی تھی کہ زرا فاصلےپہ کھڑی لڑکیوں کو بھی سنائی دی اور سب قہقہے لگانے لگے..........وہ اپنی تعریف پہ جھنپ گئی .......ارے ..رے...اس محترمہ کو دیکھو کیسے دیہاتی لڑکیوں کی طرح شرما رہی ہے....اس کے پاس کھڑی ایک لڑکی بولی. ..اسے ڈر لگنے لگا اس کے سارے دوستوں میں سے کوئی یہ نہ جان لے کہ اس کی بیوی ایک ان پڑھ دیہاتی ہے............اچھا یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی پہلے کچھ پیٹ پوجا ہو جائے.. ؟..افراہیم نے سوالیہ نگاہ سب کے چہروں پہ ڈالی جن کا جواب مثبت تھا....................ارے یار افراہیم یقین نہیں آتا شہر میں رہ کر تماری بیوی اتنا اچھا کھانا بناتی ہے ..اس کے ایک دوست نے کھانا کھاتے ہوئے تبصرہ کیا.......وہ تو اس کے ہاتھ کے بنی کھانوں کا ذائقہ اچھے سے جانتا تھا لیکن اس کے دوست پہلی بار کھا رہے تھے. . ...پہلی بار تو اسے بھی حیرت ہوئی بریانی کھا کر کیونکہ اتنی ذائقہ دار بریانی اس نے کھبی نہیں کھائی...ہائے...ایک ہماری بیویاں ہیں جنہیں میک اپ سے ہی فرصت نہیں ملتا..دوسرے دوست نے دہائی دی..جبکہ وہ دوستوں کی گفتگو سے زیادہ اسے دیکھ رہا تھا وہ لڑکیاں سرگوشی میں پتا نہیں کرید کرید کر اس سے کیا پوچھ رہیں تھیں...جبکہ وہ بول کم اور سن زیادہ رہی تھی یہ مشورہ بھی خود اس نے ہی اسے دیا تھا...بھابی مجھے اس ٹیسٹی بریانی کی ریسپی ضرور دے دیجیے گا ..جاتے وقت ...وہ حیرانی سے اپنے مخاطب کو دیکھ رہی تھی..وہ سمجھ نہیں سکی وہ کون سی پیس مانگ رہا ہے....ہاں ہاں کیوں نہیں.ہماری مسز آپ کو بریانی بنانے کی ترکیب ضرور دے دی گی....افراہیم نے بات سنبھال کر کہا .اور وہ سمجھ گئی.....اور کھانے کے دوران ایسے چھوٹے موٹے مسئلے پیدا ہوتے رہے جنہیں وہ بڑے آرام سے ایک خوبصورت انداز میں سنبھالتا رہا ...کھانے کے بعد چائے کا دور چلا سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ ساتھ چائے کا بھی مزا لے رہے تھے.........وہ خاموش ضرور تھی لیکن اپنے کسی بھی اینگل سے اس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ ان سب پڑھی لکھی لڑکیوں سے مختلف ہے وہ ایک چھوٹے گاوں سے آئی ایک ان پڑھ لڑکی ہے.وہ بھی خاص طور پر اس پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا....حالانکہ اس کے ایک دوست نے اس کی یہ چوری پکڑ بھی لی.......چلتا ہے سب .شروع شروع کے دنوں میں ہم بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے. .ہم بھی اپنے بیگمات کو بے پناہ چاہتے تھے لیکن اب صرف پناہ چاہتے ہیں. ..وہ اس کے پاس صوفے پہ بیٹھا ہوا تھا اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا..اس لیے کوئی اور نہیں سن سکا... وہ بظاہر مسکرا دیا.!!مہمانوں کے چلے جانے کے بعد وہ کچن میں چلی آئی بہت کام باقی پڑا تھا..اس نے سارے برتن سمیٹے..اور کچن میں بکھری بکھری چیزیں سمیٹنے لگی ....وہ باہر ٹی وی پہ بیٹھا بنا دلچسپی سے چینل تبدیل کر رہا تھا.. اس نے محسوس کیا کہ اس کی نگاہیں ٹی وی پہ بالکل نہیں ہیں پتا نہیں کہاں ہیں. ......... وہ کئی مرتبہ کچن میں بھی جھانک کر دیکھ چکا تھا .وہاں سے برتن کھٹکنے کی آوازیں آ رہیں تھیں...شکر ہے دادی کی بہو نے اس کے دوستوں کے سامنے کچھ تو لاج رکھی. نہیں تو وہ تو بہت ڈر رہا تھا پتا نہیں کیا ہو گا... کیسی حرکتیں کرے گی وہ... اچانک اس کے دوستوں نے نئی شادی کی خوشی میں اس سے ٹریٹ کی فرمائش کر دی اور اس نے پتا نہیں کیسے ہاں کر دی .......وہ ٹی وی دیکھ دیکھ کر بیزار ہو چکا تھا اس کے قدم بے اختیار سی کیفیت میں کچن کی طرف بڑھنے لگے..اسے کچن کے دروازے پہ دیکھ کر اس نے برتن دھونا روک کر غور سے اسے دیکھا. ......جی کچھ چاہیے آپ کو....؟ اس نے اس لڑکی کی آواز سنی وہ ہاں یا ناں کچھ نہیں بول سکا کیا بولتا اسے خود بھی نہیں پتا تھا وہ کچن میں کیوں چلا آیا..