#زندگی_اے_تیرے_نال
#قسط_نمبر_3
عزم ہمیشہ سے ہی صبح سویرے اٹھ کر با جماعت نماز ادا کرنے کا عادی تھا۔یوں گاؤں کی مسجد میں عام لوگوں کے درمیان انہیں کی طرح نماز پڑھ کر عزم کو بہت سکون ملتا تھا اور شائید اسی وجہ سے لوگ ہمیشہ عرشمان پر اسے فوقیت دیتے تھے۔ عزم ان کے دکھ درد جیسے سمجھتا تھا ویسے عرشمان نہیں سمجھ سکتا تھا کیونکہ عرشمان خود کو ان سے بہتر سمجھتا تھا۔
نماز پڑھنے کے بعد عزم حسب معمول کثرت کرنے اپنی حویلی کے بنے کثرت کے میدان میں آیا اور قمیض اتار کر کثرت کرنے لگا۔اسکے اس توانا وجود اور مظبوط بازوؤں کو دیکھ کر اسکے گارڈز بھی شرما جاتے تھے۔انہیں تو لگتا تھا عزم کو کسی گارڈ کی ضرورت ہی نہیں وہ خود ہی دس آدمیوں پر بھاری پڑھ سکتا تھا۔
"اوئے کی ویکھی جاندا سیں بندہ ہاں میں کڑی نئیں۔۔۔۔"(کیا مجھے دیکھتے جا رہے ہو لڑکا ہوں میں لڑکی نہیں)
عزم نے ایک آدمی سے کہا تو سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔
"تساں دا جسم بہت کمال سے چوہدری جی۔۔۔۔"(آپکا جسم بہت کمال ہے چوہدری جی)
اسکی بات پر عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے اپنی قمیض پکڑ کر خود کو چھپایا۔
"اوئے بچ کے رویں سے ایداں کلوں ایویں عزت لٹیندا سے ساڈی۔۔۔"(اوئے بچ کے رہنا اس سے کہیں عزت ہی نہ لوٹ لے ہمارے)
اب کی بار عزم کی بات پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے اور عزم اپنی کثرت پوری کرتا حویلی میں چلا گیا۔فریش ہو کر وہ ناشتہ کرنے آیا اور پھر گاؤں کے معاملات دیکھنے کے لیے اپنے ڈیرے پر آیا۔گھر میں تنہا ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں رہنا کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔بیس سال کی عمر میں کھوئے ہوئے اپنے ماں باپ کی یاد اسے اس حویلی میں کھانے کو دوڑتی تھی۔
ڈیرے پر پہنچ کر اپنے منشی اور سب سے بہترین دوست غلام کو نہ پا کر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔
"نکما میرا دوست نہ ہوتا تو کب کا نوکری سے نکال دیتا اس نکمے کو۔۔۔"
عزم نے خود کلامی کی اور پھر خود ہی معملات دیکھنے کے لیے کھیتوں کی جانب چل دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی غلام کو وہاں بھاگتے ہوئے آتا دیکھ کر عزم نے گہرا سانس لیا۔
"نہ جانے کب سدھرو گے تم وقت کی پابندی کا احساس ہی نہیں۔۔۔۔"
غلام نے کچھ کہنے کے لیے اپنے لب کھولے۔
"اب رہنے دے جو بھی کہنا ہے کام کی بات پر آ پہلے ہی وقت ضائع کر دیا ہے کافی۔۔۔۔۔"
غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا اور ہاتھ میں پکڑے کاغذات کھول کر دیکھنے لگا۔
"نئی کھاد کے استعمال سے فصل کافی اچھی ہوئی ہے۔آگے جا کر کسانوں کو کافی منافع ہو گا۔۔۔۔۔"
عزم نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور غلام کے ساتھ چلتے ہوئے سر سبز کھیتوں کو دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا؟موڈ کیوں خراب ہے تمہارا؟"
غلام کے پوچھنے پر عزم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔"
غلام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
"اس پورے گاؤں میں ایک ہی دوست ہے آپ کا چوہدری صاحب اور آپ اس سے بھی باتیں چھپاتے ہیں واہ کیا یاری نبھائی سردار جی نے۔۔۔۔۔"
غلام کے ڈرامائی انداز میں کہنے پر عزم کے لب مسکرا دیے۔
"تو نے ہی یار سمجھ رکھا ہے مجھے ورنہ میرے لیے تو تو بس میرا بی اے پاس منشی ہے۔۔۔۔"
عزم کے اتنی شان سے انکی دوستی کے انکار پر غلام نے اسے منہ بسور کر دیکھا لیکن پھر عزم کو ہنستا دیکھ خود بھی ہنس دیا۔
"اچھا اب بتاؤ کیا پریشانی ہے تمہیں؟"
اس کے پھر سے پوچھنے پر عزم نے گہرا سانس لیا۔
"کل شام درگاہ گیا تھا وہاں اماں بی سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ان کے وہ آنسو برداشت نہیں ہوتے مجھ سے۔۔۔۔۔"
"تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم تمہارا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا عرشمان کا۔۔۔"
غلام نے ایسے کہا جیسے کہ یہ کوئی عام سی بات ہو۔
"وہ اپنے پوتوں کو چن چکی ہیں غلام اب وہ انہیں کے پاس رہیں۔۔۔۔"
عزم نے بے رخی دیکھاتے ہوئے کہا۔
"اگر اتنے ہی لاپرواہ ہو ان سے تو انکی پرواہ کیوں ہے تمہیں؟"
عزم نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔
"یا تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان ناسوروں کو مت کھروچو جو تمہیں مزید تکلیف دیں۔"
عزم نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔
"صحیح کہہ رہے ہو تم اب میں کسی کی پرواہ نہیں کروں گا بس اپنا مقصد پورا کروں گا۔۔۔۔"
عزم نے مسکرا کر آن کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا۔
"یہ کی ناں مردوں والی بات ۔۔۔۔"
غلام نے مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو کیا میں پہلے تیرے والی بات کرتا تھا؟"
عزم کا مزاق سمجھ کر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور عزم کے ساتھ باقی کے کھیتوں کا معائنہ کرنے چل دیا۔چلتے ہوئے اچانک ہی انکی نگاہ لوگوں کے ہجوم پر پڑی۔وہ دونوں پریشانی سے انکے پاس گئے تو دیکھا کہ دو کسان آپس میں لڑ رہے تھے جبکہ ایک تو ہاتھ میں درانتی پکڑے دوسرے کی جانب غصے سے بڑھ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر عزم بنا سوچے سمجھے ان دونوں کے درمیان ہو گیا اور وہ کسان جو درانتی دوسرے شخص کو مارنے والا تھا وہ سیدھا عزم کے بازو میں جا لگی۔یہ دیکھ کر جہاں غلام پریشانی سے آگے بڑھا وہیں اس کسان کا رنگ خوف سے زرد پڑھ گیا۔
"معاف کر دو چوہدری سائیں یہ۔۔۔۔میں اسے مارنے والا تھا۔۔۔۔معاف کر دو چوہدری سائیں۔۔۔۔"
اس آدمی نے رو کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور عزم نے تکلیف کو نظر انداز کرتے اپنے بازو سے اس درانتی کی نوک نکال دی۔اس کے ایسا کرتے ہی خون پانی کی طرح بہنے لگا جسے عزم نے ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
"غصے کو قابو میں رکھنا سیکھو ورنہ یہ تمہیں جلا کر رکھ سکتا ہے۔۔۔۔"
عزم نے اپنی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ان بھوری آنکھوں میں غصہ دیکھ کر وہ کسان خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
"اپنے ہی گاؤں کے آدمی کو مارنے کی کوشش کرنے کے لیے تمہیں قید کیا جاتا ہے اور باقی کا فیصلہ میں پنچایت میں کروں گا۔۔۔۔"
عزم کے اتنا کہتے ہی اسکے آدمی آگے بڑھے اور اس کسان کو پکڑ کر وہاں سے لے گئے۔
"سب جاؤ کام کرو اپنا اپنا۔۔۔۔"
عزم کے چلاتے ہی وہاں جمع ہوئے لوگ واپس اپنے کام میں جٹ گئے۔لوگوں کے وہاں سے جاتے ہی غلام پریشانی سے عزم کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ زخم سے ہٹا کر اس گہرے زخم کو دیکھنے لگا۔
"تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو گا۔۔۔"
عزم نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
"ارے کچھ نہیں ہوا۔ایویں پیچھے نہ پڑھ میرے گھر جا کر پٹی کر لیتے ہیں۔۔۔۔"
"نہیں عزم کافی گہرا زخم ہے ہو سکتا ہے ٹانکے لگیں چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔"
عزم نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا کہہ چکا تھا۔کچھ دیر کے بعد ہی گاڑی گاؤں کے ہسپتال کے باہر رکی۔
"چلو۔۔۔۔"
غلام نے گاڑی سے اترنا چاہا لیکن عزم کا سر انکار میں ہلتا دیکھ وہیں رک گیا۔
"اب کیا ہوا؟"
"عزم مر جائے گا لیکن اس ہسپتال نہیں جائے گا۔۔۔۔جانتا ہے ناں یہ ہسپتال عرشمان ملک نے بنوایا ہے۔۔۔۔"
غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔
"عزم اپنا ہاتھ دیکھو کیسے خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔شہر جانے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔۔۔بس ایک بار تم یہاں سے پٹی کروا لو اس کے بعد میں تمہیں یہاں آنے کا کبھی نہیں کہوں گا۔۔۔۔"
غلام نے اسے سمجھانا چاہا لیکن عزم کو ہٹ دھرمی سے گاڑی میں بیٹا دیکھ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"تجھے میری قسم عزم۔۔۔۔"
عزم نے غصے سے اسے گھورا۔
"میری جورو ہے جو اپنی قسم دے رہا ہے مر جا میری بلا سے۔۔۔۔میں یہاں نہیں جانے والا چاہے خون کا آخری قطرہ ہی کیوں نہ بہہ جائے۔۔۔۔"
عزم کی اس ضد پر غلام نے پریشانی سے ڈرائیو کو دیکھا۔شہر کے ہسپتال جانے کے لیے ایک گھنٹہ درکار تھا اور اتنی دیر عزم کا خون بہنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔آخرکار مجبور ہو کر غلام نے وہ پیترا آزمایا جس کے سامنے عزم ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتا۔
