Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #21
    #زندگی_اے_تیرے_نال
    #قسط_نمبر_3


    عزم ہمیشہ سے ہی صبح سویرے اٹھ کر با جماعت نماز ادا کرنے کا عادی تھا۔یوں گاؤں کی مسجد میں عام لوگوں کے درمیان انہیں کی طرح نماز پڑھ کر عزم کو بہت سکون ملتا تھا اور شائید اسی وجہ سے لوگ ہمیشہ عرشمان پر اسے فوقیت دیتے تھے۔ عزم ان کے دکھ درد جیسے سمجھتا تھا ویسے عرشمان نہیں سمجھ سکتا تھا کیونکہ عرشمان خود کو ان سے بہتر سمجھتا تھا۔

    نماز پڑھنے کے بعد عزم حسب معمول کثرت کرنے اپنی حویلی کے بنے کثرت کے میدان میں آیا اور قمیض اتار کر کثرت کرنے لگا۔اسکے اس توانا وجود اور مظبوط بازوؤں کو دیکھ کر اسکے گارڈز بھی شرما جاتے تھے۔انہیں تو لگتا تھا عزم کو کسی گارڈ کی ضرورت ہی نہیں وہ خود ہی دس آدمیوں پر بھاری پڑھ سکتا تھا۔

    "اوئے کی ویکھی جاندا سیں بندہ ہاں میں کڑی نئیں۔۔۔۔"(کیا مجھے دیکھتے جا رہے ہو لڑکا ہوں میں لڑکی نہیں)

    عزم نے ایک آدمی سے کہا تو سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔

    "تساں دا جسم بہت کمال سے چوہدری جی۔۔۔۔"(آپکا جسم بہت کمال ہے چوہدری جی)

    اسکی بات پر عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اس نے اپنی قمیض پکڑ کر خود کو چھپایا۔

    "اوئے بچ کے رویں سے ایداں کلوں ایویں عزت لٹیندا سے ساڈی۔۔۔"(اوئے بچ کے رہنا اس سے کہیں عزت ہی نہ لوٹ لے ہمارے)

    اب کی بار عزم کی بات پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے اور عزم اپنی کثرت پوری کرتا حویلی میں چلا گیا۔فریش ہو کر وہ ناشتہ کرنے آیا اور پھر گاؤں کے معاملات دیکھنے کے لیے اپنے ڈیرے پر آیا۔گھر میں تنہا ہونے کی وجہ سے اسے گھر میں رہنا کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔بیس سال کی عمر میں کھوئے ہوئے اپنے ماں باپ کی یاد اسے اس حویلی میں کھانے کو دوڑتی تھی۔

    ڈیرے پر پہنچ کر اپنے منشی اور سب سے بہترین دوست غلام کو نہ پا کر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔

    "نکما میرا دوست نہ ہوتا تو کب کا نوکری سے نکال دیتا اس نکمے کو۔۔۔"

    عزم نے خود کلامی کی اور پھر خود ہی معملات دیکھنے کے لیے کھیتوں کی جانب چل دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی غلام کو وہاں بھاگتے ہوئے آتا دیکھ کر عزم نے گہرا سانس لیا۔

    "نہ جانے کب سدھرو گے تم وقت کی پابندی کا احساس ہی نہیں۔۔۔۔"

    غلام نے کچھ کہنے کے لیے اپنے لب کھولے۔

    "اب رہنے دے جو بھی کہنا ہے کام کی بات پر آ پہلے ہی وقت ضائع کر دیا ہے کافی۔۔۔۔۔"

    غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا اور ہاتھ میں پکڑے کاغذات کھول کر دیکھنے لگا۔

    "نئی کھاد کے استعمال سے فصل کافی اچھی ہوئی ہے۔آگے جا کر کسانوں کو کافی منافع ہو گا۔۔۔۔۔"

    عزم نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور غلام کے ساتھ چلتے ہوئے سر سبز کھیتوں کو دیکھنے لگا۔

    "کیا ہوا؟موڈ کیوں خراب ہے تمہارا؟"

    غلام کے پوچھنے پر عزم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

    "کچھ نہیں۔۔۔۔"

    غلام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔

    "اس پورے گاؤں میں ایک ہی دوست ہے آپ کا چوہدری صاحب اور آپ اس سے بھی باتیں چھپاتے ہیں واہ کیا یاری نبھائی سردار جی نے۔۔۔۔۔"

    غلام کے ڈرامائی انداز میں کہنے پر عزم کے لب مسکرا دیے۔

    "تو نے ہی یار سمجھ رکھا ہے مجھے ورنہ میرے لیے تو تو بس میرا بی اے پاس منشی ہے۔۔۔۔"

    عزم کے اتنی شان سے انکی دوستی کے انکار پر غلام نے اسے منہ بسور کر دیکھا لیکن پھر عزم کو ہنستا دیکھ خود بھی ہنس دیا۔

    "اچھا اب بتاؤ کیا پریشانی ہے تمہیں؟"

    اس کے پھر سے پوچھنے پر عزم نے گہرا سانس لیا۔

    "کل شام درگاہ گیا تھا وہاں اماں بی سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ان کے وہ آنسو برداشت نہیں ہوتے مجھ سے۔۔۔۔۔"

    "تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم تمہارا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا عرشمان کا۔۔۔"

    غلام نے ایسے کہا جیسے کہ یہ کوئی عام سی بات ہو۔

    "وہ اپنے پوتوں کو چن چکی ہیں غلام اب وہ انہیں کے پاس رہیں۔۔۔۔"

    عزم نے بے رخی دیکھاتے ہوئے کہا۔

    "اگر اتنے ہی لاپرواہ ہو ان سے تو انکی پرواہ کیوں ہے تمہیں؟"

    عزم نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔

    "یا تو انہیں اپنے پاس لے آؤ عزم اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان ناسوروں کو مت کھروچو جو تمہیں مزید تکلیف دیں۔"

    عزم نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔

    "صحیح کہہ رہے ہو تم اب میں کسی کی پرواہ نہیں کروں گا بس اپنا مقصد پورا کروں گا۔۔۔۔"

    عزم نے مسکرا کر آن کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا۔

    "یہ کی ناں مردوں والی بات ۔۔۔۔"

    غلام نے مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

    "تو کیا میں پہلے تیرے والی بات کرتا تھا؟"

    عزم کا مزاق سمجھ کر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا اور عزم کے ساتھ باقی کے کھیتوں کا معائنہ کرنے چل دیا۔چلتے ہوئے اچانک ہی انکی نگاہ لوگوں کے ہجوم پر پڑی۔وہ دونوں پریشانی سے انکے پاس گئے تو دیکھا کہ دو کسان آپس میں لڑ رہے تھے جبکہ ایک تو ہاتھ میں درانتی پکڑے دوسرے کی جانب غصے سے بڑھ رہا تھا۔

    یہ دیکھ کر عزم بنا سوچے سمجھے ان دونوں کے درمیان ہو گیا اور وہ کسان جو درانتی دوسرے شخص کو مارنے والا تھا وہ سیدھا عزم کے بازو میں جا لگی۔یہ دیکھ کر جہاں غلام پریشانی سے آگے بڑھا وہیں اس کسان کا رنگ خوف سے زرد پڑھ گیا۔

    "معاف کر دو چوہدری سائیں یہ۔۔۔۔میں اسے مارنے والا تھا۔۔۔۔معاف کر دو چوہدری سائیں۔۔۔۔"

    اس آدمی نے رو کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور عزم نے تکلیف کو نظر انداز کرتے اپنے بازو سے اس درانتی کی نوک نکال دی۔اس کے ایسا کرتے ہی خون پانی کی طرح بہنے لگا جسے عزم نے ہاتھ رکھ کر روک دیا۔

    "غصے کو قابو میں رکھنا سیکھو ورنہ یہ تمہیں جلا کر رکھ سکتا ہے۔۔۔۔"

    عزم نے اپنی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ان بھوری آنکھوں میں غصہ دیکھ کر وہ کسان خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔

    "اپنے ہی گاؤں کے آدمی کو مارنے کی کوشش کرنے کے لیے تمہیں قید کیا جاتا ہے اور باقی کا فیصلہ میں پنچایت میں کروں گا۔۔۔۔"

    عزم کے اتنا کہتے ہی اسکے آدمی آگے بڑھے اور اس کسان کو پکڑ کر وہاں سے لے گئے۔

    "سب جاؤ کام کرو اپنا اپنا۔۔۔۔"

    عزم کے چلاتے ہی وہاں جمع ہوئے لوگ واپس اپنے کام میں جٹ گئے۔لوگوں کے وہاں سے جاتے ہی غلام پریشانی سے عزم کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ زخم سے ہٹا کر اس گہرے زخم کو دیکھنے لگا۔

    "تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو گا۔۔۔"

    عزم نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

    "ارے کچھ نہیں ہوا۔ایویں پیچھے نہ پڑھ میرے گھر جا کر پٹی کر لیتے ہیں۔۔۔۔"

    "نہیں عزم کافی گہرا زخم ہے ہو سکتا ہے ٹانکے لگیں چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔"

    عزم نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا کہہ چکا تھا۔کچھ دیر کے بعد ہی گاڑی گاؤں کے ہسپتال کے باہر رکی۔

    "چلو۔۔۔۔"

    غلام نے گاڑی سے اترنا چاہا لیکن عزم کا سر انکار میں ہلتا دیکھ وہیں رک گیا۔

    "اب کیا ہوا؟"

    "عزم مر جائے گا لیکن اس ہسپتال نہیں جائے گا۔۔۔۔جانتا ہے ناں یہ ہسپتال عرشمان ملک نے بنوایا ہے۔۔۔۔"

    غلام نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا۔

    "عزم اپنا ہاتھ دیکھو کیسے خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔شہر جانے میں بہت زیادہ وقت لگے گا۔۔۔بس ایک بار تم یہاں سے پٹی کروا لو اس کے بعد میں تمہیں یہاں آنے کا کبھی نہیں کہوں گا۔۔۔۔"

    غلام نے اسے سمجھانا چاہا لیکن عزم کو ہٹ دھرمی سے گاڑی میں بیٹا دیکھ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

    "تجھے میری قسم عزم۔۔۔۔"

    عزم نے غصے سے اسے گھورا۔

    "میری جورو ہے جو اپنی قسم دے رہا ہے مر جا میری بلا سے۔۔۔۔میں یہاں نہیں جانے والا چاہے خون کا آخری قطرہ ہی کیوں نہ بہہ جائے۔۔۔۔"

    عزم کی اس ضد پر غلام نے پریشانی سے ڈرائیو کو دیکھا۔شہر کے ہسپتال جانے کے لیے ایک گھنٹہ درکار تھا اور اتنی دیر عزم کا خون بہنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔آخرکار مجبور ہو کر غلام نے وہ پیترا آزمایا جس کے سامنے عزم ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتا۔

    "تمہیں آن جی کی قسم ہے عزم۔۔۔۔"

    عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔وہ دونوں جانتے تھے کہ آن کا نام زبان پر لا کر غلام جیت چکا تھا۔عزم اپنی مٹھیاں بھینچتا گاڑی سے اترا تو غلام مسکرا کر اسکے پیچھے آیا اور اسے سہارا دے کر ہسپتال لے جانے لگا۔

    عزم نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا اور خود ہی چل کر ہسپتال میں داخل ہو گیا۔اپنی مجبوری پر عزم کو حد سے زیادہ غصہ آ رہا تھا ۔

    عزم کو دیکھ کر ایک ورکر جلدی سے اسکے پاس آیا اور اسے سہارا دینے کی کوشش کرنے لگا لیکن عزم نے اسکا ہاتھ بھی بری طرح سے جھٹک دیا۔

    "بس یہ بتا جانا کہاں ہے۔۔۔۔"

    ورکر نے گھبراتے ہوئے ایک وارڈ کی طرف اشارہ کیا تو عزم وہاں گیا اور خاموشی سے وہاں موجود بیڈ پر بیٹھ گیا۔غلام اسکے پیچھے آیا اور پریشانی سے اسکے بازو سے بہتے خون کو دیکھنے لگا جو اب عزم کی انگلیاں بھی تر کر چکا تھا لیکن عزم کے چہرے پر تکلیف کے کوئی آثار نہیں تھے اگر تھا تو صرف عرشمان ملک کے بنائے گئے ہسپتال میں ہونے کا غصہ۔

    کچھ دیر کے بعد ایک نرس اور سفید کوٹ پہنے ایک لڑکا اس وارڈ میں داخل ہوئے اور لڑکے نے جا کر عزم کا بازو پکڑا۔

    "کیا تم ڈاکٹر ہو؟"

    غلام کے پوچھنے پر اس لڑکے نے انکار میں سر ہلایا۔

    "نہیں سر میں ٹیکنیشن ہوں۔۔۔"

    اسکے جواب پر غلام نے اسے غصے سے دیکھا۔

    "اب عزم چوہدری کا علاج کیا ایک ٹیکنیشن کرے گا جاؤ جا کر اپنے ڈاکٹر کو بلا کر لاؤ۔۔۔۔"

    غلام کے سختی کہنے پر ٹیکنیشن نے گھبرا کر نرس کو دیکھا۔

    "س۔۔۔۔سر دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا ہاسپٹل کچھ دن پہلے ہی کھلا ہے اور ابھی ہمارے پاس بس ایک ہی سینئر ڈاکٹر ہیں جو کچھ دیر پہلے ہی اپنی ڈیوٹی ختم کر کر گھر جا چکے ہیں۔۔۔۔"

    نرس کی بات پر ایک طنزیہ مسکراہٹ عزم کے ہونٹوں پر آئی۔

    "یعنی کہ عرشمان ملک نے ایسا ہسپتال بنایا ہے جس میں کوئی ڈاکٹر ہی نہیں۔۔۔۔"

    عزم کی آواز طنز سے بھری پڑی تھی جبکہ غلام اب ان دونوں کو غصے سے گھور رہا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ عزم کا اچھا علاج کرانے کے لیے اسے شہر لے کر جانا پڑے اور اتنی دیر تک اسکا خون ضائع ہوتا رہے۔

    "شرافت سے جا کر کسی ڈاکٹر کو بھیجو ورنہ تمہارا یہ بغیر ڈاکٹر کا ہسپتال کل ہی بند کروا دیں گے۔۔۔۔"

    غلام کے دھمکی لگانے پر نرس نے گھبرا کر ٹیکنیشن کی جانب دیکھا۔

    "ان ڈاکٹر کو بلا لو جو جنہوں نے آج صبح جائن کیا ہے۔۔۔۔"

    "لیکن وہ تو آج پہلے دن ڈیوٹی پر آئی ہیں۔۔۔"

    نرس نے پریشانی سے کہا تو ٹیکنیشن گھبرا کر عزم اور غلام کو دیکھنے لگا۔

    "بلا لو انہیں کم از کم وہ ڈاکٹر تو ہیں ناں۔۔۔۔"

    نرس نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔ٹیکنیشن بھی ڈاکٹر کو بلانے کا کہہ کر اس کمرے سے چلا گیا۔عزم نے دانت کچکچا کر غلام کو دیکھا۔

    "اس بہتر تھا شہر پہنچتے پہنچتے مر جاتا میں۔۔۔۔"

    غلام نے اسکے غصے پر گہرا سانس لیا اور بے چینی سے گھڑی کو دیکھنے لگا۔کچھ دیر کے بعد ہی وارڈ کا دروازا کھلا اور وہی نرس ایک سفید کوٹ والی ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔

    اس ڈاکٹر کو دیکھ کر عزم کو لگا کہ اسکا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا،دھڑکنیں جیسے تھم سی گئی تھیں کیونکہ اس کے سامنے موجود لڑکی کوئی اور نہیں آن تھی۔عرشمان ملک کی منگ اور عزم چوہدری کا جنون۔

    عزم ہکا بکا سا آن کو دیکھ رہا تھا اور اسکے جیسی ہی حالت آن کی بھی تھی۔ابھی نرس نے آ کر اسے ایک مریض کے بارے میں بتایا تھا جو اپنا علاج سے ڈاکٹر سے کروانا چاہ رہا تھا۔آن نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مریض اپنی زندگی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالے اسی لئے وہ نرس کے ساتھ یہاں آگئی لیکن اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا پہلا مریض ہی اسکے منگیتر کا سب سے بڑا دشمن ہو گا۔

    پہلے تو آن نے سوچا کہ انہیں شہر جانے کا بول کر یہاں سے نکال دے لیکن پھر اس کی نظر عزم کے بازو سے بہتے خون پر پڑی تو خود کے ڈاکٹر ہونے کا احساس ہوا۔

    اتنی بلیڈنگ کے ساتھ شہر جانا اس ہٹے کٹے شخص کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔خود پر اور اپنی بے جا نفرت پر بند باندھتی وہ عزم کے قریب آئی اور نرس کو سنجیدگی سے دیکھا۔

    "میڈیکل باکس لائیں آپ۔۔۔۔"

    نرس ہاں میں سر ہلا کر میڈیکل باکس لینے چلی گئی اور آن نے سنجیدگی سے عزم کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ اندھے کو پہلی بار آنکھیں ملی ہوں۔

    "آپ بیڈ پر لیٹ جائیں۔۔۔۔۔"

    آن کا انداز بالکل پروفیشنل تھا لیکن عزم کو تو لگا تھا کہ اسے دنیا ہی مل گئی ہو آخر آن اس سے مخاطب ہوئی تھی۔

    "جو حکم ڈاکٹرنی صاحبہ بیڈ پر تو کیا آپ آگ پر لیٹنے کا بھی کہتیں تو لیٹ جاتا۔۔۔۔"

    عزم نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر آن کے ماتھے پر بل آ چکے تھے۔تبھی نرس نے میڈیکل باکس لا کر آن کے پاس رکھا۔عزم نے آنکھ سے وہاں کھڑے غلام کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔

    "آپ میرے ساتھ آئیں اور مجھے بتائیں کہ کونسی کاغذی کاروائی کرنی ہے۔۔۔۔"

    غلام نے نرس کے قریب آ کر اسے کہا۔

    "لیکن ۔۔۔۔۔"

    نرس نے کچھ کہنا چاہا لیکن غلام اسے بولنے کا موقع دیے بغیر کونی سے پکڑ کر باہر لے جا چکا تھا۔آن نے ایک نفرت بھری ایک نگاہ عزم کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور پھر گہرا سانس لے کر اسکے قریب ہوئی۔

    "ویسے کچھ بھی کر لو ڈاکٹرنی جی بس ٹیکہ مت لگانا سوئی سے بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔۔۔۔"

    عزم نے شرارت سے کہا لیکن آن کے چہرے کی شکن جوں کی توں تھی۔اس نے خاموشی سے عزم کا بازو پکڑا اور قمیض کا بازو اوپر کرنا چاہا لیکن وہ عزم کے بازو کی مظبوط کے باعث کونی سے اوپر جا ہی نہ سکا۔

    آخر کار آن کو اضطراب میں دیکھ کر عزم نے قمیض کا بازو دوسرے ہاتھ میں پکڑا اور جھٹکے سے پھاڑ دیا۔اسکی اس حرکت پر آن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

    "جو ہماری ڈاکٹرنی کو تنگ کرے اسے ہٹا ہی دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔"

    عزم نے شان سے مسکراتے ہوئے کہا اور آن اپنی مٹھیاں بھینچتی رہ گئی۔دل تو کر رہا تھا کہ اس بد لحاظ شخص کو یہاں سے چلتا کر دے لیکن پھر اسکی نظر بازو سے مسلسل بہتے خون پر پڑی تو خود پر ضبط باندھتے ہاتھ کاٹن کی جانب بڑھایا اور سنجیدگی سے اسکا زخم صاف کرنے لگی۔

    "اوئے آرام نال دل جی سینہ چیر کر باہر ہی آ جاؤ گے کیا۔۔۔۔۔"

    آن کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے ہی عزم نے دوسرا ہاتھ دل پر رکھ کر ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔

    "اتنا زیادہ خون بہہ گیا ہے آپ کا کیا دو منٹ خاموش نہیں رہ سکتے آپ؟"

    آن نے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا اور پھر بیڈ کے پاس موجود بٹن دبایا جو کہ نرس کے آفس کی بیل کا تھا۔

    "وہ کیا ناں ڈاکٹرنی جی بچپن میں میری زبان تالو سے لگی تھی تو دس سال تک نہیں بول سکا اس لیے اب کوشش کرتا ہوں کہ ان دس سالوں کی کسر۔۔۔۔"

    آن کو خود کو غصے سے گھورتا پا کر عزم کی زبان کو بریک لگا۔تبھی وہاں پر نرس آئی جسے آن نے کچھ سامان لانے کا کہا جو نرس کچھ ہی دیر میں وہاں لے آئی اور پھر آن کی مدد کے لیے اسکے پاس کھڑی ہو گئی۔

    "زخم گہرا ہے تو ہمیں سٹیچنگ کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔"

    آن نے سنجیدگی سے عزم کے بازو پر انجیکشن لگاتے ہوئے کہا۔

    "میں تو سر تا پیر آپ کا ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ سٹیچنگ،ٹیچنگ،پیچنگ جو دل کرتا ہے کرو۔۔۔۔۔ویسے یہ سٹیچنگ ہوتا کیا ہے۔۔۔؟"

    اس کا جواب عزم کو جلد ہی مل گیا جب اس نے آن کے ہاتھ میں ایک کالا دھاگہ اور مڑی ہوئی عجیب سی سوئی دیکھی۔

    "ڈاکٹرنی جی بندہ ہوں پھٹی ہوئی قمیض نہیں جو سوئی دھاگے سے سینے لگی ہو۔۔۔"

    آن نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس گھورا اور نرس کو اشارہ کرتی عزم کے بازو پر جھکی۔اس سے پہلے کہ وہ سوئی عزم کے بازو سے لگاتی اسکے کانوں میں عزم کی آواز پڑی۔

    "پکا ڈاکٹرنی ہی ہو ناں یا درزن ہو کر ڈاکٹرنی۔۔۔۔۔"

    "خدارا ایک سیکنڈ کے لیے چپ کر جاؤ جان نہیں لے رہی تمہاری بس زخم زیادہ ہے تو سٹچ کرنا پڑے گا اور اتنے ہٹے کٹے مرد ہو کر ایک سوئی سے ڈر رہے ہو شرم آنی چاہیے تمہیں۔۔۔۔اب آواز نہ آئے تمہاری ورنہ اس سوئی سے پہلے تمہارے ہونٹ سی دوں گی پھر زخم کا کچھ کروں گی۔۔۔۔"

