Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41

    Episode, 21#

    " ایمبولینس کا انتظام کروا دیا ہے میں نے۔۔۔اور ساری پے منٹ بھی کردی ہے میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے۔۔۔"
    احتشام شاہ نے ایک نظر عائلہ عینا اور ایمن پہ ڈال کر صارم شاہ سے کہا۔۔۔صارم شاہ کا فون سنتے ہی احتشام شاہ رات کو اسی وقت دین محمد کے ساتھ ہاسپٹل پہنچ چکا تھا۔۔۔
    اور آتے ہی سارے انتظامات اور مہرالنساء کو وہی دیکھ رہا تھا۔۔۔جبکہ صارم شاہ بچیوں کے پاس موجود رہا۔۔۔اس وقت عجیب صورت حال تھی۔۔۔ایک طرف تو ماں زندگی اور موت کے دہانے پہ کھڑی تھی۔۔۔تو دوسری طرف بہن کا مردہ وجود انکی آنکھوں کے سامنے پڑا تھا۔۔۔عینا کبھی آئی سی یو کی طرف جا کر ماں کو دیکھتی۔۔۔تو کبھی اپنے پرائیویٹ روم میں آکر اپنی بہنوں کو دیکھتی۔۔۔جس کا انتظام صارم شاہ نے کروا دیا تھا۔۔۔ مہرالنساء کی طبیعت کسی صورت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔اجالا کو اسکی ابدی آرام گاہ تک پہنچانا بھی بہت ضروری تھا۔۔۔مگر مہرالنساء کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔۔۔مہرالنساء کو اکیلا چھوڑنا بھی مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔۔اور نہ اسکے ہوش میں آنے سے پہلے اجالا کی آخری رسومات کرنا ٹھیک لگ رہا تھا۔۔۔
    " بھائی آنٹی کے ہوش میں آنے سے پہلے ہم کیسے اجالا کو لے جا سکتے ہیں۔۔۔اور اگر ہم لے بھی جاتے ہیں تو آنٹی کے پاس بھی کسی کا ہونا ضروری ہے۔۔۔"
    صارم شاہ نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
    " ہمممم۔۔۔ٹھیک کہ رہے ہو تم۔۔۔می امی جان سے مشورہ کرتا ہوں۔۔۔پھر جیسے وہ کہیں گی انکی بیٹیوں سے پوچھ لیں گے۔۔۔"
    احتشام شاہ کی بات پہ صارم شاہ نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گھر فون کرنے چلا گیا۔۔۔
    صارم شاہ روم میں واپس آیا تو عینا اجالا کے سینے پہ سر رکھے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔جبکہ ایمن روتے روتے سو چکی تھی۔۔۔صبح کے 5 بج چکے تھے۔۔۔اجالا کو فوت ہوئے 5 گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔جبکہ عائلہ ابھی تک اسی پوزیشن میں سٹنڈ تھی۔۔۔صارم دو منٹ کھڑا سبکی طرف دیکھتا رہا۔۔۔پھر کچھ سوچ کر باہر نکل گیا۔۔۔
    " عینا۔۔۔۔عینااااا۔۔۔۔"
    احتشام شاہ ہائمہ خاتون سے بات کر کے روم میں آیا تو عینا کو آواز دی۔۔۔جو اجالا کے سینے پہ سر رکھے دنیا و مافیا سے بے خبر رو رہی تھی۔۔۔
    اس لیے جب احتشام کے پکارنے پہ بھی کوئی ریسپونس نہ دیا تو اس نے دوسری بار ذرا زور سے آواز دی۔۔۔
    " جی۔۔۔"
    اب کی بار عینا نے اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھا کر سیدھے ہوتے ہوئے یک لفظی جواب دیا۔۔۔گریہ زاری سے اسکی آنکھیں اور ناک متورم ہو چکی تھیں۔۔۔اسکی حالت پہ احتشام شاہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔ایک لمحہ کو اس کا دل کیا کہ آگے بڑھ کر اسکے تمام آنسو سمیٹ لے۔۔۔مگر دل کی خواہش کو دل میں ہی دبا گیا۔۔۔
    " عینا میں جانتا اس وقت دنیا کا کوئی بھی لفظ آپکے دکھ اور اذیت پہ مرہم نہیں لگا سکتا۔۔۔نہ ہی کوئی آپکی دلی کیفیت کو پورے طور سمجھ سکتا ہے کہ آپ کس اذیت سے گزر رہی ہیں۔۔۔میں بس اتنا کہوں گا کہ میں ہر حال میں آپکے ساتھ ہوں۔۔۔"
    احتشام شاہ سے عینا کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔۔کہنے وہ کچھ اور آیا تھا۔۔۔مگر عینا کو روتا دیکھ کر سب بھول کر اس کے پاس کھڑا ہو کر وہ کیا بول گیا ہے۔۔۔اسکو خود بھی پتہ نہ چلا۔۔۔
    " میں بابا کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔وہ قاتل ہیں اجالا کے۔۔۔آئی ہیٹ ہم۔۔۔بہت برے ہیں وہ۔۔۔بہت برے۔۔۔"
    عینا کو اچانک نہ جانے کیا ہوا تھا۔۔۔وہ بے اختار ہو کر احتشام شاہ کے سینے سے آ لگی تھی۔۔۔اور ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے اپنے دل کا غبار نکالنے لگی۔۔۔اجالا کا زخمی ہونا۔۔۔گھر کی چاردیواری میں شہریار کا اس سے بدتمیزی کرنا۔۔۔پھر اجالا کی موت اور مہرالنساء کو سوئیر ہارٹ اٹیک۔۔۔پے در پے صدموں نے ایک ہنستی کھلکھلاتی۔۔۔ہر مشکل کو چٹکیوں میں اڑانے والی لڑکی کو توڑ کے رکھ دیا تھا۔۔۔اس پہ مزید یہ کہ اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے نہ ماں کی ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں میسر تھی۔۔۔نہ بھائی کا مظبوط کندھا۔۔۔اور نہ کوئی سکھی سہیلی پاس موجود تھی۔۔۔اکثر ایسی حالت میں کسی کے کہے گئے دو میٹھے بول انسان کو اسکے قریب کر دیتے ہیں۔۔۔نہ تو اس کے مرد ہونے کا دھیان رہتا ہے۔۔۔نہ عورت ہونے کا۔۔۔بس یاد رہتا ہے تو اتنا کہ یہ ہمارا اپنا ہے۔۔۔جو ہمارے دکھ کو ہمیں سمجھ رہا ہے۔۔۔۔
    اور اسی حالت سے اس وقت عینا۔بھی گزر رہی تھی۔۔۔
    احتشام شاہ عینا کی اس حرکت پہ ہکا بکا تھا۔۔۔ایک لمحہ کو اس کے دل میں خیال آیا کہ اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلائے۔۔۔اور ایسا کرنے کے لیے اس کے بازو اٹھے بھی۔۔۔مگر پھر یہ سوچ کر کہ وہ اس وقت شدید جزباتی کیفیت سے گزر رہی ہے۔۔۔اور ہوش میں نہیں ہے۔۔۔مگر وہ تو اپنے پورے ہوش و حواس میں ہے۔۔۔اس لیے اس نے اپنے بازو نیچے گرا لیے اور سٹنٹ ہو کر کھڑا رہا۔۔۔
    " سس۔۔۔۔سوری۔۔۔۔پتہ نہیں کیسے۔۔۔۔آیم سو سوری۔۔۔میں۔۔۔"
    کچھ دیر رونے کے بعد کچھ جی ہلکا ہوا تو عینا یکدم ہوش میں آتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہوئے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔۔۔وہ مزید کچھ کہنے لگی تو احتشام شاہ نے اسکو بیچ میں ہی روک دیا۔۔۔
    " پلیز۔۔۔آپ شرمندہ مت ہوں۔۔۔میں سمجھ سکتا ہوں آپکی اس وقت جو حالت ہے۔۔۔
    میں کہنے آیا تھا کہ ہم اجالا کو لے چلتے ہیں۔۔۔دین محمد ہمارا بہت قابل بھروسہ آدمی ہے۔۔۔یا یوں کہیے کہ گھر کے فرد کی طرح ہے۔۔۔وہ ادھر رک جاتا ہے۔۔۔ساری رسومات کے بعد آپ ہاسپٹل واپس آ جائیے گا۔۔۔آپ عائلہ سے مشورہ کر لیں۔۔۔پھر جیسے آپ کہیں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے بہت نرم انداز میں عینا سے کہا۔۔۔
    اسی وقت صارم شاہ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل اور کچھ اسنیکس لیے اندر داخل ہوا۔۔۔
    " عینا یہ پانی اور کچھ اسنیکس ہیں۔۔۔پلیز آپ بھی لے لیں اور عائلہ اور ایمن کو بھی کھلا دیں تھوڑا۔۔۔"
    صارم شاہ نے عینا کی طرف شاپر بڑھاتے کہا۔۔۔
    " نہیں۔۔۔شکریہ آپکا۔۔۔بٹ میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔"
    عینا نے سہولت سے انکار کیا۔۔۔
    " پلیز عینا کچھ لے لیں۔۔۔پلیز۔۔۔ایمن چھوٹی بچی وہ بھی کل شام سے بھوکی ہے۔۔۔پلیز اسکی خاطر ہی تھوڑا سا کھا لیں۔۔۔"
    احتشام شاہ نے کہا۔۔۔تو عینا نے ایک نظر ایمن اور عائلہ پہ ڈال کر شاپر پکڑ لیا۔۔۔
    " تھینکس۔۔۔"
    احتشام شاہ نے کہا۔۔۔
    " عائلہ آپی۔۔۔آپی۔۔۔یہ پانی پی لیں تھوڑا۔۔۔"
    عینا نے عائلہ کے منہ کے پاس پانی کی بوتل کر کے کہا۔۔۔مگر وہ خالی خالی نظروں سے بنا کسی تاثر کے عینا کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
    " عائلہ آپی تھوڑا پانی پی لیں پلیز۔۔۔"
    عینا نے پھر سے بوتل بڑھائی تو عائلہ نے ایک نظر اسکی طرف دیکھ کر سر جھکا لیا۔۔۔عینا کو لگا کہ وہ شدید دکھ اور اذیت کے فیز میں ہے اس لیے کسی سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔لہذا اپنے آنسو ضبط کرتے اس نے ایمن کو اٹھا کر اسکو پہلے تھوڑا سا پانی پلایا پھر چند بسکٹ اور ایک سینڈوچ کھلایا۔۔۔پھر ایمن کے مزید کھانے سے انکار کرنے پہ اس نے شاپر کو گراہ لگا کر بیڈ کے سائیڈ پہ پڑی ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔
    " میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے۔۔۔کیا خیال ہے آپکا۔۔۔"
    احتشام شاہ نے عینا سے پوچھا۔۔۔
    " جی بہتر ہے۔۔۔"
    عینا اتنا کہ کر عائلہ کو چادر اوڑھائی اور ایمن کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔۔۔
    " یہ لوگ میرے ساتھ جائیں گے۔۔۔"
    احتشام شاہ اجالا کو اُٹھانے کو جھکا ہی تھا کہ اسی وقت دلاور روم میں داخل ہوا۔۔۔اور سب کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ کے ساتھ عینا بھی حیران ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ایک ہفتے سے صارم یہاں موجود تھا۔۔۔مگر کسی ایک دن بھی اس شخص کو اس نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔
    " آپ کا بہت شکریہ۔۔۔میں اب آ گیا ہوں تو میں دیکھ لوں گا باقی سب۔۔۔"
    دلاور نے اجالا کے پاس کھڑے ہو کر انتہائی خشک لہجے میں احتشام شاہ سے کہا۔۔۔مگر اسکی نظریں عائلہ پہ ٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔دو ماہ پہلے اسکی ایک جھلک دیکھ کے وہ مبہوت رہ گیا تھا۔۔۔مگر آج وہ کسی دیو مالائی کی کہانیوں کی حسین مورتی کی طرح اسکے سامنے موجود تھی۔۔۔جسے بلا شبہ قدرت کا انمول شاہکار کہا جا سکتا تھا۔۔۔
    کسی کا بھی لحاظ کیے وہ یک ٹک عائلہ کو تکے جا رہا تھا۔۔۔اور اس کا یو تکنا نہ صرف عینا بلکہ احتشام اور صارم شاہ کو سخت ناگوار لگا تھا۔۔۔
    احتشام شاہ کو اسکے لہجے اور یوں بے باکی سے تکنے پہ غصّٰہ تو بہت آیا مگر وہ جتنے حق سے بات کر رہا تھا اس سے ایسا لگ رہا تھا جیسےکوئی بہت قریبی عزیز ہے۔۔۔اس لیے کوئی بات کیے بنا وہ عینا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔کہ یہ کون ہے۔۔۔مگر عینا۔نے کندھے اچکا دئیے۔۔۔
    " آپ پیں کون۔۔۔دماغ تو ٹھیک ہے آپکا۔۔۔'
    عینا نے آگے بڑھ کر دلاور سے تلخی سے کہا۔۔۔اس نے خود پہلی بار اسے دیکھا تھا۔۔۔6 فٹ کے قریب قد۔۔۔کسرتی جسم۔۔۔ماتھے پہ ہلکا سا زخم کا نشان۔۔۔ڈھیلی ڈھالی کھلی سی شلوار قمیض پہنے اپنے حلیے سے کسی طور بھی وہ ایک سلجھا ہوا انسان نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
    عینا کی بات پہ احتشام شاہ اور صارم شاہ حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
    " عینا گڑیا کون ہے یہ۔۔۔آپ جانتی ہیں اسے۔۔۔"
    صارم شاہ نے آگے بڑھ کر عینا سے پوچھا۔۔۔
    میں کون ہوں یہ آپ سب کو پتہ چل جائے گا بہت جلد۔۔۔فلحال تو آپکے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ مجھے انکے والد صاحب نے بھیجا ہے انکو لینے۔۔۔"
    عینا کے بولنے سے پہلے ہی دلاور نے فوراً جواب دیا۔۔۔
    " اس کو دیکھ رہے ہو تم۔۔۔اس میں ہم سب کی جان بستی تھی۔۔۔کل رات مر گئ یہ۔۔۔جس شخص کا تم نام لے رہے ہو ناں۔۔۔کل رات اسکے ساتھ ساتھ وہ بھی ہمارے لیے مر گیا تھا۔۔۔اس لیے جا سکتے ہو تم۔۔۔"
    عینا نے بے آواز روتے ہوئے اجالا کے وجود سے چادر ہٹا کر اسکی طرف اشارہ کر کے غصے اور تلخی کے ملے جلے لہجے میں تقریباً چیخ کر کہا۔۔۔اور اجالا کے چہرے کے ساتھ اپنا چہرہ لگا کر پھر سے سسکنے لگی۔۔۔
    " میرا خیال ہے آپکو جواب مل گیا ہو گا۔۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔"
    صارم شاہ نے کہا
    دلاور کچھ دیر قہرطور نظروں سے صارم شاہ اور احتشام شاہ کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔پھر موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔

    اجالا کی موت کا اعلان مسجد میں کروا دیا گیا۔۔۔رشید احمد سے اجازت لے کر ظہر کی نماز کے بعد جنازے کا ٹائم رکھا گیا تھا۔۔۔فجر اور ہائمہ خاتون کے ساتھ آئمہ سلطان بھی مہرالنساء کے گھر بچیوں کے پاس باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔جہاں نہلا دھلا کر اجالا کو کفن پہنا کر چارپائی پہ چادر اوڑھا کر لٹا دیا گیا تھا۔۔۔عائلہ ابھی تک اسی حالت میں سٹنٹ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
    " مجھے تو یہ بچی ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔کب سے ایک ہی حالت میں بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔"
    تعزیت کے لیے آئی عورتوں میں سے ایک نے عائلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
    " یاں بہن ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔میں بھی کب سے نوٹ کر رہی ہوں۔۔۔بہت ترس آ رہا ہے بیچاری بچیوں پہ۔۔۔الّٰلہ ایسا دن کسی کو نہ دکھائے۔۔۔ایک طرف بہن کی موت کا صدمہ۔۔۔دوسری طرف ماں ہسپتال میں زندگی و موت سے جوج رہی ہے۔۔۔یا الّٰلہ میری توبہ۔۔۔الّٰلہ کسی دشمن کو بھی ایسا دن نہ دکھائے۔۔۔آمین۔۔۔۔"
    دوسری عورت نے کہ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔اور پاس کھڑی باقی عورتوں نے اسکی بات پہ آمین کہا۔۔۔
    عورتوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں تھیں۔۔۔اب تو عینا بھی عائلہ کی حالت پہ پریشان ہونے لگی تھی۔۔۔کھڑے کرتے تو کھڑی ہو جاتی۔۔۔جہاں بٹھاتے وہاں بیٹھ جاتی۔۔۔زبان پہ کفل لگائے بس ایک ہی جگہ دیکھے جاتی۔۔۔
    عینا اور ایمن کے ساتھ وہ بھی اجالا کی چارپائی کے ساتھ لگی زمین پہ بیٹھی ہو ئی تھی۔۔۔مگر اسکی آنکھیں آنسوؤں سے اور کسی بھی تاثر سے خالی تھیں۔۔۔جبکہ عینا اور ایمن کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔
    اس وقت ہائمہ خاتون کا مہربان سایہ بس انکو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھا۔۔۔
    وہ کبھی عینا کے انسو صاف کرکے اسے گلے سے لگا کر صبر اور حوصلے کی تلقین کرتیں۔۔۔تو کبھی ایمن کو سنبھالتی۔۔۔بچیوں کی حالت پہ انکا اپنا دل منہ کو آ رہا تھا۔۔۔
    آپا مجھے عائلہ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔ہمیں اسے کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔۔۔"
    آئمہ سلطان نے ایک گہری نظر عائلہ پہ ڈال کر کہا۔۔۔
    " ہممممم۔۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔"
    آئمہ خاتون نے کہا۔۔۔پھر اپنے پاس بیٹھی رشیداں بوا سے کہا کہ وہ کسی سے کہ کر صارم یا احتشام شاہ میں سے جو بھی نظر آئے اسکو بلا کر لائے۔۔۔اور آتے ہوئے یٰسین کو بھی اپنے ساتھ لیتے آئیں۔۔۔
    احتشام شاہ اور صارم شاہ باہر مردوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ماں کا پیغام ملتے ہی دونوں فکرمندی سے فوراً اٹھے۔۔۔یٰسین بھی ان سے کچھ فاصلے پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو اپنے پاس بلایا۔۔۔۔
    " یٰسین جلدی سے اپنا سامان لے کر آؤ۔۔۔گھر میں کسی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے شائد۔۔۔جلدی جاؤ۔۔۔"
    احتشام شاہ نے یٰسین سے کہا اور پھر دونوں اندر کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
    " عائلہ کو باہر سے اٹھا کر روم میں بٹھا دیا گیا تھا۔۔۔سب اسکو بار بار بلا رہے تھے کہ وہ کسی سے کچھ کہے کوئی بات کرے۔۔۔مگر وہ گم صم سب کی طرف تکے جارہی تھی۔۔۔
    " آپی۔۔۔۔عائلہ آپی کیا ہوا ہے۔۔۔پلیز کچھ تو بولیں۔۔۔آپی اجالا کو لے جانے کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔کیا ہو گیا ہے آپکو۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپییییی۔۔۔۔"
    عینا روتے ہوئے عائلہ کو جھنجوڑتے ہوئے بولی۔۔۔مگر تب بھی وہ یوں کی توں بیٹھی رہی۔۔۔فجر بھی عائلہ کو بار بار پکارنے لگی۔۔۔ایمن یہ سب دیکھ کر خوفزدہ ہو گئ۔۔۔اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا۔۔۔تو فجر عائلہ کو چھوڑ کر ایمن کو گلے لگا کر چپ کروانے لگی۔۔۔
    " کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
    صارم اور احتشام شاہ نے اندر داخل ہوتے پوچھا۔۔۔
    " سب ٹھیک ہے۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔کیا ہوا ہے میری بچی کو۔۔۔"؟
    رشید احمد کو بھی اطلاع مل چکی تھی۔۔۔اس نے کمرے میں آتے ہی فکرمندی سے عائلہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔
    اس کے ساتھ دلاور بھی کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اور پھر یٰسین بھی اپنے سامان سمیت آ گیا۔۔۔اور عائلہ کو چیک کرنے لگا۔۔۔سب اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔
    " بظاہر تو سب ٹھیک ہے۔۔۔مگر مجھے لگ رہا ہے کہ شدید دکھ کی وجہ سے یہ شاک میں ہیں۔۔۔اجالا کی موت کو انھوں نے مینٹلی طور پہ قبول نہیں کیا۔۔۔اس لیے یہ شاک میں چلی گئ ہیں۔۔۔جسے عام زبان میں سکتے کی کیفیت کہ سکتے ہیں آپ۔۔۔میں نے انجیکشن دے دیا ہے۔۔۔
    مگر اس کیفیت سے باہر آنے کے لیے انکا رونا اور بات کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔نہیں تو برین ہیمرج بھی ہو سکتا ہے انکو۔۔۔"
    یٰسن اتنا کہ کر اپنا سامان سمیٹنے لگا۔۔۔
    " میری جان۔۔۔۔میری بچی۔۔۔"
    رشید احمد نے فکرمندی سےکہتے آگے کو ہو کر عائلہ کو گلے لگانا چاہا تو۔۔۔عینا بیچ میں آڑ بن گئ۔۔۔
    " کوئی تعلق نہیں ہے آپکا ہم سے۔۔۔اس لیے چلے جائیں یہاں سے۔۔۔ایسا نہ ہو کہ میں کچھ ایسا کر بیٹھوں جو آپکو بہت برا لگے۔۔۔"
    عینا نے رشید احمد کو غصے سے وارن کرتے کہا۔۔۔اس کا یہ انداز نہ صرف ہائمہ خاتون بلکہ آئمہ سلطان کو بھی ناگوار لگا تھا۔۔۔مگر سمجھنے سے قاصر تھیں کہ وہ اپنے باپ سے ایسا مس بی ہیو کیوں کر رہی ہے۔۔۔
    رشید احمد عینا پہ ایک غصے بھری نظر ڈال کر پیچھے ہٹ گیا۔۔۔دلاور ابھی خود آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ عینا کا اپنے باپ کے ساتھ سلوک دیکھ کر یہ سوچ کر اپنی جگہ جم گیا کہ جس نے باپ کو دھتکار دیا ہے۔۔۔وہ اسکے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔۔۔اور فلحال وہ بھی کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے چپ چاپ ایک سائیڈ پہ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔۔۔
    " عائلہ آپی۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپی عائلہ کو لے کر جا رہے ہیں۔۔۔اجالا مر گئ ہے آپی۔۔۔آپی ی ی۔۔۔۔۔۔آپی پلیز مت کریں ایسا۔۔۔میں اب کچھ اور نہیں سہ سکتی۔۔۔پلیز آپی۔۔۔ہوش کریں۔۔۔مجھے، ایمن کو اور ماما کو آپکی ضرورت ہے آپی۔۔۔پلیززززز۔۔۔۔پلیز ہوش کریں۔۔۔آپیییی۔۔۔"
    عینا کے بار بار پکارنے اور جھنجھوڑنے پہ بھی جب عائلہ نے کوئی ریسپونس نہ دیا تو وہ زمین پہ بیٹھ کر اسکی گود میں سر رکھ کر سسکنے لگی۔۔۔
    " عینا گڑیا۔۔۔ہمت کرو۔۔۔آپ دیکھ رہی ہو ناں کہ اس وقت کیا صورت حال ہے۔۔۔اگر آپ ایسے ہمت کھو دیں گی تو ایسا نہ ہو کہ ہم ایمن یا عائلہ میں سے بھی کسی کو کھو دیں۔۔۔"
    صارم شاہ نے عینا کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی اور دلاسہ دیتے کہا۔۔۔"
    صارم بھائی پلیز آپی کو ٹھیک کردیں۔۔۔اگر انکو کچھ ہوگیا تو میں بھی نہیں رہوں گی۔۔۔"
    عینا نے جزباتی ہو کر صارم شاہ کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔
    " سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔آپ سائیڈ پہ ہو ذرا میں ایک کوشش کرتا ہوں شائد یہ ٹھیک ہو جائیں۔۔۔"
    صارم شاہ کے کہنے پہ عینا تھوڑا کھسک کر بیٹھ گئ۔۔۔
    " عائلہ۔۔۔۔۔عائلہ۔۔۔۔"
    صارم شاہ نے دو بار اونچی آواز میں عائلہ کے کان کے پاس منہ کر کے پکارا۔۔۔کوئی ریسپونس نہ ملنے پر اس نے غور سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔اب جو وہ کرنے والا تھا اس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔۔اس نے ایک نظر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔اور دوسری نظر اپنے ہاتھ پہ ڈالی۔۔۔اس کا ہاتھ ایک پل کو کپکپایا تھا۔۔۔مگر دوسرے لمحے کمرے میں ایک زوردار آواز گونجی تھی۔۔۔
    " دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔ہمت کیسے کی تم نے یہ۔۔۔"
    صارم شاہ نے ایک زناٹے دار تھپڑ عائلہ کے چہرے پہ دے مارا تھا۔۔۔احتشام شاہ کے علاوہ اسکی اس حرکت پہ سب ہکا بکا رہ گئے۔۔۔دلاور جو کب سے کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔۔اب اسکی برداشت جواب دے گئ تھی۔۔۔اس نے صارم کو گریبان سے پکڑ کر ایک زور کا جھٹکا دے کر بیڈ سے نیچے گرایا تھا۔۔۔
    " اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بھائی کو ہاتھ بھی لگانے کی۔۔۔"
    کہتے ساتھ ہی احتشام شاہ نے ایک زوردار گھونسہ دلاور کے منہ پہ مارا تھا جس سے وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ گتھم گتھا ہوتے۔۔۔شاہ سائیں کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔اور دونوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے۔۔۔
    " کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔۔"
    شاہ سائیں نے دونوں سے انتہائی غصے سے پوچھا۔۔۔تو احتشام شاہ نے ساری بات کہ سنائی۔۔۔
    " صارم شاہ بلکل ٹھیک کر رہا ہے۔۔۔اس وقت یہی حل ہے۔۔۔وہ دشمن نہیں ہے اس کا۔۔۔
    شاہ سائیں نے کہا۔۔۔اور صارم شاہ کو آنکھ کے اشارے سے اگین کوشش کرنے کو کہا۔۔۔
    تیسرے تھپڑ پہ عائلہ یکدم ہوش میں آئی تھی۔۔۔دو پل کے لیے وہ خالی خالی نظروں سے سب کی طرف تکتی رہی۔۔۔پھر سب یاد آنے پہ وہ روتے ہوئے اجالا کو پکارتی ہوئی باہر بھاگنے لگی۔۔۔تو عینا نے جلدی سے اسکا دوپٹہ اس پہ ٹھیک سے پھیلایا اور اسکے گلے لگ کر سسکنے لگی۔۔۔دلاور ایک نظر سب پہ ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
    عائلہ کو ہوش میں آتا دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔اسکے چہرے پہ صارم شاہ کی انگلیوں کے نشان چپکے ہوئے تھے۔۔۔جن سے نظر چراتا صارم شاہ بھی باہر نکل گیا۔۔۔


    آدھی رات کو اطلاع ملتے ہی سیٹھ شجاع اپنے بندوں کے ساتھ آندھی و طوفان کی مانند وہاں پہنچ گیا تھا۔۔۔فائر برگیڈ کے آنے تک آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔۔موہنی کی چیخیں آنا اب بند ہو چکی تھیں۔۔۔سیٹھ شجاع نڈھال سا ہو کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
    شدید تگ و دو کے بعد آگ پہ قابو پا لیا گیا تو ایک آخری امید دل میں جاگتے ہی سیٹھ شجاع تیزی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اسکے پیچھے پیچھے نیلم بائی اور باقی لوگ بھی دروازے تک آ کر رک گئے۔۔۔
    موہنی کے سڑی ہوئی لاش زمین پہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔وہ سٹنٹ کھڑا موہنی کے جلے ہوئے جسم کو دیکھے گیا۔۔۔ایک بے آواز آنسو اس کے گالوں پہ لڑھک آیا تھا۔۔۔
    ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پہ نچانے والا آج زندگی میں پہلی بار رویا تھا۔۔۔
    پورے کمرے میں جلے ہوئے گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔کہ وہاں کھڑا ہونا محال لگ رہا تھا۔۔۔
    پولیس اور ایمبولینس بھی پہچ چکے تھے۔۔۔میڈیا اینکرز مصالحہ لگا کر ریٹنگ کے چکر میں اپنے اپنے چینل کے لیے کوریج کر رہے تھے۔۔۔
    سیٹھ شجاع کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد کسی لٹے پٹے مسافر کی چال چلتا وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔
    اسکے جاتے ہی نیلم بائی نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔
    کہ سیٹھ شجاع نے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا۔۔۔جیسے آیا ویسے چلا گیا تھا۔۔۔
    سب کچھ انکے پلان کے مطابق ہوا تھا۔۔۔کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی۔۔۔
    اب بس یہی دعا تھی کہ وہ خیرو عافیت سے اپنی منزل پہ پہنچ جائے۔۔۔


    ماضی۔۔۔!
    فاطمہ کا اس کے لیے بولا گیا لفظ غنڈہ تیر کی طرح دلاور کے دل پہ لگا تھا۔۔۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ فاطمہ نے اس سے اتنے غصے سے بات کی تھی۔۔۔اور یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے بھی دو بدو جواب دیا تھا۔۔۔وہ سچ میں بدل گیا تھا۔۔۔اس کے سوچنے کا انداز بدل گیا تھا۔۔۔پیسہ اور طاقت اسکی منزل بن گیا تھا۔۔۔جن لوگوں کی وجہ سے اس کو جیل میں ذلت اور اذیت بھری زندگی گزارنی پڑی۔۔۔انھوں نے دو قدم چل کر ہی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔بے گناہ اور حق پہ ہونے کے باوجود وہ سب کی نظروں میں غنڈہ تھا۔۔۔ایک بے اعتبار شخص۔۔۔جو نہ جانے کب کس وقت کس کی جان لے لے۔۔۔لوگوں نے انکے گھر آنا جانا ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
    جو کچھ مبین اور اسکے دوستوں نے اسکی غیر موجودگی میں ماسو ماں اورفاطمہ کے ساتھ کیا تھا۔۔۔سب جان کر شائد وہ باہر نکل کر انکی جان لے لیتا۔۔۔مگر ماسو ماں کی قسم نے اسکے ہاتھ پیر باندھ دئیے۔۔۔مگر اسکی شرافت اور برداشت کو اس کی کمزوری سمجھ لیا گیا۔۔۔لیکن جب ان لڑکوں کے ہاتھ فاطمہ کے گریبان تک آ پہنچے تو اس نے ماسو ماں سے کیے سب قسمیں اور سب وعدے توڑ دئیے۔۔۔
    اور ان ہاتھوں کو کاٹ ڈالا جو اس کے گھر کی عزت کی طرف بڑھے تھے۔۔۔
    فاطمہ دانی سے ناراض رہنے لگی تھی۔۔۔کہ اسکی ناراضگی کے ڈر سے اب کوئی ایسا کام نہیں کرے گا۔۔۔جس سے نہ صرف اس کی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی کسی مصیبت میں آ جائے۔۔۔مگر دانی اپنا رستہ تہ کر چکا تھا۔۔۔اور اس رستے پہ اسکے ساتھ کچھ اور دوست بھی آ ملے تھے۔۔۔چھوٹی موٹی چوری چکاری سے قبضہ مافیا کا سر غنہ بن چکا تھا وہ۔۔۔مگر اب وہ بہت محتاط ہو کر چل رہا تھا۔۔۔
    دلاور اور بلال نے مل کر اپنی موٹر ورکشاپ کھول لی۔۔۔جو بظاہر ورکشاپ تھی۔۔۔مگر وہ ان کا مخصوص اڈہ تھا۔۔۔جہاں بیٹھ کر وہ سب لائحہ عمل تہ کرتے۔۔۔
    اب ان کا اگلا ٹارگٹ شکیل رندھاوا تھا جو کہ اسکے باپ کا بزنس پارٹنر تھا۔۔۔اور اسکے ماں باپ کا قاتل بھی۔۔۔اپنے ماں باپ کے قتل کے کچھ عرصہ بعد ہی ماسو ماں اور فاطمہ کی باتیں اس نے سن لیں تھیں۔۔۔جس سے اسکو پتہ چلا کہ اسکے ماں باپ کی موت کوئی حادثہ نہیں تھی۔۔۔تب اس کا خیال تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر پولیس لائن میں جائے گا۔۔۔اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کر اپنا حق واپس لے گا۔۔۔اور شکیل رندھاوا کو اپنے ماں باپ کے قتل کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈالے گا۔۔۔
    اور ان سوچوں کا کبھی اس نے کسی سے اظہار نہیں کیا تھا۔۔۔وہ سیدھی سادھی زندگی گزار رہا تھا۔۔۔اور سیدھے طریقے سے قانونی طور پہ ہی وہ سب کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
    مگر یکدم سے جس طرح سے اسکی زندگی نے پلٹا کھایا تھا۔۔۔اس کی سوچیں بھی پلٹ گئ تھیں۔۔۔
    فاطمہ اور رضوانہ کو لگا کہ اب سب ٹھیک ہے۔۔۔دلاور نے جو کچھ بھی کیا جوش جوانی اور غیرت میں آ کر کیا۔۔۔اس لیے فاطمہ نے اس سے ناراضگی تو ختم کردی تھی۔۔۔مگر اس دن ہمسائی کی کی گئ باتوں کی وجہ سے وہ پہلے کی نسبت بہت ریزرو ہو کر دلاور سے بات کرتی تھی۔۔۔
    پھر ایک دن رضوانہ خاتون کا بی پی اتنا شوٹ کر گیا کہ ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔۔۔دلاور ان کا علاج مہنگے ہاسپٹل سے کروا رہا تھا۔۔۔یہ کہ کر کہ اس ہاسپٹل میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔۔۔اپنی بیماری اور لاچاری کی وجہ سے ایک بات وہ بھی اب سنجیدگی سے سوچنے لگی تھیں۔۔۔کہ ہمسائی کی کہی بات کچھ غلط بھی نہیں۔۔۔اگر انکو کچھ ہو گیا تو فاطمہ ایک چھت تلے دانی کے ساتھ کسی صورت نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔ابھی وہ زندہ تھیں تو باتیں اٹھنے لگی تھیں۔۔۔انکے بعد تو لوگ ان سے جینے کا حق ہی چھین لیتے۔۔۔
    اس لیے سب سے پہلے انھوں نے فاطمہ سے بات کی۔۔۔جسے سن کر وہ دوپل کو تو کچھ بول بھی نہ سکی۔۔۔پھر صاف منع کر دیا۔۔۔مگر رضوانہ خاتون کے ہاتھ جوڑنے پہ چپ کر کے یہ سوچ کر سر جھکا دیا کہ جب دلاور کو پتہ چلے گا وہ ہنگامہ کھڑا کر دے گا۔۔۔وہ جانتی تھی کہ دلاور کسی صورت بھی رضا مند نہیں ہوگا۔۔۔

    6 ماہ بعد۔۔۔۔
    " دانی مجھے کچھ کہنا ہے تم سے۔۔۔پہلے سکون سے بیٹھ کر میری بات سن لو۔۔۔پھر کام پہ چلے جانا۔۔۔"
    فاطمہ کے سکول پڑھانے کے لیے جانے کے بعد دلاور کھانے سے فارغ ہو کر دلاور ماسو ماں کو جب سلام کرنے اور بتانے آیا کہ وہ کام پر جا رہا ہے تو ماسو ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔۔۔
    " جی ماسو ماں کہیے کیا بات ہے۔۔۔میں سن رہا ہوں۔۔۔"
    دلاور نے سامنے پڑی دوسری چئیر ماسو ماں کے پاس گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
    " بیٹا میں۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ میں چاہ رہی تھی کہ تم اس گھر کی ہر طرح کی مکمل ذمہ داری سنبھال لو۔۔۔میں چاہ رہی تھی کہ۔۔۔تم۔۔۔۔"
    اتنا کہ کر رضوانہ خاتون چپ کر گئیں۔۔۔انکو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنی بات کیسے اس کے سامنے رکھیں۔۔۔
    " ماسو ماں پلیز آپ کہیے جو بھی بات ہے۔۔۔آپکا ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔میں نے پہلے کبھی آپکی کسی بات سے انکار کیا ہے کیا۔۔۔آپ کھل کر کہیے جو بھی کہنا ہے۔۔۔"
    دلاور نے رضوانہ خاتون کو گو مگو کی کیفیت میں دیکھ کر ان کو اپنی ذات کا مان دیتے ہوئے کہا۔۔۔
    " میں۔۔۔میں چاہتی ہوں تم فاطمہ سے شادی کر لو۔۔۔"
    آخر کار رضوانہ خاتون اپنے دل کی بات زبان پر لے ہی آئیں۔۔۔اور غور سے اسکے ری ایکشن کو دیکھنے لگیں۔۔۔
    دلاور کو لگا کہ اس کو سننے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔
    " ک۔۔۔۔کک۔۔۔کیا کہا ہے۔۔۔میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔"
    دلاور نے رک رک کر اپنا فقرہ مکمل کیا۔۔۔اور انکے چہرے کو تکنے لگا۔۔۔
    " میں نے کہا ہے کہ فاطمہ سے شادی کر لو۔۔۔"
    اب کے رضوانہ خاتون نے پورے اعتماد سے کہا۔۔۔
    " ی۔۔۔یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے ماسو ماں۔۔۔بہن ہے وہ میری۔۔۔اور وہ بھی پورے 3 سال بڑی۔۔۔آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔۔"
    دلاور کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔۔یا کاش وہ یہ سننے سے پہلے بہرہ ہو جاتا۔۔۔اس نے تڑپ کر ایک جھٹکے سے کھڑے ہوتے ہوئے بے یقینی سے رضوانہ خاتون کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔"
    اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ماسو ماں اس سے کوئی ایسی بات بھی کر سکتی ہیں۔۔۔یا وہ ایسا سوچ بھی سکتی ہیں۔۔۔
    " رک جاؤ دلاور۔۔۔میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔"
    وہ ناراض ہو کر جو باہر جا رہا تھا۔۔۔تو رضوانہ خاتون کی بات پہ یکدم اسکے پاؤں زمین نے جکڑے تھے۔۔۔یہ دوسرا بم تھا جو اسکے سر پہ گرا تھا۔۔۔آج پہلی بار ماسو ماں نے اسے دلاور کہا تھا۔۔۔وہ چپ چاپ ہونٹ بھینچے انکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔
    " پہلی بات۔۔۔کہ فاطمہ تمہاری سگی بہن نہیں ہے۔۔۔اور نہ ہی بہن کہنے سے کوئی بہن بن جاتی ہے۔۔۔تم نہیں جانتے کہ لوگ باہر کس قسم کی باتیں کرنے لگے ہیں۔۔۔
    میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔۔فرض کرو اگر میں اب ہاسپٹل سے زندہ واپس نہ آتی تو تم نے سوچا ہے کہ فاطمہ کا کیا ہوتا۔۔۔وہ تمہارے ساتھ اکیلی ایک چھت تلے کسی صورت نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔حالات جس طرف جا چکے ہیں اب اس کے سر پہ کسی محفوظ سائبان کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔اور تم سے بڑھ کر وہ سائبان کوئی اور نہیں ہو سکتا۔۔۔"
    رضوانہ خاتون کے لہجے میں یاسیت در آئی تھی۔۔۔وہ بہت اداس اور مایوسی لیے بولیں۔۔۔
    " الّٰلہ نہ کرے کہ آپکو کچھ ہو۔۔۔الّٰلہ آپکا سایہ ہمارے سر پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔۔۔
    میری جان بھی حاضر ہے ماسو ماں۔۔۔کہیں تو ابھی اپنا سر اتار کے آپکے قدموں میں رکھ دوں۔۔۔مگر جو آپ کہ رہی ہیں وہ ممکن نہیں ہے۔۔۔بھائی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں ماسو ماں۔۔۔انکے لائف پارٹنر نہیں۔۔۔اور ایسا سوچنے سے بھی پہلے الّٰلہ سے دعا ہے کہ مجھے موت آ جائے۔۔۔مجھ پہ یہ ظلم مت کریں ماسو ماں۔۔۔مجھے خود سے بھی گھن آ رہی ہے۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔نہیں کر سکتا میں یہ۔۔۔"
    دلاور رضوانہ خاتون کے گھٹنے سے لگ کر زمین پہ بیٹھتے ہوئے التجائیہ انداز میں بولا۔۔۔کچھ دیر کمرے میں گہرا سکوت طاری رہا۔۔۔کوئی جواب نہ پا کر دلاور نے سر اوپر کر کے رضوانہ خاتون کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔جو آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگائے دم سادھے بیٹھی تھیں۔۔۔
    " ماسو ماں۔۔۔"
    دلاور نے ایک انجانے خدشے کے تحت گھبرا کر انکا زور سے بازو ہلا کر آواز دی۔۔۔
    " زندہ ہوں دلاور۔۔۔فکر مت کرو۔۔۔جاؤ تم۔۔۔تمہیں کام سے دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے آنکھیں کھولے بنا اسی حالت میں جواب دیا۔۔۔

    " دلاور نہ کر یار۔۔۔بس کر ایسا نہ ہو کہ تجھے چڑھ جائے۔۔۔پھر گھر کس منہ سے جائے گا۔۔۔ماسو ماں کو فاطمہ کو کیا جواب دے گا۔۔۔تو کیوں انکو مزید دکھی کرنا چاہتا ہے۔۔۔چھوڑ اس کو۔۔۔"
    بلال نے دلاور کے ہاتھ سے بوتل پکڑتے کہا۔۔۔فاطمہ سے جھگڑے کے بعد وہ سیدھا بلال کے پاس گیا تھا۔۔۔پھر وہ دونوں تہ شدہ ایک گھٹیا سے ہوٹل کے ایک مخصوص کمرے میں آ بیٹھے۔۔۔جہاں مختلف میزوں کے گرد لگائی گئ کرسیوں پہ بیٹھے جواری جوا ، سٹہ کھیل رہے تھے۔۔۔اور کوئی بیڑی کے گہرے کش لے رہا تھا۔۔۔
    " میں دکھ دے رہا ہوں سبکو۔۔۔ہاں۔۔۔تو بھی ٹھیک ہی کہ رہا ہے۔۔۔واقعی میں ہی برا ہوں۔۔۔تمہیں ایک بات بتاؤں یار۔۔۔آج دوسری بار میرے دل میں یہ حسرت جاگی ہے کہ کاش میں بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ مر گیا ہوتا۔۔۔فاطمہ آپی کہتی ہیں میں ان کا دانی نہیں ہوں۔۔۔
    اور۔۔۔اور اب ماسو کا بھی دانی نہیں رہا۔۔۔میں انکا دلاور ہوں۔۔۔میں نے۔۔۔میں نے ان۔۔۔کا۔۔۔دل توڑ دیا۔۔۔۔
    نن۔۔۔ناراض کر دیا میں نے انکو۔۔۔
    مم۔۔۔۔میں دا۔۔۔نی۔۔۔نہیں ہوں۔۔۔
    تو پھر مم۔۔۔میں۔۔۔میں کون ہوں یار۔۔۔کون ہوں میں۔۔۔؟
    ماسو ماں
    دلاور نے بلال کے ہاتھ سے بوتل واپس کھینچ کر پھر سے ایک گلاس بنایا۔۔۔اور ایک ہی سانس میں پینے کے بعد زمین پہ پٹخنے کے بعد وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں سسکتے ہوئے بولا۔۔۔بے آواز آنسو اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔۔
    وہ مکمل طور پہ نشے میں آنے کی وجہ سے میز پہ لڑھک چکا تھا۔۔۔بلال نے ایک افسوس بھری نظر اس پہ ڈالی۔۔رات کے 11 بج چکے تھے۔۔۔اس حالت میں کسی صورت بھی اس کا گھر جانا مناسب نہیں تھا۔۔۔اس لیے اس نے آج رات دلاور کے ساتھ ہوٹل میں ہی قیام کر لیا۔۔۔

    " رک جاؤ دانی۔۔۔"
    پوری رات باہر گزار کر وہ دوپر کو گھر لوٹا تھا۔۔۔
    اس کا خیال تھا کہ دوپہر کو نماز تلاوت کے بعد ماسو ماں تھوڑی دیر لیٹ جاتی ہیں۔۔۔تو اب بھی سوئی ہوں گی۔۔۔وہ انکا سامنا نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔مگر وہ بھول گیا تھا کہ وہ ماں تھیں۔۔۔اور ماں جب تک اپنے بچے کی شکل نہ دیکھ لے اسکو نیند نہیں آتی۔۔۔جب آہستہ سے دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں جانے لگا تو ماسو ماں کی آواز اس کے کان میں پڑی۔۔۔
    " کہاں تھے تم ساری رات۔۔۔جھوٹ مت بولنا دانی۔۔۔صرف سچ۔۔۔'
    ماسو ماں نے انتہائی سنجیدگی سے چہرے پہ بنا کوئی تاثر لائے پوچھا۔۔۔
    " بلال کے ساتھ تھا ماسو ماں۔۔۔بے شک آپ اس سے پوچھ لیں۔۔۔"
    دلاور نے مڑ کر سر جھکائے جواب دیا۔۔۔
    "کیا ایسے اپنی ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں۔۔۔پوری رات گھر سے غائب رہ کر۔۔۔
    تمہیں ذرا بھی اندازہ ہے کہ پوری رات کیسے ہم نے کانٹوں پہ گزاری ہے۔۔۔
    رضوانہ خاتون نے ایک گہری نگاہ اس پہ ڈالتے کہا۔۔۔
    " سوری ماسو ماں۔۔۔دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔"
    دلاور نے شرمندگی سے جواب دیا۔۔۔