"تمہیں آن جی کی قسم ہے عزم۔۔۔۔"
عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔وہ دونوں جانتے تھے کہ آن کا نام زبان پر لا کر غلام جیت چکا تھا۔عزم اپنی مٹھیاں بھینچتا گاڑی سے اترا تو غلام مسکرا کر اسکے پیچھے آیا اور اسے سہارا دے کر ہسپتال لے جانے لگا۔
عزم نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا اور خود ہی چل کر ہسپتال میں داخل ہو گیا۔اپنی مجبوری پر عزم کو حد سے زیادہ غصہ آ رہا تھا ۔
عزم کو دیکھ کر ایک ورکر جلدی سے اسکے پاس آیا اور اسے سہارا دینے کی کوشش کرنے لگا لیکن عزم نے اسکا ہاتھ بھی بری طرح سے جھٹک دیا۔
"بس یہ بتا جانا کہاں ہے۔۔۔۔"
ورکر نے گھبراتے ہوئے ایک وارڈ کی طرف اشارہ کیا تو عزم وہاں گیا اور خاموشی سے وہاں موجود بیڈ پر بیٹھ گیا۔غلام اسکے پیچھے آیا اور پریشانی سے اسکے بازو سے بہتے خون کو دیکھنے لگا جو اب عزم کی انگلیاں بھی تر کر چکا تھا لیکن عزم کے چہرے پر تکلیف کے کوئی آثار نہیں تھے اگر تھا تو صرف عرشمان ملک کے بنائے گئے ہسپتال میں ہونے کا غصہ۔
کچھ دیر کے بعد ایک نرس اور سفید کوٹ پہنے ایک لڑکا اس وارڈ میں داخل ہوئے اور لڑکے نے جا کر عزم کا بازو پکڑا۔
"کیا تم ڈاکٹر ہو؟"
غلام کے پوچھنے پر اس لڑکے نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں سر میں ٹیکنیشن ہوں۔۔۔"
اسکے جواب پر غلام نے اسے غصے سے دیکھا۔
"اب عزم چوہدری کا علاج کیا ایک ٹیکنیشن کرے گا جاؤ جا کر اپنے ڈاکٹر کو بلا کر لاؤ۔۔۔۔"
غلام کے سختی کہنے پر ٹیکنیشن نے گھبرا کر نرس کو دیکھا۔
"س۔۔۔۔سر دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا ہاسپٹل کچھ دن پہلے ہی کھلا ہے اور ابھی ہمارے پاس بس ایک ہی سینئر ڈاکٹر ہیں جو کچھ دیر پہلے ہی اپنی ڈیوٹی ختم کر کر گھر جا چکے ہیں۔۔۔۔"
نرس کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ عزم کے ہونٹوں پر آئی۔
"یعنی کہ عرشمان ملک نے ایسا ہسپتال بنایا ہے جس میں کوئی ڈاکٹر ہی نہیں۔۔۔۔"
عزم کی آواز طنز سے بھری پڑی تھی جبکہ غلام اب ان دونوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ عزم کا اچھا علاج کرانے کے لیے اسے شہر لے کر جانا پڑے اور اتنی دیر تک اسکا خون ضائع ہوتا رہے۔
"شرافت سے جا کر کسی ڈاکٹر کو بھیجو ورنہ تمہارا یہ بغیر ڈاکٹر کا ہسپتال کل ہی بند کروا دیں گے۔۔۔۔"
غلام کے دھمکی لگانے پر نرس نے گھبرا کر ٹیکنیشن کی جانب دیکھا۔
"ان ڈاکٹر کو بلا لو جو جنہوں نے آج صبح جائن کیا ہے۔۔۔۔"
"لیکن وہ تو آج پہلے دن ڈیوٹی پر آئی ہیں۔۔۔"
نرس نے پریشانی سے کہا تو ٹیکنیشن گھبرا کر عزم اور غلام کو دیکھنے لگا۔
"بلا لو انہیں کم از کم وہ ڈاکٹر تو ہیں ناں۔۔۔۔"
نرس نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔ٹیکنیشن بھی ڈاکٹر کو بلانے کا کہہ کر اس کمرے سے چلا گیا۔عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔
"اس بہتر تھا شہر پہنچتے پہنچتے مر جاتا میں۔۔۔۔"
غلام نے اسکے غصے پر گہرا سانس لیا اور بے چینی سے گھڑی کو دیکھنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ہی وارڈ کا دروازا کھلا اور وہی نرس ایک سفید کوٹ والی ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
اس ڈاکٹر کو دیکھ کر عزم کو لگا کہ اسکا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا،دھڑکنیں جیسے تھم سی گئی تھیں کیونکہ اس کے سامنے موجود لڑکی کوئی اور نہیں آن تھی۔عرشمان ملک کی منگ اور عزم چوہدری کا جنون۔
عزم ہکا بکا سا آن کو دیکھ رہا تھا اور اسکے جیسی ہی حالت آن کی بھی تھی۔ابھی نرس نے آ کر اسے ایک مریض کے بارے میں بتایا تھا جو اپنا علاج سے ڈاکٹر سے کروانا چاہ رہا تھا۔آن نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مریض اپنی زندگی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالے اسی لئے وہ نرس کے ساتھ یہاں آگئی لیکن اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا پہلا مریض ہی اسکے منگیتر کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔
پہلے تو آن نے سوچا کہ انہیں شہر جانے کا بول کر یہاں سے نکال دے لیکن پھر اس کی نظر عزم کے بازو سے بہتے خون پر پڑی تو خود کے ڈاکٹر ہونے کا احساس ہوا۔
اتنی بلیڈنگ کے ساتھ شہر جانا اس ہٹے کٹے شخص کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔خود پر اور اپنی بے جا نفرت پر بند باندھتی وہ عزم کے قریب آئی اور نرس کو سنجیدگی سے دیکھا۔
"میڈیکل باکس لائیں آپ۔۔۔۔"
نرس ہاں میں سر ہلا کر میڈیکل باکس لینے چلی گئی اور آن نے سنجیدگی سے عزم کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ اندھے کو پہلی بار آنکھیں ملی ہوں۔
"آپ بیڈ پر لیٹ جائیں۔۔۔۔۔"
آن کا انداز بالکل پروفیشنل تھا لیکن عزم کو تو لگا تھا کہ اسے دنیا ہی مل گئی ہو آخر آن اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
"جو حکم ڈاکٹرنی صاحبہ بیڈ پر تو کیا آپ آگ پر لیٹنے کا بھی کہتیں تو لیٹ جاتا۔۔۔۔"
عزم نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر آن کے ماتھے پر بل آ چکے تھے۔تبھی نرس نے میڈیکل باکس لا کر آن کے پاس رکھا۔عزم نے آنکھ سے وہاں کھڑے غلام کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
"آپ میرے ساتھ آئیں اور مجھے بتائیں کہ کونسی کاغذی کاروائی کرنی ہے۔۔۔۔"
غلام نے نرس کے قریب آ کر اسے کہا۔
"لیکن ۔۔۔۔۔"
نرس نے کچھ کہنا چاہا لیکن غلام اسے بولنے کا موقع دیے بغیر کونی سے پکڑ کر باہر لے جا چکا تھا۔آن نے ایک نفرت بھری ایک نگاہ عزم کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور پھر گہرا سانس لے کر اسکے قریب ہوئی۔
"ویسے کچھ بھی کر لو ڈاکٹرنی جی بس ٹیکہ مت لگانا سوئی سے بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔۔۔۔"
عزم نے شرارت سے کہا لیکن آن کے چہرے کی شکن جوں کی توں تھی۔اس نے خاموشی سے عزم کا بازو پکڑا اور قمیض کا بازو اوپر کرنا چاہا لیکن وہ عزم کے بازو کی مظبوط کے باعث کونی سے اوپر جا ہی نہ سکا۔
آخر کار آن کو اضطراب میں دیکھ کر عزم نے قمیض کا بازو دوسرے ہاتھ میں پکڑا اور جھٹکے سے پھاڑ دیا۔اسکی اس حرکت پر آن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"جو ہماری ڈاکٹرنی کو تنگ کرے اسے ہٹا ہی دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔"
عزم نے شان سے مسکراتے ہوئے کہا اور آن اپنی مٹھیاں بھینچتی رہ گئی۔دل تو کر رہا تھا کہ اس بد لحاظ شخص کو یہاں سے چلتا کر دے لیکن پھر اسکی نظر بازو سے مسلسل بہتے خون پر پڑی تو خود پر ضبط باندھتے ہاتھ کاٹن کی جانب بڑھایا اور سنجیدگی سے اسکا زخم صاف کرنے لگی۔
"اوئے آرام نال دل جی سینہ چیر کر باہر ہی آ جاؤ گے کیا۔۔۔۔۔"
آن کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے ہی عزم نے دوسرا ہاتھ دل پر رکھ کر ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"اتنا زیادہ خون بہہ گیا ہے آپ کا کیا دو منٹ خاموش نہیں رہ سکتے آپ؟"
آن نے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا اور پھر بیڈ کے پاس موجود بٹن دبایا جو کہ نرس کے آفس کی بیل کا تھا۔
"وہ کیا ناں ڈاکٹرنی جی بچپن میں میری زبان تالو سے لگی تھی تو دس سال تک نہیں بول سکا اس لیے اب کوشش کرتا ہوں کہ ان دس سالوں کی کسر۔۔۔۔"
آن کو خود کو غصے سے گھورتا پا کر عزم کی زبان کو بریک لگا۔تبھی وہاں پر نرس آئی جسے آن نے کچھ سامان لانے کا کہا جو نرس کچھ ہی دیر میں وہاں لے آئی اور پھر آن کی مدد کے لیے اسکے پاس کھڑی ہو گئی۔
"زخم گہرا ہے تو ہمیں سٹیچنگ کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔"
آن نے سنجیدگی سے عزم کے بازو پر انجیکشن لگاتے ہوئے کہا۔
"میں تو سر تا پیر آپ کا ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ سٹیچنگ،ٹیچنگ،پیچنگ جو دل کرتا ہے کرو۔۔۔۔۔ویسے یہ سٹیچنگ ہوتا کیا ہے۔۔۔؟"
اس کا جواب عزم کو جلد ہی مل گیا جب اس نے آن کے ہاتھ میں ایک کالا دھاگہ اور مڑی ہوئی عجیب سی سوئی دیکھی۔
"ڈاکٹرنی جی بندہ ہوں پھٹی ہوئی قمیض نہیں جو سوئی دھاگے سے سینے لگی ہو۔۔۔"
آن نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس گھورا اور نرس کو اشارہ کرتی عزم کے بازو پر جھکی۔اس سے پہلے کہ وہ سوئی عزم کے بازو سے لگاتی اسکے کانوں میں عزم کی آواز پڑی۔