    آن کے غصے سے ڈپٹنے پر عزم اسے ایسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور آن اسکی ٹیچر۔عزم نے دوسرے ہاتھ کی انگلی اچھے بچوں کی طرح ہونٹوں پر رکھ لی تو آن نے سکھ کا سانس لیا اور اسکے زخم پر ٹانکے لگانے لگی۔

    اپنا کام انتہائی نفاست سے ختم کر کے آن نے اسے پٹی کی اور نرس کو غلام کو بلانے کا کہہ کر کچھ دوائیاں کاغذ پر لکھنے لگی۔

    "آپ نے بلایا ڈاکٹر صاحبہ؟"

    غلام کی آواز پر آن نے مڑ کر اسے دیکھا۔

    "آپ اب انہیں ساتھ لے جا سکتے ہیں یہ کچھ دوائیاں ہیں آپ انہیں لے دیجیے گا اور یہ دوائی پین کلر ہے صرف درد ہونے پر دینی ہے۔"

    غلام نے ہر بات سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

    "کیا مطلب لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔بیمار ہوں ڈاکٹرنی صاحبہ کوئی ہفتہ تو داخل رکھو اپنے پاس۔۔۔۔"

    اب کی بار عزم کی آواز پر آن نے باقاعدہ اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔

    "تمہیں کہا تھا ناں کہ اب آواز نہ آئے تمہاری۔۔۔اتنے بھی کوئی بیمار نہیں کہ ایڈمیٹ کروں میں گھر جا سکتے ہو۔۔۔۔"

    آن نے عزم کو پھر سے ڈانٹا اور اپنا سامان پکڑتی کمرے سے باہر جانے لگی۔

    "ڈاکٹر صاحبہ پیسے کتنے ہو گئے؟"

    غلام کے پوچھنے پر آن کے چلتے قدم رک گئے اور اس نے مڑ کر جتلاتی نظروں سے عزم کو دیکھا۔

    "میرے منگیتر عرشمان ملک نے یہ ہسپتال گاؤں کے لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ہم یہاں علاج کے پیسے نہیں لیتے۔۔۔۔۔"

    یہ کہتے ہوئے کیا نہیں تھا آن کی آواز میں مان،غرور،چاہت۔۔۔

    آن تو اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی لیکن اسکی اس چاہت پر غلام عزم کو غصے اور ضبط سے مٹھیاں کستے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔

    "عزم چوہدری سے اگر اس انداز میں کوئی بات کرے تو اسکی خیر نہیں لیکن ان کے یوں بات کرنے پر مسکراہٹ ہی غائب نہیں ہو رہی تھی چہرے سے۔۔۔۔"

    غلام نے عزم کا موڈ اچھا کرنے کے لیے مزاق کیا لیکن عزم نے ایسی غضب ناک آنکھوں سے غلام کو گھورا کہ اسکا رواں رواں کانپ اٹھا۔

    "وہ کوئی نہیں میری آن ہے۔۔۔۔۔"

    غلام عزم کی آواز میں چھپی وارننگ محسوس کر سکتا تھا۔اسے تو آن کا عام لوگوں سے ملائے جانا تک گوارا نہیں تھا۔

    "ویسے کیسا رہا تمہارا علاج اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟"

    غلام نے بات کو بدلتے ہوئے پوچھا جبکہ اسکے سوال پر عزم کی چہرے کی شکن غائب ہو گئی اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔

    "کیا بتاؤں یارا پھٹے ہوئے کرتے کی طرح سی دیا مجھے ظالم نے لیکن اس سیے جانے میں بھی اتنی لذت تھی کہ دل کر رہا ہے ہر جگہ سے پھٹ کر واپس آ جاؤں اور وہ جگہ جگہ سے سی کر ملنگوں والا کرتا بنا دے مجھے۔۔۔۔"

    عزم کی بات پر غلام قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

    "چلو پھر واپسی پر گاڑی درخت میں مار کے تمہیں پھٹا ہوا کرتا بناتا ہوں۔۔۔۔"

    عزم اسکی بات پر ہلکا سا مسکرا دیا اور غلام اسے سہارا دیتا وہاں سے لے جانے لگا۔غلام جانتا تھا کہ عزم اوپر سے تو مسکرا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر ایک طوفان اس میں امٹ رہا ہے۔

    عزم چوہدری ہر میدان میں عرشمان ملک سے آگے رہا تھا۔ہر چیز جو اس نے چاہی تھی وہ جیت کر عرشمان سے چھین لی لیکن یہ بھی قسمت کا کھیل تھا کہ عرشمان ملک کو اس چیز پر سبقت حاصل تھی جس کی چاہ عزم چوہدری کو اس دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔
    ????
    آن کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس گھر آئی تھی اور اب اپنے کمرے میں بیٹھی ہر گزری بات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اگر عرشمان کو پتہ لگ جاتا کہ اس نے عزم چوہدری کا علاج کیا ہے تو وہ کیا کرتا؟

    ہاں وہ آن کو جان سے زیادہ چاہتا تھا لیکن جتنی محبت وہ آن سے کرتا تھا اتنی ہی نفرت اسے عزم چوہدری سے تھی اور آج آن نے اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر عرشمان کو دھوکہ دیا تھا۔کیا اسے اس بارے میں عرشمان سے بات کرنی چاہیے تھی؟آن نے اضطراب سے سوچا۔۔۔۔

    نہیں یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی۔اس شخص کو چوٹ لگی تھی اور وہ وہاں علاج کروانے آیا تھا۔۔۔۔بس۔۔۔۔یہ کوئی بات کا بتنگڑ بنانے والا مسلہ نہیں تھا۔

    "کیسا رہا پہلا دن؟"

    عرشمان کی آواز پر آن خوف سے اچھل پڑی اور سہم کر اسے دیکھنے لگی جو دروازے میں کھڑا آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت لیے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔

    "ااا۔۔۔۔اچھا تھا مان۔۔۔"

    آن نے فوراً اپنا سر جھکا لیا اور اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔

    "کوئی خاص مریض آیا؟"

    اس سوال پر آن کا دل بہت زور سے دھڑکا اب وہ عرشمان کو کیا بتاتی کہ اسکے ہی سب سے بڑے دشمن کے زخم پر مرحم لگا کر آ رہی تھی۔

    "اتنا گھبرا کیوں رہی ہو آن سب ٹھیک ہے ناں تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟"

    عرشمان دروازے سے ہٹ کر اسکے پاس آیا اور اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھنے لگا۔

    "جی مان بالکل ٹھیک ہوں بس پہلا دن تھا ناں جاب کا زرا سا تھک گئی ہوں۔۔۔۔"

    عرشمان کے ماتھے پر بل آتے دیکھ آن مزید گھبرا گئی۔

    "کیا مطلب تھک گئی ہو کیا تمہیں وہاں اتنا زیادہ کام کرنا پڑا؟میں ابھی پوچھتا ہوں اس ڈاکٹر سے کہ خود کہاں تھا وہ۔۔۔۔"

    عرشمان نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈال کر موبائل نکال لیا تو آن نے اٹھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔

    "کیا ہو گیا ہے اتنا زیادہ کام بھی نہیں کیا میں نے وہ تو بس میں یونہی تھک گئی آپ بھی ناں اتنی جلدی غصے میں مت آیا کریں۔۔۔۔"

    عرشمان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔

    "وہ ہسپتال میں نے تمہارے لیے بنایا ہے آن تم وہاں کی مالک ہو۔ہر ڈاکٹر جو وہاں آتا ہے وہ تمہارے انڈر ہے تم انکے انڈر نہیں۔۔۔۔تم باس ہو ان کی خود کچھ مت کرو بس ان پر حکم چلایا کرو۔۔۔۔"

    آن اس بات پر ہلکا سا ہنس دی۔

    "میڈیکل میں نے لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے پڑھا ہے مان حکم چلانے کے لیے نہیں۔۔۔۔"

    عرشمان کو ہلکا سا مسکراتا دیکھ آن نے سکھ کا سانس لیا۔

    "میرا بس چلے ناں تو تمہیں ایک کانچ کے محل میں بند کر دوں جہاں ہزار خادمہ تمہاری خدمت میں جٹی رہیں اور تمہارا بس ایک کام ہو۔۔۔۔"

    "کیا؟"

    عرشمان کے خاموش ہونے پر آن نے دلچسپی سے پوچھا۔

    "مجھ سے محبت کرنا۔۔۔۔۔"

    آن کا سر فوراً جھک گیا اور گال گلاب کی مانند دہکنے لگے۔

    "کچھ تو خیال کریں۔۔۔۔"

    اسکی اس ادا پر عرشمان جان نثار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

    "خیال ہی تو کر رہا ہوں ابھی کیونکہ ابھی مکمل دسترس میں نہیں آئی تم جس دن تم پر ہر حق حاصل کر لیا ناں اس دن تم میری محبتوں اور شدتوں سے چاہ کر بھی بچ نہیں پاؤ گی۔"

    نہ جانے عرشمان کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ آن کا روم روم کانپ اٹھا تھا۔

    "آپ ایسی باتیں کریں گے تو میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔"

    ابھی الفاظ آن کے منہ میں ہی تھے جب عرشمان نے اسے کونی سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور انگارہ ہوتی نگاہیں اسکے حسین چہرے پر گاڑ دیں۔

    "پھر کبھی بھی دور جانے کی بات نہ کرنا آن قسم سے برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔"

    ان الفاظ میں چھپا جنون محسوس کر آن کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔اگر عرشمان کو عزم کے بارے میں پتہ لگ جاتا تو وہ نہ جانے کیا کر گزرتا۔آن نے خود سے وعدہ کیا کہ کچھ بھی ہو جاتا وہ عزم کو اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں لگنے دینے والی تھی۔

    "کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔؟"

    فرحین بیگم کی آواز پر آن فوراً عزم سے دور ہوئی اور اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک سے لینے لگی۔

    "بڑی امی وہ۔۔۔۔"

    "آن میری منگیتر ہے امی غیر نہیں اس سے بات کر سکتا ہوں میں۔۔۔۔مجھے نہیں لگتا اس میں کوئی بری بات ہے۔۔۔۔"

    آن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عرشمان کا اسکی سائیڈ لینا فرحین بیگم کو ایک آنکھ نہ بھایا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہیں۔

    "بالکل کر سکتے ہو بیٹا۔۔۔۔"

    فرحین کے مسکرا کر کہنے پر عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

    "آپ کو کچھ کام تھا بڑی امی؟"

    آن کے پوچھنے پر فرحین بیگم نے مصنوعی مسکان کے ساتھ اسے دیکھا۔

    "میں نے تو بس یہ کہنا تھا کہ انابیہ بے چاری نیچے اکیلے کچن میں کھانا بنا رہی ہے تو تم بھی اسکی تھوڑی مدد کروا دو لیکن تم مصروف ہو تو کوئی مسلئہ نہیں۔۔۔۔"

    "نہیں میں آتی ہوں۔۔۔"

    "امی آن تھکی ہوئی ہے۔۔۔۔"

    آن اور عرشمان ایک ساتھ بولے تو فرحین بیگم دونوں کو دیکھنے لگیں جبکہ عرشمان تو آن کی بات پر اسے گھور رہا تھا۔

    "آپ چلیں بڑی امی میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔۔۔۔"

    آن نے عقیدت سے کہا اور عرشمان کے غصے کو نظر انداز کرتی فرحین بیگم کے پیچھے چل پڑی ابھی وہ دونوں کچن کے پاس پہنچی تھیں جب فرحین بیگم اس کی جانب مڑیں۔

    "ویسے تمہیں خیال کرنا چاہیے تھوڑا تمہاری ابھی عرشمان سے شادی نہیں ہوئی جو اسے یوں اپنے کمرے میں تنہا بلا رہی ہو ۔۔۔ویسے بھی مجھے سمجھ نہیں آتا تمہیں اس پر ڈورے ڈالنے کی ضرورت کیا ہے وہ تو پہلے ہی مکمل طور پر تمہارے قابو میں ہے۔۔۔۔"

    فرحین موقع دیکھتے ہی شروع ہو چکی تھیں اور آن بس سر جھکا کر ان کے طعنے برداشت کر رہی تھی۔

    "انابیہ بھی تو سلطان کی منگیتر ہے ناں کل سے آیا ہے سلطان لیکن اسے کبھی یوں سلطان کے آگے پیچھے گھومتے دیکھا ہے کیا؟"

    انکی ہر بات پر آن کا سر مزید جھکتا جا رہا تھا لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ کی طرح انکی ہر بات برداشت کر گئی تھی کیونکہ فرحین بیگم کو اپنی بھانجی کے گن گانا ہمیشہ اچھا لگا تھا۔

    "جو بھی ہو بیٹی تو ماں پر ہی جائے گی ناں آخر تمہاری رگوں میں بھی تو تمہاری گھٹیا چوہدری ماں کا گھٹیا خون دوڑ رہا ہے ناں۔۔۔۔۔"

    اب کی بار آن کی بس ہوئی تھی تبھی کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر زمین بوس ہوئے تھے جنہیں فرحین بیگم نظر انداز کرتیں کچن میں جا چکی تھیں۔

    یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اسے اسکی ماں کا طعنہ دیا تھا۔یہ بات ہی شائید فرحین بیگم کی نفرت کا باعث تھی کہ آن اس عورت کی بیٹی تھی جس کے بھائی نے فرحین بیگم سے ان کے شوہر کو چھینا تھا۔

    آن شمع چوہدری کی بیٹی تھی جو کہ مہتاب چوہدری کی اکلوتی بہن اور عزم چوہدری کی پھپھو تھیں اور آن کا چوہدری خاندان سے یہ تعلق ہی سب سے بڑا المیہ تھا۔
    ????
    رشید احمد اتحاد ملک کی اس بڑی سی حویلی میں داخل ہوا۔کل ہی اتحاد نے اسے حویلی میں آنے کا کہا تھا کہ اسے رشید سے کچھ کام ہے لیکن رشید سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس جیسے گاؤں کے سردار کو ایک عام کسان سے بھلا کیا کام۔

    "آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔؟"

    اتحاد ملک کے سامنے لے جائے جانے ہر رشید نے سر جھکا کر سوال کیا۔

    "بیٹھو رشید کھڑے کیوں ہو۔۔۔؟"

    اتحاد ملک نے حقے کا گہرا کش بھرتے ہوئے کہا تو رشید خاموشی سے اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔

    "آپ کو مجھ سے کوئی کام تھا سائیں؟"

    اتحاد اسکے سوال پر مسکرایا۔

    "ہاں رشید بہت خاص کام تھا۔۔۔۔"

    رشید نے پھر سے ایک گہرا کش بھرا۔

    "تمہاری بیٹی تھی ناں کنیز فاطمہ۔۔۔۔اسے ہم اپنی حویلی کی عزت بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔"

    اتحاد کی بات پر رشید نے حیرت سے اسے دیکھا۔

    "سائیں آپ کا اور ہمارا کیا مقابلہ۔۔۔۔؟"

    اتحاد ملک قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

    "یہ سب چھوڑو رشید میں یہ سب سوچنے والوں میں سے نہیں بس تم اس رشتے کے لیے ہاں بولو ۔۔۔۔"

    اتحاد ملک کا انداز حکمیہ تھا۔

    "لیکن سائیں آپ کا بیٹا تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور میری نوری تو بس سترہ سال کی ہے میں کیسے اس کا رشتہ آپ کے بیٹے سے طے کر دوں۔۔۔۔"

    کنیز کی عمر جان کی اتحاد کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔

    "تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے رشید میں کنیز کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے مانگ رہا ہوں میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"

    ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ کر رشید پر گرے۔اس نے بے یقینی سے اس ساٹھ سالہ آدمی کو دیکھا۔

    "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سائیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔"

    "کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔؟"

    اتحاد کا لہجہ کافی سخت ہوا تھا۔

    "میری بچی بہت چھوٹی ہے سائیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

    اتحاد ہے ماتھے پر آتے بل بھی اس باپ کو ڈرانے میں ناکام ثابت ہوئے۔

    "تم بھول رہے ہو رشید کہ میں اس گاؤں کا سردار ہوں میں جو چاہوں ہو سکتا ہے۔۔۔۔"

    رشید نے فوراً اپنے ہاتھ انکے سامنے جوڑ دیے۔

    "ایسا مت کریں سائیں میں بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"

    "شادی کی تیاری کرو رشید یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔"

    اتحاد کی بات پر رشید کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا پھر ہمت کرتے ہوئے بولا۔

    "نہیں۔۔۔۔میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

    اتحاد نے اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچائے۔

    "سوچ لو تم جانتے نہیں کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔۔۔۔"

    اتحاد نے دھمکاتے ہوئے کہا لیکن رشید کو اٹھ کر کھڑا ہوتا دیکھ حیران رہ گیا۔

    "آپ کچھ بھی کر لیں میری بیٹی آپ کی بیوی نہیں بنے گی کبھی بھی۔"

    رشید نے اتنا کہہ اور وہاں سے جانے لگا لیکن دو ملازموں نے اسکا راستہ روک دیا۔

    "آپ نے بلایا تھا سائیں۔۔۔۔"

    ایک عورت کی آواز پر رشید نے مڑ کر اتحاد کی چالیس سالہ بیوی کو دیکھا جو اسکے پاس کھڑی تھی۔

    "ہاں میں نے کہنا تھا کہ میں ایک خوبصورت سی سترہ سالہ لڑکی سے دوسری شادی کر رہا ہوں اس لیے مجھے تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔"

    اس سے پہلے کہ اتحاد کی بیوی کچھ کہہ پاتی اتحاد نے ایک ریوالور نکالا اور اپنی بیوی کے سینے میں گولی مار دی۔رشید حیرت اور خوف سے اس سفاک شخص کو دیکھنے لگا۔

    "یہاں کیا ہوا لڑکو؟"

    اتحاد نے اپنے ملازموں سے پوچھا جو رشید کو پکڑ کر کھڑے تھے۔

    "رشید احمد یہاں آیا اور آپ سے قرض مانگا لیکن آپ نے انکار کر دیا تو اس نے آپ سے آپکی بندوق چھینی اور گولی چلا دی۔سردارنی جی یہ دیکھ نہیں پائیں اور آپ دونوں کے درمیان آ کر آپ پر چلنے والی گولی خود پر لے لی۔"

    رشید حیرت سے وہاں موجود ہر شخص کو دیکھ رہا تھا۔

    "یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ سب۔۔۔۔؟"

    "اور میری بیوی کو مارنے کی سزا تو اسے ملے گی ناں لیکن مجھے اس کے بچوں کا بھی خیال آ گیا کہ اسکے مرنے کے بعد ان کا کیا ہو گا اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ بیوی کے بدلے بیوی اسے اپنی بیٹی کنیز کو ونی کر کے میرے نکاح میں دینا ہو گا۔۔۔۔"

    اتحاد ملک نے چالاکی سے مونچھ کر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔رشید ہر معاملہ سمجھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

    "ایسا ظلم مت کریں سائیں جی میں آپ سے بھیک مانگتا ہوں۔۔۔۔"

    اتحاد اس مجبور انسان کو دیکھ کر خباثت سے مسکرا دیا۔

    "کل یہ فیصلہ پنچایت میں ہو گا اور پھر تم کچھ نہیں کر پاؤ گے۔۔۔۔ہاہاہا کہا تھا ناں کہ جو چاہوں اسے حاصل کر لیتا ہوں۔اب تمہاری نوری اس حویلی کی کنیز بن کر رہے گی میری کنیز بن کر رہے گی۔۔۔۔"

    اتحاد ملک نے خباثت سے کہا اور رشید کو بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔
    ????

