Episode, 21#
" ایمبولینس کا انتظام کروا دیا ہے میں نے۔۔۔اور ساری پے منٹ بھی کردی ہے میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے۔۔۔"
احتشام شاہ نے ایک نظر عائلہ عینا اور ایمن پہ ڈال کر صارم شاہ سے کہا۔۔۔صارم شاہ کا فون سنتے ہی احتشام شاہ رات کو اسی وقت دین محمد کے ساتھ ہاسپٹل پہنچ چکا تھا۔۔۔
اور آتے ہی سارے انتظامات اور مہرالنساء کو وہی دیکھ رہا تھا۔۔۔جبکہ صارم شاہ بچیوں کے پاس موجود رہا۔۔۔اس وقت عجیب صورت حال تھی۔۔۔ایک طرف تو ماں زندگی اور موت کے دہانے پہ کھڑی تھی۔۔۔تو دوسری طرف بہن کا مردہ وجود انکی آنکھوں کے سامنے پڑا تھا۔۔۔عینا کبھی آئی سی یو کی طرف جا کر ماں کو دیکھتی۔۔۔تو کبھی اپنے پرائیویٹ روم میں آکر اپنی بہنوں کو دیکھتی۔۔۔جس کا انتظام صارم شاہ نے کروا دیا تھا۔۔۔ مہرالنساء کی طبیعت کسی صورت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔اجالا کو اسکی ابدی آرام گاہ تک پہنچانا بھی بہت ضروری تھا۔۔۔مگر مہرالنساء کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔۔۔مہرالنساء کو اکیلا چھوڑنا بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔۔اور نہ اسکے ہوش میں آنے سے پہلے اجالا کی آخری رسومات کرنا ٹھیک لگ رہا تھا۔۔۔
" بھائی آنٹی کے ہوش میں آنے سے پہلے ہم کیسے اجالا کو لے جا سکتے ہیں۔۔۔اور اگر ہم لے بھی جاتے ہیں تو آنٹی کے پاس بھی کسی کا ہونا ضروری ہے۔۔۔"
صارم شاہ نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
" ہمممم۔۔۔ٹھیک کہ رہے ہو تم۔۔۔می امی جان سے مشورہ کرتا ہوں۔۔۔پھر جیسے وہ کہیں گی انکی بیٹیوں سے پوچھ لیں گے۔۔۔"
احتشام شاہ کی بات پہ صارم شاہ نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گھر فون کرنے چلا گیا۔۔۔
صارم شاہ روم میں واپس آیا تو عینا اجالا کے سینے پہ سر رکھے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔جبکہ ایمن روتے روتے سو چکی تھی۔۔۔صبح کے 5 بج چکے تھے۔۔۔اجالا کو فوت ہوئے 5 گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔جبکہ عائلہ ابھی تک اسی پوزیشن میں سٹنڈ تھی۔۔۔صارم دو منٹ کھڑا سبکی طرف دیکھتا رہا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر باہر نکل گیا۔۔۔
" عینا۔۔۔۔عینااااا۔۔۔۔"
احتشام شاہ ہائمہ خاتون سے بات کر کے روم میں آیا تو عینا کو آواز دی۔۔۔جو اجالا کے سینے پہ سر رکھے دنیا و مافیا سے بے خبر رو رہی تھی۔۔۔
اس لیے جب احتشام کے پکارنے پہ بھی کوئی ریسپونس نہ دیا تو اس نے دوسری بار ذرا زور سے آواز دی۔۔۔
" جی۔۔۔"
اب کی بار عینا نے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھا کر سیدھے ہوتے ہوئے یک لفظی جواب دیا۔۔۔گریہ زاری سے اسکی آنکھیں اور ناک متورم ہو چکی تھیں۔۔۔اسکی حالت پہ احتشام شاہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔ایک لمحہ کو اس کا دل کیا کہ آگے بڑھ کر اسکے تمام آنسو سمیٹ لے۔۔۔مگر دل کی خواہش کو دل میں ہی دبا گیا۔۔۔
" عینا میں جانتا اس وقت دنیا کا کوئی بھی لفظ آپکے دکھ اور اذیت پہ مرہم نہیں لگا سکتا۔۔۔نہ ہی کوئی آپکی دلی کیفیت کو پورے طور سمجھ سکتا ہے کہ آپ کس اذیت سے گزر رہی ہیں۔۔۔میں بس اتنا کہوں گا کہ میں ہر حال میں آپکے ساتھ ہوں۔۔۔"
احتشام شاہ سے عینا کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔کہنے وہ کچھ اور آیا تھا۔۔۔مگر عینا کو روتا دیکھ کر سب بھول کر اس کے پاس کھڑا ہو کر وہ کیا بول گیا ہے۔۔۔اسکو خود بھی پتہ نہ چلا۔۔۔
" میں بابا کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔وہ قاتل ہیں اجالا کے۔۔۔آئی ہیٹ ہم۔۔۔بہت برے ہیں وہ۔۔۔بہت برے۔۔۔"
عینا کو اچانک نہ جانے کیا ہوا تھا۔۔۔وہ بے اختار ہو کر احتشام شاہ کے سینے سے آ لگی تھی۔۔۔اور ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے اپنے دل کا غبار نکالنے لگی۔۔۔اجالا کا زخمی ہونا۔۔۔گھر کی چاردیواری میں شہریار کا اس سے بدتمیزی کرنا۔۔۔پھر اجالا کی موت اور مہرالنساء کو سوئیر ہارٹ اٹیک۔۔۔پے در پے صدموں نے ایک ہنستی کھلکھلاتی۔۔۔ہر مشکل کو چٹکیوں میں اڑانے والی لڑکی کو توڑ کے رکھ دیا تھا۔۔۔اس پہ مزید یہ کہ اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے نہ ماں کی ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں میسر تھی۔۔۔نہ بھائی کا مظبوط کندھا۔۔۔اور نہ کوئی سکھی سہیلی پاس موجود تھی۔۔۔اکثر ایسی حالت میں کسی کے کہے گئے دو میٹھے بول انسان کو اسکے قریب کر دیتے ہیں۔۔۔نہ تو اس کے مرد ہونے کا دھیان رہتا ہے۔۔۔نہ عورت ہونے کا۔۔۔بس یاد رہتا ہے تو اتنا کہ یہ ہمارا اپنا ہے۔۔۔جو ہمارے دکھ کو ہمیں سمجھ رہا ہے۔۔۔۔
اور اسی حالت سے اس وقت عینا۔بھی گزر رہی تھی۔۔۔
احتشام شاہ عینا کی اس حرکت پہ ہکا بکا تھا۔۔۔ایک لمحہ کو اس کے دل میں خیال آیا کہ اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلائے۔۔۔اور ایسا کرنے کے لیے اس کے بازو اٹھے بھی۔۔۔مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ اس وقت شدید جزباتی کیفیت سے گزر رہی ہے۔۔۔اور ہوش میں نہیں ہے۔۔۔مگر وہ تو اپنے پورے ہوش و حواس میں ہے۔۔۔اس لیے اس نے اپنے بازو نیچے گرا لیے اور سٹنٹ ہو کر کھڑا رہا۔۔۔
" سس۔۔۔۔سوری۔۔۔۔پتہ نہیں کیسے۔۔۔۔آیم سو سوری۔۔۔میں۔۔۔"
کچھ دیر رونے کے بعد کچھ جی ہلکا ہوا تو عینا یکدم ہوش میں آتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔۔۔وہ مزید کچھ کہنے لگی تو احتشام شاہ نے اسکو بیچ میں ہی روک دیا۔۔۔
" پلیز۔۔۔آپ شرمندہ مت ہوں۔۔۔میں سمجھ سکتا ہوں آپکی اس وقت جو حالت ہے۔۔۔