"پکا ڈاکٹرنی ہی ہو ناں یا درزن ہو کر ڈاکٹرنی۔۔۔۔۔"
"خدارا ایک سیکنڈ کے لیے چپ کر جاؤ جان نہیں لے رہی تمہاری بس زخم زیادہ ہے تو سٹچ کرنا پڑے گا اور اتنے ہٹے کٹے مرد ہو کر ایک سوئی سے ڈر رہے ہو شرم آنی چاہیے تمہیں۔۔۔۔اب آواز نہ آئے تمہاری ورنہ اس سوئی سے پہلے تمہارے ہونٹ سی دوں گی پھر زخم کا کچھ کروں گی۔۔۔۔"
آن کے غصے سے ڈپٹنے پر عزم اسے ایسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور آن اسکی ٹیچر۔عزم نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اچھے بچوں کی طرح ہونٹوں پر رکھ لی تو آن نے سکھ کا سانس لیا اور اسکے زخم پر ٹانکے لگانے لگی۔
اپنا کام انتہائی نفاست سے ختم کر کے آن نے اسے پٹی کی اور نرس کو غلام کو بلانے کا کہہ کر کچھ دوائیاں کاغذ پر لکھنے لگی۔
"آپ نے بلایا ڈاکٹر صاحبہ؟"
غلام کی آواز پر آن نے مڑ کر اسے دیکھا۔
"آپ اب انہیں ساتھ لے جا سکتے ہیں یہ کچھ دوائیاں ہیں آپ انہیں لے دیجیے گا اور یہ دوائی پین کلر ہے صرف درد ہونے پر دینی ہے۔"
غلام نے ہر بات سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"کیا مطلب لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔بیمار ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ کوئی ہفتہ تو داخل رکھو اپنے پاس۔۔۔۔"
اب کی بار عزم کی آواز پر آن نے باقاعدہ اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"تمہیں کہا تھا ناں کہ اب آواز نہ آئے تمہاری۔۔۔اتنے بھی کوئی بیمار نہیں کہ ایڈمیٹ کروں میں گھر جا سکتے ہو۔۔۔۔"
آن نے عزم کو پھر سے ڈانٹا اور اپنا سامان پکڑتی کمرے سے باہر جانے لگی۔
"ڈاکٹر صاحبہ پیسے کتنے ہو گئے؟"
غلام کے پوچھنے پر آن کے چلتے قدم رک گئے اور اس نے مڑ کر جتلاتی نظروں سے عزم کو دیکھا۔
"میرے منگیتر عرشمان ملک نے یہ ہسپتال گاؤں کے لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ہم یہاں علاج کے پیسے نہیں لیتے۔۔۔۔۔"
یہ کہتے ہوئے کیا نہیں تھا آن کی آواز میں مان،غرور،چاہت۔۔۔
آن تو اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی لیکن اسکی اس چاہت پر غلام عزم کو غصے اور ضبط سے مٹھیاں کستے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔
"عزم چوہدری سے اگر اس انداز میں کوئی بات کرے تو اسکی خیر نہیں لیکن ان کے یوں بات کرنے پر مسکراہٹ ہی غائب نہیں ہو رہی تھی چہرے سے۔۔۔۔"
غلام نے عزم کا موڈ اچھا کرنے کے لیے مزاق کیا لیکن عزم نے ایسی غضب ناک آنکھوں سے غلام کو گھورا کہ اسکا رواں رواں کانپ اٹھا۔
"وہ کوئی نہیں میری آن ہے۔۔۔۔۔"
غلام عزم کی آواز میں چھپی وارننگ محسوس کر سکتا تھا۔اسے تو آن کا عام لوگوں سے ملائے جانا تک گوارا نہیں تھا۔
"ویسے کیسا رہا تمہارا علاج اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟"
غلام نے بات کو بدلتے ہوئے پوچھا جبکہ اسکے سوال پر عزم کی چہرے کی شکن غائب ہو گئی اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
"کیا بتاؤں یارا پھٹے ہوئے کرتے کی طرح سی دیا مجھے ظالم نے لیکن اس سیے جانے میں بھی اتنی لذت تھی کہ دل کر رہا ہے ہر جگہ سے پھٹ کر واپس آ جاؤں اور وہ جگہ جگہ سے سی کر ملنگوں والا کرتا بنا دے مجھے۔۔۔۔"
عزم کی بات پر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"چلو پھر واپسی پر گاڑی درخت میں مار کے تمہیں پھٹا ہوا کرتا بناتا ہوں۔۔۔۔"
عزم اسکی بات پر ہلکا سا مسکرا دیا اور غلام اسے سہارا دیتا وہاں سے لے جانے لگا۔غلام جانتا تھا کہ عزم اوپر سے تو مسکرا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر ایک طوفان اس میں امٹ رہا ہے۔
عزم چوہدری ہر میدان میں عرشمان ملک سے آگے رہا تھا۔ہر چیز جو اس نے چاہی تھی وہ جیت کر عرشمان سے چھین لی لیکن یہ بھی قسمت کا کھیل تھا کہ عرشمان ملک کو اس چیز پر سبقت حاصل تھی جس کی چاہ عزم چوہدری کو اس دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔
????
آن کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس گھر آئی تھی اور اب اپنے کمرے میں بیٹھی ہر گزری بات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اگر عرشمان کو پتہ لگ جاتا کہ اس نے عزم چوہدری کا علاج کیا ہے تو وہ کیا کرتا؟
ہاں وہ آن کو جان سے زیادہ چاہتا تھا لیکن جتنی محبت وہ آن سے کرتا تھا اتنی ہی نفرت اسے عزم چوہدری سے تھی اور آج آن نے اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر عرشمان کو دھوکہ دیا تھا۔کیا اسے اس بارے میں عرشمان سے بات کرنی چاہیے تھی؟آن نے اضطراب سے سوچا۔۔۔۔
نہیں یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی۔اس شخص کو چوٹ لگی تھی اور وہ وہاں علاج کروانے آیا تھا۔۔۔۔بس۔۔۔۔یہ کوئی بات کا بتنگڑ بنانے والا مسلہ نہیں تھا۔
"کیسا رہا پہلا دن؟"
عرشمان کی آواز پر آن خوف سے اچھل پڑی اور سہم کر اسے دیکھنے لگی جو دروازے میں کھڑا آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت لیے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔
"ااا۔۔۔۔اچھا تھا مان۔۔۔"
آن نے فوراً اپنا سر جھکا لیا اور اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔
"کوئی خاص مریض آیا؟"
اس سوال پر آن کا دل بہت زور سے دھڑکا اب وہ عرشمان کو کیا بتاتی کہ اسکے ہی سب سے بڑے دشمن کے زخم پر مرحم لگا کر آ رہی تھی۔
"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو آن سب ٹھیک ہے ناں تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
عرشمان دروازے سے ہٹ کر اسکے پاس آیا اور اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھنے لگا۔
"جی مان بالکل ٹھیک ہوں بس پہلا دن تھا ناں جاب کا زرا سا تھک گئی ہوں۔۔۔۔"
عرشمان کے ماتھے پر بل آتے دیکھ آن مزید گھبرا گئی۔
"کیا مطلب تھک گئی ہو کیا تمہیں وہاں اتنا زیادہ کام کرنا پڑا؟میں ابھی پوچھتا ہوں اس ڈاکٹر سے کہ خود کہاں تھا وہ۔۔۔۔"
عرشمان نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈال کر موبائل نکال لیا تو آن نے اٹھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔
"کیا ہو گیا ہے اتنا زیادہ کام بھی نہیں کیا میں نے وہ تو بس میں یونہی تھک گئی آپ بھی ناں اتنی جلدی غصے میں مت آیا کریں۔۔۔۔"
عرشمان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
"وہ ہسپتال میں نے تمہارے لیے بنایا ہے آن تم وہاں کی مالک ہو۔ہر ڈاکٹر جو وہاں آتا ہے وہ تمہارے انڈر ہے تم انکے انڈر نہیں۔۔۔۔تم باس ہو ان کی خود کچھ مت کرو بس ان پر حکم چلایا کرو۔۔۔۔"
آن اس بات پر ہلکا سا ہنس دی۔
"میڈیکل میں نے لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے پڑھا ہے مان حکم چلانے کے لیے نہیں۔۔۔۔"
عرشمان کو ہلکا سا مسکراتا دیکھ آن نے سکھ کا سانس لیا۔
"میرا بس چلے ناں تو تمہیں ایک کانچ کے محل میں بند کر دوں جہاں ہزار خادمہ تمہاری خدمت میں جٹی رہیں اور تمہارا بس ایک کام ہو۔۔۔۔"
"کیا؟"
عرشمان کے خاموش ہونے پر آن نے دلچسپی سے پوچھا۔
"مجھ سے محبت کرنا۔۔۔۔۔"
آن کا سر فوراً جھک گیا اور گال گلاب کی مانند دہکنے لگے۔
"کچھ تو خیال کریں۔۔۔۔"
اسکی اس ادا پر عرشمان جان نثار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"خیال ہی تو کر رہا ہوں ابھی کیونکہ ابھی مکمل دسترس میں نہیں آئی تم جس دن تم پر ہر حق حاصل کر لیا ناں اس دن تم میری محبتوں اور شدتوں سے چاہ کر بھی بچ نہیں پاؤ گی۔"
نہ جانے عرشمان کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ آن کا روم روم کانپ اٹھا تھا۔
"آپ ایسی باتیں کریں گے تو میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔"
ابھی الفاظ آن کے منہ میں ہی تھے جب عرشمان نے اسے کونی سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور انگارہ ہوتی نگاہیں اسکے حسین چہرے پر گاڑ دیں۔
"پھر کبھی بھی دور جانے کی بات نہ کرنا آن قسم سے برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔"
ان الفاظ میں چھپا جنون محسوس کر آن کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔اگر عرشمان کو عزم کے بارے میں پتہ لگ جاتا تو وہ نہ جانے کیا کر گزرتا۔آن نے خود سے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہو جاتا وہ عزم کو اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں لگنے دینے والی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔؟"
