شاہ سائیں کی حویلی کے مردان خانے میں اس وقت الگ الگ صوفوں پہ دو نفوس آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔عورت کے چہرے پہ دکھ ، اذیت، اور پریشانی کے واضح آثار موجود تھے جبکہ سامنے بیٹھا اٹھائیس سالہ وجیہہ مرد بھی کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔
اسکے سامنے بیٹھی عورت کب سے آنکھوں میں آنسو لیے اک اذیت کے جہاں سے گزرتے ہوئے اسکی ایک ہاں کے لیے منتظر بیٹھی تھی۔
"میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں بیٹا میری بیٹی کو بچا لو۔اس وقت پورے گاؤں میں تمہارے سوا میری کوئی امید کوئی آسرا نہیں اور نہ تمہارے سوا کسی اور پہ میں بھروسہ کر سکتی ہوں۔"
"میں یہ بھی خوب جانتی ہوں کہ تم خود بھی مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔مگر تم ہی میری پہلی اور آخری امید بھی ہو۔اگر کہتے ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتی ہوں۔"
کہتے ساتھ ہی وہ عورت اسکے پاؤں کی طرف جھکی تھی۔
"الّٰلہ کا واسطہ ہے خالہ مجھے گنہگار مت کرو۔"
کہتے ساتھ ہی وہ نہ صرف تیزی سے پیچھے ہوا تھا بلکہ اسکو کندھوں سے تھام کر واپس صوفے پہ بٹھایا تھا۔
"خالہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔"
خود بھی واپس صوفے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے وہ بس اتنا ہی بول سکا۔وہ خود نہیں سمجھ پا ریا تھا کہ اسکو کیا کرنا چاہیے۔ یا کیا کہنا چاہیے؟
سامنے جو عورت بیٹھی تھی اسکی وہ دل سے عزت کرتا تھا۔اگر کوئی اور موقع ہوتا تو یہ بات سن کر وہ شاداں و فرحاں ہو جاتا۔اسکو اپنی پرواہ نہیں تھی۔
مگر اس لڑکی کی عزت اسکو بے حد عزیز تھی اور اسکو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اسکی عزت پہ کوئی حرف آئے۔
یا لوگوں کی نظر میں اسکا کردار مشکوک ہو۔
مگر اسکے ساتھ جو ہونے جا ریا تھا وہ بھی اسکو کسی صورت قبول نہیں تھا۔
"ٹھیک ہے خالہ تم جو کہو گی ۔جیسے کہو گی ،ویسے ہی ہوگا۔"
آج شام 4 بجے گاؤں میں پھر پنچایت رکھی گئ تھی۔ جسکا سارا انتظام شاہ سائیں کی حویلی میں کیا گیا تھا۔ عام طور پہ تو پنچایت ڈیڑے پہ ہوتی تھی۔ مگر جب بھی کوئی عزت غیرت کا معاملہ ہوتا تو حویلی میں ہی پنچایت بیٹھتی تھی۔ اور اس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شاہ سائیں اپنی بیوی ہائمہ خاتون سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ جو سب کے سامنے پوچھنا یا کرنا شاہ سائیں کو ہرگز پسند نہیں تھا۔
اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے لڑکی اصل بات بتا سکے۔ اسکا مشورہ انکا ہائمہ خاتوں نے ہی دیا تھا۔ جو انکو کافی معقول لگا۔
شاہ سائیں کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا۔ اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا کہ باقی معاملات میں تو شاہ سائیں لچک رکھ لیا کرتے ہیں۔ مگر جہاں بات عزت وناموس کی ہوتی وہ کسی کی پرواہ کیے بنا صرف حق پر فیصلہ کیا کرتے ہیں۔