میں کہنے آیا تھا کہ ہم اجالا کو لے چلتے ہیں۔۔۔دین محمد ہمارا بہت قابل بھروسہ آدمی ہے۔۔۔یا یوں کہیے کہ گھر کے فرد کی طرح ہے۔۔۔وہ ادھر رک جاتا ہے۔۔۔ساری رسومات کے بعد آپ ہاسپٹل واپس آ جائیے گا۔۔۔آپ عائلہ سے مشورہ کر لیں۔۔۔پھر جیسے آپ کہیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے بہت نرم انداز میں عینا سے کہا۔۔۔
اسی وقت صارم شاہ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل اور کچھ اسنیکس لیے اندر داخل ہوا۔۔۔
" عینا یہ پانی اور کچھ اسنیکس ہیں۔۔۔پلیز آپ بھی لے لیں اور عائلہ اور ایمن کو بھی کھلا دیں تھوڑا۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کی طرف شاپر بڑھاتے کہا۔۔۔
" نہیں۔۔۔شکریہ آپکا۔۔۔بٹ میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔"
عینا نے سہولت سے انکار کیا۔۔۔
" پلیز عینا کچھ لے لیں۔۔۔پلیز۔۔۔ایمن چھوٹی بچی وہ بھی کل شام سے بھوکی ہے۔۔۔پلیز اسکی خاطر ہی تھوڑا سا کھا لیں۔۔۔"
احتشام شاہ نے کہا۔۔۔تو عینا نے ایک نظر ایمن اور عائلہ پہ ڈال کر شاپر پکڑ لیا۔۔۔
" تھینکس۔۔۔"
احتشام شاہ نے کہا۔۔۔
" عائلہ آپی۔۔۔آپی۔۔۔یہ پانی پی لیں تھوڑا۔۔۔"
عینا نے عائلہ کے منہ کے پاس پانی کی بوتل کر کے کہا۔۔۔مگر وہ خالی خالی نظروں سے بنا کسی تاثر کے عینا کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
" عائلہ آپی تھوڑا پانی پی لیں پلیز۔۔۔"
عینا نے پھر سے بوتل بڑھائی تو عائلہ نے ایک نظر اسکی طرف دیکھ کر سر جھکا لیا۔۔۔عینا کو لگا کہ وہ شدید دکھ اور اذیت کے فیز میں ہے اس لیے کسی سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔لہذا اپنے آنسو ضبط کرتے اس نے ایمن کو اٹھا کر اسکو پہلے تھوڑا سا پانی پلایا پھر چند بسکٹ اور ایک سینڈوچ کھلایا۔۔۔پھر ایمن کے مزید کھانے سے انکار کرنے پہ اس نے شاپر کو گراہ لگا کر بیڈ کے سائیڈ پہ پڑی ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔
" میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے۔۔۔کیا خیال ہے آپکا۔۔۔"
احتشام شاہ نے عینا سے پوچھا۔۔۔
" جی بہتر ہے۔۔۔"
عینا اتنا کہ کر عائلہ کو چادر اوڑھائی اور ایمن کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔۔۔
" یہ لوگ میرے ساتھ جائیں گے۔۔۔"
احتشام شاہ اجالا کو اُٹھانے کو جھکا ہی تھا کہ اسی وقت دلاور روم میں داخل ہوا۔۔۔اور سب کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ کے ساتھ عینا بھی حیران ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ایک ہفتے سے صارم یہاں موجود تھا۔۔۔مگر کسی ایک دن بھی اس شخص کو اس نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
" آپ کا بہت شکریہ۔۔۔میں اب آ گیا ہوں تو میں دیکھ لوں گا باقی سب۔۔۔"
دلاور نے اجالا کے پاس کھڑے ہو کر انتہائی خشک لہجے میں احتشام شاہ سے کہا۔۔۔مگر اسکی نظریں عائلہ پہ ٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔دو ماہ پہلے اسکی ایک جھلک دیکھ کے وہ مبہوت رہ گیا تھا۔۔۔مگر آج وہ کسی دیو مالائی کی کہانیوں کی حسین مورتی کی طرح اسکے سامنے موجود تھی۔۔۔جسے بلا شبہ قدرت کا انمول شاہکار کہا جا سکتا تھا۔۔۔
کسی کا بھی لحاظ کیے وہ یک ٹک عائلہ کو تکے جا رہا تھا۔۔۔اور اس کا یو تکنا نہ صرف عینا بلکہ احتشام اور صارم شاہ کو سخت ناگوار لگا تھا۔۔۔
احتشام شاہ کو اسکے لہجے اور یوں بے باکی سے تکنے پہ غصّٰہ تو بہت آیا مگر وہ جتنے حق سے بات کر رہا تھا اس سے ایسا لگ رہا تھا جیسےکوئی بہت قریبی عزیز ہے۔۔۔اس لیے کوئی بات کیے بنا وہ عینا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔کہ یہ کون ہے۔۔۔مگر عینا۔نے کندھے اچکا دئیے۔۔۔
" آپ پیں کون۔۔۔دماغ تو ٹھیک ہے آپکا۔۔۔'
عینا نے آگے بڑھ کر دلاور سے تلخی سے کہا۔۔۔اس نے خود پہلی بار اسے دیکھا تھا۔۔۔6 فٹ کے قریب قد۔۔۔کسرتی جسم۔۔۔ماتھے پہ ہلکا سا زخم کا نشان۔۔۔ڈھیلی ڈھالی کھلی سی شلوار قمیض پہنے اپنے حلیے سے کسی طور بھی وہ ایک سلجھا ہوا انسان نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
عینا کی بات پہ احتشام شاہ اور صارم شاہ حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
" عینا گڑیا کون ہے یہ۔۔۔آپ جانتی ہیں اسے۔۔۔"
صارم شاہ نے آگے بڑھ کر عینا سے پوچھا۔۔۔
میں کون ہوں یہ آپ سب کو پتہ چل جائے گا بہت جلد۔۔۔فلحال تو آپکے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ مجھے انکے والد صاحب نے بھیجا ہے انکو لینے۔۔۔"
عینا کے بولنے سے پہلے ہی دلاور نے فوراً جواب دیا۔۔۔
" اس کو دیکھ رہے ہو تم۔۔۔اس میں ہم سب کی جان بستی تھی۔۔۔کل رات مر گئ یہ۔۔۔جس شخص کا تم نام لے رہے ہو ناں۔۔۔کل رات اسکے ساتھ ساتھ وہ بھی ہمارے لیے مر گیا تھا۔۔۔اس لیے جا سکتے ہو تم۔۔۔"
عینا نے بے آواز روتے ہوئے اجالا کے وجود سے چادر ہٹا کر اسکی طرف اشارہ کر کے غصے اور تلخی کے ملے جلے لہجے میں تقریباً چیخ کر کہا۔۔۔اور اجالا کے چہرے کے ساتھ اپنا چہرہ لگا کر پھر سے سسکنے لگی۔۔۔
" میرا خیال ہے آپکو جواب مل گیا ہو گا۔۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
صارم شاہ نے کہا
دلاور کچھ دیر قہرطور نظروں سے صارم شاہ اور احتشام شاہ کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔پھر موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔
اجالا کی موت کا اعلان مسجد میں کروا دیا گیا۔۔۔رشید احمد سے اجازت لے کر ظہر کی نماز کے بعد جنازے کا ٹائم رکھا گیا تھا۔۔۔فجر اور ہائمہ خاتون کے ساتھ آئمہ سلطان بھی مہرالنساء کے گھر بچیوں کے پاس باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔جہاں نہلا دھلا کر اجالا کو کفن پہنا کر چارپائی پہ چادر اوڑھا کر لٹا دیا گیا تھا۔۔۔عائلہ ابھی تک اسی حالت میں سٹنٹ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
