Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

جگ تجھ پہ وار دیا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71

    Episode , 47 #

    " کیا کہا ہے ڈاکٹر نے۔۔۔امی اور عائلہ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔کہاں لے کر گئے ہیں ان کو۔۔۔"
    صارم شاہ اور دلاور ڈاکٹر کے روم سے باہر آئے تو فجر عینا اور شرجیل روم کے باہر بے چینی سے ان کے باہر آنے کے انتظار میں کھڑے تھے۔۔ان کو باہر نکلتا دیکھ کر عینا فکرمندی اور پریشانی سے نم آنکھیں اور لہجے میں خوف لیے صارم شاہ کے پاس آکر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔
    صارم شاہ کو ایک پل کو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے۔۔۔کیا بولے۔۔۔مہرالنساء کی حالت کے بارے میں سن کر جانے وہ کیسا ری ایکٹ کرے۔۔۔
    " دیکھو عینا۔۔۔عا۔۔۔۔۔"
    ابھی وہ لفظ ترتیب دے ہی رہا تھا کہ دلاور نے عینا کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے تسلی دینے اور انکے بارے میں سب بتانے کو بس اتنا ہی کہا تھا کہ عینا نے انتہائی غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
    " ہاتھ مت لگانا مجھے گھٹیا انسان۔۔۔یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے۔۔۔دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔تم کر کیا رہے ہو یہاں ہاں۔۔۔۔؟ عائلہ آپی کے مرنے کا انتظار کر رہے ہو یا اس لیے کھڑے ہو کہ کب وہ آنکھیں کھولے اور تم اس پہ کسی عزاب کی طرح پھر سے مسلط ہو جاؤ۔۔۔خدا کا واسطہ ہے چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ جب عائلہ آپی اور ماما کو ہوش آئے تو وہ تمہاری منحوس شکل پھر سے دیکھیں۔۔۔"
    عینا کافی حد تک اب خود کو سنبھال چکی تھی اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے دلاور کا ہاتھ زور سے جھٹکتے وہ انتہائی غصے سے پھنکاری تھی۔۔۔فجر نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ذرا سا اس کے کندھے کو دباتے اسے کول ڈاؤن رہنے کا آنکھوں سے اشارہ کیا مگر وہ دیکھا ان دیکھا کرتی غصے سے بولتی چلی گئ۔۔۔دلاور کو اس کے بولے ہر لفظ پہ طیش آیا تھا مگر دل میں اس خیال سے کہ عائلہ اور مہرالنساء کی جو اس وقت حالت ہے اس میں اس کا بھی حصّٰہ ہے تو اپنا غصّٰہ ضبط کیے ہونٹ بھینچے اس کی بات خاموشی سے سنتا گیا۔۔۔
    " دیکھو عینا۔۔۔جو کچھ بھی ہوا اس پہ مجھے افسوس ہے۔۔۔مگر لگاتار تم جس لہجے اور جس انداز میں مجھ سے بات کر رہی ہو میں اس کا عادی ہرگز نہیں ہوں۔۔۔بہتر ہوگا کہ تم خود پہ قابو رکھو۔۔۔"
    دلاور ہر لفظ چبا چبا کر درشتی سے بولا۔۔۔
    " اگر تم ایسے لہجے کے عادی نہیں ہو تو میں بھی تمہارے جیسے منحوس آدمی کو برداشت کرنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔اب تک تمہیں سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔۔۔"
    عینا نے دو بدو دلاور کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے جواب دیا۔۔۔صارم کا اس وقت وہاں موجود ہونا اسے بہت تقویت دے گیا تھا اسی وجہ سے بنا لحاظ کیے وہ بولتی گئ۔۔۔
    " دھمکی کس کو دے رہے ہو ہاں۔۔۔شرم نہیں آ رہی تمہیں۔۔۔تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ ہم میں سے یہاں کوئی بھی تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔۔۔پھر چلے کیوں نہیں جاتے تم یہاں سے۔۔۔"
    صارم شاہ عینا کو بازو سے پکڑ کر ایک سائیڈ پہ کرتے دلاور کے سامنے کھڑا ہوتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا غصے سے بولا۔۔۔
    " مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون مجھے یہاں دیکھنا چاہتا ہے اور کون نہیں۔۔۔مجھے صرف اس بات سے غرض ہے کہ میں کس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔اور جس کو میں دیکھنا چاہتا ہوں اسے دیکھنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔۔۔اس لیے تم دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔"
    دلاور صارم شاہ کو ایک ہاتھ سے ہلکا سا پیچھے کو دھکیلتے ہوئے بولا۔۔۔
    " کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو۔۔۔اور دلاور میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں تم نہیں جانا چاہتے مت جاؤ۔۔۔مگر پلیززز رحم کرو ان لوگوں پہ۔۔۔ایک طرف تو تم عائلہ کو اپنی منگ کہ رہے ہو اور دوسری طرف تم لگاتار اس کے گھر والوں کو تکلیف دیتے چلے جا رہے ہو۔۔۔ترس کھاؤ اس بچی پہ جس کی کل کائنات اس کی ماں اور بہن ہیں اور دونوں اس وقت موت سے لڑ رہی ہیں۔۔۔عینا کے سر پہ بھائی بن کر ہاتھ رکھنے کی بجائے تم لگاتار دھونس جما رہے ہو۔۔۔جو تم کر رہے ہو اس سے رشتے بنتے نہیں بگڑتے ہیں۔۔۔"
    اس سے پہلے کہ دلاور پہ صارم کا ہاتھ اٹھتا اور دونوں گتھم گتھا ہوتے شرجیل تیزی سے دونوں کے بیچ میں آ کھڑا ہوا اور بہت تحمل اور صلح جو طریقے سے دلاور کو سمجھانے لگا۔۔۔شرجیل کی باتیں سن کر دلاور کا کھولتا دماغ ٹھنڈا ہوا تھا پھر ایک نظر سب پہ ڈال کر مہرالنساء اور عائلہ کے مشترکہ روم کی طرف چل پڑا جہاں ان کو شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔
    " صارم بھیا بتایا نہیں آپ نے۔۔۔اب کیسی طبیعت ہے ماما کی اور عائلہ آپی کی۔۔۔"
    عینا نے دلاور کے جاتے ہی صارم سے پھر سے پوچھا۔۔۔
    " فکر مت کرو عائلہ اور خالہ جان دونوں ٹھیک ہیں اب۔۔۔آؤ ادھر چلتے ہیں۔۔۔"
    صارم شاہ نے عینا کو تسلی دینے کے ساتھ نظریں چراتے فجر اور اسے اپنے دونوں بازوؤں کے حصار میں لیتے روم کی طرف اشارہ کرتے کہا تھا۔۔۔اور آگے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔شرجیل بھی انکے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔

    " صارم بھیا آپی اور امی کو کب تک ہوش آ جائے گا۔۔۔"
    عینا صارم شاہ اور فجر کے ساتھ پرائیویٹ روم میں داخل ہوئی تو دلاور عائلہ کے سرہانے کھڑا ٹکٹکی باندھے اسے تک رہا تھا۔۔۔ان لوگوں کو اندر آتا دیکھ کر وہ روم سے باہر جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔عینا نے ایک تیز غصیلی نگاہ اس کے باہر نکلتے سمے اس پہ ڈالی اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان سے پہلے یہاں موجود ہوگا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ چلا گیا ہے۔۔۔منہ میں غصے سے بڑبڑاتی پہلے وہ سیدھی مہرالنساء کی طرف بڑھی جو مختلف قسم کی مشینوں سے نکلتی تاروں میں جکڑی ہوئی تھیں ناک پہ آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا اس نے نم آنکھوں سے مہرالنساء کے ماتھے پہ بوسہ دیا پھر ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا کر چومے کچھ دیر یونہی ان کے پاس کھڑا رہنے کے بعد پھر وہ عائلہ کے بیڈ کی طرف بڑھی جو ابھی تک ہوش و خرد سے بیگانہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔دوپٹے سے اس کے بالوں کو اچھی طرح سے کور کرکے اس کی چادر اس پہ ٹھیک سے اوڑھانے کے بعد وہ عائلہ کے چہرے پہ محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔خود کو روکنے اور ضبط کرنے کے باوجود بھی آنسو اس کی گالوں پہ بہنے لگے۔۔۔فجر کا حال بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا۔۔۔خود کو کمپوز کرتے وہ اپنی والدہ اور عائلہ کی طرف دیکھ کر انکے ہوش میں آنے کا صارم شاہ سے پوچھنے لگی۔۔۔
    " عینا۔۔۔آؤ ادھر بیٹھتے ہیں۔۔۔مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے۔۔۔"
    عینا سے زیادہ دیر تک کچھ بھی چھپانا اب صارم شاہ کو مناسب نہیں لگ رہا تھا اس لیے مہرالنساء کی حالت کے بارے میں بتانے کے لیے پہلے اس نے خود کو تیار کیا پھر عینا سے کہنے کے ساتھ فجر کو بھی پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔عینا حیران ہوکر سوالیہ نظروں سے صارم شاہ کی طرف دیکھتی بیڈ کے پاس رکھے بینچ پہ بیٹھ گئ۔۔۔اس کے خیال سے تو سب ٹھیک تھا اب۔۔۔
    " عینا۔۔۔جیسا کہ آپ جانتی ہو مہرالنساء خالہ پہلے ہی ہارٹ پیشنٹ تھیں اور اوپر تھے تلے ہونے والے اٹیک نے نہ صرف انکو فزیکلی بلکے مینٹلی طور پہ بھی بہت کمزور کر دیا تھا۔۔۔آپ انکی کنڈیشن مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتی ہو۔۔۔اب جو کچھ ہوا اس میں ان کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"
    صارم شاہ اصل بات عینا کو بتانے سے پہلے تمہید باندھتا نرم لہجے میں بولا۔۔۔اور کچھ دیر کو رکا۔۔۔
    " صارم بھیا ماما کی کنڈیشن کے بارے میں میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔ماما کی حالت دیکھ کر میں ڈر گئ تھی مگر اب ان کو صحیح سلامت دیکھ کر میں الّٰلہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے۔۔۔میں نے سوچ لیا ہے اب کہ جیسے ہی ماما ہوش میں آتی ہیں ہم لوگ کہیں اور شفٹ ہو جائیں گے جہاں نہ بابا کا سایہ ہو نہ اس منحوس دلاور کا منہ دیکھنا پڑے۔۔۔"
    عینا نے تلخی سے کہا۔۔۔
    " عینا۔۔۔۔سمجھ میں نہیں آ رہا میں کیسے کہوں۔۔۔"
    صارم شاہ تذبذب کا شکار ہوتا عینا کی طرف دیکھ کر پریشان لہجے میں بولا۔۔۔
    " صارم بھیا۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔ماما اور عائلہ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"
    صارم شاہ کے چہرے کی طرف عینا بغور دیکھتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بولی۔۔۔شرجیل اور فجر بھی سوالیہ نظروں سے صارم کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
    " عینا۔۔۔خالہ جان کومہ میں چلی گئ ہیں۔۔۔"
    آخر کار صارم شاہ ہمت کرکے بول ہی پڑا۔۔۔عینا کو اور باقی سب کو لگا کہ شائد انھیں شننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔۔
    " کومہ۔۔۔امی جان۔۔۔کومہ میں۔۔۔"
    عینا نے بے یقینی سے گھٹے گھٹے لہجے میں رک رک کر فورہ مکمل کیا۔۔۔
    " یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔یہ۔۔۔یہ ہاسپٹل بلکل بھی اچھا نہیں ہے۔۔۔اجالا۔۔۔اجالا بھی یہیں آئی تھی۔۔۔پھر وہ نہیں رہی۔۔۔اب ماما۔۔۔عائلہ آپی۔۔۔"
    عینا ہزیانی انداز میں یکدم اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔پھر وہ کبھی مہرالنساء کے پاس جا کر انھیں ہلا ہلا کر دیکھتی اور کبھی عائلہ کے پاس جا کر اس کی ناک کے آگے ہاتھ رکھ کر اس کی سانسیں چیک کرتی۔۔۔فجر نے اس کی حالت پہ پریشان ہو کر اس کو بازو سے پکڑ کر روک کر اسے تسلی دینے اور ریلیکس کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی ٹرانس میں فجر کو ایک سائیڈ پہ کرکے یوں باتیں کرنے لگی جیسے وہاں اس کے سوا کوئی اور نہ ہو۔۔۔
    " ہم یہاں نہیں رہیں گے۔۔۔صارم بھیا۔۔۔ابھی کے ابھی ہم ماما اورعائلہ آپی کو یہاں سے لے کر جائیں گے۔۔۔میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں ہمیں یہاں نہیں رہنا۔۔۔"
    عینا بولتے بولتے یکدم صارم کے سامنے کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔۔
    " عینااااا۔۔۔۔۔ہوش کرو۔۔۔کچھ نہیں ہوگا نہ عائلہ کو نہ خالہ جان کو۔۔۔"
    صارم شاہ نے عینا کی حالت دیکھتے اس کے دونوں کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اپنے ہاتھوں کا دباؤ ڈالتے اسے تقریباً جنجھوڑتے ہوئے تقریباً بلند آواز میں کہا۔۔۔تو ایک پل کو وہ صارم شاہ کا چہرہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہی پھر دوسرے لمحے وہ بے اختیار صارم شاہ سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی روتے روتے اس کی ہچکی بندھی تو فجر جلدی سے گلاس میں پانی لے آئی۔۔عینا نے دو گھونٹ بھر کر گلاس واپس کیا پھر پاس پڑے بینچ پہ گرنے کے سے انداز می بیٹھ گئ۔۔۔روم میں گہرا سناٹا چھا گیا۔۔۔فجر بھی عینا کے پاس آ کر بیٹھ گئ اور اسے ہلکے سے اپنے ساتھ لگا کر اس کی کمر سہلانے لگی۔۔۔
    " عینا تم ٹھیک ہو۔۔"
    کچھ دیر بعد فجر نے عینا سے پوچھا۔۔۔جو اپنے آنسو صاف کرنے کے بعد اب آنے والے حالات کے بارے میں گہری سوچوں میں غرق تھی۔۔۔
    " ہممممم۔۔۔۔۔ٹھیک ہوں میں۔۔۔تم دیکھ رہی ہو فجر یہاں ماما اور عائلہ آپی موت سے لڑ رہی ہیں مگر ہمارے سو کالڈ باپ کو نہ کوئی پرواہ ہے نہ فکر۔۔۔
    ایمن۔۔۔۔ایمن کہاں ہے۔۔۔افففففف میرے خدا۔۔۔مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئ مجھے اس کا دھیان کیوں نہیں رہا۔۔۔وہ گھر پہ اکیلی ڈر رہی ہوگی۔۔۔افففففف۔۔۔۔یہ کیا کیا میں نے۔۔۔"
    فجر کو جواب دینے کے بعد اس نے روم میں نگاہ دوڑائی تو اچانک اس کا دھیان ایمن کی طرف گیا جو اسے کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔جس کو اس قدر سنگین صورت حال میں گھر ہی چھوڑ آئی تھی اور کب سے اسے بھولی بیٹھی تھی۔۔۔ایمن کا خیال آتے ہی اس کے حواس جھنجنا اٹھے تھے وہ انتہائی پریشان لہجے میں خود کلامی کرتے ہوئے بولی۔۔۔
    " پریشان مت ہو۔۔۔میں ابھی احتشام بھائی سے بات کرتا ہوں کہ وہ جا کے دیکھیں۔۔۔"
    صارم کا بھی دھیان جیسے ہی ایمن کی طرف گیا وہ خود بھی پریشان ہو اٹھا اور عینا کو تسلی دیتے فوراً احتشام شاہ کو کال ملانے لگا۔۔۔
    " اسلام علیکم بھیا۔۔۔۔۔نہیں خیریت نہیں ہے۔۔۔۔۔بھیا ایمن گھر پہ اکیلی ہے پلیززز ابھی جاکے دیکھیں اسے۔۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔یو آر سو گریٹ مائی برو۔۔۔۔۔۔چلیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔نہیں ابھی تو ہوش نہیں آیا۔۔۔۔۔۔اوکے میں بھیجتا ہوں انکو۔۔۔۔بائے۔۔۔۔۔"
    ایمن کے گھر پہ اکیلا رہ جانے پہ اس کا دماغ شدید تناؤ کا شکار ہوا تھا مگر احتشام شاہ سے بات کرنے کے ساتھ ہی اس کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے ایکدم ہی وہ پرسکون ہوا تھا۔۔۔پھر ایک دو منٹ مزید بات کرنے کے بعد صارم شاہ نے بائے کہ کر کال ڈسکنیکٹ کردی تھی۔۔۔
    " فکر مت کرو گڑیا۔۔۔احتشام بھائی کہ رہے ہیں کہ گھر واپسی پہ ان کو بھی اچانک ایمن کا خیال آیا تھا اور پہلے وہ آپکی طرف گئے تھے گھر ، انکل رشید اپنے روم میں تھے ایمن بتا رہی تھی کہ ہمارے وہاں سے نکلنے کے بعد وہ اچانک بے ہوش ہو گئے تھے پھر وہ جا کر خالہ سکینہ کو بلا لائی اور جب ہوش آیا تو اپنے روم میں بند ہوگئے۔۔۔خالہ سکینہ ایمن کو اپنی طرف لے گئ تھیں۔۔۔۔"
    صارم شاہ نے ساری تفصیل سے ان لوگوں کو آگاہ کیا جو کال ڈسکنیکٹ ہونے اور ایمن کے بارے میں جاننے کے لیے بے چینی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ایمن کے بارے میں سن کر کہ وہ خالہ سکینہ کی طرف ہے عینا نے ایک گہری پرسکون سانس خارج کی تھی۔۔۔ابھی وہ باتیں کر رہے تھے کہ رات کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر دو نرسوں کے ساتھ روم میں داخل ہوا۔۔۔
    " ڈاکٹر صاحب ان کو ہوش کب تک آ جائے گا۔۔۔"
    عینا نے آگے بڑھ کر بے چینی سے اپنی ماما اور عائلہ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔جو پیشنٹ فائل چیک کرنے کے بعد اس پہ کچھ مزید میڈیسن کے بارے لکھ رہا تھا۔۔۔
    " دیکھیں الّٰلہ سے دعا کریں۔۔۔آپکی والدہ کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔۔۔اب ان کو ہوش کب آتا ہے یہ دنیا کا کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بتا سکتا۔۔۔البتہ ان کی ول پاور اور آپکی الّٰلہ سے انکے حق میں کی جانے والی دعا وہ واحد چیز ہے جو ان کو موت کے منہ سے بھی واپس لا سکتی ہے ۔۔ہم لوگ پرامید ہیں کہ انشاءالّٰلہ یہ جلد ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔آپ بھی امید کا دامن مت چھوڑیں۔۔۔الّٰلہ سے دعا کریں۔۔۔باقی آپکی سسٹر انشاءالّٰلہ صبح تک ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔"
    ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور نرسز کو ڈرپ چینج کرنے کا کہ کر اور چند ہدایات دے کر باہر نکل گیا۔۔۔
    " شرجیل تم ایسا کرو کہ تم لوگ گھر چلے جاؤ عینا کو بھی ساتھ لے جاؤ۔۔۔یہاں فلحال۔۔۔۔۔"

    '" نہیں میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔میں یہیں رکوں گی۔۔۔"
    عینا صارم شاہ کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر جلدی سے دو ٹوک لہجے میں بولی۔۔۔
    " چلو ٹھیک ہے ایسا کرتے ہیں میں اور صارم باہر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔آپ اور فجر روم میں ادھر ہی رکو۔۔۔"
    شرجیل نے عینا کی بات سن کر اپنی رائے دیتے کہا تو صارم شاہ سر ہلاتا اسکے ساتھ باہر نکل گیا۔۔۔
    رات کا آخری پہر تھا جب صارم شاہ روم میں انھیں دیکھنے آیا تھا فجر اور عینا بیڈ کے پاس رکھے بینچ پر نیم دراز سوئی ہوئی تھیں اس نے مہرالنساء اور عائلہ کی طرف دیکھا تو ڈرپ تقریبًا ختم ہونے قریب تھی۔۔۔اس نے نرس کو بلانے کی بجائے خود ہی پہلے مہرالنساء کی ڈرپ آف کی پھر عائلہ کی طرف بڑھا۔۔۔
    ڈرپ آف کرنے کے بعد وہ یک ٹک عائلہ کی طرف دیکھے گیا جس کے چہرے کی سرخی میں اب زردی گھلی ہوئی تھی۔۔۔رونے کے سبب آنکھوں کے پپوٹوں پہ سوجن ابھی بھی موجود تھی۔۔۔صارم شاہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا ہو۔۔۔دل میں بے اختیار اسے چھونے کی خواہش مچلی تھی۔۔۔مگر دوسرے لمحے اس نے خود پہ بند باندھے تھے۔۔۔اس سے پہلے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں اس کا نفس اس پہ حاوی ہو کر اسے کسی گستاخی پہ مجبور کرتا کچھ پل یونہی اسے نہارنے کے بعد اس پہ ایک گہری نظر ڈال کر وہ روم سے باہر نکل گیا۔۔۔


    " امی جان یہ ہمارا وہم بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔جب ہم لاسٹ ٹائم دانی سے ملنے گئے تھے تو ایس ایچ او نے کہا تھا کہ دانی اب۔۔۔۔"
    فاطمہ نے ناشتے کی ٹرے تیار کرتے رضوانہ خاتون سے بس اتنا ہی کہا تھا آگے اس سے فقرہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔۔۔رات جب انھوں نے مہدیہ سے پوچھا تھا کہ یہ کب کی بات ہے تو اس نے کہا تھا کہ تقریباً 5 ، 6 سال پرانی بات ہے جسے سن کر فاطمہ دل مسوس کر رہ گئ دانی کو سزا ہونے کے بعد وہ لوگ ایک دو بار اس سے ملنے گئ تھی مگر دانی نے ملنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ سختی سے منع کردیا کہ اس کے گھر سے جو بھی آئے اس سے ملاقات نہ کروائی جائے۔۔۔ پھر جب وہ لوگ وہاں سے شفٹ کر رہے تھے تب فاطمہ رضوانہ خاتون کے ساتھ لاسٹ ٹائم اس سے ملنے گئیں تو وہاں سے انھیں کوئی اور ہی خبر ملی جسے سن کر وہ لوگ روتی سسکتی واپس آ گئیں۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں رضوانہ خاتون کا دل کہ رہا تھا کہ یہ ان کا دانی ہی ہے۔۔۔مان کر بھی وہ کبھی نہیں مانی تھیں کہ ان کا دانی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔
    " تم جلدی سے یہ ناشتہ ڈائینگ ٹیبل پہ سرو کر کے آؤ۔۔۔پھر دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا وہم ہے یا حقیقت۔۔۔"
    رضوانہ خاتون نے ٹرے میں ایپل جوس رکھتے ہوئے کہا۔۔۔


    " آ۔۔۔آپ۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔"
    قاسم کو اپنے دروازے پہ دیکھ کر مہدیہ حیرت زدہ ہو کر ذرا سا دروازہ کھولتے اس کی آڑ میں ہوتے بولی۔۔۔
    " جی میں۔۔۔۔اندر آنے کو نہیں کہیں گی کیا۔۔۔۔"؟
    قاسم نے شوخ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
    " سوری۔۔۔ماسو ماں گھر پہ نہیں ہیں۔۔۔اور ویسے بھی آپکو اندر بلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔"
    مہدیہ نے خود کو بے باک نگاہوں سے تکنے کی کوشش کرتی اس کی نظروں سے کوفت زدہ ہوتے رکھائی سے کہا۔۔۔اور مزید ذرا سا اور دروازہ بند کردیا۔۔۔
    ویسے حیرت ہے کہ آپ بھی کسی کو اندر آنے سے روکتی ہیں۔۔۔"
    قاسم نے ذومعنی لہجے میں کہا۔۔۔اور ساتھ ہی دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالتے اسے کھولنے کی کوشش کی۔۔۔جسے مہدیہ نے فوراً دروازہ بند کر کے ناکام بنا دیا۔۔۔
    " دیکھیں مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔آپ مجھے اندر۔۔۔۔"
    قاسم نے دروازے پہ یونہی ہاتھ رکھے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ مہدیہ نے فوراً اس کی بات کاٹی تھی۔۔۔
    آپ کو جو بھی بات کرنی ہے ماسو ماں سے کیجیے گا۔۔۔بلکہ ان سے ہی کریں جا کر۔۔۔خدا حافظ۔۔۔"
    مہدیہ نے تیکھے لہجے میں کہ کر فوراً دروازے کی کنڈی لگائی تھی۔۔۔قاسم کو مہدیہ پہ شدید غصہ آیا تھا۔۔۔آج کتنے دن بعد اسے موقع ملا تھا اس سے بات کرنے کا۔۔۔اور جب ملا ہی ملا تو وہ ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔ مہدیہ نے اسے اندر بلانا تو دور کی بات اس کی بات تک نہیں سنی تھی۔۔۔
    جبکہ قاسم کا خیال تھا کہ وہ جس جگہ سے آئی ہے وہاں کی رہنے والیوں کا شرم حیا سے کیا تعلق۔۔۔مگر اس نے مہدیہ کے متعلق جو سوچا تھا وہ بلکل اس کے الٹ پیش آئی تھی۔۔۔اور قاسم کو اس کا یوں پیش آنا اس کے نخرے اس کی ادا لگا تھا۔۔۔
    " تو مہدیہ عرف موہنی بائی اپنے دام بڑھانا چاہتی ہے۔۔۔پیٹ میں کسی کا گندہ خون پال کر نخرے یوں دکھا رہی ہے جیسے بڑی کوئی شریف زادی ہے۔۔۔چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ویسے بھی جو آسانی سے مل جائے اس میں کیا مزا۔۔۔اور اس کھیل میں لگتا بہت مزا آنے والا ہے۔۔۔"
    قاسم منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔۔۔
    " میں تو آپ سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔لیکن اگر آپ یہی چاہتی ہیں کہ سب کے بیچ میں بات ہو تو پھر یہی سہی۔۔۔"
    قاسم دروازے پہ ایک گھوری ڈال کر دھمکی آمیز لہجے میں یوں بولا جیسے مہدیہ اس کے سامنے کھڑی ہو۔۔۔کچھ دیر تک اندر سے کوئی جواب نہ ملنے پہ وہ واپس مڑ گیا۔۔۔
    قاسم کی بات سن کر دروازے کے پاس کھڑی مہدیہ کا دل ُخوف سے دھڑکا تھا۔۔۔قاسم کا یوں آنا اور ذومعنی بات کرنا۔۔۔اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔اس کا دل انجانے وسوسوں کا شکار ہوا تھا۔۔۔
    قاسم کے جانے کے بعد مہدیہ کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔۔۔اس کی چھٹی حس خطرے کا الارم بجا رہی تھی۔۔۔
    " یا الّٰلہ اب یہ کونسی نئ آزمائش ہے۔۔۔کہیں قاسم کو میرے بارے میں کچھ پتہ تو نہیں چل گیا۔۔۔نہیں یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ لاہور سے باہر نکلنا تو دور کی بات میں تو کبھی محفل کے لیے اس بازار سے بھی باہر نہیں گئ۔۔۔ رحم کر میرے مالک۔۔۔مجھے ماسو ماں سے اس بارے میں ذکر کرنا ہوگا۔۔۔
    مہدیہ دل ہی دل میں پریشان ہو کر بڑبڑاتی خود ہی سوال کرتی اور خود ہی اس کا جواب دینے لگتی۔۔۔کمرے کے چکر کاٹتے کاٹتے اس کی ٹانگیں اور جسم تھکاوٹ کا شکار ہوا تو اپنی چارپائی پہ نڈھال سی ہو کر لیٹ گئ۔۔۔
    کچھ دیر بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو اٹھ کر فریش ہونے کا سوچ کر دیوار گیر الماری سے اپنے کپڑے نکالنے کے لیے الماری کھول کر اپنے لیے ڈریس دیکھنے لگی۔۔۔
    الماری میں تین پورشن بنائے گئے تھے۔۔۔پہلے پورشن میں رضوانہ خاتون کا کچھ سامان اور کپڑے سیٹ کیے تھے اس نے۔۔۔دوسرے میں فاطمہ کے اور لاسٹ والے میں اپنے رکھے تھے۔۔۔مگر اب جب الماری کھولی تو سب کی جگہ چینج تھی۔۔۔
    " اب یہ دوپٹہ کہاں چلا گیا۔۔۔"
    مہدیہ نے ایک گرین کلر کا سیلف پرنٹ لان کا سوٹ اپنے لیے منتخب کیا۔۔۔سوٹ تو اس کو مل گیا مگر اس کے ساتھ کا دوپٹہ غائب تھا۔۔۔اس نے پہلے اپنے والے حصے میں پھر فاطمہ والے حصے میں دیکھا مگر دوپٹہ وہاں بھی نہیں تھا وہ کوفت زدہ ہوتی جنجھلا کو بولی۔۔۔الماری بند کر کے اس نے کمرے کا جائزہ لیا کہ شائد سیٹنگ کے دوران باہر کہیں پڑا رہ گیا ہو۔۔۔اچانک اس کی نظر ماسو ماں کے بیڈ پہ پڑی تو اسے سرہانے کے پاس اپنا میچنگ دوپٹہ پڑا نظر آیا۔۔۔شکر کا گہرا سانس بھرتے وہ بیڈ کی طرف آئی جہاں کچھ اور سامان بھی پڑا تھا۔۔۔
    " لگتا ماسو ماں صبح اسے الماری میں واپس رکھنا بھول گئیں تھیں۔۔۔"
    مہدیہ نے ایک دو شاپر الٹ پلٹ کر دیکھتے کہا اور اٹھا کر انھیں واپس رضوانہ خاتون کے کپڑوں کے پاس الماری میں رکھ دیا۔۔۔
    پھر بیڈ کی چادر ٹھیک کرکے تکیہ جھاڑ کر رکھنے کے لیے اٹھایا تو اس کے نیچے ایک پرانا سا البم پڑا دیکھ کر حیران ہوتے اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔البم کے سٹارٹ میں رضوانہ خاتون اور ان کے ہسبنڈ کے ساتھ فاطمہ کے کچھ بچپن کی تصویریں تھیں جو مختلف مواقع پہ فیملی کے ساتھ لی گئ تھیں۔۔۔ان تصویروں میں ایک بچے کی تصویر بھی تھی جسے دیکھ کر مہدیہ کو وہ چہرہ جانا پہچانا لگا۔۔۔اس نے اشتیاق اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتے جلدی سے دو تین پیج ایک ساتھ پلٹے تو تیسرے پیج پہ جو چہرہ سامنے آیا اسے تو وہ لاکھوں کی بھیڑ میں بھی دور سے ہی پہچان لیتی۔۔۔اسے جیسے سکتہ ہوگیا تھا البم میں اس کی پک بھی دیکھ کر۔۔۔
    د۔۔۔د۔۔۔دلااا۔۔۔۔۔ور۔۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔"
    مہدیہ بے یقینی سے دلاور عرف دانی کی تصویر کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔۔۔اس کی نظریں جیسے اس تصویر پہ جم کر رہ گئیں۔۔۔وہ بار بار تصویر کو آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگی کہ کہیں یہ اس کا وہم نہ ہو۔۔۔مگر نہیں۔۔۔یہ اس کا وہم نہیں تھا۔۔۔وہ بلا شبہ دلاور ہی تھا۔۔۔اس کے دل و روح میں بسنے والا۔۔۔اس کی اولین چاہت۔۔۔اس کا دلبر بھی۔۔۔اور اس کا مجرم بھی۔۔۔آج کتنے عرصے بعد اس ستمگر کا چہرہ نظر آیا تھا اس کو۔۔۔وہ تصویر شائد کسی ورکشاپ پہ لی گئ تھی۔۔۔گندے کپڑوں اور گندے حلیے میں ہاتھ میں پانہ پکڑے وہ کسی گاڑی کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
    " دلاور۔۔۔۔آئی ہیٹ یو۔۔۔۔بہت برے ہوتم۔۔۔۔میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔۔۔۔تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔۔۔۔
    نہیں۔۔۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔۔آئی مس یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔
    بہت پیار کرتی ہوں تم سے۔۔۔۔اس سب کے باوجود کہ تم نے میری روح پہ وہ زخم دیا ہے جس میں سے ہر پل اٹھتی درد کی ٹیسیں مجھے بے چین رکھتی ہیں۔۔۔۔مگر پھر بھی۔۔۔۔میں تمہیں بھول نہیں پا رہی ہوں۔۔۔۔۔بہت برے ہوتم۔۔۔۔دلاور بہت برے ہو تم۔۔۔۔۔تم مجھے بھولتے کیوں نہیں ہو۔۔۔۔میں تمہیں بھول جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔۔یاالّٰلہ میں کیا کروں۔۔۔۔۔میری مدد فرما میرے مالک۔۔۔۔مجھ سے یہ درد سہا نہیں جا رہا۔۔۔۔۔مجھے کوئی رستہ دکھا میرے مالک۔۔۔۔مجھے اس آزمائش سے نکال دے میرے مالک۔۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔۔
    مہدیہ دلاور کی تصویر البم سے نکال کر ہاتھ میں پکڑے وہیں بیڈ پہ ٹانگیں لٹکائے گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئ۔۔۔۔پھر اس کے چہرے کے ایک ایک نقش پہ دیوانوں کی طرح ہاتھ پھیرتے روتے سسکتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بولنے لگی۔۔۔۔۔اس وقت وہ سچ میں کوئی پاگل ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔جو کبھی تصویر پہ ہاتھ پھیرتے اس پہ غصہ کرنے لگتی اور کبھی اس تصویر کو سینے سے لگا کر بھینچنے لگتی۔۔۔۔۔پھر چھت کی طرف منہ اٹھا کر الّٰلہ سے یوں فریاد کی جیسے اس کے اور الّٰلہ کے بیچ میں نہ کوئی چھت ہے نہ کوئی دیوار۔۔۔۔۔روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئ تھی۔۔۔۔۔


