Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    Episode, 12#

    مہرالنساء کی بات سن کر رشید احمد کو ایک جھٹکا لگا تھا۔۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دلاور اسکے گھر تک آن پہنچے گا۔۔جہاں پہلے اسکے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔۔اب پریشانی کی جگہ خوف نے لے لی تھی۔۔
    دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑے وہ بیڈ پہ ڈھے گیا تھا۔۔مہرالنساء نے رشید احمد کو آج سے پہلے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔کچھ دیر تک وہ رشید احمد کو ایسے ہی اپنی جگہ کھڑی تکتی رہی۔۔
    " رشید احمد۔۔۔تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔"؟
    مہرالنساء نے رشید احمد کے تھوڑا قریب آ کر پوچھا۔۔
    " کیا جواب دوں تمہیں۔۔جس بات کا ڈر تھا۔۔وہ ڈر میرے گھر تک آ پہنچا ہے۔۔"
    رشید احمد نے تھکے ہارے لہجے میں کہا۔۔
    " کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔اوہ۔۔۔تو پیسے تم کہیں اسی شخص کے لیے تو نہیں مانگ رہے تھے۔۔"؟
    مہرالنساء نے نپے تلے لہجے میں پوچھا۔۔
    " ہاں۔۔تمہارا اندازہ ٹھیک ہے۔۔"
    " ہونہہ۔۔۔اور وہ پیسے تم یقیناً جوئے میں ہارے یو گے۔۔جو اب اسکو واپس کرنے ہیں۔۔
    کتنا منع کرتی تھی۔۔کتنا سمجھاتی تھی تمہیں کہ باز آ جاؤ اس شیطانی کھیل سے۔۔تمہاری زندگی جو برباد ہو گی سو ہو گی۔۔مگر تمہارے ساتھ ہم بھی اسکے لپیٹے میں آ جائیں گے۔۔کچھ اور نہیں تو اپنی بچیوں کا ہی خیال کر لیتے کچھ۔۔مگر تم نے میری کبھی نہ سنی۔۔"
    مہرالنساء نے ایک افسوس بھری نگاہ رشید احمد پہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔
    " یہی تو دکھ ہے کہ وہ بچیاں ہیں۔۔کاش کہ تم نے کوئی بچہ بھی پیدا کر لیا ہوتا۔۔جو میرا بازو بنتا۔۔میرا سہارا بنتا۔۔مگر تم نے چار چار بوجھ میرے سینے پہ رکھ دئیے۔۔
    بہرحال مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا۔۔مجھے دکان کے کاغذات چاہیں صبح ہر صورت۔۔"
    رشید احمد نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اب کے غصے میں کہا۔۔
    "سینے پہ رکھنے کی بات تو تم تب کرو رشید احمد اگر تم نے کبھی انکو باپ کی نظر سے دیکھا ہو۔۔کبھی باپ بن کر انکے سر پہ ہاتھ رکھا ہو۔۔کبھی انکے مستقبل کی فکر کی ہو۔۔کبھی انکو اپنے باپ ہونے کا مان بخشا ہو۔۔
    میں آج شکر کرتی ہوں کہ ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے۔۔ورنہ وہ بھی تمہارے جیسا ہوتا۔۔اور رہی بات کاغذات کی۔۔تو وہ میں تم سے کہ چکی ہوں کہ وہ میری بچیوں کی امانت ہے۔۔وہ میں تمہیں کسی صورت نہیں دوں گی۔۔"
    مہرالنساء نے بھی انتہائی غصے میں کہا۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز اب کی بار اونچی ہو گئ تھی۔۔مگر اب اسکی برداشت جواب دے گئ تھی۔۔
    " میں بھی دیکھتا ہوں کہ تم کیسے نہیں دیتی۔۔"
    یہ کہتے ہی رشید احمد نے پاس پڑی چئیر کو زوردار لات ماری تھی۔۔اور مہرالنساء کو بازو سے پکڑ کر اسکے چہرے پہ زور سے تھپڑ مارا تھا۔۔ایک بلند چیخ کے ساتھ مہرالنساء لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی تھی۔۔مہرانساء کی چیخ باہر کھڑی بچیوں تک بھی گئ تھی۔۔جو کب سے اندر سے آتی آوازوں پر کان دھرے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں۔۔ چیخ کی آواز سن کر عائلہ اور عینا تیزی سے کمرے میں آئیں تھیں۔۔جبکہ ایمن اور اجالا ڈر کے مارے دروازے میں ہی کھڑی روئے جا رہی تھیں۔۔
    " امی جان۔۔اٹھیں پلیز۔۔"
    عائلہ نے آگے بڑھ کر ماں کو زمین سے اٹھایا تھا۔۔اور سہارا دے کر بیڈ پہ بٹھایا تھا۔۔ اتنے شدید تھپڑ پہ مہرالنساء چکرا کر رہ گئ تھی۔۔کچھ دیر تک وہ سر پکڑ کر غائب دماغی سے زمین پہ ہی بیٹھی رہی۔۔
    عینا آنکھوں میں غصہ اور نفرت لیے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔۔
    " یہ۔۔یہ ہے ہمارا باپ۔۔اسکو آپ ہمارا باپ کہ رہی تھیں۔۔اس شخص کی عزت کرنے کو کہ رہی تھیں آپ۔۔جو باپ کہلانے کا حقدار ہی نہیں ہے۔۔ایسے باپ کے ہونے سے تو اچھا تھا کہ ہم یتیم ہوتیں۔۔یا پھر یہ سب دیکھنے سے پہلے ہم ہی مر جاتیں۔۔"
    عینا نے اپنے باپ کی طرف دیکھ کر غصے اور نفرت سے کہا۔۔
    " بہت زبان چلتی ہے۔۔اپنی ماں کی طرح تمہاری بھی۔۔بہت شوق ہے تمہیں مرنے کا۔۔چلو میں آج تمہارا یہ شوق بھی پورا کر دیتا ہوں۔۔"
    رشید احمد نے غصے سے کہتے ساتھ ہی عینا کو گلے سے دبوچا تھا۔۔اور اسکے گلے پہ اپنی گرفت کا زور بڑھایا تھا۔۔مہرالنساء اور عینا یہ سب دیکھ کر فوراً عائلہ کو چھڑوانے کو آگے ہوئیں۔۔
    " رشید احمد چھوڑو اسے۔۔"
    " ابو جان آپکو الّٰلہ کا واسطہ چھوڑ دیں عینا کو۔۔"
    مہرالنساء اور عائلہ نے رشید احمد کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر پیچھے کو کھینچتے اس سے عینا کا گلا چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
    تو رشید احمد نے دونوں کو پیچھے کو زور سے دھکا دیا تھا۔۔گلے پہ دباؤ پڑنے سے عینا کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے رشید احمد کے سر پہ کوئی جنون سوار ہے۔۔عائلہ اور مہرالنساء نے پھر سے آگے کو ہو کر عینا کو چھڑوانے کی کوشش کی تھی۔۔اسی دوران رشید احمد کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔۔اور اسکی گرفت کمزور پٹی تھی۔۔ اس نے عینا کو چھوڑ کر نیچے جھک کر اجالا کو بالوں سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے دور اچھالا تھا۔۔اور وہ سیدھی دیوار میں جالگی تھی۔۔اجالا نے رشید احمد کی ٹانگ پر اپنی پوری طاقت سے دانت گاڑ دئیے تھے۔۔جسکی وجہ سے رشید احمد کو عینا کو چھوڑنا پڑا تھا۔۔
    عینا بے سدھ ہو کر زمین پہ گر پڑی تھی۔۔اور دوسری طرف
    دیوار میں لگنے سے اجالا وہیں بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔۔اسکے سر پہ شدید چوٹ آئی تھی۔۔جبکہ دروازے میں کھڑی ایمن کمرے کا یہ منظر دیکھ کر دروازے میں ہی بے ہوش ہو کر گر گئ تھی۔۔
    رشید احمد کا جنون ابھی بھی کم نہیں ہو رہا تھا۔۔وہ اب تیزی سے باہر نکلا تھا۔۔اور کچن کا رخ کیا تھا۔۔
    عائلہ اور مہرالنساء کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عینا کو سنبھالیں یا اجالا کو۔۔پھر عائلہ اجالا کی طرف اور مہرالنساء عینا کی طرف ہوئی تھی۔۔اس وقت پورا کمرہ ایک قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔
    اسی وقت رشید احمد دوبارہ کمرے میں میں داخل ہوا۔۔اسکے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل دیکھ کر ایک لمحہ لگا تھا مہرالنساء اور عائلہ کو سب سمجھنے میں۔۔
    " رشید احمد نئیں۔۔رک جاؤ۔۔رشید احمد۔۔ایسا کچھ مت کرنا۔۔تمہیں کاغذات چاہیے ناں۔۔میں تمہیں سب دے دوں گی۔۔تم جو کہو گے میں وہ کروں گی۔۔بلکہ ابھی دیتی ہوں۔۔"
    ہذیانی انداز میں کہتی وہ تیزی سے اٹھ کر الماری کی طرف گئ تھی۔۔اور لاکر سے ایک پوٹلی نکال کا رشید احمد کی طرف بڑھائی تھی۔۔
    " یہ۔۔یہ کچھ زیور اور پیسے ہیں۔۔مجھے بس صبح تک کی مہلت دو۔۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ صبح تمہیں بینک سے کاغذات لا دوں گی۔۔میں اپنی بچیوں کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ میرے پاس نہیں ہیں اس وقت۔۔وہ بینک کے لاکر میں رکھوا دئیے تھے میں نے۔۔اور ویسے بھی ہمیں مار کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔۔کیونکہ تم جانتے ہو کہ اگر بچیوں کی شادی سے پہلے اگر یہ کسی بھی وجہ سے مر جاتی ہیں۔۔تو انکے نام کی ساری ہراپرٹی آغوش یتم خانے کو چلی جائے گی۔۔
    مہرالنساء نے روتے ہوئے رشید احمد کے سامنے وہ پوٹلی رکھتے ہوئے کہا۔۔
    رشید احمد نے دو منٹ رک کر مہرالنساء کی طرف دیکھا..اس کی بات سن کر وہ یکدم ہوش میں آیا تھا۔۔
    " ٹھیک ہے صبح تک میں انتظار کر لوں گا۔۔اس سے زیادہ نہیں۔۔اور اگر صبح مجھے کاغذات نہ ملے تو میرے پاس اور بھی بہت سے راستے ہیں۔۔کاغذات حاصل کرنے کے۔۔اور اگر میں نے وہ راستے اپنائے تو تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔۔"
    رشید احمد نے بچیوں کی طرف اشارہ کر کے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
    رشید احمد کا اشارہ سمجھ کر مہرالنساء کانپ کر رہ گئ تھی۔۔
    " نہیں۔۔۔نہیں۔۔تم فکر مت کرو میں صبح تمہیں کاغذات لا دوں گی۔۔"
    مہرالنساء نے جلدی سے اسکو یقین دلاتے ہوئے کہا۔۔
    مہرانساء کی بات سن کر رشید احمد سر ہلاتا ہوا پوٹلی پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
    رشید احمد کے جاتے ہی مہرالنساء کا دھیان بچیوں کی طرف گیا۔۔اور تیزی سے انکی طرف آئی۔۔
    جنکو عائلہ باری باری دیکھ رہی تھی۔۔ایمن ہوش میں آ چکی تھی۔۔عینا بھی کچھ بہتر لگ رہی تھی اب۔۔اور وہ تینوں اجالا پہ جھکی ہوئی تھیں۔۔
    " امی جان اجالا کو ہوش نہیں آ ریا۔۔یہ اٹھ نہیں رہی۔۔"
    عینا اور عائلہ نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
    " بیٹا تم بھاگ کے جاؤ اور جلدی سے پانی لے کر آؤ۔۔"
    مہرانساء نے عائلہ سے کہا۔۔
    " اجالا پلیز اٹھ جاؤ۔۔میں وعدہ کرتی ہوں اب تم سے کبھی جھگڑا نہیں کروں گی۔۔پلیز اجالا اٹھ جاؤ۔۔"
    ایمن اجالا کا چہرہ پکڑ کر روتے ہوئے اسکو ہلا ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
    " ایمن میری جان۔۔پریشان مت ہو۔۔ابھی ٹھیک ہو جائے گی یہ۔۔"
    عینا نے ایمن کو اپنے ساتھ لگا کر اسکے گال پہ پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
    اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔۔جو اجالا کا سر اپنی گود میںرکھے یک ٹک اسکی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔کسی انہونی کے خیال سے اسکا دل لرز اٹھا تھا۔۔

    پانی کے چھینٹے مارنے کے باوجود اجالا کو ہوش نہیں آ رہا تھا۔۔مہرالنساء نے اسکا ناک اور منہ بند کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔۔آہستہ آہستہ اسکی سرخ و سفید رنگت میں زردی گھلتی جا رہی تھی۔۔جس نے وہاں موجود سب لوگوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔۔
    " امی جان ہمیں اجالا کو ہاسپٹل لے جانا ہو گا۔۔"
    عائلہ نے اپنی ماں کا کندھا ہلایا۔۔جو ساکت نظروں سے اجالا کو تکے جا رہی تھیں۔۔


    اس وقت رات کے 10 بج چکے تھے۔۔سب لوگ آئمہ سلطان کے کمرے میں براجمان تھے۔۔شاہ سائیں کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اب اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔۔
    رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اب سب گپ شپ کر رہے تھے۔۔
    آئمہ سلطان کی ایک بیٹی رامین، اور دو بیٹے شہریار، اور شرجیل تھے۔۔
    رامین دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔۔جبکہ شہریار بڑا، اور شرجیل چھوٹا تھا۔۔
    " آنی اس لڑکی کا آپ نے تعارف نہیں کروایا۔۔کب سے گم صم بیٹھی بس ہماری باتیں سنی جا رہی ہے۔۔کہاں سے اٹھا کر لائی ہیں اسکو۔۔"
    صارم شاہ نے رامین کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔کچھ لمحے کو تو کوئی بھی سمجھ نہ سکا کہ وہ کیا بات کر رہا ہے۔۔پھر سمجھ آنے پہ سب کا زوردار قہقہ چھوٹا تھا۔۔
    " یہ بس ابھی تم لوگوں کے سامنے چپ ہے۔۔گھر میں تو ہماری ناک میں دم کیے رکھتی ہے۔۔شرجیل نے ہنس کر کہا۔۔
    " ہیںننننننن۔۔۔۔کیا ہماری شکلیں اتنی خوفناک ہیں۔۔کہ ہمیں دیکھ کر اسے چپ لگ گئ ہے۔۔"
    صارم شاہ نے مسکین سی صورت بنا کر اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
    جبکہ رامین بس مسکرا کر رہ گئ۔۔
    " خبردار اگر کسی نے بھی میری بیٹی کو تنگ کیا تو۔۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔"
    ہائمہ خاتون نے پاس بیٹھی رامین کو گلے سے لگاتے سب کو مصنوعی خفگی سے گھورا۔۔
    " میرا خیال ہے اب چائے پی لینی چاہیے۔۔کیا خیال ہے آپ سب کا۔۔"
    ہائمہ خاتون نے سب کی طرف ایک نظر ڈال کر پوچھا۔۔
    " جی آپا منگوا لیں۔۔"
    آئمہ سلطان نے جواب دیا۔۔
    " فجر بیٹا رشیداں بوا سے کہو کہ چائے لے آئیں سب کے لیے۔۔"
    " امی جان رشیداں بوا تو اپنے گھر چلی گئ ہیں۔۔ میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ وہ چلی جائیں۔۔رات کافی ہو گئ تھی۔۔اس لیے مجھے مناسب نہیں لگا انکو بس چائے کے لیے روکنا۔۔باقی کا سارا کام وہ نمٹا گئ تھیں۔۔میں ابھی بنا کر لے آتی ہوں۔۔"
    فجر نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔
    آئمہ سلطان نے مسکراتے ہوئے فجر کی طرف دیکھا تھا۔۔اور پھر شرجیل کی طرف۔۔
    " یہ لیں جی گرما گرم چائے۔۔اور پی کر بتائیں کیسی بنی ہے۔۔"
    فجر نے سب کو باری باری چائے سرو کرتے ہوئے کہا۔۔شرجیل نے چائے پکڑتے ہوئے ایک گہری نگاہ فجر پہ ڈالی تھی۔۔جس پہ ایک لمحہ کو وہ گڑبڑا کر رہ گئ تھی۔۔سب کو چائے سرو کرنے کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر اپنا چائے کا کپ لے کر جا بیٹھی۔۔
    شرجیل چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا کن اکھیوں سے فجر کی طرف بھی گاہے بگاہے نظر ڈال لیتا۔۔
    ڈارک کھلتے ہوئے لونگ میرون فراک میں جس کے گلے اور گھیرے پر بہت نفیس سا کام کیا گیا تھا۔۔اور سکن کلر کے پاجامہ میں۔۔
    بالوں کو سلیقے سے کیچر سے سمیٹے۔۔ایک سائیڈ سے چھوٹی سی کانوں تک آتی لٹ نکالے۔۔سرخ و سفید رنگت۔۔گھنی خمدار پلکیں لیے وہ بلا شبہ بہت حسین تھی۔۔فجر اپنی چائے ختم کر کے آئمہ خاتون کی گود میں سر رکھ کر لاڈ سے لیٹ گئ۔۔
    " آنی اٹس ناٹ فئیر۔۔آپکو پتہ ہے آپ کتنی دیر بعد پاکستان آئی ہیں۔۔امی جان تو اداس تھیں ہی۔۔لیکن ہم بھی بہت مس کرتے تھے آپکو۔۔جس دن آپ کینڈا شفٹ ہوئی تھیں۔۔امی جان نے سارا دن رو رو کر گزارا تھا۔۔اور اب جب آپ کے آنے کا پتہ چلا تو پورے گھر کی ملازموں سمیت شامت آئی ہوئی تھی۔۔سب کی خوب لفٹ رائٹ ہوئی تھی۔۔"
    فجر نے آئمہ سلطان کے ساری کاروائی گوش گزار کی۔۔
    " آپا کا تو مجھے پتہ ہے۔۔تم بتاؤ تم نے مجھے کتنا مس کیا۔۔"
    آئمہ سلطان نے فجر کے ماتھے پہ پیار سے بوسہ دیا۔۔اور اسکو زور سے ہگ کرتے ہوئے پوچھا۔۔
    " اتنااااااااا۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اتناااااااا سارا۔۔"
    فجر نے پہلے تھوڑے سے بازو وا کیے۔۔پھر پورے بازو وا کر کے جوش و محبت سے کہا۔۔
    " کیا سچ میں۔۔؟
    " تو اور کیا"
    وہ اس وقت بلکل بچی بنی بچوں کی طرح آئمہ سلطان سے لاڈ کر رہی تھی۔۔اور سب انکو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔
    " امی جان لگتا ہے پھر کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جس سے فجر کو آپکو مس نہ کرنا پڑے۔۔اور ہمیشہ آپکے سامنے رہے۔۔"
    رامین نے معنی خیز نظروں سے شرجیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
    " سچ میں آنی کیا ایسا ہو سکتا ہے۔۔"
    " ہاں میری جان کیوں نہیں۔۔اگر آپا اور بھیا مان جائیں تو۔۔"
    آئمہ سلطان نے ہائمہ خاتون کی طرف دیکھ کر ذومعنی انداز لیے کہا۔۔
    " امی جان اور بابا کو کیا اعتراض ہو گا آنی۔۔امی جان تو بہت خوش ہوں گی۔۔اگر آپ ہمارے پاس ہمارے سامنے رہیں۔۔کیوں امی جان میں ٹھیک کہ رہی ہوں ناں۔۔
    وہاں بیٹھے سب لوگ تقریباً آئمہ سلطان کی باتوں کا مفہوم سمجھ چکے تھے۔۔اور دبی دبی مسکراہٹ سب کے لبوں پہ رقصاں تھی۔۔
    مگر فجر ابھی تک انجان تھی۔۔
    " میرا خیال ہے رات کافی ہوگئ ہے۔۔اب سونا چاہیے۔۔باقی باتیں صبح سہی۔۔"
    ہائمہ خاتوں نے گھڑی کی طرف نگاہ کی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔۔گپ شپ کرتے وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔
    " اوکے شب بخیر"
    " شب بخیر"
    سب اٹھ کر باری باری اپنے کمروں کی طرف چل دئیے۔۔شرجیل اور شہریار کے لیے ایک روم، اور آئمہ اور رامین کے لیے ایک الگ روم سیٹ کیا گیا تھا۔۔احتشام اور صارم کا الگ الگ روم تھا۔۔مگر مہمانوں کی وجہ سے صارم کا روم شرجیل اور شہریار کے لیے سیٹ کر دیا گیا تھا۔۔اور صارم کچھ دنوں کے لیے احتشام شاہ کے روم میں شفٹ ہو گیا تھا۔۔
    صارم شاہ اپنے کمرے میں داخل ہونے لگا۔۔تو اسی وقت دین محمد نے اسکو پکارا۔۔
    " سائیں باہر کوئی خاتوں آئی ہیں۔۔آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔۔کافی پریشان لگ رہی ہیں وہ۔۔"
    " اس وقت مجھ سے ملنے کون آ سکتا ہے۔۔خیر چلو دیکھتے ہیں"


