Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    پیارے بھائی بہت ہی کمال کی اسٹوری ہے

    Comment


    • #12

      Episode, 7#

      ماضی۔۔!

      رات کی تاریکی آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلاتی ہر شے پہ حاوی ہو رہی تھی۔۔اور اس بڑھتی تاریکی کے ساتھ رضوانہ خاتون اور فاطمہ کے دل کی دھڑکن بھی بڑھتی جا رہی تھی۔۔

      رات کے 9 بج چکے تھے اور دانی ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔۔دل میں اٹھتے عجیب عجیب وہم دونوں کو بے حال کر رہے تھے۔۔دونوں کی نظریں دروازے پہ جمی تھیں۔۔فاطمہ کب سے دانی کو کال لگانے کی ٹرائی کر رہی تھی کہ کچھ پتہ چلے کہ وہ کدھر ہے۔۔کب تک آئے گا۔۔مگر ہر بار ملانے پر نمبر بند آ رہا تھا۔۔

      " فاطمہ بیٹا اسے پھر کال ملاؤ۔۔شائد اس بار اٹھا لے۔"

      " ماں میں کب سے ملا رہی ہوں۔۔لیکن اسکا نمبر اب بند آ رہا ہے۔"

      فاطمہ نے پریشان لہجے میں کہا۔

      " یاالّٰلہ ہم پہ رحم کر۔۔یاالّٰلہ میرے بچے کو ہر دکھ تکلیف سے اپنی پناہ میں رکھنا۔۔یاالّٰلہ رحم۔۔"

      رضوانہ خاتون رقت بھرے لہجے میں الّٰلہ سے دعا کرنے لگیں۔۔

      اسی وقت دروازے پہ دستک کی آواز آئی۔۔فاطمہ تیزی سے دروازہ کھولنے باہر کو بھاگی۔۔

      " کون۔؟"

      آپی دروازہ کھولیں۔۔میں ہوں دانی۔"

      باہر سے دانی کی آواز سن کر فاطمہ نے جلدی سے دروازہ کھولا۔۔

      " دانی آپی کی جان کہاں تھے تم۔۔اتنی دیر لگا دی۔۔تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ میں اور ماں کتنا پریشان تھے۔"

      فاطمہ نے دانی کے اندر آتے ہی بے اختیار اسکو گلے لگایا تھا۔۔اسکی آنکھیں پرنم ہوئی تھیں۔۔

      " کیا ہو گیا ہے آپی۔۔آ گیا ہوں میں۔۔ریلیکس کریں۔۔چلیں اندر چلتے ہیں۔۔ماسو ماں انتظار کر رہی ہوں گی۔"

      دانی نے آہستہ سے فاطمہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔۔

      " تم انتظار کی بات کر رہے ہو دانی ماں رو رہی تھیں اب۔۔فاطمہ نے اسکو۔آگاہ کیا۔۔فاطمہ کی بات سن کر دانی تیزی سے۔کمرے۔کی طرف بڑھا۔۔

      " دانی میرے بچے۔۔میرے لال کہاں رہ گئے تھے تم۔۔اتنی دیر کہاں لگا دی تم نے۔۔؟

      رضوانہ خاتون نے دانی کو دیکھتے ہی اسے اپنی آغوش میں۔لینے کے لیے اپنے بازو وا کیئے۔۔دانی جلدی سے آگے بڑھ کر زور سے انکے گلے سے لگا۔۔

      " ماسو ماں آج کام بہت زیادہ تھا ورکشاپ پہ۔۔اور استاد نے کہا تھا کہ آج پیسے بھی ڈبل ملیں گے۔۔ اسی وجہ سے مجھے دیر ہو گئ تھی آج۔۔یہ لیں پورے 4 ہزار ہیں۔"

      دانی نے رضوانہ خاتون کے گلے لگے لگے اپنی جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا۔۔پیسے پکڑاتے ہوئے رضوانہ کی نظر دانی کے ہاتھ پہ پڑی۔۔

      " یہ۔۔یہ کیا ہوا ہے دانی۔۔یہ تمہارے ہاتھ پہ چوٹ کیسے لگی ہے۔۔"

      رضوانہ خاتون نے اسکا ہاتھ پکڑ کر پریشانی سے پوچھا۔۔فاطمہ نے بھی پریشان ہو کر فوراً اس کی طرف دیکھا۔۔

      " کچھ نہیں ماسو ماں آپ پریشان مت ہوں۔۔معمولی سی چوٹ ہے۔۔گاڑی ٹھیک کرتے ہوئے لگ گئ تھی۔۔ابھی نیا نیا کام کرنا شروع کیا ہے ناں اس لیے۔"

      دانی نے لاپرواہ انداز میں کہا۔۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔

      " تم اسکو معمولی چوٹ کہ رہے ہو۔۔اچھا خاصہ ہاتھ زخمی ہے تمہارا۔۔بس بات ختم اب دوبارہ تم ورکشاپ پہ کام نہیں کرو گے۔۔ہمیں نہیں چاہیے ایسے پیسے جس میں تمہیں چوٹ پہنچے۔۔کتنا منع کیا تھا تمہیں کہ تم کام نہیں کرو گے۔۔بس اب تم بلکل بھی نہیں جاؤ۔گے کام پہ۔"

      فاطمہ نے اسکو سختی سے منع کرتے ہوئے کہا۔۔

      " کیا ہوگیا ہے۔۔میں بچہ تھوڑی ہوں۔۔مجھ سے بھی چھوٹی عمر کے لڑکے ورکشاپ پہ کام کرتے ہیں۔۔اور مجھ سے بھی زیادہ بری چوٹیں لگتی ہیں انکو۔۔آپ فکر نہ کریں۔۔میں آئندہ احتیاط سے کام کروں گا۔۔ٹھیک اب خوش۔"

      دانی نے مسکراتے ہوئے رضوانہ خاتون کی گود میں سر رکھ کر لیٹتے ہوئے کہا۔۔

      " فاطمہ ٹھیک کہ رہی ہے دانی۔۔چھوڑ دو یہ کام۔۔پہلے بھی تو گھر کی دال روٹی چل رہی تھی ناں۔۔الّٰلہ نے چاہا تو آگے بھی چلتی رہے گی۔۔تم۔نہیں جانتے کہ تمہارے اتنی دیر سے آنے۔کی وجہ سے کیسی کیسی سوچوں نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔۔اگر تمہیں کچھ ہو گیا دانی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے۔۔

      رضوانہ خاتون نے پرنم آنکھوں سے رقت آمیز لہجے میں کہا۔۔

      " امی ٹھیک کہ رہی ہیں دانی۔۔اگر تم۔کچھ دیر اور نہ آتے تو میں حمید صاحب کے گھر جانے کا سوچ رہی تھی کہ ان سے کہتی ہوں تمہارا پتہ کریں۔"

      فاطمہ نے کہا۔۔

      " کبھی نہیں۔۔بھول کر بھی نہیں آپی۔۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔

      چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔کبھی بھول کر بھی رات کو اکیلے گھر سے مت نکلیے گا۔۔چاہے میں ساری رات گھر نہ آؤں۔"

      دانی نے فاطمہ کی بات سن کر انتہائی سخت اور سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔

      رضوانہ خاتون دانی کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔۔منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والا بچہ آج کس حال میں آ گیا تھا۔۔پندرہ سال کا بچہ ایک بچہ نہیں بلکہ پورا مرد بن چکا تھا۔۔



      حویلی کے اس بڑے سے ہال روم میں سب لوگ بیٹھے خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔۔

      کہ اچانک شاہ سائیں کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔۔

      " احتشام شاہ تمہاری واپسی کب ہے شہر۔"؟

      " بابا سائیں آج شام کو۔"

      احتشام شاہ نے جواب دیا۔۔

      " ہمممممم۔۔۔منشی کو سب سمجھا دیا تھا کیا، کہ اس بار دھیان سے اور ٹائم پہ نائٹروجن کی تیسری قسط ڈالنی ہے۔۔پچھلے سال ذرا سی لاپرواہی سے پھل کا سائز چھوٹا رہ گیا تھا۔۔

      " جی بابا سائیں سمجھا دیا تھا۔"

      احتشام شاہ نے جواب دیا۔۔

      " بابا سائیں دین محمد بتا رہا تھا کہ کھیتوں میں کاریز پھر نئے سرے سے بنانے ہوں گے۔۔ اور یہ بھی کہ پچھلے سال پورے پنجاب میں گلیکسی پہ ( گندم کی ایک قسم) رسٹ کا حملہ سب سے زیادہ ہوا تھا۔

      تو اس بار اسی وجہ سے میں سوچ رہا تھا کہ ہم نیا بیج استعمال کریں گے۔۔جسکے لیے مجھے فیصل آباد جانا ہوگا۔۔اگر آپکی اجازت ہو تو تاکہ خود جانچ پڑتال کرسکوں۔"

      صارم شاہ نے کھانا کھاتے ہوئے شاہ سائیں کو مطلع کیا

      " یہ رسٹ کیا چیز ہے۔"

      احتشام شاہ نے صارم شاہ کے اپنی بات پوری کرتے ہی پوچھا۔۔جس پر شاہ سائیں نے ایک افسوس بھی نظر سے احتشام شاہ کو دیکھا۔

      " آپکی بات سن کر کوئی نہیں کہ سکتا احتشام شاہ کہ آپ ہمارے بیٹے اور اتنی بڑی جاگیر کے مالک ہیں۔"

      " کیا ہوگیا ہے شاہ۔۔اگر اس نے ہوچھ لیا ہے تو اس میں برا منانے والی کیا بات ہے۔۔یہ جاگیر، زمینیں انکے معاملات اس نے دیکھنے سمجھنے ہوتے تو وہ اپنے بزنس کو ہرگز ترجیح نہ دیتا۔۔اتنا بڑا بزنس وہ اکیلا دیکھتا ہے۔۔ہفتے بعد ایک دن کے لیے وہ آتا ہے گھر۔۔اسکے باوجود وہ کوشش کرتا ہے کہ جتنا ہوسکے آپکا اور صارم کا ہاتھ بٹائے۔۔پھر بھی آپ خوش نہیں ہوتے۔۔مجھے تو اپنے بیٹوں پہ ناز ہے۔۔یہ میرا مان ہیں۔۔غرور ہیں میرا۔"

      ہائمہ خاتون نے فخر سے اپنے بیٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ہائمہ خاتون کی آخری بات پہ احتشام شاہ کے چہرے پر ایک تاریک سائہ لہرایا تھا۔۔جسے شاہ سائیں اور صارم شاہ دونوں نے نوٹ کیا تھا۔

      " ہائم آپکی انھی باتوں کی وجہ سے وہ زمین کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے۔۔یہ صرف ایک بزنس میں نہیں ایک جاگیردار بھی ہیں۔۔اور اس بات کو انکو سمجھنا ہوگا۔۔اپنی بے پناہ "مصروفیت " میں سے تھوڑا سا ٹائم زمینوں کو بھی دے سکتے ہیں۔"

      شاہ سائیں نے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے ہر لفظ پہ زور دیتے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔

      " صارم شاہ فیصل آباد جانے سے پہلے کاریز کا کام اپنی نگرانی میں دیکھ لیجیے گا۔۔اور اگر ممکن ہو تو آپ بھی صارم شاہ کے ساتھ ایک چکر لگا لیں۔۔

      اور ہائم پلیز آپ آکر میرے کپڑے نکال دیں۔۔مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔۔

      شاہ سائیں نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اپنے دونوں بیٹوں کو اور ہائم خاتون کو مخاطب کیا۔۔

      " جی بابا سائیں۔۔بہت بہتر۔"

      دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔

      " یار میں کوشش کرتا ہوں کہ بابا سائیں کو مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔ پھر بھی میری کوئی نہ کوئی بات انکا دل دکھا دیتی ہے۔"

      احتشام شاہ نے افسردگی سے کہا۔

      " ویسے یہ رسٹ کیا چیز ہے۔"

      " رسٹ یا کنگی گندم پر ایک مخصوص قسم کا فنگس کا حملہ ہے۔۔یا آپ بیماری کہ لیں۔۔اس سے فصل تو تباہ نہیں ہوتی۔۔مگر پیدوار میں کمی آ جاتی ہے۔۔اس فنگس کے حملے سے گندم کے پتے پیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔

      اور گلیکسی گندم کی ایک قسم ہے۔"

      صارم شاہ نے تفصیل سے احتشام شاہ کو سب سمجھاتے ہوئے کہا۔۔

      " ہمممم۔۔کب چلنا ہے پھر زمینوں پہ۔"

      احتشام شاہ نے ساری بات سمجھتے ہوئے صارم شاہ سے پوچھا۔۔

      " ابھی تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں۔"