وہ ابھی تو ٹی وی دیکھ رہا تھا پھر جانے کیا سوچ کر وہ کچن میں چلا آیا....وہ ذہنی طور پر غائب تھا کہیں. ... بعض اوقات انسان کا اپنے ذہن پہ بھی اختیار نہیں رہتا.اس نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا جو شاید اس کے کسی جواب کی منتظر تھی .جواب تو اس کے خود پاس بھی نہیں تھا تو کیا جواب دیتا. ..وہ کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا..............بڑی دیر کے بعد وہ کچن کے کاموں سے فارغ ہوئی تو تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں ..وہ کمرے میں چلی گئی وہ ابھی تک جاگ رہا تھا لیپ ٹاپ پہ کوئی کام کر رہا تھا شاید. ......... وہ فرش پہ اپنا بستر بنانے لگی اس کی نگاہیں وہ مسلسل خود پہ محسوس کر سکتی تھی. ........ آپ کے لیے چائے لاوں جی..... نہیں.. اس نے سنجیدگی سے جواب دیا......آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں جی...پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے یہ کہا جبکہ وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا وہ کب سے اس کا چہرہ پڑھنے لگی...............نہیں تو میں کیوں پریشان ہوں گا.....اس نے نفی کی لیکن دل کے بات کی نفی نہیں کر سکا............جب دادی یہاں نہیں ہوتی تو آپ کھانا ہوٹل سے لاتے ہو جی... نہیں خود بناتا ہوں......اس کی نظریں لیپ ٹاپ پہ تھیں.آپ خود....؟..اس نے بے یقینی سے پوچھا... ہاں کیوں...اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے.....جی وہ ہمارے گاوں میں تو مرد کھانا نہیں بناتے.... لیکن یہ گاوں نہیں ہے. ... گاوں اور شہر میں زمین آسمان کا فرق ہے. .اب وہ کوفت میں مبتلا ہونے لگا..........جی آپ نے اپنی ماں کو دیکھا ہے........ ہاں.......اس نے ایک لفظی جواب دیا..اور وہ خاموش ہو گئی. ......اچھا تمہیں کھانا بنانا تماری ماں نے سکھایا ہے. ..پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے پہلی بار اس لڑکی سے سوال کیا ہے. .....نہیں جی ہم نے تو اپنی امی کو دیکھا بھی نہیں وہ ہمارے بچپن میں ہی گزر گئیں .کھانا بنانا تو ہم نے خود سیکھ لیا. ..آپ کو اچھا لگا ہمارے ہاتھ کا کھانا........ہاں ٹھیک ہی تھا....حالانکہ وہ اس کے کھانوں کا اسیر ہو چکا تھا. ..........پھر اس نے کوئی اور سوال نہیں پوچھا وہ چادر اوڑھ کر لیٹ گئی وہ بھی لیپ ٹاپ رکھ کر لیٹ گیا.!!. وہ چھٹی کا دن تھا اس لیے اسے بیدار ہونے کی کوئی جلدی نہیں تھی وہ دس بجے تک سوتا رہا اور دس بجے کے بعد جب اس کی نیند مکمل ہو چکی تھی تو وہ فریش ہونے واش روم چلا گیا جب باہر نکلا تو اس کی بلیک کلر کی شرٹ بیڈ پہ پڑی ہوئی تھی ...مطلب آج اسے بلیک شرٹ پہننے کو کہا جا رہا ہے اب وہ اسی کے استری شدہ کپڑے پہننے لگا تھا..جب اس کے ہاتھ کی بنی چائے پی سکتا ہے کھانا کھا سکتا ہے تو کپڑے پہننے میں بھی کوئی ہرج نہیں تھا............لیکن ایک بات اسے اب تک سمجھ نہیں آئی اس لڑکی کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ وہ کس ٹائم بیدار ہوا ہے اور اسی وقت وہ شرٹ بستر پہ لا کر رکھ دیتی ہے یا پھر جب اس کے سر میں درد ہوتا ہے یا پھر چائے پینے کا موڈ ہوتا ہے تو بنا کہے وہ اس کے لیے چائے بنا کر لے آتی ہے. ..حالانکہ اس نے روایتی شوہروں والا ایسا کوئی حکم بھی نہیں سنایا لیکن وہ خود بنا کہے اس کے سارے کام کرتی ...وہ روایتی بیویوں والے سارے فرض نبھا رہی تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ اسے قبول نہیں کر سکتا...........اس میں وہ اعتماد اور وہ شعور ہی نہیں ہے جو اسے ایک بیوی میں چاہیے تھا وہ خوبصورت ہے لیکن خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی صرف خوبصورتی کے ساتھ پوری زندگی گزاری جاتی ہے........