    چند ماہ بعد۔۔۔
    " افففففف۔۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔ایک تو لوگ گھنٹی پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانا ہی بھول جاتے ہیں۔۔۔جاہل نہ ہوں تو۔۔۔"
    شام کے چار بجے فاطمہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔۔کہ لگاتار بجتی ڈور بل کی آواز پہ وہ بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھولنے کو آئی۔۔۔
    " جی۔۔۔آپ کون۔۔۔کس سے ملنا ہے آپکو۔۔۔"
    ایک اجنبی چہرے کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر وہ حیرت سے بولی۔۔۔
    " جی میرا نام شکیل ہے۔۔۔شکیل رندھاوا۔۔۔آپکی والدہ یا کوئی اور ہے گھر پہ کیا۔۔۔پلیز اسکو بلا دیں۔۔۔"
    اجنبی نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے مؤدبانہ لہجے میں کہا۔۔۔
    " معاف کیجے گا۔۔۔میں نے پہچانا نہیں آپکو۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے پوچھا۔۔۔
    " کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔پلیز۔۔۔میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپکا۔۔۔کیونکہ جو بات کرنے آیا ہوں وہ ایسے دروازے پہ کھڑے ہو کر کرنا مناسب نہیں ہے۔۔۔"
    اس شخص نے التجائیہ لہجہ اپناتے کہا۔۔۔رضوانہ خاتون نے کچھ پل کو سوچ کر دروازہ کھول کر اپنے پیچھے آنے کو کہا۔۔۔
    " بہن جی یہ کچھ کاغذات اور فائلز دلاور بیٹے کی امانت ہیں۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپکو تلاش کرنے میں ناکام رہا۔۔۔اب جیسے ہی پتہ چلا میں اسکی امانت لوٹانے چلا آیا۔۔۔
    آپ پلیز یہ رکھ لیں۔۔۔اور ہو سکے تو مجھے معاف کردیں۔۔۔"
    اتنا کہ کر وہ شخص خاموشی سے لوٹ گیا۔۔۔اسکے جانے کے بعد کتنی دیر تک فاطمہ اور رضوانہ خاتون بے یقینی سے کاغذات کی طرف دیکھتی رہیں۔۔۔
    " امی جان ایسا کیسے ممکن ہے۔۔۔"
    فاطمہ نے کہا۔۔۔
    " سمجھ تو میں بھی نہیں پا رہی بیٹا۔۔۔دلاور کو آنے دو۔۔۔تبھی کچھ پتہ چلے گا۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے کسی گہری سوچ سے واپس آتے کہا۔۔۔
    " ی۔۔۔یہ کیا ہوا ہے۔۔۔دانیییی۔۔۔۔"
    دلاور نے آج پھر دیر کردی تھی۔۔۔رات کے 12 بجنے والے تھے مگر وہ ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔۔۔اسکے انتظار میں فاطمہ اور رضوانہ خاتون ابھی تک جاگ رہی تھیں۔۔۔رضوانہ خاتون ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے کمرے میں چلی گئ تھیں۔۔۔مگر فاطمہ ابھی تک برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔پھر جیسے ہی اسکی دروازے کی طرف نظر اٹھی تو دانی کو آہستہ سے دبے قدموں اندر آتا دیکھ کر اسکے پیچھے پیچھے اسکے کمرے میں چلی آئی۔۔۔مگر اسکے کپڑوں پہ لگے خون کو دیکھ کر اسکی چیخ نکل گئ۔۔۔جسے با مشکل دلاور نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر روکا۔۔۔
    " پلیز آپی۔۔۔شور مت کیجیے گا۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔بس تھوڑا جھگڑا ہو گیا تھا کسی سے۔۔۔تو یہ اسی کا بلڈ ہے۔۔۔ پلیز ریلیکس رہیں۔۔ایسا نہ ہو ماسو ماں جاگ جائیں۔۔۔"
    دلاور نے آہستہ سے اپنے ہاتھ ہٹاتے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔
    " دانی۔۔ی۔۔۔ی…. یہ۔۔۔"
    جس بات سے وہ ڈر رہا تھا وہ ہو گئ تھی۔۔۔ماسو میں دوازے میں اپنی وہیل چئیر پہ ایستادہ تھیں۔۔۔انکے لہجے میں حیرت کی بجائے گہرے دکھ کی آمیزش تھیں۔۔۔جس نے دلاور کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر دیا۔۔۔وہ فاطمہ سے ہاتھ ہٹا کر اس سے دو قدم دور جا کھڑا ہوا۔۔۔
    " اپنی شرٹ اتارو۔۔۔"
    رضوانہ خاتون اپنی وہیل چئیر اپنے ہاتھوں سے چلا کر کمرے کے اندر لاتی ہوئی بولیں۔۔انکی بات پر فاطمہ نے نا سمجھی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔جبکہ دلاور کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔۔۔
    " میں نے کہا کہ شرٹ اتارو۔۔۔"
    اب کے رضوانہ خاتون نے بلند آواز سے غصے سے کہا۔۔۔تو ناچار اسکو شرٹ اتارنی پڑی۔۔۔
    " اور کتنا جھوٹ بولو گے۔۔۔اور کتنا فریب دو گے ہمیں۔۔۔یہ تم کس رستے پہ چل نکلے ہو۔۔۔
    ایک بار غلطی ہو تو وہ غلطی کہلاتی ہے۔۔۔بار بار ہو تو وہ جرم۔۔۔اور جرم پھر گناہ۔۔۔۔اور جب انسان گناہ کے رستے پہ چل نکلے تو اپنے پرائے۔۔۔اچھے برے کی تمیز بھول جاتا ہے۔۔۔تم نے تو میری دی قسم کا بھی مان نہیں رکھا۔۔۔یہ گولی تمہارے جسم پہ نہیں لگی دلاور۔۔۔تم نے ہمیں ماری ہے۔۔۔آج تم نے مار دیا ہمیں۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں اس کے بازو کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔جہاں کندھے سے تھوڑا نیچے اور سینے سے اوپر پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔۔
    دلاور نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا تو رضوانہ خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا۔۔۔
    " فاطمہ بیٹا کاغذات لے کر آؤ۔۔۔جو شکیل رندھاوا دے گیا تھا۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے اب کی بار فاطمہ سے کہا۔۔۔فاطمہ دلاور کی طرف افسوس بھری نگاہ ڈال کر کمرے سے نکل گئ۔۔۔
    " میں تم سے ہرگز نہیں پوچھوں گی کہ تم نے ایسا کیا کہا شکیل رندھاوا سے کہ وہ اتنی آسانی سے پلیٹ میں رکھ کر تمہیں تمہاری امانت لوٹا گیا۔۔۔اور نہ ہی میں یہ پوچھوں گی کہ تم نے اسکے ساتھ کیا کیا۔۔۔
    جانتے ہو دلاور جس دن مجھ پہ فالج کا اٹیک ہوا۔۔۔اور میں معزور ہو گئ۔۔۔
    میں اس دن معزور نہیں ہوئی تھی۔۔۔
    نہ میں اس دن بے بس اور بے سہارا ہوئی تھی جس دن تمہارے خالو کی ڈیتھ ہوئی۔۔۔
    میں اس دن بھی نہ خوفزدہ ہوئی تھی۔۔۔نہ کمزور پڑی تھی۔۔۔جس دن تم جیل گئے تھے۔۔۔اور تمہارے جانے کے بعد ہمیں ہر طرح سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئ۔۔۔اور سب لوگوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔
    اسکی وجہ صرف یہ تھی کہ تم ہمارے پاس تھے۔۔۔ہمارا مان تھے۔۔۔ہمارا سائبان تھے۔۔۔ہمارا غرور تھے۔۔۔
    مگر تم نے اس رستے کو اپنا کر ہم سے ہمارا مان، بھروسہ، یہاں تک کہ عزت سے سر اٹھا کر جینے کا حق بھی چھین لیا۔۔۔
    اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہاتھ میں ہتھیار اور دوسرے میں انصاف کا ترازو پکڑ کر لوگوں کی جزا اور سزا کے فیصلے کرنے لگ جائے۔۔۔نہ ہی اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی کا بدلہ معاشرے سے لینے لگ جائیں۔۔۔الّٰلہ کی قائم کردہ حدود کو توڑ کر شیطان کے رستے پہ چل نکلیں۔۔۔کیا کیا تم نے یہ۔۔۔کیا کیا۔۔۔۔"
    رضوانہ خاتون بولتے بولتے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر سسکنے لگیں۔۔۔دانی آہستہ آہستہ چلتا ان کے قدموں میں آ بیٹھا۔۔۔
    " مجھے صرف یہ بتاؤ کہ یہ سب چھوڑو گے یا نہیں۔۔۔"
    دلاور نے اپنا ہاتھ رضوانہ خاتون کے گھٹنے پہ رکھنا چاہا تو وہ اس کا ہاتھ غصے سے جھٹکتے ہوئے بولیں۔۔۔
    " ماسو ماں مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔"
    دلاور نے سر جھکا کر کہا۔۔۔
    " تو ٹھیک ہے۔۔۔تب تک تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ایک غنڈہ موالی میرا بیٹا ہرگز نہیں ہو سکتا۔۔۔"
    اتنا کہ کر انھوں نے فاطمہ کو اشارہ کیا کہ وہ انکو انکے کمرے میں لے جائے۔۔۔۔


    Comment


    • #42

      Episode, 22#

      دلاور اپنے کمرے میں بیڈ پہ نیم دراز لیٹا کب سے گہری سوچوں میں غرق تھا۔۔۔وہ جب سے گاؤں سے واپس لوٹا تھا بہت الجھا الجھا اور پریشان سا تھا۔۔۔ایک طرف اس کی پریشانی کی وجہ صارم شاہ اور احتشام شاہ کا شیدے کے گھر اتنا انوالو ہونا تھا اور دوسری طرف اسکی خالہ کا اتنے عرصے سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔۔۔
      کئ سال بیت جانے کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوا تھا۔۔۔اور نہ انکی تلاش چھوڑی تھی۔۔۔اس کی پریشانی کی وجہ صرف ایک ہی بات بنی ہوئی تھی کہ جتنا وہ جانتا تھا اس کی خالہ کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔۔۔پھر وہ کہاں جا سکتے تھے۔۔۔
      اور اب عائلہ کے معاملے نے اسکو الجھا دیا تھا۔۔۔اگر جو وہ سوچ رہا تھا وہ سچ نکل آیا تو وہ ایک نئ مصیبت کا شکار ہونے والا تھا۔۔۔جبکہ وہ اس سے بنا کسی زور زبردستی کے اسکی رضا سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔۔۔
      مگر جو اس نے وہاں جا کر دیکھا اور محسوس کیا تھا وہ اسکے لیے ہرگز قابل برداشت نہیں تھا۔۔۔
      ہاسپٹل سے لیکر اجالا کی تدفین تک کے سارے مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے کسی مووی سین کی طرح چل رہے تھے۔۔۔
      اور اپنی اسی الجھن کو دور کرنے کے لیے اس نے بھولے کو گاؤں بھیجا ہوا تھا تا کہ وہ ساری معلومات لا سکے۔۔۔آج صبح کو ہی بھولے کا فون آیا تھا کہ وہ شام تک پہنچ جائے گا۔۔۔اسی وجہ سے دلاور بڑی بےچینی سے اپنے کمرے میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔آج نہ تو وہ کہیں گیا تھا۔۔۔اور نہ ہی اپنے کاروبار کے کسی معاملے میں دلچسپی لی تھی اس نے۔۔۔
      " آگیا تو۔۔۔بڑے دن لگا دئیے تو نے۔۔۔خیر یہ بتا کام ہوا کیا۔۔۔"
      بھولے کوکمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر دلاور تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھا۔۔۔اور بڑی چینی سے اس سے پوچھا۔۔۔
      " ہاں سب پتہ چلا لیا ہے میں نے"
      بھولے نے ایک سائیڈ پہ پڑی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
      " یار یہ شیدا تو بڑا گرا ہوا اور خبیث انسان ہے۔۔۔اس کی بیٹی گر کر چوٹ لگنے سے نہیں مری بلکہ اس بےغیرت نے دھکا دیا تھا اس کو۔۔۔"
      بھولے نے غصے سے کہا۔۔۔
      " اوہ اب سمجھا کہ اس کی بیٹی اپنے باپ سے اتنی نفرت کا اظہار کیوں کر رہی تھی۔۔۔"
      دلاور نے ایک گہرا سانس بھرتے کہا۔۔۔
      " کرنی بھی چاہیے۔۔۔وہ ہے ہی اس قابل۔۔۔ابھی تو انکو یہ بھی نہیں پتہ کہ انکے باپ نے انکا سودا کر ڈالا ہے۔۔۔میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ جب پتہ چلے گا تب کیسا طوفان اٹھے گا ان کے گھر۔۔۔"
      بھولے نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
      " یہ ہمارا مسلہ نہیں ہے۔۔۔شیدا جانے اور اس کے گھر والے جانیں۔۔۔تو یہ سب چھوڑ اور باقی کی بات بتا مجھے۔۔۔"
      دلاور نے جنجھلا کر کہا۔۔۔
      " تو سن پھر۔۔۔۔
      شیدے کی بیٹی کو جب چوٹ لگی تھی تو وہ آدھی رات کو مدد مانگنے گئ تھی صارم شاہ کے گھر۔۔۔
      صارم شاہ ہی شیدے کی بیوی اور بیٹی کو ہسپتال لے کر گیا تھا۔۔۔اور پھر اجالا کے ایڈمٹ ہونے سے لے کر اس کے مرنے تک تمام معاملات وہی دیکھتا رہا تھا۔۔۔اور اتنے دن وہی انکے پاس ہسپتال رہا۔۔۔
      شیدے کے گھر سے غائب ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی نے اپنی بچیوں کو اکیلے ہونے کی وجہ سے صارم شاہ کے گھر بھجوا دیا تھا۔۔۔
      صارم شاہ کی بہن اور عائلہ ایک ہی کالج میں پڑھتی ہیں۔۔۔اور کافی دوستی بھی ہے انکے بیچ۔۔۔
      صارم شاہ کا باپ گاؤں کا سر پنچ ہے۔۔۔اور بہت ایماندار اور اصولوں کا پکا بندہ ہے۔۔۔اور سارا گاؤں بہت عزت کرتا ہے اس کی اور اسکے گھرانے کی۔۔۔
      صارم شاہ گاؤں میں ہی رہتا ہے۔۔۔اور اپنے باپ کے ساتھ مل کر گاؤں کے معاملات دیکھتا ہے۔۔۔جبکہ احتشام شاہ کا اپنا بزنس ہے۔۔۔اور زیادہ تر شہر ہی ہوتا ہے۔۔۔
      صارم شاہ کا کافی آنا جانا ہے شیدے کے گھر۔۔۔
      اور۔۔۔۔۔"
      بھولا بات کرتے کرتے اچانک رک کر دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
      " اور کیا۔۔۔"؟
      دلاور نے فوراً پوچھا۔۔۔
      " اور یہ کہ صارم شاہ عائلہ کو پسند کرتا ہے۔۔۔اور اپنے گھر والوں سے بات بھی کر چکا ہے۔۔۔اگر اجالا کی موت کا معاملہ بیچ میں نہ آتا۔۔۔تو اب تک وہ لوگ رشتہ ڈال چکے ہوتے۔۔۔"
      بھولا اپنی بات ختم کر کے چپ چاپ دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔وہ اپنی بات کا ردعمل دلاور کے چہرے پہ دیکھنا چاہ رہا تھا۔۔۔مگر دلاور سپاٹ چہرہ لیے بیٹھا ریا۔۔۔
      " اور یہ ساری معلومات تمہیں کہاں سے ملی ہیں۔۔۔"؟
      کچھ دیر چپ رہنے کا بعد دلاور نے سوال کیا۔۔۔
      " کچھ تو انکے محلے کے کچھ لڑکوں سے اور کچھ صارم شاہ کے گھر کے ایک نوکر سے۔۔۔اسکی بیوی بھی ص ارم شاہ کے گھر کام کرتی ہے۔۔۔اور تم جانتے ہو کہ اندر کی خبر عورتوں سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔کیونکہ وہ بنا کسی روک ٹوک کے پورے گھر میں آتی جاتی ہیں۔۔۔اس لیے میں نے ایسا بندہ ڈونڈھا جس کی بیوی بھی وہاں کام کرتی ہو۔۔۔بس اس بندے کو چائے پانی پلائی اور باتوں باتوں میں سب اگلوا لیا اس سے۔۔۔"
      بھولے نے مسکراتے ہوئے دلاور کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
      " شیدے کا کیا بنا۔۔۔میں نے کہا تھا کہ اسکو ساتھ لیتے آنا۔۔. آیا نہیں وہ۔۔۔"؟
      دلاور نے کہا۔۔۔
      " اس سے کیا بات کرنی ہے تم نے۔۔۔جس قسم کے اس کے گھر کے حالات ہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ بھی جانتا ہوگا۔۔۔اس لیے میں نے اس سے بات نہیں کی۔۔۔"
      بھولے نے جواب دیا۔۔۔
      " میں نے اس سے اسکے گھر کے حالات معلوم نہیں کرنے۔۔۔اسکو اطلاع دینی ہے کہ ایک دو دن تک وہ نکاح کے لیے تیار رہے۔۔۔میں اب مزید لیٹ نہیں کرسکتا۔۔۔اسکو صرف ایک ہفتے کا ٹائم دیا تھا۔۔۔مگر اسکی بیٹی کی موت کی وجہ سے مجھے چپ کرنا پڑا۔۔۔مگر اب جو کچھ پتہ چلا ہے اس کے بعد میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی کسی مسلے میں الجھنا چاہتا ہوں۔۔۔
      بلکہ تو رہنے دے میں خود ہی اس سے بات کرتا ہوں۔۔۔"
      دلاور نے سامنے ٹیبل پہ پڑا موبائل اٹھا کر شیدے کو کال ملاتے ہوئے کہا۔۔۔جبکہ بھولا حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔اس کو ان حالات میں یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ابھی ان لوگوں کا زخم تازہ تھا۔۔۔اور یہ ایک اور جھٹکا ہونا تھا ان کے لیے۔۔۔
      " دلاور تجھے نہیں لگ رہا کہ تو جلدبازی سے کام لے رہا ہے۔۔۔کسی طرح سے اگر یہ نکاح ہو بھی گیا تو عائلہ تجھے دل سے کبھی قبول نہیں کرے گی۔۔۔وقت اور حالات کے حساب سے اتنی جلدبازی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
      دلاور شیدے کو فون کر کے اس سے معاملہ تہ کرکے ہٹا تو بھولے نے اسکو سمجھانے کی ایک آخری کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔
      " ابھی کچھ دیر پہلے تو نے ہی کہا ناں کہ صارم شاہ شادی کرنا چاہتا ہے عائلہ سے۔۔۔پھر کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں سکون سے بیٹھ کر تماشہ دیکھوں۔۔۔عائلہ منگ ہے میری۔۔۔اس کے باپ نے زبان دی ہے مجھے۔۔۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں ابھی جا کر کسی بات کا لحاظ کیے بنا نکاح پڑھوا لیتا۔۔۔مگر اتنی بڑی بات پتہ چلنے کے بعد بھی میں نے اسکو ایک ہفتے کا مزید وقت دے دیا ہے۔۔۔
      حالات کی نزاکت کو تو نہیں سمجھ رہا۔۔۔جیسے جیسے دیر ہوتی جائے گی۔۔۔ان دونوں کا رشتہ اور گہرا ہوتا جائے گا۔۔۔اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔۔۔"
      دلاور کو بھولے کی بات ٹھیک نہیں لگی تھی۔۔۔اس لیے اس کے لہجے میں تلخی اتر آئی۔۔۔اور اسی تلخی کے ساتھ اس نے بھولے کو جواب دی۔۔۔
      " اور میرے دوسرے کام کا کیا بنا۔۔۔کچھ اطلاع ملی کیا۔۔۔"؟
      دلاور نے بھولے افسوس بھرے انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے اگلا سوال کیا۔۔۔
      " نہیں۔۔۔کوئی اطلاع نہیں ہے۔۔۔"
      بھولے نے نفی میں سر ہلاتے جواب دیا۔۔۔
      " سمجھ سے باہر ہے یار۔۔۔ان کو زمین کھا گئ یا آسمان۔۔۔خالہ کا تو میرے سوا کوئی عزیز رشتے دار بھی نہیں تھا۔۔۔پھر کہاں کس کے پاس جا سکتے ہیں وہ لوگ۔۔۔
      کبھی کبھی دل بہت پریشان ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ وہ کہاں ہونگی۔۔۔کس حال میں ہوں گی۔۔۔
      " ایک کام ہو سکتا ہے۔۔۔اگر تو کہے تو۔۔۔مجھے یقین ہے کہ وہ مل جائیں گی۔۔۔"
      بھولے نے پرسعچ انداز میں کہا۔۔۔
      " کیسا کام۔۔۔کیا ہے تیرے زہن میں۔۔۔"؟
      دلاور نے کہا
      " کیوں ناں ہم اخبار میں اشتہار دے دیں۔۔۔اور ایک بھاری رقم کا اعلان بھی کردیں ساتھ میں۔۔۔"
      بھولے نے کہا۔۔۔
      " ہرگز نہیں۔۔۔اخبار میں اشتہار دینا ہوتا تو میں یہ کام سالوں پہلے کر چکا ہوتا۔۔۔
      اخبار میں اشتہار دینے کا مطلب ہے ماسو ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو دینا۔۔۔انکو جیسے ہی پتہ چلا کہ میں ان کو تلاش کر رہا ہوں تو وہ خود کو اور چھپا لیں گی۔۔۔اور جو اب تھوڑی بہت انکے ملنے کی امید ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔۔۔"
      دلاور نے مایوس کن لہجے میں کہا۔۔۔
      " تم ایک ہی بات پہ کیوں اٹکے ہوئے ہو۔۔۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ بھی تمہیں تلاش کر رہی ہوں۔۔۔تم سے ملنے کی دعائیں کرتی ہوں۔۔۔"
      بھولے نے دلاور کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
      " ہممممممم۔۔۔۔دیکھتے ہیں۔۔۔"
      دلاور نے نیم رضامندی سے کہا۔۔۔


      زندگی اپنی روٹین کے مطابق رواں دواں تھی۔۔۔صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجاتی۔۔۔ معمولات زندگی ویسے ہی چل رہے تھے جیسے ہفتہ دس دن پہلے چل رہے تھے۔۔۔
      مگر مہرالنساء اور اسکی بیٹیوں کے لیے وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔۔۔پورے گھر میں ایک گہری چپ کا راج تھا۔۔۔شروع کے چار دن میں تو محلے کی عورتیں روزانہ لگاتار آتی رہیں۔۔۔اور بیٹھ کر گٹھلیوں پہ تیسرا کلمہ کچھ دیر پڑھ کر چلی جاتیں۔۔۔
      مگر پھر انکا آنا کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔۔۔
      ہائمہ خاتون کے ساتھ انکی بہن اور فجر بھی روزانہ آتی تھیں۔۔۔مگر اب وہ بھی نہیں آتی تھیں۔۔۔البتہ فجر تقریباً روزانہ چکر لگا لیتی۔۔۔
      مہرالنساء بھی چار دن تک زندگی اور موت کی جنگ لڑ کر موت کو شکست دے کر گھر واپس آ چکی تھیں۔۔۔مگر ایسا لگتا تھا جیسے ہر چیز سے بے نیاز ہو چکی ہیں۔۔۔کھانے کو دے دیتے تو کھا لیتیں جہاں بٹھاتے وہاں بیٹھ جاتیں۔۔۔کوئی بات کرتا تو گم صم ایک ہی نکتے پہ تکتی رہتیں۔۔۔
      عائلہ، عینا فجر اور ہائمہ خاتون انکے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی کوئی نہ کوئی بات کرتی رہتیں۔۔۔کبھی وہ ہلکا سا جواب دے دیتیں اور کبھی گم صم بیٹھی رہتیں۔۔۔ان کی دن رات کی کوششوں سے اتنا فرق پڑا تھا کہ اب کوئی بات کرتا تو مختصر سا جواب دے دیتیں۔۔۔خود سے وہ نہ کرنے کے برابر ہی بات کیا کرتی تھیں۔۔۔یا تو تلاوت کرتی رہتیں
      یا پھر بیٹھی تسبیح پہ ذکر اذکار کرتی رہتیں۔۔۔اپنے کمرے سے بہت کم باہر نکلا کرتیں۔۔۔
      ڈاکٹر نے انکو خوش رکھنے اور ہر قسم کی معمولی سی ٹینشن سے بھی دور رکھنے کی سختی سے تاکید کی تھی۔۔۔اس لیے انھوں نے اپنے باپ کو منع کردیا تھا کہ فلحال وہ انکے سامنے جانے سے گریز کریں۔۔۔اور رشید احمد نے بنا کوئی بدمزگی پیدا کیے انکی بات مان لی تھی۔۔۔بلکہ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی انٹرسٹ لینے لگا تھا۔۔۔جیسے سودا سلف لانا۔۔۔مہرالنساء کی میڈیسن کا پوچھنا۔۔۔
      عائلہ عینا کو اس کے رویے پہ حیرانگی بھی ہوتی تھی۔۔۔لیکن وہ اس بات سے خوش بھی تھیں کہ گھر کا یہ پرسکون ماحول انکی ماں کی صحت کے لیے بہت ضروری تھا۔۔۔
      ایمن بھی نہ پہلے کی طرح بولتی اور نہ شرارتیں کرتی تھی۔۔۔عائلہ اور عینا نے اسکی حالت دیکھ کر اسکو زبردستی سکول بھیجنا شروع کردیا تھا۔۔۔تاکہ گھر سے باہر اپنی دوستوں کے ساتھ اس کا دل بہل جائے۔۔۔چارو ناچار اس نے سکول جانا شروع کردیا۔۔۔
      چپ چاپ ناشتہ کرتی اور سکول چلی جاتی۔۔۔سکول سے واپسی پہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی رہتی۔۔۔
      اجالا کی یاد دل کو بےچین کرتی تو تینوں بہنیں ایک دوسرے سے چھپ کر کسی کونے کھدرے میں رو کر جی ہلکا کر لیتیں۔۔۔مگر انکی آنکھوں کی لالگی سارے بھید کھول دیتی۔۔۔پھر ایک دوسرے سے نظریں چرا کر اپنے کام کاج میں لگ جاتیں۔۔۔
      صارم شاہ ایک دو بار مہرالنساء کا حال دریافت کرنے آیا تھا۔۔۔مگر عائلہ نے دروازے سے ہی اس کو جواب دے کر لوٹا دیا۔۔۔اس کے بعد وہ دوبارہ نہیں آیا تھا۔۔۔جبکہ فجر اب اکثر ایک دو دن کے بعد چکر لگا لیتی تھی۔۔۔صارم شاہ فجر کو دروازے تک چھوڑ کر واپس چلا جاتا۔۔۔
      " ایمن گڑیا جلدی سے اپنا ناشتہ فنش کرو۔۔۔آج سے میں آپکو خود سکول چھوڑ کر آیا کروں گی۔۔۔اور مجھے آپکی ٹیچر سے بھی ملنا ہے۔۔۔اس لیے جلدی کرو شاباش۔۔۔"
      عائلہ نے جلدی جلدی ٹیبل پہ ناشتہ لگاتے ایمن سے کہا جو ناشتہ کم اور اس کے ساتھ کھیل زیادہ رہی تھی۔۔۔
      " میرا دل نہیں چاہ رہا کھانے کو۔۔۔اور نہ سکول جانے کو۔۔۔آپ اور عینا آپی بھی تو نہیں جاتیں کالج۔۔۔پھر مجھے کیوں بھیج دیتی ہیں۔۔۔سکول جا کر سارا دن مجھے اجالا کی یاد آتی رہتی ہے۔۔۔پلیز آپی مجھے نہیں جانا سکول۔۔۔"
      ایمن اداسی سے کہتے کہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آخر میں رو دی۔۔۔
      " میری گڑیا میری جان۔۔۔چپ۔۔۔بس میری جان۔۔۔چپ کر جاؤ۔۔۔اگر ماما یا عینا نے آپکو روتے دیکھ لیا تو وہ اداس ہو جائیں گی۔۔۔"
      عائلہ نے ایمن کو روتا دیکھ کر فوراً گلے لگا کر چپ کروانے کی کوشش کی تو وہ اور زیادہ رونے لگی۔۔۔اس کا اپنا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر روئے۔۔۔مگر ایمن اور عینا کے خیال سے وہ اپنے آنسوؤں کا گلا گھوٹ دیتی۔۔۔
      " ایمن آپکو پتہ ہے کہ میرا۔۔۔عینا کا اور ماما کا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی آپکی طرح اجالا کو یاد کر کر کے روئیں۔۔۔وہ ہمیں بھی بہت یاد آتی ہے۔۔۔مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔۔۔تاکہ وہ جنت میں جاکے اداس نہ ہوں۔۔۔وہاں خوش رہیں۔۔۔
      جب ہمارے اپنے ہمیں چھوڑ کر الّٰلہ کے پاس چلے جاتے ہیں۔۔۔تو وہ جب ہمیں اداس اور روتا ہوا دیکھتے ہیں۔۔۔تو انکو بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔وہ ہم سے بھی زیادہ اداس ہو جاتے ہیں۔۔۔ہم سے بھی زیادہ روتے ہیں۔۔۔
      کیا آپ چاہتی ہو کہ اجالا ہمیں روتا دیکھ کر اداس رہے۔۔۔اسکو تکلیف ہو۔۔۔"؟
      عائلہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے ایمن کے آنسو صاف کر کے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے ہوچھا۔۔۔
      " نہیں آپی۔۔۔میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔اب جب بھی اجالا یاد آئے گی تو میں ہرگز نہیں روؤں گی۔۔۔
      مگر آپی جب اجالا یاد آئے گی تو میں کیا کروں گی۔۔۔وہ یاد آتی ہے تو رونا آتا ہے۔۔۔"
      ایمن خود پہ ضبط کرتے کرتے پھر سے رونے لگی۔۔۔اسکی بات سن کر عائلہ کے خود پہ باندھے ضبط بھی ٹوٹ گئے۔۔۔ایمن کو چپ کرواتے کرواتے وہ بھی اسکو گلے سے لگا کر رونے لگی۔۔۔
      " اوہو۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو۔۔۔آپی۔۔۔ایمن۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"
      عینا مہرالنساء کو کھانا کھلا کر انکے کمرے سے باہر کچن کی طرف آئی تو ایمن اور عائلہ کو ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے ہوئے دیکھ کر حیرانگی سے جان کر انجان بن کر پوچھنے لگی۔۔۔
      " کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔"
      عائلہ نے ایمن کو پیچھے ہٹا کر اپنے آنسو صاف کر کے جواب دیا۔۔۔
      " میں ایمن کو سکول چھوڑ کر آتی ہوں۔۔۔تھوڑی دیر لگ جائے گی۔۔۔مجھے اس کی ٹیچر سے ملنا ہے۔۔۔"
      عائلہ کرسی کھسکا کر اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔ار اپنی چادر لینے کمرے میں چلی گئ۔۔۔

      " کیا حال چال ہیں۔۔۔کیسی ہو۔۔۔اور یہ عائلہ کدھر ہے نظر نہیں آ رہی۔۔۔"
      فجر نے اپنی چادر اتار کر چئیر کی بیک پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔عائلہ کے گھر سے نکلنے کے چند منٹ بعد وہ بھی آ گئ تھی۔۔۔عائلہ کو گھر نہ پا کر اسے حیرانی ہوئی تھی۔۔۔تو پوچھنے لگی۔۔۔
      " عائلہ آپی ایمن کو سکول چھوڑنے گئ ہیں۔۔۔آپ بیٹھیں۔۔۔ابھی تھوڑی دیر تک آ جائیں گی وہ۔۔۔"
      عینا نے کمرے کا سامان سمیٹتے ہوئے کہا۔۔۔
      " ہممممم۔۔۔چلو ٹھیک ہے۔۔۔میرا خیال ہے کہ آنٹی کے روم میں چلتے ہیں۔۔۔انکے پاس بیٹھتے ہیں۔۔۔تب تک عائلہ بھی آ جائے گی۔۔۔"
      فجر نے کہا۔۔۔
      " اوکے آ جاؤ پھر۔۔۔امی کے پاس بیٹھتے ہیں۔۔۔"
      عینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔
      " امی جان۔۔۔فجر ملنے آئی ہے آپ سے۔۔۔"
      عینا نے کمرے کا دروازہ پہلے تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکا کہ وہ جاگ رہی ہیں یا سو گئ ہیں۔۔۔پھر جب دیکھا کہ وہ جاگ رہی ہیں تو انکے پاس جا کر انکو فجر کے آنے کی اطلاع دی۔۔۔پھر فجر کو اندر آنے کاشارہ کیا۔۔۔فجر کمرے میں داخل ہوئی اور مہرالنساء کو سلام کرتے وقت اس نے بغور مہرالنساء کا جائزہ لیا تو آج وہ اسے پہلے کی نسبت کافی بہتر لگیں۔۔۔چہرے کی پیلاہٹ بھی پہلے سے کافی کم تھی۔۔۔مہرالنساء لیٹی ہوئی تسبیح کر رہی تھیں۔۔۔فجر کے سلام کرنے پر تسبیح ایک سائیڈ پہ رکھ کر اٹھ بیٹھیں اور بہت محبت سے فجر کو گلے لگا کر اسکے ماتھے پہ بوسا دیتے ہوئے اسکے سلام کا جواب دے کر اسکے بیٹھنے کےلیے اپنے پاس ہی تھوڑی جگہ بنائی۔۔۔
      عینا فجر کے لیے چائے بنانے کے لیے کچن میں چلی گئ۔۔۔
      " بہت دن ہو گئے ہیں صارم نہیں آیا ملنے۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔"
      چند باتوں کے ہوں ہاں میں جواب دینے کے بعد مہرالنساء نے پوچھا۔۔۔
      عینا چائے کے ساتھ کچھ لوازمات ٹرے میں رکھ کر کمرے میں داخل ہوئی تو اسکے کانوں میں مہرالنساء کا سوال گونجا۔۔۔عینا اور فجر نے خوشگوار حیرت کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔
      اتنے دنوں میں یہ پہلی بات تھی جو مہرالنساء نے خود سے کی تھی۔۔۔کسی کے ہونے نہ ہونے پہ اپنے جزبات کا اظہار کیا تھا۔۔۔
      " آنٹی بھیا ہی مجھے ڈراپ کر کے گئے ہیں۔۔۔ایک دو بار وہ آئے بھی تھے مگر آپکی طبیعت کی وجہ سے آپ سے مل نہیں سکے۔۔۔امی جان بھی روز پوچھتی ہیں آپکا۔۔۔میں بھیا کو ابھی کال کرتی ہوں وہ بہت خوش ہوں گے یہ جان کر کہ آپ نے انکو یاد کیا ہے۔۔۔"
      فجر نے خوش ہو کر کہا۔۔۔اور عینا کی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔۔۔عینا کے مسکرا کر اثبات میں سر ہلانے پہ فجر نے صام شاہ کو کال ملائی اور فوراً آنے کا کہا۔۔۔
      " رہنے دیتی بیٹا۔۔۔ایسے ہی اسکو پریشان کیا۔۔۔کہیں بزی ہوگا وہ۔۔۔"
      مہرالنسا نے کہا۔۔۔
      " ہرگز نہیں آنٹی۔۔۔کہیں بزی نہیں تھے وہ۔۔۔میں نے جیسے ہی انکو بتایا کہ آپ نے انکو یاد کیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہ رہے تھے میں ابھی آیا۔۔۔اور باالفرض اگر وہ کہیں بزی بھی ہوتے تو انکے لیے آپ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔۔۔انکو تو موقع چاہیے ادھر آنے کا بس۔۔۔"
      فجر نے خوش ہو کر جوش میں کہا تو اسکی لاسٹ بات پہ عینا نے حیران ہو کر اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔اپنی زبان کی پھسلن پر فجر کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔مگر فوراً چہرہ موڑ کر چھپا گئ۔۔۔مگر یہ مسکراہٹ عینا کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔

      " اسلام علیکم آنٹی۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔۔"؟
      کچھ دیر بعد سچ میں صارم انکے گھر میں انکے سامنے موجود تھا۔۔۔
      " وعلیکم اسلام بیٹا۔۔۔کیسے ہو۔۔۔چکر ہی نہیں لگایا تم نے پھر۔۔۔"؟
      مہرالنساء نے بہت محبت سے جواب دیا۔۔۔ اور ساتھ میں شکوہ بھی کیا۔۔۔
      " ٹھیک ہوں آنٹی۔۔۔آپ کیسی ہیں۔۔۔بہت فکر تھی مجھے آپکی۔۔۔خدا کا شکر ہے کہ اب آپ کافی بہتر ہیں۔۔۔"
      صارم شاہ نے پاس ہی پڑی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے انتہائی مؤدبانہ انداز میں کہا۔۔۔
      " بیٹا آتے جاتے رہا کرو۔۔۔تمہیں دیکھ کر دل کو اک حوصلہ سا رہتا ہے۔۔۔تمہارا اور ہائمہ آپا کا احسان میں زندگی بھر نہیں اتار سکوں گی۔۔۔تمہاری امی سے بہت کم ملاقات ہوئی ہے میری۔۔۔مگر جب بھی ملیں، دل میں انکی عزت بڑھتی گئ۔۔۔بہت ہی اچھی خاتون ہیں اور بہت ہی اچھی تربیت کی ہے تم لوگوں کی۔۔۔"
      مہرالنساء نے ممنوعانہ انداز میں صارم شاہ سے کہا۔۔۔
      " جہاں تک امی جان اور بابا کی بات ہے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ میرے لیے وہ دنیا کے بیسٹ پیرنٹس ہیں۔۔۔مگر میں نے یا میرے گھر والوں نے آپ پہ کوئی احسان کیا ہے یہ بلکل غلط بات ہے۔۔۔
      سچ تو یہ ہے کہ کسی کے کام آنے میں ہماری اپنی بھی غرض پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔
      حدیث مبارکہ صہ ہے ناں کہ جس نے کسی مومن کی تکلیف کو دور کیا۔۔۔
      وہ تکلیف کسی بھی قبیل میں ہو سکتی ہے۔۔۔
      وہ بیماری تھی اور علاج میں اسکی مدد کی۔۔۔
      اس نے کہیں جانا تھا سواری کا بندوبست کردیا۔۔
      وہ بھوکا تھا اس کو کھانا کھلا دیا۔۔۔
      اس کی کوئی بھی تکلیف کوئی مصیبت جس میں وہ پھنسا تھا اس میں سے نکلنے میں اس کی مدد کی، الّٰلہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے۔۔۔اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری زندگی آسان گزرے اس میں آسانیاں ہوں تو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو۔۔
      اور اسی حدیث مبارکہ صہ کے مطابق ہماری والدہ نے ہماری تربیت کی۔۔۔اور ہم نے اس بات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ تاکہ آخرت میں جب حساب کتاب کا وقت آئے تو الّٰلہ ہم پہ مہربان ہو۔۔۔
      اس لیے جس چیز میں انسان کی اپنی کوئی غرض ہو وہ احسان تو نہ ہوا ناں۔۔۔"
      صارم شاہ نے ایک حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے انتہائی عاجزی اور انکساری سے کہا۔۔۔
      مہرالنساء اور عینا دم بخود صارم شاہ کی بات سن رہی تھیں۔۔۔جبکہ فجر نے بہت فخر سے اپنے بھائی کی طرف دیکھا۔۔۔
      " صارم بھائی آپ بہت اچھے ہیں کاش کہ آپ ہمارے سگے بھائی ہوتے۔۔۔ہمارا اور آپکا خون کا رشتہ ہوتا۔۔۔بہت خوش قسمت ہے فجر جسکے پاس آپکے جیسا بھائی ہے۔۔۔
      اور فجر پتہ میں اکثر تمہیں دیکھ کر ایک بات سوچا کرتی تھی کہ جس طرح سے تم منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی ہو، کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے تم پر۔۔۔پھر بھی تم اپنی کلاس کی لڑکیوں سے ہٹ کر چادر اوڑھتی ہو۔۔۔عمدہ اخلاق کی مالک ہو۔۔۔یقیناً اپنے گھر والوں سے بھی الگ ہوگی۔۔۔
      مگر تم لوگوں کے گھر رہ کر اندازہ ہوا کہ جنکے ماں باپ شاہ سائیں اور ہائمہ خالہ جیسے عمدہ اخلاق کے مالک ہوں انکے گھر صارم بھائی اور فجر جیسی اولاد ہی پیدا ہوتی ہے۔۔۔
      اور جنکے بھائی صارم بھائی جیسے حیادار اور اخلاق والے ہوں ، انکی بہنیں خود بخود ہی فجر جیسی حیادار ہوتی ہیں۔۔۔
      کاش کہ ہمارا باپ بھی شاہ سائیں جیسا ہوتا تو آج اجالا زندہ تو ہوتی۔۔۔"
      صارم کی بات سے کمرے میں جو خاموشی چھائی تھی۔۔۔اس خاموشی کو عینا کی آواز نے توڑا تھا۔۔۔مگر اسکے لفظوں میں چھپا درد، احساس کمتری، دکھ افسوس، یاسیت کیا کچھ نہیں تھا۔۔۔اجالا کے ذکر پہ وہ آبدیدہ ہو گئ تھی۔۔۔مہرالنساء کے چہرے پہ بھی ایک سایہ سا لہرایا تھا۔۔۔اتنے دنوں سے وہ چپ چاپ اپنا دکھ اندر ہی چھپائے بیٹھی تھیں۔۔۔اجالا کے ذکر اور عینا کے لہجے اور لفظوں میں چھپے درد کو محسوس کر کے انکے دل میں پھر سے ایک درد اٹھا تھا۔۔۔اور بےاختیار انکا ہاتھ اپنے دل پہ گیا تھا۔۔۔
      " امی جان۔۔۔امی جان کیا ہوا ہے۔۔۔آپکی طبیعت ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
      مہرالنساء کے چہرے پہ تکلیف کے آثار دیکھ کر عینا فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر انکے پاس آئی تھی۔۔۔فجر اور صارم بھی جلدی سے آگے بڑھے تھے۔۔۔اور فکرمندی سے مہرالنساء کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
      " عینا گڑیا آنٹی کی پین کلر کونسی ہیں۔۔۔وہ دو انکو فوراً۔۔۔جلدی۔۔۔"
      صارم شاہ مہرالنساء کی طبیعت بگڑتی دیکھ کر تیزی سے بولا۔۔۔عینا نے جلدی سے مہرالنساء کے میڈیکل بوکس میں سے انکی میڈ نکال کر انکو کھلائی۔۔۔
      تھوڑی دیر میں مہرالنساء کے چہرے پہ آیا تناؤ کم ہوا تو انھوں نے دھیرے سے آنکھیں موند لیں۔۔۔مہرالنساء کو آنکھیں موندتا دیکھ کر صارم شاہ نے آہستہ سے عینا اور فجر کو آنٹی کو آرام کرنے اور سبکو باہر نکنے کا اشارہ کیا۔۔۔

      عینا یہ کیا تھا گڑیا۔۔۔نیکسٹ ٹائم دھیان رکھنا کہ ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے آنٹی کو تکلیف ہو۔۔۔یا اجالا کے حوالے سے وہ کچھ یاد کریں۔۔۔
      اور دوسری بات کہ رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے۔۔۔میرا ماننا ہے کہ خون سے بڑھ کر کہیں زیادہ احساس کے رشتے اہم ہوتے ہیں اور وہی اصل رشتے ہوتے ہیں۔۔۔
      باپ اولاد کو، اولاد ماں باپ کو، بھائی بہن کو، بہن بھائی کو ما ڈالتی ہے۔۔۔
      یہ سب بھی تو خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ناں۔۔۔
      اس لیے دوبارہ کبھی مت سوچنا کہ تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے۔۔۔آئی سمجھ۔۔۔"
      صارم شاہ نے باہر عینا کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔اسکی بات سن کر عینا بے اختیار اس کے گلے جا لگی۔۔۔اور فجر بھی مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور دونوں کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا پھیلایا۔۔۔
      " عیناااااااا۔۔۔۔۔"
      عائلہ کی آواز پہ تینوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔۔۔تو عائلہ برآمدے میں کھڑی عینا کی طرف خشمگین نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔


      Comment


      • #43

        Episode, 23#

        " خالہ جانی کچھ دن اور رک جائیں ناں پلیز۔۔۔اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔۔ابھی تو ہم نے صارم بھائی اور شہریار بھائی کا رشتہ بھی لے کر جانا ہے۔۔۔آپ چلی جائیں گی تو وہ سب کیسے ہوگا۔۔۔اور ویسے بھی یہ چیٹنگ ہے۔۔۔آپ نے پرامس کیا تھا کہ آپ پورا ایک ماہ ہمارے پاس رکیں گی۔۔۔
        کل رات کو ہی فجر کے خالو یعنی سلطان صاحب کا فون آیا تھا کہ ان کو ایک بہت بڑا کانٹریکٹ ملا ہے۔۔۔جس کے لیے وہ بہت دنوں سے کوشش کر رہے تھے۔۔۔اس کمپنی کے ساتھ سارے معاملات تہ کرنے کے لیے ایک گرینڈ میٹنگ رکھی گئ تھی۔۔۔اور اس میٹنگ میں آئمہ سلطان کا ہونا بھی بہت ضروری تھا۔۔۔بکاز سلطان صاحب کی کمپنی میں 50 پرسینٹ کی وہ بھی شئیر ہولڈر تھیں۔۔۔اور انکے بنا کوئی معاملہ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔۔۔اس لیے کل
        رات 9 بجے کی انکی سیٹ بک کروا دی گئ تھی۔۔۔اور اب وہ جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔۔۔مگر فجر اپنی خالہ سے کافی اٹیچ ہونے کی وجہ سے اداس ہو رہی تھی۔۔۔اس لیے اپنے طور پہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ آئمہ سلطان رک جائیں۔۔۔
        " میری جان، پلیز فورس مت کرو، میں نہیں رک سکتی۔۔۔تمہارے خالو بہت خفا ہوں گے اگر یہ پراجیکٹ انکے ہاتھ سے نکل گیا تو۔۔۔
        اور تم فکر مت کرو میں بہت جلد تمہارے وہاں آنے کا بندوبست کروں گی۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے سہولت سے فجر کو سمجھاتے ہوئے لاسٹ میں شرارتی نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
        تو وہ انکی بات کا مطلب سمجھ کر جھینپ کر رہ گئ۔۔۔
        " خالہ جانی آپ بھی ناں۔۔۔مجھے نہیں کرنی بات آپ سے۔۔۔جائیں آپ۔۔۔اب نہیں روکوں گی میں۔۔۔"
        فجر خفگی سے کہ کر کمرے سے نکل گئ۔۔۔
        " لو یہ تو ناراض ہو گئ ہے۔۔۔"
        آئمہ سلطان کو افسوس ہوا۔۔۔آج صبح ہی ہائمہ خاتون نے اپنی بیٹی کے جواب سے انکو آگاہ کردیا تھا۔۔۔اور اسی بنا پہ وہ ہلکی سی شرارت کر گئیں تھیں۔۔۔
        " نہیں ایسی بات نہیں ہے آئمہ۔۔۔تم فکر نہ کرو۔۔۔ابھی تھوڑی دیر بعد دیکھنا پھر آ ٹپکے گی۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے مسکرا کر آئمہ کو ریلیکس کرنے کو کہا۔۔۔
        " آپا میں سوچ رہی تھی کہ جانے سے پہلے کیوں ناں ہم مہرالنساء کی طرف سے ہو آئیں۔۔۔فجر بتا رہی تھی کہ اب پہلے سے کافی بہتر طبیعت ہے انکی۔۔۔جانے سے پہلے بہتر ہوتا اگر انکے کانوں سے بات نکال دی جاتی۔۔۔پھر انکا جو بھی جواب ہوگا تسلی سے سوچ کر بتا دیں۔۔۔
        آپا مجھے یہ بچیاں بہت پیاری اور سلجھی ہوئی لگی ہیں۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ عینا میرے شہریار کے لیے بہترین ساتھی ثابت ہوگی۔۔۔
        اور شہریار دل سے شرمندہ ہے۔۔۔وہ بھی جانے سے پہلے عینا سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے پیکنگ کرنے کے بعد اپنے بیگز ایک سائیڈ پہ رکھے۔۔۔اور ہائمہ خاتون کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کیا۔۔۔
        " کہ تو تم ٹھیک رہی ہو آئمہ۔۔۔جانا تو چاہیے ادھر۔۔۔مجھے بھی تین چار دن ہو گئے ادھر چکر لگائے۔۔۔
        مگر کیا جیسا کہ احتشام کہ رہا تھا۔۔۔عینا کی مرضی جانے بنا اسکے رشتے کی بات کرنا ٹھیک ہوگا۔۔۔جو کچھ بھی ہوا اسکے بعد کسی بھی لڑکی کے لیے ایسے لڑکے کا رشتہ قبول کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔جس نے اس کی عزت کی طرف ہاتھ بڑھایا ہو۔۔۔
        آئمہ میرا مقصد تمہارا دل دکھانا نہیں ہے۔۔۔
        یہ بات تم جانتی ہو۔۔۔میں جانتی ہوں کہ شہریار شرمندہ ہے۔۔۔ہم سب نے اسکو کھلے دل سے معاف بھی کر دیا ہے۔۔۔اور بہت ممکن ہے کہ عینا بھی معاف کردے۔۔۔مگر شہریار کے ساتھ ساری عمر گزارنا ایک الگ بات ہے۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے بہت رسانیت سے ٹھہر ٹھہر کر آئمہ سلطان پہ ساری بات واضح کی۔۔۔کہ جس سے انکا دل بھی نہ دکھے اور وہ سمجھ بھی جائیں۔۔۔
        " آپا آپکی ہر بات ٹھیک ہے۔۔۔مگر اس دل کا کیا کروں۔۔۔ماں ہوں ناں۔۔۔اس لیے اپنے بیٹے کے کپڑوں پہ لگی کالک سے نظریں چرا کر اس کی جھولی میں گوہر نایاب ڈالنا چاہتی ہوں۔۔۔جسکی روشنی میرے بیٹے کے دل کو بھی روشن کردے گی۔۔۔
        آپا ڈر لگتا ہے کہ اگر میرے بیٹے کی زندگی میں کوئی ایسی ویسی لڑکی آ گئ تو وہ ہمیشہ کے لیے اندھیر نگری کا مسافر بن جائے گا۔۔۔وہ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔۔۔
        اور اگر اس کی زندگی میں عینا جیسی مظبوط کردار کی، حیادار، اور اچھے اخلاق کی مالک لڑکی آ گئ تو وہ کبھی نہیں بھٹکے گا۔۔۔"
        آئمہ سلطان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کوئی جادو کی چھڑی گھمائیں اور جو بھی ہوا وہ سب کے زہنوں سے ڈیلیٹ ہو جائے۔۔۔اور پھر عینا بھی خوشی خوشی مان جائے۔۔۔انکو عینا اس قدر پسند آئی تھی کہ اس رشتے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار تھیں۔۔۔عینا سے معافی مانگنے کو بھی۔۔۔
        اس لیے اپنی بہن پہ واضح طور پہ اپنے دل کی خواہش ظاہر کر رہی تھیں۔۔۔اور اپنی سوچیں بھی۔۔۔
        " ایسا کرتے ہیں کہ فجر کو پہلے ادھر بھجوا دیتے ہیں۔۔۔
        وہ دوست ہیں۔۔۔اس لیے فجر کے لیے عینا کی رائے معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔۔۔
        اور دوسری بات یہ کہ ادھر جانے کی بجائے ہم آج ان کو شام کے کھانے کی دعوت دے دیتے ہیں۔۔۔دونوں فیملیاں ایک دوسرے سے آرام سے بات چیت کر سکیں گی۔۔۔ہمارا جانا تو ٹھیک ہے مگر جوان جہان بچوں کا ہمارے ساتھ ادھر جانا ٹھیک نہیں۔۔۔جبکہ انکے ادھر آنے سے بچوں کو بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔۔۔
        اگر بچوں کی طرف سے اوکے کا سگنل مل گیا تو بات آگے بڑھائی جائے گی۔۔۔
        ہائمہ خاتون نے کچھ دیر چپ رہنے کے بعد تجویز پیش کی۔۔۔
        " زبردست آپا۔۔۔بلکل یہ ٹھیک ہے۔۔۔ہم ایسا ہی کریں گے۔۔۔"
        آئمہ سلطان کو اپنی آپا کا مشورہ بہت پسند آیا تھا۔۔۔اس لیے انھوں نے کھل کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہامی بھری۔۔۔
        " اور یہ بچے ابھی تک زمینوں سے واپس نہیں آئے۔۔۔حد کرتے ہیں یہ بھی۔۔۔کہا بھی تھا کہ جلدی لوٹ آن۔۔۔ایسے تو بہت لیٹ ہو جائے گا۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے پریشانی سے سر ہلاتے کہا۔۔۔انکو پوری امید تھی کہ شہریار عینا کو منا لے گا۔۔۔اور ساری سچائی جان کر وہ اسے ضرور معاف کردے گی۔۔۔ اسی وجہ سے وہ اندر سے بہت خوش تھیں۔۔
        " آئمہ کیوں پریشان ہو رہی ہو۔۔۔اور بچوں کو کیا پتہ کہ ہمارا کیا پروگرام ہے۔۔۔آج موج مستی کر لینے دو انکو۔۔۔آ جائیں گے تھوڑی دیر تک۔۔۔
        اور دوسری بات کہ اپنے زہن کو ہر بات کے لیے تیار کر کے رکھنا۔۔۔

        " کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔"؟
        فجر عائلہ کے گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔کہ شرجیل کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔جو دروازے میں ایستادہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔۔۔رائل بلیو کپڑوں میں جس کے گلے اور دامن پر سلور دھاگے اور موتیوں کا بہت نفیس سا کام ہوا تھا۔۔۔ کھلے بالوں کو کلپ کیے وہ بہت نکھری نکھری سی لگ رہی تھی۔۔۔کانوں میں سلور کلر کے بڑے بڑے سے بندے اسکے صبیح چہرے پر خوب اٹھ رہے تھے۔۔۔دوپٹے سے بے نیاز نیچے جھکی وہ شوز ریک میں اپنے لیے شوز دیکھ رہی تھی شائد۔۔۔فجر کے ڈھلکے گریبان پہ نظر پڑتے ہی اس نے اپنی آنکھیں میچی تھیں۔۔۔اور فوراً دروازے کی اوٹ میں ہوا تھا۔۔۔
        " جی۔۔۔آ جائیے۔۔۔"
        فجر نے حیران ہو کر پاس ہی بیڈ پہ پڑا دوپٹہ جلدی سے اٹھا کر خود پہ اوڑھتے ہوئے شرجیل کو اجازت دیتے کہا۔۔۔جب سے وہ لوگ آئے تھے یہ پہلی بار تھا کہ شرجیل اس کے کمرے میں آیا تھا۔۔۔اتنے دنوں میں سلام دعا، حال احوال سے زیادہ ان کے بیچ میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔وہ اپنے دھیان میں بے فکری سے اپنے روم میں عائلہ کے گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔ایک پل کو بنا دوپٹے کے اس سے سامنا ہونے پہ وہ شرمندہ سی ہوئی تھی۔۔۔
        " سوری مجھے پہلے دروازہ ناک کرنا چاہیے تھا۔۔۔مگر دروازہ اوپن دیکھ کر اس پہ ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔"
        شرجیل نے فجر کے چہرے کی شرمندگی نوٹ کرتے ہوئے اپنی شرمندگی بھی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔۔
        " جی۔۔۔۔۔آپ آئیے بیٹھیے۔۔۔"
        فجر نے اپنے کمرے میں بیڈ کے سامنے رکھے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
        " جی شکریہ۔۔۔"
        شرجیل نے کمرے کے اندر آ کر پورے کمرے پہ ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔۔۔ہر چیز اپنی جگہ پہ سلیقے سے پڑی ہوئی تھی۔۔۔کمرے کے پردے بلیو کلر کے تھے۔۔۔بیڈ کے سامنے والی دیوار پہ بلیو پینٹ۔۔۔اور سائیڈ والی پہ کریم کلر کا پینٹ کیا گیا تھا۔۔۔بیڈ پہ بچھی چادر بھی بلیو کلر کی تھی۔۔۔اور جو ڈریس اس وقت اس نے زیب تن کیا تھا وہ بھی بلیو کلر ک تھا۔۔۔
        یہ سب دیکھ کر شرجیل کے لبوں پہ ایک مبہم سی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔۔بکاز بلیو کلر اس کا بھی فیورٹ کلر تھا۔..
        " فجر مجھے گھما پھرا کر بات کرنا نہیں آتا۔۔۔مگر زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنی بات کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔۔۔
        یا پھر یہ کہ لیں کہ اس بات سے انجان ہوں کہ کسی بھی لڑکی کے سامنے اپنی فیلنگز کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔۔۔
        میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔۔۔یا جب سے بھائی کی حرکت کا پتہ چلا تب سے آپ میرے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔۔۔
        ہمارے بڑے جو چاہتے ہیں آپ اور میں اس سے با خوبی واقف ہیں۔۔۔
        آج ہماری واپسی ہے۔۔۔نہیں جانتا آپ کا کیا فیصلہ ہے۔۔۔
        میں بس اتنا کہنے آیا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور یاد رکھیے گا۔۔۔کہ میں آپ سے بہت شدید محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔آپکو دیکھنا۔۔۔آپ سے بات کرنا مجھے سکون دیتا ہے۔۔۔
        یہ سب کہنے کی میں اب بھی شائد جرأت نہیں کرتا۔۔۔مگر کہیں پڑھا تھا کہ اپنے جزبوں کا اظہار جو لوگ خود تک ہی رکھتے ہیں ان کو بعد میں قسمت سے شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہوتا۔۔۔چٹھی لیٹر بوکس میں ڈالنی ضرور چاہیے۔۔۔پھر آگے آپکی قسمت کہ جواب ملے نہ ملے۔۔۔"
        شرجیل نے بہت مختصر الفاظ میں ٹھہر ٹھہر کر اپنے دل کی بات کی۔۔۔اور پرامید نظروں سے فجر کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
        فجر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی بات کرے گا۔۔۔اس نے کبھی بھی بلاجواز اتنے دن سے اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔نہ کبھی اس کو کبھی فیل ہی ہوا کہ وہ اس میں انٹرسٹڈ ہے۔۔۔جبکہ وہ تو یہی سمجھتی آئی تھی کہ یہ صرف بڑوں کے فیصلے ہیں۔۔۔اور اب اچانک سے اس کی بات نے اس کو جہاں حیران کر ڈالا تھا۔۔۔وہیں اس پہ یہ بھی ادراک ہوا کہ وہ اس کے فیصلے سے بے خبر ہے۔۔۔وہ رات کو ہی اپنی والدہ کو ہاں میں جواب دے چکی تھی۔۔۔ایک لمحہ کے ہزارہویں حصے میں ایک خیال بجلی کی ماند اسکے زہن میں آیا۔۔۔اور اسی وقت اس نے اس پہ عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا۔۔۔
        " اور اگر میں انکار کر دوں تو۔۔۔۔۔"؟
        فجر نے انتہائی سنجیدگی سے وہیں کھڑے کھرے چپ چاپ اس کی بات سنی۔۔۔پھر اس کی طرف دیکھ کر پر اعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
        " تو۔۔۔تو پھر یہ کہ میں تب تک آپکے در دل پہ دستک دیتا رہوں گا جب تک آپ دروازہ نہ کھول دیں۔۔۔
        شرجیل نے بھی پر اعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
        " ہمممممم۔۔۔۔۔اچھا فرض کریں میں ہاں کر دیتی ہوں۔۔۔تو جس قسم کی سوسائٹی اور ماحول میں آپ رہتے ہیں۔۔۔میں نے بھی اسکو اپنا لیا تو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا ناں آپکو۔۔۔سچ پوچھیں تو مجھے اپنے گھر کا یہ ماحول سخت ناپسند ہے۔۔۔یہ نہ کرو۔۔۔وہ نہ کرو۔۔۔باہر نکلنا ہو تو یہ بڑا سا تنبو نما چادر اوڑھ کر نکلو۔۔۔
        اگر آپ کسی قسم کی ایسی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کرتے ہیں تو سوچا جا سکتا ہے آپکے پرپوزل کے بارے میں۔۔۔"
        فجر نے انتہائی سنجیدگی سے اپنی چادر کی طرف اشارہ کر کے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
        شرجیل اس کی بات اور اس کے نادر خیالات سن کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔۔۔
        " آپ۔۔۔آپ مزاق کر رہی ہیں ناں۔۔۔"؟
        شرجیل نے حیرانگی سے پر لہجے میں فجر سے استفسار کیا۔۔۔اس لگ رہا تھا جیسے اس کو سننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔۔فجر کا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔
        " آپ جب سے آئے ہیں۔۔۔میرے اور آپکے بیچ میں سلام دعا سے زیادہ کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔پھر میرا نہیں خیال کہ ہمارے بیچ میں مزاق کا کوئی رشتہ ہے۔۔۔جو میں ایسے آپ سے مزاق کروں گی۔۔۔"
        فجر نے اپنی بھنویں اچکا کر کہا۔۔۔



        " عائلہ آپی ہماری ٹیچر آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں۔۔۔وہ کہ رہی تھیں کہ اپنی ماما یا گھر میں سے کسی اور بڑے کو کہنا کہ ٹیچر آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔۔۔کوئی ضروری بات کرنی ہے۔۔۔میں نے کہ دیا تھا کہ ماما نہیں آ سکتیں۔۔۔عائلہ آپی کو لے آؤں گی۔۔۔"
        ایمن نے اپنے سکول بیگ میں اپنی تمام چیزوں کی موجودگی چیک کرتے کہا۔۔۔
        " ٹھیک ہے میری جان میں چھٹی ٹائم سے ذرا پہلے آ کر ان سے مل لوں گی۔۔۔آپ جلدی کرو۔۔۔سکول سے دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
        عائلہ نے حجاب کرنے کے بعد اپنے کندھوں پہ اپنی چادر پھیلاتے ہوئے کہا۔۔۔
        " امی جان میں ایمن کو سکول چھوڑنے جا رہی ہوں۔۔۔اور واپسی آپا بشریٰ کی طرف سے ہوتی آؤں گی۔۔۔انکی بیٹیاں بھی اسی سکول جاتی ہیں تو ان سے بات کروں گی کہ صبح جاتے وقت اور آتے وقت بھی ایمن کو ساتھ لے لیا کریں۔۔۔ان کا ساتھ بن جائے گا تو پریشانی نہیں ہوگی کوئی۔۔۔انکے ساتھ ہی چلی بھی جایا کرے گی اور آ بھی جایا کرے گی۔۔۔"
        عائلہ نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ایک نظر خود پہ ڈال کر پھر مڑ کر اپنی ماں سے کہا۔۔۔جو برآمدے میں بچھی چارپائی پہ بیٹھی دھیمی آواز میں قرآن پاک پڑھ رہی تھیں۔۔۔
        " ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔خیر سے جاؤ۔۔۔"
        مہرالنساء نے ذرا کی ذرا سر اٹھا کر کہا۔۔۔اور پھر سے تلاوت میں مشغول ہو گئیں۔۔۔

        " تم کالج کیوں نہیں جارہی ہو۔۔۔ایک ماہ ہونے کو ہے۔۔۔پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے تمہاری۔۔۔کل سے جانا سٹارٹ کرو تم بھی۔۔۔"
        ایمن کو سکول چھوڑ کر وہ واپس آئی تو عینا مہرالنساء کو ناشتہ کروا کر اور انکو میڈیسن کھلا کر کچن سمیٹ رہی تھی۔۔۔عائلہ نے اپنی چادر اتار کر تہ لگاتے ہوئے عینا سے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " تو آپ کیوں نہیں جا رہی ہیں۔۔۔اور ویسے بھی میرا فلحال کوئی موڈ نہیں ہے ابھی کالج جوائن کرنے کا۔۔۔"
        عینا نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔
        " مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا۔۔۔پڑھائی موڈ دیکھ کر نہیں کی جاتی۔۔۔"
        " ٹھیک کہا آپ نے پڑھائی موڈ دیکھ کر نہیں کی جاتی۔۔۔مگر گھر کے حالات دیکھ کر ضرور کی جاتی ہے۔۔۔اور صاف صاف سننا چاہیں تو میں اب کالج نہیں جا رہی۔۔۔نہ کل۔۔۔نہ پرسوں۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔"
        عینا نے عجیب ہٹیلے انداز میں کہا۔۔۔اور کچن سے باہر نکل کر اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔عائلہ اسکے انداز اور اس کی بات پہ حیران ہوتی اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی۔۔۔
        " عینا مجھے غصہ مت دلاؤ۔۔۔میں پہلے ہی کل کی تمہاری حرکت پتہ نہیں کیسے برداشت کر رہی ہوں۔۔۔اس لیے سیدھی طرح سے کل تم کالج جا رہی ہو۔۔۔سنا تم نے۔۔۔نو مور آرگیومنٹ۔۔۔"
        عائلہ نے بھی اسی کے انداز میں دو ٹوک کہا۔۔۔
        " اوہ اچھا یاد دلایا آپ نے۔۔۔میں بھی آپ سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ کل آپ نے اتنا عجیب بیہیو کیوں کیا صارم بھائی کے ساتھ۔۔۔کتنی سبکی فیل ہوئی مجھے۔۔۔اور پھر یہی نہیں مجھ سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کر رہی ہیں۔۔۔
        وائے۔۔۔وٹس ہیپنڈ۔۔۔اور کالج تو میں اب ہرگز نہیں جاؤں گی۔۔۔"
        عینا کو عائلہ کی بات پہ اچانک اس کا کل والا رویہ یاد آیا۔۔۔فجر سے تو وہ ٹھیک سے بات کرتی رہی۔۔۔مگر صارم کے ساتھ سلام لینا تو دور کی بات ایسے ظاہر کیا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں ہے۔۔۔اور عائلہ کے اسی رویے کی وجہ سے وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔۔۔اور باہر گاڑی میں بیٹھ کر فجر کا انتظار کرتا رہا۔۔۔
        " کیا تمہیں واقع نہیں معلوم کہ تم نے کیا کیا ہے۔۔۔"؟
        عائلہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
        " اگر معلوم ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتی۔۔۔"
        عینا نے بھی حیرانگی سے کہا۔۔۔
        " کل تم جس طرح سے صارم کے ساتھ چپکی کھڑی تھی کیا تمہیں واقع نہیں لگتا کہ تم نے غلط کیا ہے۔۔۔"؟
        عائلہ نے تھوڑا تلخی سے پوچھا۔۔۔
        " آپی۔۔۔۔۔۔صارم بھائی بہت اچھے ہیں۔۔۔میں نے دل سے ان کو اپنا بھائی مانا ہے۔۔۔میں نے پہلی بار مرد کا ایک الگ روپ دیکھا۔۔۔ایسا روپ کی بے اختیار دل ان کے احترام میں جھک گیا۔۔۔پہلی بار دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ہمارا بھی کوئی بھائی ہوتا۔۔۔اور وہ بلکل صارم بھائی جیسا ہوتا۔۔۔اور صرف میں نہیں بلکہ وہ بھی ہم سے
        بلکل فجر کی طرح سے ہم سے پیار کرتے ہیں۔۔۔اور اسکی جیسی ہی ہماری کئیر کرتے ہیں۔۔۔اور صرف لفظوں سے ہی نہیں اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ انکے دل میں ہمارے لیے کتنی محبت اور عزت ہے۔۔۔اور۔۔۔اور آپ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی ہیں۔۔۔
        اور وہ خود نہیں آئے تھے امی جان نے یاد کیا تھا انکو۔۔۔اور آپکو اندازہ بھی نہیں کہ کل امی نے اتنے دنوں بعد پہلی بار صرف صارم بھائی سے اتنی باتیں کیں۔۔۔اگر آپ اس وقت امی کے چہرے کی خوشی دیکھتیں تو میں یقین سے کہتی ہوں کہ آپ خود صارم بھائی سے روز آنے کا کہتیں۔۔۔اور ان کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز نہیں کرتیں۔۔۔"
        عائلہ کی بات سن کر اس کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔عائلہ کے الفاظ میں شک کی آمیزش اس کا دل چیر گئے تھے۔۔۔بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔
        " عینا۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔ایسے رو مت۔۔۔میں کبھی مر کر بھی تم پہ شک نہیں کر سکتی۔۔۔اگر ساری دنیا بھی تم پہ انگلی اٹھائے میں تب بھی ایک پل کو بھی تم پہ شک نہ کروں۔۔۔کیوں کہ میں جانتی ہوں میری بہنیں مر تو سکتی ہیں مگر کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتیں جس سے انکی عزت پہ حرف آئے۔۔۔اور نہ ہی ہماری ماما نے ہماری ایسی تربیت کی ہے۔۔۔
        میری بات سے تم ہرٹ ہوئی۔۔۔سوری۔۔۔لیکن میں اب بھی یہی کہوں گی کہ تم نے غلط کیا۔۔۔صارم شاہ کتنا ہی اچھا ہو۔۔۔مگر روز محشر کی طرح یہ اٹل حقیقت ہے عینا کہ وہ ہمارا بھائی نہیں ہے۔۔۔ہمارے لیے نا محرم ہے۔۔۔بھائی کہنے سے کوئی شخص بھائی نہیں بن جاتا۔۔۔اور ہر نامحرم سے فاصلہ رکھنے کا حکم ہمارے الّٰلہ نے ہی ہمیں دیا ہے۔۔۔اور الّٰلہ کے احکامات میں انسانوں کے لیے بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔کس شخص سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے۔۔۔تمہیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
        اور نہ ہی تمہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بھائی سے بھیڑے کا فاصلہ تہ ہوتے زیادہ وقت نہیں لگتا۔۔۔
        چلو ایک پل کو مان لیتے ہیں کہ اس کے دل میں ہمارے لیے ویسی ہی فیلنگز ہیں جیسی کہ اس کے دل میں فجر کے لیے ہیں۔۔۔وہ ہمیں ان ہی نظروں سے دیکھتا ہے جن سے فجر کو دیکھتا ہے۔۔۔
        مگر عینا اس بات کا تمہیں پتہ ہے۔۔۔صارم کو پتہ ہے۔۔۔
        لوگوں کا کیا۔۔۔"؟
        جو ظاہر میں نظر آتا ہے لوگ اسی کو دیکھتے ہیں۔۔۔کس کے دل میں کیا ہے یہ کون دیکھتا ہے۔۔۔
        اگر تمہیں ایسے کوئی بھی شخص صارم کے ساتھ چمٹے دیکھتا تو تمہارے کردار پہ انگلی اٹھ جاتی۔۔۔
        جس تعلق۔۔۔جس رشتے کی لوگوں کو وضاحتیں دینی پڑیں۔۔۔وہ تعلق وہ رشتے مشکوک ہوتے ہیں۔۔۔اور مشکوک رشتوں کی نہ تو ہمارے دین میں کوئی گنجائش نکلتی ہے اور نہ ہی کسی بھی باحیا و با کردار لڑکی کی زندگی میں۔۔۔اور نہ ہی معاشرہ ایسے رشتوں کو قبول کرتا ہے۔۔۔
        اور میں یہ کبھی نہیں چاہوں گی کہ میری بہنوں کو کبھی بھی کسی کے بھی سامنے۔۔۔کسی بھی وجہ سے اپنے کردار کی صفائی دینی پڑے۔۔۔اور لوگوں کی پہچان انکے کردار سے ہوتی ہے۔۔۔انکے ظاہری حلیے اور باتوں سے نہیں۔۔۔
        مجھے امید ہے کہ تم آئندہ خیال رکھو گی اس بات کا۔۔۔
        عائلہ نے بہت دھیمے دھیمے بہت نرمی اور محبت سے عینا کو سمجھاتے ہوئے اس کی پلکوں سے ٹوٹ کر اس کے گالوں پہ بہنے والے آنسوؤں کو چنتے ہوئے کہا۔۔۔
        " آپکی بات ٹھیک ہے۔۔۔مجھے اپنے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھنا چاہیے تھا۔۔۔مگر میں ان کو بھائی کہنا اور ماننا نہیں چھوڑوں گی۔۔۔"
        عینا نے عائلہ کی ہر بات سے ایگری کرنے کے باوجود اپنا مدعا نہیں چھوڑا۔۔۔وہ اب بھی اس بات پہ قائم تھی کہ صارم جیسا بھائی کوئی نہیں۔۔۔مگر وہ یہ بات عائلہ کو نہیں سمجھا سکتی تھی۔۔۔اس لیے آئندہ محتاط رہنے والی بات کو ماننے کے باوجود اپنی بات پہ بھی اڑی رہی۔۔۔
        " ٹھیک ہے میری طرف سے جو مرضی کہو اسکو۔۔۔جو مرضی بناؤ۔۔۔تم جیتی میں ہاری۔۔۔اب یہ بھی بتا دو کہ کالج کب سے جانا ہے۔۔۔"؟
        عائلہ جانتی تھی کہ ایک دفعہ جو سوچ عینا کے دماغ میں جڑ پکڑ لے پھر وہ اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتی۔۔۔اس لیے صارم کے موضوع پہ اس سے مزید بات کرنا فضول لگا تو اس موضوع کو چھوڑ دیا۔۔۔مگر وہ اس بات پہ دل میں حیران ضرور تھی کہ جو ہر دم مردوں سے بیزار رہنے والی تھی اس نے کچھ دنوں میں صارم کے اندر ایسا کیا دیکھ لیا تھا جس پہ وہ اس پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار لے آئی تھی۔۔۔لیکن اس سب کے ساتھ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ عینا کبھی کسی پہ اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرتی۔۔۔کچھ تو ایسا ہوا ہے۔۔۔یا اس نے دیکھا ہے۔۔۔جس بنا پہ وہ اس سے دل سے اتنا مقدس رشتہ جوڑ رہی ہے۔۔۔
        " کیا واقع سچ میں۔۔۔میں جو مرضی بنا لوں انکو۔۔۔"؟
        عائلہ کی بات پہ عینا نے شرارتی انداز میں اس سے سوال کیا۔۔۔تو عائلہ ناسمجھی سے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔
        " بھائی بنا تو لیا ہے اب اور کیا بنانا ہے اسکو۔۔۔"؟
        عائلہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
        " میرا دل کرتا ہے۔۔۔۔کہ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔صارم بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔"
        عینا رک رک کر الفاظ ادا کرتے چلتے چلتے دروازے کے پاس آ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
        " اب پھوٹ بھی دو منہ سے جو پھوٹنا ہے۔۔۔"
        عائلہ جھنجلا کر تجسس کے مارے بلند آواز سے بولی۔۔۔
        " میرا دل کرتا ہے کہ میں صارم بھا ئی کو اپنا جیجو بنا لوں۔۔۔"
        عینا نے عائلہ کی طرف دیکھتے بھرپور مسکراہٹ لیے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔
        " لو میں نے کہا پتہ نہیں کیا کہنے لگی ہو۔۔۔"
        عائلہ اس کی بات کا مطلب سمجھے بنا فوراً بولی۔۔۔
        " ہییییییییین۔۔۔۔۔۔کیا سچ میں۔۔۔۔۔کیا واقع آپکو کوئی اعتراض نہیں اگر صارم بھائی ہمارے جیجو بن جائیں تو۔۔۔یعنی آپ ان سے شادی کر لیں گی۔۔۔"؟
        عینا کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا عائلہ کی بات سن کر۔۔۔اس لیے بے یقینی سے اپنی بات پھر واضح کی۔۔۔مگر دروازہ کے بیچوں بیچ کھڑی ہو گئ۔۔۔تا کہ اس کو بھاگنے میں آسانی ہو۔۔۔۔
        "عینا کی بچی۔۔۔۔۔۔تم رکو ذرا۔۔۔۔۔ابھی تمہیں بتاتی ہوں کہ میں کس بات پہ راضی ہوں۔۔۔"
        عینا کی بات کا مطلب سمجھ میں آتے ہی اور اپنے بنا سمجھے جواب دینے پہ عائلہ نے غصے سے پاؤں سے جوتا اتار کر عینا می طرف زور سے اس کو مارنے کو پھینکا۔۔۔مگر اس کے لیے عینا پہلے سے ہی تیار کھڑی تھی۔۔۔اس لیے چھپاک سے فوراً کھلکھلا کر ہنستی ہوئی دروازے سے باہر نکل گئ۔۔۔
        آج بہت دنوں بعد گھر میں عینا کی ہنسی گونجی تھی۔۔۔عائلہ کو جہاں اس کی بات پہ غصہ آیا وہیں اس کی ہنسی پہ وہ بھی مسکرا دی۔۔۔

        عائلہ کے باپ کے ساتھ شادی کے سارے معاملات تہ کرنے کے بعد دلاور نے لاہور کے پوش ایریا میں 4 کنال کا ایک خوبصورت لگزری بنگلہ خریدا تھا۔۔۔عائلہ کے ساتھ شادی کے بعد اس کا یہیں پہ رہائش پزیر ہونے کا ارادہ تھا۔۔۔دو دن سے وہ اسکی باریک بینی سے ساری سیٹنگ اپنی نگرانی میں کروا رہا تھا۔۔۔کہ کچھ دیر پہلے اسے اپنے موب پہ ایک انجان نمبر سے ایک ویڈیو موصول ہوئی۔۔۔جسے دیکھتے ہی اس کے اندر غصہ بھر آیا تھا۔۔۔
        وہ کب سے اپنے کمرے میں غیض و غضب کی تصویر بنا ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے بھولے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔جو دو گھنٹے پہلے سارا حساب کتاب چیک کرنے ہوٹل گیا ہوا تھا۔۔۔اس نے بھولے کو غصے میں فون کر کے جلد از جلد پہنچنے کا کہا تھا۔۔۔
        " کیا ہوا ہے۔۔۔کوئی آیا تھا کیا۔۔۔۔"؟
        دلاور کی کال رسیو کرتے ہی بھولا سارے کام چھوڑ کر اپنی گاڑی فل سپیڈ سے بھگاتے ہوئے دلاور کے گھر پہنچا تھا۔۔۔گیٹ سے گاڑی اندر لا کر کھڑی کرتے اس نے گیٹ کیپر سے پوچھا تھا۔۔۔
        " نہیں جی۔۔۔پچھلے ایک گھنٹے سے میں ڈیوٹی پہ ہوں۔۔۔میں نے کسی کو آتے دیکھا نہ جاتے۔۔۔"
        گیٹ کیپر نے مؤدبانہ جواب دیا۔۔۔تو کچھ سوچتے ہوئے بھولے آگے بڑھا۔۔۔
        " اکبر خان۔۔۔کیا معاملہ ہے۔۔۔"
        دلاور کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے بھولے کی نظر دلاور کے خانساماں پہ پڑی جو لاؤنج میں کھڑا فکرمندی سے دلاور کے روم کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔تو بھولے نے اس سے اشارتاً پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔جس پہ اس نے بھی نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔
        " میں صبح جب ناشتہ دینے گیا تو وہ بلکل ٹھیک تھے۔۔۔مگر کچھ دیر پہلے جب چائے کا پوچھنے گیا تو غصے سے بولے کہ دفعہ ہو جاؤ۔۔۔آج سے پہلے میں نے کبھی انکو اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔۔۔نہ کبھی مجھ سے ایسے بات ہی کی۔۔۔پتہ نہیں اچانک ایسا کیا ہوا ہے۔۔۔
        مگر سیٹھ جی بہت غصے میں لگ رہے ہیں آج۔۔۔انکے کمرے سے چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔"
        اکبر خان نے فکرمندی اور پریشانی سے کہا۔۔۔
        " اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ میں دیکھتا ہوں۔۔۔
        " یہ۔۔۔۔۔یہ کیا کیا ہے تم نے۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
        بھولے نے جیسے ہی دلاور کے کمرے میں قدم رکھا تو کمرے کا حشر دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔۔۔
        پورے کمرے کا سامان بکھرا پڑا تھا۔۔۔دیوار پہ لگی اس کی من پسند پینٹنگ۔۔۔بیڈ ٹیبل کے اوپر پڑا واز اور کرٹن زمین بوس تھے۔۔۔خود اس کا اپنا حلیہ بھی عجیب ہو رہا تھا۔۔۔ہاتھوں میں سر گرائے اپنے بال نوچنے کے انداز میں جکڑے وہ بیڈ پہ گم صم بیٹھا ہوا تھا۔۔۔اس نے دلاور کی ایسی حالت تو تب بھی نہ دیکھی تھی جب ماسو ماں نے اس سے اپنا رشتہ ختم کیا تھا۔۔۔اب ایسا کیا ہو گیا تھا چند گھنٹوں میں۔۔۔
        " دلاور۔۔۔کیا ہوا ہے یار۔۔۔کیا ماسو ماں۔۔۔۔۔ان کی کوئی خبر آئی ہے۔۔۔"؟
        بھولے نے کسی خدشے کے تحت ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔لیکن دلاور اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا۔۔۔نہ سر اوپر کر کے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
        " یار بول کچھ۔۔۔کیوں میرا دل ہولا رہا ہے۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
        بھولے نے دلاور کے پاس ہی بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تھوڑا دباؤ ڈال کر اب کی بار بہت دھیمے سے پوچھا۔۔۔
        " یہ۔۔۔۔۔کیا ہے یہ۔۔۔۔کس نے بھیجی ہے یہ ویڈیو۔۔۔کس کا نمبر ہے یہ۔۔۔"
        بھولے کی کسی بھی بات کا جواب دئیے بغیر دلاور نے خاموشی سے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھا دیا۔۔۔بھولے نے حیرانگی سے اس کی طرف پھر موبائل کی طرف دیکھا۔۔۔پھر اس کے یاتھ سے موبائل پکڑ کر واٹس ایپ اون کیا تو سب سے نیچے جو ویڈیو تھی جو کہ کسی نے ایک گھنٹہ پہلے ہی سینڈ کی تھی۔۔۔بھولے نے جیسے ہی وہ ویڈیو اون کی پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہ پایا۔۔۔پھر جیسے جیسے دیکھتا گیا۔۔۔اس کے چہرے کے زاویے بگڑتے گئے۔۔۔ویڈیو ختم ہونے کے بعد بھی وہ یک ٹک موب کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔جیسے وہ ابھی بھی چل رہی ہو۔۔۔
        پھر ایک خیال کے آتے ہی اس نے دلاور پہ ایک گہری نظر ڈالی۔۔۔پھر کمرے کے چاروں اور نظر گھمائی۔۔۔کچھ دیر دونوں کے بیچ میں گہری خاموشی چھائی رہی۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے میں کوئی بھی موجود نہ ہو۔۔۔
        کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد بھولا اٹھ کر بیڈ کے کے سامنے پڑے صوفہ کم بیڈ پہ جا بیٹھا۔۔۔


        Comment


        • #44
          Episode, 24#

          صبح سے بادلوں نے آسمان کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں ایسے چھپایا ہوا تھا جیسے مرغی کسی خطرے کو بھانپتے ہی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے بچے ایسے اسکی آغوش میں چھپتے ہیں جیسے وہ تھے ہی نہیں۔۔۔
          آج نیلے آسمان کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔۔۔گھنے بادلوں میں نیلا آسمان چھپ چکا تھا۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بارش کی آمد کی نوید سنا رہی تھی۔۔۔
          مگر پھر اچانک منظر بدلنا شروع ہوا۔۔۔دھیرے دھیرے سورج اور بادلوں کی لڑائی ہونے لگی۔۔۔کبھی سورج بادلوں پہ حاوی ہو کر اپنے آنے کی نوید سناتا اور کبھی بادل سورج پہ حاوی ہو کر جل تھل کی نوید سنانے لگتے۔۔۔
          موسم بدل رہا تھا۔۔۔سردیوں کی آمد آمد تھی۔۔۔صبح صبح فضا میں ہلکی خنکی معمول کا حصہ بن رہی تھی۔۔۔مگر آج بادلوں کی وجہ سے خنکی میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔
          4 کنال کے اس بڑے سے لگزری بنگلے کے ماسٹر روم میں 2 نفوس کی موجودگی کے باوجود کمرے میں موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔بھولے نے پھر سے ویڈیو اون کی۔۔۔
          میرا ٹوٹا تھا دل اس کی جھنکار تھی۔۔۔
          سارا وہ رنگ تھا میرے خون دل کا۔۔۔
          چلو جو بھی ہوا وہ خوب ہوا۔۔۔
          اب ہر کوئی محبوب ہوا۔۔۔
          ہے سب کے لیے یہ رات میری۔۔۔
          اب تو ہے یہی اوقات میری
          کمرے میں موہنی کی آواز نہیں۔۔۔بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے بین گونج رہے ہیں۔۔۔وہ اذیتوں کے کس اتھاہ سمندر میں ڈوبی یہ گا رہی تھی۔۔۔اس درد کا اندازہ اگر کوئی دنیا میں لگا سکتا تھا تو وہ دلاور اور بھولا ہی تھے۔۔۔جو اسکے درد کی وجہ بنا تھا دلاور کی حالت دیکھ کر اس کے دل میں کہیں سکون کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔۔امید کا کوئی در کھلتا لگا تھا اس کو۔۔۔
          بھولے نے غیر محسوس طریقے سے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو ایک ہاتھ سے صاف کیا تھا۔۔۔پھر موب آف کر کے سائیڈ پہ رکھ دیا۔۔۔اور خاموشی سے دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
          دونوں گم صم بیٹھے ایک دوسرے کے پہلے بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔مگر دونوں ہی خاموش تھے۔۔۔۔لفظ جیسے کہیں کھو گئے تھے۔۔۔
          کہ اچانکے بھولا اپنی جگہ سے اٹھا کمرے کا ٹمپریچر کافی بڑھ گیا تھا۔۔۔یا شائد اسکو لگ رہا تھا۔۔۔ روم ہیٹر کو آف کر کے وہ واپس اپنی جگہ پہ آ بیٹھا۔۔۔
          دلاور نے ایک پل کو نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔مگر اس کے چہرے سے کسی بات کا اندازہ نہ لگا سکا۔۔۔بھولا ایسے بیہیو کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔۔۔
          کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد اچانک سے سے دلاور اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔اور اس ماسٹر روم میں بنے چینجنگ روم میں جا گھسا۔۔۔
          " چلو اٹھو ہمیں ابھی چلنا ہے۔۔۔"
          دلاور نے اپنا اوورکوٹ پہنتے ہوئے کہا۔۔۔
          " گاؤں جانا ہے کیا۔۔۔"؟
          بھولے نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
          " نہیں۔۔۔نیلم بائی کے اڈے پہ۔۔۔
          دلاور نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
          مگر کس لیے۔۔۔اب وہاں کیا کام..."؟
          " ویڈیو دیکھنے کے بعد بھی تم کہ رہے ہو کہ ہمارا وہاں کیا کام۔۔۔حیرت ہے یہ تم پوچھ رہے ہو۔۔۔"؟
          دلاور تلخ اور طنزیہ لہجے میں بولا
          " ہاں تو کیا ہے اس ویڈیو میں ایسا خاص۔۔۔ایک نہ ایک دن اس نے بھی یہی کرنا تھا۔۔۔جو کوٹھوں پہ رہنے والی باقی سب کرتی ہیں۔۔۔وہ کونسا کوئی شریف زادی ہے جس کا تمہیں سوگ لگ گیا ہے۔۔۔طوائف کا کام جسم بیچنا ہے۔۔۔سو وہ بیچ رہی ہے۔۔۔یہ الگ بات ہے تم سے اس نے کوئی قیمت نہیں لی تھی۔۔۔اور کیا پتہ اب تک کتنے مرد اس کی زندگی میں آ چکے ہوں۔۔۔کتنوں کے ساتھ وہ سو چکی۔۔۔۔۔۔۔
          بھولے نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی ٹانگیں پسارتے ہوئے ایک بھرپور انگڑائی لیتے لاپرواہی سے کہا۔۔۔
          " بلال۔۔۔۔۔۔۔ایک لفظ اور نہیں۔۔۔۔"
          بھولے کی بات سن کر دلاور بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ کر غضب ناک ہوکر اسکی طرف بڑھا۔۔۔اور انگشت شہادت اٹھا کر انتہائ غصے سے اس کو وارن کیا۔۔۔ایک پل کو ایسے لگا جیسے وہ اس کو مار ڈالے گا۔۔۔پھر خود پہ ضبط کرتے ڈریسنگ ٹیبل پہ زور سے لات ماری۔۔۔بھولا بنا کوئی ری ایکشن دئیے چپ چاپ اپنی جگہ پہ بیٹھا گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔۔۔کچھ دیر کو دلاور بھی اسی حالت میں اس پہ نظریں گڑائے اس کو گھورتا رہا۔۔۔پھر تھکے ہارے انداز میں بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں دونوں ہاتھوں میں سر دئیے گم صم بیٹھ گیا۔۔۔
          " چلو شکر ہے۔۔۔تمہیں یاد ہے کہ میرا نام بلال ہے۔۔۔میرا نام ہی یاد آیا ہے یا کچھ اور بھی یاد آیا ہے۔۔۔جیسے کسی کی کہی گئ کوئی باتیں کوئی نصیحتیں۔۔۔
          ویسے ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی اسے اس رستے پہ ڈال کر اب کس بات کی تکلیف ہو رہی ہے تمہیں۔۔۔"؟
          بھولے نے طنزیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔
          " سچ کہا تم نے۔۔۔مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔کیونکہ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔۔۔میرا خیال تھا کہ جیسے پہلے اپنی زندگی گزارتی آئی ہے۔۔۔اب بھی گزار لے گی۔۔۔خانم نے جیسے پہلے کبھی اس کو مجبور نہیں کیا اب بھی نہیں کرے گی۔۔۔اور کچھ دن گزرنے کے بعد میری پیشکش قبول کر کے وہ لازمی مجھ سے رابطہ کرے گی۔۔۔اس بات کا تو تصور بھی نہیں تھا کہ وہ یہ سب کرے گی۔۔۔
          وہ طوائف نہیں ہے۔۔۔نہیں ہے وہ طوائف یہ تم بھی جانتے ہو۔۔۔جس لڑکی نے کوٹھے جیسی غلیظ جگہ پہ رہ کر جہاں دن رات جسموں کے سودے ہوتے ہوں۔۔۔وہاں بھیڑیوں کے بیچ میں رہ کر اپنے دامن پہ کوئی داغ نہ لگنے دیا ہو وہ طوائف کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنیوں میں جہاں شرم وحیا برہنہ ہو کر ناچتی ہو۔۔۔
          ایسے ماحول میں پروان چڑھ کر جو کبھی اس ماحول کا حصّٰہ نہ بنی ہو۔۔۔کبھی کسی کو اپنے پاس بھی نہ پھٹکنے دیا ہو۔۔۔وہ لڑکی طوائف کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔
          میرا دل نہیں مانتا کہ وہ اس رستے پہ چل نکلی ہے۔۔۔نہیں مانتا۔۔۔مگر۔۔۔مگر سیٹھ شجاع کی وہاں موجودگی۔۔۔۔
          اگر وہ یہ سب میری وجہ سے کر رہی ہے۔۔۔تو میں اس کو ایسا نہیں کرنے دوں گا۔۔۔مجھے ایک بار ملنا ہے اس سے۔۔۔بس ایک بار۔۔۔
          اگر وہ خود دل سے اس غلاظت کا حصّٰہ بننے جا رہی ہے تو میں اس کو نہیں روکوں گا۔۔۔اور اگر اس کے ساتھ نیلم بائی نے کوئی زور زبردستی کی ہوگی تو میں نیلم بائی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا نہ سیٹھ شجاع کو۔۔۔یہ اس کی زندگی کی آخری غلطی ہوگی۔۔۔
          جتنا میں اس کو جانتا ہوں وہ مر تو سکتی ہے مگر اس رستے کا انتخاب کبھی نہیں کرے گی۔۔۔اس لیے وہاں جانا بہت ضروری ہو گیا ہے اب۔۔۔
          دلاور ہر لفظ چبا چبا کر ٹھوس لب و لہجے میں بولا۔۔۔
          " اگر تو اس کو اتنا جانتا ہے۔۔۔تو اس کے ساتھ وہ سب کیوں کیا۔۔۔اور اگر ہو گیا تو اس کو اپنایا کیوں نہیں۔۔۔ اور یہی نہیں اس سب کے بعد پھر اتنے ماہ پلٹ کر اس کی خبر تک نہ لی۔۔۔وہ کس حال میں ہے۔۔۔کیا کر رہی ہے۔۔۔کیسے جی رہی ہے۔۔۔اور اس کو طوائف ہونے کا طعنہ بھی تو تم نے ہی دیا تھا ناں۔۔۔نہ صرف طعنہ بلکہ اس کو طوائف بھی تم نے بنایا۔۔۔تم جانتے تھے وہ کیسی جگہ ہے۔۔۔پھر بھی تم اس کو وہاں چھوڑ آئے۔۔۔اور اب تم کہ رہے ہو کہ تمہیں تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔
          بھولا اپنے دل میں پیدا ہونے والے سوال کو آخر زبان پر لے ہی آیا۔۔۔
          " تو مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے۔۔۔اتنے سالوں کا ساتھ ہے ہمارا۔۔۔میں نے آج تک کبھی کسی لڑکی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھایا۔۔۔کسی کو آج تک چھوا تک نہیں۔۔۔میں موہنی کی دل سے عزت کرتا تھا۔۔۔یہ بھی جانتا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے۔۔۔مگر پھر بھی کبھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔۔۔میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔یہ خیال ضرور تھا دل میں کہ اگر کبھی کی تو موہنی سے ہی کروں گا۔۔۔مگر اس کے لیے ماسو ماں کا ملنا بہت ضروری تھا۔۔۔
          دل میں ایک آس تھی کہ ماسو ماں مل جائیں گی۔۔۔اور ایک خوف بھی کہ ایسا نہ ہو کہ میں موہنی کو کوئی خواب دکھا دوں اور پھر ماسو ماں کو اس پہ اعتراض ہو۔۔۔اگر موہنی کی سچائی جان کر بھی انکو کوئی اعتراض نہ ہوا تو تب میں اسی سے شادی کرتا۔۔۔مگر پھر اس دن عائلہ پہ نظر پڑی تو اس کو دیکھتے ہی پہلی بار دل میں کسی کی چاہ پیدا ہوئی۔۔۔
          خود سے سوال بھی کیا کہ موہنی کا کیا۔۔۔تو مجھے جواب ملا کہ موہنی سے میں محبت نہیں کرتا تھا۔۔۔عائلہ کے ملنے سے پہلے تک یہی سوچ تھی کہ کسی نہ کسی سے کبھی نہ کبھی تو شادی کرنی ہے۔۔۔سو موہنی سے کر لوں گا۔۔۔مگر عائلہ کو دیکھنے کے بعد ہر وقت بس اس کا خیال دل میں پنپنے لگا۔۔۔
          اس دن جب کوٹھے پہ میں گیا تھا۔۔۔موہنی میرے سامنے تھی۔۔۔مگر حواسوں پہ عائلہ سوار تھی۔۔۔
          اس کا خیال جھٹکنے کو میں مزید پیتا گیا۔۔۔اور مجھے ہر طرف بس عائلہ ہی نظر آنے لگی۔۔۔اور کب مجھے چڑھی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔اور وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔اور یہ بھی سچ ہے کہ اس سب کے بعد میں کبھی سکون سے سو نہیں پایا۔۔۔مگر عائلہ کو پانے کی چاہ ہر چیز پہ حاوی ہوتی گئ۔۔۔"
          دلاور نے انتہائی شرمندگی سے تھکے ماندے لہجے میں کہا۔۔۔"
          " مجھے آج بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تیرے اندر کی انسانیت مری نہیں ہے۔۔۔ورنہ مجھے تو ایسا لگنے لگا تھا کہ جانوروں کے بیچ میں رہ کر تو بھی جانور بنتا جا رہا ہے۔۔۔چل چلتے ہیں۔۔۔اور اس نیلم بائی کا تو میں وہ حال کروں گا کہ کوٹھا چلانے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔۔۔تو بس بیٹھ کے تماشہ دیکھنا۔۔۔"
          بھولے نے پرجوش ہو کر دلاور کو ہگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
          دونوں کمرے سے باہر پورچ میں کھڑی گاڑی کی طرف آئے تو بادل چھٹ چکے تھے۔۔۔اجلی تیز کرنوں کی روشنی چار سو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔بلال نے سر اٹھا کر حیرت سے آسمان کی طرف دیکھا تھا۔۔۔جب وہ آیا تھا تو لگتا تھا آج خوب بادل برسیں گے۔۔۔مگر اب ہر طرف تیز دھوپ تھی۔۔۔
          اس کے لبوں پہ مبہم سی مسکراہٹ چلی آئی تھی۔۔۔بے شک الّٰلہ ہر چیز پہ قادر ہے۔۔۔وہ کب کس وقت کس کو ہدایت کے رستے پہ ڈال دے کوئی نہیں جانتا۔۔۔بشرطیکہ دلوں پہ اسکے غضب کی مہر لگا کر انسان کی قسمت میں ہمیشہ کے لیے گمراہی نہ لکھ دی ہو۔۔۔
          امید کا اک دیا تھام کر وہ دلاور کے ساتھ نیلم بائی کے اڈے کی طرف گامزن تھا۔۔۔