      ایک دو دن سے موسم بہت خوشگوار تھا۔۔اس پہ صبح ہونے والی بارش نے ہر منظر کو اور دلکش بنا دیا تھا۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا۔۔اور نکھرا نکھرا آسمان دل و دماغ پہ ایک سرور کی سی کیفیت طاری کر رہا تھا۔۔

      آج سنڈے کی چھٹی تھی۔۔اور چھٹی والے دن 9، 10 بجے سے پہلے کوئی بھی نہیں اٹھتا تھا۔۔مگر دل کو موہ لینے والے موسم میں اٹھکھیلیاں کرتی ہوا کے ساتھ تینوں بہنیں بھی ہر بات بھول کر صحن میں بیڈمنٹن کھیلتیں ادھم مچا رہی تھیں۔۔عائلہ اپنی ماں کے ساتھ برآمدے میں بیٹھی انکو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔۔

      " عائلہ آ جاؤ ناں یار۔۔سچ میں بہت مزا آرہا ہے"

      عینا نے اپنی طرف آتی شٹل کو ہٹ کرتے ہوئے عائلہ کی طرف بنا دیکھے کہا۔۔

      " آپی آ جائیں ناں۔۔ساتھی ساتھی کھیلتے ہیں۔۔آپ میری ساتھی بن جائیں ناں۔۔پھر ہم دونوں مل کر عینا آپی اور ایمن آپی کو ہرا دیں گے"

      ۔۔سب سے چھوٹی اجالا نے عائلہ کو بازو سے کھنچتے ہوئے کہا۔۔

      " گڑیا آپ کھیلو۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا۔"

      عائلہ نے اپنا بازو چھڑاتے منع کرتے ہوئے کہا۔

      " پلیز۔۔پلیز۔۔آجائیں ناں۔"

      اجالا نے پھر اصرار کیا۔۔عائلہ اجالا کے چہرے پہ آس و نراس کے سائے دیکھ کر اب کی بار انکار نہ کر سکی۔۔اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔

      " ہراااا"

      اجالا نے زور سے نعرہ لگایا۔۔

      " اب دیکھنا بچُّو۔۔میں کیسے آپکو ہراتی۔"

      اجالا نے ایمن کی طرف دیکھ کر کہا۔۔

      " سب سے پہلے عائلہ آپی اور عینا آپی کا مقابلہ ہوگا۔۔اسکے بعد میرا اور ایمن آپی کا۔"

      اجالا نے اعلان کیا۔۔

      " واؤ۔۔وہ مارا۔"

      "عائلہ آپی زور سے شاٹ لگائیں ناں۔"

      اجالا زور سے چلائی۔۔

      " عینا آپی ہمیں جیتنا ہے۔۔اور فاسٹ۔۔اور فاسٹ۔۔

      ایمن نے بھی زور سے چلا کر کہا۔۔

      " دماغ خراب ہوگیا ہے تم لوگوں کا بدبختو۔۔دو گھڑی اس گھر میں سکون سے بندہ آرام بھی نہیں کر سکتا۔۔دفع ہو جاؤ میری آنکھوں کے سامنے سے۔۔نہ جانے کب اس عزاب سے جان چھوٹے گی۔منحوسیں نہ ہوں تو۔"

      بچیوں کے کھیلنے کودنے کی آوازوں سے رشید احمد کے آرام میں خلل پڑا تو وہ انتہائی غصے سے باہر آئے اور سبکی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے بولے۔۔

      باپ کو ایسے غصے سے چلاتے دیکھ کر سب جلدی سے کھیل چھوڑ کر اندر کمرے میں جا گھسی تھیں۔۔

      " کیا ہے آپی بابا کو اتنا غصہ پتہ نہیں کیوں آتا ہے۔۔اتنا مزا آ رہا تھا کھیلتے ہوئے۔۔

      اور سامنے ہم لوگ تھوڑی آئے تھے۔۔بابا خود ہی ہمارے سامنے آئے تھے۔"

      اجالا نے منہ بسورتے کہا۔مگر اسکی آخری بات پہ سبھی کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔

      " اچھا دل خراب نہ کرو۔۔میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔۔اگر ماما مان جائیں تو سچ میں بہت مزا آئے گا۔"

      عینا نے سسپنس کری ایںٹ کرتے ہوئے کہا۔۔

      " وہ کیاااااا۔۔۔"

      سب نے یک زبان ہو کر پوچھا۔۔

      " وہ یہ کہ اپنی زمینوں پہ چلتے ہیں۔۔موسم بھی اتنا مزے کا ہو رہا ہے۔۔اور ایسے موسم میں باہر گھومنے پھرنے کا مزا ہی الگ ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے۔"؟

      " واؤ زبردست۔۔یہ ٹھیک ہے۔۔سچ میں بہت مزا آئے گا۔"

      اجالا اور ایمن نے ایک ساتھ کہا۔

      " بہت برا خیال ہے۔۔آرام سے بیٹھی رہو چپ کر کے۔۔آج ابا بھی گھر پہ ہیں۔۔ایسا نہ ہو کہ ایک نیا ہنگامہ اٹھ جائے۔"

      عائلہ نے صاف منع کیا۔۔

      " ابا گھر پہ ہیں تو اس سے کیا۔۔یہ تو اور اچھی بات ہے۔۔ہم گھر سے غائب ہوں گی تو انکو ہماری منحوس شکلیں دیکھ کر جو کوفت ہوتی ہے۔۔وہ پھر نہیں ہوگی۔"

      عینا نے انتہائی تلخی سے جواباً کہا۔۔

      " عیناااا۔۔۔کچھ تو خیال کر لیا کرو۔۔جب بھی بولتی ہو نہ جگہ دیکھتی ہو۔۔نہ موقع۔۔ہر بات ایسے کہنے کی نہیں ہوتی۔"

      عائلہ نے عینا کو تھوڑا ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔

      " ہاں تو اس میں غلط کیا ہے۔۔جب بھی۔۔جب بھی ہم خوش ہونے لگتے ہیں۔۔یا اب سے آمنا سامنا ہو جائے۔۔تو آپ کو یاد پڑتا ہے کہ کبھی انھوں نے شفقت سے ہمارے سر پہ ہاتھ رکھا ہو۔۔یا کبھی پیار سے پکارا ہو۔۔البتہ " منحوس" لفظ کی ایک پکار انکی سن سن کر اب یقین ہونے لگا ہے کہ ہم سچ میں منحوسیں ہیں۔۔اور وہ ہمارے باپ نہیں ہیں۔۔بلکہ شائد ہمیں کہیں سے۔۔۔۔۔۔"

      " عیناااااا۔۔۔بس اب۔۔۔ایک لفظ اور نہیں۔۔تم لوگوں کو باہر جانا ہے ناں۔۔ٹھیک ہے میں امی جان سے بات کرتی ہوں۔"

      عائلہ نے عینا کو بیچ میں ہی ٹوکتے ہوئے کہا۔۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ عینا کا موڈ مزید خراب ہو۔۔چھوٹی دونوں بھی انکھوں میں نمی لیے بیٹھی تھیں۔۔آج بہت دنوں بعد سب بہت خوش تھے۔۔اور اس خوشی کو قائم رکھنے کے لیے سب کا اس ماحول سے باہر نکلنا ضروری تھا۔۔



      " یہ کچھ میڈیسنز میں نے لکھ دی ہیں۔۔یہ آپ منگوا کر باقاعدگی سے دیتے رہیں۔۔اور جب تک یہ خود نہ اٹھیں۔۔کوئی بھی انکو ڈسٹرب نہ کرے۔۔ویسے تو میں نے انجیکشن لگا دیا ہے۔۔جس سے یہ 4،5 گھنٹے تک سوتی رہیں گی۔۔مگر پھر بھی آپ لوگ احتیاط کیجیےگا۔"

      ڈاکٹر نے موہنی کو ٹریٹ منٹ دینے کے بعد کچھ میڈ نوٹ کیں۔۔اور ضروری ہدایات دے کر باہر نکل گیا۔۔نیلم بائی نے شوکت کو اشارہ کیا کہ وہ ڈاکٹر کو نہ صرف باہر تک چھوڑ کر آئے۔۔بلکہ سمجھا بھی دے کہ یہاں کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے۔۔

      " رحمو بابا آپ یہ جو ڈاکٹر صاحب نے میڈیسنز لکھ کر دی ہیں۔۔ جا کے سٹور سے لے آئیں۔۔

      اور گلشن تم جا کر نیچے سب لڑکیوں کو اٹھاؤ۔۔اور جو لوگ رات ادھر ہی رکے تھے۔۔اگر ابھی بھی ادھر ہیں تو انکو چلتا کرو۔"

      " اور۔۔۔۔سنو۔۔ملک افضل نے پیمنٹ نہیں کی تھی رات کو۔۔وہ لے لینا اس سے۔۔میں موہنی کے پاس ہی رکوں گی۔۔ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے ساتھ کچھ کر بیٹھے۔"

      نیلم بائی نے موہنی کی طرف دیکھتے ہوئے سب کو باری باری ہدایت دیتے ہوئے کہا۔۔

      " خانم یہ سب تو ایک دن ہونا ہی تھا۔۔دلاور نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا۔۔اور یہاں رہنے والی ہر لڑکی کا یہی مستقبل ہے۔۔یہی زندگی ہے۔۔کہ انکی اپنی کوئی زندگی نہیں۔۔ہمارا وجود ہمارا ہونے کے باوجود ہمارا نہیں ہوتا۔۔ہمارے سوا اس پہ ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔۔

      دنیا کی نظروں میں ہم صرف طوائف ہیں۔۔جنکو کسی گالی کی طرح بازارو عورتیں کہا جاتا ہے۔۔اسی لیے کبھی کوئی ایک مرد نہ ہمارا ہوا ہے۔۔اور نہ ہم کسی ایک مرد کی ہوتی ہیں۔۔اگر یہ بات یہ پہلے سے ہی اچھی طرح سمجھ جاتی تو آج اتنی تکلیف سے نہیں گزرتی۔"

      گلشن نے موہنی پہ ایک افسوس بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔اور کمرے سے باہر نکل گئ۔۔

      " چھ۔۔چھوڑو۔۔۔چھوڑو دلاور۔۔۔مت۔۔۔مت کرو ایسا۔۔نن۔۔۔نئیں۔۔۔ہم۔۔۔مر جائیں گے۔۔۔۔دلاورررررررر۔۔۔۔۔"

      موہنی کو بے ہوش ہوئے چار پانچ گھنٹے ہو چکے تھے۔۔اب اسکو شائد ہوش آ رہا تھا۔۔اور نیم بے ہوشی میں اسکے لاشعور کی سکرین پہ بیتے پل اجاگر ہو رہے تھے۔۔جنکی اذیت سے بڑ بڑاتے ہوئے اسکے چہرے پہ پسینہ نمودار ہو رہا تھا۔۔

      " موہنی۔۔۔موہنی ہوش کرو۔۔۔موہنی۔۔۔آنکھیں کھولو۔"

      نیلم بائی نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے اسکو پکارا تھا۔۔اور موہنی نے ایک چیخ مار کر آنکھیں کھول دی تھیں۔۔

      کچھ دیر بعد اٹھ کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے وہ خالی خالی نظروں سے اپنے چاروں طرف دیکھتی رہی۔۔

      پھر سب یاد آنے پہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔نیلم بائی اسکے پاس بیٹھی اسکو خاموشی سے دیکھتی رہی اور کچھ نہ بولی۔۔تاکہ وہ رو کر اندر کا سارا غبار نکال دے۔۔رو رو کر جب اسکا کچھ جی ہلکا ہوا تو اپنے حلیے پہ نظر پڑی۔۔اور انتہائی بے چین نظروں سے نیلم بائی کی طرف دیکھا۔۔

      " خانم۔۔۔۔مم۔۔۔۔میرے کپڑے۔۔۔یہ کس نے۔۔۔؟"

      " فکر مت کرو موہنی۔۔۔میں نے بدلے ہیں۔۔پرانے اس قابل نہیں تھے کہ تم پہنتی۔۔اور کسی نے نہیں دیکھا۔۔تم جانتی ہو کہ یہاں دوپہر گئے تک سب سو کر اٹھتے ہیں۔

      دلاور کے جاتے ہی میں تمہارے کمرے میں آ گئ تھی۔"

      نیلم بائی نے موہنی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔۔۔موہنی سر گھٹنوں میں رکھ کر پھر سے رونے لگی۔۔۔