ہر انسان کی طرح اسے بھی حسن متاثر کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک انسان کو خوبصورت بنانے کے لیے صرف حسن ہی کافی ہو ...حسن کے علاوہ بھی کئی اور چیزیں انسان کو خوبصورت بناتی ہیں. .....کنگھی کر کے وہ نیچے چلا گیا تب تک وہ ناشتہ لگا چکی تھی..ناشتہ کر کے یونہی لان میں اخبار لے کر بیٹھ گیا چھٹی کا دن تھا اس لیے ذہن بالکل فریش تھا ویسے اسے اخبار پڑھنے کی عادت تو نہیں تھی لیکن یونہی ٹائم پاس کے انداز میں وہ اخبار کے ہیڈ لائز پہ نظریں دوڑانے لگا ..چھٹی کے دن اس کی کوئی خاص مصروفیت نہیں ہوا کرتی وہ ہمیشہ چھٹی کا دن گھر پہ ہی گزارتا. .. عامنوجوانوں کی طرح کوئی خاص دوستی بھی نہیں تھی اس کی ..اس نے اپنا سارا وقت سارے خواب اپنی ہونے والی جیون ساتھی کے لیے سمیٹ رکھے تھے..لیکن اس کے خواب ریزہ ریزہ ہو چکے تھے دادی کے آنے میں بھی ایک ہفتہ باقی تھا........اچانک اخبار پڑھتے پڑھتے اسے احساس ہوا کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے نگاہ اٹھا کر دائیں بائیں جانب دیکھا لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا وہ ایک بار پھر اخبار پڑھنے لگا لیکن کچھ لمحے بعد اسے پھر احساس ہوا جیسے کوئی اسے مسلسل دیکھ رہا ہے اب کی بار اس نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر سامنے دیکھا تو اسے پتا چلا کہ وہ لڑکی کچن کی کھڑکی جو باہر لان کی طرف کھلتی ہے اس سے چپکے چپکے اسے دیکھ رہی تھی. .وہ اس کی چوری پکڑ چکا تھا اور اسے دیکھ کر وہ کھڑکی سےغائب ہو گئی. ...اسے کچھ عجیب لگا..دو دن پہلے جب صبح کے وقت وہ گہری نیند میں سو رہا تھا اچانک ایک آواز سے اس کی آنکھ کھلی. ..تب اس نے دیکھا وہ لڑکی ہاتھ باندھ کر اسے بڑے غور سے دیکھ رہی ہے اسے حیرت کا جھٹکا لگا.......پھر اس نے چادر اوڑھ لی اور چادر کے اندر سے آنکھیں کھول کر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھی اسے نہیں پتا تھا وہ بھی اسے دیکھ رہا ہے اگر اسے پتا ہوتا تو وہ شاید گڑبڑا کر باہر نکل جاتی .....اس صبح وہ کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا اور آج ایک بار پھر وہ اسے مسلسل گھور رہی تھی کیا وہ ہمیشہ اسے ایسے گھور کر دیکھتی ہے جب وہ چائے پی رہا ہوتا ہے یا وہ کھانا کھا رہا ہوتا ہے. ..لیکن کیوں....؟..اس دن وہ اس کے کپڑے استری کرنے لگی تھی جب اچانک اسے یاد آیا کہ وہ دودھ کی دیگچی چولہے پہ رکھ آئی ہے وہ اب ابلنے والا ہوگا وہ بھاگتی ہوئی کچن میں گئی چولہے کا بٹن بند کیا اور دودھ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا. .......اب وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے تک آئی .کمرے اسے عجیب بدبو کا احساس ہوا اس نے استری کی طرف دیکھا اور یہ دیکھ کر جیسے اس پہ آسمان گر گیا وہ شرٹ جل چکی تھی...وہ بھاگتے ہوئے استری تک گئی .....اس نے اپنے ماتھے پہ زور سے ہاتھ مارا.. یہ کیا ...یہ..کیا کر دیا میں نے یہ تو ان کی پسندیدہ شرٹ تھی اب کیا ہو گیا اللہ. ..اب تو وہ بہت غصہ کریں گے...کیا کہوں گی ان سے کیسے بتاؤں گی..وہ تو پہلے بھی بہتناراض رہتے ہیں اب انہیں اس شرٹ کا پتا چلے گا تو وہ اور بھی ناراض ہوں گے. .......وہ آفس سے واپس آ گیا لیکن وہ اسے شرٹ کے بارے میں نہ بتا سکی. .کھانے کے وقت بھی اس کی ہمت نہیں ہوئی....رات کے سوتے وقت بھی وہ اسے بتانا چاہتا تھی لیکن ہمت ہی نہیں پیدا کر پا رہی تھی....وہ اس کی عجیب غیر معمولی تبدیلی کو نوٹ کر رہا تھا پتا نہیں کہاں گم تھی کس ٹینشن میں تھی جب سے وہ آفس سے آیا ہے اسے وہ کسی پریشانی میں مبتلا لگی..کھانے کے دوران بھی اس نے جگ کے ساتھ گلاس نہیں رکھا اور چائے میں بھی چینی کی جگہ نمک ڈال کر آ گئی...اس نے تو اسے کچھ نہیں کہا لیکن وہ کچھ نیا پن محسوس ضرور کر رہا تھا. ...