فرحین بیگم کی آواز پر آن فوراً عزم سے دور ہوئی اور اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک سے لینے لگی۔
"بڑی امی وہ۔۔۔۔"
"آن میری منگیتر ہے امی غیر نہیں اس سے بات کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔مجھے نہیں لگتا اس میں کوئی بری بات ہے۔۔۔۔"
آن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عرشمان کا اسکی سائیڈ لینا فرحین بیگم کو ایک آنکھ نہ بھایا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہیں۔
"بالکل کر سکتے ہو بیٹا۔۔۔۔"
فرحین کے مسکرا کر کہنے پر عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"آپ کو کچھ کام تھا بڑی امی؟"
آن کے پوچھنے پر فرحین بیگم نے مصنوعی مسکان کے ساتھ اسے دیکھا۔
"میں نے تو بس یہ کہنا تھا کہ انابیہ بے چاری نیچے اکیلے کچن میں کھانا بنا رہی ہے تو تم بھی اسکی تھوڑی مدد کروا دو لیکن تم مصروف ہو تو کوئی مسلئہ نہیں۔۔۔۔"
"نہیں میں آتی ہوں۔۔۔"
"امی آن تھکی ہوئی ہے۔۔۔۔"
آن اور عرشمان ایک ساتھ بولے تو فرحین بیگم دونوں کو دیکھنے لگیں جبکہ عرشمان تو آن کی بات پر اسے گھور رہا تھا۔
"آپ چلیں بڑی امی میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔۔۔۔"
آن نے عقیدت سے کہا اور عرشمان کے غصے کو نظر انداز کرتی فرحین بیگم کے پیچھے چل پڑی ابھی وہ دونوں کچن کے پاس پہنچی تھیں جب فرحین بیگم اس کی جانب مڑیں۔
"ویسے تمہیں خیال کرنا چاہیے تھوڑا تمہاری ابھی عرشمان سے شادی نہیں ہوئی جو اسے یوں اپنے کمرے میں تنہا بلا رہی ہو ۔۔۔ویسے بھی مجھے سمجھ نہیں آتا تمہیں اس پر ڈورے ڈالنے کی ضرورت کیا ہے وہ تو پہلے ہی مکمل طور پر تمہارے قابو میں ہے۔۔۔۔"
فرحین موقع دیکھتے ہی شروع ہو چکی تھیں اور آن بس سر جھکا کر ان کے طعنے برداشت کر رہی تھی۔
"انابیہ بھی تو سلطان کی منگیتر ہے ناں کل سے آیا ہے سلطان لیکن اسے کبھی یوں سلطان کے آگے پیچھے گھومتے دیکھا ہے کیا؟"
انکی ہر بات پر آن کا سر مزید جھکتا جا رہا تھا لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ کی طرح انکی ہر بات برداشت کر گئی تھی کیونکہ فرحین بیگم کو اپنی بھانجی کے گن گانا ہمیشہ اچھا لگا تھا۔
"جو بھی ہو بیٹی تو ماں پر ہی جائے گی ناں آخر تمہاری رگوں میں بھی تو تمہاری گھٹیا چوہدری ماں کا گھٹیا خون دوڑ رہا ہے ناں۔۔۔۔۔"
اب کی بار آن کی بس ہوئی تھی تبھی کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر زمین بوس ہوئے تھے جنہیں فرحین بیگم نظر انداز کرتیں کچن میں جا چکی تھیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اسے اسکی ماں کا طعنہ دیا تھا۔یہ بات ہی شائید فرحین بیگم کی نفرت کا باعث تھی کہ آن اس عورت کی بیٹی تھی جس کے بھائی نے فرحین بیگم سے ان کے شوہر کو چھینا تھا۔
آن شمع چوہدری کی بیٹی تھی جو کہ مہتاب چوہدری کی اکلوتی بہن اور عزم چوہدری کی پھپھو تھیں اور آن کا چوہدری خاندان سے یہ تعلق ہی سب سے بڑا المیہ تھا۔
????
رشید احمد اتحاد ملک کی اس بڑی سی حویلی میں داخل ہوا۔کل ہی اتحاد نے اسے حویلی میں آنے کا کہا تھا کہ اسے رشید سے کچھ کام ہے لیکن رشید سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس جیسے گاؤں کے سردار کو ایک عام کسان سے بھلا کیا کام۔
"آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔؟"
اتحاد ملک کے سامنے لے جائے جانے ہر رشید نے سر جھکا کر سوال کیا۔
"بیٹھو رشید کھڑے کیوں ہو۔۔۔؟"
اتحاد ملک نے حقے کا گہرا کش بھرتے ہوئے کہا تو رشید خاموشی سے اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔
"آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا سائیں؟"
اتحاد اسکے سوال پر مسکرایا۔
"ہاں رشید بہت خاص کام تھا۔۔۔۔"
رشید نے پھر سے ایک گہرا کش بھرا۔
"تمہاری بیٹی تھی ناں کنیز فاطمہ۔۔۔۔اسے ہم اپنی حویلی کی عزت بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔"
اتحاد کی بات پر رشید نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"سائیں آپ کا اور ہمارا کیا مقابلہ۔۔۔۔؟"
اتحاد ملک قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"یہ سب چھوڑو رشید میں یہ سب سوچنے والوں میں سے نہیں بس تم اس رشتے کے لیے ہاں بولو ۔۔۔۔"
اتحاد ملک کا انداز حکمیہ تھا۔
"لیکن سائیں آپ کا بیٹا تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور میری نوری تو بس سترہ سال کی ہے میں کیسے اس کا رشتہ آپ کے بیٹے سے طے کر دوں۔۔۔۔"
کنیز کی عمر جان کی اتحاد کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔
"تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے رشید میں کنیز کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے مانگ رہا ہوں میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ کر رشید پر گرے۔اس نے بے یقینی سے اس ساٹھ سالہ آدمی کو دیکھا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سائیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔"
"کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔؟"
اتحاد کا لہجہ کافی سخت ہوا تھا۔
"میری بچی بہت چھوٹی ہے سائیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"
اتحاد ہے ماتھے پر آتے بل بھی اس باپ کو ڈرانے میں ناکام ثابت ہوئے۔
"تم بھول رہے ہو رشید کہ میں اس گاؤں کا سردار ہوں میں جو چاہوں ہو سکتا ہے۔۔۔۔"
رشید نے فوراً اپنے ہاتھ انکے سامنے جوڑ دیے۔
"ایسا مت کریں سائیں میں بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"
"شادی کی تیاری کرو رشید یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔"
اتحاد کی بات پر رشید کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر ہمت کرتے ہوئے بولا۔
"نہیں۔۔۔۔میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
اتحاد نے اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچائے۔
"سوچ لو تم جانتے نہیں کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔"
اتحاد نے دھمکاتے ہوئے کہا لیکن رشید کو اٹھ کر کھڑا ہوتا دیکھ حیران رہ گیا۔
"آپ کچھ بھی کر لیں میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی۔"
رشید نے اتنا کہہ اور وہاں سے جانے لگا لیکن دو ملازموں نے اسکا راستہ روک دیا۔
"آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔۔"
ایک عورت کی آواز پر رشید نے مڑ کر اتحاد کی چالیس سالہ بیوی کو دیکھا جو اسکے پاس کھڑی تھی۔
"ہاں میں نے کہنا تھا کہ میں ایک خوبصورت سی سترہ سالہ لڑکی سے دوسری شادی کر رہا ہوں اس لیے مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ اتحاد کی بیوی کچھ کہہ پاتی اتحاد نے ایک ریوالور نکالا اور اپنی بیوی کے سینے میں گولی مار دی۔رشید حیرت اور خوف سے اس سفاک شخص کو دیکھنے لگا۔
"یہاں کیا ہوا لڑکو؟"
اتحاد نے اپنے ملازموں سے پوچھا جو رشید کو پکڑ کر کھڑے تھے۔
"رشید احمد یہاں آیا اور آپ سے قرض مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا تو اس نے آپ سے آپکی بندوق چھینی اور گولی چلا دی۔سردارنی جی یہ دیکھ نہیں پائیں اور آپ دونوں کے درمیان آ کر آپ پر چلنے والی گولی خود پر لے لی۔"
رشید حیرت سے وہاں موجود ہر شخص کو دیکھ رہا تھا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ سب۔۔۔۔؟"
"اور میری بیوی کو مارنے کی سزا تو اسے ملے گی ناں لیکن مجھے اس کے بچوں کا بھی خیال آ گیا کہ اسکے مرنے کے بعد ان کا کیا ہو گا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ بیوی کے بدلے بیوی اسے اپنی بیٹی کنیز کو ونی کر کے میرے نکاح میں دینا ہو گا۔۔۔۔"
اتحاد ملک نے چالاکی سے مونچھ کر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔رشید ہر معاملہ سمجھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
"ایسا ظلم مت کریں سائیں جی میں آپ سے بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"
اتحاد اس مجبور انسان کو دیکھ کر خباثت سے مسکرا دیا۔
"کل یہ فیصلہ پنچایت میں ہو گا اور پھر تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔ہاہاہا کہا تھا ناں کہ جو چاہوں اسے حاصل کر لیتا ہوں۔اب تمہاری نوری اس حویلی کی کنیز بن کر رہے گی میری کنیز بن کر رہے گی۔۔۔۔"
اتحاد ملک نے خباثت سے کہا اور رشید کو بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔
????
