Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مرزا غالب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
    رکھیو یا رب یہ در گنجینۂ گوہر کھلا
    شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
    اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
    گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
    آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا
    گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
    پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
    ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال
    خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
    منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
    زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
    در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
    جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
    کیوں اندھیری ہے شب غم ہے بلاؤں کا نزول
    آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
    کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال
    نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
    اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند
    واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا

    Comment


    • #62
      ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
      خون جگر ودیعت مژگان یار تھا
      اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
      توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا
      گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
      جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا
      موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
      ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا
      کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
      دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا
      کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
      آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا
      کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
      ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا
      جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
      پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا
      دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
      خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا
      صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
      جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا

      Comment


      • #63
        آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
        صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
        قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
        اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
        ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
        اک گھر میں مختصر بیاباں ضرور تھا
        اے وائے غفلت نگۂ شوق ورنہ یاں
        ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
        درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
        وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
        ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
        پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
        شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر
        پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
        جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
        جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا

        Comment


        • #64
          کیا بات ہے مزہ آگیا اچھی شاعری ہے

          Comment


          • #65
            Boht aala or seharangez shaheri

            Comment


            • #66
              Shukriya dosto

              Comment


              • #67
                واہ واہ۔
                اردو کے سرتاج شاعر مرزا غالب۔

                Comment


                • #68
                  Originally posted by Sexy_dick_lhr View Post
                  دکھ دے کر سوال کرتے ہو
                  تم بھی غالب کمال کرتے ہو

                  دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
                  چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو

                  شہرِ دل میں یہ اداسیاں کیسی
                  یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

                  مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
                  تم بھی جینا محال کرتے ہو

                  اب کس کس کی مثال دوں تم کو
                  ہر ستم بے مثال کرتے ہو​
                  کیا بات غالب صاحب کی

                  Comment


                  • #69
                    یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک کو دستور سےرکھ کر محروم
                    بدقسمت ملک کو پہلےبقاوسلامتی سےدور کردیا جائے
                    پھر بےضابطہ ومن مانی آئینی اس میں ردوبدل کرکے
                    باقیات ملک کو بہ مطابق دستور چکناچور کردیا جائے

                    Comment


                    • #70
                      محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
                      یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
                      رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
                      یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
                      تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
                      میں اور دکھ تری مژہ ہائے دراز کا
                      صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں
                      طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا
                      ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اچھل رہے
                      ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
                      کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
                      ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا
                      تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسدؔ
                      سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X