Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

میرے سمدھی اور مینوپاز کے بعد سیکس

Collapse
This topic has been answered.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    اف بھائی مزہ آگیا ۔۔بہت ہی عمدہ اور لاجواب کہانی ہے​

    Comment


    • #82

      پارٹ پانچ

      جنید کا فون آیا کہ وہ ایرپورٹ پہنچ چکے ہیں اورٹور کمپنی کی گاڑی سے کاٹج پہنچے رہے ہیں۔ ہم نے ان کےلئے چائے، کافی وغیرتیار کی، بسکٹ غیرہ ٹیبل پر سجاکر انکا انتظار کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ شام سے قبل وہ پہنچ گئے۔ میری بیٹی ماریہ رنگ و روپ میں مجھ پر ہی گئی ہے، بہو عارفہ بھی شکل و شبہاہت میں اپنی ماں یعنی جبین پر ہی گئی ہے۔ پر اس کا رنگ گندمی کے بجائے گورا ہے۔ دونوں نے اپنا سامان بغل کے بیڈ رومز میں سجادیا۔
      چائے وغیرہ لان میں پی کر ہم واک کرنے ساحل سمندر پر نکل گئے۔ بچوں کے آنے کی خوشی دیکھی نہیں جاتی تھی، بس رات کی فکر تھی کیا اب کھل کر سیکس نہیں کر پائیں گے۔۔

      رات کو ڈنر کرنے کے بعد ہم نیچے کے فلور میں باتیں کررہے تھے اور ٹی وی بھی چل رہا تھا۔ پہلے عارفہ اور جنید کھسک کر اوپر بیڈ روم میں چلے گئے اور پھر ہمیں ٹی وی میں مشغول دیکھ شکیل اور ماریہ بھی کھسک گئے۔ ٹی وی تو بس شغل کےلئے کھولا ہوا تھا، کون دیکھ رہا تھا۔

      اب ہم بھی اوپر اپنے بیڈ روم میں آپہہنچے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ لگتا تھا کہ یہ شاید اوپر ایک ہی بڑا کمرہ رہا ہوگا، جس کو لکڑی کی دیوار سے پارٹیشن کرکے تین بیڈ روم نکال کر اٹیچڈ باتھ روم بنائے گئے تھے۔ ہماری دائیں طرف کے بیڈ روم میں عارفہ اور جنید تھے۔ پہلے تو گھٹی گھٹی سی اور پھر زور زور کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں، وہ کام پر لگ چکے تھے۔ اسی اثنا میں بائیں طرف کے بیڈ روم سے جہان شکیل اور ماریہ مقیم تھے، سے بھی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ آوازاں کے اس شور میں کون اب کنٹرول کرسکتا تھا۔

      میں نے اور جبین نے کپڑے اتار کر پھینک دئے اور پھر تقریبا اشفاق کے اوپر پل پڑکر ان کے کپڑے پھاڑ ہی ڈالے۔۔ جلدی اتارنے کے چکر میں ان کی قمیض کے کئی بٹن ہی ٹوٹ گئے۔۔ ہم دونوں نے چوت ان کےسر کی طرف کردئے اور اپنے سر ان کے لنڈ کے پاس رکھ کر اسکو چاٹنے لگے۔ جیبن ایک طرف سے اور میں دوسری طرف سے چاٹ رہی تھیں۔

      دوسرے کمرے سے شکیل کی ننگی گالیاں صاف سنائی دی رہی تھی۔ ہم اشفاق صاحب کی طرف دیکھ کر کہہ رہے تھے، کہ بیٹا بلکل آپ کے اوپر گیا ہے۔

      دوسری طرف جنید آ اوو اوو کررہا تھا۔ عارفہ اونچی آواز میں سی سی سی اووو اووو ہووو ہوو ہاا ہاا ہاا فک فک فک می فک می فک می ہارڈ کی گردان کر رہی تھی۔ دونوں کمروں سے تھپ تھپ چپ چپ کی آوازیں آرہی تھیں۔ دھکے لگنا شروع ہو چکے تھے۔