    آخر مسلہ کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔میں صبح سے دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔حد ہوتی ہے کسی بات کی۔۔۔۔جو بات بھی تمہارے دماغ میں چل رہی ہے وہ تم پھوٹتے کیوں نہیں ہو۔۔۔۔"
    دلاور رات کو ہی ہاسپٹل سے واپس لاہور آ گیا تھا۔۔۔۔عینا کے اس قسم کے شدید ردعمل۔۔۔ صارم کی وہاں موجودگی اور عائلہ کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے فلحال وہ بھی کوئی مزید بدمزگی نہیں چاہتا تھا۔۔۔اس لیے وہاں سے چلا آیا۔۔۔
    جب وہ واپس آیا تو بلال نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور نہ کوئی سوال ہی کیا۔۔۔دلاور جانتا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے کیوں کہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ بلال کو بنا اپنے ساتھ لیے بنا کچھ بتائے اکیلا کسی کام کو نکلا تھا۔۔۔
    صبح اس سے بات کرنے کا سوچ کر دلاور نے سیدھے اپنے روم کا رخ کیا تھا۔۔۔
    صبح اس کی آنکھ کھلی تو بلال گھر سے غائب تھا۔۔۔اور اب تقریباً 12 بجے جب وہ واپس آیا تو تب بھی اس نے دلاور کو سامنے کھڑا دیکھنے کے باوجود آنکھ اٹھا کر نہ اسے دیکھنا گوارا کیا نہ بلانا۔۔۔
    تو دلاور جنجھلاتا ہوا اس کے روم میں اس کے پیچھے پیچھے آتا بولا۔۔۔۔
    " میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔۔اور یہ تم کیا کر رہے ہو۔۔۔۔کہاں کی تیاری ہے۔۔۔"
    دلاور نے حیران ہوتے اس سے پوچھا جو بنا اس کی طرف دیکھے اور کوئی جواب دئیے الماری سے اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں نکال نکال کر کچھ بیڈ پہ اور کچھ بیگ میں ٹھونسنے کے انداز میں رکھ رہا تھا۔۔۔
    " بلال۔۔۔۔۔ناراض ہو یار۔۔۔۔"
    اب کے دلاور نے اس کے راستے میں حائل ہوتے اس کے ہاتھ سے کپڑے پکڑ کر بیڈ پہ پھینکتے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
    " نہیں۔۔۔۔ناراض وہاں ہوا جاتا ہے جہاں کوئی رشتہ ہو۔۔۔کوئی تعلق ہو۔۔۔اور تمہارا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔مجھے یہ بتانے کے لیے تمہارا بہت شکریہ۔۔۔
    میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔۔۔بلکہ مجھے خود پہ غصہ آ رہا ہے۔۔۔خود پہ افسوس ہو رہا ہے کہ اتنے عرصے تک میں یہ بھی نہ جان پایا کہ تمہاری زندگی میں میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔۔
    میں بے وقوف آج تک تمہیں اپنا بھائی۔۔۔اپنا دوست۔۔۔۔اپنا سب کچھ مانتا آیا۔۔۔۔حتیٰ کہ تمہاری خاطر اپنے گھر اپنی فیملی سے بھی دور ہو گیا۔۔۔۔
    مگر۔۔۔۔میں تو تمہاری زندگی میں کہیں بھی نہیں ہوں۔۔۔میرے ہونے نہ ہونے سے تمہیں تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔۔۔
    مجھے زبردستی دوسروں کے سر پہ مسلط ہونے کی عادت نہیں ہے اس لیے میں جا رہا ہوں یہاں سے۔۔۔بس اس بات کا افسوس رہے گا ساری عمر کہ کاش میں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیتا۔۔۔پہلے ہی تمہیں سمجھ جاتا۔۔۔"
    بلال نے تلخ لہجے میں کہا اور پھر سے سامان کی پیکنگ کرنے لگا۔۔۔
    " کس نے کہا کہ تمہاری اہمیت نہیں ہے۔۔۔ایک تم ہی تو ہو جو رشتے کے نام پہ میرے پاس بچے ہو۔۔۔بھائی کی صورت میں۔۔۔دوست کی صورت میں۔۔۔۔سب سے بڑھ کر میرے ہمراز میرے ہمدرد۔۔۔۔"
    دلاور نے بلال کے کندھے پہ اپنے ہاتھ رکھتے جزباتی ہوتے کہا۔۔۔
    " جو ہمراز ہوتے ہیں ان سے نہ تو کچھ چھپاپا جاتا ہے نہ ان کو راستے میں تنہا چھوڑا جاتا ہے۔۔۔
    ہم تب سے ساتھ ہیں دلاور جب ابھی تمہاری مونچھیں بھی ٹھیک سے نہیں پھوٹی تھیں۔۔۔تب سے لے کر کل تک ہم ہر جگہ ہر قدم پہ ایک دوسرے کا سایہ بن کر رہے۔۔۔
    مگر اب اچانک ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ تم بنا مجھے کوئی خبر کیے نہ صرف گاؤں گئے بلکہ عائلہ کے ساتھ نکاح کا سارا بندوبست کرکے گئے۔۔۔
    مشورہ کرنا تو دور کی بات تم نے مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔۔۔شائد تمہیں ڈر تھا کہ میں تمہیں اس کام سے روکوں گا۔۔۔اسی لیے تم مجھے کچھ بتائے بنا چلے گئے۔۔۔"
    بلال نے غصے سے دلاور کے ہاتھ جھٹکتے اس سے دو قدم دور ہوتے کہا۔۔۔
    " پہلے ایک بار میری بات سن لو۔۔۔اس کے بعد بھی اگر تمہیں لگے کہ میں جان بوجھ کر تمہیں ساتھ لے کر نہیں گیا تو پھر جو دل میں آئے کرنا۔۔۔پلیزززز۔۔۔یار۔۔۔۔بس ایک بار میری بات سن لو۔۔۔۔"
    دلاور نے ملتجی لہجے میں کہا۔۔۔زندگی میں پہلی بار ان کے بیچ میں ایسا من مٹاؤ پیدا ہوا تھا۔۔۔بلال کے اسے چھوڑ جانے کے خیال سے ہی دلاور کو لگا جیسے زمین اس کے پیروں تلے سے سرک رہی ہو۔۔۔وہ سب سہ سکتا تھا مگر یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اسے یوں تنہا چھوڑ کر چلا جائے۔۔۔لڑکپن سے لے کر آج تک جو ہر سرد و گرم میں کسی ڈھال کی مانند اس کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا رہا تھا اسے کیسے وہ جانے دیتا۔۔۔اسی لیے وہ دلاور بن کر نہیں اس کا دوست اس کا بھائی بن کر اس سے التجا کرنے لگا۔۔۔
    " اچھا ٹھیک ہے بولو۔۔۔۔سن رہا ہوں میں۔۔۔"
    بلال نے نرم پڑتے کہا۔۔۔پھر دلاور نے رشید احمد کے گھر کیمرہ لگانے سے لے کر مہرالنساء کا صارم کو بلانے اور عائلہ سے اس کے نکاح اور پھر عائلہ اور مہرالنساء کی طبیعت خراب ہونے سے ہاسپٹل ایڈمٹ ہونے تک سب اسے الف سے یہ تک تفصیلاً بتاتا چلا گیا۔۔۔بلال چپ چاپ اس کی بات سنتا رہا۔۔۔
    عینا ٹھیک کہ رہی ہے دلاور۔۔۔ان کے گھر کیمرے لگوا کر تونے انتہائی گھٹیا حرکت کا ثبوت دیا ہے۔۔۔اگر اس کی ماں کو کچھ ہوگیا تو عائلہ کا تجھے ملنا تو دور کی بات تو خود بھی خود کو معاف نہیں کر پائے گا۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ تجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔تو غلطیوں پہ غلطیاں کیوں کرتا جا رہا ہے۔۔۔ تو عائلہ کا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔۔۔تجھے کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ نفرت کرتی ہے تم سے۔۔۔اگر صارم اور عائلہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں تو مت آ انکے بیچ میں۔۔۔
    چھوڑ دے ان لوگوں کو ان کے حال پہ۔۔۔موہنی کا سوچ۔۔۔اپنے بچے کا سوچ۔۔۔نہ جانے کہاں دھکے کھاتی پھر رہی ہے وہ۔۔۔"
    بلال نے دلاور کی زبانی ساری بات سننے کے بعد اسے پھر سے سمجھانے کی کوشش کرتے مدبرانہ لہجے میں کہا۔۔۔
    " کیا کروں یار۔۔۔۔نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔زندگی میں پہلی بار اس دل نے کسی کی چاہ کی ہے۔۔۔مجھے بھی لگتا تھا کہ مجھے موہنی سے محبت ہے اسی لیے میں اس سے ملنے اس کے پیچھے جاتا تھا۔۔۔مگر جب عائلہ میری زندگی میں آئی تو مجھے پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔میں نے اپنے اندر کو اپنے دل کو ٹٹولا تو مجھے موہنی کہیں نظر نہیں آئی۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔کہ یہ دل صرف عائلہ کو مانگتا ہے۔۔۔
    اسی کو چاہتا ہے۔۔۔"
    دلاور نے ٹوٹے لہجے میں بے بسی سے کہا۔۔۔بلال کچھ پل کو اس کی طرف یونہی دیکھتا رہا۔۔۔جو مٹھیاں بھینچے اس کے سامنے بیٹھا اپنے اندر ہوتی جنگ سے نبرد آزما تھا۔۔۔بلال کو اس پہ ترس آ رہا تھا۔۔۔
    " پھر میری دوسری بات مان لے۔۔۔"
    بلال نے دلاور کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
    " کیا۔۔۔۔"؟
    دلاور نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔
    " تو موہنی کا پیچھا چھوڑ دے پھر۔۔۔دونوں میں سے کسی ایک کو چن لے۔۔۔اگر تجھے عائلہ چاہیے تو پھر موہنی کے پیچھے کیوں خوار ہو رہا ہے۔۔۔کیوں اپنے بندوں کو اس کی تلاش پہ لگایا ہوا ہے۔۔۔
    بلال نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔
    " موہنی میرے بچے کی ماں بننے والی ہے۔۔۔میں نہیں چھوڑ سکتا اسے۔۔۔اور اس وقت تک تو بلکل بھی نہیں جب تک محھے اطمینان نہیں ہوجاتا کہ وہ ٹھیک ہے۔۔۔مجھ سے بے خبری میں جو گناہ سرزد ہوا ہے میں ہر صورت اس کی بھرپائی کروں گا۔۔۔اس سے معافی مانگوں گا اور جب تک وہ مجھے معاف نہیں کرے گی میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑوں گاچاہے تو بدلے میں میری جان لے لے۔۔۔"
    دلاور نے بے بسی و شرمندگی کے ملے جلے تاثرات لیے کہا۔۔۔
    " ہممممم۔۔۔۔۔اور اگر اس نے معافی کے بدلے میں عائلہ کو چھوڑنا مانگ لیا تو۔۔۔۔پھر کیا کرو گے۔۔۔"
    بلال نے دوستانہ لہجے میں کہا۔۔۔بلال کا خیال تھا کہ دلاور کو خود نہیں پتہ کہ وہ کیا چاہ رہا ہے۔۔اسی لیے وہ اسے تصویر کا ہر رخ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے۔۔۔
    " پتہ نہیں۔۔۔میں نے اس بارے میں میں کبھی نہیں سوچا۔۔۔"
    دلاور نے کندھے اچکاتے کہا۔۔۔
    " تو پھر آج سے سوچنا شروع کردو دلاور۔۔۔جب کسی سے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں تو پھر اپنی ہر چاہ ہر خوشی سے دستبردار ہو کر بس سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔۔۔جس معافی میں معافی کے ساتھ اپنی شرائط بھی رکھی جائیں وہ کوئی سودا تو ہو سکتا ہے معافی نامہ نہیں۔۔۔
    اور دوسری بات آج کے بعد تم کوئی قدم بھی مجھے بنا بتائے نہیں اٹھاؤ گے۔۔۔"
    بلال نے رسانیت سے اسے سمجھاتے کہا۔۔۔
    " اوکے۔۔۔۔نہیں اٹھاؤں گا۔۔۔لیکن تم بھی آج کے بعد دوبارہ کبھی مجھے چھوڑ کر جانے کی بات مت کرنا۔۔۔"
    دلاور نے بلال کی طرف مصنوعی گھوری ڈالتے کہا۔۔۔تو بلال نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔


    Comment


    • #72
      بہترین اپڈیٹ تھی بھائی

      Comment


      • #73

        Episode , 48 #

        " اسلام علیکم۔۔۔آپا کیسی ہیں آپ۔۔۔اور بھائی صاحب ، بچے ، سب کیسے ہیں۔۔۔"؟
        آئمہ سلطان نے سلام کے ساتھ کئ سوال کر ڈالے۔۔۔
        " الّٰلہ کے فضل سے سب ٹھیک ہیں۔۔۔تم سناؤ کیا حال چال ہیں سب کے۔۔۔بیٹے کی یاد آرہی ہے کیا۔۔."؟
        ہائمہ خاتون نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
        " نہیں۔۔۔بیٹے کی نہیں۔۔۔وہ تو آپکا ہے۔۔۔مجھے تو اپنی بیٹی کی یاد آ رہی ہے۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔تو اپنی بہن کی بات پہ ہائمہ خاتون بھی ہنس دیں۔۔۔
        " آپا۔۔۔اصل میں مجھے پوچھنا تھا کہ شرجیل اور فجر بیٹی کا واپسی کا کیا پروگرام ہے۔۔۔اصل میں آپا شرجیل مجھ سے ایک دن کا کہ کر آیا تھا۔۔۔ خاندان اور باہر کے سبھی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ بیٹے کا ولیمہ ہے اور بیٹا بہو دونوں گھر سے غائب۔۔۔آپا میری شرجیل سے بات ہوئی تھی تو اس سے وہاں کی صورت حال کا پتہ چلا۔۔۔تو میں نے ہی کہا تھا کہ ولیمہ سے ایک دن پہلے آ جائے۔۔۔ یہاں کی فکر مت کرے سب انتظامات اس کے تایا اور بھائی دیکھ لیں گے۔۔۔اب کل رات سے میں اس کو کال کر رہی لیکن وہ اٹینڈ نہیں کر رہا تو فکر ہو رہی تھی۔۔۔
        آئمہ سلطان نے اصل بات کی طرف آتے کہا۔۔۔
        " مجھے اندازہ ہے ہائمہ۔۔۔اور میں شرمندہ بھی ہوں۔۔۔ بیٹے کی نئ نئ شادی ہو۔۔۔مہمانوں سے گھر بھرا ہو اور ایسے میں شادی کے اگلے دن بیٹا اور بہو غائب ہو جائیں تو جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔مگر یہاں صورت حال ہی ایسی تھی کہ کسی کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔۔۔اب بھی تقریباً وہی صورت حال ہے۔۔۔مگر تم فکر مت کرو۔۔۔آج یہ لوگ واپس آ رہے ہیں۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے شرمندہ ہوتے کہا۔۔۔
        " آپا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔۔ہم ایک فیملی ہیں۔۔۔ہمارے دکھ سکھ بھی ایک ہیں۔۔۔کون کیا کہ رہا ہے۔۔۔یا لوگ کیا کہیں گے ہمیں یہ نہیں سوچنا نہ اس بات کی پرواہ کرنی ہے۔۔۔ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کونسی بات ہمارے گھر میں سکون لے کر آئے گی اور کونسی بات بے سکونی پیدا کرے گی۔۔۔اپنے گھر اور اپنے بچوں کی خوشیوں سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ ضروری نہیں ہے۔۔۔اس لیے اس میں شرمندہ ہونے والی بھی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ہم نے اپنے گھر اور اپنی سہولت کے مطابق اپنے سبھی پروگرام بنانے ہوتے ہیں۔۔۔ شادی نئ ہو یا پرانی۔۔۔گھر کے معاملات میں لوگ تبھی دخل اندازی کرتے ہیں یا باتیں سناتے ہیں جب گھر کا سربراہ ہی اپنے گھر کو اور بیوی بچوں کو سپورٹ نہ کرے انکا دفاع نہ کرے۔۔۔بلکہ لوگوں کی باتیں سن کر ان کا منہ بند کرنے کی بجائے انکے ساتھ مل کر اپنی بیوی کی ہرزہ سرائی کرے اسے برا بھلا کہے۔۔۔اور آپ جانتی ہیں کہ سلطان صاحب نے اپنے کسی عزیز رشتے دار حتیٰ کہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی اتنی جرأت نہیں دی ہے کہ ہمارے گھر کے معاملات میں دخل اندازی کریں۔۔۔وہ تو میں بس یونہی کہ رہی تھی کہ سلطان صاحب کی بہنیں آپکو پتہ کافی دور بیاہی گئ ہیں۔۔۔اور چھوٹی والی انگلینڈ ہوتی ہے۔۔۔تو وہ لوگ سمجھ رہی ہیں کہ ہمارا ولیمہ کا جو دن تہ تھا وہ پوسٹ اپون ہو گیا ہے۔۔۔اسی لیے بس وہ پوچھ رہی تھیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ بعد میں آ جائیں گی۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے رسانیت سے کہا۔۔۔
        " نہیں آئمہ۔۔۔ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ولیمہ کا فنکشن اپنے مقرر کردہ ٹائم پہ ہی ہوگا۔۔۔انشاء الّٰلہ آج شام کو یہ لوگ یہاں سے نکل جائیں گے واپسی کے لیے۔۔۔ہم لوگ پرسوں صبح صبح آ جائیں گے۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " آئمہ مجھے تم سے ایک اور بات بھی کرنی تھی۔۔۔یہاں جو کچھ ہوا اس سب سے تم اچھی طرح سے آگاہ ہو۔۔۔پورے گاؤں میں ان بچیوں کو لے کر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔۔۔رشیداں بوا بتا رہی تھی کہ کچھ لوگ تو بہت غلط باتیں ان بچیوں سے منسوب کر رہے ہیں۔۔۔جن کو سن کر لوگوں کی جہالت اور ذہنیت پہ غصہ بھی آرہا ہے اور دکھ بھی ہو رہا ہے۔۔۔ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے شاہ سائیں نے ہم سب کے سامنے صدف اور عینا کا آپشن رکھا تو احتشام بیٹے نے اپنا ووٹ عینا کے حق میں دیا ہے۔۔۔اب فجر کے ولیمہ کے بعد ہمارا خیال ہے کہ جلد از جلد اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں تاکہ لوگوں کے منہ بند ہو جائیں۔۔۔اور مزید کسی کو ان بچیوں پہ انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔۔۔
        ہائمہ خاتون نے مدلل لہجے میں اس نئ بات سے اپنی بہن کو آگاہ کیا۔۔۔
        " آپا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔۔۔الّٰلہ کرے سب خیرو عافیت سے ہو جائے۔۔۔مجھے تو اس دلاور نامی شخص سے اب خوف آنے لگا ہے۔۔۔"
        آئمہ سلطان نے خوشی کے ساتھ اپنے خوف کا بھی اظہار کیا۔۔۔تو ہائمہ خاتون نے انھیں تسلی دینے کے ساتھ مزید ایک دو باتوں کے بعد الّٰلہ حافظ کہ کر کال کاٹ دی۔۔۔

        " اب کیسی طبیعت ہے بیٹا آپکی۔۔۔"
        ہائمہ خاتون صبح صبح فجر اور رشیداں بوا کے ساتھ روم میں داخل ہوتے بولیں رشیداں بوا نے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے پکڑی ہوئی تھی جس میں جوس کا گلاس ، چند سلائسز ود جیم ، اور ایک فرائی انڈہ رکھا ہوا تھا۔۔۔عائلہ سے اس کی طبیعت کا پوچھنے کے ساتھ ہی انھوں نے رشیداں بوا کو ہلکے اشارے سے ناشتے کی ٹرے پاس پڑے ایک چھوٹے سے ٹیبل پہ رکھنے کو کہا۔۔۔
        " پہلے سے کافی بہتر ہے۔۔۔"
        عائلہ نے پزمردہ لہجے میں آہستہ سے کہا اور ساتھ ہی انکے بیٹھنے کے لیے اپنے پاس بیڈ پہ جگہ بنائی۔۔۔
        " یہ تو بہت اچھی بات ہے اور آپکو جلدی ٹھیک ہونا ہے۔۔۔بی بریو۔۔۔اب آپ ایسا کریں کہ یہ ناشتہ کرلیں۔۔۔اس کے بعد پھر میڈیسن لے لیں۔۔۔میں تھوڑی دیر بعد پھر چکر لگاؤں گی تب تک آپ یہ سب فنش کر لیں۔۔۔میں شاہ جی کو دیکھ لوں۔۔۔ابھی انھوں نے بھی ناشتہ کرنا ہے۔۔۔
        اور فجر بیٹا آپ اپنی نگرانی میں عائلہ کو پہلے ناشتہ کروائیں گی اور پھر میڈیسن بھی کھلا دینا۔۔۔"
        ہائمہ خاتون نے عائلہ کے پاس بیٹھنے کی بجائے مسکراتے ہوئے شفقت سے اس کے سر پہ کھڑے کھڑے ہی پیار دیتے کہا۔۔۔پھر فجر کو ہدایات دے کر رشیداں بوا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔۔۔
        " کب تک نکلنا ہے تم لوگوں نے۔۔۔"
        عائلہ نے فجر سے پوچھا۔۔۔جو عائلہ کے پاس کھڑی اس کی میڈیسن چیک کر رہی تھی۔۔۔فجر نے رات ذکر کیا تھا عائلہ سے کہ کل انکی واپسی کا پروگرام ہے۔۔۔
        انشاء الّٰلہ آج شام کو۔۔۔ تمہیں ایسے اس حال میں چھوڑ کر جانے کو دل نہیں مان رہا۔۔۔مگر جانا ضروری ہے۔۔۔پلیززز اپنا بہت دھیان رکھنا۔۔۔میں کوشش کروں گی کہ جتنی جلدی ممکن ہو دوبارہ چکر لگا سکوں۔۔۔"
        فجر نے عائلہ کے پاس آ کر بیٹھتے شرمندہ ہوتے کہا۔۔۔اور پھر ناشتے کی ٹرے میں سے ایک سلائس پہ جیم لگا کر اسکی طرف بڑھایا۔۔۔
        عائلہ کو ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوئے آج دوسرا دن تھا وہ اس وقت فجر کی طرف شاہ سائیں کی حویلی میں انکے گھر موجود تھی۔۔۔اس کے لاکھ انکار کے باوجود عینا نے زبردستی اسے گھر بھیج دیا تھا۔۔۔فجر کا پرسوں ولیمہ کا فنکشن تھا۔۔۔جس کی وجہ سے وہ اور شرجیل آج شام کو واپس لاہور جا رہے تھے۔۔۔عینا ہاسپٹل میں مہرالنساء کے پاس تھی۔۔۔ایسے میں عائلہ کا اپنے گھر پہ تنہا رہنا ٹھیک نہیں تھا۔۔۔اس لیے شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون کل جب ہاسپٹل میں ان لوگوں کا حال احوال معلوم کرنے آئے تو ہائمہ خاتون زبردستی عائلہ کو اپنے ساتھ گھر لے گئیں۔۔۔ایمن کو بھی خالہ سکینہ کے گھر سے ادھر بلوا لیا گیا تھا۔۔۔
        " تم لوگوں کے احسان ہم پہ دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں فجر۔۔۔تم پریشان اور شرمندہ مت ہو۔۔۔بلکہ شرمندہ تو میں ہوں کہ تم شادی کے بعد میکے پہلی بار آئی اور اپنے لاڈ اٹھوانے کی بجائے ہماری وجہ سے تمہیں اور شرجیل بھائی کو رات ہاسپٹل میں گزارنی پڑی۔۔۔ہماری وجہ سے تم لوگوں کی فیملی بھی ڈسٹرب ہو کر رہ گئ ہے۔۔۔بہت شرمندہ ہوں میں۔۔۔"
        عائلہ نے نقاہت زدہ لہجے میں شرمندہ ہوتے دھیرے سے کہا۔۔۔
        " تم بھی کممال کرتی ہو یار۔۔۔لگتا ہے تمہیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ تم لوگوں کی ہماری نظروں میں اور اس گھر میں کیا اہمیت ہے۔۔۔اور ہم لوگ الگ الگ نہیں بلکہ ایک فیملی کی طرح ہیں ہر دکھ سکھ میں ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے۔۔۔اس لیے دوبارہ ایسا مت سوچنا۔۔۔ورنہ پھر واقع مجھے لگے گا کہ ہماری محبت میں کہیں کمی رہ گئ جو تم ہمیں بیگانہ سمجھتی ہو۔۔۔
        مجھے تو اس لیے اپنے جانے پہ افسوس ہورہا کہ اس وقت مجھے یہاں تمہارے پاس ہونا چاہیے تھا۔۔۔مگر پھر بھی میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی۔۔۔
        فلحال تو میں ہاسپٹل جا رہی ہوں احتشام بھائی اور شرجیل کے ساتھ۔۔۔واپسی پہ آ کر تمہارا یہ جو دماغ ہے ناں جس میں پتہ نہیں کیا کیا چلتا رہتا ہے اسے اچھے سے صاف کروں گی۔۔۔اور ایک گڈ نیوز بھی اپنے ساتھ لے کر آؤں گی۔۔۔دعا کرنا کہ خالی ہاتھ نہ آؤں۔۔۔"
        فجر نے مسکراتے ہوئے سلائس کے بعد اب جوس کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے معنی خیز لہجے میں کہا۔۔۔
        " گڈ نیوذ مطلب۔۔۔"
        عائلہ نے حیران نظروں سے فجر کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
        " صبر۔۔۔میری جان۔۔۔وہ سنا نہیں تم نے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔۔۔"
        فجر نے اسی انداز میں سسپنس کری ایٹ کرتے کہا۔۔۔تو عائلہ سوچنے لگی کہ ایسی کونسی گڈ نیوز ہے جو ہاسپٹل جا کے ملنی ہے۔۔۔
        " میں بھی ساتھ چلوں گی۔۔۔مجھے ماما سے اور عینا سے ملنا ہے۔۔۔میں بھی کیسی بہن ہوں۔۔۔عینا سے بڑی ہونے کے ناتے مجھے یہ سب سنبھالنا چاہیے تھا۔۔۔مگر۔۔۔۔"
        عائلہ خودترسی کا شکار ہوتے بھیگے لہجے میں کہتے فقرہ ادھورا چھوڑ کر آنکھوں میں نمی لیے لب کچلنے لگی۔۔۔
        " عائلہ پلیززز۔۔۔اپنے ذہن پہ کسی قسم کا دباؤ مت ڈالو۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔اور ابھی تم ہاسپٹل نہیں جاؤ گی پہلے اچھے سے خود اسٹیبل ہوجاؤ۔۔۔خود ٹھیک ہوگی تو کسی اور کو سنبھالو گی ناں۔۔۔میں اور شرجیل ہو آتے ہیں۔۔۔ماما گھر پہ ہی ہیں۔۔۔کوئی بھی چیز چاہیے ہو تو رشیدہ بوا کو بلا جھجک کہ دینا۔۔۔بلکہ وہ تمہارے پاس ہی یہاں رہیں گی۔۔۔پریشان مت ہونا۔۔۔ایمن بھی یہیں تمہارے پاس ہی رکے گی۔۔۔"
        فجر نے عائلہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔


        " مہدیہ۔۔۔۔۔۔۔مہدیہ۔۔۔۔بیٹا کیا ہوا ہے۔۔۔ایسے کیوں بیٹھی ہو۔۔۔"
        رضوانہ خاتون اور فاطمہ دوپہر کو ایمان سے کچھ دیر سستانے اور مہدیہ کی خبر لینے کا کہ کر اپنے کوارٹر میں آئیں تو مہدیہ البم کو سینے سے لگائے نڈھال سی بیڈ پہ نیم لیٹی ہوئی تھی۔۔۔سستانے کا تو صرف بہانہ تھا اصل میں رضوانہ خاتون سچ جاننے آئیں تھیں جس کو جاننے کے لیے صبح انھوں نے پرانا البم جان بوجھ کر الماری سے نکال کر اپنے سرہانے کے نیچے اس طرح سے رکھ دیا تھا کہ وہ سرہانے کے نیچے پڑا نظر بھی آتا رہے۔۔۔اور اب مہدیہ کی حالت دیکھ کر کچھ کچھ سمجھتے ہوئے ان کے دل کی دھڑکن یکدم تیز ہوئی تھی اور ساتھ ہی مہدیہ کے لیے پریشان بھی اسی لیے وہ فکرمند ہو کر بولیں۔۔۔
        " مہدیہ کیا ہوا ہے۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے ناں تمہاری۔۔۔"
        فاطمہ نے بھی فکر مندی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھا۔۔۔
        " یہ۔۔۔ماسو ماں۔۔۔۔یہ کون ہے آپکا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ تو دلاور۔۔۔۔"
        مہدیہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں سسکتے ہوئے دلاور عرف دانی کی تصویر ان کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔۔۔
        " ہاں۔۔۔۔یہ دلاور ہے بیٹا۔۔۔۔یہ ہمارا دانی ہے۔۔۔۔اس کا مطلب۔۔۔تم جس دلاور کی بات کرتی تھی وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ہمارا دانی تھا۔۔۔۔۔
        میری جان۔۔۔میری بچی۔۔۔
        رضوانہ خاتون بھرائے لہجے میں مہدیہ کو اپنے گلے سے لگا کے اپنی بانہوں میں زور سے بھینچتے ہوئے بولیں۔۔۔
        " سنا تم نے فاطمہ۔۔۔ہمارا دانی زندہ ہے۔۔۔۔میں کہتی تھی ناں کہ کچھ نہیں ہوا میرے دانی کو۔۔۔وہ زندہ ہے۔۔۔میرا دانی زندہ ہے۔۔۔۔"
        دانی کی یاد رضوانہ خاتون کے دل کا ناسور بنتی جا رہی تھی۔۔۔جب جب بھی وہ یاد آتا تو رات کی تنہائی میں آنسو بہا لیتیں۔۔۔مگر آج جب یہ بات کنفرم ہو گئ کہ وہ زندہ ہے تو انکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی۔۔۔آج وہ کھل کر رو رہی تھیں۔۔۔مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔۔۔رضوانہ خاتون مہدیہ کو زور سے گلے لگائے فرط محبت سے کبھی اس کا منہ چومنے لگتیں۔۔۔کبھی پھر زور سے اپنے سینے سے لگاتیں۔۔۔جبکہ مہدیہ حیران پریشان اس انہونی پر اپنا دکھ بھول کر کبھی فاطمہ کی طرف دیکھتی اور کبھی رضوانہ خاتون کی طرف۔۔۔فاطمہ بھی مہدیہ کو پیچھے سے اپنی بازوؤں کے گھیرے میں لیے رو رہی تھی۔۔۔
        " ماسو ماں آپ ایسا کیوں کہ رہی ہیں۔۔۔کہ دانی زندہ ہے۔۔۔دلاور سے کیا رشتہ ہے آپکا۔۔۔"
        کچھ دیر بعد جب رضوانہ خاتون خود کو سنبھال چکیں تو مہدیہ نے پوچھا۔۔۔
        " سب بتاؤں گی بیٹا۔۔۔سب۔۔۔۔تم یہاں میرے پاس ادھر آ کے بیٹھو۔۔۔اور پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ میرا دانی۔۔۔میرا بچہ کیسا ہے۔۔۔کیسا دکھتا ہے اب۔۔۔میں تمہاری نظروں سے ، تمہارے لفظوں سے اس کا روپ دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔مجھے دکھاؤ بیٹا۔۔۔مجھے بتاؤ وہ کیسا ہے۔۔۔۔"؟
        رضوانہ خاتون مہدیہ کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے جزباتی لہجے میں اپنے آنسو اپنے دوپٹے کے کونے سے صاف کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
        " دلاور جیسا کوئی بھی نہیں ہے ماسو ماں۔۔۔جہاں ، جس جگہ بھی کھڑا ہوتا ہزاروں کی بھیڑ میں بھی بس وہی ہوتا۔۔۔ چھ فٹ سے بھی نکلتا قد۔۔۔جسم ایسا جیسے کوئی فولاد۔۔۔کھلتا گندمی رنگ۔۔۔بڑی بڑی گھنی مونچھیں ، چہرے پہ چھوٹی چھوٹی سی داڑھی ، آنکھوں میں ایسی چمک کہ کوئی زیادہ دیر اس کی طرف دیکھ نہ پائے۔۔۔جب بولتا ہے تو ایسا لگتا جیسے کسی ملک کا بادشاہ ہو۔۔۔غصے میں ایسا لگتا کہ جیسے کوئی شیر چنگھاڑ رہا ہو۔۔۔
        اور خیال رکھنے والا حفاظت کرنے والا ایسا کہ یوں لگے جیسے وہ کوئی مہربان بادل ہو۔۔۔جس کے نیچے کھڑے ہو کر نہ کڑی دھوپ کا خوف نہ پیروں تلے گرم زمین کا ڈر۔۔۔"
        مہدیہ کھوئے کھوئے لہجے میں کسی ٹرانس میں بولتی گئ۔۔۔
        " سچ کہ رہی ہو۔۔۔وہ ایسا ہی ہے۔۔۔میرا دانی ایسا ہی ہے۔۔۔شیر دل۔۔۔کسی سے نہ ڈرنے والا۔۔۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا۔۔۔اور دل کا اتنا نرم کہ دشمن کے دکھ پہ بھی دکھی ہو جائے۔۔۔غیرت مند اتنا کہ اپنی عزت کے لیے جان دینے اور جان لینے سے بھی نہ ڈرے۔۔۔اپنی عزت کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے والے کی آنکھیں نکال کے ہتھیلی پہ رکھ دے۔۔۔ "
        رضوانہ خاتون اپنے لہجے میں دانی کے لیے دنیا جہاں کی محبت سموئے بولیں۔۔۔
        " مجھے ماسو ماں دانی کہا کرتا تھا۔۔۔جب تم نے مجھے پہلی بار ماسو ماں کہا مجھے ایسا لگا جیسے میرا دانی مجھے پکار رہا ہو۔۔۔
        میرا دانی میری بہن کا بیٹا ہے۔۔۔منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا۔۔۔دانی گیارہ سال کا تھا جب اسکے ماں باپ انکے کروباری پارٹنر کی خودغرضی اور ظلم کی بھینٹ چڑھ کر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔پندر سال۔۔۔صرف پندرہ سال کی عمر میں میرا دانی ہمارے گھر کا کفیل بن گیا۔۔۔جس بچے کی ہر خواہش منہ سے نکلتے ہی پوری کردی جاتی تھی وہ بچہ میرا اور فاطمہ کا ہاتھ بٹانے کے لیے دن کو سکول جاتا اور شام کو ورکشاپ پہ کام کرتا۔۔۔
        چھوٹی سی عمر میں ہی وہ ایک سمجھدار مرد بن چکا تھا۔۔۔اپنی عمر کے لڑکوں کی نسبت قد کاٹھ میں بھی اور ذہنی اور جسمانی طور پہ بھی وہ ایک مضبوط لڑکا تھا۔۔۔
        ہر کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا۔۔۔بنا اپنی جان کی اور اپنے جل جانے کی پرواہ کیے پرائی آگ بجھانے کو آگ میں کود پڑنے والا۔۔۔
        اور میرے دانی کی یہی خوبی اس کو لے ڈوبی۔۔۔پرائی آگ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر تک لے آیا۔۔۔جس نے ہمارے پورے گھر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔۔۔اور جن کی آگ میں کودا۔۔ان لوگوں نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔۔۔"
        رضوانہ خاتون دھیرے دھیرے مہدیہ کے سامنے دلاور عرف دانی کی ماضی کی کتاب کے سارے پنے اس کو سنانے لگیں۔۔۔مہدیہ انتہائی اشتیاق سے دلاور کے بارے میں سب سننے لگی۔۔۔وہ سچ جس سے باقی دنیا کی طرح وہ بھی آج تک بے خبر تھی۔۔۔وہ جیسے جیسے رضوانہ خاتون کی زبانی سب جانتی گئ اس کے دل میں دلاور کے لیے دکھ اور افسوس مزید بڑھتا گیا۔۔۔
        " مہدیہ۔۔۔کیا دلاور نے کبھی ہمارا ذکر کیا۔۔۔میرا مطلب کبھی اس نے تمہارے سامنے ہمارے متعلق کوئی بات کی ہو۔۔۔یا کبھی اپنی فیملی کے بارے میں کبھی کوئی ذکر کیا ہو۔۔۔"؟
        رضوانہ خاتون نے کچھ باتیں چھوڑ کر مہدیہ کو دلاور سے متعلق ایک ایک بات سے آگاہ کیا۔۔۔سب کہ چکنے کے بعد ایک گہرا سانس لیتے وہ سر جھکائے کسی اور ہی دنیا میں کھو گئیں۔۔۔انکے چہرے پہ گہرے رنج و ملال کے سائے لہرا رہے تھے۔۔۔انکے خاموش ہوتے ہی فاطمہ نے بڑے اشتیاق سے مہدیہ سے پوچھا۔۔۔
        " نہیں۔۔۔ہوش کی دنیا میں رہتے کبھی اس نے آپ کا ذکر نہیں کیا۔۔۔کبھی کبار کوٹھے پہ آتا تھا۔۔۔کچھ دیر بیٹھتا اور پھر اسی خاموشی سے چلا جاتا۔۔۔شائد وہ اپنا قول نبھانے آتا تھا جو سیٹھ شجاع کے آدمیوں سے مجھے بچاتے ہوئے اس نے دیا تھا۔۔۔جب بہت زیادہ پی لیتا تو تب وہ بڑبڑایا کرتا تھا۔۔۔وہ ماسو ماں کو پکارا کرتا تھا۔۔۔پہلی بار اس کے منہ سے ہی یہ لفظ میں نے سنا۔۔۔پتہ نہیں مجھے بھی یہ لفظ اتنا پیارا لگا کہ دل چاہا میں بھی کسی کو ماسو ماں کہوں۔۔۔یا پھر شائد وہ کہتے ہیں ناں کہ انسان جس سے پیار کرتا ہو اس کی ہر چیز ہر عادت اپنا لیتا ہے۔۔۔
        مہدیہ نے فاطمہ کی طرف دیکھتے جواب دیا۔۔۔
        " ماسو ماں آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔"؟
        مہدیہ نے فکرمندی سے رضوانہ خاتون کی طرف دیکھتے پوچھا جن کو گہری چپ لگ گئ تھی۔۔۔۔تو ماسو ماں نے اثبات میں سر ہلاتے پھر سے سر جھکا لیا۔۔۔
        " مہدیہ۔۔۔کیا وہ بہت پیتا ہے۔۔۔اور۔۔۔لڑکیوں کے ساتھ اس کے ناجائز تعلقات بھی۔۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے کسی نکتے پہ اپنی نگاہیں مرکوز کرتے پوچھا۔۔۔ان کا دل کٹ رہا تھا یہ سوچ کر کہ ان کا دانی کیا سے کیا بن گیا تھا۔۔۔
        " نہیں ماسو ماں۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔پیتا بھی وہ تب تھا جب بہت پریشان ہوتا تھا۔۔۔کوٹھے پہ وہ صرف رقص دیکھتا تھا آکر۔۔۔شروع شروع میں ایک دو لڑکیاں اس کی طرف بڑھی بھی تھیں مگر دلاور نے سختی سے انکو جھٹک دیا تھا۔۔۔پھر اس کے بعد کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔۔۔
        سب کو لگتا تھا کہ وہ میرا عاشق ہے جو بس میرے لیے وہاں آتا تھا۔۔۔رقص دیکھتا اور چلا جاتا۔۔۔
        دلاور جب جب بھی اس غلیظ بازار میں آیا۔۔۔مجھے ہمیشہ لگتا کہ وہ عام لوگوں سے ہٹ کے ہے۔۔۔ماسو ماں دلاور وہاں آنے والے ہر مرد سے بہت الگ تھا۔۔۔وہ واحد مرد تھا جس نے کبھی بھول کر بھی مجھے چھونے کی کوشش نہیں کی نہ کبھی میری طرف میلی نظر سے دیکھا۔۔۔۔۔۔وہ جب بھی بہت زیادہ پی لیتا تب بھی ہوش نہیں کھوتا تھا۔۔۔مگر اس دن پتہ نہیں وہ کیسے ہوش کھو بیٹھا۔۔۔اور وہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔"
        مہدیہ کی بات سن کر رضوانہ خاتون کو یوں لگا جیسے ان کے پورے وجود میں سکون اتر آیا ہو۔۔۔ان کا دانی آج بھی اندر سے وہی دانی تھا۔۔۔باہر کی دنیا میں کھو کر بھی وہ اپنی انسانیت نہیں بھولا تھا۔۔۔
        " ماسو ماں آپ اور دلاور ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے تھے پھر آپ لوگ الگ کیسے ہوئے۔۔۔کیا ہوا تھا۔۔۔یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں۔۔۔مجھے سب جاننا ہے۔۔۔پلیززز۔۔۔"؟
        مہدیہ نے رضوانہ خاتون سے کہا۔۔۔تو ایک تاریک سایہ رضوانہ خاتون کے چہرے پہ آکر گزر گیا۔۔۔فاطمہ نے بھی بے اختیار نظریں چرائی تھیں۔۔۔ایک پل میں اس کا ماضی بھی اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔۔۔
        " اگر کوئی ایسی بات ہے جو مجھے نہیں جاننی چاہیے تو میں نہیں پوچھوں گی۔۔۔رہنے دیں آپ۔۔۔"
        مہدیہ نے فاطمہ اور رضوانہ خاتون کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرتے کہا۔۔۔
        " نہیں۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔تم اسی گھر کا فرد ہو۔۔۔اور اس گھر سے اور اس گھر سے متعلق ہر بات جاننا تمہارا حق ہے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ۔۔۔دروازے پہ ایک گھر کے ملازم نے دستک دی۔۔۔اور کہا کہ ایمان بی بی بلا رہی ہیں فاطمہ کو۔۔۔
        ہم بعد میں بات کریں گے بیٹا۔۔۔ابھی ہمیں واپس جانا ہے۔۔۔فرحین بیگم کے کچھ گیسٹ آ رہے ہیں شام کو۔۔۔ان کے لیے کچھ انتظام کرنا ہے۔۔۔ہم پھر بات کریں گے۔۔۔اور دوسری بات کہ س بات کا پتہ کسی کو نہیں چلنا چاہیے کہ ہمارا آپس میں کیا رشتہ ہے۔۔۔جو سب سے کہا ہے اب بھی وہی رہے گا۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے کہا۔۔۔اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔
        " امی جان آپ رہنے دیں میں دیکھ لوں گی۔۔۔آپ مہدیہ کے پاس بیٹھیں۔۔۔"
        فاطمہ نے اپنی ماں سے کہا۔۔۔اور زبردستی اصرار سے انکو اپنے ساتھ آنے سے منع کرتے ہوئے خود باہر نکل گئ۔۔۔