      " موہنی جتنا رونا ہے آج جی بھر کے رو لو۔۔اسکے بعد میں کبھی تمہیں روتا نہیں دیکھنا چاہتی۔۔تمہیں کتنا سمجھایا تھا میں نے کہ ایسے خواب مت دیکھو جو بعد میں ٹوٹنے پہ تمہارے وجود کو لہو لہان کر دیں۔۔ہماری دنیا باہر کے لوگوں سے بہت الگ ہے۔۔اس معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہم اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔۔لوگ تو ہمیں انسان بھی نہیں سمجھتے۔۔یہ ہمیں اتنا ناپاک سمجھتے ہیں کہ اگر ہمیں پانی پلا دیں تو جس برتن میں پلاتے ہیں یا تو اسکو پھینک دیتے ہیں۔۔یا اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔۔

      ہمیں بازارو اور طوائف کہ کر رستہ بدلنے والے شریف اور اعلیٰ حسب نسب کے لوگ رات کی تاریکی میں ہمارے پیروں کے تلوے چاٹتے اور ہماری شان میں قصیدے تو پڑھتے ہیں۔۔مگر دن کے اجالے میں ہماری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔۔

      افسوس اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس معاشرے کے ایک قاتل اور زانی کا بھی ایک درجہ اور مقام ہے۔۔مگر ہمارا نہ کوئی درجہ ہے نہ مقام۔۔

      ہمارے ساتھ ہر کوئی اپنی راتوں کو رنگین کرنا چاہتا ہے۔۔ہمارے بدن سے کپڑے نوچ کر ہمیں ننگا کرنا چاہتا ہے۔۔مگر ہمیں دن کے اجالے میں اپنا نام دے کر عزت کی زندگی دینے کو۔۔ ہمارا ننگا سر ڈھانپنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔۔

      تا قیامت ہمارا یہی نصیب ہے۔۔اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔۔ہمارے لیے کوئی عمر نہیں آئے گا۔۔جو اپنی عزت مقام مرتبہ سب بھول کر یہاں کی کسی ماروی کا سر ڈھانپ دے۔۔

      یہاں کی باقی سب لڑکیوں کی طرح تمہارا بھی یہی نصیب تھا اور ہے۔۔مگر میں نے تمہارے ساتھ کبھی زور زبردستی نہیں کی۔۔تم نے پڑھنا چاہا۔۔میں نے تمہاری بات مانتے تمہیں بی۔اے کے پیپرز بھی دلوائے۔۔کبھی کسی مرد کو تمہارے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا۔۔

      مگر دلاور کے خواب تم نے خود اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔۔میرے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود۔۔۔

      خیر جتنی جلدی ہو سکے خود کو سنبھالو۔۔اور اب سے تم وہی کرو گی جو میں کہوں گی۔۔اتنے سال تمہاری بات مان کر میں نے تمہیں موقع دیا۔۔مر اب۔۔۔۔"

      " میں اپنے جسم کا سودا اب بھی نہیں کروں گی خانم۔۔اب بھی نہیں تو مطلب کبھی بھی نہیں۔"

      موہنی جو کب سے سسکتے ہوئے نیلم بائی کی باتیں سن رہی تھی۔۔اسکی بات کا مطلب سمجھ کر فوراً بولی۔۔

      نیلم بائی دو پل کو اسکی طرف دیکھتی رہ گئ۔۔اسکو لگا تھا کہ جو کچھ بھی رات کو ہوا۔۔اس نے موہنی کو توڑ کر رکھ دیا ہوگا۔۔مگر اسکے انداز اور لہجے نے اسے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔

      Comment


      • #13
        بہت ہی اچھی اور منفرد اسٹوری ہے دل بستگی کے تمام لوازمات کے ساتھ ماسٹر مائنڈ شکریہ جناب

        Comment


        • #14
          Episode, 8
          تاحد نگاہ آسمان کو بادلوں نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اٹھکھیلیاں کرتی جب جسم کو چھو کر جاتی تو پورے بدن میں ایک سرور کی سی لہر اٹھتی۔۔
          سر سبز لہلہاتے کھیت، پودے ایسا لگ رہا تھا جیسے جھوم جھوم کر ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہیں۔۔
          موسم کی خوبصورتی ہر چیز ہر شخص پہ اثر انداز ہو رہی تھی۔۔
          " ہائے الّٰلہ کتنا پیارا موسم ہے۔۔کتنا مزا آ رہا ہے سچی۔"
          اجالا اور ایمن نے کھیتوں میں بنی پگڈنڈیوں پہ بھاگتے دوڑتے کہا۔۔
          " اجالا دھیان سے چوٹ لگ جائے گی۔۔آرام سے چلو۔"
          عائلہ نے اجالا کو خبردار کرتے کہا۔۔
          " آپی کتنا اچھا ہوتا۔۔اگر امی بھی ساتھ آ جاتیں ہمارے۔۔باہر کی آب و ہوا میں انکا بھی دل بہل جاتا۔"
          عینا نے کہا۔۔
          " ہممممم۔۔۔کہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔مگر ابا کی موجودگی میں تم جانتی ہو وہ کہیں نہیں جاتیں۔۔ہمیں اکیلے آنے کی اجازت مل گئ یہی بڑی بات ہے۔۔
          عائلہ نے جواب دیا۔۔
          " آپی آپ نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ کچھ دنوں سے ابا بہت کم گھر سے باہر نکلتے ہیں۔۔اور کچھ زیادہ ہی چڑچڑے سے بھی ہو رہے ہیں۔"
          عینا نے پگڈنڈی پہ بڑی احتیاط سے چلتے چلتے کہا۔۔
          " ہاں نوٹ تو میں نے بھی کیا ہے۔۔ خیر چھوڑو جو بھی ہے سامنے تو آ ہی جائے گا۔"
          عائلہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔۔
          " اجالا ۔۔۔ایمن۔۔۔اگر نہر پہ جانا ہے تو بتا دو۔۔یہیں سے مڑ جاتے ہیں۔"
          " نہیں آپی۔۔۔سیدھے امرود کے باغ میں چلتے ہیں۔۔واپسی پہ چلیں گے ادھر۔"
          ایمن اور اجالا نے فوراً جواب دیا۔۔

          " عیناااا۔۔۔ کیا کر رہی ہو یار۔۔اترو نیچے۔۔چوٹ لگوانی ہے کیا۔۔اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو ذرا۔۔بچیوں کے ساتھ بچی بنی ہوئی ہو۔۔
          اجالا، ایمن درخت پہ چڑھی اپنی پسند کے امرود توڑ توڑ کر نیچے پھینک رہی تھیں۔۔انکے پیچھے پیچھے عینا بھی اب اوپر چڑھ رہی تھی۔۔
          " یار درخت کے اوپر چڑھ کر اپنی پسند کا امرود توڑ کر کھانے کا جو مزا ہے۔۔وہ بازار سے مہنگے داموں لے کر کھانے میں کہاں۔۔اور باہر ہم انجوائے کرنے آئے ہیں ناں۔۔تو اب یہاں بکل مار کے بیٹھنے سے تو رہے۔"
          عینا نے مزید اوپر چڑھتے ہوئے کہا۔۔ساتھ میں وہ ہلکا ہلکا گنگنانے لگی۔۔عائلہ آس پاس کے امرود کے درختوں سے اپنی پسند کے امرود ڈھونڈھنے لگی۔۔
          " آپی کیم لیکر آئی ہیں ساتھ ناں۔۔تھوڑی پکس بنا کر پھر نہر پہ چلتے ہیں۔"
          " اوکے۔"
          عائلہ نے کہا۔۔اور سبکی پک بنانے لگی۔۔پھر عینا نے عائلہ اور باقی سب کی مختلف پوز لے لے کر بنائیں۔۔
          پھر سب نہر کی طرف چل پڑیں۔۔جہاں سے پورے گاؤں کی زمینوں کو سرکاری پانی جاتا تھا۔۔
          " اوئے۔۔۔رکو۔۔۔یہ آواز سنی کیا۔"
          عینا نے آواز کی طرف کان لگاتے ہوئے کہا۔۔
          " کیسی آواز۔۔؟"
          " یارٹیوب ویل چلنے کی۔"
          عینا نے کہا۔۔
          " ہاں آ تو رہی ہے۔۔لیکن اس طرف تو شاہ سائیں کے کھیت ہیں۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے ادھر جانے کی۔۔آرام سے سیدھی نہر کی طرف چلو۔۔"
          عائلہ نے فوراً سختی سے منع کیا۔۔
          " آپی پلیززززز۔۔۔۔"
          اجالا اور ایمن نے یک زبان ہو کر کہا۔۔
          " میں نے کہا ناں نہیں۔۔اگر وہاں منشی چاچا ہوئے تو۔۔۔مناسب نہیں لگتا۔۔اپنا شوق نہر پہ پورا کر لینا۔۔وہاں کوئی نہیں ہوتا۔۔"
          عائلہ نے اپنی چادر اپنے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔۔اور پھر سب نہر کی طرف چل پڑیں۔۔
          " واؤ کتنا ٹھنڈا پانی ہے۔۔
          سب نے اپنے ٹراؤزر تھوڑے اوپر کھسکا کر پانی میں قدم رکھے۔
          " بس باہر باہر ہی رہو سب۔ زیادہ آگے مت جانا۔۔آگے پانی کافی گہرا ہے۔۔اوکے۔۔۔"
          عائلہ نے پانی میں اترتے سب کو سمجھایا۔۔
          سب پانی میں اتر کر ایک دوسرے پہ پانی پھینکنے لگیں۔۔زمینوں پہ آ کر نہر کے پانی میں اترنا۔۔اس میں تیرتی، بھاگتی مچھلیوں کو دیکھنا سب کو بہت مزا دیتا تھا۔۔
          " کیا موسم آیا ہے۔۔کیا موسم آیا ہے
          پورب سے مستانی پروائی چلی
          خوشبو سے مہکی ہے پھولوں کی گلی
          گیت گائے ندیا ، لہروں میں ہے سرگم
          ہے گھٹا دیوانی بوندوں میں ہے چھم چھم
          کیا موسم آیا ہے"
          پانی میں بھاگتے دوڑتے شرارتیں کرتے عینا نے گانا شروع کر دیا۔۔ موسم کی خوبصورتی پہ اسکی آواز عجیب سا سحر پیدا کر رہی تھی۔۔بلا شبہ اسکی آواز میں ایک جادو تھا۔۔