#قسط_نمبر_3
عزم ہمیشہ سے ہی صبح سویرے اٹھ کر با جماعت نماز ادا کرنے کا عادی تھا۔یوں گاؤں کی مسجد میں عام لوگوں کے درمیان انہیں کی طرح نماز پڑھ کر عزم کو بہت سکون ملتا تھا اور شائید اسی وجہ سے لوگ ہمیشہ عرشمان پر اسے فوقیت دیتے تھے۔ عزم ان کے دکھ درد جیسے سمجھتا تھا ویسے عرشمان نہیں سمجھ سکتا تھا کیونکہ عرشمان خود کو ان سے بہتر سمجھتا تھا۔
نماز پڑھنے کے بعد عزم حسب معمول کثرت کرنے اپنی حویلی کے بنے کثرت کے میدان میں آیا اور قمیض اتار کر کثرت کرنے لگا۔اسکے اس توانا وجود اور مظبوط بازوؤں کو دیکھ کر اسکے گارڈز بھی شرما جاتے تھے۔انہیں تو لگتا تھا عزم کو کسی گارڈ کی ضرورت ہی نہیں وہ خود ہی دس آدمیوں پر بھاری پڑھ سکتا تھا۔
"اوئے کی ویکھی جاندا سیں بندہ ہاں میں کڑی نئیں۔۔۔۔"(کیا مجھے دیکھتے جا رہے ہو لڑکا ہوں میں لڑکی نہیں)
عزم نے ایک آدمی سے کہا تو سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔
"تساں دا جسم بہت کمال سے چوہدری جی۔۔۔۔"(آپکا جسم بہت کمال ہے چوہدری جی)
اسکی بات پر عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے اپنی قمیض پکڑ کر خود کو چھپایا۔
"اوئے بچ کے رویں سے ایداں کلوں ایویں عزت لٹیندا سے ساڈی۔۔۔"(اوئے بچ کے رہنا اس سے کہیں عزت ہی نہ لوٹ لے ہمارے)
اب کی بار عزم کی بات پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے اور عزم اپنی کثرت پوری کرتا حویلی میں چلا گیا۔فریش ہو کر وہ ناشتہ کرنے آیا اور پھر گاؤں کے معاملات دیکھنے کے لیے اپنے ڈیرے پر آیا۔گھر میں تنہا ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں رہنا کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔بیس سال کی عمر میں کھوئے ہوئے اپنے ماں باپ کی یاد اسے اس حویلی میں کھانے کو دوڑتی تھی۔
ڈیرے پر پہنچ کر اپنے منشی اور سب سے بہترین دوست غلام کو نہ پا کر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔
"نکما میرا دوست نہ ہوتا تو کب کا نوکری سے نکال دیتا اس نکمے کو۔۔۔"
عزم نے خود کلامی کی اور پھر خود ہی معملات دیکھنے کے لیے کھیتوں کی جانب چل دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی غلام کو وہاں بھاگتے ہوئے آتا دیکھ کر عزم نے گہرا سانس لیا۔
"نہ جانے کب سدھرو گے تم وقت کی پابندی کا احساس ہی نہیں۔۔۔۔"
غلام نے کچھ کہنے کے لیے اپنے لب کھولے۔
"اب رہنے دے جو بھی کہنا ہے کام کی بات پر آ پہلے ہی وقت ضائع کر دیا ہے کافی۔۔۔۔۔"
غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا اور ہاتھ میں پکڑے کاغذات کھول کر دیکھنے لگا۔
"نئی کھاد کے استعمال سے فصل کافی اچھی ہوئی ہے۔آگے جا کر کسانوں کو کافی منافع ہو گا۔۔۔۔۔"
عزم نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور غلام کے ساتھ چلتے ہوئے سر سبز کھیتوں کو دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا؟موڈ کیوں خراب ہے تمہارا؟"
غلام کے پوچھنے پر عزم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔"
غلام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
"اس پورے گاؤں میں ایک ہی دوست ہے آپ کا چوہدری صاحب اور آپ اس سے بھی باتیں چھپاتے ہیں واہ کیا یاری نبھائی سردار جی نے۔۔۔۔۔"
غلام کے ڈرامائی انداز میں کہنے پر عزم کے لب مسکرا دیے۔
"تو نے ہی یار سمجھ رکھا ہے مجھے ورنہ میرے لیے تو تو بس میرا بی اے پاس منشی ہے۔۔۔۔"
عزم کے اتنی شان سے انکی دوستی کے انکار پر غلام نے اسے منہ بسور کر دیکھا لیکن پھر عزم کو ہنستا دیکھ خود بھی ہنس دیا۔
"اچھا اب بتاؤ کیا پریشانی ہے تمہیں؟"
اس کے پھر سے پوچھنے پر عزم نے گہرا سانس لیا۔
"کل شام درگاہ گیا تھا وہاں اماں بی سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ان کے وہ آنسو برداشت نہیں ہوتے مجھ سے۔۔۔۔۔"
"تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم تمہارا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا عرشمان کا۔۔۔"
غلام نے ایسے کہا جیسے کہ یہ کوئی عام سی بات ہو۔
"وہ اپنے پوتوں کو چن چکی ہیں غلام اب وہ انہیں کے پاس رہیں۔۔۔۔"
عزم نے بے رخی دیکھاتے ہوئے کہا۔
"اگر اتنے ہی لاپرواہ ہو ان سے تو انکی پرواہ کیوں ہے تمہیں؟"
عزم نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔
"یا تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان ناسوروں کو مت کھروچو جو تمہیں مزید تکلیف دیں۔"
عزم نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔
"صحیح کہہ رہے ہو تم اب میں کسی کی پرواہ نہیں کروں گا بس اپنا مقصد پورا کروں گا۔۔۔۔"
عزم نے مسکرا کر آن کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا۔
"یہ کی ناں مردوں والی بات ۔۔۔۔"
غلام نے مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو کیا میں پہلے تیرے والی بات کرتا تھا؟"
عزم کا مزاق سمجھ کر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور عزم کے ساتھ باقی کے کھیتوں کا معائنہ کرنے چل دیا۔چلتے ہوئے اچانک ہی انکی نگاہ لوگوں کے ہجوم پر پڑی۔وہ دونوں پریشانی سے انکے پاس گئے تو دیکھا کہ دو کسان آپس میں لڑ رہے تھے جبکہ ایک تو ہاتھ میں درانتی پکڑے دوسرے کی جانب غصے سے بڑھ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر عزم بنا سوچے سمجھے ان دونوں کے درمیان ہو گیا اور وہ کسان جو درانتی دوسرے شخص کو مارنے والا تھا وہ سیدھا عزم کے بازو میں جا لگی۔یہ دیکھ کر جہاں غلام پریشانی سے آگے بڑھا وہیں اس کسان کا رنگ خوف سے زرد پڑھ گیا۔
"معاف کر دو چوہدری سائیں یہ۔۔۔۔میں اسے مارنے والا تھا۔۔۔۔معاف کر دو چوہدری سائیں۔۔۔۔"
اس آدمی نے رو کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور عزم نے تکلیف کو نظر انداز کرتے اپنے بازو سے اس درانتی کی نوک نکال دی۔اس کے ایسا کرتے ہی خون پانی کی طرح بہنے لگا جسے عزم نے ہاتھ رکھ کر روک دیا۔
"غصے کو قابو میں رکھنا سیکھو ورنہ یہ تمہیں جلا کر رکھ سکتا ہے۔۔۔۔"
عزم نے اپنی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ان بھوری آنکھوں میں غصہ دیکھ کر وہ کسان خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
"اپنے ہی گاؤں کے آدمی کو مارنے کی کوشش کرنے کے لیے تمہیں قید کیا جاتا ہے اور باقی کا فیصلہ میں پنچایت میں کروں گا۔۔۔۔"
عزم کے اتنا کہتے ہی اسکے آدمی آگے بڑھے اور اس کسان کو پکڑ کر وہاں سے لے گئے۔
"سب جاؤ کام کرو اپنا اپنا۔۔۔۔"
عزم کے چلاتے ہی وہاں جمع ہوئے لوگ واپس اپنے کام میں جٹ گئے۔لوگوں کے وہاں سے جاتے ہی غلام پریشانی سے عزم کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ زخم سے ہٹا کر اس گہرے زخم کو دیکھنے لگا۔
"تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو گا۔۔۔"
عزم نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
"ارے کچھ نہیں ہوا۔ایویں پیچھے نہ پڑھ میرے گھر جا کر پٹی کر لیتے ہیں۔۔۔۔"
"نہیں عزم کافی گہرا زخم ہے ہو سکتا ہے ٹانکے لگیں چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔"
عزم نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا کہہ چکا تھا۔کچھ دیر کے بعد ہی گاڑی گاؤں کے ہسپتال کے باہر رکی۔
"چلو۔۔۔۔"
غلام نے گاڑی سے اترنا چاہا لیکن عزم کا سر انکار میں ہلتا دیکھ وہیں رک گیا۔
"اب کیا ہوا؟"
"عزم مر جائے گا لیکن اس ہسپتال نہیں جائے گا۔۔۔۔جانتا ہے ناں یہ ہسپتال عرشمان ملک نے بنوایا ہے۔۔۔۔"
غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔
"عزم اپنا ہاتھ دیکھو کیسے خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔شہر جانے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔۔۔بس ایک بار تم یہاں سے پٹی کروا لو اس کے بعد میں تمہیں یہاں آنے کا کبھی نہیں کہوں گا۔۔۔۔"
غلام نے اسے سمجھانا چاہا لیکن عزم کو ہٹ دھرمی سے گاڑی میں بیٹا دیکھ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"تجھے میری قسم عزم۔۔۔۔"
عزم نے غصے سے اسے گھورا۔
"میری جورو ہے جو اپنی قسم دے رہا ہے مر جا میری بلا سے۔۔۔۔میں یہاں نہیں جانے والا چاہے خون کا آخری قطرہ ہی کیوں نہ بہہ جائے۔۔۔۔"
عزم کی اس ضد پر غلام نے پریشانی سے ڈرائیو کو دیکھا۔شہر کے ہسپتال جانے کے لیے ایک گھنٹہ درکار تھا اور اتنی دیر عزم کا خون بہنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔آخرکار مجبور ہو کر غلام نے وہ پیترا آزمایا جس کے سامنے عزم ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتا۔