پنچایت والے دن فیصلہ ہونے تک وہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی فریق سے نہیں ملتے تھے۔
آج صبح سے حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہائمہ خاتون پنچایت کا سارا انتظام اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں۔
" سارا انتظام ہوگیا کیا ہائم"
شاہ سائیں نے اخبار لپیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھتے ہائمہ خاتون سے پوچھا۔
"جی سائیں سب ہو گیا ہے۔ لنگر کا انتظام دین محمد دیکھ رہا ہے۔"
ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کی پگ کی تہہ بٹھاتے جواب دیا۔
"کیا بات ہے ہائم۔ آپ اتنی خاموش کیوں ہیں۔ ؟
"ہم صبح سے دیکھ رہے آپ ہم سے بھی بات نہیں کر رہیں۔"
شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کے پاس آکر انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا پوچھا۔
" شاہ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں کیسے اچھال سکتے ہیں۔ بیٹی کے ہاس سے ہلکی سی گرم ہوا بھی گزر جائے تو اسکا ذکر نہیں کرتے۔ اسکو چھپا جاتے ہیں۔
نوازے کی بیوی نے یہ اچھا نہیں کیا۔ "
"ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔ اس طرح سے پورے گاؤں میں اسکا واویلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو ہم کبھی نہیں سمجھا سکتے۔ نہ انکی جہالت دور کر سکتے ہیں۔
بعض دفعہ انسان اپنے جزباتی پن میں وہ قدم اٹھا لیتا ہے جسکی گونج ساری عمر کان کے پردے پھاڑتی رہتی ہے پھر۔"
"خیر ہم پہ بھروسہ ہے ناں آپکو"؟
"ایک آپ پہ ہی تو بھروسہ ہے شاہ۔ گاؤں والے بہت خوش قسمت ہیں جو انکو آپ کے جیسا سردار ملا۔"
" اسی لیے ہم اداس تو ہوتے ہیں مگر فکر مند نہیں۔"
یائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
ہم خدا سے ہمیشہ یہی دعا کرتے ہیں ہائم کہ وہ آپکا اور گاؤں والوں کا یقین ہم پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ شاہ نے ہائمہ خاتون کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
"اور یہ آپکے دونوں سپوت کدھر ہیں۔"؟
"پتہ ہے ناں آج پنچایت ہے۔ "؟
"ہم ذرا مردان خانے کا چکر لگا لیں۔ آپ دونوں کو ہمارے پاس بھیج دیں ادھر۔"
شاہ سائیں نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
مردان خانے میں قدم رکھتے انکی نظراپنے چھوٹے بیٹے پہ پڑی جو دینے کے ساتھ کسی بات پہ محو گفتگو تھا۔
ٹھیک ہے دینے اس سے پہلے کہ بابا جاں کو پتہ چلے ہم جاکر دیکھ لیتے ہیں خود۔ صارم کی آواز شاہ سائیں کے کانوں میں پڑی تھی۔
"کیا بات ہے پتر۔ کہاں جانے کی بات ہو رہی ہے۔"؟
" اور یہ احتشام کدھر ہے۔ ۔"؟
شاہ سائیں کے دماغ میں فوراً اسکا خیال آیا تھا۔ کہ جو بات بھی ہے اسی سکے متعلق ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذرا رعب سے ہوچھا۔
"سائیں وہ….وہ۔۔۔."