        " کیا ہوا ہے۔۔۔اتنی جلدی واپس آ گئ تم۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے حیران ہو کر فاطمہ سے پوچھا جو تھوڑی دیر بعد ہی واپس آ گئ تھی۔۔۔
        " امی جان ایمان کہ رہی تھی کہ کل سے میں اس کے ساتھ بوتیک پہ جایا کروں گی اور نئ خانساماں کا بھی انتظام ہو گیا ہے۔۔۔جب میں گئ تو وہ کچن میں کام کر رہی تھی۔۔۔اس لیے اب سے میں اور آپ گھر کے ملازم کے طور پہ کام نہیں کریں گے۔۔۔"
        فاطمہ نے رضوانہ خاتون اور مہدیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
        " تنخواہ کا نہیں بتایا کیا ایمان بیٹی نے۔۔۔"؟
        رضوانہ خاتون نے پوچھا۔۔۔
        " بتایا تھا۔۔۔60 ہزار کہ رہی تھی۔۔۔"
        فاطمہ نے جواب دیا۔۔۔
        " چلو شکر ہے الّٰلہ کا۔۔۔لیکن تم خوش نہیں لگ رہی۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے اس کی خاموشی نوٹ کرتے کہا۔۔۔
        " نہیں میں خوش ہوں۔۔۔مگر مجھے اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔"
        فاطمہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " آپ کی بات ٹھیک ہے آپی۔۔۔اب یہاں رہنا واقع مناسب نہیں ہے۔۔۔"
        مہدیہ کو اچانک آج قاسم کا آنا اور اس کا ذومعنی باتیں کرنا یاد آیا تو وہ بھی فاطمہ کی بات کی تائید کرتی بولی۔۔۔
        " فکر مت کرو بیٹا۔۔۔اب میں بھی یہاں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔ہم واپس لاہور جائیں گے۔۔۔دانی کو دیکھنے اور اس سے ملنے کو اب اور صبر نہیں ہوگا مجھ سے۔۔۔میں سیٹھ صاحب سے کوئی مناسب موقع ملتے ہی بات کرتی ہوں۔۔۔ان کے ہم پہ بہت احسان ہیں۔۔۔اگر یوں اچانک یہاں سے جانے کی بات کی تو شائد انکو اچھا نہ لگے۔۔۔"
        رضوانہ خاتون نے رسانیت سے کہا۔۔۔
        " یہ بات تو ٹھیک ہے آپکی۔۔۔"
        فاطمہ نے کہا۔۔۔پھر کچھ دیر بعد عصر کی اذان ہونے لگی تو رضوانہ خاتون اٹھ کر نماز پڑھنے اور شکرانے کے نوافل ادا کرنے کے لیے وضو کرنے چل دیں۔۔۔فاطمہ اور مہدیہ پھر سے البم کھول کر بیٹھ گئیں۔۔۔فاطمہ مہدیہ کو اپنی فیملی کے ہر شخص کے بارے میں بتانے لگی۔۔
        " مہدیہ۔۔۔میں امی جان سے کہتی تھی کہ پتہ نہیں کیا بات ہے تم پرائی ہو کر بھی اپنی اپنی سی لگتی ہو۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے ہمارا تم سے کوئی پرانا رشتہ ہو۔۔۔اور دیکھو وہ بات کیسے سچ نکلی۔۔۔"
        فاطمہ نے البم میں موجود سب فیملی ممبرز سے متعارف کروانے کے بعد اسے ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
        " مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے جیسے میں شروع سے آپکے ساتھ رہتی آئی ہوں۔۔۔"
        مہدیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
        " آپی دلاور آپ لوگوں کو کیوں چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔جبکہ سب ٹھیک ہو گیا تھا۔۔۔"؟
        مہدیہ کے دماغ کی سوئی ابھی بھی اسی بات میں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔اس لیے وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔فاطمہ کچھ دیر اسکی طرف دیکھتی رہی پھر اس نے اٹھ کر آہستہ سے دروازہ بند کردیا تو مہدیہ حیران ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
        " آپی ی ی ی ۔۔۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔یہ نشان کیسے ہیں۔۔۔"
        فاطمہ واپس مہدیہ کے پاس آ کر بیٹھی پھر کمر سے اپنی شرٹ ذرا سی اوپر کر کے پیٹھ مہدیہ کی طرف کی تو فاطمہ کی کمر پر عجیب سے گہرے پرانے کٹ کے نشان دیکھ کر حیران ہو کر بولی۔۔۔فاطمہ کی کمر پہ ایسے نشان تھے جیسے بلی نے بیدردی سے پنجے مارے ہوں۔۔۔
        " مہدیہ یہ نشان نہیں ہیں۔۔۔یہ میرے ماضی کا وہ ناسور ہے جس میں سے ہر وقت خون رستا رہتا ہے۔۔۔اور یہ نشان صرف میری کمر نہیں میرے سینے میرے پیٹ پہ بھی ہیں۔۔۔اور اس سے کہیں زیادہ میری روح پہ موجود ہیں۔۔۔"
        فاطمہ نے اپنی شرٹ نیچے کرتے انتہائی رقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔خود پہ ضبط کرتے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
        کیا مطلب۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔اور دلاور کا اس سے کیا تعلق۔۔۔کیا دلاورررر نے۔۔۔۔"
        مہدیہ کے دماغ میں انجانے وسوسوں کے کالے ناگوں نے سر اٹھایا۔۔۔وہ یقین و بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے مضطرب ہوتے بولی۔۔۔
        " نہیں ہرگز نہیں مہدیہ۔۔۔ایسا کرنا تو دور ایسے سوچنے سے پہلے دانی اپنی جان لے لیتا۔۔۔میرے لیے وہ بلکل چھوٹے بھائی کی طرح تھا اور میں اس کے لیے اس کی بڑی آپی۔۔۔"
        فاطمہ نے مہدیہ کی آنکھوں اور اس کے لہجے سے اس کے اندر پیدا ہوتی بدگمانی کو فوراً دور کرتے کہا۔۔۔
        پھر اپنا ماضی آج پہلی بار وہ مہدیہ کے سامنے کھولنے لگی۔۔۔اس دن سے لیکر آج تک فاطمہ نے کبھی اپنی ماں سے بھی خود پہ ہوئے ظلم کا ذکر نہیں کیا تھا رضوانہ خاتون کے لیے یہی کافی تھا کہ اس کی بیٹی کا دامن داغدار نہیں ہوا تھا۔۔۔مگر کچھ سیاہیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے دامن پہ داغ تو نہیں پڑتا مگر ان کا خیال بھی ذہن سے نہیں جاتا ایسے ہی فاطمہ بھی وہ سیاہ دن کبھی نہیں بھولی تھی کچھ اسکے جسم پہ نشانوں نے اسے بھولنے بھی نہیں دیا ۔۔۔آج پہلی بار خود پہ بیتی وہ اذیت وہ تکلیف وہ مہدیہ سے کہ رہی تھی۔۔۔آج پھر اس کے زخم تازہ ہوئے تھے۔۔۔فاطمہ آہستہ آہستہ مہدیہ کو اپنے ماضی کے اس سیاہ دن سے آگاہ کرنے لگی کہ کس طرح سے ان کا دانی اس کی عزت کے لیے ایک قاتل بن گیا۔۔۔
        مہدیہ دم سادھے حیرت کی تصویر بنی فاطمہ کی بات سنتی گئ۔۔۔اسے لگ رہا تھا کہ فاطمہ کا دکھ اس کے دکھ سے اس کی اذیت سے کہیں بڑھ کر ہے۔۔۔اسے آج سمجھ آئی تھی کہ اسے دلاور سب مردوں سے الگ کیوں لگتا تھا۔۔۔جو مرد خود اپنی عزت کو لے کر اذیت کی انتہاؤں سے گزرا ہو وہ کیسے کسی اور کی طرف میلی نگاہ سے دیکھ سکتا تھا۔۔۔وہ کہتے ہیں ناں کہ جو خود اس تکلیف سے گزرا ہو وہی دوسرے کی تکلیف کو بھی سمجھ سکتا ہے۔۔۔اور کچھ دلاور کی رگوں میں دوڑنے والے خون اور رضوانہ خاتون کی باکمال تربیت کا بھی ہاتھ تھا کہ راہ سے بھٹک کر بھی وہ بھٹکے ہوئے لوگوں میں شامل نہیں ہوا۔۔۔اس کے دل پہ دنیا کی گرد چڑھ کر بھی نہیں چڑھی تھی۔۔۔


        " اب کیسی طبیعت ہے انکی۔۔۔کوئی ریسپونس کیا کیا۔۔۔"
        احتشام شاہ فجر اور شرجیل کے ساتھ گھر کا بنا کھانا لے کر کچھ دیر پہلے ہی ہاسپٹل آئے تھے۔۔۔مہرالنساء کے پاس کھڑے ہو کر کچھ دیر انکی طرف دیکھنے کے بعد احتشام شاہ نے عینا سے ڈائریکٹ پوچھا۔۔۔تو عینا نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
        آپ ٹھیک ہیں۔۔۔"؟
        احتشام شاہ نے پھر عینا کی طرف بغور دیکھتے مسکراتے ہوئے اس سے اسفسار کیا۔۔۔
        " جی۔۔۔"
        عینا یک لفظی جواب دے کر خود بزی ظاہر کرنے کو بلا ضرورت پاس پڑی میڈیسنز کو اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔نہ جانے کیوں اسے احتشام شاہ کے تیور آج بدلے بدلے سے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔
        " عینا۔۔۔صارم ہاتھ دھو کر آجاؤ۔۔۔اور ناشتہ کرلو آکے۔۔۔"
        فجر نے عینا کی طرف دیکھتے فل سمائل دیتے ٹفن بوکس پلاسٹک بیگ سے نکال کر بنچ پہ رکھ کر اسے کھولتے ہوئے کہا۔۔۔فجر اور صارم ہاتھ دھو کر وہیں بیٹھ کر الگ الگ برتنوں میں کھانا نکال کر کھانے لگے۔۔۔جبکہ احتشام شاہ اپنی نظریں عینا پہ فوکس کیے ہلکی ہلکی مسکراہٹ لیے اسے دیکھتا رہا۔۔۔عینا کی غیر ارادی طور پہ احتشام شاہ کی طرف آنکھ اٹھی تو اسے اپنی طرف تکتا پا کر جزبز ہوتی ہلکے سے اپنا رخ موڑ گئ۔۔۔
        " کیا ایسا ممکن نہیں کہ ماما کو ہاسپٹل سے گھر شفٹ کردیا جائے۔۔۔"
        کھانے سے فارغ ہو کر فجر ٹشو سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد اٹھ کر مہرالنساء کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے صارم شاہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
        " بلکل ممکن ہے۔۔۔آپ اگر ناشتہ کرچکی تو ہم ڈاکٹر سے مل کر تفصیلی طور پہ اس بارے کنسلٹ کر لیتے ہیں۔۔۔"
        صارم کے کچھ بھی کہنے سے پہلے احتشام شاہ نے جواب دیا۔۔۔
        " مجھے تو اس بات میں کوئی قباہت نہیں لگ رہی۔۔۔باقی ڈاکٹر زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔۔۔بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔۔۔"
        صارم شاہ نے کہا۔۔۔
        " اوکے آ جائیں پھر۔۔۔ہم چل کے بات کر لیتے ہیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے اٹھتے ہوئے عینا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔تو عینا نے فجر کو بھی اٹھنے کا آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا جو اسے مکمل طور پہ نظر انداز کرتی صارم شاہ کے کان میں گھسی کھسر پھسر کر رہی تھی۔۔۔فجر کو اٹھتا نہ دیکھ کر عینا ایک گہرا سانس خارج کرتی احتشام شاہ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئ۔۔۔

        " یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔کیا تم سچ کہ رہی ہو۔۔۔"
        صارم شاہ فجر کی بات پہ حیران ہوتا بولا۔۔۔
        " اس میں ناممکن والی کیا بات ہے۔۔۔ہم سب تو بہت خوش ہیں۔۔۔اب بس عینا کی رضا مندی جاننا رہ گئ ہے۔۔۔"
        فجر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔جبکہ اسکی بات پہ صارم شاہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔۔۔
        " کیا بات ہے۔۔۔بھائی آپکو یہ جان کر خوشی نہیں ہوئی کہ احتشام بھائی عینا سے شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔مجھے لگتا تھا آپ سب سے زیادہ خوش ہوں گے۔۔۔"
        فجر نے صارم شاہ کو خاموش دیکھ کر کہا۔۔۔
        " جہاں تک خوشی کی بات ہے فجر میں سچ میں بہت خوش ہوں۔۔۔مگر سمجھ نہیں پا رہا کہ یوں اچانک بیٹھے بٹھائے احتشام بھائی نے یہ فیصلہ کیسے کر لیا۔۔۔مجھے بھائی اور عینا دونوں ہی بہت عزیز ہیں۔۔۔لیکن میں یہ ہرگز نہیں چاہوں گا کہ بھائی جزبات میں آ کر عینا سے شادی کریں۔۔۔جو بعد میں سکون کی بجائے دونوں کی زندگی میں بے سکونی لے آئے۔۔۔"
        صارم شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " بھائی آپ جانتے ہیں کہ احتشام بھیا جزبات میں آ کر کبھی کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔۔۔اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے دل کی بات شروع سے اپنے دل میں رکھنے کے عادی ہیں۔۔۔بابا سے انھوں نے خود عینا سے شادی کے لیے کہا ہے۔۔۔بابا کا بھی یہی خیال تھا کہ اس دن گاؤں والوں کے سامنے جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے سب کے منہ بند کرنے کے لیے شائد وہ جزبات میں آکر یہ قدم اٹھا رہے ہیں اس لیے بابا نے انکو جانچنے کے لیے انکے سامنے صدف کا پرپوزل رکھا۔۔۔مگر احتشام بھائی نے اپنی پسند کا بتا کر فیصلہ بابا پہ چھوڑ دیا۔۔۔"
        فجر نے تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔
        " ہممممم۔۔۔۔۔اب آگے کیا کرنا ہے۔۔۔"
        صارم شاہ نے پوچھا۔۔۔
        " کرنا کیا ہے۔۔۔عینا کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔۔۔وہ جو جواب دے گی اس کے جواب پہ ہی اگلا قدم اٹھائیں گے۔۔۔"
        فجر نے کہا۔۔۔

        " یا الّٰلہ تیرا شکر ہے۔۔۔شکر ہے کوئی تو خوشی کی خبر سننے کو ملی۔۔۔اس کا مطلب ماما بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔"
        ڈاکٹر سے مل کر اس سے مہرالنساء کی کنڈیشن اور گھر شفٹ کرنے کے بارے کمپلیٹ کنسلٹیشن کے بعد وہ لوگ ڈاکٹر کے روم سے باہر نکلے تو عینا نے سکون کا گہرا سانس خارج کرتے کہا۔۔۔
        " بلکل۔۔۔انسان کو ہمیشہ پرامید رہنا چاہیے۔۔۔"
        احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
        " آپی کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔"
        عینا نے احتشام شاہ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے کہا۔۔۔"؟
        کافی بہتر ہیں پہلے سے۔۔۔مگر آپ جانتی ہیں جس قسم کے فیز سے وہ گزری ہیں انکو ٹھیک ہونے میں تھوڑا ٹائم لگے گا۔۔۔سٹریس سے دور رہیں گی تو بہت جلد کور کر جائیں گی۔۔۔"
        احتشام شاہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
        " عینا۔۔۔۔۔۔"
        احتشام شاہ اور عینا یونہی باتیں کرتے اپنے دھیان میں مگن چلتے آ رہے تھے کہ اسی وقت سٹریچر پہ کسی آدمی کو ڈال کر وارڈ بوائے کے ساتھ کچھ لوگ تیزی سے ہاسپٹل کے اندر داخل ہوئے۔۔۔اسی وقت احتشام شاہ نے یکدم عینا کو پکارتے اسے بازو سے پکڑ کر تیزی سے ایک سائیڈ پہ کرنا چاہا تو وہ ایک جھٹکے سے اس کے ساتھ آ ٹکرائی۔۔۔
        " دھیان کدھر ہے آپ کا۔۔۔کچھ مسلہ ہے کیا۔۔۔
        احتشام شاہ نے اسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔جو کچھ دیر پہلے بہت خوش تھی اور اب اچانک سے بہت الجھی سی لگ رہی تھی۔۔۔
        " سوری میرا دھیان کہیں اور تھا۔۔۔فلحال تو کوئی مسلہ نہیں ہے مگر ۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
        عینا نے یکدم کوریڈور میں رکتے احتشام شاہ کی طرف دیکھتے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
        " جی کہیے۔۔۔میں سن رہا ہوں۔۔۔بلکہ تمام عمر آپکو ہی سننا چاہتا ہوں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے پرشوق نظروں سے اسکی طرف دیکھتے مسکرا کر کہا تو عینا اس کی ذومعنی بات پہ بے اختیار نظریں جھکا گئ۔۔۔
        " ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں۔۔۔ادھر ہاسپٹل کے ساتھ ہی چھوٹی سے کنٹین پلس کیفے ٹیریا بھی ہے۔۔۔وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔"
        عینا رسانیت سے کہ کر احتشام شاہ کی شوخ نظروں سے کنفیوز ہوتی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔
        " جی۔۔۔جیسے آپ کہیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے مسکراتے ہوئے ہلکا سا سر خم کرتے کہا۔۔۔اور دونوں کنٹین کی طرف چل دئیے۔۔۔
        " جی اب بولیے۔۔۔کیا کہنا ہے آپکو۔۔۔"
        کنٹین میں اس وقت بہت کم رش تھا دونوں ایک پرسکون گوشے کی طرف بڑھے۔۔۔پھر ایک ٹیبل کا انتخاب کرتے ٹیبل کے ساتھ لگائی گئ ایک چئیر عینا کے لیے کھینچ کر احتشام شاہ نے پہلے عینا کو بیٹھنے کا کہا تو وہ شکریہ کہ کر بیٹھ گئ۔۔۔پھر اپنی چئیر نکال کر احتشام شاہ نے بیٹھتے ہوئے عینا سے کہا۔۔۔
        " میں سوچ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔ جو کام ادھورا رہ گیا تھا۔۔۔۔ کیا ہم اس کو وہیں سے سٹارٹ کر سکتے ہیں۔۔۔"
        عینا نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے رک رک کر کہا۔۔۔
        " میں کوئی کام ادھورا نہیں کرتا اور نہ ادھورا چھوڑتا ہوں۔۔۔اور نہ وہ بات کہتا ہوں جو کر نہ سکوں۔۔۔ہاتھ تھام کر ہاتھ چھوڑنے والے کو میں مرد ہی نہیں سمجھتا۔۔۔چاہے تو آزما لیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے عینا پہ ایک گہری نگاہ ڈالتے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔عینا اس کی لو دیتی نظروں سے خائف ہونے لگی۔۔۔
        " میرا مطلب تھا کہ دلاور آرام سے نہیں بیٹھے گا۔۔۔میں نہیں جانتی کہ وہ ہماری ہر آفر ٹھکرا کر آپی کے پیچھے کیوں پڑگیا ہے اس کا کیا مقصد ہے۔۔۔میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آپی اس رشتے سے خوش نہیں ہیں۔۔۔اور نہ ہی وہ شخص مجھے اور امی کو پسند ہے۔۔۔
        اس کا منہ بند کرنے کے لیے صارم بھائی اور عائلہ آپی کا نکاح ہم جلد از جلد کروانا ہوگا۔۔۔جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔۔۔"
        عینا نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔سامنے بیٹھا شخص نہ جانے اس پہ کیا سحر پھونک رہا تھا کہ اس کا سارا اعتماد اسے ہوا ہوتا لگ رہا تھا۔۔۔خود کو پراعتماد ظاہر کرنے کی کوشش میں وہ ناکام ہو رہی تھی۔۔۔اور ایسا پہلی بار ہو رہا تھا۔۔۔آج تک وہ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی آئی تھی۔۔۔اپنے لہجے اور لفظوں سے وہ سامنے والے کی بولتی بند کردیتی تھی۔۔۔مگر آج اس کو اپنی بولتی بند ہوتی لگ رہی تھی۔۔۔
        " بلکل۔۔۔ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان دونوں کا نکاح ہو جانا چاہیے۔۔۔اس سب سے نکلنے کے لیے یہی حل ہے۔۔۔
        ویسے آپکو نہیں لگتا کہ اگر عائلہ کا نکاح ہو بھی گیا تو جس قسم کی آپکے والد صاحب کی نیچر ہے یا جتنا میں انھیں سمجھ پایا ہوں۔۔۔ایک بانس انکے ہاتھ سے نکل بھی گیا تو وہ دوسرے بانس کی بانسری بنا کر بجانا شروع کردیں گے۔۔۔اس لیے یہ زیادہ بہتر نہیں کہ انکے ہاتھ سے دونوں بانس چھین لیے جائیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے عینا کی بات کی تائید کرنے کے ساتھ مسکراتے ہوئے اپنی لو دیتی نظروں کے حصار میں رکھتے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
        " مطلب۔۔۔۔۔۔"؟
        عینا احتشام شاہ کی پیغام دیتی نظروں کی عبارت پڑھ کر اور سمجھ کر بھی انجان بنی اپنی انگشت شہادت کے ناخن سے ٹیبل پہ لکیریں بناتی بولی۔۔۔
        " کیا واقع آپ نہیں سمجھیں۔۔۔جبکہ میری نظر میں تو آپ کافی شارپ مائنڈد ہیں۔۔۔"
        احتشام شاہ نے اس پہ ایک گہری نگاہ ڈالتے کہا تو وہ ایک پل کو سمٹ کر رہ گئ اور اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔
        " چلیں ٹھیک ہے۔۔۔سیدھی بات کی طرف آتے ہیں۔۔۔
        مجھ سے شادی کریں گی۔۔۔"
        احتشام شاہ نے واضح الفاظ میں عینا کو پرپوز کرتے کہا۔۔۔ایک پل کو اسے لگا کہ اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے مگر احتشام شاہ کو خود کو وارفتگی سے تکتے پاکر اس کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھر گئے۔۔۔وہ جو اپنے دونوں ہاتھ ٹیبل پہ رکھ کر پر اعتماد انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔بے اختیار اپنے دونوں ہاتھ ایسے نیچے کر گئ جیسے احتشام شاہ ان کو چھو لے گا۔۔۔
        " آ۔۔۔آپ۔۔۔ہوش میں تو ہیں۔۔۔میں آپ سے عائلہ آپی اور صارم بھائی کی بات کر رہی ہوں۔۔۔اور آپ۔۔۔۔"
        کچھ پل کو دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھائی رہی۔۔۔احتشام شاہ پرشوق نظروں سے اس کی طرف دیکھتا اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔۔اسکی نظروں کی تپش سے خائف ہوتی عینا گھبراہٹ کا شکار ہوتی حیرانی سے بولی۔۔۔
        " جی بلکل میں پورے ہوش و ہواس میں ہوں۔۔۔آپ نے جو کہا میں نے سنا۔۔۔اس پہ اپنی رائے اپنا جواب بھی دے دیا۔۔۔
        مگر اب میں اپنی بات کر رہا ہوں۔۔۔اور بہت بے چینی سے آپکے جواب کا منتظر ہوں۔۔۔
        کچھ بھی کہنے سے پہلے ایک بات ذہن میں رکھیے گا۔۔۔کہ میں نے جو بھی کہا اپنے دل کی آواز پہ سر خم کرتے کہا۔۔۔اب آپ کا دل کیا کہتا ہے۔۔۔وہ سننے کے لیے میں ساری عمر انتظار کر سکتا ہوں بشرطیکہ میرے ہاتھ میں آس و نراس کی بجائے امید کی ڈوری تھما دیں۔۔۔"
        احتشام شاہ عینا کو اپنی نظروں کے حصار میں پوری طرح سے قید کرتا ہوا گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔عینا کو اپنے دل کی حالت عجیب سی ہوتی محسوس ہو رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔۔۔اسکے ہاتھ نم آلود ہونے لگے۔۔۔
        " عینا۔۔۔پلیززز۔۔۔کچھ تو کہیے۔۔۔"
        عینا کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر احتشام شاہ پریشانی سے بولا۔۔۔
        " مم۔۔۔میں سوچ کر بتاؤں گی۔۔۔اس وقت میرے لیے آپی اور ماما سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔پلیززز۔۔۔آپ جانتے ہیں کہ ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں۔۔۔ایسے میں اپنے لیے کوئی بھی فیصلہ لینا میرے لیے بہت مشکل ہے۔۔۔"
        عینا نے خود کو سنبھالتے اب کے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔تو احتشام شاہ اس کی بات سن کر خاموش سا ہو گیا۔۔۔
        " میرا خیال ہے اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔۔"
        عینا نے اٹھتے ہوئے کہا تو اس کے ساتھ احتشام شاہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔مگر اس کے چہرے پہ کچھ دیر پہلے نظر آنے والی شوخی اب مقفود ہو چکی تھی۔۔۔
        " میں زندگی میں جب بھی اپنی شادی کو لے کر کوئی فیصلہ کروں گی تو میری پہلی ترجیح صرف آپ ہوں گے احتشام شاہ۔۔۔"
        ہاسپٹل کے اندر قدم رکھتے عینا نے مڑ کر احتشام شاہ کی طرف دیکھا جو اس سے ایک قدم پیچھے کسی سوچ میں گم چل رہا تھا۔۔۔اس کی طرف دیکھتے عینا کے چہرے پہ مسکراہٹ در آئی۔۔۔اس نے احتشام شاہ کو مخاطب کرتے اس کی طرف دیکھتے پراعتماد انداز میں کہا تو احتشام شاہ کے چہرے پہ سکون و اطمینان کی لہر دوڑ گئ۔۔۔