      میں اور جبین دوبارہ اسی چھ اور نو کی پوزیشن میں بیٹھ گئیں۔ جبین نیچے تھی اور میں اس کے اوپر۔ میرا چہرہ جبین کی چوت کے اوپر تھا۔ میں نے اشفاق صاحب کا لنڈ پکڑا اور اسکو منہ میں گیلا کرکے ان کو اس کو جبین کی چوت میں ڈالنے کےلئے کہا۔ بلکہ اس کو ہاتھ میں رکھ کر جبین کی چوت کے دہانہ پر رکھ دیا۔ ان کے ایک ہلکے سے پش سے وہ اس کے چوت میں غائب ہوگیا۔ اب جو انہوں نے دھکے لگانا شروع کیے اور ان کی ہپس جبین کی ہپس سے ٹکرانے لگیں، تو ہمارے کمرے سے بھی دھپ دھپ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پورا کاٹچ دھپ دھپ دھپ، تھپ تھپ، چوپ چوپ کی آوازوں سے گونچ رہا تھا۔

      عارفہ کی زور سے کراہنے کی آواز آگئی۔۔ لگتا تھا کہ وہ فارغ ہو رہی ہے۔ جنید کے دھکوں کو واضح آوازیں آرہی تھیں، جو تیز ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف بھی ماریہ تقریبا چیخ رہی تھی۔ اور شکیل کے دھکے اور اسکی گالیاں کام کررہی تھیں۔ ان کمروں میں تھوڑی دیر خاموشی چھا گئی۔ لگتا تھا کہ مردوں نے منی انڈیل دی تھی۔

      ہم اپنی جنت میں تھے۔ اشفاق دھکوں پر دھکے لگا رہے تھے۔ جبین کی آوازیں بلند ہو رہی تھی۔ جو یقینا دیوار کے پاس سنائی دی جا رہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد دیواروں کے پار پھر گھٹی گھٹی سی آوازیں آنے لگیں۔

      جبین فارغ ہو رہی تھی۔ میں نے اشفاق کو بتایا کہ منی میرے چوت میں انکو نکالنی ہے۔ اسلئے انہوں نے دھکے لگانا بند کردئے۔ جبین جب پوری طرح فارغ ہوگئی، تو میں اس کے اوپر سے اٹھ گئی۔ اور مشینیری یعنی فیس ٹو فیس پوزیشن میں پیٹھ کے بل لیٹ گئی۔

      اشفاق نے اوپر آکر میری ٹانگوں کو شانے پر رکھا اور پھر چوت کے دہانے پر اپنا ٹوپہ رکھ کر اندر ڈال دیا۔ میں تو پہلے ہی گرم تھی۔ جیبن میرے سائڈ میں لیٹ گئی اور میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔

      دھپ دھپ اور چپ چپ دوسرے کمروں سے پھر آوازیں آرہی تھیں۔

      اشفاق نے دھکے تیز کر دئے۔ شاید دوسرے کمرے میں کوئی کہہ رہا تھا کہ ابو یا انکل بھر پور چدائی کر رہے ہیں۔ اس دوران اشفاق نے اپنی ٹریڈ مارک آوازیں بلند کرنا شروع کیں۔ اب کون ان کے منہ پر ہاتھ یا ٹیپ رکھتا۔ ان ہی بلند آوازوں کے ساتھ وہ میرے اندر فارغ ہوکر میرے اوپر گر پڑے۔

      شاید ان آوازوں کی وجہ سے دوسرے کمروں میں بھی دھکوں میں تیزی ہو گئی تھی۔ اور وہاں سے بھی آوازیں آنے لگیں تھیں۔

      اشفاق صاحب کو اب ہوش آگیا تھا۔ وہ میرے بدن سے اتر کر پاس میں لیٹ گئے۔ جگہ خالی دیکھ کر جبین میرے اوپر لیٹ گئی۔ اور مجھے کسنگ کرنے لگی، زبان کو چوسنے لگی۔ اپنے بوبس میرے بوبس سے ٹکرانے لگی۔ میں نے جبین کو کس کے پکڑا ہوا تھا۔ وہ میرے باوزوں کوچومتے ہوئے دانتوں سے کاٹ بھی رہی تھی۔ اور نیچے اپنی چوت میری چوت سے رگڑ رہی تھی۔

      چوت کی رگڑ، بوبس کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار، زبانوں کی لڑائی سے بل آخر ہم دونوں پھر فارغ ہوگئیں اور اسی طرح سو گئے۔