دینا سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ اس نے بےبسی سے صارم شاہ کی طرف دیکھا۔
"وہ۔۔۔وہ کیا لگا رکھی ہے۔ جو بات ہے وہ پھوٹو منہ سے"
اس بار شاہ سائیں نے دھاڑنے والے انداز میں کہا۔
" سائیں ، احتشام شاہ سائیں رات کے ڈیرے پہ ہیں۔ انکے کچھ دوست شہر سے آئے ہیں انکے ساتھ۔"
دینے نے ڈر کے مارے جلدی جلدی جواب دیا۔
"تم یہ بات مجھے رات کو نہیں بتا سکتے تھے۔"؟
شاہ سائیں اسکی بات سن کر شدید غصہ آیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھو اور ڈیرے پہ چلو جلدی۔"
شاہ سائیں نے اپنا غصہ دباتے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
دینے نے جلدی سے آگے بڑھ کر دونوں کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ اور خود آگے بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔
دینا دل میں بہت پریشان تھا کہ وہ شاہ سائیں کے یاتھوں تو بچ گیا۔ مگر احتشام شاہ سائیں کو جب پتہ چلا کہ شاہ سائیں کو یہ میں نے بتایا تو۔۔۔۔۔۔
سوچ کر ہی دینے کو جھرری آئی تھی۔
صارم بھی دل ہی دل میں بیٹھا دعا کر رہا تھا کہ وہاں سب " ٹھیک" ہو۔
ڈیرے پہنچ کر تینوں گاڑی سے اترے اور اندر کی
طرف چل دئیے۔
اندر پہنچ کر شاہ سائیں نے غصے سے بڑے کمرے کا دروازہ کھولا۔ مگر اندر کے منظر پہ نظر پڑتے ہی شاہ سائیں کو زور کا جھٹکا لگا۔
شدید غصے اور طیش میں آ کر انھوں نے سامنے ہڑی میز کو زوردار لات ماری تھی۔۔
" بیٹا تم نے دروازہ تو نہیں کھولا تھا"؟
مہرالنساء نے پریشان لہجے میں عائلہ سے پوچھا تھا۔
" ماں وہ۔۔۔۔"
عائلہ نظریں جھکائے بس اتنا ہی بول سکی۔
" بیٹا پوچھے بنا دروازہ مت کھولا کرو۔ پہلے تسلی کر لیا کرو کہ کون ہے۔
اپنی بیٹی کے پریشان چہرے کو دیکھتے مہرالنساء نے مزید کچھ کہنے سے خود کو روکا۔ اور دونوں اندر کی طرف چل دیں.
14 مرلے پہ محیط یہ گھر انکی واحد جائے پناہ تھا۔ جو کہ رشید احمد کے ماں باپ اپنے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی عائلہ اور اسکی بچیوں کے نام کر گئے تھے۔ 8 کلے زمین بچیوں کو انکے 18 سال ہونے پہ ملنی تھی۔ جبکہ اس زمین سے ہونے والی آمدن کی نگران عائلہ ہی تھی۔
اور اسی آمدن سے انکی گزر اوقات ہوتی تھی
عائلہ کی بس چار بیٹیاں ، عائلہ ، عینا، ایمن ، اجالا ہیں۔
"عائلہ بیٹا یہ دالیں اور چینی پہلے اٹھا کر بڑے ڈبے میں رکھ دو۔ ایسا نہ ہو کہ کیڑیاں آ جائیں ان پہ۔"
مہرالنساء نے اپنی چادر اتار کر بیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
" اور یہ بچیاں کدھر ہیں آئیں نہیں ابھی سکول سے کیا۔"؟
نہیں ماں۔ بس آنے والی ہیں۔"
سامان اٹھا کر کچن کی طرف جاتے عائلہ نے جواب دیا۔
کچن میں سامان رکھتے عائلہ کا دھیان دلاور کی طرف ہی لگا ہوا تھا کہ وہ کون تھا۔
کمرے میں لیٹی چھت کو گھورتی مہرالنساء بھی یہی سوچ رہی تھی۔
باہر دروازہ کب سے بج رہا تھا اپنی سوچوں میں گم دونوں کو اسکا احساس نہ ہوا۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ زور زور سے پیٹے جانے کی آواز پہ وہ اپنے دھیان کی دنیا سے باہر آئی اور دروازہ کھولنے چل دیں
" کہاں مری ہوئی تھی۔"؟
" کب سے بایر کھڑا دروازہ پیٹ رہا ہوں میں۔ "
آنے وال نے انتہائی غصے سے اندر آتے ہوئے کہا۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے زور سے دروازے کو پش کیا تھا۔ جو مہرالنساء کے منہ پہ لگتے لگتے بچا تھا۔
" کاش کہ مر گئ ہوتی۔ تم سے زیادہ افسوس ہے مجھے اپنے زندہ ہونے پہ۔"
مہرالنساء نے تلخی سے جواب دیا۔
"ہزار دفعہ کہا ہے کہ زیادہ بکواس مت کیا کر میرے سامنے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن میں تیری یہ خوایش سچ میں پوری کردوں۔"
غصے سے کہتے شیدا مہرالنساء کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔
" ابا نہیں ی ی ی ی ی ۔۔۔" اپنی ماں کو بچانے
عائلہ تیزی سے آگے ہوئی تھی۔ اور اسی لمحے بچیاں گھر میں داخل ہوئی تھیں۔
گھر کے اندر کا منظر دیکھتے غصے سے انھوں نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
" لو آگئیں۔ تم منحوسوں کی کمی تھی بس۔ سمجھاؤ اسے کہ میرے سامنے بک بک مت کیا کرے۔ زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے منحوسوں نے۔
شیدا واہی تباہی بکتا اندر جا چکا تھا۔
بایر ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ایک دوسرے کو تسلی دے رہی تھیں۔
1 کنال پہ محیط ڈیفینس میں یہ عالشان کوٹھی کہنے کو تو کوٹھی تھی۔ مگر لاہور کا سب سے بڑا کوٹھا تھا۔
نیلم بائی سالوں سے یہاں قیام پزیر تھی۔ جسکی بڑی وجہ بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی تھی۔ شروع شروع میں یہاں کے لوگوں نے اعتراض اٹھائے تھے۔ مگر انکو اس طریقے سے چپ کروایا گیا کہ پھر کسی کی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
جیسے جیسے رات اپنے پر پھیلاتی ویسے ویسے ہی یہاں پہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہو جاتیں۔
آج دلاور بہت دنوں بعد ادھر آیا تھا۔
دلبر دلبر
ہاں دلبر
ہوش نہ خبر ہے
یہ کیسا اثر ہے
تم سے ملنے کے بعد دلبر
بڑے سے ہال میں رقاصہ اپنے جسم کو توڑتے مرورڑتےگانے کے بولوں پہ مختلف سٹیپ کرتے گھومتے گھماتے دلاور کے پاس آکر جھکی تھی۔ اور ایک آنکھ ونک کی تھی۔
دلاور بیٹھا برانڈی کا تیسرا پیگ چڑھا رہا تھا مگرنجانے کیوں آج اسکو نشہ نہیں چڑھ رہا تھا
نہ اسکی آنکھوں میں وہ خمار تھا آج جو اس رقاصہ کو ناچتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اتر آتا تھا۔
چین کھو گیا ہے
کچھ تو ہو گیا ہے
تم سے ملنے کے بعد دلبر
دلبر دلبر
ہاں دلبر
اچانک سے دلاور کی آنکھوں میں کسی کا چہرہ اترا تھا۔
تو میرا خواب ہے
تو میرے دل کا قرار
دیکھ لے جان من
دیکھ لے بس ایک بار
چوم لے جسم کو
ہمنشیں پاس آ آ آ
دلاور اپنے ہوش کھو رہا تھا۔ اسکو ہر طرف اب بس وہی نظر آرہی تھی۔ اسکو بس اب وہی چاہیے تھی۔
یکدم وہ اٹھا تھا اور رقاصہ کو اپنے بازووں میں اٹھا کر اس پہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔
ساری محفل میں سناٹا چھا گیا تھا۔ آج سے پہلے محفل کے دوران کسی نے موہنی کے ساتھ یہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ صرف ناچتی تھی۔ اسکا ناچ نہیں تھا ۔ کوئی جادو تھا ۔ جو بن پئیے سبکو بہکا دیتا تھا۔ مگر آج دلاور تو خود اپنے بس میں نہیں تھا۔ اس کے اندر وہ آگ لگی تھی جو اسکو اندر سے جلا رہی تھی۔ اس آگ کی تپش نے آج موہنی کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا۔
دلاور۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔۔موہنی نے غصے سے خود کو اس سے چھڑواتے ہوئے کہا۔
نیلم بائی بھی یکدم ہوش میں آئی تھی۔ اور فوراً اپنے بندوں کو آواز دی۔
اسکے سامنے بیٹھی عورت کب سے آنکھوں میں آنسو لیے اک اذیت کے جہاں سے گزرتے ہوئے اسکی ایک ہاں کے لیے منتظر بیٹھی تھی۔
"میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں بیٹا میری بیٹی کو بچا لو۔اس وقت پورے گاؤں میں تمہارے سوا میری کوئی امید کوئی آسرا نہیں اور نہ تمہارے سوا کسی اور پہ میں بھروسہ کر سکتی ہوں۔"
"میں یہ بھی خوب جانتی ہوں کہ تم خود بھی مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔مگر تم ہی میری پہلی اور آخری امید بھی ہو۔اگر کہتے ہو تو تمہارے پاؤں پڑ جاتی ہوں۔"
کہتے ساتھ ہی وہ عورت اسکے پاؤں کی طرف جھکی تھی۔
"الّٰلہ کا واسطہ ہے خالہ مجھے گنہگار مت کرو۔"
کہتے ساتھ ہی وہ نہ صرف تیزی سے پیچھے ہوا تھا بلکہ اسکو کندھوں سے تھام کر واپس صوفے پہ بٹھایا تھا۔
"خالہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔"
خود بھی واپس صوفے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے وہ بس اتنا ہی بول سکا۔وہ خود نہیں سمجھ پا ریا تھا کہ اسکو کیا کرنا چاہیے۔ یا کیا کہنا چاہیے؟
سامنے جو عورت بیٹھی تھی اسکی وہ دل سے عزت کرتا تھا۔اگر کوئی اور موقع ہوتا تو یہ بات سن کر وہ شاداں و فرحاں ہو جاتا۔اسکو اپنی پرواہ نہیں تھی۔
مگر اس لڑکی کی عزت اسکو بے حد عزیز تھی اور اسکو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اسکی عزت پہ کوئی حرف آئے۔
یا لوگوں کی نظر میں اسکا کردار مشکوک ہو۔
مگر اسکے ساتھ جو ہونے جا ریا تھا وہ بھی اسکو کسی صورت قبول نہیں تھا۔
"ٹھیک ہے خالہ تم جو کہو گی ۔جیسے کہو گی ،ویسے ہی ہوگا۔"
آج شام 4 بجے گاؤں میں پھر پنچایت رکھی گئ تھی۔ جسکا سارا انتظام شاہ سائیں کی حویلی میں کیا گیا تھا۔ عام طور پہ تو پنچایت ڈیڑے پہ ہوتی تھی۔ مگر جب بھی کوئی عزت غیرت کا معاملہ ہوتا تو حویلی میں ہی پنچایت بیٹھتی تھی۔ اور اس میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے شاہ سائیں اپنی بیوی ہائمہ خاتون سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ بعض دفعہ کچھ ایسی باتیں ہوتی تھیں۔ جو سب کے سامنے پوچھنا یا کرنا شاہ سائیں کو ہرگز پسند نہیں تھا۔
اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ بنا کسی ڈر اور خوف کے لڑکی اصل بات بتا سکے۔ اسکا مشورہ انکا ہائمہ خاتوں نے ہی دیا تھا۔ جو انکو کافی معقول لگا۔