        Comment


        • #74

          Episode , 49#

          " افففف لگتا ہے پوری شیشی انڈیل لی ہے اوپر۔۔۔کیا بتانا پسند کرو گے کہ کدھر کی تیاری ہے۔۔۔"؟
          بلال دلاور کے روم میں آیا تو تیز خوشبو نے اسکے نتھنوں کو سلامی دی۔۔۔اس نے اپنی ناک سکیڑتے ہوئے دلاور سے پوچھا جو بڑے انہماک سے آئینے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔۔۔
          " گاؤں۔۔۔عائلہ سے ملنے۔۔۔"
          دلاور نے بنا مڑے آئینے میں سے نظر آتے اس کے عکس کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
          " عائلہ سے ملنےےے۔۔۔اور تم سے کس نے کہا کہ وہ تم سے ملے گی۔۔۔"
          بلال نے تیکھے لہجے میں کہا۔۔۔
          " میں نے کب کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔۔۔میں نے کہا کہ" میں" ملنے جا رہا ہوں۔۔۔میں آج کھل کر اس سے اپنے دل کی بات کروں گا۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ جب تک ہم آمنے سامنے بیٹھ کر بات نہیں کریں گے یہ مسلہ حل نہیں ہوگا۔۔۔
          اب تک مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عائلہ ، عینا اور اسکی والدہ مجھ سے اتنی بیزار کیوں ہیں۔۔ کیوں مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہیں۔۔۔اور بہت سوچنے کے بعد میں وہ بھی سمجھ چکا ہوں۔۔۔
          بلال وہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔۔۔پہچانتے نہیں۔۔۔مگر پھر بھی ان سب کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت ہے۔۔۔
          جانتے ہو اسکی وجہ " میں " نہیں۔۔۔بلکہ ان کا باپ ہے۔۔۔وہ اپنے باپ سے شدید نفرت کرتی ہیں۔۔۔اور رشید احمد سے میری جان پہچان ہونے کی وجہ سے اسی نفرت کی عینک سے وہ مجھے دیکھتی ہیں۔۔۔اور اگر دیکھا جائے تو وہ اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔
          میں آج انکی ساری غلط فہمی دور کردوں گا۔۔۔میں ان کو بتاؤں گا کہ میں انکے باپ جیسا نہیں ہوں۔۔۔میں انکو یقین دلاؤں گا کہ میں عائلہ کو بہت چاہتا ہوں اور اسے بہت خوش رکھوں گا۔۔۔"
          دلاور نے بلال سے زیادہ خود کو سمجھاتے کہا۔۔۔
          " دلاور بات صرف تم سے نفرت کی یا تمہیں ناپسند کرنے کی نہیں ہے۔۔۔کسی کے دل میں ہم اپنے لیے زبردستی محبت پیدا نہیں کر سکتے۔۔۔مگر میں دعا کرتا ہوں کہ آج جب تم گھر سے نکلو تو الّٰلہ تمہارے دل کو اس رستے پہ ڈال دے جو تمہارے لیے بہتر ہے۔۔۔"
          بلال نے ایک گہرا سانس خارج کرتے کہا۔۔۔عائلہ کے لیے اس کا پاگل پن اس کی محبت دیکھ کر اس نے دل سے دعا کی کہ جس میں اسکی خوشی اسکی بہتری ہے وہ اس کو مل جائے۔۔۔اور الّٰلہ کے سوا کون جانتا ہے کہ کس کے لیے کیا صحیح ہے۔۔۔اس کے سوا کون ہے جو دلوں کو موڑ سکتا ہے۔۔۔
          " میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔۔۔"
          بلال نے دو ٹوک لہجے میں دلاور سے کہا۔۔۔
          " میں منع کروں گا تو تب کونسا تم رکو گے۔۔۔دو منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی سے باہر آ جاؤ۔۔۔"
          دلاور تیار ہونے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑا خود پہ ایک ستائشی نگاہ ڈال کر بلال کی طرف مصنوعی خفگی سے دیکھتا اسے وارننگ دے کر اس کے جواب کا انتظار کیے بنا گاڑی کی کیز اور اپنا والٹ اٹھا کر روم سے باہر نکل گیا۔۔۔
          " دو منٹ میں باہر آ جاؤ۔۔۔خود چار گھنٹے لگا کر تیار ہوا ہے اور میں دو منٹ میں ہوجاؤں۔۔۔جبکہ مجھے زیادہ ضرورت ہے تیار ہونے کی۔۔۔"
          بلال دلاور کو باہر نکلتے دیکھ کر اس کے پیچھے پیچھے ہی روم سے باہر نکلتا غصے سے بڑبڑاتا ہوا خود ہی اپنے سانولے رنگ پہ چوٹ کرتا بولا۔۔۔اور تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔۔۔ٹھیک پانچ منٹ بعد بلال کو باہر بلانے کے لیے دلاور گاڑی کے ہارن پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا۔۔۔بلال سچ میں دو منٹ میں تیز تیز ہاتھ چلا کر تیار ہوکر تقریباً بھاگتا ہوا باہر آیا کہ کہیں وہ اسے چھوڑ کر نہ چلا جائے۔۔۔کیونکہ وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ دلاور عائلہ کے گھر اکیلا جائے۔۔۔اور پھر سے کوئی مسلہ کھڑا ہوا ہو۔۔۔
          " تم تو ایسے کر رہے ہو جیسے وہ لوگ تمہارے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔۔۔اور گن گن کر پل گزار رہے ہیں کہ کب تم آؤ گے۔۔۔"
          بلال نے گاڑی کا دروازہ کھولتے سڑے لہجے میں کہا۔۔۔اور فرنٹ سیٹ پہ اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔
          " تمہیں کیا پتہ کہ محبوب سے ملنے کی ، اسے دیکھنے کی چاہ انسان کے پورے وجود میں کیسے بےچینی و بے قراری بھر دیتی ہے۔۔۔دل کرتا ہے بندہ ہوا کے دوش پہ اڑتا ہوا ایک سیکنڈ کی دیر کیے بنا اس کے پاس پہنچ جائے۔۔۔
          میرا خیال ہے کہ تم اگر کسی سے محبت کا وبال نہیں پال سکتے تو کم از کم اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے۔۔۔
          بیوی کے نام پہ تمہاری زندگی میں بھی کوئی لڑکی آئے گی تو پھر ہی تمہیں میری تڑپ کا میری محبت کا احساس ہوگا۔۔۔تب تمہیں پتہ چلے گا کہ میں کس قسم کے احساسات سے گزر رہا ہوں۔۔۔
          جو اب ہر وقت تم میرے سر پہ منڈلاتے رہتے ہو ناں پھر مہینوں تمہاری شکل نظر نہیں آیا کرے گی۔۔۔"
          دلاور نے گاڑی ریورس کرنے کے بعد مین روڈ پہ لاتے اس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔دلاور کی بات سن کر بلال کی آنکھوں کے سامنے کسی کا عکس لہرایا تھا۔۔۔اور ساتھ ہی ایک کرب نے بھی اس کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا جسے کمال مہارت سے وہ دلاور سے چھپا گیا۔۔۔
          " نا بابا۔۔۔ مجھے تم اس شادی وادی کے چکر سے دور ہی رکھو۔۔۔میں ایسے ہی بہت خوش اور سکون میں ہوں۔۔۔"
          بلال نے گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے فوراً انکار کرتے کہا۔۔۔
          " مجھ سے ایک سال بڑا ہے تو۔۔۔اگر تجھے یاد ہو تو۔۔۔مزید ایک دو سال تک سر میں سفید بال آنے لگیں گے۔۔۔گھر ، گاڑی، بینک بیلنس سب کچھ تو ہے تیرے پاس۔۔۔صحت بھی ٹھیک ہے۔۔۔پھر میری سمجھ سے باہر ہے کہ تو شادی کے نام پہ بھاگتا کیوں ہے۔۔۔کہیں کوئی بچپن کے عشق وشق کا یا کوئی ڈاکٹری مسلہ تو نہیں ہے۔۔۔
          دیکھ جو بھی ہے۔۔۔بہتر ہوگا تو خود سلجھا لے۔۔۔یہ بات تو تہ ہے کہ تجھے کنوارا تو میں رہنے نہیں دوں گا۔۔۔اس سے پہلے کہ میں تیرے لیے کوئی لڑکی دیکھوں تو خود ہی دیکھ لے۔۔۔اور اگر کوئی ہے تو بتا دے۔۔۔باقی میں خود دیکھ لوں گا۔۔۔"
          دلاور نے اس کی طرف چہرہ موڑ کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
          " یہ تو میرے پیچھے کس لیے پڑ گیا ہے۔۔۔دھیان سے سامنے دیکھ کر گاڑی چلا یہ نہ ہو کہ تیری عائلہ کی بجائے ہم کہیں اور پہنچے ہوں۔۔۔"
          سامنے سے آتی گاڑی سے ٹکر سے بچانے کے لیے دلاور نے تیزی سے بریک لگائی تو گاڑی زور سے اچھلی جس سے دونوں کا سر سامنے ڈیش بورڈ سے لگتے لگتے بچا تو بلال نے ہلکے سے جھنجلاتے کہا۔۔۔تو دلاور اسکی بات پہ مسکرا کر اپنے ہونٹوں سے سیٹی بجاتے ایک شوخ سا سونگ گنگنانے لگا۔۔۔جبکہ بلال چہرہ دروازے والی سائیڈ پہ موڑ کر کسی کی یاد میں کھو گیا۔۔۔
          " یہ اسے کیا ہو گیا۔۔۔۔نکلنے سے پہلے میں نے چیک تو کیا تھا پھر۔۔۔"
          تقریباً آدھے سے زیادہ فاصلہ تہ کر چکنے کے بعد اچانک گجر سنگھ والا کے پاس انکی گاڑی بند ہو گئ تو دلاور حیران ہوتے بولا۔۔۔
          " مان جا میری بات۔۔۔تو جب جب بھی اُدھر کا رخ کرتا ہے لازمی کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔۔۔ہر بار کوئی نہ کوئی مسلہ کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔۔۔سمجھ جا کہ تیری قسمت تیرا ساتھ نہیں دے رہی۔۔۔
          بلال نے اس کا دھیان پھر سے اس طرف لانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔
          " شکل اچھی نہ ہو تو بندے کو بات ہی اچھی کر لینی چاہیے۔۔۔میں قسمت پہ نہیں کوشش پہ یقین رکھتا ہوں۔۔۔"
          دلاور نے گاڑی سے اترتے جل بھن کر کہا۔۔۔
          " اور میرا ماننا ہے کہ اگر قسمت ساتھ نہ دے تو ساری کوششیں ناکام ہو جاتی ہے۔۔۔"
          بلال نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور گاڑی کا بونٹ اٹھا کر ذرا سا جھک کر دیکھنے لگا کہ کیا مسلہ ہوا ہے۔۔۔
          " اب کیا کریں۔۔۔سمجھ سے باہر ہے۔۔۔بظاہر تو سب ٹھیک ہے پھر یہ بند کیسے ہوگئ۔۔۔ٹینکی بھی فل ہے۔۔۔"
          سب کچھ ٹھیک پا کر دلاور حیرانی سے بولا۔۔۔
          " سمجھ میں تو میری بھی نہیں آرہا۔۔۔"
          بلال نے بغور گاڑی کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
          " خراب بھی ایسی جگہ ہوئی ہے کہ دور دور تک نہ کوئی پمپ نظر آ رہا ہے نہ کوئی ورکشاپ۔۔۔"
          بلال نے پریشانی سے کہا۔۔۔
          " بیٹا کیا بات ہے۔۔۔کوئی مسلہ ہے کیا۔۔۔مجھے بتاؤ اگر میں کوئی مدد کرسکوں تو۔۔۔"
          ابھی وہ ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ سائیکل پہ سوار انکے پاس ایک باریش بزرگ آکر رکے اور ان سے پوچھنے لگے۔۔۔بلال اور دلاور نے حیران ہوکر انکی طرف دیکھا کہ بھلا یہ ہماری کیا مدد کرے گا۔۔۔
          " گاڑی خراب ہوگئ ہے کیا۔۔۔"؟
          اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے وہ بابا جی خود ہی اندازہ لگا کر بولے اور انکے کہے بنا اپنی سائیکل ایک سائیڈ پہ کھڑی کر کے آ کے گاڑی کو دیکھنے لگے۔۔۔
          " بیٹا جہاں تک میری سمجھ کام کر رہی ہے ایک تو آپ کی گاڑی کی فل ٹیوننگ کی ہے جس نے بھی کی ہے۔۔۔باقی جو لگ رہا ہے وہ اسے اندر سے کھول کر دیکھنا پڑے گا۔۔۔اور اس وقت میرے پاس کوئی ایسا سامان نہیں جو میں دیکھ سکوں۔۔۔یہاں قریب ہی میرا گھر ہے۔۔۔تم لوگ اگر مناسب سمجھو تو کچھ دیر وہاں رک کر انتظار کر لو ایک دو بچے ہیں وہاں جو اس کام کے بڑے ماہر ہیں۔۔۔"
          بابا جی نے کچھ دیر گاڑی کو دیکھنے کے بعد انکی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔انکے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا سوائے بابا جی کی بات ماننے کے سو اثبات میں سر ہلا کر انکے ساتھ ساتھ پیدل چلنے لگے۔۔۔
          اپنے علاقے اپنے گھر کے قریب جیسے ہی وہ بابا جی پہنچے آتے جاتے لوگ جھک جھک کر انکو بہت احترام سے سلام کرنے لگے اور ساتھ میں ان دونوں کو بھی۔۔۔بلال اور دلاور حیران ہو کر انکے ساتھ چلتے سوچنے لگے کہ یہ آخر ہے کون جو بظاہر حلیے سے سفید پوش بزرگ لگ رہے تھے مگر لوگ سلام ایسے کر رہے تھے جیسے وہ کوئی بہت خاص شخصیت ہوں۔۔۔
          اب کے پہلی بار دونوں نے بغور اس بزرگ کا سر تا پیر جائزہ لیا۔۔۔
          کریم کلر کے کرتے کے ساتھ سفید تہمند باندھے سر پہ گرین کلر کا امامہ سلیقے سے سر پہ باندھا ہوا تھا کاندھے پہ سفید رنگ کا صافہ رکھا ہوا تھا۔۔۔سرخ و سفید رنگت پہ سفید داڑھی انکی شخصیت کو عجیب ہی رعب دار بنا رہی تھی۔۔۔70 پلس کے لگ بھگ انکی عمر ہونے کے باوجود صحت قابل رشک تھی۔۔۔
          بابا جی نے ایک مسجد کے ساتھ بنے حجرے کے سامنے اپنی سائیکل کھڑی کی تو مسجد میں سے چند لڑکے باہر آئے اور بہت احترام سے سلام کر کے پاس کھڑے ہوگئے۔۔۔
          " فاروق بیٹا یہ میرے مہمان ہیں۔۔۔انکی گاڑی روڈ پہ کھڑی ہے۔۔۔جس میں کچھ مسلہ ہوگیا ہے جلدی سے جاکر عمر کو بلا لاؤ اور اس سے کہو کہ اسے چیک کرے۔۔۔"
          ان لڑکوں میں سے ایک کو مخاطب کرتے بابا جی نے کہا۔۔۔گاڑی کی کیز مانگنے پہ کچھ پس و پیش کے بعد دلاور نے اپنی جیب سے کیز نکالیں۔۔۔بابا جی نے دلاور سے گاڑی کی کیز پکڑ کر اس لڑکے کو پکڑائی۔۔۔اور خود بلال اور دلاور کے ساتھ اپنے حجرے میں داخل ہو گئے۔۔۔
          " لو یہ پانی پیئو۔۔۔اور گاڑی کی فکر مت کرو۔۔۔ابھی چند منٹ میں تم لوگوں کا مسلہ حل ہوجائے گا۔۔۔"
          بابا جی نے انکے بیٹھنے کے لیے صف بچھا دی جس پہ وہ دونوں جوتے اتار کر بیٹھ گئے۔۔۔ پھر باباجی گھڑے کا ٹھنڈا میٹھا پانی مٹی کے پیالے میں لا کر انکی طرف بڑھاتے انھیں تسلی دیتے بولے۔۔۔ابھی انھیں بیٹھے کچھ دیر ہوئی تھی کہ ایک آدمی چھوٹے بچے کو گود میں اٹھائے حجرے میں داخل ہوا اور بابا جی سے کہنے لگا کہ بچے کو دم کردیں۔۔۔بلال اور دلاور حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔دم سے فارغ ہوئے تو وہ آدمی ادب سے سلام کر کے چلا گیا۔۔۔
          " بابا جی آپ کیا کام کرتے ہیں اور یہیں رہتے ہیں کیا۔۔۔"
          بلال نے متاثر ہوتے پوچھا۔۔۔۔
          " ہاں پتر میں یہیں رہتا ہوں۔۔۔یہ میرا گاؤں ہے اور میں یہاں مسجد میں معمولی سا امام ہوں۔۔۔"
          بابا جی نے عاجزی و انکساری سے جواب دیا۔۔۔
          " آپکے بیوی بچے۔۔۔"
          بلال نے دوسرا سوال کیا۔۔۔
          " میری بیوی اس دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد ہو کر دوسرے دیس کی باسی بن گئ ہے۔۔۔اولاد الّٰلہ نے کوئی دی نہیں۔۔۔مگر یہاں کا ہر بچہ مجھے اپنے بچے کی طرح عزیز ہے۔۔۔لوگ بھی بہت عزت دیتے ہیں بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔"
          بابا جی نے مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
          " تم سناؤ کدھر سے آ ریے ہو اور کدھر جا رہے تھے۔۔۔"
          باباجی انکے پاس نیچے صف پہ بیٹھتے دلاور کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے بولے بولے۔۔۔
          "ہم لاہور سے آ رہے ہیں اور فیصل آباد کے پاس ایک گاؤں میں میرے کچھ عزیز ہیں انکی طرف جا رہے تھے۔۔۔"
          دلاور نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
          " سفر بڑی بری چیز ہے پتر۔۔۔ اگر یہ سفر الّٰلہ کے بندوں کی بھلائی انکی خوشی و سکون کے لیے ہو تو دونوں جہاں میں نفع دیتا ہے سب سے بڑھ کر دل کا سکون ملتا ہے۔۔۔لیکن یہی سفر اگر اپنے نفس کی غلامی میں بندھ کر کیا جائے تو اس میں صرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔۔۔ملا ہوا بھی کھو جاتا ہے۔۔۔اور بندہ اسے پانے کے لیے بھاگتا ہی رہتا ہے۔۔۔
          کبھی کبھی کچھ سفر انسان کو بے سکون کردیتے ہیں۔۔۔پھر بندہ سوچتا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ یہ سفر نہ کرتا۔۔۔اور کبھی انسان ساری عمر سفر میں رہتا ہے لیکن منزل پہ پھر بھی نہیں پہنچتا۔۔۔تم بھی ادھر ادھر پھرتے ہو۔۔۔کیا کبھی اپنے اندر بھی پھیرا ڈالا ہے وہاں بھی جھانک لیا کر پتر۔۔۔جس دن تو اپنے اندر پھیرا ڈالے گا تیرے یہ سارے پھیرے ختم ہو جائیں گے۔۔۔"
          بابا جی نے دلاور کی طرف دیکھتے مسکرا کر کہا۔۔۔انکی باتوں کے مفہوم میں چھپے اسرار بلال اور دلاور کو چونکا گئے۔۔۔
          " میں سمجھا نہیں بابا جی۔۔۔آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔۔۔"؟
          دلاور حیران ہو کر بولا۔۔۔
          " اپنے اندر جھانک پتر۔۔۔سب سمجھ آ جائے گی۔۔۔تیری پیشانی کی لکیریں تیرے سفر سے میل نہیں کھاتیں۔۔۔اور جس سفر سے بندے کی لکیریں نہ ملیں وہ سفر رائیگاں ہوتا ہے پتر۔۔۔"
          بابا جی نے دلاور کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔انکے چہرے پہ عجب پرسرار سی مسکراہٹ تھی۔۔۔دلاور جو انکی طرف ہی دیکھ رہا تھا اور انھیں پرکھنے کی کوشش کر ریا تھا اسے بابا جی کے چہرے کے گرد عجیب سا ہالہ محسوس ہوا اس نے یکدم گھبرا کر اپنی نظریں نیچے کر لیں۔۔۔
          " بابا جی مہمان کی گاڑی ٹھیک ہو گئ ہے۔۔۔یہ چاہیں تو اب جا سکتے ہیں۔۔۔"
          فاروق نے حجرے میں داخل ہوتے نہایت مؤدب انداز میں کہا۔۔۔
          " اب ہم چلتے ہیں۔۔۔اور یہ کچھ پیسے۔۔۔۔"
          دلاور نے اٹھتے ہوئے پیسے نکال کر فاروق کی طرف بڑھائے ہی تھےکہ وہ فوراً پیچھے کو ہوا۔۔۔
          " نہ جی۔۔۔کیوں گنہگار کرتے ہیں۔۔۔آپ بابا جی کے مہمان ہیں تو ہمارے مہمان ہوئے۔۔۔اور مہمان سے کچھ لیا نہیں بلکہ انکو دیا جاتا ہے۔۔۔
          رہنے دو پتر۔۔۔یہ ٹھیک کہ رہا ہے۔۔۔مہمان الّٰلہ کی رحمت ہوتے ہیں اور ہم مہمان سے پیسے نہیں لیتے۔۔۔"
          باباجی نے بھی اٹھتے ہوئے شفقت سے کہا۔۔۔
          " ہمارے لیے دعا کیجیے گا بابا جی کہ الّٰلہ ہمارا سفر مبارک کرے۔۔۔اور ہمارے رستے آسان کرے۔۔۔"
          بلال اور دلاور مؤدب ہوکر بولے۔۔۔
          " ہمارا ہر وہ سفر مبارک ہوتا ہے پتر جس میں ہماری ذات سے اوروں کے لیے نفع پہنچے۔۔۔اگائے پیڑ ببول کا جو آم کہاں سے کھائے۔۔۔الّٰلہ کے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو انکی مشکلیں دور کرو۔۔۔الّٰلہ تمہارے سب رستے آسان سب مشکلیں دور کردے گا۔۔۔جو الّٰلہ کے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے الّٰلہ اسکے راستے کے سب کانٹے سب مشکلیں دور کر دیتا ہے۔۔۔پھر سارے راستے آسان ہوجاتے ہیں سارے سفر مبارک سفر بن جاتے ہیں۔۔۔"
          بابا جی نے مسکرا کر کہا۔۔۔تو دونوں کچھ سمجھتے کچھ نہ سمجھتے اثبات میں سر ہلا کر بابا جی کو سلام کر کے انکے حجرے سے باہر نکل آئے۔۔۔
          " کیا سوچ رہے ہو۔۔۔"
          بلال نے دلاور سے پوچھا جو خلاف معمول انتہائی خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔
          " باباجی اور ان کی کہی باتوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔۔۔کچھ عجیب سے پرسرار سے لگے مجھے۔۔۔یا پھر یہ کہ لو کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ دل میں ہزار سوال اٹھنے کے باوجود مجھے ان سے کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔۔۔اور نہ انکی طرف دیکھنے کی۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انکی نظریں میرے آر پار ہو رہی ہوں کہ اگر میں زیادہ دیر انکی طرف دیکھتا تو وہ میرے اندر کا سب حال پڑھ لیتے۔۔۔حلیے سے بلکل سادھو سانت سے مگر حقیقت میں اس کے الٹ
          دلاور نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
          " ہمممم۔۔۔ٹھیک کہ رہے ہو۔۔۔مجھے بھی وہ کچھ عجیب سے لگے۔۔۔اور ایسا لگا جیسے وہ باتوں باتوں میں کچھ سمجھا رہے ہوں ہمیں آگے جانے سے روک رہے ہوں جیسے کہ رہے ہوں کہ واپس پلٹ جاؤ۔۔۔"
          بلال نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔۔۔