          کوٹھی کے سامنے پہنچ کر بلال عرف بھولا تیزی سے نیچے اترا اور ڈور بیل کو دبایا۔۔۔مگر کافی دیر بعد بھی اندر سے کوئی نہ آیا تو۔۔۔اب کی بار وہ بیل پہ انگلی رکھ کر اٹھانا بھول گیا۔۔۔
          تھوڑی دیر بعد اندر سے ایک آدمی گیٹ کی طرف آتا نظر آیا۔۔۔
          " کیا بات ہے۔۔۔تم جانتے نہیں ہو کہ ماریہ میڈم اس وقت کسی سے نہیں ملتا۔۔۔پھر کس لیے آئے ہو۔۔۔"
          آنے والے نے گیٹ کھولے بنا اندر سے ہی سر اونچا کر کے غصے سے کہا وہ شائد سو رہا تھا۔۔۔لمبی سے باسی لے کر وہ تھوڑا جھنجلا کر غصے سے بولا تھا۔۔۔
          " یہ کوٹھی تو نیلم بائی کی تھی۔۔۔پھر یہ ماریہ کہاں سے آ گئ۔۔"
          بلال نے حیران ہو کر سوال کیا۔۔۔
          " نیلم بائی کی تھی۔۔۔انکے مرنے کے بعد اب یہ ماریہ میڈم یعنی مینا بائی کی ہے۔۔۔"
          " کیا ااااااا۔۔۔۔۔بلال کو سن کر جھٹکا لگا تھا۔۔۔اس نے مڑ کر گاڑی میں بیٹھے دلاور کی طرف دیکھا۔۔۔دلاور بھی اسکی بات سن کر حیران ہوتا گاڑی سے اتر کر انکے پاس آیا۔۔۔
          " اگر تم نے میرے 3 گننے سے پہلے گیٹ نہیں کھولا تو یقین رکھو چار گننے کی نوبت نہیں آئے گی۔۔۔اور تم زمین پہ پڑے ہوگے ۔۔۔مگر مردہ۔۔۔"
          دلاور نے اپنی جیب سے پسٹل نکال کر گیٹ کی سلاخوں میں سے تھوڑا سا پسٹل اندر کی طرف کر کے انتہائی خشک اور غصیلے لہجے میں کہا۔۔۔
          دلاور کے چہرے پہ چھائی موت سی سنجیدگی اور پسٹل دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوئے تھے۔۔۔اس نے بنا کوئی مزید بات کیے انتہائی پھرتی سے انکے لیے گیٹ کھول دیا۔۔۔تو وہ دونوں اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
          " آہہہہہہہہ۔۔۔۔"
          دلاور اور بھولا بنا کسی دقت کے پہلے سیدھے موہنی کے روم کی طرف گئے۔۔۔مگر وہاں کوئی اور ہی لڑکیاں سو رہی تھیں۔۔۔پھر کچھ سوچ کر دونوں مینا بائی کے روم کی طرف بڑھے۔۔۔دلاور نے بند دروازے پہ ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔دروازہ اندر سے لاک نہیں تھا۔۔۔کمرے میں چند کرسیاں اور جدید تراش خراش کا ایک سنگل بیڈ تھا جس پہ مینا بائی گہری نیند میں غرق تھی۔۔۔دلاور نے اس کے کان کے قریب منہ کرکے زور سے ہنکارا بھرا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔
          " تم۔۔۔۔۔مم میرا مطلب آپ۔۔۔۔اس وقت۔۔۔"
          دو پل کو تو مینا بائی کچھ سمجھ نہ آیا نیند بھری آنکھوں سے وہ دلاور کی طرف دیکھتی رہی پھر جیسے ہی اس کا چہرہ واضح ہوا حیران ہوتی گھبرا کر بولی
          " ہاں میں۔۔۔۔نیلم بائی اور موہنی کہاں ہیں۔۔۔کیا ہوا ہے انکے ساتھ۔۔۔کہاں ہیں دونوں۔۔۔"
          " قسم الّٰلہ پاک کی مم مجھے نہیں پتہ۔۔۔میں نہیں جانتی۔۔۔"
          مینا نے گھگیاتے ہوئے کہا۔۔۔
          " مینا ااااا۔۔۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ میں تمہارا یہ خوبصورت چہرہ بگاڑ دوں۔۔۔لیکن اگر تم نے سب سچ سچ نہیں بتایا تو میں ایسا کر گزروں گا۔۔۔اور یہ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں اپنے قول کا کتنا پکا ہوں۔۔۔"
          دلاور نے مینا بائی کا چہرہ انتہائی سختی سے اپنے ایک ہاتھ کی گرفت میں لے کر سفاکی سے کہا۔۔۔
          " بب۔۔۔بتاتی ہوں پلیز۔۔۔مم۔۔۔میں سب بتاتی ہوں۔۔۔بیٹھو تم۔۔۔"
          مینا بائی کو لگا کہ اگر اس نے دومنٹ بھی اور دیر کی تو دلاور سچ میں اپنے کہے پہ عمل کر ڈالے گا۔۔۔اس لیے فوراً سب بتانے پہ راضی ہو گئ۔۔۔دلاور نے بھولے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دونوں مینا بائی کے پاس چئیرز گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔۔۔
          نیلم بائی، شوکت اور رحمو بابا کو سیٹھ شجاع نے قتل کردیا ہے۔۔۔"
          مینا بائی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔
          " مگر کیوں۔۔۔اور سیٹھ شجاع تو باہر سیٹل ہوگیا تھا وہ کب آیا۔۔۔"
          دلاور نے تیکھے لہجے میں تیزی سے پوچھا۔۔۔
          " جج۔۔جب تم نے موہنی کو رسوا کیا تھا۔۔۔تو یہ اس کے ایک ہفتہ بعد کی بات ہے۔۔۔سیٹھ شجاع باہر کسی الیگل کام میں پکڑا گیا تھا۔۔۔اپنی سزا بھگت کر وہ جب پاکستان آیا تو آتے ہی نیلم بائی سے موہنی کی ڈیمانڈ کی۔۔۔پہلے ایک دو ہفتے تو وہ ٹالتی رہی۔۔۔پھر اچانک سے مان گئ۔۔۔
          اور سیٹھ کے ساتھ جانے کو بھی موہنی تیار ہو گئ۔۔۔
          جس دن جانا تھا اس سے ایک رات پہلے موہنی کے کمرے میں آگ لگ گئ۔۔۔
          سارا کچھ جل کر خاک ہو گیا تھا۔۔۔اور اس آگ میں موہنی بھی جل گئ۔۔۔پھر کچھ دن بعد پتہ چلا کہ سب جھوٹ تھا۔۔۔اور سب کچھ ایک پلاننگ سے کیا گیا تھا۔۔۔اور نیلم بائی ہی نے یہ پلان بنایا تھا۔۔۔سیٹھ شجاع کو جب اس سب کھیل کا پتہ چلا تو اس نے غصے میں آکر نیلم بائی رحمو بابا، اور شوکت تینوں کو مار ڈالا۔۔۔"
          مینا نے دھیرے دھیرے سب سچ کہ سنایا اور خاموشی سے دلاور کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔بھولا اور دلاور پھٹی پھٹی آنکھوں سے مینا کی طرف دیکھتے بنا پلک جھپکتے سب سنتے رہے۔۔۔
          " مگر نیلم بائی نے ایسا کیوں کیا۔۔۔اس سب پلاننگ کی کیا ضرورت پیش آ گئ۔۔۔"؟
          دلاور نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
          " تم نے اس کے ساتھ جو کیا۔۔۔اس کے بعد شائد وہ اپنی جان لے لیتی۔۔۔مگر پھر جیسے ہی اسکو پتہ چلا کہ وہ تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے۔۔۔اس نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔مگر سیٹھ شجاع پاتال تک اس کا پیچھے نہیں چھوڑے گا یہی سوچ کر اس سے بچنے کے لیے اسکی موت کا کھیل کھیلا گیا۔۔۔نیلم بائی نے اسے منانے کی پوری کوشش کی کہ وہ سیٹھ شجاع کا ہاتھ پکڑ لے مگر اسکی ناں ہاں میں نہ بدلی۔۔۔جس نے کبھی اپنے کورے دامن پہ داغ نہیں لگنے دیا تھا۔۔۔ماں بننے کے مرتبے پہ فائز ہو کر کیسے وہ اپنے دامن کو داغدار ہونے دیتی۔۔۔
          پھر مجبوراً نیلم بائی کو اس کی خالہ ہونے کے ناتے اس کا ساتھ دینا پڑا۔۔۔"
          دلاور اور بھولا کی سوئی لفظ ماں پہ اٹکی ہوئی تھی۔۔۔موہنی کے ماں بننے کا سن کر انکو ایسا لگ رہا تھا جیسے انکے کانوں میں کسی نے کوئی گرم سیال انڈیل دیا ہو۔۔۔مینا بائی کیا کہ رہی ہے انکو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔انکو بس مینا کے لب ہلتے نظر آ رہے تھے۔۔۔وہ کیا کہ رہی ہے۔۔۔ماں لفظ کے بعد وہ گونگے بہرے ہو گئے تھے۔۔۔
          " دلاوررررر۔۔۔۔۔۔"؟
          کچھ دیر تک جب دونوں میں سے کوئی نہ بولا تو مینا نے آہستہ سے دلاور کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پکارا۔۔۔تو ایک خاموش آنسو دلاور کی گال پہ بہ آیا۔۔۔بھولا پرنم آنکھیں لیے دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔
          " موہنی کہاں ہے اب۔۔۔کیا سیٹھ شجاع کے پاس ہے وہ۔۔۔اور ہمیں یہ ویڈیو کس نے سینڈ کی تھی۔۔۔یہ نمبر کس کا ہے۔۔۔"؟
          چند ثانیے انتظار کرنے کے بعد جب دلاور ویسے ہی گم صم بیٹھا رہا تو بلال نے بازو کی پشت سے اپنی آنکھیں صاف کر کے پے در پہ کئ سوال جو اس کے دماغ میں کلبلا رہے تھے سب پوچھے۔۔۔اور وہ ویڈیو بھی دکھائی۔۔۔
          " نہیں موہنی سیٹھ شجاع کے پاس نہیں ہے۔۔۔اور وہ کہاں ہے یہ نیلم بائی کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔اور نیلم بائی اور رحمو بابا نے مرتے دم تک زبان نہیں کھولی تھی۔۔۔
          یہ ویڈیو تم لوگوں کو گلشن نے سینڈ کی تھی۔۔۔کیونکہ سیٹھ شجاع کو بھی اسی نے ایک ویڈیو سینڈ کی تھی۔۔۔جس سے نیلم بائی کے کھیل کا سارا کھیل کھل گیا تھا۔۔۔اس نے منہ مانگی قیمت پہ وہ ویڈیو سیٹھ شجاع کو دی تھی۔۔۔اور دلاور سے بھی وہ پیسے نکلوانا چاہتی ہوگی۔۔۔تبھی دلاور کو بھی سینڈ کی۔۔۔"
          ماریہ عرف مینا بائی نے ایک ایک کر کے اس کے ہر سوال کا جواب دیا۔۔۔اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی کہ اور کچھ۔۔۔
          " نہیں کچھ نہیں۔۔۔تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔اب ہم چلتے ہیں۔۔۔"
          بلال نے جیب میں سے ایک لاکھ کی گڈی نکال کر ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
          " مجھے یہ پیسے نہیں چاہیں۔۔۔اگر دینا ہے تو اتنا یقین دے دو کہ موہنی کو ڈونڈھ نکالو گے۔۔۔اس سے پہلے کہ سیٹھ شجاع اس تک پہنچے۔۔۔"
          مینا بائی نے پیسے اٹھا کر بلال کی طرف واپس بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔ہماری زندگی تو جیسے تیسے اس غلاظت میں گزر گئ۔۔۔مگر موہنی نے خود کو اس غلاظت کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے بہت جنگ لڑی ہے۔۔۔اور اگر وہ یہ جنگ ہار گئ اور سیٹھ شجاع کے ہاتھ لگ گئ تو پھر یہاں کی ہر لڑکی ہار جائے گی۔۔۔کبھی کوئی یہاں سے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گی یہ سوچ کر کہ اس کا یہی نصیب ہے۔۔۔
          اور میں دل سے چاہتی ہوں کہ موہنی یہ جنگ جیت جائے۔۔۔"
          " ہممممم۔۔۔۔۔انشاء الّٰلہ۔۔۔۔دلاور چلیں۔۔۔"؟بلال نے مینا کی بات پہ اثبات میں ہنکارہ بھرا۔۔پھر دلاور سے کہا۔۔۔جو بت بنا چئیر پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔دلاور کسی لٹے پٹے مسافر کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
          " دلاور موہنی کے پیٹ میں تمہارا بچہ ہے۔۔۔اگر وہ مل جائے تو اس کو اپنا لینا۔۔۔اور مجھے یقین ہے تم ایسا ہی کرو گے۔۔۔کیونکہ تم کبھی نہیں چاہو گے کہ تمہارا خون اس گندگی کا حصّٰہ بنے۔۔۔"
          دلاور نے جیسے ہی ایک قدم دروازے سے باہر رکھا۔۔۔موہنی نے باآواز بلند دلاور کو پیچھے سے پکار کر کہا۔۔۔دلاور نے اس کی بات پہ ایک پل کو گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔پھر بنا کوئی جواب دئیے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔
          " دو منٹ میں پتہ کرو کہ سیٹھ شجاع اس وقت کہاں ہے۔۔۔"
          کوٹھی سے باہر نکلتے ہی دلاور نے انتہائی سنجیدگی سے بھولے سے کہا اور گاڑی میں جا بیٹھا۔۔۔

          " اپنے فارم ہاؤس پہ ہے وہ اس وقت۔۔۔
          گھر سے نکلتے ہی میں نے اپنے آدمیوں سے کہ دیا تھا کہ سیٹھ شجاع کا پتہ کر کے بتائیں کہ وہ کدھر ہے۔۔۔"
          بلال نے دلاور کی حیران نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے کہ تمہیں کیسے پتہ کہ وہ فارم ہاؤس میں ہے۔۔۔اس کی حیرت دور کرتے جواب دیا۔۔۔جس پہ دلاور نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔اور اپنے آدمیوں کو فارم ہاؤس پہ اکٹھا ہونے کو کہا۔۔۔

          " مجھے یقین تھا کہ تم ضرور آؤ گے۔۔۔مگر حیرت ہو رہی ہے۔۔۔اسے تمہاری بیوقوفی کہوں یا بہادری کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں چلے آئے ہو۔۔۔خیر اچھا ہوا تم چلے آئے تمہاری طرف بہت سے حساب نکلتے ہیں میرے۔۔۔آ تو گئے ہو مگر زندہ واپس نہیں جا سکو گے۔۔۔"

          کچھ دیر بعد دلاور اور بھولا فارم ہاؤس پہ سیٹھ شجاع کے سامنے موجود تھے۔۔۔کوئی مزاحمت کیے بنا دلاور نے اندر جیسے ہی پیغام بھجوایا کہ سیٹھ سے کہو کہ دلاور آیا ہے تو دلاور کا سنتے ہی اور اس کے اکیلے آنے کا معلوم ہوتے ہی سیٹھ شجاع نے فوراً اپنے آدمیوں سے اس کی تلاشی لے کر اسے اندر لانے کا کہا۔۔۔
          " میں زندہ واپس جاتا ہوں یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے۔۔۔مجھے پہلے تم یہ بتاؤ کہ موہنی کہاں ہے۔۔۔اگر اس کو ہلکی سی خراش بھی آئی تو تمہارا کیا حال کروں گا یہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔"
          دلاور چاروں طرف گنے تانے اس کے آدمیوں اور اس کی دھمکی سے مرعوب ہوئے بنا اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے ہر لفظ پہ زور دیتا ہوا بولا۔۔۔اپنی پینٹ کی پوکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ ایسے سکون سے کھڑا تھا جیسے وہ نہیں بلکہ سیٹھ شجاع اس کے فارم ہاؤس میں کھڑا ہو۔۔۔
          " تم۔۔۔تمہاری اتنی ہمت کہ میرے ہی گھر کھڑے ہو کر مجھے دھمکی دو۔۔۔میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو پکڑو اسے۔۔۔اور اندر لے کر چلو۔۔۔"
          نہتا ہونے کے باوجود دلاور کی دھمکی سیٹھ شجاع کو اندر تک تپا گئ۔۔۔سیٹھ شجاع کا اشارہ پاتے ہی اس کے سب آدمیوں نے دلاور اور بلال کے گرد اپنا گھیرا تنگ کردیا۔۔۔اور انکو اندر کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔
          " سب لوگ اپنی گنیں نیچے پھینک دو۔۔۔تم سب لوگ ہمارے نشانے پہ ہو۔۔۔"
          اس سے پہلے کہ وہ اندر کی طرف اپنے قدم بڑھاتے کہ ایک گرجدار آواز آئی۔۔۔سب نے حیران ہو کر جدھر سے آواز آئی تھی اس طرف دیکھا تو سب کے چہروں کا رنگ اڑ گیا۔۔مین گیٹ کے نہ صرف باہر بلکہ اندر اور فارم ہاؤس کے چاروں طرف بہت سے لوگ انکو گھیرے گنے تانے کھڑے تھے۔۔۔
          " میں نہیں جانتا۔۔۔مجھے نہیں علم کہ موہنی کہاں ہے۔۔۔میں خود اس کو تلاش کر رہا ہوں۔۔۔اگر میری بات کا یقین نہیں تو بے شک تم تلاشی لے لو۔۔۔"
          سیٹھ شجاع کو اس وقت دلاور سے الجھنا بے وقوفی لگا۔۔۔اس لیے اس سے بعد میں حساب چکتا کرنے کا سوچ کر وہ قدرے نرم لہجے میں بولا۔۔۔
          سیڑھ شجاع کی بات سن کر دلاور نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ اندر جا کر اچھے سے دیکھیں۔۔۔
          تھوڑی دیر بعد اسکے آدمیوں نے آ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔اور اگلے حکم کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
          " ٹھیک ہے ابھی تو میں جا رہا ہوں۔۔۔لیکن اگر مجھے علم ہوا کہ تم نے دھوکا دیا ہے تو یاد رکھنا تم میرا وہ روپ دیکھو گے جس سے مجھے خود بھی خوف آتا ہے۔۔۔"
          دلاور نے کچھ دیر سیٹھ شجاع کی طرف بغور دیکھتے رہنے کے بعد اسے وارن کرتے لہجے میں کہا۔۔۔
          " یہ ناممکن ہے دلاور۔۔۔چاہو تو بے شک میری جان لے لو ابھی اسی وقت۔۔۔مگر موہنی سے دستبردار میں کسی صورت نہیں ہوں گا۔۔۔اور نہ پیچھے ہٹوں گا۔۔۔پہلے وہ میری ضد تھی۔۔۔میں اس کو پانا چاہتا تھا بس۔۔۔مگر اب وہ میری محبت میرا جنون بن گئ ہے۔۔۔اگر وہ پاتال میں بھی چھپی ہوگی تو میں اس کو ڈونڈھ نکالوں گا۔۔۔اور اسے وہ مقام وہ عزت دوں گا جو تم نہیں دے سکے۔۔۔
          تم اسے چھوڑ چکے۔۔۔اور وہ تمہیں نہ صرف چھوڑ چکی ہے۔۔۔بلکہ تم سے وہ اتنی نفرت کرتی ہے جس کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔
          تم نے اسکی روح کو کچلا ہے۔۔۔عورت مرد کی دی گئ جسمانی تکلیف تو بھول جاتی ہے۔۔۔مگر جو مرد عورت کی روح پہ وار کرتا ہے اس کی انا اس کی عزت نفس کچلتا ہے اس کو وہ مرتے دم تک معاف نہیں کرتی۔۔۔
          میں خود نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس سے محبت ہے۔۔۔اتنی محبت کہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔اور جب احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو گئ۔۔۔وہ ہمیشہ تمہارے خواب دیکھتی رہی۔۔۔اور تم نے کیا کیا۔۔۔اب کس منہ سے اس پہ حق جتا رہے ہو۔۔۔
          بہتر ہوگا کہ تم اس کا پیچھا چھوڑ دو۔۔۔اگر تم اس تک پہنچ بھی گئے تو وہ تمہیں کبھی نہیں اپنائے گی۔۔۔
          سیٹھ شجاع نے بھی بنا ڈرے جھجکے انتہائی سکون سے اپنی بات مکلمل کی۔۔۔اس کا بولا گیا ہر لفظ دلاور کا دل چیرتا گیا۔۔۔اسکے لفظوں کی سچائی سے وہ کسی صورت انکار نہیں کر سکتا تھا۔۔۔مگر موہنی پہ اس کا حق جتانا اور اس کو چیلنج کرنا اسے سخت ناگوار گزرا تھا۔۔۔
          " تو ٹھیک ہے مرو پھر۔۔۔"
          دلاور نے غصے سے کہتے پاس کھڑے اپنے آدمی سے ریوالور پکڑ کر اس کا رخ سیٹھ شجاع کی طرف کرتے کہا۔۔۔
          کچھ دیر تک دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔۔۔سیٹھ شجاع کے چہرے پر رتی بھر بھی خوف نہیں تھا۔۔۔اور جب کسی انسان کے دل سے موت کا خوف ختم ہو جائے تو اس کو مارنا اس پہ وار کرنا بہادری نہیں کہلاتا ایسے شخص کو توڑنا اور جھکانا بھی مشکل ہوتا ہے۔۔۔اگر کوئی اس کو ہرا سکتا ہے جھکا سکتا ہے تو صرف اس کا اپنا جنون۔۔۔
          " تم نے کہا کہ تم موہنی سے محبت کرتے ہو۔۔۔اس کے لیے اپنی جان تک دے سکتے ہو۔۔۔
          اس کو ڈونڈھ کر وہ مقام وہ عزت دو گے جو میں نہ دے سکا۔۔۔
          مگر کیسے۔۔۔؟
          کیسے اپناؤ گے اسے۔۔۔اگر وہ مجھے نہیں اپنائے گی تو کیا تمہیں اپنائے گی۔۔۔؟
          اگر وہ مجھے معاف نہیں کرے گی تو کیا تمہیں کردے گی۔۔۔جب اس کو پتہ چلے گا کہ تم نے اس کی خالہ اور رحمو بابا جو اس کے لیے ایک باپ کی طرح تھے ان کا بے رحمی سے قتل کردیا ہے۔۔۔یہ جان کر کیا تمہارا ہاتھ تھامے گی۔۔۔؟
          نہیں کبھی نہیں سیٹھ شجاع۔۔۔یہ بھول ہے تمہاری۔۔۔
          انسان جس سے محبت کرتا ہو اس سے جڑی ہر چیز ہر رشتہ بھی اس کے لیے اہم ہوتا ہے۔۔۔ان رشتوں کے دکھ سکھ خوشی غم اس کے اپنے بن جاتے ہیں۔۔۔نہ خود ان کو تکلیف دیتا ہے اور نہ یہ برداشت کرتا ہے کہ کوئی دوسرا ان کو تکلیف دے۔۔۔
          اور تم نے کیا کیا۔۔۔؟
          تم نے تو اس کے ان رشتوں کی سانسیں ہی کھینچ لیں جن سے وہ بے پناہ پیار کرتی تھی۔۔۔
          صرف میں نہیں تم بھی اسی کشتی کے مسافر ہو جس کا میں ہوں۔۔۔اگر میں اس کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تو تم کیسے کرو گے۔۔۔تم نے جو کیا تم کیسے تلافی کرو گے اس سب کی۔۔۔
          میں جا رہا ہوں۔۔۔تمہیں زندہ چھوڑ کر۔۔۔کیونکہ دلاور مرے ہوئے کو نہیں مارتا۔۔۔
          پھر دلاور نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا اور جانے کے لیے مڑا۔۔۔اب کی باری سیٹھ شجاع کے لڑ کھڑانے کی تھی۔۔۔دلاور کی باتوں سے اس کے تنے ہوئے کندھے ڈھیلے پڑ چکے تھے۔۔۔چہرے پہ ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔۔۔دلاور نے سچ ہی تو کہا تھا کہ وہ اس کا سامنا کیسے کرے گا۔۔۔اپنے کیے کی تلافی کیسے کرے گا۔۔۔غصے اور اشتعال میں وہ بہت بڑی غلطی کر بیٹھا تھا۔۔۔
          " رکو دلاور۔۔۔؟
          سیٹھ شجاع نے دلاور کو روکنے کے لیے پیچھے سے آواز دی۔۔۔جو باہر کی طرف اپنے قدم بڑھا چکا تھا۔۔۔دلاور نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا کہ اب کیا۔۔۔
          " غلطی تو ہم دونوں سے ہوئی ہے۔۔۔ہم دونوں ہی موہنی کے مجرم ہیں۔۔۔پھر کیوں نہ ایک ڈیل کریں۔۔۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آئیں گے۔۔۔اور ہم یہ فیصلہ موہنی کے ملنے پہ موہنی پہ چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔کہ وہ ہم میں سے کس کو معاف کرتی ہے۔۔۔کس کو اپناتی ہے۔۔۔
          کیا خیال ہے۔۔۔"؟
          سیٹھ شجاع نے دلاور کے قریب آ کر نرم لہجے میں اس سے کہا۔۔۔پھر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا کہ اگر اس کی بات منظور ہے تو ہاتھ ملائے۔۔۔
          " منظور ہے۔۔۔"
          دلاور نے کچھ پل سوچنے کے بعد یہ کہتے ہوئے سیٹھ شجاع کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔

          Comment


          • #45
            Episode, 25#

            شرجیل نے فجر کی بات سن کر انتہائی حیرانگی سے بغور اسکے چہرے کا جائزہ لیا۔۔۔اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ فجر سچ کہ رہی ہے۔۔۔اس کا دل کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ہائمہ خالہ جیسی ایک مظبوط کردار و اخلاق رکھنے والی خاتون کے سایہ شفقت میں پروان چڑھ کر کوئی ایسی دوہری اور دوغلی شخصیت کا بھی مالک ہو سکتا ہے۔۔۔
            مگر فجر کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی اس کی کہی ہر بات ہر لفظ کی تصدیق کر رہی تھی۔۔۔جہاں دور دور تک بھی مزاق کی کوئی رمق موجود نہ تھی۔۔۔
            " ٹھیک کہا آپ نے کہ میرا آپ کا مزاق کا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔ہائمہ خالہ کی اولاد کو ایسا ہی سچا ہونا چاہیے۔۔۔مگر آپ نے جو کہا وہ سب ہائمہ خالہ کی اولاد کو ہرگز نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔
            اب رہی بات میرے پابندیاں لگانے کی۔۔۔تو میں ان مردوں میں سے ہرگز نہیں جو عورت پہ اپنی حاکمیت جتا کر اس سے خوش رہنے کا، پسند ناپسند کا، اور اختلاف رائے کا بھی حق چھین لیتے ہیں۔۔۔
            اور میں ان مردوں میں سے بھی نہیں ہوں جو کھلے دل اور کھلے ذہن کے ہونے کے نام پر اپنی بیوی بیٹی یا بہن کو بے پردہ یا بیہودہ لباس میں اپنی بغل میں لیے پارٹیز یا مارکیٹس میں ہر کسی کو خود دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔۔۔
            بے شک میں کھلے دل اور کھلے ذہن کا اوپن مائنڈد شخص ہوں۔۔۔مگر بے غیرت ہرگز نہیں ہوں۔۔۔
            باہر کے آزادانہ ماحول میں رہنے کے باوجود خود کو شوپیس کی طرح پیش کرتی عورتوں سے مجھے ہمیشہ نفرت رہی۔۔۔
            اپنی لائف پارٹنر کے طور پہ میرے دل میں ہمیشہ ایک باپردہ اور مظبوط کردار کی لڑکی کا خیال آتا۔۔۔جو خود کو سمیٹ کر رکھنے والی اور مردوں سے فرینک ہونے والی نہ ہو۔۔۔جو پارٹیز اور کلب میں سارا دن اپنے جسم کی نمائش کرنے اور مردوں کو لبھانے کی بجائے گھر کی چاردیواری کو پسند کرنے والی ہو۔۔۔
            میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔۔۔وہ کسی غیر کی خود پہ نظر نہ پڑنے دے۔۔۔اپنی جان سے بڑھ کر اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو۔۔۔
            اگر میں کبھی رستے سے بھٹک بھی جاؤں تو اسکے اندر کی روشنی میرے اندھیرے راستوں میں روشنی کرکے مجھے صحیح راستہ دکھائے۔۔۔
            ماما نے جب مجھ سے آپکی بات کی اور میں نے جب آپکو پہلی بار دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ ماما نے آپکی جو تعریف کی وہ بہت کم تھی۔۔۔میں جیسی ہمسفر چاہتا تھا آپ اس سے کہیں بڑھ کر لگیں۔۔۔
            میں جتنے دن یہاں رہا ہر روز مجھ پہ آپکی ایک نئ خوبی کا انکشاف ہوتا گیا۔۔۔اور ہر آنے والے دن آپکی محبت میرے دل میں زور پکڑتی گئ۔۔۔
            آپکی سوچ جان کر بے شک مجھے جھٹکا لگا۔۔۔مگر میں اپنی بات پہ اب بھی قائم ہوں۔۔۔
            کیونکہ مجھے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ خالہ جان کے خون پہ ان کی تربیت پہ بھی پورا بھروسہ ہے کہ وہ کبھی غلط رستے کو نہیں چنے گا۔۔۔
            میں کیا ہوں۔۔۔کیسا ہوں۔۔۔میری کیا سوچ ہے۔۔۔میں نے سب آپکے سامنے رکھ دیا ہے۔۔۔اب فیصلہ میں آپکے ہاتھ میں دیتا ہوں۔۔۔
            اگر آپ میرے حق میں فیصلہ کرتی ہیں تو یقین رکھیں کہ میں کبھی بھی اپنی مرضی آپ پہ مسلط نہیں کروں گا۔۔۔اپنی چاہ کے ساتھ آپکی پسند نا پسند کو بھی ہمیشہ اہمیت دوں گا۔۔۔ آپ پہ کسی قسم کی بلا وجہ کی کوئی روک ٹوک اور پابندیاں نہیں ہوں گی۔۔۔
            بشرطیکہ آپ کچھ بھی ایسا نہ کریں جو خلاف شریعت ہو۔۔۔اور الّٰلہ کے احکامات کے دائرہ سے باہر ہو۔۔۔
            باقی زندگی میں ہر قدم پہ ہر دکھ سکھ میں مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ پائیں گی۔۔۔آپکی عزت اور آپکی ذات میرے لیے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر ہوگی۔۔۔
            کیا آپ مجھ جیسے بندے کا ساتھ قبول کریں گی۔۔۔جو اپنی عزت اپنی بیوی کے معاملے میں بہت پوزیسو قسم کا ہے۔۔۔اور کوئی پابندی لگائے نہ لگائے۔۔۔مگر ایک پابندی ضرور لگائے گا کہ باہر نکلتے وقت اسکی بیوی مکمل حجاب میں ہو۔۔۔اس کے سوا اسے کوئی نہ دیکھے۔۔۔
            اپنی بات مکمل کرنےکے بعد شرجیل منتظر نظروں سے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔۔
            فجر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شرجیل اندر سے اتنا گہرا بندہ ہوگا۔۔۔باہر کے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود وہ اپنے دین سے الّٰلہ سے اتنا جڑا ہوگا۔۔۔بظاہر دیکھنے سے وہ لاپرواہ اور اپنی ہی دنیا میں رہنے والا مگر خوش طبع اور ہنس مکھ نوجوان لگتا تھا۔۔۔
            مگر مزاق مزاق میں کی گئ اس کی بات نے شرجیل کی ذات کو اس کی سوچ کو اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔۔۔
            جس سے وہ بے انتہا متاثر ہوئی تھی۔۔۔اور صرف متاثر ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنے کیے گئے فیصلے پہ اس کے دل سے سبھی ڈر ختم ہو کر ایک گہرا اطمینان اتر آیا تھا۔۔۔
            شرجیل سے اس نے وہ سب صرف اس کو جاننے کے لیے ہی کہا تھا۔۔۔کہ کہیں وہ غلط فیصلہ تو نہیں کر بیٹھی۔۔۔ایسا نہ ہو کہ وہ جس قسم کی سوسائٹی میں موو کرتا ہے۔۔۔اس کی وجہ سے شادی کے بعد اس کی حیا اور مخصوص لمٹس میں رہنا اس کے اور شرجیل کے بیچ میں جھگڑے کی ایک بڑی وجہ بن جائے۔۔۔
            یہ سب اس کو ہاں کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا مگر اپنی والدہ کی خواہش کے آگے وہ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکی۔۔۔اور اتنے دنوں میں اسے بھی شرجیل میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی تھی جس کی بیس پہ وہ انکار کرتی۔۔۔
            شرجیل نے بھی اس سے کبھی بھی بلاوجہ بات کرنے کی یا کزن ہونے کے ناتے فرینک ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔اس لیے وہ بھی ہمیشہ ایک فاصلے پہ رہی۔۔۔مگر اب اس کے اظہار نے جہاں اسے حیران کیا وہیں اس کی سوچ کو جاننے کا کیڑا بھی کلبلایا تھا۔۔۔جس پہ وہ فٹ سے عمل کر بیٹھی۔۔۔بنا اس بات کا خیال کیے کہ اس کا ایمج کتنا خراب بیٹھے گا۔۔۔وہ کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔۔۔
            اگر اس کی کہی گئ ہر بات شرجیل مان جاتا اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کرتا تو یقیناً وہ اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرتی۔۔۔
            جیسے جیسے شرجیل اپنی سوچ اس پہ واضح کرتا گیا۔۔۔شرمندگی اس کو اپنے لپیٹے میں لے کر اس کی نظروں میں اور دل میں شرجیل کی قدرو منزلت بڑھاتی گئ۔۔۔اور پہلی بار اس کی طرف دیکھتے اس کی نظریں حیابار ہونے لگیں۔۔۔اس کے دل کی دھڑکنیں دھڑک دھڑک کر پوری شدت سے اپنے ہونے اور شرجیل کی محبت کا اعتراف کرنے لگیں۔۔۔کچھ پل پہلے جو بہت اعتماد سے اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔اب ایسا لگ رہا تھا کہ اگر مزید اس کے سامنے کھڑی رہی تو یقیناً بے ہوش ہو کر گر پڑے گی۔۔۔
            اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے انہیں مرورڑنے لگی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کہے۔۔۔شرجیل اپنی بات ختم کرنے کے بعد اس کے جواب کے انتظار میں چپ چاپ کھڑا گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا فجر کے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔مگر اس کی گو مگو کی حالت اور چہرے کے آتے رنگ اس کا ایک اور روپ اس کے سامنے لے کر آئے۔۔۔کچھ دیر پہلے والی پر اعتماد سر اٹھا کر بات کرنے والی فجر کی جگہ اب وہاں اسے ایک شرمیلی سی اپنے وجود میں سمٹتی ہوئی لڑکی نظر آنے لگی۔۔۔حسن میں حیا کی آمیزش شامل ہو کر اس کے حسن کو دو آتشہ کر رہی تھی۔۔۔وہ مبہوت ہو کر اسے تکنے لگا۔۔۔
            " مم۔۔۔میں نے۔۔۔۔اپنا جواب دے دیا ہے۔۔۔آ۔۔۔آپ خالہ سے معلوم کر لیں۔۔۔"
            سر جھکائے اپنے لب کچلتے کچھ کہنے کی کوشش کرتی اچانک سے وہ اپنا رخ موڑ گئ۔۔۔اور رک رک کر بڑی مشکل سے بول کر فوراً سے کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔
            شرجیل کے لیے یہ ایک اور جھٹکا تھا۔۔۔اس کے بولنے پہ وہ یک دم اس کے سحر سے باہر آیا اور حیران ہو کر اسے باہر نکلتے دیکھ کر سوچنے لگا کہ اس نے کب امی کو اپنا فیصلہ سنایا۔۔۔اور اگر فیصلہ کر چکی تھی تو یہ سب کیا تھا۔۔۔اس کی زبان کچھ اور کہ رہی تھی۔۔۔اور اس کے چہرے پہ حیا میں ڈوبے رنگ کوئی اور کہانی سنا رہے تھے۔۔۔
            شرجیل بھی سر جھٹک کر اپنی والدہ کے روم کی طرف بڑھ گیا اب یہ گتھی صرف ان سے بات کر کے ہی سلجھ سکتی تھی۔۔۔کہ اس کا اصل روپ کونسا ہے۔۔۔



            " ایمن بیٹا میڈیسن لے لینی تھی۔۔۔ایسا نہ ہو کہ بخار تیز ہو جائے۔۔۔"
            مہرالنساء نے اپنی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی ایمن کے اوپر کمفرٹر کو اچھے سے اس کو اوڑھاتے پھر اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہا۔۔۔رات سے اس کو ہلکا ہلکا فیور تھا۔۔۔جس کی وجہ سے آج اس نے سکول سے چھٹی کی تھی۔۔۔
            " عائلہ آپی نے ناشتے کے بعد ٹیبلٹ دے دی تھی مجھے۔۔۔"
            ایمن نے ذرا کی ذرا سر اٹھا کر جواب دیا اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔۔۔
            " ماما جان یہ لیں۔۔۔یہ آپ کا کپ۔۔۔اور یہ ایمن کا۔۔۔ایمن اٹھ جاؤ گڑیا اور اٹھ کر یہ قہوہ پی لو۔۔۔کل سکول جاتے وقت کتنا کہا تھا کہ موسم بدل رہا ہے گرم شال لے لو۔۔۔مگر تب تمہیں گرمی لگ رہی تھی۔۔۔اب دیکھا بات نہ ماننے کا نتیجہ۔۔۔"
            عینا سب کے لیے کلونجی کا قہوہ بنا کر کپ ٹرے میں رکھ کر کمرے میں داخل ہوئی اور ایک کپ مہرالنساء اور دوسرا ایمن کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔اور اپنا کپ ٹرے سے اٹھا کر بیڈ پہ انکے ساتھ ہی کمفرٹر میں گھس گئ۔۔۔
            " بیٹا عائلہ کے لیے نہیں بنائی کیا۔۔۔"
            مہرالنساء نے عائلہ کا کپ ٹرے میں نہ دیکھ کر ہوچھا۔۔۔
            " نہیں امی جان۔۔۔آپی کا چائے کا موڈ تھا اس لیے ان کے لیے نہیں بنائی۔۔۔"
            عینا نے قہوے کی چُسکی لیتے جواب دیا۔۔۔
            " ہممممم۔۔۔۔بیٹا آج آپا سکینہ کی بیٹی حوریہ کی مہندی بھی ہے۔۔۔جانا نہیں ہے کیا۔۔۔"
            مہرالنساء کو اچانک یاد آیا تو عینا سے استفسار کیا۔۔۔
            " ماما سچ پوچھیں تو دل نہیں چاہ رہا۔۔۔اوپر سے سردی بھی بہت زیادہ ہو گئ ہے۔۔۔اور گھر میں جو حالات رہے انکی وجہ سے ہم کوئی تیاری بھی نہیں کر سکے۔۔۔"
            عینا نے جواب دیا۔۔۔
            " بیٹا وہ تو کوئی مسلہ نہیں ہے بازار سے ریڈی میڈ گارمنٹس دیکھ لو۔۔۔نہ جانے کی بیٹا کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔آپا خفا ہوں گی۔۔۔بہت محبت اور مان سے کہ کر گئ تھیں وہ۔۔۔میرا خیال ہے کہ ہمیں جانا چاہیے۔۔۔جہاں عزت، پیار اور خلوص ملے اس جگہ کو اس رشتے کو چھوڑنا نہیں چاہیے بیٹا۔۔۔"
            مہرالنساء نے مدبرانہ اندازیں اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
            " ٹھیک ہے امی جان۔۔۔جیسے آپ کہیں۔۔۔عائلہ آپی فری ہو کر آتی ہیں تو ہم بازار سے ہو آتے ہیں۔۔۔"
            عینا نے اپنی ماں کی بات پہ فوراً سرتسلیم خم کرتے کہا۔۔۔