      دوسرے کمروں میں ابھی سیکس کا کھیل چل رہا تھا۔ وہ جوان تھے اور کئی ٹرن کرنے کا ان کا ارادہ ہوگا۔ میں نے جبین سے کہا کہ لڑکیوں سے کل کہنا چاہے کہ اب پروٹیکشن لینا بند کرو اور ہمیں اب پوتے اور نواسے دے دو۔

      اگلے روز ہم اشفاق کے ساتھ ہی اٹھ گئے اور نہانے کے بعد نیچے جاکر ناشتہ تیار کیا۔ دوسری پارٹیاں رات دیر گئے تک سیکس کرتے رہے۔ اس لئے معلوم تھا کہ وہ دیر سے ہی جاگیں گے۔ ہم نے ناشتہ ٹیبل پر لگادیا تھا۔ پہلے لڑکیان اٹھ گئیں تھی اور نہا دھوکر نیچے آگئیں۔ جبین اور میں نے دونوں سے کہا کہ اس کاٹیج سے اب ہمیں پوتا،یا پوتی چاہئے۔ اب کوئی پروٹیکشن نہیں چلے گی،۔ دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ گوا سے لوڈ ہو کر ہی جائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد ان کے شوہر بھی نیچے آگئے۔

      وہ شہر کی سیر کو نکل گئے۔ ہمیں بھی ساتھ لےجانے پر بضد تھے۔ پر ہم نے کباب میں ہڈی بننا منظور نہیں کیا۔ سًختی سے منع کردیا ۔۔ تھوڑی دیر ساحل کی سیر کرکے وایس گھر آگئے۔ صوفہ پر اشفاق بیٹھے ہی تھے کہ میں نے ان کی پینٹ کھول کر انکا عضو باہر نکال کر اسکا اوورل کرنا شروع کیا۔

      میں جبین کو بتا رہی تھی کہ حیدرآباد میں میرے گھرسے بھوپال کی طرف روانگی کے وقت جب باہر ٹیکسی ان کو ایرپورٹ لینے کےلئے آئی تھی، تو انہوں نے ایسے ہی دروزہ کے پاس پینٹ کی زپ کھول کر مجھ سے اورل کروایا تھا۔ میں سمجھی تھی کہ یہ بس آخری دیدار تھا اس لوڑے کا۔

      میں اورل کر رہی تھی، جبین ان کے بال سنوار رہی تھی اور بیچ بیچ میں ان کو کس بھی کر رہی تھی۔ لوڑے کے نیچے زبان کئی بار ٹچ کرکے اور اسکو مساج کرکے وہ پوائیٹ پر پہنچ گئے اور صوفہ کی پشت پر سر ڈال کر اوو اوو اوو اوو اوو ااااا آواوواا کرنے لگے۔

      میں نے ان کا لنڈ منہ سے نہیں چھوڑا، جب تک ایک ایک قطرہ منی کا میرے حلق سے نیچے نہیں اترا اور ان کا لنڈ پوری طرح خشک نہیں ہوا۔ میں نے چوس چوس کر اسکو خشک کردیا۔ اب وہ نرم ہوچکا تھا، مگر میں نے اسکو منہ ہی رکھ کا چاکلیٹ کی طرح چوسنا شروع کیا۔ نرم لنڈ کو منہ میں رکھنے کا اپنی ہی مزا ہے۔ جیسے کوئی نرم بغیر ہڈی کے گوشت کا ٹکڑا چبایا جا رہا ہے۔

      انہوں نے کئی بار میرے سر کو پرے ہٹانے کی کوشش کی، مگر میں بدستور لنڈ کو چوستی رہی۔ اس سے لنڈ میرے ہی منہ میں دوبارہ اکڑ گیا۔ میرے منہ نے اسکو بڑا ہوتے محسوس کیا، اس کی رنگیں پھولتی گئیں۔ پھر میں نے اوپر سے نیچے پھر زبان سے جیسے برش کرکے اسکو جبین کے حوالے کردیا۔

      لنڈ ویٹ تو تھا ہی ، جبین نے اپنا پاجامہ اور پینٹی نکالی اور لنڈ کے اوپر بیٹھ کر اوپر نیچے کرنے لگی۔ اس کی پشت اشفاق کی طرف تھی اور چہرہ میری طرف تھا۔ میں کھڑے ہوکر اس کے ہونٹوں کو کس کرنا شروع کیا۔ اور نیچے جہاں اس کے چوت اور لنڈ کا ملن ہو رہا تھا، میں نے زبان لگا ئی۔۔ اس جگہ میری زبان لگانے سے دونوں اچھل رہے تھے، کہ جیسے ان میں انگارے بھرے جارہے ہوں۔

