Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61

    Episode, 41#

    فجر کی طرف سے آنے کے بعد عائلہ نے تھکاوٹ اور کپڑے چینج کرنے کا بہانہ کرتے ہوئے سیدھا اپنے روم کا رخ کیا تھا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا اندھیرا ہونے کی وجہ سے مہرالنساء کو اسکی دگرگوں ہوتی ظاہری اور باظنی حالت کا پتہ نہ چل سکا وہ خود بھی کافی زیادہ تھکی ہوئی تھیں اس لیے عائلہ کی خاموشی کو بلقیس بیگم کی باتوں کا اثر سمجھ کر صبح اس سے بات کرنے کا سوچ کر وہ بھی اپنے روم کی طرف چل دیں۔۔۔باہر کے گیٹ کی جاتے وقت ڈپلیکیٹ کیز وہ اپنے ساتھ لے گئ تھیں اس لیے واپسی پہ دروازے پہ دستک دے کر رشید احمد کو اٹھانے کی بجائے خاموشی سے لاک کھول کر وہ اندر چلی آئی تھیں رشید احمد بیٹھک میں سویا ہوا تھا۔۔۔اپنے روم میں آ کر کپڑے چینج کر کے ایمن اور مہرالنساء فوراً سو گئیں جبکہ عینا عائلہ کے روم کے باہر ہی کھڑی اسکے دروازہ کھولنے کا انتظار کرنے لگی مگر اندر سے آتی عائلہ کی سسکیوں نے اس کے دل پہ جیسے منوں بوجھ ڈال دیا تھا۔۔۔
    وہ وقفے وقفے سے دروازہ ناک کرتی رہی دھیمی آواز میں عائلہ کی منتیں کرتے ہوئے اس کو دروازہ کھولنے کے لیے پکارتی رہی مگر دروازہ نہ کھلنا تھا نہ کھلا۔۔۔کافی دیر تک انتظار کرنے اور عائلہ کی منتیں کرنے کے بعد بھی اس نے دروازہ نہیں کھولا تو عینا بوجھل قدموں سے اپنی والدہ کے روم میں چلی آئی۔۔۔اپنے بستر میں دراز ہونے کے بعد وہ عائلہ اور صارم شاہ کے بیچ میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں سوچتی رہی صارم شاہ اسکی بہن میں پہلے دن سے انٹرسٹڈ تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ عائلہ سے بہت محبت کرنے لگا تھا اس کا اسے باخوبی ادراک تھا اور اس بات سے بہت خوش بھی تھی وہ یہ بھی جانتی تھی کہ عائلہ چاہے کتنا انکار کرے مگر اسکے دل میں بھی صارم شاہ کو لے کر کومل جزبے پروان چڑھ چکے تھے اسے اور فجر کو یقین تھا کہ صارم شاہ اور عائلہ کی اگر ایک بار تنہائی میں ملاقات کروا دی جائے تو یہ ناممکن ہوگا کہ عائلہ صارم شاہ کی محبت سے نظریں چرا سکے اور یہی سوچ کر دونوں نے مل کر یہ پلان بنایا تھا مگر سب الٹ ہوگیا۔۔۔صارم شاہ کا انداز اور عائلہ کی حالت اور اسکی سسکیاں اس بات کا واضح ثبوت تھیں کہ اس کا اور فجر کا دونوں کو قریب لانے کا پلان بری طرح ناکام ہو گیا تھا صبح عائلہ کے ری ایکشن کا سوچ سوچ کر اسکا دماغ دکھنے لگا تھا کہ اسکی نظر اپنے موب پہ پڑی جو اس نے سائیلنٹ موڈ پہ لگایا ہوا تھا سکرین پہ صارم شاہ کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔وہ حیران ہوئی تھی ٹائم دیکھا تو گھڑی رات کے 2 بجا رہی تھی۔۔۔اس نے کال پک کی تھی کہ اب صارم بھائی سے ہی عائلہ کے اس رویے اور ساری صورت حال کا پتہ چل سکتا۔۔۔
    " کیوں۔۔۔میرے مالک۔۔۔کیوں۔۔۔یہ کس آزمائش میں تو نے ڈال دیا ہے۔۔۔اگر میری قسمت میں دلاور کو لکھا تھا تو چھوٹے شاہ کو کیوں بھیجا۔۔۔ دلوں میں محبت تو تو ہی پیدا کرتا ہے ناں پھر کیوں میرے دل میں اس کی محبت جگی مجھے اس رستے کا مسافر کیوں بنایا جو میری منزل ہی نہیں جو میری قسمت میں لکھا ہی نہیں۔۔۔
    میرے مالک میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہمیشہ تیری رضا پہ راضی رہی۔۔۔مگر اب کیا کروں۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔دلاور کو تیری رضا سمجھوں یا چھوٹے شاہ کو۔۔۔دلاور وہ شخص جسے میرے باپ نے میرے لیے چنا۔۔۔چھوٹے شاہ وہ شخص جس نے میرے کورے وجود پہ اپنے نشان چھوڑ دئیے۔۔۔یاالّٰلہ تو دلوں کے حال جانتا ہے بندے کے دل میں پیدا ہونے والی سوچ کو اسکے پیدا ہونے سے پہلے جان جاتا ہے۔۔۔یاالّٰلہ تو جانتا ہے میں خائن نہیں۔۔۔میں بہکنے والوں اور بھٹکنے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔۔
    میرے مالک دیکھ۔۔۔دیکھ میرے مالک۔۔۔میں ان نشانوں کو کھرچ رہی ہوں۔۔۔نہیں مٹ رہے۔۔۔میرے مولا میں کیا کروں۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔یا الّٰلہ مجھے کوئی رستہ دکھا۔۔۔میری مدد فرما۔۔۔میرے مالک میں ایسے جی نہیں پاؤں گی۔۔۔
    یاالّٰلہ میں کیا کروں۔۔۔میں مانتی ہوں کہ ایک نامحرم کو سوچنے کا میرا دل گنہگار ہوا۔۔۔مگر تو جانتا ہے دلاور کا نام اپنے نام کے ساتھ جڑنے کے بعد میں نے اسے تیری رضا جان کر قبول کر لیا تھا۔۔۔
    مگر چھوٹے شاہ میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔۔۔
    باپ کے آگے سر جھکاتی ہوں تو خائن بن کر نہ صرف کسی کی زندگی میں شامل ہوں گی بلکہ کسی کی موت کی ذمہ دار بھی بن جاؤں گی۔۔۔چھوٹے شاہ کا ہاتھ تھامتی ہوں تو ماں کو کھو دوں گی۔۔۔عینا ایمن کے ساتھ نہ جانے بابا کیا کریں۔۔۔
    میرے مالک مجھ پہ رحم کر۔۔۔یاالّٰلہ مجھ پہ وہ بوجھ نہ ڈال جسے میں اٹھا نہ سکوں۔۔۔مجھے اس آزمائش میں نہ ڈال جس میں میں پوری نہ اتر سکوں۔۔۔میں کیا کروں میرے مالک۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔مجھے رستہ دکھا میرے مالک۔۔۔مجھے رستہ دکھا۔۔۔میرے مالک مجھے اس عزاب سے نکال دے۔۔۔"
    دروازہ بند کرتے ہی عائلہ اسکے ساتھ لگ کر وہیں نڈھال سی زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔۔۔پورا راستہ وہ خاموشی کی بکل اوڑھے بے حس و حرکت بیٹھی رہی تھی۔۔۔مگر اپنے روم میں آتے ہی اس کے خود پہ باندھے سبھی بند ٹوٹ گئے۔۔۔وہ دروازے کے ساتھ لگی سسک سسک کر رونے لگی۔۔۔رو رو کر آنسو خشک ہوئے تو اٹھ کر وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئ۔۔۔سجدے میں گئ تو پھر سے دل بھر آیا بدقت نماز پوری ادا کر کے سجدے میں گری پھر سے سسکنے لگی یونہی گریہ زاری کرتے ساری رات بیت گئ۔۔۔صبح کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اٹھی تو سر اتنے زور سے چکرایا کہ وہیں ڈھے گئ۔۔۔
    " آپی ی ی ی۔۔۔کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔پلیزز آنکھیں کھولیں۔۔۔اففففف۔۔۔میرے الّٰلہ آپکو تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔کیا کروں میں۔۔۔ایمننن۔۔۔"
    دن چڑھے بھی عائلہ کو کمرے سے نکلتا نہ دیکھ کر عینا اس کے کمرے کی طرف آئی تو دروازہ اندر سے بند تھا آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ عائلہ اتنی دیر تک سوئی رہی ہو۔۔۔عینا کے دل کو فکر نے آ گھیرا۔۔۔وہ فوراً مہرالنساء کے روم میں گئ اور ماسٹر کی لا کر دروازہ کھولا تو عائلہ کو نیچے فرش پہ بے سدھ حالت میں گرے دیکھ کر اسکی چیخ نکل گئ۔۔۔وہ تیزی سے آگے بڑھی اور اسے اٹھانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔۔
    عینا نے جیسے ہی عائلہ کو اٹھانے کے لیے اس کا گال تھپتھپایا تو اسے وہ آگ کی بھٹی مععلوم ہوا۔۔۔ چیخنے کے سے انداز میں اس نے ایمن کو آواز دی اور اسکی مدد سے بڑی مشکل سے کھینچ تانچ کر عائلہ کو سیدھا کر کے بستر پہ لٹایا۔۔۔اور ایک گرم چادر اس پہ اوڑھا دی۔۔۔
    " کیا بات ہے بیٹا۔۔۔تم ایسے چیخی کیوں تھی۔۔۔"؟
    مہرالنساء ایمن کو یوں گھبراہٹ زدہ لہجے میں آواز دینے پہ اسکے پیچھے پیچھے ہی پریشان ہوتی چلی آئیں تو سامنے سے عینا کو اپنی طرف آتے دیکھ کر فکرمندی سے پوچھا۔۔۔
    " امی جان عائلہ آپی کو بہت تیز بخار ہے۔۔۔"
    عینا نے پریشان ہو کر کہا۔۔۔تو مہرالنساء بھی پریشان ہو کر عائلہ کو دیکھنے بڑھیں۔۔۔
    " بیٹا ایسا کرو جلدی سے فریج میں سے ٹھنڈا پانی کسی باؤل میں لے کر آؤ اور ساتھ میں ململ کا کپڑا بھی۔۔۔"
    مہرالنساء نے بہت شفقت اور محبت سے عائلہ کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا تو وہ انگارہ بنی ہوئی تھی۔۔۔انھوں نے عینا کو پانی لانے کا کہا اور پھر پڑھ پڑھ کر عائلہ پہ پھونک مارنے لگیں۔۔۔
    " عائلہ میری بچی۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔تم نے تو میری جان ہی نکال دی۔۔۔مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ میری بچی اس حد تک کمزور دل ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات کو دل پہ لے لے گی۔۔۔"
    کچھ دیر تک عائلہ کی پیشانی اور پاؤں کے تلوؤں پہ پٹیاں کرنے سے بخار کم ہوا تو میرالنساء نے فوراً اسے ٹیبلٹ کھلا دی۔۔۔چہرے پہ بخار کی سرخی کم ہوئی تو مہرالنساء نے اسکے بالوں میں دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے ہوئے لہجے میں دنیا جہاں کی محبت سموئے کہا۔۔۔
    " ہممممم۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"
    عائلہ نے اٹھنے کی کوشش کرتے کہا مگر مہرالنساء نے اسے پھر سے لٹا دیا کہ ابھی مت اٹھو۔۔۔
    " آج گھر میں فاقہ کشی کا ارادہ ہے کیا۔۔۔دوپہر ہونے کو آئی مگر تم لوگ ایسی سست ہو کہ ابھی تک اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔"
    رشید احمد نے کمرے میں جھانکتے دروازے کے بیچوں بیچ ہی کھڑے ہو کر طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔تو مہرالنساء نے ایک غصیلی نظر اس پہ ڈالی اور اسکی بات کا کوئی جواب دئیے بنا عینا سے اپنے باپ اور باقی سب کے لیے ناشتہ بنانے کا کہا۔۔۔
    " امی جان فجر آپی کی طرف کتنے بجے جانا ہے میں کپڑے پریس کردوں۔۔۔۔"
    سب کو ناشتہ کروانے اور کچن سمیٹنے کے بعد عینا نے روم میں آکر اپنی والدہ سے پوچھا جو عائلہ کے سرہانے بیٹھیں کچھ پڑھ پڑھ کر اس پہ پھونک رہی تھیں۔۔۔عائلہ کے بخار کی شدت میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی مگر ٹوٹا نہیں تھا۔۔۔بخار کی وجہ سے اسکا بھرم رہ گیا تھا ورنہ ساری رات گریہ زاری کرنے کی وجہ سے سوجی سوجی آنکھیں اسکا سارا بھید کھول دیتیں۔۔۔
    " بیٹا کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں عائلہ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
    مہرالنساء نے فکرمندی سے کہا۔۔۔
    " امی جان جانا تو ضروری ہے ، ہم میں سے کوئی بھی نہ گیا تو یہ مناسب نہیں لگے گا ایسا کریں کہ آپ اور ایمن چلی جائیں میں آپی کے پاس رک جاتی ہوں فجر کو فون کر کے میں اپنے اور آپی کے نہ آنے کی وجہ بتا دوں گی۔۔۔"
    عینا نے عائلہ کی طبیعت کی وجہ سے اپنا جانا کینسل کرتے کہا تو اسکی بات پہ مہرالنساء نے اقرار میں سر ہلایا۔۔۔


    آج فجر کی شادی تھی۔۔۔سب کی خواہش تھی کہ فیصل آباد کی سب سے مشہور مارکی میں اس کا ارینج ہوتا مگر اچانک سب تہ ہونے کی وجہ سے اور کافی بھاگ دوڑ کے باوجود ایسا ہو نا پایا شادیوں کا سیزن ہونے کی وجہ سے پورے فیصل آباد کے شادی ہالز پہلے سے بک تھے جسکی وجہ سے آپس کے متفقہ مشورے سے گاؤں میں لڑکوں کے سکول میں برات کو رسیو کرنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔
    شاہ سائیں نے سارا انتظام اپنی نگرانی میں خود کروایا تھا جسکے لیے فیصل آباد کے سب سے مشہور ویڈنگ ایونٹس آرگنائز کرنے والی پارٹی کو ڈبل پیمنٹ کرکے بلوایا گیا تھا۔۔۔
    ان کے ساتھ گاؤں کے اور لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اس کام میں حصّٰہ لیا تھا جسکی وجہ سے سکول کم شادی ہال کا منظر زیادہ پیش ہورہا تھا۔۔۔
    دلہن کو تیار کرنے کے لیے بھی خاص طور پہ لاہور سے بیوٹیشن بلائی گئ تھی۔۔۔
    رخصتی کا ٹائم ہوا چاہتا تھا مگر صبح سے کسی نے بھی صارم شاہ کا آج چہرہ نہیں دیکھا تھا۔۔۔
    فجر کے لیے آج اسکی زندگی کا بہت اہم دن تھا مگر دلہن بنی بیٹھی وہ اپنی آنے والی زندگی کی بجائے اپنے بھائی کے لیے دل ہی دل میں پریشان ہو رہی تھی۔۔۔صبح عینا نے فون کر کے جب سے عائلہ کی طبیعت کی خرابی کا بتایا تھا اسکی پریشانی بڑھ گئ تھی رات اس نے فون کر کے انکے یوں اچانک جانے کا اور صارم شاہ اور عائلہ کے بارے میں پوچھا تو عینا سے اپنے پلان کی ناکامی کا سن کر اس نے صارم شاہ کو کتنی ہی کالز کیں کہ وہ اسکے روم میں آئے مگر صارم شاہ نے اس کا فون اٹینڈ نہیں کیا تھا اور اب بھی صبح سے غائب تھا اور اب صبح عائلہ کے بخار کا سن کر وہ ایک نئ پریشانی کا شکار ہوئی تھی۔۔۔اپنی ماں سے بھی دو تین بار صارم شاہ کا وہ پوچھ چکی تھی مگر ہر بار جواب ملتا کہ پیغام بھجوایا ہے باہر ابھی آتا ہے۔۔۔
    " احتشام بیٹا یہ صارم کدھر ہے۔۔۔اسکو بلاؤ بیٹا تمہارے بابا اور فجر کئ بار پوچھ چکے ہیں رخصتی کا ٹائم ہوا چاہتا ہے اور یہ غائب ہے۔۔۔"
    ہائمہ خاتون کی جیسے ہی احتشام شاہ پہ نظر پڑی تو انھوں نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلا کر اسکے کان میں آہستہ سے کہا۔۔۔
    احتشام شاہ اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لیے فجر کو آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف بڑھا جبکہ صارم شاہ اپنے غم کو دل میں چھپائے لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پہ ویرانی لیے قرآن پاک کا اپنی بہن پہ سایہ کیے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔
    " ہمیشہ خوش رہو۔۔۔شاد و آباد رہو۔۔۔"
    دونوں بھائیوں نے گاڑی میں بٹھانے کے بعد باری باری فجر کے سر پہ ہاتھ رکھتے پیار کے ساتھ دعا دیتے کہا۔۔۔فجر کو گاڑی میں بٹھاتے سمے صارم شاہ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اپنے آنسو صاف کرتے وہ تیزی سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔ہزار ضبط کے باوجود فجر کی آنکھوں سے بھی برسات جاری ہو گئ۔۔۔
    ہائمہ خاتون اور احتشام شاہ نے بدقت اسکو سمجھا بجھا کر چپ کروایا۔۔۔
    " بھائی۔۔۔"
    احتشام شاہ پیچھے کو ہوا تو فجر نے سسکی بھرتے اسے پکارا تھا...
    " بولو بھائی کی جان۔۔۔کچھ چاہیے کیا۔۔۔"؟
    احتشام شاہ نے نیچے کو جھکتے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے آنکھوں میں نمی لیے کہا۔۔۔
    " بھائی۔۔۔صارم بھیا کو پلیز اکیلا مت چھوڑیے گا۔۔۔وہ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔"
    فجر نے روتے ہوئے کہا تو احتشام شاہ نے حیرانی سے اسکی بات کا مطلب سمجھنے کے لیے صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا جو گاڑی سے ذرا فاصلے پہ کھڑا تھا آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی سوجی سی اور چہرے پہ عجیب سے کرب کے آثار تھے۔۔۔
    احتشام شاہ اثبات میں سر ہلا کر پیچھے کو ہٹ گیا۔۔۔پھر وہ شرجیل کے گلے ملا اور اسے اپنی بہن کا خیال رکھنے کی خاص کر تاکید کی۔۔۔یونہی باری باری سب ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے اور اجازت چاہی۔۔۔

    لاہور گھر پہنچتے ہی سب لوگ گاڑیوں سے اترنے لگے۔۔۔آئمہ سلطان اور رامین نے پہلے نیچے اتر کر فجر کے لہنگے کو سمیٹا پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی سے اترنے میں مدد دی۔۔۔
    گاڑیوں کا ہارن سنتے ہی بڑا سا گیٹ کھول دیا گیا گیٹ سے اندر داخل ہوتے وقت فجر کا ہاتھ تھامنے کو شرجیل نے اپنا ہاتھ فجر کی طرف بڑھایا تو اسکے ہاتھ میں لرزش محسوس کرتے وہ مسکرا دیا اور اسے ریلیکس رہنے کا کہتے ہوئے دونوں نے ایک ساتھ اپنا دایاں قدم اندر رکھا۔۔۔
    قدم اندر رکھتے ہی ان دونوں پہ پھولوں کی آسمان سے یوں برسات ہونے لگی جیسے پھولوں بھرا آسمان یکدم پھٹ گیا ہو۔۔۔
    گیٹ سے لیکر برائیڈل روم تک گلاب کی پتیوں کے ساتھ رو بنائی گئ تھی جس پہ چلتے چلتے دونوں روم تک پہنچے۔۔۔
    فجر کو جس روم میں لا کر بٹھایا گیا ہیڈ بیڈ والی دیوار پہ فریش ادھ کھلے گلاب کا سپرے کیا گیا تھا۔۔۔جبکہ بیڈ کو فریش پھولوں میں لپٹے سکوائر ٹینٹ سے سجایا گیا تھا جنکے ارد گرد چھوٹی چھوٹی ڈیکوریشن لائٹس بھی لپٹی ہوئیں تھیں۔۔۔
    ڈارک آف وائٹ کلر کے جالی دار دیدہ زیب پردے بیڈ کے چاروں طرف سے بیڈ کے اوپر سے لے کر نیچے تک فرش کو چھو رہے تھے۔۔۔
    پھولوں کی پتیوں سے ہارٹ شیپ میں بیڈ کے سینٹر میں سجاوٹ کی گئ تھی زمین پہ بھی ہارٹ شیپ کے بہت سے بالونز پڑے ہوئے تھے۔۔۔
    بیڈ کی سائیڈ کے دونوں اطراف میں فل ڈیکوریٹڈ ٹیبل رکھی گئ تھیں جن کے اوپر گلاب کی پتیوں میں شیشے کے ہارٹ شیپ جار میں کینڈلز سجائی گئ تھیں۔۔۔
    فجر کو روم میں بٹھانے کے بعد فوٹو سیشن کا دور شروع ہوا ، پھر باری باری فیملی کے تمام لوگوں نے اسکے ساتھ پکس بنوائیں۔۔۔
    اسکے بعد کچھ خاندانی رسموں رواج کا دور شروع ہوا فجر کا تھکاوٹ کے مارے برا حال ہونے لگے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ اپنی کمر کو کھینچ کر ذرا سا سیدھا کرتی۔۔۔
    " رابعہ آپا میرے خیال میں اب بس کردینا چاہیے فجر بیٹی کو اب آرام کرنے دینا چاہیے بیٹھے بیٹھے تھک گئ ہوگی۔۔۔باقی کی رسمیں ہم کل کر لیں گے۔۔۔"
    رات کے 10 بج چکے تھے آئمہ سلطان کسی کام سے اندر آئیں تو فجر کی حالت دیکھ کر انھوں نے اپنی نند سے کہا انکی نند نے مسکراتے ہوئے سب کو اٹھنے کا بول دیا اور خود بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
    سب کے جانے کے بعد فجر اپنا دوپٹہ اوپر کر کے ستائشی نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی پورے کمرے میں پھیلی فریش پھولوں کی خوشبو اور ڈیکوریشن لائٹس کی مدھم روشنی کمرے کو عجب سحر انگیز سا بنا رہی تھی ابھی وہ جائزہ لے ہی رہی تھی کہ کمرے کے باہر اسے قدموں کی چاپ سنائی دی وہ فوراً سر جھکا کر سیدھی ہوکر بیٹھ گئ اور دوپٹے کو ذرا سا کھینچا جس سے پیشانی سے لے کر ناک تک اس کا چہرہ چھپ گیا۔۔۔
    شرجیل آہستہ سے روم میں داخل ہوا روم لاک کیا اور لائٹ آف کی تو فجر کا دل دھک دھک کرنے لگا شرجیل نے باری باری تمام کینڈلز کو روشن کیا تو پورا کمرہ کینڈلز کی روشنی میں سحر انگیز منظر پیش کرنے لگا خوابیدہ جزبے پرزور انگڑائی لے کر جاگ اٹھے شرجیل آہستہ آہستہ چلتا ہوا دھیرے سے اسکے پاس بیڈ پہ آ بیٹھا فجر کا جھکا سر مزید جھک گیا اسکی ٹھوڑی گردن کو چھونے لگی اور ہتھیلیاں نم آلود ہونے لگیں۔۔۔
    کمرے میں پھیلی خوابناک خاموشی تنہائی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر فجر کی روح فنا ہونے لگی اسکی دھڑکن کا شور اتنا بڑھا کہ اسے لگا جیسے ابھی اس کا دل اسکی پسلیوں سے باہر آ جائے گا۔۔۔
    گولڈن سکن کلر کے دوپٹے کو بڑی نفاست سے اسکے سر اور کندھوں پہ پنز کی مدد سے سیٹ کیا گیا تھا مہرون کلر کی فل ایمبراڈد کرتی اور گولڈن سکن کلر کے لہنگے میں اسکا روپ بن پیئے شرجیل کو مدہوش کرنے لگا۔۔۔ہونٹوں کی لالی اسے اپنی طرف کھینچنے لگی جیسے کہ رہی ہو کہ ان لبوں کا رس صرف تمہارے لیے ہے آؤ اور آ کے پی جاؤ۔۔۔شرجیل نے ہاتھ بڑھا کر اسکا دوپٹہ اوپر کو سرکایا تو اس کا حسن دلسوز اسکے اندر لگی آگ کو بڑھا گیا۔۔۔
    شرجیل یونہی بیٹھا کئ لمحے دل میں ہلچل مچاتے اسکے دلکش روپ کو نہارتا رہا۔۔۔
    " یقین نہیں آ رہا کہ کوئی اتنا خوبصورت بھی ہوسکتا ہے۔۔۔آج آپکے سامنے اس دنیا کی ہر خوبصورتی بے معنی بے وقعت لگ رہی ہے جان شرجیل۔۔۔"
    شرجیل نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے دھیرے سے اسکی ٹھوڑی کو چھو کر اس کا چہرہ ذرا سا اپنی طرف موڑتے ہوئے جزبات سے لبریز لہجے میں کہا شرجیل کے چھوتے ہی اپنی جھکی نظروں کو وہ زور سے میچتے ہوئے خود میں سمٹ کر رہ گئ شرجیل اسکی اس حرکت پہ خوب محفوظ ہوا۔۔۔
    " جان شرجیل۔۔۔کچھ کہیں گی نہیں آج۔۔۔یوں آنکھیں بند رکھیں گی تو مجھے لگے گا کہ میرا چہرہ پسند نہیں آیا آپکو۔۔۔خیر کوئی بات نہیں میں ماما سے کہ دیتا ہوں جا کے کہ آپکی بہو نے مجھے ریجیکٹ کردیا ہے۔۔۔"
    شرجیل نے شرارت سے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔اور جھوٹ موٹ اٹھنے کی ایکٹنگ کی۔۔۔"
    " نن۔۔نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔میں۔۔۔"
    فجر نے بےساختہ اپنی آنکھیں کھول کر کہا ابھی وہ کچھ اور بھی کہنے لگی تھی کہ شرجیل کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر خفگی سے منہ نیچے کر لیا۔۔۔شرجیل ہنستا ہوا پھر سے اسکے قریب یٹھ گیا۔۔۔
    " یہ ہوئی ناں بات۔۔۔ فجر آج میں بہت خوش ہوں آپ کو پا کر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں جسے بنا کسی آزمائش سے گزارے اسکے رب نے اسکی محبت اسکی قسمت میں لکھ دی۔۔۔آج میں جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔۔۔میری زندگی میں آنے کے لیے مجھے قبول کرنے کے لیے میری خطا کو معاف کرنے کے لیے آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔"
    شرجیل نے آہستہ سے گود میں دھرے فجر کے ہاتھ تھام کر پورے استحقاق سے اپنے لبوں سے لگاتے جزبات سے چور لہجے میں کہا فجر کی جان سوا ہوئی تھی اسکا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا تھا۔۔۔اس نے شرجیل کو تنگ کرنے کے لیے کیا کچھ سوچا ہوا تھا مگر اسے اپنا سارا اعتماد ہوا ہوتا محسوس ہونے لگا دل میں اک عجیب سے ہوتی گدگدی کے ساتھ ایک ڈر اور خوف اسکے وجود میں سرائیت کرنے لگا۔۔۔
    " ریلیکس یار۔۔۔شوہر ہوں تمہارا۔۔۔اور تم میری محرم۔۔۔"
    شرجیل نے اسے کے کانپتے لرزتے وجود کو دیکھ کر اسکے ہاتھوں پہ ہلکا سا دباؤ ڈالتے کہا پھر اسے بہت نرمی سے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر اپنے ساتھ لگا کر اسکے ماتھے پہ اپنے ہونٹ رکھتے شدت بھرا لمس چھوڑا۔۔۔
    " مم۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔اور۔۔۔اور میں نے آپکو معاف نہیں کیا۔۔۔
    اپنی اتھل پتھل ہوتی دھرکنوں کو قابو کرتے لرزتے ہوئے فجر کے منہ سے بے ساختہ خارج ہوا اور شرجیل کو پیچھے کرتی تیزی سے بیڈ سے اتر کر دور جا کے رخ موڑے کھڑی ہو گئ۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے جسم سے جان نکل رہی ہو چہرہ حیا کی تمازت سے سرخ انار ہونے لگا۔۔۔
    " واٹ۔۔۔۔اگر معاف نہیں کیا تو کوئی سزا بھی سوچی ہوگی۔۔۔بندہ ناچیز حاضر ہے۔۔۔چاہے تو جان لے لیں۔۔۔مگر یوں منہ مت موڑیں۔۔۔
    شرجیل اٹھ کر اسکے انتہائی قریب جا کر کھڑا ہوگیا کہ اس کا جسم فجر کے ساتھ ٹچ ہونے لگا شرجیل نے فجر کا رخ اپنی طرف موڑتے اسکی طرف جزبے لٹاتی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔۔۔
    " پپ۔۔۔پلیزز۔۔۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم آج صرف باتیں کریں۔۔۔"
    فجر نے غیر محسوس انداز میں اپنے اور شرجیل کے بیچ میں فاصلہ قائم کیا۔۔۔
    " اٹس ناٹ فئیر مسز شرجیل۔۔۔آپکا یہ گریز میری سمجھ سے باہر ہے جبکہ اب ہم ایک مظبوط اور پاک رشتے میں بندھ چکے ہیں۔۔۔"
    شرجیل نے اسکے بنائے فاصلے کی حد کو کراس کرتے شکایتی لہجے میں کہا اور اسکے گرد بازوؤں کا گھیرا تنگ کرتے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔
    فجر کا حلق اندر تک خشک ہوا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔۔۔
    " مم۔۔۔میں کرلوں گی۔۔۔"
    شرجیل نے اسکے سر اور کندھوں پہ سیٹ کیے دوپٹے سے پنز نکالنی چاہیں تو فجر نے پیچھے کو ہوکر اسے روکا۔۔۔
    " جہاں کھڑی ہیں۔۔۔وہیں کھڑی رہیں۔۔۔یہ میرا کام ہے مجھے کرنے دیں۔۔۔"
    شرجیل نے ایک گھوری ڈالتے کہا پھر اسکو اپنے قریب کرتے اسکے سر پہ اپنے ہونٹ رکھے اور وہاں سے پنز نکالیں۔۔۔
    پھر کندھے پہ ہونٹ رکھے تو فجر لرز کر رہ گئ۔۔۔شرجیل نے دھیرے سے وہاں سے بھی پنز نکال دیں اور دوپٹہ اتار کر سائیڈ پہ رکھتے اسکے برہنہ کندھے پہ باری باری اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔اسی وقت فجر لڑکھڑائی تھی شرجیل نے جلدی سے اپنی بانہوں کا سہارا دے کر اسے سنبھالا اور اسکے ہونٹوں پہ اپنی نظریں گاڑ دیں اسکی آنکھوں میں سرخی بڑھ رہی تھی جزبات کا سمندر پوری انگڑائی لے کر جاگ چکا تھا فجر کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بے تاب ہونے لگا اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔۔۔
    شرجیل نے ایک جھٹکے سے اس کی کمر اور گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی بانہوں میں بھرا تو وہ اپنی آنکھیں میچ گئ۔۔۔
    " کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔جو بھی سزا دینی ہے وہ کل کے لیے ادھار کر لیں۔۔۔جو سزا دیں گی پکا وعدہ افففف بھی نہیں کروں گا۔۔۔ آج خود کو مجھے سونپ دیں۔۔۔آج بس مجھے سنیں مجھے محسوس کریں۔۔۔"
    شرجیل نے آہستہ سے اسے بیڈ پہ لٹاتے اسکی گردن پہ اپنے ہونٹ رکھتے کہا اور ہلکے سے بائٹ کی اسکی شدتوں سے گھبرا کر فجر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے کرتے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا۔۔
    مگر اپنی گرفت اور مظبوط کرتے وہ اسکے جسم سے اٹھتی مہک پہ بے خود ہوتے فجر کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے معتبر کرنے لگا اسکی شدتوں بھرے لمس کے آگے ہار مانتے فجر نے مزاحمت چھوڑ کر اپنے دل سے سارے ڈر خوف نکال کر خود کو اپنے محرم کے سپرد کردیا۔۔۔۔


    " آپی آپ نے ایک بات نوٹ کی۔۔۔۔۔"؟
    قاسم نے اپنے ساتھ والی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی ایمان کی طرف بنا دیکھے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی نظریں سامنے رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
    " کونسی بات۔۔۔"؟
    ایمان نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
    " یہی کہ۔۔۔مہدیہ کے ماں باپ بچپن میں مر گئے۔۔۔
    ایک چچا تھا جنہوں نے پالا وہ بھی مرگیا۔۔۔
    شوہر کی بھی ڈیتھ ہو گئ۔۔۔
    بہن بھائی کوئی ہے نہیں۔۔۔اور نہ ہی کوئی اور عزیز رشتے دار سوائے رضوانہ بوا کے۔۔۔
    یہ سب کچھ آپکو عجیب سا نہیں لگ رہا۔۔۔ایسا لگ رہا ہے جو بتایا جا رہا ہے جو دکھایا جا رہا ہے ویسا ہے نہیں۔۔۔"
    قاسم نے گہری سوچ میں ڈوبے کہا تو ایمان اس کی بات پہ چپ رہ گئ بات تو واقع عجیب سی تھی قاسم نے جن باتوں کو پوائینٹ آؤٹ کیا تھا وہ کچھ غلط بھی نہ تھیں مگر رضوانہ خاتون پہ شک کرنے کی کوئی وجہ بھی تو نہیں تھی۔۔۔کیونکہ وہ کافی سالوں سے انکے گھر کام کر رہی تھیں اور سب نے انکے کردار کو ہر لحاظ سے بے داغ ہی پایا تھا۔۔۔
    " یہ صرف تمہارا وہم ہے دنیا میں بہت سے ایسے کیسز ہیں کہ کوئی بلکل تنہا ہوتا ہے نہ ماں باپ نہ کوئی عزیز رشتے دار۔۔یہاں تو پھر بھی رضوانہ خاتون ہیں اور وہ کافی عرصے سے ہمارے گھر کام کر رہی ہیں وہ بہت اچھے کردار کی اور قابل بھروسہ خاتون ہیں انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ کچھ چھپائیں اور غلط بیانی سے کام لیں جبکہ انھوں نے آج تک ایسا نہیں کیا۔۔۔
    " تمہاری واپسی کب ہے۔۔۔"
    ایمان نے موضوع بدلتے ہوئے سرسری انداز میں پوچھا۔۔۔
    " خیر ہے۔۔۔تنگ آ گئیں ہیں کیا۔۔۔"
    قاسم نے اچنبھے سے پوچھا۔۔۔
    " نہیں ایسی بات نہیں ہے اصل میں کبھی اتنے دن گھر میں ٹکے نہیں ناں۔۔۔"
    ایمان نے کہا۔۔۔قاسم اپنی سوچوں میں گم تھا ایمان نے کیا کہا اس نے دھیان نہیں دیا مہدیہ کا چہرہ اسکے دماغ میں بری طرح سے کھٹک رہا تھا جو چہرہ اسکو یاد آیا تھا اب سب سے پہلے وہ اس کا پتہ کروانے کا سوچنے لگا۔۔۔
    " تم نے بتایا نہیں۔۔۔"
    قاسم کو خاموش دیکھ کر ایمان نے اپنا سوال دہرایا تھا۔۔۔
    " کیا ہوگیا ہے آپ تو میرے پیچھے ہی پڑ گئ ہیں۔۔۔کہیں تو ابھی چکا جاتا ہوں۔۔۔"
    پھر سے وہی سوال دہرانے پہ قاسم کو تپ چڑھی تھی وہ جھنجلا کر غصے سے بولا۔۔۔
    " میری طرف سے تم جب چاہے آؤ ، جب چاہے جاؤ۔۔۔مگر اتنا ذہن میں رکھنا کہ تمہاری وجہ سے رضوانہ بوا کی فیملی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔۔۔میں تمہاری نیچر کو جانتی ہوں اور بابا کی نیچر کو بھی۔۔۔اس لیے سمجھا رہی ہوں کہ اپنے " شغل " باہر تک ہی رکھنا۔۔۔"
    ایمان نے دوٹوک انداز اپناتے کہا۔۔۔قاسم اسکی باتوں پہ جل کر سوا ہو گیا باقی کا راستہ خاموشی میں ہی کٹا ایمان کو بوتیک کے سامنے ہی اتار کر بنا اسکی طرف دیکھے اور کوئی بات کیے وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔
    " مہدیہ بیگم۔۔۔موہنی بائی۔۔۔ان میں سے کون ہو تم۔۔۔اب جب تک میں اس بات کی تہ تک نہیں پہنچ جاتا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔۔۔میں اتنا بڑا دھوکا نہیں کھا سکتا۔۔۔اتنی حد تک کسی میں مشابہت۔۔۔ناممکن۔۔۔"
    قاسم گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر ایک سائیڈ پہ گاڑی روک کر لاہور اپنے ایک خاص دوست کو کال ملائی۔۔۔"