    نیلم بائی موہنی کے کمرے کی طرف آئی تو گلشن ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لیے واپس جا رہی تھی۔۔
    نیلم بائی نے آنکھ کے اشارے سے گلشن سے دریافت کیا کہ موہنی نے کھانا کھایا ہے یا نہیں۔۔
    گلشن بائی نے نفی میں سر ہلایا تو غصے کی ایک لہر اسکے دل و دماغ میں اٹھی تھی۔۔
    " بائی ویسے یہ بہت زیادتی والی بات ہے۔۔ہم سب کماتی ہیں تو کھاتی ہیں۔۔موہنی دے کہیں زیادہ ہم کام کرتی ہیں۔۔پھر بھی ہمارے ایسے نخرے نہیں اٹھائے جاتے۔۔ہم صرف ناچتی نہیں ہیں۔۔بلکہ۔روز جسم کے بھوکے ہمارے بدن کو بھنبھوڑتے ہیں۔۔اور ہم اف تک نہیں کرتیں۔۔اسکے ساتھ ایسا کونسا انوکھا کام ہوا ہے۔۔جو اس نے یوں ماتم بچھایا ہوا ہے۔۔آج مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر اسکا ماتم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔
    یہ سب آپکی نرمی اور ڈھیل کا نتیجہ ہے۔۔دو کلاسیں کیا پڑھ لی ہیں۔۔خود کو کسی مندر مسجد کی طرح مقدس سمجھنے لگی ہے۔۔
    بائی آپکو اب سختی کرنی ہوگی۔۔یہاں رہنا ہے تو سب کی طرح کام کرنا ہوگا۔۔اور اسکو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ یہ کوٹھا ہے۔۔یہاں لوگ جوتے باہر اتار کر وضو کر کے نہیں آتے۔۔بلکہ غلاظت سے لتھڑے یہاں آتے ہیں۔۔اپنا گند ہمارے جسموں سے دھونے کے لیے۔۔ہفتے میں دو بار بس کام کرتی ہے۔۔اور سب اسکے آگے پیچھے ایسے پھرتے ہیں ۔۔جیسے یہ کوئی مہارانی ہے۔۔اور ہم۔اسکے نوکر ہیں۔۔
    آج کے بعد میں دوبارہ ہرگز اسکے لیے کھانا لیکر نہیں جاؤں گی۔۔"
    گلشن غصے اور تنفر سے بولتی وہاں سے چلتی بنی۔۔گلشن کی باتوں سے بغاوت کی بو آ رہی تھی۔۔اور اگر یہ بغاوت زور پکڑ لے تو نیلم بائی کا راج نست و نابود ہوتے ایک لمحہ بھی نہ لگے گا۔۔اور ایسا نیلم بائی ہرگز نہیں ہونے دیتی۔۔انھی سوچوں کے تانے بانے بنتی وہ موہنی کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
    " میں نے تم سے کہا ناں گلشن کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔۔مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔۔تم پھر واپس آ گئ ہو۔۔چلی جاؤ یہاں سے اور دوبارہ مت آنا۔۔"
    موہنی بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی۔۔آنکھوں پہ بازو دھرے۔۔ بنا بازو ہٹائے۔۔بنا دیکھے غصے سے بولی تھی۔۔وہ سمجھی تھی کہ شائد گلشن پھر سے کھانا لے کر آ گئ ہے۔۔
    " گلشن نہیں میں ہوں۔۔تم نے کھانا کیوں واپس بھجوایا ہے۔۔"
    نیلم بائی نے کڑے تیوروں سے موہنی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔.
    نیلم بائی کی آواز سن کر موہنی فوراً اٹھ کر سیدھی کر بیٹھی تھی۔۔
    " دو دن پہلے سیٹھ شجاع آیا تھا۔۔میں نے تمہارا لحاظ کر کے تمہاری بات مان کر جس طرح سے اسکو سمجھا بجھا کر واپس لوٹایا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں۔۔اور اب یہ کھانا پینا چھوڑنا۔۔یہ نخرے۔۔یہ سب کیا ہے آخر۔۔
    تم نے کچھ ٹائم مانگا میں نے دیا۔۔تم نے سیٹھ شجاع کو ملنے سے انکار کیا۔۔میں نے مانا۔۔اتنے سالوں سے تمہاری سن سن کر۔۔تمہاری مان مان کر میری جان مصیبت میں آنے لگی ہے۔۔
    تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوٹھے کی سب لڑکیوں میں بغاوت پیدا ہو رہی ہے۔۔اور ایسا میں کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔
    آج شام کو سیٹھ شجاع کو میں آنے کا بول دیا ہے۔۔تیار ہو جانا اچھے سے۔۔

    نیلم بائی کی بات پہ موہنی نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔مگر نیلم بائی نے ان دیکھا کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔۔

    یہاں رہنا ہے تو کام بھی کرنا ہوگا۔۔تم نے مجھے یہ بات سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے موہنی کہ میں نے تمہیں پڑھنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔۔
    تمہیں اتنا وقت دے کر۔۔تمہاری بات مان کر غلطی کی۔۔مگر اب بس۔۔جو میں نے کہا ہے اسکو اپنے دماغ میں بٹھا لو اچھے سے۔۔دوبارہ نہ کہنا پڑے مجھے۔۔
    میں کھانا بھیج رہی ہوں۔۔کھا لینا وہ۔۔"
    نیلم بائی نے بے لچک اور دو ٹوک لہجہ اپناتے ہوئے اپنی بات مکلمل کی تھی۔۔اور کمرے سے باہر جانے کے لیے قدم موڑے۔۔
    " میرا دل۔نہیں مانتا خانم۔۔مجھ پہ رحم کرو۔۔"
    موہنی نے نیلم بائی کے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے فریاد کی۔۔
    " میں نے آج تک رحم ہی کیا ہے موہنی۔۔کبھی تم پہ زبردستی نہیں کی۔۔میں تو ایک بائی ہوں ناں۔۔ایک گری ہوئی عورت۔۔اور اس گری ہوئی عورت نے ہمیشہ تمہاری سنی۔۔
    مگر کیا اس معاشرے کے لوگوں نے تم پہ رحم کیا۔۔جس کی خاطر سب سے لڑتی آئی کیا اس نے تم پہ رحم کیا۔۔
    میں نے تمہاری ماں سے کیا وعدہ ہمیشہ نبھایا ہے موہنی۔۔تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ نیلم بائی جسموں کے ساتھ زبان بھی بیچتی ہے۔۔اور یہ تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔
    رہی دل کی بات تو یاد رکھنا کہ طوائفوں کے سینے میں دل نہیں ہوتے۔۔بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔۔جس کا کام بس جسم کو خون سپلائی کرنا ہے تا کہ سانسیں چلتی رہیں۔۔
    اور نہ ہی عشق و عاشقی کی کوئی راہ گزر اس دل سے ہو کر گزرتی ہے۔۔
    کوٹھوں کی تاریخ گواہ ہے موہنی کہ جب جب بھی کسی طوائف نے اس راہ گزر پہ قدم رکھنے کی جرأت کی ہے۔۔وہ کبھی منزل پہ نہیں پہنچی۔۔بلکہ
    وہ آبلہ پا ہو کر زخمی روح و دل لے کر واپس یہیں آئی ہے۔۔جو نہیں آئی وہ خود موت کی آغوش میں جا سوئی۔۔
    عشق پیار محبت یہ سب جزبے احساسات ہمارے لیے نہیں بنے۔۔یہ سب باہر کی دنیا والوں کے لیے ہیں۔۔
    ہمارے لیے تو یہ بس لفظ ہیں۔۔جنکے ساتھ ہم کھیلتی ہیں۔۔
    اور جو جتنی زیادہ اس کھیل کی ماہر ہوتی ہے۔۔اسکے چاہنے والے اور قدردان اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔۔اور وہی پھر اس کوٹھے پہ راج بھی کرتی ہے۔۔
    تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہاں سے چلی جاؤ۔۔یا پھر یہاں رہ کر ہمارے رنگ میں رنگ جاؤ۔۔
    دونوں میں سے جو بھی چوز کرو۔۔بس یہ یاد رکھنا کہ اگر تم یہاں سے جانے کا فیصلہ کرتی ہو تو باہر دنیا میں قدم قدم پر تمہیں بھیڑئیے ملیں گے۔۔جو تمہیں نوچ کھسوٹ کر ایک دن پھر یہیں لا پھنکیں گے۔۔مگر تمہیں ہماری دنیا پھر قبول نہیں کرے گی۔۔
    اگر یہاں رہتی ہو تو یہی بھیڑئیے تمہارے تلوے چاٹیں گے۔۔تمہاری اک نگاہ پہ لاکھوں کروڑوں لٹانے کو تیار ہوں گے۔۔
    اور یہ تم پہ ہوگا کہ تم کسی کو پاس آنے دو یا نہ آنے دو۔۔یہ تمہاری مرضی۔۔ایک ملکہ ایک مہارانی کی جیسی زندگی ہوگی یہاں تمہاری۔۔میرا مشورہ ہے تم سیٹھ شجاع کو چن لو۔۔وہ دیوانہ ہے تمہارا۔۔اسے اپنی انگلیوں کے اشارے پہ جیسے چاہے مرضی نچاؤ۔۔اسکی ہو کر رہو گی تو کسی اور کی جرأت نہیں ہو گی کہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔۔اسکی گارنٹی میں تمہیں دیتی ہوں۔۔"
    نیلم بائی نے اب کی بار اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے بات کی تھی۔۔
    " ہوئی تو یہ بھی حرام کی زندگی ہی ناں۔۔"
    موہنی نے دکھ سے کہا۔۔
    برتن میں ایک کتا منہ مارے۔۔یا ہزار۔۔برتن تو ناپاک ہی کہلاتا ہے۔۔اور مانو نہ مانو تم بھی ہمارے جیسی ہو چکی ہو..اس حقیقت کو جتنی جلدی قبول کر لو گی۔۔تمہارے لیے اتنا اچھا ہوگا۔۔
    امید ہے کہ تم سیٹھ شجاع کے آنے پہ مجھے مایوس نہیں کرو گی۔۔آج تک میں نے تمہاری سنی۔۔تم آج میری سن لو۔۔"
    یہ کہ کر نیلم بائی وہاں رکی نہیں تھی۔۔اسے سوچنے سمجھنے کے لیے وقت دے کر کمرے سے باہر نکل گئ تھی۔۔


    Comment


    • #22
      ہالو کیا مست کہانی ہے ۔ بہت مزہ آیا پڑھ کر۔

      Comment


      • #23
        Episode, 13
        آدھی رات کو کون عورت ہو سکتی ہے۔۔وہ بھی اس سے ملنے۔۔صارم شاہ حیران پریشان سا ان ہی سوچوں کے تانے بانے بنتا مہمان خانے کی طرف چل دیا۔۔لیکن جب کمرے کے اندر قدم رکھا تو ہکا بکا رہ گیا۔۔
        " خالہ آپ۔۔۔۔اس وقت۔۔۔۔۔گھر میں سب خیریت تو ہے۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔۔آپ پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔"؟
        صارم شاہ نے مہرالنساء کو دیکھ کر اور اس کے چہرے اور حلیے پہ ایک نظر ڈال کر اس سے پے در پے کئ سوال کر ڈالے۔۔۔
        " مم۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔۔معزرت چاہتی ہوں کہ اس وقت تنگ کر رہی ہوں۔۔۔مم۔۔۔مگر میں بہت مجبوری اور لاچاری میں یہاں آئی ہوں۔۔اجالا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ ہوش میں نہیں آ رہی۔۔میں نے یٰسین کمپوڈر بار بار کال کی مگر وہ اٹھا نہیں رہا۔۔اس کا گھر یہاں سے بہت دور ہے۔۔۔وہاں تک جاتے آتے مجھے بہت دیر ہو جانی تھی۔۔شاہ سائیں کا گھر ہاس تھا۔۔تو مدد مانگنے چلی آئی۔۔پلیز بیٹا میری مدد کرو۔۔۔"
        مہرالنساء بہت مشکل سے ضبط کر کے اپنے آنسو روک رہی تھی لیکن چاہتے ہوئے بھی اسکی گال پہ آنسو لڑھک پڑے۔۔۔
        " خالہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔بابا سائیں گاؤں کے ہر بچے کو اپنی اولاد کی طرح مانتے ہیں۔۔یہ فرض ہے ہمارا۔۔۔
        ایک منٹ آپ ابھی رکیں۔۔میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔۔اور یٰسین کو بھی فون کر دیتا ہوں۔۔وہ دو منٹ میں پہنچ جائے گا۔۔"
        صارم نے اسی وقت یٰسین کو فون کیا۔۔
        " خالہ وہ آ رہا ہے دو منٹ میں۔۔میں گھر اطلاع دے کر ابھی آیا۔۔
        اور دین محمد تم گاڑی نکالو میری جلدی۔۔"
        صارم شاہ مہرالنساء اور دین محمد سے کہ کر تیزی سے اندر کی طرف چل دیا۔۔
        " خالہ اجالا کے بابا گھر پہ نہیں ہیں کیا۔۔میرا مطلب آپ اس وقت اکیلی گھر سے نکلیں ہیں۔۔اجالا کے بابا کو بھیج دیتیں۔۔"
        صارم شاہ نے گاڑی ڈرائیو کرتے پوچھا۔۔
        " کبھی کبھی کچھ لوگ ہو کر بھی نہیں ہوتے۔۔انکا ایک نام ایک وجود تو ہوتا ہے۔۔مگر عملی طور پہ وہ کہیں نہیں ہوتے۔۔"
        مہرالنساء نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔صارم ناسمجھی سے بس سر ہلا کر رہ گیا۔۔
        گھر کے سامنے گاڑی رکی تو مہرالنساء گاڑی سے اتر کر تیزی سے اندر داخل ہوئی۔۔جبکہ صارم شاہ گاڑی سے اتر کر دروازے کے باہر ہی کھڑا ہو گیا۔۔ابھی اسے باہر کھڑے دو منٹ ہی ہوئے ہوں گے۔۔کہ اسی وقت یٰسین نے بھی اپنی بائیک اس کے پاس لا کر کھڑی کی۔۔اور اتر کر صارم شاہ کو سلام کیا۔۔صارم شاہ نے دروازہ بجا کر یٰسین کے آنے کی اطلاع دی۔۔
        " اوہو۔۔۔معاف کرنا بیٹا بے دھیانی اور پریشانی میں تمہیں اندر آنے کا نہیں بول سکی۔۔آپ آ جاؤ اندر۔۔"
        مہرالنساء نے شرمندہ ہوتے صارم شاہ سے کہتے یٰسین اور صارم شاہ کے لیے دروازہ کھولا۔۔
        " کوئی بات نہیں خالہ ایسے ہو جاتا ہے۔۔"
        صارم شاہ کمرے کے اندر آیا تو اسکی نظریں بے اختیار ادھر ادھر بھٹکی تھیں۔۔وہ شائد کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔۔مگر جسکو دیکھنا چاہ رہی تھیں۔۔وہ نظروں سے اوجھل تھی۔۔
        تینوں بچیاں دوسرے کمرے میں تھیں۔۔جبکہ اجالا کے پاس مہرالنساء کھڑی تھی۔۔
        یئسین کچھ دیر بیڈ پہ بے ہوش پڑی اجالا کو چیک کرتا رہا۔۔پھر مایوسی اور پریشانی سے صارم شاہ کی طرف دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔۔
        " بیٹا کیا ہوا ہے میری بیٹی کو۔۔یہ ہوش میں کیوں نہیں آ رہی۔۔"
        مہرالنساء جو کب سے ضبط کیے کھڑی تھی۔۔آخر سارے ضبط کھو کر روتے ہوئے ہوچھنے لگی۔۔صارم شاہ نے بھی سوالیہ نظروں سے یٰسین کی طرف دیکھا۔۔
        " چھوٹے شاہ بچی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔جتنی جلدی ہوسکے اسکو شہر لے جانا ہوگا۔۔میرے بس میں جو تھا۔۔میں وہ سب کر چکا۔۔اگر مزید دیر کی گئ تو بچی کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔یہاں گاؤں کے ہسپتال میں وہ سہولتیں نہیں ہیں جو شہر کے کسی بھی اچھے اور بڑے ہسپتال میں ہوتی ہیں۔۔"
        یٰسین نے تفصیل سے ہر بات واضح کرتے ہوئے کہا۔۔اور سلام کر کے اپنا سامان سمیٹ کر چلا گیا۔۔جبکہ یٰسین کی بات سن کر مہرالنساء وہیں بیڈ پہ ڈھے گئ۔۔" میری بچی۔۔یا الّٰلہ رحم کر۔۔"
        مہرالنساء اجالا کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے رونے لگی۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی اب آدھی رات کو وہ کیا کرے۔۔کیسے اور کہاں وہ اکیلی بچی کو لیکر جائے۔۔صارم شاہ مہرالنساء کے چہرے کی طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔پھر اس نے کمرے کا بغور جائزہ لیا۔۔م
        ایک پل کو اسی وقت مہرالنساء نے نظریں اٹھا کر صارم شاہ کی طرف دیکھا۔۔اور نظریں چرائیں تھیں۔۔
        " خالہ آپکو جو بھی ضروری چیزیں لینی ہیں لیں اور چلیں میرے ساتھ۔۔ہم ابھی شہر کے لیے نکل رہے ہیں۔۔
        صارم شاہ نے اجالا اور مہرالنساء کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
        گھر میں اس وقت اس کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔۔جو پیسے اور زیور تھا۔۔وہ رشید احمد کو دے چکی تھی۔۔اور وہ زیور لے کر اسی وقت نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔۔اور ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔۔
        " ہاں چلو۔۔جلدی کرو۔۔کچھ نہیں ہوگا میری بیٹی کو۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔"
        مہرالنساء ایک ٹراںس کی کیفیت میں کہتے ہوئے بیڈ سے اٹھی تھی۔۔اور اپنی چادر اچھے سے اوڑھ کر اجالا کو اٹھانے کو جھکی۔۔
        "خالہ آپ رہنے دیں۔۔میں اٹھا لیتا ہوں۔۔"
        صارم نے کہتے ساتھ ہی فوراً آگے بڑھ کر اجالا کو اٹھایا تھا۔۔اور کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔اسی وقت عینا، عائلہ اور ایمن جو کہ ساتھ والے کمرے میں کھڑی کب سے دروازے کی اوٹ سے سب دیکھ اور سن رہی تھیں۔۔شدید پریشانی میں فوراً باہر آئیں تھیں۔۔
        " امی جان میں بھی آپکے ساتھ چلتی ہوں۔۔"
        عائلہ نے فوراً آگے ہو کر مہرالنساء سے کہا جو کہ انکی طرف ہی آ رہی تھیں۔۔
        " نہیں بیٹا آپ بہنوں کے پاس گھر پہ ہی رکو۔۔اور الّٰلہ سے اجالا کے لیے دعا کرو۔۔ہسپتال جا کر جو بھی صورت حال ہوئی۔۔ میں فون پہ اطلاع کردوں گی۔۔دل نہیں مان رہا تم لوگوں کو بھی اکیلا چھوڑنے کو۔۔تم لوگ اچھی طرح سے سارے دروازے بند کر لینا۔۔اور کوئی بھی ہو دروازہ مت کھولنا میرے آنے تک۔۔"
        مہرالنساء نے جلدی جلدی سب کو پیار کرتے۔۔اور ہدایات دیتے ہوئے باہر کی طرف جاتے جاتے کہا۔۔


