Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #زندگی_اے_تیرے_نال

    #زندگی_اے_تیرے_نال

    #قسط_نمبر_1



    سب گاؤں والے ووٹ ڈال چکے تھے اور اب بے چینی سے گاؤں کے دفتر کے باہر کھڑے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔

    بے چینی اور مستقبل کا خوف انکے چہرے پر چھلک رہا تھا۔تبھی ایک شخص دفتر سے باہر آیا اور باہر میدان میں موجود گاؤں والوں کو دیکھا جو اسے دیکھ کر ایک جگہ پر جمع ہو چکے تھے

    اس آدمی نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھا اور پھر گہرا سانس لے کر سب گاؤں والوں کو دیکھنے لگا۔

    "الیکشن کا نتیجہ آ چکا ہے۔۔۔۔"

    اس آدمی کی بات پر سب گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    "جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پچھلے بارہ سالوں سے ہر تین سال کے بعد یہ الیکشن ہوتا آیا ہے جس کے ذریعے آپ سب اپنی مرضی سے گاؤں کے سردار کا تعین کرتے ہیں۔۔۔۔اس سال بھی آپ سب کی من مرضی کے تحت ہمارے گاؤں کا اگلا سردار چن لیا گیا ہے۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر وہ آدمی خاموش ہو گیا اور سوالیہ نظروں سے ایک آدمی کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا۔

    "فیصلہ سنانے سے پہلے میں الیکشن پر کھڑے ہونے والے نمائندگان کو یہاں بلانا چاہوں گا تا کہ فیصلے کے بعد آپ سب کی موجودگی میں سردار کی دستار بندی کی جا سکے۔۔۔۔"

    اس آدمی نے گہرا سانس لیا۔

    "میں دعوت دیتا ہوں جناب عرشمان ملک صاحب کو جو پچھلے بارہ سالوں سے چار مرتبہ اس الیکشن پر کھڑے ہو چکے ہیں۔۔۔۔"

    اس بات پر سب گاؤں والوں نے تالیاں بجائیں لیکن عرشمان ملک کے ذکر پر ہی سب کے دل خوف سے بند ہوئے تھے۔

    تبھی ان کے پیچھے کھڑی ایک کالے رنگ کی پراڈو کا ایک ملازم نے دروازہ کھولا اور بھورے رنگ کی شلوار قمیض کے نیچے بھوری پشاوری چپل پہنے عرشمان ملک مغرور سے بادشاہ کی مانند گاڑی سے باہر نکلا۔

    سٹائل سے سیٹ کیے سیاہ بال اور نارمل سی داڑھی کے ساتھ وہ سخت با رعب نقوش والا تیس سالہ مرد انتہائی شاندار تھا۔رنگ زیادہ گورا نہیں بلکہ گندمی تھا لیکن یہ بات اسکی وجاہت کو گھٹانے کی بجائے مزید بڑھاتی تھی اس سب پر آنکھوں پر لگا کالا چشما اسکی وجاہت اور رعب کو چار چاند لگا رہا تھا۔

    وہ بے نیاز سا شہزادہ سب کو نظر انداز کر کے چلتا اس دفتر کے برآمدے میں آیا اور لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی آنکھوں سے چشما اتارنے لگا۔اس کو دیکھ کر ہی سب اپنا سر جھکا چکے تھے۔

    آخر کس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ عرشمان ملک سے سر اٹھا کر بات کر سکتا۔کیا پتہ عرشمان ملک اس وجہ سے غصے میں آ کر اسکا سر ہی دھڑ سے جدا کر دیتا۔

    عرشمان بے نیازی سے سب کو دیکھ رہا تھا۔چہرے پر موجود الجھن چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔اسے یوں عام لوگوں کے درمیان آنا بلکل بھی پسند نہیں تھا اور اس بات سے گاؤں کا بچہ بچہ واقف تھا۔

    "اب باری ہے ہمارے دوسرے دعویدار کی جو بارہ سالوں سے عرشمان صاحب کے مقابلے پر کھڑے ہوتے آئے ہیں اور ہر الیکشن جیت کر گاؤں کے سردار بھی بنتے رہے ہیں تو میں یہاں مدعو کرتا ہوں جناب عزم چوہدری صاحب کو۔۔۔۔"

    عزم کے نام پر ہی سب کی آنکھیں منتشر ہوئیں۔اسے دیکھنے کی چاہ پر سب لوگ یہاں وہاں دیکھنے لگے۔اس مجمے میں صرف عرشمان ملک ہی ایک ایسا شخص تھا جو اس نام پر اپنی مٹھیاں نفرت سے بھینچ چکا تھا۔

    تبھی ایک جیپ اس میدان کے پاس آ کر رکی اور سفید شلوار قمیض کے نیچے کالے رنگ کا کھسا پہنے اور سر پر سفید ہی پگڑی پہنے ایک بتیس سالہ مرد اس جیپ سے باہر نکلا۔