" مجھے تو یہ بچی ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔کب سے ایک ہی حالت میں بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔"
تعزیت کے لیے آئی عورتوں میں سے ایک نے عائلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
" یاں بہن ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔میں بھی کب سے نوٹ کر رہی ہوں۔۔۔بہت ترس آ رہا ہے بیچاری بچیوں پہ۔۔۔الّٰلہ ایسا دن کسی کو نہ دکھائے۔۔۔ایک طرف بہن کی موت کا صدمہ۔۔۔دوسری طرف ماں ہسپتال میں زندگی و موت سے جوج رہی ہے۔۔۔یا الّٰلہ میری توبہ۔۔۔الّٰلہ کسی دشمن کو بھی ایسا دن نہ دکھائے۔۔۔آمین۔۔۔۔"
دوسری عورت نے کہ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔اور پاس کھڑی باقی عورتوں نے اسکی بات پہ آمین کہا۔۔۔
عورتوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں تھیں۔۔۔اب تو عینا بھی عائلہ کی حالت پہ پریشان ہونے لگی تھی۔۔۔کھڑے کرتے تو کھڑی ہو جاتی۔۔۔جہاں بٹھاتے وہاں بیٹھ جاتی۔۔۔زبان پہ کفل لگائے بس ایک ہی جگہ دیکھے جاتی۔۔۔
عینا اور ایمن کے ساتھ وہ بھی اجالا کی چارپائی کے ساتھ لگی زمین پہ بیٹھی ہو ئی تھی۔۔۔مگر اسکی آنکھیں آنسوؤں سے اور کسی بھی تاثر سے خالی تھیں۔۔۔جبکہ عینا اور ایمن کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔
اس وقت ہائمہ خاتون کا مہربان سایہ بس انکو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھا۔۔۔
وہ کبھی عینا کے انسو صاف کرکے اسے گلے سے لگا کر صبر اور حوصلے کی تلقین کرتیں۔۔۔تو کبھی ایمن کو سنبھالتی۔۔۔بچیوں کی حالت پہ انکا اپنا دل منہ کو آ رہا تھا۔۔۔
آپا مجھے عائلہ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔ہمیں اسے کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔۔۔"
آئمہ سلطان نے ایک گہری نظر عائلہ پہ ڈال کر کہا۔۔۔
" ہممممم۔۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔"
آئمہ خاتون نے کہا۔۔۔پھر اپنے پاس بیٹھی رشیداں بوا سے کہا کہ وہ کسی سے کہ کر صارم یا احتشام شاہ میں سے جو بھی نظر آئے اسکو بلا کر لائے۔۔۔اور آتے ہوئے یٰسین کو بھی اپنے ساتھ لیتے آئیں۔۔۔
احتشام شاہ اور صارم شاہ باہر مردوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ماں کا پیغام ملتے ہی دونوں فکرمندی سے فوراً اٹھے۔۔۔یٰسین بھی ان سے کچھ فاصلے پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو اپنے پاس بلایا۔۔۔۔
" یٰسین جلدی سے اپنا سامان لے کر آؤ۔۔۔گھر میں کسی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے شائد۔۔۔جلدی جاؤ۔۔۔"
احتشام شاہ نے یٰسین سے کہا اور پھر دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
" عائلہ کو باہر سے اٹھا کر روم میں بٹھا دیا گیا تھا۔۔۔سب اسکو بار بار بلا رہے تھے کہ وہ کسی سے کچھ کہے کوئی بات کرے۔۔۔مگر وہ گم صم سب کی طرف تکے جارہی تھی۔۔۔
" آپی۔۔۔۔عائلہ آپی کیا ہوا ہے۔۔۔پلیز کچھ تو بولیں۔۔۔آپی اجالا کو لے جانے کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔کیا ہو گیا ہے آپکو۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپییییی۔۔۔۔"
عینا روتے ہوئے عائلہ کو جھنجوڑتے ہوئے بولی۔۔۔مگر تب بھی وہ یوں کی توں بیٹھی رہی۔۔۔فجر بھی عائلہ کو بار بار پکارنے لگی۔۔۔ایمن یہ سب دیکھ کر خوفزدہ ہو گئ۔۔۔اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا۔۔۔تو فجر عائلہ کو چھوڑ کر ایمن کو گلے لگا کر چپ کروانے لگی۔۔۔
" کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
صارم اور احتشام شاہ نے اندر داخل ہوتے پوچھا۔۔۔
" سب ٹھیک ہے۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا ہے میری بچی کو۔۔۔"؟
رشید احمد کو بھی اطلاع مل چکی تھی۔۔۔اس نے کمرے میں آتے ہی فکرمندی سے عائلہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔
اس کے ساتھ دلاور بھی کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اور پھر یٰسین بھی اپنے سامان سمیت آ گیا۔۔۔اور عائلہ کو چیک کرنے لگا۔۔۔سب اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔
" بظاہر تو سب ٹھیک ہے۔۔۔مگر مجھے لگ رہا ہے کہ شدید دکھ کی وجہ سے یہ شاک میں ہیں۔۔۔اجالا کی موت کو انھوں نے مینٹلی طور پہ قبول نہیں کیا۔۔۔اس لیے یہ شاک میں چلی گئ ہیں۔۔۔جسے عام زبان میں سکتے کی کیفیت کہ سکتے ہیں آپ۔۔۔میں نے انجیکشن دے دیا ہے۔۔۔
مگر اس کیفیت سے باہر آنے کے لیے انکا رونا اور بات کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔نہیں تو برین ہیمرج بھی ہو سکتا ہے انکو۔۔۔"
یٰسن اتنا کہ کر اپنا سامان سمیٹنے لگا۔۔۔
" میری جان۔۔۔۔میری بچی۔۔۔"
رشید احمد نے فکرمندی سےکہتے آگے کو ہو کر عائلہ کو گلے لگانا چاہا تو۔۔۔عینا بیچ میں آڑ بن گئ۔۔۔
" کوئی تعلق نہیں ہے آپکا ہم سے۔۔۔اس لیے چلے جائیں یہاں سے۔۔۔ایسا نہ ہو کہ میں کچھ ایسا کر بیٹھوں جو آپکو بہت برا لگے۔۔۔"
عینا نے رشید احمد کو غصے سے وارن کرتے کہا۔۔۔اس کا یہ انداز نہ صرف ہائمہ خاتون بلکہ آئمہ سلطان کو بھی ناگوار لگا تھا۔۔۔مگر سمجھنے سے قاصر تھیں کہ وہ اپنے باپ سے ایسا مس بی ہیو کیوں کر رہی ہے۔۔۔
رشید احمد عینا پہ ایک غصے بھری نظر ڈال کر پیچھے ہٹ گیا۔۔۔دلاور ابھی خود آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ عینا کا اپنے باپ کے ساتھ سلوک دیکھ کر یہ سوچ کر اپنی جگہ جم گیا کہ جس نے باپ کو دھتکار دیا ہے۔۔۔وہ اسکے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔۔۔اور فلحال وہ بھی کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے چپ چاپ ایک سائیڈ پہ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔۔۔