            " عینا کی بچی دودھ کے نیچے ویسے ہی آگ جلتی چھوڑ آئی تھی۔۔۔سارا ابل کر اندر گر پڑا۔۔۔"
            عائلہ ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے اندر داخل ہوتے ذرا تیز اور افسوس بھرے لہجے میں بولی۔۔۔اور کمرے میں ایک سائیڈ میں رکھے صوفہ پہ بیٹھ کر اطمینان سے چائے پینے لگی۔۔۔
            " اففففف۔۔۔۔۔۔سارا گر گیا کیا۔۔۔؟"
            عینا بے اختیار اپنے ماتھے پہ اپنا بایاں ہاتھ مار کر افسوس سے بولی۔۔۔
            " ہمممممم۔۔۔۔سارا۔۔۔۔"
            عائلہ نے بھی افسوس کا اظہار کرتے کہا۔۔۔
            " سچ میں مجھے بلکل دھیان نہیں رہا۔۔۔
            کیا تھوڑا سا بھی نہیں بچا۔۔۔ماما کو 12 بجے کی میڈ دودھ سے دینی ہوتی ہے۔۔۔اب کیا کریں گے۔۔۔"
            عینا کو ایک اور فکر لاحق ہوئی اور اپنی لاپرواہی پہ مزید شرمندہ ہونے لگی۔۔۔
            " چلو بیٹا کوئی بات نہیں۔۔۔جو ہونا تھا ہوگیا۔۔۔پریشان مت ہو تم لوگ۔۔۔میں آج پانی سے لے لوں گی کچھ نہیں ہوتا۔۔۔"
            مہرالنساء نے بات کو رفع دفع کرتے انکو پرسکون کرنے کو کہا۔۔۔
            " تم نے میری بات پہ غور نہیں کیا۔۔۔اگر کیا ہوتا تو ایسے پریشان نہ ہوتی۔۔۔"
            اب کے عائلہ نے مسکراتے ہوئے عینا کی طرف شرارت سے دیکھ کر کہا۔۔۔اس کا ابھی مزید موڈ تھا عینا کو تنگ کرنے کا۔۔۔لیکن مہرالنساء کی وجہ سے جلدی سے اپنے پھیلائے رائتے کو سمیٹنے لگی۔۔۔
            " کیا مطلب۔۔۔آپ خود ہی تو کہ رہی ہیں کہ دودھ ابل کر اندر پڑ گیا ہے۔۔۔اور سارا گر گیا ہے۔۔۔
            اس میں نہ سمجھ میں آنے والی تو کوئی بات نہیں تھی۔۔۔"
            عینا نے حیرانگی سے کہا۔۔۔
            " ہاں تو میں نے کب کہا کہ دودھ ابل کر باہر پڑ گیا سارا۔۔۔اور سارا نیچے گرگیا۔۔۔
            میں نے کہا تھا کہ سارا دودھ ابل کر اندر پڑ گیا۔۔۔یعنی دودھ ابلا ، اوپر تک آیا بھی۔۔۔مگر پھر اندر واپس گر گیا۔۔۔
            نیچے گرنے کی کب بات کی میں نے۔۔۔"
            عائلہ نے اپنی ہنسی ضبط کرتے کہا۔۔۔مگر عینا کی شکل کے بگڑتے زاویے دیکھ کر اس کی زور کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔عائلہ کی بات اور اس کی شرارت پہ مہرالنساء بھی مسکرا دی۔۔۔اپنی ماں کو مسکراتے دیکھ کر عینا بھی مسکرا دی۔۔۔
            " ماما ویسے یہ صارم بھائی کتنے اچھے ہیں ناں۔۔۔بلکہ فجر اور ہائمہ خالہ بھی۔۔۔سب ہی بہت اچھے ہیں ناں۔۔۔پتہ ماما میرا دل کرتا کہ کاش وہ ہماری فیملی کا حصّٰہ ہوتے۔۔۔"
            عینا بھی کہاں ادھار رکھنے والی تھی۔۔۔عائلہ کی شرارت پہ اس کو بھی شرارت سوجھی تھی۔۔۔اس لیے عائلہ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے جان بوجھ کر صارم شاہ کا ذکر چھیڑ بیٹھی۔۔۔
            " ہاں بیٹا تم ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔وہ سب بہت اچھے ہیں۔۔۔میں سوچ رہی تھی کہ اگر عائلہ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں صارم شاہ سے عائلہ کے رشتے کی بات کروں۔۔۔میری دلی خواہش ہے کہ یہ رشتہ ہو جائے۔۔۔وہ بہت مان دیتا ہے مجھے۔۔۔مجھے یقین ہے کہ اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔
            " ماما یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟
            عینا کی شرارت سمجھتے ہوئے عائلہ ابھی اس کو گھور ہی رہی تھی کہ اپنی ماں کے خیالات جان کر اس کو چائے کا سپ لیتے زور کا اچھو لگا۔۔۔جو ایک پھوار کی صورت میں اس کے منہ سے خارج ہو کر ارد گرد نقش و نگار بنا گیا۔۔۔اس نے کپ فوراً ٹیبل پہ رکھا اور بے یقینی سے اپنی ماں سے سوال کیا۔۔۔
            جبکہ عینا کو بے انتہا خوشی ہوئی تھی۔۔۔اس کا دل کہتا تھا کہ صارم شاہ بھی عائلہ میں انٹرسٹڈ ہے۔۔۔صارم شاہ کا آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے عائلہ کی طرف کن اکھیوں سے دیکھنا اس نے کئ بار نوٹ کیا تھا۔۔۔مگر وہ اب تک یہ بات زبان پہ کیوں نہیں لایا تھا یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی۔۔۔
            اس کی دلی خواہش تھی کہ عائلہ کا نام صارم شاہ سے جڑ جائے۔۔۔اور اب اپنی والدہ کی بات سن کر اس کو سارا مسلہ ہی حل ہوتا نظر آیا تھا۔۔۔
            " کیوں جی۔۔۔کیوں نہیں ہو سکتا یہ۔۔۔اتنے اچھے تو ہیں وہ۔۔۔اور امی ٹھیک کہ رہی ہیں وہ امی کو انکار کر ہی نہیں سکتے۔۔۔بلکل ٹھیک سوچ رہی ہیں وہ۔۔۔"
            مہرالنساء کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عینا نے تنک کر فوراً جواب دیا۔۔۔
            " عائلہ ادھر آؤ میری بچی۔۔۔یہاں میرے پاس آ کر بیٹھو۔۔۔"
            مہرالنساء نے غصّٰہ دباتی عائلہ کو کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔اور سوئی ہوئی ایمن کو سیدھا کر کے لٹاتے ہوئے اپنے پاس ہی عائلہ کے لیے جگہ بنائی۔۔۔عائلہ غصے سے عینا کو گھورتے ہوئے اپنی ماں کے پاس آ کر بیٹھ گئ۔۔۔
            " عائلہ میری بچی میں نے جو بھی فیصلہ لیا ہے بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے۔۔۔میں نے اک عمر تمہارے باپ کے ساتھ گزاری ہے۔۔۔اور اس کا ہر رنگ پہچانتی ہوں۔۔۔وہ ایسا انسان ہے کہ بنا مطلب کے اپنے مرتے ہوئے ماں باپ کو بھی نہ پانی پلائے۔۔۔اس کا یک دم ایسے مہربان ہونا۔۔۔خاص کر تم سے محبت جتانا جس کو ساری عمر نفرت سے دیکھتا رہا۔۔۔مجھے یہ سب بہت پریشان کر رہا ہے۔۔۔نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی قیامت سر پہ کھڑی ہے۔۔۔
            اس لیے جتنی جلدی ہو سکے میں چاہتی ہوں کہ تم لوگ اپنے گھر بار والی ہو جاؤ۔۔۔تم لوگوں کو اس وقت کسی مظبوط سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔
            میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اپنے باپ کی وجہ سے تم لوگ مرد ذات سے شدید متنفر ہو۔۔۔مگر بیٹا سب ایک سے نہیں ہوتے۔۔۔
            اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم چاہے کتنا ہی مردوں کے وجود سے انکی اہمیت سے، انکی ضرورت سے انکار کریں۔۔۔
            یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ بھیڑیوں سے بھرے اس معاشرے میں عورت کے سر پہ کسی مرد کا سائبان بے انتہا ضروری ہے۔۔۔
            اور صارم شاہ سے بہتر سائبان تمہارے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔مجھ پہ بھروسہ رکھو میری بچی۔۔۔"
            مہرالنساء نے عائلہ کے گرد اپنے بازو کا دائرہ بناتے اس کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔۔۔
            " امی جان پلیز میں آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔ہمیشہ آپکے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔اور ویسے بھی میں ابھی شادی کے جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتی۔۔۔مجھے لگتا ہے میں اس رشتے کو نبھا نہیں سکوں گی۔۔۔پلیز امی جان میں یہ نہیں کر سکتی۔۔۔"
            عائلہ نے مہرالنساء سے لپٹ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔عینا کو ہرگز توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا ری ایکشن شو کرے گی۔۔۔
            اس نے کبھی بھی ظاہر نہیں کیا تھا کہ اپنی شادی کو لے کر اسکے دل میں کتنے خدشات پل رہے ہیں۔۔۔اور کیوں۔۔۔وہ کس بات سے خوفزدہ ہے۔۔۔عینا فلحال خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی کہ بعد میں وہ اس سے اس موضوع پہ بات ضرور کرے گی۔۔۔
            " بیٹا آپ کو اپنی ماں پہ بھروسہ نہیں ہے کیا۔۔۔میں کبھی بھی آپ کے لیے غلط فیصلہ نہیں کرسکتی۔۔۔اور جہاں تک نبھانے کی بات ہے تم فکر مت کرو۔۔۔تم بس ہاں کردو۔۔۔نبھا صارم لے گا۔۔۔"
            مہرالنساء نے مسکرا کر عائلہ کو تسلی دیتے کہا۔۔۔
            " ماما آپکو اس پہ اتنا یقین کیوں ہے۔۔۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ جیسا آپ سوچ رہی ہیں وہ ویسا نہ سوچتا ہو۔۔۔"
            عائلہ نے اپنی طرف سے اپنی ماں کو روکنے کے لیے دوسرا نقطہ ان کے سامنے رکھا۔۔۔
            " تم اس کی فکر مت کرو۔۔۔میں جانتی ہوں وہ انکار نہیں کرے گا۔۔۔"
            اس سے پہلے کہ مہرالنساء کچھ اور کہتیں کہ دروازے پہ دستک سن کر عائلہ نے سکون کا سانس لیا اور باہر دیکھنے کا کہ کر فوراً اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔
            " اسلام علیکم۔۔۔۔!
            کیا حال چال ہیں آنٹی کیسی ہیں آپ۔۔۔اب کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔۔؟
            تھوڑی دیر بعد فجر اور عائلہ کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔فجر نے مہرالنساء کے آگے سر پہ پیار لینے کے لیے سر جھکاتے ہوئے سلام کیا اور ساتھ ہی انکا حال احوال دریافت کیا۔۔۔
            " الّٰلہ کا شکر ہے بیٹا میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم سناؤ کیسی ہو۔۔۔گھر میں باقی سب کیسے ہیں۔۔۔آج کافی دنوں بعد چکر لگایا ہے۔۔۔سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔"؟
            " جی آنٹی سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔۔۔اصل میں آئمہ خالہ کی واپسی ہے کل تو اسی وجہ سے نہیں آ سکی۔۔۔امی جان اور خالہ بھی آنا چاہ رہی تھیں۔۔۔لیکن پیکنگ شیکنگ کافی پڑی تھی انکی کرنے والی۔۔۔امی جان نے اور خالہ نے سلام بھیجا ہے۔۔۔خالہ کو رخصت کر کے امی جان چکر لگانے کا کہ رہی تھیں۔۔۔"
            فجر نے تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔
            " بیٹا صارم کے ساتھ آئی ہو کیا۔۔۔"؟

            " جی آنٹی بھیا چھوڑ کر گئے ہیں۔۔۔"

            " تو اندر کیوں نہیں آیا وہ۔۔۔اندر بلا لیتی اس کو میں بھی مل لیتی۔۔۔"

            " انکو کچھ ضروری کام تھا۔۔۔کہ رہے تھے واپسی پہ آپ سے ضرور مل کر جائیں گے۔۔۔
            کوئی بات ہوئی ہے کیا۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے عائلہ روئی ہے۔۔۔عائلہ کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
            فجر نے عائلہ کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے پہلے سب کی طرف دیکھا پھر عائلہ سے ڈائریکٹ پوچھا۔۔۔
            " کچھ نہیں ایسے ہی بس۔۔۔۔۔۔چائے پیو گی۔۔۔۔۔۔میں بنا کر لاتی ہوں۔۔۔"
            عائلہ نے بات کو ٹالتے ہوئے پہلے چائے کا فجر سے پوچھا پھر بنا اس کے جواب کا انتظار کیے اٹھ کر جانے لگی تو فجر نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔
            " میں ناشتہ چائے سب اچھے سے کر کے آئی ہوں۔۔۔تم بیٹھو یہاں آرام سے بس۔۔۔"
            فجر نے عائلہ کو کھینچ کر اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔
            " ایسے ہی بس تو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔بولو کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
            فجر نے اب کے فکرمندی سے اس کی طرف دیکھ کر ذرا دھونس جماتے لہجے میں پوچھا۔۔۔ساتھ ہی آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے روم سے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔
            " عینا بیٹا جاؤ فجر کے لیے کچھ خشک میوہ جات ہی لے آؤ۔۔۔وہ تو کھائے گی ناں۔۔۔اگر چائے نہیں پینی تو۔۔۔"
            مہرالنساء نے فجر کی خاطر تواضح کے بہانے عینا کو وہاں سے اٹھایا۔۔۔وہ جانتی تھیں کہ عینا اب جلدی واپس نہیں آئے گی۔۔۔اور اسکے پیچھے پھر عائلہ اور فجر بھی جائیں گی۔۔۔اور واقع کچھ دیر گزرنے کے بعد عینا نہیں آئی تو عائلہ اسکو دیکھنے چلی گئ۔۔۔پھر مہرالنساء سے معزرت کرتے فجر بھی اٹھ کر ان کو دیکھنے روم سے باہر نکل گئ۔۔۔اور یہی وہ چاہتی تھیں کہ دونوں سہیلیاں ریلیکس ہوکر ایک دوسرے سے بات کر سکیں۔۔۔
            " اب پھوٹو منہ سے کیا ہوا ہے۔۔۔وہاں میں آنٹی کی وجہ سے چپ تھی لیکن اگر اب تم نے فضول بہانے گڑے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔"
            دوسرے روم میں آتے ہی فجر بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔عائلہ اور عینا بھی اس کے قریب آ بیٹھیں۔۔۔
            " سچ میں آپی پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔بس ہم آپی کو مایوں بٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔"
            عینا نے عائلہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
            " تم نے اگر اب اپنی چونچ ہلانی بند نہیں کی تو میں سچ میں تمہارا سر پھاڑ ڈالوں گی۔۔۔"
            عائلہ نے انتہائی غصے سے عینا کو وارن کرتے کہا۔۔۔عائلہ کو اتنے غصے میں دیکھ کر عینا نے جلدی سے بڑی فرمانبرداری سے اپنی انگشت شہادت اپنے ہونٹوں پہ رکھی اور سر ہلا کر اقرار کیا کہ وہ اب کچھ نہیں بولے گی۔۔۔
            " عائلہ یہ کیا کہ رہی ہے۔۔۔کس سے ہو رہی ہے شادی۔۔۔اور اتنی اچانک۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔"
            فجر کو تو عینا کی بات سن کر ایک جھٹکا لگا تھا۔۔۔اس لیے جلدی جلدی پریشانی سے ہکا بکا ہو کر سوال کرتی گئ۔۔۔
            " اوہو کچھ نہیں ہے ایسا۔۔۔تم چھوڑو اس کو عادت ہے اسکی فضول بولنے کی۔۔۔"
            " فضول بولنے کی تو عادت نہیں ہے اسکی۔۔۔ہاں بنا کوئی لحاظ رکھے بندے کی اوقات کے مطابق ضرور بول پڑتی ہے۔۔۔اور یہ اچھی عادت ہوتی ہے۔۔۔اس لیے مجھے ٹالو مت۔۔۔شادی کی بات تو ہوئی ہے تمہاری۔۔۔اب یہ بتاؤ کس سے۔۔۔خیر دفعہ کرو جو بھی ہے۔۔۔منع کردو اس کو۔۔۔یہ شادی نہیں ہو سکتی۔۔۔"
            فجر نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے عینا اور عائلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
            " ہائے فجر آپی آپ کیوں ظالم سماج بن رہی ہیں۔۔۔عائلہ آپی تو پہلے ہی قابو میں نہیں آ رہیں اور اب آپ بھی ان کو شہ دے رہی ہیں۔۔۔اور انکی شادی کیوں نہیں ہو سکتی۔۔۔ماشاءالّٰلہ سے حسن ایسا کہ چاند بھی شرمائے۔۔۔اور شباب ایسا کہ خود سے شرمائیں۔۔۔"
            عینا نے اچانک سے بیڈ پہ کھڑے ہو کر دہائی دیتے ہوئے لہرا لہرا کر بولی۔۔۔اس کی حرکت پہ اور باتوں پہ فجر کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوئی وہیں پہ عائلہ نے جھینپتے ہوئے اس کے بازو کو پکڑ کر ایک جھٹکے سے واپس بیڈ پہ پھینکا اور ایک زوردار دھموکا اس کی کمر میں جڑا۔۔۔
            " اففففف۔۔۔ہائے مر گئ میں۔۔۔اتنی زور سے کون مارتا ہے اپنی معصوم سی بہن کو۔۔۔کمر توڑ کے رکھ دی ہے میری۔۔۔ہائے میرے الّٰلہ اب کون مجھ سے شادی کرے گا۔۔۔خود تو کرنی نہیں ہے کم سے کم میرا ہی سوچ لیتیں۔۔۔مجھے تو کرنی تھی ناں۔۔۔ہائے ظالموں۔۔۔۔کوئی ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔کوئی ایمبولینس بلاؤ۔۔۔۔ہائے مر گئ میں۔۔۔۔"
            عینا کے واویلے اور اس کے ڈرامے پہ فجر کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔۔۔جبکہ عینا ہلکی ہلکی سمائل سے اسکی طرف دیکھے جائے۔۔۔عینا کمر پکڑ کر ایسے الٹی سیدھی ہو رہی تھی جیسے سچ میں بہت تکلیف میں ہو۔۔۔
            " اگر دو منٹ میں تم نے اپنا منہ بند نہیں کیا ناں تو سچ میں تمہاری کمر توڑ دوں گی۔۔۔اور کوئی نہیں بیاہے گا تمہیں۔۔۔"
            عائلہ نے عینا کا ہاتھ پکڑ کر اسکو سیدھا کرتے ہوئے مصنوعی غصہ دیکھاتے کہا۔۔۔
            " توبہ ہے قسم سے آپ سچ میں بہت ظالم ہیں۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔۔نہیں بولتی کچھ۔۔۔فجر آپی آپ کیوں کہ رہی ہیں کہ منع کردیں۔۔۔"
            عینا نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اب کے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
            " وہ تو میں بعد میں بتاؤں گی۔۔۔لیکن پہلے تم لوگ بتاؤ کہ یہ شادی والا کیا چکر ہے۔۔۔"
            فجر نے بھی سنجیدہ ہوتے پوچھا۔۔۔عائلہ نے فجر کی بات سن کر فوراً عینا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ فجر کو سچ نہ بتا دے کہ وہ اور امی کیا سوچ رہی ہیں۔۔۔
            " کوئی چکر نہیں ہے سچ میں۔۔۔بس امی جان اپنے شوہر کے ڈر سے چاہ رہی ہیں کہ اگر کوئی اچھا رشتہ مل جائے تو جلد از جلد ہماری شادی کردیں۔۔۔"
            عینا نے کچھ سنجیدگی اور تلخ لہجے میں کہا۔۔۔
            " کیا ہوا ہے۔۔۔انکل نے پھر کچھ کیا ہے کیا۔۔۔کیا کیا ہے انھوں نے۔۔۔بتاؤ مجھے۔۔۔میں بابا سے بات کروں گی۔۔۔وہ دیکھ لیں گے سب۔۔۔"
            فجر نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
            " نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔بس امی جان کو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔"
            عائلہ نے فجر کو تسلی دیتے کہا۔۔۔پھر اپنی امی کے خدشات اور انکی سوچ کے بارے میں بتایا۔۔۔
            " ہمممممم۔۔۔۔یار سچ پوچھو تو میں بھی آنٹی کی سوچ سے متفق ہوں۔۔۔اگر وہ کہ رہی ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے تو یقیناً ہوگی۔۔۔
            ویسے اس سب سے بچنے کا بہترین حل میرے پاس موجود ہے۔۔۔"
            فجر نے ساری بات سن کر سنجیدگی سے کہا۔۔۔پھر مسکراتے ہوئے معنی خیز نظروں سے عائلہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
            " تمہارے پاس کیا حل ہے۔۔۔"
            عائلہ نے کہا
            " وہ یہ کہ۔۔۔۔جیسا کہ آنٹی کہ رہی ہیں کہ تم لوگوں کو کسی مظبوط سائبان کی ضرورت ہے تو۔۔۔۔۔تو میرا خیال ہے کہ۔۔۔۔۔صارم بھائی سے بہتر اوپشن کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔"
            فجر نے سنسنی پھیلاتے ہوئے رک رک کر مسکراتے ہوئے اپنی بات کمپلیٹ کی۔۔۔
            " کیاااااااا۔۔۔۔۔دماغ خراب ہے تمہارا۔۔۔۔۔"
            عائلہ کو تو اس کی بات سن کر ایک جھٹکا ہی لگا تھا۔۔۔
            " اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔اور آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بہت جلد امی جان اس سلسلے میں آپکی طرف آنے والی ہیں۔۔۔"
            فجر نے مسکراتے ہوئے ایک اور دھماکا کیا۔۔۔۔
            " کیااااااا۔۔۔۔سچ میں۔۔۔۔"
            عینا نے بے اختیار زور سے فجر کو ہگ کرتے پر مسرت لہجے میں بے یقینی سے پوچھا۔۔۔
            " جی سچ۔۔۔ہینڈرڈ پرسنٹ سچ۔۔۔"
            فجر نے بھی اس کو خود میں زور سے بھینچتے ہوئے کہا۔۔۔
            " اس کا مطلب میں صحیح سوچ رہی تھی۔۔۔مجھے پہلے ہی شک تھا کہ صارم بھائی آپی میں انٹرسٹڈ ہیں۔۔۔سچ میں فجر آپی میرا بہت دل کرتا تھا کہ صارم بھائی میرے پکے والے بھائی بن جائیں۔۔۔"
            عینا سے اپنی خوشی چھپانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ساری دنیا میں اعلان کر ڈالے۔۔۔جو وہ سوچتی تھی۔۔۔چاہتی تھی الّٰلہ نے اس کی دعا سن لی تھی۔۔۔
            " عائلہ تم کیوں خاموش ہو۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔تمہیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔پلیز عائلہ اگر کوئی اعتراض ہے بھی تو اس کو ختم کردو۔۔۔بھائی بہت اچھے ہیں۔۔۔بہت خوش رکھیں گے تمہیں۔۔۔"
            فجر نے گم صم بیٹھی عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر ہلکے سے دباتے ہوئے کہا۔۔۔عائلہ کی خاموشی سے وہ ایک پل کو پریشان ہوئی تھی۔۔۔اس لیے فکرمندی سے ہوچھا۔۔۔
            " میں نے اپنی شادی کا کبھی نہیں سوچا۔۔۔اور نہ سوچنا چاہتی ہوں۔۔۔اس لیے پلیز یہیں ختم کر دو اس بات کو۔۔۔"
            عائلہ نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں انکار کرتے ہوئے کہا۔۔۔اس کی بات سن کر فجر پریشان ہوئی تھی۔۔۔
            " عائلہ انکار کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے ناں۔۔۔کیا کمی ہے بھائی میں۔۔۔خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف سلجھی نیچر کے مالک ہیں سارا گاؤں انکی تعریف کرتے نہیں تھکتا۔۔۔اور سب سے بڑی بات کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔۔۔بہت چاہتے ہیں تمہیں۔۔۔اور ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔اپنے انکار کی کوئی ایک ٹھوس وجہ بتا دو پھر میں بھی دوبارہ بات نہیں کروں گی۔۔۔"
            فجر پریشانی سے بولی۔۔۔
            " کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔بس دل نہیں مانتا شادی کےلیے۔۔۔نہ صارم سے نہ کسی اور سے۔۔۔پلیز ختم کرو اس بات کو۔۔۔"
            عائلہ نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔۔۔
            " فجر آپی آپ فکر مت کریں۔۔۔ماما خود منا لیں گی انکو۔۔۔بکاز انکی بھی یہی خواہش ہے۔۔۔آپی وہی کریں گی جو ماما کی خواہش ہے۔۔۔اس لیے چل کریں آپ۔۔۔"
            عینا نے مسکراتے ہوئے فجر کو تسلی دیتے کہا۔۔۔
            " اوکےےےےےے۔۔۔۔۔ویسے میرے پاس 2 گڈ نیوز ابھی اور بھی ہیں۔۔۔"
            فجر نے عینا کی بات ٹھیک ہی لگی تھی۔۔۔فلحال واقع عائلہ کے شادی کے موضوع کو چھوڑنا ہی بہتر تھا۔۔۔اگر آنٹی بھی یہی خواہش رکھتی ہیں۔۔۔تو پھر یقیناً عائلہ کو سبکی بات ماننی پڑے گی۔۔۔یہی سوچ کر اس دوسرے موضوع کی طرف آتے کہا۔۔۔جس کے لیے وہ آئی تھی۔۔۔ایک مسلہ تو حل ہوا۔۔۔
            " اب اور کونسی گڈ نیوز باقی ہیں۔۔۔نیو ائیر کے نیو دھماکے کرنے کا تم نے ٹھیکہ لیا ہے کیا۔۔۔"
            عائلہ نے ماحول کو خوشگوار کرنے کو ہلکے پھلکے لہجے میں مسکراتے کہا۔۔۔۔
            " ایک تو میری ہے۔۔۔سیکنڈ۔۔۔۔۔۔سیکنڈ عینا کے لیے ہے۔۔۔اب بتاؤ کہ پہلے کونسی سنو گی۔۔۔"
            فجر نے سسپنس کری ایٹ کرتے مسکرا کر کہا۔۔۔
            " یار جو بھی ہے فٹا فٹ بتا دو۔۔۔نہیں تو اب ہارٹ اٹیک ہو جائے گا قسم سے۔۔۔دھماکے پہ دھماکے اب برداشت نہیں ہو رہے۔۔۔"
            عینا اور عائلہ ایک ساتھ دل پہ ہاتھ رکھ کر بے ہوش ہونے کی مصنوعی ایکٹنگ کرتے بولیں۔۔۔
            " پہلی گڈ نیوز یہ کہ۔۔۔سب بڑوں کی متفقہ رائے سے میرے نام کے ساتھ شرجیل کا نام جوڑ دیا گیا ہے۔۔۔اور میں نے بھی اوکے کا سگنل دے دیا ہے۔۔۔اور دوسری بات۔۔۔۔۔۔"
            فجر نے مسکراتے ہوئے خبر سنائی۔۔۔یہ بات عائلہ کے لیے تو گڈ نیوز تھی۔۔۔مگر عینا کے لیے سچ میں ایک دھماکا ہی ثابت ہوئی تھی۔۔۔وہ بے یقینی سے فجر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
            " کیا آپ سچ میں خوش ہیں۔۔۔آپ اس کے لیے کیسے مان سکتی ہیں۔۔۔"
            عینا نے شاکڈ ہوتے بے یقینی سے فجر سے پوچھا۔۔۔
            حیرانی بے یقینی کے ساتھ اس کے لہجے میں دبا دبا غصّٰہ واضح طور پہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔۔۔جبکہ عائلہ حیرانی سے عینا کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔اسے عینا کی ناپسندیدگی اور ایسے ری ایکشن کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔۔۔


            ماضی۔۔۔۔!

            پورے ایک ہفتہ سے دلاور اور ماسو ماں میں بول چال نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔ماسو ماں کی خوشی کی خاطر اب وہ شام ڈھلے ہی گھر لوٹ آتا۔۔۔بہت دفعہ اس نے کوشش کی کہ ماسو ماں اس سے پہلے کی طرح سے پیش آئیں۔۔۔اس کے لیے وہ بات بے بات کبھی ہنس پڑتا اور کبھی بلا جواز بولے جاتا۔۔۔کبھی کسی چیز کا علم ہونے کے باوجود ماسو ماں سے پوچھنے لگتا۔۔۔مگر رضوانہ خاتون جتنا ضروری ہوتا اتنا جواب دے کر خاموش ہو جاتیں۔۔۔جبکہ فاطمہ اس سے ایسے بچنے کی کوشش کرتی جیسے وہ کوئی اجنبی ہو۔۔۔یہ سب صورت حال اس کے لیے شدید اذیت ناک بن رہی تھی۔۔۔
            " ماسو ماں پلیز معاف کردیں۔۔۔بس کردیں اب۔۔۔میں سچ کہ رہا ہوں اگر آپ نے مزید یہ رویہ رکھا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔۔۔پلیز ماسو ماں معاف کردیں۔۔۔"
            ظہر کی نماز پڑھ کر رضوانہ خاتون نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو دانی جائے نماز پر انکے سامنے بیٹھتا ہوا بے اختیار سسک اٹھا۔۔۔
            " دانی۔۔۔۔میرے بچے۔۔۔تمہیں اگر میری پرواہ ہے تو میری بات مان کیوں نہیں لیتے۔۔۔یہ سب چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔۔ہم یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے۔۔۔کسی اور شہر کسی اور جگہ۔۔۔حہاں کوئی ہمیں جانتا نہ ہو۔۔۔تم سے ناراض ہو کر تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تم سے غافل ہو گئ ہوں۔۔۔
            تم نہیں جانتے میرے روح و دل کیسے لہولہان ہو رہے ہیں۔۔۔مجھے بتاؤ بیٹا۔۔۔کیا مسلہ ہے۔۔۔کیا بات ہے ایسی جو تم واپس نہیں پلٹ سکتے۔۔۔"
            رضوانہ خاتون نے رقت بھرے لہجے میں دانی کے سر پہ ہاتھ پھیرتے اس کے آنسو صاف کرتے کہا۔۔۔
            " ماسو ماں آپ جو کہیں گی میں وہ کروں گا۔۔۔لیکن فاطمہ آپی والی بات آپ بھی اب دوبارہ نہیں کریں گی۔۔۔"
            دانی نے سر جھکاتے نروٹھے پن سے کہا۔۔۔
            " ٹھیک ہے نہیں کرتی۔۔۔اب خوش..."
            رضوانہ خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

            دو ہفتے بعد۔۔۔۔!
            دانی بیٹا فاطمہ ابھی تک سکول سے واپس نہیں لوٹی۔۔۔میرا دل ہول رہا ہے دانی۔۔۔پتہ کرو اسکا کہاں رہ گئ ہے وہ۔۔۔پہلے تو کبھی اتنی دیر نہیں لگائی اس نے۔۔۔"
            رضوانہ خاتون نے فکرمندی اور پریشانی سے پر انداز لیے دانی سے کہا۔۔۔
            دانی ورکشاپ کا کچھ سامان جو گھر پہ پڑا تھا لینے آیا تو آگے سے اس کو یہ خبر سننے کو ملی۔۔۔
            " ماسو ماں آپ فکر مت کریں۔۔۔میں ابھی پتہ کرتا ہوں۔۔۔دانی کو بھی فکر لاحق ہوئی تو ماسو ماں کو تسلی تشفی دینے لگا۔۔۔کہ اسی وقت اس کے سیل پہ ان نون نمبر سے میسج موصول ہوا۔۔۔
            بہت شوق ہے ناں تمہیں دوسروں کی عزتیں بچانے کا۔۔۔انکے سروں پہ چادر ڈالنے کا۔۔۔
            اب اپنے گھر کی عزت بچا کر دکھاؤ۔۔۔اسکی عزت بچانا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔اسکا تن ڈھانپنے کو تمہیں چادر کیا۔۔۔ کاغذ کے ٹکڑے بھی نہیں ملیں گے۔۔۔۔
            ہاں۔۔۔اگر تم ایک گھنٹے کے اندر اندر اس تک پہنچ جاؤ تو پھر شائد کچھ ہو سکے۔۔۔لوکیشن سینڈ کر رہا ہوں۔۔۔انتظار رہے گا تمہارا۔۔۔
            جیسے جیسے وہ میسج پڑھتا گیا اس کا خون کھولتا گیا۔۔۔ماسو ماں کے پوچھنے پکارنے پہ بنا کوئی جواب دئیے اپنی بائیک پہ بیٹھا وہ تیزی سے گھر سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

            " بلال۔۔۔فوری طور پہ اپنے آدمیوں کو اکٹھا کرو۔۔۔جلدی۔۔۔صرف 15 منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔"
            باہر نکلتے ہی دانی نے بلال کو فون کیا اور تمام ہدایات دیں۔۔۔اور خود بھی آندھی طوفان بنا موصول ہوئی لوکیشن کی طرف بائیک دوڑانے لگا۔۔

            Comment


            • #46
              ایک شاندار سٹوری کی شاندار اپڈیٹ

              Comment


              • #47

                Episode, 26#
                " اوہو۔۔۔تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔تم کیوں اتنا ہائپر ساؤنڈ کر رہی ہو۔۔۔"
                عائلہ دل کی بات زبان پہ لاتی بولی۔۔۔
                " مم۔۔۔مجھے کیوں برا لگے گا۔۔۔میں تو ویسے ہی کہ رہی تھی کہ ایسے اچانک۔۔۔پہلے تو کبھی انکے اس کزن کا ذکر تک نہیں سنا اور اب بیٹھے بٹھائے۔۔۔میرا خیال ہے کہ فجر آپی کو بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے۔۔۔بے شک بڑوں کی خواہش ہے۔۔۔مگر زندگی انھوں نے گزارنی ہے۔۔۔بڑے تو فیصلہ کردیتے ہیں مگر بھگتنا تو لڑکی کو پڑتا ہے۔۔۔پھر یہی بڑے کبھی خاندان کے ٹوٹ جانے کے ڈر سے اور کبھی زمانے کے ڈر سے اسی جہنم میں ساری زندگی پڑے رہنے کو مجبور کرنے لگتے ہیں۔۔۔اور جو لڑکے باہر کے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھے ہوں انکے بارے تو اور زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا چاہیے۔۔۔ہیں ناں فجر آپی۔۔۔میں ٹھیک کہ رہی ہوں ناں۔۔۔"؟
                عینا کو اچانک اپنی غلطی اور جزباتی پن کا احساس ہوا تو فوراً ڈھیلے پڑتے بولی۔۔۔کیونکہ عائلہ ہر بات سے اب تک انجان تھی۔۔۔اور صارم سے بھی اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرے گی۔۔۔اب اگر عائلہ کو شک ہوجاتا کہ کوئی بات ہوئی ہے تو اس سے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔۔۔پھر ہر صورت اسے سب بتانا پڑتا۔۔۔اور اس کے بعد صارم کے لیے اس کو منانا اور مشکل ہو جاتا۔۔
                اسی وجہ سے وہ بات کو کسی اور طرف لے گئ۔۔۔
                " ہمممم۔۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔اور نہ صرف میں نے بلکہ سب بڑوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے۔۔۔اس لیے ڈونٹ وری۔۔۔شرجیل بہت اچھے ہیں۔۔۔بلکل ویسے جیسا میں چاہتی تھی۔۔۔"
                فجر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔شرجیل کے ذکر پہ فجر کے چہرے پہ اترے رنگوں نے عینا کو حیران کیا تھا جبکہ عائلہ خوش تھی۔۔۔اس نے فجر کو زور سے ہگ کرتے ہوئے مبارک باد دی۔۔۔
                " اچھا دوسری نیوز کیا ہے۔۔۔اب اس سے بھی پردہ اٹھا دو۔۔۔"
                عائلہ نے فجر کو یونہی لپٹائے مسکراتے ہوئے کہا
                " یار دوسری نیوز یہ کہ خالہ جان اپنے بڑے بیٹے شہریار کے لیے عینا کا رشتہ چاہتی ہیں۔۔۔اور اسی سلسلے۔۔۔۔"

                " پلیز آپی رک جائیے۔۔۔آگے کچھ مت کہیے گا۔۔۔مجھے آپکے لیے برا لگ رہا ہے اور آپ میرے لیے۔۔۔۔
                ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں آپ۔۔۔جبکہ آپ سب جانتی ہیں پھر بھی۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔مجھے ہرگز آپ سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔اگر یہ بات آپکی جگہ کوئی اور کرتا تو منہ توڑ دیتی میں اس کا۔۔۔"
                فجر نے ابھی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ عینا اسے بیچ میں ہی ٹوکتے ہوئے انتہائی غصے سے بول پڑی۔۔۔
                " عینا کیا ہو گیا ہے۔۔۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کچھ ایسا ہے جو میں نہیں جانتی۔۔۔کیا چھپا رہی ہو تم لوگ مجھ سے۔۔۔"
                عائلہ نے مشکوک انداز لیے باری باری دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔فجر اور عینا کچھ پل کو ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہیں۔۔۔عینا نے نفی میں سر ہلاتے منع کیا بتانے کو لیکن فجر کو عائلہ سے چھپانا اب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔پھر فجر نے جو کچھ بھی ہوا نہ صرف وہ بلکہ اسکے بعد خالہ کی طبعیت اور پھر شہریار کا شرمندہ ہونا سب حرف با حرف کہ سنایا۔۔۔جسے سن کر عائلہ کا وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔وہ یک ٹک عینا کو تکتے ہوئے فجر کی بات سنتی رہی۔۔۔اسے اب سمجھ میں آیا تھا کہ وہ صارم شاہ کی اتنی عزت کیوں کرنے لگی تھی۔۔۔کیوں اسکی زبان پہ ہر وقت صارم صارم کا راگ تھا۔۔
                " عینا ٹھیک کہ رہی ہے۔۔۔سب جانتے ہوئے بھی تمہیں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔اور سب جانتے ہوئے شرجیل کے حق میں تمہارا فیصلہ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔تم ایک ایسی چھت کے نیچے کیسے رہ سکتی ہو جہاں انسان نما دزندہ ریتا ہو۔۔۔اور مجھے تو تمہارے صارم بھائی پہ بھی حیرت ہو رہی ہے جو خاموش تماشائی بن کر سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔۔۔وہ کیسے مان گئے تمہارے لیے۔۔اور عینا اتنی بڑی بات تم نے مجھ سے چھپائی۔۔۔تم سے بھی مجھے ایسی توقع ہرگز نہیں تھی۔۔۔
                عائلہ نے ساری بات سننے کے بعد ایک گہرا سانس لیتے پہلے فجر سے پھر عینا سے ناراضگی ظاہر کرتے کہا۔۔۔عینا سر جھکا کر رہ گئ۔۔۔اب وہ کیا بتاتی کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عائلہ اسکی طرف سے بھی پریشان رہے۔۔۔
                " عائلہ شہریار بھائی شروع سے ایسے نہیں تھے۔۔۔بہت نائس نیچر کے سلجھے ہوئے انسان تھے وہ۔۔۔اصل میں وہ ایک لڑکی سے بہت ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔۔۔اس وقت خالہ کے حالات کچھ اتنے اچھے نہیں تھے۔۔۔جس سے شہریار بھائی محبت کرتے تھے اس لڑکی نے دولت اور آسائشوں کے چکر میں کسی اور سے تعلقت بنا لیے۔۔۔بدقسمتی سے بعد میں ایک اور لڑکی انکی زندگی میں آئی تو وہ بھی محبت پہ آسائشوں کو ترجیح دینے والی نکلی۔۔۔تب شہریار بھائی کو ہر عورت سے نفرت ہو گئ۔۔۔انکے نزدیک عورت کا بس ایک ہی روپ قابل عزت تھا اور وہ تھا ماں کا۔۔۔
                جو کچھ بھی ہوا اس پہ وہ دل سے نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ عینا سے معافی کے درخواستگزار بھی ہیں۔۔بقول انکے اپنی ماں کے بعد عینا وہ واحد لڑکی ہے جس کی وجہ سے وہ پھر سے عورت ذات پہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔۔
                اس لیے پلیز جو بھی فیصلہ کرو بہت سوچ سمجھ کر کرو۔۔"
                فجر نے عائلہ اور عینا کو سمجھانے کے لیے نہ صرف شہریار کی زندگی کے ایک پنے سے پردہ اٹھایا بلکہ جزبات کی بجائے عقل سے فیصلہ لینے کے لیے بھی تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔۔
                " مان لیتے ہیں کہ تم جو کہ رہی ہو وہ سب سچ ہے۔۔اور شہریار صاحب کے پاس ایک ریزن تھی۔۔۔مگر یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر آپکا واسطہ غلط لڑکی سے پڑ جائے تو آپ اس کا بدلہ ہر لڑکی سے لیتے پھریں۔۔اپنے پیسے اور اپنی امارت کا رعب ڈالتے ہوئے ہر لڑکی کو بکاؤ سمجھ کر انکی عزتوں کے سودے کرتے پھریں۔۔
                معاف کرنا فجر آپی میری ڈکشنری میں ایسے شخص کے لیے کوئی معافی نہیں ہے جو گردن تک غلاظت میں اترا ہو۔۔نفرت ہے مجھے ایسے مردوں سے جو خود تو پور پور گناہ میں ڈوبے ہوں مگر اپنے لیے بیوی انکو ان ٹچ باکردار چاہیے۔۔
                اگر سچ میں شہریار صاحب شرمندہ ہیں تو ان سے کہو کہ کسی ایسی لڑکی کا ہاتھ تھامیں جو سبکی دھتکاری ہو۔۔جو انکی طرح اپنے ماضی سے شرمندہ و تائب ہو کر الّٰلہ کے بتائے ہوئے احکامات کی روشنی میں اپنی زندگی گزار رہی ہو۔۔
                یا پھر کسی ایسی لڑکی کا ہاتھ تھامیں جو انکی طرح پور پور گناہوں کی دلدل میں ڈوبی ہو۔۔اور اب باہر نکلنے کا کوئی رستہ ڈونڈھ رہی ہو۔۔
                میرا اتنا ظرف نہیں ہے کہ میں انکو معاف کرکے انکا ہاتھ تھام لوں۔۔اس لیے اس بات کو یہیں ختم کردیں۔۔"
                عینا نے یہ سب کہتے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اس کا لہجہ زیادہ تلخ نہ ہو۔۔لیکن شہریار کے ذکر اور پھر اس کا اپنے ساتھ نام جڑنے کے ذکر نے ہی اس کا خون کھولا دیا تھا۔۔اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ نہ صرف بہت تلخی لیے ہوئے تھا بلکہ اس کی آنکھیں بھی آگ اگل رہی تھیں۔۔

                " ماما۔۔۔خالہ جان نے کیا جواب دیا ہے۔۔۔آپ نے بتایا ہی نہیں۔۔۔"
                آئمہ خاتون اپنے سامان کی ری چیکنگ کر رہی تھیں جب شرجیل تیزی سے انکے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔اور آتے ہی سوال داغا۔۔۔
                " کیا ہوگیا ہے۔۔۔تم تو ایسے بات کر رہے ہو جیسے تمہارے پیچھے کوئی لگا ہو۔۔۔آئمہ خاتون نے حیرانگی سے شرجیل کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
                " سوری۔۔۔پلیز ماما بتائیں ناں۔۔۔کیا انکار کردیا ہے فجر نے۔۔۔"؟
                شرجیل نے شرمندہ ہوتے کہا۔۔۔
                " نہیں میری جان فجر نے ہاں کردی ہے۔۔۔لیکن جب تک اسکی سٹڈیز کمپلیٹ نہیں ہو جاتی تب تک کے لیے ہمیں تھوڑا اور ویٹ کرنا ہوگا۔۔۔جہاں اتنا ویٹ کیا ہے وہاں 2 سال اور سہی۔۔۔لیکن میں نے آپا سے کہ دیا ہے کہ تب تک کے لیے ایک چھوٹی سی انگیجمنٹ کی رسم ضرور کریں گے۔۔"
                آئمہ سلطان نے کہا۔۔"
                " ماما خالہ نے آپ کو کب جواب دیا تھا۔۔۔"
                شرجیل ساری بات سن کر کچھ پل کو گم صم کھڑا کچھ سوچتا ہوا بولا۔۔۔
                " رات کو ہی بتا دیا تھا بیٹا۔۔۔ مگر تم کس بات سے پریشان ہو رہے ہو۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔کیا تم خوش نہیں ہو۔۔۔"؟
                شرجیل کے سوال جواب اور اسکی گومگو والی کیفیت آئمہ سلطان کو پریشان کرنے لگی۔۔۔فجر کے اقرار کے بعد جو خوشی اپنے بیٹے کے چہرے پہ وہ دیکھنا چاہتی تھیں وہ انکو نظر نہیں آئی تھی۔۔۔جبکہ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ انکا بیٹا فجر سے بہت محبت کرنے لگا ہے۔۔۔پھر اس کے یہ سوال چہ معنی۔۔۔
                " کچھ نہیں ماما۔۔۔کوئی بات نہیں ہے۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔۔لیکن آپ پلیز خالہ سے انگیجمنٹ کی نہیں بلکہ نکاح کی بات کریں۔۔۔میں جانے سے پہلے فجر کے ساتھ ایک مظبوط رشتہ بنا کر جانا چاہتا ہوں۔۔۔پلیز ماما۔۔۔"
                شرجیل نے آئمہ سلطان کو ہگ کرتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
                " واٹ۔۔۔یہ کیا کہ رہے ہو تم۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔آپا نہیں مانیں گی۔۔۔اور آپا کیا فجر بھی یہ بات نہیں مانے گی۔۔۔اور اس معاملے میں آپا کو میں ہرگز فورس نہیں کروں گی۔۔۔
                اور کل ہماری فلائیٹ ہے۔۔۔اس کا کیا۔۔۔تمہارے بابا سے میں کیا کہوں گی۔۔۔تم جانتے ہو کہ ہمارا واپس جانا کس قدر ضروری ہے۔۔۔"
                آئمہ سلطان کو شرجیل کی بات سن کر جھٹکا لگا تھا۔۔۔
                " ماما پلیز آپ خالہ سے بات تو کریں۔۔۔بلیو می وہ انکار نہیں کریں گی۔۔۔اور رہی بات بابا کی اور فلائیٹ کی تو وہ مجھ پہ چھوڑ دیں۔۔۔بزنس ڈیلیگیشن 21 کو آ رہا ہے۔۔۔ہمارے پاس ابھی کافی دن ہیں۔۔۔اس لیے آپ فکر مت کریں۔۔۔بابا سے میں خود بات کرلوں گا۔۔۔اور فلائیٹ کا کیا ہے وہ کینسل کروا دیں گے۔۔۔"
                شرجیل نے ہر بات کا حل پیش کرتے ہوئے اب کے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                " یہ تمہیں بیٹھے بٹھائے نکاح کی کیا سوجھی ہے۔۔۔اور کب سے یہ فتور تمہارے دماغ میں چل رہا ہے۔۔۔ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے کہ میرا ہونہار بیٹا ہتھیلی پہ سرسوں کیوں جما رہا ہے۔۔۔"
                آئمہ سلطان سامان کی چیکنگ کرتی چھوڑ کر ایک دم سے شرجیل کا کان پکڑ کر ہلکا سا کھینچتے مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔
                " آہہہہہہہ۔۔۔۔۔افففففف۔۔۔۔ماما کیا کر رہی ہیں۔۔۔پلیز کان تو چھوڑیں میرا۔۔۔"
                شرجیل نے مصنوعی تکلیف کا اظہار کرتے دیائی دیتے کہا۔۔۔
                " پہلے سچ۔۔۔"
                آئمہ خاتون بنا کان چھوڑے بولیں۔۔۔
                " قسم لے لیں ماما۔۔۔ابھی ابھی سوچا ہے۔۔۔وہ بھی صرف آپکی خاطر۔۔۔کہ جب کبھی بھی جس وقت بھی آپکا دل کرے فجر سے بات کرنے کو تو وہ سب چھوڑ کر صرف آپکی بات سنا کرے۔۔۔اس طرح سے دور جا کر بھی آپکو ایسے لگے گا جیسے وہ آپکے پاس ہے۔۔۔انگیجمنٹ تو کمزور سا رشتہ ہوتا ہے۔۔۔دل کیا بات کی۔۔۔نہیں تو بہانہ بنا دیا۔۔۔بس اسی وجہ سے۔۔۔سچی۔۔۔۔"
                شرجیل نے کان چھڑانے کے ساتھ ہی دو قدم دور کھڑے ہوکر انتہائی تابعداری اور معصومیت سے کہا۔۔۔
                " میرے لیے۔۔۔ہاں۔۔۔"
                آئمہ نے شرجیل کو گھورتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
                " جی"
                شرجیل نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
                " اوکےےےےے۔۔۔۔۔تو ٹھیک ہے مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔۔۔جب دل کرے گا وہ بات کرلیا کرے۔۔۔اس لیے آپا سے نکاح کی بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔جو ہو رہا ویسے ہونے دو۔۔۔
                " آئمہ سلطان بھی اسکی ماں تھیں۔۔۔بیٹے کے دل کی حالت خوب سمجھ رہی تھیں۔۔۔لیکن اس سے اگلوانے کو انجان بن کر بولیں۔۔۔
                " نن۔۔۔نہیں ماما۔۔۔میرے لیے۔۔۔پلیز آپ سمجھیں ناں۔۔۔وہ بہت ریزرو رہتی ہے۔۔۔اگر ہمارا نکاح ہو جائے گا تو ہم ایزیلی ایک دوسرے سے بات کر سکیں گے۔۔۔پلیز ماما۔۔۔"
                شرجیل اپنی ماں کی بات سن کر جلدی سے ان سے لپٹتے ہوئے لاڈ سے التجائیہ لہجے میں بولا۔۔۔
                " اچھا۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔۔پریشان مت ہو۔۔۔میں کرتی ہوں آپا سے بات۔۔۔پاگل نہ ہو تو۔۔۔"
                آئمہ سلطان نے شرجیل کے ماتھے پہ بوسہ دیتے مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔
                شرجیل انکا شکریہ ادا کرتے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔اب اسکو بے چینی سے فجر کی واپسی کا انتظار تھا تاکہ اس سے بات کرسکے۔۔۔