    گوری رنگت اور تیکھے نقوش والے اس شخص کو دیکھ کر سب کے چہروں پر ایک مسکراہٹ آ گئی کیونکہ وہ اور کوئی نہیں ان کا سردار عزم چوہدری تھا۔

    عزم نے مخصوص انداز میں اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکراتا ہوا لوگوں کے درمیان سے گزر کر اس دفتر کے برآمدے میں جانے لگا۔

    لوگ عقیدت سے اسے سلام کر رہے تھے اور وہ ہاتھ اٹھا کر سب کو جواب دے رہا تھا۔اس کے لیے گاؤں والوں کی یہ چاہت دیکھ کر عرشمان ملک اپنے دانت کچکچا کر رہ گیا۔

    اسکی آنکھوں میں نفرت دیکھ کر عزم کے ہونٹ شان سے مسکرائے اور وہ بھی اس برآمدے میں موجود شخص کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔

    "میں عرشمان ملک اور عزم چوہدری کو یہاں پر خوش آمدید کہتا ہوں۔۔۔۔"

    اس آدمی نے عقیدت سے کہا اور ہاتھ میں پکڑے کاغذات کو دیکھا۔

    "آپ سب جانتے ہیں کہ یہ الیکشن بارہ سال سے اس گاؤں کا سردار مقرر کرنے کے لیے ہوتا آیا ہے اور عرشمان ملک صاحب اور عزم چوہدری صاحب بارہ سال سے اس الیکشن پر کھڑے ہوتے رہے ہیں اور آپ سب بارہ سال سے چار مرتبہ اپنا سردار۔۔۔۔"

    "سب جانتے ہیں یہ بات فالتو کی باتیں کرنے کی بجائے نتیجہ سناؤ میرے پاس بے کار کا وقت نہیں ہے ضائع کرنے کو۔۔۔۔"

    عرشمان نے اس آدمی کی بات کاٹ کر غصے سے کہا تو وہ آدمی گھبرا کر عرشمان کو دیکھنے لگا جبکہ عزم کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی۔

    "بتا دو سائیں نتیجہ ملک صاحب چوتھی مرتبہ بھی مجھ سے ہارنے کے لیے کچھ زیادہ ہی بے چین ہو رہے ہیں۔۔۔۔"

    عزم نے اپنے مخصوص سرائیکی لہجے میں کہا جبکہ اسکی بات پر عرشمان اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

    "تم جیسے جاہل اور بے کار شخص کے پاس اس سب کے لیے بہت وقت ہو گا لیکن میرا وقت فالتو نہیں۔۔۔۔فورا فیصلہ سناؤ۔۔۔ "

    عرشمان نے حکمیہ انداز میں کہا تو عزم کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

    "ہاں سائیں بتا دو پڑھے لکھے عرشمان ملک کو سرداری سنبھالنی ہے۔۔۔۔"

    عرشمان اسکی آواز میں چھپا طنز محسوس کر سکتا تھا۔اس کا دل تو کر رہا تھا کہ عزم کو سب کے سامنے گولی مار دے لیکن وہ غصے سے جبڑے بھینچنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

    "ٹھیک ہے چوہدری صاحب۔۔۔۔"

    اس آدمی نے عاجزی سے کہا اور گھبرا کر ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھا۔

    "آپ سب کے ووٹ کا فیصلہ اس وقت میرے ہاتھ میں ہے جس کے ذریعے آپ نے اپنا اگلے تین سال تک کا سردار چنا ہے۔۔۔۔"

    اس آدمی نے بات شروع کرتے ہوئے کہا اور گھبرائی سی ایک نگاہ عرشمان اور عزم پر ڈالی جو سرداری کے دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خاندانی اور جانی دشمن بھی تھے۔

    "عرشمان ملک صاحب کو ملے ہیں سات سو اٹھارہ ووٹ۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر وہ آدمی خاموش ہو گیا تو سب نے تالیاں بجائیں اور سب کے ساتھ ساتھ عزم چوہدری کو تالی بجاتا دیکھ عرشمان کا غصہ مزید بڑھ گیا۔

    "اور عزم چوہدری صاحب کو ملے ہیں۔۔۔۔"

    اس آدمی نے گھبرا کر ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھا اور تھوک نگلا۔

    "ایک ہزار پانچ سو اٹھائیس ووٹ۔۔۔۔"

    اسکے اتنا کہتے ہی لوگوں نے انتہائی زور و شور سے تالیاں بجائیں جبکہ عزم تو بس فاتح مسکان کے ساتھ عرشمان کو دیکھ رہا تھا جو بمشکل اپنے غصے پر قابو پائے وہاں کھڑا تھا۔

    "تو پچھلے تین بار کی طرح چوتھی مرتبہ بھی عزم چوہدری صاحب اس گاؤں کے سردار بنے ہیں۔۔۔۔"

    لوگوں کی تالیوں کا شور مزید بلند ہوا اور عرشمان نفرت سے مٹھیاں بھینچتا وہاں سے چلا گیا۔ایک بار پھر سے ناکام ہونے پر عرشمان کو سب سے نفرت ہو رہی تھی۔