"تمہیں آن جی کی قسم ہے عزم۔۔۔۔"
عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔وہ دونوں جانتے تھے کہ آن کا نام زبان پر لا کر غلام جیت چکا تھا۔عزم اپنی مٹھیاں بھینچتا گاڑی سے اترا تو غلام مسکرا کر اسکے پیچھے آیا اور اسے سہارا دے کر ہسپتال لے جانے لگا۔
عزم نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا اور خود ہی چل کر ہسپتال میں داخل ہو گیا۔اپنی مجبوری پر عزم کو حد سے زیادہ غصہ آ رہا تھا ۔
عزم کو دیکھ کر ایک ورکر جلدی سے اسکے پاس آیا اور اسے سہارا دینے کی کوشش کرنے لگا لیکن عزم نے اسکا ہاتھ بھی بری طرح سے جھٹک دیا۔
"بس یہ بتا جانا کہاں ہے۔۔۔۔"
ورکر نے گھبراتے ہوئے ایک وارڈ کی طرف اشارہ کیا تو عزم وہاں گیا اور خاموشی سے وہاں موجود بیڈ پر بیٹھ گیا۔غلام اسکے پیچھے آیا اور پریشانی سے اسکے بازو سے بہتے خون کو دیکھنے لگا جو اب عزم کی انگلیاں بھی تر کر چکا تھا لیکن عزم کے چہرے پر تکلیف کے کوئی آثار نہیں تھے اگر تھا تو صرف عرشمان ملک کے بنائے گئے ہسپتال میں ہونے کا غصہ۔
کچھ دیر کے بعد ایک نرس اور سفید کوٹ پہنے ایک لڑکا اس وارڈ میں داخل ہوئے اور لڑکے نے جا کر عزم کا بازو پکڑا۔
"کیا تم ڈاکٹر ہو؟"
غلام کے پوچھنے پر اس لڑکے نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں سر میں ٹیکنیشن ہوں۔۔۔"
اسکے جواب پر غلام نے اسے غصے سے دیکھا۔
"اب عزم چوہدری کا علاج کیا ایک ٹیکنیشن کرے گا جاؤ جا کر اپنے ڈاکٹر کو بلا کر لاؤ۔۔۔۔"
غلام کے سختی کہنے پر ٹیکنیشن نے گھبرا کر نرس کو دیکھا۔
"س۔۔۔۔سر دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا ہاسپٹل کچھ دن پہلے ہی کھلا ہے اور ابھی ہمارے پاس بس ایک ہی سینئر ڈاکٹر ہیں جو کچھ دیر پہلے ہی اپنی ڈیوٹی ختم کر کر گھر جا چکے ہیں۔۔۔۔"
نرس کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ عزم کے ہونٹوں پر آئی۔
"یعنی کہ عرشمان ملک نے ایسا ہسپتال بنایا ہے جس میں کوئی ڈاکٹر ہی نہیں۔۔۔۔"
عزم کی آواز طنز سے بھری پڑی تھی جبکہ غلام اب ان دونوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ عزم کا اچھا علاج کرانے کے لیے اسے شہر لے کر جانا پڑے اور اتنی دیر تک اسکا خون ضائع ہوتا رہے۔
"شرافت سے جا کر کسی ڈاکٹر کو بھیجو ورنہ تمہارا یہ بغیر ڈاکٹر کا ہسپتال کل ہی بند کروا دیں گے۔۔۔۔"
غلام کے دھمکی لگانے پر نرس نے گھبرا کر ٹیکنیشن کی جانب دیکھا۔
"ان ڈاکٹر کو بلا لو جو جنہوں نے آج صبح جائن کیا ہے۔۔۔۔"
"لیکن وہ تو آج پہلے دن ڈیوٹی پر آئی ہیں۔۔۔"
نرس نے پریشانی سے کہا تو ٹیکنیشن گھبرا کر عزم اور غلام کو دیکھنے لگا۔
"بلا لو انہیں کم از کم وہ ڈاکٹر تو ہیں ناں۔۔۔۔"
نرس نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔ٹیکنیشن بھی ڈاکٹر کو بلانے کا کہہ کر اس کمرے سے چلا گیا۔عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔
"اس بہتر تھا شہر پہنچتے پہنچتے مر جاتا میں۔۔۔۔"
غلام نے اسکے غصے پر گہرا سانس لیا اور بے چینی سے گھڑی کو دیکھنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ہی وارڈ کا دروازا کھلا اور وہی نرس ایک سفید کوٹ والی ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
اس ڈاکٹر کو دیکھ کر عزم کو لگا کہ اسکا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا،دھڑکنیں جیسے تھم سی گئی تھیں کیونکہ اس کے سامنے موجود لڑکی کوئی اور نہیں آن تھی۔عرشمان ملک کی منگ اور عزم چوہدری کا جنون۔
عزم ہکا بکا سا آن کو دیکھ رہا تھا اور اسکے جیسی ہی حالت آن کی بھی تھی۔ابھی نرس نے آ کر اسے ایک مریض کے بارے میں بتایا تھا جو اپنا علاج سے ڈاکٹر سے کروانا چاہ رہا تھا۔آن نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مریض اپنی زندگی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالے اسی لئے وہ نرس کے ساتھ یہاں آگئی لیکن اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا پہلا مریض ہی اسکے منگیتر کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔
پہلے تو آن نے سوچا کہ انہیں شہر جانے کا بول کر یہاں سے نکال دے لیکن پھر اس کی نظر عزم کے بازو سے بہتے خون پر پڑی تو خود کے ڈاکٹر ہونے کا احساس ہوا۔
اتنی بلیڈنگ کے ساتھ شہر جانا اس ہٹے کٹے شخص کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔خود پر اور اپنی بے جا نفرت پر بند باندھتی وہ عزم کے قریب آئی اور نرس کو سنجیدگی سے دیکھا۔
"میڈیکل باکس لائیں آپ۔۔۔۔"
نرس ہاں میں سر ہلا کر میڈیکل باکس لینے چلی گئی اور آن نے سنجیدگی سے عزم کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ اندھے کو پہلی بار آنکھیں ملی ہوں۔
"آپ بیڈ پر لیٹ جائیں۔۔۔۔۔"
آن کا انداز بالکل پروفیشنل تھا لیکن عزم کو تو لگا تھا کہ اسے دنیا ہی مل گئی ہو آخر آن اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
"جو حکم ڈاکٹرنی صاحبہ بیڈ پر تو کیا آپ آگ پر لیٹنے کا بھی کہتیں تو لیٹ جاتا۔۔۔۔"
عزم نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر آن کے ماتھے پر بل آ چکے تھے۔تبھی نرس نے میڈیکل باکس لا کر آن کے پاس رکھا۔عزم نے آنکھ سے وہاں کھڑے غلام کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
"آپ میرے ساتھ آئیں اور مجھے بتائیں کہ کونسی کاغذی کاروائی کرنی ہے۔۔۔۔"
غلام نے نرس کے قریب آ کر اسے کہا۔
"لیکن ۔۔۔۔۔"
نرس نے کچھ کہنا چاہا لیکن غلام اسے بولنے کا موقع دیے بغیر کونی سے پکڑ کر باہر لے جا چکا تھا۔آن نے ایک نفرت بھری ایک نگاہ عزم کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور پھر گہرا سانس لے کر اسکے قریب ہوئی۔
"ویسے کچھ بھی کر لو ڈاکٹرنی جی بس ٹیکہ مت لگانا سوئی سے بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔۔۔۔"
عزم نے شرارت سے کہا لیکن آن کے چہرے کی شکن جوں کی توں تھی۔اس نے خاموشی سے عزم کا بازو پکڑا اور قمیض کا بازو اوپر کرنا چاہا لیکن وہ عزم کے بازو کی مظبوط کے باعث کونی سے اوپر جا ہی نہ سکا۔
آخر کار آن کو اضطراب میں دیکھ کر عزم نے قمیض کا بازو دوسرے ہاتھ میں پکڑا اور جھٹکے سے پھاڑ دیا۔اسکی اس حرکت پر آن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"جو ہماری ڈاکٹرنی کو تنگ کرے اسے ہٹا ہی دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔"
عزم نے شان سے مسکراتے ہوئے کہا اور آن اپنی مٹھیاں بھینچتی رہ گئی۔دل تو کر رہا تھا کہ اس بد لحاظ شخص کو یہاں سے چلتا کر دے لیکن پھر اسکی نظر بازو سے مسلسل بہتے خون پر پڑی تو خود پر ضبط باندھتے ہاتھ کاٹن کی جانب بڑھایا اور سنجیدگی سے اسکا زخم صاف کرنے لگی۔
"اوئے آرام نال دل جی سینہ چیر کر باہر ہی آ جاؤ گے کیا۔۔۔۔۔"
آن کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے ہی عزم نے دوسرا ہاتھ دل پر رکھ کر ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"اتنا زیادہ خون بہہ گیا ہے آپ کا کیا دو منٹ خاموش نہیں رہ سکتے آپ؟"
آن نے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا اور پھر بیڈ کے پاس موجود بٹن دبایا جو کہ نرس کے آفس کی بیل کا تھا۔
"وہ کیا ناں ڈاکٹرنی جی بچپن میں میری زبان تالو سے لگی تھی تو دس سال تک نہیں بول سکا اس لیے اب کوشش کرتا ہوں کہ ان دس سالوں کی کسر۔۔۔۔"
آن کو خود کو غصے سے گھورتا پا کر عزم کی زبان کو بریک لگا۔تبھی وہاں پر نرس آئی جسے آن نے کچھ سامان لانے کا کہا جو نرس کچھ ہی دیر میں وہاں لے آئی اور پھر آن کی مدد کے لیے اسکے پاس کھڑی ہو گئی۔
"زخم گہرا ہے تو ہمیں سٹیچنگ کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔"
آن نے سنجیدگی سے عزم کے بازو پر انجیکشن لگاتے ہوئے کہا۔
"میں تو سر تا پیر آپ کا ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ سٹیچنگ،ٹیچنگ،پیچنگ جو دل کرتا ہے کرو۔۔۔۔۔ویسے یہ سٹیچنگ ہوتا کیا ہے۔۔۔؟"
اس کا جواب عزم کو جلد ہی مل گیا جب اس نے آن کے ہاتھ میں ایک کالا دھاگہ اور مڑی ہوئی عجیب سی سوئی دیکھی۔
"ڈاکٹرنی جی بندہ ہوں پھٹی ہوئی قمیض نہیں جو سوئی دھاگے سے سینے لگی ہو۔۔۔"
آن نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس گھورا اور نرس کو اشارہ کرتی عزم کے بازو پر جھکی۔اس سے پہلے کہ وہ سوئی عزم کے بازو سے لگاتی اسکے کانوں میں عزم کی آواز پڑی۔