شاہ سائیں کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا تھا۔ اور یہ بات پورا گاؤں جانتا تھا کہ باقی معاملات میں تو شاہ سائیں لچک رکھ لیا کرتے ہیں۔ مگر جہاں بات عزت وناموس کی ہوتی وہ کسی کی پرواہ کیے بنا صرف حق پر فیصلہ کیا کرتے ہیں۔
پنچایت والے دن فیصلہ ہونے تک وہ دونوں پارٹیوں میں سے کسی فریق سے نہیں ملتے تھے۔
آج صبح سے حویلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہائمہ خاتون پنچایت کا سارا انتظام اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں۔
" سارا انتظام ہوگیا کیا ہائم"
شاہ سائیں نے اخبار لپیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھتے ہائمہ خاتون سے پوچھا۔
"جی سائیں سب ہو گیا ہے۔ لنگر کا انتظام دین محمد دیکھ رہا ہے۔"
ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کی پگ کی تہہ بٹھاتے جواب دیا۔
"کیا بات ہے ہائم۔ آپ اتنی خاموش کیوں ہیں۔ ؟
"ہم صبح سے دیکھ رہے آپ ہم سے بھی بات نہیں کر رہیں۔"
شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کے پاس آکر انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا پوچھا۔
" شاہ سمجھ میں نہیں آتا لوگ اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں کیسے اچھال سکتے ہیں۔ بیٹی کے ہاس سے ہلکی سی گرم ہوا بھی گزر جائے تو اسکا ذکر نہیں کرتے۔ اسکو چھپا جاتے ہیں۔
نوازے کی بیوی نے یہ اچھا نہیں کیا۔ "
"ٹھیک کہ رہی ہیں آپ۔ اس طرح سے پورے گاؤں میں اسکا واویلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو ہم کبھی نہیں سمجھا سکتے۔ نہ انکی جہالت دور کر سکتے ہیں۔
بعض دفعہ انسان اپنے جزباتی پن میں وہ قدم اٹھا لیتا ہے جسکی گونج ساری عمر کان کے پردے پھاڑتی رہتی ہے پھر۔"
"خیر ہم پہ بھروسہ ہے ناں آپکو"؟
"ایک آپ پہ ہی تو بھروسہ ہے شاہ۔ گاؤں والے بہت خوش قسمت ہیں جو انکو آپ کے جیسا سردار ملا۔"
" اسی لیے ہم اداس تو ہوتے ہیں مگر فکر مند نہیں۔"
یائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
ہم خدا سے ہمیشہ یہی دعا کرتے ہیں ہائم کہ وہ آپکا اور گاؤں والوں کا یقین ہم پہ ہمیشہ سلامت رکھے۔ شاہ نے ہائمہ خاتون کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
"اور یہ آپکے دونوں سپوت کدھر ہیں۔"؟
"پتہ ہے ناں آج پنچایت ہے۔ "؟
"ہم ذرا مردان خانے کا چکر لگا لیں۔ آپ دونوں کو ہمارے پاس بھیج دیں ادھر۔"
شاہ سائیں نے باہر نکلتے ہوئے کہا۔
مردان خانے میں قدم رکھتے انکی نظراپنے چھوٹے بیٹے پہ پڑی جو دینے کے ساتھ کسی بات پہ محو گفتگو تھا۔
ٹھیک ہے دینے اس سے پہلے کہ بابا جاں کو پتہ چلے ہم جاکر دیکھ لیتے ہیں خود۔ صارم کی آواز شاہ سائیں کے کانوں میں پڑی تھی۔
"کیا بات ہے پتر۔ کہاں جانے کی بات ہو رہی ہے۔"؟
" اور یہ احتشام کدھر ہے۔ ۔"؟
شاہ سائیں کے دماغ میں فوراً اسکا خیال آیا تھا۔ کہ جو بات بھی ہے اسی سکے متعلق ہو سکتی ہے۔ اس لیے ذرا رعب سے ہوچھا۔
"سائیں وہ….وہ۔۔۔."