        ہائمہ خاتون اور آئمہ سلطان دونوں بہنیں باہر باغیچے میں بیٹھی چائے پینے کے ساتھ ساتھ پرانی یادیں بھی تازی کر رہی تھیں۔۔
        " آپا اب تو ماشاءالّٰلہ بچے بڑے ہوگئے ہیں۔۔اب تو میری جھولی بھر دیں۔۔برسوں پہلے بھی میں نے آپ سے رامین اور فجر کا سوال کیا تھا۔۔مگر اس وقت آپ نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔۔جب وقت آئے گا تب دیکھیں گے۔۔اب تو کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔اور اب میں خالی ہاتھ نہیں جاؤں گی۔۔"
        آئمہ سلطان نے بڑے مان سے ہائمہ خاتون کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔۔"
        " آئمہ میں آج بھی یہی کہوں گی کہ میرے لیے تم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔۔میرے بچوں پہ سب سے پہلا حق تمہارا ہی ہے۔۔اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر یہ رشتے تہ ہو جاتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ بچے خوش رہیں گے۔۔
        مگر تمہاے بھائی وٹہ سٹہ کے حق میں نہیں ہیں۔۔یا تو فجر تمہاے گھر جا سکتی ہے۔۔یا رامین میرے گھر آ سکتی ہے۔۔
        اور ان سب باتوں سے بھی بڑھ کر ایک بات کہ بچوں کی رضامندی کے بنا میں یا تمہارے بھائی کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔۔اور نہ ہی اپنے ماں باپ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پہ اپنی مرضی مسلط کریں گے۔۔
        تمہارے بھائی شادی بیاہ کے معاملات میں بچوں کے ساتھ زور زبردستی کرنے کے سخت خلاف ہیں۔۔
        مجھے امید ہے کہ تم برا نہیں مانو گی۔۔اور میری بات کو سمجھو گی۔۔
        میں بچوں سے بات کر کے ایک دو دن میں تمہیں بتا دوں گی۔۔ان کا جو بھی جواب ہوا۔۔اور ہم سب بچوں کی خوشی کا احترام کریں گے۔۔ٹھیک ہے۔۔"؟
        ہائمہ خاتون نے انتہائی شفقت اور محبت سے آئمہ سلطان کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر اپنا موقف واضح کیا۔۔"
        آپکی بات بھی ٹھیک ہے آپا۔۔چلیں ایسا کرتے ہیں کہ فجر اور شرجیل کی بات تہ کر دیتے ہیں۔۔جبکہ رامین اور احتشام کا بعد میں انکی رائے لیکر کر دیں گے۔۔شرجیل سے میں پوچھ چکی ہوں۔۔اسکو کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔اور مجھے یقین ہے کہ فجر کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔"
        آئمہ سلطان نے اک آس لیے کہا۔۔
        " آئمہ پلیز۔۔مجھے بس آج کی مہلت دے دو۔۔میں کل بتا دوں گی تمہیں۔۔"
        " اوکے آپا۔۔لیکن کل کا مطلب کل۔۔ یہ نہ ہو میری واپسی کا وقت۔آ جائے اور یہ۔معاملہ پھر لٹک جائے۔۔"
        آئمہ سلطان نے اداسی بھرے لہجے میں کہا۔۔
        " اداس مت ہو آئمہ۔۔الّٰلہ سب بہتر کرے گا۔۔"
        ہائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے انکو تسلی دی۔۔
        " یہ صارم اور باقی سب نظر نہیں آ رہے۔۔کدھر ہیں سب۔۔"
        آئمہ سلطان نے بات کا رخ موڑنے کے لیے پوچھا۔۔
        صارم تو کسی کام سے شہر گیا ہوا ہے رات کا ہی۔۔
        اور باقی بچے ذرا زمینوں تک گئے ہیں۔۔"
        ہائمہ خاتون ابھی کچھ اور کہنے ہی لگیں تھیں کہ اسی وقت فون کی بیل ہوئی۔۔
        " ٹھیک ہےبیٹا۔۔کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔نہیں تم فکر مت کرو میں فجر کو ساتھ بھیج دوں گی۔۔
        الّٰلہ رحم کرے بچی پہ۔۔
        اوکے الّٰلہ حافظ۔۔"
        ہائمہ خاتون نے الوداعی سلام کر کے فون بند کر کے ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔
        " آپا کون تھا۔۔کیا ہوا ہے۔۔سب خیریت تو ہے ناں۔۔"
        آئمہ سلطان نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
        " یاں سب خیریت ہے۔۔فجر کی دوست ہے اسکے گھر والے اس وقت کافی مشکل میں ہیں۔۔اور گاؤں میں کوئی اور انکا رشتہ دار بھی نہیں ہے۔۔چھوٹی بہن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے انکی۔۔ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔۔اور بچیاں گھر پہ اکیلی نہیں چھوڑنا چاہ رہی۔۔اس لیے جب تک انکی والدہ گھر نہیں آ جاتیں۔۔بچیاں ہماری طرف رہیں گی۔۔"
        ہائمہ خاتون نے تفصیل سے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔۔
        " تو کیا صارم اس وقت انکی والدہ کے پاس ہاسپٹل ہے کیا۔۔"
        " ہممممم۔۔وہ بتا کر گیا تھا مجھے۔۔"
        ہائمہ خاتون نے جواب دیا۔۔
        " آپا۔۔کیا یہ مناسب ہوگا۔۔میرا مطلب ہے کہ گھر میں جوان بچے موجود ہیں۔۔ایسے میں پرائی بچیوں کا یہاں رکنا کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔"
        آئمہ سلطان نے ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات واضح کرتے ہوئے کہا۔۔
        " آئمہ تم یہاں نہیں ہوتی۔۔اس لیے تمہیں اندازہ نہیں ٹھیک سے شائد۔۔کہ شاہ جی سارے گاؤں کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔۔اپنی اولاد کی طرح سب کی فکر کرتے ہیں۔۔اور میں انکے ہر قدم پہ انکے ساتھ ہوتی ہوں۔۔اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہے۔۔اس سے پہلے بھی بہت دفعہ ایسا معاملہ ہو چکا ہے۔۔"
        ہائمہ خاتون نے اپنی بہن کے دل کے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
        " مجھ سے بہتر کون جانتا ہے آپا۔۔کہ بھائی جی کے ہر ہر قدم پہ کس طرح سے آپ نے انکا ساتھ دیا۔۔ورنہ جو کچھ بھائی جی نے کیا تھا۔۔کوئی اور عورت ہوتی تو قیامت کھڑی کر دیتی۔۔یہ آپ ہی تھیں جو سب برداشت کرتی گئیں۔۔ویسے نازنین کا کچھ پتہ چلا کیا۔۔اسکا بچہ بھی۔۔۔۔"؟
        " آئمہ۔۔۔۔۔چپ کر جاؤ۔۔۔جو گزر گیا سو گزر گیا۔۔دوبارہ اس موضوع پہ بات مت کرنا پلیز۔۔۔ہم بھی بھول چکے۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے اپنی بہن کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر ان کو چپ کرواتے ہوئے کہا۔۔
        " آپا انسان بھلے ہی بھول جائے۔۔مگر وقت نہیں بھولتا۔۔اور نہ بھولنے دیتا ہے۔۔کبھی کبھی تو انسان کا ماضی لا کر اسکے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔۔اور مجھے یہی ڈر ہے بس۔۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر کیا ہوگا۔۔"
        " آئمہ کچھ نہیں ہوگا۔۔تمہارے بھائی جی انکی تلاش آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔اور میں آج بھی انکے ساتھ ہوں۔۔ہر قدم پہ۔۔ہر جگہ۔۔تم نہیں جانتی کہ وہ کتنی اذیت میں ہیں۔۔جو کچھ بھی ہوا اس میں خود کو قصوروار سمجھتے ہیں۔۔کہ نہ وہ اپنے بابا پہ بھروسہ کرتے۔۔اور نہ یہ سب ہوتا۔۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر الّٰلہ کے حضور گریہ زاری کرتے ہیں۔۔اور مجھ سے انکی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔۔میرا بس چلے تو میں زمین کی تہ سے بھی انکو نکال لاؤں۔۔مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ انکو زمین کھا گئ یا آسمان۔۔"
        ہائمہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔اور آئمہ سلطان محبت عقیدت سے اپنی بہن کو دیکھے جا رہی تھیں۔۔
        " ایسے کیا دیکھ رہی ہو آئمہ۔۔"؟
        ہائمہ خاتون نے آئمہ سلطان کے یک ٹک دیکھنے پہ اپنی بہن سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔
        " زمین پہ فرشتہ دیکھ رہی ہوں آپا۔۔اگر کوئی کہے کہ فرشتوں کو کس نے دیکھا۔۔تو میں کہوں کہ میں نے دیکھا ہے۔۔اپنی آپا کے روپ میں۔۔
        الّٰلہ نے آپکو بہت خاص مٹی سے بنایا ہے آپا۔۔بہت بڑا دل ہے آپ کا۔۔
        آپکو یاد ہے آپا کہ بابا کہا کرتے تھے کہ میری ہائمہ الّٰلہ لوک ہے۔۔بہت خاص بندی ہے یہ۔۔
        مجھے کبھی کبھی بابا کی بات سن کر برا بھی لگتا تھا۔۔سوچتی تھی بابا مجھے ایسے کیوں نہیں کہتے۔۔
        مگر اب سمجھ میں آیا کہ بابا ٹھیک ہی کہتے تھے کہ آپ واقعی سچ میں بہت خاص ہو۔۔میری آپا جیسا دل کسی کے پاس نہیں ہے۔۔"
        یہ کہتے آئمہ سلطان کی آنکھوں میں نمی بھر آئی تھی۔۔
        " اوہ تو مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میری بہن مجھ سے جیلس ہوتی تھی۔۔"
        ہائمہ خاتون نے ہنستے ہوئے کہا
        " ہرگز نہیں آپا۔۔کبھی بھی نہیں۔۔امی کے گزر جانے کے بعد آپ میری ماں بھی تھیں۔۔بہن بھی۔۔اور سہیلی بھی۔۔پھر میں کیسے جیلس ہو سکتی تھی آپ سے۔۔"
        آئمہ سلطان نے فوراً انکی بات کی نفی کی۔۔
        " اوہو۔۔میں مزاق کر رہی تھی۔۔تم سیریس ہو گئ ہو۔۔چلو اندر چلتے ہیں۔۔سورج بھی اب آنکھیں دکھانے لگا ہے کہ اٹھ جاؤ یہاں سے۔۔نہیں تو میں جلا دوں گا۔۔"
        ہائمہ خاتون نے ہنستے ہوئے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔

        نیلم بائی کے جانے کے بعد موہنی کب سے بیٹھی روئے جا رہی تھی۔۔وہ ہرگز ہرگز اس دلدل کا حصّٰہ نہیں بننا چاہتی تھی۔۔نیلم بائی جس راستے پہ اسکو چلانا چاہ رہی تھی۔۔اس پہ چلنا اسکے لیے سوہان روح تھا۔۔اگر اسکی عزت چلی گئ تھی تو اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اس راستے کو ہمیشہ کے لیے اپنا لیتی۔۔
        اور اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس سب سے کیسے بچے۔۔اسی وقت دروازہ سے کوئی اندر آیا تھا۔۔
        " رحمو بابا آپ۔۔۔"؟
        " ہاں میں ہوں میری بچی۔۔کیسی ہو۔۔یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔۔رنگت دیکھو کیسے زرد ہو رہی ہے۔۔"؟
        رحمو بابا نے شفقت سے موہنی کے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔۔سلوٹ زدہ کپڑے۔۔بال عجیب بے ترتیب۔۔چہرے کی رنگت زردی مائل۔۔یہ وہ موہنی ہرگز نہیں تھی۔۔جس پہ ایک بار نظر اٹھتی تو پلک جھپکنا بھول جاتی۔۔
        " کیسی ہو سکتی ہوں۔۔زندہ ہوں بابا۔۔کاش کہ میں ان سب جیسی ہوتی۔۔بے ضمیر۔۔بے حس۔۔جاہل۔۔خانم کہتی ہے کہ اسکو افسوس ہے اس بات کا کہ اس نے مجھے کیوں پڑھنے کی اجازت دی۔۔
        سچ تو یہ ہے بابا کہ مجھے بھی آج افسوس ہو رہا ہے۔۔کاش کہ میں بھی ان سب کی طرح انجان رہتی۔۔صحیح، غلط۔۔سچ ، جھوٹ سے انجان۔۔پتہ ہوتا تو بس پیسے کا۔۔پیسہ کمانے کا۔۔اس ذلت بھری زندگی کو اپنا کر بھی سب کتنی خوش ہیں۔۔
        اور میں جو ہمیشہ اس سب سے دور رہی کہ یہ گناہ ہے۔۔پھر میں اذیت میں کیوں ہوں بابا۔۔
        یہاں رہنے والی ہر لڑکی کی عزت کی روزانہ دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔۔وہ پھر بھی سکون میں ہیں۔۔
        میں سکون میں کیوں نہیں ہوں بابا۔۔مجھے سکون کیوں نہیں آ رہا۔."
        اب کے موہنی نے خود پہ ضبط کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔رحمو بابا کی گود میں سر رکھ کر وہ بلک بلک کر رو پڑی تھی۔۔رحمو بابا نے بھی اسکو چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔۔اسکے سر پہ دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے رہے۔۔
        " ایک بات پوچھوں موہنی بیٹا۔۔پہلے بھی پوچھنا چاہتا تھا مگر تمہاری حالت دیکھ کر چپ رہا۔۔"
        کچھ دیر رو لینے کے بعد جب وہ تھوڑی بہتر ہوئی تو رحمو بابا نے اس سے پوچھا۔۔
        " جی بابا پوچھیے۔۔میں نے کب آپ کو کبھی کچھ کہنے سے یا پوچھنے سے روکا ہے۔۔"
        موہنی نے آہستہ سے اٹھ کر سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
        " تمہیں اپنی عزت جانے کا دکھ ہے اصل میں۔۔یا اپنے پیار کے ہاتھوں لٹنے کا دکھ ہے۔۔"؟
        رحمو بابا نے جانچتی نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔رحمو بابا کے کیے گئے سوال پہ موہنی گنگ رہ گئ۔۔
        " بولو بیٹا۔۔" میری بات کا جواب نہیں دیا تم نے۔۔"؟
        موہنی کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر رحمو بابا نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔۔
        " دونوں کا ہی بابا۔۔دونوں نے ہی میرے وجود اور میری روح کو زخمی کیا ہے۔۔اور یہ بھی سچ ہے کہ جس کو میں نے اپنی عزت کا مان بخشا۔۔جس کو اہنا محافظ سمجھا۔۔اسی کے ہاتھوں برباد ہونے نے میرے اس دکھ میری اس اذیت کو سِوا کر دیا ہے۔۔مجھے خود سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔۔ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی مجھ پہ ہنس رہا ہے۔۔
        کہ دیکھو بڑی پارسا بنی پھرتی تھی۔۔بڑی انا والی بنتی تھی۔۔اور ٹوٹی بھی تو کس کے ہاتھوں۔۔مجھے یہ دکھ مار ڈالے گا۔۔میں مر جاؤں گی بابا۔۔بابا میں کیا کروں۔۔مجھے قرار کیوں نہیں آ رہا۔۔
        موہنی یہ کہتے کہتے پھر سے رونے لگی تھی۔۔
        " جنکی تم بات کر رہی ہو وہ سب یہیں کی پیدوار ہیں۔۔جنکے باپ کا کسی کو نہیں پتہ۔۔اور کچھ نے اپنی مرضی سے آکر یہ سب قبول کیا۔۔
        تم ان جیسی نہیں ہو۔۔ان سب سے الگ ہو۔۔تمہاری رگوں میں بہنے والا خون گندہ نہیں۔۔بلکہ پاک ہے۔۔تم کسی کی ناجائز نہیں۔۔بلکہ جائز اولاد ہو۔۔اور پاک خون اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔۔اور یہ وہی خون ہے۔۔جو ابال کھا رہا ہے۔۔جس نے تمہیں کبھی اس سب کا حصّٰہ نہیں بننے دیا۔۔
        پھر تمہیں کیسے قرار آ سکتا ہے میری بچی۔۔"
        رحمو بابا نے آج برسوں سے اس کی زندگی کی بند کتاب کھولی تھی۔۔اور اس کتاب کے چند ورق پڑھ کر موہنی کو سنائے تھے۔۔جن کر سن کر موہنی ہکا بکا رہ گئ تھی۔۔خانم نے ہمیشہ اس سے یہی کہا تھا کہ اسکی ماں یہیں کی تھی۔۔اور وہ کسی کی ناجائز اولاد ہے۔۔اس کا باپ کون ہے کوئی نہیں جانتا۔۔
        " بابا۔۔۔مگر۔۔۔خانم نے تو کچھ اور کہا تھا۔۔کیا وہ جھوٹ ہے سب۔۔یا وہ جو آپ کہ رہے۔۔کہیں آپ مجھے تسلی دینے کے لیے تو یہ سب نہیں کہ رہے۔۔"؟
        موہنی نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔۔
        " نہیں میری بچی۔۔میں جو کہ رہا اس کا ہر لفظ سچ ہے۔۔سب سے خطرناک جھوٹ وہ ہوتا ہے جس میں تھوڑا سچ بھی شامل ہو۔۔اور اس جھوٹ پہ بندہ بہت جلدی یقین کرتا ہے۔۔
        تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔یہ سچ ہے کہ تمہاری ماں کوٹھے کی تھی۔۔اور جسے تم خانم کہتی ہو وہ تمہاری سگی خالہ ہے۔۔تمہاری ماں نیلم بائی کی سگی بہن تھی۔۔
        مگر دونوں بہنیں ماں کی طرف سے سگی تھیں۔۔باپ کون تھا۔۔کوئی نہیں جانتا۔۔
        میں آج تک چپ رہا۔۔مگر اب مزید سچ تم سے نہیں چھپا سکتا۔۔یہ راز میرے اور نیلم بائی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔اس نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ کبھی تمہیں اس بات کا پتہ نہ چلے۔۔تمہارے ساتھ آج تک جو اس نے نرمی برتی اسکی وجہ بھی یہی تھی۔۔ورنہ وہ کب کی تمہیں اس کام پہ لگا چکی ہوتی۔۔"
        رحمو بابا نے ساری بات آج کھول کر اسکے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔آگے جو موہنی کی قسمت۔۔وہ چاہتے تھے کہ سب جان کر موہنی اپنا فیصلہ خود کرے۔۔نیلم بائی نے اسکے سامنے جو دو راستے رکھے تھے۔۔ان میں سے کسی کو بھی چننے سے پہلے موہنی کا سچ جاننا بہت ضروری تھا۔۔
        " اتنا بڑا جھوٹ بابا۔۔خانم نے میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیا۔۔"
        موہنی نے یاسیت سے کہا۔
        " اگر دیکھا جائے تو اس نے تمہارے ساتھ جھوٹ بولنے کے سوا۔۔کبھی کچھ برا نہیں کیا بیٹا۔۔تمہاری ہر ضرورت۔۔ہر خواہش پوری کی۔۔تمہیں تمہاری مرضی پہ چھوڑے رکھا۔۔تمہارے ساتھ باقیوں کی طرح نہ کبھی سختی کی۔۔اور نہ اس دھندے پہ لگانے کے لیے زور زبردستی کی۔۔
        تمہاری ماں جب تمہیں یہاں لے کر واپس آئی۔۔اس وقت تم بہت چھوٹی تھی۔۔یہی کوئی 3، 4 سال کی ہو گی تم۔۔تمہاری ماں جب تمہیں یہاں لے کر آئی تم دونوں کو بہت تیز بخار تھا۔۔بہت بری حالت تھی تم دونوں کی۔۔
        بہت شوق تھا تمہاری ماں کو تمہیں پڑھانے لکھانے کا۔۔وہ چاہتی تھی کہ تم پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پہ کھڑی ہو۔۔اور یہاں سے نکل جاؤ۔۔
        اس لیے مرنے سے پہلے اس نے نیلم بائی سے وعدہ لیا تھا کہ تمہیں کبھی اس دلدل میں نہیں اترنے دے گی۔۔تمہارے لیے ٹیوٹر کا یہیں پہ انتظام کیا گیا۔۔پھر جب تم 8 سال کی تھی۔۔تو تمہاری ماں ہارٹ اٹیک سے چل بسی۔۔"
        رحمو بابا نے ساری کہانی اسکے سامنے کھول کر رکھ دی۔۔
        " میرا باپ کون ہے بابا۔۔اور خانم اب اپنا وعدہ کیوں نہیں نبھا رہی۔۔وہ کیوں مجھے سیٹھ شجاع کے پاس جانے کے لیے بول رہی ہے۔۔"؟
        موہنی نے ساری بات سن کر اگلا سوال کیا۔۔
        " تمہاری ماں سے کیے وعدے میں ایک اور وعدہ بھی تھا۔۔کہ خانم تب تک تمہارے ساتھ زور زبردستی نہیں کرے گی۔۔نہ تمہیں مجبور کرے گی۔۔جب تک تم خود نہ اس سب کا حصّٰہ بننا چاہو۔۔اور تب تک۔۔جب تک تمہاری عزت کسی بھی وجہ سے داغدار نہیں ہو جاتی۔۔جب تک تم نے اپنی حفاظت کی۔۔خانم نے کوئی زبردستی نہیں کی۔۔مگر اب۔۔۔۔"
        رحمو بابا نے یہ کہتے موہنی سے نظریں چرائی تھیں۔۔
        " اب کیا بابا۔۔۔۔اب کیا۔۔۔اس سب میں میرا کیا قصور۔۔۔
        دلاور اس دن ہوش میں نہیں رہا تو میرا کیا قصور۔۔۔
        اُس دن میں خود کو نہیں بچا سکی تو اس میں میرا کیا قصور بابا۔۔۔
        خانم نے مجھے نہیں بچایا تو اس میں میرا کیا قصور۔۔۔
        میں نہیں جانتی میری ماں مجھے واپس یہاں لے کر کیوں آئی۔۔اور آئی تو اس میں میرا کیا قصور۔۔
        میرے باپ نے میری ماں کو چھوڑ دیا تو اس میں میرا کیا قصور۔۔۔
        میرا دل نہیں مانتا۔۔۔میری رگوں میں بہتا جائز خون۔۔مجھے اس سب کا حصّٰہ نہیں بننے دے رہا۔۔تو اس میں میرا کیا قصور۔۔۔
        میں کیا کروں بابا۔۔کس سے پوچھوں۔۔کہاں جاؤں۔۔
        موہنی کی آنکھوں سے سمندر ابل پڑا تھا۔۔
        " میرا باپ کون ہے۔۔کہاں رہتا ہے وہ۔۔اسکا نام کیا ہے۔۔"؟
        کچھ دیر بعد موہنی نے خود کو سنبھالتے ہوئے۔۔سر اٹھا کر غصے اور نفرت سے پوچھا تھا۔۔