    وہ ہر لحاظ سے عزم سے زیادہ بہتر تھا۔جہاں عزم ایک ان پڑھ انسان تھا وہیں عرشمان کے پاس ایم اے سیاسیات کی ڈگری تھی لیکن پھر بھی وہ اس جاہل شخص سے ہارتا آیا تھا۔

    عرشمان کو غصہ تو ان گاؤں والوں پر آتا تھا جو ہر مرتبہ عزم کو اس پر فوقیت دیتے تھے۔عرشمان نے نفرت اور غصے کی شدت سے اپنا ہاتھ اپنی مہنگی پراڈو کی کھڑکی پر مارا۔

    چوہدری اور ملک خاندان اس گاؤں کے سب سے امیر خاندان تھے جن کی ملکیت میں تقریباً پورے گاؤں کی زمینیں تھیں اور اس وجہ سے دونوں ہی خاندان گاؤں کی فلاح کے لیے بہت کچھ کرتے آئے تھے لیکن جو بات گاؤں والوں کے لیے مسلہ تھی وہ تھی چوہدری اور ملک خاندان میں دشمنی جس سے یہ خاندان بارہ سالوں سے نفرت کی آگ میں دہک رہے تھے۔

    ان کا بس چلتا تو ایک دوسرے کو ختم کر دیتے لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اگر عرشمان ملک آگ تھا تو عزم چوہدری بجلی۔دونوں ہی تو طاقت اور دولت کی مورت تھے اور ان کا تنازعہ پورے گاؤں کو جلا کر خاک کر سکتا تھا۔

    عرشمان نفرت سے اپنے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھنے لگا جو شیشے کی کھڑکی توڑنے کی وجہ سے اسکے ہاتھ پر موجود زخم سے سے بہہ رہا تھا۔

    "چچچچچ۔۔۔۔۔کیا فائدہ اتنی پڑھائی کا سائیں،شہر کی ڈگریوں کا ۔۔۔۔ملک صاحب پھر سے آٹھویں فیل چوہدری سے ہار گئے۔۔۔۔"

    اپنے پیچھے سے عزم کی آواز سن کر عرشمان نفرت سے اسکی جانب پلٹا۔

    "اپنی حد میں رہو چوہدری،اگر میں حد دیکھانے پر آیا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

    عرشمان نے اپنے ہاتھ میں موجود زخم میں ناخن گاڑھ کر کہا۔اسکے بازو میں اٹھنے والی تکلیف اسکے غصے کو مزید بھڑکا رہی تھی۔

    "حد میں تو تم رہو سائیں مت بھولو اپنے سردار سے بات کر رہے ہو اس وقت اتنی پڑھائی نے تمہیں تمیز نہیں سیکھائی کیا۔۔"

    عزم نے شان سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔عرشمان کو لگا کہ اس وقت اسکا یہاں سے جانا ہی بہتر ہو گا اس سے پہلے کہ وہ غصے میں اس گھٹیا شخص کی جان لے لے۔۔۔۔

    "ویسے تم چاہو تو میں خود تمہیں سردار بنا کر سرداری سے ہٹ جاتا ہوں۔۔۔۔"

    ابھی عرشمان نے اپنے گاڑی کا دروازہ کھولا ہی تھا جب عزم کی آواز پر وہ اپنی جگہ پر ساکت ہو کر رہ گیا۔

    "سردار تو میں بن ہی جاؤں گا اس کے لیے مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔۔۔۔"

    اس بات پر عزم قہقہ لگا کر ہنسنے لگا۔

    "اپنے خواب وچ تو سردار بنیندا رویں سے سائیاں۔۔۔۔"(اپنے خواب میں سردار بنتے رہنا تم)

    عزم عرشمان کے پاس آیا اور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا۔ایسا کرتے ہوئے وہ خوبرو سا مرد مردانہ وجاہت کا شہنشاہ لگنے لگا تھا لیکن عرشمان کو اس سے بے تحاشا نفرت ہو رہی تھی۔

    "میں تمہیں سردار بنا دوں گا سائیں سچ کہہ رہا ہوں بس بدلے میں تم مجھے ایک چیز دے دو وعدہ کرتا ہوں زندگی میں کبھی سردار نہیں بنوں گا۔۔۔۔۔"

    عرشمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔اسے عزم کو کچھ بھی دینے میں دلچسپی نہیں تھی بس وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیا ہے جو عزم جو اس سے چاہیے۔

    "کیا؟"

    عرشمان کے پوچھنے پر ایک مسکان عزم کے ہونٹوں پر آئی اور آنکھوں میں عجیب سی حرارت اتری۔

    "آن۔۔۔۔"

    عزم کے منہ سے اپنی بچپن کی منگ اور محبت کا نام سن کر عرشمان کا غصہ آپے سے باہر ہو چکا تھا اسی لیے اس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے عزم کو گریبان سے پکڑا اور ایک زور دار مکا اسکے منہ پر دے مارا۔

    "تیری اس گھٹیا زبان پر میری آن کا نام آیا بھی کیسے میں تیری زبان کھینچ لوں گا۔۔۔۔"