    Comment


    • #62
      زبردست جناب

      Comment


      • #63
        Wah boht kamal or mohabbat ki shidaat sa bahrpor kahani jahan sarim apni mohabbat ko pane ma laga ha wahan iehtisham b mohabbat ki aag ma jal raha ha mgr izhar nhi kar pa rah ab deakhte han dono bahiyon ko un ki mohabbat mil pati ha ka nhi

        Comment


        • #64

          Episode , 42#

          صبح شرجیل کی آنکھ کھلی تو مندی مندی آنکھیں کھول کر اس نے اپنے پاس بیڈ پہ نظر دوڑائی تو اپنے ساتھ کی خالی جگہ اس کا منہ چڑا رہی تھی اس کی متلاشی نِظروں نے فوراً پورے روم کا جائزہ لیا تو وہ اسے بلیوکلر کے لائٹ اینڈ ڈارک امتزاج کے سادہ سے ایمبراڈڈ ڈریس میں اپنے گیلے بالوں کو ایک سائیڈ پہ ڈالے انکو سلجھاتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے نچلے لب کو دانتوں میں دبائے کسی گہری سوچ میں گم نظر آئی گیلے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک ٹپک کر اسکی کمر کو بگھو رہی تھیں جس سے اس کا جھلکتا بدن اسے پھر سے بہکانے لگا۔۔۔
          " گڈ مارننگ جان۔۔۔"
          شرجیل نے اسکے قریب جا کر ذرا سا جھکتے ہوئے دھیرے سے اس کے برہنہ کندھے پہ اک شدت بھرا لمس چھوڑتے مسکرا کر کہا وہ جو اپنے خیالوں میں گم بیٹھی تھی اس اچانک افتاد پہ ایک پل میں اپنے حواسوں میں آتے گھبرا کر فوراً کھڑی ہوئی تو ہئیر برش ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پہ جا گرا۔۔۔
          " صبح صبح ان حسین لبوں پہ تشدد کی وجہ پوچھ سکتا ہوں جان۔۔۔
          شرجیل نے اسکی گھبراہٹ سے محفوظ ہوتے کھینچ کر اسے اپنی بانہوں میں بھرا اور اپنے گال فجر کے رخسار سے رب کرتے گھمبیر لہجے میں ہوچھا تو خود کو پھر سے شرجیل کی گرفت میں پا کر رات بھر اس کی شدتوں اور اپنی مزاحمتوں کے تمام مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے گھومے تھے فجر کو اپنا گال جلتا ہوا محسوس ہوا دل لگا جیسے ابھی اچھل کر حلق سے باہر آ جائے گا چہرہ قندھاری انار ہوا تھا۔۔۔
          " کچھ پوچھا ہے مسز۔۔۔ ویڈنگ مورننگ چہرے پہ حیا کے رنگوں کی بجائے یہ فکر و پریشانی چہ معنی۔۔۔"
          شرجیل نے فجر کو یونہی بانہوں کے حصار میں لیے اپنی ناک اسکی ناک سے رب کرتے کہا۔۔۔اپنی زندگی کی پہلی صبح ہی فجر کے چہرے پہ پریشانی دیکھ کر وہ فکرمند ہوا تھا۔۔۔اسکا خیال تھا کہ سب لڑکیوں کی طرح صبح فجر بھی اسے شرماتی لجاتی ملے گی مگر اسے اسکے چہرے پہ فکر و پریشانی کے سائے ملے تھے۔۔۔
          " ص صارم بھائی کال پک نہیں کر رہے۔۔۔میں کب سے ٹرائی کر رہی۔۔۔"
          فجر نے پریشانی سے کہا پھر آہستہ سے شرجیل کی گرفت سے نکلتے زمین پہ پڑا برش اٹھا کر ٹیبل پہ رکھا آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔۔۔
          " شکر ہے۔۔۔میں سمجھا رات میری کوئی گستاخی آپکے ملال کی وجہ ہے۔۔۔
          اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے شدید برڈن کی وجہ سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے وہ ابھی سو رہا ہوگا۔۔۔تھوڑی دیر بعد اگین ٹرائی کر لیجیے گا
          شرجیل گہرا سانس خارج کرتے بولا اور فجر کا ہاتھ تھام کر اسے بیڈ پہ بٹھاتے خود بھی اسکے قریب بیٹھتے اسکے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنایا اور اسکی گردن سے نیچے لب رکھے وہ پھر سے بہکتے اسکے چہرے کو چھونے لگا۔۔۔آنکھیں ، گال ، ہونٹ۔۔۔
          " پ پلیزز۔۔۔اب نہیں۔۔۔
          التجائیہ انداز میں کہتے چہرہ پہ حیا کے رنگ لیے وہ اپنا رخ موڑ گئ۔۔۔شرجیل ایک ٹھنڈا سانس بھرتے پیچھے کو ہوا اور بازو پھیلا کر بیڈ پہ ڈھے گیا۔۔۔
          " ہم لوگ آج کیا گاؤں جا سکتے ہیں۔۔۔"
          تھوڑی دیر بعد فجر نے دھیرے سے گومگو کی کیفیت میں کہا صارم کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا اسکے لہجے میں گھلی پریشانی پہ شرجیل پریشان ہو اٹھا۔۔۔
          " فجر کیا بات ہے۔۔۔ایسی کونسی بات ہے جو آپکو پریشان کر رہی ہے کہ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی آپ میرے پاس نہیں ہیں۔۔۔آپ مجھ پہ بھروسہ کر سکتی ہیں۔۔۔"
          شرجیل نے فجر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے سنجیدگی سے پوچھا اس نے اپنی اس خوبصورت صبح کے بارے میں کیا کچھ سوچا تھا مگر فجر کا رویہ اسے پریشان کر رہا تھا۔۔۔اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ جو بھی بات ہے اس کا تعلق اسکی ذات سے ہرگز نہیں ہے ورنہ وہ اسے رات کو اپنے قریب کبھی نہیں آنے دیتی۔۔۔رات اسکی ہر مزاحمت میں حیا چھپی تھی مگر اس سے ناراضگی نہیں۔۔۔
          " آپ عائلہ کے بارے میں تو جانتے ہیں ناں۔۔۔"
          فجر نے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔شرجیل نے اثبات میں سر ہلایا اور سوالیہ نِظروں سے اسکی طرف دیکھا کہ اس وقت عائلہ کا ذکر کیوں۔۔۔
          " آپ جانتے ہیں کہ صارم بھائی عائلہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔۔۔عائلہ کا رشتہ اسکے باپ نے کہیں اور تہ کردیا ہے رشتہ تہ نہیں ہوا بلکہ جوئے میں ہاری رقم کے بدلے عائلہ کو دیا جا رہا ہے۔۔۔"
          فجر نے انتہائی دکھ سے کہا۔۔۔پھر دھیرے دھیرے اسے سب بتانے لگی۔۔۔اپنے بابا جان کا حکم اور عینا کے ساتھ مل کر عائلہ اور صارم کی ملاقات کروانے کا بھی بتایا۔۔۔اور اسکے بعد صارم کی حالت۔۔۔
          " اوہ۔۔۔۔تو اسی لیے صارم اتنا ٹوٹا بکھرا لگ رہا تھا۔۔۔"
          شرجیل کو صارم کا خود سے بغلگیر ہونا یاد آیا ساتھ اسکی کرب زدہ آنکھیں جن میں عجیب حزن و ملال تھا۔۔۔
          " بابا جان بلکل ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ جب تک عائلہ خود اپنے لیے سٹینڈ نہیں لے گی ہم اسکی مدد نہیں کرسکتے۔۔۔مگر میں پھر بھی آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ صارم کو اس کی خوشیاں لوٹانے کے لیے مجھ سے جو بھی ہوا میں کروں گا۔۔۔
          میں ماما سے بات کرتا ہوں اگر وہ آج کے لیے مان گئیں تو پھر چلتے ہیں نہیں تو کل پکا میں آپکو گاؤں ضرور لے چلوں گا۔۔۔آپ جانتی ہیں سارا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے اور ایسے میں یوں اچانک جانا سب کے ذہنوں میں کئ سوال پیدا کردے گا۔۔۔"
          شرجیل نے رسانیت کہا۔۔۔فجر نے مسکرا کر سر جھکا لیا۔۔۔
          میں نے سنا تھا کہ شوہر حضرات جب اپنی بیویوں کی بات مانتے ہیں تو وہ بدلے میں خوش ہو کر انھیں انعام دیتی ہیں مگر میرا انعام مجھے ابھی تک نہیں ملا۔۔۔"
          شرجیل نے معنی خیز نظروں سے فجر کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔
          " میرے پاس تو آپکو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔"
          فجر نے بیچارگی لیے لہجے میں کہا۔۔۔
          " خیر یہ تو نہ کہیں۔۔۔مجھے دینے کے لیے اور خوش کرنے کے لیے آپکے پاس بہت کچھ ہے۔۔۔آپ نہ دیں وہ اور بات ہے۔۔۔"
          شرجیل نے شرارت سے اسکی طرف دیکھتے کہا تو وہ ہونق بنی اسکی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔کہ اسکے پاس ایسا کیا ہے جس کا اسے نہیں پتہ۔۔۔
          " آپکے پاس یہ ہے۔۔۔یہ ہے۔۔۔آپ کے پاس یہ ہے۔۔۔کہ مجھے یہ انعام جتنا بھی ملے کم لگے گا۔۔۔دل ہے کہ سیراب ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔"
          شرجیل نے فجر کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے اسکے ایک ایک نقش کو چومتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں کہا۔۔۔فجر کے دل کی دھڑکن نے ایکدم رفتار پکڑی تھی سانسیں تھمنے لگیں تھیں۔۔۔
          اس سے پہلے کہ وہ مزید بہکتا دروازے پہ ہلکے سے دستک ہوئی تھی۔۔۔فجر نے جان بخشی پہ گہرا سانس لیا تو شرجیل ٹھنڈی سانس بھرتا دل پہ ہاتھ رکھے اٹھ کر لڑکھڑانے کی ایکٹنگ کرتا دروازہ کھولنے چل دیا۔۔۔اسکے انداز پہ فجر کی ہنسی چھوٹی تو شرجیل نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا۔۔۔

          " ہائم کیا بات ہے۔۔۔آپ یوں گم صم کیوں بیٹھی ہیں۔۔۔"
          شاہ سائیں روم میں آئے تو ہائمہ خاتون کو اب بھی اسی پوزیشن میں بیٹھے پایا جس میں دو گھنٹے پہلے بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔"
          " کچھ نہیں۔۔۔بس ایسے ہی فجر کی یاد آ رہی ہے۔۔۔اسکے بنا گھر بہت ویران سا لگ رہا ہے۔۔۔"
          ہائمہ خاتون نے اداس لہجے میں کہا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں۔۔۔
          " بات تو آپکی ٹھیک ہے۔۔۔فجر بیٹی کے دم سے گھر میں رونق رہتی تھی۔۔۔ابھی ایک دن ہوا اسکو گئے مگر ایسا لگ رہا جیسے صدیاں بیت گئیں اسے دیکھے۔۔۔
          ویسے اس ویرانی کو دور کرنے کا ایک حل ہے میرے پاس۔۔۔"؟
          شاہ سائیں نے ہائمہ خاتون کے پاس بیٹھتے کہا۔۔۔تو ہائمہ خاتون سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
          " بھئی اپکے سپوت کی شادی کر دیتے ہیں گھر میں بہو آئے گی پوتے پوتیاں ہوں گے تو آپکا دل لگا رہے گا۔۔۔"
          شاہ سائیں نےسکراتے ہوئے کہا۔۔۔تو ہائمہ خاتون کا دھیان عینا کی طرف گیا۔۔۔عینا کا بے ہوش ہونا احتشام شاہ کی بے قراری اسکا غصّٰہ ہائمہ خاتون کو بہت کچھ باور کروا گیا تھا مگر شادی کے ہنگاموں میں انکے ذہن سے نکل گیا۔۔۔
          " شاہ احتشام کے لیے عینا کیسی رہے گی۔۔۔عائلہ کا بہو بن کر ہمارے گھر آنا ہماری قسمت میں نہیں تھا مگر عینا تو آ سکتی ہے۔۔۔"
          ہائمہ خاتون نے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
          " آپ سے یہ بات احتشام نے کی ہے کیا۔۔۔"
          شاہ سائیں نے حیران ہوتے پوچھا۔۔۔
          " نہیں۔۔۔اس نے تو کچھ نہیں کہا مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ انکار نہیں کرے گا۔۔۔"
          ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
          " ہممممم۔۔۔۔ہائم افتخار بھائی اپنی بیٹی صدف کے لیے اشاروں کنایوں میں احتشام بیٹے کے لیے کہا ہے۔۔۔اور مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔آپ احتشام سے پوچھ لیں میرے لیے اپنے بھائی سے بڑھ کر احتشام کی رضا اسکی خوشی اہم ہے۔۔۔وہ جسکے حق میں فیصلہ سناتا ہے ادھر بات تہ کردیتے ہیں۔۔۔"
          شاہ سائیں نے کہا۔۔۔
          " شاہ میرا خیال ہے کہ صارم کی بھی ساتھ ہی کردیں تو بہتر ہوگا۔۔۔"
          ہائمہ خاتون نے شاہ سائیں کی بات سن کر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔۔۔جب سے عائلہ کی بات ختم ہوئی تھی وہ نوٹ کر رہی تھیں کہ صارم شاہ بہت گم صم رہنے لگا تھا ایک فرمانبردار بیٹے کا حق ادا کرتے اس نے اپنے باپ کے حکم کے آگے سر جھکا دیا تھا مگر اسکے اندر کی حالت ان سے ڈھکی چھپی نہیں تھی خاص کر فجر کی مہندی کی رات جس طرح سے دنیا بھلائے کسی بات کا ہوش کیے بنا وہ فجر کو دیکھ رہا تھا اس بات نے انکو پریشان کر دیا تھا۔۔۔
          " بھئ ہم نے تو بچوں کے اور گھر کے سارے معاملات کا اختیار آپکو سونپ دیا ہے۔۔۔آپکو جو بہتر لگتا ہے آپ وہ کیجیے ہم ہر فیصلے میں آپکے ساتھ ہیں۔۔۔"
          شاہ سائیں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

          " یاالّٰلہ مجھے بخش دے۔۔۔مجھے معاف کردے۔۔۔بے شک میں ظالموں سے ہوں میں نے غلط کیا۔۔۔میں نے تیری قائم کردہ حد کو پار کیا بنا کسی جائز رشتے کے میں نے ایک نامحرم کو چھونے کا گناہ کیا۔۔۔یاالّٰلہ میں نے جتنا بڑا گناہ کیا۔۔۔اپنے لیے سزا بھی اتنی بڑی ہی چنی ہے۔۔۔یا الّٰلہ ہر چیز تیرے قبضۂ اختیار میں ہے تو عائلہ کو میری قسمت میں لکھ دے میرے مالک۔۔۔میں اسکے بنا جی نہیں پاؤں گا۔۔۔میرے مالک یا تو اسے میرا کردے یا میری جان لے لے۔۔۔یاالّٰلہ مجھ پہ رحم کر۔۔۔میرے راستے آسان کردے میرے مالک۔۔۔"
          رات کے تین بج چکے تھے احتشام شاہ کی آنکھ کھلی تو اس نے صارم شاہ کو جائے نماز بچھائے سجدے میں گریہ زاری کرتے پایا۔۔۔
          فجر کی بات کے بعد اُس نے صارم شاہ سے پوچھا بھی کہ کیا مسلہ ہے مگر وہ یہ کہ کر ٹال گیا تھا کہ فجر کی جدائی برداشت نہیں ہو رہی اگرچہ اسے یقین نہیں آیا تھا مگر اب اسے گریہ زاری کرتے دیکھ وہ سب جان گیا تھا اسکی سجدے میں کی جانے والی باتوں نے اسے پریشان کردیا تھا احتشام کے دماغ میں اسکی باتیں سن کر کئ سوال کلبلانے لگے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے سینے پہ ہاتھ باندھے وہ صارم کے اٹھنے اور دعا ختم کرنے کا ویٹ کرنے لگا۔۔۔
          " بھائی۔۔۔آپ۔۔۔کچھ چاہیے تھا کیا۔۔۔"
          صارم شاہ جوتا پہن کر جائے نماز فولڈ کر کے سامنے ٹیبل پہ رکھ کے مڑا تو احتشام شاہ کو جاگتے دیکھ کر ٹھٹھکتے ہوئے پوچھا وہ دل میں دعا کرنے لگا کہ احتشام شاہ نے کچھ نہ سنا ہو۔۔۔
          " ہاں جاگ رہا ہوں۔۔۔اور اپنے جاگ جانے پہ الّٰلہ کا شکر گزار ہوں۔۔۔یہاں میرے پاس بیٹھو آ کے۔۔۔"
          احتشام شاہ نے انتہائی سمجیدگی سے اسکی طرف دیکھتے کہا اور اپنی ٹانگیں سمیٹ کر صارم شاہ کے بیٹھنے کو جگہ بنائی۔۔۔صارم شاہ سر جھکائے بیڈ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گیا۔۔۔
          " کیا کیا ہے تم نے عائلہ کے ساتھ۔۔۔اور کس سزا کی بات کر رہے ہو۔۔۔جھوٹ مت بولنا صارم ، اور نہ بات کو ٹالنے کی کوشش کرنا میں سب سن چکا ہوں۔۔۔عائلہ عینا کے شادی میں شریک نہ ہونے کا تعلق تمہاری کسی حرکت سے ہے کیا۔۔۔
          بولو صارم۔۔۔پلیززز۔۔۔بتاؤ مجھے کہ میں جو سوچ رہا ہوں وہ غلط ہے۔۔۔"
          احتشام شاہ نے پریشان ہو کر صارم شاہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔۔۔
          " بھائی مجھ سے غلطی ہوئی ہے گناہ نہیں۔۔۔عائلہ یا کسی بھی اور لڑکی کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔
          میں اسے اپنی محبت کا ، اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہتا تھا۔۔۔اور اسی سلسلے میں فجر کی مہندی والی رات اسے ملا تھا۔۔۔مگر مجھ سے محبت کرنے کے باوجود اس نے میرا ہاتھ تھامنے سے انکار کردیا۔۔۔
          عائلہ ان لڑکیوں میں سے ہے جو خود کو سینت سینت کر رکھتی ہیں ایک بار کسی کی ہو جائیں تو پھر اور کسی کی نہیں ہوتیں۔۔۔
          اس وقت اس کے انکار پہ مجھے لگا کہ اگر ایک بار میری محبت کی اس پہ چھاپ پڑ گئ تو پھر وہ کبھی کسی دوسرے مرد کی نہیں ہوگی۔۔۔وہ خود اس رشتے سے انکار کردے گی۔۔۔بنا کسی رشتے کے میں نے اسکو چھو لیا۔۔۔مگر اپنی حد پار نہیں کی۔۔۔اور اسکو بنا کسی رشتے کے چھونے کی میں خود کو سزا دوں گا۔۔۔اگر وہ میری نہیں ہوئی تو اپنے ہاتھوں سے میں اپنی جان لے لوں گا۔۔۔
          بھائی میں اسکے بنا مر جاؤں گا۔۔۔وہ میری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی ہے۔۔۔اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے وہ ہر وقت میرے حواسوں پہ سوار رہنے لگی ہے۔۔۔جب سے اس کا نام کسی اور کے نام کے ساتھ جڑا ہے میں مر رہا ہوں بھائی۔۔۔
          مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مجھے کانٹوں پہ گھسیٹ رہا ہے۔۔۔
          مجھے خود سے نفرت ہو رہی ہے۔۔۔اپنے مرد ہونے سے نفرت ہو رہی ہے بابا کے حکم نے میرے ہاتھ پیر باندھ دئیے ہیں اور میں ہیجڑوں کی طرح کھڑا بس تماشا دیکھ رہا ہوں۔۔۔
          بابا کے حکم کے خلاف میں جا نہیں سکتا۔۔۔عائلہ چاہنے کے باوجود میرا ہاتھ تھامنے کو مجھ پہ بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔۔۔ایسے میں مروں نہیں تو اور کیا کروں۔۔۔میرے جیسے بندے کو مر ہی جانا چاہیے جو محبت کا دعوٰی تو کرے مگر اپنی محبت کو بچا نہ سکے اس کے لیے لڑ نہ سکے ، اسے اپنا اعتبار نہ دے سکے۔۔۔میں ایک بزدل اور کمزور انسان ہوں مجھے خود کو مرد کہلانے کا کوئی حق نہیں۔۔۔عائلہ نے بلکل ٹھیک کیا بھائی اسے مجھ جیسے بزدل انسان کا ہاتھ نہیں تھامنا چاہیے۔۔۔میں مر جاؤں گا ۔۔۔مجھے مر جانا چاہیے۔۔۔
          صارم شاہ کے ضبط کی طنابیں ٹوٹی تھیں بات کرتے کرتے اس کا انداز عجیب ہذیانی سا ہوتا گیا اتنے دنوں سے جس درد کو اپنے اندر اس نے مقید کیا ہوا تھا اس درد کی اذیت اور گھٹن اب اس کی برداشت سے باہر ہو گئ تھی انسان جب کسی دکھ اور اذیت میں ہو تو اس کا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا ہو جو اسکو سمجھے اس کو سنے ، جس کے کندھے پہ سر رکھ کے وہ اپنا سارا درد کہ ڈالے۔۔۔اس وقت کسی کے بولے گئے ہمدردی کے دو بول ، کسی کی توجہ ، اپنے لیے کسی کی فکر دیکھ کر نہ چاہتے بھی انسان اسکے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے۔۔۔اور وہ سب بھی کہ دیتا ہے جو نارمل حالت میں کبھی کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
          اس دنیا میں محبت اور توجہ کی گولی سے بڑھ کر کوئی مرہم نہیں ہے کوئی چاہے خود کو کتنا ہی مضبوط ظاہر کرے یہ گولی اس کو ہرا دیتی ہے بندے کے اندر چھپے ہر درد ہر راز کو باہر لے آتی ہے۔۔۔
          اور اس وقت صارم شاہ کو یہ گولی کھلانے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا بھائی تھا اس کا ماں جایا اس کا دوست۔۔۔پھر وہ کیسے نہ ہارتا۔۔۔وہ کڑیل جوان مرد بھی ہار گیا تھا
          اور یونہی روتے سسکتے اس نے اپنا دل احتشام شاہ کے سامنے کھول کے رکھ دیا احتشام شاہ بت بنا اس کی ایک ایک بات سنتا گیا اس نے صارم شاہ کو بیچ میں نہ ٹوکنے کی کوشش کی اور نہ اسے چپ کروانے کی۔۔۔
          " صارم۔۔۔میرے بھائی۔۔۔میری جان تم پہ قربان یار۔۔۔ مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ عائلہ کے معاملے میں تم اس حد تک آگے بڑھ چکے ہو۔۔۔میں کیا بلکہ گھر میں کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔۔۔
          بابا کے منع کرنے پہ تم نے کسی قسم کا ری ایکشن شو نہیں کیا تھا تو ہم سب کو لگا کہ عائلہ تمہاری پسند تھی محبت نہیں۔۔۔
          اگر بابا کو تمہاری سچوئشین کا ذرا بھی اندازہ ہوتا تو تمہاری خوشی کے لیے وہ سب کرتے جو ایک باپ کو کرنا چاہیے تھا۔۔۔
          اور کس نے کہا کہ تم بزدل ہو۔۔۔ماں باپ کے حکم پہ سر جھکانا، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر انکے حکم کی پاسداری کرنا ہر کسی کے بس کی بات کہاں۔۔۔اور فرمانبرداری کی یہ سعادت ہر کسی کو نصیب بھی نہیں ہوتی۔۔۔
          اپنے ارد گرد اور باہر کی دنیا پہ نظر دوڑاؤ ذرا ، تمہیں کتنے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو ماں باپ کے فرمانبردار ہیں۔۔۔جو اپنی ہر خوشی سے سے بڑھ کر اپنے ماں باپ کی خوشی کو انکے حکم کو اہم سمجھتے ہیں۔۔۔حتیٰ کہ اپنی محبت سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔۔۔کوئی نہیں کرتا یار۔۔۔کوئی نہیں کرتا۔۔۔
          اس لیے خود کو بزدل مت کہو۔۔۔تم بزدل نہیں ہو۔۔۔اپنے نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال کے رکھنا اسے بے قابو نہ ہونے دینا ہی سب سے بڑی بہادری ہے۔۔۔اور اصل مردانگی بھی۔۔۔
          البتہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے میدان چھوڑ کر بھاگ جانا یا اپنی جان لینے کا سوچنا ایک کمزور اور بزدل مرد کی ہی نشانی ہے۔۔۔اور میری نظر میں ایسے مرد سے ہزار گنا بہتر ہیجڑے ہوتے ہیں۔۔۔
          اس لیے میں تمہارے منہ سے دوبارہ یہ کبھی نہ سنو کہ تمہیں مر جانا چاہیے۔۔۔
          مجھ سے وعدہ کرو کہ تم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤ گے تم بزدلی کی موت ہرگز نہیں مرو گے۔۔۔وعدہ کرو مجھ سے صارم۔۔۔رہی بابا کی بات تو میں ان سے خود بات کرلوں گا۔۔۔"
          اپنے بھائی کو یوں ٹوٹا بکھرا اور سسکتا ہوا دیکھ کر احتشام شاہ کو لگا جیسے کوئی اس کا کلیجہ نکال رہا ہو۔۔۔اس کا دل چاہا کہ وہ ابھی جا کر رشید احمد اور دلاور کا قصّٰہ پار لگا دے۔۔۔مگر وہ احتشام شاہ تھا جو جذبات کے بہاؤ میں بہ کر کبھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتا تھا جو رشتوں کو مان دینا بھی جانتا تھا اور انکی حفاظت کرنا بھی۔۔۔اور وقت آنے پہ انکے لیے لڑنا بھی۔۔۔
          احتشام شاہ نے صارم شاہ کو کھینچ کر اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔ اسے بھائی کے مضبوط ساتھ کا ، اسکے احساس کا احساس دلایا تھا۔۔۔ہر قدم پہ اپنے ساتھ کھڑے ہونے کا یقین دلایا تھا۔۔۔
          " آپکی ہر بات بجا بھائی۔۔۔مگر میرے وعدے کی میری زندگی کی ڈور عائلہ کے نکاح سے جڑی ہے بھائی ، اور جب زندگی ہی نہیں تو کوئی اور وعدہ کیا نبھاؤں گا۔۔۔اس سے وعدہ کرنے کے بعد میں اب اور کوئی وعدہ نبھانے کے قابل نہیں رہا کیونکہ ہر وعدہ انسان کی جان اسکی زندگی سے جڑا ہوتا ہے اور میں نے اپنی جان اپنی زندگی گروی رکھ دی ہے۔۔۔
          صارم شاہ نے نظریں چراتے کہا تھا۔۔۔
          " صارممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"؟
          احتشام شاہ نے تحیر سے اسے پکارا۔۔۔
          " بھائی محبوب سے وعدہ کر کے وعدہ وفا نہ کرنا اس دنیا کا سب سے بڑا جرم ہے جسکی کوئی معافی نہیں۔۔۔
          میں نے فیصلے کا اختیار عائلہ کو سونپ دیا ہے اب یہ مجھے نہیں عائلہ کو تہ کرنا ہے کہ وہ اس شادی سے انکار کر کے مجھے زندگی کی نوید سناتی ہے یا نکاح کے نام پہ میری موت کے پروانے پہ سائن کرتی ہے۔۔۔
          آپ سے ایک وعدہ ضرور کرتا ہوں بھائی کہ میں پیچھے نہیں ہٹوں گا ، میں لڑوں گا ، مگر صرف عائلہ کے نکاح تک۔۔۔
          ہمارے بیچ جو بھی بات ہوئی مجھے امید ہے کہ یہ ہم تک ہی رہے گی۔۔۔"
          صارم شاہ نے اب کے خود کو کمپوز کرتے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔احتشام شاہ صارم شاہ کو اپنی بات پہ ڈٹا دیکھ کر پریشان ہو اٹھا مگر وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ یہ نوبت کبھی نہیں آنے دے گا وہ اپنے بھائی کو ہارنے نہیں دے گا۔۔۔عائلہ اسکی زندگی ہے تو وہ اپنے بھائی کو اسکی زندگی لوٹائے گا۔۔۔اور اب پہلی فرصت میں اسے بابا سے بھی بات کرنا تھی۔۔۔اپنے بھائی کو حرام موت وہ کبھی نہیں مرنے دے گا اسکے لیے چاہے اسے عائلہ کو اٹھانا ہی کیوں نہ پڑے۔۔۔


          " یہ کیا کہ رہے ہو۔۔۔کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ وہ لوگ اسی وجہ سے مارے گئے۔۔۔۔"؟
          قاسم نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
          " ہاں یار خبر پکی ہے۔۔۔اس کوٹھے کی ایک پھلجھڑی تیرے یار کی خاص الخاص آئٹم ہے۔۔۔اسی سے مل کے میں نے اندر کی خبر نکلوائی ہے۔۔۔"
          دوسری طرف سے کہا گیا۔۔۔
          " بہت بہت شکریہ یار۔۔۔تو جانتا نہیں کہ تو نے میری کتنی بڑی مدد کی ہے۔۔۔اچھا ٹھیک ہے مجھے ایک ضروری کام سے نکلنا ہے پھر بات کرتے ہیں۔۔۔بائے۔۔۔"
          قاسم نے پرمسرت لہجے میں کہا اور دوسری طرف سے ہیلو ہیلو کو اگنور کرتے فوراً موبائل آف کر کے زور زور سے قہقہے لگانے لگا خوشی کے ساتھ ساتھ حوس پرستی اور مکاریت اسکے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔۔۔
          دو دن سے وہ اپنے دوست کی کال اور جس مطلوبہ خبر کے لیے انتہائی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا اسکے بارے میں تمام تفصیل جان کر اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا۔۔۔
          " مہدیہ عرف موہنی بائی تم ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتی ہو مگر قاسم کی نہیں۔۔۔اب تم دیکھنا کہ بلی کو تھیلے سے باہر کیسے لاتا ہوں میں۔۔۔ویٹ اینڈ واچ موہنی بائی ی ی ی۔۔۔۔

          " زویا۔۔۔عدن۔۔۔بیٹا اٹھ جاؤ۔۔۔جلدی۔۔۔۔افففف کیا کروں میں۔۔۔"
          فرحین بیگم نے باری باری اپنی دونوں بیٹیوں کے روم میں جا کر انھیں جھنجوڑ کر اٹھایا وہ کب سے آواز دے رہی تھیں مگر وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں تھک ہار کر انھیں انکو خود اٹھانے کے لیے جانا پڑا کیونکہ سوائے فرحین بیگم کے کسی ملازمہ کو انھیں بیدار کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔۔۔
          صبح صبح ایمان کے سسرال میں سے فون آیا تھا کہ وہ لوگ آج آ رہے ہیں دوپہر تک ان لوگوں کی آمد متوقع تھی۔۔۔فرحین بیگم جو سکون سے سوئی ہوئی تھیں انکا فون اٹینڈ کرتے اتنے شارٹ نوٹس پہ ہڑبڑا کر تیزی سے اٹھیں تھیں اکرام صاحب کو بتا کر انھوں نے تمام ملازموں کو لائن حاضر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کو بھی اٹھایا۔۔۔
          " کیا ہوگیا ہے ماما۔۔۔آج صبح صبح ہی اٹھا دیا ابھی تو صرف 8 بجے ہیں۔۔۔کیا مسلہ ہے کون آ رہا ہے۔۔۔"
          زویا بیزاری سے منہ بناتی لاؤنج میں آ کر بولی جہاں فرحین بیگم ملازموں کو مختلف ہدایات جاری کر رہی تھیں۔۔۔
          " صبح صبح کی بچی ایمان کے سسرال والے آ رہے ہیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں اور کہاں سے شروع کروں۔۔۔میں یہ رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔۔۔اگر وہ لوگ پھر سے آ رہے ہیں تو میرا دل کہتا کہ وہ رشتہ پکا کرنے آ رہے ہیں۔۔۔اس لیے انکی خاطر تواضع میں انکے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔۔۔آج بوتیک پہ جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔عدن کو بھی اٹھا دو۔۔۔میں ایمان کو دیکھتی ہوں۔۔۔"
          فرحین بیگم خوشی سے بھرپور تیز تیز لہجے میں کہتے ایمان کے روم کی طرف جانے کو مڑیں۔۔۔خوشی انکے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔
          " ماما آپکو پتہ تو ہے کہ ایمان صبج صبح واک کے لیے نکل جاتی ہے۔۔۔وہ ابھی نہیں آئی ہوگی۔۔۔"
          زویا نے یاد دہانی کروائی تو فرحین بیگم سر پہ ہاتھ مارتی جھنجلا کر واپس آ کر صوفے پہ بیٹھ گئیں۔۔۔
          " ہمممم۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔۔۔عدن نہیں اٹھی۔۔۔"؟
          فرحین بیگم نے کہا۔۔۔
          " اٹھ گئ تھی منہ ہاتھ دھو رہی تھی۔۔۔امی جان آپ اتنی ٹینشن کیوں لے رہی ہیں یہ اتنے ملازم کس مرض کی دوا ہیں البتہ کھانے کا بتا دیں اس کا کیا کرنا ہے باہر سے آرڈر کرنا ہے کیا۔۔۔ رضوانہ بوا تو ہیں نہیں۔۔۔"؟
          زویا نے اپنی والدہ کے پاس بیٹھتے کہا۔۔۔فرحین بیگم کی آنکھوں میں حیرانی سمٹ آئی تھی بہت کم ہوتا تھا کہ وہ بنا کوئی آرگیو کیے بات سن لے اور مان لے لیکن فلحال انکے پاس اپنی حیرت ظاہر کرنے کا ٹائم نہیں تھا۔۔۔
          " یہی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔باہر سے آرڈر نہیں کرنا کاشفہ بیگم ( لڑکے کی دادی )کو پچھلی دفعہ رضوانہ بوا کے ہاتھ کا کھانا اتنا پسند آیا تھا کہ بار بار تعریف کر رہی تھیں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ ان لوگوں کے لیے اب بھی وہی سب تیار کریں۔۔۔مگر آج تو وہ چھٹی پہ تھیں اور میری سوچ سوچ کر ہارٹ بیٹ بڑھ رہی ہے کہ سب کیسے مینج ہوگا۔۔۔ رضوانہ بوا ہوتی تھیں تو مجھے کبھی فکر ہی نہیں ہوئی جب بھی کوئی پارٹی یا فنکشن ہوتا تھا وہ سب سنبھال لیتی تھیں مگر اب۔۔۔۔۔۔۔"
          فرحین بیگم نے پریشان ہوتے کہا آج پہلی بار انکو رضوانہ بوا اور فاطمہ کی اہمیت کا احساس ہوا تھا۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ انکے گھر میں اور ملازم نہیں تھے ملازم اور بھی تھے مگر ان سب کو خود کہ کہ کر انکے سر پہ کھڑے ہو کر کروانا پڑتا تھا جبکہ رضوانہ بوا اور فاطمہ موقع کی مناسبت سے نہ صرف سارا مینیو تیار کر لیتیں بلکہ ساری ارینجمنٹ بھی دیکھ لیتی تھیں۔۔۔
          " امی جان آپ انکو کال کر لیں۔۔۔میرا نہیں خیال کہ انکو ایمان کے گیسٹ کا پتہ چلے تو وہ نہ آئیں۔۔۔اگر بھانجی کا مسلہ ہے تو اسکو ساتھ لے آئیں۔۔۔ایک تو بابا جان کی بھی سمجھ نہیں آتی مجھے انکی اس ڈھیل کا ہی نتیجہ ہے کہ سب ملازم اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔۔۔اتنے اتنے دن کی چھٹی بھلا کون برداشت کرتا ہے۔۔۔"
          زویا نے مشورہ دینے کے ساتھ نخوت سے کہا۔۔۔
          " مجھےتو خود سمجھ نہیں آتی اکرام صاحب کی کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے انکا بس چلے تو رضوانہ بوا کو ہمارے سر پہ لا کے بٹھا دیں۔۔۔اب یہی دیکھ لو انکے ایک بار ذکر کرنے پہ سرونٹ کوارٹر فل ہونے کے باوجود اسپیشل انکے لیے سرونٹ کوارٹر بنوا رہے ہیں۔۔۔خیر میرا سیل دو میں ابھی کال کرتی ہوں انکو۔۔۔دیکھو ملکۂ عالیہ کیا کہتی ہیں۔۔۔"
          فرحین بیگم نے منہ بنا کر کہا پھر زویا سے اپنا فون منگوا کر رضوانہ بوا کو کال ملائی اور گیسٹ کا بتا کر فوراً پہنچنے کا کہا۔۔۔