          " بیٹا اب کیسی طبیعت ہے مہرو کی۔۔۔"
          خالہ سکینہ نے پوچھا وہ اطلاع ملتے ہی کہ مہرالنساء کو گھر شفٹ کردیا گیا ہے فوراً حال احوال پوچھنے چلی آئیں تھیں جب تک وہ لوگ ہاسپٹل میں تھیں خالہ سکینہ نے ہی انکے گھر کی دیکھ بھال کی تھی اور رشید احمد کا دھیان بھی رکھا تھا۔۔۔انکی ہمسائیاں اور گاؤں سے اور بھی کافی عورتیں مہرالنساء کا پتہ کرنے آ رہی تھیں۔۔۔مگر زیادہ تر عورتیں اس دن جو ہنگامہ ہوا اس کی حقیقت اور شاہ سائیں کے بیٹوں کے ساتھ انکا تعلق کریدنے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔اس وقت وہ سب لوگ مہرالنساء کے روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
          " خالہ جان فلحال تو ویسے ہی ہے۔۔۔مگر ڈاکٹر کہ رہا تھا کہ امید ہے کہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔کیونکہ ماما ٹمپریری کومہ میں ہیں۔۔۔جس میں جلد از جلد کومہ سے باہر آنے کے چانس بہت زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔"
          عینا نے جواب دیا۔۔۔
          "انشاءالّٰلہ۔۔۔ انشاءالّٰلہ بیٹا کیوں نہیں۔۔۔بہت جلد ٹھیک ہو گی مہرو۔۔۔الّٰلہ رحم کرے اس پہ۔۔۔بہت دکھ دیکھے ہیں تمہاری ماں نے ساری عمر۔۔۔
          بیٹا کسی نرس وغیرہ کا انتظام کیا ہے مہرو کی دیکھ بھال کے لیے کیا۔۔۔"؟
          خالہ سکینہ نے مہرالنساء کی طرف دیکھ کر افسوس سے سر ہلاتے پوچھا۔۔۔
          "نہیں خالہ۔۔۔امی جان کی دیکھ بھال ہم خود کر سکتے ہیں اور ویسے بھی ہر لمحہ ہم لوگ ڈاکٹر سے کنٹیکٹ میں ہوتے ہیں۔۔۔"
          عائلہ نے جواب دیا۔۔۔
          " برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔۔۔"؟
          خالہ سکینہ نے عینا اور عائلہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
          " جی خالہ بولیے۔۔۔برا ماننے والی کیا بات ہے۔۔۔"
          عائلہ نے فرمانبرداری سے کہا۔۔۔
          " بیٹا اس میں کچھ شک نہیں کہ شاہ سائیں اور ان کے بیٹے سب گھر والے فرشتہ صفت لوگ ہیں۔۔۔مگر پھر بھی تم لوگ احتیاط سے کام لو۔۔۔جس حد تک ممکن ہو اس گھر سے انکے بیٹوں سے دور رہو۔۔۔پورے گاؤں میں لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔رشید احمد جیسا بھی ہے تم لوگوں کا باپ ہے۔۔۔عائلہ بیٹا ہاسپٹل سے شاہ سائیں کے گھر جانے کی بجائے تمہیں اپنے گھر آنا چاہیے تھا۔۔۔تم لوگ مجھے اپنی اولاد کی طرح ہی عزیز ہو اس لیے لوگ جو کہ رہے اس سے میرا دل پریشان ہو رہا ہے۔۔۔جس دن مہرو کی طبیعت خراب ہوئی اور تم لوگوں کے گھر جو ہنگامہ ہوا اس دن پورے گاؤں میں بس ایک ہی بات ہو رہی تھی کہ تم لوگوں نے شاہ سائیں کے بیٹوں کو اپنے پیچھے پاگل کیا ہوا ہے ورنہ کون اپنی ساری زمین جائیداد یوں کسی کے نام کرتا ہے۔۔۔
          پھر رشید احمد کو نہ جانے کیا ہوا کہ جیسے ہی تم لوگ مہرو اور عائلہ کو لے کر ہاسپٹل گئے رشید احمد دھڑام سے سے زمین پہ گرا اور بے ہوش ہو گیا۔۔۔دو دن تک اسکی طبیعت کافی خراب رہی۔۔۔ایمن کو میں اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئ تھی مگر احتشام شاہ اسے آ کر اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔پھر پتہ چلا کہ عائلہ کو ہاسپٹل سے چھٹی مل گئ ہے اور وہ بھی شاہ سائیں کی حویلی چلی گئ ہے۔۔۔اس بات سے لوگوں کو مزید باتیں بنانے کا موقع ملا۔۔۔
          مانتی ہوں بیٹا کہ شاہ سائیں کی بیٹی کے ساتھ تم لوگوں کی بہت گہری دوستی ہے مگر پھر بھی ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔۔۔ اس وقت تو خاص طور پہ جب باپ رشید احمد جیسا ہو اور ماں نہ مُردوں میں ہو نہ زِندوں میں۔۔۔"
          خالہ سکینہ نے نہایت شفقت اور برباری سے انکو سمجھاتے کہا۔۔۔
          " خالہ آپ بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں۔۔۔آئندہ ہم احتیاط کریں گے۔۔۔"
          عائلہ نے دھیمے مگر شرمندہ لہجے میں کہا۔۔۔
          " خوش رہو ہمیشہ۔۔۔الّٰلہ مہرو کو جلد از جلد ٹھیک کردے اور اس کا سایہ تم لوگوں کے سر پہ ہمیشہ قائم رکھے۔۔۔میں اب چلتی ہوں بیٹا۔۔۔شام کو پھر چکر لگاؤں گی۔۔۔اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کہ دینا۔۔۔"
          سکینہ خالہ نے مسکرا کر کہا اور انکے سر پہ پیار دے کر چلی گئیں۔۔۔
          " آپی مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔۔"
          سکینہ خالہ کے جانے کے بعد عینا نظریں نیچے کیے بولی۔۔۔
          " ہاں کہو سن رہی ہوں۔۔۔"
          عائلہ نے اسکے چہرے پہ کھلتے رنگوں کو دیکھ کر اپنا رخ مکمل طور پہ اس کی طرف موڑتے کہا۔۔۔
          " آپی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"
          شرم کے مارے عینا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے۔۔۔اپنی بات کیسے شروع کرے۔۔۔
          " عینا ایسی کونسی بات ہے۔۔۔جس پہ تمہیں شرم آ رہی ہے۔۔۔جو تم بتاتے اتنا ہچکچا رہی ہو۔۔۔
          ایک منٹ۔۔۔۔ایک منٹ۔۔۔۔فجر کسی خوشخبری کی بات کر رہی تھی۔۔۔اور جاتے وقت اس نے کہا تھا کہ پھر ملتے ہیں ایک نئے رشتے کے ساتھ۔۔۔
          عینا اگر تم فجر کے ساتھ مل کر پھر کوئی کارنامہ سرانجام دینے کا سوچ رہی ہو تو اب ایسا کرنا تو دور سوچنا بھی مت۔۔۔"
          عائلہ کو اچانک فجر کی بات یاد آئی جو جاتے وقت اس نے اس سے کہی تھی مگر اپنی والدہ کو گھر شفٹ کرنے کے چکر میں وہ بھول گئ تھی۔۔۔اور اب اسے یاد آئی تو فوراً عینا کو وارن کرتے بولی۔۔۔
          " آپی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔اصل میں مجھے آپکو بتانا تھا کہ احتشام جی نے مجھے پرپوز کیا ہے۔۔۔وہ مجھ سے شادی۔۔۔۔۔"
          عینا اتنا بول کر فوراً اپنا منہ موڑ گئ۔۔۔اسکے چہرے پہ خوشی حیا سکون کے ایسے رنگ کھل رہے تھے کہ عائلہ اس کی طرف دیکھتی رہ گئ۔۔۔
          " سچ میں۔۔۔۔کیا تم سچ کہ رہی ہو۔۔۔۔۔عینا۔۔۔۔میں بہت بہت بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔میں بہت خوش ہوں عینا۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔
          تم نے کیا کہا۔۔۔کیا جواب دیا ہے احتشام کو۔۔۔کب کی بات ہے یہ۔۔۔"؟
          عائلہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔۔۔اس کے رگ و پے میں سکون و اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئ۔۔۔اب عینا کے لیے اسے کوئی بھی بلیک میل نہیں کر سکتا تھا۔۔۔نہ دلاور نہ اس کا باپ۔۔۔خوشی کے مارے اس کی آواز کپکپا رہی تھی وہ نم آنکھوں سے عینا کو زور سے ہگ کرتے بولی۔۔۔
          " آپی کیا آپ واقع خوش ہیں۔۔۔مجھے لگا شائد آپکو یہ سن کر اچھا نہ لگے۔۔۔"
          عینا اس قدر عائلہ کو خوش دیکھ کر حیران ہوتے بولی۔۔۔
          " پاگل ہو کیا۔۔۔میں کیوں خوش نہیں ہوں گی۔۔۔میں سچ میں بہت خوش ہوں عینا۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی بوجھ سے آزاد ہو گئ ہوں۔۔۔کاش کہ امی جان ٹھیک ہوتیں تو وہ بھی یہ سن کر بہت خوش ہوتیں۔۔۔"
          عائلہ عینا کو پہلے ڈپٹتے پھر اداس ہوتے بولی۔۔۔اسی وقت دروازے پہ دستک ہوئی تو عائلہ نے ایمن سے کہا کہ وہ جا کے دیکھے کہ کون ہے۔۔۔
          " ہیلو۔۔۔کیسی ہو ننھی پری۔۔۔اور باقی لوگ کدھر ہیں۔۔۔'؟
          صارم شاہ نے اندر آتے کہا۔۔۔اس کے ہاتھ میں مختلف قسم کے شاپر تھے۔۔۔جو اس نے اندر آتے ایک طرف رکھے اور ساتھ پیار سے ایمن کے گال کھینچتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔کچھ پل بھی نہ گزرے تھے کہ دو ملازم ہاتھوں میں لکڑی کے کرٹین اٹھائے اندر داخل ہوئے۔۔۔صارم شاہ نے وہ کرٹین ایک سائیڈ پہ رکھنے کا اشارہ کرتے ساتھ انھیں جانے کا کہا۔۔۔
          صارم شاہ کی آواز سن کر عائلہ اور عینا حیران ہوتی باہر نکل آئیں۔۔۔
          " صارم بھیا آپ۔۔۔اور یہ سب کیا ہے۔۔۔"؟
          عینا صارم کو دیکھ کر خوشگوار موڈ میں بولی اور ساتھ ہی اسکے لائے گئے سامان کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔
          " یہ ماما نے اپنے باغ کے کچھ فروٹس بھجوائے ہیں۔۔۔کہ رہے تھیں کہ انکی بہوئیں کافی دبلی پتلی ہیں تو کھا کر کچھ جان بنائیں۔۔۔"
          صارم شاہ نے عینا اور عائلہ کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا۔۔۔احتشام شاہ نے اسکے ساتھ ساتھ سب گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ عینا نے اس کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔۔۔ہائمہ خاتون نے بطور خاص اب انکے لیے اپنے باغ کے اسپیشل آم اور آڑو بھجوائے تھے۔۔۔
          صارم شاہ کی بات پہ عینا کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔۔۔جبکہ عائلہ سپاٹ چہرے کے ساتھ یونہی کھڑی رہی خالہ سکینہ کی باتیں سن کر وہ صارم شاہ کو اکیلے اپنے گھر پھر سے یوں دیکھ کر سخت کبیدہ خاطر ہوئی تھی۔۔۔عینا اور احتشام شاہ کے حوالے سے انکا شاہ سائیں کی فیملی سے ایک نیا رشتہ قائم ہو رہا تھا جس کی وجہ سے وہ صارم شاہ کو کچھ سخت نہ کہ سکی۔۔۔
          " پہلی بات کہ ہم آپکے گھر کی بہوئیں نہیں ہیں۔۔۔جب باقاعدہ رشتہ تہ پا جائے تو تبھی اس قسم کے لفظ بولیے گا۔۔۔اور دوسری بات کہ بہتر ہوگا کہ جب تک امی جان ہوش میں نہیں آتیں آپ دوبارہ ادھر کا رخ نہ کریں۔۔۔اکیلے تو ہرگز نہیں۔۔۔جس قسم کی باتیں گاؤں کے لوگ کر رہے وہ یقیناً آپکے کانوں تک بھی پہنچی ہوں گی۔۔۔اس لیے امید ہے کہ آپ برا منانے کی بجائے بات کو سمجھیں گے۔۔۔"
          عائلہ نے انتہائی رکھائی سے کہا۔۔۔
          " میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔میں دوبارہ نہیں آؤں گا۔۔۔مگر کیا ہم بیٹھ کر کچھ بات کرسکتے ہیں۔۔۔بس چند منٹ پلیززز۔۔۔"
          صارم شاہ نے لجاجت سے کہا۔۔۔
          " آپی میں ماما کے پاس ہوں۔۔۔آپ کر لیں بات۔۔۔"
          عینا نے فوراً کہا اور عائلہ کی گھوری کو نظر انداز کرتے مسکرا کر اندر کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
          " کیسی ہیں آپ۔۔۔"
          عینا کے اندر جاتے ہی صارم شاہ اس کے قریب آ کر بولا۔۔۔
          " وہ لڑکی کیسی ہو سکتی ہے جو بیچی اور خریدی جا رہی ہو۔۔۔جو اس سے محبت کا دعوے دار ہو وہی اسکی بولی لگا رہا ہو۔۔۔"
          عائلہ تلخی سے بولی۔۔۔
          " کیا بکواس ہے یہ۔۔۔آپ ہوش میں تو ہیں۔۔۔میں بولی لگاؤں گا آپکی۔۔۔"
          صارم شاہ انتہائی حیرانگی اور غصے سے بولا۔۔۔
          " بولی ہی تو لگ رہی ہے میری۔۔۔باپ نے گروی رکھ دیا۔۔۔ایک نے 20 لاکھ کے بدلے خرید لیا۔۔۔دوسرا آیا وہ اپنی زمین جائیداد کا لالچ دے کر پہلے کو پیچھے ہونے کا کہ رہا۔۔۔یہ سودے بازی نہیں تو اور کیا ہے چھوٹے شاہ۔۔۔
          آپ تو مجھ سے محبت کے دعوے دار تھے محبت کرتے ہیں مجھ سے ، میری خاطر جان لے بھی سکتے ہیں اور جان دے بھی سکتے ہیں یہی کہا تھا ناں آپ نے۔۔۔پھر آپ سوداگر کیسے بن گئے۔۔۔یہ سودے بازی کہاں سے سیکھ لی آپ نے۔۔۔آپ نے تو محبت کو ہی مار دیا۔۔۔محبت کو بکاؤ مال بنا دیا۔۔۔
          محبت تو انمول ہوتی ہے چھوٹے شاہ۔۔۔محبت کا تو کوئی مول نہیں ہوتا۔۔۔اور جس محبت میں مول تول آ جائے وہ محبت نہیں ہوتی۔۔۔بس ہوس ہوتی ہے جسم کی بھوک ہوتی ہے۔۔۔ادھر بھوک ختم ادھر محبت ختم۔۔۔
          آپ صرف مجھے پانا چاہتے ہیں مجھے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔آپ بھی جھوٹے آپ کا پیار بھی جھوٹا۔۔۔
          اگر آپکو سچ میں مجھ سے محبت ہوتی تو میری بولی لگانے کی بجائے میرے لیے لڑتے۔۔۔مقابلہ کرتے دلاور کا۔۔۔
          جانتے ہیں اس وقت مجھے کیسا لگ رہا تھا۔۔۔مجھے لگ رہا تھا جیسے میں کسی بازار میں بیٹھی ہوں۔۔۔جہاں میرے وجود کا میرے جسم کا سودا ہو رہا ہے۔۔۔میری بولی لگ رہی ہے۔۔۔جس کی جیب بھاری عائلہ اسکی۔۔۔"
          عائلہ ٹوٹے لہجے میں آنکھوں میں نمی لیے بولی۔۔۔
          " عائلہ۔۔۔بہت غلط کہ رہی ہیں آپ۔۔۔بہت غلط سوچ رہی ہیں آپ۔۔۔
          آپ کے لیے میں ہر حد سے گزر سکتا ہوں نہ میں جھوٹا ہوں نہ میری محبت جھوٹی۔۔۔جان دینا تو بہت معمولی بات ہے۔۔۔اُس دن میں آپ کی بولی نہیں لگا رہا تھا بلکہ میں تو خود کو بیچ رہا تھا۔۔۔
          اگر میں آپکو پانا چاہتا آپکو حاصل کرنا چاہتا ہوتا تو فجر کی مہندی والی رات میں ایسا کر چکا ہوتا۔۔۔کون تھا اس وقت وہاں جو مجھے روکتا۔۔۔کیا آپ روک پاتیں۔۔۔؟
          کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔آپ مجھے روک نہیں پاتیں عائلہ جی۔۔۔۔۔
          آپکو پانا ہوتا تو میں اب تک آپکی ایک ہاں کے انتظار میں نہ بیٹھا ہوتا بلکہ آپ کب کی میرے بستر پہ پہنچ چکی ہوتیں۔۔۔
          محبت کرنے والے محبت کو رسوا نہیں کرتے۔۔۔میں نے اپنی روح کی گہرائیوں سے آپکو چاہا آپ سے محبت کی ہے۔۔۔مجھے جسم کی بھوک ہوتی تو اس کے لیے ٹکے ٹکے پہ بکنے والی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے بازار میں۔۔۔کسی کوٹھے پہ جا کے میں اپنی یہ بھوک مٹا سکتا تھا۔۔۔
          مگر میرے ماں باپ نے مجھے نفس کا غلام بن کر عورت کی عزت کی دھجیاں بکھیرنا نہیں سکھایا بلکہ کوٹھے پہ بیٹھی عورت کو بھی عزت و احترام کے بلند مقام پہ بٹھانا سیکھایا ہے۔۔۔اُسکی عزت کی بھی حفاظت کرنا سیکھایا ہے اُس کو بھی عزت کی چادر اوڑھانا سیکھایا ہے۔۔۔
          پھر آپ تو میری محبت ہیں۔۔۔آپ کے لیے تو ہر حد پار کر جاؤں گا میں۔۔۔اور میں ایسا ہی کروں گا۔۔۔اپنے جیتے جی آپکے ہاتھوں پہ کسی اور کے نام کی مہندی نہیں لگنے دوں گا میں۔۔۔"
          عائلہ کی بات سن کر صارم شاہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو۔۔۔اپنے اور عائلہ کے بیچ میں چند قدم کا فاصلہ ختم کرتے وہ تڑپ کر آگے بڑھا اور اسے کندھوں سے سختی سے تھام کر تقریباً جنجھوڑتے ہوئے بولا۔۔۔
          " چھوڑیں مجھے۔۔۔مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔"
          عائلہ کو لگا جیسے صارم شاہ کی انگلیاں اس کے بازوؤں میں دھنستی جا رہی ہیں وہ تکلیف سے سسک کر بولی۔۔۔
          " مجھے بھی ہورہا ہے۔۔۔بہت درد ہورہا ہے عائلہ جی آپکی بات سن کر۔۔۔"
          صارم شاہ بھاری لہجے میں بولا۔۔۔
          " اوئے۔۔۔۔چھوڑ اسے۔۔۔۔"
          صارم شاہ اور عائلہ کے کانوں میں دھاڑتی ہوئی آواز پڑی تو حیران ہو کر چہرہ موڑ کر دیکھا تو دلاور صحن میں کھڑا خونخوار نظروں سے انکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
          " منع کیا تھا ناں میں نے۔۔۔کہا تھا ناں کہ تم یا تمہارے گھر کا کوئی بھی فرد اب ادھر کا رخ نہیں کرو گے اور نہ تمہاری زبان پہ دوبارہ عائلہ کا نام آئے گا۔۔۔ایک بار کہی بات کی سمجھ نہیں آتی تمہیں۔۔۔"
          دلاور چیختا ہوا انتہائی غصے سے صارم شاہ کی طرف بڑھا۔۔۔اور اسے گریبان سے پکڑ کر زوردار دھکا دیتے عائلہ سے الگ کیا۔۔۔صارم شاہ خود کو سنبھالتا غصے سے کسی عقاب کی طرح اس پہ جھپٹا اور اسے اپنے ساتھ لیتا ہوا زور سے زمین پہ گرا۔۔۔بلال یہ سب دیکھ کر آگے بڑھا تو دلاور نے اسے روک دیا کہ وہ اکیلا کافی ہے۔۔۔دونوں کے گرنے پہ عائلہ کے منہ سے زودار چیخ بلند ہوئی۔۔۔
          چیخ و پکار پہ عینا بھی تیزی سے روم سے باہر نکل آئی۔۔۔اور صحن کا منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گئ۔۔۔
          " اور تمہیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔نفرت کرتے ہیں تم سے۔۔۔"
          صارم شاہ بھی اسی لہجے میں دھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔اور ایک زوردار گھونسا دلاور کے پیٹ میں جڑا۔۔۔دلاور کے قد آور کھلے ڈلے وجود کے سامنے صارم شاہ کوئی بچہ ہی لگ رہا تھا۔۔۔مگر صارم شاہ کسی بات کی پرواہ کیے بنا دلاور سے ٹکرا گیا۔۔۔صارم شاہ کے زوردار گھونسے پہ دلاور لڑکھڑا کر رہ گیا۔۔۔دلاور خونخوار نظروں سے صارم شاہ کو دیکھتا اس پہ پل پڑا۔۔۔دونوں بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔۔۔جس کا داؤ چل جاتا وہ دوسرے کو گھونسے اور لاتوں پہ رکھ لیتا۔۔۔عینا اور عائلہ یہ سب دیکھ کر چیخ و پکار کرنے لگیں۔۔۔دونوں اونچی آواز میں چیختے ہوئے دلاور اور صارم شاہ کو رک جانے کا بولنے لگیں۔۔۔مگر دونوں میں سے کوئی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔عینا اور عائلہ کی چیخ و پکار پہ لوگ اکٹھے ہونے لگے مگر بلال کے ہاتھ میں لوڈڈ گن دیکھ کر کسی کی اندر آ کر انھیں روکنے کی ہمت نہیں ہوئی کچھ لوگوں نے چیختے ہوئے فوراً شاہ سائیں کو اطلاع کرنے کا کہا تو چند لوگ انکی حویلی کی طرف بھاگے۔۔۔دلاور آہستہ آہستہ صارم شاہ پہ حاوی ہونے لگا۔۔۔دونوں کے حلیے ایک دوسرے کو مار مار کر بگڑ چکے تھے۔۔۔
          رشید احمد کے گھر پھر سے ہنگامے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل گئ۔۔۔
          صارم شاہ شدید زخمی ہونے کے باوجود کسی طور ہار ماننے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔۔۔وہ اپنے نڈھال وجود کے ساتھ کبھی دلاور کا حملہ روکتا اور کبھی موقع ملتے خود اس پہ حملہ کردیتا۔۔۔
          " ر۔۔۔ر۔۔۔رک جاؤ۔۔۔دلاور تمہیں الّٰلہ کا واسطہ ہے۔۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔۔تم۔جیسا چاہو گے ویسا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔پلیزززز چھوڑ دو اسے۔۔۔پلیززز مت مارو اسے۔۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں یہ آج کے بعد ادھر نہیں آئے گا۔۔۔۔پلیززز چھوڑ دو اسے۔۔۔۔
          رک جاؤ دلاور۔۔۔خدا کا واسطہ ہے۔۔۔صارم بھائی کو چھوڑ دو۔۔۔۔مت مارو انھیں۔۔۔"
          دلاور اس وقت پاگل ہو رہا تھا۔۔۔صارم شاہ کے نڈھال ہوتے ہی دلاور اسے زمین پہ گرائے اسکے سینے پہ اپنا گھٹنا رکھے دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا دبانے لگا۔۔۔تو عائلہ اور عینا یہ دیکھ کر روتے ہوئے دلاور کے بازو پکڑ کر پیچھے کرنے کے ساتھ اس سے التجا کرنے لگیں۔۔۔
          " دلاور پاگل ہوگئے ہو۔۔۔بس کردو اب۔۔۔چھوڑو اسے۔۔۔"
          بلال نے بھی جب دیکھا کہ وہ صارم شاہ کی جان لینے پہ اتر آیا ہے تو جلدی سے آگے بڑھ کر اسے پیچھے کو دھکا دیتے بولا۔۔۔
          " ہاں۔۔۔پاگل ہوگیا ہوں میں۔۔۔جو بھی میرے اور عائلہ کے بیچ میں آئے گا مار ڈالوں گا اسے۔۔۔"
          دلاور جھٹکا کھا کر پیچھے کو گرا پھر اٹھ کر غصے سے چنگھاڑتا ہوا بولا۔۔۔
          " مار ڈالو۔۔۔۔دلاور بے شک مجھے مار ڈالو۔۔۔اپنے جیتے جی تو میں بھی عائلہ کو تمہارا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔"
          صارم شاہ زمین پہ پڑے پڑے اپنے زخمی وجود کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرتے لڑکھڑاتے لہجے میں بولا۔۔۔
          " تو۔۔۔۔۔مر پھر۔۔۔۔۔"
          صارم شاہ کی بات سن کر دلاور پھر اسے مارنے کو غصے سے آگے بڑھا۔۔۔۔
          " نہیں۔۔۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔۔بس کردو اب۔۔۔۔میں نے کہا ناں کہ اب نہیں آئے گا یہ۔۔۔۔تم جیسا چاہو گے ویسے ہی ہوگا۔۔۔۔پلیزززز۔۔۔۔"
          عائلہ دلاور کو پھر سے صارم شاہ کی طرف بڑھتے دیکھ کر اسکے راستے میں حائل ہوتی اسکے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے سسکتے ہوئے بولی۔۔۔۔عائلہ کو اپنے سامنے یوں ہاتھ جوڑے روتے دیکھ کر دلاور یکدم ہوش میں آیا۔۔۔۔اس کے صبیح چہرے پہ نظر پڑتے اس کا سارا غصہ ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔
          " نہیں۔۔۔۔عائلہ جی۔۔۔آپ ایسے ہاتھ مت جوڑیں۔۔۔۔میں آپکو ایسے روتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔آپکو اندازہ نہیں کہ کتنی محبت کرنے لگا ہوں آپ سے۔۔۔بہت چاینے لگا ہوں آپکو۔۔۔میں آپکے لیے ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔ساری دنیا سے لڑ سکتا ہوں۔۔۔بہت پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔۔آپ جو کہیں گی جیسا کہیں گی میں کروں گا۔۔۔مگر مجھ سے الگ ہونے کی اور دور جانے کی بات کبھی مت کیجیے گا۔۔۔
          میں نے یقین کیا آپ پہ۔۔۔۔آپکی بات پہ۔۔۔۔کچھ نہیں کروں گا اب۔۔۔"
          دلاور عائلہ کے جڑے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بے اختیار اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے بولا۔۔۔دلاور کی اس حرکت پہ جہاں عائلہ ششدر رہ گئ وہیں عینا اور صارم شاہ کینہ توز نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔عائلہ نے مارے شرم کے دلاور کو پورا زور لگا کر پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر وہ اسے ایک انچ بھی نہ ہلا سکی۔۔۔دروازے کے باہر کھڑے لوگ یہ منظر دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے۔۔۔
          " پلیزززز۔۔۔۔چھ چھوڑ دیں۔۔۔۔سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔"
          دلاور کو کسی طور بھی جب وہ پیچھے نہ ہٹا سکی تو سسکتے ہوئے بولی۔۔۔عائلہ کی بات سن کر دلاور نے ایک نظر سب لوگوں پہ ڈالی پھر فوراً عائلہ کو اپنے بازوؤں کے گھیرے سے آزاد کیا۔۔۔۔تو وہ منہ پہ ہاتھ رکھے آنسو بہاتی تیزی سے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔عینا بھی تیز تیز قدم اٹھاتی اسکے پیچھے اندر کی طرف بڑھی۔۔۔
          " کیا دیکھ رہے ہو تم سب۔۔۔۔منگ ہے یہ میری۔۔۔۔"
          دلاور باہر کھڑے لوگوں کی نظروں میں اپنے اور عائلہ کے لیے حقارت دیکھتے غصے سے بولا۔۔۔اسی وقت شاہ سائیں احتشام شاہ اور رشید احمد کے ساتھ کافی سارے لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔
          " تم۔۔۔۔تمہاری یہ جرأت۔۔۔۔ہاتھ کیسے لگایا تم نے اسے۔۔۔۔"
          صارم شاہ پہ نظر پڑتے ہی احتشام شاہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح دلاور پہ حملہ آور ہوا۔۔۔احتشام شاہ نے زوردار گھونسہ دلاور کے منہ پہ جڑا۔۔۔جس سے دلاور کا ہونٹ پھٹ گیا۔۔۔مگر بجائے احتشام پہ جوابی حملہ کرنے کے وہ آرام سے کھڑا رہا۔۔۔رشید احمد پریشان ہو کر دلاور کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔شاہ سائیں کے ساتھ آئے انکے آدمی تیزی سے آگے بڑھے اور صارم شاہ کو سہارا دے کر اٹھانے لگے۔۔۔
          " میں نے وعدہ کیا ہے عائلہ سے کہ اب کچھ نہیں کروں گا۔۔۔ورنہ خود پہ حملہ کرنے والے کو میں زندہ نہیں چھوڑتا۔۔۔"
          دلاور غصے سے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔شاہ سائیں نے ہاتھ اٹھا کر احتشام شاہ کو رکنے کا کہا تو وہ جزبز ہوتا بمشکل خود پہ ضبط کرتا پیچھے کو ہوگیا پھر صارم شاہ کو گلے لگائے اس کا منہ چومنے لگا۔۔۔۔
          " صارم تو ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
          احتشام شاہ سر سے لے کر پاؤں تک صارم شاہ کا جائزہ لیتے فکرمندی اور پریشانی سے بولا۔۔۔
          " ٹھیک ہوں بھائی۔۔۔فکر مت کریں۔۔۔اتنا کمزور نہیں ہے آپکا بھائی۔۔۔
          صارم شاہ بدقت مسکرا کر بولا۔۔۔
          " شاہ سائیں بس بہت ہوگیا۔۔۔۔میں اب یہ معاملہ پنچایت میں رکھوں گا۔۔۔اور مجھے امید ہے کہ آپ غیر جانبداری سے کام لیں گے۔۔۔"
          رشید احمد تلخی سے بولا۔۔۔۔


          " سیٹھ جی مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔"
          رضوانہ خاتون نے سیٹھ اکرام سے کہا جو ہال روم میں بیٹھے آج کا اخبار دیکھ رہے تھے۔۔۔۔فاطمہ ایمان کے ساتھ اسکی بوتیک پہ جا چکی تھی آج اس کا بوتیک پہ کام کا پہلا دن تھا۔۔۔فرحین بیگم بھی جانے کی تیاری کر رہی تھیں کہ رضوانہ خاتون کی بات سن کر اچنبھے سے انکی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
          " جی کہیے میں سن رہا ہوں۔۔۔"
          سیٹھ اکرام نے اخبار تہ کر کے ایک سائیڈ پہ رکھتے کہا۔۔۔
          " مجھے کہنا تھا کہ ہم لوگ یہاں سے اپنے گھر واپس شفٹ ہونا چاہتے ہیں۔۔۔اب جبکہ میں اور فاطمہ آپکے گھر میں ملازم نہیں رہے تو یوں کوراٹر میں رہنا مناسب نہیں۔۔۔
          آپ کے ہم پہ بہت احسان ہیں۔۔۔ان کے لیے میں ہمیشہ آپکی شکر گزار رہوں گی۔۔۔آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم۔۔۔۔۔"
          رضوانہ بوا نے ابھی اتنا کہا تھا کہ سیٹھ اکرام اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوتے انکے پاس آ کر بولے۔۔۔۔
          " میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔احسان تو آپ لوگوں کے ہیں ہم پہ بوا جی۔۔۔۔
          میرا دل ہرگز نہیں مانتا کہ آپ یہاں سے جائیں۔۔۔کچن کی ذمہ داری آپ سے لینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کے کام سے مطمیئن نہیں۔۔۔مجھے آپکا اور فاطمہ کا کچن میں کام کرنا پسند نہیں تھا۔۔۔
          مجھے آپ سے کچھ اور بھی ضروری بات کرنی ہے آپ پلیززز ادھر آ کر بیٹھیں۔۔۔۔اور میری بات سن لیں۔۔۔"
          سیٹھ اکرام نے ہال روم میں پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے کہا تو رضوانہ خاتون الجھتی ہوئی سیٹھ اکرام کے سامنے والے صوفہ پہ بیٹھ گئیں۔۔۔
          " بوا جی پہلی بات۔۔۔کہ آج کے بعد آپ مجھے سیٹھ اکرام نہیں بلکہ اکرام بھائی بولیں گی۔۔۔
          دوسری بات کہ میں اپنے بیٹے طلحہ کے لیے آپکی بیٹی فاطمہ کا ہاتھ آپ سے مانگنا چاہتا ہوں۔۔۔طلحہ کو آپ ملی ہیں اس کو جانتی ہیں۔۔۔میری بڑی خواہش تھی کہ میرے گھر میں کوئی ایسی لڑکی بہو بن کر آئے جو رشتوں کو جوڑ کر رکھنا جانتی ہو۔۔۔رشتوں کی قدر جانتی ہو۔۔۔اور فاطمہ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا۔۔۔۔"
          سیٹھ اکرام کی بات رضوانہ خاتون کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔۔۔انکے تصور میں بھی نہیں تھا کہ سیٹھ اکرام دل میں کوئی ایسی خواہش لیے بیٹھے ہیں۔۔۔
          " یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔۔۔میرے طلحہ کی شادی فاطمہ سے ہرگز نہیں ہوگی۔۔۔کس کس کا منہ بند کروں گی میں۔۔۔کس کس کو جواب دوں گی جب مجھ سے لوگ یہ پوچھیں گے کہ ایسا کیا ہوا جو گھر کی ملازمہ سے اتنے قابل بیٹے کی شادی کرنی پڑی۔۔۔ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔طلحہ کے لیے بہت اونچی فیملیز کے رشتے آئے ہوئے ہیں۔۔۔اور میں ان سے کہ چکی ہوں کہ ہم اس ہفتے گرینڈ پارٹی کر رہے ہیں جس میں ہم اناؤںس کریں گے کہ طلحہ کس سے شادی کرے گا۔۔۔ان سب فیمیلیز کو کیا جواب دوں گی میں جو آس لگائے بیٹھی ہیں۔۔۔۔"
          فرحین بیگم کی تو مانو روح فنا ہو گئ سیٹھ اکرام کی بات سن کر۔۔۔وہ انتہائی طیش کے عالم میں رضوانہ خاتون کی طرف دیکھتی چلا کر بولیں۔۔۔
          " بول چکی آپ ۔۔۔فلحال تو آپ اپنا منہ بند کر لیں تو یہی بہت ہے۔۔۔طلحہ سے میں بات کر چکا ہوں۔۔۔اسے میری پسند پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آج آ رہا ہے وہ۔۔۔تو آپکو پتہ چل جائے گا۔۔۔بچیوں کے معاملے میں آپ نے اپنی مرضی کی اور اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔۔۔اب بہتر ہوگا کہ آپ طلحہ اور قاسم کی شادی کے معاملے میں اپنی پسند اپنے تک رکھیں۔۔۔مجھے اپنے گھر کو جوڑ کر رکھنے والی اچھے اخلاق والی بہوئیں چاہیں فرحین بیگم۔۔۔چلتے پھرتے شو پیس نہیں۔۔۔"
          سیٹھ اکرام انتہائی درشتی سے فرحین بیگم سے بولے۔۔۔رضوانہ خاتون کے سامنے اس عزت افزائی پہ فرحین بیگم پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔۔۔
          " رضوانہ بہن پلیززز انکار مت کیجیے گا۔۔۔آپ چاہیں تو جتنا مرضی سوچنے کے لیے وقت لے لیں۔۔۔جیسے چاہیں طلحہ کو پرکھ لیں۔۔۔"
          سیٹھ اکرام نے رضوانہ خاتون سے لجاجت سے کہا۔۔۔رضوانہ خاتون گم صم سی بیٹھیں سوچ کر جواب دینے کا کہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔


          Comment


          • #75
            ارے سر جی آجاہو واپس آنکھیں ترس گئی ہیں

            Comment


            • #76
              Shero Sy ly kar akhir 49 ep tak prh li ha Kahani parho to time ka ahsas hi nae hota kis kis baat ka zikr karon mohni Bai ka ya neelam bai ya shah ki faislon ka ya unki begam ka Jo khoob surat andazy bian tha aur shohar ko support di wo kably sataish ha khas kr bacho ki tarbiat mein nafasat ka rahi aila aur aina ki family ki baat wo to phuchein mat Kahani mein naik logon ka milna aur naiki Ky kamo ka dars dena khoob delawar bhi achy dil ka malik sabit ab dekhein akhir muhabat ko kesy milae ga likhny ko konsi konsi baat na ki jae writer ki kawish ko buhat salam

              Comment


              • #77

                بہت ہی اعلیٰ کہانی ہے آج اک ہی نشست میں پڑھ ڈالی​

                Comment


                • #78
                  بہترین زبردست

                  Comment


                  • #79
                    Episode , 50 #

                    " یہ کیا کیا آپی آپ نے۔۔۔کیوں سرنڈر کیا خود کو آپ نے اس کے آگے۔۔۔آپ کو اندازہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔۔۔؟
                    عینا عائلہ کے پیچھے پیچھے روم میں آ کر غصے سے بولی۔۔۔عائلہ صوفے پہ اپنی دونوں ٹانگیں اوپر کیے انکے گرد اپنے دونوں ہاتھ باندھے گھٹنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی۔۔۔ عائلہ کو اس طرح سے بلکتے دیکھ کر عینا کے چٹختے اعصاب یکدم ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔
                    " آپی۔۔۔۔آپ کو دلاور کے سامنے ہار نہیں ماننی چاہیے تھی۔۔۔اس کے سامنے اس سے شادی کا اقرار کرکے آپ نے خود پہ سب دروازے بند کر دئیے ہیں۔۔۔اسکو مزید شہ دے دی ہے۔۔۔اور اب پتہ نہیں پنچایت میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔۔۔کیا کہتا ہے وہ۔۔۔"
                    عینا نے عائلہ کے پاس بیٹھتے افسردگی سے کہا۔۔۔
                    " تو کیا کرتی۔۔۔اسے دلاور کے ہاتھوں مرتے ہوئے دیکھتی رہتی کیا۔۔۔کیا تم دیکھ پا رہی تھی۔۔۔میری بربادی تہ ہے عینا۔۔۔تم یا کوئی اور چاہے کتنی کوشش کر لے ہوگا وہی جو ابا چاہیں گے۔۔۔دلاور چاہے گا۔۔۔
                    تم نے دیکھا کہ ابا کے خلاف جانے کا انجام کیا ہوا ہے۔۔۔پورے گاؤں میں ہم تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔۔۔پہلے ہم نے اجالا کو کھو دیا۔۔۔اور اب امی جان۔۔۔وہ بھی اب نہ زندوں میں رہی ہیں نہ مردوں میں۔۔۔
                    کتنا منع کیا تھا میں نے تمہیں کہ جو ہو رہا ہے ہونے دو۔۔۔ چپ کر جاؤ۔۔۔چپ رہو۔۔۔مگر نہ تم نے میری بات سنی نہ امی جان نے۔۔۔
                    اور وہ چھوٹے شاہ ان کو بھی کتنا منع کیا تھا میں نے۔۔۔بار بار سمجھایا۔۔۔دھتکارا۔۔۔اپنا رستہ بدلنے کو کہا۔۔۔مگر انھوں نے بھی میری ایک نہ سنی۔۔۔آج اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے تھے وہ۔۔۔ان کو بھی کیا ملا ابا کے خلاف جانے سے۔۔۔آج انکی ذات پہ بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔۔۔جنکے سامنے لوگوں کی نظریں نہیں اٹھتی تھیں آج وہ میری وجہ سے مجرم بن کر کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔۔۔آج ان سے بھی سوال جواب ہوں گے۔۔۔
                    عائلہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔۔۔
                    " دلاور اور ابا خدا نہیں ہیں آپی۔۔۔کہ جو یہ چاہیں گے وہی ہوگا۔۔۔اور سچی محبت ہمیشہ اپنے ہونے کا خراج مانگتی ہے۔۔۔کبھی ہمیں اپنی کسی رشتے کو کھونا پڑتا ہے۔۔۔ان سے دور ہونا پڑتا ہے ، کبھی اپنے سکھ چین کو کھونا پڑتا ہے ، اور کبھی کبھی تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔۔۔تب کہیں جا کر ہم محبت کی کسوٹی پہ پورے اترتے ہیں۔۔۔
                    اور آپکو کیا لگتا ہے کہ آپ دلاور سے نکاح کر لیں گی اور صارم بھیا زندہ رہیں گے۔۔۔وہ آج نہیں مرے تو تب ضرور مر جائیں گے۔۔۔یہ کیوں بھول گئیں آپ۔۔۔
                    میں ہار نہیں مانو گی۔۔۔پنچایت میں بھلے جو بھی فیصلہ ہو مگر میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔۔میں احتشام جی کو دلاور اور بابا کے سامنے لا کر کھڑا کروں گی۔۔۔میں دلاور کو جیتنے نہیں دوں گی۔۔۔اور آپکو ہارنے نہیں دوں۔۔۔یہ وعدہ ہے میرا آپ سے۔۔۔میں صارم بھیا کو مرنے نہیں دوں گی۔۔۔"
                    عینا نے اک عزم سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
                    " مطلب کیا ہے تمہارا۔۔۔کیا کرنا چاہتی ہو تم۔۔۔"
                    عائلہ سب بھول کر عینا کی طرف دیکھتے حیرانی اور پریشانی سے بولی۔۔۔
                    " فکر مت کریں۔۔۔کچھ غلط نہیں کروں گی۔۔۔بس یہ ہے کہ جو کام ماما کے ٹھیک ہونے کے بعد ہونا تھا وہ آج ہی ہوگا۔۔۔"
                    عینا نے سنسنی خیز لہجے میں کہا اور مسکرا کر باہر نکل گئ۔۔۔
                    " ماما۔۔۔پلیززز اٹھ جائیں۔۔۔ماما آپ مجھے سن رہی ہیں ناں۔۔۔پلیزززز ماما۔۔۔۔ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔۔۔عینا کو ایمن کو مجھے۔۔۔۔آپ کے یوں خاموش ہونے سے میں ہار گئ ہوں۔۔۔ماما آپکی بیٹی ہار گئ ہے۔۔۔مجھے دلاور سے شادی نہیں کرنی۔۔۔مگر اس سے شادی کر رہی ہوں۔۔۔ماما مجھے بچا لیں۔۔۔پلیززز ماما اٹھ جائیں۔۔۔ہمیں بچا لیں ماما۔۔۔
                    عینا نہ جانے کیا کرنے والی ہے۔۔۔میں اسے اور ایمن کو اکیلے نہیں سنبھال سکتی۔۔۔پلیززز ماما اٹھ جائیں۔۔۔
                    بابا نے آج چھوٹے شاہ جی کے خلاف پنچایت بلائی ہے ماما۔۔۔نہیں جانتی وہاں کیا فیصلہ ہوگا۔۔۔مگر یہ ضرور جانتی ہوں کہ وہ فیصلہ آپکی بیٹی کی خوشیاں کھا جائے گا۔۔۔ماما آپ سن رہی ہیں ناں۔۔۔پلیززز ماما اٹھ جائیں۔۔۔
                    اگر آپ ہوش میں ہوتیں تو شائد میں کبھی آپ سے نہ کہ پاتی۔۔۔ماما میں چھوٹے شاہ جی سے بہت پیار کرنے لگی ہوں۔۔۔میں نے خود کو بہت روکا۔۔۔اپنے دل کو بہت سمجھایا۔۔۔مگر میں چھوٹے شاہ جی کی محبت کے آگے ہار گئ۔۔۔اس سے پہلے کہ میں انکا ہاتھ تھامتی۔۔۔دلاور نے مجھے ایسے رستے پہ لا کھڑا کیا جہاں مجھے یا تو اس کی بات ماننی تھی یا چھوٹے شاہ جی کی جان بچانی تھی۔۔۔
                    اور آج انکی زندگی بچانے کے لیے میں دلاور کے آگے ہار گئ ماما۔۔۔۔
                    اگر میرا نکاح دلاور سے ہوگیا تو چھوٹے شاہ جی اپنی جان دے دیں گے۔۔۔اور میں جانتی ہوں ماما کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔۔۔پلیززز ماما اٹھ جائیں۔۔۔چھوٹے شاہ جی کو مرنے سے بچا لیں ماما۔۔۔۔اس وقت صرف آپ ہیں جو ہماری ڈھال بن سکتی ہیں۔۔۔ہمیں بچا سکتی ہیں۔۔۔پلیززز ماما اٹھ جائیں ناں۔۔۔"
                    عینا کے جاتے ہی عائلہ اپنا سر تھام کر بیٹھی رہ گئ۔۔۔عینا کی آنکھوں سے جھلکتے جنون و بے خوفی نے اسے پریشان کر دیا تھا۔۔۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر اپنی ماں کے بیڈ کے پاس آئی۔۔۔اور انکے پاس بیٹھ کر انکے چہرے پہ محبت سے نم آنکھوں سے ہاتھ پھیرتے پھیرتے یکدم اپنی ماں کے بے سدھ پڑے وجود سے لپٹ کر سسکنے لگی۔۔۔
                    مہرالنساء کے لاشعور میں اک طوفان بپا ہوا تھا۔۔۔اور انکے وجود میں غیر محسوس سی جنبش ہوئی تھی جس سے اپنے رونے کے وجہ سے عینا بے خبر رہی۔۔۔