" عائلہ آپی۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپی عائلہ کو لے کر جا رہے ہیں۔۔۔اجالا مر گئ ہے آپی۔۔۔آپی ی ی۔۔۔۔۔۔آپی پلیز مت کریں ایسا۔۔۔میں اب کچھ اور نہیں سہ سکتی۔۔۔پلیز آپی۔۔۔ہوش کریں۔۔۔مجھے، ایمن کو اور ماما کو آپکی ضرورت ہے آپی۔۔۔پلیززززز۔۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپیییی۔۔۔"
عینا کے بار بار پکارنے اور جھنجھوڑنے پہ بھی جب عائلہ نے کوئی ریسپونس نہ دیا تو وہ زمین پہ بیٹھ کر اسکی گود میں سر رکھ کر سسکنے لگی۔۔۔
" عینا گڑیا۔۔۔ہمت کرو۔۔۔آپ دیکھ رہی ہو ناں کہ اس وقت کیا صورت حال ہے۔۔۔اگر آپ ایسے ہمت کھو دیں گی تو ایسا نہ ہو کہ ہم ایمن یا عائلہ میں سے بھی کسی کو کھو دیں۔۔۔"
صارم شاہ نے عینا کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی اور دلاسہ دیتے کہا۔۔۔"
صارم بھائی پلیز آپی کو ٹھیک کردیں۔۔۔اگر انکو کچھ ہوگیا تو میں بھی نہیں رہوں گی۔۔۔"
عینا نے جزباتی ہو کر صارم شاہ کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔
" سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔آپ سائیڈ پہ ہو ذرا میں ایک کوشش کرتا ہوں شائد یہ ٹھیک ہو جائیں۔۔۔"
صارم شاہ کے کہنے پہ عینا تھوڑا کھسک کر بیٹھ گئ۔۔۔
" عائلہ۔۔۔۔۔عائلہ۔۔۔۔"
صارم شاہ نے دو بار اونچی آواز میں عائلہ کے کان کے پاس منہ کر کے پکارا۔۔۔کوئی ریسپونس نہ ملنے پر اس نے غور سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔اب جو وہ کرنے والا تھا اس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔اس نے ایک نظر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔اور دوسری نظر اپنے ہاتھ پہ ڈالی۔۔۔اس کا ہاتھ ایک پل کو کپکپایا تھا۔۔۔مگر دوسرے لمحے کمرے میں ایک زوردار آواز گونجی تھی۔۔۔
" دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔ہمت کیسے کی تم نے یہ۔۔۔"
صارم شاہ نے ایک زناٹے دار تھپڑ عائلہ کے چہرے پہ دے مارا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے علاوہ اسکی اس حرکت پہ سب ہکا بکا رہ گئے۔۔۔دلاور جو کب سے کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔۔اب اسکی برداشت جواب دے گئ تھی۔۔۔اس نے صارم کو گریبان سے پکڑ کر ایک زور کا جھٹکا دے کر بیڈ سے نیچے گرایا تھا۔۔۔
" اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بھائی کو ہاتھ بھی لگانے کی۔۔۔"
کہتے ساتھ ہی احتشام شاہ نے ایک زوردار گھونسہ دلاور کے منہ پہ مارا تھا جس سے وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ گتھم گتھا ہوتے۔۔۔شاہ سائیں کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔اور دونوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے۔۔۔
" کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔۔"
شاہ سائیں نے دونوں سے انتہائی غصے سے پوچھا۔۔۔تو احتشام شاہ نے ساری بات کہ سنائی۔۔۔
" صارم شاہ بلکل ٹھیک کر رہا ہے۔۔۔اس وقت یہی حل ہے۔۔۔وہ دشمن نہیں ہے اس کا۔۔۔
شاہ سائیں نے کہا۔۔۔اور صارم شاہ کو آنکھ کے اشارے سے اگین کوشش کرنے کو کہا۔۔۔
تیسرے تھپڑ پہ عائلہ یکدم ہوش میں آئی تھی۔۔۔دو پل کے لیے وہ خالی خالی نظروں سے سب کی طرف تکتی رہی۔۔۔پھر سب یاد آنے پہ وہ روتے ہوئے اجالا کو پکارتی ہوئی باہر بھاگنے لگی۔۔۔تو عینا نے جلدی سے اسکا دوپٹہ اس پہ ٹھیک سے پھیلایا اور اسکے گلے لگ کر سسکنے لگی۔۔۔دلاور ایک نظر سب پہ ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
عائلہ کو ہوش میں آتا دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔اسکے چہرے پہ صارم شاہ کی انگلیوں کے نشان چپکے ہوئے تھے۔۔۔جن سے نظر چراتا صارم شاہ بھی باہر نکل گیا۔۔۔
آدھی رات کو اطلاع ملتے ہی سیٹھ شجاع اپنے بندوں کے ساتھ آندھی و طوفان کی مانند وہاں پہنچ گیا تھا۔۔۔فائر برگیڈ کے آنے تک آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔موہنی کی چیخیں آنا اب بند ہو چکی تھیں۔۔۔سیٹھ شجاع نڈھال سا ہو کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
شدید تگ و دو کے بعد آگ پہ قابو پا لیا گیا تو ایک آخری امید دل میں جاگتے ہی سیٹھ شجاع تیزی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اسکے پیچھے پیچھے نیلم بائی اور باقی لوگ بھی دروازے تک آ کر رک گئے۔۔۔
موہنی کے سڑی ہوئی لاش زمین پہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔وہ سٹنٹ کھڑا موہنی کے جلے ہوئے جسم کو دیکھے گیا۔۔۔ایک بے آواز آنسو اس کے گالوں پہ لڑھک آیا تھا۔۔۔
ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پہ نچانے والا آج زندگی میں پہلی بار رویا تھا۔۔۔
پورے کمرے میں جلے ہوئے گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔کہ وہاں کھڑا ہونا محال لگ رہا تھا۔۔۔
پولیس اور ایمبولینس بھی پہچ چکے تھے۔۔۔میڈیا اینکرز مصالحہ لگا کر ریٹنگ کے چکر میں اپنے اپنے چینل کے لیے کوریج کر رہے تھے۔۔۔
سیٹھ شجاع کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد کسی لٹے پٹے مسافر کی چال چلتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔
اسکے جاتے ہی نیلم بائی نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔
کہ سیٹھ شجاع نے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا۔۔۔جیسے آیا ویسے چلا گیا تھا۔۔۔
سب کچھ انکے پلان کے مطابق ہوا تھا۔۔۔کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔۔۔
اب بس یہی دعا تھی کہ وہ خیرو عافیت سے اپنی منزل پہ پہنچ جائے۔۔۔
ماضی۔۔۔!