لیکن وہ خود بتا نہیں رہی تھی اور وہ تو اس سے زندگی بھر نہیں پوچھتا..... صبح جب وہ ناشتہ کر کے آفس جانے لگا تو پیچھے سے آواز دے کر اس نے روک دیا....... پیچھے سے آواز دینا ضروری تھا محترمہ. ..اب بتاو کیا چاہیے. .....وہ خاموش نگاہیں جھکا کر کھڑی تھی شاید کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی.... اب آپ کچھ بولیں گی یا میں بیٹھ کر آپ کے بولنے کا انتظار کروں ویسے بھی مجھے آفس جانے میں تو بالکل بھی دیر نہیں ہو رہی....وہ طنز کے تیز چلا رہا تھا...جی...وہ..میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں. .اس نے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر کہا....جی ہم وہی سننے کے لیے تو کھڑے ہیں محترمہ. ...وہ غلطی سے آپ کی شرٹ استری کرتے ہوئے جل گئی....یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی... اور وہ پتا نہیں کیا کیا سوچ چکا تھا کل سے...اور اب پتا نہیں رو کیوں رہی تھی. ... اوکے...اوکے.....کوئی بات نہیں. .... لیکن وہ آپ کی پسندیدہ شرٹ تھی جی...وہ نیلی والی....اس نے اپنی مسکراہٹ چھپائی... کہہ دیا ناں کوئی بات نہیں اب یہ مگر مچھ کی طرح آنسو مت بہاو...اسے اس کے آنسو سے تکلیف ہونے لگی تھی وہ جانے کے لیے دروازے کی طرف مڑا پھر کچھ سوچ کر واپس اس کے پاس آیا....... تم تو آسانی سے یہ بات مجھ سے چھپا سکتی تھی اتنے سارے شرٹس میں سے میں اپنی ہر شرٹ کا تو حساب نہیں رکھتا پھر تم نے اپنی غلطی کیوں بتائی.....میں نے زندگی میں جھوٹ کھبی نہیں بولا جی..آپ سے جھوٹ بول سکتی ہوں لیکن اپنے آپ سے تو نہیں. اور میں اپنی نظروں سے کھبی نہیں گرنا چاہتی..اور اگر آج میں جھوٹ بولتی تو میں چوری کرتی. .اور چوری چاہے چھوٹی ہو یا بڑی چوری چوری ہی ہے ...اور چوری کرنے والا اور جھوٹ بولنے والا زندگی میں کھبی نہ کھبی منہ کے بل گرتا ضرور ہے....اسے حیرت کا جھٹکا لگا...پتا نہیں کتنی پاگل لڑکی تھی ..ایسی لڑکیاں بھی دنیا میں ہوتی ہیں. ئہ لڑکیوں کی کون سی قسم ہے..بیویاں تو بڑی سے بڑی جھوٹ بول کر اپنے شوہروں کو بے وقوف بناتی ہیں ان سے کئی باتیں چھپاتی ہیں اور یہ ایک معمولی شرٹ کے لیے اتنا چھوٹا جھوٹ بھی نہیں بول سکی.......وہ سارا راستہ اسی کے بارے میں سوچتا رہا.!! اس رات وہ اپنے بستر پہ یونہی لیٹا تھا جب وہ اس کے کمرے میں آئی اس کے ہاتھوں میں دودھ کا ایک گلاس تھا وہ ہمیشہ رات کو سونے سے پہلے اس کے لیے دودھ لانا نہیں بھولتی تھی..وہ ایک مشرقی بیوی کے روپ میں بالکل پوری اترتی تھی کھبی کھبی وہ اس لڑکی کو بالکل بھی سمجھ نہیں پاتا وہ اس سے جتنی بدتمیزی سے بات کرتا یا کھبی کھبی غصے سے بات کرتا تو وہ جواباً خاموش ہو جاتی....دوسرے بیویوں کی طرح لڑتی جھگڑتی بالکل بھی نہیں تھی لڑنا تو دور وہ کھبی اپنی صفائی بھی پیش نہیں کرتی تھی........وہ اپنے دوستوں کی جب شکائتیں سنتا جو وہ اپنی اپنی بیویوں کے بارے میں کرتے تو حیران ہو جاتا کہ کون سی بیوی سہی قسم کی ہے ...ایک ان پڑھ جاہل گاوں کی لڑکی یا وہ پڑھی لکھی ماڈرن لڑکیاں..جو اپنے شوہروں پہ حکومت کرتی تھیں..نہ کھانا بنانا نہ بچوں کو سنبھالنا ہر وقت میک اپ سے لدے رہنا....ہنس ہنس کے ہر مرد سے بات کرنا ...اسے اس قسم کی عورتیں کچھ عجیب لگتیں..لیکن وہ اپنی زندگی میں ایک بہت مختلف لڑکی دیکھ رہا تھا ایک ایسی لڑکی جو اس نے آج تک کھبی نہیں دیکھی............ایک وہ بیویاں تھیں جو شوہروں کی ہر بات پہ اعتراض کرتی تھیں اور ایک یہ ہے اگر اس سے کہا جائے کہ رات سفید ہے تو یہ اپنے شوہر کی ہاں میں ہی ہاں ملائے گی یہ لڑکی تو اپنے شوہر کو مجازی خدا سمجھتی تھی.ہر بات ماننے والی ..ہر کام کرنے والی....ایک بار اس کے آفس کے ایک دوست نے اس سے پوچھا تھا اسے کس قسم کی بیوی چاہیے وہ کوئی جواب نہیں دے سکا اسے اب تک نہیں معلوم تھا کہ بیویوں کی بھی اقسام ہوتی ہیں. .