    Comment


    • #22
      #زندگی_اے_تیرے_نال
      #قسط_نمبر_4



      نیلی جینز پر سفید شرٹ پہنے،لمبے سنہری بالوں کی پونی ٹیل بنائے اور شہد رنگ کی آنکھوں کو کالے چشمے سے چھپائے وہ بے نیازی کے عالم میں ائیر پورٹ پر کھڑی تھی۔اس بات سے بے نیاز کے کتنی ہی آنکھیں اسے حسرت اور چاہت سے تک رہی تھیں۔

      "لیزا چلو گاڑی آ گئی ہے ہماری۔۔۔۔"

      شاہد کی آواز پر لیزا نے گہرا سانس لیا اور اپنا سوٹ کیس ساتھ گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پاس آ گئی۔شاہد نے سامان گاڑی میں رکھوایا اور اب دونوں اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔

      "تمہیں وہاں جا کر بہت مزا آئے گا۔۔۔۔"

      لیزا اکتائی سی لاہور کی بھیڑ بھاڑ دیکھ رہی تھی جب اسکے کانوں میں شاہد کی پرجوش سی آواز پڑی۔

      "آئی ڈوٹ تھنک سو ڈیڈ آئی رئیلی ڈونٹ تھنک سو۔۔۔۔"

      لیزا نے انتہائی بے رخی سے کہا اور جیب سے ائیر پوڈز نکال کر کانوں میں لگا لیے۔وہ سفر اسکی سوچ سے زیادہ طویل تھا انہیں گاؤں پہنچنے میں چار سے پانچ گھنٹے لگ گئے تھے۔

      حویلی پہنچ کر گاڑی رکی تو لیزا کی آنکھ جھٹکے سے کھل گئی اور وہ نگاہیں چھوٹی کر کے اس شاندار سی حویلی کو دیکھنے لگی جو اسکی سوچ سے زیادہ بڑی تھی۔

      "یہ آپ کا گھر ہے؟"

      لیزا نے سیدھے ہوتے ہوئے شاہد سے پوچھا۔

      "بالکل میرا گھر ہے۔۔۔۔آؤ تمہیں سب سے ملاتا ہوں۔۔۔۔"

      شاہد نے ایک ہاتھ لیزا کے کندھے کے گرد رکھتے ہوئے کہا اور اسے اپنے ساتھ لے کر حویلی کے داخلہ دروازے کی جانب چل دیے۔اتنے سالوں کے بعد یہاں واپس آ کر شاہد کو وہ پل آنے لگے جو انہوں نے یہاں بتائے تھے۔

      حویلی کے وسیع حال میں داخل ہوتے ہی ان کی پہلی نظر فرحین بیگم پر پڑی جو حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہی تھیں۔

      "اماں بی۔۔۔۔اماں بی دیکھیں کون آیا ہے۔۔۔۔"

      فرحین کے الفاظ پر شاہد کا دھیان اماں بی پر گیا تو آنکھیں ماں کو اتنے سالوں کے بعد دیکھنے پر خود ہی بھیگ گئیں۔

      "اماں جی۔۔۔۔"

      ارشاد نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اماں بی کا ہاتھ ہوا میں اٹھا دیکھ کر اپنی جگہ پر رک گئے۔

      "کیا کرنے آؤ ہے یہاں؟"

      اماں بی کے بے رخی سے پوچھنے پر شاہد تڑپ اٹھے۔

      "اماں جی آپ۔۔۔۔"

      "آج یاد آ گئی ماں کی یا آخر کار تمہاری اس انگریز بیوی نے آنے کی اجازت دے دی۔۔۔؟"

      اپنے باپ کا سر شرمندگی میں جھکتا دیکھ لیزا نے حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔وہ ان دونوں کی باتیں تو سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن لہجے سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ کچھ تو غلط تھا۔

      "مارتھا کی پچھلے سال موت ہو گئی اماں جی میں نے آپ کو بتانے کے لیے فون بھی کیا لیکن آپ نے مجھ سے بات ہی نہیں کی۔۔۔۔"

      اماں بی نے افسوس سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔

      "اب یہاں کیوں آئے ہو شاہد ملک؟"

      اماں بی کے پوچھنے پر شاہد نے اپنا سر جھکا لیا۔

      "میں آن کی شادی کے لیے آیا ہوں اماں بی وہ میری بیٹی۔۔۔۔"

      "خبردار۔۔۔۔خبردار شاہد ملک جو اپنی زبان پر آن کا نام لایا۔۔۔۔۔بارہ سالوں سے تمہیں یاد نہیں تھا کہ تمہاری ایک بیٹی بھی ہے اب تمہارا کوئی حق نہیں اس پر سمجھے تم۔۔۔۔"

      "اماں بی میں اس کا ولی۔۔۔۔"

      "نہیں ہو تم اس کے ولی نہیں تمہارا کوئی حق اس پر۔۔۔۔تم جا سکتے ہو یہاں سے ہم میں سے کسی کو بھی تمہاری ضرورت نہیں۔۔۔۔"

      شاہد تڑپ کر آگے ہوئے اور اماں بی کے قدموں میں بیٹھ کر انکے پیر پکڑ لیے۔

      "مجھے معاف کر دیں اماں جی اللہ کے واسطے معاف کر دیں۔۔۔۔"

      اپنے بیٹے کو یوں روتا دیکھ اماں بی کی پلکیں نم ہوئیں۔

      "تمہیں زرا سا خیال آیا تھا شاہد؟ اپنی بارہ سالہ بیٹی کو بے آسرا چھوڑ کر چلے گئے،اٹھارہ سالہ عرشمان کے ناتواں کاندھوں پر ساری زمہ داری لاد کر چلے گئے یہ تک نہیں سوچا کہ باپ کا لاڈلا شہزادہ یتیمی کا غم سنبھالے گا یا اسکی زمہ داریاں۔۔۔۔"

      اماں بی کی ہر بات پر شاہد کا سر شرمندگی سے جھکتا چلا گیا۔

      "میں شرمندہ ہوں اماں جی بس ایک بار معاف کر دیں۔۔۔۔۔"

      شاہد نے اپنے ہاتھ اماں بی کے پیروں پر رکھے تو اماں بی بے بسی سے انہیں دیکھنے لگیں۔وہ کتنا ہی غصہ کیوں ناں کر لیتیں سچ تو یہی تھا کہ وہ اماں بی کی ایک ہی اولاد تھی جو ابھی بھی اس دنیا میں تھی۔اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر انکی مامتا بھی تڑپ اٹھی تھی۔

      "ٹھیک ہے تم یہاں رک سکتے ہو لیکن شادی ختم ہوتے ہی تم واپس چلے جاؤ گے۔۔۔۔"

      اماں بی کا لہجہ کسی بحث کی گنجائش نہیں چھوڑ رہا تھا اس لیے شاہد نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اماں بی نے شاہد سے دھیان ہٹایا تو انکی نظر لیزا پر پڑی جو چونگ گم چباتے ہوئے حویلی کی سجاوٹ کو دیکھ رہی تھی۔

      "یہ کون ہے؟"

      اماں بی کے پوچھنے پر شاہد نے مسکرا کر لیزا کی جانب دیکھا۔

      "یہ میری بیٹی ہے اماں بی۔۔۔"

      اماں بی نے اب کی بار غصے سے شاہد کو دیکھا۔

      "تم نے اتنے سالوں سے ہمیں یہ تک بتانا گوارا نہیں کیا شاہد کے تمہاری اس انگریز سے ایک بیٹی بھی ہے۔۔۔۔"

      اماں بی نے مغربی حسن رکھنے والی لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

      "معاف کر دیں اماں بی۔۔۔۔مارتھا نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی کا پاکستان میں کسی سے تعلق ہو اس لیے میں نے آپ کو نہیں بتایا کہ آپکو برا نہ لگے۔۔۔۔۔۔"

      اماں بی بے یقینی سے شاہد کو دیکھنے لگیں۔

      "کتنے سال کی ہے وہ؟"

      شاہد نے اس سوال پر تھوک نگلا۔

      "اٹھارہ سال کی۔۔۔۔"

      ایک طنزیہ مسکراہٹ اماں بی کے ہونٹوں پر آئی۔

      "یعنی شمع کو طلاق دینے سے پہلے ہی تم وہاں شادی کر چکے تھے اور ہم نے سوچا کہ بس وہاں نوکری کی وجہ سے رہ رہے ہو۔۔۔۔واہ شاہد ملک کیا ہی بیوقوف بنایا تم نے ہم سب کو۔۔۔۔۔"

      شاہد کا سر مزید جھک چکا تھا۔

      "معاف کر دیں اماں جی۔۔۔۔"

      "تم خود کو معاف کرنا ناممکن بناتے جا رہے ہو شاہد۔۔۔۔"

      شاہد نے لاچارگی سے انہیں دیکھا لیکن پھر لیزا کے لیے اماں بی کی آنکھوں میں نرمی دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرنے لگے۔

      "لیکن میں اسے اسی لیے ساتھ لایا ہوں اماں بی کہ آپ سب اسے جان سکیں اور وہ بھی اپنے وطن کو اپنے رشتوں کو جان لے۔۔۔۔"

      اماں بی نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا تو شاہد مسکرا دیے اور لیزا کی جانب دیکھا۔

      "لیزا یہاں آؤ۔۔۔۔"

      ارشاد نے انگلش میں کہا تو لیزا گہرا سانس لے کر انکے پاس آئی۔

      "یہ تمہاری دادی ہیں لیزا سلام کرو انہیں۔۔۔۔"

      لیزا نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اماں بی کو دیکھا اور اپنا ہاتھ انکے سامنے کر دیا۔

      "ہیے گرینی۔۔۔۔"

      اماں بی نے حیرت سے اسکے انداز اور حلیے کو دیکھا۔

      "مجھے اماں بی کہو بیٹا سب مجھے اماں بی بلاتے ہیں۔۔۔۔"

      اماں بی کے نرمی سے کہنے پر لیزا نے نا سمجھی سے اپنے باپ کی جانب دیکھا جنہوں نے اماں بی کی بات انگلش میں دہرا دی۔

      "کیا اسے اردو نہیں آتی شاہد؟ کیا ملکوں کی بیٹی مکمل طور پر انگریز ہے۔۔۔۔؟"

      اماں بی نے صدمے سے کہا تو شاہد کا سر پھر سے شرمندگی سے جھک گیا۔

      "نہیں اماں جی لیکن میں کوشش کروں گا کہ اسے یہاں کے رنگ میں ڈھال دوں اسی لیے تو اسے یہاں لایا ہوں۔۔۔۔۔"

      اماں بی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اچانک ہی کب سے خاموشی سے انکی باتیں سنتی فرحین بیگم بول اٹھیں۔

      "آپ کیوں شاہد بھائی کے پیچھے پڑ گئی ہیں اماں بی تھکے ہوئے آئے ہیں وہ انہیں آرام تو کرنے دیں۔۔۔۔"

      اماں بی نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔

      "تم بچی اور شاہد کو کمرے میں بھجوا دو تا کہ وہ آرام کر لیں۔۔۔۔۔"

      فرحین نے اثبات میں سر ہلایا اور ملازمہ کو بلا کر لیزا کو کمرے میں لے جانے کا کہا۔ملازمہ لیزا کا سامان لے کر اسے دوسری منزل پر بنے ایک کمرے میں لے آئی اور اسے کمرے میں چھوڑ کر اردو میں کچھ کہا جو لیزا کو بالکل سمجھ نہیں آیا لیکن پھر بھی اس سے جان چھڑانے کے لیے لیزا نے ہاں میں سر ہلایا اور ملازمہ کے جاتے ہی دروازہ لاک کر کے اپنا ہینڈ بیگ غصے سے بیڈ پر پھینکا۔

      "ہیل ود دس پلیس اینڈ دیز پیپل۔۔۔۔"(بھاڑ میں جائے یہ جگہ اور یہ لوگ)

      لیزا نے موبائل پکڑ کر بے بسی سے اپنے بند ہوئے کینیڈا کے نمبر کو دیکھا لیکن وائی فائی کنیکٹ کرنے پر جب وہ بغیر پاس ورڈ کے کنیکٹ ہو گیا تو مسکرا دی۔

      "تھینک گاڈ کچھ تو اچھا ہے یہاں۔۔۔۔"

      لیزا انسٹاگرام چلاتے ہوئے کھڑکی کے پاس آئی اور کھڑکی کھول کر مسکراتے ہوئے اپنی دوستوں کو ریپلائے دینے لگی۔اچانک اسکی نظر باہر نظر آتے سر سبز کھیتوں پر پڑی تو اس نے اپنا کیمرہ چلایا اور اس منظر کی تصویر بنا کر انسٹا پر اپلوڈ کرنے لگی۔

      "ویلکم لیزا ملک ٹو ہیل فار آ ہول منتھ"

      لیزا نے کیپشن میں لکھا اور تصویر پوسٹ کر دی۔سامنے موجود منظر کو دیکھتے ہوئے لیزا نے سوچا کہ اپنے باپ کے لیے وہ ایک مہینہ یہاں گزار ہی سکتی تھی۔
      ????
      آن کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے واپس آئی تھی اور اب فرحین کے حکم کے مطابق رات کا کھانا بنانے میں مصروف تھی۔فرحین بیگم نے اسے کھانے میں خاص احتمام کرنے کا کہا تھا وجہ تو آن نہیں جانتی تھی لیکن پھر بھی انکی خوشی کے لیے ہر چیز اچھے سے تیار کرنے لگی۔

      "آن۔۔۔۔"

      اپنے پیچھے سے آنے والی آواز پر آن کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹک گیا۔آج پورے بارہ سال کے بعد وہ یہ آواز سن رہی تھی لیکن پھر بھی ایک پل لگا تھا اسے وہ آواز پہچاننے میں۔

      آن حیرت سے پلٹی لیکن جیسے ہی اسکی نظر شاہد پر پڑی تو وہ حیرت بے رخی اور کرب میں بدل گئی۔

      "ماشاءاللہ کتنی بڑی ہو گئی ہو تم۔۔۔۔"

      شاہد نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا جبکہ آن کا دل کر رہا تھا کہ وہ اس شخص سے چیخ چیخ کر پوچھے کہ کیا ایک باپ بیٹی کو دیکھ کر یہ سوچتا ہے کہ وہ کتنی بڑی ہو گئی۔نہیں ایک باپ اسے اپنے ہاتھوں میں محبت سے بڑا کرتا ہے جو شاہد نے نہیں کیا تھا۔

      "آن۔۔۔۔"

      شاہد نے کچھ کہنا چاہا لیکن آن اسے بولنے کا موقع دیے بغیر کچن سے باہر نکل گئی اور اپنے آنسوں پر ضبط باندھتی کمرے کی جانب بھاگنے لگی۔آنسوں سے دھندلاتی آنکھوں سے اسے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا اسی لیے وہ سامنے سے آنے والے شخص سے بری طرح سے ٹکرا گئی۔اس سے پہلے کے وہ زمین بوس ہوتی دو مظبوط ہاتھوں نے اسے تھام کر گرنے سے روکا۔

      "آن کیا ہوا۔۔۔۔؟"

      عرشمان کی آواز پر آن نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا جو پریشانی سے اسکے چہرے پر بہتے آنسؤں کو دیکھ رہا تھا۔

      "وہ۔۔۔۔وہ شخص یہاں کیا کر رہا ہے مان۔۔۔۔کیوں ہے وہ یہاں۔۔۔۔؟"

      آن کی بات سمجھ کر عرشمان نے گہرا سانس لیا اور اسے اسکے کمرے میں لے گیا۔

      "انہیں میں نے ہی بلایا ہے آن۔۔۔۔"

      کمرے میں پہنچ کر عرشمان آخر کار بولا تو آن اسے حیرت سے تکنے لگی۔

      "کیوں۔۔۔۔؟"

      "وہ تمہارا باپ ہے آن بھلا انکی غیر موجودگی میں میں تم سے نکاح کیسے کرتا۔۔۔؟"

      عرشمان کی بات پر آن گھائل سی ہنسی ہنس دی۔

      "باپ۔۔۔۔؟باپ ایسے ہوتے ہیں عرشمان؟ کام کے سلسلے میں باہر کے ملک رہنے کا دعویٰ کر کے وہاں شادی کرنے والے اور یہاں پر رہتی اپنی بیوی اور اولاد کو بھول جانے والے ۔۔۔۔"

      عرشمان سنجیدگی سے آن کے چہرے پر اس کرب کو دیکھ رہا تھا۔

      "مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے مان جس دن امی کو انکی کینیڈا والی بیوی کی خبر ہوئی تھی۔۔۔۔امی نے بس اتنا پوچھا کہ انہوں نے ان کے ساتھ دغا کیوں کی؟تو پتہ ہے مان انہوں نے امی کے منہ پر ایک تھپڑ مار کر کہا کہ وہ ان کے قابل ہی نہیں اس لیے کی انہوں نے شادی۔۔۔۔۔نفرت کرتے تھے وہ میری امی سے،بڑے بھائی نے زبردستی انکے پلے باندھا تھا میری امی کو اس لیے کی انہوں نے وہاں شادی۔۔۔۔"

      عرشمان مٹھیاں بھینچے آن کے آنسو دیکھتا اسکی بات سن رہا تھا۔

      " مجھے لگا انکی یہ نفرت صرف امی کے لیے ہے لیکن ان کے مرنے کے بعد انہوں نے ثابت کر دیا کہ جیسے امی ان کے لیے ایک مجبوری تھیں میں بھی بس وہی تھی۔۔۔۔اسی لیے بارہ سال کی وہ بچی جس نے اپنی ماں کو کھویا تھا اس سے اسکا باپ بھی چھین کر سات سمندر پار چلے گئے اور کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ انکی کوئی بیٹی بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔"

      آن نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھ کر عرشمان کو دیکھا۔

      "اور آج جب وہ واپس آ کر مجھے بیٹی کہیں تو کیسے مان لوں میں خود کو ان کی بیٹی مان کیسے۔۔۔۔"

      اتنا کہہ کر آن کا خود پر باندھا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔یہ دیکھ کر عرشمان کی بس ہوئی تھی اسی لیے اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

      "یقین جانو آن اس کے لیے میں بھی ان سے اتنی ہی نفرت کرتا ہوں جتنی کے تم۔۔۔۔میں بھی نہیں چاہتا تھا کہ ہمارے خوشیوں بھرے جہان میں انکی ہوئی جگہ ہو۔۔۔۔"

      آن اب خاموشی سے عرشمان کے چہرے کو دیکھنے لگی تھی۔

      "لیکن نہ تو میں اور نہ ہی تم اس بات کو جھٹلا سکتے ہیں کہ وہ تمہارے بابا ہیں۔۔۔تمہارے ولی۔۔۔۔"

      اس بات پر آن نے اپنی نظریں جھکا لیں۔

      "لیکن پھر بھی اگر تم انہیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتی تو میں انہیں صبح ہی واپس بھجوا دوں گا۔۔۔۔"

      آن نے کچھ دیر اس بارے میں سوچا اور پھر اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔

      "نہیں مان مجھے ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔وہ جب تک چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں۔۔۔۔"

      عرشمان نے اسکی بات پر مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔

      "یہ ہوئی ناں بات۔۔۔اب اس سب کے بارے میں سوچنا چھوڑو اور شادی کی تیاریوں پر دھیان دو کیونکہ بمشکل بیس دن ہیں تمہارے پاس تو جتنے شوق پورے کرنے ہیں کر لو۔۔۔"

      عرشمان نے نرمی سے آن کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تو اس کی محبت پر آن مسکرا دی۔

      "آپ بہت اچھے ہیں مان۔۔۔"

      آن نے شرمیلی سی مسکان سے کہا۔

      "تم سے کم۔۔۔۔"

      عرشمان نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھنے چاہے لیکن آن فوراً کترا کر اس سے دور ہوئی اور اپنی نظریں جھکا لیں۔آن کے یوں کترا جانے پر عرشمان کی آنکھوں میں جنون اترا جیسے اسکی یہ حرکت پسند نہ آئی ہو لیکن وہ اس بارے میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

      "بچا لو خود کو آن ملک جتنا بچا سکتی ہو بیس دن بعد جب میری ہو جاؤ گی تو مجھ سے بچنے کے لیے تمہارے پاس صرف ایک جائے پناہ ہو گی۔۔۔۔میرا سینہ۔۔۔۔"

      عرشمان شدت سے اسکے حسین چہرے اور کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔جب اسے خود سے ہی ڈر لگنے لگا کہ بغیر حق کے کوئی گستاخی نہ کر گزرے تو اٹھ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ اسکے جانے کے کتنی دیر بعد بھی آن اسکی شدت کے زیر اثر وہیں بیٹھ کر کپکپاتی رہی تھی۔
      ????
      لیزا حسب معمول صبح سویرے اٹھی تو اسے اس جگہ کا یاد آیا جہاں وہ ایک مہینے کے لیے پھنس چکی تھی۔کل شام بھی وہ اسی غصے میں موبائل دیکھتے ہوئے شام چھ بجے ہی سو گئی تھی۔شاہد جانتے تھے کہ لیزا کو اپنی نید ڈسٹرب کیا جانا سخت نا پسند تھا شائید اسی لیے اسے کسی نے جگایا نہیں تھا۔

      ایک گہرا سانس لے کر لیزا بیڈ سے اتری اور فریش ہو کر اپنے جم کے شارٹس نکال کر دیکھنے لگی۔

      "سٹوپڈ گرل یہاں کونسا تمہیں وہاں کی طرح جم نصیب ہو گی تم اس ملک میں نہیں پتھروں کے زمانے میں آ چکی ہو۔۔۔"

      لیزا نے منہ بناتے ہوئے خود کلام کیا پھر کل حویلی کا دیکھا وسیع صحن یاد آنے پر مسکرا دی۔

      "چلو تھوڑی جاگنگ سے ہی گزارا کر لیتے ہیں۔۔۔"

      یہ سوچ کر وہ چینج کر کے آئنے کے سامنے آئی اور سنہری بالوں کا رف سا جوڑا بنا کر مسکراتے ہوئے خود کو دیکھنے لگی۔

      کالے رنگ کی تنگ سی شارٹس جو بمشکل گھٹنوں سے نیچے تک آتی تھیں اور اس پر بلیک ٹاپ پہنے جس سے اسکا پیٹ اور بیلی بٹن پر پہنا سنہری موتی صاف دیکھائی دے رہا تھا۔خود پر دھیان دینے کی وجہ سے اسکا فگر ان کپڑوں میں بہت زیادہ دلکش لگ رہا تھا۔

      کینیڈا میں تو وہ جو چاہے وہ پہننے کی عادی تھی اور یہاں بھی شاہد نے یہی کہا تھا کہ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں کرے گا اس لیے بے دھڑک ہو کر اسکا جو پہننے کا دل کیا وہ پہن لیا اور باہر آ گئی۔

      اس لان میں جاگنگ کرتے ہوئے اچانک اسکی نظر گھر کے پچھلی جانب پڑی جہاں ایک اور صحن تھا۔لیزا اس طرف گئی تو نظر ایک جگہ پر پڑی جہاں پوری کی پوری جم بنائی گئی تھی لیکن جس چیز نے لیزا کی توجہ وہ اس جم میں پش اپس کرتا شخص تھا۔

      توانا جسم پر کالا ٹراؤزر اور کالی بنیان پہنے وہ مغرور نقوش اور گندمی رنگت والا شخص حد سے زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔بے ساختہ لیزا نے اسے سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ گول کیے اور سی ٹی بجانے لگی۔

      پھر اس نے اپنا موبائل اپنے ٹراؤزر کی جیب سے نکالا اور اس ہنڈسم بندے کی کتنی ہی تصویریں بنا ڈالیں۔پھر سب سے اچھی تصویریں وہ انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے لگی۔

      "اس ہیل میں کچھ تو انٹرسٹنگ ملا،پورے کینیڈا میں ایسا ہینڈسم بندہ ڈھونڈ کے دیکھاؤ مجھے۔"

      لیزا نے مسکراتے ہوئے کیپشن لکھا اور موبائل جیب میں رکھ کر اس جم کی جانب چل دی لیکن اچانک ہی اسکا پیر زمین پر پڑے ڈمبل سے ٹکرایا اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا گری۔

      "واؤ لیزا ملک واؤ پہلی بار کوئی بندہ بات کرنے کے قابل لگا اور اسکے سامنے ہی خود کو یوں بے عزت کرنا تھا تم نے۔۔۔"

      لیزا نے ہلکے سے سرگوشی کی اور اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے اس شخص کو دیکھا جو آنکھوں میں انگارے لیے اسے گھور رہا تھا۔

      "ہائے۔۔۔۔"

      لیزا نے اپنا چہرہ ایک جانب کر کے دلکشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔وہ جانتی تھی کہ اس طرح وہ مزید خوبصورت لگنے لگتی تھی لیکن اس شخص کی آنکھوں میں باقی مردوں کی طرح ستائش آنے کی بجائے مزید ناگواری اور غصہ ابھرا تھا۔

      "آئی ایم لیزا اینڈ وٹ از یور گڈ نیم سر۔۔۔؟"

      لیزا نے اپنا نازک ہاتھ اسکے سامنے کر کے مسکراتے ہوئے پوچھا تو جواب میں اس شخص نے اسے کونی سے پکڑا اور اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگا۔

      لیزا پہلے تو اسکی اس بے اختیاری پر حیران ہوئی پھر غصے سے اپنا بازو کھینچنے لگی لیکن اس شخص کی پکڑ اتنی کمزور بھی نہیں تھی کہ وہ با آسانی چھوٹ جاتی۔