          " کیا بات ہے بیٹا۔۔۔طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی کیا۔۔۔کچھ بولو بیٹا جب سے ہاسپٹل سے آئی ہو تمہیں یوں گم صم دیکھ کر میرا دل ہول رہا ہے۔۔۔
          رونے کو دل کر رہا ہے تو رو لو بچے۔۔۔مگر یوں چپ مت رہو۔۔۔"
          رضوانہ خاتون مہدیہ کے روم میں آئیں تو وہ گم صم چھت پہ نظریں ٹکائے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔رضوانہ خاتون اسکے پاس چارپائی پہ اسکے سرہانے کے قریب بیٹھتے ہوئے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے شفقت سے بولیں۔۔۔
          اسکی چپی رضوانہ خاتون کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔وہ جب سے ہاسپٹل سے آئی تھی نہ اس نے آنسو بہائے تھے نہ کوئی بات کی تھی۔۔۔اسکی اسی حالت کی وجہ سے رضوانہ خاتون آج بھی کام پر نہیں گئیں تھیں۔۔۔
          " مہدیہ۔۔۔۔بولو بچے۔۔۔کچھ کہو۔۔۔اگر تم یونہی رہی تو جس بچے کو بچانے کے لیے تم اپنی جان جوکھم میں ڈال رہی ہو وہ نہیں رہے گا۔۔۔جانتی ہو ناں کہ ڈاکٹر نے کوئی بھی ٹینشن لینے سے منع کیا تھا۔۔۔"
          رضوانہ خاتون نے اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا تھا بچے کو کھو دینے کا خیال ہی اس کو اپنی حالت میں واپس لا سکتا تھا۔۔۔بچہ جائز ہو یا ناجائز ماں تو بس ماں ہوتی ہے۔۔۔وہ کبھی نہیں چاہتی کہ اس کے بچے کو کچھ ہو۔۔۔اور اپنے بچے کی خاطر اپنی ہستی کو بھول کر وہ پوری دنیا سے لڑ جاتی ہے۔۔۔
          " ماسو ماں۔۔۔۔۔"؟
          رضوانہ خاتون اب بھی اسکے کوئی جواب نہ دینے پہ اٹھ کر باہر جانے لگیں تو مہدیہ نے اپنی چپ کو توڑتے انکو آواز دی۔۔۔وہ مڑ کر مہدیہ کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
          " ماسو ماں۔۔۔مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔۔۔وہ ڈونڈھ نکالے گا مجھے۔۔۔اور کسی کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔خالہ کو میری مدد کرنے کے جرم کی پاداش میں اس نے مار ڈالا۔۔۔وہ یہاں بھی پہنچ جائے گا۔۔۔مجھے جانا ہوگا یہاں سے۔۔۔یہی ٹھیک ہے۔۔۔"
          مہدیہ چارپائی سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کسی ٹرانس میں بولی پھر اٹھ کر کھڑے ہوتے اپنا جوتا دیکھنے لگی۔۔۔
          " مہدیہ پاگل ہو گئ ہو کیا۔۔۔دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔۔۔بیٹھو آرام سے ادھر۔۔۔"
          مہدیہ کی بات سن کر رضوانہ خاتون کو تو جیسے کوئی کرنٹ لگا تھا تھا انھوں نے ڈانٹتے ہوئے مہدیہ کا بازو پکڑ کر اسے واپس چارپائی پہ بٹھایا۔۔۔
          " میں مجرم ہوں گنہگار ہوں انکی۔۔۔خالہ کی ، رحمو بابا کی۔۔۔میری وجہ سے وہ مارے گئے۔۔۔ماسو ماں۔۔۔اور اب آپ ، فاطمہ آپی۔۔۔نہیں ماسو ماں۔۔۔میں اور نہیں سہ سکتی۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے آپ کسی مشکل میں پڑیں۔۔۔"
          مہدیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
          " مہدیہ بیٹا لگتا ہے تم نے ہمیں دل سے اپنا نہیں مانا۔۔۔مجھے ماسو ماں کہا ہے مگر دل سے نہیں کہا۔۔۔اور نہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھا ہے اگر دل سے مانا ہوتا دل سے کہا ہوتا تو ہمیں چھوڑ کر جانے کی بات کبھی نہ کرتی۔۔۔
          مگر میں نے تمہیں دل سے بیٹی مانا ہے۔۔۔اور بیٹیوں کو مائیں اپنے جیتے جی دنیا کے رحم و کرم پہ کبھی نہیں چھوڑتیں۔۔۔اور نہ ہی بیٹیاں ماؤں کو چھوڑ کر جاتی ہیں۔۔۔
          ہر انسان کی موت کا وقت پہلے سے تہ ہوتا ہے بیٹا۔۔۔بندے کے پیدا ہونے سے پہلے اسکی قسمت لکھی جاتی ہے وہ کب ، کس وقت ، کس جگہ پہ ، اور کس وجہ سے مرے گا سب پہلے سے الّٰلہ پاک نے لکھ رکھا ہوتا ہے۔۔۔
          اس لیے یہ کہنا کہ فلاں میری وجہ سے مرا ایسا نہیں ہوتا بیٹا۔۔۔اگر تمہاری مدد کے سبب میری یا فاطمہ کی موت لکھ دی گئ ہے تو میں اپنے رب کی رضا پہ راضی ہوں۔۔۔اگر تمہارا ساتھ دینے کے عوض ہمیں موت آتی ہے تو یہ میرے لیے سعادت کی بات ہوگی مگر تمہیں یہاں سے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی۔۔۔برسوں پہلے ماسو ماں کہنے والے کو میں نے کھو دیا تھا تم جب جب مجھے ماسو ماں کہتی ہو مجھے لگتا جیسے میری چھلنی روح پہ کوئی مرہم رکھ رہا ہو۔۔۔میرا دل کرتا ہے تم مجھے ماسو ماں کہتی جاؤ اور میں سنتی جاؤں۔۔۔
          لیکن اگر تم اب بھی جانا چاہتی ہو تو نہیں روکوں گی۔۔۔"
          رضوانہ خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں آنکھوں میں نمی لیے کہا اور آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے اٹھ کر جانے لگیں تو مہدیہ نے تڑپ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
          " پلیززز ماسو ماں مجھے معاف کردیں میری زندگی میری جان آپکی قرضدار ہے جب چاہے مانگ لیں۔۔۔خالہ کی یوں موت نے مجھے خوفزدہ کردیا تھا آپ کی خاطر میں اپنی جان تو دے سکتی ہوں مگر یہ کبھی نہیں چاہوں گی کہ میری وجہ سے آپکو ہلکی سی بھی خراش آئے۔۔۔
          بس اسی وجہ سے مجھے لگا کہ مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔۔مگر وعدہ اب کبھی ایسی بات نہیں کروں گی جو آپکو دکھ دے۔۔۔"
          مہدیہ رضوانہ خاتون کے کندھے پہ اپنا سر رکھ کر گلوگیر لہجے میں بولی۔۔۔رضوانہ خاتون نے محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا۔۔۔
          " ٹھیک آج کے بعد ایسا کبھی مت سوچنا۔۔۔اب اٹھو شاباش اور باہر نکلو۔۔۔صبح کی تازہ ہوا کا ماں کی صحت اور بچے پہ بہت اچھا اثر ہوتا ہے۔۔۔"
          رضوانہ خاتون نے محبت سے مہدیہ کا سر سہلایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
          " ماسو ماں ایک بات پوچھوں۔۔۔"؟
          مہدیہ نے شش و پنج میں پوچھا۔۔۔
          " ایک کی ہزار باتیں پوچھو بیٹا۔۔۔تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"
          رضوانہ خاتون نے کہا اور رک کر سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
          " ماسو ماں مجھ سے پہلے آپکو ماسو ماں کون کہتا تھا۔۔۔کہاں ہے وہ۔۔۔کیا مر۔۔۔"؟
          الّٰلہ نہ کرے۔۔۔اس موضوع پہ ہم پھر بات کریں گے۔۔۔"
          مہدیہ کی بات پہ رضوانہ خاتون کا کلیجہ منہ کو آیا تھا انھوں نے فوراً گھبرا کر اسکی بات بیچ میں ہی کاٹی تھی۔۔۔
          " امی جان بیگم فرحین کا فون آیا تھا ایمان کے سسرال والے آ رہے ہیں آج۔۔۔تو وہ کہ رہی کہ ہم ابھی پہنچیں۔۔۔"
          فاطمہ نے روم میں آ کر جلدی جلدی بتایا۔۔۔تو رضوانہ کچھ پل کو سوچ میں پڑ گئیں پھر فاطمہ سے تیار ہونے کا کہا کہ جلدی کرو پھر ابھی چلتے۔۔۔مہدیہ نے بھی ساتھ جانے کا کہا تو رضوانہ خاتون اسکا دل لگا رہنے کے خیال سے اسے بھی ساتھ لیجانے پہ رضامند ہو گئیں۔۔۔


          " عینا بیٹا کیا بات ہے۔۔۔تم دونوں کے بیچ کسی بات کو لے کر کوئی ناراضگی چل رہی ہے کیا۔۔۔میں دیکھ رہی کہ تم دونوں ٹھیک سے ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہیں۔۔۔"
          عینا اپنی والدہ کی ٹانگیں دبا رہی تھی جبکہ عائلہ تھوڑے فاصلے پہ قریب ہی ایمن کو پڑھا رہی تھی۔۔۔صبح سے انکو محسوس ہو رہا تھا جیسے عائلہ عینا سے خفا ہے اس لیے اپنا شک دور کرنے کو پوچھنے لگیں۔۔۔
          " نہیں ماما ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔بس طبیعت ٹھیک نہیں زیادہ بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔۔۔"
          عینا کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عائلہ نے جواب دیا۔۔۔اور ایک ناراض نظر عینا پہ ڈال کر منہ نیچے کر لیا۔۔۔
          " بیٹا طبیعت ٹھیک نہیں تو آرام کرنا تھا۔۔۔چھوڑو پرے رہنا دو۔۔۔کل ابھی اتنا تیز بخار تھا اب ایمن کو لے کے بیٹھو گی تو گھبراہٹ تو ہوگی ناں۔۔۔جاؤ شاباش جاکے آرام کرو ایمن کو عینا دیکھ لے گی۔۔۔
          " ماما ایمن کے پیپرز سٹارٹ ہونے والے ہیں ڈیٹ شیٹ مل گئ ہے اسکو۔۔۔اور آپکو پتہ کہ یہ عینا سے نہیں پڑھتی۔۔۔"
          عائلہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
          " پڑھ لے گی۔۔۔تم رہنے دو جاؤ جا کے آرام کرو۔۔۔عینا رہنے دو بیٹا بس کرو اب۔۔۔تم ایمن کو دیکھو جاکے۔۔۔"
          مہرالنساء نے عائلہ کو اصرار کر کے اٹھایا اور پھر عینا سے کہا۔۔۔

          " آپی ناراضگی ختم نہیں کریں گی کیا۔۔۔"؟
          عینا کچھ دیر بعد روم میں آئی تو عائلہ کو بیڈ پہ نیم دراز لیٹے دیکھ کر پاس آ کر بیٹھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔۔۔
          " آپی پلیززز۔۔۔اگر آپ کو مجھے مارنا ہے تو بے شک مار لیں مگر پلیزز مجھے ایک بار اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع تو دیں۔۔۔"
          عینا کے پاس آ کر بیٹھنے سے عائلہ غصے سے اٹھ کر جانے لگی تو عینا نے عائلہ کا بازو تھام کر منت کرتے کہا۔۔۔
          " ہاتھ مت لگانا مجھے۔۔۔نہیں ہوں میں تمہاری بہن۔۔۔بہنیں تمہارے جیسی ہوتی ہیں کیا۔۔۔جو اپنی بہن کو کسی سازش کا حصّٰہ بنا کر بنا اسکا انجام سوچے آگ میں دھکیل دیں۔۔۔
          بہنیں ایک دوسرے کا مان ہوتی ہیں ، غرور ہوتی ہیں۔۔۔دنیا میں ماں کے بعد یہ وہ رشتہ ہوتا ہے جس پہ بندہ آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتا ہے۔۔۔جہاں نہ کوئی سوال ہوتا ہے نہ کوئی جواب۔۔۔بس مان ہوتا ہے اور اسی مان اسی بھروسے کے سر پہ ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں۔۔۔
          مگر اب میں کبھی تم پہ بھروسہ نہیں کر پاؤں گی۔۔۔جب جب بھی تم مجھ سے کوئی بات کہو گی میرے دل میں خیال آئے گا کہ کہیں تم مجھ سے جھوٹ تو نہیں بول رہی۔۔۔مجھ سے دغا تو نہیں کر رہی۔۔۔
          میرے مان میرے بھروسے کو تم نے توڑ ڈالا ہے۔۔۔یہ کیا کیا تم نے۔۔۔
          تم نے ایک پل کو بھی نہیں سوچا کہ اگر میں صارم شاہ کے ساتھ یوں روم میں پکڑی جاتی تو کیا ہوتا۔۔۔ساری عمر کے لیے میرے منہ پہ وہ کالک مل دی جاتی جس کی سیاہی دنیا کا کوئی صابن صاف نہ کر پاتا۔۔۔
          تمہیں ایسا پلان بناتے ایک لمحہ کو بھی الّٰلہ کا خوف نہیں آیا کیا۔۔۔
          ایک لمحے کو تم نے یہ نہیں سوچا کہ سچ جان کر مجھ پہ کیا بیتے گی۔۔۔
          تم نے مجھے ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا ہے عینا جو میرے پورے وجود کو جلا رہی ہے۔۔۔میں تل تل اندر سے مر رہی ہوں۔۔۔
          چھوٹے شاہ نے میرے وجود کو چھو کر مجھے بھسم کر ڈالا ہے۔۔۔مجھے ایسے راستے پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں دونوں طرف موت کھڑی ہے۔۔۔
          میں کس کو بچاؤں۔۔۔کس کو۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔یہ تم نے کیا کیا عینا۔۔۔کیوں کیا۔۔۔"
          عائلہ نے ایک جھٹکے سے عینا سے اپنا بازو چھڑوایا تھا اور دوسرے پل ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے چہرے پہ دے مارا۔۔۔
          پھر دونوں ہاتھوں میں اپنا سر گرائے بیڈ پہ وہیں گرنے کے سے انداز میں بیٹھتے ہوئے سسکتے ہوئے اس دن سے اپنے اندر رکا غبار باہر نکالنے لگی۔۔۔بولتے بولتے تھک گئ تو وہیں بیڈ پہ پیچھے کو ڈھے گئ۔۔۔
          " یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔صارم بھائی ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔مجھے خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے ان پہ۔۔۔
          یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔وہ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔
          آپی۔۔۔۔۔کیا صارم بھائی نے آپکے ساتھ " زبردستی "
          عینا گال پہ ہاتھ رکھے عائلہ کی بات سنتے شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگی۔۔۔اسکے دماغ کی سوئی صارم شاہ کے عائلہ کو " چھونے " پہ ہی اٹک گئ۔۔۔وہ بےچینی سے انکار و اقرار کی کیفیت میں آنکھوں میں تحیر سمیٹے عائلہ کے پاس نیچے اسکے قدموں میں بیٹھتی خوفزدہ لہجے میں بولی۔۔۔صارم شاہ کے باہر نکلنے کے بعد عائلہ کا بکھرا بکھرا حلیہ اور مٹی مٹی لپ اسٹک اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی مگر اس کا دل پھر بھی اس بات سے انکاری تھا کہ صارم شاہ ایسا کر سکتا۔۔۔
          " آپی پلیزز بتائیں مجھے وہاں کیا ہوا تھا آپکی کیا بات ہوئی۔۔۔کیا واقع صارم بھائی نے آپکو " چھوا " ہے۔۔۔آپی پلیزز بولیں۔۔۔بتائیں مجھے۔۔۔
          آپ سچ کہ رہی ہیں میرے جیسی بہنوں کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے مجھے جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔میری وجہ سے۔۔۔میری نادانی کی وجہ سے آپکے دامن پہ داغ لگ گیا۔۔۔یہ میں نے کیا کر ڈالا۔۔۔
          مگر خود کو مارنے سے پہلے میں اس صارم شاہ کو مار ڈالوں گی۔۔۔دھوکا دیا۔۔۔مجھے دھوکا دیا۔۔۔"
          عینا ہذیانی سی ہو کر اپنے چہرے پہ دونوں ہاتھوں سے تھپڑ مارتے بولنے لگی۔۔۔عائلہ اسے ایسا کرتے دیکھ کر بھی چپ چاپ یونہی لیٹی رہی۔۔۔
          عینا کے بار بار پوچھنے پر بھی عائلہ یونہی گم صم لیٹی چھت کو تکتی رہی تو عینا کو لگا کہ صارم شاہ نے اسکی آپی کو برباد کر ڈالا ہے۔۔۔اس کا دل دماغ اس بات کو قبول نہیں کر پا رہا تھا کتنا مان تھا اسے صارم شاہ پہ۔۔۔دنیا میں وہ واحد مرد تھا جس سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا مگر اس نے اس پہ اندھا اعتماد کرتے بھائی کا رشتہ جوڑ لیا تھا۔۔۔پہلی بار اسکے دل نے کہا تھا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔وہ مرد ذات پہ بھروسہ کرنے لگی تھی۔۔۔اور اس بھروسے کی سزا اسکی بہن نے بھگتی۔۔۔اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا۔۔۔
          اپنے دل میں نہ جانے کیا کچھ سوچتی وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اسکی آنکھوں سے غم و غصے کے شرارے پھوٹنے لگے۔۔۔وہ باہر نکلنے لگی کہ عائلہ کی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔۔۔
          " عینا۔۔۔۔۔۔۔
          اس نے مجھے یہاں چھوا ہے ، یہاں ، یہاں چھوا ہے ، اور۔۔۔۔۔اور اس نے مجھے یہاں چھوا ہے عینا۔۔۔"
          عائلہ نے عینا کی طرف دیکھتے روتے ہوئے کسی ٹرانس میں اپنے تپتے عارض ، آنکھوں ، ہونٹوں اور پھر اپنے دل پہ انگلی رکھتے کہا۔۔۔
          " اس نے سچ کہا تھا عینا کہ عورت اپنی زندگی میں آنے والے اُس مرد کے پہلے لمس کو اس کے چھونے کو کبھی نہیں بھولتی جو اسکے دل میں بستا ہو۔۔۔
          اس نے سچ کہا تھا عینا میں چاہ کر بھی اپنے وجود سے ، اپنے دل سے ، اپنے دماغ سے اس کے اس پہلے لمس کو نہیں مٹا پاؤں گی۔۔۔
          اس نے سچ کہا تھا عینا۔۔۔سب سچ کہا تھا۔۔۔
          مگر میں کیا کروں عینا۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔میں دونوں طرف سے آگ میں گھری ہوئی ہوں اور اس سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں۔۔۔
          چھوٹے شاہ کا ہاتھ تھامتی ہوں تو بابا ماما کو مار ڈالیں گے۔۔۔تمہیں اور ایمن کو کسی کے حوالے کر دیں گے۔۔۔
          اور بابا کی بات مانتی ہوں تو چھوٹے شاہ اپنی جان لے لیں گے۔۔۔
          میں کیا کروں عینا۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔کاش کاش کہ تم فجر کے پلان کا حصہ نہ بنتی۔۔۔کاش کہ چھوٹے شاہ کی اور میری یہ ملاقات نہ ہوتی میں چپ چاپ دلاور سے نکاح کر لیتی۔۔۔کسی کی موت کا سبب نہ بنتی۔۔۔
          بتاؤ عینا میں کیا کروں۔۔۔کس کو بچاؤں اب۔۔۔"
          عائلہ نے یونہی لیٹے لیٹے آنکھوں میں آنسو بھرے عینا کو پکارا تھا پھر اپنے سر پہ ہاتھ مارتے روتے ہوئے اپنی اذیتوں کی پٹاری اور دل کا حال اسکے سامنے کھولنے لگی۔۔۔اس دن جو کچھ بھی ہوا سب دھیرے دھیرے اسے بتانے لگی۔۔۔عینا اسکی بہن تھی اسکی ماں جائی تھی۔۔۔اس نے غلطی ضرور کی تھی مگر اس غلطی کے کرنے میں اس کا اپنا نہ کوئی مفاد تھا نہ کوئی غرض۔۔۔وہ صرف عائلہ کو ایک غلط فیصلے سے بچا کر اسکی قدر کرنے اور اس سے بے لوث محبت کرنے والے کے ساتھ دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔اس کے لیے اسے جو ٹھیک لگا بنا سوچے سمجھے اس نے وہ کر ڈالا۔۔۔
          عینا سے جو غلطی ہوئی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ وہ اپنی اور چھوٹے شاہ کی جان لے لیتی۔۔۔اسی لیے عائلہ اسے سب بتاتی گئ۔۔۔
          آپی ی ی ی ی۔۔۔۔یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔صارم بھائی زندہ باد۔۔۔
          آپی پلیز سب بھول جائیں۔۔۔اور صرف صارم بھائی کے بارے میں سوچیں۔۔۔اپنے دل کی آواز سنیں بس۔۔۔کچھ نہیں ہوگا ہمیں۔۔۔اور نہ ہی ماما کو۔۔۔صارم بھائی سچ کہتے ہیں آپی وہ سچ میں اپنی جان لے لیں گے یہ ظلم مت کرنا آپی۔۔۔آپ بس ایک بار ان پہ بھروسہ کر کے تو دیکھیں۔۔۔وہ سب سنبھال لیں گے۔۔۔"
          عائلہ کی زبانی ساری بات جان کر عینا نے اسی وقت الّٰلہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔۔۔خوشی کے مارے وہ پھولے نہ سما رہی تھی۔۔۔اس نے اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کرتے عائلہ کو زور سے ہگ کرنے کے ساتھ چٹا چٹ پیار کیا۔۔۔
          " میں ابھی صارم بھائی سے بات کرتی ہوں۔۔۔اور فکر ناٹ آپی اب دلاور اور بابا ہمارا نہیں صارم بھیا کا درد سر ہے۔۔۔وہ دیکھ لیں گے سب۔۔۔"
          عائلہ کو تسلی دیتے عینا خوشی سے کہتی اٹھی اور روم سے باہر جانے کو جیسے ہی مڑی دروازے میں ایستادہ مہرالنساء کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئ۔۔۔اسکو روکنے کے لیے جیسے ہی عائلہ اٹھی اسکی بھی نظر اپنی والدہ پہ پڑی تو اسکے بھی چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔


          Comment


          • #65
            زبردست سٹوری ہے جناب

            Comment


            • #66

              Episode, 43#

              " ماماااااا۔۔۔۔۔۔"
              عائلہ اور عینا نے گھبرا کر ایک ساتھ پکارا تھا۔۔۔
              " کس سے نکاح کر رہی ہو تم۔۔۔۔دلاور سے ہاں۔۔۔۔یہ دلاور وہی ہے ناں جس کو تمہارے باپ نے 20 لاکھ دینا تھا۔۔۔بولو۔۔۔یہ وہی ہے ناں۔۔۔"
              مہرالنساء واش روم جانے کے لیے اپنے روم سے باہر آئیں تو عائلہ عینا کے روم کے پاس سے گزرتے اندر سے آنے والی آوازوں پہ ٹھٹک کر وہیں باہر ہی رکی رہ گئیں۔۔۔جیسے جیسے وہ سنتی گئیں انکا چہرہ متغیر ہوتا گیا۔۔۔خود کو گرنے سے بچانے کے لیے انھوں نے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لیا ہوا تھا۔۔۔
              ان پر نظر پڑنے پر دونوں کے پکارنے کو نظر انداز کرتے وہ قدم قدم چلتی سیدھی عائلہ کے سامنے آ کھڑی ہوئیں اور حیرانگی و پریشانی سے عائلہ کے دونوں بازوؤں کو سختی سے تھام کر استفسار کرنے لگیں۔۔۔
              " جج۔۔۔جی ماما۔۔۔"
              عائلہ نے نظریں نیچی کیے شرمندگی سے جواب دیا۔۔۔عائلہ کے اقرار پہ مہرالنساء کو یوں لگا جیسے کسی نے انکے جسم سے جان نکال لی ہو۔۔۔
              " میں نہیں جانتی تھی کہ میری بیٹیاں اتنی بڑی ہو گئیں ہیں کہ انکو نہ میرے مشورے کی ضرورت رہی ہے اور نہ ہی میرے ہونے نہ ہونے سے انکو اب کوئی فرق پڑتا ہے۔۔۔
              اور نہ ہی میری بچیوں کو مجھ پہ بھروسہ رہا۔۔۔اسی لیے اپنی زندگی کے فیصلے کرتے وقت مجھ سے مشورہ کرنا تو دور مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔۔۔
              لیکن تم لوگ بھی ٹھیک ہی ہو۔۔۔مجھ جیسی کمزور ماں کی بیٹیوں کو اپنی زندگی کے فیصلے خود ہی کرنے چاہیے۔۔۔میں تو آج تک رشید احمد سے اپنے کسی حق کے لیے نہ لڑ سکی۔۔۔تم لوگوں کے لیے کیا لڑتی۔۔۔مگر بیٹا یہ فیصلہ کرنے سے پہلے میرے مرنے کا انتظار تو کیا ہوتا۔۔۔میرے بعد تم لوگ جو چاہے کرتی۔۔۔کم از کم مجھے خود پہ افسوس تو نہ ہوتا کہ میں تم لوگوں کو تمہارے باپ کے ظلم سے بچا نہ سکی۔۔۔
              مہرالنساء نے انتہائی دکھی لہجے میں رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
              " پلیززز ماما ایسا مت کہیں الّٰلہ آپکو ہماری عمر بھی لگا دے۔۔۔ہمیں زندگی کے ہر موڑ ہر قدم پہ آپکی اور آپکی صلاح کی ضرورت ہے آپکے بنا ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔
              آپکے ہونے نہ ہونے سے ایک ہمیں ہی تو فرق پڑتا ہے ماما۔۔۔
              عائلہ اور عینا نے اپنی والدہ کو بہت محبت سے اپنے بازوؤں میں لیتے زور سے ہگ کرتے کہا۔۔۔
              " ماما میں ڈر گئ تھی آپکی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اور بابا کی دھمکی کی وجہ سے۔۔۔ بابا نے کہا تھا کہ اگر میں نے آپکو یا کسی کو کچھ بتایا یا دلاور سے شادی سے انکار کیا تو وہ آپکو مار ڈالیں گے عینا ایمن کا بہت برا حال کریں گے۔۔۔میں بابا کی بات ماننے پہ مجبور ہو گئ تھی ماما۔۔۔
              میں نے سوچا تھا کہ دلاور سے نکاح کے بعد میں نہ صرف آپکو منا لوں گی بلکہ دلاور سے کہ کر آپکو عینا اور ایمن کو ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ رکھوں گی۔۔۔"
              عائلہ نے اپنے دلاور سے شادی کے فیصلے کی صفائی دیتے روہانسے لہجے میں کہا۔۔۔
              " تو مر جانے دیا ہوتا مجھے۔۔۔تم جو کرنے جا رہی اس سے بہتر تو میرا مرنا ہی تھا۔۔۔اب بھی سچ جان کر میرا مرنے کو ہی دل چاہ رہا ہے۔۔۔
              اور تمہارا باپ صرف تمہیں ڈرا رہا تھا کیونکہ تم ڈر رہی تھی۔۔۔ہم میں سے کسی کو نقصان پہنچا کر کیا وہ خود بچ جاتا۔۔۔"
              مہرالنساء نے غصے اور تلخی سے کہا۔۔۔
              " انسان ہمیشہ تب تک دوسروں کو ڈراتا ہے جب تک اسے اس سے بڑھ کر کوئی ڈرانے والا نہ ملے۔۔۔جب کوئی ایسا بندہ اس سے ٹکراتا ہے جو اس سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو تو اسکے سامنے وہ بھیگی بلی بن جاتا ہے۔۔۔صارم شاہ کا ساتھ تمہارے لیے ایک مضبوط اور طاقتور ساتھ ثابت ہوگا بیٹا وہ ایک مضبوط مرد ہے جو اپنے رشتوں کی اپنی عزت کی حفاظت کرنا اچھی طرح سے جانتا ہے۔۔۔۔
              تمہارے باپ کی طرح اپنی عزت کا سودا کرنے والا نہیں بلکہ اپنی عزت کے لیے جان دینے اور جان لینے والا مرد ہے۔۔۔ کہ اسکے تمہارے ساتھ ہونے سے نہ تو کوئی تمہیں کچھ کہ سکتا نہ تمہیں ڈرا سکتا۔۔۔بیٹا الّٰلہ کے سوا سب سے ڈرنا چھوڑ دو صرف اس بات سے ڈرا کرو کہ تم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے الّٰلہ ناراض ہو۔۔۔بہادر بنو۔۔۔خود کو حالات کے دھارے پہ چھوڑنے کی بجائے لڑنا سیکھو۔۔۔خود کو اتنا مضبوط بناؤ کہ دوسرے لوگ مدد اور سہارے کے لیے تمہاری طرف دیکھیں۔۔۔بزدل اور کمزور لوگوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ کوئی مقام و مرتبہ چاہے وہ کہیں بھی چلے جائیں۔۔۔کسی کو بھی اس بات کی اجازت مت دو بیٹا کہ تمہیں کھلونا سمجھ کر تمہارے ساتھ کھیلیں۔۔۔اب بتاؤ مجھے جو بھی ہوا۔۔۔
              مجھے سب جاننا ہے عائلہ میرے بیمار ہونے سے لے کر اب تک جو کچھ بھی میری لا علمی میں ہوا وہ سب۔۔۔ایک ایک لفظ۔۔۔"
              مہرالنساء دونوں کے گرد اپنے بازو پھیلاتے انکو لیے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے ایک گہرا سانس لے کر اب کے نرم خو لہجے میں بولیں۔۔۔تو عائلہ پہلے دن سے لے کر اب تک کی ایک ایک بات اپنی والدہ کو بتانے لگی عائلہ کچھ باتوں سے انجان ہونے کی وجہ سے چپ کر گئ تو عینا نے ان باتوں کو آگے بڑھایا۔۔۔اس دوران مہرالنساء افسوس سے کبھی اپنا سر ہلانے لگتیں اور کبھی اپنے دائیں ہاتھ پہ پیشانی رکھے اپنی انگلیوں سے مسلنے لگتیں۔۔۔انکے ماتھے پہ پسینے کے قطرے جھلملانے لگے آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔۔
              " ماما آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔آپکی طبیعت ٹھیک ہے ناں۔۔۔"؟
              اپنی بات ختم کرنے کے بعد عائلہ اور عینا نے پریشان ہو کر اپنی والدہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا اپنی والدہ کی اتنی گہری خاموشی انکو پریشان کر گئ تھی۔۔۔
              " ہممممم۔۔۔۔۔ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔خود پہ افسوس ہو رہا ہے کہ میری بیٹیاں اس قدر تکلیف سے گزرتی رہیں اور گھر میں موجود ہونے کے باوجود مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔"
              مہرالنساء نے اپنے اندر اٹھتے درد کو دباتے آہستہ سے کہا۔۔۔
              " تم لوگوں کی ماں اب اتنی بھی کمزور اور بیمار نہیں ہے بیٹا کہ تم لوگوں کے لیے کچھ کر نہ سکےتم لوگوں کو کسی محفوظ ہاتھ میں دینے سے پہلے نہیں مروں گی میں۔۔۔
              اگر صارم کی آپشن نہ بھی ہوتی تب بھی میں رشید احمد کو یہ ظلم کبھی نہ کرنے دیتی۔۔۔
              اپنی بیٹیوں کا ہاتھ کبھی ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ دینے دیتی جس کے نہ خاندان کا پتہ نہ حسب نسب کا۔۔۔جو تمہارے باپ کی طرح ایک شرابی اور جواری ہو۔۔۔
              خیر الّٰلہ کا شکر ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔۔اگر اس دلاور سے تمہارا نکاح ہوجاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتی۔۔۔
              مجھے اب یہ بتاؤ بیٹا کہ تمہیں صارم شاہ سے شادی پہ کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔"
              مہرالنساء نے ساری بات سکون سے سننے کے بعد ٹھوس لہجے میں کہا پھر عائلہ کا چہرہ محبت سے اپنے ہاتھ میں تھام کر پوچھا تو عائلہ کا چہرہ حیا کے مارے سرخ ہوا تھا۔۔۔وہ فوراً اپنا سر جھکا گئ۔۔۔
              " تو ٹھیک ہے بیٹا جب صارم بیٹے کی بھی یہی چاہ ہے تو اس سے پہلے کہ تمہارا باپ کچھ کرے ہمیں جلد از جلد صارم بیٹے سے تمہارا نکاح کرنا ہوگا۔۔۔اور آج ہی۔۔۔"
              مہرالنساء نے عائلہ کے شرم سے جھکے چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرا کر مضبوط لہجے میں اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔عائلہ کے دل سے اب سارے ڈر خوف نکل گئے تھے اسکی ماں سب کچھ جان گئ تھیں اور اب اس نے اپنی تقدیر کا فیصلہ اپنے باپ کی بجائے اپنی ماں کے ہاتھ میں تھما دیا تھا
              " کیااااا۔۔۔۔آج۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے ماما۔۔۔اتنی جلدی۔۔۔"
              عائلہ آج ہی اپنے نکاح کا سن کر گھبرا کر بولی اسکے دل کی دھڑکنیں ایکدم بے ترتیب ہوئی تھیں جبکہ عینا نے اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔۔۔اور اپنی والدہ کے کندھے پہ رکھا اپنا ہاتھ اٹھا کر مہرالنساء کی نظروں سے بچا کر عائلہ کے بازو پہ چٹکی کاٹی اور ساتھ ہنستے ہوئے وکٹری کا نشان بنایا۔۔۔
              " جی بیٹا آج ہی۔۔۔تمہارا باپ کل رات سے گھر نہیں آیا اور شائد ابھی ایک دو دن آئے بھی نہ ، ہمیں جو بھی کرنا ہے فوری طور پہ اسکی غیر موجودگی میں ہی کرنا ہے ایک بار تمہارا صارم شاہ سے نکاح ہو گیا تو پھر تمہارا باپ کیا وہ دلاور بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔۔۔سارے حالات سے ہائمہ آپا اور صارم بیٹا پہلے سے ہی باخوبی آگاہ ہیں میرا نہیں خیال کہ انکو کوئی اعتراض ہوگا۔۔۔تم مجھے فون دو میں ابھی صارم بیٹے سے بات کرتی ہوں ۔۔۔۔"
              مہرالنساء نے کہا
              " ماما اس سب کے بعد بابا چپ نہیں بیٹھیں گے۔۔۔ آپ ، عینا اور ایمن کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔۔۔"
              عائلہ نے اپنے خوف کا اظہار کیا۔۔۔
              " فکر مت کرو بیٹا کچھ نہیں ہوگا ہمیں۔۔۔اگر تمہارے باپ کو کوئی روک سکتا ہے تو وہ شاہ سائیں کا گھرانہ ہے۔۔۔مگر اسکے لیے انکا ہم سے ایک مضبوط تعلق میں جڑنا بہت ضروری ہے تاکہ کسی کو بھی انگلی اٹھانے اور فضول گوئی کا موقع نہ ملے۔۔۔اس لیے اپنے دل سے سب خوف نکال دو۔۔۔"
              مہرالنساء نے عائلہ کو تسلی دیتے کہا۔۔۔
              " دیکھا۔۔۔یہی بات ماما میں آپی کو سمجھاتی تھی مگر یہ سمجھتی ہی نہیں تھیں۔۔۔اگر پہلے میری بات مان لیتیں تو اتنی تکلیف سے کبھی نہ گزرتیں۔۔۔اور نہ مجھے بابا کے تھپڑ کھانے پڑتے۔۔۔قسم سے ابھی تک جبڑہ دکھ رہا ہے۔۔۔
              عینا نے عائلہ کی طرف خفگی سے دیکھ کر اپنے جبڑے پہ ہاتھ رکھ کر درد کی ایکٹنگ کرتے اپنی ماں سے کہا۔۔۔
              " اوہ ہو۔۔۔میرا بہادر بچہ۔۔۔کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے بیٹا کہ دوسروں کی بھلائی کرنے کے چکر میں انسان کا دل زخمی ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تھپڑ بھی کھانے پڑتے ہیں اور جو حق کی لڑائی لڑتے ہیں انکو اکثر یہ " انعام " ملتا ہے۔۔۔
              اب یہ اور بات کہ تمہاری قسمت میں یہ انعام کچھ زیادہ ہی آگیا۔۔۔"
              مہرالنساء نے مسکراتے ہوئے عینا کو اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا پھر اسکی کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہا۔۔۔
              " ماما اٹس ناٹ فئیر۔۔۔کوئی مانے نہ مانے میں اور اجالا ہی تو آپکی بہادر اور عقلمند بیٹیاں ہیں۔۔۔"
              عینا نے منہ بناتے کہا۔۔۔پھر اپنے فرضی کالر جھاڑتے اس نے روانی میں کہا تو اسکے منہ سے اجالا کے ذکر پہ عائلہ نے گھبرا کر پہلے عینا اور پھر فوراً اپنی والدہ کی طرف دیکھا جن کے چہرے پہ ایک تاریک سایہ لہرایا تھا مگر فوراً خود کو سنبھال گئ تھیں۔۔۔
              عائلہ نے ایک افسوس بھری نگاہ عینا پہ ڈالی تو وہ شرمندہ ہو کے رہ گئ۔۔۔
              " بیٹا ٹائم ضائع مت کرو مجھے صارم بیٹے کا نمبر ملا کر دو میں پہلے اس سے بات کرتی ہوں پھر ہائمہ آپا سے کروں گی۔۔۔"
              مہرالنساء نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اجالا کے ذکر پہ مہرالنساء کے پورے وجود کو یاسیت نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا مگر پھر فوراً خود کو سنبھال گئ تھیں کہ اس وقت ان کو اپنی مری ہوئی بیٹی کو یاد کرنے سے زیادہ اپنی زندہ بیٹیوں کو بچانے کی فکر دامن گیر تھا۔۔۔