        ماضی۔۔!
        دانی جس طرح سے حمید صاحب کی بیٹی کو بچانے کے لیے لڑا تھا۔۔محلے کے سبھی لوگوں کو اس بات کا پتہ چل چکا تھا۔۔سب لوگ دانی سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔۔خاص کر حمید صاحب ان کا بہت خیال رکھنے لگے تھے۔۔گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے انکے گھر کچھ نہ کچھ بھیجتے رہتے تھے۔۔
        آج بھی انکی بیگم اور بیٹی ملنے آئیں تو ایک بڑے سے باؤل میں بریانی بھی لے کر آئیں۔۔
        " فاطمہ بیٹا یہ کسی برتن میں ڈال کر مجھے باؤل خالی کردو۔۔"
        حمید صاحب کی بیگم نے فاطمہ کو بریانی والا باؤل پکڑاتے ہوئے کہا۔۔
        " عائشہ بہن میں کتنی بار آپ سے کہ چکی ہوں کہ آپ یہ تکف نہ کیا کریں۔۔اچھا نہیں لگتا ایسے روز روز۔۔"
        رضوانہ خاتون نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔۔کیونکہ ایسی محبت دونوں طرف سے ہی دکھائی جائے تو اچھا لگتا ہے۔۔ایک طرف سے ہی سارا زور ہو تو دوسرا بندہ خواہ مخواہ شرمندہ ہونے لگتا ہے۔۔
        " لو یہ کیا بات کہی آپ نے بہن۔۔حمید صاحب آپکو اپنی سگی بہن۔۔اور بچوں کو اپنے بچے کہتے ہیں۔۔ہھر اس حساب سے تو آپ میری نند ہوئیں۔۔اور حمید صاحب آپکے بھائی۔۔اور ان بچوں کے ماموں۔۔
        تو بہنوں کا تو بہت حق ہوتا ہے اپنے بھائیوں پہ۔۔
        اور ویسے بھی یہ کوئی تکلف نہیں ہے۔۔زین اور اسماء ( حمید صاحب کے بچے) بہت شوقین ہیں اسکے۔۔اس لیے اکثر گھر میں پکتی رہتی ہے۔۔اسماء کا بہت دل تھا فاطمہ سے ملنے کا۔۔اور یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر میں پکی ہو اور اپنی بہن کے لیے نہ لے کر آتی۔۔"
        عائشہ خاتون نے اتنی محبت اور اپنائیت سے بات کی کہ رضوانہ خاتون کچھ بھی بول نہ سکیں۔۔
        " اور سنائیں دانی کیسا ہے۔۔گھر پہ نہیں ہے کیا۔۔نظر نہیں آ رہا۔۔"
        عائشہ خاتون نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔۔
        " گھر پہ ہی ہے۔۔اسکے امتحان سر پہ ہیں۔۔تو بس تیاری کر رہا ہے بیٹھا۔۔
        ماشاءالّٰلہ۔۔۔الّٰلہ کامیاب کرے۔۔
        ابھی وہ لوگ بیٹھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ دروازے پہ زور زور سے دستک ہوئی۔۔
        " الّٰلہ خیر کرے۔۔یہ کون ہے۔۔دانی بیٹا۔۔۔دانی.."
        رضوانہ خاتون نے دانی کو آواز دی۔۔
        " جی ماسو ماں۔۔"
        " بیٹا باہر دیکھو کہ کون ہے۔۔"

        " خالہ۔۔۔خالہ۔۔۔وہ۔۔۔وہ دانی بھائی کو پولیس پکڑ کر لے گئ ہے۔۔۔"
        محلے کا ایک بچہ ہانپتا ہوا اندر آیا تھا۔۔اور آ کر اطلاع دی۔۔
        " یاالّٰلہ خیر۔۔۔میرا بچہ۔۔۔یہ کیا ہو گیا۔۔۔کیا کیا ہے اس نے۔۔کیوں لے کر گئے ہیں۔۔کچھ پتہ ہے بیٹا۔۔"؟
        رضوانہ خاتون نے ہک فق ہو کر پوچھا۔۔
        " نہیں خالہ۔۔۔بس اتنا پتہ ہے۔۔ایک پولیس والے نے دانی بھائی کے زور سے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ چل تھانے۔۔تیری ساری گرمی نکالتے ہیں۔۔وڈا آیا بدمعاش توں۔۔۔
        " یا الّٰلہ اب یہ کیا نیا مسلہ کھڑا ہو گیا ہے۔۔"
        " امی جان اب کیا ہوگا۔۔"؟
        رضوانہ خاتون سر پکڑ کر ڈھے گئ تھیں۔۔فاطمہ بھی پریشان ہو کر اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر بولی۔۔
        " آپ فکر مت کرو بہن۔۔میں ابھی حمید صاحب اور زین کو بھیجتی ہوں کہ جا کر ہتہ کریں۔۔بلکہ چھڑوا کر لائیں اسکو۔۔"
        عائشہ خاتون نے جلدی سے اٹھ کر چادر درست کی اور دروزے سے باہر نکل گئیں۔۔


        Comment


        • #24
          بہترین اپڈیٹ یار

          Comment


          • #25

            Episode, 14#
            " صارم شاہ کے اثرو رسوخ کی وجہ سے سینیئر ڈاکٹرز کا پورا عملہ اس وقت آئی سی یو روم میں موجود تھا۔۔ایک گھنٹے سے اجالا کے مختلف قسم۔کے ٹیسٹ لیے جا رہے تھے۔۔ہر گزرتے پل کے ساتھ روم کے باہر کھڑی مہرالنساء کا دل بھی ڈوبتا جا رہا تھا۔۔شدید ڈپریشن اور ساری رات جاگنے کی وجہ سے مہرالنساء کی حالت غیر ہو رہی تھی۔۔صارم شاہ ڈاکٹرز کے پاس کھڑا ساری کاروائی دیکھ رہا تھا۔۔کہ اچانک اسکی نظر مہرالنساء پر پڑی۔۔جو دیوار کا سہارا لیے گرنے کو تھیں۔۔
            " خالہ جان کیا ہوا ہے۔۔آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں۔۔تھوڑا ریسٹ کر۔لیں۔۔ایسے تو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔"
            صارم شاہ نے جلدی سے روم سے باہر آکر مہرالنساء کو سنبھالا تھا۔۔اور پاس پڑے بینچ پر بٹھایا تھا۔۔
            " میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔میری اجالا۔۔میری اجالا ٹھیک ہے ناں۔۔ڈاکٹر کچھ بتا کیوں نہیں رہے۔۔سب اسکے کمرے میں کیوں جمع ہیں۔۔میری بیٹی ٹھیک ہے ناں۔۔"
            " خالہ سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں۔۔میں ہوں ناں آپکے پاس۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
            صسرم شاہ نے مہرالنساء کو تسلی دیتے کہا۔۔
            اسی وقت ایک ڈاکٹر نے باہر آیا۔۔
            " اجالا کے ساتھ کون ہے۔۔
            " جی ہم لوگ ہیں۔۔"
            صارم شاہ نے آگے ہو کر جواب دیا۔۔
            " آپ پلیز ذرا آئیے میرے ساتھ۔۔"
            ڈاکٹر نے اپنے روم کی طرف بھڑتے ہوئے کہا۔۔
            " دیکھئیے۔۔ہم نے بچی کے سبھی ٹیسٹ کیے ہیں۔۔جس سے ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ بچی کے سر پہ جو چوٹ آئی ہے۔۔یا لگائی گئ ہے۔۔اس سے بچی کے سر میں اندرونی طور پہ شدید ضرب آئی ہے۔۔جس سے بچی ایڈیما کا شکار ہو گئ ہے۔۔
            آپ اسکو دماغ کا ورم بھی کہ سکتے ہیں۔۔چوٹ لگنے کی وجہ سے دماغ کے ارد گرد موجود ٹشوز پہ دباؤ پڑنے سے ورم آ جاتا ہے۔۔اور سیال جمع ہونے لگتا ہے۔۔اور اگر یہ ورم دماغ کے اندر آ جائے تو معاملہ خطرناک ہو جاتا ہے۔۔
            دواؤں کے ذریعے اس صورت حال پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔۔اور اگر دواؤئیں اثر نہ کریں تو۔۔"
            اپنی بات بیچ میں ہی روک کر ڈاکٹر صارم شاہ کی طرف دیکھنے لگا۔۔
            " تو کیا ڈاکٹر صاحب۔۔"
            " تو یہ کہ ہمیں بچی کے دماغ میں سوراخ کر کے اس سیال کو نکالنا ہوگا۔۔"
            " مگر ابھی تو آپ نے کہا کہ۔۔دواؤں سے اس صورت حال پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔۔پھر۔۔"؟
            صارم شاہ بےچینی سے بولا۔۔
            " جی ایسا ہی ہوتا۔۔مگر بد قسمتی سے سیال بچی کے دماغ کے اندر جمع ہو رہا ہے۔۔
            جسے ہنگامی بنیاد پہ نکلالنا ہوگا۔۔آپ ہمیں بتا دیں۔۔آپکا جو بھی فیصلہ ہے۔۔مگر یہ فیصلہ آپکی اپنی صوابدید پہ ہوگا۔۔ہماری نہیں۔۔
            ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں بات کلئیر کی۔۔
            " اس میں بچنے کی امید کتنی ہے ڈاکٹر صاحب۔۔"
            صارم شاہ نے گہرا سانس لے پوچھا۔۔
            " 60‰ پرسنٹ۔۔"
            ڈاکٹر نے واضح جوب دیا۔۔
            " مگر علاج تھوڑا ایکسپینسو ہے۔۔اگر آپکو۔منظور ہے۔۔تو آپ یہ فارم فل کردیں۔۔تا کہ سٹاف کو تیاری کا کہ سکوں۔۔"
            ڈاکٹر صارم شاہ کے سامنے ایک فارم رکھتے ہوئے بولا۔۔
            " آپ پیسوں کی فکر مت کریں۔۔اور اوپریشن کی تیاری کریں۔۔میں جو بھی لیگل فارمیلٹیز ہیں انکو دیکھ لوں گا۔۔لیکن بچی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔"
            صارم شاہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔اور فارم پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
            صارم شاہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ مہرالنساء سے بات کرے یا نہ کرے۔۔انکی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی۔۔پھر کچھ سوچ کر وہ مہرالنساء کے پاس آیا۔۔
            " خالہ میں سوچ رہا تھا کہ آپ گھر چلی جاتیں۔۔کچھ آرام کر۔لیتیں۔۔"
            صارم شاہ مہرالنساء کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
            " نہیں ہرگز نہیں۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔یہیں رہوں گی۔اپنی بچی کے پاس۔۔میری فکر نہ کرو۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔مجھے یہ بتاؤ کہ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔۔کیا ہوا ہے اجالا کو۔۔"؟
            "خالہ ڈاکٹر کہ رہے ہیں سب ٹھیک ہے۔۔پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔۔"
            " تو پھر وہ ملنے کیوں نہیں دے رہے۔۔اسکے اتنے ٹیسٹ کیوں کر رہے ہیں۔۔"
            مہرالنساء کو صارم شاہ کی بات پر جیسے یقین نہیں آیا تھا۔۔
            "خالہ سر کی چوٹ اچھی نہیں ہوتی۔۔اور وہ بے ہوش بھی تھی۔۔اس لیے میں نے ہی ڈاکٹر سے کہا تھا کہ مکمل چیک اپ کریں۔۔"
            صارم شاہ مہرالنساء سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔
            " خالہ ایک بات پوچھوں۔"
            صارم شاہ نے مہرالنساء کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا
            " ہوچھو بیٹا۔۔تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔تمہیں بیٹا کہا نہیں مانا ہے۔۔"
            مہرالنساء صارم شاہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔۔انداز تسلی دینے والا تھا۔۔جیسے کہ رہی ہو کہ جو چاہے پوچھو۔۔
            " خالہ اجالا کے یہ چوٹ کیسے لگی۔۔اور اتنی گہری چوٹ۔۔اجالا کے بابا کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔۔وہ۔کہاں ہیں۔۔شہر سے باہر ہیں کیا۔۔ان کا ہونا بہت ضروری ہے یہاں۔۔ رات بھی آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا تھا۔۔"
            صارم شاہ نے مہرالنساء کی طرف بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
            " وہ نہیں آئیں گے۔۔"
            مہرالنساء نے نظریں چراتے کہا۔۔
            " خالہ کچھ لیگل فارمیلٹیز ہیں جو سرپرست ہی پوری کر سکتا ہے۔۔انکے سائن ہونے ہیں کچھ فارمز پہ۔۔بس ایسے ہی معمول کی کاروائی ہے۔۔"
            صارم شاہ مہرالنساء کی بات سے بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔۔اس لیے مزید سوال کرکے انکو پریشان کرنا مناسب نہیں لگا۔۔مگر سائن بھی ضروری تھے۔۔"
            " سر پلیز یہ کچھ میڈیسنز ہیں یہ لے آئیں۔۔اور پلیز جلدی اب مزید لیٹ نہیں کر سکتے۔۔بچی کی جان کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔۔پلیز جلدی کریں۔۔"
            نرس صارم شاہ کے پاس آ کر بولی۔۔اور میڈیسن کی پرسکیپشن صارم شاہ کو پکڑا کر فوراً واپس چلی گئ۔۔
            " جان کو خطرہ۔۔کیا ہوا ہے۔۔کیا چھپا رہے ہومجھ سے۔۔"
            مہرالنساء رقت آمیز لہجے میں صارم شاہ کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
            " خالہ چوٹ لگنے کی وجہ سے اجالا کی انٹرنل بلیڈنگ ہوئی ہے دماغ میں۔۔جسے اب ڈاکٹرز ایک مائنر سا اوپریشن کر کے صاف کر دیں گے۔۔خطرے والی۔۔۔۔۔۔"
            صارم شاہ ابھی اتنا ہی بولا تھا کہ مہرالنساء لہرا کر زمین بوس ہوئی تھی۔۔
            " خالہ۔۔۔۔خالہ۔۔۔ہوش کریں۔۔۔خالہ۔۔
            نرس۔۔۔"
            صارم شاہ نے جلدی سے آگے ہو کر مہرالنساء کو سنبھالا تھا۔۔پھر انکو ہوش و خرد سے بیگانہ دیکھ کر پاس سے گزرتی ایک نرس کو آواز دی تھی۔۔
            صارم شاہ عجیب صورت حال میں پھنس گیا تھا۔۔ایک طرف اجالا اور ایک طرف مہرالنساء۔۔
            مہرالنساء کو دوسرے روم میں ایڈمٹ کر دیا گیا تھا۔۔
            پھر کچھ سوچ کر اس نے گھر اپنی ماں کو فون کیا تھا۔۔