      وہ آدمی اسے سیدھا شاہد کے کمرے میں لایا اور اسے شاہد کے پیروں میں پھینکا جو ابھی فریش ہو کر واش روم سے نکلے تھے۔

      "عرشمان بیٹا یہ۔۔۔۔"

      شاہد نے حیرت سے لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ زمین پر پڑی اپنا بازو سہلا رہی تھی جو کہ عرشمان کی پکڑ سے لال ہو چکا تھا۔

      "اپنی اس بیٹی کو یہاں لائے ہیں تو اسے یہاں کے اطوار بھی سیکھائیں یہ اسکا کینیڈا نہیں کہ جیسے بے حیائی پھیلانے کا دل کرے پھیلاتی رہے یہ ملکوں کا گھر انکا گاؤں ہے اور ہم ملک اپنی عورت کے چہرے پر کسی کی نگاہ برداشت نہیں کرتے اور یہ خود کی نمائش کرتی پھر رہی ہے۔۔۔۔"

      عرشمان نے غصے سے کہا جبکہ لیزا اسکی اردو میں کہی ایک بھی بات سمجھنے سے قاصر تھی۔

      "ہاؤ ڈئیر یو ٹریٹ میں لائک دیٹ۔۔۔۔"

      لیزا زمین سے اٹھ کر غصے سے چلائی اور بہادری سے عرشمان کی نگاہوں کے شراروں کا مقابلہ کرنے کی۔

      "ہمت تو بہت کچھ کر گزرنے کی ہے لیکن فلحال یہی کہوں گا کہ آج کے بعد تم مجھے ایسے کپڑوں میں نظر آئی تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

      عرشمان نے انگلش میں کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ لیزا اب غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔

      "لیزا۔۔۔۔۔"

      شاہد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن لیزا نے ان کا ہاتھ بری طرح سے جھٹک دیا۔

      "میں واپس جا رہی ہوں ڈیڈ میں ایسے گھٹیا لوگوں اور گھٹیا جگہ پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں رہوں گی۔۔۔۔۔"

      اتنا کہہ کر لیزا وہاں سے چلی گئی اور شاہد گہرا سانس لے کر اسکے پیچھے چل دیے۔وہ جانتے تھے کہ لیزا کا غصہ بہت زیادہ تیز ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ چاہے وقت کے ساتھ لیکن وہ اسے پیار سے منا ہی لیں گے۔
      ????
      عرشمان اپنے ڈیرے پر بنے آفس میں بیٹھا ہر گزری بات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔پہلے آن کا شاہد کے آنے پر یوں پریشان ہونا پھر شاہد کی وہ بد لحاظ بیٹی جو بد قسمتی سے عرشمان کی کزن ہونے کے ساتھ ساتھ ہونے والی سالی بھی تھی۔یہ سب باتیں عرشمان کو اب اضطراب میں مبتلا کر چکی تھیں۔

      "انہیں یہاں بلانا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔"

      عرشمان نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے سوچا۔

      "کیا ہو گیا بھائی میں تو یہاں تمہاری مدد کرنے آیا تھا لیکن تم تو پہلے ہی اکتائے پڑے ہو ۔۔۔۔"

      سلطان کی آواز پر عرشمان ہلکا سا مسکرا دیا اور اسے اپنے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

      "کیسے ہو سلطان لاہور میں ہماری فرم کیسی چل رہی ہے؟"

      عرشمان نے اپنے بھائی کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو کئی معاملات میں اسکا عکس، اسکا دائیاں ہاتھ تھا۔

      "اچھی چل رہی ہے بھائی اس فرم کو بہت جلد ایک کمپنی میں بدل کر دیکھاؤں گا ۔۔۔۔ "

      "ان شاءاللہ۔۔۔۔"

      عرشمان نے کہا اور اپنے سامنے پڑے کاغذات کو دیکھنے لگا۔

      "کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہیں کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں۔۔۔۔؟"

      سلطان نے عرشمان کے سامنے کاغذات کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

      "تم پہلے ہی میری بہت مدد کر رہے ہو سلطان۔۔۔۔بابا کی اس چھوٹی سی فیکٹری کو اپنی محنت سے ایک فرم بنا چکے ہو میرے لیے اس سے زیادہ اہم اور کچھ بھی نہیں۔"

      سلطان اسکی بات پر مسکرایا۔

      "یہ تو اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں بھائی جو کچھ آپ نے میرے لیے اس گھر کے لیے کیا ہے۔۔۔۔"

      سلطان ایک پل کو خاموش ہو گیا۔ایک سایہ سا اسکے چہرے پر آیا۔

      "مجھے یاد ہے بابا کے جانے کے بعد کیسے آپ نے مجھے انکی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔انکا ہر کام محض اٹھارہ سال کی عمر میں سنبھال لیا اور ان کا خواب پورا کرنے کے لیے پڑھائی بھی کرتے رہے۔ہمیں ایک پل کے لیے بھی انکی کمی محسوس نہیں ہونے دی آپ نے۔۔۔۔"

      عرشمان نے اپنے بھائی کی بات پر مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

      "میں نے وہی کیا سلطان جو میرا فرض تھا۔"

      سلطان بھی اسکی بات پر مسکرا دیا۔

      "اب کوئی کام ہے تو مجھے بتائیں فلحال یہیں رکا ہوں تو آپ کی مدد ہو جائے گی کچھ تو فایدہ اٹھائیں چھوٹے بھائی کا۔۔۔۔"

      عرشمان نے اسکی بات پر غور کیا پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کچھ کاغذات نکال کر سلطان کے سامنے رکھے۔

      "ہمارے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا سردار ہے اتحاد ملک اس کے ساتھ مجھے کچھ ذراعت کے معاملات طے کرنے جانا تھا لیکن اب چچا اور انکی اس بیٹی کا یہاں آ جانا میرے لیے مشکل پیدا کر رہا ہے۔اس لیے تم کل ہی وہاں جا کر ان معاملات کو حل کر دینا۔۔۔۔"

      سلطان نے وہ فائل پکڑ کر اسے ایک نظر دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔

      "جی بھائی میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔۔"

      عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

      "ارے دیکھو تم میرے پاس آئے اور میں نے کھانے کا بھی نہیں پوچھا ابھی رکو بڑھیا سی چائے منگواتا ہوں۔۔۔۔"

      عرشمان کی بات پر سلطان مسکراتے ہوئے اس فائل کو دیکھنے لگا۔وہ بس یہ جانتا تھا کہ جو کام اسکے بھائی نے اسے کہا ہے اسے وہ کرنا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کل اسکا مقدر ہی بدلنے والا تھا۔
      ????
      "باجی یہ دیکھو میں نے گڑیا کا کتنا پیارا لہنگا سیا ہے پتہ ہے ہماری ہمسائی کی بیٹی ہے ناں شبو اسکے پاس گڈا ہے بڑا سوہنا کل اپنی گڈی کی اس سے شادی کروں گی۔۔۔۔"

      کنیز نے خوشی سے چہکتے ہوئے اپنی بہن کو ایک چھوٹا سا لال لہنگا دیکھایا۔

      "خدا کا خوف کر نوری سترہ کی ہو کے بھی گڈیوں سے کھیلتی ہے بچی ہے تو بھلا اب تو بڑی ہو جا تیری جتنی لڑکیوں کی اپنی شادیاں ہو جاتی ہیں اور تو گڈی کی شادی کر رہی ہے۔۔۔۔۔"

      اپنی بہن حفضہ کی بات پر کنیز نے منہ بسور لیا۔

      "مجھے نہیں کرنی شادی ابھی۔۔۔۔ویسے بھی میں تب ہی شادی کروں گی جب ابا میرے لیے اتنا پیارا گڈا ڈھونڈ کے لائیں گے جتنا پیارا گڈا شبو کا ہے۔۔۔۔"

      کنیز نے منہ میں دوپٹہ ڈال کر شرماتے ہوئے کہا تو حفضہ ہنس دی۔

      "تو گڈے سے شادی کرے گی۔۔۔۔؟"

      "نہیں باجی گڈے کا میں کیا کروں گی بلکہ میں تو اس سے شادی کروں گی جو گڈے کی طرح سوہنا سا ہو گا۔بلکل اسی کی طرح پینٹ کوٹ پہننے والا شہری بابو ہو گا۔۔۔۔"

      اب کی بار حفضہ قہقہ لگا کر ہنس دی۔

      "ویسے اماں ابا کہاں گئے ہیں صبح سے نظر نہیں آ رہے۔۔۔"

      کنیز نے یہاں وہاں اپنے چھوٹے سے مٹی کے گھر کو دیکھتے ہوئے کہا جس میں وہ، اسکے ماں باپ،ایک بڑی بہن اور دو چھوٹے بھائی رہتے تھے۔ان کے گاؤں میں مزدور طبقے کو زیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں اس لیے گھر ٹی وی پنکھے کے ساتھ ساتھ بجلی سے بھی محروم تھا اور نہ ہی انکے گاؤں میں لڑکیوں کے سکول کی سہولت میسر تھی اسی لیے کنیز اور اسکی بہن دونوں ہی تعلیم سے محروم رہی تھیں۔

      "پتہ نہیں نوری صبح ہی وڈیروں کا بندہ آیا تھا اماں کو لینے اماں تو انکے ساتھ چلی گئی تھیں اور ابا تو کل رات بھی گھر نہیں آئے شائید کسی کام میں مصروف ہیں۔۔۔۔"

      حفضہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا اور ہاتھ میں پکڑی قمیض پر کڑھائی کرنے لگی اور کنیز بھی کندھے اچکاتے ہوئے خود سے سیا لہنگا اپنی گڑیا کو پہنا کر دیکھنے لگی۔تبھی دروازہ کھلا اور رشید اپنی بیوی حمیدہ کے ساتھ انتہائی پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہوا۔

      آن کو دیکھتے ہی حفضہ پانی لینے چلی گئی جبکہ کنیز ہر شے سے بے نیاز اپنی گڑیا کے سر پر دوپٹہ سجاتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

      "دیکھو ابا کتنی پیاری لگ رہی ہے میری گڈی دیکھنا میں دلہن بن کے اس سے بھی زیادہ سوہنی لگوں گی۔۔۔۔"

      کنیز نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور اپنی بیٹی کی معصومیت پر رشید کی بس ہوئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہاں موجود چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا۔کنیز نے پریشانی سے اپنی ماں کو دیکھا جو خود دوپٹہ اپنے منہ میں دیے رو رہی تھی۔

      "کیا ہو گیا اماں۔۔۔؟"

      کنیز کے گھبرا کر پوچھنے پر اسکی ماں اسکے قریب آئی اور اسکے ہاتھ سے وہ گڑیا لے کر زمین پر پھینک دی۔

      "اب اس سب سے کھیلنے کی عمر نہیں رہی تیری نوری اب بڑی ہو جا تو ۔۔۔۔۔"

      کنیز نے منہ بسور کر اپنی ماں کو دیکھا۔آخر وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی جس نے غریب ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کی طرح رکھا تھا۔

      "کیوں بڑی ہو جاؤں میں ابھی نہیں ہونا مجھے بڑا۔۔۔۔"

      کنیز کی ماں اسکی بات پر اپنا سر تھام کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

      "کل تیرا بیاہ ہے نوری۔۔۔"

      ماں کی بات پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔۔۔

      "میرا بیاہ۔۔۔۔کس سے اماں۔۔۔۔؟"

      نوری کے معصومیت سے پوچھنے پر اسکی ماں نے جان نثار نظروں سے اپنی لاڈلی کو دیکھا لیکن وہ کیا کرتی وہ اور رشید مجبور تھے بہت زیادہ مجبور ۔۔۔۔

      "سردار اتحاد ملک سے۔۔۔۔"

      حمیدہ کی بات پر وہاں پانی لاتی حفضہ کے ہاتھوں سے برتن چھوٹ کر زمین پر گرے اور ان برتنوں کی آواز کے بعد ان کے گھر میں گہرا سکوت چھا گیا جیسے کسی کی موت ہو گئی ہو،جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہو۔۔۔
      ????
      Kia lgta ha Kia ho ga ab aur Liza Kia Kia Naye Gul khilae gi???

      Comment


      • #23
        #زندگی_اے_تیرے_نال
        #قسط_نمبر_5



        لال شرارے میں ملبوس ہلکی سی جیولری پہنے اور ہونٹوں پر بس لال لپسٹک لگائے وہ سادگی میں بھی بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔یہ جوڑا اسے حویلی سے بھجوایا گیا تھا جو کہ بہت زیادہ خوبصورت تھا لیکن کنیز کے لیے وہ لال جوڑا سفید کفن کے مترادف تھا۔

        چارپائی پر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو تکتے ہوئے دو آنسو اس کے سادہ سی مہندی لگے ہاتھوں پر گرے تھے۔

        کیا یہی تھا اسکا مقدر کہ اسے اپنی عمر سے چار گنا بڑے آدمی کو ونی کر دیا گیا تھا وہ بھی اس گناہ کے لیے جو کہ اسکے باپ نے کیا ہی نہیں تھا۔اس شخص کے بارے میں سوچ کر ہی کنیز کو خوف آ رہا تھا وہ اسکے پاس نہیں جانا چاہتی تھی بالکل بھی نہیں جانا چاہتی تھی۔

        "لڑکی کو لے کر ہمارے ساتھ چلو ملک صاحب نے ڈیرے پر بلایا ہے نکاح کے لیے۔۔۔۔"

        باہر سے آنے والی آواز پر کنیز کا دل خوف سے بند ہوا اور آنسو مزید روانی سے اسکے ہاتھوں پر گرنے لگے۔

        "کیا مطلب ہم کنیز کو ڈیرے پر لے کر چلیں؟ تمہارے ملک صاحب یہاں نہیں آئیں گے نکاح کے لیے۔۔۔۔؟"

        اپنی بہن حفضہ کی غصے میں ڈوبی آواز کنیز کے کانوں سے ٹکرائی۔

        "ہونہہ۔۔۔۔اتحاد ملک ایسے گھر میں قدم رکھنا بھی گوارا نہ کرے یہاں آنا تو دور کی بات ہے۔۔۔۔"

        آدمی کی آواز حقارت سے بھری ہوئی تھی۔

        "اب چلو انہیں انتظار کروانا اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

        آدمی کے اتنا کہنے پر وہاں خاموشی چھا گئی۔کچھ دیر کے بعد کنیز کی ماں حمیدہ اور بہن حفضہ کمرے میں داخل ہوئیں۔

        "اماں۔۔۔۔"

        کنیز نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اٹھا کر حمیدہ کو پکارا تو حمیدہ تڑپ کر رونے لگیں جبکہ حفضہ تو بس مردہ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔حمیدہ نے آگے بڑھ کر کنیز کے دوپٹے کا گھونگھٹ نکال دیا اور اسے کھڑا کر کے اپنے سینے سے لگا لیا۔

        "اپنی ماں کو معاف کر دینا نوری ہم مجبور ہیں بہت زیادہ مجبور۔۔۔۔"

        کنیز نے کوئی جواب نہیں دیا وہ کہتی بھی تو کیا اس کے پاس کچھ کہنے کے لیے تھا ہی نہیں۔وہ مردہ حالت میں انکے ساتھ چل دی۔باہر آنے پر کنیز کی نظر اپنے باپ پر پڑی کہ شائید وہ اسے بچا لے اپنے پاس کہیں چھپا لے لیکن رشید کا سر جھکا دیکھ کنیز کی آخری امید بھی ختم ہوئی۔

        کنیز اپنے ماں باپ اور اتحاد ملک کے آدمیوں کے ساتھ گاؤں کے ڈیرے میں آئی۔وہاں پہنچتے ہی کنیز کی پہلی نگاہ اپنے ہونے والے شوہر پر پڑی جو سفید قمیض کے نیچے دھوتی پہنے ہوئے تھا۔سانولی رنگت اور اس پر سفید داڑھی اسکی عمر کی صاف گواہی تھی۔

        ایک بار پھر سے اپنے نصیب پر کنیز کی آنکھوں سے کتنے ہی آنسو بہے تھے۔کچھ عورتوں نے اسے اسکے ماں باپ سے جدا کیا اور لا کر تخت پر شان سے بیٹھے اتحاد کے قدموں میں بیٹھا دیا۔

        کنیز نے گھونگھٹ کے نیچے سے ایک سہمی سی نگاہ اتحاد ہر ڈالی جو اسکے گھونگھٹ میں چھپے ہونے کے باوجود پرشوق نگاہوں سے نہارنے میں مصروف تھا۔

        "جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رشید احمد نے سرپنچ کی حویلی جا کر انکی بیوی کی جان لی جسکی سزا ویسے تو موت ہے لیکن ملک سائیں کو اس پر رحم آ گیا اس لیے انہوں نے رشید کی سزا کم کرتے ہوئے اسکی بیٹی ملک خاندان کو ونی کرنے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔۔"

        خود کے بارے میں یہ الفاظ سن کر بہت سے آنسو کنیز کی آنکھوں سے بہہ کر زمین بوس ہوئے۔

        "اب اس لڑکی کنیز فاطمہ کا نکاح اتحاد ملک سے ہو گا اور اسکے بعد وہ ملکوں کی ملکیت ہو جائے گی نہ تو اسکے گھر والوں کا اس سے کوئی رابطہ ہو گا نہ ہی اسکا گھر والوں سے۔۔۔۔ملکوں کی حویلی میں اسکی ڈولی جائے گی اور وہاں سے اسکا جنازہ نکلے گا۔۔۔۔۔"

        کنیز اس بات پر اپنی ماں کا سسکنا اور رونا سن سکتی تھی۔آدمی کی بات مکمل ہونے کے بعد ایک مولوی وہاں پر آیا اور اتحاد ملک کے عقب میں بیٹھ گیا۔کچھ دیر کے بعد ہی نکاح شروع ہو چکا تھا۔

        "اتحاد ملک ولد جواد ملک آپ کا نکاح کنیز فاطمہ ولد رشید احمد کے ساتھ ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔؟"

        کنیز کو ایک ہاتھ اپنے کندھے پر محسوس ہوا جو سرکتا ہوا اسکی کمر تک آیا تھا۔اس لمس کو محسوس کر نہ جانے کیوں کنیز کو خود سے بھی نفرت ہو رہی تھی۔

        "قبول ہے۔۔۔

        قبول ہے

        قبول ہے۔۔۔۔"

        اتحاد ملک نے ایک ساتھ ہی کہا تو وہ مولوی کنیز کی جانب متوجہ ہوا۔

        "کنیز فاطمہ آپ کا نکاح اتحاد ملک ولد جواد ملک کے ساتھ ہونا طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔؟"

        مولوی کے سوال پر کنیز بری طرح سے کانپ گئے اور ایک نگاہ اتحاد کو دیکھ کر روتے ہوئے اپنے بابا کی جانب دیکھنے لگی جو خود بھی بے بسی سے سر جھکائے رونے میں مصروف تھا۔

        کنیز کی خاموشی دیکھ کر مولوی نے اپنا جواب دہرایا۔تبھی ایک کالی پراڈو ہجوم سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی تو سب حیرت سے مڑ کر اس گاڑی کو دیکھنے لگے۔جس میں سے دو بندوقوں والے آدمی اترے اور پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔

        پچھلی سیٹ کا دروازہ کھلتے ہی نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے ایک شخص باہر نکلا۔بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے اور آنکھوں پر کالا چشما سجائے وہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔

        اس کے ایک آدمی نے گاؤں کے شخص سے کچھ پوچھا تو اس نے اتحاد کی طرف اشارہ کر دیا۔اس شاندار آدمی نے آنکھوں کے سامنے سے چشما ہٹا کر اتحاد کو دیکھا اور چلتے ہوئے اس کے سامنے آیا۔

        "اسلام و علیکم۔۔۔۔"

        اتحاد نے ایک نظر اس لڑکے کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا۔

        "و علیکم السلام۔۔۔۔"

        "میں سلطان ملک ہوں عرشمان ملک کا بھائی انہوں نے زمین کے کچھ معمالات طے کرنے کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔۔۔۔"

        سلطان نے اپنی بات کہتے ہوئے اردگرد کا ماحول دیکھا۔

        "لیکن مجھے لگتا ہے آپ کی یہاں کوئی تقریب چل رہی ہے اگر میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا ہو تو میں معزرت خواہ ہوں۔میں بعد میں آ جاؤں گا۔۔۔۔"

        سلطان کی بات پر اتحاد مسکرا دیا۔

        "ارے نہیں بچے کوئی مسلہ نہیں تم عرشمان کے بھائی ہو مطلب میرے اپنے بچے ہو۔۔۔۔"

        اتحاد کے ایسا کہنے پر بھی سلطان کے چہرے کی سنجیدگی جوں کی توں تھی۔

        "اور یہاں میرا نکاح ہو رہا ہے تو میں چاہوں گا کہ تم میرے نکاح میں شرکت کرو اس کے بعد ہم تمہارے معمالات بھی دیکھ لیں گے۔۔۔۔"

        اب کی بار سلطان کے ماتھے پر ہلکے سے بل آئے تھے۔

        "آپ کا نکاح۔۔۔۔۔۔"

        "بالکل میرا نکاح پیاری سی نوری کے ساتھ۔۔۔۔"

        اتحاد نے اپنے قدموں میں بیٹھے وجود پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔اتحاد کی اس حرکت پر سلطان اس وجود کو کانپتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔اس لال جوڑے میں بس اس عورت کے ہاتھ نظر آ رہے تھے جن کو دیکھ سلطان اس بات کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ لڑکی کم عمر تھی۔

        سلطان نے یہ سوچ کر اس سب کو نظر انداز کر دیا کہ یہ انکے گاؤں کا ذاتی معاملہ ہے۔

        "نہیں کوئی مسئلہ نہیں میں بعد میں آ جاؤں گا۔۔۔۔"

        اب کی بار اتحاد ملک نے سلطان کو منہ بنا کر دیکھا۔

        "اگر تم جاؤ گے تو مجھے برا لگے گا میں چاہتا ہوں تم میری خوشی میں شامل ہو بس دو منٹ کی تو بات ہے رک جاؤ پھر ہمیں بھی خاطر داری کا موقع مل جائے گا ۔۔۔۔۔"

        سلطان نے کچھ سوچ کر گہرا سانس لیا اور اثبات میں سر ہلا دیا یہ دیکھ کر اتحاد ملک مسکراتے ہوئے مولوی کی جانب متوجہ ہوا۔

        "شروع کریں مولوی صاحب۔۔۔۔"

        اتحاد ملک کے ایسا کہتے ہی مولوی نے کنیز سے پوچھا ہوا سوال پھر سے دہرایا لیکن اب کی بار کنیز پھر سے خاموش رہی۔