دینا سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہے۔ اس نے بےبسی سے صارم شاہ کی طرف دیکھا۔
"وہ۔۔۔وہ کیا لگا رکھی ہے۔ جو بات ہے وہ پھوٹو منہ سے"
اس بار شاہ سائیں نے دھاڑنے والے انداز میں کہا۔
" سائیں ، احتشام شاہ سائیں رات کے ڈیرے پہ ہیں۔ انکے کچھ دوست شہر سے آئے ہیں انکے ساتھ۔"
دینے نے ڈر کے مارے جلدی جلدی جواب دیا۔
"تم یہ بات مجھے رات کو نہیں بتا سکتے تھے۔"؟
شاہ سائیں اسکی بات سن کر شدید غصہ آیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھو اور ڈیرے پہ چلو جلدی۔"
شاہ سائیں نے اپنا غصہ دباتے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
دینے نے جلدی سے آگے بڑھ کر دونوں کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ اور خود آگے بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔
دینا دل میں بہت پریشان تھا کہ وہ شاہ سائیں کے یاتھوں تو بچ گیا۔ مگر احتشام شاہ سائیں کو جب پتہ چلا کہ شاہ سائیں کو یہ میں نے بتایا تو۔۔۔۔۔۔
سوچ کر ہی دینے کو جھرری آئی تھی۔
صارم بھی دل ہی دل میں بیٹھا دعا کر رہا تھا کہ وہاں سب " ٹھیک" ہو۔
ڈیرے پہنچ کر تینوں گاڑی سے اترے اور اندر کی
طرف چل دئیے۔
اندر پہنچ کر شاہ سائیں نے غصے سے بڑے کمرے کا دروازہ کھولا۔ مگر اندر کے منظر پہ نظر پڑتے ہی شاہ سائیں کو زور کا جھٹکا لگا۔
شدید غصے اور طیش میں آ کر انھوں نے سامنے ہڑی میز کو زوردار لات ماری تھی۔۔
" بیٹا تم نے دروازہ تو نہیں کھولا تھا"؟
مہرالنساء نے پریشان لہجے میں عائلہ سے پوچھا تھا۔
" ماں وہ۔۔۔۔"
عائلہ نظریں جھکائے بس اتنا ہی بول سکی۔
" بیٹا پوچھے بنا دروازہ مت کھولا کرو۔ پہلے تسلی کر لیا کرو کہ کون ہے۔
اپنی بیٹی کے پریشان چہرے کو دیکھتے مہرالنساء نے مزید کچھ کہنے سے خود کو روکا۔ اور دونوں اندر کی طرف چل دیں.
14 مرلے پہ محیط یہ گھر انکی واحد جائے پناہ تھا۔ جو کہ رشید احمد کے ماں باپ اپنے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے اپنی زندگی میں ہی عائلہ اور اسکی بچیوں کے نام کر گئے تھے۔ 8 کلے زمین بچیوں کو انکے 18 سال ہونے پہ ملنی تھی۔ جبکہ اس زمین سے ہونے والی آمدن کی نگران عائلہ ہی تھی۔
اور اسی آمدن سے انکی گزر اوقات ہوتی تھی
عائلہ کی بس چار بیٹیاں ، عائلہ ، عینا، ایمن ، اجالا ہیں۔
"عائلہ بیٹا یہ دالیں اور چینی پہلے اٹھا کر بڑے ڈبے میں رکھ دو۔ ایسا نہ ہو کہ کیڑیاں آ جائیں ان پہ۔"
مہرالنساء نے اپنی چادر اتار کر بیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
" اور یہ بچیاں کدھر ہیں آئیں نہیں ابھی سکول سے کیا۔"؟
نہیں ماں۔ بس آنے والی ہیں۔"
سامان اٹھا کر کچن کی طرف جاتے عائلہ نے جواب دیا۔
کچن میں سامان رکھتے عائلہ کا دھیان دلاور کی طرف ہی لگا ہوا تھا کہ وہ کون تھا۔
کمرے میں لیٹی چھت کو گھورتی مہرالنساء بھی یہی سوچ رہی تھی۔
باہر دروازہ کب سے بج رہا تھا اپنی سوچوں میں گم دونوں کو اسکا احساس نہ ہوا۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ زور زور سے پیٹے جانے کی آواز پہ وہ اپنے دھیان کی دنیا سے باہر آئی اور دروازہ کھولنے چل دیں
" کہاں مری ہوئی تھی۔"؟
" کب سے بایر کھڑا دروازہ پیٹ رہا ہوں میں۔ "
آنے وال نے انتہائی غصے سے اندر آتے ہوئے کہا۔دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے زور سے دروازے کو پش کیا تھا۔ جو مہرالنساء کے منہ پہ لگتے لگتے بچا تھا۔
