Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

احمد فراز

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    مجھ سے پہلے
    احمد فراز
    مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
    شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
    ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
    اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
    میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمان وفا
    کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
    شاید اب لوٹ کے آئے نہ تری محفل میں
    اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں
    میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
    وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
    چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
    مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ
    پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
    مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
    زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
    دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
    یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
    تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
    تو کہ معصوم بھی ہے زود فراموش بھی ہے
    اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے
    اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
    ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہ جاؤں
    جس پہ پہلے بھی کئی عہد وفا ٹوٹے ہیں
    اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

    Comment


    • #12
      محاصرہ
      احمد فراز

      دلچسپ معلومات

      ضیاءالحق کی سخت پالیسی پر چوٹ کرتے ہوئے۔۔ اسی پس منظر میں احمد فراز نے یہ نظم تخلیق کی ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مشاعرے میں یہ نظم پڑھنے کے بعد احمد فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا.


      مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
      کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
      فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
      کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
      وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
      وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
      بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
      وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
      سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
      سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
      تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
      امید لطف پہ ایوان کج کلاہ میں ہیں
      معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو
      مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں
      تم اہل حرف کہ پندار کے ثناگر تھے
      وہ آسمان ہنر کے نجوم سامنے ہیں
      بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر
      گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں
      قلندران وفا کی اساس تو دیکھو
      تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو
      سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
      تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
      وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
      بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
      یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
      اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
      کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
      تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
      سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کے لیے
      کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ
      اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت
      اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
      مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
      جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
      مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
      جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
      مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
      جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
      مرا قلم نہیں اس دزد نیم شب کا رفیق
      جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
      مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
      جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
      مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
      جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
      مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
      مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
      اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
      جبھی تو لوچ کماں کا زبان تیر کی ہے
      میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
      کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
      تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
      مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
      سرشت عشق نے افتادگی نہیں پائی
      تو قد سرو نہ بینی و سایہ پیمائی

      Comment


      • #13
        واپسی
        احمد فراز
        اس نے کہا
        سن
        عہد نبھانے کی خاطر مت آنا
        عہد نبھانے والے اکثر
        مجبوری یا مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیں
        تم جاؤ
        اور دریا دریا پیاس بجھاؤ
        جن آنکھوں میں ڈوبو
        جس دل میں اترو
        میری طلب آواز نہ دے گی
        لیکن جب میری چاہت
        اور مری خواہش کی لو
        اتنی تیز اور اتنی
        اونچی ہو جائے
        جب دل رو دے
        تب لوٹ آنا

        Comment


        • #14
          یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
          احمد فراز

          یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
          تمام تیری حکایتیں ہیں
          یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
          یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
          میں سب تری نذر کر رہا ہوں
          یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
          جو زندگی کے نئے سفر میں
          تجھے کسی وقت یاد آئیں
          تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
          پہن کے انفاس کی قبائیں
          اداس تنہائیوں کے لمحوں
          میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
          مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
          اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
          ہزار غم تھے جو زندگی کی
          تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
          مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
          درد کی ریت چھانتا ہوں
          مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
          یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
          یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
          یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
          یہ درد موج صبا ہوا ہے
          یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
          اور اب یہ ساری متاع ہستی
          یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
          یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
          جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
          جو تیری قربت تری جدائی
          میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
          وہ تیرا شاعر ترا مغنی
          وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
          وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
          اور ادائیں غریب سی تھیں
          وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
          خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
          نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
          بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
          وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
          کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
          وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
          اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے

          Comment


          • #15
            Jb se tiktok aya sb purany poets ko bhl gye zbrdast

            Comment


            • #16
              ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
              احمد فراز

              ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
              کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
              عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
              اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
              ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
              کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
              دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
              جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
              کم نہیں طمع عبادت بھی تو حرص زر سے
              فقر تو وہ ہے کہ جو دین نہ دنیا رکھے
              ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
              جا خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
              یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ
              ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے

              Comment


              • #17
                اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
                احمد فراز

                اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
                یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
                صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
                سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
                اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
                اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
                تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق
                آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
                وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
                ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم

                Comment


                • #18
                  سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
                  احمد فراز


                  سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
                  دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
                  اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
                  میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی
                  جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
                  اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی
                  یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
                  اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
                  اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
                  اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
                  ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
                  ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
                  اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
                  کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی
                  کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
                  مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
                  وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
                  ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی

                  Comment


                  • #19
                    جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
                    احمد فراز

                    جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
                    اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
                    یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
                    یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو
                    اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
                    میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو
                    دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
                    دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
                    یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
                    ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو
                    ہر بزم میں موضوع سخن دل زدگاں کا
                    اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو
                    اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
                    اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو
                    وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے
                    اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو
                    آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
                    یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو
                    اے جان فرازؔ اتنی بھی توفیق کسے تھی
                    ہم کو غم ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو

                    Comment


                    • #20
                      دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      احمد فراز


                      دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      آج تک اپنی بیکلی کا سبب
                      خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے
                      دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      ایک تو حرف آشنا تھا مگر
                      اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      قاصدا ہم فقیر لوگوں کا
                      اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      اے خدا درد دل ہے بخشش دوست
                      آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
                      اب تو اپنا بھی اس گلی میں فرازؔ
                      آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X