              " شرجیل بیٹا اور لو ناں۔۔۔اتنی جلدی بس کردی۔۔۔یہ چائینز ویجیٹل رائس تو تم نے چکھے ہی نہیں ہیں۔۔۔
              بیٹا یہ چکھ کے دیکھو۔۔۔یہ چکن چیز سٹک اسپیشلی تمہارے لیے بنوائے ہیں میں نے۔۔۔"
              اس وقت دوپہر کا ٹائم تھا اور سب لوگ ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔
              فجر آج صبح ہی شرجیل کے ساتھ میکے آئی تھی ہائمہ خاتون نے فجر اور شرجیل کی پسند کے انواع و اقسام کے کھانے بنوا چھوڑے تھے۔۔۔اور اصرار کرکر کے سب تھوڑا تھوڑا کھانا تقریباً کھلا دیا تھا۔۔۔ہائمہ خاتون کی تمام تر توجہ شرجیل کی طرف تھی گاہے بگاہے وہ فجر اور باقی سب سے بھی پوچھ رہی تھیں مگر انکے خیال میں شرجیل گھر کا اکلوتا داماد ہونے کی وجہ سے اور شادی کے بعد پہلی بار داماد کی حیثیت سے آیا تھا تو اس لیے وہ پروٹوکول کا زیادہ حق دار تھا۔۔۔جبکہ ہائمہ خاتون جو ڈش بھی شرجیل کو سرو کرتیں وہ آگے فجر کے پاس رکھ دیتا کہ یہ کھاؤ۔۔۔ فجر یہ سب دیکھ کر کھانا کھاتے عجیب عجیب سے منہ بنا رہی تھی۔۔۔شاہ سائیں نے اسکی طرف دیکھا تو اسکی کیفیت سمجھتے ہوئے اپنی چئیر تھوڑی سی فجر کی چئیر کے پاس کھسکا کر مسکراتے ہوئے کھانے کے دوران اس سے ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھے۔۔۔
              " خالہ بس اب۔۔۔سچ میں آپ نے تھوڑا تھوڑا کر کے بھی اتنا زیادہ کھلا دیا ہے کہ میرے معدے سے سفر کرتا کرتا اوپر حلق تک آ گیا ہے۔۔۔بہت اوور لوڈ ہو گیا ہوں۔۔۔فجر کو کھلائیں بلکل کسی چڑیا جتنی خوراک ہے انکی۔۔۔
              شرجیل نے پیٹ پہ ہاتھ رکھے دہائی دینے والے انداز میں بیچارگی سے کہا۔۔۔پھر فجر کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
              " لو یہ کیا بات ہوئی اتنا چھوٹا پیٹ ہے تمہارا جو اتنی جلدی بھر گیا ہے۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے حیران ہو کر کہا داماد کی محبت میں وہ سچ میں نہیں دیکھ پائی تھیں کہ تھوڑا تھوڑا کر کے بھی انھوں نے اچھا خاصہ کھانا شرجیل کو کھلا دیا تھا۔۔۔
              " رہنے دیں ہائم۔۔۔شرجیل بیٹے کا اپنا گھر ہے جب طلب ہو گی تو بعد میں پھر کھا لے گا۔۔۔"
              شاہ سائیں نے مسکرا کر شرجیل کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
              " فجر بیٹا آپ کو کچھ اور چاہیے کیا۔۔۔"؟
              ہائمہ خاتون نے اب اپنا دھیان فجر کی طرف کرتے اس سے پوچھا۔۔۔
              " نہیں ماما کچھ نہیں چاہیے۔۔۔اگر چاہیے بھی ہوگا تو بابا ہیں میرے پاس ، میں ان سے کہ دوں گی۔۔۔"
              فجر نے واضح طور پہ خود کو اگنور کیے جانے پہ خفگی کا اظہار کرتے کہا۔۔۔ہائمہ خاتون نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا بات کی ہے مگر پھر سمجھ آنے پہ مسکرا کر رہ گئیں۔۔۔
              " احتشام بھائی کھانے کے بعد ذرا زمینوں کا چکر نہ لگا کر آئیں۔۔۔تھوڑا کھانا ہضم ہو جائے گا اسی بہانے۔۔۔"
              شرجیل نے ایک گہری نظر صارم شاہ پہ ڈال کر کہا جو چپ چاپ کھانے میں یوں مصروف تھا جیسے وہاں اکیلا بیٹھا ہو۔۔۔
              " اوکے۔۔۔آئیڈیا برا نہیں ہے۔۔۔میں ہاتھ دھو کر آیا پھر نکلتے ہیں۔۔۔"
              احتشام شاہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور ساتھ میں صارم شاہ سے بھی کہا کہ وہ بھی جلدی کھانا فنش کرے پھر ساتھ میں چلیں گے۔۔۔

              " کیا بات ہے۔۔۔میری بیٹی ناراض ہے مجھ سے۔۔۔"؟
              ہائمہ خاتون نے فجر کے روم میں آ کر اسکے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اسکے سر پہ بوسہ دیتےکہا۔۔۔
              " ماما آپکو پتہ میں نے آپکو بابا کو اور بھائی کو کتنا مس کیا۔۔۔میں پورا راستہ یہی سوچتی آئی کہ دو دن بعد جب آپ سے ملوں گی تو آپ مجھے دیکھ کر کتنا خوش ہوں گی۔۔۔مگر آپکو مجھ سے زیادہ شرجیل کی پرواہ رہی۔۔۔جب ہم آئے اس وقت بھی انکو اتنا زیادہ پیار کیا اور اب جب کھانا کھا رہے تھے تو تب بھی بس آپکا سارا دھیان انکی طرف تھا۔۔۔"مجھے تو آپ دو دن میں ہی بھول گئ ہیں۔۔۔"
              فجر نے شکایتی لہجے میں کہا۔۔۔
              " اوہ ہو۔۔۔لگتا ہے شرجیل میاں نے میری بیٹی کو وہ پیار نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا تبھی تو شوہر سے بھی جیلسی ہو رہی ہے۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے شرارت سے فجر کا گال کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔
              " ماما آپ بھی ناں۔۔۔۔"
              فجر اپنی والدہ کی بات پہ سرخ ہوتی دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر ان میں منہ چھپاتے لجا کر بولی۔۔۔
              " فجر بیٹا مائیں بیٹیوں کو کبھی نہیں بھولتیں۔۔۔شادی کے بعد بیٹی کی جدائی ہر ماں کے لیے بہت کڑا امتحان ہوتی ہے۔۔۔مگر اس امتحان سے ہر ماں باپ کو دل پہ پتھر رکھ کر گزرنا پڑتا ہے بیٹے کی نسبت ماں باپ کو بیٹی کی فکر زیادہ رہتی ہے اور شادی کے بعد تو یہ فکر اور بڑھ جاتی ہے۔۔۔ہر وقت دماغ میں بس یہی چلتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں میری بیٹی سسرال میں خوش ہے بھی یا نہیں ، داماد جی اور سسرال والے میری بیٹی سے کیسا سلوک کرتے ہوں گے۔۔۔کہیں میری بیٹی مجھ سے کچھ چھپا تو نہیں رہی۔۔۔طرح طرح کی سوچیں ہر وقت دامن گیر رہنے لگتی ہیں۔۔۔
              داماد کو بیٹی سے زیادہ اہمیت دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا بیٹا کہ بیٹی کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی یا وہ بیٹی سے زیادہ عزیز ہے داماد کو اہمیت دینے کے پیچھے بھی صرف بیٹی کی محبت ہی ہوتی ہے۔۔۔اور داماد بھی صرف بیٹی کی وجہ سے ہی عزیز ہوتا ہے اور اس وقت تو وہ اور زیادہ پیارا لگتا ہے جب بیٹی اسکے ساتھ بہت خوش ہو وہ بیٹی کو خوش رکھے۔۔۔اور اگر ایسا نہ ہو تو اسی داماد کی شکل دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔۔۔میری یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا بیٹا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بیٹی اپنے گھر میں ہمیشہ خوش رہے اور میکے آتی جاتی رہے تو داماد کو بیٹی سے زیادہ اہمیت دو۔۔۔
              اور اگر ماں چاہتی ہے کہ گھر میں بہو آنے کے بعد بھی اسکے فیصلوں کو اس کی باتوں کو اہمیت دی جائے اور بیٹا بھی ہمیشہ اس کا تابعدار رہے تو ہمیشہ بہو کی سائیڈ لو بیٹے سے زیادہ بہو کو اہمیت دو۔۔۔
              اور اگر بیوی چاہتی ہو کہ اس کا شوہر ہمیشہ اس کو اہمیت دے تو اسے چاہیے کہ شوہر کی ماں کو سب سے زیادہ اہمیت دے۔۔۔شوہر کی ماں ہاتھ میں تو سمجھو آپکا شوہر آپکی مٹھی میں۔۔۔
              اور میں بھی یہی چاہتی ہوں بیٹا کہ تم اب اپنے سسرال کو سب سے زیادہ اہمیت دو خاص کر اپنی خالہ کے ادب و احترام میں کوئی کسر مت چھوڑنا۔۔۔بعض دفعہ لگتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں اور سامنے والا غلط اس وقت دل بغاوت پہ اکساتا ہے سامنے والے کی بات نہ ماننے اور اپنی بات منوانے پہ اکساتا ہے جب بھی میاں بیوی کے بیچ میں ایسا لمحہ آتا ہے اس وقت خود کو سنبھال کر اپنے جزبات پہ قابو رکھ کر اپنی خوشی سے زیادہ سامنے والے کی خوشی کو اہمیت دینے سے آپس کا رشتہ بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔۔۔میکے میں آ کر اپنے شوہر کی عزت کا خیال رکھنا بیوی کی ذمہ داری اس کا فرض ہے اور سسرال میں اپنی بیوی کی عزت کا خیال رکھنا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے اپنی بیوی کی عزت کروانا شوہر کی ذمہ داری اس کا فرض ہے۔۔۔
              جو اہمیت میں نے شرجیل کو دی اصل میں وہ اہمیت آپکو اپنے شوہر کو دینی چاہیے تھی۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے فجر کے بال سہلاتے سہلاتے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
              " سوری ماما میں آج کے بعد آپکو ، شرجیل کو اور خالہ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔۔۔یہ وعدہ ہے میرا آپ سے۔۔۔۔"
              فجر نے بات کو سمجھ کر شرمندگی سے کہا۔۔۔
              " اچھی بات ہے۔۔۔۔بیٹا آپ خوش ہو ناں۔۔۔میرا مطلب ہے کہ شرجیل کا رویہ آپ کے ساتھ ٹھیک تھا ناں۔۔۔
              مجھے امید ہے کہ شرجیل کے بارے میں ہم نے جیسا سوچا تھا آپ نے ویسا ہی پایا ہوگا۔۔۔ظاہری طور پہ ایک داماد میں جو خوبیاں ہونی چاہیے وہ سب ہمیں شرجیل بیٹے میں نظر آئیں مگر ایک مرد کو اسکی بیوی سے بڑھ کر کوئی نہیں پہچان سکتا۔۔۔ساری دنیا کے سامنے تو انسان خود پہ خول چڑھا سکتا ہے مگر اپنے بیڈروم روم میں تنہائی میں اپنی بیوی کے سامنے مرد اصل شکل میں ہی سامنے آتا ہے۔۔۔ساری دنیا چاہے مرد کی کتنی ہی تعریف کیوں نہ کرتی ہو مگر مرد کی اصل پہچان اپنے بیوی بچوں سے کیے گئے سلوک سے ہوتی ہے کہ وہ انکے ساتھ کیسا رویہ رکھتا ہے بیوی کو کتنی عزت دیتا ہے اور دوسروں سے کتنی کرواتا ہے۔۔۔الّٰلہ نے بطور شوہر مرد پہ جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں انھیں کس حد تک پورا کرتا ہے۔۔۔
              اسی لیے آپ ص کا بھی فرمان پاک ہے کہ ۔۔۔
              تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہے۔۔۔
              ۔۔۔شرجیل میں ہزار خوبیاں ہونے کے باوجود شہریار کی وجہ سے دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کہیں اسکی طرح ہم شرجیل کے معاملے میں بھی دھوکا نہ کھا جائیں مگر شرجیل کی ظاہری عادات و اطوار کو دیکھ کر وہ ہر لحاظ سے ہمیں آپکے لیے بہتر لگا۔۔۔بس اسی وجہ سے اپنی تسلی کے لیے بیٹا پوچھ رہی ہوں کہ ہم سے کہیں کوئی غلط فیصلہ تو نہیں ہوا۔۔۔"؟
              ہائمہ خاتون نے ذرا جھجک کر کہا ایسی باتیں اکثر مائیں اپنے اور بیٹی کے بیچ رشتے کا لحاظ کرتے بیٹیوں سے پوچھنے سے گریز کرتی ہیں اور بیٹیاں بھی کھل کر بات نہیں کر پاتیں جبکہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ فرینکلی اس موضوع پہ کھل کر بات کرتی ہیں۔۔۔مگر ہائمہ خاتون اور فجر کے درمیان ماں بیٹی کا رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں ایک مضبوط باؤنڈری بھی تھی لحاظ اور ادب کے دائرے میں رہتے ہر موضوع پہ ایک دوسرے سے وہ کھل کر بات کرتی تھیں مگر آج ہائمہ خاتون کو فجر سے بات کرتے نظر چرا گئ تھیں۔۔۔
              " ماما بظاہر تو وہ بہت اچھے ہیں اب یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہی پتہ چلے گا کہ وہ کتنے اچھے ہیں ایک دن میں کسی کا پتہ کہاں چلتا ہے۔۔۔"
              فجر نے سرسری سا جواب دیا اپنی ماں کی بات کا مطلب وہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی تھی۔۔۔
              " شوہر کو جاننے کے لیے بیٹا ایک رات یا ایک دن ہی کافی ہوتا ہے۔۔۔اور آپ تو ماشآالّٰلہ سے دو دن گزار کر آئی ہو۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے مسکراتے ہوئے اب کے ذرا کھل کر کہا۔۔۔
              " ماما وہ بہت اچھے ہیں ان دو دنوں میں انکی بہت سی خوبیاں مجھ پہ آشکار ہوئیں جیسے کہ وہ بہت کئیرنگ ہیں۔۔۔انڈرسٹینڈنگ ہیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر کوآپریٹ کرنے والے ہیں۔۔۔میرے میچنگ جوتے ، ڈریس سے لے کر میرے سر کی پن تک کی فکر کرتے انکو میں نے پایا۔۔۔میں نے کھانا کھایا ، نہیں کھایا، کتنا کھایا بلکل کسی بچے کی طرح وہ میری فکر کرتے رہے۔۔۔سب لوگ انکو زن مرید زن مرید کہ کر چھیڑتے رہے مگر وہ میری ویسے ہی پرواہ کرتے رہے۔۔۔انکی ایک رشتے دار نے ہنس کر کہا کہ شرجیل بہو کو اتنا سر پہ نہ چڑھاؤ بعد میں تمہیں ہی پریشانی ہوگی۔۔۔تو ماما آپکو پتہ شرجیل نے کیا کہا۔۔۔انھوں نے کہا کہ بیوی کے لاڈ اٹھانا اسکی فکر کرنا سنت رسول ہے۔۔۔آپ ص بھی اپنی بیویوں کے لاڈ اٹھاتے تھے نوالے توڑ توڑ کر انکو کھلاتے تھے۔۔۔کیا میں نبی ص کے رستے پہ چل کر غلط کر رہا۔۔۔شرجیل کی یہ بات سن کر وہ خاتون پھر چپکے سے وہاں سے کھسک گئیں۔۔۔"
              اپنی والدہ کی بات سمجھتے ہوئے ایک شرمگیں مسکراہٹ نے فجر کے چہرے کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔اس کے دھیان کے تانے بانے فوراً اپنے سسرال میں رکھے گئے اپنے پہلے قدم پر گئے جب اسکو نروس ہوتا دیکھ کر شرجیل نے فوراً اس کا ہاتھ تھام کر اپنے مضبوط ساتھ کا احساس دلایا تھا۔۔۔
              اس کی خودسپردگی کے سحر انگیز لمحات میں کھو کر اپنے حق کو استعمال کرتے وحشت کے گھوڑے پہ سوار ہو کر شرجیل نے اسکے جسم و روح کو زخمی نہیں کیا تھا جیسا کہ وہ اپنی شادی شدہ سہیلیوں سے سنتی آئی تھی جسکی وجہ سے اسکے اندر ایک خوف بیٹھ گیا تھا۔۔۔ بلکہ شرجیل نے تو اسے ایسے چھوا تھا جیسے وہ کوئی پھول ہو کہ ذرا سا بھی سخت ہاتھ لگا تو وہ مرجھا جائے گی۔۔۔ اسکے وجود کا مالک و مختار ہونے کے باوجود اسے سلطنت عشق کی بلند و بالا اونچائیوں پہ بٹھا کر خود ایک فقیر کی طرح اس سلطنت میں داخل ہوا تھا۔۔۔اسکو چھوتے وقت شرجیل کے ہر عمل میں محبت تھی ، تڑپ تھی ، احترام تھا ، مگر شدت اور وحشت نہیں تھی۔۔۔
              کھانے کی میز پر کھانا کھاتے خود کم کھا رہا تھا اور اسے زیادہ کھلا رہا تھا سب کزنز اس کا خوب ریکارڈ لگا رہے تھے کوئی زن مرید کہ رہا تھا کوئی کہ رہا تھا کہ یہ تو گیا کام سے۔۔۔مگر وہ کسی کو بھی جواب دئیے بنا مسکرا مسکرا کر فجر کو لقمے کھلاتا رہا۔۔۔
              گاؤں آنے کی بات ہوئی تو اپنی والدہ سے یہ نہیں کہا کہ فجر گاؤں جانا چاہ رہی وہ اداس ہو رہی۔۔۔بلکہ یہ کہا کہ ماما خالہ کا رات کو فون آیا تھا تو وہ فجر کے لیے اداس ہو رہی ہیں انھوں نے کہا تو نہیں مگر میں سوچ رہا کہ ملوا لاؤں۔۔۔اور فجر سوچتی رہ گئ کہ ماما نے فون کب کیا۔۔۔
              یہ دو دن اس نے جو شرجیل کی سنگت میں گزارے تھے ان دو دنوں میں شرجیل نے اس کو اتنا پیار اور احترام دیا تھا کہ خود کو وہ بہت خاص اور معتبر سمجھنے لگی تھی۔۔۔تبھی اپنی والدہ کا ہلکا سا اگنور کرنا بھی اس سے برداشت نہیں ہوا تھا۔۔۔
              اپنی والدہ کے پوچھنے پر اس کو کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔شرجیل کے بارے میں بات کرتے اس کے ہر انداز سے سکون ، خوشی ، محبت جھلک رہی تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں محبت کے جگنو جھلملا رہے تھے۔۔۔اپنی بیٹی کی آنکھوں سے باتوں سے ہر انداز سے اپنے شوہر کے لیے چھلکتا پیار دیکھ کر ہائمہ خاتون کے اندر تک سکون اتر گیا تھا۔۔۔
              " ہممممم۔۔۔۔فجر۔۔۔۔بیٹا تم تو گئ کام سے۔۔۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے انتہائی سنجیدگی سے ہونٹ بھینچ کر سر ہلاتے کہا۔۔۔
              " ماما۔۔۔۔۔"
              فجر اپنی والدہ کی بات پر حیرانی سے انکی طرف دیکھنے لگی پھر انکی آنکھوں میں ناچتی شرارت کو دیکھ کر انکی بات کا مطلب سمجھتے لاڈ سے کہتے مسکراتے ہوئے ہائمہ خاتون کے ساتھ لپٹ گئ۔۔۔
              " ہمیشہ خوش رہو۔۔۔شاد و آباد رہو بیٹا۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے فجر کے سر پہ محبت سے بوسہ دیتے کہا۔۔۔
              " بیٹا مجھے تم سے ایک مشورہ بھی کرنا تھا۔۔۔میں اور تمہارے بابا تو فیصلہ کر چکے مگر تم سے اور تمہارے بھائیوں سے پوچھنا ابھی باقی ہے۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے اب کے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
              " ماما سب خیر تو ہے ناں۔۔۔کوئی مسلہ تو نہیں۔۔۔"؟
              فجر نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
              " بیٹا ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔پریشان مت ہو۔۔۔اصل میں میرا اور تمہارے بابا کا خیال ہے کہ ہمیں احتشام بیٹے کی شادی نہیں تو کم از کم منگنی ہی کردینی چاہیے۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
              " ماما مجھے بھی آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔احتشام بھائی کی شادی کے ساتھ صارم بھائی کا بھی کچھ سوچیں۔۔۔"
              فجر نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
              " ہمممم۔۔۔میرا بھی یہی خیال ہے کہ دونوں کی ساتھ میں کردی جائے مگر صارم شائد ابھی راضی نہ ہو۔۔۔تمہاری مہندی والی رات جو ہوا وہ تم جانتی ہو اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے اسی بات نے پریشان کیا ہے۔۔۔یہ لوگ زمینوں سے واپس آتے ہیں تو احتشام اور شرجیل سے کہتی ہوں کہ باتوں باتوں میں اس کے کو کریدیں کہ وہ کیا چاہتا ہے کیا سوچ ہے اسکی۔۔۔"
              ہائمہ خاتون نے فکرمندی سے کہا۔۔۔


              " آج میں بہت خوش ہوں۔۔۔الّٰلہ نے میری دعا سن لی۔۔۔الّٰلہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے میری بیٹی کی قسمت میں اتنے اچھے لوگ لکھے کہ پورا شہر انکی تعریف کرتا ہے۔۔۔"
              اکرام صاحب نے مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اندر آتے ہوئے کہا۔۔۔
              " بات تو آپکی ٹھیک ہے بابا جان کافی اچھی شہرت ہے علاقے میں عثمان صاحب کی۔۔۔"
              قاسم نے ساتھ ساتھ چلتے کہا۔۔۔سب لوگ بے حد خوشی کا اظہار کرتے آکر لاؤنج میں بیٹھ گئے اور اپنے اپنے گفٹس دیکھنے لگے۔۔۔
              " ماشآالّٰلہ۔۔۔۔بہت خوبصورت ہے یہ۔۔۔الّٰلہ میری بیٹی کے نصیب میں کرے۔۔۔ہمیشہ خوش رہو۔۔۔"
              فرحین بیگم نے ایمان کو شگن کے طور پہ اس کے سسرال والوں کی طرف سے دیا جانے والا گولڈ کا سیٹ پکڑ کر دیکھتے ہوئے اس کی تعریف کرنے کے ساتھ ایمان کو گلے لگا کر دعائیں دیتے کہا۔۔۔
              ایمان کے سسر عثمان صاحب ملک کے ایک ممتاز بزنس مین تھے۔۔۔اپنے اکلوتے بیٹے شہرام کے لیے وہ پہلے بھی اکرام صاحب کی طرف اپنی بیگم اور اپنی والدہ کے ساتھ آئے تھے مگر ادھر ادھر کی باتوں کے سوا کوئی اشارہ دئیے بنا وہ چلے گئے تھے۔۔۔فرحین بیگم اور اکرام صاحب انکی لمبی خاموشی کی بنا پر مایوسی کا شکار ہو چکے تھے اور ایمان کے لیے آئے ہوئے دوسرے رشتوں پر غور کر رہے تھے مگر ایمان نے ان سب کو ریجیکٹ کر دیا تھا ایمان کے لیے اب تک جتنے بھی رشتے آئے عثمان صاحب کی واحد فیملی تھی جن سے ایمان ملنے پہ راضی ہوئی تھی اور اس کی وجہ عثمان صاحب کا پیسہ نہیں بلکہ شہرام تھا۔۔۔شہرام اور ایمان نے ایک ہی یونی سے اپنی سٹڈی کمپلیٹ کی تھی اور اس دوران اس نے شہرام کو ہر لحاظ سے ایک بہتر انسان پایا تھا۔۔۔ایک رچ فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود شہرام میں بگڑے رئیس زادوں والی عادات نام کو بھی نہیں تھیں۔۔۔ایمان کو بھی اپنے لائف پارٹنر کے طور پہ ایسا انسان پسند تھا جس میں تکبر کی بجائے عاجزی ہو جو کردار کا ایک مضبوط انسان ہو۔۔۔
              اسی لیے جب اس کے لیے شہرام کا رشتہ آیا تو وہ فوراً ملنے کو رضا مند ہو گئ۔۔۔
              مگر ان لوگوں کی طرف سے ایک طویل خاموشی کے بعد وہ خود کو ذہنی طور پہ کسی اور رشتے کے لیے تیار نہ کرسکی جن ایک دو پہ اس نے رضامندی کا اظہار کیا وہ فرحین بیگم کے لیے ناقابل قبول تھے۔۔۔

              " ویسے ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی طویل خاموشی کے بعد پھر سے عثمان صاحب کو کیسے خیال آ گیا۔۔۔اور اتنی دیر تک چپ رہنے کی وجہ۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔"؟
              فرحین بیگم نے پرسوچ لہجے میں کہا۔۔۔
              " کوئی برتن بھی خریدنا ہو تو انسان ٹھونک بجا کر پہلے اسکی کوالٹی چیک کرتا ہے یہاں تو پھر انکے اکلوتے بیٹے کا معاملہ تھا۔۔۔ہو سکتا کہ ہمارے گھر سے متعلق انکو کوئی ایسی بات پتہ چلی ہو جو انکے مزاج کے خلاف گئ ہو۔۔۔"
              اکرام صاحب نے ایمان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے قاسم کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے کہا۔۔۔
              " یہ کیا بات ہوئی۔۔۔ماشآالّٰلہ سے لاکھوں میں ایک ہیں ہمارے بچے ، اور ہم بھی اسٹیٹس میں انکے برابر نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں ہیں۔۔۔اگر انھوں نے اتنے قیمتی تحائف دئیے ہیں تو انگیجمنٹ اور شادی پہ ہم بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔۔۔اور مزاج کے خلاف جانے والی کیا بات ہوئی۔۔۔آپکو تو عادت ہے ہر وقت اپنے بچوں میں خامیاں تلاش کرنے کی۔۔۔مسجد سے جوتا بھی چوری ہو جائے تو آپکو لگتا کہ اس میں آپکے بچوں کا ہاتھ ہے۔۔۔
              کسی کی بیٹی کو طلاق ہو جائے تو آپکو لگتا کہ آپکی بچیوں نے پٹی پڑھائی ہوگی۔۔۔حد ہے اکرام صاحب۔۔۔آپ جیسا باپ میں نے کہیں نہیں دیکھا جسکے نزدیک ساری دنیا پارسا اور اپنے بچے مجرم۔۔۔"
              فرحین بیگم اکرام صاحب کے آنکھوں کے اشارے کو سمجھتے جل بھن کر بولیں۔۔۔جبکہ قاسم اپنی جگہ پہ بیٹھا ہونٹ بھینچے پہلو بدل کر رہ گیا۔۔۔
              " اوہو۔۔۔۔ماما بابا آپ پھر شروع ہو گئے۔۔۔۔کم از کم آج کے دن تو مت لڑیں۔۔۔"
              اکرام صاحب نے فرحین بیگم کی بات کا جواب دینے کو منہ کھولا ہی تھا کہ اسی وقت ایمان نے ان کا ہاتھ پکڑ کر خفگی سے کہا۔۔۔
              " اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔آج کوئی کچھ نہیں بولے گا بس اچھی اچھی باتیں ہوں گی۔۔۔بکاز آج کا دن میری بیٹی کا بہت اسپیشل دن ہے۔۔۔"
              اکرام صاحب نے بات ختم کرتے مسکرا کر بلند آواز میں کہا۔۔۔
              " ایمان سچ میں تمہارے تو وارے نیارے ہو گئے۔۔۔بہت دیالو ہیں تمہارے سسرال والے۔۔۔صرف شگن پہ وہ لوگ اتنے قیمتی تحائف دے کر گئے ہیں تو باقاعدہ منگنی اور شادی پہ تو دھماکہ کریں گے۔۔۔"
              زویا سے چھوٹی عدن نے دئیے گئے سبھی گفٹس کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے ستائشی لہجے میں کہا۔۔۔
              " ہمممم۔۔۔۔۔سچ میں بہت لکی ہے میری بیٹی۔۔۔"
              فرحین بیگم نے فخر سے کہا۔۔۔
              " ماما انسان مہنگے گفٹس ملنے ، یا لگزری لائف ہونے سے لکی نہیں ہوتا۔۔۔اگر ایسا ہوتا تو آپی زویا اور آپی عدن بھی لکی ہوتیں اور اپنے گھر میں عیش کر رہی ہوتیں۔۔۔وہ کونسا کسی غریب گھر میں بیاہی گئ تھیں۔۔۔
              زندگی کا ساتھی احساس کرنے والے ، خیال رکھنے والا ، اور خاص کر عزت دینے والا ہو تو جھونپڑی میں رہ کر بھی عورت ملکہ ہوتی ہے۔۔۔"
              ماشآالّٰلہ۔۔۔جگ جگ جیو ایمان بیٹا۔۔۔شائد آپکی اسی اچھی اور نیک سوچ کی وجہ سے الّٰلہ نے شہرام میاں آپکو کسی انعام کی صورت عطا کیے ہیں۔۔۔
              شہرام میاں کی ساری فیملی بہت اچھی ہے۔۔۔مہدیہ جب ہاسپٹل میں تھی تو شہرام میاں اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ وہاں اپنے کسی عزیز کی عیادت کو آئے تھے۔۔۔وہیں ان سے ملاقات ہوئی تھی سب کے ساتھ ایمان بیٹی کے بارے میں بطور خاص پوچھ رہے تھے میں نے ایمانداری سے جو جانتی تھی سب بتا دیا۔۔۔"
              رضوانہ بوا گھر جانے کی اجازت لینے آئیں تو ایمان کی بات سن کر محبت سے بولیں۔۔۔اکرام صاحب نے جتاتی نظروں سے اپنی بیگم کی طرف دیکھا وہ لوگ یقیناً ایمان کی اپنے گھر کے ملازماؤں کے لیے اسکی فکر دیکھ کر متاثر ہوئے تھے۔۔۔اور یقیناً کوئی ایسی بات تھی جس کی وجہ سے ان کا ارادہ بدل گیا مگر بعد میں اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرتے دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔
              " بوا آپ کی بات کا مطلب کیا ہے۔۔۔ہم لوگوں کی سوچ اچھی نہیں اس لیے ہمارے گھر نہیں بسے یا ہمیں اچھے شوہر اور سسرال نہیں ملا۔۔۔"
              رضوانہ بوا کی بات سن کر زویا تڑخ کر بولی۔۔۔
              " نن۔۔۔نئیں بیٹا میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔آپ سب بہت اچھے ہو۔۔۔ایمان بیٹی کی بات دل کو لگی تو بس ایسے ہی کہ دیا۔۔۔"
              رضوانہ بوا گھبرا کر بولیں۔۔۔
              " زویا بیٹا۔۔۔۔اپنے لہجے پہ غور کریں گی تو اپنے سوال کا جواب آپ کو خودی مل جائے گا۔۔۔اور بات کو غلط رنگ مت دیا کریں۔۔۔
              " سیٹھ صاحب اب ہمیں اجازت دیں کافی دیر ہو گئ ہے۔۔۔مہدیہ کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"
              رضوانہ بوا نے فوراً اندر دخل اندازی کرتے کہا انکو مناسب نہیں لگ رہا تھا کہ انکی کہی بات کی وجہ سے بحث طول پکڑے یا اکرام صاحب انکے سامنے مزید زویا کو کچھ سخت کہیں۔۔۔مہدیہ کی دل موہ لینے والی صورت کی وجہ سے فرحین بیگم نے سختی سے منع کیا تھا کہ مہمانوں کے سامنے مہدیہ نہیں آئے گی کچن میں سارا وقت گزارنے کی وجہ سے وہ بہت نڈھال ہو رہی تھی۔۔۔
              " بوا کیا ہوا ہے مہدیہ کو۔۔۔مجھے بھی دھیان نہیں رہا صبح سے آپکے ساتھ ایسی حالت میں کام کروا رہی ہے۔۔۔آپکو اسے ساتھ نہیں لانا چاہیے تھا لے آئیں تھیں تو اس سے کام کروانے کی کیا تک تھی۔۔۔ہے کدھر یہ میں ابھی دیکھتی ہوں اسے جا کر۔۔۔"
              مہدیہ کی طبیعت کی خرابی کا سن کر ایمان پریشانی سے بولی۔۔۔اور اٹھ کر کچن کی طرف جانے لگی تو رضوانہ بوا نے اسے تسلی دیتے کہا کہ ٹھیک ہے بس تھکاوٹ ہو گئ ہے ریسٹ کرے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔
              " بوا جی مہدیہ کے ماں باپ کا کیا نام تھا۔۔۔"
              بیٹھے بیٹھے اچانک قاسم نے پوچھا تو سب حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے کہ اس وقت اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔۔۔۔
              " وہ۔۔۔وہ۔۔۔ان کا نام۔۔۔۔"؟
              رضوانہ بوا اس بات کے لیے ہرگز تیار نہیں تھیں اس لیے اچانک پوچھے جانے پہ بوکھلا گئیں۔۔۔
              " حیرت ہے بوا جی آپکو اپنی بہن کے نام کے لیے اتنا سوچنا پڑ رہا ہے۔۔۔"
              قاسم نے پھر اٹیک کیا۔۔۔
              " برخودار کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو مہدیہ کے شجرۂ نسب جاننے کی اتنی کیوں ہو رہی ہے۔۔۔"
              اکرام صاحب نے قاسم کی طرف دیکھتے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔قاسم اپنے باپ کے انداز و لہجے پہ چپ کر کے رہ گیا۔۔۔مگر رضوانہ بوا کی گھبراہٹ پہ اس کا شک یقین میں بدل گیا۔۔۔جبکہ اکرام صاحب کی بیچ میں دخل اندازی پہ رضوانہ بوا نے سکھ کا سانس لیا تھا۔۔۔
              " بوا جی۔۔۔رکیں ذرا۔۔۔ مجھے آپ سے کہنا تھا کہ آپ لوگ چاہیں تو کل سے کوارٹر میں شفٹ ہو جائیں۔۔۔بلکہ بہتر ہے کہ کل سے ہی ہو جائیں اس طرح سے مہدیہ کی بھی آپکو فکر نہیں رہے گی اس حالت میں روز روز آنا جانا بچی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔باقی چھوٹا موٹا تھوڑا کام رہ گیا ہے وہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا۔۔۔"
              بوا اجازت لے کر جانے کے لیے مڑیں تو اکرام صاحب نے یاد آنے پہ انکو پیچھے سے آواز دے کر کہا۔۔۔
              " بہت بہت شکریہ آپ کا۔۔۔الّٰلہ آپکو اس کی جزا دے۔۔۔"
              رضوانہ خاتون نے تشکرانہ لہجے میں کہا۔۔۔مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ جس بات پہ وہ شکر ادا کر رہی ہیں یہی بات آنے والے دنوں میں اِن لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن جائے گی۔۔۔
              " چلیں ٹھیک ہے پھر میں ایک دو ملازموں سے کہ دوں گا وہ سامان پیک کرنے اور یہاں سیٹ کرنے میں آپکی مدد کردیں گے۔۔۔
              " اور رکشہ پہ مت جائیے گا۔۔۔میں رفیق احمد سے کہتا ہوں آپکو گھر چھوڑ آئے گا۔۔۔"
              اکرام صاحب نے کہا۔۔۔
              " بابا مجھے اپنے ایک دوست کی طرف جانا ہے تو رضوانہ بوا کو میں چھوڑ دوں گا جاتے ہوئے۔۔۔"
              قاسم نے فوراً اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔اکرام صاحب دو منٹ کے لیے اسکی طرف گہری نظروں سے دیکھتے رہے۔۔۔مگر قاسم اپنے موبائل میں یوں بزی رہا جیسے اسے پتہ ہی نہیں۔۔۔کہ وہ اسکی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔۔
              " چلو ٹھیک ہے مگر احتیاط سے جانا۔۔۔"
              اکرام صاحب نے ہامی بھرتے کہا۔۔۔ رضوانہ خاتون کا دل کیا کہ قاسم کے ساتھ جانے کو منع کردے مگر اکرام صاحب کے مان جانے پہ وہ چپ کر گئیں۔۔۔