فاطمہ کا اس کے لیے بولا گیا لفظ غنڈہ تیر کی طرح دلاور کے دل پہ لگا تھا۔۔۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ فاطمہ نے اس سے اتنے غصے سے بات کی تھی۔۔۔اور یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے بھی دو بدو جواب دیا تھا۔۔۔وہ سچ میں بدل گیا تھا۔۔۔اس کے سوچنے کا انداز بدل گیا تھا۔۔۔پیسہ اور طاقت اسکی منزل بن گیا تھا۔۔۔جن لوگوں کی وجہ سے اس کو جیل میں ذلت اور اذیت بھری زندگی گزارنی پڑی۔۔۔انھوں نے دو قدم چل کر ہی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔بے گناہ اور حق پہ ہونے کے باوجود وہ سب کی نظروں میں غنڈہ تھا۔۔۔ایک بے اعتبار شخص۔۔۔جو نہ جانے کب کس وقت کس کی جان لے لے۔۔۔لوگوں نے انکے گھر آنا جانا ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
جو کچھ مبین اور اسکے دوستوں نے اسکی غیر موجودگی میں ماسو ماں اورفاطمہ کے ساتھ کیا تھا۔۔۔سب جان کر شائد وہ باہر نکل کر انکی جان لے لیتا۔۔۔مگر ماسو ماں کی قسم نے اسکے ہاتھ پیر باندھ دئیے۔۔۔مگر اسکی شرافت اور برداشت کو اس کی کمزوری سمجھ لیا گیا۔۔۔لیکن جب ان لڑکوں کے ہاتھ فاطمہ کے گریبان تک آ پہنچے تو اس نے ماسو ماں سے کیے سب قسمیں اور سب وعدے توڑ دئیے۔۔۔
اور ان ہاتھوں کو کاٹ ڈالا جو اس کے گھر کی عزت کی طرف بڑھے تھے۔۔۔
فاطمہ دانی سے ناراض رہنے لگی تھی۔۔۔کہ اسکی ناراضگی کے ڈر سے اب کوئی ایسا کام نہیں کرے گا۔۔۔جس سے نہ صرف اس کی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی کسی مصیبت میں آ جائے۔۔۔مگر دانی اپنا رستہ تہ کر چکا تھا۔۔۔اور اس رستے پہ اسکے ساتھ کچھ اور دوست بھی آ ملے تھے۔۔۔چھوٹی موٹی چوری چکاری سے قبضہ مافیا کا سر غنہ بن چکا تھا وہ۔۔۔مگر اب وہ بہت محتاط ہو کر چل رہا تھا۔۔۔
دلاور اور بلال نے مل کر اپنی موٹر ورکشاپ کھول لی۔۔۔جو بظاہر ورکشاپ تھی۔۔۔مگر وہ ان کا مخصوص اڈہ تھا۔۔۔جہاں بیٹھ کر وہ سب لائحہ عمل تہ کرتے۔۔۔
اب ان کا اگلا ٹارگٹ شکیل رندھاوا تھا جو کہ اسکے باپ کا بزنس پارٹنر تھا۔۔۔اور اسکے ماں باپ کا قاتل بھی۔۔۔اپنے ماں باپ کے قتل کے کچھ عرصہ بعد ہی ماسو ماں اور فاطمہ کی باتیں اس نے سن لیں تھیں۔۔۔جس سے اسکو پتہ چلا کہ اسکے ماں باپ کی موت کوئی حادثہ نہیں تھی۔۔۔تب اس کا خیال تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر پولیس لائن میں جائے گا۔۔۔اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کر اپنا حق واپس لے گا۔۔۔اور شکیل رندھاوا کو اپنے ماں باپ کے قتل کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈالے گا۔۔۔
اور ان سوچوں کا کبھی اس نے کسی سے اظہار نہیں کیا تھا۔۔۔وہ سیدھی سادھی زندگی گزار رہا تھا۔۔۔اور سیدھے طریقے سے قانونی طور پہ ہی وہ سب کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
مگر یکدم سے جس طرح سے اسکی زندگی نے پلٹا کھایا تھا۔۔۔اس کی سوچیں بھی پلٹ گئ تھیں۔۔۔
فاطمہ اور رضوانہ کو لگا کہ اب سب ٹھیک ہے۔۔۔دلاور نے جو کچھ بھی کیا جوش جوانی اور غیرت میں آ کر کیا۔۔۔اس لیے فاطمہ نے اس سے ناراضگی تو ختم کردی تھی۔۔۔مگر اس دن ہمسائی کی کی گئ باتوں کی وجہ سے وہ پہلے کی نسبت بہت ریزرو ہو کر دلاور سے بات کرتی تھی۔۔۔
پھر ایک دن رضوانہ خاتون کا بی پی اتنا شوٹ کر گیا کہ ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔۔۔دلاور ان کا علاج مہنگے ہاسپٹل سے کروا رہا تھا۔۔۔یہ کہ کر کہ اس ہاسپٹل میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔۔۔اپنی بیماری اور لاچاری کی وجہ سے ایک بات وہ بھی اب سنجیدگی سے سوچنے لگی تھیں۔۔۔کہ ہمسائی کی کہی بات کچھ غلط بھی نہیں۔۔۔اگر انکو کچھ ہو گیا تو فاطمہ ایک چھت تلے دانی کے ساتھ کسی صورت نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ابھی وہ زندہ تھیں تو باتیں اٹھنے لگی تھیں۔۔۔انکے بعد تو لوگ ان سے جینے کا حق ہی چھین لیتے۔۔۔
اس لیے سب سے پہلے انھوں نے فاطمہ سے بات کی۔۔۔جسے سن کر وہ دوپل کو تو کچھ بول بھی نہ سکی۔۔۔پھر صاف منع کر دیا۔۔۔مگر رضوانہ خاتون کے ہاتھ جوڑنے پہ چپ کر کے یہ سوچ کر سر جھکا دیا کہ جب دلاور کو پتہ چلے گا وہ ہنگامہ کھڑا کر دے گا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ دلاور کسی صورت بھی رضا مند نہیں ہوگا۔۔۔
6 ماہ بعد۔۔۔۔
" دانی مجھے کچھ کہنا ہے تم سے۔۔۔پہلے سکون سے بیٹھ کر میری بات سن لو۔۔۔پھر کام پہ چلے جانا۔۔۔"
فاطمہ کے سکول پڑھانے کے لیے جانے کے بعد دلاور کھانے سے فارغ ہو کر دلاور ماسو ماں کو جب سلام کرنے اور بتانے آیا کہ وہ کام پر جا رہا ہے تو ماسو ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔۔۔
" جی ماسو ماں کہیے کیا بات ہے۔۔۔میں سن رہا ہوں۔۔۔"
دلاور نے سامنے پڑی دوسری چئیر ماسو ماں کے پاس گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