"پکا ڈاکٹرنی ہی ہو ناں یا درزن ہو کر ڈاکٹرنی۔۔۔۔۔"
"خدارا ایک سیکنڈ کے لیے چپ کر جاؤ جان نہیں لے رہی تمہاری بس زخم زیادہ ہے تو سٹچ کرنا پڑے گا اور اتنے ہٹے کٹے مرد ہو کر ایک سوئی سے ڈر رہے ہو شرم آنی چاہیے تمہیں۔۔۔۔اب آواز نہ آئے تمہاری ورنہ اس سوئی سے پہلے تمہارے ہونٹ سی دوں گی پھر زخم کا کچھ کروں گی۔۔۔۔"
آن کے غصے سے ڈپٹنے پر عزم اسے ایسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور آن اسکی ٹیچر۔عزم نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اچھے بچوں کی طرح ہونٹوں پر رکھ لی تو آن نے سکھ کا سانس لیا اور اسکے زخم پر ٹانکے لگانے لگی۔
اپنا کام انتہائی نفاست سے ختم کر کے آن نے اسے پٹی کی اور نرس کو غلام کو بلانے کا کہہ کر کچھ دوائیاں کاغذ پر لکھنے لگی۔
"آپ نے بلایا ڈاکٹر صاحبہ؟"
غلام کی آواز پر آن نے مڑ کر اسے دیکھا۔
"آپ اب انہیں ساتھ لے جا سکتے ہیں یہ کچھ دوائیاں ہیں آپ انہیں لے دیجیے گا اور یہ دوائی پین کلر ہے صرف درد ہونے پر دینی ہے۔"
غلام نے ہر بات سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"کیا مطلب لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔بیمار ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ کوئی ہفتہ تو داخل رکھو اپنے پاس۔۔۔۔"
اب کی بار عزم کی آواز پر آن نے باقاعدہ اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"تمہیں کہا تھا ناں کہ اب آواز نہ آئے تمہاری۔۔۔اتنے بھی کوئی بیمار نہیں کہ ایڈمیٹ کروں میں گھر جا سکتے ہو۔۔۔۔"
آن نے عزم کو پھر سے ڈانٹا اور اپنا سامان پکڑتی کمرے سے باہر جانے لگی۔
"ڈاکٹر صاحبہ پیسے کتنے ہو گئے؟"
غلام کے پوچھنے پر آن کے چلتے قدم رک گئے اور اس نے مڑ کر جتلاتی نظروں سے عزم کو دیکھا۔
"میرے منگیتر عرشمان ملک نے یہ ہسپتال گاؤں کے لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ہم یہاں علاج کے پیسے نہیں لیتے۔۔۔۔۔"
یہ کہتے ہوئے کیا نہیں تھا آن کی آواز میں مان،غرور،چاہت۔۔۔
آن تو اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی لیکن اسکی اس چاہت پر غلام عزم کو غصے اور ضبط سے مٹھیاں کستے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔
"عزم چوہدری سے اگر اس انداز میں کوئی بات کرے تو اسکی خیر نہیں لیکن ان کے یوں بات کرنے پر مسکراہٹ ہی غائب نہیں ہو رہی تھی چہرے سے۔۔۔۔"
غلام نے عزم کا موڈ اچھا کرنے کے لیے مزاق کیا لیکن عزم نے ایسی غضب ناک آنکھوں سے غلام کو گھورا کہ اسکا رواں رواں کانپ اٹھا۔
"وہ کوئی نہیں میری آن ہے۔۔۔۔۔"
غلام عزم کی آواز میں چھپی وارننگ محسوس کر سکتا تھا۔اسے تو آن کا عام لوگوں سے ملائے جانا تک گوارا نہیں تھا۔
"ویسے کیسا رہا تمہارا علاج اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟"
غلام نے بات کو بدلتے ہوئے پوچھا جبکہ اسکے سوال پر عزم کی چہرے کی شکن غائب ہو گئی اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
"کیا بتاؤں یارا پھٹے ہوئے کرتے کی طرح سی دیا مجھے ظالم نے لیکن اس سیے جانے میں بھی اتنی لذت تھی کہ دل کر رہا ہے ہر جگہ سے پھٹ کر واپس آ جاؤں اور وہ جگہ جگہ سے سی کر ملنگوں والا کرتا بنا دے مجھے۔۔۔۔"
عزم کی بات پر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"چلو پھر واپسی پر گاڑی درخت میں مار کے تمہیں پھٹا ہوا کرتا بناتا ہوں۔۔۔۔"
عزم اسکی بات پر ہلکا سا مسکرا دیا اور غلام اسے سہارا دیتا وہاں سے لے جانے لگا۔غلام جانتا تھا کہ عزم اوپر سے تو مسکرا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر ایک طوفان اس میں امٹ رہا ہے۔
عزم چوہدری ہر میدان میں عرشمان ملک سے آگے رہا تھا۔ہر چیز جو اس نے چاہی تھی وہ جیت کر عرشمان سے چھین لی لیکن یہ بھی قسمت کا کھیل تھا کہ عرشمان ملک کو اس چیز پر سبقت حاصل تھی جس کی چاہ عزم چوہدری کو اس دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔
????
آن کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس گھر آئی تھی اور اب اپنے کمرے میں بیٹھی ہر گزری بات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اگر عرشمان کو پتہ لگ جاتا کہ اس نے عزم چوہدری کا علاج کیا ہے تو وہ کیا کرتا؟
ہاں وہ آن کو جان سے زیادہ چاہتا تھا لیکن جتنی محبت وہ آن سے کرتا تھا اتنی ہی نفرت اسے عزم چوہدری سے تھی اور آج آن نے اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر عرشمان کو دھوکہ دیا تھا۔کیا اسے اس بارے میں عرشمان سے بات کرنی چاہیے تھی؟آن نے اضطراب سے سوچا۔۔۔۔
نہیں یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی۔اس شخص کو چوٹ لگی تھی اور وہ وہاں علاج کروانے آیا تھا۔۔۔۔بس۔۔۔۔یہ کوئی بات کا بتنگڑ بنانے والا مسلہ نہیں تھا۔
"کیسا رہا پہلا دن؟"
عرشمان کی آواز پر آن خوف سے اچھل پڑی اور سہم کر اسے دیکھنے لگی جو دروازے میں کھڑا آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت لیے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔
"ااا۔۔۔۔اچھا تھا مان۔۔۔"
آن نے فوراً اپنا سر جھکا لیا اور اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔
"کوئی خاص مریض آیا؟"
اس سوال پر آن کا دل بہت زور سے دھڑکا اب وہ عرشمان کو کیا بتاتی کہ اسکے ہی سب سے بڑے دشمن کے زخم پر مرحم لگا کر آ رہی تھی۔
"اتنا گھبرا کیوں رہی ہو آن سب ٹھیک ہے ناں تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"
عرشمان دروازے سے ہٹ کر اسکے پاس آیا اور اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھنے لگا۔
"جی مان بالکل ٹھیک ہوں بس پہلا دن تھا ناں جاب کا زرا سا تھک گئی ہوں۔۔۔۔"
عرشمان کے ماتھے پر بل آتے دیکھ آن مزید گھبرا گئی۔
"کیا مطلب تھک گئی ہو کیا تمہیں وہاں اتنا زیادہ کام کرنا پڑا؟میں ابھی پوچھتا ہوں اس ڈاکٹر سے کہ خود کہاں تھا وہ۔۔۔۔"
عرشمان نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈال کر موبائل نکال لیا تو آن نے اٹھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔
"کیا ہو گیا ہے اتنا زیادہ کام بھی نہیں کیا میں نے وہ تو بس میں یونہی تھک گئی آپ بھی ناں اتنی جلدی غصے میں مت آیا کریں۔۔۔۔"
عرشمان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
"وہ ہسپتال میں نے تمہارے لیے بنایا ہے آن تم وہاں کی مالک ہو۔ہر ڈاکٹر جو وہاں آتا ہے وہ تمہارے انڈر ہے تم انکے انڈر نہیں۔۔۔۔تم باس ہو ان کی خود کچھ مت کرو بس ان پر حکم چلایا کرو۔۔۔۔"
آن اس بات پر ہلکا سا ہنس دی۔
"میڈیکل میں نے لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے پڑھا ہے مان حکم چلانے کے لیے نہیں۔۔۔۔"
عرشمان کو ہلکا سا مسکراتا دیکھ آن نے سکھ کا سانس لیا۔
"میرا بس چلے ناں تو تمہیں ایک کانچ کے محل میں بند کر دوں جہاں ہزار خادمہ تمہاری خدمت میں جٹی رہیں اور تمہارا بس ایک کام ہو۔۔۔۔"
"کیا؟"
عرشمان کے خاموش ہونے پر آن نے دلچسپی سے پوچھا۔
"مجھ سے محبت کرنا۔۔۔۔۔"
آن کا سر فوراً جھک گیا اور گال گلاب کی مانند دہکنے لگے۔
"کچھ تو خیال کریں۔۔۔۔"
اسکی اس ادا پر عرشمان جان نثار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"خیال ہی تو کر رہا ہوں ابھی کیونکہ ابھی مکمل دسترس میں نہیں آئی تم جس دن تم پر ہر حق حاصل کر لیا ناں اس دن تم میری محبتوں اور شدتوں سے چاہ کر بھی بچ نہیں پاؤ گی۔"
نہ جانے عرشمان کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ آن کا روم روم کانپ اٹھا تھا۔
"آپ ایسی باتیں کریں گے تو میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔"
ابھی الفاظ آن کے منہ میں ہی تھے جب عرشمان نے اسے کونی سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور انگارہ ہوتی نگاہیں اسکے حسین چہرے پر گاڑ دیں۔
"پھر کبھی بھی دور جانے کی بات نہ کرنا آن قسم سے برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔"
ان الفاظ میں چھپا جنون محسوس کر آن کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔اگر عرشمان کو عزم کے بارے میں پتہ لگ جاتا تو وہ نہ جانے کیا کر گزرتا۔آن نے خود سے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہو جاتا وہ عزم کو اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں لگنے دینے والی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔؟"