              Comment


              • #67

                Episode , 44#

                " پلیززز۔۔۔آپ آگے آ جائیں۔۔۔"
                رضوانہ بوا فاطمہ اور مہدیہ کے ساتھ باہر آئیں تو قاسم پہلے سے ہی گاڑی کے پاس ان کے انتظار میں کھڑا تھا فاطمہ اور مہدیہ نے خود کو اچھے سے حجاب سے کور کیا ہوا تھا شانوں سے لیکر نیچے کمر تک چادر اوڑھ رکھی تھی۔۔۔مہدیہ پہ نظر پڑتے ہی قاسم نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا سی گرین حجاب میں میک اپ سے پاک چہرے کے ساتھ بھی وہ سیدھی دل میں اترتی جا رہی تھی۔۔۔جیسے ہی وہ لوگ قریب آئے قاسم جلدی سے فرنٹ ڈور کھول کر مہدیہ سے مخاطب ہوا۔۔۔
                " وہ۔۔۔میں اس لیے کہ رہا تھا کہ انکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آگے سکون سے بیٹھ جائیں گی۔۔۔"
                خاص طور پہ مہدیہ کو مخاطب کرنے پہ رضوانہ بوا کے چہرے پہ ناگواریت کے سائے دیکھ کر قاسم جلدی سے صفائی دیتے بولا۔۔۔
                " میری بیٹیاں اتنی بھی نازک مزاج نہیں ہیں قاسم بیٹا کہ ذرا سا کام کرنے سے نرم بستر ڈونڈھتی پھریں حالات کا مقابلہ کرنا وہ باخوبی جانتی ہیں۔۔۔آپ چلیں پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔۔۔"
                رضوانہ بوا قاسم کی طبیعت سے کافی حد تک آگاہ تھیں انھیں مہدیہ میں اس کا انٹرسٹ لینا کھلنے لگا تھا۔۔۔اسی لیے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہتے اسے بہت کچھ جتا بھی گئیں۔۔۔جبکہ قاسم انکی بات پہ منہ بنا کر رہ گیا۔۔۔
                " زویا بلکل ٹھیک کہتی ہے بابا نے کافی سر پہ چڑھا رکھا ہے ان کو۔۔۔"
                رضوانہ بوا فاطمہ اور مہدیہ کے ساتھ پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئیں تو قاسم ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرتے تنفر سے بڑبڑایا۔۔۔

                " کیا بات ہے بیٹا نیند نہیں آ رہی کیا۔۔۔"
                رات کے گیارہ بج چکے تھے رضوانہ بوا عشاء کی نماز پڑھ کر اپنی چارپائی پہ سونے کے لیے آ کر بیٹھیں تو فاطمہ اور مہدیہ کو جاگتا دیکھ کر پوچھنے لگیں۔۔۔
                " امی جان دل عجیب سا ہو رہا ہے۔۔۔اس گھر میں ہم نے اتنے سال گزار دئیے اور اب چھوڑ کر جانا عجیب سا لگ رہا ہے۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔کیا ہمارا ادھر شفٹ ہونا ٹھیک ہوگا۔۔۔"
                فاطمہ نے اٹھ کر بیٹھتے وقت اداس لہجے میں کہا۔۔۔
                " آپی۔۔۔اگر یہ فیصلہ میری وجہ سے کر رہے ہیں تو پلیززز مت کریں۔۔۔کوئی مسلہ نہیں ہے چند گھنٹوں کی بات ہے شام کو آپ لوگ آ ہی جاتے ہیں گھر۔۔۔میں رہ لوں گی۔۔۔"
                مہدیہ بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔ یہ سوچ سوچ کر اسے شرمندگی ہو رہی تھی کہ اسکی وجہ سے ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔۔۔
                " بیٹا اس فیصلے کی وجہ صرف آپ ہی نہیں ہو۔۔۔آپکے آنے سے پہلے کی میں نے سیٹھ صاحب سے بات کی تھی کوارٹر کے لیے۔۔۔روز روز کے اس آنے جانے سے میں بھی تھک گئ ہوں اب۔۔۔"
                رضوانہ بوا اسکے اندر کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اسے تسلی دیتے بولیں۔۔۔
                " امی جان مجھے آپ سے ایک اور بات بھی کرنی تھی۔۔۔"؟
                فاطمہ نے گومگو کیفیت میں مہدیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
                " کیا بات ہے بیٹا۔۔۔جو بھی بات ہے کھل کر کہو۔۔۔"
                رضوانہ بوا نے کہا۔۔۔
                " امی جان ہوسکتا میرا وہم ہو۔۔۔مگر قاسم کے انداز و اطوار مجھے پریشان کر رہے ہیں۔۔۔نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا کہ وہ مہدیہ میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔۔۔اور وہ کس نیچر کا ہے آپ اچھی طرح جانتی ہیں۔۔۔
                دوسری بات کہ جب سے وہ لاہور شفٹ ہوا ہے اس کے بعد کبھی اتنے دن گھر نہیں ٹکا۔۔۔اور اب اتنے دنوں سے وہ ابھی تک یہیں ہے۔۔۔"
                فاطمہ نے ہریشان لہجے میں کہا۔۔۔فاطمہ کی بات سن کر رضوانہ بوا گہری سوچ کا شکار ہوئیں تھیں یہ بات انھوں نے بھی نوٹ کی تھی۔۔۔
                مہدیہ حیران ہو کر فاطمہ کی طرف دیکھنے لگی یہ بات تو اسے اپنا وہم لگ رہی تھی مگر اب فاطمہ کے بول دینے پر اس کا وہم اب وہم نہیں رہا تھا اسے یقین ہو گیا تھا کہ قاسم اس میں دلچسپی لے رہا ہے ہاسپٹل سے واپسی پہ ، آج صبح کچن میں جب کھانے کا پوچھنے کے بہانے آیا تب ، اب گھر چھوڑنے کے بہانے اس نے سر تا پیر جن نظروں سے مہدیہ کی طرف دیکھا تھا ان میں نہ محبت تھی نہ احترام ، مگر ایسا کچھ ضرور تھا جس سے وہ سمٹ کر رہ گئ تھی۔۔۔
                اس کا دل چاہا کہ فاطمہ سے اس موضوع پہ بات کرے مگر پھر اپنا وہم اور اسکی عادت سمجھ کر لب سی لیے۔۔۔
                " بات تو آپکی ٹھیک ہے نوٹ تو میں نے بھی کیا ہے۔۔۔مگر بیٹا یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے ہم لوگ اتنے سال سے یہاں تن تنہا رہ رہے ہیں کبھی کوئی عزیز رشتہ دار ہم سے ملنے نہیں آیا نہ ہم ملنے گئے ایسے میں اچانک جب ہم کسی کو اپنی عزیز بتا کر پیش کریں گے تو لوگوں کے دلوں میں سوال تو اٹھیں گے اور تجسس بھی پیدا ہوگا۔۔۔
                لوگ تو ہمارے بارے میں بھی نہ جانے کیا کیا باتیں کرتے تھے مگر اب سب چپ ہیں۔۔۔رہی قاسم میاں کی بات تو وہ زیادہ تر لاہور ہی ہوتا یہاں تو بس چند دن کو آتا ہے۔۔۔آپ اس پہ زیادہ دھیان مت دو اور نہ پریشان ہو۔۔۔"
                رضوانہ بوا کو سیٹھ اکرام کی وجہ سے انکی فیملی پہ بھی بہت بھروسہ تھا کہ وہ جیسے بھی ہوں مگر انکے ساتھ کبھی برا نہیں کریں گے اس لیے قاسم کی سبھی برائیوں کے بارے میں جاننے کے باوجود اُس سے آنکھیں بند کر گئیں۔۔۔فاطمہ اپنی ماں کی بات پہ چپ تو کر گئ تھی مگر اس کا دل مطمئین نہیں ہوا تھا۔۔۔الّٰلہ نے جوان عورت کو بہت خاص حس سے نوازا ہے کہ سامنے والے مرد کی آنکھ میں سور کا بال ایک پل میں پہچان جاتی ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ عورتیں جان کر بھی انجان بنی رہتی ہیں اور کچھ عورتیں اسی پل یا تو منہ توڑ دیتی ہیں یا اپنے گرد ایک مظبوط حصار کھینچ لیتی ہے کہ مرد چاہ کر بھی اس حصار کو توڑ نہیں پاتا۔۔۔
                یہی چھٹی حس فاطمہ اور مہدیہ کو بھی بے چین کر رہی تھی مگر قاسم نے واضح طور پہ کوئی ایسی حرکت ، کوئی ایسی بات نہیں کہ تھی جس کو ٹھوس دلیل کے طور پہ بیان کر سکیں۔۔۔فاطمہ کے چپ کرنے پہ مہدیہ بھی خاموش ہو گئ۔۔۔
                " تم لوگ پریشان مت ہو الّٰلہ سب خیر کرے گا۔۔۔یہ بتاؤ کہ بچے کا نام کیا سوچا ہے۔۔۔"
                رضوانہ خاتون نے انکا دھیان بٹانے کو بات کا رخ بدلا بدلتے مہدیہ سے پوچھا۔۔۔
                " میں نے کوئی نام نہیں سوچا۔۔۔بس الّٰلہ سے دعا ہے کہ بیٹا نہ ہو مجھے بیٹی چاہیے۔۔۔جو اپنے باپ کے منہ پہ ایک ایسا طمانچہ مارے گی جس کا درد وہ ساری عمر نہیں بھول پائے گا۔۔۔"
                مہدیہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا نفرت غصّٰہ اسکے یر لفظ سے جھلک رہا تھا۔۔۔آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔۔۔رضوانہ خاتون اور فاطمہ اسکی بات پہ بھونچکی رہ گئیں
                " اور میں دعا کروں گی کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی الّٰلہ میری بچی کو صالحہ اولاد سے نوازے جو دونوں جہاں میں تمہارے لیے شرمندگی نہیں بلکہ فخر کا باعث بنے۔۔۔
                اپنے دل سے یہ غصّٰہ یہ نفرت نکال دو بیٹا اور اپنا معاملہ الّٰلہ کے سپرد کردو۔۔۔کس کو سزا دینی ہے کس کو جزا یہ الّٰلہ کے کام ہیں اپنے دل میں غصّٰہ اور نفرت پال کر اسکی پرورش کرو گی تو اسکو ایک اچھا مسلمان تو دور کی بات ایک اچھا انسان بھی نہیں بنا پاؤ گی۔۔۔اس بچے کا اس دنیا میں اسی طرح سے آنا پہلے سے تہ شدہ تھا الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہو جاؤ گی تو وہ تمہارے زخموں پہ ایسا مرہم رکھے گا کہ تم اپنا ہر دکھ ہر درد بھول جاؤ گی۔۔۔
                لیکن اگر حالات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرو گی جزا اور سزا کا فیصلہ خود کرنے بیٹھو گی تو تمہارے اندر کا یہ دکھ یہ درد تمہیں ہمیشہ بے چین رکھے گا۔۔۔"
                رضوانہ خاتون نے ٹھہر ٹھہر کر پرتاثیر لہجے میں کہا۔۔۔
                " میں کیا کروں ماسو ماں بہت کوشش کرتی ہوں کہ سب بھول کر بس اپنے بچے کے لیے جیوں۔۔۔بس ایک ماں بن کر سوچوں۔۔۔مگر میرے جسم میں پلتا یہ وجود میرے زخموں کو سلنے ہی نہیں دیتا اپنے وجود کے ساتھ مجھے ہر پل اس اذیت کی یاد دلاتا ہے۔۔۔"
                مہدیہ نے بے بسی سے نم آنکھیں لیے کہا آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کے لیے وہ اپنے لب کاٹنے لگی۔۔۔
                " سچ کہ رہی ہو بیٹا کسی بھی لڑکی کے لیے ایسے درد کا درد سہنا آسان ہوتا ہے اور نہ اسے بھول پانا۔۔۔مگر پھر بھی کہوں گی کہ الّٰلہ کی رضا پہ راضی ہو کر سب بھلا کر اس بچے کا سوچو بس۔۔۔اسے ایک اچھا انسان بنانے کا سوچو بس۔۔۔الّٰلہ نے تمہیں ماں کے عظیم مرتبے پہ فائز کیا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس معاشرے کی گود میں ایک جانور کی بجائے ایسا انسان ڈالو جسکی ذات رب کے بندوں کے لیے صرف بھلائی ہی بھلائی ہو۔۔۔
                اپنے دل میں غصّٰہ نفرت بدلے کی آگ رکھ کر اس بچے کو پیدا کرو گی تو یہ بھی ایک جانور ہی پیدا ہوگا۔۔۔اور اس زمین پہ تو پہلے ہی بہت جانور ہیں ان میں ایک اور کا اضافہ مت کرو بیٹا۔۔۔بھول جاؤ سب۔۔۔"
                رضوانہ خاتون نے رسانیت سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔مہدیہ نے ایک گہرا سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔۔۔ماسو ماں کی باتیں اسے اپنے دل پہ اثر انداز ہوتی محسوس ہوئیں تھیں اسے اپنے دل میں پہلی بار اس بچے کے حوالے سے سکون اترتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
                " مہدیہ تم نے تو ابھی تک کوئی نام نہیں سوچا مگر میں نے اپنے بھانجے کا نام سوچ لیا۔۔۔"
                فاطمہ نے ماحول کی اداسی کو ختم کرنے کو پرجوش لہجے میں کہا۔۔۔
                " ہیںنننن۔۔۔۔۔یہ آپ کو اتنا یقین کیوں ہے کہ بھانجہ ہی ہوگا۔۔۔بھانجی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔"
                مہدیہ نے مسکراتے ہوئے حیرانگی سے کہا۔۔۔
                " ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مجھے یقین ہے کہ بھانجہ ہی ہوگا۔۔۔تم دیکھ لینا۔۔۔اور اس کا نام ہم دلاور رکھیں گے۔۔۔اس گھر میں پھر سے دلاور کا نام گونجے گا۔۔۔"
                فاطمہ نے اس اپنی والدہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔فاطمہ کے انداز میں عجیب ہٹیلا پن تھا جیسے اس نام کے سوا وہ کچھ اور سننا نہیں چاہتی۔۔۔
                " نن۔۔۔نہیں پلیززز دد دلاور نہیں۔۔۔"
                مہدیہ نے دلاور کا نام سن کر فوراً گھبرا کر کہا۔۔۔اس کا چہرہ کرب زدہ ہوا تھا آنکھوں میں نمی لہرائی تھی۔۔۔
                " پلیزززز اور جو مرضی رکھ لیں لیکن یہ نام نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔پلیززز۔۔۔"
                مہدیہ نے بے بسی سے کہا۔۔۔روکنے کے باوجود ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے ہونٹوں میں جذب ہوا تھا۔۔۔بے چینی سے وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مسلنے لگی۔۔۔
                " مہدیہ۔۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔اوکے یہ نام نہیں رکھا جائے گا۔۔۔ہم کچھ اور سوچ لیں گے۔۔۔چلو اب سو جاؤ رات کافی ہو گئ ہے۔۔۔صبح پھر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔۔"
                مہدیہ کے چہرے کو بغور دیکھتے اور بہت کچھ سمجھتے انھوں نے بات کو سمیٹتے کہا۔۔۔مہدیہ کے اندر اترا درد انکے اپنے اندر بھی کہیں اتر آیا تھا۔۔۔ناموں کی مماثلت پہ وہ حیران ہوئی تھیں مگر یہ سوچ کر اپنی سوچ کو حھٹک دیا کہ دنیا میں نہ جانے اس نام کے کتنے ہوں گے۔۔۔
                مگر سچ تو یہ تھا کہ یہی نام اگر مہدیہ کے درد کی وجہ تھا تو یہی نام انکے دل کا بھی ناسور تھا۔۔۔ایسا ناسور جسے کھرچنے میں انکو سکون ملتا تھا۔۔۔


                شرجیل جان بوجھ کر سیر کرنے اور زمینیں دیکھنے کے بہانے صارم شاہ کو باہر لے کر آیا تھا تاکہ باتوں باتوں میں نہ صرف اس کے دل کا حال جان سکے بلکہ اب آگے کیا کرنا اس کے بارے میں بھی سوچا جائے احتشام شاہ نے شرجیل کو آج اپنی تمام زمین اور باغات کا چپہ چپہ دکھایا اور وہاں موجود مزارعوں سے بھی ملوایا پھر ساری زمین کا چکر لگانے کے بعد وہ اپنی گاڑی میں ڈیرے پہ آ گئے۔۔۔ڈیرے پہ موجود انکے ملازموں نے جلدی سے انکے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لا کر رکھیں کھانا وہ لوگ کھا کر آئے تھے اس لیے بس سادہ پانی احتشام شاہ نے ایک ملازم سے لانے کو کہا۔۔۔ پانی شانی پی کر ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ ہی شرجیل نے صارم شاہ کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔۔۔
                " احتشام بھیا آپ کب پھر ہم سب کو اپنی شادی کی مٹھائی کھلا رہے ہیں۔۔۔صارم نے تو لڑکی دیکھ لی ہے اور بہت جلد شادی بھی ہو جائے گی۔۔۔آپ بھی بتا دیں اگر کوئی نظر میں ہے تو۔۔۔؟
                شرجیل نے کن اکھیوں سے صارم شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔شرجیل کی بات پہ صارم شاہ کے چہرے پہ ایک رنگ آ کر گزر گیا۔۔۔جبکہ احتشام کی نظروں کے سامنے فوراً عینا کا عکس لہرایا تھا اور چہرے پہ بھرپور مسکراہٹ در آئی تھی۔۔۔
                " یہ بیٹھے بٹھائے میری شادی کی کیا سوجھی تمہیں۔۔۔"
                احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                " میرا خیال ہے کہ اگر آپکو یاد ہو تو آپ مجھ سے اور صارم سے بڑے ہیں۔۔۔میری تو ہوچکی صارم کی بھی بہت جلد ہو جائے گی۔۔۔کیوں صارم میں ٹھیک کہ رہا ناں۔۔۔؟
                شرجیل نے مسکراتے ہوئے احتشام سے کہا اور بیچ میں صارم کو بھی گھسیٹا۔۔۔
                " ہممم۔۔۔۔۔شائد۔۔۔"
                صارم نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔
                " یہ کیا بات ہوئی شائد نہیں۔۔۔۔۔ یقیناً۔۔۔"
                شرجیل نے تنبیہی نظروں سے گھور کر کہا۔۔۔احتشام شاہ نے بات کا رخ بدلنے کو شرجیل سے اسکے لاہور میں بزنس کے بارے میں بات چیت سٹارٹ کردی۔۔۔جس میں کبھی کبار صارم شاہ ہلکا پھلکا جواب دے دیتا۔۔۔
                صارم یار کیا بات ہے۔۔۔کوئی مسلہ ہے کیا۔۔۔نہ تم پہلے کی طرح بات کر رہے ہو نہ ہی ٹھیک سے جواب دے رہے ہو۔۔۔"
                شرجیل نے گہری نظروں سے صارم شاہ کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ احتشام اور شرجیل کی ہر بات پہ وہ کبھی سر ہلا دیتا یا کبھی بس ہوں ہاں میں جواب دے کر پھر چپ ہو جاتا۔۔۔
                " میں سن رہا ہوں تم لوگوں کو۔۔۔تم لوگ کرو بات میں جواب دوں گا۔۔۔"
                صارم شاہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
                " یہی تو میں کہ رہا ہوں کہ تم کب سے ہمیں سن رہے ہو۔۔مگر خود سے کچھ نہیں بول رہے۔۔۔کوئی مسلہ ہے کیا۔۔۔"
                شرجیل نے اب کے صارم شاہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے نہایت اپنایت سے کہا۔۔۔فجر کی بات سن کر اسے لگا تھا کہ فجر بہن ہونے کی وجہ سے زیادہ پریشان ہو رہی مگر اب صارم شاہ سے مل کر اسے اندازہ ہوا کہ فجر ٹھیک ہی پریشان ہو رہی تھی وہ اسے کوئی دیوداس لگ رہا تھے جو اپنا سب کچھ لٹا کر اب خود بھی خود کا نہیں رہا تھا۔۔۔
                " صارم یار فجر سے پتہ چلا کہ عائلہ کا رشتہ کہیں اور تہ ہو گیا ہے اگر کہو تو میں اور امی بات کریں خالو جان سے کہ وہ عائلہ کے گھر والوں سے پھر بات کریں۔۔۔"
                شرجیل نے صارم شاہ کی طرف دیکھتے اب کے سیدھے صاف مدعے پہ آتے کہا۔۔۔
                " کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔ہم لوگ گئے تھے رشتہ مانگنے مگر عائلہ کے بابا نے کہا کہ ہم نے دیر کردی۔۔۔وہ اپنی بیٹی کا کہیں اور تہ کرچکے اور اب اپنی زبان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی دوبارہ ان کے گھر قدم نہ رکھے۔۔۔
                احتشام شاہ نے سنیجیدہ لہجے میں تلخی سے جواب دیا۔۔۔شرجیل کے سوال پہ صارم نے کوئی جواب نہ دیا تو احتشام شاہ نے مختصر طور پہ کانٹ چھانٹ کر ساری بات شرجیل کو بتا دی۔۔۔
                " کیا عائلہ اس رشتے سے خوش ہے۔۔۔"؟
                شرجیل نے پوچھا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ احتشام شاہ یا صارم شاہ میں سے کوئی کچھ کہتا۔۔۔صارم شاہ کے موبائل پہ رنگ ہوئی۔۔۔
                " خالہ مہرالنساء۔۔۔۔۔یہ تو ان کا نمبر ہے۔۔۔"
                صارم شاہ نے سکرین پہ جگمگاتے نمبر کی طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا۔۔۔
                " تم اٹھاؤ تو سہی۔۔۔ہو سکتا کوئی خوشی کی خبر ہو۔۔۔
                شرجیل نے جلدی سے کہا۔۔۔صارم شاہ نے فوراً دوسری بیل پہ کال پک کی۔۔۔
                " اسلام علیکم بیٹا۔۔۔کیسے ہو۔۔۔"
                " وعلیکم اسلام خالہ۔۔۔میں ٹھیک ہوں سب خیر تو ہے ناں۔۔۔
                " بیٹا خیر ہے بھی اور نہیں بھی۔۔۔کیا تم ابھی میری طرف آ سکتے ہو جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔۔۔"
                مہرالنساء نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
                " جی۔۔۔جی خالہ میں ابھی آیا۔۔۔بس 5 منٹ میں۔۔۔"
                صارم شاہ نے جلدی سے کہا اور کال ڈسکنکٹ کردی۔۔۔
                " صارم میرا خیال ہے پہلے ماما کو بتا دیں۔۔۔ان سے مشورہ کر لیں۔۔۔بابا کو پتہ چلا تو انکے خفا ہونے پہ ماما ان کو سنبھال لیں گی۔۔۔تم جانتے ہو بابا نے ہم سب کو ادھر جانے سے سختی سے منع کیا تھا۔۔۔"
                صارم شاہ بے چینی سے جانے کے لیے اٹھ کر کھڑا ہوا تو احتشام شاہ نے اسے بازو سے پکڑ کر روکتے ہوئے کہا۔۔۔
                " بھائی بابا نے ادھر جانے سے منع کیا تھا۔۔۔یہ نہیں کہا تھا کہ اگر ادھر سے کوئی بلائے تو تب بھی نہیں جانا۔۔۔میرا دل گھبرا رہا ہے پتہ نہیں کیا بات ہے۔۔۔عائلہ ٹھیک نہیں تھی۔۔۔اسے کہیں کچھ ہوا نہ ہو۔۔۔آپ چلیں ہم راستے میں ماما سے بات کر لیں گے کال پہ۔۔۔"
                صارم شاہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔اور بنا جواب کا انتظار کیے تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔۔۔صارم کے بیٹھتے ہی شرجیل اور احتشام شاہ بھی ساتھ میں بیٹھ گئے۔۔۔
                " دھیان سے یار کیا ہو گیا ہے۔۔۔"؟
                ایک تو کچی سڑک ہونے کی وجہ سے اور دوسرا تیز ڈرائیونگ کی وجہ سے گاڑی نے دو بار زوردا جھٹکا کھایا تو احتشام شاہ نے کہا وہ ہائمہ خاتون کو کال ملا رہا تھا اچانک زوردار جھٹکا لگنے سے فون اسکے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا تھا۔۔۔
                " یار ماما کہ رہی ہیں کہ جو بھی بات ہے ایسے انکے گھر جانا مناسب نہیں ہے۔۔۔فجر کو ساتھ لے کر جائیں۔۔۔اور گھر کے اندر صرف فجر اور صارم جائیں گے۔۔۔"
                احتشام شاہ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اپنی والدہ کو ساری بات سے آگاہ کیا پھر ہائمہ خاتون سے بات کرنے کے بعد ان کا پیغام صارم شاہ کو دینے کے ساتھ اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔تو صارم نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی گھر کی طرف موڑ دی۔۔۔
                ہائمہ خاتون نے فجر کو آگاہ کر دیا تھا اور وہ پہلے سے ہی تیار ہو کر گیٹ پہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔


                شام کے 4 بج چکے تھے اور مہرالنساء انتہائی بے چینی سے صارم شاہ کے انتظار میں بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔5 منٹ انکو آج 5 صدیوں پہ محیط لگ رہے تھے۔۔۔
                " امی جان ایک بار پھر سوچ لیں کیا ایسے بات کرنا ٹھیک ہوگا۔۔۔"
                عائلہ نے پریشان ہو کر اپنی ماں کی طرف دیکھ کر کہا جو دروازے پہ نظریں گڑائے برآمدے میں چکر پہ چکر لگا رہی تھیں۔۔۔
                " جتنا سوچنا تھا سوچ لیا بیٹا اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔کوئی بھی دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے میرا ایک بار صارم شاہ سے بات کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔"
                مہرالنساء نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔ابھی وہ بات کر ہی رہی تھیں کہ باہر گاڑی کے رکنے کی آواز آئی اور پھر انکے دروازے پہ دستک ہوئی۔۔۔مہرالنساء نے عائلہ اور عینا سے اندر جانے کو کہا اور خود دروازہ کھولنے چل دیں۔۔۔
                " آ جاؤ بیٹا۔۔۔اندر آ جاؤ۔۔۔"
                مہرالنساء نے دروازہ کھولنے پہ اپنے سامنے فجر اور صارم شاہ کو کھڑے دیکھ کر فوراً ایک سائیڈ پہ ہو کر انکو اندر آنے کے لیے رستہ دیتے کہا۔۔۔انکے اندر آنے کے بعد مہرالنساء نے ہلکا سا دروازہ بند کیا اور انکو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے برآمدے میں رکھی کرسیوں پہ بیٹھنے کو کہا۔۔۔انکے بیٹھنے کے بعد خود بھی انکے پاس ہی رکھی ایک کرسی پہ خاموشی سے بیٹھ گئیں۔۔۔
                " بیٹا باہر تم لوگوں کے ساتھ کوئی اور بھی ہے کیا۔۔۔"؟
                دروازہ بند کرتے مہرالنساء کی
                " کیا حال ہیں بیٹا۔۔۔کیسی ہو آپ۔۔۔"
                مہرالنساء نے فجر کے سر پہ ہاتھ رکھتے شفقت سے ہوچھا۔۔۔
                " میں ٹھیک ہوں خالہ۔۔۔آپ اور باقی سب کیسے ہیں۔۔۔عائلہ عینا نظر نہیں آ رہیں میں ان سے مل لوں پہلے۔۔۔"
                فجر نے خوشدلی سے جواب دے کر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد عائلہ کے نظر نہ آنے پہ اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
                " بیٹا کچھ دیر کے لیے بیٹھو میرے پاس۔۔۔مجھے تم لوگوں سے بہت ضروری بات کرنی ہے میں نے صارم بیٹے کو کال کی تھی اور ادھر آنے کا کہا تھا اور یہ تو بہت اچھا ہوا کہ آپکو بھی ساتھ لے آیا۔۔۔
                " خالہ سب خیریت تو ہے ناں۔۔۔آپ مجھے بہت پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔عائلہ تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔"؟
                فجر نے پریشان ہو کر پوچھا اتنا تو اسے اندازہ تھا کہ کوئی بہت خاص بات ہے جبھی مہرالنساء خالہ نے خود کال کر کے فوراً آنے کا کہا ہے۔۔۔مگر انکے چہرے سے جھلکتی پریشانی نے اسے بھی پریشان کر دیا تھا۔۔۔
                " میں بہت پریشان ہوں بیٹا۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیسے بات کروں۔۔۔کیسے کہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔"
                مہرالنساء نے تذبذب کا شکار ہوتے کہا۔۔۔
                " خالہ پلیززز جو بھی بات ہے کھل کر کہیے آپ ہم پہ نہ صرف بھروسہ کر سکتی ہیں بلکہ ہمیں حکم بھی دے سکتی ہیں ہم آپکے بچوں کی طرح ہی ہیں۔۔۔"
                صارم شاہ نے اپنی کرسی ذرا سی کھسکا کر مہرالنساء کے قریب کرتے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔
                " بیٹا میں بہت مجبور ہو کر یہ بات کر رہی ہوں کسی بھی ماں کے لیے کسی سے اپنے منہ سے اپنی بیٹی کے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ میری بیٹی کو اپنے نام کا سائبان دے دو۔۔۔مگر میں اپنی ساری خودداری اور اپنی بیٹی کا اپنی ذات پہ غرور ایک طرف رکھ کر کہ رہی ہوں کہ اسے بچا لو۔۔۔میری بیٹی کو ذلت بھری زندگی سے اپنے باپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے سے بچا لو بیٹا۔۔۔
                میں شائد تم سے یہ کہنے کی کبھی ہمت نہ کرتی مگر فجر بیٹی کی زبانی پتہ چلا تھا کہ نہ صرف تمہارے گھر والوں کی بلکہ تمہاری بھی یہ خواہش ہے کہ عائلہ تم لوگوں کے گھر کا فیملی کا حصّٰہ بنے۔۔۔اور یہ بات میرے لیے بھی بہت خوشی کا باعث ہے۔۔۔
                رشید احمد کیا کر رہا ہے کیا کرنے والے ہے مجھے اس کا علم نہیں تھا مجھے آج ہی ساری صورت حال کا پتہ چلا ہے جس سے میرا کلیجہ چھلنی ہو گیا ہے۔۔۔میں اپنی کسی بچی کو رشید احمد کے ظلم و زیادتی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گی۔۔۔
                اور نہ ہی تمہیں مجبور کروں گی تم چاہو تو بے شک انکار کردو۔۔۔"
                مہرالنساء نے دھیرے دھیرے آنکھوں میں نمی لیے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
                " خالہ یہ آپ کیسی بات کر رہی ہیں۔۔۔آپ کا حکم سر آنکھوں پہ۔۔۔آپ نہیں جانتیں کہ آپ نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے بلکہ میری زندگی مجھے لوٹائی ہے۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں خالہ کہ عائلہ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا۔۔۔کبھی آپ کا بھروسہ نہیں توڑوں گا۔۔۔"
                مہرالنساء کی بات سن کر صارم شاہ کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے ہفت و اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔۔۔اس کے بے جان مردہ وجود میں پھر سے کسی نے جان ڈال دی ہو خوشی ، سکون ، مسرت اسے کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔۔۔صارم شاہ نے مہرالنساء کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے انتہائی عاجزی اور پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔
                " بیٹا ساری صورت حال سے تم باخوبی واقف ہو۔۔۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ رشید احمد کی غیرموجودگی میں کسی ہنگامے کے بنا تمہارا اور عائلہ کا نکاح آج ہی ہو جائے۔۔۔اگر تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو اعتراض نہ ہو تو۔۔۔۔۔"
                مہرالنساء نے اب کے ذرا جھجکتے کہا۔۔۔
                " نہیں۔۔۔۔کوئی اعتراض نہیں ہے خالہ۔۔۔میں اور میری فیملی ہر بات سے باخوبی آگاہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ گھر پہ بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔"
                صارم شاہ نے ایک نظر فجر کی طرف دیکھتے اور پھر اسکے ہاں میں سر ہلانے پہ پرجوش لہجے میں کہا۔۔۔
                فجر نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کرتے مہرالنساء کو تسلی دی کہ اب وہ کسی قسم کی فکر نہ کریں۔۔۔
                " خالہ ہم اب چلتے ہیں اور بابا سائیں کو ساری بات سے آگاہ کر کے مولوی صاحب اور چند ایک دو لوگوں کے ساتھ تھوڑی دیر تک حاضر ہوتے ہیں مجھ پہ بھروسہ رکھیے گا میں اپنی زبان سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور اب میرے آنے تک عائلہ آپکے پاس میری امانت ہے۔۔۔"
                صارم شاہ نے اٹھتے ہوئے فجر کو بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔۔۔
                " یہ شاہ سائیں کے گھر والے دوسروں کی امانتوں میں خیانت کب سے کرنے لگے ہیں۔۔۔"
                آواز تھی یا کوئی دھماکہ۔۔۔سب ایک دم اپنی جگہ سے اچھلے تھے مہرالنساء ، صارم شاہ اور فجر نے ایک ساتھ حیران ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو رشید احمد صحن کے بیچوں بیچ کھڑا انتہائی خشمگین نظروں سے ان سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔مہرالنساء کو ایسا لگا جیسے چھت اس کے اوپر آ گری ہو۔۔۔