            " میرا باپ کون ہے بابا۔۔"
            موہنی نے اپنی بات پھر دہرائی تھی۔۔
            " تمہارے باپ کا نام۔۔۔۔"
            " سیٹھ حشمت شاہ۔۔"
            رحمو بابا ابھی اتنا ہی بولے تھے کہ ایک اور آواز پہ رحمو بابا اور موہنی نے فوراً دروازے کی طرف دیکھا۔۔جدھر سے آواز آئی تھی۔۔
            " سیٹھ حشمت شاہ ہے تمہارے باپ کا نام۔۔"
            نیلم بائی کمرے کے اندر آکر انکے پاس کھڑے ہو کر موہنی کی طرف دیکھ کر دوبارہ بولی۔۔
            " رحمو بابا آپ دروازے کے باہر کھڑے ہو جائیں۔۔کوئی بھی اس طرف نہ آئے۔۔موہنی کے باقی سوالوں کے جواب اب میں دوں گی۔۔"
            نیلم بائی رحمو بابا سے کہ کر موہنی کے پاس آ کر بیٹھ گئ۔۔
            " خانم۔۔۔"
            موہنی ڈبڈبائی آنکھوں سے نیلم بائی کی طرف دیکھ کر بس یہی بول پائی۔۔
            " خانم نہیں۔۔۔خالہ۔۔۔"
            نیلم بائی نے اپنے بازو موہنی کی طرف وا کیے۔۔
            " کیوں۔۔خالہ کیوں۔۔اتنا بڑا سچ مجھ سے۔کیوں چھپایا۔۔
            کیوں آپ نے کہا کہ میں کسی کی ناجائز اولاد ہوں۔۔آپ نہیں جانتی کہ میرا باپ کون ہے۔۔
            کیوں۔۔۔خالہ کیوں۔۔"؟
            " موہنی تمہارے لیے۔۔۔تمہیں اس اذیت سے بچانے کے لیے جس سے تم اب گزر رہی ہو۔۔
            " مجھے سب جاننا ہے خالہ سب۔۔۔مگر بلکل سچ۔۔"
            موہنی نے نیلم بائی کی گود میں سر رکھ کر روتے ہوئے کہا۔۔
            " پوچھو۔۔جو پوچھنا ہے۔۔۔میں آج تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گی۔۔"
            نیلم بائی نے موہنی کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
            " خالہ آپ جو بھی میری ماں اور باپ کے بارے میں جانتی ہیں وہ سب مجھے جاننا ہے۔۔الف سے ی تک۔۔"
            موہنی اب کی بار اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تھوڑا سنبھل کر بولی۔۔
            " تمہاری ماں نازنین اور میں دونوں سگی بہنیں تھیں۔۔جیسا کہ تم جان چکی ہو۔۔
            ہماری رہائش پہلے ہیرا منڈی میں ہوا کرتی تھی۔۔وہیں پر پہلی بار اپنے ایک دوست کے ساتھ تمہارے بابا سیٹھ حشمت کا آنا ہوا۔۔اس دن میری ماں یعنی تمہاری نانی نے تمہاری ماں کا 20 لاکھ میں ایک رات کے لیے سودا تہ کر دیا تھا۔۔نازنین تمہاری طرح ہی تھی۔۔خوابوں کی دنیا میں رہنے والی۔۔شہزادوں کے خواب دیکھنے والی۔۔اسے لگتا تھا کہ وہ اتنی حسین ہے کہ اسکو پانے کے لیے وہ جس سے کہے گی وہ اس سے نکاح کے لیے فوراً راضی ہو جائے گا۔۔اسکے لیے سب کچھ کر گزرے گا۔۔
            اور اس کا یہ گھمنڈ غلط بھی نہیں تھا۔۔وہ تھی ہی اتنی حسین۔۔کہ اس پہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔۔
            کچھ کا تو خیال تھا کہ وہ یہاں کے نہیں بلکہ باہر کے کسی مرد کی نشانی ہے۔۔
            نیلی آنکھیں۔۔صراحی دار لمبی گردن۔۔تیکھے نین نقش۔۔ریشم کے جیسے کمر تک آتے لہراتے گھنے بال۔۔فگر ایسا کہ لاکھوں میں کسی ایک لڑکی کا ایسا ملے۔۔
            تم بھی بلکل اپنی ماں کی کاپی ہو۔۔بس براؤن آنکھیں اپنے باپ کی لی ہیں۔۔
            نیلم بائی کھوئے کھوئے لہجے میں موہنی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
            ہماری ماں بہت سخت دل اور کسی حد تک ظالم عورت تھی۔۔نازنین کی خوبصورتی بچپن سے ہی سب پہ عیاں تھی۔۔اس لیے ماں نے اسکے جوان ہونے تک کسی پہ اسکی نظر نہیں پڑنے دی۔۔جب وہ 18 سال کی ہوئی تو ماں نے شہر کے ایک رئیس زادے کی پارٹی میں جہاں امیر ترین لوگ جمع تھے۔۔ پہلی بار اسکا مجرا پیش کیا۔۔
            اور چند دن میں ہی پورے شہر میں نازنین کے حسن کے چرچے ہونے لگے۔۔ہر کوئی اسکی ایک جھلک دیکھنے کو منہ مانگی قیمت دیتا۔۔
            پیسہ پانی کی طرح برسنے لگا۔۔نازنین کا ڈانس دیکھتے لوگ اپنا آپا کھونے لگتے۔۔
            اس کو پانے کی خواہش ہر دل میں منہ مانگی قیمت پہ جاگنے لگی
            ایک دو بار ماں نے کوشش کی تو نازنین نے کہ دیا کہ وہ اسی کی ہوگی جو اس سے نکاح کرے گا۔۔نکاح کی شرط رکھ کر شائد وہ اپنا بچاؤ کرنا چاہتی تھی۔کیونکہ اسکو یقین تھا کہ اس سے نکاح کی شرط وہی مانے گا جو سچ میں اس سے پیار کرتا ہوگا۔۔مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ کچھ مردوں کے لیے نکاح بھی بس ایک کھلونے کی طرح ہے۔۔جسے وہ عورت کو حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں بس۔۔
            پھر ایک دن نازنین کی بولی لگی۔۔اور جس نے سب سے زیادہ بولی لگائی وہ اس ملک کے وزیر کا بیٹا تھا۔۔مگر نکاح پہ راضی نہیں تھا۔۔بات ضد اور دھمکی تک چلی گئ۔۔ماں کو تو بس پیسے سے غرض تھی۔۔جب کسی طرح بھی نازنین نہیں مانی تو ایک دن اسکا سودا تہ کر کے اسکو نیم بے ہوشی کا انجیکشن لگا کر اس وزیر زادے کے حوالے کر دیا۔۔
            اس دن اتفاق سے تمہارے بابا بھی اپنا غم غلط کرنے کو یہاں موجود تھے۔۔اپنے ساتھ والے روم سے جب انھوں نے شوروغل کی آواز سنی تو فوراً باہر نکلے۔۔نازنین ماں کی توقع کے برعکس جلد ہوش میں آ گئ تھی شائد۔۔تمہارے بابا نے نازنین کے روم کا دروازہ پیٹ ڈالا۔۔اندر سے آتی آوازوں کی وجہ سے وہ سمجھے کہ کسی لڑکی کو کڈنیپ کر کے لایا گیا ہے۔۔ورنہ کوٹھوں پہ کون سی لڑکی شور مچاتی ہے۔۔دروازہ پیٹنے کی آواز پہ تمہارے بابا کے دوست کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگ بھی کمروں سے باہر نکل آئے۔۔
            اندر سے جب دروزہ نہ کھلا تو تمہارے بابا اور انکے دوست نے دروازہ توڑ ڈالا۔۔
            نازنین اندر نیم برہنہ وجود لیے بہت بری حالت میں تھی۔۔وہ وزیر زادہ نازنین پہ حاوی ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔جیسے ہی تمہارے بابا پہ نازنین کی نظر پڑی اس نے مدد کے لیے تمہارے بابا کو پکارا۔۔تمہارے بابا نے تیزی سے آگے کو بڑھ کر وزیر زادے کو بالوں سے پکڑ کر کھینچ کر زمین پہ دے مارا۔۔اور اپنی چادر اتار کر نازنین کے اوپر ڈال دی۔۔
            اور مار مار کر اس وزیر زادے کا حلیہ بگاڑ دیا۔۔تمہارے بابا کے دوست نے اس سب کی ویڈیو بنا لی۔۔جس کا کسی کو پتہ نہ چلا۔۔
            میری ماں تک جب یہ خبر پہنچی تو اپنے کارندوں کے ساتھ وہ بھی وہاں چلی آئی۔۔اور آ کر بیچ بچاؤ کروایا۔۔
            جب تمہارے بابا کو پتہ چلا کہ نازنین اسی کوٹھے کی پیدوار ہے۔۔کوئی اغواہ شدہ لڑکی نہیں تو وہ معافی مانگ کر جانے لگے۔۔
            مگر نازنین نے تمہارے بابا کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔اور کہا کہ اسے بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔۔
            اس سب میں پہلی بار تمہارے بابا نے نازنین کو غور سے دیکھا تو دیکھتے رہ گئے۔۔نازنین کے حسن کا جادو ان پہ بھی چل چکا تھا۔۔
            تمہارے بابا نے میری ماں سے کہا کہ لڑکی سے زبردستی آپ یہ سب نہیں کروا سکتیں۔۔جب وہ اس سب کے لیے راضی نہیں تو ایسا نہ کریں۔۔
            جس پہ میری ماں نے کہا کہ یہ ہمارا پیشہ ہے۔۔اور یہاں تو ایسے ہی سودے ہوتے ہیں۔۔جیسے سب کے ہوئے۔۔اس کا بھی ہوا۔۔اور ہوگا۔۔جو زیادہ پیسہ دے گا۔۔لڑکی اسکی۔۔تمہیں چاہیے تو سیدھی طرح بات کرو۔۔
            تمہارے بابا نے کہا کہ ہاں چاہیے۔۔
            وہ وزیر زادہ بھی پیسے دے چکا تھا۔۔
            پھر تمہارے بابا اور اس وزیر زادے کے درمیان پھر سے نازنین کی بولی لگی۔۔جب 30 لاکھ سے اوپر معاملہ جانے لگا تو تمہارے بابا کے دوست نے جو ویڈیو بنائی تھی۔۔وہ اس وزیر زادے کے سامنے کردی اور کہا کہ اگر وہ نہیں چاہتا کہ کل اخباروں میں یہ نیوز چھپے تو یہاں سے چلا جائے۔۔
            وہ دھمکیاں دیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔
            نازنین نے ماں سے کہا کہ ٹھیک ہے اگر اسکی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ اسے ہر رات کسی نہ کسی مرد کے بستر کی زینت بننا ہے تو اسے منظور ہے۔۔مگر سب سے پہلے وہ سیٹھ حشمت کے ساتھ رات گزارے گی۔۔اپنا آپ سب سے پہلے اسی کو سونپے گی۔۔اور جب جب بھی یہاں یہ آئیں گے ان سے کوئی سودا تہ نہیں ہوگا۔۔
            پھر تمہارے بابا نازنین کی ہر رات کی قیمت چکانے لگے۔۔وہ آتے یا نہ آتے ماں کو ہر رات کے پیسے مل جاتے۔۔اور نازنین کو کسی دوسرے مرد کے سامنے پیش نہ کیا جاتا۔۔
            ماں کو بس پیسے سے غرض تھی۔۔اور پیسہ انکو مل رہا تھا۔۔ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں کی آپس میں محبت بڑھتی جارہی تھی۔۔جو کہ ماں سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔پھر ایک دن ایسا ہوا کہ نہ تمہارے بابا آئے اور نہ پیسے بھجوائے۔۔ماں کو موقع مل گیا کہ وہ اس بات کو بہانہ بنا کر نازنین کا سودا پھر سے وزیر زادے کو خوش کرنے کے لیے اس سے تہ کر دیں۔۔جس دن ایسا ہوا۔۔میں نے رحمو بابا کے ذریعے تمہارے بابا کو پیغام بھجوا دیا۔۔اور تمہارے بابا چند گھنٹوں میں پہنچ گئے۔۔وزیرزادہ بھی آچکا تھا۔۔بات گرما گرمی سے ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔۔اور اسی دوران وزیر زادے نے تمہارے بابا پہ فائر کھول دیا۔۔گولی تمہارے بابا کی بجائے میری ماں کو لگ گئ۔۔اور وہ موقع پہ ہی مر گئ۔۔وزیرزادہ یہ سب دیکھ کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔۔
            تمہارے بابا نازنین کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔۔پھر چند لوگوں کی موجودگی میں تمہارے بابا اور نازنین نے نکاح کر لیا۔۔تمہارے بابا کی پہلے بھی ایک شادی ہو چکی تھی۔۔جس میں سے ایک بیٹا تھا اس وقت۔۔
            اس نکاح کا جیسے ہی تمہارے بابا کے خاندان والوں اور باپ کو پتہ چلا تو بہت ہنگامہ کھڑا کیا۔۔پھر ایک جال بنتے ہوئے چند ماہ بعد تمہارے دادا نے تمہارے بابا اور تمہاری ماں کا نکاح قبول کر لیا۔۔
            اور ایسے ظاہر کرنےلگے جیسے ان کے دل میں کوئی گلہ نہیں ہے۔۔کوئی کینہ نہیں ہے۔۔
            پھر ایک دن تمہارے دادا نے تمہارے بابا کو بزنس کا سیٹ اپ دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے بزنس ٹور کے بہانے چند دنوں کے لیے باہر کے دورے پہ جانے کو کہا۔۔
            تمہارے بابا کے جاتے ہی تمہارے دادا نے تمہاری ماں کو گھر سے نکال دیا۔۔اس وقت وہ ماں بننے والی تھی۔۔جس سے تمہارے بابا بے خبر تھے۔۔اور اس بات کا تمہاری ماں کو خود تمہارے بابا کے جانے کے بعد پتہ چلا۔۔
            تمہاری ماں نے تمہارے دادا کی بہت منتیں کیں۔۔اہنے بچے کا بھی بتایا۔۔مگر انکا دل نہ پسیجا۔۔اور کہا کہ اگر وہ نہ گئ۔۔تو وہ اسے اسکے بچے سمیت مار ڈالیں گے۔۔
            نازنین نے اس سب سے مجھے بھی بے خبر رکھا۔۔اور اپنے گھر سے نکالے جانے کے بعد ایک یتیم خانے میں پناہ لی۔۔چند ہفتوں بعد پھر سے اپنے گھر گئ کہ شائد حشمت شاہ واپس آ گیا ہو۔۔مگر اس گھر پہ تالا دیکھ کر مایوس ہو کر چلی آئی۔۔نہ جانے وہ لوگ کہاں چلے گئے تھے۔۔
            پھر تم پیدا ہوئی۔۔اور 4 سال تک نازنین اس یتیم خانے میں رہی۔۔اور ایک دن اس یتیم خانے کی سالانہ 14 اگست کی تقریب میں مہمان خصوصی وہی وزیر زادہ تھا۔۔جو اب خود ایک وزیر بن چکا تھا۔۔ویلکم کے لیے کھڑی لڑکیوں میں نازنین بھی شامل تھی۔۔اور وہ نازنین کو پہچان چکا تھا تھا۔۔
            اس نے ملی بھگت سے اسی رات نازنین کو اٹھوانے کے لیے بندے بھیجے۔۔نازنین بھی اسکے ارادے پہلے ہی بھانپ چکی تھی۔۔اور اسکے بندوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئ۔۔
            میری کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔ہسپتال سے دوائی لینے گئ تو۔۔ہسپتال کے کاریڈور میں نازنین تمہیں لے کر بیٹھی تھی۔۔لگاتار بارش میں بھیگنے سے تمہیں بخار ہو گیا تھا۔۔اور تمہیں دکھانے لائی تھی۔۔اور اس رات پناہ کے لیے بھی اسے وہی جگہ بہتر لگی تھی۔۔اس لیے تمہیں لے کر وہاں بیٹھی تھی۔۔میں باہر نکل رہی تھی کہ میری اس پہ نظر پڑی۔۔مجھے لگا میرا وہم ہے۔۔مگر وہ سچ میں نازنین تھی۔۔میں اسکو لے کر پھر یہاں آ گئ۔۔اور جب تم 8 سال کی ہوئی تو ہارٹ اٹیک سے چل بسی۔۔"
            نیلم بائی نے اسکی ماں کی زندگی کا ہر پنہ کھول کر اسکے سامنے رکھ دیا تھا۔۔
            " خالہ میرے باپ نے کیا کبھی ماں کو ڈونڈھنے کی کوشش نہیں کی۔۔کبھی ماں کا پوچھنے نہیں آیا۔۔"
            موہنی نے اک آس لیے پوچھا۔۔آج اپنی ماں کے بارے میں سب جان کر اس کا دل شدت غم سے پھٹا جا رہا تھا۔۔وہ اپنا دکھ بھول کر اپنی ماں کی اذیت میں اتر گئ تھی۔۔
            " معلوم نہیں۔۔ماں کے قتل ہونے کے بعد۔۔اور نازنین کے جانے کے بعد آئے دن پولیس نے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔۔تفتیش کرنے کم اور عیاشی کرنے زیادہ آتے تھے۔۔تنگ آ کر میں نے وہ جگہ چھوڑ دی۔۔اور جو جمع پونجی تھی۔۔اس میں یہ کوٹھی خرید کر لڑکیوں کے ساتھ یہاں آ بسی جو میرے ساتھ آنا چاہتی تھیں۔۔بعد میں پتہ چلا کہ گورنمنٹ نے وہ سارا علاقہ پیشہ کرنے والیوں سے خالی کروا لیا تھا۔۔"
            " خالہ کیا آپ نے بھی کوشش نہیں کی میرے باپ سے ملنے کی۔۔"
            " کی تھی۔۔نازنین کے مرنے سے پہلے ہم دونوں تمہیں ساتھ لے کر گئ تھی دوبارہ اس گھر۔۔تمہیں تمہارے خاندان اور باپ کے حوالے کرنے۔۔تا کہ تم عزت سے زندگی گزار سکو۔۔
            تمیارا باپ تو نہیں ملا۔۔مگر تمہارے دادا سے سامنا ہوا۔۔
            ہمیں ذلیل و رسوا کر کے گھر سے نکال دیا۔۔اور کہا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے حشمت کے کہنے پہ کر رہا ہے۔۔وہ مزید غلاظت کے ڈھیر کو اپنی زندگی میں برداشت نہیں کر سکتا۔۔اور نہ تمہاری شکل دیکھنا چاہتا ہے۔۔اس لیے اپنی بیوی کو لے کر ہمیشہ کے لیے باہر چلا گیا ہے۔۔اور اس بات کی تصدیق تمہاری دادی اور گھر کے ملازموں نے بھی کی تھی۔۔
            اور یہ بھی کہا کہ مرد اکثر جوانی میں ایسے شوق پالتے ہیں۔۔اور بہت سے پھولوں کا رس بھی چوستے ہیں۔۔مگر مسلے ہوئے پھولوں کا ہار اپنے گلے میں نہیں ڈالتے۔۔انکی جگہ صرف ڈسٹ بن ہوتی ہے۔۔اس لیے اس غلاظت کے ڈھیر کو لے کر دفعہ ہو جاؤ۔۔
            ہم لوگ مایوس اور نامراد ہو کر واپس آگئیں۔۔پھر
            کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ وہ گھر کسی اور نے خرید لیا تھا۔۔اور پھر کبھی ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔
            میں اسی وجہ سے تمہیں اس رستے پہ چلنے سے روکتی تھی موہنی۔۔میں تمہاری دشمن نہیں تھی۔۔
            مجھے تم میں نازنین نظر آتی تھی۔۔اس لیے
            میں نہیں چاہتی تھی کہ تم بھی اسی رستے پہ چلو جس پہ نازنین چلی۔۔اور آبلہ پا ہو کر واپس آئی۔۔
            اگر دلاور تمہیں اپنا لیتا تو میں کبھی تمہارے راستے میں نہ آتی۔۔مگر میں جانتی تھی وہ ایسا نہیں کرے گا۔۔وہ یہاں چند پل کا سکون حاصل کرنے آتا تھا۔۔کوئی رشتہ جوڑنے نہیں۔۔مگر تم اس بات کو کبھی سمجھ ہی نہ سکی۔۔جو غلطی نازنین نے کی۔۔وہی تم کر رہی تھی۔۔ایک سراب کو اپنی منزل سمجھنے لگی۔۔
            ہم لوگوں کا جینا مرنا یہیں ہے۔۔ہم دودھ کے دھلے بھی بن جائیں تو لوگ ہمیں قبول نہیں کرتے۔۔کوٹھے پہ گزاری گئ ایک رات کسی بھی لڑکی کو طوائف بنا دیتی ہے۔۔چاہے وہ کتنی پاکباز ہو۔۔اسکے ماتھے پہ طوائف لکھ دیا جاتا ہے۔۔اور تم تو یہیں پلی بڑھی ہو۔۔بہت سے لوگ تمہارے عاشق ہیں۔۔اور بہت سے یہ بھی جان چکے کہ تم طوائف بن چکی ہو۔۔اب ہر کوئی تمہاری بولی لگائے گا۔۔میں کس کس سے اور کب تک تمہیں بچا سکتی ہوں۔۔اسی لیے کہا ہے کہ ہر کسی کے بستر کی زینت بننے سے بہتر ہے کہ تم کسی ایک کو چن لو۔۔اسکا ہاتھ تمہارے سر پہ ہوگا تو کوئی اور تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔۔بس ایک بار تم اسے خوش کردو۔۔"
            نیلم بائی نے ہر ممکن طریقے سے موہنی کے سامنے سب حالات رکھ کر اسکو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
            " تو یہ کہیں ناں کہ اسکی رکھیل بن کر رہوں۔۔"
            موہنی دکھ اور اذیت سے نیلم بائی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
            "جو زندگی تم نے اب تک گزاری۔۔اس میں بھی تم کوئی ثواب نہیں کما رہی تھی۔۔
            تمہارا دل مانے یا نہ مانے۔۔سیٹھ شجاع تمہیں حاصل کیے بنا تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔چاہے تم کہیں بھی چلی جاؤ۔۔اور اسکے لیے چاہے اسے کتنی لاشیں گرانی پڑیں۔۔اور ان میں سب سے پہلی لاش میری ہوگی۔۔"
            نیلم بائی نے سارے حالات موہنی کے سامنے رکھ دئیے۔۔اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
            کہ اب جو مرضی وہ فیصلہ کرے۔۔
            " خالہ آپ جانتی ہیں کہ میں نے اس زندگی کو کبھی پسند نہیں کیا۔۔یہ سب آپکی خواہش تھی میری نہیں۔۔اور جو آپ کہ رہی ہیں میں وہ نہیں کروں گی۔۔بے شک مجھے مار ڈالیں۔۔مگر میں۔۔۔۔۔"
            نیلم بائی کے ساتھ موہنی بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔اور اس نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔۔ابھی اسکی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اپنا سر تھامے وہ زمین پہ گری تھی۔۔