                " آپا یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔میں شہریار سے کیا کہوں گی۔۔۔آپ نے دیکھا وہ کتنا بدل گیا ہے۔۔۔سب میں گھل مل کے بیٹھنا۔۔۔بات بے بات مسکرانے لگا ہے۔۔۔اور تو اور عرصہ ہوگیا اس نے نماز نہیں ادا کی تھی۔۔۔اب پابندی سے نماز پڑھنے لگا ہے۔۔۔
                اگر عینا میرے بیٹے کی خوشی ہے۔۔۔اس کے اندھیرے رستوں کی روشنی ہے تو میں اس سے اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگوں گی۔۔۔"
                فجر نے گھر آتے ہی اسکی جو بھی بات ہوئی تھی حرف با حرف اپنی خالہ اور ماں کے گوش گزار کی۔۔۔جسے سن کر آئمہ سلطان پریشان ہو اٹھی تھیں۔۔۔
                " آئمہ ہم کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کر سکتے۔۔۔تم شہریار کا معاملہ الّٰلہ کے سپرد کردو۔۔۔الّٰلہ کے ہرکام میں بندوں کے لیے بھلائی چھپی ہوتی ہے۔۔۔بعض دفعہ ہمیں جو ٹھیک لگتا ہے۔۔۔اس کا نہ ہونا ہی ہمارے لیے بہترین ہوتا ہے۔۔۔اور اس میں ہمارے لیے خیر چھپی ہوتی ہے۔۔۔جس سے بندہ ناواقف ہوتا ہے۔۔۔
                کیا پتہ الّٰلہ نے شہریار کی ذات کو کسی اور کے لیے نفع والی ذات بنانا ہو۔۔۔کسی اور کی زندگی میں اس کی وجہ سے روشنی آنی ہو۔۔۔اور کیا پتہ کہ عینا سے بھی کچھ بہتر الّٰلہ نے اس کے لیے چن رکھا ہو۔۔۔
                اگر وہ دل سے تائب ہے تو اس کو ثابت کرنے دو کہ کسی کے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔وہ صراط مستقیم پہ چلنا نہیں چھوڑے گا۔۔۔
                اگر کسی بندے کا پلٹنا صرف کسی بندے کے لیے ہو۔۔۔تو یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔اور اس کا سب سے زیادہ نقصان خود اسکی اپنی ذات کو ہوتا ہے۔۔۔
                کبھی کبھی الّٰلہ اپنے بندوں سے انکی پسندیدہ چیز یا رشتہ چھین کر دکھ اور غم میں مبتلا کر کے بھی آزماتا ہے۔۔۔یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ اب بھی اس کا شکرگزار بندہ رہتا ہے یا نہیں۔۔۔
                اگر بندہ صبر کا دامن چھوڑ کر واویلا مچائے۔۔۔لعن طعن کرے۔۔۔منہ سے بدفعال نکالے۔۔۔تو اس کو اسی حالت میں رہنے دیا جاتا ہے۔۔۔
                جبکہ اگر بندہ صبر کرے اور الّٰلہ کی رضا پہ راضی رہے تو اس کو خیر کثیر عطا کی جاتی ہے۔۔۔اسکو وہاں سے نوازا جاتا ہے جس کا اس نے تصور بھی نہ کیا ہو۔۔۔اور بہترین نوازا جاتا ہے۔۔۔اس لیے پریشان مت ہو اور نہ دکھی ہو۔۔۔"
                ہائمہ خاتون نے اپنی بہن کو دلاسے دیتے ہوئے کہا۔۔۔ہائمہ خاتون کی بات سے آئمہ سلطان کے بے قرار دل کو گونہ گوں سکوں ملا۔۔۔
                " آپا بے شک آپکی ہر بات ٹھیک ہے۔۔۔میں شائد بلا وجہ جزباتی ہو رہی ہوں۔۔۔
                " لیکن ایک مسلہ اور بھی ہے۔۔۔مجھے آپ سے ایک اور بات بھی کرنا تھی۔۔۔اصل میں شرجیل کی خواہش ہے کہ جانے سے پہلے انگیجمنٹ کی بجائے اسکا اور فجر کا نکاح کردیا جائے۔۔۔آپا سچ پوچھیں تو یہ میری بھی خواہش ہے۔۔۔رخصتی فجر کی سٹڈیز کمپلیٹ ہونے کے بعد ہی ہوگی۔۔۔یہ وعدہ ہے میرا۔۔۔آپ فجر سے اور باقی سب سے پوچھ لیں مشورہ کر لیں۔۔۔ اگر فجر منع کرتی ہے تو پھر ہم اس موضوع پہ بات نہیں کریں گے۔۔۔"
                آئمہ سلطان نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا۔۔۔
                " آئمہ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔۔۔لیکن میں تمہارے بھائی صاحب اور باقی سب سے مشورہ کیے بنا کچھ نہیں کہ سکتی۔۔۔"
                ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
                " لیکن آپا پلیز بھائی صاحب سے اور باقی سب سے آج رات کو ہی بات کر لیجیے گا۔۔۔تا کہ اسی حساب سے ہم اگلا لائحہ عمل تہ کر سکیں۔۔۔"
                آئمہ سلطان اپنی بہن کی طرف سے اوکے کا سگنل دینے پہ بے طرح خوش ہوتے ہوئے بولیں۔۔۔

                ہائمہ خاتون نے رات کو سونے کے لیے جانے سے پہلے فجر سے بات کی تو اس نے بنا کسی چوں چرا کے اس بات کا فیصلہ اپنی والدہ پہ چھوڑ دیا۔۔۔یعنی کہ اس کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔جب فجر کو اعتراض نہیں تھا تو کسی اور کو کیا ہوتا۔۔۔اس لیے شاہ سائیں اور اپنے بیٹوں سے مشورہ کے بعد 20 جنوری دونوں کے نکاح کی تاریخ رکھ دی گئ۔۔۔


                " امی جان کام پہ نہیں جانا کیا آج۔۔۔"
                ناشتہ بناتے تیار کرتے اس نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
                میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ کیا کریں۔۔۔نہ چھٹی کر سکتے ہیں۔۔۔اور نہ میں تمہیں اکیلا بھیج سکتی ہوں۔۔۔اور نہ ہی اس بچی کو گھر اکیلا چھوڑ کر دونوں جا سکتے ہیں۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔۔۔
                خیر الّٰلہ مالک ہے..۔وہ بچی اٹھتی ہے تو پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔۔۔تم اسے مت اٹھانا۔۔۔خود سے اٹھے گی تو ٹھیک ہے۔۔۔پھر بات کرتی ہوں اس سے۔۔۔کون ہے کہاں سے آئی ہے۔۔۔کل رات جب وہ آئی تو بہت پریشان اور گھبرائی ہوئی تھی وہ۔۔۔اس لیے کچھ پوچھ ہی نہ سکی۔۔۔
                بزرگ خاتون نے فکرمندی سے سر ہلاتے کہا۔۔۔
                " امی جان رات کو عشاء کی نماز کے لیے جب میں وضو کے لیے اٹھی تو وہ لڑکی وومٹنگ کر رہی تھی۔۔۔میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ شائد زیادہ کھا لیا ہے اس لیے۔۔۔اب صبح پھر کر رہی تھی۔۔۔نہ جانے کون ہے کہاں سے آئی ہے۔۔۔ایسا نہ ہو کہ ہم کسی مصیبت میں پڑ جائیں۔۔۔"
                اپنی ماں کو ناشتہ دیتی وہ پریشانی سے ساتھ والے کمرے کی طرف اشارہ کرتی بولی۔۔۔جس میں وہ لڑکی ٹھہری تھی۔۔۔
                " تم نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔۔۔حد کرتی ہو تم بھی۔۔۔بیچاری پہ پتہ نہیں کیا افتاد ٹوٹی جو ایسے حال و بے حال تھی۔۔۔جس طرح سے وہ ڈری سہمی اور پریشان تھی مجھے مناسب نہیں لگا کچھ بھی پوچھنا۔۔۔اس نے پناہ مانگی میں نے دے دی۔۔۔
                خیر میں دیکھتی ہوں۔۔۔تم اسکے لیے بھی ناشتہ تیار کردو۔۔۔بھوک لگی ہوگی اسے بھی۔۔۔"
                پناہ گزیں لڑکی کی طبیعت کی خرابی کا سن کر انکو فکر ہوئی تھی۔۔۔اس لیے اپنا ناشتہ وہیں چھوڑ کر اسکے کمرے کی طرف چل دیں۔۔۔ساتھ ہی اپنی بیٹی کو اسکے لیے ناشتہ تیار کر کے اپنا اور اس کا ناشتہ بھی وہیں اس کے کمرے میں لانے کا کہ دیا۔۔۔
                " بیٹا کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔۔"؟
                بزرگ خاتون کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ لڑکی چارپائی پہ ٹانگیں لٹکائے اپنی بغلوں میں ہاتھ دبائے بیٹھی ہلکے ہلکے سے جھول رہی تھی۔۔۔کل کی نسبت اب کچھ بہتر لگ رہی تھی۔۔۔مگر چہرے پہ پیلاہٹ بہت زیادہ تھی۔۔۔شائد طبیعت کی خرابی کی وجہ سے۔۔۔بزرگ خاتون نے بغور اس کا جائزہ لیتے اس کی طبیعت بارے استفسار کیا۔۔۔
                " جج۔۔۔جی آنٹی بہتر ہوں پہلے سے۔۔۔"
                اس لڑکی نے سیدھے ہو کر بیٹھتے جواب دیا۔۔۔
                مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کو رات سے وومٹنگ ہو رہی ہے۔۔۔اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو ہم ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں۔۔۔"
                بزرگ خاتون نے فکرمندی سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے شفقت سے کہا۔۔۔اس بچی کو دیکھ کر ان کا دل کہ رہا تھا کہ یہ کوئی حالات کی ستم رسیدہ تو ہو سکتی ہے مگر کوئی چالباز نہیں۔۔۔سانولی رنگت میں بھی بلا کی کشش تھی۔۔۔تیکھے نین نقوش والی نہ جانے کیوں انکو اپنی اپنی سی لگی۔۔۔کپڑوں سے کسی اچھے گھر کی لگ رہی تھی۔۔۔
                " نن نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔"
                لڑکی نے جلدی سے منع کرتے کہا۔۔۔
                " امی جان ناشتہ۔۔۔"
                اسی وقت انکی بیٹی ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے اندر داخل ہوئی۔۔۔
                " بیٹا منہ ہاتھ اگر دھو لیا ہے تو کھانا کھا لو۔۔۔پھر جہاں کہو گی میں تمہیں چھوڑ آؤں گی۔۔۔"
                بزرگ خاتون نے اپنی بیٹی کو چارپائی پہ ہی ناشتے کی ٹرے رکھنے کا اشارہ کرکے اس لڑکی سے کہا۔۔۔
                بزرگ خاتون کی بات سن کر اس لڑکی کی آنکھوں میں عجیب سی بے چارگی اور نمی در آئی۔۔۔کچھ کہنے کو لب کھولے مگر پھر ہونٹ بھینچ گئ۔۔۔اور چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی۔۔۔
                ابھی اس نے دو تین نوالے ہی لیے ہوں گے کہ وہ منہ پہ ہاتھ رکھے اباک لیتی یکدم باہر کی طرف بھاگی۔۔۔
                " یا الّٰلہ خیر۔۔۔"
                کہتے ساتھ ہی سینے پہ ہاتھ رکھے بزرگ خاتون اور انکی بیٹی بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکلیں۔۔۔



                ماضی۔۔۔۔۔!
                یہ 8 کنال پہ مشتمل ایک وسیع فارم ہاؤس تھا۔۔۔جس کے اونر نبیل چوہان جو کہ طارق کے باپ کے قریبی دوستوں میں سے تھے اکثر ملک سے باہر رہتے تھے۔۔۔
                جب کبھی بھی طارق اور اسکے دوستوں کا شراب و شباب کے سمندر میں نہانے کا موڈ ہوتا تو یہیں کا رخ کرتے۔۔۔لڑکی پیسوں کے لالچ میں انکے ساتھ آتی یا کسی کو زبردستی اٹھا کر لاتے۔۔۔شہر سے دور ہونے کی وجہ سے یہ جگہ ہر لحاظ سے انکو سیف لگتی تھی۔۔۔
                جہاں پہ نہ انکو کوئی ڈسٹرب کرنے والا ہوتا اور نہ کسی ستم رسیدہ کی چیخ و پکار سن کر اسکی مدد کو آنے والا ہوتا۔۔۔
                طارق اپنے دوستوں مبین اور اکرم کے ساتھ کبھی کبار یہاں قیام کرتا تھا۔۔۔
                مبین کے ساتھ ہوئے حادثہ کا انکو پورا یقین تھا کہ یہ کام دلاور کا ہے۔۔۔مگر اس کا کوئی ثبوت نہ انکو ملا نہ پولیس کو۔۔۔
                بدلے کی آگ ہر وقت انکو جلائے رکھتی۔۔۔بہت دفعہ کبھی دلاور اور کبھی فاطمہ کو انھوں نے گھیرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہو جاتے۔۔۔پھر دلاور کے اپنا پورا گینگ بنانے پر وہ محتاط ہوگئے۔۔۔دلاور کے حکم پر اس کے آدمی ہر وقت طارق اور اسکے دوستوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں پہ دن رات نظر رکھتے۔۔۔
                دلاور کا گروپ بہت تیزی سے شہر میں مقبول ہو رہا تھا۔۔۔جو بظاہر امن پسند گروپ تھا۔۔۔مگر خود سے ٹکرانے والے کا کام وہ اتنی صفائی سے کرتے کہ کسی کو کوئی ثبوت نہ ملتا۔۔۔بڑی بڑی پارٹیاں اپنی زمینوں کے قبضے چھڑوانے کے لیے ان سے رابطے کرنے لگیں۔۔۔
                ان سب باتوں نے طارق لوگوں کے دل پہ اک دھاک بٹھا دی۔۔۔وہ دلاور کو دلاور کے طریقے سے ہی پکڑنے کا پلان بنانے لگے۔۔۔
                اور بظاہر دلاور سے ہاتھ ملا کر پرانی باتوں پہ مٹی ڈالنے کا عہد کر کے یوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ اب کوئی مزید لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔۔۔اگر کہیں آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو کترا کر گزر جاتے۔۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طارق نے بھی اپنا گروپ بڑھا لیا تھا۔۔۔جو نہ صرف سٹریٹ کرائم میں ملوث تھا۔۔۔بلکہ اغواہ، ڈکیتی میں بھی ملوث تھا۔۔۔دونوں گروپ اپنا اپنا کام کرتے۔۔۔مگر ایک دوسرے کے راستے میں نہ آتے۔۔۔
                کچھ عرصہ گزرا تو دلاور بھی ان کی طرف سے مطمئن ہو گیا۔۔۔اور یہی غلطی وہ کربیٹھا۔۔۔کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔۔۔
                پھر ماسو ماں کے اصرار پہ دلاور نے اپنی سرگرمیاں محدود کردیں۔۔۔اسکے گروپ کے لوگوں میں سے زیادہ تر نے دلاور کو چھوڑ کر اپنا الگ گروپ بنا لیا۔۔۔مگر آپس میں رابطہ ختم نہیں کیا۔۔۔
                دلاور اب اپنا پورا دھیان بلال کے ساتھ مل کر اپنی ورکشاپ کو دینے لگا۔۔۔جہاں مناسب اجرت پہ اس نے چند لڑکے رکھ لیے جو اپنے کام کے کافی ماہر تھے۔۔۔
                اپنے باپ سے ملی جائیدا میں سے آدھا حصہ اس نے ایک فلاحی ادارے کے نام کردیا۔۔۔اور باقی پیسوں سے ایک پٹرول پمپ اور 10 مرلے پہ محیط چھوٹا سا فل فرنشڈ بنگلہ خرید لیا۔۔۔اپنے حساب سے کچھ مزید ضروری تبدیلی کروا کر کچھ دن تک اس کا ماسو ماں اور فاطمہ سمیت وہاں شفٹ ہونے کا ارادہ تھا۔۔۔فاطمہ سے اس نے سکول چھوڑنے کا کہ دیا تھا۔۔۔اور ماسو ماں کو اس کی بات پہ منع کرنے کی کوئی ریزن نظر نہیں آئی اس لیے انھوں نے بھی سکول چھوڑنے کا کہ دیا۔۔۔دلاور کی طرف سے وہ بہت خوش اور مطمئن تھیں کہ اس نے تمام غلط کام چھوڑ دئیے تھے۔۔۔اور اب حق حلال کی کمانے لگا تھا۔۔۔ایک بیٹے اور بھائی کی تمام ذمہ داریاں وہ احسن طریقے سے ادا کر رہا تھا۔۔۔
                آج فاطمہ اپنی ریزائن ایپلیکیشن دینے سکول گئ تو واپسی پہ طارق اور اس کے ساتھیوں نے اسے کڈنیپ کر لیا۔۔۔جو کہ کئ دن سے موقع کی تلاش میں تھے۔۔۔
                فاطمہ کو لے کر بھی وہ اسی فارم ہاؤس میں آئے تھے۔۔۔طارق، مبین، اور اکرم کے ساتھ ساتھ وہاں دو لڑکے اور بھی موجود تھے۔۔۔جو ان کے وفادار ساتھی بن چکے تھے۔۔۔اور ہر کام میں پیش پیش ہوتے تھے۔۔۔خباثت میں وہ انکے بھی باپ تھے۔۔۔
                " یار بس بہت ہوگیا۔۔۔اب اور صبر نہیں ہو رہا۔۔۔"
                طارق کے ساتھیوں میں سے ایک لڑکا اٹھ کر فاطمہ کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اور اس کے چہرے پہ خباثت سے ہاتھ پھیرتے اس کے جسم سے لپٹی اس کی چادر کھینچ کر دور پھینکتے بولا۔۔۔چادر اتارتے ہی فاطمہ کے ہوش و حواس سے بیگانہ پڑے مرمریں وجود پہ اس کی نظریں گڑی کی گڑی رہ گئ تھیں۔۔ہوس سے بھری اس کی آنکھوں کی چمک اور گہری ہو گئ تھی۔۔۔بے اختیار وہ اس کے وجود سے لپٹنے کو جھکا ہی تھا کہ طارق کی آواز پہ اس کو رکنا پڑا۔۔۔
                " رک جاؤ یار۔۔۔کیوں بے صبرے ہو ریے ہو۔۔۔جہاں اتنا صبر کیا وہاں کچھ اور سہی۔۔۔اور فکر مت کرو سب کو موقع ملے گا۔۔۔مگر سب سے پہلا حق مبین کا ہے۔۔۔اس لڑکی کی وجہ سے اسے اپنا ہاتھ گنوانا پڑا۔۔۔اس لیے مبین سے پہلے اسے کوئی نہیں چھوئے گا۔۔۔"
                طارق نے مبین کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ساتھی کو روکتے ہوئے کہا۔۔۔
                " تو ٹائم ضائع کس لیے کر رہے ہو۔۔۔20 منٹ ہو گئے ہیں تم اسکو 20 دن بھی دو گے تو وہ یہاں نہیں پہنچ پائے گا۔۔۔اسکے فرشتوں کو بھی اس جگہ کا علم نہیں ہے۔۔۔مقصد اسکو مارنے کا ہے۔۔۔اور اس کے لیے بھی ہمیں گولی ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔
                جب اپنی بہن کو تار تار وجود لیے زندہ لاش کی طرح دیکھے گا تو خود ہی مر جائے گا۔۔۔"
                اس لڑکے نے جھنجلا کر کہا۔۔۔
                " ویسے کہ تو تو ٹھیک رہا ہے۔۔۔چل اٹھا اسکو۔۔۔اور کھیل شروع کرتے ہیں۔۔۔چل اکرم تو کیمرہ اون کر۔۔۔اب یہ بیچاری اپنے منہ سے اپنے بھائی کو کیسے بتائے گی۔۔۔کہ اسکے ساتھ کیا کیا ہوا۔۔۔اس لیے ہم اسکی یہ مشکل بھی حل کر دیتے ہیں۔۔۔"
                مبین نے نفرت اور غصے سے فاطمہ کی طرف دیکھتے استہزائیہ لب و لہجے میں کہا۔۔۔اور اٹھ کر بیڈ کے قریب آن کھڑا ہوا۔۔۔
                " کک۔۔۔کون ہو تم لوگ۔۔۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔۔۔"
                ایک لڑکے نے جیسے ہی فاطمہ کی ناک کے ساتھ ڈھکن کھول کر ایک شیشی لگائی تو اس نے کسمساتے ہوئے اپنی آنکھیں کھول دیں۔۔۔کچھ پل کو اپنا سر پکڑے وہ یونہی لیٹی رہی۔۔۔پھر جیسے ہی منظر واضح ہوا تو اپنے ارد گرد کھڑے لڑکوں کو دیکھ کر یکدم اٹھ کر بیٹھتے ہوئے سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔
                " ہم تمہارے قدردان ہیں بے بی۔۔۔اور آج ہم سب تیرے دلہا بنیں گے۔۔۔آج ہم تمہارے حسن کو خراج تحسین پیش کریں گے۔۔۔اور یقین کرو کہ تمہیں کوئی شکایت نہیں رہے گی۔۔۔"
                مبین اور طارق نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا اور ساتھ ہی فاطمہ کو پکڑنا چاہا تو وہ دونوں کو پیچھے کو دھکا دیتی بیڈ سے اتر کر دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔لیکن دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ ادھر ادھر بھاگنے لگی۔۔۔اکرم ایک سائیڈ پہ کھڑا اونچی اونچی آواز میں ہنستا ہوا موبائل پہ اسکی ویڈیو بنانے لگا۔۔۔
                فاطمہ خود کو بچانے کے لیے چیخ و پکار کرتی پورے کمرے میں بھاگنے لگی۔۔۔اس کی چیخ و پکار ان سب انسان نما جانوروں کو مزید بھڑکانے کا سبب بننے لگی۔۔۔
                پھر باری باری وہ سب قہقہے لگاتے فاطمہ کو ایک دوسرے کی طرف اچھالنے لگے۔۔۔وہ کبھی انکے آگے فریاد کرنے لگتی اور کبھی مدد کے لیے زور زور سے کسی کو پکارنے لگتی۔۔۔تبھی مبین نے اس کے گریبان پہ ہاتھ ڈال کر دامن تک اسکی شرٹ کو پھاڑ ڈالا۔۔۔اسکی چیخ سے کمرے کے درودیوار ہل کر رہ گئے۔۔۔وہ روتے ہوئے انکو الّٰلہ کے واسطے دینے لگی۔۔۔مگر وہ بھول گئ تھی کہ ابلیس اور اس کے چیلوں کے دل پہ تا قیامت کے لیے راہ سے بھٹکے ہوؤں کی نافرمانوں کی مہر لگا دی گئ تھی۔۔۔ابلیس کے یہ چیلے بھی گونگے بہرے اور بصارت سے محروم تھے۔۔۔انکے دلوں پہ بھی مہریں لگا دی گئیں تھیں۔۔۔رال ٹپکاتے یہ بھوکے بھیڑئیے فاطمہ کے وجود سے اپنی بھوک مٹانے کے در پہ تھے۔۔۔
                بے بسی و لا چارگی اور ندامت و شرمندگی کی مورت بنی اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے کیے فوراً خود کو چھپانے کی کوشش کرتی وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔اور آنکھیں بند کیے دل میں مسجد نبوی کا تصور کیے وہ نبی پاک صہ اور اپنے الّٰلہ کو پکارنے لگی۔۔۔اب نہ تو اس کو کچھ دکھائی دے رہا تھا نہ سنائی دے رہا تھا۔۔۔
                فاطمہ کے وہیں منجمد ہونے پہ سبھی اسکے گرد گول گول چکر لگاتے قہقہے لگاتے اسکو جگہ جگہ سے ٹچ کرنے لگے۔۔۔
                " بس اتنی ہی ہمت تھی ہماری ہرنی میں۔۔۔"
                طارق نے ہنستے ہوئے کہا پھر فاطمہ کو یکدم دونوں بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پہ لٹا دہا۔۔۔فاطمہ بنا کوئی مزاحمت کیے اپنے گرد ویسے ہی بازو لپیٹے پڑی رہی۔۔۔



                Comment


                • #48

                  Episode, 27#

                  آج سکینہ خالہ کی بیٹی حور کی شادی تھی۔۔۔بارات اسی گاؤں سے آنی تھی۔۔۔اس لیے فنکشن کا ٹائم شام 5 بجے کا رکھا گیا تھا۔۔۔کل فجر سے باتوں کے دوران ٹائم گزرنے اور شام ہونے کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔اس لیے آج انھوں نے ایمن کی سکول سے چھٹی کروا دی تھی۔۔۔تا کہ وہ امی کے پاس رہ کر ان کا دھیان رکھ سکے۔۔۔صبح جلدی جلدی سارا کام نمٹا کر اب وہ بازار جانے کی تیاری کرنے لگیں۔۔۔
                  " ایمن جب تک ہم لوگ واپس نہیں آ جاتیں آپ نے ماما کے پاس ہی رکنا ہے۔۔۔12 بجے انکو فروٹ دینے کے بعد انکی میڈ انکو کھلا دینا۔۔۔بھولنا مت۔۔۔میں نے سوپ بنا کر رکھ دیا ہے وہ بھی ساتھ میں رکھ دینا۔۔۔ان کا جو دل چاہے گا لے لیں گی۔۔۔
                  10 بجے گیس بند ہو جاتی ہے۔۔۔یاد سے ہیٹر کو بھی بند کردینا ایسا نہ ہو کہ جب دوبارہ گیس آئے تو ہیٹر پہلے سے ہی اون ہونے کی وجہ سے پورے کمرے میں گیس بھری ہو۔۔۔"
                  عائلہ نے اپنے حجاب کو کور کرنے کے لیے اپنے سر پہ باری باری حجاب پن لگاتے ہوئے ایمن کو تمام ہدایات دیتے ہوئے کہا۔۔۔
                  " ٹھیک ہے آپی آپ فکر مت کریں میں سب کر لوں گی۔۔۔"
                  ایمن نے سر ہلاتے کہا۔۔۔
                  عینا بھی روم سے تیار ہو کر باہر نکل آئی۔۔۔اس کے باہر آتے ہی دونوں مہرالنساء کو الّٰلہ حافظ کہ کر انکے روم میں چلی گئیں۔۔۔
                  " بیٹا دھیان سے جانا اور دعا پڑھ کر باہر نکلنا۔۔۔جاؤ الّٰلہ کی امان میں دیا۔۔۔"
                  مہرالنساء نے دونوں پہ دعائیں پڑھ کر ہھونک مارتے اور کچھ مزید ہدایات دیتے کہا۔۔۔الّٰلہ حافظ کہ کر دونوں باہر نکل آئیں۔۔۔
                  " کہاں کی تیاری ہے بیٹا۔۔۔"
                  ابھی وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے ہی لگی تھیں کہ رشید احمد نے اندر داخل ہوتے ایک اچٹتی سی نظر عینا پہ ڈال کر بڑی محبت سے عائلہ سے پوچھا۔۔۔
                  " بابا آج سکینہ خالہ کی بیٹی حور کی شادی ہے تو ہم نے سوچا کہ اس کے لیے گفٹ لے آئیں۔۔۔اور کچھ تھوڑی اپنی شاپنگ بھی کرنی تھی۔۔۔"
                  عائلہ نے جواب دیا۔۔۔جبکہ عینا منہ دوسری طرف کیے کھڑی رہی۔۔۔
                  " یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹا میں بھی سوچ رہا تھا کہ تم لوگوں نے یقیناً کچھ نہیں خریدا ہوگا خیر یہ کچھ پیسے ہیں یہ رکھ لو۔۔۔اور جو دل چاہے لینا۔۔۔پیسوں کی فکر مت کرنا۔۔۔میری بچیاں سب سے زیادہ خوبصورت لگنی چاہیں بس۔۔۔"
                  رشید احمد نے جیب سے تقریباً 50 ہزار نکال کر عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اسکے ہاتھ پہ رکھتے ہوئے محبت پاش لہجے میں کہا۔۔۔عائلہ اور عینا نے حیران کن نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
                  " بیٹا حیران کیوں ہو رہی ہو۔۔۔باپ ہوں تمہارا۔۔۔رکھ لو شاباش۔۔۔"
                  رشید احمد نے دونوں کو حیرانی سے اپنی طرف دیکھتے پا کر خوشدلی سے کہا اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
                  " آپی اب تو مجھے بھی یقین ہوگیا ہے کہ ماما جو سوچ رہی ہیں۔۔۔جو کہ رہی ہیں وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔مجھے انکے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔۔جب کوئی انسان بدلتا ہے۔۔۔یا اپنے کیے پہ نادم ہوتا ہے تو اس کے اندر عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے۔۔۔
                  الّٰلہ کا خوف اس کے ہر عمل سے ظاہر ہونے لگتا ہے۔۔۔مگر ان میں نہ تو عاجزی و انکساری نظر آتی ہے نہ الّٰلہ کا خوف۔۔۔بلکہ کچھ بہت عجیب سا فیل ہوتا ہے جیسے۔۔۔۔۔جیسے انسان برسوں پرانی کسی خواہش کے پورا ہونے پہ خوش اور سرشار ہوتا ہے۔۔۔"
                  عینا نے بس سٹینڈ کی طرف عائلہ کے ساتھ چلتے چلتے فکرمند لہجے میں کہا۔۔۔
                  " ہممممم۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔مگر جب تک وہ کھل کر سامنے نہیں آتے نہ تو ہم کچھ کہ سکتے نہ کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ سچ میں شرمندہ ہوں۔۔۔اور اگر ایسا ہوا تو پھر بعد میں ہمیں ہی شرمندہ ہونا پڑے گا۔۔۔اس لیے پریشان مت ہوا کرو۔۔۔جو کام انسان کو اپنی سمجھ اور اختیار سے باہر لگے اس کے بارے میں پریشان ہونے کی بجائے اسے الّٰلہ کے حوالے کر دینا چاہیے۔۔۔"
                  عائلہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔۔۔اسی وقت انکی مطلوبہ بس آ کر رکی تو وہ اس میں سوار ہو گئیں۔۔۔

                  " عینا یار کوئی دیکھ بھی لو اب۔۔۔1 بجنے والا ہے گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں 2 بج جانے ہیں۔۔ساری مارکیٹ کھنگال ڈالی ہے مگر تمہیں کوئی سوٹ پسند ہی نہیں آ رہا۔۔۔"
                  وہ دونوں پوری مارکیٹ گھوم چکی تھیں۔۔۔مگر عینا کو کوئی بھی ڈریس پسند نہیں آ رہا تھا۔۔۔جبکہ عائلہ کو پہلی شاپ میں گھستے ہی ہینگ کیے ڈریسز میں سے ایک سی گریں کلر کا ڈریس پسند آ گیا تھا۔۔۔جس کے گلے اور دامن پر سلور کلر کا خوبصورت سا دھاگے اور موتیوں کا کام ہوا تھا۔۔۔
                  " کیا کروں اپیا۔۔۔آپ جانتی تو ہیں کہ میری پسند ذرا ہٹ کے ہے۔۔۔اب یہ تو دوکانداروں کا قصور ہے ناں کہ انکی دوکان پہ ایسا کچھ بھی قابل ستائش نہیں جو مجھے پسند آئے۔۔۔مجھے پھیلے کلر اور متنجن ٹائپ ڈریس زہر لگتے ہیں اور ساری مارکیٹ ایسے ہی ڈریسز سے بھری پڑی ہے۔۔۔"
                  عینا نے منہ بسورتے ساتھ والی ایک اور دکان میں گھستے کہا۔۔۔
                  " اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔پچھلی دکان میں کافی اچھی ورائٹی تھی۔۔۔بلیک والا تو بہت ہی نائس لگ رہا تھا۔۔۔اب پلیز یہاں سے کوئی پسند کر لو۔۔۔ہمارے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے دیر ہو رہی ہے۔۔۔"
                  عائلہ نے چڑتے کہا۔۔۔مگر کافی دیر بعد مختلف ڈیزائنز کے بہت سے کپڑے نکلوا نکلوا کر دیکھنے کے بعد بھی عینا کو کوئی پسند نہ آیا اور ناک منہ چڑھا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔
                  " اب کیا میری ماں۔۔۔"
                  عینا کو اٹھتے دیکھ کر عائلہ نے آنکھیں دکھائیں۔۔۔مگر عینا مسکراتی ہوئی اٹھ کر باہر کی طرف چل دی۔۔۔
                  " اب یہ کہ چائنہ پلازہ چلتے ہیں۔۔۔"
                  عینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔
                  " دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔جانتی بھی ہو وہاں ہر چیز کتنی ایکسپینسو ہے۔۔۔میرے پاس صرف 20 ہزار بچے ہیں اور اس میں ہم نے ابھی حور کے لیے بھی گفٹ لینا ہے۔۔۔بس بہت ہوگیا۔۔۔تم تو رہنے ہی دو۔۔۔میں خود ہی تمہارے لیے دیکھ لیتی ہوں۔۔۔"
                  عائلہ کو تو چائنہ پلازا کا سنتے ہی پتنگے لگے تھے۔۔۔اس لیے سختی سے منع کرتی وہ پچھلی شاپ کی طرف مڑ گئ۔۔۔
                  " 20 نہیں 70 ہزار۔۔۔ آئی پرامس زیادہ مہنگا ہوا تو نہیں لوں گی۔۔۔پلیز ایک بار دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔۔۔پلیز۔۔۔"
                  عینا نے عائلہ کی منت کرتے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکتے کہا۔۔۔
                  " یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ بابا کے دئیے حق حلال کی کمائی نہیں ہیں۔۔۔اس لیے بابا نے جو دئیے ہیں وہ نہ میں تم پہ خرچ کروں گی نہ خود پہ۔۔۔اسی وقت بابا کو واپس کرنا مجھے مناسب نہیں لگا۔۔۔اس لیے میں چپ رہی۔۔۔مگر گھر جا کر ہم انکو واپس کردیں گے۔۔۔آئی سمجھ۔۔۔اس لیے ہمیں جو بھی لینا ہے انھی پیسوں سے لینا ہے جو امی نے دئیے ہیں۔۔۔"
                  عائلہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
                  " ٹھیک ہے لیکن پلیز بس ایک بار پلازہ چلتے ہیں۔۔۔پلیز۔۔..."
                  عینا نے دوبارہ منت کرتے کہا۔۔۔
                  " اوکے۔۔۔لیکن اگر ہماری رینج میں ہمیں کوئی وہاں سے نہ ملا تو تم وہی لو گی پھر جو میں کہوں گی۔۔۔"
                  عائلہ نے ہار مانتے کہا۔۔۔
                  " اوکے۔۔۔ڈن۔۔۔"
                  عینا خوش ہوتے بولی۔۔۔اور دونوں پلازہ کی طرف چل دیں۔۔۔

                  پلازہ میں مختلف شاپس میں گھومتے گھماتے عینا کو ابھی تک کچھ پسند نہیں آیا تھا۔۔۔جو پسند آئے انکی پرائس دیکھ کر وہ آگے بڑھ جاتی۔۔۔پھر ایک شاپ میں داخل ہوئیں تو وہاں پہ ہینگ کیے ایک میرون کلر کے سوٹ پر اسکی نظر پڑی۔۔۔مگر اسکی پرائس دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ گئ۔۔۔ادھر ادھر دیکھتے اسکی نظر پھر اسی سوٹ پر ٹک جاتی۔۔۔
                  پھر سر جھٹک کر وہ ایک چھوٹی سی شاپ میں داخل ہوئی۔۔۔شاپ چھوٹی ضرور تھی مگر وہاں ورائٹی کافی اچھی تھی۔۔۔
                  " عینا ایسے تو بہت دیر ہو جائے گی۔۔۔ تم یہاں سے کچھ اپنے لیے دیکھ لو۔۔۔میں ساتھ والی شاپ سے حور کے لیے گفٹ دیکھ لیتی ہوں۔۔۔
                  عائلہ نے کہا۔۔۔تو عینا سر ہلا کر شاپ کے اندر داخل ہو گئ۔۔۔
                  " سنیے۔۔۔اس کی لاسٹ پرائس کیا ہے۔۔۔"
                  عینا نے ایک ڈریس پکڑ کر سیلز گرل سے اسکی قیمت دریافت کی۔۔۔جس پہ 14 ہزار کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔۔۔
                  " میم وہ سامنے دیکھیں۔۔۔"
                  سیلز گرل نے سامنے اشارہ کیا جہاں ایک دام لکھا ہوا تھا۔۔۔
                  " اوہ سوری میں نے دیکھا نہیں۔۔۔کہ کر عینا نے وہ ڈریس واپس ہینگ کر دیا تو سیلز گرل نے کچھ اور کھانے کا کہا مگر عینا نے نفی میں سر ہلاتے عائلہ کو چلنے کا اشارہ کیا جو اسکی طرف آ رہی تھی۔۔۔عائلہ نے پاس آ کر وہ ڈریس دیکھا تو اس کو بھی کافی پسند آیا۔۔۔
                  " رکو ذرا۔۔۔
                  " عائلہ نے عینا کو آواز دی جو شاپ سے باہر نکلنے والی تھی۔۔۔عینا نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔اور اسکے قریب آ کھڑی ہوئی۔۔۔
                  "سنیے آپ یہ دے دیں۔۔۔"
                  عائلہ نے وہی ڈریس نکال کر کاؤنٹر پہ رکھتے کہا۔۔۔عینا نے منع کیا لینے سے لیکن عائلہ سنی ان سنی کر کے پیمنٹ کر کے باہر کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
                  " آپی آپ نے کیوں لیا ہے وہ۔۔۔آپکو نہیں لینا چاہیے تھا۔۔۔میں کچھ اور دیکھ لیتی۔۔۔"
                  شاپ سے باہر نکلتے ہی عینا بولی۔۔۔
                  " پریشان مت ہو۔۔۔میرے پاس ایکسٹرا 5 تھاؤزنڈ تھا۔۔۔اور میں تو شکر ادا کر رہی ہوں کہ تمہیں کوئی پسند تو آیا۔۔۔چلو اب واپس چلتے ہیں بہت دیر ہو گئ ہے۔۔۔
                  " آپی ہمیں کوئی فالو کر رہا ہے۔۔۔"
                  عینا نے اچانک سے کہا۔۔۔
                  " ہیںنننن۔۔۔۔کون"
                  عائلہ نے فوراً مڑ کر دیکھا مگر کسی پر اس کا شک نہ گیا۔۔۔
                  " پتہ نہیں۔۔۔لیکن میں بہت دیر سے نوٹ کر رہی ہوں۔۔۔"
                  عینا نے سرسری طور پہ مڑ کر دیکھتے کہا۔۔۔
                  " تمہارا وہم ہوگا۔۔۔ہمیں کس نے فالو کرنا ہے۔۔۔"
                  عائلہ نے ادھر ادھر دیکھتے. کہا۔۔۔اور دونوں پلازہ سے باہر نکل آئیں۔۔۔روڈ کراس کرتے ہی اچانک ایک بائیک والے نے دونوں کے بلکل قریب آ کر زور سے بریک لگائی۔۔۔اگر وہ مزید چند سیکنڈ اور دیر کر دیتا بریک لگانے میں تو یقینا کوئی بڑا حادثہ رونما ہو جاتا۔۔۔
                  مگر پھر بھی خود کو بچاتے بچاتے دونوں ہی برے طریقے سے زمین پر گر گئیں۔۔۔ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگز دور جا گرے۔۔۔
                  انکے گرتے ہی پاس آتی گاڑیوں نے بھی فوراً بریکس لگائیں تھیں۔۔۔بائیک والا اپنی بائیک سے اتر کر ان سے سوری کرنے لگا۔۔۔ عینا نے اٹھنے کی کوشش کی تو درد کی ایک تیز لہر اسکے پاؤں میں اٹھی تھی۔۔۔جبکہ عائلہ کی کہنیوں اور گھٹنے پہ کافی گہری خراشیں آئیں تھیں۔۔۔انکے ارد گرد لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے تھے۔۔۔اپنی تکلیف کو ضبط کرتے عائلہ فوراً اٹھ کر عینا کی طرف بڑھی جو اپنا پاؤں پکڑ کر اپنے آنسو ضبط کر رہی تھی۔۔۔دونوں کا حجاب چہرے سے سرک گیا تھا۔۔۔کچھ لڑکے انکو اٹھانے کے بہانے آگے بڑھے۔۔۔
                  " رک جاؤ۔۔۔ڈونٹ ٹچ ہر۔۔۔"
                  دو لڑکوں نے ابھی انکی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک گرجدار آواز کانوں میں پڑی۔۔۔عینا اور عائلہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے احتشام شاہ کو کھڑے پایا۔۔۔
                  " پیچھے ہٹ جاؤ سب۔۔۔یہ میرے ساتھ ہیں۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے با رعب لہجے میں کہا۔۔۔پھر دونوں کی طرف دیکھتے ان کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عینا کا پاؤں پکڑ کر دیکھا۔۔۔جو نیل کے ساتھ سویل ہو رہا تھا۔۔۔
                  " آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے عائلہ سے سوال کیا۔۔۔
                  عائلہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی تکلیف ضبط کرتی اپنا حجاب درست کرتے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔عینا نے اٹھنے کی کوشش کی تو ایک سسکی بھرتے وہ لڑکھڑا کر پھر گر پڑی۔۔۔عائلہ نے سہارا دے کر اسے کھڑا کیا۔۔۔مگر بے بسی سے وہ عائلہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔احتشام شاہ نے ادھر ادھر پڑے انکے شاپنگ بیگز اٹھائے پھر پاس آ کر پرکھتی نظروں سے دونوں کی طرف اور پھر عینا کی طرف دیکھا۔۔۔جو اپنی تکلیف کو ضبط کرتے آنسو روکنے کی ناکام کوشش میں اپنے ہونٹوں کو کچل رہی تھی۔۔۔اسے ایک لمحہ لگا تھا سمجھنے میں۔۔۔عینا کو پاؤں اٹھانے میں بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔احتشام شاہ نے گاڑیوں کی لمبی قطار میں اپنی گاڑی کی طرف دیکھا جو کافی فاصلے پہ کھڑی تھی۔۔۔جہاں تک عینا کا چل کر جانا ناممکن تھا پھر کچھ سوچ کر احتشام شاہ نے عینا کو بولنے کا کوئی موقع دئیے بنا اچانک سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اس کو اپنے دونوں بازؤں میں اٹھا کر عائلہ کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔۔۔عینا نے ہلکی سی مزاحمت کرنا چاہی تو احتشام شاہ نے اپنی گرفت اور مظبوط کرتے اور ایک ہلکی گھوری سے نوازتے اسے ریلکیس رہنے کا کہا۔۔۔اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ چپ کر گئ۔۔۔اور اپنا منہ پھیر لیا۔۔۔احتشام شاہ کے لبوں پہ ایک دلفریب مسکراہٹ در آئی۔۔۔ تیز تیز چلتے اپنی گاڑی کے پاس رک کر آہستہ سے اس نے عینا کو اس میں بٹھا کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔عائلہ اس سے کافی فاصلے پہ تھی۔۔۔گھٹنے پہ خراشوں کی وجہ سے اسے بھی چلنے میں کافی تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔
                  " پلیز۔۔۔"
                  احتشام شاہ تیزی سے واپس مڑا اور عائلہ کے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکی طرف سہارے کے لیے بڑھاتے کہا۔۔۔مگر عائلہ نظر انداز کرتی چلتی رہی۔۔۔
                  " اسکی ضرورت نہیں تھی ہم مینج کر لیتے۔۔۔آپ نے خواہ مخواہ زحمت کی۔۔۔"
                  عائلہ نے خشک لہجے میں کہا۔۔۔
                  " جی ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔مگر میرا ماننا ہے کہ خودداری کسی بھی انسان کا پلس پوائنٹ ہوتا ہے۔۔۔مگر کبھی کبھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دوسرے کی مدد لینے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔۔۔
                  اگر میں نہ ہوتا تو تب بھی رکشہ ، ٹیکسی کے لیے آپکو کسی نہ کسی کی مدد لینی پڑتی۔۔۔اور عینا کی جو حالت ہے اس میں کسی کا فیزیکلی سہارا بھی لینا پڑتا۔۔۔
                  آپ ہمارے گھر کی۔۔۔میرا مطلب ہمارے گاؤں کی عزت ہیں اور میں کبھی گوارا نہ کرتا کہ میری بہن اپنے بھائی کے ہوتے کسی اور کی طرف مدد کے لیے دیکھے۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے اگین ہاتھ بڑھاتے کہا۔۔۔اس کی بات پہ عائلہ نے ایک لمحے کو سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔مگر پھر دوسرے لمحے سر جھکا کر یونہی چلتی رہی۔۔۔
                  " شکریہ آپکا۔۔۔مگر میں پھر بھی اپنی مدد آپ کی قائل ہوں۔۔۔سہاروں کی عادت نہیں ہے مجھے۔۔۔میں چل سکتی ہوں۔۔۔"
                  عائلہ نے اسی خشک لہجے میں چلتے چلتے کہا۔۔۔احتشام شاہ نے حیران ہوکر اسکی طرف دیکھا۔۔۔جس کے چہرے پہ تکلیف کے ساتھ ساتھ بیزاریت جھلک رہی تھی۔۔۔



                  ماضی۔۔۔۔۔۔!