        "جواب دے ورنہ یہیں سب کے سامنے تیرے باپ کو سولی پر لٹکا دوں گا۔۔۔۔"

        اتحاد ہلکے سے غرایا تو کنیز خوف سے کانپ اٹھی اور اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ کر رونے لگی۔مولوی کے ایک بار پھر سے یہ سوال پوچھنے پر کنیز کی بس ہوئی تھی۔

        وہ اتحاد کے قدموں سے اٹھ کر اپنے باپ کے پاس بھاگی اور اسکے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

        "مجھے بچا لو ابا۔۔۔۔مجھے اس سے چھپا لو۔۔۔۔مجھے نہیں کرنا اس سے بیاہ۔۔۔۔نہیں کرنا۔۔۔۔"

        دلہن کی اس حرکت پر جہاں پورا گاؤں خاموش رہا تھا وہیں سلطان کے ماتھے پر بل آئے تھے یہ جو بھی ماجرہ تھا اسکی سمجھ سے بالا تر تھا۔

        اتحاد ملک غصے سے اٹھا اور کنیز کی جانب چل دیا۔اسے اپنی جانب آتا دیکھ کنیز رشید کے پیچھے چھپ گئی اور اسکی قمیض کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا۔اتحاد کے وہاں پہنچتے ہی رشید نے اپنے ہاتھ اسکے سامنے جوڑ دیے۔

        "رحم کرو سائیں ایسا ظلم مت کرو میری بیٹی ابھی بچی ہے بس سترہ سال کی ہے وہ رحم کرو اس پر وہ آپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔"

        اتحاد ملک نے باقاعدہ دانت کچکچاتے ہوئے رشید کو دیکھا۔

        "یہ اب ملکوں کی ملکیت ہے سمجھا اگر نکاح نہیں کرے گی تو اسکے بغیر ہی میرے ساتھ رہے گی لیکن اب یہ میری ہے۔۔۔۔"

        اتحاد نے کنیز کو پکڑنا چاہا لیکن رشید نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

        "مجھے سزا دے لو سائیں سولی پہ لٹکا دو جان سے مار دو مجھے لیکن میری نوری کو کچھ مت کرو۔۔۔"

        رشید نے روتے ہوئے کہا تو اتحاد ملک مسکرا دیا۔

        "اس سے مجھے کیا فایدہ؟فائدہ تو تیری یہ بیٹی دے گی مجھے میری زندگی کو رنگین بنائے گی۔۔۔۔"

        اتحاد نے خباثت سے بھرپور سرگوشی کی اور کنیز کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن تبھی سلطان رشید کے سامنے آ کر اس کی ڈھال بن گیا۔

        "یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔ ؟"

        اتحاد نے نگاہیں چھوٹی کر کے سلطان کو دیکھا۔

        "یہ ہمارے گاؤں کا ذاتی معاملہ ہے ملک سائیں اس میں مت پڑو۔"

        اتحاد کے خبردار کرنے والے لہجے پر سلطان کی آنکھوں میں حیرت اتری ۔

        "یہ لڑکی آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور آپ اسے ایسا کرنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔"

        اتحاد ملک کو اس بات پر قہقے لگاتا دیکھ سلطان اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔

        "اچھا کون روکتا ہے مجھے ایسا کرنے سے۔۔۔۔"

        "ہمارا دین اور ہمارا قانون۔۔۔۔۔"

        سلطان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

        "قاااااانووووننننن۔۔۔۔ یہ میرا گاؤں ہے یہاں میرا قانون چلتا ہے جو چاہوں گا وہ کروں گا اور تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم اس معاملے سے دور رہو۔"

        سلطان اب نفرت سے اس شخص کو دیکھ رہا تھا۔

        "دیکھو سائیں اس لڑکی کے باپ نے میری بیوی کو مارا ہے اس لیے سزا کے طور پر اسے اپنی بیٹی کو ونی کرنا ہو گا۔۔۔۔۔"

        سلطان یہ جان کر اپنی مٹھیاں ضبط سے بھینچ گیا۔

        "یہ کیسا قانون ہے اگر گناہ اس شخص کا ہے تو سزا اسے دو اس کی اولاد کو نہیں۔۔۔۔۔"

        "ہمارا یہی قانون ہے اور یہاں پر یہی ہوگا۔۔۔۔۔"

        اتنا کہہ کر اتحاد آگے بڑھا اور کنیز کو کلائی سے پکڑ کر اتنی زور سے اپنی جانب کھینچا کہ وہ ایک چیخ کے ساتھ زمین پر گرنے لگی مگر سلطان نے عین وقت پر اسکا دوسرا بازو تھام کر گرنے سے روکا اور اسکا نازک ہاتھ اتحاد کی پکڑ سے چھڑوا کر اسے اپنے پیچھے کھڑا کر دیا۔اس کے ایسا کرتے ہی وہ واپس اپنے باپ کے پیچھے چھپ گئی۔سلطان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتا۔

        "یہ لڑکی ہمارے خاندان کو ونی کر دی گئی ہے اب اسکا مقدر ہمارے ہاتھ میں ہے جس سے چاہیں گے اس کا نکاح ہو گا۔۔۔"

        سلطان ملک حیرت سے دلہا بنے اس ساٹھ سالہ آدمی کو دیکھ رہا تھا جو کتنی ہی بے شرمی سے ایک لڑکی کے بارے میں یہ بات کہہ رہا تھا جو اسکی بیٹی کی عمر کی تھی۔

        "کس زمانے کی بات کر رہے ہو تم سب جاہل لوگ۔۔۔۔قانون کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔"

        سلطان کے قانون کی بات کرتے ہی اتحاد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

        "میں سردار ہوں میاں اور تمہارا قانون جیب میں رکھتا ہوں۔۔۔جو کرنا ہے کر لو اس لڑکی کا نکاح مجھ سے ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ہمارے خاندان کو خون بہا میں دی گئی ہے۔۔۔۔"

        سلطان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس آدمی کی جان لے لے۔کیا اس کے دل میں اس لڑکی کے لیے رحم نہیں آ رہا تھا۔سلطان نے بے بسی سے اس گھونگھٹ میں چھپی لڑکی کو دیکھا جو اپنے باپ کے پیچھے خوف سے کانپ رہی تھی۔لال جوڑے میں سجے اس وجود کا اگر کچھ نظر آ رہا تھا تو بس اسکے سانولے سے مہندی لگے نازک ہاتھ۔

        "میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"

        سلطان ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا۔سردار کے بندوقیں تھامے لوگ بھی اسے ڈرانے کے لیے ناکافی تھے۔وہ بھلا کیسے اس لڑکی سے ایسی زیادتی ہونے دیتا جو اسکے باپ کے مطابق محض سترہ سال کی تھی۔

        "تمہیں اس لڑکی کی اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے۔۔۔۔کامی لوگ ہیں یہ سلطان ملک ہمارے نوکر ،غلام ہیں۔۔۔ان کا مقدر ہی ہمارے کام آنا ہے۔۔۔۔"

        اتحاد نے خباثت سے اس نازک وجود کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسکی بات پر سہم کر خود میں ہی سمٹ گیا تھا۔

        "تم کچھ بھی کرو آج یہ نکاح نہیں ہو گا۔۔۔۔"

        اس بات پر اتحاد آپے سے باہر ہو گیا پھر سلطان سے جان چھڑانے کے لیے ایک ترکیب اسکے ذہن میں آئی تو وہ چالاکی سے مسکرا دیا۔

        "تو ٹھیک ہے سلطان ملک نہیں کروں گا میں اس لڑکی سے نکاح لیکن پھر تمہیں اس لڑکی سے نکاح کرنا ہو گا۔۔۔۔۔"

        اتحاد نے سلطان پر بم گرایا۔سلطان کے اڑے رنگ دیکھ کر وہ سردار مسکرا دیا۔اب سلطان اتنا بھی اچھا نہیں تھا کہ اس لڑکی کو بچانے کے لیے اپنے نکاح میں لے لیتا آخر تھی تو وہ ایک نوکر کی بیٹی ہی۔

        "اگر تم اس سے نکاح کرو گے تو ٹھیک ہے ورنہ تم کچھ بھی کر لو یہ نکاح ہونے سے نہیں روک سکتے۔۔۔۔بولو کرو گے اس لڑکی سے نکاح۔۔۔۔؟"

        اتحاد کے سوال پر وہاں موجود ہر شخص کو سانپ سونگھ گیا۔سلطان کی خاموشی دیکھ کر وہ خباثت سے مسکرا دیا۔

        "ٹھیک ہے میں کروں گا اس لڑکی سے نکاح۔۔۔۔"

        سلطان کی بات پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔بھلا وہ پڑھا لکھا شاندار سا آدمی کیسے ایک غلام کی بیٹی کو بنا دیکھے،بنا اسکا نام جانے نکاح میں لے سکتا تھا۔

        " تم سب نکاح کی تیاری کرو۔۔۔۔"

        اتحاد نے حیرت سے سلطان کو دیکھا جس نے یہ بات اسکی توقع کے برعکس کہی تھی لیکن سب گاؤں والوں کے سامنے یہ بات کہہ کر اب وہ بے بس ہو چکا تھا۔

        "ٹھیک ہے ابھی ہو گا تمہارا نکاح اس لڑکی سے اور پھر تم اسے ہمشیہ کے لیے اپنے ساتھ یہاں سے لے جاؤ گے۔۔۔۔اس کا اس گاؤں سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔۔۔"

        اتحاد نے سلطان کو ڈرانا چاہا لیکن سلطان کے اثبات میں سر ہلانے پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پر سب سے زیادہ اضطراب میں تو وہ نازک سی جان تھی جو گھونگھٹ کے پیچھے سے آنکھوں میں نمی لیے اس مسیحا کو دیکھتی یہ سوچ رہی تھی کہ وہ ان پڑھ اس شاندار سے مرد کا احسان کیسے چکائے گی۔

        وہ ساری زندگی اسکے قدموں میں گزار دیتی تو بھی اسکا احسان نہیں چکا پاتی لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس شخص کی غلام بن کر رہے گی۔اپنے نام جیسی ایک کنیز بن کر رہے گی۔اپنے سلطان کی کنیز۔۔۔۔۔
        ????
        عزم نے آج اپنے ٹانکے کھلوانے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ دس مرتبہ کپڑے تبدیل کر کے اب گیارویں مرتبہ خود کو آئنے میں دیکھ کر منہ بنا رہا تھا۔

        "کیا ہو گیا سردار جی آج کمرے میں لنڈا بازار کھول لیا ہے کیا۔۔۔۔؟"

        غلام جو ابھی عزم کے کمرے میں آیا تھا ہنستے ہوئے پوچھنے لگا۔

        "ہاں کھولا ہے لنڈا ایک سوٹ صرف دس روپے کا۔۔۔۔"

        اپنا کالر ٹھیک کر کے عزم نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔کالے رنگ کی شلوار قمیض میں اسے اپنا آپ ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔

        "ہممم دس روپے اچھا ریٹ ہے لیکن میں تو تمہارا دوست ہوں مجھے کتنے کا بیچو گے۔۔۔۔؟"

        غلام نے دلچسپی سے پوچھا۔

        "زیادہ نہیں بس دس ہزار کا ایک سوٹ۔۔۔۔"

        غلام کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

        "میں تیرا لنگوٹیا یار ہوں۔۔۔۔۔"

        "ہممم۔۔۔بیس ہزار کا۔۔۔۔"

        عزم نے سنجیدگی سے کہا تو غلام منہ بسور کر اسے دیکھنے لگا جو اب خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا۔

        "کہاں جانے کا ارادہ ہے اتنا تیار شیار ہو کر؟"

        اس سوال پر ایک دلفریب مسکراہٹ عزم کے ہونٹوں پر آئی۔

        "چل پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔"

        عزم گاڑی کی چابیاں پکڑ کر باہر کی جانب چل دیا تو غلام بھاگتے ہوئے اسکے پیچھے آیا۔کچھ دیر کی ڈرائیونگ کے بعد وہ گاؤں میں بنے ہسپتال کے باہر رکے۔پہلے تو غلام نے حیرت سے عزم کو دیکھا پھر اسکے یہاں آنے کا مقصد سمجھ کر مسکرا دیا۔

        "عشق نے نکما کر دیا
        ورنہ آدمی تو تو بڑا نخرے والا تھا۔۔۔۔"

        عزم نے جواب میں گھور کر غلام کو دیکھا اور گاڑی سے نکل کر ہسپتال کے اندر داخل ہونے لگا۔

        "جی کیسے مدد کر سکتا ہوں میں آپ کی"

        کچھ دور جانے کے بعد ایک ورکر نے آکر عزم سے پوچھا۔

        "چند دن پہلے یہاں کسی سے سلوایا تھا اپنا آپ اب خود کو ادھڑوانے آیا ہوں۔"

        اس ورکر کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر غلام ہنس دیا۔

        "ٹانکے لگے تھے انہیں وہ کھلوانے ہیں۔۔۔۔"

        ورکر نے بات سمجھ کر اثبات میں سر ہلایا اور اعظم کو لے جا کر ایک وارڈ میں بٹھا دیا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک چالیس سالہ ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا اور عزم کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔

        "آپ کے بازو پر ٹانکے لگے تھے ناں قمیض کا بازو اوپر کریں میں کھول دیتا ہوں ۔۔۔"

        عزم نے آنکھیں سکیڑ کر اس ڈاکٹر کو دیکھا۔

        "یہ ٹانکے تم نے نہیں لگائے تھے۔ڈاکٹرنی صاحبہ نے لگائے تھے یہ کیا طریقہ ہوا کہ سیے کوئی اور اور ادھیڑنے کوئی اور آ جائے۔۔۔۔"

        ڈاکٹر نے پہلے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر بات سمجھ کر مسکرا دیا۔

        "ڈاکٹر آن کا ڈیوٹی ٹائم شروع ہونے میں ابھی تین گھنٹے باقی ہیں آپ فکر مت کریں میں یہ ٹانکے نکال دوں گا۔۔۔۔"

        "بالکل نہیں جس نے لگائے تھے وہی نکالے گی میں تین گھنٹے تک یہاں بیٹھ کر انتظار کر لوں گا۔۔۔۔"

        ڈاکٹر نے حیرت سے اسے دیکھا پھر گہرا سانس لے کر ایک انجیکشن بھرنے لگا۔وہ بھلا کیسے آن کو کسی مرد کا علاج کرنے دیتا جبکہ عرشمان ملک نے اسے سختی سے ہدایت دی تھی کہ آن صرف عورتوں کا علاج کرے گی۔

        "یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔؟"

        ڈاکٹر کو انجیکشن کے ساتھ خود کے قریب آتا دیکھ عزم نے پوچھا۔

        "آپ کے تین گھنٹے کا انتظار آسان بنا رہا ہوں۔"

        اس سے پہلے کہ عزم کو کچھ سمجھ میں آتا ڈاکٹر نے وہ انجکشن اس کے بازو میں لگا دیا۔کچھ منٹ گزرنے کے بعد عزم کا سر بری طرح سے چکرانے لگا اور وہ گہری نیند میں ڈوب گیا۔

        ہوش آنے پر اس نے ڈاکٹر کو دیکھا جو اس کے ٹانکے نکال چکا تھا اور اب زخم کو روئی پر دوائی لگا کر صاف کر رہا تھا۔

        "یہ تو نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔اگر تو جان بچانے والا مسیحا نہ ہوتا تو قسم سے تیرا سر پھاڑ دیتا۔۔۔۔"

        عزم کی بات پر ڈاکٹر مسکرایا۔

        "اب آپ گھر جا سکتے ہیں جس کام کے لیے آپ نے تین گھنٹے کا انتظار کرنا تھا وہ میں ایک گھنٹے میں ہی ختم کر چکا ہوں اب آپ کا زخم تقریبا ٹھیک ہو چکا ہے۔۔۔۔"

        عزم نے نگاہیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور ہلکے سے چکراتے سر کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔

        "نہیں جاؤں گا یہاں سے اس زخم کو جب تک ڈاکٹرنی صاحبہ نہیں دیکھیں گی میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔۔۔۔"

        عزم ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔

        "لیکن۔۔۔۔۔"

        "لگتا ہے تجھے میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔۔دیکھ ڈاکٹر تو مجھے جانتا نہیں اس گاؤں کا سردار ہوں میں میرا دماغ گھوم گیا ناں تو نہ تو یہاں بچے گا اور نہ ہی تیرا یہ ہسپتال اس لئے بہتر یہی ہے کہ چپ چاپ چلا جا یہاں سے ۔۔۔۔"

        کچھ سوچ کر ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ عظم دو گھنٹے تک وہیں بیٹھ کر آن کا انتظار کرتا رہا۔دو گھنٹے پورے ہوتے ہی اس کی بے چینی مزید بڑھ چکی تھی۔

        تقریبا پندرہ منٹ کے بعد اسے باہر سے آن کی آواز آئی تو جلدی سے اٹھ کر باہر آگیا۔عزم کو وہاں دیکھ کر آن کی آنکھوں میں حیرت اتری۔

        "آپ یہاں؟"

        "میڈم یہ پچھلے دو گھنٹے سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ان کے سٹچیز کھول دیے تھے لیکن اس کے باوجود یہ یہاں سے نہیں گئے۔۔۔۔"

        نرس کے بتانے پر آن نے اب غصے سے عزم کو دیکھا۔

        "آپ سے ملے بغیر کیسے جاتا ڈاکٹرنی جی زخم تو بس بہانا تھا مقصد تو خود کو آپ کا دیدار کرانا تھا۔۔۔۔۔"

        عزم کی بات پر آن اپنے ہاتھ مٹھیوں میں بھینچ گئی۔

        "آپ کے سٹیچیز کھل گئے ہیں اب آپ ٹھیک ہیں یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔۔۔"

        آن اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگی ۔

        "کیا میں کچھ پل رک کر آپ سے بات نہیں کر سکتا ڈاکٹرنی جی قسم کھاتا ہوں اس کے سوا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔۔"

        آن کے ماتھے پر بل آتے دیکھ عزم بے شرمی سے مسکرا دیا۔

        "یہ کوئی پارک نہیں ہے چوہدری جی ہاسپٹل ہے یہاں صرف مریض آ سکتے ہیں اور جو مریض نہیں اسکا یہاں کوئی کام نہیں اگر آپ شرافت سے یہاں سے نہیں گئے تو دھکے مار کر نکلوا دوں گی۔۔۔۔"

        آن غصے سے کہہ کر وہاں سے جانے لگی لیکن اچانک ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی اور ساتھ ہی نرس کی چیخ پر آن پلٹ کر عزم کو دیکھنے لگی جس کے بائیں بازو سے خون بہہ رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں ڈرپ کی وہ ٹوٹی ہوئی بوتل تھی جو وہ اپنے بازو پر توڑ کر خود کو زخمی کر چکا تھا۔

        عزم نے مسکراتے ہوئے اپنے بازو کو دیکھا اور اپنا ہاتھ اٹھا کر آن کے سامنے کیا۔قمیض کے بازو جو کہنیوں تک فولڈ کیے گئے تھے مظبوط بازو سے بہنے والے خون کو خود میں جزب کر رہے تھے۔

        "بن گیا میں مریض ڈاکٹرنی جی اب تو نکال نہیں سکتیں ناں علاج کے بغیر۔۔۔۔"

        عزم کو مسکراتا دیکھ آن نے نفرت سے اپنے دانت کچکچائے۔

        "تم پاگل ہو بالکل پاگل۔۔۔۔"

        "یہ ٹھیک کہا آپ نے ڈاکٹرنی جی اور اس پاگل مریض کا علاج آپ ہی کر سکتی ہو کیونکہ میرے مرض کی دوا صرف آپ کے پاس ہے۔۔۔۔"

        عزم نے اسکے قریب آتے ہوئے کہا تو آن کی آنکھوں میں غصے کی شدت سے آنسو آ گئے۔دل تو کہہ رہا تھا کہ اس شخص کو اسی حال میں اٹھا کر یہاں سے باہر پھینکا دے لیکن وہ کیا کرتی وہ ایک انسان تھی۔

        اس سے بھی زیادہ وہ ایک ڈاکٹر تھی جو کسی کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی تھی پھر چاہے وہ اسکے منگیتر کا دشمن ہی کیوں ناں ہوتا۔

        نہ چاہتے ہوئے بھی آن اسکے بازو پر پٹی کر چکی تھی اور اس دوران وہ شخص مسکراتے ہوئے اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھتا رہا تھا۔آن کے پٹی کرنے کے بعد جب عزم نے اپنے ہونٹ اس پٹی پر رکھے تو آن کا دل کیا کہ خود کی جان لے لے۔

        وہ کیوں ہو گئی تھی اتنی بے بس کہ اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس شخص سے عرشمان بے تحاشا نفرت کرتا تھا۔دو آنسو چھن سے ٹوٹ کر آن کی آنکھوں سے بہے ۔عزم کو مزید کچھ کہے بغیر آن وہاں سے چلی گئی۔اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی۔اپنا آپ عرشمان کے قابل نہیں لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا اس نے اپنے مان سے دغا کی ہو اور آن تو کچھ بھی کر سکتی تھی لیکن اپنے مان سے دغا نہیں۔۔۔۔
        ????
        کنیز اپنے شوہر کے ساتھ اسکی مہنگی گاڑی میں بیٹھے چور نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔اسے کچھ دیر پہلے کہے اپنی ماں کے الفاظ یاد آئے کہ کنیز اس شخص کے احسان تلے دبی ہے اپنی آخری سانس تک اس شخص کی خدمت کرنا کنیز کا فرض ہے۔کچھ بھی ہو کنیز کو اسے ناراض نہیں کرنا تھا،اسکی نافرمانی نہیں کرنی تھی وہ کنیز کا مجازی خدا تھا اور کنیز کو اس کی داسی۔۔۔

        کنیز نے پھر سے اسے دیکھا تو وہ اسے کچھ پریشان سا لگا لیکن کنیز نے اس سے کچھ نہیں پوچھا کہ کہیں اسے کنیز کا پوچھنا برا ہی نہ لگے۔

        "صاحب جو کچھ ہوا اسکے کے بارے میں عرشمان صاحب کو کچھ بتانا ہے کیا؟"

        اپنے آدمی کے پوچھنے پر سلطان مزید اضطراب میں آ گیا۔

        "نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔اس سب کا ذکر کسی سے مت کرنا۔۔۔۔"

        ان آدمیوں نے اثبات میں سر ہلایا اور سلطان جانتا تھا کہ وہ اس کی بات مانیں گے کیونکہ اس کے الٹ کرنے پر وہ اپنا انجام جانتے تھے۔