            " عینا۔۔پلیز بیٹھ جاؤ۔۔ایسے گول گول گھومنے سے کیا وہ فون اٹھا لیں گی۔۔کب سے ایسے چکر لگائے جا رہی ہو۔۔"
            عائلہ نے عینا سے کہا جو آدھے گھنٹے سے کمرے میں کبھی ادھر کبھی اُدھر چکر لگا رہی تھی۔۔
            " میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر چل کیا رہا ہے۔۔رات کو امی کا فون آیا کہ فجر آرہی ہے اسکے ساتھ ادھر چلی جاؤ سب۔۔ہم صبح آئیں گے۔۔اب صبح فون آیا۔۔کہ رات کو آئیں گی۔۔ایک طرف کہ رہی ہیں کہ اجالا ٹھیک ہے۔۔اب دو گھنٹے ہو گئے ہیں۔۔وہ کال نہیں اٹھا رہی ہیں۔۔ہم نے کہا بھی تھا کہ ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔۔اکیلی کیسے سنبھالیں گی۔۔
            کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔۔میرا سر پھٹنے والا ہو رہا ہے۔۔میرا دل کہ رہا ہے۔۔کہ کچھ گڑبڑ ہے۔۔"
            عینا تھک ہار کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
            " ٹھیک کہ رہی ہو۔۔مجھے بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔اوپر سے یہاں آ کر بیٹھ گئے ہیں۔۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کس ہاسپٹل میں ہیں۔۔"
            عائلہ بھی پریشانی سے بولی۔۔
            " اگر اجالا کو کچھ ہو گیا ناں تو میں چھوڑوں گی نہیں ابا کو۔۔جان لے لوں گی انکی۔۔"
            عینا بھرائے ہوئے لہجے میں اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر خود کو رونے سے روکتے ہوئے بولی۔۔
            " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔کتنی بار کہا ہے کہ تھوڑا سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔اور یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔۔جہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔۔تمہارے یہ نادر خیالات کسی نے سن لیے تو کیا سوچے گا وہ کہ کتنی کریمنل مائنڈڈ بچیاں ہیں یہ۔۔جو اپنے باپ کی جان لینے کی بات کر رہی ہیں۔۔"
            عائلہ عینا کی بات سن کر ڈپٹتے ہوئے بولی۔۔
            " ہاں تو سن لے۔۔میں ڈرتی نہیں کسی سے۔۔ایسے باپ کے ہونے سے۔۔اس کا نہ ہونا اچھا۔۔
            باپ ایسے نہیں ہوتے۔۔آج انکی وجہ سے ہم یوں کسی کے در پہ بیٹھے ہیں۔۔باپ تو محافظ ہوتے ہیں۔۔سائبان ہوتے ہیں۔۔مگر آج انکے خوف کی وجہ سے کہ وہ ہمارے ساتھ کچھ برا نہ کر دیں۔۔ہماری ماں ہمیں کسی اور کی پناہ میں دینے پہ مجبور ہو گئں۔۔ہم اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں۔۔صرف اپنے اس نام نہاد باپ کی وجہ سے۔۔
            ہمارے باپ میں اور سانپ میں کوئی فرق نہیں۔۔سانپ بھی اپنے بچوں کو کھاتا ہے۔۔اور ہمارا باپ بھی ہمیں کھا جائے گا۔۔ایک کو تو شائد کھا گیا۔۔دیکھو دوسرا نمبر کس کا لگتا ہے۔۔"
            عینا بنا کسی بات کی پرواہ کیے اور عائلہ کی بات کا کوئی اثر لیے بنا پھر غصے اور نفرت سے بولی۔۔
            عائلہ سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔۔وہ یہ تو جانتی تھی کہ عینا کو ابا پر بہت غصہ ہے۔۔مگر وہ اتنی شدید نفرت کرتی ہے۔۔یہ نہیں جانتی تھی۔۔اور شائد کسی حد تک وہ سچی بھی تھی۔۔
            " آپی بابا مجھے بھی اچھے نہیں لگتے۔۔بہت ڈر لگتا ہے ان سے مجھے۔۔اجالا کی طرح وہ ہمیں بھی مار ڈالیں گے۔۔"
            ایمن جو کب سے پاس بیٹھی انکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔آنکھوں میں نمی لیے بولی۔۔
            " نہیں میری جان۔۔ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔بابا کو بس تھوڑا زیادہ غصہ آ گیا تھا۔۔ وہ کچھ پریشان ہیں ناں۔۔اور غصے میں انکو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔۔آپ پریشان مت ہو۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
            عائلہ ایمن کو گلے لگا کر پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔اور ایک افسوس بھری نظر عینا پر ڈالی۔۔
            " اوئے تم لوگ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہو۔۔فریش ہو جاؤ جلدی سے۔۔میں نے رشیداں بوا سے ناشتے کے لیے کہ دیا ہے وہ لے کر آتی ہوں گی۔۔پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔"
            فجر انکے کمرے کے اندر آ کر عائلہ کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
            " ناشتہ نہیں۔۔میم جی یہ لنچ ٹائم ہے۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ آپ لوگوں کے گھر میں سب بھوکے رہتے ہیں۔۔"
            عائلہ سب بھول کر خود کو نارمل کرتے ہوئے مسکرا کر فجر سے بولی۔۔اور ساتھ ہلکا سا اشارہ عینا کو بھی کیا کہ ریلیکس ہو جائے۔۔
            " یار تم جانتی تو ہو صبح 3 بجے تو سب لوگ سوئے تھے۔۔ہھر آنکھ دیر سے کھلی۔۔رشیداں بوا آئی تھیں۔۔تم لوگوں سے ناشتے کا پوچھنے۔۔مگر تم لوگوں کا دروازہ بند دیکھ کر واپس چلی گئ۔۔پھر ماما نے اسکو منع کر دیا کہ جب تک تم لوگ خود نہیں اٹھتی کوئی بھی تم لوگوں کو ڈسٹرب نہ کرے۔۔"
            فجر نے تفصیل سے جواب دیا۔۔
            " یار میں مزاق کر رہی تھی۔۔سچ پوچھو تو ہمیں ابھی بھی بھوک نہیں ہے۔۔"
            عائلہ نے جلدی سے فجر کو ریلیکس کرنے کے لیے کہا۔۔
            " بھوک کیوں نہیں ہے۔۔ہاسپٹل سے کوئی اطلاع آئی کیا۔۔کچھ پتہ چلا کہ کیسی ہے اب اجالا۔۔"
            فجر نے بیڈ پہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
            " نہیں یار۔۔کب سے ٹرائی کر رہی ہوں۔۔امی فون نہیں اٹھا رہیں۔۔بہت فکر ہو رہی ہے۔۔الّٰلہ کرے سب ٹھیک ہو۔۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کس ہاسپٹل میں ہیں۔۔"
            عائلہ فکرمند لہجے میں بولی۔۔
            " یہ کونسا مسلہ ہے۔۔میں ابھی صارم بھائی سے پوچھتی ہوں۔۔اور اگر کہو تو احتشام بھائی سے کہتی ہوں وہ تم لوگوں کو ہاسپٹل چھوڑ آئیں گے۔۔بلکہ میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔۔"
            فجر نے چٹکی بجاتے مسلے کا حل پیش کیا۔۔اور اسی وقت دروازہ ناک ہوا۔۔
            " ارے آنٹی آپ۔۔آ جائیں اندر۔۔"
            عائلہ ہائمہ خاتون کو دروازے میں کھڑے دیکھ کر جلدی سے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کھڑی ہو کر بولی۔۔انکے ساتھ رشیداں بوا بھی ناشتے کی ٹرے لے کر اندر داخل ہوئیں۔۔
            " بیٹا صارم کا ابھی فون آیا تھا۔۔وہ کہ رہا تھا کہ آپکو ہاسپٹل بھجوا دوں۔۔تو آپ جلدی سے ناشتہ کر کے تیار ہو جاؤ۔۔فجر بیٹا آپ بھی ساتھ چلی جاؤ۔۔میں نہیں چاہتی کہ احتشام کے ساتھ دیکھ کر کسی کو بھی کوئی بات کرنے کا موقع ملے۔۔"
            ہائمہ خاتون شفقت سے عائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔
            " آنٹی پلیز یم بھی ساتھ چلیں گے۔۔"
            عینا نے اپنے اور ایمن کی طرف اشارہ کیا۔۔
            " ٹھیک ہے آپ لوگ بھی چلے جاؤ۔۔میں احتشام سے کہتی ہوں وہ چھوڑ آئے گا تم لوگوں کو۔۔"
            ہائمہ خاتون کچھ پل کو سب کی طرف دیکھنے کے بعد بولیں۔۔


            ماضی۔۔!
            " سر آخر مسلہ کیا ہے۔۔آپ کیوں نہیں چھوڑ رہے بچے کو۔۔دو دن سے آپ نے اسکو حوالات میں بند کیا ہوا ہے۔۔وہ بہت معصوم اور نیک بچہ ہے۔۔اسکا کوئی قصور نہیں ہے۔۔"
            حمید صاحب اپنے بیٹے اور محلے کے ایک دو اور لوگوں کے ساتھ کب سے تھانے میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔مگر نہ تو انکو دانی سے ملنے دیا گیا۔۔اور نہ کوئی بات سن رہا تھا۔۔
            " معصوم اور نیک۔۔ اسکی معصومیت ہم دیکھ چکے ہیں۔۔اور شرافت بھی۔۔
            3 3 لڑکوں کو اکیلے نے مار مار کر انکا برا حال کردیا۔۔جسکو آپ بچہ کہ رہے ہیں۔۔ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیریاں ناں جپھے۔۔واہ۔۔خوب کہی۔۔بچہ۔۔"
            تھانے کے ایس ایچ او نے حمید صاحب کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا۔۔
            " سر وہ دو بے سہارا عورتوں کا واحد سہارا ہے۔۔خود بھی یتیم اور مسکین ہے۔۔اپنی بیوہ خالہ کے ساتھ رہتا ہے۔۔آپ پلیز رحم کریں اس بچے پہ۔۔اور اسکو چھوڑ دیں۔۔"
            حمید صاحب کے ساتھ آئے دو لوگوں میں سے ایک نے کہا۔۔
            " اگر یہ بات ہے۔۔تو رحم تو اس کو کھانا چاہیے تھا۔۔ان دو بے سہارا عورتوں پہ۔۔وہاں اور لوگ بھی تھے۔۔مگر اسکے خون میں ہی ابال آیا بس۔۔تب اس کو خیال نہیں آیا کہ اگر وہ لڑکے اسکو مار ڈالتے تو ان دو بے سہارا عورتوں کا کیا بنتا۔۔
            جن کو اس نے مارا ہے۔۔وہ عام لوگوں کے بچے نہیں ہیں۔۔بہت اوپر سے پریشر ہے مجھ پہ۔۔میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔"
            ایس ایچ او نے کورا جواب دیا۔۔
            " سر کیا کچھ دے دلا کر معاملہ رفع دفع نہیں ہوسکتا۔۔پلیز سر۔۔"
            زین نے تھوڑا رازدارانہ انداز میں کہا۔۔
            " نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔جس کو مارا ہے ان میں سے ایک لڑکا کوما میں چلا گیا ہے۔۔
            کم سے کم بھی 5 سال کی سزا اور 2 لاکھ جرمانہ ہوگا۔۔میرا مشورہ ہے کہ آپ کسی اچھے وکیل کا بندوبست کریں۔۔"
            ایس ایچ او نے لاسٹ میں سمجھاتے ہوئے کہا۔۔


            Comment


            • #26
              اچھی اسٹوری ہے بہت ہی کلاسی

              Comment


              • #27
                بہت خوب ۔ سچ کے بہت قریب

                Comment


                • #28
                  لگتا ہے موہنی صارم کی ہی بہن ہے ۔
                  لیکن بہت اچھی کہانی

                  Comment


                  • #29

                    Episode, 15#

                    " کک۔۔۔۔کیا ہوا ہے امی کو۔۔۔۔ی۔۔یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی ہیں۔۔۔اور اجالا کہاں ہے۔۔کیسی ہے وہ۔۔"؟
                    عینا، عائلہ ایمن اور فجر کچھ دیر پہلے ہی احتشام شاہ کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی تھیں۔۔دونوں نے حجاب سے خود کو کور کیا ہوا تھا۔۔جبکہ فجر نے صرف سوٹ کے ہم رنگ دوپٹا اوڑھا ہوا تھا۔۔۔
                    عینا اور عائلہ نے آتے ہی ماں اور اجالا کا پوچھا تھا۔۔
                    صارم انکو اجالا کے ساتھ والے پرائیویٹ روم میں لے گیا تھا۔۔جہاں مہرالنساء بے ہوش پڑی ہوئی تھیں۔۔
                    " پلیز آپ ریلیکس رہیں۔۔آپکی امی ٹھیک ہیں بلکل۔۔۔تھوڑا پینک اٹیک ہوا تھا انکو۔۔بس اسی لیے ڈاکٹر نے انکو نیند کا انجیکشن دے دیا۔۔کچھ دیر میں یہ ہوش میں آ جائیں گی۔۔"
                    صارم شاہ نے وہاں موجود سب کی طرف دیکھ کر ساری صورت حال سے سب کو آگاہ کیا۔۔مگر اجالا کا ابھی بھی نہیں بتایا۔۔
                    " اور صارم بھائی اجالا کہاں ہے۔۔وہ ٹھیک تو ہے ناں۔۔"
                    اب کے فجر نے پوچھا۔۔اور اسکے سوال پر سب صارم شاہ کی طرف دیکھنے لگے۔۔
                    " اجالا۔۔۔۔۔۔۔"
                    صارم عجیب صورت حال میں پھنس گیا تھا۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے بتائے۔۔اگر بتاتا ہے تو یہ نہ جانے کیسے ری ایکٹ کریں۔۔۔کہ احتشام شاہ نے اسکو آنکھ سے ہلکا سا اشارہ کیا۔۔۔
                    " یہ تو یہ لوگ ہمیں بتائیں گی کہ اجالا کو کیا ہوا ہے۔۔وہ اس حال میں کیسے پہنچی ہے۔۔بقول ڈاکٹرز کے اس کے سر پہ شدید ضرب لگائی گئ ہے۔۔اور یہ پولیس کیس ہے۔۔جس میں آپ سب جیل جا سکتے ہیں۔۔"
                    احتشام شاہ نے عائلہ اور عینا کی طرف دیکھ کر لہجے کو تھوڑا سخت رکھ کر کہا۔۔احتشام شاہ کی بات پر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔۔
                    " کیوں۔۔۔ہم کیوں جائیں جیل۔۔۔جیل وہ جائے جس نے یہ سب کیا ہے۔۔بلکہ اچھا ہے۔۔الّٰلہ کرے ہمیشہ کے لیے جیل ہو جائے انکو۔۔۔نہیں۔۔۔۔عمر قید ہو جائے۔۔۔۔یہ ٹھیک ہے۔۔"
                    عینا نے احتشام کی بات سن کر فوراً تلخی اور غصے سے کہا۔۔جبکہ اسکی بات پر عائلہ سر پیٹ کر رہ گئ۔۔۔
                    " کیا کہا۔۔کسکی بات کر رہی ہیں آپ۔۔"
                    صارم شاہ اور احتشام شاہ نے حیران ہو کر پوچھا۔۔
                    " کک۔۔۔۔کسی کی نہیں۔۔۔پلیز آپ یہ بتائیں اجالا کیسی ہے۔۔کیا کہ رہے ہیں ڈاکٹرز۔۔"
                    اس سے پہلے عینا پھر سے کچھ کہتی۔۔عائلہ تیزی سے بات سنبھالتے بولی۔۔اور عینا کی طرف دیکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔جو کہ احتشام شاہ اور صارم شاہ دونوں نے نوٹ کیا تھا۔۔
                    حس مقصد کے لیے احتشام شاہ نے یہ بات چھیڑی تھی۔۔وہ اس میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔کافی حد تک عینا اور عائلہ خود کو کمپوز کر چکی تھیں۔۔ہاسپٹل آنے سے پہلے صارم شاہ نے فون پر احتشام شاہ کو سب بتا دیا تھا۔۔
                    اس لیے اب ان کو سب بتانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔۔صارم شاہ نے ایک تشکر بھری نظر اپنے بھائی پر ڈالی۔۔
                    " دیکھیں۔۔۔شدید ضرب آنے سے اجالا کے سر میں انٹرنل بلیڈنگ ہوئی ہے۔۔جو کہ دماغ کے اندر جانے کا خدشہ تھا۔۔اس لیے ڈاکٹرز کو ہنگامی بنیادوں پر اجالا کا اوپریشن کرنا پڑا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے اب کے جواب دیا۔۔
                    عینا نے صارم شاہ کی طرف دیکھا۔۔جو انکا کچھ بھی نہیں تھا۔۔مگر اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکا ان سے کوئی گہرا رشتہ ہے۔۔سلیٹی کلر کی سلوٹ زدہ شلوار قمیض پہ واسکٹ پہنے۔۔وہ بہت اپنا اپنا لگ رہا تھا۔۔
                    " اب کدھر ہے اجالا۔۔میں اسکو دیکھنا چاہتی ہوں پلیز۔۔۔ہمیں ادھر لے چلیں۔۔"
                    عائلہ نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔
                    " ویسے فلحال کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔کیونکہ اسکا اوپریشن ابھی چل رہا ہے۔۔میں لے چلتا ہوں آپکو۔۔"
                    صارم شاہ۔نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔۔
                    " عینا پہلے میں دیکھ آتی ہوں۔۔تم اور ایمن ابھی امی کے پاس رکو۔۔ تم دونوں بعد میں دیکھ آنا۔۔"
                    عائلہ نے عینا سے کہا۔۔پھر کچھ سوچ کر وہیں کھڑی ہو کر فجر کی طرف دیکھنے لگی۔۔اسے صارم شاہ کے ساتھ اکیلے جاتے ہوئے عجیب سا لگ رہا تھا۔۔
                    " فجر آپ بھی جاؤ ساتھ۔۔پھر ہمیں واپس بھی جانا ہے۔۔"
                    احتشام شاہ نے عائلہ کی جھجک سمجھتے ہوئے فجر سے کہا۔۔
                    " جی بھائی۔۔۔" فجر بھی عینا اور صارم شاہ کے ساتھ ہو لی۔۔
                    انکے جانے کے بعد روم میں احتشام شاہ عینا اور ایمن رہ گئے۔۔
                    مہرالنساء ابھی تک نیند کے انجیکشن کے زیر اثر پڑی ہوئی تھیں۔۔
                    احتشام شاہ ٹیبل پر پڑے آج کے تازہ نیوز پیپر کو پکڑ کر پڑھنے لگا۔۔اور کن اکھیوں سے عینا کا جائزہ بھی لینے لگا۔۔دو دن سے وہ انکے گھر پر موجود تھیں۔۔مگر ایک بار بھی انکا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔۔یا جان بوجھ کر وہ روم سے باہر نہیں نکلیں تھیں۔۔
                    اس دن نہر پر ہونے والی سرسری ان چاہی ملاقات کے بعد وہ اسکو آج دیکھ رہا تھا۔۔اس دن کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہی احتشام شاہ کے ہونٹوں پر اک دلفریب مسکراہٹ در آئی تھی۔۔
                    اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں الجھائے مروڑتے ہوئے۔۔ وہ شائد اسکی موجودگی اور دیکھنے سے پزل ہو رہی تھی۔۔
                    پنک اور فیروزی کے کنٹراس شلوار قمیض اور پنک دوپٹے کو شانوں پہ بکھرائے۔۔فیروزی حجاب میں سے نظر آتی اسکی خمدار گھنی پلکیں۔۔بار بار احتشام شاہ کی توجہ اپنی طرف کھنچ رہی تھیں۔۔اور اس کیفیت کو وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسکو دیکھے جائے بس۔۔وہ واقعی اس قابل تھی کہ خود کو چھپا کر رکھتی۔۔اور اسکا دل اس سے بار بار کہ رہا تھا۔۔کہ اسکے سوا کوئی اور اسکو نہ دیکھے۔۔
                    اس نے آج تک کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔۔مگر اب اس کا دل اسے بغاوت پہ اکسا رہا تھا۔۔اسکے اندر ایک عجیب جنگ ہونے لگی تھی۔۔وہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔۔محرم اور نا محرم کا سبق ہائمہ خاتون نے بہت اچھے سے گھول کر اپنے دونوں بیٹوں کو پلایا تھا۔۔
                    " کیا مصیبت ہے۔۔"
                    اچانک سے احتشام شاہ نے غصے سے چڑ کر زور سے اخبار ٹیبل پر واہس پھینکا تھا۔۔اور بڑبڑاتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔اسکی بڑبڑاہٹ اتنی واضح تھی کہ عینا نے صاف سنی تھی۔۔اور پھر حیران ہو کر اس نے پہلے احتشام شاہ اور پھر اپنے ارد گرد دیکھا تھا کہ اسکا اشارہ کس کی طرف ہے۔۔
                    " آپ۔۔آپ سے کہ رہا ہوں میں۔۔آپ ہیں مصیبت۔۔"
                    احتشام شاہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ کیا بول گیا ہے۔۔پھر جب سمجھ آئی تو تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔جبکہ عینا ہکا بکا اپنی جگہ پہ بیٹھی رہ گئ۔۔
                    " دماغ خراب ہو گیا لگتا ان کا۔۔غصہ ایسے کر رہے ہیں جیسے ہم نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے گھر بلا لیں۔۔یا ہمارے ساتھ ہاسپٹل چلیں۔۔عائلہ آ جائے ذرا۔۔اب ہرگز نہیں رہیں گے انکے گھر میں۔۔جو بھی ہے۔۔جیسے بھی ہے۔۔ہم اپنے گھر رہ کر ہر طرح کے حالات فیس کر لیں گے۔۔مگر اب انکے گھر نہیں رہیں گے۔۔پتہ نہیں کیا کیا سوچے جا رہے ہیں۔۔"
                    عینا کو احتشام شاہ کی بات سن کر شدید غصہ آیا تھا۔۔اور اپنے حساب سے اندازہ لگا کر وہ بھی سوچنے لگی۔۔

