دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید
اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔
Register Now
You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
Poetry میری پسندیدہ شاعری
Well-known member
Thread starter
Offline
وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر
میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر
یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر
اک اور رنگ ملا آ کے سات رنگوں میں
شعاع مہر پڑی جب سے تیری بالی پر
میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضاؔ
مبادا بار گزرتا ہو سبز ڈالی پر
(اختر رضا سلیمی)
Well-known member
Thread starter
Offline
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے
مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے
نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے
وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے
میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے
حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے
دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے
رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگ
(اختر رضا سلیمی)
Well-known member
Thread starter
Offline
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے
اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے
آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے
خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے
ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے
(اختر رضا سلیمی)
Well-known member
Thread starter
Offline
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں
مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں
اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں
ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں
شب بھر تو ان کی یاد میں تارے گنا کئے
تارے سے دن کو بھی نظر آئیں تو کیا کریں
عہد طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مسکرا کے بھول نہ جائیں تو کیا کریں
اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں
وعدے کے اعتبار میں تسکین دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں
ترک وفا بھی جرم محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں
(اختر شیرانی)
Well-known member
Thread starter
Offline
Well-known member
Thread starter
Offline
اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے
وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے
ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا
وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے
ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کیا ہوا
لیلائیں ہیں خموش دوانے کدھر گئے
اجڑے پڑے ہیں دشت غزالوں پہ کیا بنی
سونے ہیں کوہسار دوانے کدھر گئے
وہ ہجر میں وصال کی امید کیا ہوئی
وہ رنج میں خوشی کے بہانے کدھر گئے
دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے
(اختر شیرانی)
Well-known member
Thread starter
Offline
اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصار خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤگے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ
کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتی ہے اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ
شکل یہ بہتر ہے لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ
(علینہ عترت)
Well-known member
Thread starter
Offline
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا
دھوپ کے شہر مری جاں سے لپٹ کر روئے
سرد شاموں کی طرف میں تھا نکلنے والا
کر گیا آپ کی دیوار کے سائے پہ یقیں
میں درختوں کے ہرے دیس کا رہنے والا
اس کے تالاب کی بطخیں بھی کنول بھی روئے
ریت کے ملک میں ہجرت تھا جو کرنے والا
(علی اکبر ناطق)
Well-known member
Thread starter
Offline
دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے
من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے
مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے
تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے
تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے
(علی سردار جعفری)
Well-known member
Thread starter
Offline
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
(علی سردار جعفری)
Create an account or login to comment
You must be a member in order to leave a comment
Create account
Create an account on our community. It's easy!
Log in
Already have an account? Log in here.
New posts