        سلطان نے پریشانی سے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے اس لڑکی کو دیکھا جو ابھی بھی اس گھونگھٹ کے نیچے چھپی اسکے عقب میں بیٹھی تھی۔

        وہ اس کو ظلم سے بچانے کے لیے اتنا بڑا قدم تو اٹھا چکا تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کیا کر گزرا تھا۔وہ یہ فیصلہ کرتے ہوئے کیسے یہ بھول گیا کہ اسکی منگنی اسکی خالہ زاد انابیہ سے ہو چکی تھی۔

        پہلے ہی عرشمان کا فرحین کی نافرمانی کر کے آن سے شادی کرنا فرحین کو دکھ دیتا تھا اور اب سلطان بھی تو وہی کر چکا تھا۔وہ تو اپنی ماں کا مان تھا اسکا غرور تھا جس نے کبھی بھی ماں کی کوئی بات نہیں ٹالی تھی اب وہ کیسے اپنی ماں کو بتاتا کہ وہ اسکی اجازت کے بغیر،اسکی بھانجی کی پرواہ کیے بنا ایک اندیکھی انجانی لڑکی سے نکاح کر چکا تھا۔

        یہ سب سوچ کر سلطان اپنا ماتھا مسلنے لگا۔بہت سوچنے کے بعد اسے یہی بہتر لگا کہ فی الحال وہ فرحین کو اس بارے میں کچھ نہ بتائے پھر آہستہ آہستہ یا اچھا موقع دیکھ کر فرحین کو ہر بات سمجھا دے۔ایسے شائید وہ اپنی ماں کو خود سے بدگمان ہونے سے بچا سکتا تھا۔

        بہت سوچ کر سلطان نے پھر سے اس لڑکی کو دیکھا جو اپنے ہاتھ پر بنی سادہ سی مہندی کو انگلی سے چھو رہی تھی۔

        "نام کیا ہے تمہارا؟"

        سلطان کو یاد آیا کہ اضطراب میں اس نے نکاح کے وقت اس لڑکی کے نام پر بھی غور نہیں کیا تھا۔

        "کنیز سائیں جی۔۔۔۔"

        لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا۔

        "پڑھی لکھی ہو؟"

        اس سوال پر وہ لڑکی خوف سے کانپنے لگی۔

        "ننن۔۔۔۔نہیں سائیں جی۔۔۔۔ششش۔۔۔شائید دوسری جماعت تک پڑھی ہوں پھر سردار نے لڑکیوں کا سکول جانا بند کر دیا۔۔۔۔وہ کہتا تھا لڑکیاں بیاہ کر کے چولہا چوکھا کریں بس۔۔۔۔"

        سلطان نے نوٹس کیا کہ وہ کافی سنبھل سنبھل کر بات کر رہی تھی۔اس کی بات سن کر سلطان کو اتحاد سے مزید نفرت ہونے لگی۔ان کے گاؤں کا سردار عزم تھا جس سے وہ دونوں بھائی بے تحاشا نفرت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود عازم اس قدر گھٹیا انسان نہیں تھا بلکہ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود تعلیم پر لڑکے اور لڑکیوں کا برابر حق سمجھتا تھا۔

        "للل۔۔۔۔لیکن میں اپنا نام اردو میں لکھ لیتی ہوں۔۔۔۔انگریزی مجھے نہیں آتی لیکن اردو پڑھ لیتی ہوں تھوڑی تھوڑی مگر وہ بھی لکھنی نہیں آتی آپ کہیں گے تو میں سیکھ۔۔۔۔

        "ہممم ٹھیک ہے۔۔۔۔"

        سلطان نے آہستہ سے اسکی بات کو کاٹتے ہوئے کہا تو لڑکی خاموش ہو گئی۔ سلطان پھر سے اس آفت کے بارے میں سوچنے لگا جس میں وہ خود کو پھنسا چکا تھا۔آخر کار گاڑی حویلی کے باہر رکی تو سلطان نے گہرا سانس لے کر اپنے آدمیوں کو دیکھا۔

        "آج جو بھی ہوا اس کی کسی کو بھنک بھی نہ پڑے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔"

        دونوں آدمیوں کے اثبات میں سر ہلانے پر سلطان گاڑی سے باہر نکل آیا۔اسکے نکلتے ہی کنیز بھی گاڑی سے باہر نکلی اور اسکے پیچھے پیچھے آنے لگی۔سلطان سوچ رہا تھا کہ گھر والے جب یہ پوچھیں گے کہ یہ لڑکی کون ہے تو وہ کیا جواب دے گا سب کو۔

        پھر کنیز کی کہی بات یاد کر کے ایک ترکیب اسکے ذہن میں آئی تو وہ اچانک رک گیا اور اسکے رکتے ہی کنیز بھی رک گئی۔

        "سنو لڑکی اگر گھر میں سے کوئی بھی تمہیں پوچھے کہ تم میری کون ہو تو تم کہو گی کہ تم میری میڈ ہو۔۔۔"

        کنیز نے ناسمجھی سے گھونگٹ کی آڑ میں اپنے اس شاندار شوہر کو دیکھا جو آج اسے کسی شے کی طرح ونی ہونے سے بچا کر کتنی ہی آسانی سے اسکے معصوم دل پر اپنی سلطنت قائم کر گیا تھا۔

        "میڈ کیا ہوتا ہے سائیں جی؟"

        سلطان نے اسکے معصومیت سے پوچھنے پر گہرا سانس لیا۔

        "انگلش میں بیوی کو میڈ کہتے ہیں اور میرے گھر میں سب پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لیے تمہاری زبان پر بیوی کا لفظ غلطی سے بھی نہ آئے،یاد رکھنا تم میری میڈ ہو۔۔۔"

        سلطان نے سنجیدگی سے کنیز کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی گھونگھٹ میں تھی۔

        "جو حکم سائیں جی۔۔۔"

        کنیز نے اچھی بیوی کی طرح ہاں میں سر ہلا کر کہا۔کنیز تو وہی تھی جو اسکا سلطان اسے بنانا چاہتا تھا۔وہ گھبرائی سی اسکی پیش قدمی میں اسکی محل نما حویلی میں داخل ہوئی جو اسکی سوچ سے بھی زیادہ بڑی تھی۔

        سلطان یہ کون ہے؟"

        ایک آواز پر اس حویلی کو منہ کھول کر تکتی کنیز نے چونک کر لاونج کے صوفے پر بیٹھی شفیق سی بزرگ عورت کو دیکھا جو کافی حیران نظر آ رہی تھیں۔

        "میں انکی بی۔۔۔"

        "یہ میڈ ہے اماں بی۔۔۔۔"

        سلطان نے فوراً کہا اور کنیز کو گھوری سے نوازا جبکہ اماں بی نے حیرت سے دلہن کے جوڑے میں سجی اس لڑکی کو دیکھا۔

        "ہممم۔۔۔۔ٹھیک ہے راشدہ تم اس لڑکی کو ایک کمرہ دے دو جہاں یہ رک سکے اور سلطان بیٹا آپ میرے کمرے میں آؤ۔۔۔۔"

        اماں بی نے ملازمہ کے بعد سلطان سے کہا تو سلطان نے اثبات سر ہلایا اور اماں بی وہاں سے چلی گئیں۔انکے جاتے ہی سلطان نے مڑ کر کنیز کو بہت سختی سے بازوں سے دبوچا۔

        "سس۔۔۔۔"

        "کہا تھا ناں کہ بیوی کا لفظ تمہاری اس زبان پر نہ آئے۔۔۔۔سمجھ نہیں آتا تمہیں میڈ ہو تم میری۔۔۔۔ کیا ہو؟"

        سلطان کی سختی اور اپنے بازؤں میں دھنستی انگلیاں محسوس کر کے وہ نازک سی لڑکی سہم کر رونے لگی۔

        "مم ۔۔۔۔میڈ۔۔۔۔"

        "پھر مت بھولنا ۔۔۔۔"

        سلطان نے اتنا کہہ کر اسے جھٹکے سے چھوڑا اور وہاں سے چلا گیا۔اس نے روتے ہوئے اپنے بازو نرمی سے سہلائے۔

        "جھلی پہلے دن ہی شوہر کو ناراض کر دیا۔مر بھی جائے تو انکا احسان نہیں چکا سکتی تو یاد رکھنا تجھے انکی بیوی نہیں کنیز بن کر رہنا ہے۔وہ تجھے انگریزی میں بیوی بلانا چاہیں تو تو وہی ہے کیا تھا وہ۔۔۔۔؟"

        کنیز نے آہستہ سے خود کلامی کرتے ہوئے سوچا پھر لفظ یاد آنے پر مسکرا دی۔

        "ہاں میڈ۔۔۔۔۔میرے سائیں جی کی میڈ۔۔۔۔"

        اس معصوم نے شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ سوچا یہ جانے بغیر کہ وہ شخص اسے زندگی میں شامل تو کر چکا تھا لیکن اسے اپنی بیوی کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں تھا اور شائید وہ کبھی ہوتا بھی نہیں۔آخر وہ سلطان تھا جو کنیز کو اپنی ملکیت تو مان سکتا ہے لیکن اپنا نہیں مانتا۔

        ???❤️
        Lu g sultan k dewano kneez Tu ho gai Apne sultan ki? lakin Kia next lgta ha ????

        Comment


        • #24
          Buhat hi aala updates hain. Kafi arsay bad parh kar maza agaya hai..

          Comment


          • #25
            آغاز تو بہت اچھا تھا

            Comment


            • #26
              Bhai jis shandaar andaaz mai ap likh rhy ho iski misaal nahi mlti

              Comment


              • #27
                Boht zabardast update ek tarf sultan na masoom larki ko bachane ka lya us sa shadi kar li ha or ab ghr bta nhi sakta or dusre tarf chaudhary ka irade b theak nhi lag rahe ab dekhna ha in sb ma shahan or aan kase ek hote han

