Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

امجد اسلام امجد

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    یاد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر
    امجد اسلام امجد


    یاد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر
    سوچتا ہوں اب بنا لوں ریت سے ہی کوئی گھر
    کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
    ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور
    وقت کے اندھے کنوئیں میں پل رہی ہے زندگی
    اے مرے حسن تخیل بام سے نیچے اتر
    تو اسیر آبروئے شیوۂ پندار حسن
    میں گرفتار نگاہ زندگیٔ مختصر
    ضبط کے قریے میں امجدؔ دیکھیے کیسے کٹے
    سوچ کی سونی سڑک پر یاد کا لمبا سفر

    Comment


    • #62
      آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
      امجد اسلام امجد


      آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
      کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے
      صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے
      مہر عالم تاب گزرنے والا ہے
      جادوگر کی قید میں تھے جب شہزادے
      قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے
      سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے
      بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے
      دریاؤں میں ریت اڑے گی صحرا کی
      صحرا سے گرداب گزرنے والا ہے
      مولا جانے کب دیکھیں گے آنکھوں سے
      جو موسم شاداب گزرنے والا ہے
      ہستی امجدؔ دیوانے کا خواب سہی
      اب تو یہ بھی خواب گزرنے والا ہے

      Comment


      • #63
        نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
        امجد اسلام امجد


        نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
        یہ معجزہ تو مرے دست بے ہنر سے ہوا
        قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں
        سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا
        میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
        وہ عکس عکس میں تقسیم چشم تر سے ہوا
        سیاہی شب کی نہ چہروں پہ آ گئی ہو کہیں
        سحر کا خوف ہمیں آئینوں کے ڈر سے ہوا
        کوئی چلے تو زمیں ساتھ ساتھ چلتی ہے
        یہ راز ہم پہ عیاں گرد رہ گزر سے ہوا
        ترے بدن کی مہک ہی نہ تھی تو کیا رکتے
        گزر ہمارا کئی بار یوں تو گھر سے ہوا
        کہاں پہ سوئے تھے امجدؔ کہاں کھلیں آنکھیں
        گماں قفس کا ہمیں اپنے بام و در سے ہوا

        Comment


        • #64
          جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے
          امجد اسلام امجد


          جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے
          کچھ کہا جائے نہ سوچا جائے
          دیدۂ کور ہے قریہ قریہ
          آئنہ کس کو دکھایا جائے
          دامن عہد وفا کیا تھا میں
          دل ہی ہاتھوں سے جو نکلا جائے
          درد مندوں سے تغافل کب تک
          اس کو احساس دلایا جائے
          کیا وہ اتنا ہی حسیں لگتا ہے
          اس کو نزدیک سے دیکھا جائے
          وہ کبھی سر ہے کبھی رنگ امجدؔ
          اس کو کس نام سے ڈھونڈا جائے

          Comment


          • #65
            لاجواب بہترین اپڈیٹ
            کمال

            Comment


            • #66
              نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
              امجد اسلام امجد



              نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
              یہ معجزہ تو مرے دست بے ہنر سے ہوا
              قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں
              سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا
              میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
              وہ عکس عکس میں تقسیم چشم تر سے ہوا
              سیاہی شب کی نہ چہروں پہ آ گئی ہو کہیں
              سحر کا خوف ہمیں آئینوں کے ڈر سے ہوا
              کوئی چلے تو زمیں ساتھ ساتھ چلتی ہے
              یہ راز ہم پہ عیاں گرد رہ گزر سے ہوا
              ترے بدن کی مہک ہی نہ تھی تو کیا رکتے
              گزر ہمارا کئی بار یوں تو گھر سے ہوا
              کہاں پہ سوئے تھے امجدؔ کہاں کھلیں آنکھیں

              Comment


              • #67
                بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں
                امجد اسلام امجد


                بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں
                وہم تھا جانے مرا یا آپ ہی بولا تھا میں
                یاد ہے اب تک مجھے وہ بد حواسی کا سماں
                تیرے پہلے خط کو گھنٹوں چومتا رہتا تھا میں
                راستوں پر تیرگی کی یہ فراوانی نہ تھی
                اس سے پہلے بھی تمہارے شہر میں آیا تھا میں
                میری انگلی پر ہیں اب تک میرے دانتوں کے نشاں
                خواب ہی لگتا ہے پھر بھی جس جگہ بیٹھا تھا میں
                آج امجدؔ وہم ہے میرے لیے جس کا وجود
                کل اسی کا ہاتھ تھامے گھومتا پھرتا تھا میں

                Comment


                • #68
                  لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
                  امجد اسلام امجد


                  لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
                  کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں
                  میں خود بھی ڈوب رہا ہوں ہر اک ستارے میں
                  کہ یہ چراغ مرے حسب حال سے کچھ ہیں
                  غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی
                  اس آئنے میں ترے خد و خال سے کچھ ہیں
                  اک اور موج کہ اے سیل اشتباہ ابھی
                  ہماری کشت یقیں میں خیال سے کچھ ہیں
                  ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل
                  شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں

                  Comment


                  • #69
                    دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
                    امجد اسلام امجد


                    دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
                    لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
                    اے کڑی چپ کے در و بام سجانے والے
                    منتظر کوئی سر کوہ ندا ہے کب سے
                    چاند بھی میری طرح حسن شناسا نکلا
                    اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
                    بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
                    کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے
                    شعبدہ بازی آئینۂ احساس نہ پوچھ
                    حیرت چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
                    دیکھیے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
                    شہر پر چھائی ہوئی سرخ گھٹا ہے کب سے
                    کور چشموں کے لیے آئینہ خانہ معلوم
                    ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے
                    کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجدؔ
                    ڈھونڈتی کس کو سر دشت ہوا ہے کب سے

                    Comment


                    • #70
                      ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
                      امجد اسلام امجد


                      ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
                      خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
                      روشنی کا یہ مسافر ہے رہ جاں کا نہیں
                      اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
                      آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشا مانگے
                      اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو
                      اب کے امید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
                      جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو
                      کون سی رت ہے زمانے میں ہمیں کیا معلوم
                      اپنے دامن میں لیے پھرتی ہے حسرت ہم کو
                      زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
                      ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
                      داغ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجدؔ
                      ڈھانپ لیتی نہ اگر چادر رحمت ہم کو

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X