                Comment


                • #68

                  Episode , 45#

                  رشید احمد پہ نظر پڑتے ہی مہرالنساء کے چہرے کا رنگ اڑا تھا ایک پل کے لیے اسے زمین گھومتی محسوس ہوئی تھی ایسا لگا جیسے دماغ نے کام کرنا بند کردیا مگر پھر اسی لمحے اس نے خود کو سنبھالا تھا۔۔۔اب وہ نہ تو کمزور پڑ سکتی تھی اور نہ ہی اپنے قدم پیچھے ہٹا سکتی تھی۔۔۔اب مہرالنساء کو لڑنا تھا اپنی بچیوں کے لیے اور ان کی خوشیوں کے لیے۔۔۔
                  " رشید احمد تم۔۔۔۔"
                  مہرالنساء اپنے خوف پہ قابو پاتے حیرانگی سے بولی۔۔۔اسے قطعاً امید نہیں تھی کہ وہ یوں اچانک اتنی جلدی واپس آ جائے گا۔۔۔
                  " ہاں۔۔۔مہر بیگم میں۔۔۔ رشید احمد۔۔۔تمہارا شوہر۔۔۔۔۔
                  رشید احمد مہرالنساء کی نقل اتارتے اسی کے انداز میں بولا۔۔۔
                  " تم کیا سمجھی تھی کہ میں تم لوگوں سے اتنا بے خبر ہوں کہ تم لوگ جو مرضی کرتی پھرو گی اور مجھے پتہ نہیں چلے گا۔۔۔
                  اور آپ چھوٹے شاہ۔۔۔جن کی شرافت اور نیک نامی کے سارا زمانہ گن گاتا ہے آپ سے مجھے ہرگز امید نہیں تھی کہ میری غیر موجودگی میں آپ میرے گھر شب خون مارنے اور میری عزت پہ بٹہ لگانے کا پروگرام بنائیں گے۔۔۔"
                  رشید احمد باری باری مہرالنساء اور صارم شاہ کی طرف دیکھتا ہوا طنزیہ لہجے میں بولتا انکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔
                  " ایسا کچھ نہیں ہے چاچا۔۔۔میں آپ سب کا بہت احترام کرتا ہوں اور میں بہت عزت و احترام کے ساتھ عائلہ۔۔۔۔"
                  " نام مت لیں چھوٹے شاہ میری بیٹی کا۔۔۔اور جتنی عزت آپ ہماری کرتے وہ میں دیکھ چکا ہوں۔۔۔"
                  رشید احمد صارم شاہ کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر غصے سے بولا۔۔۔فجر اور صارم شاہ پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔فجر نے صارم شاہ کو ریلیکس رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
                  " چھوٹے شاہ بہت لحاظ کر لیا میں نے آپ لوگوں کا۔۔۔اب یہ معاملہ میں پنچایت میں رکھوں گا آپ میری بیٹی کو ورغلا رہے ہو اب اس سب کا پنچایت ہی فیصلہ کرے گی۔۔۔میں نے منع بھی کیا تھا کہ آپ لوگوں کے گھر میں سے کوئی بھی ہمارے گھر اب قدم نہیں رکھے گا اور شاہ سائیں نے مجھے اس بات کا یقین بھی دلایا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔۔۔مگر افسوس کہ شاہ سائیں نے اپنی زبان کا پاس نہیں رکھا تو اب میں بھی لحاظ نہیں کروں گا میں اب چپ نہیں رہوں گا اب پنچایت ہی۔۔۔۔۔۔"
                  رشید احمد انتہائی غصے سے صارم شاہ کی طرف کینہ توز نظروں سے دیکھتا بولا۔۔۔
                  " کیا پنچایت پنچایت لگائی ہوئی ہے۔۔۔ان کو میں نے ہی بلایا تھا۔۔۔میں نے کیا تھا فون۔۔۔اور اس سب کے لیے تم نے مجبور کیا مجھے۔۔۔
                  تم جو چاہتے ہو میں وہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔میں اپنی بیٹی کو تمہاری عیاشیوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گی۔۔۔عائلہ کی شادی وہیں ہوگی جہاں اس کی رضا مندی ہوگی۔۔۔اور میری بیٹی نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔۔۔"
                  مہرالنساء نے غصے سے چلا کر کہا۔۔۔شاہ سائیں کو بیچ میں لانے اور ان پہ انگلی اٹھانے پہ صارم شاہ کا خون کھولا تھا مگر خود پہ اسی وقت وہ قابو پا گیا۔۔۔ہائمہ خاتون نے ان سب کو سختی سے تاکید کی تھی کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں مگر وہ خود پہ کنٹرول رکھیں گے اور کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے بات بگڑ جائے۔۔۔ زور سے بولنے اور شدید تناؤ کی وجہ سے مہرالنساء کا دل ڈوبا تھا اور ساتھ ہی سر چکرایا تھا مگر خود پہ قابو پائے یونہی کھڑی رہیں۔۔۔
                  " میں ابھی زندہ ہوں مہر بیگم اور میری بیٹیوں کے بارے میں تم فیصلہ کیسے لے سکتی ہو۔۔۔وہ میرا خون ہیں باپ ہوں میں ان کا۔۔۔
                  اور آپ۔۔۔مہربانی فرما کر آپ تشریف لے جا سکتے ہیں اب۔۔۔"
                  رشید احمد نے غصے سے مہرالنساء سے کہا پھر اپنا رخ صارم شاہ کی طرف موڑتے انگشت شہادت صارم شاہ کی طرف کرتے غصے سے اس سے کہا۔۔۔اس قدر عزت افزائی پہ فجر کے ساتھ صارم شاہ کا چہرہ بھی سرخ ہوا تھا۔۔۔مگر اپنی پشت پہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑے وہ وہیں کھڑا رہا۔۔۔
                  " صارم بھیا کہیں نہیں جائیں گے۔۔۔اگر آپکو یہ سب پسند نہیں تو آپ جا سکتے ہیں یہاں سے۔۔۔"
                  کب سے یہ سب ہوتا دیکھ کر برداشت کرتی عینا کی برداشت نے جواب دیا تو عائلہ کے منع کرنے کے باوجود وہ انکے پاس آ کر غصے سے بپھر کر اپنے باپ سے مخاطب ہوئی۔۔۔رشید احمد غصے سے اسے مارنے کو اسکی طرف بڑھا تھا کہ مہرالنساء بول پڑی۔۔۔
                  " اور میں بھی ابھی مری نہیں زندہ ہوں۔۔۔وہ میرا بھی خون ہیں۔۔۔ماں ہوں میں ان کی۔۔۔ پیدا کیا ہے میں نے انکو۔۔۔
                  باپ ہو تو باپ بن کر اپنی بیٹی کی خوشی میں اس کے نکاح میں شامل ہو۔۔۔عائلہ کا نکاح آج ہی ہوگا مگر دلاور سے نہیں صارم شاہ سے۔۔۔جاؤ بیٹا تم جا کر مولوی کا انتظام کرو۔۔۔"
                  مہرالنساء نے عینا کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے دو ٹوک لہجے میں رشید احمد سے کہا پھر صارم شاہ سے مخاطب ہوئیں۔۔۔
                  " میں بھی دیکھتا ہوں یہ نکاح کیسے ہوتا ہے۔۔۔اور تم دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے۔۔۔"
                  رشید احمد مہرالنساء کی بات سن کر آپے سے باہر ہوا تھا اس نے سامنے پڑی میز پہ زوردار لات مارتے کہا ساتھ ہی سب لحاظ بھول کر صارم شاہ کا بازو پکڑ کر اسے باہر کو دھکیلا تھا۔۔۔صارم شاہ باہر جانے کے لیے قدم اٹھا چکا تھا کہ اسی وقت دھکا لگنے سے بری طرح سے لڑکھڑایا اور سامنے کھڑی فجر کے ساتھ ٹکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لیے زمین بوس ہوا۔۔۔فجر اور عینا کے منہ سے ایک ساتھ چیخ برآمد ہوئی تھی۔۔۔یہ سب دیکھ کر مہرالنساء کے دل میں زور کا درد جگا تھا بے ساختہ ان کا ہاتھ اپنے سینے پہ گیا تھا۔۔۔چہرہ پسینہ پسینہ ہونے کے ساتھ اس پہ شدید درد کے آثار نمودار ہوئے تھے۔۔۔
                  " نکلو۔۔۔۔دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے تم لوگ۔۔۔"
                  رشید احمد نے پھر سے صارم شاہ کا بازو پکڑ کر اسے اٹھا کر کھینچنے کے سے انداز میں کھڑا کرتے باہر کو دھکیلتے کہا۔۔۔
                  " مجھے یہاں خالہ نے بلایا تھا وہ کہیں گی تو چلا جاؤں گا۔۔۔اور اب دوبارہ مجھے ہاتھ لگانے کی غلطی مت کیجیے گا۔۔۔"
                  صارم شاہ نے اپنا بازو ایک جھٹکے سے چھڑواتے ہوئے رشید احمد کی طرف دیکھتے اپنا غصّٰہ کنٹرول کرتے تلخ لہجے میں کہا۔۔
                  عینا نے شعلہ بار نظروں سے اپنے باپ کی طرف دیکھتے جلدی سے آگے بڑھ کر معافی مانگتے فجر کی اٹھنے میں مدد کی۔۔۔اور اسے لے کر ایک سائیڈ پہ اپنی ماں کے پاس آ کر کھڑی ہو گئ۔۔۔صارم شاہ نے فجر کو عائلہ کے پاس اندر جانے کا اشارہ کیا تو وہ عینا سے عائلہ کا پوچھ کر اس کے روم کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
                  " امی جان آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔مجھے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔"
                  عینا نے مہرالنساء کے چہرے پہ امڈتے پسینے اور کرب کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔۔۔
                  " میں۔۔۔ٹھیک۔۔۔ہوں۔۔۔عائلہ کو۔۔۔عائلہ کو بلاؤ۔۔۔"
                  مہرالنساء نے بدقت بولتے رک رک کر اپنی بات مکمل کرتے کہا۔۔۔ عینا روم میں عائلہ کو بلانے گئ تو عائلہ فجر کے گلے لگی رو رہی تھی عینا نے پاس جا کر اسے حوصلہ ہمت دینے کے ساتھ اسے مہرالنساء کا پیغام دیتے فوراً باہر آنے کو کہا۔۔۔تو وہ مہرالنساء کی طبیعت کی خرابی کا سن کر اپنی آنکھیں صاف کرتی خود کو ایک بڑی سی چادر میں لپیٹے فجر کے ساتھ انکے پاس آ کھڑی ہوئی۔۔۔
                  " عینا مجھے امی کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی اسی بات کا ڈر تھا مجھے مگر میری کسی نے نہیں سنی۔۔۔امی جان چلیں اٹھیں یہاں سے۔۔۔میں آپکو اندر لٹا دیتی ہوں۔۔۔"
                  عائلہ مہرالنساء کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو انکی حالت دیکھ کر تشویش سے بولی پھر مہرالنساء کا بازو پکڑ کر اٹھانا چاہا تو انھوں نے منع کردیا کہ وہ ٹھیک ہیں اور اندر نہیں جائیں گی۔۔۔
                  " میں روم سے امی جان کی میڈیسن لے کر آتی ہوں ابھی۔۔۔"
                  عائلہ نے کہا اور تیزی سے اپنی والدہ کے روم کی طرف بڑھی۔۔۔فجر نے ساری صورت حال دیکھ کر فوراً احتشام شاہ کو کال ملائی اور ہر بات سے اسے آگاہ کیا۔۔۔
                  " چچا میری بات سنیں۔۔۔آپ۔۔۔آپ پیسوں کی وجہ سے یہ سب کر رہے ہیں ناں۔۔۔میں دوں گا آپ کو پیسے۔۔۔20 لاکھ۔۔۔۔۔۔30 لاکھ۔۔۔اور۔۔۔اور میرے حصے کی ساری زمین۔۔۔میں ابھی آپکے نام کرنے کو تیار ہوں مگر آپ یہ سب مت کریں۔۔۔میں عائلہ کے بنا نہیں جی سکتا۔۔۔اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔میں منت کرتا ہوں آپکی چاچا۔۔۔یہ سب مت کریں۔۔۔"
                  صارم شاہ نے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اب کے رشید احمد سے ملتجی لہجے میں کہا۔۔۔صارم شاہ کی بات سن کر رشید احمد کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔۔۔
                  " دیکھو میں کہ چکا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔مگر چونکہ مجھے اپنی بیٹی بھی عزیز ہے اور فلحال دلاور کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں ہے وہ بھی پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا ہے۔۔۔تو تم مجھے چند دن کی مہلت دو۔۔۔میں سوچ کر جواب دوں گا۔۔۔
                  30 لاکھ نقد کے ساتھ صارم شاہ کے حصے کی پوری زمین کا مالک بننے کا سوچ کر ہی رشید احمد کے منہ میں پانی بھر آیا۔۔۔رف سا حساب لگا کر بھی صارم شاہ کے حصے کی زمین 15 ،20 کروڑ سے کم کی نہیں تھی۔۔۔رشید احمد نے یکدم پینترا بدلا تھا اور اب کے اپنا بھرم رکھنے کو لہجے میں وہی رعونت لیے بولا۔۔۔
                  " کس بات کا جواب دو گے رشید احمد۔۔۔ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے۔۔۔۔"؟
                  سب نے حیران ہوکر آواز کا تعاقب کرتے مڑ کر دیکھا تو دروازے کے بیچوں بیچ دونوں پٹ پوری طرح کھولے سفید کلف لگے کپڑوں میں دروازے پہ ہاتھ رکھے دلاور کو چند آدمیوں کے ساتھ کھڑے پایا۔۔۔اور صرف دلاور ہی نہیں گھر کے باہر گاؤں کے کچھ اور لوگ بھی جمع ہو رہے تھے رشید احمد کے گھر ہنگامے کی خبر پورے گاؤں میں پھیل چکی تھی۔۔۔مگر احتشام شاہ کے باہر موجود ہونے کی وجہ سے کسی کو بھی اندر آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔۔دلاور کو دیکھ کر احتشام شاہ نے اپنے موبائل پہ ایک نمبر ملا کر کچھ ہدایات دیں پھر شرجیل کو لیے گھر کے اندر داخل ہوگیا اور جا کر صارم شاہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔۔دلاور کو اندر آتے دیکھ کر عائلہ کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی اس سے پہلے کہ وہ گرتی پاس کھڑی فجر نے فوراً اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اسے لیکر برآمدے کے پلر کی اوٹ میں ہوئی تھی۔۔۔
                  " کک۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔اچھا ہوا تم آ گئے۔۔۔میں ابھی تمہیں ہی فون کرنے والا تھا۔۔۔میرے بس سے تو باہر ہے یہ معاملہ۔۔۔ہزار بار منع کیا ہے ان لوگوں کو کہ میرے گھر مت آیا کریں مگر سنتے ہی نہیں ہیں۔۔۔تم آ گئے ہو تو اب تم اپنے طریقے سے سمجھاؤ ان کو۔۔۔"
                  رشید احمد دلاور کو دیکھ کر فوراً سیدھا ہوا اور گھبرا کر تیزی سے اس کے پاس جا کر کھڑا ہو کر خود کو اسکی سائیڈ پہ ظاہر کرتے بولا۔۔۔
                  " یہ صارم شاہ ہے۔۔۔ہمارے گاؤں کے مالک کا بیٹا۔۔۔"
                  رشید احمد نے صارم شاہ کی طرف اشارہ کرتے اس کا تعارف کروایا تو دلاور نے مونچھوں کو تاؤ دیتے سب پہ ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہاتھ اٹھا کر رشید احمد کو مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔۔۔
                  " میں یہاں نہیں رہتا مگر اس گھر کے ہر فرد کی پل پل کی خبر ہر پل مجھے پہنچتی رہتی ہے۔۔۔کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے۔۔۔کون کیا کر رہا ہے ہر بات سے باخبر ہوتا ہوں میں۔۔۔میں نے کہا تھا ناں کہ عائلہ اس گھر میں میری امانت ہے۔۔۔مگر تم لوگوں کو میری بات کی سمجھ نہیں آئی تم لوگوں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ دلاور کی آنکھوں میں دھول جھونک دو گے۔۔۔"
                  دلاور سیدھا عینا کے سامنے کھڑا ہو کر انتہائی غصے سے اس سے مخاطب ہوا۔۔۔اور ساتھ ہی ایک نظر عائلہ پہ ڈالی جو آنکھوں میں خوف لیے سراسیمگی کی حالت میں اسے دیکھ کر فوراً برآمدے کے پلر کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔عینا اور مہرالنساء حیران ہو کر اسکی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہ اتنی جلدی کیسے پہنچ سکتا ہے۔۔۔
                  " کیا ہوا حیران ہو رہی ہو کہ میں عین ٹائم پہ اتنی جلدی کیسے پہنچ گیا۔۔۔تو ڈئیر سالی جی اینڈ ساسو ماں جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کی پل پل کی خبر مجھے پہنچ رہی ہوتی ہے تو یہ جھوٹ نہیں ہے لیں آپ لوگ خود بھی دیکھ لیں۔۔۔"
                  دلاور نے ہنستے ہوئے کہا اور ساتھ اپنا موبائل انکی طرف کیا۔۔۔موبائل کی سکرین پہ نظر پڑتے ہی عینا اور وہاں موجود سب لوگ دم بخود رہ گئے۔۔۔برآمدے سے لے کر باہر دروازے تک ہر منظر اس پہ واضح ہو رہا تھا۔۔۔
                  " تم۔۔۔تم انتہائی گھٹیا شخص ہو۔۔۔تم نے ہمارے گھر کیمرہ لگایا ہوا تھا ذلیل انسان۔۔۔"
                  عینا انتہائی غصے سے بپھر کر بولی۔۔۔
                  " زبان کو لگام دیں سالی جی۔۔۔اپنی چیزوں سے باخبر رہنا اور ان کا اتہ پتہ رکھنے میں کونسا گھٹیا پن ہوتا ہے۔۔۔مجھے آپ لوگوں پہ بھروسہ نہیں تھا اسی لیے یہ سب کرنا پڑا۔۔۔
                  دلاور نے منہ بسورتے تلخی سے کہا۔۔۔
                  " تم۔۔۔نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔اپنی۔۔۔بیٹی کی شادی۔۔۔ میں۔۔۔تت۔۔۔ تمہارے ساتھ ہرگز نہیں کروں گی۔۔۔د د۔۔۔دفعہ ہو جاؤ۔۔۔یہاں سے۔۔۔"
                  مہرالنساء سینے پہ ہاتھ رکھے اپنی تکلیف پہ قابو پاتے بدقت غصے سے بولیں۔۔۔مہرالنساء کی حالت دیکھ کر عینا فوراً انکی کمر سہلانے کے ساتھ انکو اٹھ کر اندر جانے کا بولنے لگی مگر وہ وہیں بیٹھنے پہ بضد رہیں۔۔۔
                  " ساسو ماں۔۔۔اوپر کا ٹکٹ کٹوانے کی اتنی جلدی کیوں ہو رہی ہے آپکو۔۔۔جب پتہ ہے کہ طبیعت خراب ہے تو چپ کر کے بیٹھی رہیں آرام سے ایک طرف۔۔۔اپنا نہیں تو اپنی بیٹیوں کا ہی کچھ خیال کر لیں۔۔۔"
                  دلاور نے مہرالنساء کے کندھے پی ہاتھ رکھتے فکر ظاہر کرتے بڑے نرم لہجے میں کہا۔۔۔عینا نے اپنی والدہ کے کندھے پہ دلاور کا رکھا ہاتھ زور سے جھٹکا تو دلاور نے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر اپنا ہاتھ فوراً پیچھے کیا اور ساتھ ہی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ اب نہیں رکھوں گا۔۔۔عینا اس کی اس حرکت پہ بل کھا کر رہ گئ۔۔۔
                  " اور آپ۔۔۔جاگیردار دار صاحب۔۔۔آپ کو لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں آج کے بعد اس گھر کے آس پاس بھی نہ تو مجھے آپ نظر آئیں نہ آپکے گھر کا کوئی فرد۔۔۔"
                  اب کے دلاور نے اپنا رخ صارم شاہ کی طرف کیا اور انتہائی سنجیدگی اور خشمگین لہجے میں کہا۔۔۔
                  " عینا۔۔۔۔ماں جی کو لیکر تم سب اندر جاؤ۔۔۔میں کرتا ہوں اس سے بات۔۔۔"
                  صارم شاہ کے پاس کھڑے احتشام شاہ نے ایک غصیلی نظر دلاور پہ ڈال کر عینا سے کہا۔۔۔مگر مہرالنساء کے انکار پر مجبوراً عینا کو وہیں کھڑے ہونا پڑا۔۔۔
                  " دیکھو دلاور تم بہت غلط کر رہے ہو۔۔۔جب اس گھر کا کوئی بھی فرد اس رشتے پہ راضی نہیں ہے تو تم کیوں زور زبردستی کر رہے ہو۔۔۔تمہیں 20 لاکھ چاہیے ناں۔۔۔تو مجھے کل شام تک کا ٹائم دو میں تمہیں 40 لاکھ دوں گا۔۔۔مگر تم ان لوگوں کی جان چھوڑ دو۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے نپے تلے لہجے میں دلاور سے کہا۔۔۔
                  " اور اس کے ساتھ میرے حصے کی ساری زمین۔۔۔بولو منظور ہے۔۔۔"؟
                  صارم شاہ نے دلاور کو مزید کا لالچ دیتے جلدی سے کہا۔۔۔
                  " نہیں منظور۔۔۔"
                  دلاور نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔
                  " ہم دونوں بھائیوں کے حصے کی ساری زمین اور 50 لاکھ نقد۔۔۔بولو منظور ہے۔۔۔"؟
                  احتشام شاہ نے کہا تو صارم شاہ نے تڑپ کر اپنے بھائی کی طرف دیکھا جو اسکی خوشیاں اسے دلانے کے لیے خود بھی کنگال ہونے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔صارم شاہ نے اسے اس بات سے روکنا چاہا تو احتشام شاہ نے اسے غصے سے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
                  " نہیں منظور۔۔۔"
                  دلاور نے انکی طرف مزاق اڑاتی نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
                  " میرا نام دلاور ہے۔۔۔دلاور ملک۔۔۔اور ملک اپنی ملکیت میں آیا جھاڑو کا تنکا بھی نہیں چھوڑتے۔۔۔کیا یہ معلوم نہیں ہے آپکو جاگیردار صاحب۔۔۔یہ تو پھر میری منگ کی بات ہے۔۔۔
                  آپ کے منہ سے جتنا سننا تھا سن لیا۔۔۔اب دوبارہ میری منگ کا نام لیا تو میں برداشت نہیں کروں گا۔۔۔"
                  دلاور نے انگشت شہادت احتشام شاہ اور صارم شاہ کی طرف کرتے وارن کرتے لہجے میں کہا اور ساتھ ہی اپنے ساتھ آئے ایک آدمی کو مخصوص اشارہ کیا تو وہ آدمی سر ہلا کر فوراً باہر نکل گیا۔۔۔
                  " اب آپ لوگ آ ہی گئے ہیں تو بیٹھ جائیے اور میرے نکاح میں شامل ہو کر منہ میٹھا کر کے جائیے گا۔۔۔"
                  دلاور نے صارم شاہ پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے کہا صارم شاہ نے پریشان ہو کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا تو احتشام شاہ نے اسے پرسکون رہنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اطمینان سے کھڑا ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔چند منٹ بعد دو آدمی ایک بوڑھے سے باریش بزرگ کو دونوں بازوؤں سے پکڑے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔
                  " آئیے مولوی صاحب۔۔۔بسم الّٰلہ کیجیے۔۔۔پہلے ہی نیک کام میں بہت دیر ہو گئ ہے۔۔۔"
                  دلاور نے مولوی صاحب پہ نظر پڑتے ہی صحن میں رکھی ایک خالی چئیر پہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔۔۔
                  اور ساتھ ہی برآمدے میں کھڑی عائلہ کا آگے بڑھ کر ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور اپنے ساتھ زبردستی گھسیٹنے کے سے انداز میں لے کر باہر صحن میں آ گیا۔۔۔عائلہ یوں اچانک اس کے ہاتھ پکڑنے پہ لرز کر رہ گئ اس نے فوراً ایک ہاتھ سے چادر میں اپنا چہرہ چھپایا۔۔۔اور اپنی سی کوشش کرتے روتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
                  " ہاتھ چھوڑو اس کا۔۔۔"
                  عینا نے فوراً آگے بڑھ کر دلاور کا راستہ روکتے غصے سے دلاور کا ہاتھ جھٹکنا چاہا۔۔۔مگر دلاور کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ ایک انگلی بھی نہ ہلا سکی۔۔۔دلاور نے غصے سے عینا کو گھورتے اس کو پیچھے کیا اور عائلہ کو ایک چئیر پہ بٹھا دیا۔۔۔
                  " سوری عائلہ جی۔۔۔جانتا ہوں جو ہو رہا اس میں آپکی مرضی نہیں ہے مگر یقین کریں کہ کچھ عرصے بعد میں جی جان سے " آپکی مرضی " بن جاؤں گا۔۔۔قسم الّٰلہ پاک کی۔۔۔
                  اس لیے رونا بند کریں اور جو ہو رہا اسے قبول کریں۔۔۔ اگر آپ نے کوئی بھی ڈرامہ کیا یا انکار کیا تو یہاں صرف آپکا اور میرا ہی نکاح نہیں ہوگا بلکہ عینا کا بھی ہوگا۔۔۔ میرے آدمی کے ساتھ۔۔۔جس کی تیاری میں کر کے آیا ہوں۔۔۔"
                  دلاور نے ذرا سا جھکتے ہوئے عائلہ کے کان میں تنبیہی انداز میں سرگوشی کی۔۔۔دلاور کی بات پہ عائلہ کانپ کر رہ گئ۔۔۔
                  رونے کے باعث سرخ سوجی ہوئی خوفزدہ نظروں سے عائلہ نے چہرہ اٹھا کر پہلے دلاور اور پھر عینا کی طرف دیکھا۔۔۔چہرہ اوپر کرنے سے عائلہ کے چہرے سے ہلکی سی چادر کھسکی تو ذرا فاصلے پہ دلاور کو عائلہ کے کان میں کھسر پسر کرتے اسے کینہ توز نظروں سے تکتے صارم شاہ کی نظریں عائلہ سے ٹکرائیں تو اس کی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر صارم شاہ کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔۔۔اس کا دل چاہا کہ ابھی کے ابھی دلاور کو زندہ زمین میں گاڑ دے۔۔۔اس نے بے بسی سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا اسے احتشام شاہ کے ایسے پرسکون کھڑا ہونے کی ہرگز سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔اور جو ہو رہا تھا وہ ہوتے دیکھنا اس کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔
                  " چلیں مولوی صاحب شروع کریں۔۔۔"
                  دلاور نے عائلہ کے پاس بیٹھتے مولوی سے کہا۔۔۔
                  تمہیں شرم نہیں آ رہی۔۔۔دیکھ نہیں رہے میری ماں کی کیا حالت ہے اور تمہیں نکاح کی سوجھ رہی ہے۔۔۔"
                  عینا نے مہرالنساء کی غیر ہوتی حالت پہ پریشان ہو کر کہا۔۔۔عائلہ کی نظر پڑی تو وہ بھی فوراً اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔۔۔
                  " چپ کر کے بیٹھی رہو۔۔۔یہ نکاح ہو جائے میں پھر خود ساسو ماں کو ہاسپٹل لے کر جاؤں گا۔۔۔اور رہی شرم کی بات تو اب تک شرم لحاظ ہی کیا تھا مگرتم لوگ مجھے دھوکا دینے چل پڑے۔۔۔"
                  دلاور نے خشک لہجے میں عینا سے کہا اور پھر عائلہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ واپس بیٹھنے کا کہ کر مولوی کو نکاح پڑھنے کا اشارہ کیا۔۔۔
                  " اتنی بھی کیا جلدی ہے دلاور ملک۔۔۔رک جاؤ ذرا۔۔۔ایک نظر اپنے باراتیوں پہ بھی ڈال لو۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے گرجدار آواز میں دلاور کی طرف دیکھتے استہزائیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔دلاور سمیت سب حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔اسی وقت کئ لوگ ہاتھ میں گنیں ، پسٹل پکڑے گھر کے اندر داخل ہوئے۔۔۔انھوں نے چاروں طرف سے دلاور اور گھر کے اندر موجود اسکے تمام آدمیوں کو گھیر لیا دلاور نے شعلہ بار نظروں سے احتشام شاہ اور صارم شاہ کی طرف دیکھا تھا جبکہ صارم شاہ کے چہرے پہ طمانیت بھری مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔عینا کے چہرے پہ بھی سکون کی ایک لہر آئی تھی اس نے پہلی بار مسکرا کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔بلیو جینز کے ساتھ کریم کلر کی شرٹ پہنے وہ عینا کا دل دھڑکا گیا۔۔۔اس نے اپنے دل کی زور زور سے ہوتی دھک دھک سے پریشان ہو کر فوراً نظریں نیچی کی تھیں کہ کہیں اسکی آنکھیں اس کے اندر کا بھید نہ کھول دیں۔۔۔
                  " عائلہ۔۔۔بیٹا آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔اور نہ اس شخص سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔۔۔اگر آپ مجھے اپنا بھائی سمجھیں تو میں ابھی اسی وقت آپکی والدہ اور باقی سب کی خوشی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپکا نکاح صارم شاہ کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔۔۔کیا آپکو قبول ہے۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے عائلہ کے پاس آ کر اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
                  " بلکل قبول ہے۔۔۔قبول ہے۔۔۔"
                  عائلہ کے جواب دینے اور کچھ بھی کہنے سے پہلے عینا نے پرجوش لہجے میں عائلہ کے پاس کھڑے ہو کر کہا۔۔۔
                  " پلیزززز۔۔۔۔۔تھوڑا صبر کر لیں۔۔۔پہلے عائلہ کا نکاح ہو لینے دیں پھر آپکی باری بھی آ جائے گی۔۔۔"
                  احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے عینا کا سر تا پیر جائزہ لیتے ذومعنی لہجے میں اس پہ ایک مسکراہٹ اچھالتے کہا۔۔۔احتشام شاہ کی بات پہ عینا کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔۔۔وہ خجل سی ہو کر اپنا سر جھکا گئ۔۔۔شدید تناؤ زدہ ماحول میں پہلی بار صارم شاہ کے چہرے پہ بھی بھرپور مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔اس نے تشکر بھری نظروں سے اپنے بھائی کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
                  عینا نے عائلہ کے سامنے بیٹھتے اس کی ہمت بندھاتے اس کو ہاں میں جواب دینے کو کہا۔۔۔مگر عائلہ یونہی بت بنی لب سیئے بیٹھی رہی۔۔۔
                  اس سے پہلے کہ عائلہ کچھ کہتی دلاور کے بہت سے آدمی پے در پے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔انھوں نے پیچھے سے آ کر احتشام شاہ کے سب آدمیوں کی کنپٹی پہ پسٹل لگا دئیے۔۔۔
                  " کیسا لگا سرپرائز۔۔۔جاگیردار صاحب۔۔۔آپ نے جو کھیل کھیلا۔۔۔میں اس کھیل کا بہت پرانا کھلاڑی ہوں۔۔۔آپکو یہاں دیکھ کر مجھے اندازہ تھا کہ بات بگڑ بھی سکتی ہے اور چونکہ یہ آپ کا علاقہ تھا اس لیے میں پوری تیاری کر کے آیا تھا۔۔۔
                  " آپییییی۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔صارم بھائی۔۔۔۔"
                  عائلہ کا نازک وجود اذیتوں کے انبار سہتے سہتے اب جواب دے گیا تھا۔۔۔اپنا تماشہ بنتے دیکھ کر اس کی روح تک چھلنی ہو چکی تھی اپنے زخمی وجود اور زخمی دل کے ساتھ وہ اب تھک گئ تھی اس کے اعصاب اس کا ساتھ چھوڑ گئے تو وہ وہیں چئیر پہ بیٹھی بیٹھی زمین پہ لڑھک گئ۔۔۔
                  دل میں ہوتے درد کے طوفان سے لڑتے لڑتے مہرالنساء کا نڈھال وجود کب سے زمین بوس ہونے کو تیار ہو رہا تھا مگر وہ اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے پھر سے خود کو سنبھال لیتیں احتشام شاہ اور صارم شاہ کی موجودگی مسلسل انکے اندر ہمت و حوصلہ بڑھانے کے ساتھ حالات سے لڑنے کی وجہ بن رہی تھی مگر عائلہ کو نیچے گرتے دیکھ کر اور اتنی شدید گھمبیر صورت حال نے انکو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔بات اس حد تک بگڑ جائے گی انکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔اچانک دل میں اٹھتے تیز درد کی وجہ سے انکے منہ سے ایک درد ناک آواز خارج ہوئی تھی اور ساتھ ہی انکی گردن ڈھلک گئ تھی۔۔۔
                  اپنی ماں اور عائلہ کو اس حال میں دیکھ کر عینا منہ پہ ہاتھ رکھ کر زور سے چلائی تھی پھر اس نے بے اختیار صارم شاہ کو پکارا تھا۔۔۔صارم اور احتشام شاہ کے ساتھ دلاور نے بھی گھبرا کر عائلہ اور مہرالنساء کی طرف دیکھا تھا۔۔۔باقی سب لوگ بھی کھڑے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔۔۔
                  " صارم عائلہ کو اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔"
                  احتشام شاہ تیزی سے آگے بڑھا تھا اور مہرالنساء کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر چلاتے ہوئے صارم شاہ سے بولا تھا اور ساتھ ہی دوڑنے کے سے انداز میں باہر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔
                  " تم رہنے دو۔۔۔میں اٹھا لوں گا اسے۔۔۔"
                  صارم شاہ عائلہ کو اٹھانے لگا تو دلاور نے اس کا بازو پکڑ کر اپنا حق جتاتے اسے روکتے ہوئے کہا۔۔۔صارم شاہ نے پوری قوت سے دلاور کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
                  " صارم شاہ یہ میری منگ ہے۔۔۔اور میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی غیر مرد اسے ہاتھ بھی لگائے۔۔۔اس لیے دفعہ ہو جاؤ پرے۔۔۔"
                  دلاور نے غصے سے کہ کر عائلہ کو پھر سے اٹھانے کے لیے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو صارم شاہ نے اس کو زور سے پیچھے کو دھکا دیا۔۔۔
                  " منگ ہے ناں۔۔۔منکوحہ تو نہیں ہے ناں۔۔۔اور منگ تو یہ میری بھی ہے۔۔۔اس کی ماں نے اس کا ہاتھ میرے یاتھ میں دیا ہے۔۔۔اور گواہ یہ عینا ہے۔۔۔"
                  صارم شاہ نے دلاور کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے عینا کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔
                  " ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔تم لوگ جو مرضی کہ لو۔۔۔عائلہ صرف میری ہے۔۔۔اسکی ماں کیا اس کا باپ بھی چاہے تو اب اپنی بات سے نہیں مکر سکتا۔۔۔باقاعدہ اشٹام پیپر پہ دستخط کیے ہیں اس کے باپ نے۔۔۔"
                  دلاور ایک زوردار قہقہ لگاتے تنفر بھرے لہجے میں بولا اور عائلہ کی طرف بڑھا۔۔۔
                  " تمہارے اشٹام پیپر کی تو ایسی کی تیسی دلاور ملک۔۔۔ دعا کرو کہ ان کو کچھ نہ ہو۔۔۔
                  اگر خالہ یا عائلہ میں سے کسی کو بھی کچھ ہوا ناں تو یاد رکھنا اب تم شاہوں کا وہ روپ دیکھو گے جو آج سے پہلے کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔۔۔"
                  صارم شاہ نے دلاور کو گریبان سے پکڑ کر انتہائی غصیلے لہجے میں کہتے پیچھے کو دھکا دیتے کہا۔۔۔دلاور نے خود کو سنبھالتے بپھرتے ہوئے صارم شاہ کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو شرجیل نے دونوں کے بیچ میں آتے انکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر پوری قوت سے انکو الگ کیا۔۔۔
                  " دماغ خراب ہو گیا ہے تم لوگوں کا۔۔۔اگر عائلہ کی قسمت میں بچنا ہوا بھی ناں تو تم لوگوں کے اس جھگڑے کی نظر ہو کر نہیں بچے گی۔۔۔اس وقت اسے ہاسپٹل لے کر جانا ضروری ہے نہ کہ تم دونوں کا اس پہ اپنی ملکیت جتانا۔۔۔"
                  شرجیل نے انتہائی غصے سے کہتے خود آگے بڑھ کر تیزی سے عائلہ کو اٹھایا اور باہر کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتا گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔
                  ایک سائیڈ پہ چپ چاپ کھڑے تماشہ دیکھتے رشید احمد نے ان لوگوں کے پیچھے جانے کے لیے قدم اٹھائے تو اسے زور کا چکر آیا وہ اپنا سر پکڑ کر وہیں زمین پہ بیٹھتا چلا گیا۔۔۔