                Comment


                • #28
                  بہت خوب
                  کمال کی سٹوری ہے

                  Comment


                  • #29
                    #زندگی_اے_تیرے_نال

                    06+07+08+09+10:قسط نمبر
                    Special long episodes
                    "وہ لڑکی کون ہے سلطان ؟"
                    سلطان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اماں بی نے پوچھا تو سلطان کے اضطراب میں مزید اضافہ ہو گیا۔
                    "آپ کو بتایا تو تھا ماں بی وہ میڈ ہے۔۔۔۔"
                    اماں بی نے آنکھیں سکیڑ کر سلطان کو دیکھا۔
                    "لیکن وہ لڑکی کون ہے کہاں سے آئی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ دلہن کے لباس میں کیوں ہے؟مجھے سب بتاؤ سلطان مجھے بہت بے چینی ہو رہی ہے۔۔۔۔"
                    سلطان نے گہرا سانس لیا اور اس لڑکی سے نکاح کرنے والی بات کو نکال کر اماں بی کو ہر بات بتا دی۔اس کی بات سن کر اماں بی کے چہرے پر ایک اطمینان اور سکون آیا۔
                    "تم نے بہت اچھا کیا سلطان کہ اس بچی کو اپنے ساتھ لے آئے اور اسے ایک گھٹیا شخص کے چنگل سے چھڑا لیا۔۔۔۔"
                    اماں بی کے اشارے سے پاس بلانے پر سلطان ان کے قریب جاکر ان کے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
                    "تم کیا مان ہو سلطان اور مجھ سے بھی بڑھ کر اپنی ماں کا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عرشمان غصے یا جزبات میں کوئی غلط فیصلہ لے سکتا ہے،کسی کو تکلیف پہنچا سکتا ہے لیکن سلطان ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتا۔ہمارا سلطان ہر کام ہزار مرتبہ سوچ کر کرتا ہے۔۔۔۔"
                    سلطان نے ایک ہلکی سی مسکان کے ساتھ اماں بی کو دیکھا لیکن وہ مسکان اسکے دل تک نہیں پہنچی تھی۔
                    "امی گھر پر ہیں اماں بی؟"
                    اماں بی نے انکار میں سر ہلایا۔
                    "وہ انابیہ کے ساتھ عرشمان کی شادی کے لیے خریداری کرنے گئی ہے لیکن سلطان میں چاہتی ہوں تم یہ بات اپنی ماں کو مت بتانا کہ اس لڑکی کو تم یہاں ٹھہرانے کے لے کر آئے ہو۔"
                    سلطان نے پریشانی سے اماں بی کو دیکھا۔
                    "تم جانتی ہو وہ تمہارے اور انابیہ کے رشتے کو لے کر کس قدر حساس ہے میں نہیں چاہتی کہ وہ کچھ ایسا سوچے جو ہے ہی نہیں اور اس معصوم بچی کے لیے مشکل بن جائے جو پہلے ہی اپنی نازک جان پر نہ جانے کتنے ستم برداشت کر چکی ہے۔۔۔۔۔"
                    انکی بات کی حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے سلطان نے اثبات میں سر ہلایا۔
                    "شاباش۔۔۔۔۔۔تم تھک گئے ہو گے اب اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔۔۔"
                    سلطان نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا۔کمرے کا دروازہ لاک کر کے وہ جیسے کی مڑا اسکے کانوں میں اماں بی کے کہے الفاظ گونجے۔
                    ہم جانتے ہیں کہ عرشمان غصے یا جزبات میں کوئی غلط فیصلہ لے سکتا ہے،کسی کو تکلیف پہنچا سکتا ہے لیکن سلطان ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتا۔ہمارا سلطان ہر کام ہزار مرتبہ سوچ کر کرتا ہے۔۔۔۔
                    سلطان نے اضطراب سے اپنی آنکھیں موند لیں پھر گہرا سانس لیتے ہوئے سائیڈ ٹیبل کے پاس گیا اور اس میں سے سگریٹ نکال کر سلگانے کے بعد ہونٹوں میں دبا لی۔
                    وہ خود سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایک عام سی بات کو بھی ہر پہلو سے ہزار مرتبہ سوچ کر فیصلہ کرنے والے سلطان نے اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے ایک بار بھی کیوں نہیں سوچا۔
                    ۔اس نے یہ کیوں نہیں سوچا تھا کہ اس فیصلے سے دشواریاں کس قدر بڑھ جائیں گی۔اسے انابیہ کا خیال کیوں نہیں آیا جو چودہ سال کی عمر سے اسکے ساتھ منسوب تھی،سب سے بڑھ کر اسے اپنی ماں کا خیال کیوں نہیں آیا جن کا ہر فیصلہ سلطان کے لیے پتھر پر لکیر ہوتا تھا۔
                    سلطان اس لڑکی کی مدد تو کر چکا تھا لیکن اب اسے ہر چیز برباد ہوتے نظر آ رہی تھی اور اس بربادی میں ایک چیز جو سلطان برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ تھی اسکی ماں کی آنکھوں میں آنسو۔۔۔۔
                    بیڈ پر لیٹ کر کتنے ہی سگریٹ پھونکنے کے بعد سلطان اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ فلحال اس لڑکی اور سلطان کے رشتے کی کسی کو خبر نہ ہو۔۔۔۔
                    اس لڑکی کا خیال ذہن میں آتے ہی لال شرارے اور گھونگھٹ میں چھپا وجود سلطان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جسے اپنے ساتھ ایک بندھن میں باندھ چکا تھا وہ اسکے بارے میں اسکے نام کے سوا کچھ بھی نہیں جانتا تھا یہاں تک کہ سلطان نے تو اسکا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا تو وہ اسے پہچانے گا کیسے ۔۔۔۔
                    ????
                    الماری کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنے لیے کپڑے دیکھ رہی تھی۔آخر کار ہاتھ ایک شارٹ فراک کی جانب گیا جو سلیو لیس اور بہت ہی خوبصورت تھی۔
                    آج کے بعد تم مجھے ایسے کپڑوں میں نظر آئی تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔
                    عرشمان کی بات یاد آنے پر لیزا کے ماتھے پر بل آئے۔
                    "سمجھتا کیا ہے خود کو؟میرے جو دل میں آئے گا کروں گی جو دل کرے گا پہنوں گی مجھے میری مرضی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔۔"
                    لیزا دانت پیستے ہوئے بڑبڑائی اور وہ کپڑے پکڑ کر واش روم میں گھس گئی۔کپڑے چینج کرنے کے بعد اس نے مسکراتے ہوئے آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔اس گلابی فراک میں اسکے سفید بازو اور ٹانگیں صاف چھلک رہی تھیں۔
                    بالوں کو کھلا چھوڑتے ہوئے اس نے ہونٹوں پر گلوز لگایا۔دروازہ کھٹکنے کی آواز پر لیزا نے گہرا سانس لیا۔
                    "یس؟"
                    "لیزا بیٹا نیچے سب ہمارا کھانے پر ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔۔"
                    شاہد کی آواز پر لیزا نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔
                    "آپ چلیں میں آ رہی ہوں۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر لیزا نے موبائل پکڑا اور اپنی کچھ سیلفیز بنا کر انسٹا پر اپلوڈ کرنے کے بعد نیچے آ گئی۔ڈائننگ روم میں داخل ہو کر اسکی نظر سب گھر والوں پر پڑی جو پہلے ہی وہاں پر موجود تھے۔لیزا نے مسکرا کر ایک نظر عرشمان کو دیکھا جو ہیڈ آف دا فیملی کی کرسی پر بیٹھا تھا۔
                    "ہیلو ایوری ون ۔۔۔۔"
                    لیزا نے مسکراتے ہوئے کہا اور آ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔سب گھر والوں کے ساتھ ساتھ ملازمائیں بھی حیرت سے اسکے کپڑوں کو دیکھ رہی تھیں لیکن لیزا کا دھیان کسی پر بھی نہیں تھا۔سامنے پڑے کھانے پر نظر ڈال کر اسکی آنکھوں میں ناگواری آئی۔
                    "یہ سب کیا ہے میں ایسا کچھ نہیں کھاتی مجھے فرینچ ٹوسٹ چاہیے بوائیلڈ ایگ کے ساتھ۔۔۔۔"
                    لیزا کی فرمائش پر شاہد نوکرانی کی جانب متوجہ ہوئے۔
                    "اٹھو یہاں سے۔۔۔۔"
                    عرشمان کے انگلش میں کہنے پر سب نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔
                    ""عرشمان۔۔۔"
                    شاہد نے کچھ کہنا چاہا لیکن عرشمان کے گھورنے پر خاموش ہو گئے۔
                    " ابھی اپنے کمرے میں جاؤ اور کچھ ڈھنگ کا پہن کر آؤ۔۔۔۔"
                    عرشمان نے لیزا کو سختی سے دیکھتے ہوئے حکم دیا۔
                    "ہاؤ ڈئیر یو ؟تم کون ہوتے ہو مجھے بتانے والے کہ میں کیا پہنو اور کیا نہیں ویسے بھی ان کپڑوں میں ایسی کیا برائی ہے جو میں چینج کر کے آؤں۔۔۔۔"
                    لیزا کی بات پر آن جو ابھی پراٹھے بنا کر وہاں داخل ہوئی تھی حیرت سے اس لڑکی کو دیکھنے لگی جو کہ اسکی بہن تھی۔
                    "برائی تمہیں نظر نہیں آئے گی کیونکہ تم میں حیا نام کی کوئی چیز نہیں لیکن ہم میں ہے ابھی کہ ابھی ایسے کڑے پہن کر آؤ جو تمہیں چھپائیں ۔۔۔۔۔"
                    اب کی بار لیزا کی بس ہوئی تھی اسی لیے غصے سے میز پر ہاتھ مار کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
                    "واؤ کیا ہی چھوٹی سو ہے تمہاری،یہ میرا جسم ہے مسٹر اس پر صرف میرا حق ہے جتنا دیکھانا چاہوں گی دیکھاؤں گی جو دل میں آئے گا کروں گی تم یا کوئی بھی مجھے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا۔"
                    "لیزا۔۔۔۔"
                    شاہد نے اٹھ کر اسے وہاں سے لے جانا چاہا لیکن لیزا نے اپنی کونی چھڑوائی اور عرشمان کو گھورنے لگی۔
                    "تمہیں لگتا ہو گا کہ میں یہاں کی لڑکیوں جیسی بے وقوف اور بدھو ہوں جو ایک مرد سے دب جاؤں گی نو مسٹر عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں کوئی مرد مجھ پر پابندی نہیں لگا سکتا سمجھے تم۔۔۔۔"
                    لیزا کی بدتمیزی کو ہر کوئی حیرت سے دیکھ رہا تھا جبکہ شاہد تو شرمندگی سے سر نہیں اٹھا پا رہے تھے۔
                    تبھی عرشمان اٹھ کر لیزا کے پاس آیا اور میز سے چائے کی کیتلی اٹھا کر ساری چائے لیزا کے برہنہ بازوں پر انڈیل دی۔چائے اتنی گرم تھی کہ لیزا کو جلن کا احساس ہوا لیکن اتنی نہیں کہ اسکی جلد کو کوئی نقصان ہوتا اس کے باوجود لیزا چیخ کر عرشمان کو غصے سے دیکھنے لگی۔
                    "یہ صرف ٹریلیر تھا پھر کبھی اپنے جسم کو اس طرح سے عیاں کیا تو قسم کھاتا ہوں اس چائے کی جگہ تزاب تمہارے اس جسم پر پھینک دوں گا۔۔۔۔"
                    لیزا غصے اور تکلیف کی شدت سے نم ہوتی آنکھوں سے اسے گھورنے لگی۔
                    "تمہیں لگتا ہو گا کہ میں وہاں کے انگریز مردوں کی طرح بے غیرت ہوں جو اپنی عورتوں پر کسی کی نگاہ برداشت کر لیتے ہیں نو مس،عورت کا مطلب پردہ ہے اور اگر تم شرافت کی زبان نہیں سمجھو گی تو مجھے سمجھانا آتا ہے۔۔۔۔"
                    لیزا کا دل کر رہا تھا اس شخص کی جان لے لے اخر وہ خود کو سمجھتا کیا تھا۔
                    " اگر اتنی ہی نیت خراب ہوتی ہے عورت کو دیکھ کر تو اپنی آنکھوں پر پردہ گرا لو عورت ہی کیوں پردہ کرے۔۔۔۔"
                    عرشمان نے نفرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو بدقسمتی سے اسکی آن کی بہن تھی۔
                    "کیونکہ تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو آزادی کا رونا رو کر اپنے آپ کو عیاں کرتی ہیں یہ سوچ کر کے مرد ہی اپنی نگاہ جھکا لے تو یاد رکھو کہ جیسے ہر عورت میری آن جیسی حیا دار نہیں ہوتی ویسے ہی ہر مرد اچھا نہیں ہوتا شائید ایک مرد آنکھ جھکا لے لیکن دوسرا تمہیں نوچنے نکل پڑے گا۔۔۔۔تب کیا کرو گی؟نقصان کس کا ہو گا؟نہ تو اس مرد کا اور نہ ہی ان سب کا جو تمہیں آزادی کی پٹیاں پڑھاتے تھے صرف اور صرف تمہارا نقصان ہو گا پھر یہی لوگ ہوں گے تمہیں باتیں کرنے والے۔۔۔۔"
                    عرشمان کی باتیں سن کر لیزا کھلے منہ کے ساتھ اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا اسکے پاس کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
                    "دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اگر اپنا آپ عزیز ہے تو پھر کبھی ایسے کپڑوں میں نظر نہ آنا۔۔۔۔ناؤ گیٹ لاسٹ فرام ہئیر۔۔۔"
                    اپنی اس قدر تذلیل پر لیزا دانت پیستی واپس اپنے کمرے کی جانب چلی گئی۔شاہد نے شرمندگی سے سب کی جانب دیکھا۔
                    "میں لیزا کے رویے کی آپ سب سے معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔"
                    اماں بی نے افسوس سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
                    "اور کیا امید کی جا سکتی تھی شاہد جب یہاں کے مرد باہر کی بے باک عورتوں کو فوقیت دیں اور اپنی اولاد کی تربیت ان پر چھوڑ دیں تو نتائج یہی نکلتے ہیں۔۔۔۔"
                    اماں بی کی بات پر شاہد کا سر مزید جھک گیا اور وہ وہاں سے چلے گئے۔
                    "اللہ معاف کرے کیا بے حیا لڑکی ہے شکر ہے آن اس جیسی بالکل نہیں سوچتی ہوں اگر آن کی جگہ یہ میری بہو بن جاتی تو ۔۔۔۔"
                    "امی۔۔۔۔"
                    فرحین جو اپنی ہی دھن میں بولتی چلی جا رہی تھیں عرشمان کے ٹوکنے پر حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
                    "آج کے بعد یہ الفاظ پھر کبھی اپنی زبان پر مت لائے گا میری آن کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔۔۔۔"
                    عرشمان کی آواز میں ماں کی عقیدت کے ساتھ ساتھ وارننگ محسوس کر کے فرحین بیگم ہلکا سا ہنس دیں۔
                    "نہیں بیٹا میں تو بس ایسا سوچ رہی تھی۔۔۔"
                    "کبھی خیال میں بھی یہ مت لائے گا امی کیونکہ میں یہ بات خیال میں بھی گوارا نہیں کروں گا۔۔۔۔"
                    فرحین نے اثبات میں سر ہلایا لیکن عرشمان کی اس محبت ہر وہ اندر ہی اندر جل کر رہ گئی تھیں۔
                    ????
                    "اے لڑکی اٹھو یہاں سونے کے لیے آئی ہو۔۔۔۔۔لڑکی اٹھو۔۔۔۔"
                    کسی کے چلانے اور جھنجوڑنے پر کنیز کی آنکھ کھلی تو وہ ہکی بکی سی اپنے سامنے موجود عورت کو دیکھنے لگی جو اسے بری طرح سے گھور رہی تھی۔
                    کنیز کو یاد آیا کہ کل یہی عورت اسے ایک کمرے میں لے کر آئی تھی۔کنیز اس چھوٹے اور میلے سے کمرے کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی کہ یہ اسکے سلطان کا کمرہ کیسے ہو سکتا تھا وہ اتنا شاہانہ مرد یہاں کیسے رہ سکتا تھا۔اسی خیال کے زیر تحت کنیز نے فوراً وہ کمرہ اچھی طرح سے صاف کیا اور پھر وہاں موجود چارپائی پر بیٹھ کر سلطان کا انتظار کرنے لگی۔
                    دل اسکو ایک جھلک دیکھنے کے خیال سے ہی بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔کیا ہوتا اگر وہ سلطان کو اچھی نہ لگتی؟کیا ہوتا وہ کوئی ایسی غلطی کر دیتی جس سے سلطان ناراض ہو جاتا؟ یہ خیال ہی اس معصوم کے لیے اتنا ڈراؤنا تھا کہ اسکی پلکیں نم ہو گئیں۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ سلطان کا انتظار کرتے ہوئے کس وقت سو گئی تھی۔
                    "جج۔۔۔۔جی خالہ کوئی کام تھا آپ کو؟"
                    کنیز کا دھیان پھر سے اس گھورتی ہوئی عورت پر گیا تو گھبرا کر پوچھنے لگی۔
                    "خالہ۔۔؟اتنی بوڑھی نہیں میں صرف پچیس سال کی ہوں تو مجھے راشدہ باجی کہہ کر بلایا کرنا۔۔۔۔"
                    کنیز نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا جو چالیس سال سے تو کسی طور پر کم نہیں تھی لیکن پھر بھی اس نے اچھی لڑکی کی طرح ہاں میں سر ہلا دیا۔
                    "یہاں چارپائی توڑنے نہیں آئی تو جو ابھی تک سو رہی ہے ہزار کام پڑے ہیں حویلی کے اٹھ اور کمر باندھ لے؟"
                    "جی؟"
                    کنیز نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا۔کیا یہاں کی عورتیں شادی کے پہلے دن ہی کام کرنے لگ جاتی تھیں کیونکہ انکے گاؤں میں تو عورت شادی کے بعد کم از کم ایک ہفتہ کام کو ہاتھ تک نہیں لگاتی تھی۔
                    "کیا جی؟ خود کو کہیں کی ماہ رانی سمجھا ہے کیا اٹھ اور صاف صفایاں کر۔۔۔۔"
                    "لیکن میں تو سائیں جی بی۔۔۔۔مم۔۔۔۔میڈ ہوں ۔۔۔۔"
                    کنیز نے گھبراتے ہوئے کہا۔
                    "کونسے سائیں جی ؟"
                    راشدہ نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
                    "وہ جن کے ساتھ میں کل آئی تھی میرے سائیں جی۔۔۔۔۔میں انکا نام کیسے لوں بھلا۔۔۔؟"
                    یہ بات کہتے ہوئے کنیز کے خوبصورت رخسار گلابی ہو گئے اور راشدہ نے گہرا سانس لیا۔
                    "سلطان صاحب نے ہی تجھے میرے حوالے کیا ہے لڑکی تا کہ تجھے ہر کام بتا دوں اب میڈ ہو کے بستر تو نہیں توڑے گی ناں تو۔۔۔۔"
                    راشدہ نے منہ بناتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات پر کنیز بے چین ہو کر کھڑی ہوئی۔
                    "سائیں جی کا حکم ہے کہ میں ساری صفایاں کروں؟"
                    "کم سنائی دیتا ہے کیا؟"
                    راشدہ نے اس لڑکی کی بیوقوفی پر دانت پیستے ہوئے کہا۔
                    "آپ بتا دیں کیا کیا کرنا ہے میں سب کر دوں گی۔۔۔۔گھر تو اماں اور باجی کچھ کرنے نہیں دیتیں تھیں اس لیے زیادہ کام تو نہیں آتا لیکن میں صفائی کر لوں گی اچھی والی۔۔۔۔"
                    کنیز کی بے چینی کو راشدہ نے دلچسپ نگاہوں سے دیکھا۔
                    "جتنا کام کہوں گی کرے گی؟"
                    کنیز نے فوراً ہاں میں سر ہلایا تو راشدہ کے چہرے پر شاطر مسکان آئی وہ اس لڑکی کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر اپنا کام بھی اس سے کروانے کا اردہ رکھتی تھی۔
                    "ٹھیک ہے پھر چلو میں تمہیں ہر کام بتا دیتی ہوں۔۔۔۔"
                    کنیز نے جلدی سے اپنے پیروں میں کھسا پہنا اور باہر جانے لگی۔
                    "کہاں جا رہی ہو لڑکی؟"
                    "کام کرنے باجی آپ نے ہی تو کہا تھا۔۔۔۔"
                    راشدہ نے گہرا سانس لیا۔
                    "بے وقوف لڑکی اس شرارے میں کرو گی صفایاں کپڑے تو تبدیل کر لو۔۔۔"
                    راشدہ کی بات پر کنیز کو اپنی محرومی کا احساس ہوا۔
                    "ممم۔۔۔میرے پاس اور کپڑے نہیں ہیں؟"
                    راشدہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے اسے شبے سے دیکھا۔
                    "گھر سے بھاگ کر آئی ہو کیا؟"
                    کنیز نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
                    "نہیں میں تو وہ۔۔۔"
                    "رہنے دو مجھے نہیں جاننا میں تمہیں اپنے کپڑے دے دوں گی کچھ تم ان سے کام چلا لینا لیکن تم چپ چاپ ہر وہ کام کرو گی جو میں کہوں گی یہ سمجھ لو میرا حکم سلطان صاحب کا حکم ہے۔۔۔۔"
                    سلطان کے ذکر پر ہی کنیز نے گھبرا کر راشدہ کو دیکھا اور جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔راشدہ اسکی معصومیت پر مسکرا دی۔
                    بیوقوف لڑکی۔
                    راشدہ نے زیر لب کہا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی کمرے سے باہر نکل گئی اور وہ سلطان کی کنیز اپنے سلطان کا ہر حکم بجا لانے کے لیے اس کے پیچھے چل دی یہ جانے بغیر کہ اسکا مقدر تو اسے ملکہ بنانا چاہتا تھا لیکن کنیز کا ملکہ بننا آسان کہاں تھا یہ کام تو ناممکن تھا۔
                    ????
                    نہانے کے بعد جلن تھوڑی کم ہوئی تو لیزا ٹاول لپیٹ کر آئنے کے سامنے آئی اور نم آنکھوں سے اپنے لال بازوں کو دیکھنے لگی۔نہ چاہتے ہوئے بھی اسے پوری آستینوں والی شرٹ پہننی پڑی اور اس کے نیچے صرف پینٹ یا ٹروزار ہی اچھا لگتا تو ٹروزار پہن کر اپنے بالوں کی اونچی پونی بنائی اور الماری کھول کر اپنے کپڑے بیگ میں رکھنے لگی۔
                    شاہد جب اسکے کمرے میں داخل ہوئے تو اسے پیکنگ کرتا دیکھ پریشانی سے اسکی جانب آئے۔
                    "لیزا آئی ایم سوری۔۔۔۔"
                    لیزا نے غصے سے انہیں دیکھا۔
                    "آپ نے کہا تھا کہ یہاں مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور دیکھیں یہاں میرے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔۔۔۔"
                    "لیزا تم زرا ٹھنڈے دماغ سے کام لو بیٹا ایسے غصے میں۔۔۔۔"
                    "غصہ...؟ڈیڈ میرا دل کر رہا ہے اسکی جان لے لوں صرف آپ کا خیال ہے ورنہ پولیس کو بلا کر اس پر فزیکل ایبیوز کا کیس کر چکی ہوتی۔۔۔۔"
                    شاہد نے گہرا سانس لیا اور اسے کندھوں سے تھام کر اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
                    "عرشمان کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں بیٹا لیکن پلیز یہاں سے مت جاؤ۔۔۔۔"
                    "کیوں؟کیوں نہ جاؤں میں؟"
                    لیزا نے فوراً پوچھا تو شاہد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
                    "دیکھو بیٹا میں جانتا ہوں کہ اوپر سے تم جتنی بے رخی دیکھاتی ہو اندر سے تم اتنی ہی نرم ہو۔۔۔۔"
                    لیزا نے حیرت سے شاہد کو دیکھا۔
                    "تم ہمیشہ چاہتی تھی کہ ہماری ایک فیملی ہوتی جس میں تمہارے بہن بھائی ہوتے اب تمہیں بہن کا ،دادی کا تائی کا سب کا پیار مل سکتا ہے تو تم یہاں سے جانا چاہتی ہو؟"
                    لیزا نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے۔
                    "جانتا ہوں کہ تمہیں عرشمان سے مسلہ ہے لیکن اس کے بس کچھ اصول ہیں لیزا ان پر کچھ وقت کے لیے چل پڑو۔۔۔اور یہاں سے جاتے ہی جیسے دل کرے ویسے رہنا بس بیس دنوں کے لیے ان سب کی طرح جی لو لیزا میری خاطر۔۔۔۔"
                    شاہد کی پلکوں پر آنسو دیکھ کر لیزا بے بس ہو چکی تھی۔اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں میچیں اور ہاتھ میں پکڑی فراک کو فرش پر پھینک دیا۔
                    "ٹھیک ہے ڈیڈ لیکن صرف آپ کی خاطر۔۔۔۔"
                    شاہد لیزا کی بات پر مسکرائے لیکن لیزا کو اپنا ہینڈ بیگ پکڑتا دیکھ پھر سے پریشان ہو گئے۔
                    "کہاں جا رہی ہو۔۔۔۔؟"
                    "فلحال یہاں سے دور پلیز ڈیڈ دو پل کے لیے ان سب سے دور جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔"
                    لیزا کے اکتائے لہجے پر شاہد نے گہرا سانس لیا۔
                    "ٹھیک ہے چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔۔۔"
                    لیزا نے فورا اپنا سر انکار میں ہلایا ۔
                    "نو ڈیڈ میں اکیلے رہنا چاہتی ہوں پلیز آپ فکر مت کریں میں اپنا خیال رکھوں گی۔۔۔۔"
                    کچھ سوچ کر شاہد میں ہاں میں سر ہلایا لیزا نے مسکراتے ہوئے ان کا گال چوما اور کمرے سے باہر نکل گئی۔باہر آنے پر اس نے پورچ میں کھڑی گاڑیوں پر نگاہ دوڑائی تو اس کی نگاہ ایک کالی پراڈو پر ٹھہر سی گئی۔
                    لیزا نے مسکراتے ہوئے اس شاندار گاڑی کو دیکھا اور پھر وہاں کھڑے ڈرائیو کے پاس آئی۔
                    "مجھے اس گاڑی کی چابی دو۔۔۔۔"
                    لیزا کے انگلش میں کہنے پر اس آدمی نے پریشانی سے دوسرے آدمی کو دیکھا۔
                    "معاف کریے گا میڈم لیکن یہ عرشمان صاحب کی پسندیدہ گاڑی ہے وہ یہ کسی کو چلانے نہیں دیتے آپ کوئی اور گاڑی لے لیں۔۔۔۔"
                    اس آدمی نے اٹکتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہا جبکہ اسکی بات پر لیزا شان سے مسکرا دی۔
                    "مجھے اسی گاڑی کی چابی چاہیے مجھے اسی وقت چابی دو۔۔۔۔"
                    لیزا نے حکم دیتے ہوئے کہا۔
                    "سوری میم میں نہیں دے سکتا عرشمان صاحب بہت زیادہ غصہ ہوں گے۔۔۔۔"
                    لیزا اپنی آنکھیں سکیڑ کر اس آدمی کے قریب ہو گئی۔
                    "اور سوچو کہ تب تمہارا کیا حال ہو گا اگر میں نے سب سے یہ کہا تم نے مجھے چھوا ہے تب تمہارے وہ عرشمان صاحب اور باقی گھر والے تمہارا کیا حال کریں گے۔۔۔۔"
                    لیزا کی ترکیب کار آمد ثابت ہوئی وہ آدمی اب پرخوف نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
                    "شرافت سے چابی دو ورنہ میری ایک چیخ اور تم کام سے گئے۔۔۔۔"
                    لیزا نے اپنا نازک ہاتھ اسکے آگے کیا تو اس آدمی نے کانپتے ہاتھوں سے لیزا کے ہاتھ پر چابی رکھ دی۔لیزا نے مسکراتے ہوئے ایک بٹن دبا کر گاڑی انلاک کی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
                    "ہمممم عرشمان ملک کی فیورٹ گاڑی اب یہ گاڑی کسی کی فیورٹ رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔"
                    اتنا کہہ کر لیزا نے آدمی کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کیا اور گاڑی بھگا کر حویلی سے باہر نکل آئی۔تھوڑی دور جانے پر اسے ایک کچا راستہ نظر آیا تو خوبصورت ہونٹوں پر شریر سی مسکان آئی۔
                    اس نے گاڑی کو کچے راستے پر ڈالا اور مٹی اڑاتے ہوئے پوری رفتار سے گاڑی چلانے لگی۔وہ گاڑی کو خراب کرنے کے لیے کتنی ہی بار اسے سائیڈوں سے درختوں کے ساتھ لگا کر چھیل چکی تھی۔
                    ایک موڑ آنے پر لیزا نے شارپ ٹرن لیا لیکن اچانک ہی اسے سامنے سے ایک بچہ اور عورت آتے ہوئے نظر آئے۔انہیں اتنا قریب دیکھ کر لیزا کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
                    اگر وہ بریک لگاتی تو بھی گاڑی ان سے ٹکرا جاتی اس لیے لیزا نے جلدی سے گاڑی کو دوسری جانب موڑا اور ایک درخت میں گاڑی ٹھوک دی لیکن اس کے باجود گاڑی کی سائیڈ اس ماں بیٹے کو لگی اور وہ دونوں زمین پر گر گئے۔
                    گاڑی درخت سے ٹکرانے کی وجہ سے لیزا کا اپنا ماتھا سٹیرنگ ویل سے ٹکرا کر زخمی ہو گیا لیکن لیزا اسے نظر انداز کرتی گاڑی سے نکلی اور جلدی سے اس عورت کے پاس گئی جو اپنے بچے کو ٹٹول کر دیکھ رہی تھی۔
                    "اوہ مائے گاڈ۔۔۔۔آپ دونوں ٹھیک تو ہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟"
                    لیزا کے انگلش میں بات کرنے پر دونوں ماں بیٹا ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگے۔
                    "پلیز مجھے بتائیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔"
                    لیزا نے بچے کے بازو پکڑ کر دیکھتے ہوئے کہا دیکھنے میں تو دونوں ٹھیک ہی لگ رہے تھے۔
                    "او لگدی لاہور دی آ جس حساب نال تکتدی آ
                    کڑی دا پتہ کرو کیڑے پنڈ دی آ کیڑے شیر دی آ"
                    بچے نے لیزا کو دیکھتے ہوئے گنگیایا تو لیزا حیرت سے اسے دیکھنے لگی جو بمشکل چھے یا سات سال کا تھا۔
                    "مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم کیا کہہ رہے ہو ٹھیک ہو ناں۔۔۔۔؟"
                    لیزا نے پھر سے پوچھا تو بچہ اسے ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ پرستان کی پری ہو۔
                    "او پنجابی بولے نہ تے میں انگلش وچ اڑدا سی
                    او میری لُک تے مردی سی تے میں اودے لک تے مردا سی۔۔۔۔"
                    بچے نے پھر سے گنگایا تو لیزا نے اضطراب سے
                    بچے کی ماں کو دیکھا جو اپنے بچے کی بات پر ہنس رہی تھی۔
                    "کیا ہوا ہے یہاں۔۔۔۔؟"
                    ایک رعب دار آواز پر تینوں کا دھیان ایک آدمی پر گیا۔گھنی مونچھوں اور ہلکی سی داڑھی والا وہ خوبرو سا شخص سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہاں کھڑا انہیں گھور رہا تھا۔
                    لیزا نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے لیکن تبھی اسکے کانوں میں کسی کے رونے کی آواز پڑی تو لیزا حیرت سے اس عورت کو دیکھنے لگی جو دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
                    "ہائے مار دیا چوہدری جی میری ٹانگ توڑ دی ہائے سیدھا ہم میں لا کر گاڑی ماری اس نے ہائے میری ٹانگ میں مر گئی۔۔۔۔ہائے میرا منڈا ہائے میرا بچہ مر گیا ہائے۔۔۔۔"
                    لیزا حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس عورت کو دیکھنے لگی جو ایک منٹ پہلے تو ہنس رہی تھی اور اب اس شخص کو دیکھ کر ایسے رو رہی تھی جیسے مر گئی ہو۔
                    پھر لیزا کی نظر بچے پر پڑی تو حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا کیونکہ کچھ دیر پہلے گانے گانا والا بچہ اب بے ہوش ہو چکا تھا۔
                    "او گاڈ یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں انہیں کچھ نہیں ہوا ابھی دونوں ٹھیک تھے سر۔۔۔۔"
                    لیزا ہڑبڑا کر اٹھتے ہوئے عزم کے سامنے آئی اور گھبرا کر کہنے لگی۔عزم نے ناسمجھی سے ساتھ کھڑے غلام کو دیکھا۔
                    "پلیز پولیس کو مت بلائے گا یہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں آپ چاہے تو ان کا چیک اپ کروا لیں پلیز مجھے جیل میں نہیں جانا۔۔۔۔"
                    لیزا نے پھر سے جلدی سے کہا۔
                    "اردو بولتے شرم آتی ہے لڑکی یوں منہ ٹیڑھا کر کر انگریزی بولنا بند کرو پہلے۔۔۔۔"
                    عزم کے ایسا کہنے پر لیزا نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا لیکن اردو لفظ کو وہ سمجھ چکی تھی۔
                    "مجھے اردو نہیں آتی۔۔۔۔"
                    لیزا کے ایسا کہنے پر غلام نے اسکی کہی ہر بات اردو میں دہرا دی۔
                    "پوچھو اس سے کون ہے یہ؟"
                    عزم کے کہنے پر غلام نے اس لڑکی کی جانب دیکھا۔
                    "کون ہو تم؟"
                    غلام کو انگلش بولتا دیکھ لیزا نے سکھ کا سانس لیا۔
                    "شکر ہے کسی کو تو انگلش آتی ہے۔۔۔سر یہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں انہیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔"
                    غلام نے پھر سے اپنا سوال دہرایا تو لیزا کی ہڑبڑاہٹ تھوڑی کم ہوئی۔
                    "میں لیزا ہوں لیزا ملک شاہد ملک کی بیٹی۔۔۔۔"
                    لیزا نے یہ بات کہہ کر عزم کو دیکھا جسکے ماتھے پر بل تھے۔
                    "آپ دونوں عرشمان ملک کو جانتے ہوں گے کافی فیمس ہے وہ یہاں میں اسکی کزن ہوں پلیز مجھے پولیس کے حوالے مت کرنا۔۔۔۔"
                    لیزا خود نہیں جانتی تھی کہ اس نے ان کو عرشمان کا حوالہ کیوں دیا تھا شائید اس وجہ سے کہ سب کی طرح یہ دونوں بھی عرشمان سے ڈر کر اسے چھوڑ دیں گے آخر عرشمان سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔
                    لیکن اب غلام کے یہ بات اردو میں بتانے پر اس خوبصورت سے مونچھوں والے آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر لیزا پریشان ہو گئی۔
                    "پکڑ لو اسے غلام اس نے گاؤں کا اصول توڑا ہے ایک عورت اور بچے کو اپنی بیوقوفی میں تکلیف پہنچائی ہے۔عرشمان کو خبر کر دو کہ اسکی چچا ذاد ہمارے پاس جرم میں قید ہے اور ملکوں کی اس ولایتی چوزی کا فیصلہ کل جرگے میں ہو گا۔۔۔۔"
                    لیزا کو اس آدمی کی بات سمجھ میں تو نہیں آئی تھی لیکن غلام کو اپنی کونی پکڑتا دیکھ کر وہ اب سچ میں پریشان ہو چکی تھی۔کیا اس نے کچھ غلط کہہ دیا تھا۔
                    ???
                    ...........................................