" بیٹا میں۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ میں چاہ رہی تھی کہ تم اس گھر کی ہر طرح کی مکمل ذمہ داری سنبھال لو۔۔۔میں چاہ رہی تھی کہ۔۔۔تم۔۔۔۔"
اتنا کہ کر رضوانہ خاتون چپ کر گئیں۔۔۔انکو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنی بات کیسے اس کے سامنے رکھیں۔۔۔
" ماسو ماں پلیز آپ کہیے جو بھی بات ہے۔۔۔آپکا ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔میں نے پہلے کبھی آپکی کسی بات سے انکار کیا ہے کیا۔۔۔آپ کھل کر کہیے جو بھی کہنا ہے۔۔۔"
دلاور نے رضوانہ خاتون کو گو مگو کی کیفیت میں دیکھ کر ان کو اپنی ذات کا مان دیتے ہوئے کہا۔۔۔
" میں۔۔۔میں چاہتی ہوں تم فاطمہ سے شادی کر لو۔۔۔"
آخر کار رضوانہ خاتون اپنے دل کی بات زبان پر لے ہی آئیں۔۔۔اور غور سے اسکے ری ایکشن کو دیکھنے لگیں۔۔۔
دلاور کو لگا کہ اس کو سننے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔
" ک۔۔۔۔کک۔۔۔کیا کہا ہے۔۔۔میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔"
دلاور نے رک رک کر اپنا فقرہ مکمل کیا۔۔۔اور انکے چہرے کو تکنے لگا۔۔۔
" میں نے کہا ہے کہ فاطمہ سے شادی کر لو۔۔۔"
اب کے رضوانہ خاتون نے پورے اعتماد سے کہا۔۔۔
" ی۔۔۔یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے ماسو ماں۔۔۔بہن ہے وہ میری۔۔۔اور وہ بھی پورے 3 سال بڑی۔۔۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔۔"
دلاور کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔یا کاش وہ یہ سننے سے پہلے بہرہ ہو جاتا۔۔۔اس نے تڑپ کر ایک جھٹکے سے کھڑے ہوتے ہوئے بے یقینی سے رضوانہ خاتون کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔"
اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ماسو ماں اس سے کوئی ایسی بات بھی کر سکتی ہیں۔۔۔یا وہ ایسا سوچ بھی سکتی ہیں۔۔۔
" رک جاؤ دلاور۔۔۔میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔"
وہ ناراض ہو کر جو باہر جا رہا تھا۔۔۔تو رضوانہ خاتون کی بات پہ یکدم اسکے پاؤں زمین نے جکڑے تھے۔۔۔یہ دوسرا بم تھا جو اسکے سر پہ گرا تھا۔۔۔آج پہلی بار ماسو ماں نے اسے دلاور کہا تھا۔۔۔وہ چپ چاپ ہونٹ بھینچے انکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔
" پہلی بات۔۔۔کہ فاطمہ تمہاری سگی بہن نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی بہن کہنے سے کوئی بہن بن جاتی ہے۔۔۔تم نہیں جانتے کہ لوگ باہر کس قسم کی باتیں کرنے لگے ہیں۔۔۔
میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔فرض کرو اگر میں اب ہاسپٹل سے زندہ واپس نہ آتی تو تم نے سوچا ہے کہ فاطمہ کا کیا ہوتا۔۔۔وہ تمہارے ساتھ اکیلی ایک چھت تلے کسی صورت نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔حالات جس طرف جا چکے ہیں اب اس کے سر پہ کسی محفوظ سائبان کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔اور تم سے بڑھ کر وہ سائبان کوئی اور نہیں ہو سکتا۔۔۔"
رضوانہ خاتون کے لہجے میں یاسیت در آئی تھی۔۔۔وہ بہت اداس اور مایوسی لیے بولیں۔۔۔
" الّٰلہ نہ کرے کہ آپکو کچھ ہو۔۔۔الّٰلہ آپکا سایہ ہمارے سر پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔
میری جان بھی حاضر ہے ماسو ماں۔۔۔کہیں تو ابھی اپنا سر اتار کے آپکے قدموں میں رکھ دوں۔۔۔مگر جو آپ کہ رہی ہیں وہ ممکن نہیں ہے۔۔۔بھائی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں ماسو ماں۔۔۔انکے لائف پارٹنر نہیں۔۔۔اور ایسا سوچنے سے بھی پہلے الّٰلہ سے دعا ہے کہ مجھے موت آ جائے۔۔۔مجھ پہ یہ ظلم مت کریں ماسو ماں۔۔۔مجھے خود سے بھی گھن آ رہی ہے۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔نہیں کر سکتا میں یہ۔۔۔"
دلاور رضوانہ خاتون کے گھٹنے سے لگ کر زمین پہ بیٹھتے ہوئے التجائیہ انداز میں بولا۔۔۔کچھ دیر کمرے میں گہرا سکوت طاری رہا۔۔۔کوئی جواب نہ پا کر دلاور نے سر اوپر کر کے رضوانہ خاتون کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔جو آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگائے دم سادھے بیٹھی تھیں۔۔۔
" ماسو ماں۔۔۔"
دلاور نے ایک انجانے خدشے کے تحت گھبرا کر انکا زور سے بازو ہلا کر آواز دی۔۔۔
" زندہ ہوں دلاور۔۔۔فکر مت کرو۔۔۔جاؤ تم۔۔۔تمہیں کام سے دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے آنکھیں کھولے بنا اسی حالت میں جواب دیا۔۔۔
" دلاور نہ کر یار۔۔۔بس کر ایسا نہ ہو کہ تجھے چڑھ جائے۔۔۔پھر گھر کس منہ سے جائے گا۔۔۔ماسو ماں کو فاطمہ کو کیا جواب دے گا۔۔۔تو کیوں انکو مزید دکھی کرنا چاہتا ہے۔۔۔چھوڑ اس کو۔۔۔"
بلال نے دلاور کے ہاتھ سے بوتل پکڑتے کہا۔۔۔فاطمہ سے جھگڑے کے بعد وہ سیدھا بلال کے پاس گیا تھا۔۔۔پھر وہ دونوں تہ شدہ ایک گھٹیا سے ہوٹل کے ایک مخصوص کمرے میں آ بیٹھے۔۔۔جہاں مختلف میزوں کے گرد لگائی گئ کرسیوں پہ بیٹھے جواری جوا ، سٹہ کھیل رہے تھے۔۔۔اور کوئی بیڑی کے گہرے کش لے رہا تھا۔۔۔