فرحین بیگم کی آواز پر آن فوراً عزم سے دور ہوئی اور اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک سے لینے لگی۔
"بڑی امی وہ۔۔۔۔"
"آن میری منگیتر ہے امی غیر نہیں اس سے بات کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔مجھے نہیں لگتا اس میں کوئی بری بات ہے۔۔۔۔"
آن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عرشمان کا اسکی سائیڈ لینا فرحین بیگم کو ایک آنکھ نہ بھایا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہیں۔
"بالکل کر سکتے ہو بیٹا۔۔۔۔"
فرحین کے مسکرا کر کہنے پر عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"آپ کو کچھ کام تھا بڑی امی؟"
آن کے پوچھنے پر فرحین بیگم نے مصنوعی مسکان کے ساتھ اسے دیکھا۔
"میں نے تو بس یہ کہنا تھا کہ انابیہ بے چاری نیچے اکیلے کچن میں کھانا بنا رہی ہے تو تم بھی اسکی تھوڑی مدد کروا دو لیکن تم مصروف ہو تو کوئی مسلئہ نہیں۔۔۔۔"
"نہیں میں آتی ہوں۔۔۔"
"امی آن تھکی ہوئی ہے۔۔۔۔"
آن اور عرشمان ایک ساتھ بولے تو فرحین بیگم دونوں کو دیکھنے لگیں جبکہ عرشمان تو آن کی بات پر اسے گھور رہا تھا۔
"آپ چلیں بڑی امی میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔۔۔۔"
آن نے عقیدت سے کہا اور عرشمان کے غصے کو نظر انداز کرتی فرحین بیگم کے پیچھے چل پڑی ابھی وہ دونوں کچن کے پاس پہنچی تھیں جب فرحین بیگم اس کی جانب مڑیں۔
"ویسے تمہیں خیال کرنا چاہیے تھوڑا تمہاری ابھی عرشمان سے شادی نہیں ہوئی جو اسے یوں اپنے کمرے میں تنہا بلا رہی ہو ۔۔۔ویسے بھی مجھے سمجھ نہیں آتا تمہیں اس پر ڈورے ڈالنے کی ضرورت کیا ہے وہ تو پہلے ہی مکمل طور پر تمہارے قابو میں ہے۔۔۔۔"
فرحین موقع دیکھتے ہی شروع ہو چکی تھیں اور آن بس سر جھکا کر ان کے طعنے برداشت کر رہی تھی۔
"انابیہ بھی تو سلطان کی منگیتر ہے ناں کل سے آیا ہے سلطان لیکن اسے کبھی یوں سلطان کے آگے پیچھے گھومتے دیکھا ہے کیا؟"
انکی ہر بات پر آن کا سر مزید جھکتا جا رہا تھا لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ کی طرح انکی ہر بات برداشت کر گئی تھی کیونکہ فرحین بیگم کو اپنی بھانجی کے گن گانا ہمیشہ اچھا لگا تھا۔
"جو بھی ہو بیٹی تو ماں پر ہی جائے گی ناں آخر تمہاری رگوں میں بھی تو تمہاری گھٹیا چوہدری ماں کا گھٹیا خون دوڑ رہا ہے ناں۔۔۔۔۔"
اب کی بار آن کی بس ہوئی تھی تبھی کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر زمین بوس ہوئے تھے جنہیں فرحین بیگم نظر انداز کرتیں کچن میں جا چکی تھیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اسے اسکی ماں کا طعنہ دیا تھا۔یہ بات ہی شائید فرحین بیگم کی نفرت کا باعث تھی کہ آن اس عورت کی بیٹی تھی جس کے بھائی نے فرحین بیگم سے ان کے شوہر کو چھینا تھا۔
آن شمع چوہدری کی بیٹی تھی جو کہ مہتاب چوہدری کی اکلوتی بہن اور عزم چوہدری کی پھپھو تھیں اور آن کا چوہدری خاندان سے یہ تعلق ہی سب سے بڑا المیہ تھا۔
????
رشید احمد اتحاد ملک کی اس بڑی سی حویلی میں داخل ہوا۔کل ہی اتحاد نے اسے حویلی میں آنے کا کہا تھا کہ اسے رشید سے کچھ کام ہے لیکن رشید سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس جیسے گاؤں کے سردار کو ایک عام کسان سے بھلا کیا کام۔
"آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔؟"
اتحاد ملک کے سامنے لے جائے جانے ہر رشید نے سر جھکا کر سوال کیا۔
"بیٹھو رشید کھڑے کیوں ہو۔۔۔؟"
اتحاد ملک نے حقے کا گہرا کش بھرتے ہوئے کہا تو رشید خاموشی سے اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔
"آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا سائیں؟"
اتحاد اسکے سوال پر مسکرایا۔
"ہاں رشید بہت خاص کام تھا۔۔۔۔"
رشید نے پھر سے ایک گہرا کش بھرا۔
"تمہاری بیٹی تھی ناں کنیز فاطمہ۔۔۔۔اسے ہم اپنی حویلی کی عزت بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔"
اتحاد کی بات پر رشید نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"سائیں آپ کا اور ہمارا کیا مقابلہ۔۔۔۔؟"
اتحاد ملک قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"یہ سب چھوڑو رشید میں یہ سب سوچنے والوں میں سے نہیں بس تم اس رشتے کے لیے ہاں بولو ۔۔۔۔"
اتحاد ملک کا انداز حکمیہ تھا۔
"لیکن سائیں آپ کا بیٹا تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور میری نوری تو بس سترہ سال کی ہے میں کیسے اس کا رشتہ آپ کے بیٹے سے طے کر دوں۔۔۔۔"
کنیز کی عمر جان کی اتحاد کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔
"تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے رشید میں کنیز کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے مانگ رہا ہوں میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"
ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ کر رشید پر گرے۔اس نے بے یقینی سے اس ساٹھ سالہ آدمی کو دیکھا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سائیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔"
"کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔؟"
اتحاد کا لہجہ کافی سخت ہوا تھا۔
"میری بچی بہت چھوٹی ہے سائیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"
اتحاد ہے ماتھے پر آتے بل بھی اس باپ کو ڈرانے میں ناکام ثابت ہوئے۔
"تم بھول رہے ہو رشید کہ میں اس گاؤں کا سردار ہوں میں جو چاہوں ہو سکتا ہے۔۔۔۔"
رشید نے فوراً اپنے ہاتھ انکے سامنے جوڑ دیے۔
"ایسا مت کریں سائیں میں بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"
"شادی کی تیاری کرو رشید یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔"
اتحاد کی بات پر رشید کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر ہمت کرتے ہوئے بولا۔
"نہیں۔۔۔۔میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
اتحاد نے اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچائے۔
"سوچ لو تم جانتے نہیں کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔"
اتحاد نے دھمکاتے ہوئے کہا لیکن رشید کو اٹھ کر کھڑا ہوتا دیکھ حیران رہ گیا۔
"آپ کچھ بھی کر لیں میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی۔"
رشید نے اتنا کہہ اور وہاں سے جانے لگا لیکن دو ملازموں نے اسکا راستہ روک دیا۔
"آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔۔"
ایک عورت کی آواز پر رشید نے مڑ کر اتحاد کی چالیس سالہ بیوی کو دیکھا جو اسکے پاس کھڑی تھی۔
"ہاں میں نے کہنا تھا کہ میں ایک خوبصورت سی سترہ سالہ لڑکی سے دوسری شادی کر رہا ہوں اس لیے مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ اتحاد کی بیوی کچھ کہہ پاتی اتحاد نے ایک ریوالور نکالا اور اپنی بیوی کے سینے میں گولی مار دی۔رشید حیرت اور خوف سے اس سفاک شخص کو دیکھنے لگا۔
"یہاں کیا ہوا لڑکو؟"
اتحاد نے اپنے ملازموں سے پوچھا جو رشید کو پکڑ کر کھڑے تھے۔
"رشید احمد یہاں آیا اور آپ سے قرض مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا تو اس نے آپ سے آپکی بندوق چھینی اور گولی چلا دی۔سردارنی جی یہ دیکھ نہیں پائیں اور آپ دونوں کے درمیان آ کر آپ پر چلنے والی گولی خود پر لے لی۔"
رشید حیرت سے وہاں موجود ہر شخص کو دیکھ رہا تھا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ سب۔۔۔۔؟"
"اور میری بیوی کو مارنے کی سزا تو اسے ملے گی ناں لیکن مجھے اس کے بچوں کا بھی خیال آ گیا کہ اسکے مرنے کے بعد ان کا کیا ہو گا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ بیوی کے بدلے بیوی اسے اپنی بیٹی کنیز کو ونی کر کے میرے نکاح میں دینا ہو گا۔۔۔۔"
اتحاد ملک نے چالاکی سے مونچھ کر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔رشید ہر معاملہ سمجھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
"ایسا ظلم مت کریں سائیں جی میں آپ سے بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"
اتحاد اس مجبور انسان کو دیکھ کر خباثت سے مسکرا دیا۔
"کل یہ فیصلہ پنچایت میں ہو گا اور پھر تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔ہاہاہا کہا تھا ناں کہ جو چاہوں اسے حاصل کر لیتا ہوں۔اب تمہاری نوری اس حویلی کی کنیز بن کر رہے گی میری کنیز بن کر رہے گی۔۔۔۔"
اتحاد ملک نے خباثت سے کہا اور رشید کو بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔
????
Comment