Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

مرزا غالب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #71
    سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی
    عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
    بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی
    جو تو دریاۓ مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
    ز بس خوں گشتۂ رشک وفا تھا وہم بسمل کا
    چرایا زخم ہائے دل نے پانی تیغ قاتل کا
    نگاۂ چشم حاسد وام لے اے ذوق خود بینی
    تماشائی ہوں وحدت خانۂ آئینۂ دل کا
    شرر فرصت نگہ سامان یک عالم چراغاں ہے
    بہ قدر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا
    سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولاں تھا
    ہوا واماندگی سے رہ رواں کی فرق منزل کا
    مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب
    عصاۓ خضر صحراۓ سخن ہے خامہ بے دل کا

    Comment


    • #72
      نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
      حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
      محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
      کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
      رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی
      زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا
      سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں
      پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا
      ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے
      دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا
      نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی
      میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا
      اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے
      برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا

      Comment


      • #73
        نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
        رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے
        بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
        رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے
        وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
        نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے
        رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک
        بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے
        فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
        دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے
        مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
        کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے
        گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
        اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
        بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
        کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
        دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
        بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے
        زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
        کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
        نصیر دولت و دیں اور معین ملت و ملک
        بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لیے
        زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرایش
        بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے
        ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
        سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
        ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
        صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

        Comment


        • #74
          ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
          وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا
          بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا
          کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا
          نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
          لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا
          دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
          مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سرو چراغاں کا
          کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
          کرے جو پرتو خورشید عالم شبنمستاں کا
          مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
          ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
          اگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر
          مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
          خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
          چراغ مردہ ہوں میں بے زباں گور غریباں کا
          ہنوز اک پرتو نقش خیال یار باقی ہے
          دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا
          بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
          سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا
          نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
          قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
          نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ
          کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

          Comment


          • #75
            دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
            ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
            سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
            یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
            میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
            وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
            دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
            گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا
            ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
            گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا
            کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
            ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
            مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ
            ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا
            نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار
            صفحۂ آئنہ جولاں گہ طوطی نہ ہوا
            وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے
            مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا

            Comment


            • #76
              شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
              تماشاۓ بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا
              بہ فیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے
              کشایش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا
              ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل
              کہ انداز بہ خوں غلتیدن بسمل پسند آیا
              روانی ہاۓ موج خون بسمل سے ٹپکتا ہے
              کہ لطف بے تحاشا رفتن قاتل پسند آیا
              اسدؔ ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے
              مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

              Comment


              • #77
                دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
                عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
                تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
                اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
                تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
                مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
                دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
                اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
                جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی
                دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
                احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
                زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
                یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
                حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

                Comment


                • #78
                  Wah intehai khubsoorat shaheri

                  Comment


                  • #79
                    ہر ایک بات پر کہتے ہو تم تو کیا ہے
                    تمھیں کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                    مرزا جی کی کیا بات ہے

                    Comment


                    • #80
                      یاد ہیں غالبؔ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک

                      Yaad hain Ghalib ! Tujhay Woh Din K Wajd-e Zauq main
                      Zakhm Se Girta, To Main Palkon Se Chunta Tha Namak...

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X