Ad Blocker Detection
Please turn off your ad blocker otherwise you won't be able to access Urdu Story World. Thanks!

دنیائے اردو کے نمبرون اسٹوری فورم پر خوش آمدید

اردو اسٹوری ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین رومانوی اور شہوانی کہانیوں کا مزا لیں۔

Register Now

Poetry میری پسندیدہ شاعری

وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر

میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر

یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر

اک اور رنگ ملا آ کے سات رنگوں میں
شعاع مہر پڑی جب سے تیری بالی پر

میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضاؔ
مبادا بار گزرتا ہو سبز ڈالی پر

(​اختر رضا سلیمی)
 


تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے

پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے

مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے

نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے

وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے

میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے

حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے

دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے

رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگ

(اختر رضا سلیمی)
 
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے

اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے

آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے

خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے

ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے

(اختر رضا سلیمی)
 
کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں
اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں

اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں

ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں

شب بھر تو ان کی یاد میں تارے گنا کئے
تارے سے دن کو بھی نظر آئیں تو کیا کریں

عہد طرب کی یاد میں رویا کئے بہت
اب مسکرا کے بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اب جی میں ہے کہ ان کو بھلا کر ہی دیکھ لیں
وہ بار بار یاد جو آئیں تو کیا کریں

وعدے کے اعتبار میں تسکین دل تو ہے
اب پھر وہی فریب نہ کھائیں تو کیا کریں

ترک وفا بھی جرم محبت سہی مگر
ملنے لگیں وفا کی سزائیں تو کیا کریں

(اختر شیرانی)
 
کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

ترک دنیا کا یہ دعویٰ ہے فضول اے زاہد
بار ہستی تو ذرا سر سے اتارا ہوتا

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

عظمت گریہ کو کوتاہ نظر کیا سمجھیں
اشک اگر اشک نہ ہوتا تو ستارا ہوتا

لب زاہد پہ ہے افسانۂ حور جنت
کاش اس وقت مرا انجمن آرا ہوتا

غم الفت جو نہ ملتا غم ہستی ملتا
کسی صورت تو زمانے میں گزارا ہوتا

کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی
گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا

کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اخترؔ
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

(اختر شیرانی)
 
اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے
وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے

ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا
وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے

ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کیا ہوا
لیلائیں ہیں خموش دوانے کدھر گئے

اجڑے پڑے ہیں دشت غزالوں پہ کیا بنی
سونے ہیں کوہسار دوانے کدھر گئے

وہ ہجر میں وصال کی امید کیا ہوئی
وہ رنج میں خوشی کے بہانے کدھر گئے

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

(اختر شیرانی)
 
اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ

پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ

اس حصار خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤگے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ

کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتی ہے اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ

شکل یہ بہتر ہے لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ

(علینہ عترت)
 
زرد پھولوں میں بسا خواب میں رہنے والا
دھند میں الجھا رہا نیند میں چلنے والا

دھوپ کے شہر مری جاں سے لپٹ کر روئے
سرد شاموں کی طرف میں تھا نکلنے والا

کر گیا آپ کی دیوار کے سائے پہ یقیں
میں درختوں کے ہرے دیس کا رہنے والا

اس کے تالاب کی بطخیں بھی کنول بھی روئے
ریت کے ملک میں ہجرت تھا جو کرنے والا

(علی اکبر ناطق)
 
دل کی آگ جوانی کے رخساروں کو دہکائے ہے
بہے پسینہ مکھڑے پر یا سورج پگھلا جائے ہے

من اک ننھا سا بالک ہے ہمک ہمک رہ جائے ہے
دور سے مکھ کا چاند دکھا کر کون اسے للچائے ہے

مے ہے تیری آنکھوں میں اور مجھ پہ نشہ سا طاری ہے
نیند ہے تیری پلکوں میں اور خواب مجھے دکھلائے ہے

تیرے قامت کی لرزش سے موج مے میں لرزش ہے
تیری نگہ کی مستی ہی پیمانوں کو چھلکائے ہے

تیرا درد سلامت ہے تو مرنے کی امید نہیں
لاکھ دکھی ہو یہ دنیا رہنے کی جگہ بن جائے ہے

(علی سردار جعفری)
 
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ

پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ

حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ

تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ

پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ

لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ

چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ

اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ

(علی سردار جعفری)
 

Create an account or login to comment

You must be a member in order to leave a comment

Create account

Create an account on our community. It's easy!

Log in

Already have an account? Log in here.

New posts
Back
Top
Chat