    عرشمان نے پھر سے اسے مارنا چاہا لیکن اب کی بار عزم اسکا ہاتھ اپنے طاقتور ہاتھ میں سختی سے تھام گیا اور مسکرا کر اپنی ناک سے بہنے والے خون کو انگوٹھے پر چنا جو عرشمان کے مکے کی مہربانی تھا۔

    " صرف نام کی بات کرتا ہے سائیں میں تو اسے سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک اپنی ملکیت بنا لوں گا ادوں کی بنے سا تیرا۔۔۔۔"(تب کیا بنے گا تمہارا)

    عرشمان اب کی بار باقاعدہ غصے سے غرایا تھا۔

    "آن میری منگ ہے عزم چوہدری غیرت ہے وہ میری سچ کہتا ہوں پھر تمہارے ہونٹوں پر اسکا نام آیا تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔"

    عزم کی مسکراہٹ کم ہونے کی بجائے گہری ہو چکی تھی۔

    "وہ تیری منگ ضرور ہو گی لیکن بیوی وہ عزم چوہدری کی بنے گی وعدہ ہے یہ عزم چوہدری کا اور میرے ہونٹوں کی قسمت میں آن کے نام کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔۔۔۔"

    عزم کے ڈیٹھائی اور خباثت سے کہنے پر عرشمان غصے سے پاگل ہو گیا اسی لیے بنا سوچے سمجھے اس نے اپنی کمر کے پاس سے ریوالور نکالا اور عزم کے ماتھے پر رکھ دیا۔جس کے نتیجے میں کچھ فاصلے پر کھڑے عزم کے آدمی عرشمان پر بندوقیں تان چکے تھے اور یہ دیکھ کر عرشمان کے آدمی بھی اپنی بندوق نکال چکے تھے۔

    ان دونوں کا چھوٹا سا اشارہ اور وہاں خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔۔۔۔۔

    "یہ تمہارا خواب ہی رہے گا کہ تم آن کا بال بھی چھو سکو گے۔۔۔۔وہ میری محبت میرا جنون ہے عزم چوہدری صرف اور صرف عرشمان ملک کی ہے وہ۔۔۔۔"

    عرشمان کا اتنے حق سے آن کو اپنی ملکیت کہنا عزم چوہدری کو آگ لگا گیا تھا۔اسی لیے اس نے ہاتھ کے جھٹکے سے عرشمان کے ہاتھ میں پکڑا ریوالور چھینا اور اسے عرشمان کی ٹھوڈی کے نیچے رکھ دیا۔

    "تو میں بھی قسم کھا کر کہتا ہوں عرشمان ملک آن کو تمہاری ناک کے نیچے سے چرا کر اپنا بنا لوں گا اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے سوائے کھڑے ہو کر دیکھنے کے۔۔۔۔۔بالکل اس سرداری کی طرح۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر عزم نے اسکا ریوالور زمین پر پھینکا اور مڑ کر اپنے آدمیوں کو بندوق نیچے کرنے کا اشارہ کرتے وہاں سے چلا گیا جبکہ غصے سے پاگل ہوتے عرشمان نے اپنا پاؤں گاڑی کے ٹائر کو مارا۔

    آج عزم چوہدری نے آن کا نام اپنی زبان پر لا کر ہر حد پار کر دی تھی۔عرشمان کا بس چلتا تو وہ عزم کی جان لے لیتا لیکن نہیں وہ اسے اس کھیل میں سب سے بری مار مارنا چاہتا تھا۔آن کو مکمل اپنا کر شان سے عزم کی آنکھوں میں ہار دیکھنا چاہتا تھا۔

    ایک مسکراہٹ نے عرشمان کے ہونٹوں کو چھوا۔وہ جانتا تھا عزم کچھ بھی کر لے وہ آن کو اس سے نہیں چھین سکتا کیونکہ جتنی محبت عرشمان آن سے کرتا تھا اتنی ہی محبت آن بھی اس سے کرتی تھی۔وہ عرشمان کا سب کچھ تھی اسکا عشق،جنون،غیرت،آن سب کچھ وہی تو تھی اور عرشمان ملک کا ہونا اسکی قسمت میں لکھا تھا۔

    لیکن عرشمان یہ نہیں جانتا تھا کہ قسمت میں کیا لکھا ہے یہ تو کاتب تقدیر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
    ?????
    "جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ سب عرشمان کبھی بھی گھر پہنچتا ہو گا تب تک ایک تنکا بھی گند نظر نہ آئے مجھے۔۔۔۔"

    فرحین سب ملازمین کے پیچھے پڑیں سختی سے کہہ رہی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ عرشمان اس وقت گھر واپس آ جاتا تھا اور عرشمان کو گند اور بے ترتیبی سے بے انتہا نفرت تھی۔

    "ہاتھ ٹوٹے ہوئے ہیں کیا جان نہیں ان میں ٹھیک سے پونچھا لگاؤ ۔۔۔۔"