      اشفاق کے ٹٹوں کو ہاتھوں میں لیکر میں مسل رہی تھی اور زبان اوپر تک لیجاکر چوت کے دہانے تک لے جا رہی تھی، جہاں لنڈ جبیں کے سوراخ میں غائب ہو رہا تھا۔ چند منٹوں میں ہی اشفاق نے اس کی چوت کو سیراب کرنا شروع کیا۔ اور ان کی آوازیں اونچی ہوتی گئیں۔۔ ان کی منی جین کی چوت کی جوسز کے ساتھ نیچے بہہ رہی تھی اور میں اسکو منہ میں لے رہی تھی۔ اشفاق تو صوفہ کے پیچھے ٹیک لگا کر حواس کھو بیٹھے تھے۔ جبین نے اتر کر میرے منہ کو جو منی اور اسکے جوس سے لتھڑا تھا زبان سے صاف کردیا۔ اسی کے ساتھ اسکو بھی آرگیزم آگیا، کیونکہ میری ان انگلی اس کے چوت کے اندر اور باہر جا رہی تھی۔

      خیر گوا کے ہنی مون کا فائدہ یہ ہوا کہ ماریہ اور عارفہ دونوں لوڈ ہوگئیں۔ جب ہم واپس حیدر آباد پہنچے تو انہوں نے اعلان کردیا کہ انکے پیرڈ مس ہو گئے ہیں۔ عارفہ خودہی ڈاکٹر تھی، نے چیک کرکے کنفرم کردیا کہ وہ اور ماریہ دونوں حمل سے ہیں۔۔

      گوا کی اگلی راتیں بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ اب یہ ہوتا تھا کہ ہم رات کو بس ایک بار سیکس کرکے سو جاتے تھے، ساتھ کے کمروں میں تھپ تھپ چپ چپ ہا ہا ہوہو ہو کی آوازیں اور شکیل کی گالیاں واضح سنائی دیتے ہیں۔ دن کے وقت جب بچے باہر جاتے تھے، تو ہم اشفاق پر ٹوٹ پڑتے تھے یا آپس میں گیم کھیلتے تھے۔

      ہم ساتھ ہی حیدر آباد واپس آگئے۔ اگلے ایک سال کے دوران اشفاق کے کاروبار کو خوب برکت ہوئی۔ لگتا تھا کہ سبھی خزانے ان پر کھول دئے گئے ہیں۔ انہوں نے شکیل کو بھی اب حیدر آباد ہی بلایا۔۔ ان کو کئی بڑے کنٹریکٹ کنسٹرکشن کے مل گئے تھے۔ چونکہ ان کا کام اچھا اور پائیدار ہوتا تھا، اسلئے حیدر آباد کے نواح میں بن رہے سائبر آباد کے اکثر کنٹریکٹ انہوں نے ہی حاصل کردئے۔ سبھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بلڈنگوں اور دیگر کام ان کو ملتا گیا۔

      انہوں نے اب کنسٹرکش میٹیرل کی کئی فیکٹریاں بھی لگائی تھیں، جس میں ٹائلز، سیمنٹ اور فٹنگ وغیرہ کا سامان بنتا تھا۔ انہوں نے جنید کو بھی اپنے کاروبار میں شامل کرکے اس کو شکیل کے ساتھ برابر کا پارٹنر بنادیا اور ماریہ ، عارفہ، مہ جبین اور مجھے بھی کاروبار میں سلیپنگ حصہ دار بنادیا۔

      شکیل مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن اور جنید مارکیٹنگ اور کنٹریکٹس کا کام دیکھ رہا تھا۔۔ ان کی کمپنی میں اب کئی سو افراد ملازم تھے۔ ماریہ نے حیدر آباد میں ایک بوٹیک شروع کردیا۔ عارفہ ایک نرسنگ ہوم میں کام کر رہی تھی اب اس نے اپنا کلنک بھی کھولا، جس میں کئی اور ڈاکٹرز بھی کام کرتے تھے۔۔

