Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

احمد فراز

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Originally posted by alone_leo82 View Post
    واپسی
    احمد فراز
    اس نے کہا
    سن
    عہد نبھانے کی خاطر مت آنا
    عہد نبھانے والے اکثر
    مجبوری یا مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیں
    تم جاؤ
    اور دریا دریا پیاس بجھاؤ
    جن آنکھوں میں ڈوبو
    جس دل میں اترو
    میری طلب آواز نہ دے گی
    لیکن جب میری چاہت
    اور مری خواہش کی لو
    اتنی تیز اور اتنی
    اونچی ہو جائے
    جب دل رو دے
    تب لوٹ آنا
    بہت عمدہ اور کمال
    جدید دور کی وجہ سے اب لوگوں کو پرانے شاعروں سے لگاؤ نہیں رہا
    ایڈمن صاحب اور انکی پوری ٹیم کو مُبارک باد انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا
    بھائی جی بہت کمال شعر ہیں

    Comment


    • #32
      Originally posted by alone_leo82 View Post
      اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
      جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
      ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
      یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
      غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
      نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
      تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
      دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
      آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
      کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
      اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
      جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
      غزل کے پہلے مصرعے کو لازوال شہرت نصیب ہوئی تھی ۔ کچی عمر کی نوخیز کلیوں اور لونڈوں کا پسندیدہ شعر رہا تھا۔

      Comment


      • #33
        Bohat allaaaa poetry hy

        Comment


        • #34
          boht achaa Ahmad Faraz kii kamal shaihri

          Comment


          • #35
            Zabardast ahmad faraz mere pasandida shayar main sy 1 hy

            Comment


            • #36
              شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
              احمد فراز



              ​​​​
              شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
              میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
              جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
              اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
              یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
              اے خسروان شہر قبائیں مجھے نہ دو
              ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں
              ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو
              کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فرازؔ
              کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو

              Comment


              • #37
                جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی
                امجد اسلام امجد


                جو دن تھا ایک مصیبت تو رات بھاری تھی
                گزارنی تھی مگر زندگی، گزاری تھی
                سواد شوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے
                نہ مجھ کو اپنی خبر تھی نہ کچھ تمہاری تھی
                لرزتے ہاتھوں سے دیوار لپٹی جاتی تھی
                نہ پوچھ کس طرح تصویر وہ اتاری تھی
                جو پیار ہم نے کیا تھا وہ کاروبار نہ تھا
                نہ تم نے جیتی یہ بازی نہ میں نے ہاری تھی
                طواف کرتے تھے اس کا بہار کے منظر
                جو دل کی سیج پہ اتری عجب سواری تھی
                تمہارا آنا بھی اچھا نہیں لگا مجھ کو
                فسردگی سی عجب آج دل پہ طاری تھی
                کسی بھی ظلم پہ کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا
                نہ جانے کون سی جاں تھی جو اتنی پیاری تھی
                ہجوم بڑھتا چلا جاتا تھا سر محفل
                بڑے رسان سے قاتل کی مشق جاری تھی
                تماشا دیکھنے والوں کو کون بتلاتا
                کہ اس کے بعد انہی میں کسی کی باری تھی
                وہ اس طرح تھا مرے بازوؤں کے حلقے میں
                نہ دل کو چین تھا امجدؔ نہ بے قراری تھی

                Comment


                • #38
                  یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
                  احمد فراز


                  یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
                  فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
                  یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
                  شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی
                  کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں
                  تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی
                  سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے
                  کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی
                  ہم اپنے دل سے ہی مجبور اور لوگوں کو
                  ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی
                  ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
                  پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی
                  یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں
                  ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی
                  کبھی فرازؔ نئے موسموں میں رو دینا
                  کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی

                  Comment


                  • #39
                    اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
                    احمد فراز


                    اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
                    مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
                    محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
                    مزاج عشق میں کب اعتدال رکھا ہے
                    ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
                    یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے
                    بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
                    سو میں نے رشتۂ غم کو بحال رکھا ہے
                    ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
                    سبھی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے
                    حساب لطف حریفاں کیا ہے جب تو کھلا
                    کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے
                    بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
                    کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے
                    فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
                    یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے

                    Comment


                    • #40
                      نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
                      احمد فراز



                      نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
                      کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو
                      کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شب طرب
                      مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
                      کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
                      کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو
                      یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
                      چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو
                      یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے
                      وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو
                      سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو
                      جو نہیں عدو تو فرازؔ تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X