                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                    آج گاؤں میں پھر سے پنچایت بیٹھی تھی۔۔۔یوں تو عرصہ دراز سے کسی نہ کسی بگڑے معاملے کو سلجھانے کے لیے پنچایت لگتی تھی جو کہ حویلی میں ہی بلائی جاتی تھی۔۔۔ مگر آج کی پنچایت کسی اور کا فیصلہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ شاہ سائیں کے بیٹوں کے خلاف رشید احمد کی طرف سے بلائی گئ تھی۔۔۔اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ شاہ سائیں کے گھرانے کے خلاف کسی نے شکایت لگائی ہو۔۔۔شاہ سائیں کو ملا کر پنچایت کے کل چار ممبران تھے جو صلاح مشورہ کے بعد فیصلہ کرتے۔۔۔شاہ سائیں تینوں ممبران سے انکی رائے جان کر اپنا فیصلہ سناتے۔۔۔اور شاہ سائیں کے فیصلے کو سب قبول کرتے۔۔۔
                    آج پنچایت میں لوگوں کا اک جم غفیر موجود تھا۔۔۔نہ صرف اس گاؤں کے بلکہ آس پاس کے گاؤں کے اور جہاں جہاں تک یہ خبر پہنچی تھی کہ شاہ سائیں کے بیٹوں کے خلاف کسی نے شکایت کی ہے تو یہ جاننے کے لیے کہ اب شاہ سائیں کیا کرتے ہیں لوگوں کا ایک سمندر تھا جو پنڈال میں جمع تھا۔۔۔اور بہت سے لوگ ابھی آ رہے تھے۔۔۔پنڈال میں موجود سب لوگ آپس میں چہمگوئیاں کر رہے تھے۔۔۔لوگوں کی کثیر تعداد شاہ سائیں اور انکے گھرانے کی تعریف کے ساتھ رشید احمد پہ لعن طعن بھی کر رہے تھے۔۔۔انکی نظر میں رشید احمد کو چاہیے تھا کہ اپنی بیٹیوں کا لگام ڈالتا۔۔۔شاہ سائیں کے بیٹوں کے خلاف پنچایت بلا کر اس نے غلطی کی تھی۔۔۔
                    " دینے پورے گاؤں میں اعلان کروا دو کہ آج پنچایت پنڈال کی بجائے لڑکوں کے سکول کے میدان میں لگے گی۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی اس میں شامل ہو اور یہ جان لے کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔۔۔اور نہ کسی کو کسی بھی وجہ سے کوئی رعایت ملے گی۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ یہ پنچایت حویلی میں لگے اور کسی کے بھی دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ میں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔۔۔یہ پنچایت کھلے میں لگے گی اور سب کے سامنے لگے گی۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے بارعب لہجے میں دین محمد کو حکم دیتے کہا۔۔۔
                    " جی سائیں۔۔۔میں ابھی اعلان کروا دیتا ہوں۔۔۔۔"
                    دین محمد نے فرمانبرداری سے کہا۔۔۔اور باہر نکل گیا۔۔۔
                    " شاہ۔۔۔۔آپ ساری حقیقت سے آگاہ ہیں۔۔۔ہمارے بیٹوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جس کی انکو سزا دی جائے۔۔۔یا انکے خلاف پنچایت بلائی جاتی۔۔۔
                    پنچایت تو ہمیں بلانی چاہیے تھی۔۔۔بلکہ اس دلاور اور رشید احمد کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کروانی چاہیے تھی صارم بیٹے پہ قاتلانہ حملے کی۔۔۔
                    ہم سے معافی مانگنے کی بجائے الٹا ہمارے خلاف پنچایت بلا لی۔۔۔"
                    اس وقت سب لوگ باہر داخلی ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔احتشام شاہ کو شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون نے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر خاموش کروایا تھا۔۔۔مگر جب جب وہ صارم شاہ کی طرف دیکھتا اس کا خون ابال کھانے لگتا۔۔۔انتہائی تحمل مزاج ہونے کے باوجود اسے خود پہ ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ہائمہ خاتون بھی صارم شاہ کی حالت دیکھ کر سخت رنجیدہ ہوتے بولیں۔۔۔
                    " ماما بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں بابا سائیں۔۔۔میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں دلاور کو روکنا ہوگا۔۔۔ہماری خاموشی ، ہماری شرافت ، اور ہماری اصول پسندی کو لوگ ہماری کمزوری سمجھنے لگے ہیں۔۔۔مجھے تو اس بات پہ بھی افسوس ہورہا ہے کہ وہاں کھڑے لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی آگے بڑھ کر اس دلاور کو روکنے کی جرأت نہیں ہوئی۔۔۔یہ محبت ہے ان لوگوں کی ہم سے۔۔۔"
                    احتشام شاہ نے انتہائی تلخی اور غصے سے کہا۔۔۔
                    " جب غلطی اپنی ہو تو دوسروں پہ انگلی نہیں اٹھاتےاحتشام شاہ۔۔۔ایک باپ ہونے کے ناتے صارم کے لیے مجھے بھی بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔مگر ہائم جو کچھ پچھلی بار ہوا اس کے بعد سمجھداری کا تقاضہ یہی تھا کہ آپکو صارم کو انکے گھر نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔۔۔اور نہ صارم شاہ کو جانا چاہیے تھا۔۔۔آپ وہ سوغات کسی بھی ملازم کے ہاتھ بھجوا دیتیں۔۔۔اور دوسرا اگر صارم شاہ چلا ہی گیا تھا تو جب پتہ تھا کہ گھر پہ ان کا باپ موجود نہیں ہے اور ماں کا ہونا نہ ہونا ایک برابر اور بچیاں گھر پہ اکیلی ہیں تو اسے گھر کے اندر نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔
                    تیسری بات کہ اگر دلاور وہاں آ پہنچا تھا تو صارم کو اس سے الجھنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔یہ ان کے گھر میں کھڑا تھا۔۔۔وہ اس کے گھر نہیں آیا تھا۔۔۔
                    یہ سوال ہر کوئی کر سکتا ہے کہ یہ انکے گھر کے اندر کیا کر رہا تھا۔۔۔
                    ان بچیوں کے بارے میں جو بھی باتیں ہو رہیں اور اب جو ہوا اس میں سارا قصور آپ لوگوں کا ہے صارم شاہ کا ہے۔۔۔۔اور مجھ سے پنچایت میں کسی بھی قسم کی رعایت کی امید مت رکھنا۔۔۔اپنا دفاع اپنی لڑائی تمہیں خود لڑنی ہوگی۔۔۔کاش کہ تم لوگ میری بات سمجھ جاتے۔۔۔میں نے اسی دن کے ڈر سے تم لوگوں کو منع کیا تھا کہ رشید احمد کے گھر تم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔۔۔"
                    شاہ سائیں افسوس سے کبھی ہائمہ خاتون اور کبھی اپنے بیٹوں کی طرف دیکھ کر بولے۔۔۔
                    " اب کیا ہوگا شاہ۔۔۔کیا آپ صارم بیٹے کو گاؤں سے نکال دیں گے۔۔۔"
                    ہائمہ خاتون پریشانی سے بولیں۔۔۔
                    " امید ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں اب یہ کوئی ایسا اتنا بڑا معاملہ بھی نہیں ہے۔۔۔ممکن ہے رشید احمد کچھ شرائط رکھے اور اسکی بات ہمیں ماننی ہوگی۔۔۔یہ بھی ممکن ہے کہ گاؤں کے لوگ اس کا ساتھ نہ دیں اور اس بات کے زیادہ چانسز ہیں۔۔۔اب یہ پنچایت میں جا کر ہی پتہ چلے گا وہ کیا کہتا ہے۔۔۔
                    اور جہاں تک گاؤں کے لوگوں کے خاموش ہو کر کھڑے رہنے کی بات ہے تو بیٹا جی جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔۔۔گولی کے منہ کے آگے کون آتا ہے۔۔۔اور بہت بہتر ہوا کہ کوئی اور بیچ میں نہیں کودا۔۔۔اگر ایسا ہو جاتا تو معاملہ بہت بگڑ جاتا۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد دین محمد نے آکر کہا کہ سب لوگ پنچایت میں ان کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔تو شاہ سائیں اپنے بیٹوں کے ساتھ پنچایت میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ہائمہ خاتون بھی اٹھ کر سر پہ اچھے سے دوپٹہ لپیٹ کر اپنے شوہر اور بیٹوں کے ارد گرد دعا پڑھ کر اس کا حصار کھینچنے لگیں۔۔۔احتشام شاہ اور صارم شاہ اپنی ماں کی دعائیں لے کر اپنے باپ کے ساتھ باہر نکل گئے۔۔۔

                    " شاہ سائیں کے پنچایت میں پہنچتے ہی وہاں ہر طرف خاموشی چھا گئ۔۔۔شاہ سائیں نے اپنی لیے رکھی گئ مخصوص نشست کے پاس کھڑے ہو کر سب لوگوں پر ایک نظر ڈالی۔۔۔پھر اپنا کلہ اتار کر ایک سائیڈ پہ رکھ دیا۔۔۔
                    " شاہ سائیں یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔"
                    پنچایت کے ممبر حیران ہوکر بولے۔۔۔
                    " جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ پنچایت کا اصول ہے کہ اگر شکایت پنچوں میں سے کسی کے خلاف ہوگی یا انکے گھر کا کوئی فرد اس میں انوالو ہوگا تو وہ اس پنچ کا ممبر بن کر فیصلہ نہیں کرے۔۔۔چونکہ یہ پنچایت میرے بیٹوں کے خلاف بلائی گئ ہے تو اس لحاظ سے یہ اصول مجھ پہ بھی لوگو ہوتا ہے۔۔۔اس لیے میں اس پنچایت سے وقتی طور پہ دستبردار ہوتا ہوں۔۔۔اب اس پنچایت کا فیصلہ باقی ممبران کریں گے۔۔۔اور ان کا ہر فیصلہ نہ صرف مجھے بلکہ میرے بیٹوں کو بھی قبول ہوگا۔۔۔"
                    شاہ سائیں نے با آواز بلند رعب دارانہ لہجے میں کہا۔۔۔شاہ سائیں کی بات سن کر سب حیران رہ گئے سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ان کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔سب لوگوں کو ان پہ بھروسہ ہے کہ وہ کوئی ناانصافی نہیں کریں گے۔۔۔مگر شاہ سائیں نے سب کی بات رد کردی کہ اصول و قوانین سب کے لیے ایک جیسے ہیں اور یہی اس پنچایت کی ریت رہی ہے۔۔۔گاؤں کے سب لوگ انتہائی غصے سے ایک سائیڈ پہ کھڑے رشید احمد اور دلاور کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔شاہ سائیں کی بات سن کر جہاں لوگوں میں رشید احمد اور دلاور کے لیے غصہ پیدا ہوا وہیں دلاور اور بلال کے دل میں شاہ سائیں کے لیے غیر محسوس سا احترام بھی پیدا ہوگیا۔۔۔انھوں نے اپنی پوری زندگی میں آج تک ایسا شخص نہیں دیکھا تھا جو ہر طرح کا اختیار رکھنے کے باوجود اس قدر انصاف پسند اور ایماندار ہو۔۔۔
                    " بولو رشید احمد کیا کہنا ہے تمہیں۔۔۔"
                    شاہ سائیں کے دوٹوک انکار کرنے پر باقی پنچوں نے رشید احمد کو پہلے بولنے کا موقع دیتے کہا۔۔۔
                    " مجھے شاہ سائیں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔۔۔میں دل سے ان کا احترام کرتا ہوں۔۔۔مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت مجبور ہوکر مجھے آج یہ معاملہ پنچایت میں رکھنا پڑا ہے۔۔۔
                    کچھ ماہ پہلے میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ دلاور احمد سے تہ کردیا تھا۔۔۔بلکہ نکاح کی بات تہ پائی تھی۔۔۔کہ میری بیٹی اسی دوران الّٰلہ کو پیاری ہوگئ۔۔۔اور یہ نکاح نہ ہوسکا۔۔۔شاہ سائیں کا چھوٹا بیٹا صارم شاہ مسلسل میری بیٹی کو ورغلا رہا ہے کہ وہ اس شادی سے اس نکاح سے انکار کردے۔۔۔میں نے یہ بات شاہ سائیں سے پہلے بھی کی تھی کہ وہ اہنے بیٹوں کو سمجھائیں اور میری بیٹیوں سے اور میرے گھر سے انھیں دور رکھیں۔۔۔
                    مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میری بات کو سنا ان سنا کیا گیا۔۔۔انکے بیٹے کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر پا رہا۔۔۔
                    کل جو کچھ ہوا وہ بے شک نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔مگر آپ خود سوچیں کہ کوئی بھی غیرت مند آدمی یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ کوئی غیر مرد اسکی ہونے والی بیوی کو بہکانے اور ورغلانے کی نہ صرف کوشش کرے بلکہ زبردستی گھر میں گھس آئے۔۔۔
                    دلاور نے بھی جب یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔صارم شاہ نے بجائے اپنی غلطی ماننے کے دلاور کو دھمکانا شروع کردیا جس پہ دلاور اور صارم شاہ کے درمیان بات ہاتھا پائی تک آ گئ۔۔۔
                    میں آپ سب پنچوں سے اور یہاں بیٹھے ہر شخص سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر انکی غیر موجودگی میں کوئی غیر مرد اگر انکے گھر میں گھس کر انکی بیٹی کو ورغلانے کی کوشش کرے تو کیا وہ برداشت کریں گے۔۔۔چلیں ورغلانا تو دور اگر گھر کے مرد کی غیر موجودگی میں کوئی بھی غیر مرد انکے گھر کی دہلیز پار کرے تو کیا آپ میں سے کوئی یہ برداشت کرے گا۔۔۔بولیے جواب دیجیے۔۔۔"
                    رشید احمد کی بات سن کر وہاں بیٹھے ہر شخص کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔۔شاہ سائیں سر جھکائے بیٹھے رشید احمد کی بات سنتے رہے جبکہ احتشام شاہ اور صارم شاہ کا اپنے باپ کا ننگا جھکا سر دیکھ کر دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔۔۔
                    " بولو جواب دو میری بات کا۔۔۔"
                    رشید احمد نے سب کو چپ دیکھ کر دوبارہ کہا۔۔۔
                    " رشید احمد نے جو کچھ بھی کہا۔۔۔جو الزام لگایا اس بارے میں تم کیا کہتے ہو صارم شاہ۔۔۔"
                    تینوں پنچوں نے اب صارم شاہ سے پوچھا۔۔۔
                    " میں رشید احمد کے خود پہ لگائے گئے ہر الزام کی تردید کرتا ہوں۔۔۔نہ صرف میرے گھر سے بلکہ میرے گھر کے ہر فرد سے سارا گاؤں بہت اچھے سے واقف ہے۔۔۔ہم لوگ اس گاؤں کی جان مال عزت کے محافظ ہیں۔۔۔یہاں بیٹھا کوئی ایک شخص بھی اگر یہ کہ دے کہ اس نے کبھی بھی ہمارے کردار میں یا ہمارے کسی عمل میں جھول پایا ہو تو بے شک ہمارا سر قلم کردیا جائے۔۔۔
                    رشید احمد اپنی بیٹی کا نکاح نہیں کر رہا اس دلاور سے۔۔۔بلکہ اپنی بیٹی کو 20 لاکھ کے عوض بیچ رہا ہے۔۔۔رشید احمد کی بیٹی اور ہماری بہن آپس میں گہری سہیلیاں ہیں۔۔۔جب اس بات کا پتہ چلا کہ رشید احمد اپنی بیٹی کا نکاح جوئے میں ہاری رقم کے بدلے میں کر رہا ہے تو انکی والدہ نے ہم سے مدد کے لیے کہا اور یہ بھی کہا کہ انکی بیٹی دلاور کے ساتھ اس رشتے پہ خوش نہیں ہے۔۔۔بابا سائیں نے رشید احمد کو ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔مگر رشید احمد اپنی بات پہ قائم رہا۔۔۔اپنی بہن کی دوست اور اس گاؤں کی عزت ہونے کے ناطے ہم نے یہاں تک کہا کہ رشید احمد کی طرف سے 20 لاکھ کی رقم ہم ادا کر دیتے ہیں مگر یہ تب بھی نہیں مانا۔۔۔رشید احمد کی بیوی بھی اس رشتے کے سخت خلاف تھیں۔۔۔دلاور نے جب دیکھا کہ نہ صرف رشید احمد کی بیوی نے بلکہ اس کی بیٹی نے بھی اس رشتے سے انکار کردیا ہے تو یہ زور زبردستی پہ اتر آیا اور گن پوائنٹ پہ رشید احمد کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا۔۔۔ہم نے روکنے کی کوشش کی تو یہ شخص غنڈہ گردی پہ اتر آیا۔۔۔یہ سب دیکھ کر رشید احمد کی بیوی جو کہ ہارٹ کی پیشنٹ ہیں برداشت نہ کرسکیں اور کومہ میں چلی گئیں۔۔۔
                    نہ صرف اس گاؤں کی بلکہ دنیا کی ہر عورت ہر لڑکی ہمارے لیے بلکل ویسے ہی محترم اور قابل عزت ہیں جیسا کہ ہمارے لیے ہمارے اپنے گھر کی خواتین ہیں۔۔۔ہم اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کسی عورت کو ورغلانا تو دور اس کی طرف میلی نظر سے بھی دیکھیں۔۔۔اور یہاں بیٹھا ہر شخص یہ بات باخوبی جانتا ہے کہ میں جو کہ رہا ہوں وہ حرف با حرف سچ ہے۔۔۔رشید احمد نے اس قسم کا الزام ہم پہ لگا کر نہ صرف ہمیں رسوا کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنی بیٹیوں کی عزت کو بھی پنچایت میں لا کر اچھالا ہے۔۔۔
                    میں کسی غلط نیت سے یا کسی غلط ارادے سے یا رشید احمد کی بیٹی کو ورغلانے کی نیت سے انکے گھر نہیں گیا تھا بلکہ کچھ سوغات دینے گیا تھا جو کہ اماں سائیں نے انکے لیے بھجوائی تھیں مگر دلاور نے بنا کچھ سنے مجھ پہ حملہ کردیا۔۔۔"
                    صارم شاہ نے انتہائی سنجیدگی اور سمجھداری سے ساری بات پنچایت کے سامنے رکھی کہ جس سے عائلہ اور عینا کے خلاف کسی کو بھی مزید زہر افشانی کرنے کا موقع نہ ملے۔۔۔اور نہ انکا کہیں بھی نام ہی آئے۔۔۔اور نہ انکے کردار پہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔۔۔
                    " رشید احمد صارم شاہ کیا سچ کہ رہا ہے کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح جوئے میں ہاری رقم کے عوض کر رہے ہو۔۔۔"
                    پنچوں میں سے ایک نے سوال کیا۔۔۔
                    " یہ جھوٹ ہے۔۔۔میں نے باقاعدہ رشتہ تہ کیا ہے۔۔۔اور دلاور رسم و رواج کے مطابق میری بیٹی کو بیاہ کر لے جائے گا۔۔۔اصل میں صارم شاہ خود میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا شاہ سائیں نے جب مجھ سے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا تو اس وقت تک میں دلاور کو زبان دے چکا تھا۔۔۔اس لیے میں نے انکار کر دیا۔۔۔اور میرے اسی انکار کو صارم شاہ نے اپنی انا کا مسلہ بنا لیا۔۔۔"
                    رشید احمد نے نے تلخی سے کہا۔۔۔
                    " صارم شاہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے تمہارے پاس کوئی گواہ کوئی ثبوت ہے کیا۔۔۔"
                    پنچوں نے صارم شاہ سے سوال کیا۔۔۔
                    " الّٰلہ کے بعد میرا ثبوت اور میرا گواہ صرف رشید احمد کی بیوی خالہ مہرالنساء تھیں مگر افسوس کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔۔۔مگر اپنی بات پہ میں اب بھی قائم ہوں۔۔۔"
                    صارم شاہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔
                    " دلاور تم کیا کہتے ہو۔۔۔کیا تم صارم شاہ کو غلط ثابت کر سکتے ہو۔۔۔"
                    پنچوں نے اب خاموش کھڑے دلاور سے سوال کیا۔۔۔
                    " بلکل میں کر سکتا ہوں۔۔۔یہ جھوٹ ہے کہ میں اپنی رقم کے عوض رشید احمد کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔اور اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے میں حلف اٹھانے کو بھی تیار ہوں۔۔۔
                    میں الّٰلہ اور اسکے نبی ص کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں رشید احمد کی بیٹی سے دل سے نکاح کا خواہش مند ہوں۔۔۔اور 20 لاکھ کیا 20 کروڑ بھی ہوتے تو میں پرواہ نہ کرتا۔۔۔"
                    دلاور نے سر اٹھا کر با آواز بلند بارعب لہجے میں کہا۔۔۔صارم شاہ اور احتشام شاہ نے حیران ہوکر دلاور کی طرف دیکھا۔۔۔جسے وہ رقم کا معاملہ سمجھ رہے تھے وہ تو دل کا معاملہ نکلا تھا۔۔۔انھیں اب سمجھ آئی تھی کہ دلاور انکی اتنی بڑی پیشکش کیوں ٹھکرا رہا تھا۔۔۔دلاور نے دونوں کو اپنی طرف حیران نظروں سے تکتے پایا تو ایک جاندار مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔
                    " دونوں طرف کی بات سن کر ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ اگر رشید احمد کو صارم شاہ یا کسی بھی اور شخص کے اپنے گھر پہ آنے پہ اعتراض ہے تو وہ اس بارے بلکل حق بجانب ہے۔۔۔وہ جسے چاہے آنے دے اور جسے چاہے نہ آنے دے۔۔۔
                    ماں باپ کو پورا پورا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے جو چاہیں فیصلہ کریں جہاں چاہیں انکی شادی کریں۔۔۔کسی دوسرے شخص کو اس میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوتا۔۔۔
                    رشید احمد نے جو کہا اور صارم شاہ نے جو کہا اس کے بعد رشید احمد کی گھر والی کی گواہی یہاں پہ سب سے زیادہ اہم تھی۔۔۔مگر اس کے ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اب رشید احمد ہی ان بچیوں کا سر پرست اعلیٰ ہے۔۔۔اور صرف اسی کی بات مقدم سمجھی جائے گی۔۔۔
                    یہ پنچایت حکم دیتی ہے کہ آج کے بعد شاہ سائیں کے گھر کا کوئی بھی فرد رشید احمد نہ تو گھر جائے گا نہ ان کی گلی میں بھی قدم رکھے گا۔۔۔
                    اور نہ اس کے کسی بھی معاملے میں دخل اندازی ہی کرے گا۔۔۔رشید احمد کی بیٹیوں کی شادی وہیں ہو گی جہاں اور جس سے رشید احمد چاہے گا۔۔۔
                    یہ پنچایت یہ بھی حکم دیتی ہے کہ اگر آج کے بعد دلاور اس گاؤں میں اسلحے سمیت داخل ہوا یا گاؤں کے کسی شخص کو مارا پیٹا تو اسے اس بات کے سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔۔۔
                    اور جس نے بھی پنچایت کے حکم کے خلاف جانے کی کوشش کی یہ پنچایت اسے سخت سے سخت سزا دینے میں حق بجانب ہوگی۔۔۔
                    اگر دونوں پارٹیوں میں سے کسی کو کچھ کہنا ہے یا پنچایت کے فیصلے پہ اعتراض ہے تو وہ ابھی کہ سکتا ہے۔۔۔"
                    صارم شاہ اور رشید احمد کی بات سن کر تینوں پنچوں نے کچھ دیر کے صلاح مشورے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا تو صارم شاہ کو لگا کہ کسی نے اسکی موت کے پروانے پہ دستخط کردئیے ہوں۔۔۔جیسے ساری دنیا اس کے اور عائلہ کے بیچ میں آ کھڑی ہوئی ہو۔۔۔اس تک پہنچنے کے ہر راستے کو جیسے بند کردیا گیا ہو کہ چاہ کر بھی اب وہ کبھی اس تک نہیں پہنچ پائے گا۔۔۔پنچایت کے فیصلے پہ جہاں صارم شاہ بے چین ہوا تھا۔۔۔وہیں احتشام شاہ کے دل میں بھی جھکڑ چلنے لگے تھے۔۔۔
                    آج اگر مہرالنساء ہوش میں ہوتیں تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔۔۔عینا کو لے کر اس کی آنکھوں نے بھی ان گنت خواب بن لیے تھے۔۔۔مگر وہ سب خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی اس کی آنکھوں سے بھی نوچ لیے گئے تھے۔۔۔عینا سے شادی تو دور کی بات اب وہ عینا سے مل بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔
                    اور یہ ناممکن تھا کہ رشید احمد عینا سے اسکے رشتے کے لیے مان جاتا۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                    " دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔۔۔مسز ہاشمی کو یہ کونسے ڈریسز بھجوائے ہیں تم نے۔۔۔"
                    فرحین بیگم ایمان کی بوتیک پہ آ کر فاطمہ کے سامنے چند ڈریسز پھینکتے انتہائی درشت لہجے میں غصے سے بولیں۔۔۔وہاں موجود سب ورکرز اپنا کام چھوڑ کر حیران ہو کر انکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔جبکہ فاطمہ سب کے سامنے اس قدر انسلٹ پہ مارے شرمندگی کے سرخ چہرہ لیے ہونٹ بھینچ کر رہ گئ۔۔۔
                    " ماما کیا ہوگیا ہے۔۔۔کیوں اس قدر ہائپر ہو رہی ہیں۔۔۔کیا کیا ہے فاطمہ نے۔۔۔"؟
                    شور کی آواز سن کر ایمان اپنے آفس روم سے جلدی سے باہر آ کر حیرانی سے بولی۔۔۔
                    " یہ مجھ سے نہیں اس مہارانی سے پوچھو جسکو تم نے سپروائزر بنا کر یہاں بٹھا دیا ہے۔۔۔مسز ہاشمی نے جو آرڈر دیا تھا اس آرڈر کی بجائے اس نے یہ نائٹیز بھجوا دیں انکو۔۔۔اور وہ مجھ پہ بگڑ رہیں تھیں کہ یہ کیسا مزاق ہے اب انکی عمر ہے کیا ایسے ڈریسز پہننے کی۔۔۔حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی بھی۔۔۔
                    اس سے کہیں بہتر ویل ایجو کیٹڈ اور تجربے کار لڑکیاں اس سیٹ کے لیے تمہیں مل سکتیں تھیں۔۔۔مگر تم نے۔۔۔۔۔۔"
                    فرحین بیگم غصے سے کھا جانے والی نظروں سے فاطمہ کی طرف دیکھتے بولیں۔۔۔دیکھا جاتا تو اس معاملے کو وہ بہت خوش اسلوبی سے خود بھی حل کر سکتی تھیں مگر اکرام صاحب کی بات سن کر وہ اپنا آپا کھو بیٹھی تھیں۔۔۔
                    " اوہ۔۔۔پلیززز ڈونٹ وری ماما۔۔۔مسز ہاشمی سے میں خود بات کر لوں گی اور ان سے معزرت بھی کر لوں گی۔۔۔آپ ادھر آئیں میرے روم میں چل کر بیٹھیں۔۔۔میں یہ ابھی ٹھیک کروا دیتی ہوں۔۔۔
                    اور فاطمہ آپ پلیزز مسز ہاشمی کے آرڈر کو اگین چیک کریں اور جو ڈریسز انھوں نے کہے تھے وہ انکو بھجوانے سے پہلے پلیززز ایک بار مجھے دکھا لیجیے گا۔۔۔"
                    ایمان جلدی سے اپنی والدہ کی بات کاٹ کر بولی۔۔۔اور انکو تسلی دینے کے ساتھ فاطمہ کو نرم لہجے میں کہ کر اپنی والدہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے روم کی طرف بڑھی۔۔۔فاطمہ نے نم آنکھوں سے ایمان سے کچھ کہنا چاہا مگر ایمان اسے فلحال خاموش رہنے کا اشارہ کر کے چلی گئ۔۔۔
                    " یہ سب کیا ہے ماما۔۔۔آپ اس طرح سے مس بہیو کیسے کر سکتی ہیں فاطمہ کے ساتھ۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ اس قدر ہائیپر ہونے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ماما ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔۔۔اکثر کام کی زیادتی میں بعض اوقات آرڈر ادھر کے ادھر ہوجاتے ہیں مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ آپ اس طرح سے سب کے سامنے فاطمہ کی انسلٹ کرتیں۔۔۔اور پلیززز ماما میری آپ سے ریکویسٹ ہے کہ نیکسٹ ٹائم کوئی بھی مسلہ ہو تو آپ پلیز مجھ سے کہیں گی۔۔۔میں خود ہی سب ہینڈل کر لوں گی۔۔۔"
                    اپنے آفس روم میں آتے ہی ایمان نے اپنی والدہ کو چئیر پہ بٹھایا پھر پانی گلاس میں ڈال کر انکی طرف بڑھایا کہ وہ کچھ ریلیکس فیل کریں۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ نارمل ہوئیں تو ایمان نے بہت نرمی سے اپنی والدہ سے کہا۔۔۔
                    " یہ میرا ریزائن ہے۔۔۔پلیزززز مجھے معاف کردیں میں اب مزید یہاں کام نہیں کرسکتی۔۔۔اور دوسری بات کہ مسز ہاشمی کے آرڈر کا تو مجھے علم بھی نہیں نہ میں نے بھجوانے کا کہا۔۔۔میں نے تو آج ہی جوائن کیا ہے۔۔۔مجھ پہ غصہ اتارنے سے پہلے آپکو زویا میم سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔۔۔کیونکہ انھوں نے ہی کل سارے آرڈرز فائنل کیے تھے۔۔۔"
                    کچھ دیر بعد فاطمہ ایمان کے روم داخل ہوئی اور ریزیگنیشن لیٹر ایمان کے سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بھاری لہجے میں بولی۔۔۔ایمان نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا سوجی ہوئی آنکھیں اس کے رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔۔
                    " فاطمہ پلیززز۔۔۔ماما کی طرف سے میں سوری کرتی ہوں ماما کچھ ڈپریس ہیں بس اسی وجہ سے سارا غصہ تم پہ اتار گئیں۔۔۔نیکسٹ ٹائم ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔پلیززز۔۔۔"
                    فاطمہ کی بات سن کر ایمان کو سخت شرمندگی ہوئی۔۔۔جبکہ فرحین بیگم سر جھٹک کر یونہی چہرے پہ تلخ تاثرات لیے سنی ان سنی کیے بیٹھی رہیں۔۔۔
                    ایمان کے اپنایت بھرے لہجے کے آگے فاطمہ اور رضوانہ خاتون ہمیشہ ہار جاتیں تھیں۔۔۔اب بھی فاطمہ ایک گہرا سانس بھرتے اثبات میں سر ہلا کر واپس مڑ گئ۔۔۔
                    " ماما بات کیا ہے۔۔۔کیا آپ کا اور بابا کا پھر جھگڑا ہوا ہے۔۔۔اب کیا بات ہوئی ہے۔۔۔"
                    فرحین بیگم کے چہرے پہ یونہی تناؤ دیکھ کر اب کے ایمان انکے پاس بیٹھتی ان کا یاتھ پکڑ کر محبت سے بولی۔۔۔
                    " میں اس لڑکی کو اپنی بہو کبھی نہیں بناؤں گی۔۔۔میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔۔۔میرا ایک سٹیٹس ہے ایک مقام ہے اس معاشرے میں۔۔۔ایک نوکرانی کی بیٹی کو بہو بنا کر کیا عزت رہ جائے گی میری۔۔۔کس کس کو جواب دوں گی میں۔۔۔میری سب جاننے والی ہنسیں گی مجھ پر کہ اتنے اچھے رشتے ٹھکرا کر چنا بھی تو ایک نوکرانی کو۔۔۔نہیں۔۔۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔"
                    فرحین بیگم ہزیانی لہجے میں بولیں۔۔۔
                    " آپ کس کی بات کر رہی ہیں۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔"
                    ایمان حیرانی سے بولی۔۔۔
                    " اسی فاطمہ کی۔۔۔جسے تم نے میرے سر پہ لا کے بٹھا دیا ہے۔۔۔تمہارے بابا نے طلحہ کے لیے فاطمہ کو چنا ہے۔۔۔اور صرف چنا نہیں۔۔۔بلکہ رضوانہ بوا سے اور طلحہ سے بات بھی کر چکے ہیں۔۔۔"
                    فرحین بیگم کاٹ کھانے والے لہجے میں گویا ہوئیں۔۔۔
                    " کیا سچ۔۔۔ماما کیا برائی ہے فاطمہ میں۔۔۔خوبصورت ہے ، باکردار اچھے اخلاق کی مالک ہے۔۔۔پڑھی لکھی ہے۔۔۔ ماما غریب ہونا کوئی جرم نہیں ہوتا کہ جس کی پاداش میں ہم کسی کو ٹھکرا دیں۔۔۔آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں گی تو آپ کو بہت سی خوبیاں نظر آئیں گی اس میں۔۔۔"
                    ایمان اپنی والدہ کی بات سن کر بہت خوش ہوئی۔۔۔مگر انکے غصے کی وجہ سے اپنی خوشی کا کھل کر اظہار نہ کر پائی۔۔۔اپنی بے پناہ خوشی چھپاتے وہ فرحین بیگم کا فاطمہ کی طرف سے ذہن صاف کرنے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔
                    " مجھے اسکی اچھائیوں کا اچار نہیں ڈالنا۔۔۔سمجھی تم۔۔۔میں بھی کس سے کہ رہی ہوں۔۔۔اپنے باپ کی ہر جائز ناجائز بات پہ آمین کہنے کی عادت ہے تمہیں۔۔۔
                    میں طلحہ سے بات کرتی ہوں۔۔۔اب وہی ہے جو اپنے باپ کا فیصلہ بدل سکتا ہے۔۔۔"
                    فرحین بیگم غصے سے بولیں اور طلحہ کو کال ملانے لگیں۔۔۔ایمان افسوس سے اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔لوگ دعا کرتے ہیں کہ الّٰلہ انکو فرمانبردار اولاد دے۔۔۔اور اسکی ماں اس کی اس بات کو اس کی خامی سمجھتی تھیں۔۔۔
                    " ہاں کدھر ہو تم۔۔۔۔ٹھیک ہے جلدی پہنچو۔۔۔اور گھر جانے کی بجائے سیدھے میری بوتیک پہ آ جانا۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔۔تم ادھر آ رہے ہو سنا تم نے۔۔۔میں ویٹ کر رہی ہوں تمہارا۔۔۔"
                    فرحین بیگم نے طلحہ سے بات کرنے کے بعد کال کاٹی اور بے چینی سے اسکے آنے کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔جبکہ ایمان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔۔۔"