اس نے دودھ کا گلاس اس کے ہاتھوں میں تھما دیا وہ دودھ پیتے ہوئے اسے مسلسل اپنی نگاہوں کے حصارے میں لیے ہوئے تھا اور وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تھی....کتنی عجیب لڑکی تھی کسی اور تو کیا شوہر سے نگاہیں ملاتے ہوئے بھی شرماتی تھی وہ پہلی بار اس کے اس ادا سے لطف اندوز ہو رہا تھا....................اس لڑکی کے ساتھ رہتے ہوئے اسے بیس دن ہو چکے تھے اور ان بیس دنوں میں اس نے نوٹ کیا کہ وہ لڑکی جھوٹ کھبی نہیں بولتی ... بنا مقصد بنا مطلب کوئی بات نہیں کرتی... نماز پابندی سے ادا کرتی ہے...اور کئی بار اس نے صبح صبح اسے قرآن پاک کی تلاوت کرتے بھی سنا.......وہ اب نیچے فرش پہ اپنا بستر ڈال کر سو رہی تھی ..اس نے کھبی نہیں کہا کہ میرا حق ادا کرو ...بیڈ پہ سونا میرا حق ہے. ...وہ ہمیشہ رات کو سونے سے پہلے کوئی نہ کوئی عجیب سا ٹاپک پکڑ کر اس پہ مختلف سوالات کرتی تھی. .اور وہ بس ہوں ہاں میں یا کھبی کھبی تو اسے غصے سے بھی جھڑک دیتا تھا...مگر وہ کھبی اس کے غصے پہ ناراض نہیں ہوتی تھی کوئی شکوہ نہیں کرتی تھی...... لیکن آج وہ خاموشی سے سونے کے لیے لیٹ رہی تھی. اسے ہمیشہ رات کو اس لڑکی کی باتیں بہت بری لگتیں لیکن عجیب بات تو یہ تھی کہ اگر وہ لڑکی بات نہ کرتی تو وہ الجھن کا شکار ہو جاتا ....اور آج بھی جب وہ بنا کوئی بات کیے سو رہی تھی تو اسے ایک عجیب کرب کا احساس ہوا..... سو رہی ہو تم......؟..پہلی بار اس نے خود سے اسے مخاطب کیا. ... جی کچھ چاہیے تھا آپ کو...وہ ایک دم چاق و چوبند ہو کر کھڑی ہو گئی...وہ اس طرح جلد بازی میں اس کے کھڑے ہونے پہ ہنس دیا.!!. نہیں وہ......وہ....یہ تم ہمیشہ یہی کپڑے ہی کیوں پہنتی ہو.... اس نے بات شروع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب سوال کیا..اس نے غور سے اپنے کپڑوں کو دیکھا جو سادہ لان کے کپڑے تھے. .......جی...وہ باقی میلے تھے. وہ اس لیے .اس نے حیران ہو کر جواب دیا. ....کتنے جوڑے ہیں تمارے..... جی پانچ. ..اس نے سادگی سے جواب دیا جبکہ وہ حیران ہوا. ..جس لڑکی کا شوہر لاکھوں کے حساب سے تنخواہلیتا ہو اس کی بیوی کے پاس صرف پانچ سادہ لان کے کپڑے ہیں. .یہ بات اسے بہت عجیب لگی اس کے خود کے ہزاروں کپڑے تھے اور اس نے بھی کھبی کچھ نہیں مانگا..اس کے پاس کپڑے جوتے جو بھی چیز نہیں تھی اس نے اپنے لیے اس سے کھبی کچھ نہیں مانگا.....کیوں نہیں مانگا...اسے مانگنا چاہیے تھا یہ اس کا حق تھا وہ اس کا شو.........تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا.....وہ دکھ سے پوچھ رہا تھا جبکہ وہ نظریں جھکا گئی جیسے اس نے بہت بڑی غلطی کر دی ہو... ......اچھا ٹھیک ہے ہم کل کو چلیں گے شاپنگ پہ پھر لے لینا اپنے لیے کپڑے ..اور بھی تمہیں جو کچھ چاہیے وہ بھی..او کے ....جی....اچھا اب سو جاو ....وہ سونے کے لیے لیٹ گئی اس نے لیمپ آف کر دیا ...اب اسے بھی اچھی نیند آتی وہ سابقہ تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کر چکا تھا کہ جب بھی وہ لڑکی اس سے بات نہیں کرتی اسے نیند بڑی دیر سے آتی. ............. رات تقریباً گزر چکی تھی دور دور سے کہیں موذن کی آواز آ رہی تھی ..اس نے سوتے سوتے محسوس کیا کوئی اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھے ہوئے ہے وہ کرنٹ کھا کر اٹھ گیا....وہ اس کے بالکل پاس کھڑی تھی اس اٹھتا دیکھ کر وہ گھبرا گئی .......اسے اتنی صبح صبح اس کا چھونا بہت برا لگا..غصے کی شدید لہر اس کے جسم میں پیدا ہو گیا پورا جسم جیسے جلنے لگا ہو...وہ کمبل کو پرے دھکیل کر بالکل اس کے برابر کھڑا ہو گیا وہ سہمے ہوئے نگاہیں نیچے جھکا کرکھڑی تھی....اس کے دل میں اس وقت آگ لگی ہوئی تھی اس نہیں پتا تھا اسے اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے لیکن وہ مزید اپنے غصے پہ قابو نہیں رکھ سکا....تماری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی..کیا سمجھتی ہو تم خود کو.....اور کیا سوچ کر تم نے مجھے ہاتھ لگایا..میں نے تمہیں بتایا تھا ناں میں تمہیں بیوی کا درجہ کھبی نہیں دے سکتا تو زبردستی میری زندگی میں گھسنے کی کوشش مت کرو ..او کے ...نہ تو میں تمہیں کھبی قبول کر سکتا ہوں اور نہ کھبی کروں گا اس لیے یہ روایتی بیویوں والی حرکتیں کرنا بند کر دو....وہ چلا چلا کر بات کر رہا تھا اندر کے لاوا کو باہر آنے کا راستہ مل چکا تھا ...اس کا پارہ ایک دم چڑھ چکا تھا وہ بدستور سر نیچے کیے ہوئے کھڑی تھی اس نے محسوس کیا اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں ...گیٹ آوٹ.....اس نے چلا کر کہا..پھر اسے یاد آیا وہ جاہل گوار لڑکی انگلش نہیں سمجھ سکتی اس لیے اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی اپنے کمرے سے باہر نکالا اور کنڈی لگا کر بیڈ پہ بیٹھ گیا. !!. اس کا خون کھولنے لگا تھا...کافی دیر بعد وہ جب خود کو نارمل کرنے میں تھوڑا کامیاب ہوا تو دوبارہ بستر پہ لیٹ گیا....پھر جانے کب اس کی آنکھ لگی.....چھٹی کا دن تھا اس لیے اسے بیدار ہونے کی کوئی جلدی نہیں تھی لیکن دس بجے آلارم نے اپنے ہونے کا احساس دلایا وہ اٹھ کر واش روم میں گھس گیا ...سر میں ہلکے درد کا بھی احساس ہوا صبح چھ بجے والا واقعہ ابھی بھی ذہن میں تازہ تھا.................وہ نہا کر جب باہر نکلا تو ٹھٹک گیا اس کی شرٹ بیڈ پہ آج نہیں پڑی ہوئی تھی ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ وہ نہا کر نکلا ہو اور بیڈ پہ شرٹ نہ ہو...اسے کچھ عجیب لگا...اس نے الماری سے ایک شرٹ نکال کر پہن لی اور ناشتے کے لیے نیچے چلا گیا. ....ناشتے کے دوران دوسری حیرت اسے تب ہوئی جب اسے ٹیبل پہ ناشتہ نظر نہیں آیا یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا تھا ورنہ وہ ہمیشہ اس کے جاگتے ہی میز پہ ناشتہ سجا دیا کرتی تھی....تو اس کا مطلب وہ ناراض ہے....اس نے سوچا.... ناراض ہے تو ہوتی رہے ناراض.....میں نے کیا کیا..... تو نے اچھا بھی تو نہیں کیا ..کتنی بری طرح سے پیش آئے اس سے.....دل سے آواز آئی. . وہ کچن میں چلا گیا اور خود اپنے لیے ناشتہ بنانے لگا پھر اسے یک دم محسوس ہوا اسے ناشتہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اتنے دنوں سے وہ اس کے ہاتھوں کا بنا ناشتہ کھا رہا تھا ...خود کھانا بنانے کی تو اس کی عادت ہی چھوٹ گئی.......وہ بنا ناشتہ بنائے کچن سے باہر نکل آیا.....وہ یونہی صوفے پہ ڈھیر ہو گیا.....ایک سوچ جو پہلی بار اس کے ذہن میں آئی.... وہ کہاں ہے....؟..یہ سوچ کر وہ کھڑا گیا ...اور گھر کے کمروں میں اسے تلاش کرنے لگا لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملی اس کی ٹینشن میں مزید اضافہ ہوا ...وہ ایسے تڑپنے لگا جیسے مچھلی کو پانی سے باہر نکال دیا جائے.... کہاں چلی گئی...... وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچ رہا تھا.....جہاں چلی گئی چلی گئی...اس سے اسے کیا...وہ بھی کہاں اسے اس گھر میں چاہتا تھا ...اچھا ہوا خود چلی گئی...ویسے بھی کسی نہ کسی دن تو اسے جانا ہی تھا ناں....؟نہیں. ..نہیں. ...وہ ہمیشہ یہی چاہتا تھا وہ چلی جائے لیکن آج جب وہ چلی گئی تو وہ اس طرح پریشان کیوں تھا...وہخوش کیوں نہیں تھا جبکہ اصولاً تو اسے بہت زیادہ خوش ہو جانا چاہیے تھا......... کیا وہ اس لیے پریشان ہے کہ جب دادی واپس آئے گی تو وہ اسے کیا جواب دے گا...... نہیں. ..نہیں. ..دل سے فوراً آواز آئی.... وہ دادی کے لیے نہیں خود اپنے لیے پریشان تھا مگر کیوں اس نے دل سے پوچھا. ......کیونکہ تم اس سے پیار کرنے لگے ہو....دل نے ایک عجیب انکشاف کر دیا...وہ گم سم ہو گیا....یہ کیا کہہ رہا تھا دل...وہ اس....اس...سے...وہ ..اس سے پیار کیسے کر سکتا ہے وہ...تو...وہ...تو اس سے نفرت کرتا تھا شدید نفرت. ..