" کاش کہ مر گئ ہوتی۔ تم سے زیادہ افسوس ہے مجھے اپنے زندہ ہونے پہ۔"
مہرالنساء نے تلخی سے جواب دیا۔
"ہزار دفعہ کہا ہے کہ زیادہ بکواس مت کیا کر میرے سامنے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دن میں تیری یہ خوایش سچ میں پوری کردوں۔"
غصے سے کہتے شیدا مہرالنساء کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔
" ابا نہیں ی ی ی ی ی ۔۔۔" اپنی ماں کو بچانے
عائلہ تیزی سے آگے ہوئی تھی۔ اور اسی لمحے بچیاں گھر میں داخل ہوئی تھیں۔
گھر کے اندر کا منظر دیکھتے غصے سے انھوں نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
" لو آگئیں۔ تم منحوسوں کی کمی تھی بس۔ سمجھاؤ اسے کہ میرے سامنے بک بک مت کیا کرے۔ زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے منحوسوں نے۔
شیدا واہی تباہی بکتا اندر جا چکا تھا۔
بایر ماں بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ایک دوسرے کو تسلی دے رہی تھیں۔
1 کنال پہ محیط ڈیفینس میں یہ عالشان کوٹھی کہنے کو تو کوٹھی تھی۔ مگر لاہور کا سب سے بڑا کوٹھا تھا۔
نیلم بائی سالوں سے یہاں قیام پزیر تھی۔ جسکی بڑی وجہ بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی تھی۔ شروع شروع میں یہاں کے لوگوں نے اعتراض اٹھائے تھے۔ مگر انکو اس طریقے سے چپ کروایا گیا کہ پھر کسی کی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
جیسے جیسے رات اپنے پر پھیلاتی ویسے ویسے ہی یہاں پہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگنا شروع ہو جاتیں۔
آج دلاور بہت دنوں بعد ادھر آیا تھا۔
دلبر دلبر
ہاں دلبر
ہوش نہ خبر ہے
یہ کیسا اثر ہے
تم سے ملنے کے بعد دلبر
بڑے سے ہال میں رقاصہ اپنے جسم کو توڑتے مرورڑتےگانے کے بولوں پہ مختلف سٹیپ کرتے گھومتے گھماتے دلاور کے پاس آکر جھکی تھی۔ اور ایک آنکھ ونک کی تھی۔
دلاور بیٹھا برانڈی کا تیسرا پیگ چڑھا رہا تھا مگرنجانے کیوں آج اسکو نشہ نہیں چڑھ رہا تھا
نہ اسکی آنکھوں میں وہ خمار تھا آج جو اس رقاصہ کو ناچتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اتر آتا تھا۔
چین کھو گیا ہے
کچھ تو ہو گیا ہے
تم سے ملنے کے بعد دلبر
دلبر دلبر
ہاں دلبر
اچانک سے دلاور کی آنکھوں میں کسی کا چہرہ اترا تھا۔
تو میرا خواب ہے
تو میرے دل کا قرار
دیکھ لے جان من
دیکھ لے بس ایک بار
چوم لے جسم کو
ہمنشیں پاس آ آ آ
دلاور اپنے ہوش کھو رہا تھا۔ اسکو ہر طرف اب بس وہی نظر آرہی تھی۔ اسکو بس اب وہی چاہیے تھی۔
یکدم وہ اٹھا تھا اور رقاصہ کو اپنے بازووں میں اٹھا کر اس پہ اپنی شدتیں لٹانے لگا۔
ساری محفل میں سناٹا چھا گیا تھا۔ آج سے پہلے محفل کے دوران کسی نے موہنی کے ساتھ یہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ صرف ناچتی تھی۔ اسکا ناچ نہیں تھا ۔ کوئی جادو تھا ۔ جو بن پئیے سبکو بہکا دیتا تھا۔ مگر آج دلاور تو خود اپنے بس میں نہیں تھا۔ اس کے اندر وہ آگ لگی تھی جو اسکو اندر سے جلا رہی تھی۔ اس آگ کی تپش نے آج موہنی کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا۔
دلاور۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔۔موہنی نے غصے سے خود کو اس سے چھڑواتے ہوئے کہا۔
نیلم بائی بھی یکدم ہوش میں آئی تھی۔ اور فوراً اپنے بندوں کو آواز دی۔
Comment