                    " تت۔۔۔تم۔۔۔۔میرا مطلب آپ۔۔۔۔آپ اندر کیسے آئے۔۔۔"
                    مہدیہ نہا کر باہر نکل تو اسے زوردار جھٹکا لگا۔۔۔سامنے چئیر پہ ٹانگیں پھیلائے قاسم بڑے ہرسکوں انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔دوپٹے سے بے نیاز گیلے جسم کی حشر سامانیوں نے قاسم کو مبہوت کردیا تھا۔۔۔اس نے ہمیشہ اسے ایک بڑی چادر میں دیکھا تھا جو اپنے ارد گرد وہ ہر وقت لپیٹے رکھتی تھی۔۔۔آج اپنے مکمل حسن سمیت بنا کسی حجاب کے وہ اس کے سامنے موجود تھی۔۔۔قاسم اپنی پلکیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔۔نظر جیسے اس پہ جم کر رہ گئ تھی۔۔۔اسکی آنکھوں میں ہوس کی چمک گہری ہو گئ تھی۔۔۔مہدیہ اسے یوں بے باکانہ انداز میں خود کو تکتا پاکر جلدی سے رخ موڑ گئ۔۔۔اپنے دوپٹے کے لیے کمرے میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو وہ جہاں پڑا تھا اسے لینے کے لیے اسے قاسم کے سامنے سے گزرنا پڑتا۔۔۔کچھ اور تو نہ سوجھا وہ جلدی سے بیڈ کی چادر کھینچ کر خود کو ڈھانپ گئ۔۔۔
                    بھیگا ہوا بدن تیرا اس پہ سلگتے ہونٹ
                    افففف کیا قیامت ہے قیامت سے پہلے
                    قاسم نے انتہائی گھٹیا انداز میں سر تا پیر مہدیہ کو گھورتے ایک گھٹیا شعر کہا۔۔۔مہدیہ کا بس نہیں چل رہا تھا تھا کہ وہ قاسم کا منہ نوچ لے۔۔۔
                    " تم۔۔۔اندر کیسے آئے ہو۔۔۔دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔"
                    مہدیہ قاسم کی طرف اپنا رخ موڑتی غصے سے لال بھبوکا چہرہ لیے سب لحاظ بالائے طاق رکھتے بولی۔۔۔قاسم کے بولے گئے لفظوں میں چھپی غلاظت اور آنکھوں سے چھلکتی ہوس اور اس پہ مہدیہ کا گھر پہ تنہا ہونا مہدیہ کو حواس باختہ کرنے لگا۔۔۔
                    " میرے ہی گھر میں کھڑی ہو کر مجھ سے ہی کہ رہی ہو نکل جانے کو۔۔۔ماننا پڑے گا تمہاری ہمت کو۔۔۔"
                    قاسم ایک جست میں اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ مٹاتے اس کے انتہائی قریب آتے بولا۔۔۔مہدیہ کا ہوشربا روپ دیکھ کر اس کے اندر اک آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔سب کچھ جلا کر تباہ و برباد کر دینے والی آگ۔۔۔وہ اپنا آپا کھونے لگا تھا۔۔۔
                    " د۔۔د۔۔دیکھو۔۔۔۔میں۔۔۔۔"
                    مہدیہ قاسم کے اس قدر پاس آنے پہ گھبرا کر بولی۔۔۔مگر قاسم بیچ میں ہی اس کی بات اچک گیا۔۔۔۔
                    " تو دکھاؤ ناں۔۔۔۔تمہیں دیکھنے کے لیے کب سے تڑپ رہا ہوں میری جان۔۔۔تمہارے اس روپ نے مجھے پاگل کردیا ہے۔۔۔"
                    قاسم نے کمینگی سے ہنستے ہوئے مہدیہ کی خود پہ لی بیڈ کی چادر کھینچنے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔تو مہدیہ نے دونوں ہاتھوں سے چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور قاسم کی بڑھتی بدتمیزی پہ اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ جسے قاسم تیزی سے اپنا بچاؤ کرتے راہ میں ہی روک گیا پھر ایک جھٹکے سے مہدیہ کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے بازوؤں میں جکڑ گیا۔۔۔
                    " سوچنا بھی مت۔۔۔اپنی طرف انگلی اٹھانے والے کو میں زندہ زمین میں گاڑ دوں۔۔۔تو سوچو خود پہ ہاتھ اٹھانے والے کا کیا حشر کروں گا۔۔۔البتہ تم جیسی حسیناؤں کے لیے تھوڑی رعایت ہے کہ انھیں میں جان سے نہیں مارتا۔۔۔بلکہ اس غلطی کی سزا انکو اپنے اس نازک بدن پہ سہنی پڑتی ہے۔۔۔
                    مہدیہ نے چیخنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تو قاسم تیزی سے اس کے منہ پہ مضبوطی سے اپنا ایک ہاتھ جما کر غصے سے بولا۔۔۔
                    " مگر تمہاری بات ان سب سے الگ ہے۔۔۔جب سے تمہیں دیکھا ہے مجھے کسی پل چین نہیں مل رہا۔۔۔تمہارے ساتھ میں زور زبردستی والا نہیں۔۔۔بلکہ پیار محبت والا کھیل کھیلنا چاہتا ہوں۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنی مرضی سے میری بانہوں میں آؤ۔۔۔مہدیہ عرف موہنی بائی۔۔۔۔"
                    قاسم نے اپنی ٹھوڑی مہدیہ کی گردن پہ رب کرتے خمار آلود لہجے میں کہا مارے بے بسی کے مہدیہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے وہ دل ہی دل میں الّٰلہ سے دعا کرنے لگی کہ ماسو ماں جلدی سے آ جائیں۔۔۔وہ جو خود کو قاسم کی گرفت سے چھڑوانے کی ہر ممکن تگ و دو کر رہی تھی اس کے منہ سے " موہنی " اپنا سابقہ نام سن کر ساکت رہ گئ۔۔۔
                    " لگا ناں جھٹکا۔۔۔مجھے بھی لگا تھا جب پہلی بار میں نے تمہیں دیکھا تھا۔۔۔مگر تب مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ میں نے تمہیں کہاں دیکھا ہے۔۔۔پھر یاد آنے پہ میں نے اپنے ایک دوست سے کنفرم کیا۔۔۔تب مجھے پتہ چلا کہ رضوانہ بوا کتنا بڑا دھوکا ہم سب کو دے رہی ہیں۔۔۔
                    دیکھنا چاہو گی۔۔۔لو دیکھو تم بھی۔۔۔پکا ثبوت ہے میرے پاس۔۔۔جس سے چاہ کر بھی نہ تم انکار کر سکتی ہو نہ رضوانہ بوا۔۔۔"
                    قاسم مہدیہ کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھتا بولا۔۔۔
                    مہدیہ کی آنکھوں میں حیرت کا سمندر موجزن دیکھ کر قاسم نے اپنی گرفت ڈھیلی کی اور ساتھ ہی اپنی جیب سے موبائل نکال کر مہدیہ کے سامنے کیا جس میں وہ کسی گانے پہ رقص کر رہی تھی۔۔۔لوگ پاگلوں کی طرح اس پہ پیسوں کی بارش کر رہے تھے۔۔۔مہدیہ بے یقینی سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہ ویڈیو دیکھنے لگی۔۔۔
                    " تو کیا خیال ہے پھر موہنی بائی۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ تم ہرگز نہیں چاہو گی کہ رضوانہ بوا نے ہم سب سے جو جھوٹ بولا ہے بلکہ ہم سب کو جو دھوکا دیا ہے اس کا کسی کو پتہ چلے۔۔۔
                    سوچو ذرا جب سب کے سامنے تمہارا سچ اور رضوانہ بوا کا جھوٹ آئے گا تو کیا عزت رہ جائے گی انکی۔۔۔بابا۔۔۔افففف بابا کا کیا حال ہوگا۔۔۔کتنا بھروسہ کرتے ہیں وہ رضوانہ بوا پہ۔۔۔کیا گزرے گی انکے دل پہ۔۔۔
                    ماما کو جب پتہ چلے گا کہ ایک کوٹھے پہ رہنے والی ایک بازارو لڑکی انکے گھر پہ رہ رہی ہے تو وہ تو دھکے مار کر رضوانہ بوا کو یہاں سے نکال دیں گی۔۔۔"
                    قاسم تاک تاک کر مہدیہ کے دل کو اپنی باتوں کے تیروں سے چھلنی کرنے لگا۔۔۔
                    " کیا چاہتے ہو تم۔۔۔۔"
                    مہدیہ پتھر کا بت بنی ساکت کھڑی بولی۔۔۔
                    " تم جانتی ہو میں تم سے کیا چاہتا ہوں۔۔۔اتنا عرصہ کوٹھے پہ گزار کر آئی ہو۔۔۔پھر بھی ایک مرد کی طلب کو سمجھ نہیں پا رہی۔۔۔حیرت ہے۔۔۔تو پھر سنو موہنی بائی۔۔۔ میں تمہارے اس خوبصورت بدن کے رازوں کو کھوجنا چاہتا ہوں۔۔۔اس رستے سے گزرنا چاہتا ہوں جہاں سے نہ جانے پہلے کتنے گزر چکے۔۔۔تمہارے وجود کی نرمیوں کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"
                    مہدیہ کے ٹوٹے لہجے پہ شہ پاتے قاسم بے خود ہوتے اس کے پاس آ کر بولا۔۔۔
                    " مجھ پہ رحم کرو۔۔۔بخش دو مجھے۔۔۔مم۔۔۔میں ماں بنے والی ہوں۔۔۔تمہیں الّٰلہ کا واسطہ ہے۔۔۔"
                    مہدیہ اب کے سسک کر بولی۔۔۔
                    " کسی کا گندہ خون۔۔۔ایک ناجائز بچہ پیٹ میں لیے پھر رہی ہو اور بات کرتی ہو رحم کی۔۔۔تمہارے جیسی عورت پہ شرافت کا ڈھونگ جچتا نہیں ہے موہنی بائی۔۔۔اب زیادہ میرا سر مت کھاؤ۔۔۔میں زور زبردستی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔"
                    قاسم طنزاً بولا اور اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔۔۔کہ اسی وقت اسے باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔۔
                    " میں پھر آؤں گا۔۔۔تیار رہنا۔۔۔اور اپنا منہ کھولنے سے پہلے یا انکار کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچ لینا۔۔۔"
                    قاسم اسے دھمکاتا اس کے گال کو تھپتھپا کر کھڑکی کھول کر تیزی سے باہر کود گیا۔۔۔
                    ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤​