                    " امی جان اٹھیں نہیں ہیں ابھی کیا۔۔"؟
                    تھوڑی دیر بعد عائلہ اور فجر روم میں واپس آئیں تو۔۔عائلہ نے مہرالنساء کے بیڈ کے پاس کھڑے ہو کر انکی طرف دیکھتے ہوئے عینا سے پوچھا۔۔
                    " نہیں ابھی۔۔۔نرس آ کر چیک کر گئ تھی۔۔اور کہ رہی تھی کہ یہ جتنا زیادہ آرام کریں گی انکی صحت کے لیے ٹھیک ہوگا۔۔"
                    عینا نے مہرالنساء کا ہاتھ پکڑ کر انکی طرف دیکھتے ہوئے محبت سے کہا۔۔
                    اجالا کو روم میں کب شفٹ کریں گے۔۔اوپریشن ہو گیا کیا۔۔"؟
                    عینا نے عائلہ اور فجر سے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔۔
                    " نہیں ابھی۔۔ابھی 2 گھنٹے اور لگیں گے۔۔الّٰلہ رحم کرے اس پہ۔۔"
                    عائلہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔
                    " آپی ہاسپٹل کافی مہنگا لگ رہا ہے۔۔اور سارے ڈیوز وغیرہ صارم بھائی پے کر رہے ہیں شائد۔۔اس سے پہلے کہ انکو ہم پہ اور غصہ آئے۔۔آپ بینک سے پیسے نکلوا لائیں۔۔اور جتنے پیسے انکے لگے وہ انکو دے دیں۔۔اور باقی کا خود دیکھ لیں۔۔
                    عینا نے عائلہ کے پاس آکر دھیرے سے اسکے کان میں کہا۔۔کہ فجر سن نہ لے۔۔۔
                    " ہممممم۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔۔لیکن میرا اور امی کا جوائنٹ اکاؤنٹ ہے۔۔مجھے انکے سائن بھی چاہیے ہوں گے۔۔
                    ایک منٹ۔۔۔یاد آیا امی نے چیک بک پہ مجھ سے ہاسپٹل آتے وقت سائن کروائے تو تھے۔۔انکے پرس میں دیکھتے ہیں کہ چیک کیش کروایا ہے یا نہیں۔۔"
                    اچانک عائلہ کو یاد آیا تو تیزی سے مہرالنساء کے پرس کو کھول کر دیکھنے لگی۔۔
                    " یہ تو ویسے کا ویسے ہی پڑا ہے۔۔"
                    عائلہ چیک بک ہاتھ میں پکڑ کر عینا کی طرف دیکھ کر بولی۔۔
                    " کیا مسلہ ہے عائلہ۔۔کچھ چاہیے تو بتاؤ پلیز۔۔"
                    فجر جو کب سے انکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔انکے ہاس آ کر بولی۔۔
                    " نہیں۔۔۔شکریہ بہت بہت۔۔میں سوچ رہی تھی کہ بینک سے ہو آؤں۔۔اور کچھ پیسے نکلوا لاؤں۔۔"
                    عائلہ نے چیک بک ہاتھ میں پکڑ کر کہا۔۔
                    " تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔امی جان کو پتہ چلا اس بات کا تو بہت خفا ہوں گی۔۔اور بھائی بھی۔۔۔
                    رکھو اسے واپس۔۔۔جانتی ہوں بہت پیسے ہیں تمہارے پاس۔۔"
                    فجر نے پہلے تھوڑی ناراضگی سے اور پھر ہنستے ہوئے پیار سے ڈپٹتے ہوئے کہا۔۔
                    " خالہ جان کو تو شائد اعتراض نہ ہو۔۔مگر ہو سکتا ہے آپکے بھائیوں کو ہو۔۔بلکہ ہم انکو مصیبت لگ رہے ہوں۔۔"
                    عینا نے احتشام شاہ اور صارم شاہ کو روم کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر فوراً طنزیہ کہا۔۔جبکہ اسکی بات پہ سب نا سمجھی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔مگر عینا کے آخری الفاظ پر احتشام شاہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔۔
                    " یہ کیا بات ہوئی۔۔کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔ایسے کیوں کہ رہی ہو۔۔کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔"؟
                    فجر نے عینا کی بات پر حیران ہو کر اس سے پوچھا۔۔جبکہ عائلہ اور صارم شاہ بھی سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔
                    " کیا کوئی بتائے گا کہ یہاں کیا چل ریا ہے۔۔کیا بات ہوئی ہے۔۔"
                    صارم شاہ نے تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
                    " بھائی عائلہ بینک جانا چای رہی تھی۔۔کچھ پیسے نکلوانے کے لیے۔۔اور میں منع کر رہی تھی کہ امی کو اور آپکو برا لگے گا۔۔"
                    فجر نے صارم اور احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔۔
                    " ہرگز نہیں۔۔۔فجر بلکل ٹھیک کہ رہی ہے۔۔خالہ جان نے مجھے بیٹا کہا ہے۔۔اور اس لحاظ سے میں اجالا کا بھائی ہوا۔۔تو بھائی۔۔بہنوں کے لیے کچھ کریں تو یہ کوئی احسان نہیں انکا فرض ہوتا ہے۔۔اور جیسے فجر ہماری بہن ہے۔۔ویسے ہی تم اور اجالا بھی ہو۔۔آئی سمجھ۔۔"
                    اب کے صارم شاہ نے عینا کے سر پہ ہلکی سی چپٹ لگاتے ہوئے کہا۔۔
                    " بھائی اجالا اور عینا ہی نہیں۔۔عائلہ بھی۔۔آہکی بہنوں کی طرح ہے۔۔"
                    فجر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔جبکہ فجر کی اس بات پر صارم شاہ نے فوراً نظریں چرائیں تھیں۔۔اور کچھ بھی کہے بنا صوفے پر جا بیٹھا تھا۔۔اسکی اس حرکت کو سبھی نے نوٹ کیا تھا۔۔احتشام شاہ نے گہری نظروں سے صارم شاہ کا جائزہ لیا تھا۔۔۔اسکے ایسے دیکھنے پر صارم شاہ جزبز ہوا تھا۔۔


                    " موہنی کیا ہوا ہے۔۔موہنی آنکھیں کھولو۔۔رحمو بابا۔۔"
                    موہنی کے بے ہوش ہو کر نیچے گرنے پہ نیلم بائی نے گھبرا کر فوراً پلٹ کر اسے پکڑا تھا۔۔اور رحمو بابا کو آواز دی تھی۔۔جو دروازے کے باہر ہی کھڑے تھے۔۔
                    " رحمو بابا جلدی سے ڈاکٹر کو فون کریں۔۔بلکہ نہیں رکیں شوکت سے کہیں گاڑی نکالے۔۔ہم اسے خود ڈاکٹر کے پاس لے کر چلیں گے۔۔"
                    نیلم بائی نے رحمو بابا کی مدد سے پچھلی سیٹ پر موہنی کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔۔اور خود بھی اسکے ساتھ بیٹھ گئ۔۔اور گہری نظروں سے موہنی کی طرف دیکھنے لگی۔۔اسکی چھٹی حس جس بات کا الام بجا رہی تھی۔۔وہ دعا کر رہی تھی کہ ایسا کچھ نہ ہو۔۔
                    " ڈاکٹر صاحب کیا بات ہے۔۔کیا ہوا ہے اسے"
                    موہنی کے چیک اپ سے فارغ ہونے کے بعد۔۔نیلم بائی نے ڈاکٹر سے پوچھا۔۔موہنی بھی جو کہ ہوش میں آ چکی تھی۔۔سوالیہ نظروں سے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگی۔۔
                    " جی یہ ماں بننے والی ہیں۔۔"
                    ڈاکٹر نے اپنی چئر پہ بیٹھتے ہوئے پروفیشنل انداز میں کہا۔۔
                    " کیا۔۔۔مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔میرا مطلب کوئی اور وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔۔"
                    نیلم اور موہنی کے منہ سے ایک ساتھ حیرانگی سے نکلا تھا۔۔
                    " میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی حیران ہونے والی بات ہے۔۔ایک پروسس سے گزرنے کے بعد ہی ہر لڑکی ایک ماں بنتی ہے۔۔اور یہ بات یہ زیادہ بہتر جانتی ہیں۔۔کہ یہ کب کس وقت اس پروسس سے گزریں ہیں۔۔انکی پہلی پریگنینسی ہے اس لیے شائد انکو پتہ نہیں چلا۔۔ورنہ ہر لڑکی کو کچھ دن اوپر جانے کے بعد باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔۔خیر میں یہ
                    کچھ ٹیسٹ لکھ کر دے رہی ہوں۔۔وہ آپ کروا لیں۔۔"
                    ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ اور میڈیسن لکھ کر نیلم بائی کو پکڑاتے ہوئے کہا۔۔جبکہ موہنی اپنی جگہ پہ بت بنی بیٹھی رہی۔۔
                    " جی بہتر۔۔۔موہنی ہمیں چلنا چاہیے اب۔۔"
                    نیلم بائی نے ڈاکٹر سے میڈیسن سلپ پکڑنے کے بعد موہنی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔جو گم صم کسی روبوٹ کی طرح نیلم بائی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
                    واپسی پر پورا راستہ موہنی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔۔اور نہ ہی نیلم بائی نے کوئی بات کی۔۔جس بات کا اسے ڈر تھا وہ ہو چکی تھی۔۔نیلم بائی کا ذہن مسلسل اس مصیبت سے جان چھڑوانے کے تانے بانے بن رہا تھا۔۔نیلم بائی کو خود پر بھی غصہ آ رہا تھا کہ اس سے اتنی لاپروائی کیسے ہو۔گئ۔۔اس طرف اسکا دھیان پہلے کیوں نہیں گیا۔۔اگر اس دن دلاور کے جاتے ہی وہ موہنی کو میڈیسن کھلا دیتی تو آج اس جھنجٹ میں نہ پڑتے وہ لوگ۔۔
                    اوپر سے سیٹھ شجاع کے آنے میں بھی ایک دو گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔۔
                    رحمو بابا نے گاڑی کوٹھی کے سامنے روک دی۔۔تو دونوں اتر کر اندر چلی گئیں۔۔رحمو بابا بھی گاڑی لاک کر کے انکے پیچھے پیچھے چلے آئے۔۔
                    " کیا کہا ہے ڈاکٹر نے۔۔کیا ہوا ہے موہنی کو۔۔"
                    رحمو بابا نے روم کے اندر آکر دروازہ بند کرتے پوچھا۔۔
                    " ماں بننے والی ہے یہ۔۔"
                    نیلم بائی نے جو سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی۔۔غصے سے بولی۔۔نیلم بائی کی بات سن کر رحمو بابا نے پریشانی اور فکرمندی سے موہنی کی طرف دیکھا۔۔
                    " سیٹھ شجاع بھی آنے والا ہے۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کیسے نمٹوں اس سب سے۔۔پچھلی بار بھی بہت مشکل سے ٹالا تھا اسکو۔۔
                    رحمو بابا آپ ایسا کریں کہ اماں جنتے کو بلا لائیں۔۔اس کام کو آج ہی ختم کرنا ہوگا۔۔جیسے جیسے دن گزرتے گئے۔۔پھر یہ مشکل ہو جائے گا۔۔"
                    نیلم بائی نے موہنی کی طرف دیکھ کر فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔اس وقت وہ تینوں نیلم بائی کے کمرے میں موجود تھے۔۔اور اپنی اپنی سوچوں میں سرگرداں۔۔
                    " میں یہ بچہ نہیں گراؤں گی۔۔"
                    موہنی جو کب سے خاموش گم صم بیٹھی تھی۔۔اچانک ہوش میں آ کر دو ٹوک انداز میں بولی۔۔
                    " دماغ خراب ہے تمہارا۔۔ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے کہ تم اس جھنجٹ میں پڑو۔۔ابھی تمہیں بہت نام کمانا ہے۔۔
                    " نام کمانا ہے یا پیسہ کمانا ہے۔۔"
                    موہنی نیلم بائی کی بات بیچ میں ہی ٹوک کر بولی۔۔
                    " ایک ہی بات ہے۔۔ہمارے لیے نام ہی پیسہ ہے۔۔جس کا جتنا نام ہوتا ہے۔۔اس کے پاس اتنا پیسہ چلا آتا ہے۔۔اور فلحال اس جھنجٹ میں پڑنے کی میں تمہیں اجازت نہیں دے سکتی۔۔یہ بچہ تمہارے لیے مصیبت بن جائے گا۔۔دلاور کو جتنا میں جانتی ہوں۔۔اسکو پتہ چلا تو وہ کبھی اپنے بچے کو اس کوٹھے پہ نہیں رہنے دے گا۔۔اور تکلیف پھر بعد میں تمہیں ہی ہوگی۔۔اس لیے بہتر ہے کہ اس سے ابھی جان چھڑوا لو۔۔"
                    نیلم بائی نے موہنی کو ہر ممکن طریقے سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
                    " اور یہی میں چاہتی ہوں خالہ کہ اسکو پتہ چلے۔۔وہ تڑپے۔۔میں اس بچے کو ہر صورت پیدا کروں گی۔۔"
                    موہنی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔۔
                    موہنی تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو۔۔سیٹھ شجاع یہ سب برداشت نہیں کرے گا۔۔اور نہ پروا کرے گا۔۔
                    تمہیں اسکے ساتھ رہنا ہے۔۔اور اسکے ساتھ رہتے ہوئےتم سب سہ نہیں سکو گی۔۔"
                    نیلم بائی صاف الفاظ میں اب موہنی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا۔۔
                    "خالہ۔۔آپ کہتی ہیں۔۔آپکو مجھ میں آپکی بہن نظر آتی ہے۔۔اس لیے میری ہر بات مانتی آئی ہیں۔.
                    میری بس ایک بات اور مان جائیں۔۔بس آخری بار۔۔چھوڑ دیں یہ سب۔۔ہم کہیں اور جا کر رہ لیں گے۔۔ہمارے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔۔ہم کہیں بھی جاکر ایک چھوٹا موٹا گھر لے کر رہ لیں گے۔۔پلیز خالہ آپکو ماں کی قسم۔۔اگر سچ میں آپ ان سے پیار کرتی تھیں تو میری بات مان لیں۔۔
                    موہنی اپنی جگہ سے اٹھ کر نیلم بائی کے قدموں میں آ کر بیٹھ گئ۔۔اور اسکے گھٹنوں پہ سر رکھ کر رونے لگی۔۔
                    " میں یہ نہیں کر سکتی موہنی۔۔نازو سے میں کتنا پیار کرتی تھی۔۔اسکے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ میں نے کبھی تم پہ زور زبردستی نہیں کی۔۔
                    اب بھی میں اپنے لیے نہیں۔۔تمہارے لیے ہی کہ رہی ہوں۔۔کہ تم میری بات مان جاؤ۔۔جو میں دیکھ رہی ہوں۔۔تم وہ نہیں دیکھ رہی۔۔
                    سیٹھ شجاع ہمیں پاتال سے بھی ڈونڈھ نکالے گا۔۔پھر جو حشر کرے گا تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔تم جانا چاہتی ہو یہاں سے تو میں نہیں روکوں گی۔۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں۔۔اور کس کے پاس جاؤ گی۔۔اکیلی کیسے رہو گی۔۔سیٹھ شجاع سے کیسے بچو گی۔۔"؟
                    نیلم بائی نیم رضا مندی سے موہنی کے سامنے ہتھیار پھینکتے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔
                    " خانم میرا خیال ہے کہ فلحال موہنی کو سیٹھ شجاع سے مل لینا چاہیے۔۔اور اسکو کسی قسم کا بھی شک نہیں ہونا چاہیے۔۔کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں۔۔کیا کرنے والے ہیں۔۔سیٹھ شجاع سے موہنی کو بچانے کے لیے ہمیں پوری پلاننگ کرنی ہوگی۔۔تبھی اس سے موہنی کا پیچھا چھوٹ سکتا ہے۔۔جب تک ہمیں کوئی مناسب حل نہیں مل جاتا۔۔موہنی سیٹھ شجاع کو الجھائے رکھے۔۔"
                    رحمو بابا نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے تجویز پیش کی۔۔
                    " ہممممم۔۔۔رحمو بابا بلکل ٹھیک کہ رہے ہیں۔۔ہمیں ایسے ہی کرنا ہوگا۔۔موہنی تم جلدی سے تیار ہو جاؤ پھر۔۔اور سیٹھ شجاع سے مل لو۔۔
                    اور ایک بات اور۔۔ کہ تم کسی پہ بھی یہ ظاہر نہیں کرو گی کہ ہمارا کیا رشتہ ہے۔۔اس بات کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔تم جیسے پہلے مجھے خانم کہتی تھی۔۔اب بھی سب کی طرح سب کے سامنے خانم ہی کہو گی۔۔
                    اور نہ کسی کو بھی تمہارے ماں بننے کا پتہ لگنا چاہیے۔۔"
                    نیلم بائی کی بات سن کر موہنی اور رحمو بابا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
                    " رحمو بابا آپ کمرۂ خاص کو اچھے سے صاف ستھرا کروا دیں۔۔سیٹھ شجاع موہنی سے وہیں ملنا چاہتا ہے۔۔"
                    نیلم بائی کی بات سن کر رحمو بابا کمرے سے باہر نکل گئے۔۔جبکہ موہنی حیران نظروں سے نیلم بائی کی طرف دیکھنے لگی۔۔
                    " خالہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔پلیز۔۔۔نہیں۔۔۔ابھی تو آپ نے کہا کہ آپ میرا ساتھ دیں گی۔۔پھر آپ یہ۔۔۔یہ کیوں کر رہی ہیں۔۔میں اپنی جان دے دوں گی۔۔اگر اب کسی نے مجھے چھونے کی کوشش بھی کی تو۔۔۔"
                    موہنی حیرانگی سے نیلم بائی کی طرف دیکھتے بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔
                    " موہنی ریلیکس رہو۔۔یہ سب بہت ضروری ہے۔۔تا کہ سیٹھ شجاع کو شک نہ ہو۔۔اور اسکو خود کو چھونے سے۔۔اپنے پاس آنے سے کیسے روکنا ہے اب یہ تم پر ہے۔۔اتنے عرصے سے یہاں رہ رہی ہو۔۔ایک طوائف اپنی اداؤں سے کیسے مردوں کو الجھاتی۔۔اور کیسے انگلیوں پہ نچاتی ہے۔۔تم بہت اچھے سے جانتی ہو۔۔اگر یہاں سے نکلنا ہے تو سیٹھ شجاع سے تمہیں ملنا ہوگا۔۔اور اس کی چھوٹی موٹی گستاخی بھی تمہیں سہنی پڑے گی۔۔مجھ پہ بھروسہ رکھو۔۔کچھ وقت دو مجھے۔۔تب تک کے لیے تھوڑا برداشت کر لو۔۔"
                    نیلم بائی نے موہنی کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔
                    " اور اگر وہ حد سے بڑھ گیا تو۔۔اس دن کی طرح اب بھی چپ رہیں تو۔۔"؟
                    موہنی کی بات پر نیلم بائی نے اپنی نظریں چرائیں تھیں۔۔
                    " مجھے معاف کردو موہنی۔۔اگر میں تھوڑی مزاحمت کرتی تو وہ سب نہیں ہوتا شائد۔۔مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔۔تمہاری مرضی کے بنا کوئی بھی تمہیں چھو نہیں پائے گا۔۔یہ وعدہ ہے میرا۔۔بس جیسے میں کہتی ہوں ویسے کرتی جاؤ۔۔میں ذرا باقی لڑکیوں کو دیکھ لوں۔۔انکے اندر تجسس کا کیڑا کلبلا رہا ہوگا۔۔ کہ پتہ نہیں صبح سے کیا کھچڑی پک رہی ہے۔۔
                    نازو کی قسم۔۔"
                    نیلم بائی موہنی کو یقین دلانے کے بعد دروازے سے باہر نکلتے نکلتے بولی۔۔اور موہنی گہرا سانس لے کر تیار ہونے کے لیے واشروم گھس گئ۔۔