    فرحین نے ایک ملازمہ پر چلا کر کہا اور ان کا شور سن کر حویلی کے وصیح ہال میں آئیں اماں بی گہرا سانس لے کر اردگرد دیکھنے لگیں۔

    "اب کیا ہو گیا کیوں آئی ہے سب ملازموں کی شامت؟"

    اماں بی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ سے چلتیں صوفے پر بیٹھنے لگیں تو انابیہ بھاگ کر انکے پاس آئی اور انہیں سہارا دے کر صوفے پر بیٹھایا۔

    انابیہ فرحین بیگم کی بھانجی تھی جو بچپن سے ہی انکے پاس رہتی آئی تھی۔ویسے تو انابیہ انتہائی نکمی لڑکی تھی لیکن اماں بی اور سلطان کو دیکھتے ہی وہ بہت ہی عاجز اور کامی بننے کا ہنر رکھتی تھی۔

    "جیتی رہو۔۔۔"

    اماں بی نے اسے دعا دی تو انابیہ مسکرا کر انکے پاس بیٹھی اور میز پر پڑا سیب کاٹ کاٹ کر انکے سامنے رکھنے لگی۔

    "آن واپس نہیں آئی ابھی تک؟"

    اماں بی کی زبان سے ان کا ذکر سن کر فرحین کا منہ بن گیا۔عرشمان اور اماں بی کی آن کے لیے یہ محبت اور چاہت فرحین کو ہمیشہ سے چبھتی تھی۔

    جیسے وہ چالاکی سے انابیہ کو یہاں رکھ کر اسکی منگنی اپنے دوسرے بیٹے سلطان سے کر چکی تھیں اسی طرح وہ عرشمان کی شادی بھی انابیہ کی بڑی بہن سے کراونا چاہتی تھیں لیکن وہ کیا کرتیں عرشمان تو آن کے سوا کسی لڑکی کا نام تک اپنے ساتھ گوارا نہیں کرتا تھا۔

    "آتی ہی ہوں گی بی بی جی۔ ویسے بھی اپنی من مرضی کی مالک ہے کچھ زیادہ ہی چھوٹ دی ہے آپ نے اسے۔۔۔۔"

    اماں بی نے آنکھیں چھوٹی کر کے اپنی بہو کو دیکھا۔

    "ایسا کیا کیا میری آن نے جو تم اسکے بارے میں یہ بات کر رہی ہو۔۔۔۔؟"

    فرحین نے گہرا سانس لیا اور ان کے پاس بیٹھ گئی۔

    "آپ خود ہی دیکھیں اماں بی وہ اس خاندان کے سب سے بڑے بیٹے کی منگ ہے لیکن زرا سا بھی احساس ہے اسے اس بات کا؟ ماشاءاللہ سے انابیہ کو دیکھیں جانتی ہے اس خاندان کی بہو ہونے کے ناطے اس کا کیا فرض ہے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے،سب کی خدمت میں لگی رہتی ہے اور آن بی بی۔۔۔۔"

    فرحین نے اپنی ناک چڑھائی۔

    "شروع دن سے ہی پڑھائی کا بہانا کر کے کام سے جان چھڑواتی رہی۔پھر نہ جانے عرشمان ہر ایسا کیا پڑھ کر پھونکا کہ اسے ڈاکٹری پڑھانے کے لیے شہر کے کالج میں بھیج دیا اور تو اور اب جب ڈاکٹر بن گئی ہے تب بھی کہاں آپ کی یا گھر کی خدمت کا خیال آیا اسے اب جان چھڑانے کے لیے نوکری کر لی۔۔۔۔بھلا عرشمان ملک کی منگ کو نوکری کرنے کی کیا ضرورت۔۔۔یہ سب بس کام سے جان چھڑانے کے طریقے ہیں اور کچھ نہیں۔۔۔"

    اماں بی نے افسوس سے اپنی بہو کو دیکھا۔

    "شرم آتی ہے مجھے تمہاری اس سوچ پر فرحین وہ بچی لوگوں کا علاج کر کے انکی خدمت کرنا چاہتی ہے اور تم اسکے بارے میں ایسا کہہ رہی ہو۔۔۔۔"

    فرحین نے اپنی بے عزتی پر کان نہیں دھرا۔وہ تو پہلے سے جانتی تھی کہ اماں جی آن کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارا نہیں کریں گی۔

    "یہ میری سوچ نہیں سچ ہے اماں بی جو آپ کو اور آپکے پوتے ہو نظر نہیں آتا۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر فرحین وہاں سے جانے کے لیے مڑیں تو انکی نظر دروازے میں کھڑی آن پر پڑی۔جو کندھے پر بیگ لٹکائے اور بازو میں اپنا سفید گاؤن پکڑے چادر میں لپٹی نہ جانے کب سے وہاں کھڑی تھی۔

    "اسلام و علیکم بڑی امی۔۔۔۔"

    آن نے عقیدت سے کہا تو فرحین کوئی بھی جواب دیے بغیر منہ چڑھا کر وہاں سے چلی گئیں۔ انابیہ بھی فوراً ان کے پیچھے چلی گئی۔