                  اکرام صاحب اپنے روم میں بیٹھے قاسم سے اس کے آئندہ کے پلان ڈسکس کر رہے تھے جبکہ فرحین بیگم فون پہ اپنی کسی جاننے والی کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھیں کہ ایمان ان کے روم میں داخل ہوئی۔۔۔اور اپنے بابا کے پاس بیٹھ کر فرحین بیگم کے کال ڈسکنیکٹ کرنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
                  " ماما۔۔۔رکیں ذرا۔۔۔ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
                  فرحین بیگم فون آف کرنے کے بعد اٹھ کر بوتیک جانے کے لیے تیار ہونے کو چلیں تو ایمان نے انکے روم میں آتے فوراً پیچھے سے ان کو آواز دیتے چہرے پہ سنجیدہ تاثرات لیے کہا۔۔۔اکرام صاحب اور قاسم نے حیران ہو کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔وہ بہت کم اتنے سنجیدہ موڈ میں ہوتی تھی اور ایسا موڈ اس کا تبھی ہوتا تھا جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر چکی ہوتی تھی اور گھر والوں کو بس اطلاع دینا ہوتی تھی۔۔۔
                  " جی بیٹا جی بولیں کیا بات ہے۔۔۔"
                  فرحین بیگم نے مڑ کر اس کی طرف دیکھتے محبت سے کہا۔۔۔جب سے ان کی من پسند جگہ پہ ایمان کا رشتہ طے ہوا تھا وہ ایمان کی اب کسی بھی بات سے انکار نہیں کرتی تھیں۔۔۔اور باقی بچوں کی نسبت اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنے لگی تھیں۔۔۔
                  " امی جان میں سوچ رہی تھی کہ اب سے فاطمہ کچن میں کام کرنے کی بجائے میرے ساتھ بوتیک پہ کام کرے گی۔۔۔"
                  ایمان نے گویا ان کے سر پہ بم پھوڑا تھا۔۔۔
                  " کیاااااا۔۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔کچن کون دیکھے گا پھر۔۔۔اور یہ بیٹھے بٹھائے کیا سمائی ہے تمہارے دماغ میں۔۔۔"؟
                  فرحین بیگم نے جزبز ہوتے اپنے غصیلے لہجے کو با مشکل کنٹرول کرتے ایمان سے کہا۔۔۔
                  " سمائی تو کافی عرصے سے تھی مگر آپ سے ذکر آج کیا ہے۔۔۔ہماری بوتیک شہر کی ایک فیمس بوتیک ہے۔۔۔دن بدن کام اور ڈیمانڈز بڑھتی جا رہی ہیں۔۔۔ہمیں نیو سٹاف تو رکھنا ہی ہے۔۔۔فاطمہ ماشاءالّٰلہ پڑھی لکھی ہے اور ڈیلنگ میں بھی ایکسپرٹ ہے تو میرا خیال ہے فاطمہ کو کچن کی بجائے ہمارے ساتھ ہونا چاہیے۔۔۔رہی بات کہ کچن کون سنبھالے گا تو اس کے لیے نیوزپیپر میں ایڈ دے دیں۔۔۔کسی کمپنی سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ہمیں کوئی بھی اچھا کک ایزیلی مل جائے گا۔۔۔جو رضوانہ بوا کی ہیلپ کر دیا کرے گا۔۔۔
                  ایمان نے تفصیلی جواب دیا۔۔۔
                  " میرا خیال ہے کہ ایمان ٹھیک کہ رہی ہے۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے ایمان کی بات کی تائید کرتے کہا۔۔۔
                  " میرا ووٹ بھی ایمان آپی کی طرف ہے۔۔۔"
                  قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                  " یک نہ شد تین شد۔۔۔جو مرضی کرو۔۔۔پہلے کہاں اس گھر میں میری چلتی ہے۔۔۔"
                  فرحین بیگم نے منہ بسورتے ناراضگی سے کہا۔۔۔
                  " آپ کوئی ماننے والی بات کریں تو سہی بیگم 30 سال سے ہم اسی انتظار میں ہیں کہ آپ کچھ ایسا کہیں کچھ ایسا کریں کہ ہمارا آپ پہ قربان ہونے کو دل کرے۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
                  " آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔آپ کا مطلب ہے کہ میری ہر بات غلط ہوتی ہے۔۔۔ہر کام ناجائز ہوتا ہے۔۔۔"
                  فرحین بیگم کا پارہ یکدم ہائی ہوا تھا وہ غصے سے بھڑکتے ہوئے اکرام صاحب کے سامنے کھڑی ہو کر دونوں ہاتھ پسلیوں پہ رکھتے بولیں۔۔۔
                  " پلیزززز۔۔۔پلیززز ماما بابا۔۔۔ ڈونٹ فائٹ اگین۔۔۔"
                  ایمان نے ہاتھ جوڑتے جھنجلا کر کہا۔۔۔
                  " اوکے۔۔۔۔میں بھی ایک بات سوچ رہا تھا کہ اب سے رضوانہ بوا کچن میں کام نہیں کریں گی۔۔۔اب اکثر انکی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔۔۔اس لیے ہمیں فل ٹاٹم پہ کوئی اور کک رکھنا ہوگا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے نے پرسکون لہجے میں کہا مگر فرحین بیگم کو تو مانو پتنگے لگ گئے۔۔۔
                  " ایسا کریں کہ یہ گھر بھی ان ماں بیٹی کے نام کردیں ہم کسی جھونپڑی میں جا کے رہ لیتے ہیں۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایسا کیا جادو کیا ہے ان ماں بیٹی نے آپ کے اوپر جو آپ کو ان کے سوا کوئی اور نظر نہیں آتا۔۔۔اور بھی ملازم ہیں گھر میں انکی تو آپکو کبھی ایسے فکر نہیں ہوئی۔۔۔اگر یہی سب کرنا تھا تو ان کے لیے اسپیشل کوارٹر بنانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔سرونٹ کوارٹر گھر کے سرونٹس کے لیے ہوتے ہیں ناں کہ بے گھر بے سہارا لوگوں کے لیے۔۔۔اگر رضوانہ بوا نے کچن میں کام نہیں کرنا تو ان سے کہیں کہ جہاں سے آئی ہیں وہیں واپس چلی جائیں۔۔۔اس کوارٹر میں وہی رہے گا جو۔۔۔۔"
                  " بس۔۔۔۔فرحین بیگم بس۔۔۔اب ایک اور لفظ مزید نہیں۔۔۔جس بات کے بارے میں پتہ نہ ہو اس کے بارے میں مت بولا کریں۔۔۔رضوانہ بوا کہیں نہیں جائیں گی اور نہ آپ ان سے اب سے کوئی بھی کام کہیں گی۔۔۔آپ یہ سمجھ لیں کہ اس گھر میں وہ میری مہمان ہیں اور جب تک وہ حیات ہیں وہ یہیں رہیں گی۔۔۔اگر ان کے ساتھ آپ نے کسی قسم کا مس بیہیو کیا تو میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے انتہائی درشت لہجے میں کہا۔۔۔فرحین بیگم اکرام صاحب کو اس قدر سیخ پا ہوتے دیکھ کر ہکا بکا ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگیں اور چاہ کر بھی منہ سے ایک لفظ نہ نکال پائیں۔۔۔قاسم کے لیے بھی اپنے باپ کا یہ روپ بلکل نیا تھا وہ اتنا تو جانتا تھا کہ رضوانہ بوا کو وہ خصوصی اہمیت دیتے ہیں مگر وہ اس حد تک انکے بارے میں سوچتے ہیں ہرگز اندازہ نہیں تھا۔۔۔جبکہ ایمان اسے اپنے بابا کی رحمدلی اور نرم دلی سمجھ رہی تھی۔۔۔اکرام صاحب ایسے ہی تھے لوگوں کے کام آنا انکی مدد کرنا اور ہر ممکن حد تک لوگوں میں آسانیاں بانٹنے کی کوشش کرنا۔۔۔اس لیے اسے اپنے بابا کے رویے پہ کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی تھی۔۔۔
                  اور بیٹا جی آپ کا یہ فیصلہ مجھے بہت اچھا لگا ہے اس طرح سے رضوانہ بوا اور انکی بچیوں کو یہاں رہنے پہ اعتراض نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ ان ایزی فیل کریں گی اور نہ انکی عزت نفس مجروح ہوگی۔۔۔
                  ایمان بیٹا آپ ہر روز مجھے حیران کر دیتے ہو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے مگر آپ اس خیال کو حقیقت کا روپ دے دیتے ہو۔۔۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں میری کونسی ایسی نیکی ہے جس کے بدلے میں انعام کے طور پہ الّٰلہ نے مجھے آپ جیسی بیٹی عطا کی۔۔۔بہت اچھا فیصلہ ہے آپ کا۔۔۔اور رضوانہ بوا بھی یقیناً بہت خوش ہوں گی۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے اپنا رخ اب ایمان کی طرف کرتے اس کو زور سے گلے لگایا اور سر پہ شفقت سے بوسہ دیتے نم آنکھوں سے کہا۔۔۔
                  " بابا آپ فکر مت کریں آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا رضوانہ بوا اب سے کچن میں کام نہیں کریں گی میں سہولت سے موقع دیکھ کر ان سے بات کر لوں گی۔۔۔"
                  ایمان نے پیچھے ہوتے ہلکے سے مسکرا کر کہا۔۔۔
                  " ایک بات اور بیٹا۔۔۔کہ جتنی رضوانہ بوا اور فاطمہ کی سیلری ٹوٹل ملا کر ہوتی تھی اس سے تھوڑی بڑھا کر فاطمہ کو سیلری دینا جتنی آپ مناسب سمجھو۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے تاکیدی لہجے میں کہا۔۔۔
                  " مگر بابا اس سے باقی ورکرز کو اعتراض ہوگا۔۔۔"
                  ایمان نے کہا۔۔۔
                  " تو کوئی مسلہ نہیں جو پرانے ورکرز ہیں انکو پرانی بوتیک میں ہی رہنے دو۔۔۔جو آپ نیو بوتیک کھول رہے ہو اس میں سارا سٹاف نیو رکھو اور فزطمہ کو وہاں ایز آ سپروائزر رکھ لو۔۔۔نیو سٹاف میں کوئی اپنا قابل بھروسہ بندہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے فاطمہ سے بہتر کوئی نہیں۔۔۔ایسے میں اس کی سیلری زیادہ ہونے پہ کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوگا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔انکی بات پہ فرحین بیگم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں پھر غصے سے پیر پٹختی روم سے نکل گئیں۔۔۔
                  " ٹھیک ہے بابا جیسے آپ کا حکم۔۔۔ویسے بابا مجھے ایسا کیوں لگ رہا کہ آپ یہ سب کسی بات کو ذہن میں رکھ کر کر رہے ہیں۔۔۔میرا مطلب آپکے ذہن میں فاطمہ کو لے کر کوئی پلان ہے۔۔۔"
                  ایمان نے مسکراتے ہوئے کریدتی نظروں سے بغور اکرام صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
                  " ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔بہت شارپ ہے میرا بچہ۔۔۔ہممممم۔۔۔۔پلان تو ہے۔۔۔مگر وہ ابھی نہیں بتاؤں گا۔۔۔"
                  اکرام صاحب نے ایمان کے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے پہ کھل کر ہنستے ہوئے اسکے سر پہ ایک ہلکی سی چپت لگاتے کہا۔۔۔
                  " اوکے۔۔۔میں ویٹ کروں گی۔۔۔"
                  ایمان نے بھی مسکرا کر کہا اور روم سے باہر نکل گئ۔۔۔

                  " یہ کیا ہو رہا ہے جناب۔۔۔"
                  ایمان نے فاطمہ کے راستے میں حائل ہوتے ہنستے ہوئے کہا جو ڈائینگ ٹیبل پہ رکھے ناشتے کے سب برتن باری باری اٹھا کر انکو صاف کرنے کے لیے سنک میں رکھ رہی تھی۔۔۔فاطمہ اس کے طرز تخاطب پہ حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
                  " کیا ہو رہا ہے۔۔۔وہی جو روز کرتی ہوں۔۔۔"
                  فاطمہ نے حیران نظروں سے ایمان کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
                  " ہممممم۔۔۔۔سامان سیٹ ہو گیا سارا۔۔۔کوئی دقت تو نہیں۔۔۔"
                  رضوانہ بوا کچن سے نکل کر انکے پاس آ کر کھڑی ہوئیں تو ایمان نے اپنے چہرے کا رخ انکی طرف کرتے پوچھا۔۔۔
                  " نہیں بیٹا کوئی پریشانی نہیں ہے اور سامان بھی سب سیٹ ہو گیا ہے۔۔۔
                  رضوانہ بوا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                  "میرے پاس تمہارے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔۔۔"
                  ایمان نے تجسس پیدا کرتے فاطمہ سے کہا۔۔۔
                  " گڈ نیوز۔۔۔۔۔"
                  فاطمہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
                  " گڈ نیوز یہ ہے کہ۔۔۔آپکی ترقی ہو گئ ہے اور اب سے آپ کچن میں نہیں بلکہ میرے ساتھ بوتیک میں میرا ہاتھ بٹایا کریں گی وہ بھی ایز آ سپروائزر۔۔۔"
                  ایمان نے خوشدلی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                  " واٹ۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔امی جان اکیلی کیسے کچن دیکھا کریں گی۔۔۔"
                  فاطمہ نے پریشانی سے رضوانہ بوا کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
                  " رضوانہ خالہ کچن میں کام نہیں کریں گی۔۔۔بلکہ ہم نیا کک رکھیں گے یہ بابا کا حکم ہے۔۔۔"
                  ایمان پرسکون لہجے میں بولی۔۔۔
                  " بیٹا کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئ ہے۔۔۔"
                  رضوانہ خاتون نے پریشان ہو کر کہا۔۔۔
                  " ہرگز نہیں خالہ۔۔۔یہ ہم اس لیے کہ رہے ہیں کہ آپکی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔۔۔تو بابا کا خیال ہے کہ اب آپکو آرام کرنا چاہیے۔۔۔اور فاطمہ کی مجھے وہاں ضرورت ہے۔۔۔ہم نے جو نیو بوتیک کھولی ہے وہاں پہ سارا سٹاف نیا ہوگا تو ایسے میں فاطمہ کے سوا میں کسی پہ بھروسہ نہیں کرسکتی۔۔۔لیکن اگر فاطمہ کا دل نہیں مانتا تو پھر میں مجبور نہیں کروں گی۔۔۔"
                  ایمان نے ساری بات کلئیر کرتے لاسٹ میں ایموشنلی طور پہ بلکیک میل کرتے افسردگی سے کہا۔۔۔
                  " نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔بلکہ سچ میں بہت خوشی ہو رہی ہے۔۔۔لیکن امی جان۔۔۔ایسا کرتے ہیں جب تک نیو کک کا انتظام نہیں ہوتا میں تب تک میں اور امی جان کچن دیکھ لیتے ہیں۔۔۔جیسے ہی کک کا انتظام ہو جائے گا میں بوتیک پہ کام شروع کردوں گی۔۔۔"
                  فاطمہ نے کہا۔۔۔
                  " ہمممم۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ابھی سٹاف رکھنے میں بھی دو تین دن تو لگ ہی جانے ہیں تب تک امید ہے کہ کک بھی مل جائے گا۔۔۔"
                  ایمان نے ہامی بھرتے کہا۔۔۔


                  Comment


                  • #69

                    Episode , 46 #

                    " ڈاکٹرررر۔۔۔۔ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔۔جلدی۔۔۔۔"
                    احتشام نے مہرالنساء کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ لٹا دیا تھا فجر انکا سر اپنی گود میں رکھے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔جبکہ صارم شاہ نے اپنے آدمیوں میں سے ایک آدمی کی گاڑی لے کر اس میں عائلہ کو لٹا دیا اس کے ساتھ عینا پچھلی سیٹ پہ عائلہ کا سر گود میں رکھ کے بیٹھ گئ تھی۔۔۔
                    احتشام شاہ رش ڈرائیونگ کرتا مہرالنساء اور عائلہ کو اسی ہاسپٹل میں لے کر آیا تھا جہاں پہلے مہرالنساء اور اجالا ایڈمٹ رہ چکی تھیں۔۔۔
                    یہ پرائیویٹ ہاسپٹل گاؤں کے پاس ہی پڑتا تھا۔۔۔جس میں تقریباً ہر طرح کی سہولت موجود تھی مگر ایکسپینسو ہونے کی وجہ سے گاؤں کا غریب غرباء طبقہ عام سے معمولی مسائل کے لیے ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔۔۔ہاسپٹل کے گیٹ کے سامنے گاڑی روک کر احتشام اور صارم شاہ تیزی سے نیچے اترے اور مہرالنساء اور عائلہ کو اپنے اپنے بازوؤں میں اٹھائے دوڑتے ہوئے ہاسپٹل میں تیزی سے داخل ہوئے۔۔۔سامنے سے آتی چند نرسز پہ احتشام شاہ اور صارم شاہ کی نظر پڑی تو وہ اونچی آواز میں چلاتے ہوئے بولے۔۔۔انکے پیچھے پیچھے احتشام کے بلائے گئے اس کے آدمی بھی ہاتھوں میں ویپنز پکڑے داخل ہوئے۔۔۔یکے بعد دیگرے دلاور بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ ہاتھ میں گنز پکڑے ہاسپٹل میں داخل ہوا تو پورے ہاسپٹل میں بھگڈر مچ گئ ۔۔۔
                    رات کے 8 بجے جبکہ ہر طرف سناٹا پھیل چکا تھا۔۔۔ایسے میں ہاسپٹل میں اسلحے سمیت لوگوں کو گھستے دیکھ کر
                    ہاسپٹل کے سارے عملے اور وہاں پہ ایڈمٹ لوگ اور انکے ساتھ آئے گارڈیئنز میں خوف و ہراس پھیل گیا۔۔۔پہلے تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی سب سمجھے کہ ہاسپٹل کو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا ہے مگر پھر دوسرے لمحے جیسے ہی سب کی نظر احتشام شاہ ، صارم شاہ اور پھر روتی ہوئی عینا سے ہوتی ہوئی مہرالنساء اور عائلہ کے بے ہوش وجود پہ پڑی جن کو احتشام شاہ اور صارم شاہ نے اسٹریچر پہ لٹا دیا تھا اور شدید پریشان لہجے میں ڈاکٹرز کو پکار رہے تھے تو انکو سارے معاملے کی سمجھ آئی۔۔۔ہاسپٹل کے ایک سینیئر ڈاکٹر جن کے زیر علاج مہرالنساء اور اجالا پہلے بھی رہ چکی تھیں احتشام شاہ اور صارم شاہ کو پہچانتے انکو تسلی دے کر فوراً چند نرسز کو اشارہ کرتے تیزی سے آگے بڑھے اور وارڈ بوائے سے کہ کر اسٹریچر کو دھکیلتے ایمرجینسی روم کی طرف بڑھے۔۔۔
                    " پلیز سر ، اپنے آدمیوں سے کہیں کہ وہ اپنے تمام اسلحہ سمیت ہاسپٹل سے باہر نکل جائیں تمام لوگ خوفزدہ ہو رہے ہیں۔۔۔"
                    ہاسپٹل کے ہیڈ نے احتشام شاہ اور صارم شاہ کی رعب دار شخصیت اور انکے ساتھ اسلحے سمیت آئی پوری فوج سے دبتے ہوئے ان کے پاس آ کر ملتجی لہجے میں کہا جو اضطرابی کیفیت میں ایمرجنینسی وارڈ کے باہر پشت پہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے احتشام شاہ نے ایک نظر اپنے تمام آدمیوں کی طرف دیکھا اور پھر سر کے ہلکے اشارے سے اپنے تمام آدمیوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ سب کے سب فوراً ہاسپٹل سے باہر نکل کر کھڑے ہو گئے۔۔۔ان کے باہر نکلتے ہی دلاور نے بھی اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو وہ بھی باہر چلے گئے۔۔۔
                    " پلیززز پریشان نہ ہوں الّٰلہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔آپ الّٰلہ پہ یقین رکھیں۔۔۔اور دعا کریں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے عینا کو ایمرجینسی روم ڈور پہ نظریں گڑائے بے آواز روتے دیکھ کر اس کے پاس کھڑے ہو کر نرم لہجے میں کہا۔۔۔عینا نے پل کی پل اپنی لال ہوتی نظریں اٹھا کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا اور پھر قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی۔۔۔
                    " میرا خیال ہے کہ ماما کو ساری سچوئیشن سے آگاہ کردیں۔۔۔وہ پریشان ہو رہی ہوں گی۔۔"
                    فجر نے احتشام شاہ اور صارم شاہ کی طرف دیکھتے فکرمندی سے کہا۔۔۔تو احتشام شاہ سر ہلاتے پھر موبائل پہ نمبر ڈائل کرنے لگا۔۔۔
                    " عینا آؤ ادھر بیٹھ جاتے ہیں ایسے کھڑی رہو گی تو ایسا نہ ہو کہ تمہاری طبیعت بھی خراب ہو جائے۔۔۔"
                    فجر نے عینا کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے سامنے دیوار کے ساتھ بیٹھنے کے لیے رکھے بینچ کی طرف اشارہ کرتے فکرمندی سے کہا۔۔۔
                    " صارم۔۔۔بابا کو سب خبر مل چکی ہے۔۔۔وہ فوراً گھر پہنچنے کا کہ رہے ہیں۔۔۔میں گھر سے ہو کر آیا۔۔۔اور پلیز میری غیر موجودگی میں دلاور سے الجھنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔خود پہ کنٹرول رکھنا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے ہائمہ خاتون سے بات کرنے کے لیے انکے نمبر پہ کال ملائی تو اسکی کال ہائمہ خاتون کے موبائل پہ شاہ سائیں نے پک کی۔۔۔اور فوراً گھر پہنچنے کا حکم دیا۔۔۔اس لیے وہ صارم شاہ کو کچھ ہدایات دے کر اور شرجیل کو ایک سائیڈ پہ بلا کر صارم کا دھیان رکھنے کا کہ کر ہاسپٹل سے نکل گیا۔۔۔دلاور کے وہاں موجود ہونے کی وجہ سے اور جو حالات درپیش آئے انکی وجہ سے اسے ڈر تھا کہ صارم کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لے جسکی وجہ سے حالات مزید بگڑ جائیں اسی وجہ سے اس نے شرجیل کو صارم کا نہ صرف خیال رکھنے بلکہ کسی بھی خراب صورت حال میں فوراً اسے بتانے کی تاکید کرکے چلا گیا۔۔۔
                    " ڈاکٹر صاحب۔۔۔کیسی کنڈیشن ہے اب انکی۔۔۔"
                    تھوڑی دیر بعد ایک ڈاکٹر عجلت میں باہر آیا تو صارم شاہ اور دلاور نے تیزی سے آگے بڑھ کر پوچھا۔۔۔عینا اور فجر بھی امید بھری نظروں سے اچھی خبر سننے کے لیے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگیں۔۔
                    " دیکھیں فلحال دونوں کی کنڈیشن بہت کریٹیکل ہے ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔۔۔مگر لڑکی کی ماں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔۔۔آپ دعا کریں۔۔۔اب کوئی معجزہ ہی ان کو بچا سکتا ہے۔۔۔"
                    ڈاکٹر پیشہ ورانہ انداز میں کہ کر آگے بڑھ گیا۔۔۔صارم شاہ نے اپنے پاس کھڑے دلاور پہ ایک غصیلی نگاہ ڈالی تو وہ بھی صارم شاہ کو گھور رہا تھا۔۔۔
                    ڈاکٹر کی بات سن کر عینا کے منہ سے بے ساختہ سسکی خارج ہوئی تھی وہ منہ پہ ہاتھ رکھے وہیں بنچ پہ ڈھے گئ۔۔۔اس کے رونے میں مزید روانی آئی تھی۔۔۔فجر بھی رنجیدہ ہو گئ عینا کو اپنے گلے سے لگاتے اس کی کمر سہلاتے وہ اسے چپ کروانے کے ساتھ تسلی دینے لگی۔۔
                    " ایک گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد ایمر جینسی روم کا دروازہ کھلا اور وارڈ بوائے عائلہ اور مہرالنساء کے بے ہوش وجود کو سٹریچر پہ ڈالے باہر نکلے۔۔۔
                    صارم شاہ کے ساتھ فجر ، عینا ، شرجیل اور دلاور تیزی سے انکی طرف بڑھے مگر ڈاکٹر نے سب کو فوراً پیچھے ہونے کا کہ دیا۔۔۔وارڈ بوائے سٹریچر کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔۔۔
                    " ڈاکٹر صاحب۔۔۔کیسی طبیعت ہے انکی۔۔۔کہاں لے کر جا رہے ہیں انکو۔۔۔"
                    دلاور جو کہ ایمرجینسی روم کے ڈور کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا سب سے پہلے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
                    " آپکی تعریف۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے حیران ہو کر دلاور سے پوچھا۔۔۔اس سے پہلے جب اجالا اور مہرالنساء ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھیں تو اس نے دن رات صارم شاہ کے انکے لیے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا تھا جبکہ دلاور کو آج پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔
                    " وہ لڑکی میری منگ ہے جی۔۔۔"
                    دلاور نے صارم شاہ کی طرف جتاتی نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
                    " میرے ساتھ میرے روم میں آئیے۔۔۔ وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔"
                    ڈاکٹر کہ کر آگے بڑھ گیا۔۔۔صارم شاہ اور دلاور بھی ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔۔۔اس وقت صارم شاہ دلاور سے ہرگز نہیں الجھنا چاہتا تھا اس لیے اس کی بات پہ ضبط کر کے رہ گیا۔۔
                    " سب سے پہلے تو مجھے یہ بتائیے کہ کیا گھر میں کوئی مسلہ ہوا ہے۔۔۔میرا مطلب دونوں پیشنٹس کی حالت تو یہی کہ رہی ہے۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے سیدھا صارم شاہ کی طرف اپنا رخ موڑتے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
                    " نہیں جی سب ٹھیک ہے۔۔۔کوئی مسلہ نہیں ہوا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ فوراً سے بیشتر دلاور نے جواب دیا۔۔۔صارم شاہ اس کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔
                    " ہمممممم۔۔۔۔۔دیکھیے ہم نے پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ مہرالنساء کا ہارٹ اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ کوئی صدمہ سہ سکیں۔۔۔مگر آپ لوگوں نے میری بات پہ بلکل بھی دھیان نہیں دیا۔۔۔پے در پے اٹیک کی وجہ سے ان کا بچ جانا اس وقت کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ ہم ان کی زندگی سے مایوس ہو چلے تھے مگر الّٰلہ نے اپنا کرم کرتے ہوئے ان کی سانسیں تو لوٹا دی ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔
                    " مگر کیا ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔آپ نے ابھی کہا کہ الّٰلہ نے اپنا کرم کیا۔۔۔۔"
                    صارم شاہ جو اطمینان سے ڈاکٹر کی بات سن رہا تھا آخری لفظ پہ بے قرار ہو کر پریشانی سے بولا۔۔۔
                    " مہرالنساء خاتون کومہ میں جا چکی ہیں۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے ایک گہرا سانس لیتے دلاور اور صارم شاہ پہ ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " کیااااااا۔۔۔۔یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔دیکھو ڈاکٹر جیسے بھی ہو آپ ان کو ٹھیک کرو۔۔۔اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے کرو۔۔۔مجھے وہ ہر حال میں بلکل ٹھیک چاہیں۔۔۔"
                    دلاور ایک دم چلا کر غصے سے بولا۔۔۔
                    " دیکھیں اب بات ہمارے ہاتھ سے نکل گئ ہے۔۔۔آپ بے شک ان کو کسی اور اچھے ہاسپٹل میں دکھا لیں۔۔۔ہم لوگ ان کو بس میڈیسن دے سکتے ہیں اب وہ ایک دن میں ہوش میں آتی ہیں یا دس دن میں یا ساری عمر ایسے ہی رہتی ہیں ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔۔۔
                    انکی کنڈیشن سے میں نے آپ لوگوں کو پہلے بھی آگاہ کیا تھا کاش کہ آپ لوگوں نے میری بات پہ توجہ دی ہوتی تو یہ نوبت نہیں آتی۔۔۔اور صرف مہرالنساء ہی نہیں بلکہ انکی بیٹی بھی کسی گہرے صدمے سے گزری ہیں شدید ڈپریشن انزائٹی کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاؤن بھی ہوسکتا تھا۔۔۔مگر بروقت ٹریٹمنٹ کی وجہ سے اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔۔۔
                    آپ لوگ چاہیں کچھ بھی کہیں مگر ہم ڈاکٹر ہیں ہم پیشنٹ کی حالت دیکھ کر ہی جان جاتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔۔۔
                    ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہتے ایک جتاتی نظر دونوں پہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " ڈاکٹر صاحب کیا مہرالنساء خالہ کسی قسم کا ریسپونس نہیں دے رہیں۔۔۔"
                    صارم نے تھکے ہارے لہجے میں پوچھا۔۔۔
                    " نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔وہ صرف اپنے باڈی پارٹ کو اپنی مرضی سے ہلا نہیں سکتیں مگر وہ سب محسوس کرتی ہیں اور سنتی ہیں۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے جواب دیا۔۔۔
                    " کیا ہم۔ان سے مل سکتے ہیں۔۔۔"
                    صارم شاہ نے پھر پوچھا۔۔۔
                    " جی بلکل۔۔۔ان کو روم میں شفٹ کردیا گیا ہے۔۔۔آپ جب چاہے ان سے مل سکتے ہیں۔۔۔"
                    ڈاکٹر نے کہا۔۔۔کچھ مزید ڈسکشن کے بعد صارم شاہ اور دلاور ڈاکٹر کا شکریہ ادا کر کے ڈاکٹر کے روم سے باہر آ گئے۔۔۔