" میں دکھ دے رہا ہوں سبکو۔۔۔ہاں۔۔۔تو بھی ٹھیک ہی کہ رہا ہے۔۔۔واقعی میں ہی برا ہوں۔۔۔تمہیں ایک بات بتاؤں یار۔۔۔آج دوسری بار میرے دل میں یہ حسرت جاگی ہے کہ کاش میں بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ مر گیا ہوتا۔۔۔فاطمہ آپی کہتی ہیں میں ان کا دانی نہیں ہوں۔۔۔
اور۔۔۔اور اب ماسو کا بھی دانی نہیں رہا۔۔۔میں انکا دلاور ہوں۔۔۔میں نے۔۔۔میں نے ان۔۔۔کا۔۔۔دل توڑ دیا۔۔۔۔
نن۔۔۔ناراض کر دیا میں نے انکو۔۔۔
مم۔۔۔۔میں دا۔۔۔نی۔۔۔نہیں ہوں۔۔۔
تو پھر مم۔۔۔میں۔۔۔میں کون ہوں یار۔۔۔کون ہوں میں۔۔۔؟
ماسو ماں
دلاور نے بلال کے ہاتھ سے بوتل واپس کھینچ کر پھر سے ایک گلاس بنایا۔۔۔اور ایک ہی سانس میں پینے کے بعد زمین پہ پٹخنے کے بعد وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں سسکتے ہوئے بولا۔۔۔بے آواز آنسو اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔۔
وہ مکمل طور پہ نشے میں آنے کی وجہ سے میز پہ لڑھک چکا تھا۔۔۔بلال نے ایک افسوس بھری نظر اس پہ ڈالی۔۔رات کے 11 بج چکے تھے۔۔۔اس حالت میں کسی صورت بھی اس کا گھر جانا مناسب نہیں تھا۔۔۔اس لیے اس نے آج رات دلاور کے ساتھ ہوٹل میں ہی قیام کر لیا۔۔۔
" رک جاؤ دانی۔۔۔"
پوری رات باہر گزار کر وہ دوپر کو گھر لوٹا تھا۔۔۔
اس کا خیال تھا کہ دوپہر کو نماز تلاوت کے بعد ماسو ماں تھوڑی دیر لیٹ جاتی ہیں۔۔۔تو اب بھی سوئی ہوں گی۔۔۔وہ انکا سامنا نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔مگر وہ بھول گیا تھا کہ وہ ماں تھیں۔۔۔اور ماں جب تک اپنے بچے کی شکل نہ دیکھ لے اسکو نیند نہیں آتی۔۔۔جب آہستہ سے دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں جانے لگا تو ماسو ماں کی آواز اس کے کان میں پڑی۔۔۔
" کہاں تھے تم ساری رات۔۔۔جھوٹ مت بولنا دانی۔۔۔صرف سچ۔۔۔'
ماسو ماں نے انتہائی سنجیدگی سے چہرے پہ بنا کوئی تاثر لائے پوچھا۔۔۔
" بلال کے ساتھ تھا ماسو ماں۔۔۔بے شک آپ اس سے پوچھ لیں۔۔۔"
دلاور نے مڑ کر سر جھکائے جواب دیا۔۔۔
"کیا ایسے اپنی ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں۔۔۔پوری رات گھر سے غائب رہ کر۔۔۔
تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے کہ پوری رات کیسے ہم نے کانٹوں پہ گزاری ہے۔۔۔
رضوانہ خاتون نے ایک گہری نگاہ اس پہ ڈالتے کہا۔۔۔
" سوری ماسو ماں۔۔۔دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔"
دلاور نے شرمندگی سے جواب دیا۔۔۔
چند ماہ بعد۔۔۔
" افففففف۔۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔ایک تو لوگ گھنٹی پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانا ہی بھول جاتے ہیں۔۔۔جاہل نہ ہوں تو۔۔۔"
شام کے چار بجے فاطمہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔۔کہ لگاتار بجتی ڈور بل کی آواز پہ وہ بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھولنے کو آئی۔۔۔
" جی۔۔۔آپ کون۔۔۔کس سے ملنا ہے آپکو۔۔۔"
ایک اجنبی چہرے کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر وہ حیرت سے بولی۔۔۔
" جی میرا نام شکیل ہے۔۔۔شکیل رندھاوا۔۔۔آپکی والدہ یا کوئی اور ہے گھر پہ کیا۔۔۔پلیز اسکو بلا دیں۔۔۔"
اجنبی نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔۔۔
" معاف کیجے گا۔۔۔میں نے پہچانا نہیں آپکو۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے پوچھا۔۔۔
" کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔پلیز۔۔۔میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپکا۔۔۔کیونکہ جو بات کرنے آیا ہوں وہ ایسے دروازے پہ کھڑے ہو کر کرنا مناسب نہیں ہے۔۔۔"
اس شخص نے التجائیہ لہجہ اپناتے کہا۔۔۔رضوانہ خاتون نے کچھ پل کو سوچ کر دروازہ کھول کر اپنے پیچھے آنے کو کہا۔۔۔
" بہن جی یہ کچھ کاغذات اور فائلز دلاور بیٹے کی امانت ہیں۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپکو تلاش کرنے میں ناکام رہا۔۔۔اب جیسے ہی پتہ چلا میں اسکی امانت لوٹانے چلا آیا۔۔۔
آپ پلیز یہ رکھ لیں۔۔۔اور ہو سکے تو مجھے معاف کردیں۔۔۔"
اتنا کہ کر وہ شخص خاموشی سے لوٹ گیا۔۔۔اسکے جانے کے بعد کتنی دیر تک فاطمہ اور رضوانہ خاتون بے یقینی سے کاغذات کی طرف دیکھتی رہیں۔۔۔
" امی جان ایسا کیسے ممکن ہے۔۔۔"
فاطمہ نے کہا۔۔۔
" سمجھ تو میں بھی نہیں پا رہی بیٹا۔۔۔دلاور کو آنے دو۔۔۔تبھی کچھ پتہ چلے گا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے کسی گہری سوچ سے واپس آتے کہا۔۔۔
" ی۔۔۔یہ کیا ہوا ہے۔۔۔دانیییی۔۔۔۔"