      اس دوران ہم نے حیدر آباد شہر میں ایک پہاڑی کے اوپر ایک قطعہ زمیں خرید کر اس میں اپنی پسند اور ڈیزائن کے تین گھر بنوائے۔ بیچ کا گھر ہمارا یعنی اشفاق، جبین اور میرا اور اس کے بغل کے دو گھر شکیل اور جنید کے بنے۔ تینوں گھروں کے پیچھے سوئمنگ پول، لان، کچن گارڈن ،بچوں کی پارک وغیرہ بنائی گئی اور سامنے ایک عمدہ سا لان بنا، جہاں ہم اکثر شام کی چائے پیتے ہیں۔

      دوسری منزل کے بیچوں بیچ اشفاق کا بڑا سا بیڈ روم بنایا گیا، جس میں بیڈ بھی بڑا سا رکھا گیا۔ اسکے دونوں اطراف بغل میں دو چھوٹے بیڈروم میرے اور جبین کےلئے مخصوص کئے گیئے، جہاں ہمارا سامان ہوتا تھا۔ اشفاق کے بیڈ روم میں جانے کا قانون یہ بن گیا کہ وہاں بس کپڑے پہنے بغیر جانا ہے۔

      رات کو تو ہم ان کےہی بیڈ روم میں سوتے ہیں۔ اب سیکس روز روز تو نہیں کیا جاسکتا ہے، پر ہم برہنہ سوتے ہیں۔ اور چاہے اشفاق کا سیکس کا موڑ ہو یا نہ ہو، میں اور جبین ان کا لنڈ باری باری منہ میں لیکر ہی سو جاتے ہیں۔ ایک رات میں، تو دوسری رات جبین ان کے کولہوں پر تکیہ رکھ کر ان کے لنڈ کو چاہے سکڑا ہو یا اکڑا، منہ میں لیکر سو جاتے ہیں۔

      رات بھر نیند میں بے خیالی میں اس کو چوستے رہتے ہیں، جیسے کوئی بچا پلاسٹک کی نپل منہ میں رکھ کر چوستا رہتا ہے۔۔ اب جب تک اشفاق صاحب کسی کے منہ میں لنڈ نہ رکھواتے ہیں، تو ان کو نیند ہی نہیں آتی ہے۔

      اشفاق کے دفتر جانے کے بعد یا بسا اوقات ان کی موجودگی میں، جبین اور میں لزبن سیکس کرتے ہیں۔ جیسا میں نے بتایا کہ پہلے تو مجھے کوفت ہوتی تھی، مگر اب اس کو انجواے کرتی ہوں۔۔ چونکہ اشفاق بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اسلئے گلٹ کمپلیس نہیں ہوتا ہے۔

      اسی دوران ماریہ اور عارفہ نے دو بچیوں کو جنم دیا۔ ہمیں کھیلنے کےلئے جیسے کھلونے مل گئے۔۔۔وہ ان کو ہمارے حوالے کرکے اپنے آفس چلے جاتے تھے۔ ان کی وجہ سے اب دن میں کھیل تقریبا بند کرنا پڑا۔

      اشفاق ہمیں سعودی عرب ساتھ لے گئے اور پھر واپس آکر کاروبار سے ریٹائرڈ ہوکر سماجی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے مجھے اور جبین کو بھی اپنے سماجی کاموں میں شامل کروانے کی کوشش کی۔ پر ہم نے منع کردیا۔ ہم نے گھر کے اندر کے کاموں کےلئے کوئی نوکر نہیں رکھا ہے۔۔

      میں اور جبین بچوں کے گھروں کی بھی صفائیاں وغیرہ خود ہی کرتے ہیں، کچن بھی خود ہی سنبھالتے ہیں۔ بس باہر کے کاموں کےلئے ملازم ہیں۔۔ہمارے لئے بھی گاڑی اور ڈرائیور مخصوص رکھا گیا ہے۔ بننے اور سنورنے کئےلئے ہم دونوں اکثر بیوٹی پارلز کا رخ کرتے رہتے ہیں۔

