Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

احمد فراز

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • احمد فراز

    سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
    سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اسکی
    سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
    سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے چشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
    سنا ہے اسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اسکی
    سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
    سو اسکو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
    سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
    سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اسکی
    جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
    بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
    سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
    رکے تو گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں
    چلے تو اسکو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
    اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
    اب اسکے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کرجائیں
    فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

  • #2
    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
    ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
    یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
    غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
    نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
    تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
    دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
    کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
    اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
    جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

    Comment


    • #3


      رنجش ہی سہی، دل ہی دُکھانے کے لیئے آ
      آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

      کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
      تُو بھی تو کبھی مُجھ کو منانے کے لیے آ

      پہلے سے مراسم نہ سہی، پھر بھی کبھی تو
      رسم و رہِ دنیا ہی نِبھانے کے لیے آ

      کس کس کو بتائیں گے جُدائی کا سبب ہم
      تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

      اِک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
      اے راحتِ جاں! مجھ کو رُلانے کے لیے آ

      اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں اُمیدیں
      یہ آخری شمعیں بھی بُجھانے کے لیے آ

      Comment


      • #4
        گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
        اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
        فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
        جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
        تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
        میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
        تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
        میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
        نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
        نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
        بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
        سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
        نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
        نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
        نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
        نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی
        تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
        ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
        تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
        ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
        ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
        ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
        الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
        عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
        سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
        شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
        سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
        سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
        ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
        دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
        اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
        یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
        بہت دنوں سے ہیں ویراں رفاقتوں کے دیار
        بہت اداس ہیں دیر و حرم کی دنیائیں
        چلو کہ پھر سے کریں پیار کا سفر آغاز
        چلو کہ پھر سے ہم ایک دوسرے کے ہو جائیں
        تمہارے دیس میں آ یا ہوں اب کے دوستو
        نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے
        اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو چلو
        میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

        Comment


        • #5
          لا جواب
          اردو سٹوری کا ایک اور تہلکہ خیز ادبی سلسلہ شروع ہوا ہے
          جو بہت اچھی بات ہے
          ایڈمن صاحب تحریف کے مستحق ہیں
          بہت خوب

          Comment


          • #6


            اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
            مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

            محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
            مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے

            ہوا میں نشہ ہی نشہ، فضا میں رنگ ہی رنگ
            یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے

            بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
            سو میں نے رشتہِ غم کو بحال رکھا ہے

            ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ عدو
            سبھی نے وعدۂِ فردا پہ ٹال رکھا ہے

            بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
            کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

            فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
            یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے

            Comment


            • #7
              بستیاں دُور ہُوئی جاتی ہیں رفتہ رفتہ
              دم بہ دم آنکھوں سے چُھپتے چلے جاتے ہیں چراغ
              بستیاں چاند سِتاروں کی بسانے والو
              کُرۂ ارض پہ بُجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

              Comment


              • #8
                دولتِ درد کودنیاسے چھپا کررکھنا
                آنکھ میں بوند نہ ہودل میں سمندر رکھنا
                کل گئے گزرے زمانے کاخیال آئے گا
                آج اتنا بھی نہ راتوں کومنور رکھنا
                اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
                دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا
                آس کب دل کو نہیں تھی تیرے آجانے کی
                پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا
                ذکر اسکا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہوفراز
                درد کیسا بھی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا​​​​​​

                Comment


                • #9
                  تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
                  میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں
                  مجھ سے گریز پا ہے تو ہرراستہ بدل
                  میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
                  تو آچکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں
                  بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں
                  اے یارِ خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں
                  کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں
                  تو لُوٹ کر بھی اہلِ تمناکوخوش نہیں
                  میں لُٹ کے بھی وفا کے انہیں قافلوں میں ہوں
                  بدلا نہ میرے بعد بھی موضوعِ گفتگو
                  میں جاچکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
                  مجھ سے بچھڑ کے توبھی تو روئے گا عمر بھر
                  یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
                  تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر
                  اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں
                  خود بھی مثالِ لالۂِ صحرا لہولہو
                  اور خود فراز اپنے تماشائیوں میں ہوں

                  Comment


                  • #10
                    بھلے دنوں کی بات ہے
                    بھلی سی ایک شکل تھی
                    نہ یہ کہ حسن تام ہو
                    نہ دیکھنے میں عام سی
                    نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
                    مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے
                    کوئی بھی رت ہو اس کی چھب
                    فضا کا رنگ روپ تھی
                    وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
                    وہ سردیوں کی دھوپ تھی
                    نہ مدتوں جدا رہے
                    نہ ساتھ صبح و شام ہو
                    نہ رشتۂ وفا پہ ضد
                    نہ یہ کہ اذن عام ہو
                    نہ ایسی خوش لباسیاں
                    کہ سادگی گلہ کرے
                    نہ اتنی بے تکلفی
                    کہ آئنہ حیا کرے
                    نہ اختلاط میں وہ رم
                    کہ بد مزہ ہوں خواہشیں
                    نہ اس قدر سپردگی
                    کہ زچ کریں نوازشیں
                    نہ عاشقی جنون کی
                    کہ زندگی عذاب ہو
                    نہ اس قدر کٹھور پن
                    کہ دوستی خراب ہو
                    کبھی تو بات بھی خفی
                    کبھی سکوت بھی سخن
                    کبھی تو کشت زعفراں
                    کبھی اداسیوں کا بن
                    سنا ہے ایک عمر ہے
                    معاملات دل کی بھی
                    وصال جاں فزا تو کیا
                    فراق جاں گسل کی بھی
                    سو ایک روز کیا ہوا
                    وفا پہ بحث چھڑ گئی
                    میں عشق کو امر کہوں
                    وہ میری ضد سے چڑ گئی
                    میں عشق کا اسیر تھا
                    وہ عشق کو قفس کہے
                    کہ عمر بھر کے ساتھ کو
                    وہ بد تر از ہوس کہے
                    شجر حجر نہیں کہ ہم
                    ہمیشہ پا بہ گل رہیں
                    نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
                    گلے میں مستقل رہیں
                    محبتوں کی وسعتیں
                    ہمارے دست و پا میں ہیں
                    بس ایک در سے نسبتیں
                    سگان با وفا میں ہیں
                    میں کوئی پینٹنگ نہیں
                    کہ اک فریم میں رہوں
                    وہی جو من کا میت ہو
                    اسی کے پریم میں رہوں
                    تمہاری سوچ جو بھی ہو
                    میں اس مزاج کی نہیں
                    مجھے وفا سے بیر ہے
                    یہ بات آج کی نہیں
                    نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
                    نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
                    جو عہد ہی کوئی نہ ہو
                    تو کیا غم شکستگی
                    سو اپنا اپنا راستہ
                    ہنسی خوشی بدل دیا
                    وہ اپنی راہ چل پڑی
                    میں اپنی راہ چل دیا
                    بھلی سی ایک شکل تھی
                    بھلی سی اس کی دوستی
                    اب اس کی یاد رات دن
                    نہیں، مگر کبھی کبھی

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X