دلاور نے آج پھر دیر کردی تھی۔۔۔رات کے 12 بجنے والے تھے مگر وہ ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔۔۔اسکے انتظار میں فاطمہ اور رضوانہ خاتون ابھی تک جاگ رہی تھیں۔۔۔رضوانہ خاتون ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے کمرے میں چلی گئ تھیں۔۔۔مگر فاطمہ ابھی تک برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔پھر جیسے ہی اسکی دروازے کی طرف نظر اٹھی تو دانی کو آہستہ سے دبے قدموں اندر آتا دیکھ کر اسکے پیچھے پیچھے اسکے کمرے میں چلی آئی۔۔۔مگر اسکے کپڑوں پہ لگے خون کو دیکھ کر اسکی چیخ نکل گئ۔۔۔جسے با مشکل دلاور نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر روکا۔۔۔
" پلیز آپی۔۔۔شور مت کیجیے گا۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔بس تھوڑا جھگڑا ہو گیا تھا کسی سے۔۔۔تو یہ اسی کا بلڈ ہے۔۔۔ پلیز ریلیکس رہیں۔۔ایسا نہ ہو ماسو ماں جاگ جائیں۔۔۔"
دلاور نے آہستہ سے اپنے ہاتھ ہٹاتے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔
" دانی۔۔ی۔۔۔ی…. یہ۔۔۔"
جس بات سے وہ ڈر رہا تھا وہ ہو گئ تھی۔۔۔ماسو میں دوازے میں اپنی وہیل چئیر پہ ایستادہ تھیں۔۔۔انکے لہجے میں حیرت کی بجائے گہرے دکھ کی آمیزش تھیں۔۔۔جس نے دلاور کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر دیا۔۔۔وہ فاطمہ سے ہاتھ ہٹا کر اس سے دو قدم دور جا کھڑا ہوا۔۔۔
" اپنی شرٹ اتارو۔۔۔"
رضوانہ خاتون اپنی وہیل چئیر اپنے ہاتھوں سے چلا کر کمرے کے اندر لاتی ہوئی بولیں۔۔انکی بات پر فاطمہ نے نا سمجھی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔جبکہ دلاور کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔۔۔
" میں نے کہا کہ شرٹ اتارو۔۔۔"
اب کے رضوانہ خاتون نے بلند آواز سے غصے سے کہا۔۔۔تو ناچار اسکو شرٹ اتارنی پڑی۔۔۔
" اور کتنا جھوٹ بولو گے۔۔۔اور کتنا فریب دو گے ہمیں۔۔۔یہ تم کس رستے پہ چل نکلے ہو۔۔۔
ایک بار غلطی ہو تو وہ غلطی کہلاتی ہے۔۔۔بار بار ہو تو وہ جرم۔۔۔اور جرم پھر گناہ۔۔۔۔اور جب انسان گناہ کے رستے پہ چل نکلے تو اپنے پرائے۔۔۔اچھے برے کی تمیز بھول جاتا ہے۔۔۔تم نے تو میری دی قسم کا بھی مان نہیں رکھا۔۔۔یہ گولی تمہارے جسم پہ نہیں لگی دلاور۔۔۔تم نے ہمیں ماری ہے۔۔۔آج تم نے مار دیا ہمیں۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں اس کے بازو کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔جہاں کندھے سے تھوڑا نیچے اور سینے سے اوپر پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔۔
دلاور نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا تو رضوانہ خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا۔۔۔
" فاطمہ بیٹا کاغذات لے کر آؤ۔۔۔جو شکیل رندھاوا دے گیا تھا۔۔۔"
رضوانہ خاتون نے اب کی بار فاطمہ سے کہا۔۔۔فاطمہ دلاور کی طرف افسوس بھری نگاہ ڈال کر کمرے سے نکل گئ۔۔۔
" میں تم سے ہرگز نہیں پوچھوں گی کہ تم نے ایسا کیا کہا شکیل رندھاوا سے کہ وہ اتنی آسانی سے پلیٹ میں رکھ کر تمہیں تمہاری امانت لوٹا گیا۔۔۔اور نہ ہی میں یہ پوچھوں گی کہ تم نے اسکے ساتھ کیا کیا۔۔۔
جانتے ہو دلاور جس دن مجھ پہ فالج کا اٹیک ہوا۔۔۔اور میں معزور ہو گئ۔۔۔
میں اس دن معزور نہیں ہوئی تھی۔۔۔
نہ میں اس دن بے بس اور بے سہارا ہوئی تھی جس دن تمہارے خالو کی ڈیتھ ہوئی۔۔۔
میں اس دن بھی نہ خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔نہ کمزور پڑی تھی۔۔۔جس دن تم جیل گئے تھے۔۔۔اور تمہارے جانے کے بعد ہمیں ہر طرح سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئ۔۔۔اور سب لوگوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔
اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ تم ہمارے پاس تھے۔۔۔ہمارا مان تھے۔۔۔ہمارا سائبان تھے۔۔۔ہمارا غرور تھے۔۔۔
مگر تم نے اس رستے کو اپنا کر ہم سے ہمارا مان، بھروسہ، یہاں تک کہ عزت سے سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھین لیا۔۔۔
اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہاتھ میں ہتھیار اور دوسرے میں انصاف کا ترازو پکڑ کر لوگوں کی جزا اور سزا کے فیصلے کرنے لگ جائے۔۔۔نہ ہی اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی کا بدلہ معاشرے سے لینے لگ جائیں۔۔۔الّٰلہ کی قائم کردہ حدود کو توڑ کر شیطان کے رستے پہ چل نکلیں۔۔۔کیا کیا تم نے یہ۔۔۔کیا کیا۔۔۔۔"
رضوانہ خاتون بولتے بولتے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر سسکنے لگیں۔۔۔دانی آہستہ آہستہ چلتا ان کے قدموں میں آ بیٹھا۔۔۔
" مجھے صرف یہ بتاؤ کہ یہ سب چھوڑو گے یا نہیں۔۔۔"
دلاور نے اپنا ہاتھ رضوانہ خاتون کے گھٹنے پہ رکھنا چاہا تو وہ اس کا ہاتھ غصے سے جھٹکتے ہوئے بولیں۔۔۔
" ماسو ماں مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔"
دلاور نے سر جھکا کر کہا۔۔۔
" تو ٹھیک ہے۔۔۔تب تک تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ایک غنڈہ موالی میرا بیٹا ہرگز نہیں ہو سکتا۔۔۔"
اتنا کہ کر انھوں نے فاطمہ کو اشارہ کیا کہ وہ انکو انکے کمرے میں لے جائے۔۔۔۔
Comment