      لان اور کچن گارڈن کو سنبھالنے کےلیے مالی رکھے ہوئے ہیں۔

      افضل اور میرے گھر کو جو ایک لور مڈل کلاس لوکیلٹی میں تھا، اشفاق نے ایک ووکیشنل اسکول کھولا، اس دن وہ مجھے زبردستی ساتھ لے گئے اور مجھ سے اس کا افتتا ح کروایا۔ اس اسکول میں مفت تعلیم اور ہنر سکھایا جاتا ہے، تاکہ افضل کو صدقہ جاریہ پہنچے۔ محلے کے مرد و خواتین، جن کی جھڑکیا ں سن سن کر عمر نکلی تھی، میرے آگے پیچھے بچھے جا رہے تھے۔ اس اسکول سے فارغ ہونے والوں کو انہوں نے اپنی کمپنی اور فیکٹری میں نوکری بھی دی اور کئی ذہین طلبہ کو پالی ٹیکنیک اور انجینرنگ میں داخلہ دلوا کر خرچہ بھی اٹھاتے ہیں۔

      دولت و ثروت کی بہتات کو دیکھتے ہوئے اشفاق اور جبین ابھی بھی یہ گردان دہراتے رہتے ہیں کہ یہ سب ثریا کی چوت کی بدولت ہے۔۔میں تو خود سوچ رہی تھی کہ کہاں وہ میری محرومیوں کے دن اور اب اتنا ہن برس رہا ہے کیا یہ واقعی چوت کا کمال ہے؟

      آئے دن وہ میرے لئے کوئی سونے یا موتی کا ہار لاتے ہیں تو میرا پاجامہ کھول کر اسکو میری چوت کی نظر کرتے ہیں۔ جب بھی باہر جاتے ہیں، تو ہم دونوں کےلئے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔ جبکہ وہ ہار وغیرہ جبین کو گلے میں پہناتے ہیں۔ پر میرا پاجامہ کھول کر اسکو میرے چوت کے ارد گرد رکھتے ہیں۔

      وہ اسکو اپنی خوش نصیبی کی علامت سمجھتے ہیں۔ جب بھی کوئی کامیابی یا کوئی بڑا کنٹریکٹ ملتا یا کوئی نئی فیکٹری کھلتی ہے، تو وہ میرے لئے کوئی قیمتی تحفہ لا کر میرا پاجامہ کھلوا کو اسکو میرے چوت کو جیسے دکھاتے ہیں۔

      میں ان سے بار بار کہتی ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے، اتنا توہم پرست بننا اچھا نہیں ہے۔ یہ آپ کی اپنی محنت کا پھل ہے۔۔۔مگر وہ کہتے ہیں کہ محنت تو میں کب سے کر رہا تھا، پر کوئی گرہ تھی، جس کا لنک تمہاری چوت سے تھا۔ ایسے موقعوں پروہ میری چوت کو خوب چومتےہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہوتا، تو وہ میری چوت کی مورت بناکرپوجنا شروع کردیتے۔

      ایسے موقعوں پر جبین بھی انکا ساتھ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ سب تمہاری چوت کی بدولت ہی ہے۔ وہ دونوں اس کا چوم چوم کر برا حال کردیتے ہیں۔ کبھی تو کسی بڑے کنٹریکٹ کا کاغذ یا کسی نئی فیکٹری کے کاغذ میری چوت سے مس کرکے ہی سائن کرتے ہیں۔


      چٹھے اور آخری حصہ کا انتظار کیجے، اور تب تک براہ مہربانی کمنٹ کا انتظار ہے
      image.png

      Comment


      • #83
        اک سے بڑھ کر ایک اپ ڈیٹ بہت خوب جناب بہت ہی عمدہ

        Comment


        • #84
          کمنٹس مانگے مور۔۔گندے گندے ۔۔۔ تاکہ آگے بڑھا جاءے۔۔۔۔

          Comment


          • #85
            بہترین آغاز کے بعد بہترین انجام کی طرف گامزن

            Comment


            • #86
              بہت ہی عمدہ اور بہترین لاجواب سٹوری
              اسپر ?آیئ لو یو تو بنتا ہے ❤❤❤❤❤❤❤❤

              Comment


              • #87
                zabardast kahani maza agya

                Comment


                • #88
                  بہت عمدہ کہانی، ہر اپڈیٹ پہلے سے بڑھ کر

                  Comment


                  • #89
                    بہت ہی شہوت انگیز سٹوری مزہ آ گیا پڑھ کر

                    Comment


                    • #90

                      نہایت زبردست اور کمال کی سٹوری ہے​

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X