                    دلاور کب سے کرسی پہ بیٹھا اپنی مٹھیاں بھینچ رہا تھا۔۔رشید احمد کے گھر تالا لگا دیکھ کر اسکو سخت کوفت ہوئی تھی۔۔اور بھولے کو پتہ کرنے کو کہا تھا کہ وہ معلوم کرے کہ سب لوگ اچانک کہاں غائب ہو گئے ہیں۔۔مگر بھولا کئ گھنٹے سے ابھی تک غائب تھا۔۔
                    " استاد میں نے سب پتہ کر لیا ہے۔۔وہ لوگ کہیں غائب نہیں ہوئے۔۔اس وقت سب لوگ ہاسپٹل میں موجود ہیں۔۔"
                    بھولا پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔۔اور ساری بات بتائی۔۔
                    " تم پیدل گئے تھے کیا۔۔"
                    دلاور نے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔
                    " نہیں استاد۔۔پیدل جاتا تو پھر کل ہی پہنچتا میں۔۔"
                    بھولا بنا سمجھے بولا
                    " اگر پیدل نہیں گئے تھے تو تمہارے اندر یہ اتنا طوفان کیوں آیا ہوا ہے۔۔"
                    دلاور نے اسکی پھولی سانسوں کی طرف اشارہ کیا۔۔
                    " وہ استاد لفٹ میں کوئی مسلہ ہو گیا تھا۔۔آپ کو جلدی جلدی خبر دینے کے لیے سیڑھیاں تیز تیز چڑھ کر اوپر آیا تو اس لیے۔۔۔۔۔"
                    بھولے نے تھوڑا خجل ہو کر جواب دیا۔۔
                    " ہسپتال کون ہے۔۔کیا ہوا ہے۔۔شیدا بھی وہیں ہے کیا۔۔"؟
                    " نہیں استاد۔۔شیدا تو وہاں نظر نہیں آیا۔۔اور شیدے کی چھوٹی بیٹی کے سر میں چوٹ لگ گئ تھی۔۔اسکا اوپریشن تھا کل۔۔تینوں بچیاں اور انکی ماں ہسپتال میں ہیں اسکے پاس۔۔میں نے دو بندوں کی ڈیوٹی لگا دی تھی وہاں نگرانی کے لیے۔۔"
                    بھولے نے ساری معلومات سے دلاور کو آگاہ کیا۔۔
                    " ٹھیک ہے تم نظر رکھو ان پہ۔۔اور شیدے کا پتہ کرو کہاں ہے وہ۔۔اسے ڈونڈھ کر لاؤ میرے پاس۔۔
                    اجو کا کوئی فون آیا کیا۔۔؟
                    " نہیں استاد۔۔۔اسکا تو نہیں آیا۔۔مگر میں نے کیا تھا۔۔کہ رہا تھا کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔۔جلد خوشخبری سنائے گا۔۔"
                    اسی وقت بھولے کے فون پہ کسی کی کال آئی تھی۔۔کال سن کر بھولا مسکرا دیا تھا۔۔
                    " استاد شیدے کا پتہ چل گیا ہے۔۔لا رہے ہیں اسکو۔۔"
                    بھولے کی بات سن کر دلاور مسکرا دیا تھا۔۔

                    " چل اندر بے غیرت انسان۔۔تو کیا سمجھتا تھا کہ ہم تجھے ڈونڈھ نہیں سکتے۔۔"
                    "مم۔۔۔میری بات تو سنو۔۔"
                    " جو بھی کہنا سنانا ہے۔۔وہ استاد سے کہنا۔۔چل۔۔"
                    دلاور کے دو آدمی رشید احمد کو گریبان سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کمرے کے اندر لائے۔۔اور لا کر اسکے قدموں میں پھینک دیا۔۔
                    " ارے۔۔ارے۔۔نواب صاحب۔۔کیا کر رہے۔۔اٹھیئے شاباش۔۔
                    اُوئے تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو۔۔نواب صاحب کے ساتھ ایسے بدتمیزی۔۔چچ۔۔۔۔چچ"
                    دلاور نے رشید احمد کو کندھوں سے پکڑ کر اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔پھر اپنے بندوں سے مصنوعی خفگی سے بولا۔۔
                    دلاور کے انداز پہ سب لوگ ہنسنے لگے۔۔جبکہ رشید احمد شرمندہ اور پریشان سا دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔
                    " مم۔۔۔میں تمہیں ہی ڈونڈھ رہا تھا دلاور۔۔قسم الّٰلہ پاک کی۔۔میں آیا تھا۔۔مگر تمہارے آدمی نے کہا کہ تم کہیں گئے ہوئے ہو۔۔بب۔۔۔بے شک پوچھ لو باہر سب سے۔۔"
                    رشید احمد نے ڈرتے ڈرتے جلدی جلدی بات کی۔۔
                    " اچھا۔۔۔چلو ٹھیک ہے۔۔مان لیتے ہیں۔۔یہ بتاؤ میرے پیسوں کا انتظام ہو گیا کیا۔۔"
                    دلاور نے بہت نرمی سے پوچھا۔۔اور سب حیران ہوکر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔
                    " ہو۔۔۔ہو جائے گا۔۔بس ایک دو دن اور دے دو۔۔کچھ زیور ہے میرے پاس۔۔3، 4 لاکھ کا تو ہوگا پکا۔۔باقی کے بھی میں جلد ادا کردوں گا۔۔"
                    رشید احمد نے گھگیاتے ہوئے اس آدمی کی طرف دیکھا۔۔جس نے اسکے ہاتھ سے پوٹلی چھینی تھی۔۔
                    " استاد یہ رہا وہ زیور۔۔لگتا ہے چوری کیا ہے اس نے۔۔"
                    اس آدمی نے دلاور کے سامنے زیور والی پوٹلی رکھتے ہوئے گھور کر رشید احمد کو دیکھا۔۔
                    " نن۔۔۔نہیں استاد یہ میرے ہیں۔۔میں نے چوری نہیں کیے۔۔قسم سے۔۔"
                    رشید احمد جلدی سے بولا۔۔
                    " اچھا تو یہ تیرے ہیں۔۔ہاں۔۔تیرے ہیں یہ۔۔۔۔چل پھر انکو پہن کر دکھا۔۔"
                    دلاور نے زیور کی پوٹلی زور سے رشید احمد کی طرف اچھالی۔۔رشید احمد حیران ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگا کہ وہ مزاق تو نہیں کر رہا۔۔
                    " پہہہہہہہن۔۔۔۔۔"
                    دلاور اٹھ کر اتنی زور سے دھاڑا کہ سب کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔۔سب خوفزدہ ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگے۔۔
                    " پپ۔۔۔پہنتا ہوں۔۔۔ابھی پہنتا ہوں۔۔"
                    رشید احمد جلدی جلدی پوٹلی سے زیور نکال کر اپنے ہاتھوں اور گلے مین پہننے لگا۔۔مگر سوائے ایک دو نیکلس کے کچھ بھی اس سے پہنا نہیں گیا۔۔
                    " تو تو کہ رہا تھا کہ یہ تیرے ہیں۔۔پھر تجھے پورے کیوں نہیں آ رہے۔۔"
                    دلاور نے رشید احمد کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا۔۔
                    " وہ۔۔۔۔وہ میرا مطلب تھا کہ میری بیوی کے ہیں۔۔اور کچھ بچیوں کے۔۔۔"
                    رشید احمد نے تھوک نگلتے جلدی سے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔۔مبادا کہ دلاور پھر سے کوئی اور حکم دے۔۔
                    مجھے زیور نہیں پیسے چاہیے۔۔اور وہ بھی نقد۔۔۔ اور پورے کے پورے 20 لاکھ۔۔۔اور آج کے آج۔۔ابھی اور اسی وقت۔۔بہت مہلت دے چکا میں۔۔"
                    دلاور نے دو ٹوک انداز اپنایا۔۔
                    " مم۔۔۔۔مگر میں اتنی جلدی کیسے۔۔۔میری بچی ہسپتال میں پڑی ہے۔۔مم مجھے کچھ مہلت دے دو۔۔بس دو ہفتوں کی۔۔"
                    " دو ہفتے۔۔۔کیا ایک دن کی بھی نہیں شییدے۔۔۔دو ہفتے کہتے کہتے دو ماہ ہو گئے۔۔مگر اب نہیں۔۔اب یا تو تم پیسے دو گے۔۔یا اپنی جان۔۔
                    اور یہ گھر والوں کی فکر کب سے تجھے ہونے لگی۔۔جہاں تک میری معلومات ہیں۔۔بچی ہسپتال بھی تیری ہی وجہ سے پہنچی ہے۔۔
                    بول اب جان یا پیسہ۔۔"
                    دلاور نے گن نکال کر رشید احمد کے سر پہ تازنی۔۔اور ٹریگر دبانے کے لیے انگلی اس پہ رکھی۔۔
                    " رر۔۔۔۔رک جاؤ۔۔۔دلاور۔۔۔ایسا مت کرو۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔میں قسم کھاتا ہوں۔۔بس دو ہفتوں کی مہلت دے دو۔۔اگر میری بات پہ یقین نہیں تو تب تک۔۔۔۔"
                    " تب تک کیا۔۔۔۔۔"؟
                    دلاور نے گھور کر پوچھا
                    تب تک کے لیے میری بیٹی تم اپنے پاس گروی رکھ لو۔۔۔"
                    رشید احمد جلدی سے بولا۔۔رشید احمد کی بات سن کر سب پہ ایک پل کو سکتا طاری ہو گیا تھا۔۔
                    " میں یہ تو جانتا تھا کہ تم بہت خود غرض اور بزدل انسان ہو۔۔مگر اتنے بے غیرت ہو یہ نہیں جانتا تھا۔۔خیر مجھے پیسے چاہیے بس۔۔
                    بھولے اشٹام پیپر لے کر آؤ۔۔اب زبانی کلامی نہیں۔۔بلکہ باقاعدہ معاہدہ ہوگا۔۔جو شخص اپنے گھر کی عزت داؤ پہ لگا سکتا ہے۔۔اسکا کوئی بھروسہ نہیں۔۔"
                    دلاور نے گن اپنی نیچے کر کے بھولے سے اشٹام پیپر لانے کو کہا۔۔۔

                    کچھ دیر بعد بھولا اشٹام پیپر لے کر اندر داخل ہوا۔۔
                    " ہاں۔۔۔تو شیدے کیا سوچا پھر۔۔تم چاہو تو اپنی بات سے ابھی بھی پیچھے ہٹ سکتے ہو۔۔"
                    دلاور بھولے کے ہاتھ سے اشٹام پیپر پکڑ کر بولا۔۔
                    " میں اپنی بات پہ ابھی بھی قائم ہوں۔۔"
                    رشید احمد نے جلدی سے کہا۔۔اپنی جان بچ جانے کی خوشی اسکے چہرے سے صاف جھلک رہی تھی۔۔میرا بس چلے تو اپنی ساری بیٹیوں کو گروی رکھ دوں۔۔جان چھوٹے ان منحوسوں سے میری۔۔رشید احمد دل ہی دل میں سوچتا دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔
                    " مگر یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کس کو گروی رکھ رہے ہو۔۔مجھے بھی تو پتہ ہونا چاہیے یہ۔۔کیا خیال ہے۔۔"
                    دلاور نے رشید احمد کو بھی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
                    " میری چار بچیاں ہیں۔۔جس کو تم کہو۔۔"
                    رشید احمد نے کرسی پہ سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

                    ماضی۔۔۔۔!
                    حمید صاحب کی اور ایک دو مجلے والوں کی بھاگ دوڑ کے باوجود دانی کو کم عمر اور نا سمجھ کی رعایت دیتے ہوئے چھ ماہ اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہو گئ۔۔مخالف پارٹی نے پیسہ پانی کی طرح بہا کر اور کئ جھوٹے گواہ کھڑے کر کے دانی کو ایک بگڑا ہوا آوارہ لڑکا اور سٹریٹ کریمنل ثابت کر دیا۔۔
                    جیل میں اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا۔۔کوئی ایک لمحہ بھی اسکو سکون کا سانس نہ لینے دیا جاتا۔۔
                    باسی سالن اور جلی ہوئی روٹی کھانے میں دی جاتی۔۔پوری۔بیرک اور گراؤںڈ کی صفائی ستھرائی اس اکیلے سے کروائی جاتی۔۔بات بے بات پہ اسکو پیٹا جاتا۔۔
                    "اوئے ہیرو چل باہر آ تیری ملاقات آئی ہے۔۔"
                    باہر گراؤنڈ کی صفائی کے بعد وہ ابھی بیرک میں واپس آ کر بیٹھا ہی تھا کہ اردلی نے آ کر اسکو اطلاع دی۔۔
                    " آپی۔۔۔۔آپ کیا لینے آئی۔ہیں یہاں۔۔کس کے ساتھ آئی ہیں۔۔میں نے آپکو کہا تھا ناں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اکیلے کہیں مت جائیے آئیے گا۔۔پھر کیوں آئی ہیں آپ یہاں۔۔"
                    فاطمہ کو اپنے سامنے دیکھ کر دانی کو شدید غصہ آیا تھا۔۔
                    " یہ۔کیا ہوا ہے تمہیں۔۔یہ چوٹ کیسے لگی ہے۔۔"
                    فاطمہ نے بے چینی سے اسکے ماتھے کی طرف دیکھا۔۔جہاں بڑا سا گومڑ پڑا ہوا تھا۔۔
                    " کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔اور جو میں نے پوچھا اسکا جواب نہیں دیا۔۔کیوں آئی ہیں یہاں۔۔"
                    دانی فاطمہ کی بات نظرانداز کرتا ہوا غصے سے بولا۔۔
                    " میں اکیلی نہیں آئی۔۔حمید صاحب کے ساتھ آئی ہوں۔۔۔اور کیا لینے آئی کا مطلب۔۔تم سے ملنے آئی ہوں۔۔تمہیں دیکھنے آئی ہوں۔۔بہت یاد آ رہی تھی تمہاری۔۔حمید صاحب کہ رہے تھے کہ وہ تمہارا کیس ہائی کورٹ میں فائل کریں گے پھر سے۔۔اور پوری امید ہے کہ تم چھوٹ جاؤ گے۔۔"
                    " آپ جائیں یہاں سے۔۔اور دوبارہ مت آئیے گا۔۔۔اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں اپنی یہیں جیل میں جان دے دوں گا۔۔سنا آپ نے۔۔جائیں یہاں سے۔۔"
                    دانی نے فاطمہ کی کوئی بھی بات سنے بنا سختی سے کہ کر منہ پھیر لیا۔۔
                    " دانی ایسا کیوں کر رہے ہو۔۔پلیز بات کرو مجھ سے۔۔امی نے رو رو کر اپنا برا حال کیا ہوا ہے۔۔کیا کہوں میں جا کر ان سے۔۔دانی پلیز دیکھو ادھر میری طرف۔۔دانی۔۔۔۔"
                    فاطمہ دانی سے بات کرنے کے لیے اس کی منت سماجت کرنے لگی۔۔
                    مگر دانی ویسے ہی منہ پھیرے کھڑا رہا۔۔ضبط کے مارے اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔


                    Comment


                    • #30
                      . بڑے ہی لاڈ پیار سے لکھی گئی ہے کہانیبھت ہی عمدہ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X