                    Comment


                    • #80
                      Episode , 51#
                      " کیا بات ہے۔۔۔میں کب سے دروازہ بجا رہی ہوں اور یہ کھڑکی کس نے کھولی ہے۔۔۔بیٹا میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اسے بند رکھا کرو۔۔۔اسے مت کھولنا۔۔۔۔میری غیر موجودگی میں تو ہرگز نہیں۔۔۔"
                      دروازے پہ بار بار ہوتی دستک کی آواز پہ مہدیہ بے جان وجود کے ساتھ آگے بڑھی اور دروازہ کھول کر سر جھکائے اپنے خیالوں میں گم دروازہ بند کیے بنا واپس مڑ گئ۔۔۔رضوانہ خاتون نے اندر آ کے خودی دروازہ بند کیا پھر اندر آتے جیسے ہی انکی نظر سامنے کی کھڑکی پہ پڑی جو باہر کی طرف کھلتی تھی۔۔۔تو حیران ہو کر اسے بند کرتی بولیں۔۔۔
                      " مہدیہ بیٹا کیا بات ہے۔۔۔تم ٹھیک ہو ناں۔۔۔اور یہ تمہاری اتنی رنگت زرد کیوں ہو رہی ہے۔۔۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔کہیں کوئی درد تو نہیں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔"؟
                      مہدیہ کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر رضوانہ خاتون نے اسکی طرف دیکھا تو اسکے چہرے کا اڑا اڑا رنگ دیکھ کر پریشان ہوکر اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اسکی طرف غور سے دیکھتی فکرمندی سے بولیں۔۔۔
                      " ماسو ماں۔۔۔۔"
                      مہدیہ خود پہ ضبط کھوتی یکدم رضوانہ خاتون کے گلے لگ کر سسک پڑی۔۔۔اس نے رضوانہ خاتون کو یوں خود میں بھینچا ہوا تھا جیسے کوئی ننھا بچہ بلی کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر بھاگ کر اپنی ماں کے اندر چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔
                      " ماسو کی جان۔۔۔میری بچی۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔ایسے کیوں رو رہی ہو۔۔۔میرا دل ہول رہا ہے۔۔۔مہدیہ کیا ہوا ہے۔۔۔ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔"
                      مہدیہ کے یکدم اس طرف سے ان کے گلے لگ کر رونے پہ رضوانہ خاتون گھبرا کر اس کا چہرہ پکڑ کر اپنے سامنے کرتے بولیں۔۔۔انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کچھ دیر پہلے جب وہ اکرام صاحب سے بات کرنے گئیں تب تو وہ بلکل ٹھیک تھی۔۔۔پھر کچھ دیر میں ایسا کیا ہوگیا کہ وہ اس طرح سے رو رہی تھی۔۔۔
                      " تم نے یہ چادر کیوں اوڑھی ہوئی ہے۔۔۔کوئی آیا تھا کیا۔۔۔بولو مہدیہ۔۔۔یہاں کون آیا تھا۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون کی اب کے نظر اسکے وجود پہ لپٹی بیڈ کی چادر پہ گئ۔۔۔انھوں نے غیر ارادی طور پہ پورے کمرے کا جائزہ لیا۔۔۔تو انکو کمرے میں مردانہ کلون کی خوشبو محسوس ہوئی۔۔۔انکے دل دماغ میں عجیب سے وہم نے ڈیرا ڈالا تھا وہ نرم دھیمے لہجے میں مہدیہ سے استفسار کرنے لگیں۔۔۔
                      " ماسو ماں۔۔۔وہ۔۔۔آپکے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی جب میں نہا کر نکلی تو۔۔۔۔"
                      اس سے پہلے کہ مہدیہ قاسم کے آنے کا بتاتی۔۔۔اسی وقت اس کے دماغ میں قاسم کی دھمکی کی بازگشت ہوئی تو وہ فوراً اپنے ہونٹ بھینچ گئ پھر اپنے آنسو صاف کرتی اٹھ کر اپنے گرد لپیٹی چادر اتار کر اپنے دوپٹے کی طرف بڑھی۔۔۔
                      " تو۔۔۔۔تو مہدیہ۔۔۔۔تم نے بات پوری نہیں کی۔۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون اسے پرکھتی نظروں سے دیکھتی بولیں جو بات ادھوری چھوڑ کر خود کو اب نارمل ظاہر کر رہی تھی۔۔۔کچھ دیر پہلے والا خوف اب اس کے چہرے سے غائب ہوچکا تھا۔۔۔
                      " سوری ماسو ماں میں نے آپکو پریشان کردیا۔۔۔اور کوئی نہیں آیا تھا یہاں۔۔۔اصل میں جب میں نہا کر نکلی تو پتہ نہیں کہاں سے مہرے دوپٹے پہ ایک کاکروچ آ کر بیٹھ گیا۔۔۔مجھے کاکروچ سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔گھر میں نہ آپ تھیں اور نہ فاطمہ آپی۔۔۔بس اسی وجہ سے میں کچھ زیادہ ہی ڈر گئ۔۔۔"
                      مہدیہ نے خود کو سنبھالتے اپنے لہجے میں بشاشت لانے کی ناکام کوشش کرتے کہا۔۔۔رضوانہ خاتون کچھ پل کو اسکی طرف دیکھتی رہیں۔۔۔اپنی طرف سے مہدیہ نے انکو مطمئین کردیا تھا مگر کمرے میں پھیلی ہلکی ہلکی مردانہ کلون کی خوشبو نے انھیں اندر سے بے چین کردیا تھا۔۔۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ مہدیہ ان سے کیا چھپا رہی ہے اور کیوں۔۔۔
                      " ماسو ماں آپ نے کی بات سیٹھ صاحب سے۔۔۔کب جا رہے ہیں ہم یہاں سے۔۔۔"
                      مہدیہ نے رضوانہ خاتون سے پوچھا۔۔۔
                      " ہاں بیٹا کی تھی بات۔۔۔انھوں نے نہ صرف منع کردیا ہے بلکہ مجھ سے یہ کہا ہے کہ اگر ہم یہاں نہیں رہنا چاہتے تو وہ کسی اچھی جگہ پہ ہمارے رہنے کا انتظام کردیں گے۔۔۔اور صرف یہی نہیں۔۔۔انھوں نے اپنے بیٹے طلحہ کے لیے فاطمہ کا ہاتھ مانگا ہے۔۔۔میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔۔۔کیا جواب دوں۔۔۔سیٹھ صاحب کے ہم پہ اتنے احسان ہیں کہ میں انکو کسی بات سے بھی منع نہیں کر سکی۔۔۔بس سوچنے کا ٹائم مانگا ہے ان سے۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون گہرے تفکرانہ لہجے میں بولیں۔۔۔انکی بات سن کر مہدیہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئ۔۔۔وہ جو دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ قاسم کے بارے میں فاطمہ سے بات کرے گی۔۔۔رضوانہ خاتون کی بات سننے کے بعد اس نے اپنے ہونٹوں پہ قفل لگانے کا سوچ لیا۔۔۔احسان تو رضوانہ خاتون کا بھی اس پہ بہت بڑا تھا جس کا بدلہ وہ مر کے بھی نہ چکا پاتی۔۔۔قاسم سے اس نے خود ہی نمٹنے کا دل میں تہیہ کر لیا تھا۔۔۔
                      " امی جان یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔۔۔ایسا کیسے ممکن ہے۔۔۔آپ انکو منع کردیں۔۔۔مجھے طلحہ کیا کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔۔۔"
                      فاطمہ شام کو جب واپس آئی تو رضوانہ خاتون نے اس سے سیٹھ اکرام کی خواہش کا بتایا۔۔۔جسے سن کر فاطمہ ساکت رہ گئ۔۔۔اسے اب سمجھ آئی کہ فرحین بیگم صبح اس پہ اس قدر برافروختہ کیوں ہو رہی تھیں۔۔۔
                      " بیٹا ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔طلحہ قاسم سے بہت مختلف طبیعت کا بندہ ہے ایسے رشتے قسمت والیوں کے آتے ہیں۔۔۔اور سب سے بڑی بات کہ اکرام صاحب نے خود بہت چاؤ سے تمہارا ہاتھ طلحہ کے لیے مانگا ہے اور مجھے تو اس میں کوئی ہرج نہیں لگ رہا۔۔۔اگر یہاں رہنے کی وجہ سے تم منع کر رہی ہو تو ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔ایمان کی شادی تک اکرام صاحب نے ہم سے یہیں رکنے کا کہا ہے۔۔۔اور انکی اس بات پہ میں حامی بھر چکی ہوں۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون نے بہت سبھاؤ سے فاطمہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔
                      " امی جان یہ بات اپنی جگہ کہ ہمارا اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔۔۔مگر مجھے اپنی قسمت کو لے کر کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔۔۔جو زخم جو داغ میرے دل پہ میری روح پہ لگے ہیں وہ میں کسی سے چھپا بھی لوں۔۔۔مگر جو داغ میرے وجود پہ ہیں انکا کیا کروں۔۔۔اور کسی مرد میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیوی کے جسم پہ اسکے ماضی کے نشان دیکھے اور برداشت کرے۔۔۔پلیززز امی جان میں پہلے بھی آپکو منع کرچکی ہوں۔۔۔پلیززز۔۔۔ آج کے بعد دوبارہ مجھ سے شادی کی بات مت کیجیے گا۔۔۔مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ ساری عمر اپنے اور اپنے شوہر کے بیچ میں اس بات کو لے کر پیدا ہوئی شک کی دیوار کو گرانے میں گزار دوں۔۔۔"
                      فاطمہ روہانسے۔لہجے میں کہ کر اپنی آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کو ضبط سے ہونٹ کاٹتی اپنا سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو مسلنے لگی۔۔۔
                      " فاطمہ بیٹا بھول جاؤ سب۔۔۔سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔یہ دنیا بہت ظالم ہے بیٹا۔۔۔پکی دیوار ہونے کے باوجود لوگ اسے توڑ کر اندر سے سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔۔۔پھر کچی دیوار کی کیا اوقات۔۔۔میں بھی کچی دیوار ہی ہوں۔۔۔کب گر جاؤں کچھ پتہ نہیں۔۔۔تمہارا کوئی بھائی ہوتا یا باپ زندہ ہوتا تو مجھے اتنی فکر نہ ہوتی۔۔۔مگر اب ہر وقت ایک دھڑکا لگا رہتا ہے مجھے کچھ ہوگیا تو تم دونوں کا کیا بنے گا ہمارا تو کوئی عزیز رشتے دار بھی نہیں کہ جہاں تم پناہ لے لو۔۔۔غریب گھر کی بیٹیوں کو تو اس کے اپنے رشتے دار نہیں پوچھتے چاہے ان میں ہزار گن ہوں۔۔۔انکا غریب ہونا ہی انکا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے۔۔۔سیٹھ اکرام بہت اچھے انسان ہیں بیٹا۔۔۔اور طلحہ بھی بہت سمجھدار نیک بچہ لوگ رشتہ کرنے سے پہلے پورا خاندان کھنگال ڈالتے ہیں۔۔۔اور کچھ لوگ تو اپنے اسٹیٹس سے نیچے ہی نہیں آتے۔۔۔مگر سیٹھ اکرام نے نہ ہم سے ہمارے خاندان کے بارے میں سوال کیا اور نہ اپنے اور ہمارے سٹیٹس کے فرق کو بیچ میں لائے۔۔۔قسمت یوں مہربان ہوئی ہے تو اپنا دروازہ بند مت کرو۔۔۔میری خاطر تم ایک بار طلحہ سے مل لو اس سے بات کرلو اسکے بعد کوئی بھی فیصلہ کرنا۔۔۔"
                      رضوانہ خاتون نے مدبرانہ لہجے میں فاطمہ کو شمجھاتے کہا۔۔۔مہدیہ نے بھی رضوانہ خاتون کی بات کی تائید کی تو فاطمہ خاموش ہو گئ۔۔۔
                      " ٹھیک ہے ماما مجھے سوچنے کے لیے وقت چاہیے تھوڑا۔۔۔مگر میری ایک شرط ہے اب جب پتہ چل چکا ہے کہ دانی زندہ ہے تو تب تک میری شادی کا سوچیے گا بھی مت۔۔۔جب تک وہ مل نہیں جاتا تب تک تو بلکل نہیں۔۔۔"
                      فاطمہ ہار مانتے بولی۔۔۔مگر وہ دل میں تہ کر چکی تھی کہ وہ طلحہ سے شادی ہرگز نہیں کرے گی۔۔۔دانی کے زندہ ہونے سے جہاں وہ بے پناہ خوش ہوئی تھی وہیں پہ اس کا دل کسی اور کو دیکھنے کو بھی بے تاب رہنے لگا تھا۔۔۔جسے وہ محض انسیت سمجھتی آئی تھی دانی کے زندہ ہونے کی خبر کے بعد جب اپنے دل کی حالت پہ غور کیا تو اسے سمجھ آئی کہ آج تک وہ شادی سے انکار کیوں کرتی آئی تھی۔۔۔مہدیہ سے سچ جان کر اس کا دل بے چین کیوں رہنے لگا تھا۔۔۔مگر وہ یہ سب اپنی ماں سے نہیں کہ سکتی تھی۔۔۔وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ جس کے لیے اس کا دل بے چین ہوتا ہے وہ کیا سوچتا ہے۔۔۔وہ زندگی میں کتنا آگے نکل گیا ہے۔۔۔کچھ بھی تو نہیں جانتی تھی وہ۔۔۔مگر یہ تہ تھا کہ وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں۔۔۔
                      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                      " کیا ہوا عینا کس کا فون تھا۔۔۔"
                      عائلہ نے پریشان ہو کر عینا سے پوچھا۔۔۔جو کسی کی کال اٹینڈ کرنے کے بعد سر ہاتھوں میں تھام کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
                      " احتشام جی کا فون تھا وہی ہوا جس کی ہمیں امید تھی۔۔۔ پنچایت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔۔۔شاہ سائیں کے گھر کے ہر فرد کو ہمرے گھر ، ہماری گلی میں بھی آنے سے روک دیا گیا ہے۔۔۔ہماری شادیاں وہیں ہوں گی جہاں اباَّاا جی تہ کریں گے۔۔۔
                      نہ صارم بھیا نہ احتشام جی۔۔۔کوئی بھی اب ہماری مدد نہیں کرسکتا۔۔۔اور نہ کوئی ابا کی مرضی کے بنا ہمارے گھر آسکتا ہے۔۔۔ایک سرپرائز ابا نے ہمیں دیا پنچایت بلا کر۔۔۔اب ایک میں انکو دوں گی۔۔۔"
                      عینا نے سر اٹھا کر تلخی سے کہا۔۔۔اور انتہائی غصے سے اٹھ کر اپنے روم کی طرف بڑھی۔۔۔
                      " کہاں جا رہی ہو تم۔۔۔۔ابا ابھی تھوڑی دیر میں آتے ہوں گے۔۔۔تمہیں گھر نہ پاکر ایک نیا تماشہ کھڑا کردیں گے وہ۔۔۔"
                      عائلہ نے عینا سے پریشان ہوتے پوچھا۔۔۔اسکی جزباتی اور نڈر طبیعت کبھی کبھی اسے خوف میں مبتلا کردیتی تھی۔۔۔ عینا غصے سے اٹھ کر اندر گئ تھی اور جب باہر آئی تو چادر اوڑھے ایمن کو ساتھ لیے باہر نکلنے کو تھی۔۔۔
                      " فکر مت کریں آپی۔۔۔ابا کو میرے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔بلکہ وہ مجھے سامنے نہ پاکر میرا پوچھیں گے بھی نہیں کیونکہ آج کل ان کے حواسوں پہ صرف آپ سوار ہیں کہ کہیں آپ ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔۔۔"
                      عینا نے انتہائی تنفر سے کہا عائلہ اس سے پوچھتی رہ گئ کہ وہ کہاں جا رہی ہے مگر وہ کچھ بھی کہے اور اس کو مزید کوئی جواب دئیے بنا گھر سے نکلتی چلی گئ۔۔۔عائلہ اس کے جانے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گئ۔۔۔ہزار وسوسوں نے اسے آن گھیرا تھا۔۔۔
                      " عائلہ بیٹا تیار ہو جاؤ تمہیں دلاور کے ساتھ شہر جانا ہے۔۔۔اپنی جو بھی خریداری کرنی ہے کر لینا۔۔۔اس جمعے کو دو دن بعد دلاور سے نکاح ہے تمہارا۔۔۔"
                      رشید احمد اور دلاور گھر واپس آئے توخوشی دونوں کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی انکے راستے کا سب سے بڑا کانٹا جو دور ہوگیا تھا۔۔۔عائلہ دروازہ کھول کر انکے اندر آتے ہی تیزی سے اپنی والدہ کے کمرے کی طرف یوں بڑھی جیسے اس کے پیچھے کوئی لگا ہو۔۔۔اپنے باپ کے ساتھ دلاور کو دیکھ کر وہ ایک لمحہ بھی انکے پاس رکنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ابھی وہ کمرے میں جاکر سانس بھی نہیں لے پائی تھی کہ رشید احمد نے اس کے پیچھے پیچھے آ کر اس کے سر پہ جیسے بم پھوڑا تھا۔۔۔
                      " کک۔۔۔کیا۔۔۔مگر اتنی جلدی۔۔۔"
                      عائلہ یہ سن کر جیسے زلزلوں کی زد میں آئی تھی۔۔۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پنچایت سے واپسی پہ اس پہ یہ قیامت ٹوٹ پڑے گی۔۔۔
                      میں گاؤں میں اپنے ایک دو جاننے والوں کو دعوت دے آؤں نکاح میں شامل ہونے کے لیے۔۔۔بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے تمہیں بیچا ہے۔۔۔تم چادر لے کر باہر آ جاؤ دلاور تمہارا انتظار کر رہا ہے۔۔۔"
                      رشید احمد نے سنجیدگی سے حکمیہ لہجے میں کہا اور یہ دیکھے بنا کہ اس کے لفظوں نے اس کا کیا حال کیا ہے باہر نکل گیا۔۔۔جبکہ عائلہ بے حس و حرکت وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئ۔۔۔
                      " آپ تیار ہیں تو چلیں۔۔۔"
                      کافی دیر گزرنے کے بعد بھی عائلہ باہر نہیں نکلی تو دلاور اس کے پیچھے اسے دیکھنے روم میں آ کر بولا۔۔۔جو کب سے اسی جگہ زمین پہ بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔۔
                      " عائلہ جی۔۔۔آپ ٹھیک ہیں۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔آپ ایسے رو کیوں رہی ہیں۔۔۔اور آپ یوں زمین پہ کیوں بیٹھی ہیں۔۔۔پلیززز اٹھیں یہاں سے۔۔۔ادھر اوپر آکے بیٹھیں۔۔۔"
                      دلاور پریشان ہو کر اس کے قریب آ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھا۔۔۔مگر جیسے ہی اس نے عائلہ کے ہاتھ کو چھوا وہ تیزی سے اٹھ کر اس سے فاصلہ بناتی صوفے پہ جا بیٹھی ۔۔۔اپنے دوپٹے کو اپنے سر اور جسم پہ مضبوطی سے اچھے سے لپیٹ کر اپنے نہ رکنے والے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔دلاور اس کی اس حرکت پہ حیران ہوا تھا صبح عائلہ کے اس سے شادی پہ حامی بھرنے پہ وہ اس پہ اب اپنا پورا حق سمجھنے لگا تھا۔۔۔ڈارک نیوی بلیو ڈریس میں اسکے ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے اس پہ رونے کی وجہ سے سوجی سوجی سی آنکھیں اور لال ہوتے گال ، ناک ، گھنی سیاہ خمدار لمبی لرزتی پلیکیں ، تھرتھراتے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ دلاور کا دل ڈگمگانے لگے۔۔۔
                      "عائلہ جی آپ کا یوں رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔۔۔"
                      دلاور بے چین ہو کر اس کے قریب ہی بیٹھ کر اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے بولا۔۔۔عائلہ نے اپنا چہرہ پیچھے کر کے اس کا ہاتھ بھی روکنا چاہا مگر دلاور نے اس کے خود کو روکتے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا۔۔۔دلاور کے یوں اس کے اتنے قریب بیٹھنے اور اس کا ہاتھ پکڑنے پہ عائلہ کا پورا وجود کپکپانے لگا۔۔۔
                      " پپ۔۔۔پلیز۔۔۔ہا۔۔۔ہاتھ چھو۔۔۔چھوڑیں میرا۔۔۔د۔۔دد۔۔۔دور رہ کر بات کریں۔۔۔"
                      عائلہ سسک کر لرزتے لہجے میں بولی۔۔۔
                      " آپ پرہشان کیوں ہو رہی ہیں۔۔۔منگ ہیں آپ میری۔۔۔شادی ہونے والی ہے ہماری۔۔۔میں آپکی ہر بات مانوں گا مگر چھوڑنے کی بات کبھی مت کیجیے گا۔۔۔میں بہت پیار کرتا ہوں آپ سے۔۔۔اتنا کہ آپکی خاطر ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں ساری دنیا سے ٹکرا سکتا ہوں۔۔۔مگر آپکو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔اور نہ ہی اب آپ سے دور رہ سکتا ہوں۔۔۔
                      میں جانتا ہوں کہ میری ذات کو لے کر آپکے دل میں بہت سے وہم بہت سے شکوک و شبہات ہوں گے۔۔۔آپ میرے بارے میں جو سوچ رہی ہیں یا جو عینا یا آپکی والدہ سوچ رہی ہیں یقین کریں میں ویسا نہیں ہوں۔۔۔ہاں کچھ برائیاں ہیں مگر میں وعدہ کرتا ہوں میں انھیں ٹھیک کرنے کی خود کو آپکی پسند کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کروں گا۔۔۔آج کے بعد میں سارے برے کام چھوڑ دوں گا۔۔۔میں بلکل ویسا ہی بن جاؤں گا جیسا آپ چاہیں گی۔۔۔
                      عائلہ جی میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ آپکو خوش رکھوں گا۔۔۔ہمیشہ آپکا خیال رکھوں گا۔۔۔کبھی آپکی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔۔۔پلیززز میرا یقین کریں۔۔۔"
                      دلاور عائلہ کا ہاتھ تھامے اپنے لہجے میں اپنی آنکھوں میں دنیا جہاں کی محبت سموئے بولا۔۔۔عائلہ اس کی بات پہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔۔۔ساتھ میں وہ دلاور کے ہاتھوں میں تھاما اپنا ہاتھ بھی چھڑوانے کی دبی دبی سی کوشش کرتی رہی۔۔۔
                      " محبت کرنے والے اپنے محبوب کی خوشی میں خوش رہتے ہیں۔۔۔اس کو تکلیف نہیں دیتے۔۔۔کبھی اس کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرتے۔۔۔اسے اور اس کے گھر والوں کو ڈرا دھمکا کر حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔۔۔"
                      دلاور کے نرم لہجے نے عائلہ کے اندر تھوڑا حوصلہ پیدا کیا تو وہ اسے اس کی عینا کے لیے دی گئ دھمکی جتلا کر تلخی سے بولی۔۔۔
                      " عائلہ جی۔۔۔آپ میرا جنون بن چکی ہیں۔۔۔آپ کے اور میرے راستے میں جو آئے گا میں اسے مٹا ڈالوں گا۔۔۔آپ دل سے میری بن جائیں۔۔۔میں آپکا بن جاؤں گا۔۔۔نہ صرف آپکو بلکہ آپ سے جڑے ہر رشتے کو اپنی پلکوں پہ بٹھاؤں گا۔۔۔مگر جو بھی آپکو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
                      آج تک زندگی نے مجھ سے بس چھینا ہی چھینا ہے۔۔۔پہلے میرے ماں باپ ، پھر ماں سی ماسو ماں ، بے لوث بے غرض محبت کرنے والی فاطمہ آپی جو میری ماں جائی نہیں تھی مگر مجھے یوں لگتا تھا ہم نے ایک ہی کوکھ سے جنم لیا ہے۔۔۔چوٹ مجھے لگتی تھی مگر آنکھیں انکی برستی تھیں میری ہلکی سی تکلیف پہ بھی وہ تڑپ اٹھتی تھیں۔۔۔سب کے سب۔۔۔سب کو چھین لیا اس دنیا نے مجھ سے۔۔۔
                      بولتے بولتے دلاور کا لہجہ بھاری ہوا تھا آنکھوں میں نمی آئی تھی۔۔۔عائلہ کے لیے یہ اس کا بلکل نیا روپ تھا۔۔۔دوسروں کو خوفزدہ کر دینے والے تاثر کی جگہ اسکے چہرے پہ بچوں کی سی معصومیت چھائی ہوئی تھی۔۔۔اس وقت وہ ٹوٹا بکھرا بے ضرر سا انسان محسوس ہوا تھا اسے۔۔۔اور پہلی بار عائلہ کو اس سے خوف نہیں آیا تھا۔۔۔
                      جب تک میں اچھا رہا زندگی میرے ساتھ کھیلتی رہی۔۔۔پھر میں نے بھی زندگی کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔۔۔وہ بن گیا جو میں نہیں تھا۔۔۔زمانے کی ٹھوکروں نے مجھے بس ایک ہی سبق دیا کہ آپکی جیب خالی ہے تو آپکی کوئی اوقات نہیں۔۔۔آپ کمزور ہو تو سمجھو آپ زمین پہ رینگنے والے کیڑے ہو جسے سب اپنے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔۔۔کمزور شخص کو ہر کوئی ڈراتا دھمکاتا ہے۔۔۔
                      اور مجھے زمین کا کیڑا بن کر نہیں جینا تھا اس لیے میں نے دوسرا راستہ چن لیا۔۔۔آج میں جو چاہتا ہوں حاصل کر لیتا ہوں۔۔۔میرے نام سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔۔۔
                      اپنی زندگی سے شادی کا ورق میں نے پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔۔۔مگر جب آپکو دیکھا تو میں خود کو بھی بھول بیٹھا۔۔۔زندگی میں پہلی بار کسی کے ساتھ کی دل میں تمنا پیدا ہوئی اور ایسی ہوئی کہ مجھے اب آپکے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ہر چہرے میں بس آپکا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔۔۔
                      آپ میری زندگی کا اب حاصل و مطلوب ٹھہر چکی ہیں عائلہ جی۔۔۔
                      میں کسی صورت بھی آپ سے دستبردار نہیں ہوں گا۔۔۔اور نہ اپنے اور آپکے بیچ کسی کو آنے دوں گا۔۔۔
                      مجھ سے پیار کریں گی وفا نبھائیں گی تو ہمیشہ آپکا بے دام خادم بن کر رہوں گا۔۔۔
                      مجھے چھوڑ کر کسی اور کا ہاتھ تھامیں گی ، دھوکا دیں گی۔۔۔تو میں سب برباد کردوں گا۔۔۔آپکو بھی۔۔۔"
                      بات کرتے کرتے دلاور کا لہجہ یکدم بدلا تھا وہ پھر سے ایک بپھرا ہوا طوفان بن گیا تھا جو اپنے راستے میں آئی ہر دیوار ، ہر رکاوٹ کو روندتا گزر جاتا ہے۔۔۔
                      " اس لیے آپ نے صبح جو کہا اس پہ قائم رہیے گا مجھے کبھی دھوکا مت دیجیے گا۔۔۔وعدہ کریں مجھ سے کہ آپ صرف میری بن کر رہیں گی۔۔۔مجھے کبھی دھوکا نہیں دیں گی۔۔۔وعدہ کریں عائلہ جی۔۔۔"
                      دلاور کا لہجہ یکدم سخت ہوا تھا۔۔۔اس نے اپنے ہاتھوں میں جکڑے عائلہ کے ہاتھوں پہ گرفت سخت کرتے ان پہ دباؤ بڑھاتے ضدی لہجے میں کہا۔۔۔
                      " و۔۔۔وعدہ۔۔۔وعدہ کرتے ہیں۔۔۔کہ آپکو کبھی دھوکا نہیں دیں گے۔۔۔"
                      ہاتھوں پہ دباؤ پڑنے سے عائلہ مارے تکلیف کے سسک کر بولی۔۔۔
                      " آپ اپنی زبان پہ قائم رہیے گا۔۔۔میں اپنا وعدہ نبھاؤں گا۔۔۔میں آپ سے اتنا پیار کروں گا کہ آپ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگیں گی۔۔۔آپکی قسم۔۔۔"
                      دلاور نے اب کے نارمل لہجے میں مسکرا کر کہتے تھوڑا سا آگے کو جھک کر عائلہ کے گال پہ اپنا لمس چھوڑنا چاہا تو وہ ہراساں ہوتی بدک کر پیچھے کو ہوئی۔۔۔دلاور اسکی حیا سمجھ کر مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
                      " آ۔۔۔آپ جو بھی لا دیں گے میں پہن لوں گی۔۔۔امی جان کو چینج کروانا ہے تو اس میں کافی دیر ہو جائے گی۔۔۔"
                      دلاور کو بہکتے دیکھ کر عائلہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑے ہوتے بولی۔۔۔چینج اس نے اور عینا نے مل کر صبح ہی مہرالنساء کو کروا دیا تھا مگر اس وقت دلاور سے بچنے کے لیے اس کو اس سے بہتر بہانہ نہیں سوجھا۔۔۔کچھ وہ مزید ٹائم گزارنا چاہتی تھی تاکہ تب تک عینا بھی واپس آ جائے اور رات بھی ہو جائے۔۔۔اس طرح سے وہ اس کے ساتھ بازار جانے سے بچ جاتی۔۔۔
                      "اففففف۔۔۔۔عائلہ جی آپکا یہ " آاااپ " جان نکال گیا ہماری۔۔۔
                      ٹھیک ہے آپ کروا دیں چینج میں چلتا ہوں۔۔۔کل ملتے ہیں انشاء الّٰلہ۔۔۔
                      دلاور خوشگوار موڈ میں کہتے اور عائلہ کو نہارتے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔اس کے باہر جاتے ہی عائلہ نے ایک گہرا سانس خارج کیا تھا۔۔۔پھر گرنے کے سے انداز میں صوفے پہ ڈھے گئ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اتنی اونچی آواز میں چیخیں مار مار کر روئے کہ زمین و آسمان ہل جائیں۔۔۔اس کا دل پھٹ جائے اور وہ مر جائے۔۔۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد اس کا دھیان عینا کی طرف گیا جس کو گھر سے نکلے تقریباً ایک گھنٹہ ہونے والا تھا۔۔۔اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرنے کے بعد اس نے عینا کو کال کی۔۔۔مگر کوئی ریسپونس نہ ملنے پہ پھر اس نے تیزی سے عینا کے نام ایک میسج ٹائپ کیا تھا۔۔۔
                      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
                      " صارم پتر مجھے فخر ہے تم پہ بیٹا۔۔۔بچیوں کو سیف سائیڈ پہ رکھتے جس طرح سے تم نے پنچایت میں اپنی بات رکھی۔۔۔میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا بیٹا۔۔۔تم لوگ میرا غرور ہو یہ کبھی مت بھولنا۔۔۔
                      میں جانتا ہوں کہ تم عائلہ بیٹی کو لے کر کس تکلیف سے کس کرب سے گزر رہے ہو۔۔۔مگر ہم سب اس معاملے میں بے بس ہیں پتر۔۔۔اپنی طاقت اپنے اسٹیٹس کے بل بوتے پہ میں چاہوں تو تمہاری یہ خواہش پوری کردوں۔۔۔مگر بیٹا یہ جانوروں کا طریقہ کار ہے۔۔۔کسی کے گھر میں گھسنے کی زور زبردستی سے کسی چیز کو حاصل کرنے کی میرا الّٰلہ اجازت نہیں دیتا بیٹا۔۔۔
                      کاش کہ مہرالنساء بہن اپنے ہوش میں ہوتیں تو یہ حالات نہیں ہوتے۔۔۔باپ کے مقابلے میں صرف ماں کی بات پہ ہی یقین کیا جاتا ہے۔۔۔
                      عائلہ بیٹی کو بھول جاؤ بیٹا۔۔۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھانا کہ جو ہم سہ نہ سکیں۔۔۔
                      زندگی میں انسان بہت سی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے کچھ پوری ہو جاتیں ہیں کچھ ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔تم سمجھ لو کہ عائلہ بھی ایک ادھوری خواہش تھی جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔۔۔اس بڑھاپے میں اپنے ماں باپ کو ایسا کوئی دکھ نہ دینا بیٹا جو ہماری کمر توڑ دے۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے بھاری گمبھیر لہجے میں صارم شاہ کو اشاروں کنایوں میں سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔پنچایت سے واپس آ کر سب لوگ اس وقت شاہ سائیں کے روم میں جمع تھے۔۔۔صارم کو بکھرا ٹوٹا ہوا دیکھ کر شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔۔۔مگر وہ کسی صورت بھی پنچایت کے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔۔۔
                      " بابا آپ کہیں گے کہ صارم شاہ سانس لینا چھوڑ دو۔۔۔خدا کی قسم اسی وقت چھوڑ دوں گا۔۔۔مگر جو خود سانس بن گئ ہو اسے کیسے لینا چھوڑ دوں۔۔۔مجھے معاف کردیں بابا سائیں میں عائلہ کو نہیں بھول سکتا۔۔۔
                      مگر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا جس سے آپ کا سر سب کے سامنے جھک جائے۔۔۔"
                      صارم شاہ ٹوٹے لہجے میں بولا۔۔۔
                      " صارم شاہ۔۔۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے اسے سمجھانے کو کچھ کہنا چاہا کہ تبھی وہ انکے آگے ہاتھ جوڑ گیا۔۔۔
                      " ماما جان پلیززز۔۔۔۔ابھی کچھ مت کہیں۔۔۔۔میں کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔پلیزززز۔"
                      صارم شاہ نے التجا کرتے کہا۔۔۔کب سے اپنے اندر اٹھتے طوفان کو ضبط کرنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں۔۔۔ہائمہ خاتون کی آنکھوں میں اسکی حالت دیکھ کر نمی بھر آئی تھی۔۔۔شاہ سائیں نے آنکھوں کے اشارے سے ہائمہ خاتون کو فلحال خاموش رہنے کا کہ کر اسے جانے کی اجازت دے کر احتشام شاہ کو اس کے پیچھے جانے کو کہا۔۔۔احتشام شاہ اٹھ کر اسکے پیچھے گیا تو تب تک صارم دروازہ اندر سے بند کر چکا تھا۔۔۔کمرے کے اندر سے چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے کی آوازوں کے ساتھ صارم شاہ کے چلانے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھیں۔۔۔وہ اپنے اندر کا لاوا ، رنج ، غصّٰہ اپنے روم کی چیزوں پہ نکال رہا تھا۔۔۔احتشام شاہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔ایک دو بار دستک دینے اور پکارنے پر بھی جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو وہ واپس پلٹ آیا۔۔۔
                      " آپ یہاں۔۔۔سب خیر تو ہے بیٹا۔۔۔"
                      عینا حویلی پہنچی تو دین محمد صارم شاہ کو اطلاع دینے کی بجائے اسے لے کر سیدھا شاہ سائیں کے پاس آ گیا۔۔۔شاہ سائیں ہائمہ خاتون اور احتشام شاہ کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ وہ ہائمہ خاتون کو آج کی پنچایت میں ہونے والی ساری روداد سنانے کے ساتھ صارم شاہ کے رویے پہ بھی بات چیت کر رہے تھے کہ دین محمد نے انھیں عینا کے آنے کی اطلاع دی۔۔۔جس پہ ہائمہ خاتون نے حیران ہوتے اسے فوراً اندر لانے کا کہا۔۔۔خود کو مکمل طور پہ چادر میں لپیٹے عینا سامنے آئی تو ہائمہ خاتون اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھتے محبت سے بولیں۔۔۔
                      " جی سب ٹھیک ہے۔۔۔مجھے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔"
                      عینا جھجکتے ہوئے بولی۔۔۔وہ آ تو گئ تھی مگر اب شش و پنج کا شکار ہو رہی تھی کہ کیسے اپنے منہ سے اتنی بڑی بات کہے۔۔۔وہ لوگ پتہ نہیں اس کے بارے میں کیا سوچیں۔۔۔احتشام شاہ جہاں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا وہیں پریشان بھی کہ نہ جانے اب کونسی آفت ٹوٹنے والی ہے۔۔۔
                      " وہ تو سب ٹھیک ہے مگر بیٹا آپکو پتہ ہے کہ پنچایت میں کیا فیصلہ ہوا ہے۔۔۔اس کے بعد آپکو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔آپکے بابا پھر کوئی مسلہ نہ کھڑا کردیں۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے فکر مندی سے کہا۔۔۔
                      " پنچایت نے آپ لوگوں پہ پابندی لگائی ہے ہماری طرف آنے کی۔۔۔ہم پہ نہیں۔۔۔اس وقت آپ ہی ہماری آُخری امید ہیں اور اسی امید کی ڈور تھامے میں آپکے پاس چلی آئی ہوں۔۔۔"
                      عینا خود کو مضبوط کرتے بولی۔۔۔ہائمہ خاتون نے ایک نِر شاہ سائیں کی طرف دیکھا کہ کہیں وہ برا نہ مان گئے ہوں مگر انکے چہرے پہ پرسکون تاثرات دیکھ کر وہ بھی پرسکون ہو گئیں۔۔۔
                      " ادھر یہاں آؤ۔۔۔ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو۔۔۔پھر اطمینان سے بے فکر ہو کر کہو جو کہنا ہے۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے اسے اپنے پاس بٹھاتے محبت سے کہا۔۔۔
                      " وہ مجھے۔۔۔۔احتشام جی سے کچھ کہنا تھا۔۔۔ان سے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔ابھی۔۔۔"
                      عینا نے بنا کوئی لگی لپٹی رکھے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ہائمہ خاتون اور شاہ سائیں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اس کی بات پہ سر ہلاتے روم سے باہر جانے لگے تو عینا نے ہائمہ خاتون سے رکنے کا کہا۔۔۔تو واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گئیں۔۔۔جبکہ شاہ سائیں روم سے باہر نکل گئے۔۔۔
                      " آنٹی پلیززز۔۔۔میں جو کہنے لگی ہوں۔۔۔وہ میرے لیے اس طرح سے آپکے سامنے کہنا جہاں بہت تکلیف دہ ہے وہیں باعث شرم بھی۔۔۔نہیں جانتی کہ آپ میری بات سن کر کیا سوچیں گی۔۔۔میں یہ بھی نہیں جانتی کہ میرا اس طرح سے آپکی طرف آنا ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔مگر میرے پاس اس وقت اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔۔۔میں جو کہنے آئی میں وہ احتشام جی سے فون پہ بھی کہ سکتی تھی۔۔۔مگر میرا دل نہیں مانا۔۔۔سوچا جو بھی بات ہو آمنے سامنے بیٹھ کر آپکی موجودگی میں ہو۔۔۔اس وقت صرف آپ لوگ ہیں جو بابا کو اور دلاور کو روک سکتے ہیں۔۔۔اگر دلاور کا عائلہ آپی سے نکاح ہو گیا تو ہم شائد کسی اپنے کو کھو دیں۔۔۔ہمارے گھر میں لگنے والی آگ آپکے گھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔۔۔مگر میں وہ آگ لگنے سے پہلے ہی بجھا دینا چاہتی ہوں۔۔۔
                      عینا تمہید باندھتے مضبوط لہجے میں بولی۔۔۔
                      " بولو بیٹا۔۔۔بلا جھجک کہو جو تم کہنا چاہتی ہو۔۔۔تمہارے ذہن میں جو بھی حل ہے۔۔۔اسے کھل کر کہو۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے شفقت سے کہا۔۔۔
                      " احتشام جی مجھ سے نکاح کریں گے۔۔۔ابھی اور اسی وقت۔۔۔"
                      عینا نے پراعتماد لہجے میں اب کے احتشام شاہ کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ہائمہ خاتون اور احتشام شاہ کو لگا کہ شائد انکو سننے میں غلطی لگی ہے۔۔۔
                      " کیا کہا بیٹا آپ نے۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون اپنی حیرت پہ قابو پاتے بولیں۔۔۔تو عینا نے پھر سے اپنی بات دہرائی۔۔۔احتشام شاہ کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ عینا اتنی دلیری کا مظاہرہ کرے گی۔۔۔جب سب راستے بند نظر آ رہے تھے۔۔۔ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا عینا ان بند اندھیرے راستوں میں روشنی بن کر آئی تھی۔۔۔
                      ہائمہ خاتون کی تو خود یہ دلی خواہش تھی مگر مہرالنساء کے کومہ میں جانے کی وجہ سے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں تھیں وہ۔۔۔وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ عینا انکے بیٹے کی بھی خواہش ہے۔۔۔
                      عینا اپنی بات کہ کر کچھ شرم کے مارے اور کچھ اپنی بے باکی محسوس کرتے سر جھکائے نظریں زمین میں گاڑے ہائمہ خاتون کے ری ایکشن کا انتظار کرنے لگی۔۔۔جبکہ احتشام شاہ کا دل چاہ رہا تھا کہ خوشی کے مارے بھنگڑا ڈالنا شروع کردے۔۔۔مگر اپنی ماں کی وہاں موجودگی کی وجہ سے چپ چاپ بیٹھا خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
                      " احتشام شاہ میرے ساتھ آؤ۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے احتشام شاہ سے کہا تو وہ فرمامبرداری سے اٹھ کر اپنی ماں کے ساتھ باہر نکل گیا۔۔۔ان دونوں کے اس طرح سے بنا کچھ کہے باہر نکل جانے پہ عینا کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔اسے شدت سے اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا اور اپنے اس قدر جزباتی پن پہ پہلی بار زندگی میں غصّٰہ بھی آیا۔۔۔اپنی ذات کو خود اپنے ہاتھوں کسی کے آگے یوں بے توقیر کرنے پہ اس کی آنکھوں میں نمی بھر گئ۔۔۔
                      پھر کچھ دیر بعد شاہ سائیں اور ہائمہ خاتون کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔
                      " آنٹی۔۔۔۔"
                      عینا دل گرفتہ ہو کر جو اٹھ کر جانے ہی والی تھی کہ اس کے سر پہ کسی نے باریک گوٹے کے کام والا سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھا دیا۔۔۔ پھر سمجھ آنے پہ وہ رقت بھرے لہجے میں بس اتنا ہی بول پائی۔۔۔
                      ان لوگوں کے ساتھ جو رشتہ اس کا بندھنے جا رہا تھا اس کا ادراک ہوتے ہی اس کے دل میں عجیب سی گدگدی سی ہونے لگی۔۔۔شرم کی وجہ سے اس سے سر اٹھانا مشکل ہوگیا۔۔۔
                      " صارم۔۔۔۔صارم۔۔۔۔۔ دروازہ کھول یار۔۔۔۔میری ایک بار بس بات سن لے۔۔۔صارم۔۔۔۔صارم میری بات تو سن۔۔۔۔ باہر عینا آئی ہے۔۔۔۔میرا یقین کر یار میں سچ کہ رہا ہوں۔۔۔دیکھ تو سہی کہ الّٰلہ نے ہمارے بند راستے کیسے کھول دئیے ہیں۔۔۔"
                      احتشام شاہ خوشی سے لبریز لہجے میں صارم شاہ کے روم کا دروازہ زور زور سے بجاتے بولا۔۔۔
                      صارم شاہ پہلے تو سنی ان سنی کیے بیٹھا رہا۔۔۔اور احتشام شاہ سے التجا کی کہ اسے کچھ دیر تنہا رہنے دے۔۔۔مگر جب احتشام شاہ کے منہ سے عینا کے آنے کا سنا تو جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔۔۔
                      " اففففف۔۔۔۔یہ کیا حال کیا ہے تم نے اپنا اور اس کمرے کا۔۔۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی ہتھیار پھینک دو گے۔۔۔۔تمہیں خود پہ بھروسہ نہیں تھا یا الّٰلہ پہ نہیں تھا۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ایک ایک چیز واپس اپنی جگہ پہ رکھتے ہوئے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔۔۔صارم شاہ اس سے نظریں چراتا رخ پھیر گیا کہ کہیں وہ دیکھ نہ لے کہ وہ رویا ہے۔۔۔مگر احتشام شاہ اندر آتے ہی سب دیکھ چکا تھا۔۔۔مگر ان دیکھا کر گیا۔۔۔
                      " جانتے ہو پنچایت میں ہونے والے فیصلے اور بابا سائیں کے حکم کے بعد میرے اندر بھی اک آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔دل کر رہا تھا ہر چیز تہس نہس کردوں۔۔۔مگر میں آخری سانس تک لڑنے پہ یقین رکھتا ہوں۔۔۔اور تم سے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ ہمت مت ہارنا۔۔۔
                      پریشانی میں پریشان ہونا پریشانی کو اور بڑھا دیتا ہے۔۔۔بندہ الّٰلہ پہ بھروسہ رکھ کر اپنے رستے پہ چلتا رہے تو وہ بندہ منزل پہ ضرور پہنچتا ہے۔۔۔الّٰلہ اسکے لیے نئے رستے کھول دیتا ہے۔۔۔
                      جیسے اس وقت جب کہ ہمیں لگ رہا تھا کہ سب ختم ہو گیا ہے۔۔۔ مگر دیکھو الّٰلہ نے عینا کی صورت میں پھر سے ہمارے ہاتھ میں امید کی ڈور تھما دی ہے۔۔۔"
                      احتشام شاہ دروازہ کھلتے ہی کمرے میں داخل ہوا تو پورے کمرے کا حشر نشر ہوا پڑا تھا۔۔۔ہر چیز الٹی ہڑی تھی۔۔۔بیڈ کی چادر ، تکیے ، صوفہ ، دیوار گیر اسکا بڑا سا فوٹو فریم ، سب زمین بوس تھے۔۔۔اسکی اپنی آنکھیں بھی سرخ سوجی ہوئی تھیں جو اسکے رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ مرد روتے نہیں۔۔۔مگر کوئی آ کر اس عاشق کو دیکھتا جو ایک عورت کی محبت میں تڑپ رہا تھا سسک رہا تھا۔۔۔اُس کے دور جانے کا دکھ اسے اندر ہی اندر مار رہا تھا۔۔۔
                      مگر سستے اور بے لگام عاشقوں کی طرح نہ تو مایوس ہو کر اس نے عائلہ کی عزت پہ ہاتھ ڈالا تھا ۔۔۔جیسا کہ عموماً آج کل محبت کا دعویٰ کرنے والے کرتے ہیں۔۔۔جو نام تو محبت کا لیتے ہیں مگر انکے دل دماغ میں صرف پا لینے کی اور جسم کی بھوک مچل رہی ہوتی ہے۔۔۔چاہے نکاح سے پہلے یہ بھوک مٹے یا نکاح کے بعد۔۔۔مقصد بس حاصل کرنا ہوتا ہے۔۔۔
                      صارم شاہ نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر محبت کو رسوا کرتے ہوئے عائلہ کو اٹھا کر لانے کی جرأت بھی نہیں کی تھی۔۔۔
                      اور نہ اپنے پیروں سے بندھی اپنے باپ کے حکم کی زنجیر کو اپنے پیروں سے اتارا تھا۔۔۔
                      وہ ان مردوں میں سے تھا جو مرتے مر جاتے ہیں مگر اپنی محبت کو رسوا کبھی نہیں کرتے۔۔۔اور سچ تو یہی ہے کہ یہی مرد ہی اصل مرد کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔۔۔
                      " مطلب کیا ہے آپکی بات کا۔۔۔"
                      صارم شاہ نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
                      " مطلب یہ کہ احتشام شاہ بن حشمت شاہ کا نکاح با حق مہر 10 لاکھ روپے صارم شاہ کی بہن عینا رشید کے ساتھ تہ پایا ہے۔۔۔اور عینا رشید جو کہ پہلے صارم شاہ کی منہ بولی بہن تھی اب صارم شاہ کی بھابھی ہو گی۔۔۔اور بھابھی کے گھر دیور کو جانے سے کون روک سکتا ہے بھلا۔۔۔اس کا باپ بھی نہیں۔۔۔اور مجھے تو بلکل نہیں۔۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے سرشار لہجے میں صارم شاہ کو آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔تو اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے صارم شاہ نے یکدم احتشام شاہ کو پہلے زور سے گلے سے لگایا پھر خوشی کے مارے اسے اٹھا کر گول گول گھمانے لگا۔۔۔
                      " یا ہووووو۔۔۔۔ہاااااااا۔۔۔۔۔دلاور کی ایسی کی تیسی۔۔۔۔رشید احمد کی ایسی کی تیسی۔۔۔۔"
                      صارم شاہ تقریباً چلانے کے سے انداز میں اونچی اونچی ہنستے ہوئے احتشام شاہ کو چکر دیتے کہنے لگا۔۔۔
                      " یار بس کر اتار مجھے۔۔۔انکی ایسی کی تیسی کا تو پتہ نہیں مگر میری ہو رہی ہے ۔۔۔کیوں چکر دے دے کر مجھے پاگل کر رہے ہو ایسا نہ ہو کہ نکاح کے وقت بھی مجھے چکر آ رہے ہوں اور یہ نکاح پھر سے کسی چکر میں پڑ جائے۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ہنستے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا تو صارم شاہ نے بھی ہنستے ہوئے احتشام شاہ کو چھوڑ دیا۔۔۔
                      " یہ شیرنی ہے کدھر۔۔۔"
                      صارم شاہ نے ہنستے ہوئے ہوچھا۔۔۔
                      " بابا سائیں کے روم میں۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔
                      " آ جائیں پھر ادھر ہی چلتے ہیں۔۔۔"
                      صارم شاہ نے احتشام شاہ کا بازو پکڑ کر مسکراتےکہا۔۔۔
                      " تم چلو۔۔۔۔ماما نے نکاح ہونے تک میرے ادھر آنے پہ پابندی لگا دی ہے۔۔۔اور تمہیں فوراً کمرے میں بلایا ہے۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے کہا تو صارم شاہ مسکرا کر باہر نکل گیا۔۔۔
                      " میری بہت خواہش تھی بیٹا کہ تم دونوں بہنیں میرے گھر کی رونق بنتیں۔۔۔اور اس کے لیے ہم نے ہر ممکن کوشش بھی کی۔۔۔مگر شائد قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔
                      عائلہ بیٹی کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد ہم احتشام بیٹے کے لیے آپ لوگوں کی طرف آنے کا سوچ رہے تھے کہ ایک نیا مسلہ کھڑا ہو گیا اور آپکی والدہ بھی کومہ میں چلی گئیں۔۔۔
                      اس طرح سے اپنے بیٹے کی شادی یا نکاح کا ہرگز نہیں سوچا تھا۔۔۔میں چاہتی تھی کہ جب میرے بیٹے کی شادی یا نکاح ہو تو سارا زمانہ دیکھے۔۔۔بہت چاؤ سے بہت محبت سے آپکو اس گھر میں لے کر آتی۔۔۔مگر حالات جو رخ اختیار کر گئے ہیں اس کے بعد ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ یہی بہتر ہے۔۔۔
                      آپ کی طرف سے کوئی اور شامل نہیں ہوگا کیا۔۔۔عائلہ کیا جانتی ہے آپکے اس فیصلے کے بارے میں۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے کہا۔۔۔
                      " شائد ہاں۔۔۔شائد نہیں۔۔۔اور میری طرف سے صرف امی اور بہنیں تھیں۔۔۔امی کا آپکو پتہ ہے۔۔۔عائلہ بھی نہیں آ سکتی۔۔۔اور کوئی ہے نہیں۔۔۔"
                      عینا نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
                      " عینا تم اپنے بھائی کو کیسے بھول سکتی ہو میں اور عائلہ اور ایمن ہوں گے تمہاری طرف سے۔۔۔عائلہ ضرور آئے گی۔۔۔تم دیکھنا تمہارا یہ بھائی کرتا کیا ہے۔۔۔"
                      صارم شاہ نے روم میں داخل ہوتے عینا کی بات سنی تو محبت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔صارم شاہ کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر ہائمہ خاتون اور شاہ سائیں بھی مسکرا دئیے۔۔۔ہائمہ خاتون عینا کے واری صدقے جانے لگیں۔۔۔جسکی وجہ سے ان کے دونوں بیٹوں کے چہرے پہ مسکراہٹیں رقص کرنے لگی تھیں۔۔۔
                      " صارم بیٹا کوئی گڑ بڑ مت کرنا۔۔۔اور دین محمد سے کہو کہ جلدی سے جاکر مولوی عثمان کو بلا لائے۔۔۔اور ساری بات اچھے سے سمجھا دینا اسے۔۔۔"
                      شاہ سائیں نے کہا۔۔۔تو صارم شاہ سر ہلاتے باہر نکل گیا۔۔۔
                      ہائمہ خاتون نے ایک گھنٹے کے اندر اندر سب تیاری مکمل کر لی تھی۔۔۔فوری طور پہ انھوں نے فجر کی الماری سے اس کا کریم کلر کا ان ٹچ ڈریس عینا کو پہننے کے لیے نکال دیا تھا جس پہ ہلکا ہلکا سا دھاگے کا بہت نفیس سا کام کیا گیا تھا۔۔۔البتہ دوپٹہ کافی بھاری تھا جس پہ مرجنڈا کلر میں ایمبرائیڈری ورک کے ساتھ ہم رنگ سٹون کا پورے دوپٹے پہ سپرے کیا گیا تھا۔۔۔گاؤں میں شاہ سائیں کا کوئی بھی قریبی عزیز نہیں تھا اس لیے وہ اپنے بہت خاص قریبی تین چار دوستوں کو دعوت دے آئے تھے نکاح پہ آنے کے لیے۔۔۔
                      رشیداں بوا نے عینا کے ہاتھوں پہ اس کے منع کرنے کے باوجود ایمرجنسی کون مہندی سے نقش و نگار بنا دئیے تھے۔۔۔
                      صارم شاہ نے اپنا وعدہ نبھایا تھا اس نے رشیداں بوا کو اپنے ساتھ لیا پہلے انکو سکینہ خالہ کے گھر چھوڑا۔۔۔پھر وہ پنچایت کے ممبران میں سے ایک ممبر چاچا رحیم کے پاس گیا جس سے اس کی اچھی سلام دعا تھی۔۔۔صارم شاہ نے اس سے کہا کہ وہ رشید احمد کو بس کچھ دیر کے لیے اپنے ہاس بلا لے کہ آج کے مسلے پہ بات کرنی ہے۔۔۔
                      پھر وہ دوبارہ خالہ سکینہ کے گھر گیا۔۔۔
                      صارم شاہ نے خالہ سکینہ کے سامنے سارا معاملہ کھول کر رکھ دیا۔۔۔خالہ سکینہ رشید احمد سے اچھی طرح واقف تھیں وہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ عائلہ کی شادی دلاور سے ہو۔۔۔اس لیے وہ صارم کی مدد کرنے پہ آمادہ ہوگئیں۔۔۔اور رشیداں بوا کے ساتھ عائلہ کے گھر چلی آئیں۔۔۔
                      رشیداں بوا نے عائلہ سے کہا کہ عینا نے اسے فوراً حویلی پنچنے کا کہا ہے اور یہ بھی کہ اگر وہ نہ آئی تو وہ اپنی جان دے دے گی۔۔۔عائلہ پریشان ہوکر فوراً حویلی جانے پہ رضامند ہو گئ۔۔۔انکی واپسی تک کے لیے خالہ سکینہ مہرالنساء کا دھیان رکھنے کے لیے ان کے پاس بیٹھ گئیں۔۔۔
                      احتشام شاہ نے فجر کی شادی پہ پہنا ہوا ڈارک گرے کلر کا کرتا پاجامہ اور اس کے اوپر ہم رنگ ویسکوٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔۔۔
                      عائلہ کو اندازہ تھا کہ عینا کوئی ایسا قدم ہی اٹھائے گی مگر اس طرح سے اتنی جلدی اپنی ماں کی دعاؤں کے بنا اس نے کبھی بھی نہ اپنے لیے سوچا تھا نہ عینا کے لیے۔۔۔مگر دلاور کے لہجے اور آنکھوں میں اپنے لیے جنونیت دیکھ کر وہ بہت خوفزدہ ہو گئ تھی اس لیے اسے بھی لگا کہ جو ہو رہا وہی بہتر ہے۔۔۔عینا کا کسی مضبوط رشتے میں بندھنا بہت ضروری تھا۔۔۔نکاح کی رسم بہت سادگی اور خاموشی سے سر انجام پا گئ۔۔۔نکاح کے بعد ہائمہ خاتون نے سب کا منہ میٹھا کروایا۔۔۔اور عینا کی بلائیں لینے لگیں۔۔۔
                      شاہ سائیں اور صارم شاہ نے بہت گرم جوشی سے احتشام شاہ کے گلے مل کر اسے مبارک باد دی۔۔۔عائلہ نے بھی نم آنکھوں سے عینا کو مبارک باد دی۔۔۔تو عینا سسک پڑی۔۔۔کب سے خود پہ ضبط کرتی عائلہ کے بھی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔۔۔
                      " ارے یہ کیا۔۔۔آج تو بہت خوشی کا دن ہے اور تم لوگ رو رہی ہو۔۔۔تم لوگ دیکھنا اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔"
                      ہائمہ خاتون نے انھیں باری باری گلے لگاتے کہا۔۔۔
                      " میں چلتی ہوں اب۔۔۔ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کو غائب پا کر ابا کوئی نیا مسلہ کھڑا کردیں۔۔۔
                      عائلہ نے عینا کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔عینا اس کے " میں " پہ حیران ہو کر اسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔اسی وقت احتشام شاہ کے ساتھ صارم شاہ روم میں داخل ہوئے۔۔۔احتشام شاہ کے اندر آتے ہی عینا نے خود پہ لیا دوپٹہ جلدی سے کھینچ کر نیچے کیا جس سے اس کا سارا چہرہ چھپ گیا۔۔۔چہرہ چھپانے کے باوجود اسے یوں لگ رہا تھا جیسے احتشام شاہ کی نظریں اسے اندر تک دیکھ رہی ہیں۔۔۔اس کے دل میں عجیب پکڑ دھکڑ شروع ہو گئ۔۔۔اے سی اون ہونے کے باوجود اسکی ہتھیلیاں نم ہونے لگیں۔۔۔ایک نئے رشتے نئ پہچان نے اسے ایک لمحے میں سر تا پا بدل کر رکھ دیا۔۔۔
                      " عائلہ بیٹا اب سارے خوف دل سے نکال دو۔۔۔آج سے عینا کے ساتھ ساتھ آپ سب بھی میری ذمہ داری ہو۔۔۔میں کسی کو بھی تم لوگوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔اپنے بھائی پہ بھروسہ رکھو۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے عائلہ کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔تو عائلہ کے دل میں اک ہوک سی اٹھی۔۔۔کہ ہر کوئی عینا کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔۔۔
                      " کیا میں اپنی وائفی سے کچھ دیر بات کرسکتا ہوں۔۔۔اگر آپ سب کی اجازت ہوتو۔۔۔"
                      احتشام شاہ نے عینا کی طرف دیکھ کر شوخ لہجے میں کہا تو سب لوگ اثبات میں سر ہلاتے اٹھ کر باہر نکل گئے۔۔۔
                      " بھائی بھولنا مت بہن ہے میری۔۔۔"
                      صارم شاہ جاتے جاتے پلٹ کر ہنستے ہوئے بولا۔۔۔اور دروازہ ہلکے سے بند کردیا۔۔۔دروازہ بند ہونے کی آواز پہ عینا کا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔
                      " د۔۔د دروازہ بند کیوں کیا۔۔۔پلیززز جو بھی بات کرنی ہے پہلے دروازہ کھولیں۔۔۔یہ بات ہم میں پہلے ہی تہ ہوچکی تھی کہ بس سادگی سے نکاح ہوگا اور یہ کہ میں یہ نکاح صرف آپی کی وجہ سے کر رہی۔۔۔اس لیے آپ مجھ پہ کوئی حق نہیں جتائیں گے۔۔۔"
                      عینا خود کو کمپوز کرتی یکدم اپنا گھونگھٹ الٹ کر تیزی سے اپنی جگہ سے کھسک کر احتشام شاہ سے ذرا فاصلے پہ کھڑی ہوتے بنا رکے بولتی چلی گئ۔۔۔احتشام شاہ اسے اپنے نظروں کے حصار میں مقید کیے اسکی بات کی پرواہ کیے بنا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اپنے اور اس کے بیچ کا فاصلہ ختم کرتے اس کے انتہائی قریب آ کھڑا ہوا۔۔۔تو عینا کا سارا اعتماد ہوا بن کر اڑن چھو ہو گیا۔۔۔
                      ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X