          اور اس جادو کا اثر وہاں سے گزرتے صارم شاہ اور احتشام شاہ پہ بھی ہوا تھا۔۔بے اختیار وہ اس آواز کی طرف کھنچے چلے آئے تھے۔۔
          " بھائی واپس چلتے ہیں۔۔میں نے سنا ہے کہ ویرانوں میں چڑیلیں ، جن ، بھوت ہوتے ہیں۔۔"
          صارم شاہ نے احتشام شاہ کے ساتھ تیز تیز چلتے کہا۔۔
          " چڑیلیں نہیں پریاں۔۔"
          احتشام شاہ نے نہر سے تھوڑے فاصلے پہ رکتے ادھر کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔جہاں وہ چاروں بہنیں ساری دنیا بھول کر اپنی ہی دنیا میں مگن تھیں۔
          صارم شاہ نے احتشام شاہ کی نظروں کا تعاقب کرتے اس طرف دیکھا تو ایک لمحے کو مبہوت رہ گیا۔۔
          پنک شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر اور پنک ہی دوہٹے میں وہ کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔۔
          اچھلتی کودتی، شرارتیں کرتی دوپٹے سے بے خبر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ وہ صارم شاہ کے سامنے تھی۔۔اسکا یہ روپ صارم شاہ کے لیے بلکل نیا اور انوکھا تھا۔۔
          وہ پتھر کا بت بنا اسکو تکے جا رہا تھا۔۔
          آج تک اس نے کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔۔ہائمہ خاتون کی تربیت نے انکی نظروں کو کبھی بھٹکنے ہی نہیں دیا تھا۔۔مگر آج وہ ساکت و سامت اس چہرے پہ نظریں جمائے کھڑا تھا۔۔
          احتشام شاہ عینا کی دل کو موہ لینے والی آواز میں گم تھا۔۔نیلی چیک دار شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر اور نیلے دوپٹے میں وہ احتشام شاہ کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔۔
          اچانک عائلہ اور عینا کی نظر دور کھڑے صارم شاہ اور احتشام شاہ پہ پڑی تھی۔۔ شدید ناگواریت کے تاثرات لیے۔۔ہڑبڑا کر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر جلدی سے اپنا رخ موڑا تھا۔۔اور اسی لمحے عائلہ کا پیر سلپ ہوا تھا اور وہ نہر کے اندر جا گری تھی۔۔فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔۔اور اسی پل احتشام شاہ اور صارم شاہ کا سحر ٹوٹا تھا۔۔
          عائلہ کو تیرنا نہیں آتا تھا۔۔ہڑبڑی میں وہ اور پانی کے اندر جا رہی تھی۔۔
          صارم شاہ کو ایک پل لگا تھا اور اس نے پانی میں چھلانگ لگائی تھی۔۔
          صارم شاہ عائلہ کو بازوؤں میں اٹھائے باہر نکلا تھا۔۔عائلہ نیم بے ہوش سی تھی۔۔اسکا بھیگا وجود صارم شاہ کے لیے امتحان بنا ہوا تھا۔۔اسکا دل اسے کسی گستاخی پہ اکسا رہا تھا۔۔مگر وہ ہائمہ خاتون کا بیٹا تھا۔۔جنہوں نے حلال اور حرام کا سبق اپنے بچوں کے خون میں رچا دیا تھا۔۔اسی خون نے جوش کھایا تھا اور وہ اپنے حواسوں میں واپس آیا تھا۔۔
          صارم شاہ نے دھیرے سے اسے زمین پہ لٹا دیا تھا۔۔اور غیر ارادی طور پہ احتشام شاہ کا ہاتھ پکڑ کر رخ موڑ لیا تھا۔۔احتشام شاہ نے ایک پل کو حیران ہو کر صارم شاہ کی طرف دیکھا۔۔
          انکی اس حرکت پہ ایک لمحے کو عینا کے لبوں پہ مسکراہٹ مچلی تھی۔۔
          " عائلہ۔۔۔عائلہ۔۔۔ہوش کرو۔۔"
          عینا نے اسکے گال تھپتھپائے تھے۔۔ایمن اور اجالا عائلہ کی طرف دیکھ کر رونے لگی تھیں۔۔
          " کچھ نہں ہوا میری جان۔۔آپی ٹھیک ہے بلکل۔۔یہ دیکھو آپی کو ہوش آ بھی گیا ہے۔۔"
          عینا نے اپنی دونوں بہنوں کو اپنے ساتھ لگا کر تسلی دیتے کہا۔۔
          " شام ہو رہی ہے۔۔عائلہ ساری بھیگی ہوئی ہے۔۔اسکے کپڑے سوکھنے تک تو بہت دیر ہو جائے گی۔۔اففففف
          اب گھر کیسے جائیں گے۔۔" عینا کو ایک نئ پریشانی لاحق ہوئی۔۔اور بڑبڑاتے ہوئے بولی۔۔
          اسکی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی تھی کہ جو صارم شاہ اور احتشام شاہ نے صاف طور پہ سنی۔۔
          " ابھی کچھ دیر میں اندیھیرا پھیل جائے گا۔۔اور اس حال میں گھر جانا ٹھیک نہیں۔۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم آپکو گھر تک چھوڑ دیتے ہیں۔۔یہاں سے تھوڑے فاصلے پہ ہماری گاڑی کھڑی ہے۔۔
          صارم شاہ نے عائلہ کے بھیگے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے عینا سے کہا۔۔کچھ پل کو سوچ کر عینا نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔
          " یہ چادر آپ انکو اچھی طرح سے اوڑھا دیں پلیز۔۔اور آ جائیں۔۔"
          صارم شاہ نے بنا مڑے کہا۔۔اور پیچھے کو ہاتھ موڑ کر اپنی چادر اتار کر عینا کو پکڑائی۔۔
          عائلہ اپنے حواسوں میں آ چکی تھی۔۔اس نے ایک غصیلی نگاہ دونوں بھائیوں پہ ڈالی اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی دی چادر اپنے گرد اچھی طرح سے لپیٹ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔تھوڑی دیر بعد سب لوگ گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں کی طرف گامزن ہو چکے تھے۔۔

          یہ عالیشان گیسٹ ہاؤس دلاور کا تھا۔۔جو نہ صرف گیسٹ ہاؤس تھا بلکہ ایک پورا ہوٹل بھی تھا۔۔اور دلاور کا ٹھکانہ بھی۔۔اسکی رہائش بھی۔۔
          کہنے کو تو یہ ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔۔مگر یہاں پر جوئے اور سٹے کے بڑے بڑے مگر مچھ آ کر بے فکری سے اہنا شوق پورا کرتے تھے۔۔جوئے کے ساتھ شراب و شباب کا بھی پورا پورا انتظام ہوتا تھا۔۔بڑے بڑے سیاسی مگر مچھ کسی اسکینڈل کے ڈر سے جو کوٹھے یا کسی بار میں نہیں جا سکتے تھے۔۔انکے لیے یہ گیسٹ ہاؤس پلس ہوٹل ایک انتہائی محفوظ جگہ تھی۔۔جس کا مالک دلاور تھا۔۔ہوٹل کی رونق اپنے عروج پر تھی۔۔مگر دو تین دن سے دلاور اپنی مخصوص جگہ سے غیر حاضر تھا۔۔اور یہ بات وہاں موجود ہر شخص کے لیے اچنبھے کا باعث تھی۔۔
          دلاور تین دن سے گیسٹ ہاؤس میں ہی موجو تھا۔۔مگر کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا۔۔اور یہ بات بھولا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ دلاور اندر موجود ہے۔۔
          بھولا آج صبح سے دلاور کے کمرے کے کئ چکر لگا چکا تھا مگر اسکے غصے کے ڈر سے پھر واپس چلا جاتا۔۔"
          " پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے دلاور استاد کو دو دن سے گم صم ہی ہو گیا ہے۔۔لگتا ہے موہنی والی بات دل پہ لے لی ہے استاد نے۔۔"
          بھولے نے دلاور کے کمرے کا ہلکا سا دروازہ کھول کر ایک نظر اس پہ ڈال کر پھر دھیرے سے دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔۔
          مزید کچھ دیر دروازے کے باہر کھڑے ہو کر سوچنے کے بعد وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔۔
          دلاور کی داڑھی مونچھ تو ویسے بھی بڑھی ہوتی تھی۔۔جس سے دیکھنے والے پہ اسکی شخصیت کی عجیب دہشت بیٹھتی تھی۔۔مگر دو دن سے اسکے حلیے نے اسکو خوفناک شکل دے دی تھی۔۔سلوٹ زدہ ملگجے سے کپڑے۔۔بکھرے بال۔۔بے ہنگم بڑھی ہوئی داڑھی مونچھ۔۔عجیب خوفناک ظالم جابر غنڈہ لگ رہا رہا تھا وہ۔۔
          " استاد۔۔۔استاد۔۔۔"
          بھولے نے بہت ہمت کر کے اسکو پکارا تھا۔۔دلاور نے اپنی آنکھیں نیم وا کر کے اسکی طرف دیکھا تھا۔۔
          "استاد اجو آیا ہے۔۔وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔"
          " ہممممم۔۔۔بھیج دو۔"
          دلاور نے آنکھوں پہ رکھا بازو ہٹا کر کہا۔۔
          استاد جس کام کا آپ نے بولا تھا۔۔میں گیا تھا پتہ کرنے۔۔مگر۔۔وہ وہاں نہیں ہیں۔۔آس پاس کے لوگوں سے میں نے معلوم کیا تو انکا کہنا ہے کہ انکو وہاں سے گئے 5، 6 ماہ ہو گئے ہیں۔۔ کہاں گئے ہیں۔۔کوئی نہیں جانتا۔۔"
          اجو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔اجو کی بات سن کر وہ یکدم اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
          " یہ۔۔یہ۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔انکا تو کوئی اور ٹھکانہ بھی نہیں تھا۔۔جہاں وہ جاتے۔۔نہ کوئی رشتے دار۔۔پھر۔۔پھر کہاں جا سکتے ہیں وہ لوگ۔۔
          آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں۔۔ہرگز نہیں۔۔"
          دلاور بے دم سا گرنے کے انداز میں دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑ کر بیڈ پہ بیٹھ گیا تھا۔۔
          " چاہے کچھ بھی کرو۔۔زمین آسمان ایک کردو۔۔مگر مجھے انکا پتہ چاہیے۔۔اور اگر نہ ڈونڈھ سکے تو میرے سامنے مت آنا۔۔"
          دلاور نے غصے سے اجو کی طرف انگشت شہادت کر کے اسکو وارن کرتے ہوئے اس سے کہا۔۔
          " استاد شیدے کا بھی فون آیا تھا۔۔اس نے کچھ دن کی مہلت اور مانگی ہے۔۔کیا کہوں اسکو۔۔؟"
          بھولے نے اسے شیدے کے فون کا بتایا۔۔بھولے کی بات سن کر چھم سے اسکی آنکھوں کے سامنے کسی چہرے کا عکس لہرایا تھا۔۔
          " میری گاڑی تیار کرو۔۔میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔ہمیں نکلنا ہے آج ہی گاؤں کے لیے۔۔"
          دلاور نے پرسوچ انداز میں کہا۔۔
          استاد جانے کی کیا ضرورت ہے۔۔اسکو بلوا لیتے ہیں۔۔"
          بھولے نے حیران ہو کر کہا۔۔
          " جو کہا ہے وہ کرو بس۔۔"
          دلاور نے تھوڑا تلخی سے کہا۔۔

          ماضی..!
          آج فاطمہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔۔اس لیے وہ آج کالج نہیں گئ تھی۔۔دانی سکول سے گھر آکر کھانا کھا کر پھر ورکشاپ چلا جاتا تھا۔۔اسکے میٹرک کے ایگزیمز ہونےوالے تھے۔۔رضوانہ خاتون اور فاطمہ چاہتی تھیں کہ وہ پیپرز ہونے تک ہی کم از کم ورکشاپ جانا بند کردے۔۔مگر اس نے سہولت سے انکار کر دیا تھا۔۔
          صبح کے دس بجے کا وقت تھا۔۔ناشتے سے فارغ ہو کر فاطمہ کچن سمیٹ رہی تھی کہ زور زور سے دروازہ بجنے کی آواز پہ اس نے گھبرا کر باہر کی طرف دیکھا۔۔اور اپنے دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی باہر نکلی۔۔
          " یالّٰلہ خیر۔۔" رضوانہ خاتون برآمدے میں بچھی چارپائی پہ لیٹی ہوئی تھیں۔۔دروازہ دھڑدھڑانے کی آواز پہ وہ بھی دھل کر اٹھی تھیں۔۔
          فاطمہ نے دروازہ کھولا تو سامنے کے منظر پہ نظر پڑتے ہی اسکی چیخ نکلی تھی۔
          کچھ لوگ دانی کو اٹھا کر گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔اسکے کپڑے لہو لہان تھے۔۔اور سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔ایک بازو بھی پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔۔ دانی کی یہ حالت دیکھ کر فاطمہ اور رضوانہ خاتون کو ایسا لگا تھا جیسے انکا دل کسی نے نکال لیا ہو۔۔دونوں نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا تھا۔۔
          ان لوگوں نے رضوانہ خاتون کے پاس بچھی دوسری چارپائی پہ دانی کو آہستہ سے لٹا دیا تھا۔۔
          " کک۔۔۔کیا ہوا ہے میرے دانی کو۔۔یہ ٹھیک تو ہے ناں۔۔"
          فاطمہ اور رضوانہ خاتون نے جلدی سے آگے کو ہو کر اسکا جسم ٹتولا تھا۔۔یہ تسلی کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے۔۔
          " بہن جی فکر نہ کریں۔۔الّٰلہ کے فضل سے سب ٹھیک ہے۔۔کچھ نہیں ہوا دانی کو۔۔سر پہ کچھ چوٹیں آئی ہیں۔۔اور کچھ بازو کو۔۔الّٰلہ نے بڑا کرم کیا ہے۔۔"
          وہاں موجود لوگوں میں سے حمید صاحب نے جواب دیا۔۔
          " مگر۔۔مگر حمید صاحب ہوا کیا تھا۔۔یہ سب کیسے ہوا۔؟"
          رضوانہ خاتون نے پرسکون گہرا سانس لیتے پوچھا۔۔
          " آپکا بیٹا بہت بہادر بچہ ہے۔۔آج اس نے جو کیا میں ساری عمر اسکا احسان مند رہوں گا۔۔ہم پر آئی مصیبت اس نے خود پہ جھیلی ہے۔۔جہاں ہر کوئی تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔ان سب میں سے ہماری مدد کو آیا بھی تو ایک پندرہ سالہ بچہ۔۔آپکا دانی۔۔۔آپکا دانی ہیرا ہے رضوانہ خاتون۔۔ہیرا۔۔"
          حمید صاحب نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔۔
          " آپ پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہیں حمید صاحب۔۔صاف صاف بتائیے کیا ہوا تھا۔۔
          " دانی ہوش میں آیے گا تو آپکو سب بتا دے گا۔۔میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ اگر دانی مدد کو نہ آتا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔۔"
          حمید صاحب یہ کہ کر ۔۔الّٰلہ حافظ بول کر باہر نکل گئے۔۔


          Comment


          • #15
            بہت خوب. نہایت عمدہ تحریر ہے. انگیجڈ رکھا ہے اس نے

            Comment


            • #16
              بہترین اپڈیٹ اسٹوری بہت دلچسپ اور کمال کی ہے

              Comment


              • #17
                Episode, 9#
                ماضی۔۔!

                حمید صاحب کی بات سن کر رضوانہ خاتون یک ٹک زخموں سے چور پڑے دانی کی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔جبکہ فاطمہ کی نظروں میں الجھن تھی۔۔وہ دھیرے سے دانی کی چارپائی کی پائنتی پہ بیٹھ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگی۔۔دونوں آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لیے اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگیں۔۔
                دوپہر کے دو بج چکے تھے۔۔فاطمہ ایک پل کو بھی دانی کے پاس سے نہیں ہلی تھی۔۔
                رضوانہ خاتون دعائیں پڑھ پڑھ کر اس پہ پھونک رہی تھیں۔۔
                " امی جان دانی کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔۔کس ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں۔۔"
                فاطمہ نے آنکھوں میں نمی لیے کہا۔۔
                " نہیں بیٹا۔۔حمید صاحب بتا تو رہے تھے کہ میڈیسن کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کچھ گھنٹے ہوش نہیں آئے گا۔۔تم بس دعا کرو۔۔الّٰلہ رحم کرے۔۔"
                رضوانہ خاتون نے دانی پہ پھونک مارتے کہا۔۔
                ابھی وہ کہ ہی رہی تھیں کہ دانی کے وجود میں یلکی سی جنبش ہوئی۔۔
                " امی لگتا یے دانی کو ہوش آ رہا ہے۔۔"
                فاطمہ نے ہرجوش آواز میں کہا۔
                تھوڑی دیر میں دانی نے آنکھیں کھول دیں۔۔
                آہ۔۔۔آنکھیں کھولتے ہی دانی کے منہ سے ہلکی سی کراہ خارج ہوئی۔
                " دانی میرے بچے۔۔تم ٹھیک ہو۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔"
                رضوانہ خاتون نے محبت سے دانی کا ہاتھ تھام کا پوچھا۔۔"
                " ماسو ماں۔۔آپ۔۔میں یہاں۔۔"
                دانی نے کراہتے ہوئے پوچھا۔
                " سب ٹھیک ہے میرے بچے۔۔حمید صاحب اور انکے ساتھ کچھ لوگ تھے جو تمہیں چھوڑ کر گئے ہیں۔۔"
                رضوانہ خاتون نے کہا۔
                " دانی یہ سب کیسے ہوا۔۔کیا ہوا تھا۔۔کس نے کیا ہے تمہارا یہ حال۔۔الّٰلہ کرے ہاتھ ٹوٹ جائیں انکے۔۔جس نے بھی تمہیں تکلیف دی۔۔"
                فاطمہ نے رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔
                " فاطمہ بیٹا یہ باتیں بعد میں سہی۔۔ ابھی تم جلدی سے جاؤ اور بھائی کے لیے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی ڈال کر لاؤ۔۔دودھ کو پہلے خوب گرم کر لینا پھر ہلدی ڈالنا۔۔
                رضوانہ خاتون نے فاطمہ کو کہا۔۔
                " نہیں ماسو ماں دودھ نہیں۔۔اور وہ بھی ہلدی والا۔۔" دانی نے منع کیا۔۔
                ماسو کی جان مجھے پتہ ہے کہ تمہیں دودھ پسند نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے۔۔ہلدی والا دودھ زخموں کو بہت جلدی ٹھیک کرتا ہے۔۔ اور جسم میں دردیں بھی نہیں ہوتیں۔۔"
                رضوانہ خاتون نے پیار سے دانی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔۔

                کچھ گھنٹوں تک دانی کی طبیعت کافی سنبھل گئ تھی۔۔اب وہ آرام سے بات کر ریا تھا۔۔
                " دانی یہ کپڑے چینج کر لو۔۔ان پہ لگا بلڈ دیکھ دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔۔شرٹ بدلنے میں میں تمہاری ہیلپ کردیتی یوں۔۔"
                فاطمہ نے دانی کے پاس کپڑے رکھتے ہوئے کہا۔
                " نہیں آپی میں کر لوں گا۔۔آپ رہنے دیں۔۔دانی کو اچھا نہیں لگا کہ فاطمہ ادکی شرٹ چینج کرے۔۔مگر جب خود کوشش کی تو بہت روکنے پی بھی اسکے منہ سے کراہ خارج ہو گئ۔۔
                " میں نے کہا تھا ناں میں کروا دیتی ہوں۔۔جانتی ہوں میرا بھائی بہت بہادر ہے۔۔اور بہت بڑا ہو گیا ہے۔۔اتنا بڑا کہ اسے اب ہماری نہ پرواہ ہے نہ ضرورت۔۔"
                فاطمہ نے دانی کی شرٹ بدلنے میں اسکی مدد کرتے ہوئے کہا۔۔لہجے میں اسکے واضح شکوہ تھا۔۔
                " آپی پلیز۔۔آپ جانتی ہیں میں آپ سے اور ماسو ماں سے کتنی محبت کرتا ہوں۔۔"
                دانی نے رسانیت سے جواب دیا۔۔
                " بیٹا ہوا کیا تھا۔۔"؟
                رضوانہ خاتون نے سوال کیا۔۔
                " ماسو ماں جب میں سکول کے لیے نکلا۔۔ تو راستے میں اچانک میری نظر حمید صاحب پہ پڑی۔۔جو اپنی بیٹی کو کالج چھوڑنے جا رہے تھے۔۔انکی بائیک خراب یو گئ تھی شائد۔۔وہ اسکو ٹھیک کر رہے تھے۔۔جب میری نظر ہڑی۔۔تو دو تین لڑکے انکی بیٹی پہ آوازیں کس رہے تھے۔۔آس پاس سے گزرنے والوں میں سے کوئی بھی انکو نہیں روک رہا تھا۔۔حمید صاحب نے ان میں سے ایک کے تھپڑ لگا دیا۔۔جس پہ وہ لڑکے غصے میں آ گئے۔۔اور انکے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی۔۔پھر ان میں سے ایک لڑکے نے انکی بیٹی کی چادر کھنیچ دی۔۔تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔۔میں فوراً انکی مدد کو گیا۔۔تو ہاتھا پائی کے دوران یہ سب ہو گیا۔۔"
                دانی نے تفصیل سے سب بتایا۔۔
                " اور اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ہمارا کیا ہوتا۔۔تم نے یہ نہیں سوچا۔۔اور لوگ بھی تو سب دیکھ رہے تھے۔۔تم اکیلے ان 3، 3 مشٹنڈوں کا کیا بگاڑ لیتے۔۔ جوش میں ہوش نہیں کھونا چاہیے دانی۔۔اب دیکھو ذرا کیا حال کیا ان لوگوں نے تمہارا۔۔"
                فاطمہ نے اسکی پوری بات سن کر تھوڑا غصے سے کہا۔۔
                " آپی جب بھی باہر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے، یا روڈ پہ کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو۔۔ہر کوئی یہی سوچ کر چپ رہتا ہے کہ میں کسی مصیبت میں نہ پھنس جاؤں۔۔اسی وجہ سے ان لوگوں کے حوصلے بڑھے ہیں۔۔
                اور اگر الّٰلہ نہ کرے یہی سب آپ کے ساتھ ہو ریا ہوتا تو کیا میں پھر بھی چپ رہتا۔۔میں انکی جان لے لیتا تو وہ بھی کم تھا۔۔اور یہی بات اس وقت میرے زہن میں آئی تھی۔۔اس وقت مجھے حمید صاحب کی بیٹی نہیں بلکہ آپ نظر آ رہی تھیں۔۔
                اور رہی بات جوش میں ہوش کھونے کی تو جب عزت غیرت پہ بات آتی ہے تو چپ رہنا بے غیرتی ہے۔۔نامردگی ہے۔۔
                اور میں بے غیرت ہرگز نہیں ہوں۔۔اور ماسو ماں اپکو یاد ہے یہ بات آپ نے ہی مجھ سے ایک بار کہی تھی کہ الّٰلہ نے مرد کو نگہبان بنایا ہے۔۔وہ اپنے گھر کی اپنے رشتوں کی نگہبانی کرتا ہے۔۔الّٰلہ نے مرد کو عورت کا محافظ بنایا ہے۔۔اور جو عورت کو تحفظ نہ دے سکے۔۔وہ اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے مگر ایک مرد نہیں۔۔
                اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی نا محرم عورت کی طرف ہاتھ بڑھانے سے۔۔اسکی طرف گندی نظروں سے دیکھنے سے پہلے بہتر ہے کہ تمہارے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے۔۔اور میں نے بھی انکے ساتھ یہی کیا۔۔انکے سر میں لویے کی سوئی گھونپ دی۔۔اگر مجھے چوٹیں آئی ہیں۔۔تو ہسپتال میں وہ بھی پڑے ہوں گے۔۔
                دانی نے آخری بات فاطمہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے سکون سے جواب دیا۔۔اسکی بات سن کر فاطمہ اور رضوانہ خاتون ہکا بکا اسکی طرف دیکھتی رہ گئیں۔۔اور فاطمہ سے اسکی بات پہ کوئی جواب نہ بن پڑا۔۔
                " دانی۔۔میرے بچے۔۔مجھے یہ تو پتہ تھا کہ میرا بچہ بہت بہادر ہے۔۔ہیرے جیسا دل ہے اسکا۔۔مگر یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک چاند جیسا بھی ہے۔۔جسکی روشنی ساری دنیا کے لیے ہے۔۔جو ساری دنیا کا اندھیرا دور کردیتا ہے۔۔وہ ایک مسیحا بھی ہے۔۔جو صرف اپنوں کی نہیں سب کی مسیحائی کرتا ہے۔۔
                اور نہ یہ پتہ تھا کہ میرا بچہ اب بچہ نہیں رہا۔۔بلکہ عزت غیرت پہ مر مٹنے والا ایک مرد ہے۔۔مجھے فخر ہے تم پہ میری جان۔۔آج اگر عالیہ اور سلطان زندہ ہوتے تو انکو بھی تم پہ بہت فخر ہوتا۔۔"
                رضوانہ خاتون نے دانی کے سر پہ شفقت بھرا بوسہ دیتے ہوئے کہا۔۔


                " اففففف۔۔یہ کیا طریقہ ہے کھانے کا۔۔سکون سے بیٹھ کر کھاؤ۔۔
                مہرالنساء نے بچیوں کو ٹوکتے ہوئے کہا۔۔جو تیز تیز بڑے بڑے نوالے لے رہی تھیں۔۔
                " امی جان دیر ہو رہی ہے۔۔اگر سٹاپ پر ٹائم سے نہ پہنچے تو بس والا چلا جائے گا چھوڑ کر۔۔"
                عائلہ اور عینا نے منہ میں بڑے بڑے نوالے ڈالتے ہوئے جلدی سے جواب دیا۔۔
                " ہاں تو دیر تم لوگوں کو کب نہیں یوتی۔۔یہ تو روز کا معمول ہے تم لوگوں کا۔۔سکون سے کھانا کھاؤ بیٹھ کر۔۔"
                مہرالنساء نے ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔
                " اوہو۔۔اجالا کی بچی یہ کیا کیا ساری چائے گرادی بدتمیز۔۔"
                ایمن نے اجالا کو غصے سے کہا۔۔اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی کہ کہیں چائے اسکے کپڑوں پہ نہ گر جائے۔۔
                "تم نہ نیچے زمین پہ بیٹھ کر کھایا کرو جاہل انسان۔۔تم اس قابل نہیں ہو کہ ٹیبل پہ بیٹھ کر کھاؤ۔۔"
                ایمن نے اپنا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔۔
                " تم خود ہو گی جاہل.."
                اجالا نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔
                " لو ہو جاؤ تم لوگ صبح صبح پھر سے شروع۔۔دونوں اپنا منہ بند کرو۔۔اور خاموشی سے اپنا ناشتہ ختم کرو۔۔"
                مہرانساء نے دونوں کو لتاڑا۔۔
                " عینا جلدی کرو یار۔۔ بس چلی گئی تو دھکے کانے ہڑیں گے دوسری بسوں میں۔۔"
                عائلہ جو کالج بیگ پکڑے عینا کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی۔۔"
                " بس 2 منٹ۔۔"
                عینا نے جلدی جلدی حجاب سیٹ کرتے عائلہ سے کہا۔۔
                " ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنی ہر چیز رات کو ریڈی کر کے سویا کرو۔۔یونیفارم بھی رات کو پریس کر کے ہینگ کر دیا کرو۔۔مگر مجال ہے کبھی سنی ہو میری۔۔"
                مہرالنساء برتن سمیٹتے غصے سے بولی جا رہی تھیں۔۔
                عائلہ اور عینا نے باری باری مہرالنساء کو سلام کیا اور دروازے سے باہر نکل گئیں۔۔
                " شکر ہے الّٰلہ کا رات کو بچت ہو گئ۔۔ورنہ اگر امی کو پتہ چل جاتا کہ ہمیں شاہ سائیں کے بیٹے چھوڑ کر گئے ہیں۔۔تو دوبارہ کبھی اجازت نہ ملتی باہر جانے کی۔۔"
                عینا نے چلتے چلتے کہا۔۔
                " ہمممممم۔۔ مجھے لگتا تھا کہ اجالا سارا بھانڈا ہھوڑ دے گی۔۔مگر شکر ہے کہ وہ بھی چپ رہی۔۔"
                عائلہ نے کہا۔۔
                " ویسے ایک بات ہے کہ شاہ سائیں کے بیٹے کافی سلجھی نیچر کے مالک ہیں۔۔"
                عینا نے کہا۔۔
                " ہاں بہتتتتت ہی زیادہ۔۔اتنی زیادہ سلجھی نیچر کے مالک ہیں کہ انکو ذرا شرم نہیں آئی اس طرح سے دیدے پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھتے ہوئے۔۔
                مجھے تو شدید غصہ آرہا ہے ان پہ۔۔نہ وہ وہاں آتے نہ میں ہڑبڑی میں پانی میں گرتی۔۔ اور تم سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ اپنے سُر اتنی اونچی آواز میں مت بکھیرا کرو۔۔"
                عائلہ نے غصے سے کہا۔۔
                یہ کیا بات ہوئی۔۔گھر میں اب کی وجہ سے منہ پہ تالا لگا کر رکھو۔۔اور باہر یہ سوچ کر کہ کوئی سن نہ لے۔۔اور اتنے غضب کے موسم میں کوئی پاگل ہی ہوگا جو منہ پہ تالا لگا کر رکھے گا۔۔انجوائے نہیں کرے گا۔۔اور تم جانتی ہو میرا انجوائے کرنے کا یہی طریقہ ہے اونچی اونچی گانا۔۔
                ویسے ایک بات ہے۔۔یہ کچھ فلمی سا نہیں ہو گیا۔۔
                پنگھٹ پہ پریاں گنگنا رہی ہیں۔۔اٹھکھیلیاں کر رہی ہیں۔۔پھر اچانک سے دو شہزادے ادھر آ نکلتے ہیں۔۔
                پھر ان میں سے ایک پری دھپ سے پانی میں گرتی ہے۔۔اور شہزادہ بھاگ کر اسکو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر پانی سے سے نکال کر لاتا ہے۔۔
                مجھے تو معاملہ گڑبڑ لگ رہا ہے۔۔تم نے نوٹ نہیں کیا تھا شائد۔۔جب ہم فجر کے ساتھ گاڑی میں کالج گئے تھے۔۔تو اس وقت بھی ٹکٹکی باندھ کر صارم شاہ دیکھے جا ریا تھا۔۔اور اب بھی تمہارے گرنے پہ سلطان نہیں بلک صارم شاہ بھاگ کر آیا تھا۔۔"
                عینا نے مسکراتے ہوئے عائلہ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
                " اپنی بکواس بند کرو۔۔اور دھیان سے چلو۔۔ایسا نہ ہو کہ اب تم گرو اور احتشام شاہ اب کی باری تمہیں اٹھانے کہیں سے آ نکلے۔۔"
                عائلہ نے غصے سے کہا۔۔
                " افففففف۔۔۔۔۔میرے الّٰلہ۔۔۔کتنا اچھا ہو اگر ایسا ہو جائے تو۔۔۔۔"
                عینا نے ایک جزب کے عالم میں کہا۔۔
                " شرم کر لو تھوڑی عینا۔۔"
                عائلہ نے دانت پیس کر کہا۔۔
                " وہ کیا ہے عائلہ تم نے سنا تو ہوگا یہ کہ جس نے کی شرم۔۔اس کے پھوٹے کرم۔۔"
                عینا نے بے شرمی سے کہا۔۔
                " لو جی پھر سمجھو ہو گئی تمہاری کالی زبان پوری۔۔پھوٹ گئے کرم۔۔سامنے دیکھو۔۔بس جا چکی ہے۔۔"
                عائلہ نے عینا کو مسکرا کر کہا۔۔عینا کی باتوں پہ غصہ آنے کے باوجود عائلہ کو ہنسی آ گئ تھی۔۔


                " ہووووو۔۔۔اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا۔۔
                جیسے کھلتا گلاب۔۔
                جیسے شاعر کا خواب۔۔
                جیسے اجلی کرن۔۔
                جیسےچاندنی رات۔۔
                جیسے رنگوں کی جان۔۔
                جیسے خوشبو لیے آئی ٹھنڈی ہوا۔۔
                ہووووو۔۔۔۔اک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا۔۔"
                صارم شاہ ایک جزب کے عالم میں اپنے کمرے میں تیار ہوتا ہوا گنگنا رہا تھا۔۔جب فجر اسکے روم میں داخل ہوئی۔۔اور اسکو زور کا جھٹکا لگا۔۔
                " صارم بھائیییییی۔۔۔۔آپ اور گانا۔۔۔خیر تو ہے۔۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔"؟
                فجر نے حیرت سے آگے کو ہو کر اسکے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے پوچھا۔۔
                " جی بلکل خیر ہے۔۔بلکہ خیر ہی خیر ہے۔۔"
                صارم شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
                " لگ تو نہیں رہی۔۔۔ یہ مسکراہٹیں۔۔یہ تیاری۔۔۔اور اس پہ گنگناہٹ۔۔وہ بھی آپ۔۔۔جنہوں نے آج تک سیٹی تک نہیں بجائی۔۔والّٰلہ بلکل بھی خیریت نہیں ہے۔۔سچ سچ بتائیں کیا معاملہ ہے۔۔۔مجھے تو دال تھوڑی نہیں پوری کی پوری کالی لگ رہی ہے۔۔"
                فجر نے چانچتی نظروں سے صارم شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
                " تم کیا کسی سپائے کی طرح میرا جائزہ لے رہی ہو۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔"
                صارم شاہ نے اپنی گاڑی کی کیز اٹھاتے ہوئے اسکے گال کھینچ کر کہا۔۔اور باہر جانے کو نکلا۔۔
                دیکھ لیجیے گا صارم بھائی مجھ سے اگر کچھ چھپایا تو بعد میں مجھ سے مت کہیے گا۔۔میں بھی کوئی مدد نہیں کروں گی۔۔"
                فجر نے پیچھے سے آواز لگائی۔۔
                " وہ تو تم کرو گی۔۔اور تم ہی کرو گی۔۔میری جان۔۔"
                صارم نے بہر نکلتے نکلتے مڑ کر کہا۔۔
                " کیاااااااا۔۔۔۔۔۔اسکا مطلب میں جو سوچ رہی وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔پلیز بتائیں ناں۔۔کون ہے وہ۔۔کیسی ہے۔۔کہاں رہتی ہے۔۔پلیزززز۔۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔"
                فجر نے صارم شاہ کا بازو پکڑ کر لاڈ سے کہا۔۔
                " بتاؤں گا ضرور بتاؤں گا۔۔۔سب سے پہلے تمہیں ہی بتاؤں گا میری جان۔۔اگر میں ناکام رہا تو۔۔۔"
                صارم شاہ نے فجر کا ماتھا چوم کر کہا۔۔اور باہر نکل گیا۔۔۔

                سٹاپ پر موڑ مڑتے اچانک اسکی نظر عائلہ اور عینا پر پڑی جو شائد کسی رکشے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔۔کیونکہ بس تو جا چکی تھی۔۔اور اس ٹائم رکشہ ملنا بھی ناممکن تھا۔۔بکاز جو چند ایک رکشے تھے وہ بھی اتنی صبح صبح سواری کم ہی لیجاتے تھے۔۔
                صارم شاہ نے اپنی گاڑی انکے ہاس لے جا کر روک دی۔۔
                " پلیز آ جائیں میں چھوڑ دیتا ہوں آپکو۔۔"
                صارم شاہ نے گاڑی سے منہ باہر نکال کر کہا۔۔
                " جی نہیں آپکا بہت بہت شکریہ۔۔ہم چلے جائیں گے۔۔"
                عائلہ نے تلخی سے کہ کر منہ دوسری طرف کر لیا۔۔
                صارم شاہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اسکی طرف دیکھا۔۔کالج یونیفارم میں حجاب کیے اسکی سحر طاری کرنے والی آنکھیں اسے اپنے سحر میں جکڑ رہی تھیں۔۔وائٹ یونیفارم پہ پنک کلر کے حجاب میں وہ دل میں اتری جا رہی تھی۔۔
                کچھ دیر انکی طرف دیکھنے کے بعد صارم شاہ نے کسی کو کال ملائی تھی۔۔اور کچھ دیر میں ہی ایک رکشہ والا انکے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا۔۔دونوں نے حیران ہو کر رکشے والے کی طرف دیکھا تھا۔۔جو بنا ان سے کچھ پوچھے سیدھا انکے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔۔پھر انکی نظر صارم شاہ پہ پڑی۔۔تو صارم شاہ کے چہرے کی مسکراہٹ انکو سب سمحھا گئ۔۔۔
                ایک پل کو عائلہ کا دل کیا کہ صاف انکار کردے۔۔بلکہ آج کالج جانا سکپ کر دے۔
                مگر پھر خیال آیا کہ آج عینا کی ایگزیم فی جمع کروانے کی بھی لاسٹ ڈیٹ ہے۔۔

                کالج کے سامنے اتر کر عائلہ نے رکشے والے کو کرایہ دینا چاہا تو وہ یہ کہ کر چلتا بنا کہ چھوٹے شاہ کا حکم سر آنکھوں پہ۔۔
                رکشے والے کی بات پہ عائلہ بھنا کر رہ گئ۔۔جبکہ عینا کے لبوں پہ بہت معنی خیز مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
                " اب تمہیں کیا تکلیف ہے۔۔ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔؟"
                عائلہ نے عینا پہ غصہ اتارا۔۔اسے عینا کا اس طرح سے دیکھنا اور مسکرانا اور تپا گیا تھا۔۔


                Comment


                • #18
                  بہت ہی کلاس کی اسٹوری ہے ایک دم یونیک

                  Comment


                  • #19
                    Episode, 10,11#
                    شوکت کے منہ سے سیٹھ شجاع کا سن کر نیلم بائی کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا۔۔سیٹھ شجاع ایک نامی گرامی جاگیردار۔۔ایک بزنس ٹائیکون ہی نہیں تھا۔۔بلکہ درحقیقت وہ ٹارگٹ کلنگ مافیا کا مگر مچھ تھا۔۔سب کی طرح وہ بھی موہنی کا عاشق۔۔اسکے رقص کا۔۔اور اسکی آواز کے سحر میں ڈوبا اس کا دیوانہ تھا۔۔وہ بھی موہنی کو پانے کا خواہش مند تھا۔۔اور اسکے لیے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار تھا۔۔مگر اس کی مرضی سے۔۔وہ چاہتا تھا کہ سب طوائفوں کی طرح موہنی خود راضی ہو۔۔مگر موہنی خود کو دلاور کی امانت سمجھ کر۔۔اسکے ساتھ کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے۔۔سب کو صاف انکار کرتی آئی تھی۔۔اس نے نیلم بائی سے صاف صاف کہ دیا تھا کہ وہ صرف رقص کرے گی۔۔اپنے وجود پہ کوئی داغ نہیں لگنے دے گی۔۔اور اگر اُس نے اسکو بیچنے کی کوشش کی۔۔تو اپنی جان دے دے گی۔۔مگر نیلم بائی کو اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔۔
                    نیلم بائی کو بس پیسوں سے غرض تھی۔۔موہنی اپنے رقص کا اور اپنی آواز کا سب لوگوں پہ ایسا سحر پھونکتی کہ سب پلکیں جھپکنا بھول جاتے۔۔لوگ پیسہ پانی کی طرح اس پہ نچھاور کرتے۔۔اس لیے نیلم بائی نے بھی اس پہ کبھی زور زبردستی نہیں کی تھی۔۔
                    سیٹھ شجاع کب سے موہنی کے سنگ اپنی راتیں رنگین کرنے کے خواب دیکھتا آ رہا تھا۔۔اور اسی انتظار میں تھا کہ ایک نہ ایک دن تو موہنی کو جھکنا پڑے گا۔۔اس بازار میں رہ کر کون آج تک باکِرہ رہ پائی تھی۔۔
                    کافی مہینوں سے اس نے ادھر کا رخ نہیں کیا تھا۔۔مگر آج اچانک اسکی آمد کا سن کر نیلم بائی بوکھلا گئی تھی۔۔اوپر سے موہنی اب باکرہ نہیں رہی تھی۔۔سیٹھ شجاع کو کیا جواب دے گی اب۔۔یہ سوچ اسے ہلکان کیے دے رہی تھی۔۔کمرۂ خاص کی طرف آتے اس کے کانوں میں سیٹھ شجاع کے بولے الفاظ گونجنے لگے۔۔۔
                    " نیلم بائی یاد رکھنا میری بات۔۔موہنی کی اگر نتھ اترے گی تو صرف میرے ہاتھوں۔۔اسکے جسم کے ہر حِصّے پہ سب سے پہلے صرف میرے نام کی مہر لگے گی۔۔اسکے بعد بے شک کسی بھی کتے بلے کے آگے ڈال دینا۔۔میری بلا سے۔۔"
                    نیلم بائی نے کمرے کے اندر پاؤں رکھا تو۔۔ایک سائیڈ پہ پڑی ریلیکسنگ چئیر پہ کائٹون کے ففٹی کا برانڈڈ سوٹ پہنے۔۔کلائی پہ رولیکس برانڈ کی واچ۔۔اور انگلیوں میں کنگ آف ڈنمارک کا سگار سلگائے۔۔ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بڑے کروفر سے بیٹھے پایا۔۔
                    " آداب حضور۔۔آج تو ہمارے بھاگ جاگ اٹھے ہیں۔۔کہ آپ ہمارے غریب خانے پہ تشریف لائے ہیں۔۔
                    اتنے عرصے سے کہاں تھے حضور۔۔آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے۔۔"
                    نیلم بائی نے کمرے کے اندر آ کر۔۔ سر کو ہلکا سا خم دے کر۔۔ہاتھ کو ماتھے پہ لیجا کر سلام کرتے۔۔خوشامدانہ انداز و لہجے میں کہا۔۔
                    سیٹھ شجاع نے سگار کے لمبے لمبے کش بھرتے۔۔ ایک گہری نگاہ نیلم بائی پہ ڈالی۔۔مگر اسکے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔
                    " موہنی کہاں ہے نیلم بائی۔۔"؟
                    سیٹھ شجاع نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں اپنی جگہ پہ بیٹھے بیٹھے۔۔سگار کا دھواں نیلم بائی کی طرف چھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔سیٹھ شجاع کی نظروں میں ایسا کچھ تھا۔۔جس نے نیلم بائی کا گلا خشک کر دیا تھا۔۔
                    " یہیں ہے حضور۔۔اپنے کمرے میں ہے۔۔بھلی چنگی۔۔"
                    نیلم بائی نے تھوک نگلتے رک رک کر کہا۔۔
                    " بھلی چنگی ہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔بھلی چنگی ہے وہ۔۔۔۔"
                    سیٹھ شجاع انتہائی تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔اور اتنی ہی تیزی سے نیلم بائی کی ایک ہاتھ سے گردن دبوچی تھی۔۔
                    " ح۔۔۔۔ح۔۔۔۔حضور۔۔۔م۔۔۔مم۔۔۔میری بات سن لیں پہلے۔۔"
                    نیلم بائی نے اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔۔
                    " کیا کہا تھا میں نے تم سے۔۔۔ہاں۔۔کیا کہا تھا۔۔۔میں نے کہا تھا ناں کہ اسکی نتھ میرے ہاتھوں اترے گی۔۔پھر کیسے۔۔۔۔۔کیسے پھر۔۔۔۔"
                    سیٹھ شجاع نے نیلم بائی کے گلے پہ مزید زور بڑھاتے ہوئے۔۔کاٹ دار لہجے میں کہا۔۔ایسا لگ رہا تھا وہ نیلم بائی کی جان لے لے گا آج۔۔
                    " ح۔۔۔حضور آپ ہماری بات تو سنیں۔۔اسکے بعد جو مرضی کہیے گا۔۔۔کیجیے گا۔۔۔"
                    نیلم بائی نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔
                    کچھ پل نیلم بائی کی طرف دیکھنے کے بعد۔۔ سیٹھ شجاع نیلم بائی کے گلے سے ہاتھ ہٹا کر۔۔پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا۔۔اور آنکھوں سے اشارہ کیا کہ کہو جو کہنا ہے۔۔
                    " حضور آپ پہلے اکثر اس غریب خانے پہ قدم رنجہ فرمایا کرتے تھے۔۔پھر اچانک آپ منظر سے غائب ہو گئے۔۔وہ بھی کچھ دن۔۔کچھ مہینوں کے لیے نہیں۔۔بلکہ پورے ڈیڑھ سال۔۔
                    انسان ملتا جلتا۔۔آتا جاتا رہے تو اسکے زندہ رہنے کا پتہ چلتا ہے۔۔جو بندہ اچانک غائب ہو جائے۔۔ہم لوگوں کی سمجھ میں تو دو ہی باتیں آتی ہیں۔۔کہ یا تو وہ گزر گیا۔۔یا اس نے دل کہیں اور لگا لیا۔۔"
                    نیلم بائی نے اپنی بات کرتے ہوئے۔۔آخری الفاظ ڈرتے ڈرتے منہ سے ادا کیے۔۔
                    " تم نے مجھے گلی کا کتا سمجھا تھا نیلم بائی۔۔کہ جسکے مرنے کا کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔۔پھر تم نے کیسے سمجھ لیا۔۔ہاں۔۔"؟
                    سیٹھ شجاع نے انتہائی شعلہ بار نظروں سے نیلم بائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
                    " میں یو کے میں کچھ لیگلی معاملات میں پھنس گیا تھا۔۔ان سے نمٹتے نمٹتے اتنا ٹائم بیت گیا۔۔یہاں واپس آیا تو یہاں آکر ایک نئ منحوس خبر سننے کو ملی۔۔"
                    سیٹھ شجاع نے اپنی چئیر پہ واپس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
                    مجھے افسوس بس اس بات کا ہے کہ مجھے آنے میں دیر ہو گئ۔۔
                    " آپ خاطر جمع رکھیے حضور۔۔ ہم آپکی خدمت میں ایسا نگینہ پیش کریں گے۔۔کہ آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔۔بلکل آپکے ذوق کے عین مطابق۔۔
                    جو موہنی سے بھی کم عمر ہے۔۔بلکل ان چھوئی۔۔"
                    نیلم بائی نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔۔
                    " ہرگز نہیں نیلم بائی۔۔اس دل کی آگ اب صرف موہنی بائی کے وجود سے ہی بجھے گی۔۔بہت صبر کر لیا ہم نے۔۔اگر ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ دلاور بازی مار جائے گا۔۔تو کبھی بھی موہنی کو اسکی مرضی پہ نہ چھوڑتے۔۔اور اب وہ ہمارے انتظار کے ایک ایک پل کا حساب چکائے گی۔۔
                    ہم موہنی سے ملنا چاہتے ہیں۔۔تیار کریں اسکو۔۔"
                    سیٹھ شجاع نے دو ٹوک لہجے میں ہر لفظ چبا چبا کر کہا۔۔

                    آج برسوں بعد ہائمہ خاتون کی چھوٹی بہن آئمہ سلطان ان سے ملنے آ رہی تھیں۔۔جو باہر کینڈا میں رہائش پزیر تھیں۔۔
                    جسکی وجہ سے صبح سے پوری حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔سب نوکروں کی شامت آئی ہوئی تھی۔۔
                    ہائمہ خاتون کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔۔خوشی کے مارے انکے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک رہے تھے۔۔
                    " اففففف۔۔۔ادھر نہیں۔۔میں نے یہ ٹیبل یہاں پہ لگانے کو کہا تھا۔۔اور یہ چئیرز بھی ساری اٹھا کے تو لا کے ادھر رکھو۔۔
                    بشیر۔۔تم چھوڑو یہ سب۔۔یہ لوگ سنبھال لیں گے۔۔تم ادھر آؤ اور کل جو نیا قالین لے کر آئے تھے وہ میرے ساتھ والے روم میں بچھا دو۔۔
                    رشیداں تمہیں پتہ ہے ناں کہ مرچ کھانے میں کم رکھنی ہے۔۔آئمہ اور اسکے بچے تیز مرچ نہیں کھاتے۔۔بھول مت جانا۔۔"
                    " ہائمہ خاتون نے باری باری سب کو ہدایتیں دیتے ہوئے کہا۔۔
                    فجر بیٹا تم نے پتہ کیا کہ تمہاری خالہ کب تک پہنچ جائیں گی۔۔ ایک بار پھر سے پتہ کر لو بیٹا۔۔"
                    اب کی بار انھوں نے فجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔
                    " امی جان کیا ہو گیا ہے۔۔ابھی کچھ دیر پہلے تو میں نے آپکو بتایا ہے کہ رات آٹھ بجے تک ہنچ جائیں گے وہ لوگ۔۔"
                    " اچھا ٹھیک ہے۔۔میرے زہن سے نکل گیا۔۔
                    اور یہ صارم کدھر ہے۔۔پتہ نہیں کہاں غائب رہنے لگا ہے یہ آج کل۔۔
                    اور احتشام کو فون کر کے پھر یاد دلا دینا تھا کہ ٹائم پہ پہنچ جائے۔۔ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ گھر آکے بیٹھے ہوں اور یہ صاحب غائب ہوں۔۔ایسے مناسب نہیں لگتا گھر کے افراد گھر پہ نہ ہوں تو آنے والے کو لگتا ہے کہ جیسے انکی کوئی اہمیت نہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔"
                    ہائمہ خاتون نے رسانیت سے کہا۔۔
                    " جی۔۔جی۔۔بلکل امی جان۔۔آپ فکر مت کریں ہم سب کو اور احتشام بھائی کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ خالہ کی کیا اہمیت ہے۔۔انکا کیا مقام ہے۔۔اور یہ بھی پتہ کہ خالہ میں جان ہے آپکی۔۔انکے سامنے تو آپکو کچھ نظر نہیں آتا۔۔بابا بھی نہیں۔۔"
                    فجر نے ہنستے ہوئے شرارت لیے لہجے میں کہا۔۔
                    " میرے لیے میرا گھر۔۔میرے بچے۔۔اور مجھ سے جڑے سب رشتے میری جان ہیں۔۔وہ بس بہت عرصے بعد آ رہی ہے ناں۔۔تو خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔۔آنکھیں ترس گئ ہیں اسکو دیکھنے کو۔۔ایک وہی تو میری ماں جائی ہے بس میکے کے نام پہ اس دنیا میں میری۔۔"
                    ہائمہ خاتون نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا۔۔
                    " اففففف۔۔۔کیا ہے امی جان۔۔میں تو آپکو چھیڑ رہی تھی بس۔۔ہم سب جانتے ہیں کہ آپ ہم سب سے بہت پیار کرتی ہیں۔۔"
                    فجر نے فوراً آگے بڑھ کر ہائمہ خاتون کے گلے میں لاڈ سے بازو حائل کر کے۔۔چٹا چٹ انکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
                    " اور احتشام بھائی کا تھوڑی دیر پہلے فون آیا تھا۔۔وہ کہ رہے تھے کہ راستے میں ہیں۔۔بس تھوڑی دیر تک پہنچنے والے ہیں۔۔
                    اور صارم رات کے مینیو کا سامان لینے گیا ہوا ہے۔۔
                    اور میں آپکے سامنے۔۔۔۔۔۔"
                    فجر نے دونوں بھائیوں کا بتاتے ہوئے۔۔لاسٹ میں پھر شرارتاً کہ کر فوراً زبان دانتوں تلے دبائی۔۔
                    " لگتا تمہارا علاج کرنا پڑے گا۔۔بہت بولنے لگی ہو تم۔۔"
                    ہائمہ خاتوں نے پیار سے فجر کے سر پہ چپت لگاتے ہوئے کہا۔۔
                    اسی وقت باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔۔
                    " اوہ لگتا ہے احتشام بھائی آ گئے ہیں"
                    " اسلام علیکم امی جان۔۔"
                    احتشام شاہ نے اندر آتے ہی جھک کر اپنی ماں کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
                    " وعلیکم اسلام۔۔"
                    ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ کے ماتھے پہ شفقت بھرا بوسہ دیتے ہوئے کہا۔۔
                    " اور گڑیا۔۔تم سناؤ۔۔کیسی ہو کیا حال ہیں۔۔"؟
                    اب کی بار احتشام شاہ نے فجر کے سر پہ پیار دیتے اور اسکو گلے لگا کر پوچھا۔۔
                    " میں ٹھیک ہوں بھیا۔۔آپ کیسے ہیں۔۔"؟
                    " میں بھی ٹھیک ہوں۔۔"
                    " امی جان میں تھوڑا فریش ہو لوں۔۔"
                    احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
                    " ہاں۔۔ہاں۔۔میرے بچے جاؤ تم۔۔تھوڑا آرام کر لو۔۔اتنی لمبی ڈرائیو سے تھک گئے ہو گے۔۔
                    ہائمہ خاتون نے کہا۔۔
                    " دین محمد۔۔دین محمد۔۔"
                    ہائمہ خاتون نے دین محمد کو اونچی آواز میں آواز دی۔۔
                    " جی۔۔جی بڑی مالکن۔۔حکم کریں۔۔"
                    دین محمد نے فوراً آواز سنتے ہی آ کر نظریں جھکا کر مؤدبانہ لہجے میں کہا۔۔
                    " دین محمد یہ احتشام شاہ کا سامان اٹھا کر اسکے روم میں رکھ دو جا کے۔۔"
                    " جی میں ابھی رکھ کے آیا۔۔"
                    دین محمد نے جواب دیا۔

                    شام کا اندیھرا رات کے اندھیرے کے ساتھ مل کر تیزی سے پورے آسمان پہ اپنے پر پھیلا ریا تھا۔۔مسجدوں میں کہیں کہیں مغرب کی اذانوں کی آواز آ رہی تھی۔۔
                    " عینا بیٹا چھت سے سوکھے ہوئے کپڑے اتار لینے تھے۔۔بلکہ سارے ہی اتار لاؤ۔۔ایسا لگتا ہے کہ آج آندھی آئے گی۔۔فضا میں مٹی مٹی سی محسوس ہو رہی ہے۔۔"
                    مہرالنساء نے عینا سے کہا۔۔جو کہ ٹی وی پہ کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی۔۔
                    " امی جان بس دو منٹ۔۔یہ شو ختم ہونے والا ہے۔۔پھر لے آتی ہوں جا کر۔۔"
                    عینا نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔۔
                    " بیٹا ابھی لے آؤ جا کر۔۔ابھی تھوڑی دیر میں اندیھرا ہو جانا ہے۔۔پھر موسم بھی مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔اگر آندھی آ گئ تو سارے کپڑے اڑ کر ادھر ادھر چلے جانے ہیں۔۔اٹھو شاباش۔۔میرا بچہ یہ بعد میں دیکھ لینا۔۔"
                    مہرالنساء نے عینا کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔

                    " عائلہ بیٹا کھانے میں اور کتنی دیر ہے۔۔تمہارے ابا کو بھوک لگی ہوگی۔۔آج دوپہر کو بھی انھوں نے کچھ نہیں کھایا۔۔"
                    مہراکنساء نے اب کچن میں آ کر عائلہ سے کہا۔۔جو رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔
                    "امی جان بس پندرہ بیس منٹ اور۔۔ہنڈیا تو تقریاً پک چکی ہے۔۔بس روٹیاں رہ گئیں ہیں۔۔آپ اجالا اور ایمن سے کہیں کہ دستر خواں بچھائیں۔۔اور برتن رکھیں۔۔
                    تب تک روٹیاں بھی پک جائیں گی۔۔"
                    عائلہ نے تیزی سے روٹی بیلتے ہوئے کہا۔۔
                    " بیٹا پہلے اپنے بابا کا کھانا مجھے ٹرے میں رکھ کے دے دو۔۔میں انکو دے دوں۔۔تھوڑا اور لیٹ ہو گیا تو ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔۔"
                    " وہ کونسا دن ہے ماں جب ہنگامہ کھڑا نہیں ہوا۔۔
                    یا ابا نے بلا وجہ چیخ و پکار نہیں کی۔۔ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی گھر میں نہیں بلکہ جیل میں رہ رہے ہیں۔۔
                    یہ نہ کرو۔۔وہ نہ کرو۔۔آہستہ بات کرو۔۔ہنسو مت ابا گھر پہ ہیں۔۔سن کر غصہ کریں گے۔۔یہی سب سنتے ہم بڑے ہوئے ہیں۔۔کبھی کبھی تو دل کرتا ہے۔۔کہ وہ اپنی انتہا دکھا ہی دیں۔۔"
                    عینا نہ جانے کب وہاں آ کھڑی ہوئی تھی۔۔اپنی ماں کے آخری الفاظ سن کر بھڑک کر انتہائی غصے اور تلخی سے بولی۔۔
                    " عینا بدتمیزی مت کرو۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا
                    تھوڑی شرم کر لو۔۔کیا اعل فول بولے جا رہی ہو۔۔ بابا ہیں وہ تمہارے۔۔"
                    مہرالنساء نے عینا کو ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔
                    " نہیں ہیں وہ میرے بابا۔۔نہیں مانتی میں انکو اہنا بابا۔۔"
                    یہ کہ کر عینا پیر پٹختی ہوئی ویاں سے چلی گئ۔۔
                    " اسکو کیا ہو گیا ہے۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے بھلی چنگی ٹی وی کے آگے بیٹھی ہوئی تھی۔۔"
                    مہرالنساء نے عینا کو ایسے جاتے دیکھ کر عائلہ مڑ کر عائلہ سے پوچھا۔۔
                    " کچھ نہیں امی جان۔۔آپ کو تو پتہ ہے کتنی حساس ہے وہ۔۔اپنے اندر کوئی بات نہیں رکھتی۔۔جو دل میں آتا بول دیتی ہے۔۔آپ فکر مت کریں۔۔میں بعد میں دیکھتی ہوں اسکو جا کے۔۔آپ یہ کھانا دے آئیں ابا کو۔۔"
                    عائلہ نے کھانے کی ٹرے مہرالنساء جو پکڑاتے ہوئے کہا۔۔

                    " مجھے کچھ ہیسوں کی ضرورت ہے۔۔"
                    مہرالنساء کھانے کے خالی برتن کمرے سے اٹھانے گئ تو رشید احمد نے کہا۔۔
                    " میں نے تم سے کچھ کہا ہے۔۔"
                    مہرالنساء کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر رشید احمد پھر بولا۔۔
                    " کتنے"
                    مہرالنساء نے برتن چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو کر پوچھا۔۔
                    " 20 لاکھ۔۔"
                    رشید احمد نے جواب دیا۔۔
                    " کیا۔۔20 لاکھ۔۔دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔اتنی بڑی رقم میں تمہیں کہاں سے دوں۔۔اور میرے پاس کہاں سے آئے اتنے پیسے۔۔"
                    مہرالنساء نے غضبناک ہو کر کہا۔۔
                    " کیوں تمہارے پاس کیوں نہیں ہیں۔۔اتنے سالوں سے میری ہی جائیداد پہ ناگن بن کر بیٹھی ہوئی ہو۔۔اپنے ہی پیسوں کے لیے مجھے ترسنا پڑتا ہے۔۔تمہارے آگے فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔۔
                    دکانیں، زمین، اور میری ماں کے زیور۔۔کیا جہیز میں لے کر آئی تھی تم۔۔تمہارے گھر والوں کی تو اتنی اوقات بھی نہیں تھی کہ تمہیں دو کپڑوں میں ہی رخصت کر دیتے۔۔
                    رشید احمد نے مہرالنساء کو بازو سے پکڑ کر زور دار جھٹکا دیتے ہوئے غصے سے کہا۔۔
                    " یہ سب نہ میرا ہے نہ تمہارا۔۔یہ میری بیٹیوں کی امانت ہے۔۔اور رہی بات ناگن بن کر بیٹھنے کی۔۔تو میں نے نہیں کہا تھا اَبّا جی سے کہ یہ سب ہمارے نام کر دیں۔۔جو تم گنوا رہے ہو۔۔یہ سب انکی محنت سے بنایا انکا تھا۔۔وہ جسے چاہے دیتے۔۔جو تمہارا تھا تم وہ اپنی عیاشیوں میں اجاڑ بیٹھے۔۔
                    اور ویسے بھی بچیوں کے 18 سال کے ہونے سے پہلے نہ تم نہ میں ایک مخصوص تعین کردہ رقم بینک سے نہ نکلوا سکتے ہیں۔۔اور نہ ہی دکانیں زمین بیچ سکتے ہیں۔۔اس لیے کچھ نہیں کر سکتی میں۔۔"
                    مہرالنساء نے اب کے ذرا نرمی سے کہا۔۔کیونکہ وہ بات بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔۔اور نہ یہ چاہتی تھی کہ آوازیں باہر تک جائیں۔۔جس سے بچیاں پریشان ہوں۔۔
                    " اگر تیری تین بیٹیاں ابھی 18 کی نہیں ہوئیں تو کیا۔۔عائلہ تو 20 ،22 کی ہو گئ ہے ناں۔۔اسکے نام جو دکان ہے۔۔مجھے اسکے کاغذات چاہیں۔۔"
                    اب کی بار رشید احمد نے کمینگی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
                    " شرم کر لو رشید احمد۔۔کچھ تو شرم کرو۔۔باپ ہو تم انکے۔۔باپ تو اپنے بچوں کے سکھ کے لیے خود کو آگ میں جھونکنے سے پہلے ایک پل کو بھی نہیں سوچتے۔۔اپنی حثیت کے مطابق دنیا جہاں کی خوشیاں اپنی اولاد کے قدموں میں لا کے ڈھیر کر دیتے ہیں۔۔تم کیسے باپ ہو۔۔جس کو یہ بھی نہیں پتہ کہ بیٹیاں بیاہنے کے قابل ہو گئ ہیں۔۔بجائے انکے مستقبل کی۔۔انکی شادی بیاہ کی فکر کرنے کے۔۔جو کچھ بچا کھچا انکے نام پہ ہے۔۔وہ بھی چھین لینا چاہتے ہو۔۔
                    ہونہہ۔۔۔میں بھی کس کو شرم دلانے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔ایک شرابی اور جواری کو۔۔جس کے کرتوت اسکے ماں باپ کو زندہ درگور کر گئے۔.
                    سیانوں نے سہی کہا ہے کہ جو شخص اپنے ماں باپ کا نہ ہو۔۔وہ کبھی کسی کا نہیں ہوتا۔۔نہ جانے کب کس وقت کس کو ڈس لے۔۔"
                    مہرالنساء نے آخری الفاظ انتہائی حقارت سے کہے۔۔
                    " دیکھو۔۔میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔میں اس وقت بہت برا پھنسا ہوا ہوں۔۔مجھے کسی کو دینے ہیں۔۔اگر نہ دے سکا تو میرا جو ہوگا۔۔سو ہوگا۔۔
                    مگر تم بھی ساری عمر پچھتاؤ گی۔۔"
                    رشید احمد نے اب کی بار ذرا نرمی سے کہا۔۔
                    رشید احمد کی بات سن کر مہرالنساء کے زہن میں اچانک اس دن آنے والے شخص کا عکس لہرایا۔۔جو خود کو رشید احمد کا دوست کہ رہا تھا۔۔حلیے سے ہی وہ کوئی شریف آدمی ہرگز نہیں لگ رہا تھا۔۔
                    " یہ دلاور کون ہے۔۔"
                    مہرالنساء کو یاد آتے ہی اس نے رشید احمد سے پوچھا۔۔
                    " تت۔۔۔تم۔۔۔تم کیسے جانتی ہو اسے۔۔"
                    رشید احمد نے مہرالنساء کے منہ سے دلاور کا نام سن کر پریشانی سے پوچھا۔۔
                    " کچھ دن پہلے آیا تھا اس نام کا کوئی آدمی۔۔کہ رہا تھا کہ تمہارا دوست ہے۔۔تمہیں نہ پا کر پھر بعد میں آنے کا کہ کر چلا گیا۔۔
                    حلیے سے بھی بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔مگر تمہارا دوست کہیں سے نہیں لگ رہا تھا وہ۔۔"
                    مہرالنساء نے سوچ سوچ کر رشید احمد کو جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔جہاں ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔

                    Comment


                    • #20
                      بہت اچھی اسٹور ی ہے بھائی اسکی ہر اپڈیٹ میں الگ ہی نشہ ہے جو قاری کو جکھڑ لیتا ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X