نہیں دل جھوٹ بول رہا ہے...اس نے دل کو جھٹلانے کی کوشش کی مگر وہ ایسا نہیں کر سکا کیونکہ دل جھوٹ نہیں سچ بول رہا تھا...ہاں ...ہاں ...میں اس سے پیار کرتا ہوں بہت پیار. ...مجھے صرف اس کی عادت نہیں ہو گئی میں اس سے پیار بھی کرنے لگا ہوں مگر وہ کہاں ہے....اس نے چلا چلا کر پورے گھر سے پوچھا اور جواباً پورا گھر خاموش تھا ..اسے زندگی میں پہلی بار گھر میں اکیلے پن کا احساس ہوا اسے پہلی بار گھر کی خاموشی ڈرا رہی تھی..!! اس پہ پہلی بار انکشاف ہوا وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا..وہ جسے اپنی زندگی کا ساتھی بنانا چاہتا تھا وہ یہی لڑکی تھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی..اس سے پیاری تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اتنی معصوم اتنی سچی.اسے جیون ساتھی کے روپ میں صرف یہی لڑکی چاہیے تھی اور تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے جیسی..ایسی لڑکی دنیا میں کہیں نہیں ہے جو اس کے اتنے غصے کے باوجود خاموش رہے جو اس کے جاگتے ہی ناشتہ لگا دے اس کے مانگنے سے پہلے اسے چائےپلا دے...اتنی صبر اتنی قناعت والی لڑکی اور کہاں ہو گی..واقعی اگر دادی اس پہ بھروسہ کرتیں تھیں تو بالکل سہی کرتیں تھیں..وہ واقعی اپنے پوتے کے لیے سب سے اچھی بیوی ڈھونڈ لائیں تھیں. .اگر وہ خود ان کی مرضی کے خلاف کسی ماڈرن لڑکی سے شادی کرتا تو کیا ہو جاتا...وہ لڑکی کیا گھر کے کام کرتی..کیا اس میں اتنا صبر ہوتا..کیا وہ اس کے اس طرح چلانے پہ خاموش ہوتی..نہیں ...نہیں نہیں. ....وہ پہلی بار اس کی کہی ہوئی ساری باتیں یاد کر رہا تھا.........کیا ببٹی پارلر....؟یہ ٹی بی کرنٹ تو نہیں مارتا جی. ...؟ ہمارے گاوں میں پہلے مرد کھانا کھاتا ہے پھر عورت اس کا بچا ہوا کھانا کھاتی ہے.......آپ کو گاڑی چلانا آتا ہے جی.....؟یا اللہ مجھے اپنے گھر سے خاکی ہاتھ مت لوٹائیں میں آپ سے جو مانگ رہی ہوں وہ مجھے دے دیں...... جی آپ کی وہ نیلی شرٹ جل گئی......آپ سے جھوٹ بول سکتی ہوں خدا سے تو نہیں. .. وہ تو سب جانتا ہے. ..آپ سے جھوٹ بول کر میں بچ بھی جاوں تو خدا سے کیسے جھوٹ بول سکتی ہوں..او میرے اللہ. ...یہ میں نے کیا کر دیا...کیوں کر دیا....میں نے اس سے کتنی بدتمیزی سے بات کی صبح. ..مجھے کیوں اتنا غصہ آ گیا تھا حالانکہ اس نے ایسا بھی کچھ غلط نہیں کیا تھا...صرف ہاتھ ہی تو لگایا تھا..اور میں .....اور وہ ...وہ اتنی اچھی تھی کہ اس نے کوئی شکوہ کوئی شکایت تک نہیں کیا....لیکن وہ کہاں چلی گئی ...پلیز واپس آ جاو ....میں تمہیں پھر کچھ نہیں کہوں گا ہم دونوں مل کر پیار محبت سے رہیں گے...میں تمارے بنا نہیں رہ سکتا بانی ...لوٹ آو ....اسے اپنے گالوں پہ نمی کا احساس ہوا. ..وہ بھاگتے ہوئے پورچ میں گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا. .....گاڑی وہ فل سپیڈ سے چلا رہا تھا..اتنے رش میں اتنے سپیڈ سے گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں تھا لیکن وہ ہر خطرے سے انجان بس جلدی جلدی ریلوے اسٹیشن پہنچ جانا چاہتا تھا ..کئی بار اس کی گاڑی دوسرے گاڑیوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی...وہ ریلوے اسٹیشن کے بالکل پاس پہنچ چکا تھا گاڑی سے نکل کر وہ بھاگتے ہوئے اسٹیشن تک گیا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا یہ تو ابھی تک ریل گاڑی آئی ہی نہیں ہو گی یا پھر آ کر..........وہ بھاگ کر بنچ پہ بیٹھے اس انسان تک گیا جو پتا نہیں کن خیالوں میں گم تھا...... ایکسکیوز می....جناب یہ ریل گاڑی کی ٹائمنگ کیا ہے...اس آدمی نے حواس باختہ مخاطب کو دیکھا. .... ابھی تھوڑی دیر پہلے ریل گاڑی تو نکل چکی ہے. .اسے لگا جیسے وہ آدمی کہہ رہا ہو آپ کی تو جان نکل چکی ہے....اس کے جسم میں خون کی گردش اچانک رکنے لگی ....