Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

محسن نقوی

اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
محسن نقوی


اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
 
نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں
محسن نقوی


​​​​​​​​
نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں
تو کھو گیا ہے کہاں اب تجھے تلاش کروں
جو دشت میں بھی جلاتے تھے فصل گل کے چراغ
میں شہر میں بھی وہی آبلے تلاش کروں
تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اتر
ترے لیے میں کہاں آئنے تلاش کروں
تجھے حواس کی آوارگی کا علم کہاں
کبھی میں تجھ کو ترے سامنے تلاش کروں
غزل کہوں کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
مرے وجود سے شاید ملے سراغ ترا
کبھی میں خود کو ترے واسطے تلاش کروں
میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسنؔ
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
 
اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
محسن نقوی


اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا
برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا
جب کوئی سمت سفر طے تھی نہ حد رہ گزر
اے مرے رہ رو سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا
مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک
فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا
چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ
معجزہ یہ بھی تہہ آب رواں ہونا ہی تھا
میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا
میری اس عادت سے اس کو بد گماں ہونا ہی تھا
شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے
اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا
اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبار خاک میں
یہ ستم بھی ہم پہ زیر آسماں ہونا ہی تھا
بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مرے
میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا
 
میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی
محسن نقوی


میں کل تنہا تھا خلقت سو رہی تھی
مجھے خود سے بھی وحشت ہو رہی تھی
اسے جکڑا ہوا تھا زندگی نے
سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی
کھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی
مرے رستے میں کانٹے بو رہی تھی
مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے
مجھے تیری تمنا جو رہی تھی
مرا قاتل مرے اندر چھپا تھا
مگر بد نام خلقت ہو رہی تھی
بغاوت کر کے خود اپنے لہو سے
غلامی داغ اپنے دھو رہی تھی
لبوں پر تھا سکوت مرگ لیکن
مرے دل میں قیامت سو رہی تھی
بجز موج فنا دنیا میں محسنؔ
ہماری جستجو کس کو رہی تھی
 
ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
محسن نقوی


ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا
اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے
اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا
ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب
ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا
مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور
ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا
دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
 
بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا
محسن نقوی


بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا
ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا
کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں
تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا
جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں
کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا
کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا
مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا
تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے
جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا
یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے
کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا
میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ
کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا
 
بہترین اشعار
 
Buhat buhat shukriya
 
محسن نقوی بہت ہی بہترین شاعر تھے۔
پڑھ کر اچھا لگا۔
 
زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
محسن نقوی


زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں
مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں
مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں
ستاروں سے حسد کی انتہا ہے
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں
سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں
مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں
مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں

Boht khoobsurat nazam
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat