Episode, 12#
مہرالنساء کی بات سن کر رشید احمد کو ایک جھٹکا لگا تھا۔۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دلاور اسکے گھر تک آن پہنچے گا۔۔جہاں پہلے اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔۔اب پریشانی کی جگہ خوف نے لے لی تھی۔۔
دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑے وہ بیڈ پہ ڈھے گیا تھا۔۔مہرالنساء نے رشید احمد کو آج سے پہلے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔کچھ دیر تک وہ رشید احمد کو ایسے ہی اپنی جگہ کھڑی تکتی رہی۔۔
" رشید احمد۔۔۔تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔"؟
مہرالنساء نے رشید احمد کے تھوڑا قریب آ کر پوچھا۔۔
" کیا جواب دوں تمہیں۔۔جس بات کا ڈر تھا۔۔وہ ڈر میرے گھر تک آ پہنچا ہے۔۔"
رشید احمد نے تھکے ہارے لہجے میں کہا۔۔
" کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔اوہ۔۔۔تو پیسے تم کہیں اسی شخص کے لیے تو نہیں مانگ رہے تھے۔۔"؟
مہرالنساء نے نپے تلے لہجے میں پوچھا۔۔
" ہاں۔۔تمہارا اندازہ ٹھیک ہے۔۔"
" ہونہہ۔۔۔اور وہ پیسے تم یقیناً جوئے میں ہارے یو گے۔۔جو اب اسکو واپس کرنے ہیں۔۔
کتنا منع کرتی تھی۔۔کتنا سمجھاتی تھی تمہیں کہ باز آ جاؤ اس شیطانی کھیل سے۔۔تمہاری زندگی جو برباد ہو گی سو ہو گی۔۔مگر تمہارے ساتھ ہم بھی اسکے لپیٹے میں آ جائیں گے۔۔کچھ اور نہیں تو اپنی بچیوں کا ہی خیال کر لیتے کچھ۔۔مگر تم نے میری کبھی نہ سنی۔۔"
مہرالنساء نے ایک افسوس بھری نگاہ رشید احمد پہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔
" یہی تو دکھ ہے کہ وہ بچیاں ہیں۔۔کاش کہ تم نے کوئی بچہ بھی پیدا کر لیا ہوتا۔۔جو میرا بازو بنتا۔۔میرا سہارا بنتا۔۔مگر تم نے چار چار بوجھ میرے سینے پہ رکھ دئیے۔۔
بہرحال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا۔۔مجھے دکان کے کاغذات چاہیں صبح ہر صورت۔۔"
رشید احمد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اب کے غصے میں کہا۔۔
"سینے پہ رکھنے کی بات تو تم تب کرو رشید احمد اگر تم نے کبھی انکو باپ کی نظر سے دیکھا ہو۔۔کبھی باپ بن کر انکے سر پہ ہاتھ رکھا ہو۔۔کبھی انکے مستقبل کی فکر کی ہو۔۔کبھی انکو اپنے باپ ہونے کا مان بخشا ہو۔۔
میں آج شکر کرتی ہوں کہ ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے۔۔ورنہ وہ بھی تمہارے جیسا ہوتا۔۔اور رہی بات کاغذات کی۔۔تو وہ میں تم سے کہ چکی ہوں کہ وہ میری بچیوں کی امانت ہے۔۔وہ میں تمہیں کسی صورت نہیں دوں گی۔۔"
مہرالنساء نے بھی انتہائی غصے میں کہا۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز اب کی بار اونچی ہو گئ تھی۔۔مگر اب اسکی برداشت جواب دے گئ تھی۔۔
" میں بھی دیکھتا ہوں کہ تم کیسے نہیں دیتی۔۔"
یہ کہتے ہی رشید احمد نے پاس پڑی چئیر کو زوردار لات ماری تھی۔۔اور مہرالنساء کو بازو سے پکڑ کر اسکے چہرے پہ زور سے تھپڑ مارا تھا۔۔ایک بلند چیخ کے ساتھ مہرالنساء لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی تھی۔۔مہرانساء کی چیخ باہر کھڑی بچیوں تک بھی گئ تھی۔۔جو کب سے اندر سے آتی آوازوں پر کان دھرے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں۔۔ چیخ کی آواز سن کر عائلہ اور عینا تیزی سے کمرے میں آئیں تھیں۔۔جبکہ ایمن اور اجالا ڈر کے مارے دروازے میں ہی کھڑی روئے جا رہی تھیں۔۔
" امی جان۔۔اٹھیں پلیز۔۔"
عائلہ نے آگے بڑھ کر ماں کو زمین سے اٹھایا تھا۔۔اور سہارا دے کر بیڈ پہ بٹھایا تھا۔۔ اتنے شدید تھپڑ پہ مہرالنساء چکرا کر رہ گئ تھی۔۔کچھ دیر تک وہ سر پکڑ کر غائب دماغی سے زمین پہ ہی بیٹھی رہی۔۔
عینا آنکھوں میں غصہ اور نفرت لیے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔۔
" یہ۔۔یہ ہے ہمارا باپ۔۔اسکو آپ ہمارا باپ کہ رہی تھیں۔۔اس شخص کی عزت کرنے کو کہ رہی تھیں آپ۔۔جو باپ کہلانے کا حقدار ہی نہیں ہے۔۔ایسے باپ کے ہونے سے تو اچھا تھا کہ ہم یتیم ہوتیں۔۔یا پھر یہ سب دیکھنے سے پہلے ہم ہی مر جاتیں۔۔"
عینا نے اپنے باپ کی طرف دیکھ کر غصے اور نفرت سے کہا۔۔
" بہت زبان چلتی ہے۔۔اپنی ماں کی طرح تمہاری بھی۔۔بہت شوق ہے تمہیں مرنے کا۔۔چلو میں آج تمہارا یہ شوق بھی پورا کر دیتا ہوں۔۔"
رشید احمد نے غصے سے کہتے ساتھ ہی عینا کو گلے سے دبوچا تھا۔۔اور اسکے گلے پہ اپنی گرفت کا زور بڑھایا تھا۔۔مہرالنساء اور عینا یہ سب دیکھ کر فوراً عائلہ کو چھڑوانے کو آگے ہوئیں۔۔
" رشید احمد چھوڑو اسے۔۔"
" ابو جان آپکو الّٰلہ کا واسطہ چھوڑ دیں عینا کو۔۔"
مہرالنساء اور عائلہ نے رشید احمد کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر پیچھے کو کھینچتے اس سے عینا کا گلا چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
تو رشید احمد نے دونوں کو پیچھے کو زور سے دھکا دیا تھا۔۔گلے پہ دباؤ پڑنے سے عینا کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے رشید احمد کے سر پہ کوئی جنون سوار ہے۔۔عائلہ اور مہرالنساء نے پھر سے آگے کو ہو کر عینا کو چھڑوانے کی کوشش کی تھی۔۔اسی دوران رشید احمد کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔۔اور اسکی گرفت کمزور پٹی تھی۔۔ اس نے عینا کو چھوڑ کر نیچے جھک کر اجالا کو بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے دور اچھالا تھا۔۔اور وہ سیدھی دیوار میں جالگی تھی۔۔اجالا نے رشید احمد کی ٹانگ پر اپنی پوری طاقت سے دانت گاڑ دئیے تھے۔۔جسکی وجہ سے رشید احمد کو عینا کو چھوڑنا پڑا تھا۔۔
عینا بے سدھ ہو کر زمین پہ گر پڑی تھی۔۔اور دوسری طرف
دیوار میں لگنے سے اجالا وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔۔اسکے سر پہ شدید چوٹ آئی تھی۔۔جبکہ دروازے میں کھڑی ایمن کمرے کا یہ منظر دیکھ کر دروازے میں ہی بے ہوش ہو کر گر گئ تھی۔۔
رشید احمد کا جنون ابھی بھی کم نہیں ہو رہا تھا۔۔وہ اب تیزی سے باہر نکلا تھا۔۔اور کچن کا رخ کیا تھا۔۔
عائلہ اور مہرالنساء کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عینا کو سنبھالیں یا اجالا کو۔۔پھر عائلہ اجالا کی طرف اور مہرالنساء عینا کی طرف ہوئی تھی۔۔اس وقت پورا کمرہ ایک قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔
اسی وقت رشید احمد دوبارہ کمرے میں میں داخل ہوا۔۔اسکے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل دیکھ کر ایک لمحہ لگا تھا مہرالنساء اور عائلہ کو سب سمجھنے میں۔۔
" رشید احمد نئیں۔۔رک جاؤ۔۔رشید احمد۔۔ایسا کچھ مت کرنا۔۔تمہیں کاغذات چاہیے ناں۔۔میں تمہیں سب دے دوں گی۔۔تم جو کہو گے میں وہ کروں گی۔۔بلکہ ابھی دیتی ہوں۔۔"
ہذیانی انداز میں کہتی وہ تیزی سے اٹھ کر الماری کی طرف گئ تھی۔۔اور لاکر سے ایک پوٹلی نکال کا رشید احمد کی طرف بڑھائی تھی۔۔
" یہ۔۔یہ کچھ زیور اور پیسے ہیں۔۔مجھے بس صبح تک کی مہلت دو۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبح تمہیں بینک سے کاغذات لا دوں گی۔۔میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ میرے پاس نہیں ہیں اس وقت۔۔وہ بینک کے لاکر میں رکھوا دئیے تھے میں نے۔۔اور ویسے بھی ہمیں مار کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔۔کیونکہ تم جانتے ہو کہ اگر بچیوں کی شادی سے پہلے اگر یہ کسی بھی وجہ سے مر جاتی ہیں۔۔تو انکے نام کی ساری ہراپرٹی آغوش یتم خانے کو چلی جائے گی۔۔
مہرالنساء نے روتے ہوئے رشید احمد کے سامنے وہ پوٹلی رکھتے ہوئے کہا۔۔
رشید احمد نے دو منٹ رک کر مہرالنساء کی طرف دیکھا..اس کی بات سن کر وہ یکدم ہوش میں آیا تھا۔۔
" ٹھیک ہے صبح تک میں انتظار کر لوں گا۔۔اس سے زیادہ نہیں۔۔اور اگر صبح مجھے کاغذات نہ ملے تو میرے پاس اور بھی بہت سے راستے ہیں۔۔کاغذات حاصل کرنے کے۔۔اور اگر میں نے وہ راستے اپنائے تو تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔۔"
رشید احمد نے بچیوں کی طرف اشارہ کر کے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
رشید احمد کا اشارہ سمجھ کر مہرالنساء کانپ کر رہ گئ تھی۔۔
" نہیں۔۔۔نہیں۔۔تم فکر مت کرو میں صبح تمہیں کاغذات لا دوں گی۔۔"
مہرالنساء نے جلدی سے اسکو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔
مہرانساء کی بات سن کر رشید احمد سر ہلاتا ہوا پوٹلی پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
رشید احمد کے جاتے ہی مہرالنساء کا دھیان بچیوں کی طرف گیا۔۔اور تیزی سے انکی طرف آئی۔۔
جنکو عائلہ باری باری دیکھ رہی تھی۔۔ایمن ہوش میں آ چکی تھی۔۔عینا بھی کچھ بہتر لگ رہی تھی اب۔۔اور وہ تینوں اجالا پہ جھکی ہوئی تھیں۔۔
" امی جان اجالا کو ہوش نہیں آ ریا۔۔یہ اٹھ نہیں رہی۔۔"
عینا اور عائلہ نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
" بیٹا تم بھاگ کے جاؤ اور جلدی سے پانی لے کر آؤ۔۔"
مہرانساء نے عائلہ سے کہا۔۔
" اجالا پلیز اٹھ جاؤ۔۔میں وعدہ کرتی ہوں اب تم سے کبھی جھگڑا نہیں کروں گی۔۔پلیز اجالا اٹھ جاؤ۔۔"
ایمن اجالا کا چہرہ پکڑ کر روتے ہوئے اسکو ہلا ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
" ایمن میری جان۔۔پریشان مت ہو۔۔ابھی ٹھیک ہو جائے گی یہ۔۔"
عینا نے ایمن کو اپنے ساتھ لگا کر اسکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔۔جو اجالا کا سر اپنی گود میںرکھے یک ٹک اسکی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔کسی انہونی کے خیال سے اسکا دل لرز اٹھا تھا۔۔
پانی کے چھینٹے مارنے کے باوجود اجالا کو ہوش نہیں آ رہا تھا۔۔مہرالنساء نے اسکا ناک اور منہ بند کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔۔آہستہ آہستہ اسکی سرخ و سفید رنگت میں زردی گھلتی جا رہی تھی۔۔جس نے وہاں موجود سب لوگوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔۔
" امی جان ہمیں اجالا کو ہاسپٹل لے جانا ہو گا۔۔"
عائلہ نے اپنی ماں کا کندھا ہلایا۔۔جو ساکت نظروں سے اجالا کو تکے جا رہی تھیں۔۔
اس وقت رات کے 10 بج چکے تھے۔۔سب لوگ آئمہ سلطان کے کمرے میں براجمان تھے۔۔شاہ سائیں کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اب اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔۔
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اب سب گپ شپ کر رہے تھے۔۔
آئمہ سلطان کی ایک بیٹی رامین، اور دو بیٹے شہریار، اور شرجیل تھے۔۔
رامین دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔۔جبکہ شہریار بڑا، اور شرجیل چھوٹا تھا۔۔
" آنی اس لڑکی کا آپ نے تعارف نہیں کروایا۔۔کب سے گم صم بیٹھی بس ہماری باتیں سنی جا رہی ہے۔۔کہاں سے اٹھا کر لائی ہیں اسکو۔۔"
صارم شاہ نے رامین کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔کچھ لمحے کو تو کوئی بھی سمجھ نہ سکا کہ وہ کیا بات کر رہا ہے۔۔پھر سمجھ آنے پہ سب کا زوردار قہقہ چھوٹا تھا۔۔
" یہ بس ابھی تم لوگوں کے سامنے چپ ہے۔۔گھر میں تو ہماری ناک میں دم کیے رکھتی ہے۔۔شرجیل نے ہنس کر کہا۔۔
" ہیںننننننن۔۔۔۔کیا ہماری شکلیں اتنی خوفناک ہیں۔۔کہ ہمیں دیکھ کر اسے چپ لگ گئ ہے۔۔"
صارم شاہ نے مسکین سی صورت بنا کر اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
جبکہ رامین بس مسکرا کر رہ گئ۔۔
" خبردار اگر کسی نے بھی میری بیٹی کو تنگ کیا تو۔۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔"
ہائمہ خاتون نے پاس بیٹھی رامین کو گلے سے لگاتے سب کو مصنوعی خفگی سے گھورا۔۔
" میرا خیال ہے اب چائے پی لینی چاہیے۔۔کیا خیال ہے آپ سب کا۔۔"
ہائمہ خاتون نے سب کی طرف ایک نظر ڈال کر پوچھا۔۔
" جی آپا منگوا لیں۔۔"
آئمہ سلطان نے جواب دیا۔۔
" فجر بیٹا رشیداں بوا سے کہو کہ چائے لے آئیں سب کے لیے۔۔"
" امی جان رشیداں بوا تو اپنے گھر چلی گئ ہیں۔۔ میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ وہ چلی جائیں۔۔رات کافی ہو گئ تھی۔۔اس لیے مجھے مناسب نہیں لگا انکو بس چائے کے لیے روکنا۔۔باقی کا سارا کام وہ نمٹا گئ تھیں۔۔میں ابھی بنا کر لے آتی ہوں۔۔"
فجر نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔
آئمہ سلطان نے مسکراتے ہوئے فجر کی طرف دیکھا تھا۔۔اور پھر شرجیل کی طرف۔۔
" یہ لیں جی گرما گرم چائے۔۔اور پی کر بتائیں کیسی بنی ہے۔۔"
فجر نے سب کو باری باری چائے سرو کرتے ہوئے کہا۔۔شرجیل نے چائے پکڑتے ہوئے ایک گہری نگاہ فجر پہ ڈالی تھی۔۔جس پہ ایک لمحہ کو وہ گڑبڑا کر رہ گئ تھی۔۔سب کو چائے سرو کرنے کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر اپنا چائے کا کپ لے کر جا بیٹھی۔۔
شرجیل چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا کن اکھیوں سے فجر کی طرف بھی گاہے بگاہے نظر ڈال لیتا۔۔
ڈارک کھلتے ہوئے لونگ میرون فراک میں جس کے گلے اور گھیرے پر بہت نفیس سا کام کیا گیا تھا۔۔اور سکن کلر کے پاجامہ میں۔۔
بالوں کو سلیقے سے کیچر سے سمیٹے۔۔ایک سائیڈ سے چھوٹی سی کانوں تک آتی لٹ نکالے۔۔سرخ و سفید رنگت۔۔گھنی خمدار پلکیں لیے وہ بلا شبہ بہت حسین تھی۔۔فجر اپنی چائے ختم کر کے آئمہ خاتون کی گود میں سر رکھ کر لاڈ سے لیٹ گئ۔۔
" آنی اٹس ناٹ فئیر۔۔آپکو پتہ ہے آپ کتنی دیر بعد پاکستان آئی ہیں۔۔امی جان تو اداس تھیں ہی۔۔لیکن ہم بھی بہت مس کرتے تھے آپکو۔۔جس دن آپ کینڈا شفٹ ہوئی تھیں۔۔امی جان نے سارا دن رو رو کر گزارا تھا۔۔اور اب جب آپ کے آنے کا پتہ چلا تو پورے گھر کی ملازموں سمیت شامت آئی ہوئی تھی۔۔سب کی خوب لفٹ رائٹ ہوئی تھی۔۔"
فجر نے آئمہ سلطان کے ساری کاروائی گوش گزار کی۔۔
" آپا کا تو مجھے پتہ ہے۔۔تم بتاؤ تم نے مجھے کتنا مس کیا۔۔"
آئمہ سلطان نے فجر کے ماتھے پہ پیار سے بوسہ دیا۔۔اور اسکو زور سے ہگ کرتے ہوئے پوچھا۔۔
" اتنااااااااا۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اتناااااااا سارا۔۔"
فجر نے پہلے تھوڑے سے بازو وا کیے۔۔پھر پورے بازو وا کر کے جوش و محبت سے کہا۔۔
" کیا سچ میں۔۔؟
" تو اور کیا"
وہ اس وقت بلکل بچی بنی بچوں کی طرح آئمہ سلطان سے لاڈ کر رہی تھی۔۔اور سب انکو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔
" امی جان لگتا ہے پھر کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جس سے فجر کو آپکو مس نہ کرنا پڑے۔۔اور ہمیشہ آپکے سامنے رہے۔۔"
رامین نے معنی خیز نظروں سے شرجیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
" سچ میں آنی کیا ایسا ہو سکتا ہے۔۔"
" ہاں میری جان کیوں نہیں۔۔اگر آپا اور بھیا مان جائیں تو۔۔"
آئمہ سلطان نے ہائمہ خاتون کی طرف دیکھ کر ذومعنی انداز لیے کہا۔۔
" امی جان اور بابا کو کیا اعتراض ہو گا آنی۔۔امی جان تو بہت خوش ہوں گی۔۔اگر آپ ہمارے پاس ہمارے سامنے رہیں۔۔کیوں امی جان میں ٹھیک کہ رہی ہوں ناں۔۔
وہاں بیٹھے سب لوگ تقریباً آئمہ سلطان کی باتوں کا مفہوم سمجھ چکے تھے۔۔اور دبی دبی مسکراہٹ سب کے لبوں پہ رقصاں تھی۔۔
مگر فجر ابھی تک انجان تھی۔۔
" میرا خیال ہے رات کافی ہوگئ ہے۔۔اب سونا چاہیے۔۔باقی باتیں صبح سہی۔۔"
ہائمہ خاتوں نے گھڑی کی طرف نگاہ کی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔۔گپ شپ کرتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔
" اوکے شب بخیر"
" شب بخیر"
سب اٹھ کر باری باری اپنے کمروں کی طرف چل دئیے۔۔شرجیل اور شہریار کے لیے ایک روم، اور آئمہ اور رامین کے لیے ایک الگ روم سیٹ کیا گیا تھا۔۔احتشام اور صارم کا الگ الگ روم تھا۔۔مگر مہمانوں کی وجہ سے صارم کا روم شرجیل اور شہریار کے لیے سیٹ کر دیا گیا تھا۔۔اور صارم کچھ دنوں کے لیے احتشام شاہ کے روم میں شفٹ ہو گیا تھا۔۔
صارم شاہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا۔۔تو اسی وقت دین محمد نے اسکو پکارا۔۔
" سائیں باہر کوئی خاتوں آئی ہیں۔۔آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔۔کافی پریشان لگ رہی ہیں وہ۔۔"
" اس وقت مجھ سے ملنے کون آ سکتا ہے۔۔خیر چلو دیکھتے ہیں"
نیلم بائی موہنی کے کمرے کی طرف آئی تو گلشن ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے واپس جا رہی تھی۔۔
نیلم بائی نے آنکھ کے اشارے سے گلشن سے دریافت کیا کہ موہنی نے کھانا کھایا ہے یا نہیں۔۔
گلشن بائی نے نفی میں سر ہلایا تو غصے کی ایک لہر اسکے دل و دماغ میں اٹھی تھی۔۔
" بائی ویسے یہ بہت زیادتی والی بات ہے۔۔ہم سب کماتی ہیں تو کھاتی ہیں۔۔موہنی دے کہیں زیادہ ہم کام کرتی ہیں۔۔پھر بھی ہمارے ایسے نخرے نہیں اٹھائے جاتے۔۔ہم صرف ناچتی نہیں ہیں۔۔بلکہ۔روز جسم کے بھوکے ہمارے بدن کو بھنبھوڑتے ہیں۔۔اور ہم اف تک نہیں کرتیں۔۔اسکے ساتھ ایسا کونسا انوکھا کام ہوا ہے۔۔جو اس نے یوں ماتم بچھایا ہوا ہے۔۔آج مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر اسکا ماتم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔
یہ سب آپکی نرمی اور ڈھیل کا نتیجہ ہے۔۔دو کلاسیں کیا پڑھ لی ہیں۔۔خود کو کسی مندر مسجد کی طرح مقدس سمجھنے لگی ہے۔۔
بائی آپکو اب سختی کرنی ہوگی۔۔یہاں رہنا ہے تو سب کی طرح کام کرنا ہوگا۔۔اور اسکو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ یہ کوٹھا ہے۔۔یہاں لوگ جوتے باہر اتار کر وضو کر کے نہیں آتے۔۔بلکہ غلاظت سے لتھڑے یہاں آتے ہیں۔۔اپنا گند ہمارے جسموں سے دھونے کے لیے۔۔ہفتے میں دو بار بس کام کرتی ہے۔۔اور سب اسکے آگے پیچھے ایسے پھرتے ہیں ۔۔جیسے یہ کوئی مہارانی ہے۔۔اور ہم۔اسکے نوکر ہیں۔۔
آج کے بعد میں دوبارہ ہرگز اسکے لیے کھانا لیکر نہیں جاؤں گی۔۔"
گلشن غصے اور تنفر سے بولتی وہاں سے چلتی بنی۔۔گلشن کی باتوں سے بغاوت کی بو آ رہی تھی۔۔اور اگر یہ بغاوت زور پکڑ لے تو نیلم بائی کا راج نست و نابود ہوتے ایک لمحہ بھی نہ لگے گا۔۔اور ایسا نیلم بائی ہرگز نہیں ہونے دیتی۔۔انھی سوچوں کے تانے بانے بنتی وہ موہنی کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
" میں نے تم سے کہا ناں گلشن کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔۔مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔۔تم پھر واپس آ گئ ہو۔۔چلی جاؤ یہاں سے اور دوبارہ مت آنا۔۔"
موہنی بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی۔۔آنکھوں پہ بازو دھرے۔۔ بنا بازو ہٹائے۔۔بنا دیکھے غصے سے بولی تھی۔۔وہ سمجھی تھی کہ شائد گلشن پھر سے کھانا لے کر آ گئ ہے۔۔
" گلشن نہیں میں ہوں۔۔تم نے کھانا کیوں واپس بھجوایا ہے۔۔"
نیلم بائی نے کڑے تیوروں سے موہنی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔.
نیلم بائی کی آواز سن کر موہنی فوراً اٹھ کر سیدھی کر بیٹھی تھی۔۔
" دو دن پہلے سیٹھ شجاع آیا تھا۔۔میں نے تمہارا لحاظ کر کے تمہاری بات مان کر جس طرح سے اسکو سمجھا بجھا کر واپس لوٹایا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔۔اور اب یہ کھانا پینا چھوڑنا۔۔یہ نخرے۔۔یہ سب کیا ہے آخر۔۔
تم نے کچھ ٹائم مانگا میں نے دیا۔۔تم نے سیٹھ شجاع کو ملنے سے انکار کیا۔۔میں نے مانا۔۔اتنے سالوں سے تمہاری سن سن کر۔۔تمہاری مان مان کر میری جان مصیبت میں آنے لگی ہے۔۔
تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوٹھے کی سب لڑکیوں میں بغاوت پیدا ہو رہی ہے۔۔اور ایسا میں کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔
آج شام کو سیٹھ شجاع کو میں آنے کا بول دیا ہے۔۔تیار ہو جانا اچھے سے۔۔
نیلم بائی کی بات پہ موہنی نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔مگر نیلم بائی نے ان دیکھا کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔
یہاں رہنا ہے تو کام بھی کرنا ہوگا۔۔تم نے مجھے یہ بات سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے موہنی کہ میں نے تمہیں پڑھنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔۔
تمہیں اتنا وقت دے کر۔۔تمہاری بات مان کر غلطی کی۔۔مگر اب بس۔۔جو میں نے کہا ہے اسکو اپنے دماغ میں بٹھا لو اچھے سے۔۔دوبارہ نہ کہنا پڑے مجھے۔۔
میں کھانا بھیج رہی ہوں۔۔کھا لینا وہ۔۔"
نیلم بائی نے بے لچک اور دو ٹوک لہجہ اپناتے ہوئے اپنی بات مکلمل کی تھی۔۔اور کمرے سے باہر جانے کے لیے قدم موڑے۔۔
" میرا دل۔نہیں مانتا خانم۔۔مجھ پہ رحم کرو۔۔"
موہنی نے نیلم بائی کے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے فریاد کی۔۔
" میں نے آج تک رحم ہی کیا ہے موہنی۔۔کبھی تم پہ زبردستی نہیں کی۔۔میں تو ایک بائی ہوں ناں۔۔ایک گری ہوئی عورت۔۔اور اس گری ہوئی عورت نے ہمیشہ تمہاری سنی۔۔
مگر کیا اس معاشرے کے لوگوں نے تم پہ رحم کیا۔۔جس کی خاطر سب سے لڑتی آئی کیا اس نے تم پہ رحم کیا۔۔
میں نے تمہاری ماں سے کیا وعدہ ہمیشہ نبھایا ہے موہنی۔۔تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نیلم بائی جسموں کے ساتھ زبان بھی بیچتی ہے۔۔اور یہ تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔
رہی دل کی بات تو یاد رکھنا کہ طوائفوں کے سینے میں دل نہیں ہوتے۔۔بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔۔جس کا کام بس جسم کو خون سپلائی کرنا ہے تا کہ سانسیں چلتی رہیں۔۔
اور نہ ہی عشق و عاشقی کی کوئی راہ گزر اس دل سے ہو کر گزرتی ہے۔۔
کوٹھوں کی تاریخ گواہ ہے موہنی کہ جب جب بھی کسی طوائف نے اس راہ گزر پہ قدم رکھنے کی جرأت کی ہے۔۔وہ کبھی منزل پہ نہیں پہنچی۔۔بلکہ
وہ آبلہ پا ہو کر زخمی روح و دل لے کر واپس یہیں آئی ہے۔۔جو نہیں آئی وہ خود موت کی آغوش میں جا سوئی۔۔
عشق پیار محبت یہ سب جزبے احساسات ہمارے لیے نہیں بنے۔۔یہ سب باہر کی دنیا والوں کے لیے ہیں۔۔
ہمارے لیے تو یہ بس لفظ ہیں۔۔جنکے ساتھ ہم کھیلتی ہیں۔۔
اور جو جتنی زیادہ اس کھیل کی ماہر ہوتی ہے۔۔اسکے چاہنے والے اور قدردان اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔۔اور وہی پھر اس کوٹھے پہ راج بھی کرتی ہے۔۔
تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہاں سے چلی جاؤ۔۔یا پھر یہاں رہ کر ہمارے رنگ میں رنگ جاؤ۔۔
دونوں میں سے جو بھی چوز کرو۔۔بس یہ یاد رکھنا کہ اگر تم یہاں سے جانے کا فیصلہ کرتی ہو تو باہر دنیا میں قدم قدم پر تمہیں بھیڑئیے ملیں گے۔۔جو تمہیں نوچ کھسوٹ کر ایک دن پھر یہیں لا پھنکیں گے۔۔مگر تمہیں ہماری دنیا پھر قبول نہیں کرے گی۔۔
اگر یہاں رہتی ہو تو یہی بھیڑئیے تمہارے تلوے چاٹیں گے۔۔تمہاری اک نگاہ پہ لاکھوں کروڑوں لٹانے کو تیار ہوں گے۔۔
اور یہ تم پہ ہوگا کہ تم کسی کو پاس آنے دو یا نہ آنے دو۔۔یہ تمہاری مرضی۔۔ایک ملکہ ایک مہارانی کی جیسی زندگی ہوگی یہاں تمہاری۔۔میرا مشورہ ہے تم سیٹھ شجاع کو چن لو۔۔وہ دیوانہ ہے تمہارا۔۔اسے اپنی انگلیوں کے اشارے پہ جیسے چاہے مرضی نچاؤ۔۔اسکی ہو کر رہو گی تو کسی اور کی جرأت نہیں ہو گی کہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔۔اسکی گارنٹی میں تمہیں دیتی ہوں۔۔"
نیلم بائی نے اب کی بار اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے بات کی تھی۔۔
" ہوئی تو یہ بھی حرام کی زندگی ہی ناں۔۔"
موہنی نے دکھ سے کہا۔۔
برتن میں ایک کتا منہ مارے۔۔یا ہزار۔۔برتن تو ناپاک ہی کہلاتا ہے۔۔اور مانو نہ مانو تم بھی ہمارے جیسی ہو چکی ہو..اس حقیقت کو جتنی جلدی قبول کر لو گی۔۔تمہارے لیے اتنا اچھا ہوگا۔۔
امید ہے کہ تم سیٹھ شجاع کے آنے پہ مجھے مایوس نہیں کرو گی۔۔آج تک میں نے تمہاری سنی۔۔تم آج میری سن لو۔۔"
یہ کہ کر نیلم بائی وہاں رکی نہیں تھی۔۔اسے سوچنے سمجھنے کے لیے وقت دے کر کمرے سے باہر نکل گئ تھی۔۔
مہرالنساء کی بات سن کر رشید احمد کو ایک جھٹکا لگا تھا۔۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دلاور اسکے گھر تک آن پہنچے گا۔۔جہاں پہلے اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔۔اب پریشانی کی جگہ خوف نے لے لی تھی۔۔
دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑے وہ بیڈ پہ ڈھے گیا تھا۔۔مہرالنساء نے رشید احمد کو آج سے پہلے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔کچھ دیر تک وہ رشید احمد کو ایسے ہی اپنی جگہ کھڑی تکتی رہی۔۔
" رشید احمد۔۔۔تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔"؟
مہرالنساء نے رشید احمد کے تھوڑا قریب آ کر پوچھا۔۔
" کیا جواب دوں تمہیں۔۔جس بات کا ڈر تھا۔۔وہ ڈر میرے گھر تک آ پہنچا ہے۔۔"
رشید احمد نے تھکے ہارے لہجے میں کہا۔۔
" کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔اوہ۔۔۔تو پیسے تم کہیں اسی شخص کے لیے تو نہیں مانگ رہے تھے۔۔"؟
مہرالنساء نے نپے تلے لہجے میں پوچھا۔۔
" ہاں۔۔تمہارا اندازہ ٹھیک ہے۔۔"
" ہونہہ۔۔۔اور وہ پیسے تم یقیناً جوئے میں ہارے یو گے۔۔جو اب اسکو واپس کرنے ہیں۔۔
کتنا منع کرتی تھی۔۔کتنا سمجھاتی تھی تمہیں کہ باز آ جاؤ اس شیطانی کھیل سے۔۔تمہاری زندگی جو برباد ہو گی سو ہو گی۔۔مگر تمہارے ساتھ ہم بھی اسکے لپیٹے میں آ جائیں گے۔۔کچھ اور نہیں تو اپنی بچیوں کا ہی خیال کر لیتے کچھ۔۔مگر تم نے میری کبھی نہ سنی۔۔"
مہرالنساء نے ایک افسوس بھری نگاہ رشید احمد پہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔
" یہی تو دکھ ہے کہ وہ بچیاں ہیں۔۔کاش کہ تم نے کوئی بچہ بھی پیدا کر لیا ہوتا۔۔جو میرا بازو بنتا۔۔میرا سہارا بنتا۔۔مگر تم نے چار چار بوجھ میرے سینے پہ رکھ دئیے۔۔
بہرحال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا۔۔مجھے دکان کے کاغذات چاہیں صبح ہر صورت۔۔"
رشید احمد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اب کے غصے میں کہا۔۔
"سینے پہ رکھنے کی بات تو تم تب کرو رشید احمد اگر تم نے کبھی انکو باپ کی نظر سے دیکھا ہو۔۔کبھی باپ بن کر انکے سر پہ ہاتھ رکھا ہو۔۔کبھی انکے مستقبل کی فکر کی ہو۔۔کبھی انکو اپنے باپ ہونے کا مان بخشا ہو۔۔
میں آج شکر کرتی ہوں کہ ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے۔۔ورنہ وہ بھی تمہارے جیسا ہوتا۔۔اور رہی بات کاغذات کی۔۔تو وہ میں تم سے کہ چکی ہوں کہ وہ میری بچیوں کی امانت ہے۔۔وہ میں تمہیں کسی صورت نہیں دوں گی۔۔"
مہرالنساء نے بھی انتہائی غصے میں کہا۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز اب کی بار اونچی ہو گئ تھی۔۔مگر اب اسکی برداشت جواب دے گئ تھی۔۔
" میں بھی دیکھتا ہوں کہ تم کیسے نہیں دیتی۔۔"
یہ کہتے ہی رشید احمد نے پاس پڑی چئیر کو زوردار لات ماری تھی۔۔اور مہرالنساء کو بازو سے پکڑ کر اسکے چہرے پہ زور سے تھپڑ مارا تھا۔۔ایک بلند چیخ کے ساتھ مہرالنساء لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی تھی۔۔مہرانساء کی چیخ باہر کھڑی بچیوں تک بھی گئ تھی۔۔جو کب سے اندر سے آتی آوازوں پر کان دھرے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں۔۔ چیخ کی آواز سن کر عائلہ اور عینا تیزی سے کمرے میں آئیں تھیں۔۔جبکہ ایمن اور اجالا ڈر کے مارے دروازے میں ہی کھڑی روئے جا رہی تھیں۔۔
" امی جان۔۔اٹھیں پلیز۔۔"
عائلہ نے آگے بڑھ کر ماں کو زمین سے اٹھایا تھا۔۔اور سہارا دے کر بیڈ پہ بٹھایا تھا۔۔ اتنے شدید تھپڑ پہ مہرالنساء چکرا کر رہ گئ تھی۔۔کچھ دیر تک وہ سر پکڑ کر غائب دماغی سے زمین پہ ہی بیٹھی رہی۔۔
عینا آنکھوں میں غصہ اور نفرت لیے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔۔
" یہ۔۔یہ ہے ہمارا باپ۔۔اسکو آپ ہمارا باپ کہ رہی تھیں۔۔اس شخص کی عزت کرنے کو کہ رہی تھیں آپ۔۔جو باپ کہلانے کا حقدار ہی نہیں ہے۔۔ایسے باپ کے ہونے سے تو اچھا تھا کہ ہم یتیم ہوتیں۔۔یا پھر یہ سب دیکھنے سے پہلے ہم ہی مر جاتیں۔۔"
عینا نے اپنے باپ کی طرف دیکھ کر غصے اور نفرت سے کہا۔۔
" بہت زبان چلتی ہے۔۔اپنی ماں کی طرح تمہاری بھی۔۔بہت شوق ہے تمہیں مرنے کا۔۔چلو میں آج تمہارا یہ شوق بھی پورا کر دیتا ہوں۔۔"
رشید احمد نے غصے سے کہتے ساتھ ہی عینا کو گلے سے دبوچا تھا۔۔اور اسکے گلے پہ اپنی گرفت کا زور بڑھایا تھا۔۔مہرالنساء اور عینا یہ سب دیکھ کر فوراً عائلہ کو چھڑوانے کو آگے ہوئیں۔۔
" رشید احمد چھوڑو اسے۔۔"
" ابو جان آپکو الّٰلہ کا واسطہ چھوڑ دیں عینا کو۔۔"
مہرالنساء اور عائلہ نے رشید احمد کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر پیچھے کو کھینچتے اس سے عینا کا گلا چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
تو رشید احمد نے دونوں کو پیچھے کو زور سے دھکا دیا تھا۔۔گلے پہ دباؤ پڑنے سے عینا کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے رشید احمد کے سر پہ کوئی جنون سوار ہے۔۔عائلہ اور مہرالنساء نے پھر سے آگے کو ہو کر عینا کو چھڑوانے کی کوشش کی تھی۔۔اسی دوران رشید احمد کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔۔اور اسکی گرفت کمزور پٹی تھی۔۔ اس نے عینا کو چھوڑ کر نیچے جھک کر اجالا کو بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے دور اچھالا تھا۔۔اور وہ سیدھی دیوار میں جالگی تھی۔۔اجالا نے رشید احمد کی ٹانگ پر اپنی پوری طاقت سے دانت گاڑ دئیے تھے۔۔جسکی وجہ سے رشید احمد کو عینا کو چھوڑنا پڑا تھا۔۔
عینا بے سدھ ہو کر زمین پہ گر پڑی تھی۔۔اور دوسری طرف
دیوار میں لگنے سے اجالا وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔۔اسکے سر پہ شدید چوٹ آئی تھی۔۔جبکہ دروازے میں کھڑی ایمن کمرے کا یہ منظر دیکھ کر دروازے میں ہی بے ہوش ہو کر گر گئ تھی۔۔
رشید احمد کا جنون ابھی بھی کم نہیں ہو رہا تھا۔۔وہ اب تیزی سے باہر نکلا تھا۔۔اور کچن کا رخ کیا تھا۔۔
عائلہ اور مہرالنساء کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عینا کو سنبھالیں یا اجالا کو۔۔پھر عائلہ اجالا کی طرف اور مہرالنساء عینا کی طرف ہوئی تھی۔۔اس وقت پورا کمرہ ایک قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔
اسی وقت رشید احمد دوبارہ کمرے میں میں داخل ہوا۔۔اسکے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل دیکھ کر ایک لمحہ لگا تھا مہرالنساء اور عائلہ کو سب سمجھنے میں۔۔
" رشید احمد نئیں۔۔رک جاؤ۔۔رشید احمد۔۔ایسا کچھ مت کرنا۔۔تمہیں کاغذات چاہیے ناں۔۔میں تمہیں سب دے دوں گی۔۔تم جو کہو گے میں وہ کروں گی۔۔بلکہ ابھی دیتی ہوں۔۔"
ہذیانی انداز میں کہتی وہ تیزی سے اٹھ کر الماری کی طرف گئ تھی۔۔اور لاکر سے ایک پوٹلی نکال کا رشید احمد کی طرف بڑھائی تھی۔۔
" یہ۔۔یہ کچھ زیور اور پیسے ہیں۔۔مجھے بس صبح تک کی مہلت دو۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبح تمہیں بینک سے کاغذات لا دوں گی۔۔میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ میرے پاس نہیں ہیں اس وقت۔۔وہ بینک کے لاکر میں رکھوا دئیے تھے میں نے۔۔اور ویسے بھی ہمیں مار کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔۔کیونکہ تم جانتے ہو کہ اگر بچیوں کی شادی سے پہلے اگر یہ کسی بھی وجہ سے مر جاتی ہیں۔۔تو انکے نام کی ساری ہراپرٹی آغوش یتم خانے کو چلی جائے گی۔۔
مہرالنساء نے روتے ہوئے رشید احمد کے سامنے وہ پوٹلی رکھتے ہوئے کہا۔۔
رشید احمد نے دو منٹ رک کر مہرالنساء کی طرف دیکھا..اس کی بات سن کر وہ یکدم ہوش میں آیا تھا۔۔
" ٹھیک ہے صبح تک میں انتظار کر لوں گا۔۔اس سے زیادہ نہیں۔۔اور اگر صبح مجھے کاغذات نہ ملے تو میرے پاس اور بھی بہت سے راستے ہیں۔۔کاغذات حاصل کرنے کے۔۔اور اگر میں نے وہ راستے اپنائے تو تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔۔"
رشید احمد نے بچیوں کی طرف اشارہ کر کے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
رشید احمد کا اشارہ سمجھ کر مہرالنساء کانپ کر رہ گئ تھی۔۔
" نہیں۔۔۔نہیں۔۔تم فکر مت کرو میں صبح تمہیں کاغذات لا دوں گی۔۔"
مہرالنساء نے جلدی سے اسکو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔
مہرانساء کی بات سن کر رشید احمد سر ہلاتا ہوا پوٹلی پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
رشید احمد کے جاتے ہی مہرالنساء کا دھیان بچیوں کی طرف گیا۔۔اور تیزی سے انکی طرف آئی۔۔
جنکو عائلہ باری باری دیکھ رہی تھی۔۔ایمن ہوش میں آ چکی تھی۔۔عینا بھی کچھ بہتر لگ رہی تھی اب۔۔اور وہ تینوں اجالا پہ جھکی ہوئی تھیں۔۔
" امی جان اجالا کو ہوش نہیں آ ریا۔۔یہ اٹھ نہیں رہی۔۔"
عینا اور عائلہ نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
" بیٹا تم بھاگ کے جاؤ اور جلدی سے پانی لے کر آؤ۔۔"
مہرانساء نے عائلہ سے کہا۔۔
" اجالا پلیز اٹھ جاؤ۔۔میں وعدہ کرتی ہوں اب تم سے کبھی جھگڑا نہیں کروں گی۔۔پلیز اجالا اٹھ جاؤ۔۔"
ایمن اجالا کا چہرہ پکڑ کر روتے ہوئے اسکو ہلا ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
" ایمن میری جان۔۔پریشان مت ہو۔۔ابھی ٹھیک ہو جائے گی یہ۔۔"
عینا نے ایمن کو اپنے ساتھ لگا کر اسکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔۔جو اجالا کا سر اپنی گود میںرکھے یک ٹک اسکی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔کسی انہونی کے خیال سے اسکا دل لرز اٹھا تھا۔۔
پانی کے چھینٹے مارنے کے باوجود اجالا کو ہوش نہیں آ رہا تھا۔۔مہرالنساء نے اسکا ناک اور منہ بند کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔۔آہستہ آہستہ اسکی سرخ و سفید رنگت میں زردی گھلتی جا رہی تھی۔۔جس نے وہاں موجود سب لوگوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔۔
" امی جان ہمیں اجالا کو ہاسپٹل لے جانا ہو گا۔۔"
عائلہ نے اپنی ماں کا کندھا ہلایا۔۔جو ساکت نظروں سے اجالا کو تکے جا رہی تھیں۔۔
اس وقت رات کے 10 بج چکے تھے۔۔سب لوگ آئمہ سلطان کے کمرے میں براجمان تھے۔۔شاہ سائیں کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اب اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔۔
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اب سب گپ شپ کر رہے تھے۔۔
آئمہ سلطان کی ایک بیٹی رامین، اور دو بیٹے شہریار، اور شرجیل تھے۔۔
رامین دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔۔جبکہ شہریار بڑا، اور شرجیل چھوٹا تھا۔۔
" آنی اس لڑکی کا آپ نے تعارف نہیں کروایا۔۔کب سے گم صم بیٹھی بس ہماری باتیں سنی جا رہی ہے۔۔کہاں سے اٹھا کر لائی ہیں اسکو۔۔"
صارم شاہ نے رامین کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔کچھ لمحے کو تو کوئی بھی سمجھ نہ سکا کہ وہ کیا بات کر رہا ہے۔۔پھر سمجھ آنے پہ سب کا زوردار قہقہ چھوٹا تھا۔۔
" یہ بس ابھی تم لوگوں کے سامنے چپ ہے۔۔گھر میں تو ہماری ناک میں دم کیے رکھتی ہے۔۔شرجیل نے ہنس کر کہا۔۔
" ہیںننننننن۔۔۔۔کیا ہماری شکلیں اتنی خوفناک ہیں۔۔کہ ہمیں دیکھ کر اسے چپ لگ گئ ہے۔۔"
صارم شاہ نے مسکین سی صورت بنا کر اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
جبکہ رامین بس مسکرا کر رہ گئ۔۔
" خبردار اگر کسی نے بھی میری بیٹی کو تنگ کیا تو۔۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔"
ہائمہ خاتون نے پاس بیٹھی رامین کو گلے سے لگاتے سب کو مصنوعی خفگی سے گھورا۔۔
" میرا خیال ہے اب چائے پی لینی چاہیے۔۔کیا خیال ہے آپ سب کا۔۔"
ہائمہ خاتون نے سب کی طرف ایک نظر ڈال کر پوچھا۔۔
" جی آپا منگوا لیں۔۔"
آئمہ سلطان نے جواب دیا۔۔
" فجر بیٹا رشیداں بوا سے کہو کہ چائے لے آئیں سب کے لیے۔۔"
" امی جان رشیداں بوا تو اپنے گھر چلی گئ ہیں۔۔ میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ وہ چلی جائیں۔۔رات کافی ہو گئ تھی۔۔اس لیے مجھے مناسب نہیں لگا انکو بس چائے کے لیے روکنا۔۔باقی کا سارا کام وہ نمٹا گئ تھیں۔۔میں ابھی بنا کر لے آتی ہوں۔۔"
فجر نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔
آئمہ سلطان نے مسکراتے ہوئے فجر کی طرف دیکھا تھا۔۔اور پھر شرجیل کی طرف۔۔
" یہ لیں جی گرما گرم چائے۔۔اور پی کر بتائیں کیسی بنی ہے۔۔"
فجر نے سب کو باری باری چائے سرو کرتے ہوئے کہا۔۔شرجیل نے چائے پکڑتے ہوئے ایک گہری نگاہ فجر پہ ڈالی تھی۔۔جس پہ ایک لمحہ کو وہ گڑبڑا کر رہ گئ تھی۔۔سب کو چائے سرو کرنے کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر اپنا چائے کا کپ لے کر جا بیٹھی۔۔
شرجیل چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا کن اکھیوں سے فجر کی طرف بھی گاہے بگاہے نظر ڈال لیتا۔۔
ڈارک کھلتے ہوئے لونگ میرون فراک میں جس کے گلے اور گھیرے پر بہت نفیس سا کام کیا گیا تھا۔۔اور سکن کلر کے پاجامہ میں۔۔
بالوں کو سلیقے سے کیچر سے سمیٹے۔۔ایک سائیڈ سے چھوٹی سی کانوں تک آتی لٹ نکالے۔۔سرخ و سفید رنگت۔۔گھنی خمدار پلکیں لیے وہ بلا شبہ بہت حسین تھی۔۔فجر اپنی چائے ختم کر کے آئمہ خاتون کی گود میں سر رکھ کر لاڈ سے لیٹ گئ۔۔
" آنی اٹس ناٹ فئیر۔۔آپکو پتہ ہے آپ کتنی دیر بعد پاکستان آئی ہیں۔۔امی جان تو اداس تھیں ہی۔۔لیکن ہم بھی بہت مس کرتے تھے آپکو۔۔جس دن آپ کینڈا شفٹ ہوئی تھیں۔۔امی جان نے سارا دن رو رو کر گزارا تھا۔۔اور اب جب آپ کے آنے کا پتہ چلا تو پورے گھر کی ملازموں سمیت شامت آئی ہوئی تھی۔۔سب کی خوب لفٹ رائٹ ہوئی تھی۔۔"
فجر نے آئمہ سلطان کے ساری کاروائی گوش گزار کی۔۔
" آپا کا تو مجھے پتہ ہے۔۔تم بتاؤ تم نے مجھے کتنا مس کیا۔۔"
آئمہ سلطان نے فجر کے ماتھے پہ پیار سے بوسہ دیا۔۔اور اسکو زور سے ہگ کرتے ہوئے پوچھا۔۔
" اتنااااااااا۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اتناااااااا سارا۔۔"
فجر نے پہلے تھوڑے سے بازو وا کیے۔۔پھر پورے بازو وا کر کے جوش و محبت سے کہا۔۔
" کیا سچ میں۔۔؟
" تو اور کیا"
وہ اس وقت بلکل بچی بنی بچوں کی طرح آئمہ سلطان سے لاڈ کر رہی تھی۔۔اور سب انکو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔
" امی جان لگتا ہے پھر کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جس سے فجر کو آپکو مس نہ کرنا پڑے۔۔اور ہمیشہ آپکے سامنے رہے۔۔"
رامین نے معنی خیز نظروں سے شرجیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
" سچ میں آنی کیا ایسا ہو سکتا ہے۔۔"
" ہاں میری جان کیوں نہیں۔۔اگر آپا اور بھیا مان جائیں تو۔۔"
آئمہ سلطان نے ہائمہ خاتون کی طرف دیکھ کر ذومعنی انداز لیے کہا۔۔
" امی جان اور بابا کو کیا اعتراض ہو گا آنی۔۔امی جان تو بہت خوش ہوں گی۔۔اگر آپ ہمارے پاس ہمارے سامنے رہیں۔۔کیوں امی جان میں ٹھیک کہ رہی ہوں ناں۔۔
وہاں بیٹھے سب لوگ تقریباً آئمہ سلطان کی باتوں کا مفہوم سمجھ چکے تھے۔۔اور دبی دبی مسکراہٹ سب کے لبوں پہ رقصاں تھی۔۔
مگر فجر ابھی تک انجان تھی۔۔
" میرا خیال ہے رات کافی ہوگئ ہے۔۔اب سونا چاہیے۔۔باقی باتیں صبح سہی۔۔"
ہائمہ خاتوں نے گھڑی کی طرف نگاہ کی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔۔گپ شپ کرتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔
" اوکے شب بخیر"
" شب بخیر"
سب اٹھ کر باری باری اپنے کمروں کی طرف چل دئیے۔۔شرجیل اور شہریار کے لیے ایک روم، اور آئمہ اور رامین کے لیے ایک الگ روم سیٹ کیا گیا تھا۔۔احتشام اور صارم کا الگ الگ روم تھا۔۔مگر مہمانوں کی وجہ سے صارم کا روم شرجیل اور شہریار کے لیے سیٹ کر دیا گیا تھا۔۔اور صارم کچھ دنوں کے لیے احتشام شاہ کے روم میں شفٹ ہو گیا تھا۔۔
صارم شاہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا۔۔تو اسی وقت دین محمد نے اسکو پکارا۔۔
" سائیں باہر کوئی خاتوں آئی ہیں۔۔آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔۔کافی پریشان لگ رہی ہیں وہ۔۔"
" اس وقت مجھ سے ملنے کون آ سکتا ہے۔۔خیر چلو دیکھتے ہیں"
نیلم بائی موہنی کے کمرے کی طرف آئی تو گلشن ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے واپس جا رہی تھی۔۔
نیلم بائی نے آنکھ کے اشارے سے گلشن سے دریافت کیا کہ موہنی نے کھانا کھایا ہے یا نہیں۔۔
گلشن بائی نے نفی میں سر ہلایا تو غصے کی ایک لہر اسکے دل و دماغ میں اٹھی تھی۔۔
" بائی ویسے یہ بہت زیادتی والی بات ہے۔۔ہم سب کماتی ہیں تو کھاتی ہیں۔۔موہنی دے کہیں زیادہ ہم کام کرتی ہیں۔۔پھر بھی ہمارے ایسے نخرے نہیں اٹھائے جاتے۔۔ہم صرف ناچتی نہیں ہیں۔۔بلکہ۔روز جسم کے بھوکے ہمارے بدن کو بھنبھوڑتے ہیں۔۔اور ہم اف تک نہیں کرتیں۔۔اسکے ساتھ ایسا کونسا انوکھا کام ہوا ہے۔۔جو اس نے یوں ماتم بچھایا ہوا ہے۔۔آج مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر اسکا ماتم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔
یہ سب آپکی نرمی اور ڈھیل کا نتیجہ ہے۔۔دو کلاسیں کیا پڑھ لی ہیں۔۔خود کو کسی مندر مسجد کی طرح مقدس سمجھنے لگی ہے۔۔
بائی آپکو اب سختی کرنی ہوگی۔۔یہاں رہنا ہے تو سب کی طرح کام کرنا ہوگا۔۔اور اسکو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ یہ کوٹھا ہے۔۔یہاں لوگ جوتے باہر اتار کر وضو کر کے نہیں آتے۔۔بلکہ غلاظت سے لتھڑے یہاں آتے ہیں۔۔اپنا گند ہمارے جسموں سے دھونے کے لیے۔۔ہفتے میں دو بار بس کام کرتی ہے۔۔اور سب اسکے آگے پیچھے ایسے پھرتے ہیں ۔۔جیسے یہ کوئی مہارانی ہے۔۔اور ہم۔اسکے نوکر ہیں۔۔
آج کے بعد میں دوبارہ ہرگز اسکے لیے کھانا لیکر نہیں جاؤں گی۔۔"
گلشن غصے اور تنفر سے بولتی وہاں سے چلتی بنی۔۔گلشن کی باتوں سے بغاوت کی بو آ رہی تھی۔۔اور اگر یہ بغاوت زور پکڑ لے تو نیلم بائی کا راج نست و نابود ہوتے ایک لمحہ بھی نہ لگے گا۔۔اور ایسا نیلم بائی ہرگز نہیں ہونے دیتی۔۔انھی سوچوں کے تانے بانے بنتی وہ موہنی کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
" میں نے تم سے کہا ناں گلشن کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔۔مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔۔تم پھر واپس آ گئ ہو۔۔چلی جاؤ یہاں سے اور دوبارہ مت آنا۔۔"
موہنی بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی۔۔آنکھوں پہ بازو دھرے۔۔ بنا بازو ہٹائے۔۔بنا دیکھے غصے سے بولی تھی۔۔وہ سمجھی تھی کہ شائد گلشن پھر سے کھانا لے کر آ گئ ہے۔۔
" گلشن نہیں میں ہوں۔۔تم نے کھانا کیوں واپس بھجوایا ہے۔۔"
نیلم بائی نے کڑے تیوروں سے موہنی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔.
نیلم بائی کی آواز سن کر موہنی فوراً اٹھ کر سیدھی کر بیٹھی تھی۔۔
" دو دن پہلے سیٹھ شجاع آیا تھا۔۔میں نے تمہارا لحاظ کر کے تمہاری بات مان کر جس طرح سے اسکو سمجھا بجھا کر واپس لوٹایا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔۔اور اب یہ کھانا پینا چھوڑنا۔۔یہ نخرے۔۔یہ سب کیا ہے آخر۔۔
تم نے کچھ ٹائم مانگا میں نے دیا۔۔تم نے سیٹھ شجاع کو ملنے سے انکار کیا۔۔میں نے مانا۔۔اتنے سالوں سے تمہاری سن سن کر۔۔تمہاری مان مان کر میری جان مصیبت میں آنے لگی ہے۔۔
تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوٹھے کی سب لڑکیوں میں بغاوت پیدا ہو رہی ہے۔۔اور ایسا میں کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔
آج شام کو سیٹھ شجاع کو میں آنے کا بول دیا ہے۔۔تیار ہو جانا اچھے سے۔۔
نیلم بائی کی بات پہ موہنی نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔مگر نیلم بائی نے ان دیکھا کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔
یہاں رہنا ہے تو کام بھی کرنا ہوگا۔۔تم نے مجھے یہ بات سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے موہنی کہ میں نے تمہیں پڑھنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔۔
تمہیں اتنا وقت دے کر۔۔تمہاری بات مان کر غلطی کی۔۔مگر اب بس۔۔جو میں نے کہا ہے اسکو اپنے دماغ میں بٹھا لو اچھے سے۔۔دوبارہ نہ کہنا پڑے مجھے۔۔
میں کھانا بھیج رہی ہوں۔۔کھا لینا وہ۔۔"
نیلم بائی نے بے لچک اور دو ٹوک لہجہ اپناتے ہوئے اپنی بات مکلمل کی تھی۔۔اور کمرے سے باہر جانے کے لیے قدم موڑے۔۔
" میرا دل۔نہیں مانتا خانم۔۔مجھ پہ رحم کرو۔۔"
موہنی نے نیلم بائی کے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے فریاد کی۔۔
" میں نے آج تک رحم ہی کیا ہے موہنی۔۔کبھی تم پہ زبردستی نہیں کی۔۔میں تو ایک بائی ہوں ناں۔۔ایک گری ہوئی عورت۔۔اور اس گری ہوئی عورت نے ہمیشہ تمہاری سنی۔۔
مگر کیا اس معاشرے کے لوگوں نے تم پہ رحم کیا۔۔جس کی خاطر سب سے لڑتی آئی کیا اس نے تم پہ رحم کیا۔۔
میں نے تمہاری ماں سے کیا وعدہ ہمیشہ نبھایا ہے موہنی۔۔تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نیلم بائی جسموں کے ساتھ زبان بھی بیچتی ہے۔۔اور یہ تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔
رہی دل کی بات تو یاد رکھنا کہ طوائفوں کے سینے میں دل نہیں ہوتے۔۔بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔۔جس کا کام بس جسم کو خون سپلائی کرنا ہے تا کہ سانسیں چلتی رہیں۔۔
اور نہ ہی عشق و عاشقی کی کوئی راہ گزر اس دل سے ہو کر گزرتی ہے۔۔
کوٹھوں کی تاریخ گواہ ہے موہنی کہ جب جب بھی کسی طوائف نے اس راہ گزر پہ قدم رکھنے کی جرأت کی ہے۔۔وہ کبھی منزل پہ نہیں پہنچی۔۔بلکہ
وہ آبلہ پا ہو کر زخمی روح و دل لے کر واپس یہیں آئی ہے۔۔جو نہیں آئی وہ خود موت کی آغوش میں جا سوئی۔۔
عشق پیار محبت یہ سب جزبے احساسات ہمارے لیے نہیں بنے۔۔یہ سب باہر کی دنیا والوں کے لیے ہیں۔۔
ہمارے لیے تو یہ بس لفظ ہیں۔۔جنکے ساتھ ہم کھیلتی ہیں۔۔
اور جو جتنی زیادہ اس کھیل کی ماہر ہوتی ہے۔۔اسکے چاہنے والے اور قدردان اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔۔اور وہی پھر اس کوٹھے پہ راج بھی کرتی ہے۔۔
تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہاں سے چلی جاؤ۔۔یا پھر یہاں رہ کر ہمارے رنگ میں رنگ جاؤ۔۔
دونوں میں سے جو بھی چوز کرو۔۔بس یہ یاد رکھنا کہ اگر تم یہاں سے جانے کا فیصلہ کرتی ہو تو باہر دنیا میں قدم قدم پر تمہیں بھیڑئیے ملیں گے۔۔جو تمہیں نوچ کھسوٹ کر ایک دن پھر یہیں لا پھنکیں گے۔۔مگر تمہیں ہماری دنیا پھر قبول نہیں کرے گی۔۔
اگر یہاں رہتی ہو تو یہی بھیڑئیے تمہارے تلوے چاٹیں گے۔۔تمہاری اک نگاہ پہ لاکھوں کروڑوں لٹانے کو تیار ہوں گے۔۔
اور یہ تم پہ ہوگا کہ تم کسی کو پاس آنے دو یا نہ آنے دو۔۔یہ تمہاری مرضی۔۔ایک ملکہ ایک مہارانی کی جیسی زندگی ہوگی یہاں تمہاری۔۔میرا مشورہ ہے تم سیٹھ شجاع کو چن لو۔۔وہ دیوانہ ہے تمہارا۔۔اسے اپنی انگلیوں کے اشارے پہ جیسے چاہے مرضی نچاؤ۔۔اسکی ہو کر رہو گی تو کسی اور کی جرأت نہیں ہو گی کہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔۔اسکی گارنٹی میں تمہیں دیتی ہوں۔۔"
نیلم بائی نے اب کی بار اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے بات کی تھی۔۔
" ہوئی تو یہ بھی حرام کی زندگی ہی ناں۔۔"
موہنی نے دکھ سے کہا۔۔
برتن میں ایک کتا منہ مارے۔۔یا ہزار۔۔برتن تو ناپاک ہی کہلاتا ہے۔۔اور مانو نہ مانو تم بھی ہمارے جیسی ہو چکی ہو..اس حقیقت کو جتنی جلدی قبول کر لو گی۔۔تمہارے لیے اتنا اچھا ہوگا۔۔
امید ہے کہ تم سیٹھ شجاع کے آنے پہ مجھے مایوس نہیں کرو گی۔۔آج تک میں نے تمہاری سنی۔۔تم آج میری سن لو۔۔"
یہ کہ کر نیلم بائی وہاں رکی نہیں تھی۔۔اسے سوچنے سمجھنے کے لیے وقت دے کر کمرے سے باہر نکل گئ تھی۔۔
Comment