وہ مایوس ساری دنیا سے بیزار گھر لوٹ آیا......اور صوفے پر ڈھیر ہو گیا ...... ایسے کیسے جا سکتی ہے وہ...؟ مجھے چھوڑ کر وہ نہیں جا سکتی.... اتنی معمولی غلطی کی اتنی بڑی سزا کون دیتا ہے. .. کیا سب کچھ ختم ہو گیا...اب کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا کیا....وہ سر تھامے صوفے پہ بیٹھا تھا ...جب اسے اپنے بالکل پاس ہی کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی......... وہ ...وہ..اس کے بالکل پاس کھڑی تھی اس سے کچھ ہی فاصلے پر...وہ کرنٹ کھا کر کھڑا ہو گیا..... تم...تم...کہاں چلی گئیں تھیں...میں نے ....کیوں گئیں تھیں تم....؟ وہ کرنٹ کھا کر کھڑا ہو گیا ..جی وہ ہم تو....ہم تو یہیں تھے...اس نے اس کی بات نہیں سنی اور آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا. .وہ اس طرح اس کے گلے لگانے سے حیران بھی تھی اور خوش بھی. ....اب آئندہ تم کھبی مجھے چھوڑ کر مت جانا اوکے...چاہے میں تمہیں جتنا ڈانٹوں...او کے...جان نکل جاتی ہے میری..ہم سب کچھ پھر سے شروع کریں گے تم ایک بارپھر سے دلہن بنو گی اور اس بار تمہیں کمرے سے باہر نکالنے کی بجائے بانہوں میں سمیٹ لوں گا.. ...خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے.....وہ صبح اس کے منہ سے نکلنے والے شعلے سن کر تو ٹوٹ ہی گئی تھی ..اسے لگا اب اس کی زندگی کا تو کوئی مقصد ہی باقی نہیں رہا سب کچھ ختم ہو گیا. ..وہ کمرے سے نکل کر اس کے برابر والے کمرے میں جا کر روتی رہی ...اور روتے روتے وہ کب سو گئی اسے پتا ہی نہیں چلا. .اس کی آنکھ تب کھلی جب اسے نے سنا کوئی اسے پکار رہا ہے..وہ بھاگ کر کھڑکی تک گئی تو اس کے شوہر محترم جو صبح آگ برسا رہے تھے اب بڑی بے تابی سے اپنی زوجہ محترمہ کو ڈھونڈ رہے تھے. .اس حیرت بھی ہوئی اور اچھا بھی لگا وہ بہت دیر تک کھڑکی سے اس کی اداس شکل دیکھتی رہی پھر اس نےچلا چلا کر اپنی محبت کا اظہار کیا ...ان دیواروں کے سامنے اس گھر کے اندر..لیکن وہ نہیں جانتا تھا جس کے لیے وہ اقرار کر رہا ہے وہ اس کے بہت قریب ہے .......وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے پیار کرنے لگا ہے ..وہ کئی بار اس کے چہرے پہ اپنے لیے محبت کا پیغام پڑھ چکی تھی لیکن وہ اقرار نہیں کر رہا تھا کیونکہ ابھی تک خود اس کے دل نے ہی اقرار نہیں کیا تھا..رات کو دو بجے اٹھ کر بریانی کھائی جاتی ہے. .جناب چوری چوری قیمہ اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھانے لگتے ہیں. .گاڑی میں بیٹھ کر چپکے چپکے اسے دیکھا جاتا ہے. ..صرف اقرار کرنے میں ہی مشکل پیش آ رہی تھی جناب کو.....اس کے منہ سے اپنے لیے محبت کا اقرار سن کر اسے بہت اچھا لگا...... ....وہ اس وقت اس کے پاس جانا چاہتی تھی اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اس کے قریب ہے لیکن وہ نہیں گئی...وہ اسےتنگ کرنا چاہتی تھی...جس شوہر محترم نے اسے اتنے دن تنگ کیا وہ بھی اپنا بدلہ وصول کرنا چاہتی تھی............صبح وہ اس سے غصہ تھی ناراض تھی روئی تھی لیکن اگر آج کی صبح وہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو وہ کھبی اپنی محبت کا اقرار نہ کرتا.یہ تقدیر کاتب کا فیصلہ تھا..جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے ..بے شک کوئی ہے جو ہماری ہر سوچ پہ اختیار رکھتا ہے اور ہمارے لیے بہتر فیصلے تجویز کرتا ہے. .وہی جو اس پوری کائنات کو چلا رہا ہے ...یہ ساری دنیا جس کے ماتحت ہے وہی تو خدا ہے......اس نے تشکر آمیز نگاہوں سے اوپر آسمان کی طرف دیکھا ..بے شک جوڑے وہی بناتا ہے آسمانوں پر...وہ اپنے انسانوں میں کھبی فرق نہیں کرتا ..نہ دیہاتی اور شہری میں اور نہ ہی غریب اور امیر میں. ...وہ سب کو دوآنکھیں دو کان دو ہاتھ اور دو پاوں نواز کر بھیجتا ہے. .فرق تو صرف انسان کرتے ہیں.!!. (اختتام )