                  " چل یار عیش کر پہلی باری تیری۔۔۔تو بھی کیا یاد کرے گا کہ کتنے شاہ دل یار ملے ہیں تجھے۔۔۔"
                  طارق نے فاطمہ کو بیڈ پہ لٹا کر اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دئیے۔۔۔پھر مبین کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ایک کمینی مسکراہٹ لیے فاطمہ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔اور باقی لوگوں کو اپنے پیچھے باہر آنے کا کہتے خود بھی دروازہ بند کر کے باہر نکل آیا۔۔۔
                  " نصر من الّٰلہ و فتح قریب"
                  مبین جیسے ہی فاطمہ پہ جھکا اس کے کانوں میں فاطمہ کی بڑبڑاہٹ کرتی آواز پڑی۔۔۔اس نے بےحس و حرکت آنکھیں بند کیے پڑی فاطمہ کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔پھر اپنے کان اس کے ہونٹوں پہ لگائے تو وہ قرآن پاک کی یہ آیت دہرا رہی تھی۔۔۔
                  " ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔بیوقوف لڑکی یہاں تیری مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔۔۔آج تجھے ہم لوگوں کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔
                  خیر یہ بھی ٹھیک ہے تو اپنا کام کر میں اپنا کرتا ہوں۔۔۔"
                  استہزائیہ انداز میں کہتے ہنستے ہوئے مبین نے اسکی شرٹ کھینچ کر نکال دی۔۔۔فاطمہ کے جسم میں اب بھی کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی۔۔۔جیسے اس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔یا پھر اس کا الّٰلہ پہ یقین کامل اس کا ایمان اتنا مظبوط تھا کہ وہ جانتی تھی کہ الّٰلہ اس کو رسوا نہیں ہونے دے گا۔۔۔
                  مبین کا ہاتھ جیسے ہی فاطمہ کے دوسرے کپڑوں کی طرف بڑھا اسی وقت گولیوں کی تیز بوچھاڑ کھڑکی کے شیشے توڑتی سامنے کی دیوار میں نصب ہوئی۔۔۔اگر اس وقت وہ فاطمہ پہ جھکا نہ ہوتا تو یقیناً اس کے سر کے پرخچے اڑ جاتے۔۔۔اس کے باقی ساتھی بھی گھبرا کر بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔اور دروازہ اندر سے لاک کردیا۔۔۔
                  " ی۔۔یہ۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔"
                  طارق نے چیختے ہوئے اندر آتے ہی کہا۔۔۔اور جوابی کاروائی کے طور پہ باہر کی طرف فائر کیا۔۔۔باقی سب بھی اپنی اپنی پوزیشن سنبھال کر بیٹھ گئے۔۔۔
                  " مجھے لگتا ہے دلاور آ گیا ہے۔۔۔"
                  اکرم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔
                  " کیا۔۔۔مگر اتنی جلدی ایگزیکٹ لوکیشن پہ کیسے پہنچ سکتا ہے وہ۔۔۔"
                  مبین بھی چیختے ہوئے بولا۔۔۔"
                  " وہ۔۔۔میں نے اسے لوکیشن سینڈ کی تھی۔۔۔میرا خیال تھا کہ وہ آیا تو بلال کے ساتھ آئے گا۔۔۔اور دونوں پہ قابو پانا مشکل نہیں ہوگا۔۔۔مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ اتنی جلدی اپنے سارے لوگ اکٹھے کر لے گا۔۔۔اپنا گینگ تو بہت دیر سے ختم کردیا تھا اس نے۔۔۔"
                  انکے نئے ساتھیوں میں سے قاسم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔
                  " حرامزادے آ گیا ہے پھر تیرا باپ۔۔۔تو یہ بات ہمیں پہلے نہیں بتا سکتا تھا کہ تو نے اس کتیا کے اغواہ کے میسج کے ساتھ ساتھ لوکیشن بھی سینڈ کردی ہے۔۔۔اگر بتایا ہوتا تو ہم پورا انتظام کر کے رکھتے۔۔۔
                  اتنا عرصہ ہوگیا تجھے ہمارے ساتھ تو یہ نہیں جان پایا کہ گینگ ختم ہوکر بھی ختم نہیں ہوتے۔۔۔اندر کھاتے سب ملے ہوتے ہیں۔۔۔
                  اکرم نے زوردار تھپڑ قاسم کے مارتے انتہائی غصے سے کہا تھا۔۔۔اچانک سے باہر سے فائرنگ رک گئ تھی۔۔۔سب کے سب سانس روکے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
                  کچھ دیر بعد پورا کمرہ دھوئیں سے بھرنے لگا۔۔۔وہ سب حواس باختہ ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور دھوئیں کی وجہ سے کھانستے ہوئے باہر کی طرف لپکے۔۔۔مگر پھر دوسرے لمحے سب کے سب کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح دروازے کے پاس ہی ڈھیر ہو گئے۔۔۔
                  " تم سب لوگ باہر ہی رکو۔۔۔اندر کوئی نہیں جائے گا۔۔۔"
                  کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد جب اندر سے آوازیں آنا بند ہو گئیں تو دلاور نے اپنے ساتھیوں کو دروازے کے باہر ہی رکنے کا کہا۔۔۔اور خود دل ہی دل میں فاطمہ کی خیریت کی دعا کرتا دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔درازہ اندر سے بند ہونے کی وجہ سے اس نے دروازے کو دو تین بار پوری قوت سے دھکا مارا۔۔۔مگر دروازہ کافی مظبوط تھا۔۔۔بلال جو کہ سائیڈ پہ کھڑا چپ چاپ سب کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔۔آہستہ سے آگے بڑھا پھر دلاور کے کندھے پہ ہاتھ رکھ اور اسے پرسکون ہونے کا اشارہ کر کے دونوں نے مل کر دو تین پوری قوت سے دھکے مارے تو دروازے کے لاک ٹوٹ گئے۔۔۔بلال دروازے کی سائیڈ پہ باہر ہی کھڑا ہو گیا۔۔۔جبکہ دلاور ہونٹ بھینچے آہستہ سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔۔۔کمرے میں قدم رکھتے ہی اس نے نفرت سے نیچے بے ہوش پڑے سب لوگوں کی طرف دیکھا۔۔۔پھر جیسے ہی اسکی نظر سامنے بیڈ پہ پڑے فاطمہ کے وجود پر پڑی تو اسے ایسا لگا جیسے اس کا کلیجہ کسی نے نکال لیا ہو۔۔۔
                  " آپیییی۔۔۔۔۔۔"
                  دلاور کے منہ سے ایک سسکاری نکلی تھی۔۔۔اپنی آنکھیں بند کیے اندازے سے بیڈ کی طرف لرزتے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا بیڈ کے پاس آ کر اندازے سے کانپتے ہاتھوں سے ٹٹولتے ہوئے بیڈ کی چادر دونوں سائیڈ سے کھینچ کر اچھی طرح سے فاطمہ کے جسم پہ لپیٹ کر وہیں نیچے بیڈ کے ساتھ بیٹھ کر اپنے بال نوچتے ہوئے گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگا۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اندر کی کہانی کا باہر کھڑے کسی بھی شخص کو پتہ چلے۔۔۔تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور جیب سے ایک شیشی نکال کر فاطمہ کی ناک سے لگائی تو دھیرے دھیرے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔کچھ پل یونہی لیٹے لیٹے وہ دانی کو تکتی رہی۔۔۔
                  پھر جیسے ہی ہوش و حواس کی دنیا میں لوٹی تو اپنے سامنے اپنے دانی کو دیکھ کر بے اختیار آنسو اسکے گالوں پہ بہنے لگے۔۔۔ اپنے چادر میں لپٹے وجود پہ نظر پڑی تو شرمندگی اور دکھ کی انتہا سے گزرتے ہوئے روتے ہوئے اپنا رخ موڑ گئ۔۔۔
                  " آپی۔۔۔۔آپپپپپی۔۔۔۔پلیز مت روئیں۔۔۔ادھر دیکھیں میری طرف۔۔۔پلیز آپی۔۔۔آپکو الّٰلہ کا واسطہ ہے آپی۔۔۔پلیز چپ کر جائیں۔۔۔
                  پلیز آپی مجھے بتائیں کیا میں نے دیر کردی ہے آنے میں۔۔۔"؟
                  دلاور نے فاطمہ کو خاموش کرواتے ہوئے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔فاطمہ کی حالت دیکھ کر اس کے اندر آندھیاں چل رہی تھیں اس کا دل کر رہا تھا وہ ساری دنیا کو آگ لگا دے۔۔۔اور ان جانوروں کا تو وہ حال کرے گا کہ لوگوں کی روحیں بھی کانپ اٹھیں گی۔۔۔
                  فاطمہ کے رونے نے اسکو مزید نہ صرف پریشان کردیا تھا بلکہ اسکے اندر کی سفاکیت کو بھی بڑھا دیا تھا۔۔۔
                  " یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔میں ہوں اس سب کا ذمہ دار۔۔۔کاش۔۔۔کاش کہ میں بھی سب کی طرح بے حس بن کر اس دن وہاں سے گزر جاتا۔۔۔کاش۔۔۔۔میری وجہ سے۔۔۔۔سب میری وجہ سے۔۔۔مجھے معاف کردیں آپی۔۔۔"
                  فاطمہ کے مسلسل رونے اور کوئی جواب نہ دینے پر دانی سمجھا کہ شائد اس نے دیر کردی۔۔۔یہ سوچتے ہی وہ اپنا سر بیڈ کی پائنتی سے زور زور سے مارنے لگا۔۔۔
                  " دانی۔۔۔دانی۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم نے دیر نہیں کی۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔"
                  فاطمہ نے دانی کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے دھیرے سے مخاطب کیا۔۔۔
                  " یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔"
                  فاطمہ کی بات سنتے ہی دلاور وہیں زمین پہ سجدہ ریز ہو کر الّٰلہ کا شکر ادا کرنے لگا۔۔۔


                  Comment


                  • #49

                    Episod, 28#

                    " ڈاکٹر صاحب پلیز بی کئیر فل"
                    احتشام شاہ عینا کو مارکیٹ میں موجود ایک قریبی کلینک پہ لے آیا تھا۔۔۔ڈاکٹر نے جیسے ہی عینا کا پاؤں چیک کرنے کے لیے پکڑا تو اس کے منہ سے بے اختیار سسکی برآمد ہوئی۔۔۔احتشام شاہ سے عینا کی تکلیف برداشت نہیں ہوئی تو وہ جلدی سے آگے بڑھ کر ڈاکٹر سے مخاطب ہوا۔۔۔ عینا کے دائیں سائیڈ پہ پاس ہی کھڑی عائلہ نے حیران ہو کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔اسکے چہرے پہ عینا کو لے کر واضح طور پہ فکرمندی جھلک رہی تھی۔۔۔
                    " شاہ صاحب فکرمند نہ ہوں انشاء الّٰلہ آپکی مسز ابھی ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔مگر عینا اور عائلہ کو لفظ مسز پہ ایک جھٹکا لگا تھا جبکہ احتشام شاہ کے چہرے پہ ایک جاندار مسکراہٹ مچلی تھی۔۔۔اور اسی دوران ڈاکٹر نے عینا کا مخصوص زاویے سے پاؤں پریس کرکے یکدم ایک جھٹکا دیا جس سے عینا کی ایک فلکشگاف چیخ منہ سے خارج ہوئی۔۔۔اور بے اختیار تڑپ کر اٹھتے ہوئے عینا نے بے اختیار اپنے قریب کھڑے احتشام شاہ کا بازو پکڑ کر پوری قوت سے اپنے دونوں ہاتھوں میں بھینچا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے ایک لمحے کو حیران ہو کر دیکھا پھر مسکرا کر بغور عینا کی طرف دیکھا۔۔۔عینا کا جیسے ہی اپنے ہاتھوں کی طرف دھیان گیا تو شرمندہ سی ہو کر فوراً بازو چھوڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                    " شاہ صاحب اب آپکی مسز بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔اور یہ کچھ میڈی۔۔۔۔۔"
                    آپکا دماغ تو ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب۔۔۔بنا جانے اس وقت سے مسز۔۔۔مسز کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔۔۔مسز نہیں ہوں میں انکی۔۔۔"
                    عینا کو ڈاکٹر کے پھر سے مسز کہنے پہ تپ چڑھی تھی۔۔۔وہ ڈاکٹر کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر غصے سے بولی۔۔۔
                    " اوہ۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔انکو اس طرح سے آپ کے لیے فکرمند دیکھ کر کر مجھے لگا کہ یہ آپکے۔۔۔۔۔۔خیر اگین سوری۔۔۔اور یہ پین کلر ٹیبلٹ اور ایک ٹیوب لکھ کر دے رہا ہوں ٹیوب کا مساج ہلکے ہاتھوں سے آپ نے دن میں تین بار کرنا ہے۔۔۔ آپ نے ایک ٹیبلٹ اب لینی ہے اور دوسری اگر پین ہو تو پھر رات کو سوتے وقت۔۔۔ویسے مجھے امید ہے کہ ٹیوب کے مساج کے بعد آپکو ٹیبلٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے فوراً معزرت کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
                    احتشام شاہ نے ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔عائلہ نے عینا کو ہلکا سا سہارا دے کر بیڈ سے اترنے میں اس کی مدد کی۔۔۔عینا نے آہستہ سے پاؤں زمین پہ رکھا پھر جب لگا کہ پین قابل برداشت ہے تو مکمل طور پہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی عائلہ اور احتشام شاہ کے ساتھ کلینک سے باہر نکل آئی۔۔۔
                    " آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہماری ہیلپ کی۔۔۔ہم چلے جائیں گے اب میں کافی بہتر فیل کر رہی ہوں اور ویسے بھی میں نہیں چاہتی کہ ہماری وجہ سے پھر سے آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں۔۔۔"
                    کلینک سے باہر آتے ہی عینا نے کافی خشک لہجے میں کہا۔۔۔احتشام شاہ اس کے لفظوں کے ہیر پھیر میں گم سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کس مصیبت کی بات کر رہی ہے اور کیوں کہ اسی وقت دونوں نے ایک آٹو کو اشارہ کیا۔۔۔
                    " سوری مسٹر آپ جا سکتے ہیں۔۔۔نہیں جانا۔۔۔"
                    آٹو والے نے جیسے ہی پاس آ کر بریک لگائی احتشام شاہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر آٹو والے کو جانے کا کہا۔۔۔
                    "کافی احسان فراموش ہیں ویسے آپ۔۔۔جیسے ہی بہتر فیل ہوا اسی وقت " میں کون تو کون۔۔۔والا معاملہ کر رہی آپ۔۔۔اور مجھے کوئی مصیبت نہیں ہو رہی۔۔۔اور ہے بھی تو میں یہ مصیبت خوشی خوشی تا عمر اٹھانے کو تیار ہوں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔جس پہ عینا اور عائلہ نے نہ سمجھ انداز میں اسکی طرف دیکھا۔۔۔
                    " دیکھیے آپ لوگوں کا ہم پہ بہت احسان ہے جسکی وجہ سے ہم آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔مگر بلا وجہ کسی کا احسان لینے کی عادت نہیں ہے ہمیں۔۔۔"
                    اب کے عائلہ نے اکتائے لہجے میں جواب دیا۔۔۔اور عینا کا ہاتھ پکڑ کر جانے کے لیے قدم اٹھائے کہ احتشام شاہ نے پھر سے روکنے کے لیے ہاتھ انکے آگے کیا۔۔
                    " آپکو شائد میری بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔میں نے آپ سے کہا تھا کہ میرے ہوتے ہوئے میں گوارا نہیں کروں گا کہ آپ اس حال میں دھکے کھاتی پھریں۔۔۔اس لیے چپ چاپ آ کے گاڑی میں بیٹھ جائیں۔۔۔دوسری صورت میں میں پہلے والا طریقہ آزماؤں گا۔۔۔"
                    اب کے احتشام شاہ نے عینا کی طرف دیکھتے واضح الفاظ میں جتاتے کہا۔۔۔
                    " آپ۔۔۔۔"
                    عینا اور عائلہ کے منہ سے ایک ساتھ نکلا مگر کوئی بھی سخت لفظ کہنے سے خود کو باز رکھتے ہوئے باقی کا فقرہ منہ میں ہی دبا گئیں۔۔۔
                    " پلیز۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے بھی اب کے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے گاڑی کی طرف یک لفظی اشارہ کرتے کہا۔۔۔
                    " آپ یہ سروس ہر کسی کو ایسے ہی فراہم کرتے ہیں کیا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے انکے بیٹھتے ہی جیسے ہی گاڑی سٹارٹ کی عینا نے نپے تلے لہجے میں کہا۔۔۔اس کے بار بار کہنے پہ انھیں ناچار بیٹھنا پڑا تھا۔۔۔عینا کو احتشام شاہ کے رویے پہ حیرت ہو رہی تھی ان کے گھر قیام کے دوران جیسا اس نے اتنے دن اسکو ابزرو کیا تھا اس وقت وہ اس سے بلکل ہٹ کے بیہیو کر رہا تھا۔۔۔جو دونوں کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔شاہ سائیں کے گھر کے ہر فرد کی وہ لوگ دل سے ریسپیکٹ کرنے لگی تھیں اس لیے زیادہ منع کرنا انکو بھی مناسب نہیں لگا۔۔۔
                    " جی میں روزانہ اپنے سب کام چھوڑ چھاڑ کر گلیوں میں سڑکوں پہ آوازیں لگائے پھرتا ہوں کہ کسی کو میری مدد تو نہیں چاہیے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے عینا کی بات پہ تھوڑا ناپسندیدگی کا اظہار کرتے کہا۔۔۔
                    " ہمارا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔"
                    عینا نے بھی نروٹھے پن سے کہا۔۔۔
                    " اصل میں خالہ نے کچھ سامان منگوایا تھا میں وہی لینے آیا تھا۔۔۔کہ آپ پہ نظر پڑی۔۔۔ابھی میں نکلنے ہی والا تھا کہ یہ انسیڈنٹ ہوگیا۔۔۔باقی ریا آپکا سوال تو بلکل جب جس وقت بھی مجھے لگا کہ میں کسی کے کام آ سکتا ہوں۔۔۔میری وجہ سے کسی کے لیے آسانی پیدا ہو سکتی ہے تو آپ کبھی مجھے پیچھے کھڑا نہیں پائیں گی۔۔۔لیکن کچھ لوگ بہت خاص ہوتے ہیں۔۔۔اور انکے لیے ہر وقت کچھ خاص کرنے کو دل کرتا رہتا ہے۔۔۔یہ اور بات کہ انکو اس بات کا احساس ہی نہ ہو کہ وہ کسی کے لیے کتنے اہم ہیں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔پھر کافی دیر تک انکے بیچ خاموشی چھائی رہی۔۔۔دونوں اپنی اپنی سائیڈ سے باہر کے بھاگتے دوڑتے مناظر میں کھوئی اپنی اپنی سوچوں میں غرق تھیں جب احتشام شاہ نے پھر سے خاموشی کو توڑا۔۔۔
                    " مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے شہریار کے لیے منع کردیا۔۔۔تھینکس۔۔۔"
                    راستے میں ڈرائیو کرتے کرتے اچانک سے احتشام شاہ نے بیک ویو مرر سے دیکھتے کچھ دیر بعد عینا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " مطلب۔۔۔۔میں آپکی بات کا مطلب نہیں سمجھی۔۔۔آپ کس خوشی میں خوش ہو رہے ہیں۔۔۔"
                    عینا نے حیرانی سے الجھے لہجے میں پوچھا۔۔۔
                    " بہت جلد سمجھ جائیں گی۔۔۔آپ کا گھر آ گیا ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے اچانک سے بریک لگائی تھی۔۔۔پھر گاڑی ایک سائیڈ پہ پارک کرتے ان سے مخاطب ہوا۔۔۔ایک گھنٹے کا سفر کیسے کب طے ہوا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔عینا احتشام کے رویے اور عائلہ اپنی ماں کی بات پہ پورا راستہ الجھی رہی۔۔۔سفر کب تمام ہوا دونوں کو خبر نہ ہوئی۔۔۔
                    " آنٹی کو میرا سلام کہیے گا۔۔۔انشاءالّٰلہ بہت جلد ملاقات ہوگی۔۔۔"
                    جیسے ہی وہ گاڑی سے اتریں احتشام شاہ نے بھرپور مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔مگر وہ دونوں سنی ان سنی کرتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہو گئیں۔۔۔
                    مگر گلی کی نکڑ پہ کھڑے کسی کو یہ منظر بہت زہر لگا تھا۔۔۔



                    " ایک کپ چائے ملے گی۔۔۔"
                    فجر اور رامین کچن میں گھسی کوئی ریسیپی ٹرائی کر رہی تھیں۔۔۔ جب صارم شاہ کچن میں داخل ہوا اور چائے کی فرمائش کی۔۔۔
                    " جی ضرور ملے گی۔۔۔مگر آپ یہ بات مسکرا کر بھی کہ سکتے تھے۔۔۔ایسے لگ رہا جیسے کوئی زبردستی آپکو چائے پینے کو کہ رہا۔۔۔"
                    فجر نے ہنستے ہوئے ایک سائیڈ پہ چائے کے لیے پانی رکھتے کہا۔۔۔مگر صارم شاہ چپ چاپ بنا کوئی جواب دئیے کچن سے باہر نکل گیا۔۔۔
                    " ایک کپ چائے بنا دو فجر پلیز۔۔۔"
                    ابھی وہ صارم کے رویے پہ غور کر رہی تھی کہ احتشام شاہ کوئی شوخ سی دھن ہونٹوں پہ سیٹی کی صورت گنگناتا داخل ہوا اور فجر سے مسکراتے ہوئے چائے کا کہ کر ادھر ادھر کچھ ہلکا پھلکا کھانے کے لیے دیکھنے لگا۔۔۔
                    " ہیںننننننن۔۔۔۔۔خیر تو ہے بھائی۔۔۔"
                    فجر اور رامین کو تو ہارٹ اٹیک ہونے کو آیا تھا۔۔۔ہر وقت اپنے خول میں ایک رعب دبدبے کے ساتھ رہنے والا بندہ آج کوئی اور ہی انسان لگ رہا تھا۔۔۔
                    " کیوں کیا ہوا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے اسی انداز میں سوال کیا۔۔۔
                    ایسا لگ رہا جیسے ایسٹ اور ویسٹ ایک دوسرے کے اپوزٹ آ گئے ہیں۔۔۔
                    فجر نے حیرانگی سے کہا۔۔۔
                    " میں سمجھا نہیں۔۔۔"
                    ابھی تھوڑی دیر پہلے صارم بھائی کوئی دکھی آتما بن کر چائے کی فرمائش کرکے گئے ہیں۔۔۔جبکہ آج کل وہ کافی خوش دکھائی دیتے تھے۔۔۔اور آپ۔۔۔۔۔"
                    فجر نے احتشام کا لحاظ کرتے ذومعنی بات کرتے باقی کی بات ادھوری چھوڑ کر احتشام کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
                    " تم یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ میں سڑیل مزاج ہوں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " نن۔۔۔نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔لیکن آپ اکثر بہت سنجیدہ رہتے ہیں ناں۔۔۔مگر آج آپ اس روپ میں بہت الگ سے لگ رہے۔۔۔انفیکٹ بہت اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔ہے ناں رامین۔۔۔"
                    فجر نے مسکرا کر کہا۔۔۔اور اپنی بات کی تصدیق کے لیے رامین کو بھی اندر گھسیٹا۔۔۔
                    " فجر بلکل ٹھیک کہ رہی ہے بھائی ہمیشہ ایسے ہی رہا کریں۔۔۔"
                    رامین نے بھی مسکرا کر تائید کی۔۔۔
                    " بہت بولنے لگی ہو تم۔۔۔چائے بن جائے تو میری اور صارم کی روم میں ہی لے آنا۔۔۔
                    " ایک کپ چائے ملے گی۔۔۔"
                    احتشام کے جاتے ہی شرجیل بھی چائے کی طلب میں کچن میں آ کر رامین سے مخاطب ہوا۔۔۔
                    " یہ آج سب کو ہو کیا گیا ہے سب لوگ ایک باری میں کیوں نہیں بتا دیتے چائے کا۔۔۔
                    مجھ سے نہیں بنتی بھیا۔۔۔میں یہ چکن منچورین ٹرائی کر رہی ہوں۔۔۔آپ خود بنا لیں۔۔۔ ویسے آپ یہ کام کسی اور سے بھی ڈائریکٹ کہ سکتے ہیں۔۔۔
                    رامین نے جھنجلا کر کہا۔۔۔مگر جب شرجیل کی نظروں کا ارتکاز فجر پہ جمے دیکھا تو مسکرا کر فجر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
                    " آپ چلیں مم۔۔۔ میں بنا دیتی ہوں۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ رامین کچھ اور بولتی فجر شرجیل کی نظروں سے پزل ہوتی جلدی سے بولی اور ہلکا سا رخ موڑ گئ۔۔۔اسکی یہ حرکت شرجیل کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔۔۔
                    بلیک سوٹ پہنے اس کے ہم رنگ دوپٹے کو سلیقے سے اوڑھے ہوئے اسکی دودھیا رنگت بلیک کلر میں اور غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔جب سے اسکی نکاح کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی۔۔۔فجر اکثر اسکی نظروں کے حصار میں رہنے لگی تھی۔۔۔کچھ نہ کہ کر بھی اسکی بولتی نظریں سب کہ ڈالتیں۔۔۔اور فجر کا گھبرایا سا نروس نروس سا روپ اسکے دل کے تار ہلا دیتا۔۔۔دل میں بے اختیار اس کو چھو کر محسوس کرنے کی چاہ پوری شدت سے انگڑائی لیتی۔۔۔مگر نامحرم سے محرم کے سفر میں وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے اسے شرمندہ ہونا پڑے۔۔۔اور یہ چند دن اسے صدیوں پہ محیط لگ رہے تھے۔۔۔
                    شرجیل چائے کا کہ کر دروازے میں ہی جم کر کھڑا فجر کو محویت سے کام کرتے تکنے میں مصروف تھا۔۔۔اسکی بولتی نظریں فجر کے حواس سلب کرنے لگی تھیں۔۔۔کہ چائے کپ میں انڈیلتے اس کا ہاتھ لرزا تھا۔۔۔
                    " آہہہہہہہ۔۔۔۔۔"
                    فجر کے منہ سے بے اختیار سسکی برآمد ہوئی تھی۔۔۔گرم گرم چائے اسکے ہاتھ پہ گری تھی۔۔۔
                    " یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔"
                    شرجیل نے لپک کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔ایک کرنٹ سا فجر کے رگ و پے میں دوڑا تھا۔۔۔بے اختیار وہ دو قدم پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔رامین نے فوراً اس کا ہاتھ دیکھا اور کیبنٹ سے بام نکال کر اسکے ہاتھ پہ لگائی تھی۔۔۔شرجیل دو منٹ ہونٹ بھینچے وہاں کھڑا رہا پھر تیزی سے کچن سے باہر نکل گیا۔۔۔

                    " اوئے کیا بات ہے۔۔۔فجر بتا رہی کہ دکھی آتما بنے پورے گھر میں گھوم رہے ہو آج کل خیر تو ہے ناں۔۔۔"
                    احتشام شاہ روم میں واپس آیا تو صارم شاہ کو بیڈ پہ نیم دراز لیٹے چھت کو تکتے پایا۔۔۔
                    " کچھ نہیں۔۔۔بس ایسے ہی۔۔۔"
                    صارم شاہ نے اٹھ کر بیٹھتے مردہ دلی سے کہا۔۔۔
                    " صارم کیا بات ہے۔۔۔کیا تم عائلہ کے انکار پہ پریشان ہو رہے ہو۔۔۔؟
                    یار فجر بتا تو رہی کہ انکی والدہ کی بھی یہی خواہش ہے جو ہماری ہے۔۔۔اور عائلہ وہی کرے گی جو اسکی والدہ کہیں گی۔۔۔پھر تم کس لیے فکرمند ہو رہے ہو۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے کچھ سوچتے ہوئے صارم شاہ کے قریب بیٹھتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسکو تسلی دیتے کہا۔۔۔
                    " ہممممم۔۔۔ٹھیک کہ رہے آپ۔۔۔مگر اس میں عائلہ کی خوشی تو شامل نہیں ناں۔۔۔اور پتہ نہیں بھائی مجھے کیوں لگتا ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ہمیشہ بیزاری دیکھی ہے۔۔۔"
                    صارم نے پزمردہ لہجے میں کہا۔۔۔
                    " اس کا مطلب تم نے ابھی تک اس سے اپنے جزبات اپنی چاہت کا بھی اظہار نہیں کیا ہوگا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے افسوس سے اس کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔تو صارم شاہ نے نفی میں گردن ہلائی۔۔۔جس پہ احتشام شاہ سر پہ ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔۔
                    " عجیب آدمی ہو تم۔۔۔اتنے عرصے سے دل کی بات دل میں دبا کے بیٹھے ہو۔۔۔بندہ اشاروں کنایوں میں ہی اپنی فیلنگز کا اظہار کر دیتا ہے۔۔۔اب تو تمہارا اکثر ادھر جانا ہوتا ہے۔۔۔حیرت ہے کہ پھر بھی تمہیں کوئی موقع نہیں ملا۔۔۔اتنی بزدلی کی امید ہرگز نہیں تھی مجھے تم سے۔۔۔"
                    احتشام شاہ صارم کو تھوڑا لتاڑتے کہا۔۔۔
                    " میں بزدل نہیں ہوں بھائی۔۔۔یہ آپ اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔لیکن عائلہ کا رویہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کچھ کہ ہی نہیں پاتا۔۔۔بہت دفعہ کوشش بھی کی مگر پھر یہ سوچ کر چپ کرگیا کہ کہیں اسے برا نہ لگے۔۔۔جب انسان کسی سے پیار کرتا ہو تو پھر اس کی ناراضگی کی پرواہ کرنی پڑتی ہے۔۔۔اسکے موڈز دیکھنے پڑتے ہیں۔۔۔"
                    صارم شاہ نے کہا
                    " بھئ میں اس فلاسفی کو نہیں مانتا۔۔۔میرا خیال ہے کہ اگر کسی کے لیے کچھ اسپیشل فیل کریں تو اس بات کا اسے احساس ضرور دلائیں۔۔۔موڈ اور موقع دیکھنے کے چکر میں بعض دفعہ اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ جو جگہ ہم اپنے لیے سوچتے ہیں وہاں کوئی دوسرا آ کر قبضہ جما لیتا ہے۔۔۔اس لیے بھائی میرے تھوڑی ہمت کرو اور جو دل میں ہے کہ دو اس سے۔۔۔اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو بابا جیسے ہی اسلام آباد سے واپس آتے ہیں تو ہم تمہارے رشتے کی بات کر لیتے ہیں جا کے۔۔۔سارے مسلے حل۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے رسانیت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " آپ تو بھائی ایسے بات کر رہے جیسے بڑا تجربہ ہے آپکا ان معاملات میں۔۔۔خیر تو ہے۔۔۔"
                    صارم شاہ نے اب کے مسکراتے ہوئے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
                    " تجربہ تو نہیں یے۔۔۔لیکن مشاہدہ ضرور ہے کہ جب کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو اس پہ فوراً عمل درآمد کر لینا چاہیے۔۔۔جس بات کو جتنا لٹکاتے جائیں وہ اتنی خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے کہا۔۔۔اسی وقت رامین چائے لے کر اندر داخل ہوئی۔۔۔
                    " بھائی چائے۔۔۔"
                    رامین نے چائے رکھتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔۔۔
                    " اوہو آپ نے ایسے زحمت کی۔۔۔فجر کدھر ہے۔۔۔"
                    احتشام کو اس کے چائے لانے پہ حیرت ہوئی تھی۔۔۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے کوئی کام فجر سے کہا ہو اور اس نے خود کرنے کی بجائے آگے کسی سے کہ دیا ہو۔۔۔
                    " بھائی فجر کا ہاتھ تھوڑا جل گیا تھا۔۔۔وہ اپنے روم میں ہے۔۔۔اس لیے میں لے آئی۔۔۔"
                    رامین نے تفصیلی جواب دیا۔۔۔فجر کے ہاتھ جلنے کا سن کر وہ دونوں پریشان ہو کر چائے وہیں چھوڑ کر فوراً اٹھے تھے اور فجر کے روم کا رخ کیا۔۔۔



                    " یا الّٰلہ خیر۔۔۔بیٹا ہم ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں۔۔۔"
                    وومٹنگ کی وجہ سے وہ نڈھال سی ہو کر وہ باہر صحن میں ہی بچھی چارپائی پر گرنے کے سے انداز میں سر ہاتھوں پہ گرا کر بیٹھ گئ۔۔۔بزرگ خاتون کو اب صحیح معنوں میں فکر نے آ گیرا۔۔۔انھوں نے بغور اسکے سراپے کا جائزہ لیا تو ایک جھماکا سا انکے زہن میں ہوا۔۔۔ایسے بار بار وومٹنگ کھانے کی وجہ سے تو ہرگز نہیں تھی۔۔۔پھر انکی زیرک نظریں اس کی ٹھوڑی پہ جمی رہ گئیں۔۔۔
                    " کون ہو تم۔۔۔"
                    اچانک سے انھوں نے سوال کیا۔۔۔یہ سوال نہیں تھا بلکہ اس لڑکی اور ان کی بیٹی کے لیے دھماکہ تھا۔۔۔ان کی بیٹی اپنی ماں کے لب و لہجے پہ حیران ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔کچھ دیر پہلے جہاں ان کے چہرے پر اس لڑکی کے لیے رحم اور فکر تھی اب وہاں شکوک و شبہات کے ڈیرے جمے تھے۔۔۔
                    " بب بتایا تو تھا کہ میرا نام مہدیہ ہے۔۔۔اور کچھ لوگ میرا پیچھا کر رہے تھے ان سے بچنے کے لیے بھاگی تو آپ کا دروازہ کھلا دیکھ کر اندر چلی آئی۔۔۔آپ کا بہت شکریہ کہ بنا جانے آپ نے مجھے رات کو پناہ دی۔۔۔اب میں چلتی ہوں۔۔۔آپ کا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گی۔۔۔"
                    اس لڑکی نے بزرگ خاتون کے سوال پہ گڑبڑاتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
                    " کہاں جاؤ گی۔۔۔اپنے گھر کا پتہ بتاؤ میں خود تمہیں چھوڑ کر آتی ہوں۔۔۔ایسا نہ ہو کہ پھر سے کوئی پیچھے لگ جائے۔۔۔اور مصیبت میں ہر بار دروازے کھلے نہیں ملتے۔۔۔"
                    بزرگ خاتون نے اب کے ذرا نرم اور جانچتی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
                    " گھر۔۔۔میں چلی جاؤں گی آپ زحمت نہ کریں شکریہ آپکا۔۔۔"
                    اس لڑکی نے اب کے خود کو سنبھالتے پر اعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
                    " رکو۔۔۔جانا ہے تو پانی پی کر جانا۔۔۔تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔
                    بیٹا بہن کے لیے پانی لے کر آؤ۔۔۔"
                    بزرگ خاتون نے کہا۔۔۔
                    " اہہہہہہ۔۔۔۔ی۔۔یہ کیا کیا ہے آپ نے۔۔۔"
                    جیسے ہی انکی بیٹی پانی لے کر آئی بزرگ خاتون نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر مسافر لڑکی کی طرف بڑھایا۔۔۔مگر اس کے ہاتھ میں پکڑانے کی بجائے پانی کا پورا گلاس اس کے چہرے کی طرف اچھال دیا۔۔۔جس سے اس لڑکی کے چہرے سے میک اپ کچھ جگہ سے ہٹ گیا۔۔۔
                    " اب بتاؤ کون ہو تم۔۔۔"
                    بزرگ خاتون نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے آگے بڑھ کر اس کی مزاحمت کی پرواہ کیے بنا اپنے دوپٹے سے اس کا چہرہ زور سے رگڑ کر صاف کرتے کہا۔۔۔اب وہاں ایک سانولے رنگ کی بجائے انتہائی خوبصورت اور جازب نظر لڑکی کھڑی تھی دونوں ماں بیٹی ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھنے لگیں بلا شبہ وہ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی تھی۔۔۔اپنا آپ سامنے آ جانے پر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے۔۔۔اور چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے وہیں زمین پہ دوزانو بیٹھی رونے لگی۔۔۔
                    " بیٹا مجھے بتاؤ کیا مسلہ ہے۔۔۔کون ہو تم۔۔۔کہاں سے آئی ہو۔۔۔کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔اور یہ میک اپ میں چہرہ چھپانے کی وجہ۔۔۔
                    دیکھو اگر تم سچ سچ سب بتا دو تو ممکن ہے میں تمہاری ٹھیک سے مدد کر سکوں۔۔۔"
                    بزرگ خاتون اور ان کی بیٹی نے کچھ پل کو اسے یونہی رونے دیا۔۔۔پھر انھوں نے اسے سہارا دے کر چارپائی پہ بٹھایا۔۔۔بزرگ خاتون نے آہستہ آہستہ سے اس کی کمر کو شفقت سے سہلاتے کہا۔۔۔
                    " مم۔۔۔میرا نام مہدیہ ہے۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور میں کوٹھے سے اپنی جان اور عزت بچا کر بھاگی ہوں۔۔۔"
                    اس لڑکی کی بات بھی انکے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔۔۔پھر وہ سب سچ سچ بتاتی چلی گئ۔۔۔اور بنا کسی ری ایکشن کا اظہار کیے دونوں ماں بیٹی چپ چاپ اس کی بات سر جھکائے سنتی رہیں۔۔۔



                    ماضی۔۔۔۔۔۔!
                    پھر تھوڑی دیر بعد دلاور نے سجدے سے سر اٹھایا اور اٹھ کر الّٰلہ کا شکر ادا کرتے نم آنکھوں سے فاطمہ کو گلے لگایا فاطمہ اس کے گلے لگی ایک بار پھر سے سسک اٹھی۔۔۔
                    " آپی پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہے۔۔۔پلیز آپی چپ کر جائیں آپ کے آنسو مجھے بہت اذیت دے رہے ہیں۔۔۔الّٰلہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے آپکی حفاظت فرمائی۔۔۔اور ہمیں رسوا نہیں ہونے دیا۔۔۔اگر آپکو کچھ ہو جاتا تو آپکا دانی خود کو ختم کر لیتا کہ آپکی حفاظت نہ کرسکا۔۔۔"
                    دلاور نے فاطمہ کو یونہی گلے لگائے لگائے خود بھی بے آواز آنسو بہاتے کہا۔۔۔
                    " پتہ دانی ایک لمحہ کو میں بہت ڈر گئ تھی۔۔۔لگتا تھا سب ختم ہو گیا۔۔۔میں بچ نہیں پاؤں گی۔۔۔مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا پھر ایسا لگا جیسے کوئی غیبی طاقت مجھے الّٰلہ کی طرف بلا رہی ہے۔۔۔میری آنکھوں سے سب اوجھل ہوگیا۔۔۔نہ مجھے ان کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں نہ انکے خود کی طرف بڑھتے ہاتھ دکھائی دے رہے تھے۔۔۔اگر کچھ یاد رہا تو بس اتنا کہ الّٰلہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔
                    میں نے الّٰلہ کو پکارنا شروع کر دیا کہ بے شک میرے مالک عزت اور ذلت تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔۔۔اگر آج میری رسوائی میں ہی تیری رضا ہے تو میں تیری رضا پہ راضی ہوئی۔۔۔
                    مگر ایسا نہیں تھا دانی میرے الّٰلہ کو میری رسوائی گوارا نہیں تھی۔۔۔االّٰلہ نے تمہیں بھیج دیا۔۔۔میرے ایمان میرے یقین کو ڈوبنے نہیں دیا۔۔۔"
                    فاطمہ نے اب کے پرسکون لہجے میں کہا۔۔۔اب وہ پہلے کی طرح اعتماد و یقین کے ساتھ بات کر رہی تھی۔۔۔دلاور نے اسکی بات سن کر اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا۔۔۔
                    " ایسا ہی ہے آپی ماسو ماں کہتی ہیں ناں کہ جب کوئی بندہ الّٰلہ کو پورے یقین کامل سے پکارتا ہے تو وہ اسکی پکار رد نہیں کرتا۔۔۔اور اسکی مدد کے لیے ایسی جگہ سے وسیلے پیدا فرماتا ہے کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
                    سچ تو یہ ہے کہ مجھے خود بھی نہیں پتہ کہ میں یہاں تک اتنی جلدی کیسے پہنچ گیا۔۔۔میرے سب لوگ کیسے اتنی جلدی اکٹھے ہو گئے۔۔۔میں بھی ڈرا ہوا تھا کہ شائد میں ٹائم پہ نہ پہنچ سکوں۔۔۔مگر بلال اس ایریا کے پاس ہی تھا۔۔۔اور اتفاق سے باقی لوگ بھی یہاں پاس ہی کچھ عرصے سے ایک کام کے سلسے میں رہ رہے تھے۔۔۔
                    بے شک یہ سب الّٰلہ کی طرف سے ہی تھا۔۔۔الّٰلہ کی مرضی کے بنا ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔۔۔الّٰلہ کو سب پتہ ہوتا ہے کہ کب کس وقت کس کو کیا دینا ہے۔۔۔کس سے کیا لینا ہے۔۔۔اور کس نے کیا کرنا ہے۔۔۔آج جو کچھ بھی ہوا اسکو ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول جائیں۔۔۔اور پلیز ماسو ماں کو پتہ نہ چلے اس سب کا۔۔۔"
                    دلاور نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " اور یہ لوگ۔۔۔"؟
                    فاطمہ نے دروازے کے بیچوں بیچ پڑے ان سب بےہوش افراد کی طرف اشارہ کیا۔۔۔جو کچھ دیر پہلے فرعون بنے یہ بھولے ہوئے تھے کہ جب بندہ الّٰلہ کی پکڑ میں آتا ہے تو وہ ہل بھی نہیں سکتا۔۔۔اور عبرت ناک موت اس کا مقدر لکھ دی جاتی ہے۔۔۔
                    " یہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے۔۔۔اپنی دولت اور پاور کے نشے میں یہ بھول گئے تھے کہ ایک دن ان کا بھی حساب کا کھاتا کھلے گا۔۔۔ آج میں انکو بتاؤں گا کہ ان کی کیا اوقات ہے آج نہ ان کا پیسہ کام آئے گا ان کے اور نہ انکی پاور۔۔۔مرنے سے پہلے ہزار بار مریں گے۔۔۔ یہ موت مانگیں گے مگر موت بھی آج ان کو اپنانے سے انکار کردے گی۔۔۔ان کا وہ حال کروں گا کہ نہ کسی بے بس لڑکی کی طرف دیکھنے کے قابل رہیں گے نہ اس کو ہاتھ لگانے کے قابل۔۔۔نہ کسی راہ چلتی لڑکی پہ آوازیں کسنے کے قابل ہی چھوڑوں گا۔۔۔
                    اپنے منہ سے مکھی تک نہ اڑا سکیں گے یہ۔۔۔"
                    دلاور نے انتہائی سفاکیت اور نفرت سے کہا۔۔۔اس کے چہرے سے لپکتے اس کے غصے کے شعلے اس کی اندر کی حالت کو باخوبی واضح کر رہے تھے۔۔۔دلاور کچھ پل کو ان سب کی طرف غصے اور نفرت سے دیکھتا رہا جو زمین پہ آڑھے ترچھے اپنے انجام سے بے خبر پڑے ہوئے تھے۔۔۔
                    پھر ایک خیال دل میں آتے پورے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔مگر اسے ایسا کچھ نظر نہ آیا جو اس کی نظریں ڈونڈھ رہی تھیں۔۔۔
                    " دلاور تمہارے ساتھ اور کون ہے۔۔۔اور مجھے ایسے۔۔۔"
                    فاطمہ نے اپنے آنسو صاف کرتے نظریں چراتے ہوئے دلاور سے پوچھا۔۔۔
                    " کافی لوگ ہیں۔۔۔مگر آپ بے فکر رہیں میرے سوا کسی نے اندر قدم نہیں رکھا تھا۔۔۔"
                    دلاور نے اسکے سوال کا مفہوم سمجھتے خود بھی اس سے نظریں چرائی تھیں۔۔۔اور بظاہر خود کو پرسکون ظاہر کرتے پھر سے ادھر ادھر دیکھتے ساتھ والے روم کی طرف بڑھا۔۔۔جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک زنانہ سوٹ تھا۔۔۔
                    " آپی آپ اس روم میں جا کر یہ چینج کر لیں۔۔۔الّٰلہ کا شکر ہے کہ یہاں ایک وارڈروب میں کچھ لیڈیز ڈریسز موجود تھے۔۔۔یہ آپ کے لیے تھوڑا مناسب تو نہیں لیکن دوپٹے سے کور ہو جائے گا۔۔۔"
                    دلاور نے فاطمہ کی طرف ڈریس بڑھاتے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔۔


                    Comment


                    • #50
                      Episode, 30، 31#

                      رات گیارہ بجے انکی خالہ سکینہ کے گھر سے واپسی ہوئی تھی۔۔۔خلاف توقع نہ صرف رشید احمد شادی میں شریک ہوا بلکہ بہت اچھے طریقے سے سب سے ملا بھی۔۔۔اسکے انداز و اطوار سے کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ وہی خود غرض باپ اور شوہر ہے جو اپنے مطلب کے لیے اپنے خون کو بھی بیچ کھائے۔۔۔
                      اجالا کی موت کے بعد سے مہرالنساء کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی تھی شروع شروع میں عائلہ اور عینا کے منع کرنے پر وہ مہرالنساء کے سامنے نہیں آتا تھا۔۔گھر پہ تو وہ پہلے بھی نہیں ٹکتا تھا مگر پھر کئ کئ دن گھر سے غائب رہنے لگا۔۔۔کبھی کبار ایک آدھا دن کو چکر لگا لیتا اور پھر ہفتوں غائب رہتا۔۔۔
                      اپنی بیوی اور بچیوں کے لیے اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر تھا اس لیے وہ کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔۔
                      اپنی ماں کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس لیے تینوں بچیاں اپنی ماں کے پاس سونے لگی تھیں۔۔۔مگر آج بہت ہفتوں بعد وہ نہ صرف پورا دن گھر پہ رہا بلکہ رات کو بھی اپنے گھر پہ تھا۔۔۔
                      شادی سے واپس آتے ہی رشید احمد نے اپنے بیڈروم کا رخ کیا تو مہرالنساء کے کسی قسم کے ردعمل شو نہ کرنے پر بچیوں نے بھی اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔
                      تینوں نے روم میں آتے ہی اپنے کپڑے چینج کیے اور اپنے اپنے لحافوں میں گھس گئیں۔۔۔
                      " مجھے ماما کا اپنے شوہر کو معاف کرنا اچھا نہیں لگا وہ کیسے انکے ساتھ رہ سکتی ہیں میں جب بھی اس شخص کا چہرہ دیکھتی ہوں مجھے اجالا کی یاد آ جاتی ہے۔۔ماما کی تو بیٹی تھی پھر وہ کیسے پہلے کی طرح انکے ساتھ رہ سکتی ہیں۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا ماما نے کوئی ریسپونس کیوں نہیں کیا۔۔۔وہ بس ایک بار غصّٰہ تو کرتی پھر میں خود دیکھ لیتی۔۔۔"
                      عینا کو رشید احمد کا مہرالنساء کے روم میں جانا بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔اس کے خیال میں مہرالنساء کو ساری عمر کے لیے اب اپنے شوہر کو شوہر ماننا تو دور انکی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیے۔۔۔مگر مہرالنساء نہ صرف شادی پہ اسکے ساتھ شریک ہوئیں بلکہ اب اپنے روم میں آنے پہ بھی چپ رہیں جو کہ اس کی نظر میں سراسر غلط تھا۔۔۔
                      " دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔کیا دیکھ لیتی تم ہاں۔۔۔وہ شوہر ہیں انکے اور چپ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بندہ سب بھول گیا ہے اور معاف کردیا ہے۔۔۔نہ تم نہ میں حتیٰ کہ ماما بھی انکو اپنے روم میں جانے سے نہیں روک سکتیں اور ویسے بھی ماما بہتر سمجھتی ہیں کہ انکو کب کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔۔۔اس لیے فضول کی سوچوں کو اپنے دماغ میں مت پالو اور سو جاؤ۔۔۔"
                      عائلہ نے عینا کو ڈپٹتے ہوئے کہا اور خود بھی کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔عینا پہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ بھی اب سونا چاہتی ہے۔۔۔
                      " شوہر نہیں ہیں وہ۔۔۔قاتل ہیں وہ اجالا کے۔۔۔میں ان کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔پھر ماما کیسے کرسکتی ہیں۔۔۔"
                      اب کے عینا غصے سے تھوڑا چیخ کر بولی۔۔۔مگر عائلہ نے عینا کی کسی بات کا جواب نہیں دیا اور یونہی کروٹ لیے لیٹی رہی۔۔۔اب وہ اسے کیسے سمجھاتی کہ ان کی ماں کے اندر اپنی بیٹیوں کو لے کر کیسا خوف بیٹھ گیا ہے ایک کمزور عورت جس کے سر پہ میکے کے نام پہ نہ باپ کا سایہ ہو نہ بھائی کا مظبوط سائبان اور نہ ہی بیٹے کا سہارا۔۔۔ ایسی عورت ایسے شوہر کے سامنے نہ کھڑی ہوسکتی ہے نہ اس سے لڑ سکتی ہے جو شوہر کے نام پہ فرعون اور باپ کے نام پہ ایک دھبہ ہو۔۔۔
                      ایسی عورت جس نے ایک شرابی اور جواری شوہر کے ساتھ اپنی ساری عمر گزار دی ہو پھر وہ مرتی بھی اس کے گھر میں اسی کے نام کے ساتھ ہے۔۔۔وہ چاہ کر بھی کسی بات پہ کسی ظلم زیادتی پہ اپنے شوہر کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کر پاتی کہ کہیں طلاق کا بدنما دھبہ اس عمر میں اسکے ماتھے کی زینت بنا کر اسکے اور اسکی بیٹیوں کے کردار کو زمانے کی نظروں میں مشکوک نہ بنا دے کہ ہر صورت گنہگار تو عورت ہی ہوتی ہے۔۔۔پھر جب کوئی کٹہرے میں کھڑا ہی نہ ہو تو معافی کیسی، تلافی کیسی۔۔۔
                      کچھ دیر تک عینا کے بڑبڑانے کی آواز آتی رہی پھر وہ گہری نیند میں چلی گئ۔۔۔مگر عائلہ کی آنکھوں سے نیند ابھی بھی کوسوں دور تھی شادی پہ بھی تمام وقت وہ گم صم رہی تھی کچھ دیر تک اس کا دھیان عینا کی بات پہ الجھا رہا۔۔۔پھر اس کی ذہنی رو بھٹک کر عینا کی شام میں کہی گئ باتوں کی طرف چلی گئ بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ماں کے بہت قریب تھی گھر کے حالات نے اسے وقت سے پہلے ہی بڑا بنا دیا تھا۔۔۔اسکی عمر کی لڑکیاں اپنی آنکھوں میں سہانے خواب پرونے لگتی ہیں مگر اس کے دل میں ان جزبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی مہرالنساء کو اس کی شادی کی جتنی زیادہ فکر تھی وہ اتنا ہی چڑتی تھی۔۔۔اپنی ماں کو وہ دکھ بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔ اسلیے صارم شاہ کے لیے انکے دو ٹوک انداز اور فیصلے نے اسے سر جھکانے پہ مجبور کردیا تھا۔۔۔رہی سہی کسر عینا کی باتوں نے پوری کردی تھی۔۔۔
                      نہ چاہتے بھی اب وہ صارم شاہ کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔۔۔جب جب بھی اس کا صارم شاہ سے سامنا ہوا اس کی جزبے لٹاتی اس کو وارفتگی سے تکتی نظروں سے وہ ہرگز ناواقف نہیں تھی۔۔۔مگر وہ محبتوں سے ڈرتی تھی محبتوں سے خائف تھی جس معاشرے میں وہ رہتی تھی وہاں شادی کے بعد ان محبتوں کا اس نے بہت ڈراؤنا روپ دیکھا تھا۔۔۔اسکی نظر میں محبت کا نہ کوئی وجود تھا نہ ہے البتہ محبت کا دانہ پھینک کر اپنی غرض اپنی ہوس پوری کرنے کا وجود ضرور تھا۔۔۔اس نے اپنے باپ کو بطور شوہر اور باپ بہت قریب سے دیکھا تھا اس کی ماں جیسی انتہائی خوبصورت عورت کی خوبصورتی اور اچھی سیرت بھی اسکے باپ کا دل نہیں بدل سکی تھی۔۔۔اس کے دماغ میں یہ سوچ بیٹھ گئ تھی کہ عورت چاہے کتنی ہی خوبصورت پڑھی لکھی سمجھدار کیوں نہ ہو شادی کے بعد وہ صرف ایک بیوی ہوتی ہے جسے مرد اپنی جاگیر سمجھ کر جیسے چاہے جب چاہے بس اپنی ضروت کے لیے استعمال کرتا ہے جس کی پسند ناپسند حتیٰ کہ اس کا سونا جاگنا اس کی سانسیں تک شوہر کی مرضی اس کی پسند ناپسند سے جڑی ہوتی ہیں۔۔۔اس لیے اس کی زندگی میں شادی نہیں بلکہ پڑھ لکھ کر بس اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا ضروری تھا وہ اس معاشرے میں سر اٹھا کر جینا چاہتی تھی کسی مقام پہ کھڑا ہونا چاہتی تھی جہاں وہ کسی کی دست نگر نہ ہو۔۔۔سہارے تلاش کرنے کی بجائے وہ خود دوسروں کا سہارا بننا چاہتی تھی۔۔۔اس لیے اس نے صارم شاہ کی کسی پیش قدمی پہ کبھی کوئی مثبت رویہ نہیں اپنایا تھا۔۔۔
                      مگر گھر کے حالات اور اپنے شوہر کی کسی بھیانکر ہونی کے ڈر سے اس کی ماں کی سوچ ان کا فیصلہ اس کی ہر سوچ ہر فیصلے کے آڑے آ رہا تھا۔۔۔
                      اپنی ماں کی خوشی کے لیے اب وہ سب سوچ رہی تھی جو وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔کبھی کبھی اسے عینا پہ رشک آتا تھا کہ کاش وہ بھی اسکی طرح بہادر نڈر اور حالات سے لڑنے والی ہوتی۔۔۔
                      بستر پہ کروٹیں بدلتے بدلتے اب وہ چڑ کر دونوں گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔کچھ دیر بیٹھے رہنے کے بعد سردی سے جسم کپکپایا تو پھر سے لحاف گردن تک اوڑھ کر لیٹ گئ۔۔۔
                      صارم شاہ سے پہلے دن کے ٹکراؤ سے لیکر اب تک کے تمام مناظر کسی فلم کی طرح اس کے دماغ کی سکرین پہ دوڑنے لگے۔۔۔
                      بہت سوچنے کے بعد اس کو کوئی ایک بھی ایسا پوائنٹ نہیں ملا جس کی بنا پہ وہ صارم شاہ کے پرپوزل کو ریجیکٹ کرتی یا اس سے متنفر ہوتی۔۔۔ہر لحاظ سے بے شک وہ ایک آئیڈیل انسان تھا
                      دماغ نے صارم شاہ کو جیسے ہی پاس کیا تو فٹ سے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔
                      " عینا ٹھیک کہتی ہے بندہ برا نہیں ہے۔۔۔"
                      منہ ہی منہ میں لیٹے لیٹے بڑبڑاتے ہوئے اپنے لفظوں پہ دھیان گیا تو ایک شرمگیں مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔
                      ساری رات عائلہ کی مستقبل کے تانے بانے بنتے کٹ گئ۔۔۔اس کے دل نے اس سے بے وفائی کرکے صارم کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا۔۔۔محبت کی ننھی کونپل اسکے دل کے نہاں خانوں میں پھوٹی تو دل کی دھڑکنوں میں قیامت برپا ہونے لگی۔۔۔وہ جتنا سر جھٹکتی صارم شاہ کا تصور اتنی ہی شدت سے اسکے وجود کو اپنی لپیٹ میں لینے لگتا۔۔۔
                      یونہی لڑتے جھگڑتے کب نیند کی پری اس پہ مہربان ہوئی اسے پتہ ہی نہ چلا۔۔۔



                      " یہ فجر بیٹی نظر نہیں آ رہی وہ ناشتہ نہیں کرے گی کیا۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے اپنی چیئر پہ بیٹھتے ہوئے فجر کی چئیر خالی پڑی دیکھ کر پوچھا۔۔۔
                      سائیں میں گئ تھی بلانے لیکن ان کا کہنا ہے کہ انکے سر میں درد تھی تو ٹیبلٹ کھانے کے لیے انھوں نے صبح نماز پڑھ کے ناشتہ کر لیا تھا۔۔۔اب دل نہیں چاہ رہا۔۔۔ابھی وہ آرام کرنا چاہتی ہیں۔۔۔
                      رشیداں بوا نے جواب دیا اور ٹیبل پہ ناشتہ لگانے لگی۔۔۔
                      " ہممممم۔۔۔۔"
                      شاہ سائیں ہنکارہ بھر کر اپنا ناشتہ کرنے لگے۔۔۔جبکہ رشیداں بوا کی بات سن کر شرجیل کا ناشتہ کرتے جھکا سر مزید جھک گیا۔۔۔
                      " واؤ زبردست۔۔۔رشیداں بوا آپ ہمیشہ سلامت رہیں۔۔۔کممممال کے پراٹھے بناتی ہیں قسم سے مزا آ گیا۔۔۔"
                      سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ چپ چاپ ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔خلاف توقع صارم بھی سر جھکائے ناشتے میں چپ چاپ ایسے مگن تھا جیسے دنیا میں اس سے ضروری نہ کوئی بات ہے نہ کام۔۔۔شرجیل بھی اس کو گم صم لگا۔۔۔شہریار کی تو ویسے ہی چپ رہنے کی عادت تھی۔۔۔
                      احتشام شاہ نے ایک نظر سب کی طرف دیکھا پھر ماحول پہ چھائی اداسی دور کرنے کو با آواز بلند بولا۔۔۔اسکے انداز پہ رشیداں بوا کے ساتھ ساتھ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ دوڑ گئ ما سوائے شرجیل اور صارم کے۔۔۔
                      " امی جان میں سوچ رہا تھا کہ بابا جان اکثر اپنے کام کے سلسلے میں بہت بزی رہتے ہیں اتفاق سے آج سب لوگ موجود ہیں تو کیوں ناں ہم لوگ آج مہرالنساء خالہ کے گھر سے ہو آئیں عائلہ کے رشتے کے لیے۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے گم صم ناشتہ کرتے صارم شاہ کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے اب کے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے کہا۔۔۔
                      " ہممممم۔۔۔۔۔کہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔۔۔میرا بھی خیال ہے کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔۔کیا خیال ہے شاہ جی۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ کی بات کی تائید کرتے شاہ سائیں سے ہوچھا۔۔۔
                      " کیا بات ہے صارم شاہ آپ کچھ نہیں کہیں گے اس بات پہ۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے بغور صارم شاہ کی طرف دیکھ کر کہا انکو حیرت ہوئی تھی کہ اس کی زندگی کے بارے اتنا اہم فیصلہ ہو رہا تھا اور وہ بنا کسی تاثر کے کھانے میں یوں گم تھا جیسے کسی اور کی بات ہو رہی ہو۔۔۔
                      " ج جی بابا سائیں میں دیکھ لوں گا۔۔۔"
                      صارم شاہ نے بوکھلا کر جلدی سے بنا بات پہ غور کیے کہا۔۔۔اپنی سوچوں میں وہ اس قدر گم تھا کہ اس کو پتہ ہی نہ چلا کہ کیا بات ہو رہی ہے۔۔۔کل اسلام آباد سے واپسی پہ شاہ سائیں نے اس سے کہا تھا کہ بچیوں کے سکول کے لیے کسی قابل میپ میکر سے مل کر سبھی پوائنٹ ڈسکس کر کے جلد از جلد سکول کا نقشہ بنوائے تاکہ وہ گورنمنٹ سے پاس کروا کر اس پہ کام شروع کروا سکیں۔۔۔اور وہ سمجھا کہ شاہ سائیں شائد اسی بارے کہ رہے۔۔۔اس کی بات سن کر پہلے تو سب حیران ہوئے پھر اسکی غائب دماغی کا اندازہ لگا کر سب کے چہروں پہ مسکراہٹ دوڑ گئ۔۔۔
                      " بیٹا جی دیکھ تو آپ چکے ہیں اور ماشاءالّٰلہ سے پسند بھی فرما چکے ہیں اس لیے اب باقی کا کام ہمیں کرنے دیں۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے نیپکن سے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔صارم شاہ نے ابھی بھی ناسمجھی سے حیران نظروں سے پہلے شاہ سائیں اور پھر باری باری سب کی طرف دیکھا پھر جیسے ہی اس کی نظریں احتشام شاہ سے ٹکرائیں تو احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے ہلکے سے آنکھ ونک کی۔۔۔ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں صارم شاہ کے دماغ میں بات کو سمجھتے ایک جھماکا ہوا تو بے اختیار اس کے چہرے پہ جھینپی سی مسکراہٹ در آئی۔۔۔
                      " ہاں تو برخودار کیا کہتے ہیں پھر آپ۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے دوبارہ مسکراتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔۔۔
                      " بابا سائیں جیسے آپ اور امی جان بہتر سمجھیں۔۔۔"
                      صارم شاہ نے فرمانبرداری سے سر جھکا کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                      " تو ٹھیک ہے یہ تہ ہوا کہ ہم آج رشید احمد کے گھر جا رہے ہیں۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے سب کی طرف دیکھ کر کہا کہ کسی کو کوئی بات کرنی ہو تو بتا دے۔۔۔
                      " شاہ میرا خیال ہے کہ مناسب ہوگا اگر ہم آج کی بجائے کل یا پرسوں ادھر جانے کا پروگرام رکھ لیتے ہیں۔۔۔اصل میں سلطان بھائی بھی کل کی فلائیٹ سے پاکستان آ رہے ہیں تو کیوں ناں ہم ان کا ویٹ کر لیں وہ بھی اس نیک کام میں شامل ہو جائیں گے۔۔۔البتہ ہم آج ادھر سے ہو ضرور آتے ہیں اور فجر اور شرجیل بیٹے کے نکاح کا دعوت نامہ دے آئیں گے۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون کو اچانک سلطان صاحب کا خیال آیا تو اپنی رائے دیتی استفہامیہ انداز میں بولیں۔۔۔
                      " بات تو آپکی ٹھیک ہے ہائم۔۔۔چلیں ٹھیک ہے سلطان صاحب کے آنے تک اس بات کو پوسٹپون کر دیتے ہیں۔۔۔باقی جیسے آپکو بہتر لگے آپ کر لیں۔۔۔اور صارم بیٹا سکول کے نقشہ کا کیا بنا۔۔۔ہوئی بات کسی سے۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کی بات سے اتفاق کرنے کے بعد پھر سے اپنا رخ صارم شاہ کی طرف کیا۔۔۔
                      " بابا میری بات ہوگئ ہے۔۔۔میرا ایک دوست ہے وہ اس کام میں کافی ماہر ہے۔۔۔میں نے اس سے کہ دیا تھا۔۔۔ایک دو دن تک وہ سکول کا ماڈل تیار کردے گا تو میں لے آوں گا اس سے۔۔۔"
                      صارم شاہ کی بجائے احتشام شاہ نے فوراً جواب دیا۔۔۔
                      " ٹھیک ہے بیٹے آپ دیکھ لیں مگر دھیان رہے کہ اس کام میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اور اٹھ کر جانے ہی لگے تھے کہ دین محمد نے گاؤں کے کچھ معززین کے آنے کی اطلاع دی۔۔۔جس پہ شاہ سائیں نے مردان خانے کا رخ کیا انکے پیچھے پیچھے احتشام شاہ اور صارم شاہ بھی چل دئیے۔۔۔پورے گاؤں میں لڑکیوں کے سکول کی خبر پھیل چکی تھی جس کی وجہ سے اکثر ہی اب کسی نہ کسی کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔۔

                      " اسلام علیکم شاہ سائیں۔۔۔"
                      جیسے ہی شاہ سائیں نے مردان خانے میں قدم رکھا ملک امجد اور باقی لوگوں نے فوراً کھڑے ہوتے سلام کیا۔۔۔
                      " وعلیکم اسلام۔۔۔پلیز تشریف رکھیے۔۔۔دین محمد فوراً چائے پانی کا انتظام کرو۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے سب کے سلام کا جواب دینے کے ساتھ ہی پاس کھڑے دین محمد سے کہا اور اپنی نشست پہ جا بیٹھے۔۔۔شاہ سائیں کے بیٹھنے کے بعد باقی لوگ اور شاہ سائیں کے دونوں بیٹے بھی بیٹھ گئے۔۔۔
                      " جی ملک صاحب خیر تو ہے آج صبح صبح ہی کیسے آنا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں"
                      شاہ سائیں نے ملک امجد اور انکے ساتھ آئے سب لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
                      " شاہ سائیں ہم پہلے بھی آئے تھے مگر آپ اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔۔۔اصل میں ہم سب ایک عرضی لیکر آئے تھے۔۔۔"
                      ملک امجد نے بات کی ابتدا کی۔۔۔
                      " جی جی ملک صاحب آپ کھل کر بات کریں جو بھی کہنا چاہتے ہیں۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے کہا
                      " اصل میں ہم سب آپ سے سکول کی جگہ کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔۔۔گورنمنٹ نے بچیوں کے سکول کے لیے جو جگہ الاٹ کی ہے وہ گاؤں کی آبادی سے بلکل ہٹ کے ہے بے شک وہ ایک وسیع رقبہ ہے جہاں پر سکول کی عمارت آرام سے کھڑی کی جا سکتی ہے۔۔۔اگر یہ لڑکوں کے سکول کے لیے الاٹ ہوئی ہوتی تو کوئی مسلہ نہیں تھا مگر سارے گاؤں والوں کا خیال ہے کہ بچیوں کے لیے یہ مناسب نہیں۔۔۔حالات کا تو آپکو پتہ ہی ہے جہاں لوگوں میں شعور پیدا ہو رہا ہے لوگ اب بچیوں کی پڑھائی پہ توجہ دینے لگے ہیں وہیں پہ بچیوں کا گھروں سے نکلنا عزاب بن گیا ہے۔۔۔کیا ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ یہ سکول گاؤں میں آبادی کے اندر ہی بنایا جائے۔۔۔گاؤں سے باہر کی بجائے گاؤں کے اندر ہی زمین الاٹ کردی جائے۔۔۔تاکہ بچیوں کو نہ صرف آنے جانے میں آسانی ہو بلکہ مکمل تحفظ بھی حاصل ہو۔۔۔"
                      ملک امجد نے سارے گاؤں کی رائے سے شاہ سائیں کو آگاہ کرتے اپنا ووٹ بھی اسی حق میں دیا۔۔
                      " ملک صاحب سب سے پہلی بات کہ ابھی اتنے برے دن نہیں آئے کہ ہماری بچیوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے اور ہم بے غیرت بن کر چپی سادھ لیں۔۔۔اس گاؤں کی ہر بیٹی میری بیٹی ہے اور کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ میری کسی بیٹی کی طرف بھی میلی نگاہ سے دیکھنا تو دور ایسا سوچے بھی۔۔۔
                      اب رہی بات بچیوں کی آسانی کی کہ تو آپ کی بات ٹھیک ہے۔۔۔ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔۔۔اور یقیناً آپ کے ذہن میں اس کے لیے جگہ بھی ہو گی آپ بتا دیں کہ کونسی جگہ ہے آپکے ذہن میں۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے کہا تو ملک امجد نے جو جگہ بتائی وہ شاہ سائیں کو مناسب نہیں لگی۔۔۔
                      " ملک صاحب یہ جگہ تو جنازہ گاہ کے بلکل پاس پڑتی ہے اور میرا نہیں خیال کہ وہاں بچیوں کے لیے سکول بنانا مناسب ہوگا۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے فوراً کہا تو شاہ سائیں نے توصیفی نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔۔۔ان کو بہت خوشی ہوئی تھی کہ ان کا بیٹا گاؤں سے اتنا بھی بے خبر نہیں۔۔۔
                      " ہممممم۔۔۔۔۔۔ٹھیک کہ رہے ہو تم۔۔۔ احتشام بیٹا ایسا کرو کہ میرے روم کی سائیڈ ٹیبل کی ڈرا میں سکول کی فائل اور گاؤں کا نقشہ پڑا ہوگا وہ لے کر آؤ ذرا۔۔۔
                      " شاہ سائیں نے احتشام شاہ کی بات کی تائید کرتے کچھ پل سوچنے کے بعد احتشام شاہ سے کہا۔۔۔
                      " ادھر تو کوئی فائل نہیں ہے جبکہ بابا سائیں کہ رہے تھے کہ سائیڈ ٹیبل کی ڈرا میں پڑی ہے۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے بڑبڑاتے کہا اس نے ڈرا میں دیکھا تو وہاں اسے کچھ نہ ملا۔۔۔پھر اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر فائل کہیں پڑی نظر نہ آئی۔۔۔پھر اس کا دھیان سیف الماری کی طرف گیا تو کچھ سوچ کر اس کو کھول کر دیکھنے لگا۔۔۔وہاں پڑی چیزوں اور باقی فائلز کو وہ الٹ پلٹ کر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک سنہری کلر کی فائل اس کے ہاتھ لگی جس پہ جلی حروف میں زندگی لکھا ہوا تھا۔۔۔احتشام شاہ نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ فائل کھولی تو اس میں بہت سی تصویریں تھیں جن میں شاہ سائیں ایک انتہائی خوبصورت لڑکی کے ساتھ مختلف پوز میں اس کے انتہائی قریب کھڑے تھے۔۔۔
                      وہ تصویریں دیکھ کر اس کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔۔۔اسے ایسا لگا جیسے کمرے کی چھت اس کے اوپر آ گری ہو۔۔۔کئ پل بنا کسی جنبش کے وہ ان تصویروں کو باری باری تکتا رہا ہر تصویر اس کے بابا کے ماضی کے گزرے خوش کن لمحات کی اپنی ایک الگ کہانی سنا رہی تھی۔۔۔اس نے بار بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان تصویروں کو غور سے دیکھا کہ شائد یہ اس کی نظروں کا دھوکا ہے۔۔۔
                      " کون ہے یہ۔۔۔بابا ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔"
                      فائل ہاتھ میں پکڑ کر وہ بیڈ پہ وہیں ڈھے گیا ایک تصویر ہاتھ میں پکڑے کتنی دیر وہ اس پہ نظریں گاڑھے بیٹھا رہا۔۔۔تصویر میں موجود لڑکی بے شک اتنی خوبصورت تھی کہ کوئی پتھر دل بھی ہوتا تو اسے دیکھ کر نظریں پلٹنا بھول جاتا۔۔۔مگر اس کا دل کسی صورت اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ساری دنیا کے مرد ہو سکتے تھے مگر اس کے بابا نہیں۔۔۔اس کا دل ماننے کو کسی طور تیار نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے عزیز از جان بابا اس کی ماں سے بے وفائی کر سکتے ہیں۔۔۔جو جگہ اس کی ماں کی تھی وہ کسی اور کو دے سکتے ہیں۔۔۔جس پیار پہ اس کی ماں کا حق تھا وہ کسی اور کی جھولی میں ڈال سکتے ہیں۔۔۔
                      آج تک اپنے ماں باپ کے بیچ عزت احترام اور محبت کو دیکھ کر کبھی ہلکا سا شک بھی اس کے پاس سے نہیں گزرا کہ اس کے بابا کی زندگی میں کوئی دوسری عورت بھی تھی اور نہ ہی اپنی ماں کے رویے سے کبھی محسوس ہوا۔۔۔
                      مگر تصویروں میں موجود لڑکی چیخ چیخ کر اپنے ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔۔۔فائل میں سے ایک تصویر نکال کر اس نے اپنی جیکٹ میں رکھی اور باقی تصویروں کو پھر سے دیکھنے لگا۔۔۔اسی وقت صارم شاہ روم کی طرف آتا دکھائی دیا تو جلدی سے اس نے فائل بند کرکے واپس اپنی جگہ پہ رکھ دی۔۔۔ضبط کے مارے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
                      " بھائی ملی نہیں فائل۔۔۔بابا کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔۔"
                      صارم شاہ نے اندر آتے کہا۔۔۔
                      " نہیں مجھے نہیں ملی۔۔۔تم بابا سے دوبارہ پوچھ کے آؤ کہ کدھر رکھی ہے۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے نظریں چراتے کہا۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ صارم اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کوئی سوال کرے۔۔۔اور اس وقت وہ ساری دنیا سے دور کہیں بھاگ جانا چاہتا تھا۔۔۔


                      " بلال۔۔۔"
                      دلاور نے خنجر کو اسی شخص کی شرٹ سے صاف کرتے بلال کو مخاطب کر کے باقی سب کو ہوش میں لانے کا اشارہ کیا۔۔۔تو بلال پھرتی سے آگے بڑھا اور باری باری سب کو ہوش میں لانے لگا۔۔۔سب کے ہوش میں آنے کے بعد وہ اپنی جگہ پر واپس جا کر کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں سے کچھ ٹکرانے پہ اس نے نیچے دیکھا تو ان پانچوں میں سے کسی کا موبائل تھا جو زمین پہ پڑا ہوا تھا۔۔۔بلال نے موبائل اٹھا کر دلاور کے پاس ہی رکھ دیا۔۔۔
                      " مم۔۔۔معاف کردو۔۔۔پلیز دلاور تمہیں الّٰلہ کا واسطہ ہمیں معاف کردو۔۔۔ہم وعدہ کرتے ہیں سب چھوڑ چھاڑ کر ہم اس ملک سے ہی چلے جائیں گے۔۔۔"
                      جیسے ہی وہ سب ہوش میں آئے پھر سے چیخ و پکار کرنے لگے۔۔۔
                      " ی یہ۔۔۔۔یہ مجھے انھوں نے کہا تھا۔۔۔قسم لے لو۔۔۔مم میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ی۔۔۔یہ طارق نے کہا تھا ویڈیو بنانے کا۔۔۔اور۔۔۔اور میں نے تو تمہاری بہن کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔۔۔بب۔۔۔بے شک دیکھ لو تم جو بھی کیا ہے اس طارق اور مبین نے کیا ہے۔۔۔مم مجھے معاف کردو۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ دو۔۔۔"
                      دلاور کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے اچانک سے اکرم کی نظر جیسے ہی دلاور کے پاس پڑے اپنے موبائل پہ پڑی اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا موبائل پاس پڑا دیکھ کر وہ سمجھا کہ دلاور سب دیکھ چکا ہے اس لیے فوراً سے خود کو بچانے کے لیے خوفزدہ ہو کر ہذیانی انداز میں سارا الزام طارق اور مبین پہ ڈالنے لگا۔۔۔
                      دلاور اور بلال حیران ہو کر اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنے لگے پھر اس کی نظروں کے زاویے کا تعاقب کرتے ان دونوں کی نظریں بھی موبائل پہ ٹک گئیں۔۔۔
                      " بکواس کر رہا ہے حرامی۔۔۔ہمارے ساتھ ہر کام میں تو برابر کا شریک تھا۔۔۔لعنت ہے تم پہ۔۔۔۔"
                      سارا الزام ان دونوں پہ ڈالتے دیکھ کر طارق اور مبین غصے اور نفرت سے اکرم کی طرف دیکھ کر بولے۔۔۔
                      بلال نے دلاور کے پاس پڑا موبائل اٹھا کر اون کیا تو ویڈیو ری پلے ہو گئ موبائل شائد آٹو سیو تھا اس لیے موبائل بند ہونے کے بعد بھی ویڈیو ڈیلیٹ ہونے کی بجائے سیو ہو گئ۔۔۔ویڈیو پلے ہوتے ہی کمرے میں فاطمہ کی درد ناک التجائیہ چیخیں پھر سے گونجنے لگیں۔۔۔دلاور نے انتہائی پھرتی سے اسی وقت بلال کے ہاتھ سے موبائل چھین کر اس ویڈیو کو کچھ پل دیکھا پھر غصے سے بلند آواز میں دھاڑتے ہوئے زور سے موبائل دیوار پہ دے مارا۔۔۔موبائل دیوار پہ لگتے ہی کئ ٹکڑوں میں بٹ گیا۔۔۔۔پھر وہ یکدم پلٹا اور چیختے ہوئے طارق کو اپنے گھونسوں اور لاتوں پہ رکھ لیا۔۔۔طارق کا پورا چہرہ لہو لہان ہوگیا اور پھر سے بے ہوش ہوگیا۔۔۔
                      " دلاور ہم مانتے ہیں ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئ ہے ہم غصے اور انتقام کی آگ میں جلتے اندھے ہو گئے تھے۔۔۔مگر میں الّٰلہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہاری بہن کا دامن بلکل پاک ہے۔۔۔ہم سے اسے چھونے کی غلطی ضرور ہوئی مگر ہم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ہم پر شیطان سوار ہو گیا تھا مگر۔۔۔۔۔
                      مگر پھر ہم آ گئے۔۔۔ہاں۔۔۔"
                      مبین کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر بلال غصّے سے اس پہ پل پڑا۔۔۔۔
                      " چھوڑ دو بلال یہ اتنی آسان موت کے حقدار نہیں ہیں۔۔۔"
                      مبین کی ٹھکائی کرتے بلال کا ہاتھ روکتے ہوئے دلاور نے ایک جتاتی نظر اپنے سب ساتھیوں پر ڈالی کہ کسی کے دماغ میں فاطمہ کو لے کر اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور کرلے۔۔۔بلال کو روکنے کے بعد اس نے
                      طارق کو ہوش میں لانے کا کہا اور ساتھ ہی اپنے پاس کھڑے اپنے ایک آدمی سے ایسڈ لانے کا بولا۔۔۔
                      دلاور نے جو حال طارق کے پہلے ساتھی کا کیا تھا وہی حال اسکے دوسرے ساتھی کا بھی کیا پھر طارق کے ہوش میں آنے پہ وہ اس کی طرف بڑھا۔۔۔
                      " میری بہن کو کس ہاتھ سے چھوا تھا تم نے۔۔۔ہاں۔۔۔کس ہاتھ سے۔۔۔"
                      دلاور نے طارق کے پاس کھڑے ہو کر اس کو بالوں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
                      " م معاف کردو۔۔۔معاف کردو۔۔۔"
                      طارق کرلاتے گڑگڑاتے ہوئے بولا
                      " اس ہاتھ سے۔۔۔ہاں۔۔۔ اس ہاتھ سے چھوا تھا۔۔۔۔۔"
                      دلاور نے غصے سے کہتے ساتھ ہی طارق کے ہاتھوں اور بازؤں پہ اسی خنجر سے پے در پے وار کر کر کے اسکے ہاتھوں اور بازوؤں کا مسلہ بنا دیا۔۔۔پھر وہی خنجر اس کی آنکھوں میں گھسیڑ دیا۔۔۔اس وقت وہ کوئی جنونی پاگل دکھ رہا تھا۔۔۔زخموں کی اور اس درد ناک تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے طارق کی روح کب کی اس کے جسم سے پرواز کر چکی تھی۔۔۔مگر دلاور بنا اس بات کی پرواہ کیے اس کے جسم کو جگہ جگہ سے ویسے ہی گودے جا رہا تھا۔۔۔
                      " دلاور۔۔۔مرچکا ہے یہ۔۔۔بس کرو۔۔۔فاطمہ۔۔۔۔۔"
                      اس کے سب ساتھی اب بھی گونگے بہرے بنے سب ایک طرف خاموشی سے کھڑے دیکھ رہے تھے کسی میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آگے بڑھ کر اس سے کہ سکے کہ وہ مر چکا ہے۔۔۔بلال نے جب دیکھا کہ وہ خود پہ کسی طور قابو نہیں کر پا رہا تو وہ آگے بڑھا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ہلکا سا پیچھے کو کرتے ہوئے بولا۔۔۔دلاور نے یکدم خونخوار نظروں سے بلال کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔اسے بلال کا ٹوکنا اچھا نہیں لگا تھا اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ اٹھتا بلال کی نظر اٹییچ روم کے بیچوں بیچ زمین پہ بے سدھ پڑی فاطمہ گئ۔۔۔بلال نے ذرا بلند آواز میں فاطمہ کو پکارتے ہوئے دلاور کا دھیان پیچھے کی طرف کروایا۔۔۔دونوں دوڑنے کے انداز میں فاطمہ تک پہنچے۔۔۔
                      اپنے کانوں میں انگلیاں دئیے اندر بیٹھی فاطمہ کی برداشت بھی جواب دے گئ تھی وہ دلاور کو روکنے کے لیے روم میں آئی تو سامنے کا دہشت ناک منظر دیکھ کر وہیں ڈھے گئ۔۔۔
                      " " آپی ی ی ی۔۔۔۔آپییییی۔۔۔۔"
                      دلاور نے فاطمہ کا چہرہ تھپتھایا مگر وہ اسی طرح پڑی رہی پھر دلاور نے اپنے دونوں بازوؤں میں اسے اٹھایا اور لیجا کر روم میں بیڈ پہ لٹا دیا پھر فاطمہ کی نبض چیک کی جو بہت سلو چل رہی تھی۔۔۔
                      دلاور کچھ پل وہاں کھڑا فاطمہ کو دیکھتا رہا۔۔۔پھر واپس اسی روم میں آیا تو جس آدمی کو اس نے بھیجا تھا وہ ایسڈ لے کر آ چکا تھا۔۔۔
                      " دلاور اس کو ہم بعد میں دیکھ لیں گے۔۔۔پہلے فاطمہ کو ہاسپٹل لے کر چلتے ہیں انھیں کچھ ہو۔۔۔۔"
                      بلال نے دلاور کا دھیان فاطمہ کی طرف کروانا چاہا تو دلاور نے انتہائی خشمگین سرد نظروں سے اس کی طرف دیکھا کہ مزید کچھ بھی کہنے کی اس میں ہمت ہی نہیں ہوئی۔۔۔
                      دلاور نے ایسڈ پکڑ کر سائیڈ پہ رکھا پھر بے ہوش پڑے مبین کی خنجر سے آنکھیں نکال دیں شدید تکلیف کے مارے مبین ایک چیخ مار کر ذرا کی ذرا ہوش میں آیا اور پھر سے اس کا سر ڈھلک گیا۔۔۔دلاور نے سکون سے اس کا دوسرا اکلوتا ہاتھ بھی کاٹ ڈالا۔۔۔پھر اسکی زبان کاٹ کر ایسڈ والی بوتل کھول کر تھوڑا سا ایسڈ اس کی دونوں آنکھوں میں اور پھر اس کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔پھر ایسڈ کے چند قطرے اس کے کان میں انڈیل دئیے پھر باقی کی بوتل دلاور نے اس کے نچلے دھڑ کے نیچے انڈیل دی۔۔۔اس سے مبین کا تیزی سے بہتا خون فوراً بند ہوگیا۔۔۔اب وہ زندہ تو رہتا مگر ایک زندہ لاش بن کر۔۔۔
                      پورے کمرے میں گوشت جلنے کی بو پھیلی ہوئی تھی کمرے کا پورا فرش بھی خون سے بھرا ہوا تھا اس وقت وہ ڈیکوریٹڈ روم کسی مقتل گاہ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔۔۔
                      پھر دلاور روم میں واپس گیا اور فاطمہ کو بازوؤں میں اٹھا کر باہر کا رخ کیا۔۔۔اس کے پیچھے پیچھے اس کے سب ساتھی بھی باہر نکل آئے۔۔۔
                      " دلاور ان سب کا کیا کرنا ہے۔۔۔"
                      بلال نے باہر نکلتے ہی دلاور سے سوال کیا۔۔۔
                      مبین اور طارق کو اس کے گھر کے آگے پھنکوا دو۔۔۔اور باقی سب کو کسی کوڑے یا گندی نالی میں جو تمہیں ٹھیک لگے۔۔۔"
                      تم سب لوگ بھی جا سکتے ہو۔۔۔کچھ دن تک اپنی تمام سرگرمیاں بند کردو۔۔۔اور واپسی کے لیے الگ الگ اور مخالف راستے سے جانا۔۔۔اور اگر میں پکڑا گیا تو کوئی بھی نہ مجھ سے ملنے آئے گا اور نہ کسی قسم کا رابطہ رکھے گا۔۔۔سمجھ گئے سب۔۔۔
                      غصے اور حقارت سے کہ کر دلاور نے فاطمہ کو دھیرے سے اپنی گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹایا پھر مڑ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا پھر خود بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہاسپٹل کا رخ کیا۔۔۔بلال کے ساتھ 3 آدمی وہیں رکے تا کہ لاشوں کو ٹھکانے لگا سکیں۔۔۔ اور باقی سب اپنے اپنے ٹھکانے کو چل دئیے۔۔۔

                      ایک ہفتہ بعد۔۔۔۔!
                      مبین کی حالت سخت خراب تھی ایک ہفتے سے وہ آئی سی یو میں ایڈمٹ تھا۔۔۔نہ وہ بول سکتا تھا نہ دیکھ سکتا تھا۔۔۔نہ دن سکتا تھا۔۔۔وہ بچ بھی جاتا تو زندگی بھر کسی کو کچھ بتا نہ پاتا اس کی حالت دیکھ کر ڈاکٹرز اور نرسز بھی کانوں کو ہاتھ لگاتیں۔۔۔
                      مبین کے باپ نے اپنے ریسورسز کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کے تمام محکمے کو ہلا ڈالا دن رات کی کوشش کے باوجود بھی کسی کے ہاتھ کوئی سرا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
                      فاطمہ ہر وقت گم صم رہتی۔۔۔رضوانہ خاتون نے بہت دفعہ سب جاننے کی کوشش کی مگر اس نے اپنی زبان پر ایسا قفل لگایا جو کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔پہلے جہاں وہ کبھی کبار نماز پڑھا کرتی تھی اب اس کا زیادہ تر وقت تلاوت قرآن اور نماز و عبادات میں گزرنے لگا۔۔۔
                      جس دن وہ واپس آئی تھی اس کے کپڑوں اور اس کی حالت کو دیکھ کر رضوانہ خاتون کا ماتھا ٹھنکا تھا مگر اس کی حالت کے پیش نظر اپنے دل دماغ میں اٹھتے سوالوں کو دل میں ہی روک کر رہ گئیں۔۔۔دلاور نے بھی سختی سے منع کردیا تھا کہ جب تک وہ خود بات نہ کریں ان سے کچھ نہ پوچھیں۔۔۔بس اتنا یاد رکھیں کہ الّٰلہ نے ہمیں رسوا نہیں ہونے دیا۔۔۔
                      ایک دن رات کے پچھلے پہر رضوانہ خاتون کی آنکھ کھلی تو فاطمہ سجدے میں گری اپنے الّٰلہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔۔۔اس کے بعد رضوانہ خاتون نے بھی اپنے لب سی لیے تھے ان کے لیے یہی کافی تھا کہ انکی بیٹی کے دامن پہ کوئی داغ نہیں لگا تھا۔۔۔
                      زندگی بظاہر اپنی پہلے کی روٹین پر چل رہی تھی کہ ایک دن اچانک پولیس نے انکے گھر پہ دھاوا بول دیا اور دلاور اور بلال کو گرفتار کر لیا گیا۔۔۔
                      فاطمہ نے دونوں کی ضمانت کے لیے ایک بڑا وکیل کیا تھا مگر ان پر کیس اتنا مظبوط بنایا گیا تھا کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود ان کی ضمانت نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔
                      سی سی ٹی وی فوٹیج میں دلاور اپنے ساتھیوں سمیت اسی فارم ہاؤس کی طرف جاتا دیکھا گیا تھا۔۔۔
                      پورے ملک میں ان اندوہناک قتلوں کی وجہ سے شور مچا ہوا تھا۔۔۔پورا میڈیا اور عوام دلاور اور اسکے ساتھیوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔۔۔
                      فاطمہ کی ہر کوشش ناکام ہو کر رہ گئ آخری پیشی والے دن دلاور نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے سارا ملبہ خود پہ گرا لیا۔۔۔اور بلال کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کردیا گیا دلاور کو موت کی سزا کے ساتھ دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئ۔۔۔اور اس کی تمام جائیداد بھی ضبط کر لی گئ۔۔۔
                      دلاور کو سینٹرل جیل میں شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔ایک دن فاطمہ ملاقات کے لیے آئی تو دلاور نے فاطمہ کو دوبارہ جیل آنے سے سختی سے منع کردیا۔۔۔
                      بلال اب بھی پہلے کی طرح ہی رضوانہ خاتون اور فاطمہ کا خیال رکھتا تھا۔۔۔
                      ایک دن وہ انکی خبر گیری کو گیا تو دروازے پہ تالا لگا دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔آس پاس سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ کل شام کو ہی کہیں چلے گئے تھے۔۔۔کہاں گئے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔
                      کئ دن اور ہفتوں تک ڈونڈھنے کے بعد بھی بلال اور اس کے ساتھی تھک ہار کر بیٹھ گئے۔۔۔پھر مجبوراً بلال کو یہ دلخراش خبر دلاور کو دینی پڑی۔۔۔جسے سن کر دلاور پر ایک قیامت گزر گئ۔۔۔
                      اس نے بلال اور ساتھیوں سے فاطمہ اور ماسو ماں کو ہر حال میں ڈونڈھنے کا کہا۔۔۔مگر ان کا کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔

                      دو سال بعد۔۔۔!
                      پھر اچانک سے کیس نے پلٹا کھایا دلاور کے خلاف دائر کیس واپس لے لیا گیا۔۔۔مقتولوں کے گھر والوں نے دلاور کو معاف کردیا۔۔۔
                      بعد میں دلاور کو پتہ چلا کہ اس کے ساتھیوں نے طارق اور اس کے ساتھیوں کے موبائل اٹھا لیے تھے جن میں اکرم والا موبائل بھی تھا۔۔۔اس کے ایک ساتھی کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر اس موبائل میں ایسا کیا تھا جسے دیکھ کر دلاور آپے سے باہر ہو گیا ایک امید کے تحت اس نے وہ موبائل اٹھا کر منہ مانگی قیمت پہ اس کو ٹھیک کروا لیا۔۔۔
                      جب اس بات کا پتہ بلال کو چلا تو ایک آخری امید کے تحت بلال وہ موبائل لے کر طارق کے گھر پہنچ گیا۔۔۔اور مبین اور اکرم کے ماں باپ کو بھی وہیں بلا لیا۔۔۔پھر سب کی موجودگی میں موبائل پہ وہ ویڈیو پلے کر کے میز پہ رکھ دی۔۔۔
                      سب لوگ وہ ویڈیو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔۔۔بلال نے ویڈیو آف ہونے کے بعد اپنے لفظوں سے ان کے دلوں پہ کاری وار کیے۔۔۔اکرم کے ماں باپ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے اپنے بیٹے کی ان حرکتوں سے قطعی طور پہ ناواقف تھے۔۔۔جب ان پر حقیقت کھلی تو جہاں اپنے بیٹے کی اذیت ناک موت کا دکھ تھا وہیں پہ اس کی حرکت پہ سخت نادم بھی ہوئے۔۔۔اور دلاور کو اسی وقت معاف کردیا۔۔۔طارق کی ماں نے بھی کچھ شش و پنج کے بعد معاف کردیا مگر مبین کے ماں باپ نے چپ سادھ لی۔۔۔کچھ پل انتظار کرنے کے بعد بلال فیصلہ ان پر چھوڑ کر چلا آیا۔۔۔
                      پھر ایک ہفتے بعد دلاور کے خلاف تمام کیس خارج کر دئیے گئے۔۔۔
                      اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ماسو ماں اور فاطمہ کے نہ ملنے کی وجہ سے دلاور ہر وقت پریشان رہنے لگا۔۔۔تو بلال اور اس کے ساتھی اسے بہلانے کو نیلم بائی کے کوٹھے پر لے گئے جہاں موہنی کے قیامت خیز حسن اور دلفریب رقص میں کھو کر دلاور نشے دھت ہو کر سب بھول گیا۔۔۔پھر دلاور کا اکثر آنا جانا رہنے لگا مگر اس نے کبھی موہنی کی طرف نہ کبھی میلی نظر سے دیکھا نہ کبھی اس کو چھونے کی ہی کوشش کی۔۔۔وہ موہنی کا رقص دیکھتے ہوئے اس پہ بے دریغ پیسہ لٹاتا پھر رقص ختم ہونے کے بعد چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا آتا۔۔۔
                      اپنی انھی عادتوں کی وجہ سے وہ بہت جلد مرکز نگاہ بن گیا۔۔۔ہع کوئی اسے موہنی کا عاشق سمجھنے لگا۔۔۔اور غیر ارادی طور پہ موہنی بھی اس کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
                      سیٹھ شجاع بھی ن چند لوگوں میں سے تھا جو دل کھول کر موہنی پہ پیسہ لٹاتے تھے۔۔۔سیٹھ شجاع کی بہت دنوں سے موہنی پر نظر تھی۔۔۔ایک دن اس کے صبر کی حد جواب دے گئ تو رقص ختم ہونے کے بعد اس نے موہنی کے ساتھ رات گزارنے کے لیے منہ مانگی قیمت کی آفر کی جسے موہنی نے اسی وقت ٹھکرا دیا۔۔۔
                      سیٹھ شجاع کو ایک طوائف کے منہ سے انکار اور نخرہ غصّٰہ دلا گیا۔۔۔
                      پھر ایک دن سیٹھ شجاع کے چند آدمی موہنی کو لینے آئے تو اس کے انکار پر وہ زبردستی پر اتر آئے۔۔۔اور موہنی کو زبردستی کھینچتے ہوئے لیجانے لگے۔۔۔کسی کو بھی سیٹھ شجاع کے ڈر سے آگے ہوکر موہنی کو بچانے کی ہمت نہیں ہوئی نیلم بائی بھی ہلکی سی مزاحمت کے بعد چپ چاپ تماشہ دیکھتی رہی۔۔۔دلاور کچھ دیر کو یہ سب دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ کر اس نے موہنی کا ہاتھ کھینچ کر زور سے پیچھے کیا۔۔۔
                      اس جرأت پر سیٹھ شجاع کے آدمی دلاور پر پل پڑے۔۔۔یہ سب دیکھ کر بلال اور دلاور کے باقی ساتھی بھی میدان میں کود پڑے۔۔۔دلاور اور اس کے ساتھیوں نے مار مار کر سیٹھ شجاع کے آدمیوں کا حلیہ بگاڑ دیا۔۔۔
                      اس کے بعد دلاور نے سب کے بیچ میں اعلان کردیا کہ جو بھی اب موہنی کی طرف بڑھے گا اس کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔۔۔
                      سیٹھ شجاع نے بعد میں بھی کئ بار کوشش کی مگر ہر بار دلاور کے ہاتھوں اسے منہ کی کھانی پڑی۔۔۔
                      دلاور جو پہلے کبھی کبار آتا تھا اب وہ روزانہ چکر لگانے لگا۔۔۔اور اس دوران موہنی کا دل کب دلاور کے نام پہ دھڑکنے لگا اس کو پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔
                      اب وہ بس اسی دن رقص پیش کرتی جب اسے دلاور کے آنے کی اطلاع ملتی۔۔

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X