    آن نے مسکرا کر اماں بی کو دیکھا اور انکے پاس آ کر انکے قدموں میں بیٹھتے ہوئے اپنا سر انکی گود میں رکھ دیا۔

    "اسلام و علیکم اماں بی۔۔۔۔"

    اماں بی نے مسکرا کر اپنی پوتی کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔

    "و علیکم السلام۔۔۔۔کیسا ہے میرا بچہ؟"

    آن نے اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور مسکرا دی۔

    "میں بالکل ٹھیک ہوں اماں جی آپ کیسی ہیں دوا لی تھی وقت پر؟"

    اماں بی نے ہاں میں سر ہلایا اور محبت سے اسکی حسین چہرے پر ہاتھ پھیرا۔اماں بی کے تین بچے تھے۔سب سے بڑا مجاہد ملک جن کے دو بیٹے تھے۔سب سے بڑا عرشمان اور اس سے چھوٹا سلطان ۔مجاہد خود تو اس دنیا میں نہیں تھے لیکن ان کے دونوں بیٹے مجاہد کا عکس بنے اماں بی کو سکون دیتے تھے۔

    اماں بی کے دوسرے بیٹے شاہد ملک کی ایک ہی بیٹی تھی،آن جو پیدا ہونے سے پہلے ہی عرشمان کی منگ تھی۔یہ رشتہ عرشمان کے بابا مجاہد نے آن کے پیدا ہونے سے پہلے ہی کیا تھا کہ اگر تو بیٹی پیدا ہوئی تو وہ عرشمان کی ہو گی۔شائید اسی وجہ سے عرشمان اس نازک سی لڑکی کے لیے حد سے زیادہ جنونی تھا۔

    آن کی ماں کی موت تو آن کے بچپن میں ہی ہو گئی تھی لیکن اسکے بابا شاہد کینیڈا رہتے تھے جہاں انہوں نے ایک گوری سے شادی بھی کر رکھی تھی اور اپنی اس زندگی میں وہ اس قدر مگن تھے کہ وہ یہ بھول ہی چکے تھے کہ پاکستان میں انکی ایک بیٹی بھی ہے۔

    اس کے بعد اماں بی کی ایک بیٹی تھی جو اب اس دنیا میں نہیں تھی اور آج بھی اسے یاد کر کے اماں بی کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔

    اماں بی نے غموں کو نظر انداز کر کے مسکراتے ہوئے آن کو دیکھا۔

    "ہاں بیٹا بالکل ٹھیک ہوں اور دوا بھی لے لی تھی تم میری اتنی فکر مت کیا کرو۔۔۔۔"

    آن انکی بات پر مسکرا دی اور لاڈ سے انکی گود میں اپنا سر رکھا ۔

    "کیسے نہ فکر کروں آپ ہی تو میرا سب کچھ ہیں۔۔۔۔"

    اماں بی نے شرارت سے اسے دیکھا۔

    "یہ عرشمان نے سن لیا ناں تو ناراض ہو جائے گا تم سے۔۔۔۔جانتی ہو ناں وہ گوارا نہیں کرتا کہ تم اسکے علاوہ کسی کو بھی چاہو۔۔۔۔"

    عرشمان کے ذکر پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ آن کے ہونٹوں پر آئی۔اپنے منگیتر کی محبت ہی تو اسکی طاقت تھی ورنہ وہ تو کب کی ٹوٹ چکی ہوتی۔

    "اب تو تم نے پڑھائی کر لی ہے ویسے بھی
    چوبیس سال کی ہو گئی ہو اب تو بس تمہارے ہاتھ پیلے کر کے تمہیں عرشمان کی دلہن بنانا چاہتی ہوں تا کہ مرنے سے پہلے تم دونوں کی خوشیاں دیکھ لوں۔۔۔"

    آن نے خفگی سے منہ بسور کر اماں بی کو دیکھا۔

    "آپ ایسی باتیں کیوں کرتی ہیں اماں بی اللہ آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے۔۔۔۔"

    اماں بی نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور اسے دعا دی۔اس صاف دل کی لڑکی سے فرحین کا رویہ انہیں سچ میں بہت برا لگتا تھا۔

    "فرحین کی باتیں دل پر مت لیا کرو بیٹا۔۔۔وہ جیسی بھی ہے تمہاری ہونے والی ساس ہے۔۔۔"

    آن نے انکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔

    "آپ فکر مت کریں۔۔۔میں جانتی ہوں کہ انکی عزت کرنا میرا فرض ہے اور انکی ہر بے رخی کے باجود میں انکی عزت کروں گی۔۔۔ "

    اماں بی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔

    "ہمیشہ خوش رہو میری جان۔۔۔"

    آن مسکرا دی لیکن تبھی ان دونوں کی نظر عرشمان پر پڑی جو انتہائی غصے سے گھر میں داخل ہوا اور ایک نظر آن کو دیکھ کر اپنی مٹھیاں بھینچتا وہاں سے چلا گیا۔اس کے اس رویے پر دونوں حیران رہ گئیں۔