                    " بابا سائیں۔۔۔۔"
                    رات کے دس بجے احتشام شاہ گھر پہنچا تو اس نے ایک نظر سب رومز پہ ڈالی اس کے اور صارم شاہ کے روم میں نائٹ لائٹس جگمگا رہی تھیں فجر کا روم بھی ہنوز ایسا ہی تھا حبکہ اس کی والدہ کے روم کے ذرا سے کھلے دروازے سے روشنی باہر تک آ رہی تھی وہ دونوں اس کے انتظار میں جاگ رہے تھے ۔۔۔اسے گھر کی فضا میں عجیب سی اداسی محسوس ہوئی تھی مگر سچ تو یہ تھا کہ اداسی گھر کی فضا میں نہیں بلکہ اس کے اپنے اندر چھائی ہوئی تھی۔۔۔احتشام شاہ نے کچھ دیر بعد شاہ سائیں کے دروازے پہ دستک دیتے انھیں پکارا۔۔۔
                    " احتشام بیٹے آ جاؤ۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے دستک کی آواز پہ اسے اندر آنے کا کہا۔۔۔تو احتشام شاہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔۔۔ایک سائیڈ پہ ہائمہ خاتون جائے نماز بچھائے عشاء کی نماز کے بعد دعا مانگ رہیں تھیں۔۔۔شاہ سائیں کو سلام کر کے احتشام شاہ سامنے ہی رکھے ایک سیٹر صوفے پہ جا کے خاموشی سے بیٹھ گیا۔۔۔
                    " مجھے ہائم سے پتہ چلا کہ مہرالنساء بہن کا فون آیا تھا اور اس کے بلانے پہ تم لوگ ادھر گئے مگر بیٹا یہ بات لوگ نہیں جانتے اس میں کچھ شک نہیں کہ تم لوگوں کا کردار بے داغ ہے کوئی تم لوگوں پہ انگلی نہیں اٹھا سکتا مگر کس کے دل میں کب کیا آ جائے کیا کہ سکتے ہیں۔۔۔اور رشید احمد سے کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ معاملہ پنچایت میں لے جائے اگر ایسا ہوا تو پنچایت مہرالنساء کی نہیں بلکہ رشید احمد کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے تم لوگوں کو قصور وار ٹھہرائے گی۔۔۔مہرالنساء بہن کہ بھی دے کہ تم لوگ اس کے بلانے پہ وہاں گئے مگر کوئی اس کی بات نہیں سنے گا۔۔۔باپ کے ہوتے ہوئے اولاد کے معاملے میں ماں کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک کہ اولاد ماں کے ساتھ کھڑی نہ ہو۔۔۔اور تمہیں لگتا کہ عائلہ جیسی حیادار بچی بھری پنچایت میں یہ کہے گی کہ وہ صارم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔باالفرض رشید احمد ایسا نہ بھی کرے تب بھی میں یہی کہوں گا کہ تم لوگوں کا اقدام غلط تھا۔۔۔ جانتے ہو تم لوگوں کو تو شائد کوئی کچھ نہ کہے مگر ان بچیوں کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں آج کے واقعے کے بعد نہ جانے کتنے سوال کھڑے ہو جائیں گے۔۔۔زمین جائیداد دینے کے ساتھ اپنے آدمیوں کو اسلحے سمیت وہاں جمع کرنے پر تم لوگوں نے ان بچیوں کے کردار کو لوگوں کی نظروں میں انتہائی مشکوک بنا دیا ہے۔۔۔ہمارے احترام کی وجہ سے ہمارے سامنے تو شائد کوئی کچھ نہ کہے مگر ہماری پیٹھ پیچھے اگر ایک بندہ ہمارے حق میں بولے گا تو ایک مخالفت بھی ضرور کرے گا۔۔۔
                    تم لوگوں نے وہاں جو کچھ بھی کہا اور جو بھی کیا سب غلط تھا۔۔۔اگر حالات بگڑ رہے تھے تو آپکو معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے مجھے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔۔۔
                    ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔۔۔بندوق کی نوک پہ کسی سے نکاح کرنا یہ کونسا طریقہ ہے۔۔۔مجھے ہرگز امید نہیں تھی کہ صارم شاہ کی اس حماقت میں آپ اس کا ایسے ساتھ دیں گے۔۔۔"
                    ہائمہ خاتون نماز ادا کرنے کے بعد ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں تو شاہ سائیں نے اپنی بات شروع کی۔۔۔اور ساتھ میں جتا بھی دیا کہ وہ ہر بات سے واقف ہیں ان سے کچھ بھی چھپانا بے معنی ہے۔۔۔
                    " بابا ہمیں خود اندازہ نہیں تھا کہ حالات یہ رخ اختیار کر لیں گے۔۔۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا عائلہ نے اپنی رضامندی دے دی تھی۔۔۔مگر پھر اچانک سے دلاور وہاں آ پہنچا اور پہل اس کی طرف سے ہوئی تھی اس نے ہم پہ گن تانی تھی۔۔۔مجھے لگا کہ یہ معاملہ صرف اب عائلہ کا نہیں رہا بلکہ یہ ہمارے پورے گاؤں کا معاملہ بن چکا ہے۔۔۔ایسے تو کوئی بھی باہر کا بندہ آ کر کسی کو بھی گن دکھا کر اس سے جو مرضی کروا لے۔۔۔جس کو مرضی اٹھا کر لے جائے۔۔۔
                    ہم اس گاؤں کے محافظ بھی ہیں بابا۔۔۔اور اس وقت دلاور کی غنڈہ گردی پہ اسے سبق سیکھانا بہت ضروری تھا تاکہ دوبارہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے۔۔۔اگر اس وقت ہم وہاں موجود نہ ہوتے تب اور بات تھی اگر دلاور کو نہ روکا جاتا تو لوگوں کا ہم پر سے اعتماد اٹھ جاتا۔۔۔لوگ ہم پہ بھروسہ کرتے ہیں اعتماد کرتے ہیں کہ ہمارے ہوتے کوئی انکی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔اس وقت ہمارے خاموش رہنے کا مطلب تھا کہ ہمیں لوگوں کے جان و مال اور عزت کی کوئی پرواہ نہیں جو مرضی ہوتا رہے۔۔۔
                    میں اس وقت صرف صارم کا بھائی ہی نہیں بلکہ آپکا اور پورے گاؤں کا بیٹا ان کا محافظ بھی تھا۔۔۔اور اپنے دونوں فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے ہر ممکن طریقے سے دلاور کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔پھر جب وہ زبردستی نکاح پہ اترا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔بابا آپ نے بھی کہا تھا کہ اگر عائلہ اس رشتے سے انکار کردے تو پھر ہم کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔مہرالنساء خالہ نے عائلہ کی رضامندی لے کر ہی صارم کو بلایا تھا۔۔۔
                    اور صارم کو بلانے کا مقصد صرف اس کی رضامندی جاننا تھا عائلہ اور صارم کا نکاح کروانا نہیں تھا۔۔۔صارم سے بات کرنے کے بعد ہی وہ آپ سے بات کرنا چاہتی تھیں۔۔۔مگر جب سب تہ ہونے کے بعد صارم شاہ اور میں آپ سے بات کرنے کے لیے اٹھ کر آنے لگے تبھی وہاں دلاور آ ٹپکا۔۔۔
                    اور بابا جسے آپ صارم کی حماقت کہ رہے ہیں وہ صارم کی حماقت نہیں اس کی زندگی کی ضمانت ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے اپنی طرف سے صفائی دینے کے ساتھ صارم شاہ کی حالت سے بھی آگاہ کردیا۔۔۔
                    " تمہاری اس بات کا مطلب کیا ہے۔۔۔"
                    ہاۂمہ خاتون جو ساری بات بڑے انہماک سے سن رہی تھیں حیران ہو کر بولیں۔۔۔
                    " ماما جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ عائلہ کے لیے صارم نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔۔۔مگر جسے ہم صارم کی صرف پسند سمجھ رہے تھے ہم میں سے کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ عائلہ صارم کی پسند سے بہت بڑھ کر ہے۔۔۔ایک فرمانبردار بیٹے کا فرض ادا کرتے اس نے بابا کے حکم کے آگے سرتسلیم خم تو کردیا تھا مگر تل تل کر کے وہ اندر ہی اندر مر رہا تھا۔۔۔
                    وہ ہر روز خود سے لڑ رہا تھا مگر کبھی بھی آپ کے حکم کی دیوار پھلانگنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔اور نہ ہی کبھی آپکے سامنے کھل کر اپنے دل کی بات رکھ سکا۔۔۔
                    ایک طرف وہ ایک بیٹے کا حق ادا کرتے آپکے حکم کی ڈور سے بندھا رہا تو دوسری طرف عائلہ سے اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کی ڈور کو عائلہ کے نکاح کی ڈور سے باندھ دیا۔۔۔
                    جس دن عائلہ کا نکاح دلاور سے ہوگیا اس دن ہم صارم کو کھو دیں گے بابا۔۔۔عائلہ صارم کی زندگی کی ضمانت بن چکی ہے۔۔۔وہ اس کا جنون اس کا پاگل پن بن چکی ہے۔۔۔بابا صارم عائلہ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کی خاطر جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔۔۔
                    اسی وجہ سے مجھے صارم کا ساتھ دینا پڑا۔۔۔اور اپنے بھائی کی خوشیاں اسے دلانے کے لیے یہ زمین جائیداد تو کچھ بھی نہیں ہے میرے بس میں جو بھی ہوا میں کر گزروں گا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔احتشام شاہ کی کہی گئ ہر بات کا ہر لفظ ہاۂمہ خاتون اور شاہ سائیں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتا گیا۔۔۔وہ گم صم ہو کر احتشام کی بات سنتے چلے گئے۔۔۔احتشام شاہ اپنی بات ختم کرنے کے بعد چپ ہوا تو کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کمرے میں کوئی ذی روح موجود نہ ہو۔۔۔
                    " تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا۔۔۔کیا تم سے یہ سب صارم نے کہا ہے۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔۔۔
                    " ایک دن رات کو پیاس کی وجہ سے میری آنکھ کھلی تو صارم شاہ نماز کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔۔۔الّٰلہ سے جب وہ اپنے دل کا حال بیان کر رہا تھا تبھی میں نے سب سنا۔۔۔پھر بعد میں اس سے میں نے پوچھا تو کسی کو نہ بتانے کی شرط پہ اس نے مجھ سے سب کہا۔۔۔میں خود اس دن اس کی بات سن کر پریشان ہو گیا تھا مگر دل میں عہد کیا تھا کہ میں اس کا ساتھ دوں گا۔۔۔بس اسی وجہ سے میں نے اس کا ساتھ دیا۔۔۔
                    بابا آپ سے اور ماما سے چھپانا مجھے ٹھیک نہیں لگا۔۔۔میری نظر میں ہر بات کا آپکے علم میں ہونا بہت ضروری ہے تاکہ کسی بھی انہونی کو روکا جا سکے۔۔۔
                    پلیززز بابا۔۔۔صارم پہ کسی بھی بات کا اظہار کیے بنا کہ آپ سب جان چکے ہیں صارم کی زندگی کی خاطر ہمیں عائلہ کے معاملے میں اب سٹینڈ لینا ہوگا۔۔۔مجھے ڈر ہے بابا کہ کہیں خود سے لڑتے لڑتے اگر کسی دن وہ ہار گیا تو پھر ساری عمر کے لیے ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے ملتجی لہجے میں کہا۔۔۔
                    " میرا دل کہ رہا تھا کہ صارم ٹھیک نہیں ہے۔۔۔مگر وہ اس حد تک پریشان تھا ہرگز اندازہ نہیں تھا۔۔۔اگر۔۔۔۔اگر عائلہ کا نکاح دلاور سے ہو گیا تو۔۔۔صارم اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔۔۔میں جانتی ہوں میرا بیٹا مر جائے گا مگر نہ تو آپ سے کیا وعدہ توڑے گا اور نہ عائلہ کو دی زبان سے مکرے گا۔۔۔شاہ جی ہمیں اس معاملے پہ اب سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔۔۔"
                    ہائمہ خاتون احتشام شاہ کی بات سن کر لرز کر رہ گئیں۔۔۔وہ رقت بھرے لہجے میں شاہ سائیں سے گویا ہوئیں۔۔۔
                    " ایسا کچھ نہیں ہوگا ہائم۔۔۔ایک بار عائلہ بیٹی اور مہرالنساء ہاسپٹل سے آ جائیں پھر میں بات کرتا ہوں دوبارہ رشید احمد سے۔۔۔اب بھی اگر اس نے انکار کیا تو اس معاملے کو اب میں خود پنچایت میں رکھوں گا۔۔۔اگر عائلہ بھی اس رشتے پہ راضی نہیں ہے تو میں رشید احمد کو بچوں کی زندگیوں سے ہرگز نہیں کھیلنے دوں گا۔۔۔جو حق میرے الّٰلہ نے شادی بیاہ کے معاملات میں بچوں کو دیا ہے وہ ان کو ضرور ملے گا۔۔۔شاہ سائیں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اسی وقت احتشام شاہ کے موبائل پہ شرجیل کی کال آنے لگی۔۔۔شاہ سائیں نے سوالیہ نظروں سے احتشام شاہ کی طرف دیکھا۔۔۔
                    " بابا شرجیل کی کال ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے انکی نظروں کا مطلب سمجھتے انھیں بتانے کے ساتھ اجازت طلب نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔
                    " بیٹا اٹھا لو۔۔۔الّٰلہ خیر کرے۔۔۔"
                    ہاۂمہ خاتون نے جلدی سے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔۔۔
                    " ہاں۔۔۔بولو شرجیل۔۔۔سب خیریت ہے ناں۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب عائلہ اور خالہ مہرالنساء کی۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے موبائل کان سے لگاتے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔مگر دوسری طرف سے شرجیل نے جو بتایا اسے سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔۔
                    " بیٹا کیا ہوا ہے۔۔۔سب خیریت ہے ناں۔۔۔مہرو اور عائلہ کیسی ہیں۔۔۔"
                    ہائمہ خاتون نے احتشام کی طرف دیکھ کر بے چینی سے پوچھا۔۔۔
                    " ماما۔۔۔مہرالنساء خالہ کومہ میں چلی گئ ہیں۔۔۔عائلہ کو شیدید ڈپریشن انزائٹی کا اٹیک ہوا ہے۔۔۔بچ تو گئ ہے مگر اس کی حالت بھی کچھ اتنی اچھی نہیں ہے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے افسردگی سے کہا۔۔۔تو اس بات نے شاہ سائیں اور ہاۂمہ خاتون کو بھی پریشان کر ڈالا۔۔۔کمرے میں گہری خاموشی راج کرنے لگی۔۔۔
                    " بابا میں آپ سے اور ماما سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے دونوں کو مخاطب کرتے نظریں نیچی کیے جھجکتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " بولو بیٹا۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔کیا کوئی مزید پریشانی والی بات ہے۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے فکرمندی سے اجازت دیتے پوچھا۔۔۔
                    " نہیں بابا ایسی بات نہیں ہے۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔میں پہلے بھی آپ سے اور ماما سے بات کرنا چاہتا تھا مگر سوچا جب وقت آئے گا تب دیکھی جائے گی۔۔۔
                    مگر آج جو کچھ ہوا اس کو سامنے رکھتے۔۔۔اور جیسا کہ آپ کہ رہے کہ ہماری وجہ سے اس گھر کی بچیاں لوگوں کے لیے موضوع گفتگو بن جائیں گی تو اس سب سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ عینا کا اور میرا نکاح ہو جائے۔۔۔
                    اس سے نہ صرف لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں گی بلکہ خالہ مہرالنساء اور انکی بیٹیوں کو ایک مضبوط سہارا بھی مل جائے گا۔۔۔اس گھر میں ہمارے آزادانہ آنے جانے پہ کسی کو اعتراض کرنے کا یا انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے گویا بم پھوڑتے کہا۔۔۔احتشام شاہ کی بات پہ ہائمہ خاتون کے چہرے پہ مسکراہٹ در آئی۔۔۔
                    " کیا میں پوچھ سکتا یہ فتور کب سے آپ کے دماغ میں چل رہا ہے۔۔۔"
                    شاہ سائیں اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے سنجیدگی سے بولے۔۔۔
                    " نئیں۔۔۔اگر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو کوئی بات نہیں۔۔۔ہم اس سب کا کوئی اور حل نکال لیں گے۔۔۔"
                    اجتشام شاہ نے شاہ سائیں کے لہجے پہ خجل ہوتے جلدی سے کہا۔۔۔
                    " بلکل اعتراض ہے۔۔۔کیونکہ افتخار بھائی اپنی بیٹی صدف کے لیے کہ چکے ہیں اور مجھے وہ بچی بہت پیاری لگتی ہے۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔۔


                    " یہ کیا کیا ہے بیٹا تم نے۔۔۔میں نے منع بھی کیا تھا کہ کسی کام کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔تھوڑا تھوڑا کر کے میں اور فاطمہ مل کر کر لیتے۔۔۔"
                    سارے کام نمٹا کر رات کو رضوانہ خاتون اور فاطمہ اپنے کوارٹر میں واپس آئیں تو ہر چیز بڑے سلیقے قرینے سے اپنی جگہ سیٹ ہو چکی تھی۔۔۔مہدیہ کو محبت آمیز لہجے میں ڈپٹتے ہوئے بولیں۔۔۔
                    " ماسو ماں میں بیٹھے بیٹھے بور ہو رہی تھی تو ایسے بزی ہونے کے لیے کر لیا اور ویسے بھی سارا وزنی سامان تو پہلے ہی سیٹ تھا۔۔۔بس ہلکا پھلکا میں نے کیا ہے۔۔۔اور فکر مت کریں میں نے بہت دھیان سے کیا تھا سب۔۔۔دیکھ لیں بلکل بھلی چنگی ہوں۔۔۔"
                    مہدیہ نے سرسری لہجے میں کہا پھر ہنستے ہوئے ایک گول چکر لیا۔۔۔
                    " اوہو۔۔۔بس بس۔۔۔سکون سے رہو۔۔۔مگر آئندہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔آئی سمجھ۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ مہدیہ ایک اور چکر لیتی رضوانہ خاتون نے اسے بازو سے پکڑ کر فوراً روکتے کہا۔۔۔
                    " کھانا کھا لیا تھا تم نے۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے پوچھا۔۔۔
                    " نہیں۔۔۔میں آپکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔"
                    مہدیہ نے جواب دیا۔۔۔
                    " میں کیا کروں تمہارا۔۔۔تم میری کوئی بات نہیں سنتی ہو مہدیہ۔۔۔اس حالت میں وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہیے مگر تم ہو کہ۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون خفگی سے بولیں۔۔۔
                    " ماسو ماں مجھ سے نہیں کھایا جاتا آپکے بنا۔۔۔"
                    مہدیہ نے سر جھکائے منہ بسورتے کہا۔۔۔
                    " اچھا چلو ٹھیک ہے جھلی نہ ہو تو۔۔۔فاطمہ بیٹا جلدی سے ہاتھ دھو کر بیٹا کھانا لگا دو۔۔۔میں بھی منہ ہاتھ دھو کر ابھی آئی۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون مہدیہ کی بات پہ پیار سے اسکے سر پہ چپت لگاتے فاطمہ سے گویا ہوئیں۔۔۔
                    " امی جان مجھے اس طرح سے یہاں رہنا بہت عجیب لگ رہا ہے۔۔۔اگر پہلے پتہ ہوتا کہ سیٹھ صاحب اور ایمان ایسا کچھ سوچ رہے تو ہم یہاں شفٹ ہی نہیں ہوتے۔۔۔یہاں شفٹ ہی ہم اس وجہ سے ہوئے تھے کہ مہدیہ کو گھر پہ اکیلا چھوڑنا ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
                    اب جبکہ آپ اور میں یہاں کام نہیں کریں گے تو یہاں کے سرونٹ کوارٹر میں رہنے کو دل نہیں مان رہا۔۔۔"
                    فاطمہ نے کھانے کے برتن سمیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھتے انکے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " ہمممم۔۔۔۔ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔مجھے بھی مناسب نہیں لگ رہا۔۔۔مگر سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ بیٹھے بٹھائے ان کو کیا سوجھی۔۔۔
                    میں صبح اکرام صاحب سے بات کروں گی۔۔۔اگر میں نے یہاں کام نہیں کرنا تو ہمارا یہاں رہنا کسی صورت نہیں بنتا۔۔۔
                    چلو تم لوگ بھی نماز پڑھ کر اب سو جاؤ میں بھی بہت تھک گئ ہوں آج۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے فاطمہ کی بات کی تائید کرتے پرسوچ انداز میں کہتے اپنی چادر جھاڑ کر سیدھی کی پھر 2 بجے کا موبائل پہ الارم لگا کر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔کچھ دیر تک فاطمہ اور مہدیہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہیں فاطمہ نے آج کی ساری کارگزاری سے نہ صرف مہدیہ کو آگاہ کیا بلکہ ایمان کی اپنی بوتیک میں جاب آفر کا بھی بتایا۔۔۔پھر تھوڑی دیر بعد باتیں کرتے کرتے فاطمہ بھی سو گئ۔۔۔مگر بہت دنوں بعد آج پھر مہدیہ کی آنکھوں سے نیند پھر روٹھ گئ تھی۔۔۔جس سے دنیا میں سب سے زیادہ نفرت کرنے لگی تھی آج وہی شخص اس کو ہزار سر جھٹکنے کے بعد بھی پوری شدت سے یاد آیا تھا۔۔۔پھر یونہی خود سے لڑتے لڑتے خود کو یقین دلاتے کہ وہ اسے یاد نہیں آ رہا وہ اسے یاد آ ہی نہیں سکتا کب نیند اس پہ مہربان ہوئی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔

                    " دد دلاور چھوڑ دو۔۔۔تمہیں الّٰلہ کا واسطہ۔۔۔نئیں کرو۔۔۔دلاور۔۔۔دلاور چھوڑو مجھے۔۔۔خ خالہ۔۔۔خالہ بچاؤ مجھے۔۔۔
                    دلاوررررررر۔۔۔۔۔"
                    مہدیہ ننیند میں پھر اُسی وقت اُسی کرب سے گزر رہی تھی۔۔۔جسے وہ ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھول جانا چاہتی تھی۔۔۔خواب ہوتا تو شائد بھول بھی جاتی مگر یہ خواب نہیں تھا ایسی حقیقت تھی جس نے اس کا جسم ہی نہیں دل و روح کو زخمی کردیا تھا۔۔۔رضوانہ خاتون کے سایہ شفقت میں رہتے دھیرے دھیرے اس کے زخم بھرنے لگے تھے وہ اپنا ماضی بھولنے لگی تھی مگر آج نہ جانے اس ستم گر کی اسے بہت یاد آئی تھی اور اسی وجہ سے اس کا گزرا سیاہ ماضی خواب کی صورت میں پھر اسے اذیت کے اسی جہاں میں لے گیا تھا۔۔۔
                    اس کا پورا وجود پسینہ پسینہ ہو گیا تھا سوتے ہوئے بھی خواب میں سسکتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔۔۔رضوانہ خاتون اور فاطمہ اس کے یوں اذیت بھرے لہجے میں بڑبڑانے پر ہڑبڑا کر اٹھیں تھیں۔۔۔مگر اس کے منہ سے خارج ہونے والے بار بار دہرائے جانے والے نام پر ہکا بکا ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔پھر سر جھٹکتے فاطمہ اپنی چارپائی سے تیزی سے اٹھی اور مہدیہ کو تقریباً جھنجوڑنے کے انداز میں ہلاتے ہوئے اسے آوازیں دینے لگی۔۔۔
                    "چھوڑو۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔"
                    فاطمہ جو اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی مہدیہ نے نیند کی حالت میں ہی خود کو فاطمہ سے چھڑواتے اس کے بازو سے زور سے جھٹکتے کہا۔۔۔اور اسی طرح سسکتے ہوئے بڑبڑانے لگی۔۔۔رضوانہ خاتون اور فاطمہ نے پھر سے اس کا کندھا زور سے جھنجوڑنے کے انداز میں ہلایا تو کچھ دیر بعد مہدیہ دلاور کا نام چلا کر لیتے ہوش و حواس میں آئی تو کچھ پل کو خود بھی سمجھ نہ سکی اور خوف سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔پھر فاطمہ اور رضوانہ خاتون کو اپنی چارپائی کے پاس کھڑے خود کو تشویش سے تکتے دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ خواب دیکھ رہی تھی تو خود کو سنبھالتے اٹھ بیٹھی۔۔۔
                    " بیٹا کوئی خواب دیکھ رہی تھی کیا۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے مہدیہ کے پاس بیٹھتے شفقت سے اس کے گالوں کو چھوتے پوچھا۔۔۔فاطمہ جلدی سے گلاس میں پانی لے آئی۔۔۔
                    " ہمممم۔۔۔۔شائد۔۔۔"
                    مہدیہ نے دھیرے سے نظریں چراتے کہا اور ساتھ اپنے گالوں پہ نمی محسوس ہوتے ایک ہاتھ سے اسے صاف کیا۔۔۔فاطمہ نے پانی اس کی طرف بڑھایا تو دو گھونٹ بھر کر اس نے گلاس فاطمہ کو واپس پکڑا دیا۔۔۔
                    " مہدیہ تم ٹھیک ہو ناں۔۔۔"
                    اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے وہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔۔۔فاطمہ اور رضوانہ خاتون جانتی تھیں کہ وہ کس کرب سے گزر رہی ہے مگر جان کر اس سے اس بارے کوئی سوال نہیں کیا انھیں اس کی طبیعت کی فکر ہو رہی تھی فاطمہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے نرمی سے پوچھا۔۔۔فاطمہ کو اس پہ بے طرح سے ترس آیا تھا اس کے ماضی میں بھی ایک سیاہ دن آیا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ سیاہ دن اس کے چہرے پہ ساری عمر کے لیے سیاہی مل دیتا قدرت اس پہ مہربان ہوئی تھی۔۔۔اس کا دامن داغدار ہونے سے بچ گیا تھا مگر پھر بھی وہ دن وہ آج تک نہیں بھول پائی تھی۔۔۔
                    " مہدیہ۔۔۔میری جان۔۔۔رونے کو دل کر رہا ہے تو رو لو بیٹا۔۔۔آ جاؤ۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے اپنے بازو کھول کر مہدیہ سے کہا تو وہ بے اختیار سسکتے ہوئے ان مہربان بازوؤں میں سما گئ۔۔۔پھر جو اس نے رونا شروع کیا تو روتے روتے اسکی ہچکی بندھ گئ۔۔۔فاطمہ بھی اس کی کمر کے پیچھے اپنا ایک بازو لپیٹے اس کے کندھے پہ سر رکھے رونے لگی۔۔۔رضوانہ خاتون آنکھوں میں نمی لیے کبھی فاطمہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتیں تو کبھی مہدیہ کے سر پہ۔۔۔
                    " فاطمہ۔۔۔خود کو سنبھالو بیٹا۔۔۔بجائے مہدیہ کو چپ کروانے کے اسے حوصلہ دینے کے تم بھی رونے لگی۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے نم آنکھوں سے فاطمہ کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔کچھ دیر رو لینے کے بعد مہدیہ اپنی آنکھیں صاف کرتی پیچھے کو کھسکتے سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔۔۔
                    " بیٹا مت پریشان ہوا کرو۔۔۔بھول جاؤ سب۔۔۔میں پہلے بھی کہ چکی ہوں کہ اسے الّٰلہ کی رضا جان کر پرسکون ہو جاؤ۔۔۔
                    رضوانہ خاتون نے مہدیہ سے کہا۔۔۔
                    " ماسو ماں میں کیا کروں۔۔۔بہت کوشش کرتی ہوں مگر نہ وہ بھولتا ہے نہ اس کا ستم۔۔۔"
                    مہدیہ نے کسی ٹرانس میں کہا۔۔۔پھر اپنے لفظوں پہ غور کیا تو ہڑبڑا کر منہ نیچے کر کے اپنے ہونٹ کچلنے لگی۔۔۔رضوانہ خاتون اس کی بات پہ مسکرا پڑیں
                    " کیا اتنا پیار کرتی تھی اس سے۔۔۔اگر اس قدر محبت کرتی تھی تو بیٹا اسے معاف کیوں نہیں کر دیتی۔۔۔تم نے خود کہا کہ اس دن وہ نشے میں تھا۔۔۔اس کا مطلب اس دن جو کچھ بھی ہوا اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔الّٰلہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے شراب حرام قرار دی ہے کیونکہ اسے پینے کے بعد انسان رشتوں کی تمیز بھول جاتا ہے۔۔۔
                    تم ایک بار اپنا معاملہ الّٰلہ پہ چھوڑ کر اسے دل سے معاف کر کے دیکھو۔۔۔دیکھنا اسی دن تمہیں سکون مل جائے گا پھر یہ ڈراؤنے خواب بھی کبھی نہیں آئیں گے۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے رسانیت سے مہدیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " ماسو ماں ایک بات پوچھوں۔۔۔۔۔"؟
                    مہدیہ نے جھجکتے ہوئے لب کچلتے کہا۔۔۔
                    " ایک نہیں بیٹا۔۔۔ہزار باتیں پوچھو۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " ماسو ماں۔۔۔کیا الّٰلہ مجھے معاف کردے گا۔۔۔کبھی کبھی مجھے خود سے گھن آنے لگتی ہے۔۔۔ایسا لگتا ہے۔۔۔میرے وجود پہ غلاظت کی ایسی تہ چڑھ گئ ہے جو نہ بار بار جسم صاف کرنے سے صاف ہو رہی ہے نہ بار بار نہانے سے۔۔۔
                    مجھے جب خود سے اتنی گھن آتی ہے تو پھر الّٰلہ کو بھی تو مجھ سے آتی ہوگی۔۔۔میں نے انجانے میں ہی سہی مگر اس کی حد کو توڑا تو ہے ناں۔۔۔الّٰلہ تو پاک ہے ناں۔۔۔اور وہ پاک لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے۔۔۔جبکہ میں تو پلید ہو گئ ناپاک ہو گئ ہوں۔۔۔پھر وہ مجھے کیسے معاف کرے گا۔۔۔میں ایسا کیا کروں ماسو ماں کہ وہ مجھے معاف کردے۔۔۔مجھ سے راضی ہو جائے۔۔۔
                    " میں نماز کے لیے کھڑی ہوتی ہوں یا قرآن پاک پڑھتی ہوں مجھے لگتا میں ایک اور گناہ کر رہی۔۔۔اپنے گندے وجود سے گندے ہاتھوں سے قرآن پاک کو چھونے کا گناہ۔۔۔اپنا ناپاک وجود لے کر الّٰلہ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا گناہ۔۔۔
                    میں کیا کروں ماسو ماں۔۔۔میں ایسا کیا کروں کہ میرے جسم سے یہ غلاظت صاف ہو جائے۔۔۔الّٰلہ مجھے معاف کردے۔۔۔ومجھ سے راضی ہو جائے۔۔۔"
                    ضوانہ خاتون کے گھٹنوں پہ اپنا سر رکھ کر مہدیہ نے سسکتے ہوئے اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔۔۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اتنا چیخ چیخ کر روئے کہ نہ صرف اس کا دل بلکہ اس کی چیخوں سے آسمان و زمین پھٹ جائیں۔۔۔اسے موت آ جائے اور اس کرب سے نجات مل جائے۔۔۔
                    مگر ایسا ہونا ناممکن تھا۔۔۔کبھی کسی کے چاہ کرنے سے بھی کسی کو موت آئی ہے۔۔۔دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ روزانہ روح کو تار تار کر دینے والے رنج و غم سے گزرتے ہیں اور تب شدت سے دل کرتا ہے کہ ان کو موت آ جائے۔۔۔کوئی اپنا بہت پیارا اس دنیا سے چلا جائے تو دل کرتا ہے کہ اسے بھی اپنے پیارے کے ساتھ موت آ جائے۔۔۔وہ بھی مر جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا انسان کو ہر حال میں جینا پڑتا ہے۔۔۔
                    " الّٰلہ نے جہنم گنہ گاروں کے لیے بنائی ہے۔۔۔فرشتوں کے لیے نہیں۔۔۔
                    اور نہ ان لوگوں کے لیے بنائی ہے جن سے سے انجانے میں بھول چوک ہو جائے اور پھر وہ اس بھوک چوک پہ دن رات الّٰلہ سے اسکی رحمت کے اس کی معافی کے طلبگار رہتے ہوں۔۔
                    جسم پہ چاہے کتنے داغ ہوں۔۔۔ہمارا وجود چاہے کتنا ہی کیچڑ آلود ہو جائے کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔اصل بات تو روح کا داغدار ہونا ہے۔۔۔دل کا ناپاک ہونا ہے۔۔۔
                    اور نہ تو تمہارا دل ناپاک ہے اور نہ روح۔۔۔پھر تم گنہگار کیسے ہوئی۔۔۔اور جس کا دل اور روح پاک ہو وہ تو فرشتہ ہے بیٹا۔۔۔اور تم فرشتوں کی طرح معصوم ہو پاک ہو۔۔۔اور الّٰلہ فرشتوں کو سزا نہیں دیتا۔۔۔
                    البتہ جو جانتے بوجھتے الّٰلہ کی قائم کردہ حدود کو قوانین کو احکامات کو توڑتا ہے اور پھر نادم ہونے کی بجائے گناہ کرتا چلا جاتا ہے الّٰلہ اس سے ناراض ہوکر اس کی رسی ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔۔۔کہ کر لے جو تیرے من میں ہے۔۔۔پھر وہ بندہ پاؤں سے لے کر سر تک گناہوں میں ڈوب جاتا۔۔۔الّٰلہ اپنے بندے سے اتنی محبت کرتا ہے کہ تب بھی اس پہ عذاب نازل نہیں کرتا کہ شائد یہ پلٹ آئے اور اس سے معافی مانگ لے اپنے گناہوں سے تائب ہو جائے۔۔۔الّٰلہ تو اتنا رحیم ہے کہ بندے کی آخری سانس تک اسے توبہ کا موقع دیتا ہے۔۔۔
                    پھر یہ کیسے ممکن ہے بیٹا کہ جس گناہ میں تمہاری رضامندی شامل نہیں تھی اس کی تمہیں سزا دے۔۔۔تم آج بھی اسی طرح پاک ہو جیسے اپنی ماں کے جسم سے پیدا ہوتے وقت پاک اور معصوم تھی۔۔۔
                    شیطان انسان پہ چاروں طرف سے حملہ آور ہوتا ہے۔۔۔کوئی غلطی ہو جائے تو بندے کے دل میں الّٰلہ کی رحمت سے مایوسی ڈالتا ہے اس کے ایمان کو کمزور کرتا ہے۔۔۔مگر جو الّٰلہ پہ یقین کامل رکھتے ہیں وہ غلطی پہ نادم ہو کر فوراً الّٰلہ سے توبہ کرتے ہیں اپنے ایمان کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔۔۔اور اصل میں یہی الّٰلہ کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں جو غلطی کر کے تائب ہو کر فوراً اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔۔۔
                    جانتی ہو الّٰلہ ناراض کب ہوتا ہے۔۔۔الّٰلہ تب ناراض ہوتا ہے جب بندہ الّٰلہ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے۔۔۔اور مایوسی گناہ ہے پتر۔۔۔زندگی میں چاہے کتنی تکلیفیں آئیں ، کتنے ہی طوفان آئیں مگر کبھی بھی مایوسی کو اپنے پاس مت پھٹکنے دینا۔۔۔ہر حال میں ہر وقت الّٰلہ سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ الّٰلہ پہ اپنے بھروسے کو ہمیشہ قائم رکھنا۔۔۔الّٰلہ بے نیاز ہے ، وہی کل جہاں کا مالک و مختار ہے ، وہ رحیم ہے ، وہ کریم ہے ، وہ غفور ہے ، اور وہی قوی ، قادر اور مقتدر ہے۔۔۔اور وہ قہار ہے۔۔۔یہ بات کبھی مت بھولنا پتر۔۔۔
                    الّٰلہ پہ اپنے ایمان و بھروسے کے دئیے میں امید کا تیل ہمیشہ ڈالتی رہنا پتر۔۔۔الّٰلہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے پر تاثیر لہجے میں کہتے نہ صرف مہدیہ کے زخموں پہ اپنی محبت و شفقت سے مرہم رکھا بلکہ الّٰلہ پہ اس کے ڈگمگاتے بھروسے اور مایوسی کی دیوار کو اپنی دلفریب باتوں سے الّٰلہ پہ مضبوط ایمان اور بھروسے کی سیسہ پلائی دیوار میں بدل دیا۔۔۔مہدیہ کو ایسا لگا جیسے اندھیروں سے نکل کر وہ اچانک روشنیوں میں آ گئ ہو۔۔۔زمین سے لے کر آسمان تک سفید جلملاتی روشنیوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا ہو۔۔۔اسے اپنا پورا وجود بہت ہلکا پھلکا پرسکون محسوس ہونے لگا۔۔۔اب اس کے دل میں نہ کوئی شکوہ تھا نہ کوئی درد رہا تھا۔۔۔
                    " ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے مہدیہ کو مسکراتے ہوئے اپنی طرف دیکھتے پا کر کہا۔۔۔
                    " دیکھ رہی ہوں کہ مجھے صرف اپنے گناہ یاد ہیں نیکی تو کوئی یاد کرنے سے بھی یاد نہیں آتی۔۔۔پھر پتہ نہیں وہ کونسی نیکی تھی کہ الّٰلہ نے مجھے آپ سے ملوا دیا۔۔۔"
                    مہدیہ نے پرسکون لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
                    " جب بندہ الّٰلہ کے رستے پہ چلتا ہے اور اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے تکلیفوں کا شکار ہونے کے باوجود ثابت قدم رہتا ہے تو وہ بندہ الّٰلہ کو بہت عزیز ہوجاتا ہے پھر اُس بندے کی اُس جگہ سے مدد فرماتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔۔۔اب تم خود ہی دیکھ لو کہاں لاہور اور کہاں صادق آباد۔۔۔تمہارا با حفاظت ہم تک پہنچنا ہم سے ملنا لکھ دیا گیا تھا اور یقیناً اس میں الّٰلہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ تھی اسی وجہ سے تمہارے سب رستے ہماری طرف موڑ دئیے۔۔۔
                    " اب ایک بات میں پوچھوں۔۔۔"؟
                    کب سے خاموشی سے پاس بیٹھی مہدیہ اور اپنی والدہ کی باتیں سنتی فاطمہ نے مہدیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
                    " جی پوچھیں آپی۔۔۔"
                    مہدیہ نے اپنا رخ فاطمہ کی طرف موڑتے کہا۔۔۔
                    " مہدیہ جیسا کہ تم نے کہا کہ تمہاری زندگی میں سوائے خانم اور رحمو بابا کے کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔۔۔نہ تم کبھی کسی سے ملی تو امی جان کو ماسو ماں پکارنے کا لفظ کیسے تمہارے زہن میں آیا۔۔۔میرا مطلب کسی کو کہتے سنا تھا یا بس یونہی۔۔۔"
                    فاطمہ نے اپنے دل میں پیدا ہوتے سوال کو آخر زبان پہ لاتے پوچھ ہی لیا۔۔۔جس دن مہدیہ نے رضوانہ خاتون کو پہلی بار ماسو ماں کہا وہ اس دن بھی یہ سوال کرنا چاہتی تھی مگر چپ کر گئ۔۔۔
                    مگر آج جب باتیں چھڑیں تو فاطمہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
                    " آپی جب دلاور پہلی بار ہمارے کوٹھے پہ آیا تھا تو نشے میں دھت ہونے کے ساتھ کچھ زخمی بھی تھا۔۔۔تب وہ بار بار ایک ہی لفظ نیم بے ہوشی میں بول رہا تھا کہ۔۔۔،
                    ماسو ماں مجھے معاف کردیں۔۔۔ماسو ماں میں آپکے بنا جی نہیں پاؤں گا۔۔۔آپ کہاں چلی گئ ہیں۔۔۔
                    میں نے بعد میں اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ماسو ماں اس کی ماں ہیں۔۔۔جو کہیں کھو گئیں ہیں۔۔۔پھر کبھی اس موضوع پہ اس نے بات نہیں کی۔۔۔"
                    مہدیہ نے سرسری لہجے میں جواب دیا مگر اس کا یہ جواب نہ صرف فاطمہ بلکہ رضوانہ خاتون کو بھی اندر تک ہلا گیا۔۔۔
                    " کک۔۔۔کب۔۔۔کب کی بات ہے یہ۔۔۔میرا مطلب کتنے سال پرانی۔۔۔"
                    رضوانہ خاتون نے انتہائی بے چینی و بے قراری سے پوچھا۔۔۔فرط جزبات اور خوشی کے مارے ان سے ٹھیک سے بولا ہی نہیں گیا۔۔۔ان کا رواں رواں چیخ چیخ کر کہ رہا تھا کہ یہ کوئی اور نہیں ان کا دلاور۔۔۔ان کا دانی ہی ہے۔۔۔


                    Comment


                    • #70
                      کمال کی کہانی ھے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X