    "عرشمان کو کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہے؟"

    اماں بی نے پریشانی سے پوچھا لیکن اس سوال کا آن کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔

    "آپ پریشان مت ہوں میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔"

    آن اتنا کہہ کر اٹھی اور سیدھا عرشمان کے پیچھے اسکے کمرے میں گئی۔عرشمان کھڑکی کے پاس کھڑا باہر لان کو دیکھ رہا تھا جبکہ رگیں ابھی بھی غصے سے تنی ہوئی تھیں۔

    آن اسکے پاس گئی اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

    "کیا بات ہے مان؟اتنے غصے میں کیوں ہیں آپ؟"

    آن کا لمس اور آواز محسوس کر کے عرشمان نے سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں۔اسکے پاس ہونے کا احساس عرشمان کے اندر سکون کی لہر بن کر دوڑ رہا تھا۔

    وہ آن کی جانب مڑا اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔اسکے ہاتھ پر بندھی پٹی دیکھ کر آن کی آنکھیں پریشانی سے بھیگ گئیں۔

    "یہ آپ کے ہاتھ پر کیا ہوا مان بتائیں مجھے۔۔۔۔"

    آن پریشانی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگی جبکہ عرشمان تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔

    "تم بس میری ہو ناں آن؟میرے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی ناں تم؟"

    اسکے جنون سے پوچھنے پر آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو مان؟آپ علاوہ کسی کی ہو سکتی ہوں میں؟"

    عرشمان کی آنکھوں میں جنون کی آگ دہک رہی تھی۔

    "تو میری ہو جاؤ آن۔۔۔۔تم نے مجھ سے وقت مانگا میں نے تمہیں دیا۔۔۔۔تم ڈاکٹر بننا چاہتی تھی میں نے تمہارا یہ خواب بھی پورا کیا لیکن اب میری بس ہو چکی ہے آن۔۔۔۔۔میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا جلد از جلد تمہیں خود سے جوڑنا چاہتا ہوں میں۔۔۔۔"

    آن نے گھبرا کر اسے دیکھا جو اسکا چہرہ مظبوط ہاتھوں میں تھامے شدت سے یہ بات کہہ رہا تھا۔

    "میں تو ہمیشہ سے آپ کی ہوں مان۔۔۔مجھے میرے رب نے پیدا ہی آپ کے لیے کیا تھا آن کبھی بھی کسی اور کی نہیں ہو سکتی وہ آپ کا نصیب ہے۔۔۔۔"

    آن کے محبت سے کہنے پر عرشمان سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا۔جو ذہر عزم نے اسکے دل میں ڈالا تھا وہ اب نکل چکا تھا۔عزم کچھ بھی کر لیتا وہ آن کو عرشمان سے نہیں چھین سکتا تھا آن بس اسکی تھی۔

    "مجھ سے شادی کر لو آن۔۔۔۔"

    آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "مان میری ہاؤس جاب۔۔۔"

    "نہیں آن اب بس میں تمہارے ڈاکٹر سے بات کر کے وقت سے پہلے تمہاری ہاؤس جاب مکمل کروا دوں گا پھر میں نے یہاں گاؤں میں تمہارے لیے ہسپتال بھی تو بنوایا ہے تا کہ تمہیں پھر کبھی مجھ سے دور نہ جانا پڑے وہیں کام کر لینا تم بس مجھ سے شادی کر لو آن کیونکہ اب میں مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا۔اگلے مہینے ہی ہماری شادی ہو گی۔۔۔۔"

    عرشمان کا انداز حکمیہ تھا اور آن آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھور رہی تھی۔آج تک عرشمان نے یوں اس سے بات نہیں کہ تھی ایک وہ ہی تو تھا جو سب کے خلاف جا کر اسکی خواہش کو اہمیت دیتا تھا تو کیا اب آن اسکی خواہش پوری نہیں کر سکتی تھی؟

    یہ سوچ کر آن نے اسکی محبت کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر لیا۔

    "ٹھیک ہے مان جیسا آپ چاہیں۔۔۔۔"

    آن کے جواب پر عرشمان کو ایسا لگا کہ اسے پورا جہان مل گیا۔خوشی اور جیت کی چمک اس کے چہرے پر تھی۔

    "میں آج ہی سب کو بتا دوں گا کہ اگلے مہینے ہماری شادی ہے۔۔۔۔دیکھنا آن اتنی شاندار شادی ہو گی ہم دونوں کی کہ پورا جہان دیکھے گا۔۔۔"

    آن نے شرمیلی سی مسکان کے ساتھ سر جھکا لیا اور عرشمان پر تو اسے پانے کی خوشی کا سرور سوار تھا۔

    دیکھنا عزم چوہدری تمہاری آنکھوں کے سامنے اپنی آن کو دلہن بنا کر ہمیشہ کے لیے صرف اپنا بنا لوں گا اور تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔اس میدان میں عرشمان ملک کبھی نہیں ہارے گا کیونکہ آن میرا مقدر ہے۔۔۔۔

    عرشمان دل میں ہی اپنے سب سے بڑے دشمن سے مخاطب تھا۔جیت کی خوشی سے اسکی آنکھیں چمک رہی تھیں۔کاش وہ جانتا کہ قسمت مستقبل کے لیے اپنی اوٹ میں کتنے ہی وار چھپا کر رکھتی ہے۔
    ????
    "لیزا ملک ول یو بی مائی گرل فرینڈ؟"

    ان الفاظ اور اپنی دوستوں کے شور پر خوبصورت سے ماتھے پر بل آئے اور اس لڑکی نے مڑ کر سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اس لڑکے کو دیکھا جو ہاتھ میں ایک گلاب پکڑے گھنٹوں کے بل بیٹھا تھا۔

    "جارج وٹ دا ہیل از آل دس؟"

    اسکے لہجے کی سختی پر بھی جارج بے شرمی سے مسکرا دیا۔

    "میں تمہیں پسند کرتا ہوں لیزا۔۔۔۔"

    لیزا کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی اور اس نے ایک ادا سے جارج کے ہاتھ میں موجود پھول کو پکڑ کر دیکھا۔

    "یو نو وٹ لیزا کو ہر کوئی پسند کرتا ہے لیکن وہ قسمت والا شائید پیدا ہی نہیں ہوا جسے لیزا پسند کرے۔۔۔۔"

    اتنا کہہ کر لیزا نے وہ پھول فرش پر پھینکا اور جارج کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے پیر تلے مسل کر وہاں سے جانے لگی۔

    "اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا لیزا ملک۔۔۔۔"

    جارج نے اس حسن کی مورت کو وہاں سے جاتے دیکھ کر کہا تو لیزا رک کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے ادا سے مسکرا دی۔

    "اس غرور میں سراسر قصور تمہارا ہی تو ہے اب تم سب میرے سامنے میرے لیے جھکو گے تو میں کیا کروں گی؟غرور تو خود بخود آ ہی جائے گا ناں۔۔۔۔"

    لیزا نے ایک آنکھ دبائی اور چلی گئی۔جارج کوئی پہلا لڑکا نہیں تھا جسے وہ دھتکار چکی تھی بلکہ کتنے ہی منچلے اس لڑکی سے اپنا دل چکنا چور کروا چکے تھے۔

    اپنے کالج سے نکل کر لیزا اپنی گاڑی کی جانب گئی لیکن اپنی گاڑی کے ساتھ شاہد ملک کو کھڑا دیکھ کر مسکراتے ہوئے انکے پاس گئی اور انکے سینے سے لگ گئی۔

    "واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ڈیڈ آپ تو بزنس کے کام سے آؤٹ آف ٹاؤن گئے تھے ناں؟"

    لیزا کی بات پر شاہد نے مسکرا کر اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا۔

    "اپنی پیاری سی بیٹی کو مس ہی اتنا کر رہا تھا کہ وقت سے پہلے واپس آنا پڑا۔۔۔۔"

    لیزا نے اپنی شہد کے رنگ کی آنکھیں چھوٹی کر کے انہیں دیکھا۔

    "جھوٹ۔۔۔۔کچھ تو اور بات ہے آپ کو اتنا تو جانتی ہوں میں ۔۔۔۔"

    لیزا نے مان سے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تو شاہد ہلکا سا ہنس دیے۔

    "ہممم ایک بات تو ہے لیکن گھر چلو تو بتاتا ہوں۔۔۔۔"

    "ہوپ سو کچھ اچھا ہی ہو کیونکہ اگر مجھے انٹرسٹ نہ ہوا تو مجھے اس معاملے سے دور ہی سمجھیے گا۔"

    لیزا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اور گاڑی انلاک کر کے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔شاہد نے ٹھنڈی آہ بھری کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو بات وہ لیزا سے کرنے والے تھے وہ لیزا کو منظور ہونے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔
    ????
    جاری ہے

  • #2
    Buhat hi umda aghaz hai.
    buhat hi zabardast plot hai.. u meed kartay hain aagay bhi zabardast kahani parh k milay gi..
    Buhat hi zabardast grip hai kahani par writer ki. Aik aik cheez detail say likhi hai..

    Zabardast janab . Maza aayega

    Comment


    • #3
      شروعات بہت اچھی ہے کہانی کی

      Comment


      • #4
        Bhetareen aagaz kahani ka

        Comment


        • #5
          زبردست آغاز ہے لگتا ہے کہانی بہت دم دار ہو گی

          Comment


          • #6
            آغاز تو بہت شاندار ہے

            Comment


            • #7
              Aghaz to bohat acha hy

              Comment


              • #8
                Aur story may b kafi dum hy

                Comment


                • #9
                  Boht undah aghaz ha kahani ka
                  plot b boht zabardast ha kahani ab deakhte han agye kya hota ha

                  Comment


                  • #10
                    سٹوری تو ٹاپ کی لگ رہی ہے

                    Comment

                    Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                    Working...
                    X