                    #زندگی_اے_تیرے_نال
                    #قسط_نمبر7
                    عرشمان وارڈ کے دروازے میں کھڑا مسکراتے ہوئے آن کو دیکھ رہا تھا جو ایک عورت کا چیک اپ کرنے کے بعد اب ایک بچے کے پاس آئی تھی اور ستیٹھو سکوپ کانوں میں لگا کر بچے کی سانسیں چیک کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے اسکا گال چومنے لگی۔
                    یہ دیکھ کر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے اور وہ مڑ کر ایک ملازم کے پاس گیا۔
                    "ڈاکٹر آن سے کہو کہ اپنے آفس میں آئیں وہاں انکا ایک مریض آیا ہے۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان آن کے آفس میں چلا گیا اور آن کا انتظار کرنے لگا لیکن اسکی توقع کے برعکس آن تو وہاں پر نہیں آئی بلکہ گھبرایا سا ملازم واپس آیا۔
                    "وہ ملک جی ڈاکٹر صاحبہ کہہ رہی ہیں مریض سے بولو کہ کہیں اور چلا جائے وہ فالتو لوگوں کا علاج نہیں کرتیں۔۔۔۔"
                    عرشمان نے آنکھیں سکیڑ کر اس ملازم کو دیکھا۔کیا آن کو اسکے یہاں ہونے کی خبر ہو چکی تھی۔
                    "ڈاکٹر صاحبہ سے کہو کہ مریض کہہ رہا ہے آ کر اسکا علاج کریں ورنہ انکا یہ ہسپتال کل ہی بند کروا دوں گا۔۔۔۔"
                    ملازم فوراً ہاں میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد آن غصے سے دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوئی لیکن اپنی کرسی پر عرشمان کو بیٹھے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
                    مریض کا سن کر وہ سوچ رہی تھی کہ عزم چوہدری ایک بار پھر سے اسے پریشان کرنے آ چکا تھا لیکن عرشمان کو دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
                    "آپ یہاں مان؟"
                    عرشمان نے مسکراتے ہوئے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔
                    "کیا بات ہے ڈاکٹر صاحبہ جس نے یہ ہسپتال بنوایا ہے اب اسے ہی علاج کروانے کہیں اور جانا پڑے گا؟"
                    "نہیں مان ایسی بات نہیں وہ مجھے لگا کہ۔۔۔۔علاج؟"
                    اچانک ہی ایک خیال آنے پر آن نے پریشانی سے عرشمان کو دیکھا اور جلدی سے اسکے قریب آ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگی۔
                    "کیا ہوا مان آپ ٹھیک تو ہیں کہیں چوٹ لگی ہے کیا؟بتائیں مجھے کیا ہوا ہے آپ کو؟"
                    آن کی بے چینی اور محبت پر عرشمان کے لب شان سے مسکرا دیے۔
                    "تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کچھ ہو سکتا ہے آن تم میری سانسوں کے چلنے کی وجہ ہو بس کبھی مجھ سے دور مت جانا ورنہ تمہارا مان بے جان ہو جائے گا،وہ ختم ہو جائے گا۔۔۔۔"
                    عرشمان کے لفظوں میں واضح محبت محسوس کر کے آن کی پلکیں نم ہو گئیں۔
                    "میں آپ سے کیوں دور جاؤں گی مان کیا اپنی دھڑکن سے بھی دور ہوا جاتا ہے؟"
                    آن نے اس سے فاصلہ قائم کرتے ہوئے کہا اور عرشمان جان لٹاتی نظروں سے آن کو دیکھ رہا تھا۔
                    "جانتی ہو آن جب تم پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تب میرے بابا نے مجھے یہ کہا تھا کہ دعا کرو تمہارے چچا کے ہاں ایک پیاری سی پری پیدا ہو اگر ایسا ہوا تو وہ پری تمہاری ہو گی۔۔۔۔"
                    آن اسکی بات پر اپنا چہرہ جھکا گئی۔
                    "مجھے وہ پری چاہیے تھی آن اس لیے میں جو بھی اچھا کام کرتا تو ہر کسی سے یہی کہتا کہ دعا کرے میرے چچا کے ہاں پری پیدا ہو۔۔۔۔"
                    عرشمان اٹھ کر آن کے پاس آیا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔
                    "جانتی ہو جس دن تم پیدا ہوئی اور میں نے پہلی مرتبہ تمہیں دیکھا تو کیا ہوا تھا؟"
                    آن نے سوالیہ نظریں اٹھا کر عرشمان کو دیکھا۔اسکی یہ محبت ہمیشہ ہی آن کو بے زبان کر دیا کرتی تھی۔
                    "چھے سال کے اس بچے نے محبت لفظ کے مطلب کو سمجھا تھا آن،عشق کی مورت کو اپنے ننھے ہاتھوں میں سوئی چھوٹی سی جان میں دیکھا تھا۔۔۔۔"
                    عرشمان کی بات پر آن کی پلکیں نم ہوئی تھیں۔عرشمان کا یہ عشق ہی تو اسے معتبر رکھے ہوئے تھا ورنہ ماں باپ کی محبت سے محروم وہ تو شائید اپنی ماں کے ساتھ ہی مر جاتی۔
                    "تمہارے اس دنیا میں آنے سے پہلے میں نے تمہیں چاہا تھا آن ملک اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہو تم مجھے۔۔۔۔"
                    عرشمان نے آن کا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے جانا چاہا تو آن نے گھبرا کر اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔اسکی حرکت پر عرشمان کی آنکھیں جنون سے گہری ہو گئیں۔
                    "بس کچھ دن ہی رہ گئے ہیں جان عرشمان پھر بھر پور استحاق سے تمہیں۔۔۔۔"
                    "مان شرم کریں۔۔۔۔"
                    آن نے آنکھیں پھیلا کر کہا تو عرشمان ہنس دیا۔
                    "چاہتی ہوں کہ شرم کروں تو پھر سب کام چھوڑو اور میرے ساتھ چلو۔۔۔"
                    "کہاں ۔۔۔؟"
                    آن نے اپنا سفید کوٹ اتار کر ایک کرسی کی پشت پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
                    "شاپنگ کرنے میں چاہتا ہوں کہ تم شادی کی ہر چیز اپنی پسند کی لو۔۔۔۔بلکہ سوچتا ہوں شادی سے پہلے ہمارے کمرے کا انٹیریئر بھی چینج کر لیتے ہیں کیا خیال ہے تمہارا؟"
                    آن نے فوراً اپنا سر انکار میں ہلایا۔
                    "آپ کی شادی بڑی امی بہت شوق سے کرنا چاہتی تھیں مان اور میں چاہتی ہوں کہ وہ ہر چیز اپنی پسند سے کریں جو انکی پسند ہو گی مجھے منظور ہو گی۔۔۔۔"
                    عرشمان نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
                    "تو وہ کرتی رہیں جو کرنا ہے کون منع کر رہا ہے انہیں جو وہ لیں گی تمہارے لیے وہ سب تمہارا ہو گا لیکن میں تمہیں بھی تمہاری پسند کی ہر چیز دلاؤں گا۔اتنا پیسہ ہے میرے پاس کہ ماں اور بیوی دونوں کی خواہشات پوری کر سکوں۔۔۔۔"
                    آن نے گہرا سانس لے کر عرشمان کو دیکھا۔وہ جانتی تھی کہ وہ اسکی ایک نہیں سنے گا۔
                    "ٹھیک ہے جیسے آپکی مرضی ۔۔۔"
                    عرشمان کو مسکراتا دیکھ آن بھی مسکرا دی۔
                    "تو چلو چادر لو پھر چلتے ہیں۔"
                    آن نے اثبات میں سر ہلایا۔تبھی عرشمان کی جیب میں پڑا موبائل بجنے لگا تو عرشمان نے گہرا سانس لے کر کال پک کرتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔
                    "صاحب وہ۔۔۔۔ایک مسلہ ہو گیا ہے عرشمان صاحب ۔۔۔۔"
                    اپنے خاص آدمی کی بات پر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے۔
                    "کیا ہوا ہے؟"
                    عرشمان نے آن کی طرف دیکھا جو خود بھی پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
                    "صاحب وہ عزم چوہدری کا خاص آدمی غلام ڈیرے آیا تھا آپ سے ملنے اس نے کہا کہ شاہد صاحب کی چھوٹی بیٹی عزم چوہدری کے پاس ہے۔اس نے آپکی گاڑی سے ایک عورت اور بچے کو کچل دیا اور کل اسے جرگے میں سزا دی جائے گی۔۔۔ "
                    یہ بات سن کر عرشمان کی پکڑ موبائل پر اتنی مظبوط ہو گئی کہ آن کو لگا موبائل اسکے ہاتھ میں ہی چٹخ جائے گا۔کال بند کر کے عرشمان نے موبائل غصے سے میز پر مارا تو آن سہم کر اسے دیکھنے لگی۔
                    "کیا ہوا مان؟"
                    آن پریشانی سے عرشمان کی آنکھوں میں غصے اور اسکی رگی ہوئی تنوں کو دیکھ رہی تھی۔
                    "وہ لڑکی۔۔۔۔میں زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان غصے سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ آن پریشانی سے اپنا دل تھام کر رہ گئی۔'اس لڑکی' سے تو وہ سمجھ چکی تھی کہ عرشمان لیزا کی بات کر رہا ہے لیکن پریشانی کی بات تو یہ تھی کہ اب اس نے کیا کر دیا تھا۔
                    ????
                    "تم جاہل انسان بے وقوف ہو کیا تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہا کہ یہ عورت اور اسکا بیٹا ڈرامہ کر رہے ہیں۔۔۔سچ کہتی ہوں چھوڑ دو مجھے ورنہ ایسا حال کروں گی ناں تمہارا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔۔۔"
                    لیزا نے اپنے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جو ایک رسی سے بندھے ایک کمرے کے کونے میں اسے بے بس کیے ہوئے تھے جبکہ وہ آدمی جس نے لیزا کو پکڑا تھا وہ شان سے ایک کرسی پر بیٹھا اس عورت کو دیکھ رہا تھا جو ابھی بھی اپنے بے ہوش بیٹے کو باہوں میں اٹھائے رو رہی تھی۔
                    "بہرے ہو گئے ہو کیا سنائی نہیں دیتا میں۔۔۔۔۔"
                    "ارے بس۔۔۔۔"
                    عزم کے چلانے پر لیزا خاموش ہو کر ہکی بکی سی اسے دیکھنے لگی۔
                    "پتہ نہیں تب سے کیا کھٹ پٹ لگا رکھی ہے بی بی جب میں تمہیں نہیں سمجھ سکتا تم مجھے نہیں سمجھ سکتی تو اپنی بکواس بند رکھو ناں۔ایک تو اتنی انگریزی میرے استاد مجھے نہیں سنا سکے جتنی تم اتنی دیر سے مجھے سنا چکی ہو۔۔۔۔"
                    عزم نے الجھن سے کہا تو لیزا دانت کچکچا کر اسے دیکھنے لگی۔
                    "مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم کیا کہہ رہے ہو پاگل آدمی ۔۔۔۔۔"
                    لیزا کے چلانے پر عزم نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
                    "ویسے حیرت ہے کہ تم میری آن کی سوتیلی بہن ہو کہاں وہ اور کہاں تم سایے کے برابر بھی نہیں تم اس کے ۔۔۔۔"
                    عزم نے لیزا کو سر سے لے کر پیر تک دیکھتے ہوئے کہا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ لڑکی بے انتہا خوبصورت تھی۔مغربی رنگت کے سرخ و سفید چہرے پر مشرقی تیکھے نقوش اور شہد رنگ کی آنکھیں۔اس پر کمر تک آتے بھورے بال جو کہیں کہیں سے سنہرے بھی تھے جیسے اس نے کسی مہنگے سلون سے سکیٹینگ کروائی ہو۔اس سب پر اس شرٹ اور ٹراؤزر میں اس کے درمیانہ قد کا نازک وجود کافی دلکش معلوم ہوتا تھا لیکن اتنی حسین ہونے کے باوجود وہ سامنے موجود شخص کے لیے آن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔
                    "پلیز مجھے جانے دو میں بھیک مانگتی ہوں۔۔۔۔"
                    نہ چاہتے ہوئے بھی لیزا کی آواز رندھ چکی تھی۔
                    "بس کر دے یار انگریزی بولنا ایسا لگ رہا ہے انگریزوں کی گندی فلم دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔"
                    عزم کی بات پر ایک ہلکی سی ہنسنے کی آواز آئی تو عزم نے آنکھیں سکڑ کر عورت کی گود میں موجود بچے کو دیکھا جو عزم کے دیکھتے ہی اپنی ہنسی دباتا پھر سے بے ہوش ہو چکا تھا۔یہ دیکھ کر عزم کے لب مسکرا دیے۔
                    "میں واپس آ گیا۔۔۔۔"
                    غلام جو عرشمان کو پیغام بھجوانے گیا تھا اس نے عزم کے ڈیرے کے اس کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
                    "اوہ تھینک گاڈ۔۔۔۔"
                    "اللہ کا شکر ہے۔۔۔۔"
                    عزم اور لیزا ایک ساتھ بولے تو غلام حیرت سے دونوں کو دیکھنے لگا۔
                    "واہ اپنا آپ اتنا قیمتی کبھی نہیں لگا واہ غلامے قدر دیکھ یہاں اپنی۔۔۔۔"
                    غلام نے کندھا جھاڑتے ہوئے کہا تو عزم اسے گھورنے لگا۔
                    "پلیز مسٹر اس ان پڑھ جاہل انسان کو بتاؤ کہ یہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں مجھے یہاں سے جانے دے۔۔۔۔"
                    لیزا کی بات پر اس نے پریشانی سے عزم کی جانب دیکھا اور لیزا کی کہی بات اردو میں دہرا دی۔
                    "تو کیا اگر بیچارے مر جاتے تو ہونا تھا تجھے سکون؟"
                    غلام کے یہ بات انگلش میں بتانے پر لیزا دانت کچکچا کر عزم کو دیکھنے لگی۔
                    "Bloody illiterate, psychopath, scoundrel,idiot man...."
                    لیزا اسے کتنی ہی گالیاں نکال چکی تھی اور غلام منہ کھولے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
                    "کیا کہا اس نے غلام۔۔۔۔؟"
                    غلام نے پریشانی سے عزم کو دیکھا۔اب وہ اسے کیا بتاتا کہ وہ لڑکی اسے جاہل،سنکی، بدماش اور پاگل آدمی کہہ چکی تھی۔
                    "چوہدری جی وہ بھیک مانگ رہی ہے کہ اسے معاف کر دیں آپ کو آپ کی اچھائی کا واسطہ۔۔۔۔"
                    عزم نے آنکھیں سکڑ کر لیزا کو دیکھا۔
                    "اسکی شکل سے تو ایسا نہیں لگ رہا کہ وہ یہ بات کہہ رہی ہے شکل تو ایسے بنائی ہے جیسے مجھے ماں بہن کی گالیاں نکال رہی ہو۔۔۔۔"
                    غلام نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
                    "خبر پہنچا دی تھی تم نے عرشمان ملک کو۔۔۔؟"
                    غلام نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
                    "جی امید ہے وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچتا ہو گا۔۔۔۔"
                    عزم کے ہونٹوں پر شاطر مسکراہٹ آئی۔اب بس اسے عرشمان ملک کے یہاں پہنچنے کا انتظار کرنا تھا۔
                    "او ہیلو میں ابھی بھی یہاں ہوں یا بھول گئے مجھے آخر کب تک مجھے یہاں رکھنے کا ارادہ ہے تم دونوں کا دیکھو شرافت سے مجھے جانے دو میں۔۔۔۔"
                    "یار غلام پہلے اسکے منہ پر ٹیپ لگا کر اسکی پٹر پٹر بند کر تو دماغ خراب ہو گیا ہے میرا اتنی انگریزی سن سن کے۔۔۔"
                    غلام نے حیرت سے عزم کو دیکھا کہ شائید وہ مزاق کر رہا ہو لیکن اسکی آنکھوں میں سنجیدگی دیکھ کر غلام نے گہرا سانس لیتے ہوئے ایک کپڑے کا ٹکڑا پکڑا اور لیزا کے پاس آ گیا۔اسکے ہاتھ میں وہ کپڑا دیکھ کر لیزا کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
                    "ایسا سوچنا بھی مت میں بتا رہی ہوں اچھا نہیں ہو گا میں تم پر کیس کر۔۔۔۔"
                    لیزا کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی غلام نے اسکا منہ کپڑے سے باندھ دیا تو لیزا کسی گھائل پرندے کی طرح جھٹپٹانے لگی لیکن غلام اسے نظر انداز کرتا عزم کی جانب متوجہ ہو گیا۔
                    "چاہتے کیا ہو تم عزم؟عرشمان اس لڑکی کے بدلے میں تمہیں وہ کبھی نہیں دے گا جو تمہیں چاہیے۔۔۔۔"
                    اس بات پر عزم کی آنکھوں میں جنون اترا۔
                    "جانتا ہوں میں تو بس اسے نیچا دیکھانا چاہتا ہوں غلام کل جب ملکوں کی یہ ولایتی چوزی جرگے میں کھڑی ہو گی تو سوچ عرشمان ملک کا غرور کیسے مٹی میں مل جائے گا۔۔۔۔ "
                    غلام نے گہرا سانس لے کر اپنے دوست کو دیکھا۔
                    "عزم کیا یہ نفرت کبھی ختم نہیں ہو گی میں نے کتنی بار تم سے کہا کہ جو ہوا اس پر نظر ثانی۔۔۔۔"
                    عزم کے بری طرح سے گھورنے پر غلام خاموش ہو کر اپنا سر جھکا گیا۔
                    "یہ نفرت ہم میں سے ایک کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گی۔۔۔۔"
                    غلام گہرا سانس لے کر رہ گیا۔وہ جانتا تھا کہ اس معاملے میں بحث بے کار تھی۔ایک آواز پر ان دونوں کا دھیان لیزا کی جانب گیا جو ہونٹوں پر بندھی پٹی کے پیچھے سے غرا رہی تھی۔
                    "چوزی کے جسم میں شیرنی ہے یہ۔۔۔۔"
                    غلام عزم کی بات پر ہنس دیا۔کچھ دیر کے بعد ہی انہوں نے باہر کچھ گاڑیاں رکنے کی آواز سنی اور پھر عرشمان ملک غصے کے عالم میں اس کمرے میں داخل ہوا۔اسکی انگارہ آنکھوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ عزم کی جان ہی لے لے گا۔لیزا کی دبی دبی آواز پر عرشمان کی نظر اس پر پڑی تو غصے میں مزید اضافہ ہو گیا۔
                    "آج تم نے ہر حد پار کر دی عزم چوہدری تمہاری اتنی جرات کہ تم ملکوں کی بیٹی کو یوں باندھ کر رکھو۔۔۔۔"
                    عرشمان نے آگے بڑھ کر عزم کو گریبان سے جکڑنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی عزم کے آدمی بندوقیں پکڑ کر آگے ہو چکے تھے۔
                    "ملکوں کی بیٹی اس عورت کی مجرم ہے عرشمان ملک اور اسکا فیصلہ تو اب جرگے میں ہی ہو گا۔۔۔۔"
                    عرشمان نے تیکھی نگاہوں سے اس عورت کو دیکھا جو اپنی گود میں اپنے بچے کو اٹھائے رو رہی تھی۔
                    "اس معمولی عورت کی خاطر ملکوں کی عزت جرگے میں نہیں جانے والی چوہدری۔۔۔"
                    "قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے ملک۔۔۔۔"
                    عرشمان اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچا کر عزم کو دیکھ رہا تھا پھر اس نے اپنی جیب سے چند ہزار کے نوٹ نکال کر اس عورت کی جانب بڑھائے۔
                    "یہ پیسے رکھو پاس اور بھول جاؤ کہ تم کسی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔۔۔"
                    وہ عورت اپنا مقصد پورا ہوتا دیکھ فوراً رونا بند کر کے وہ پیسے تھام گئی اور اپنے بیٹے کو ہلایا جس پر اسکا بیٹا فوراً اٹھ کر اسکے ساتھ چل دیا ۔عرشمان نے جتلاتی نظروں سے عزم کو دیکھا۔
                    "جب کوئی شکایتی ہی نہیں تو کیسا جرگہ؟یہ قصہ چند نوٹوں سے یہیں ختم چوہدری۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان لیزا کے پاس گیا اور اسکے ہاتھ کھولنے کے بعد اسکے منہ پر بندھی پٹی بھی اتار دی۔کسی کا سہارا پا کر لیزا کی ساری بہادری ختم ہوئی تھی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
                    "ششش رونا بند کرو کچھ نہیں ہونے دوں گا میں۔۔۔۔"
                    عرشمان کے دلاسے پر لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا۔عرشمان اسکی کونی پکڑ کر اسے وہاں سے لے جانے لگا۔
                    "تم اسے نہیں لے جا سکتے عرشمان ملک اس لڑکی نے گاؤں کا اصول توڑا ہے۔۔۔"
                    عرشمان نے مڑ کر غصیل نظروں سے عزم کو دیکھا۔
                    "گاؤں کے کچے راستے پر گاڑی چلانا منع ہے کیونکہ وہاں سے لوگ پیدل گزرتے ہیں اور یہ لڑکی وہاں پہر گاڑی بھگا رہی تھی۔۔۔۔"
                    عرشمان کے چہرے پر اضطراب دیکھ کر عزم مسکرا دیا کیونکہ اس اصول سے عرشمان بھی اچھی طرح واقف تھا۔
                    "یہ یہاں نئی آئی ہے۔۔۔"
                    "یہ کوئی بہانہ نہیں ہوا تمہیں اپنی عورت کو یہاں کے اصول بتانے چاہیے تھے۔۔۔۔"
                    عرشمان کی بھینچی مٹھیاں دیکھ کر عزم کے چہرے پر فاتح مسکان آئی۔
                    "پکڑ لو اس لڑکی کو کل جرگے میں اسے گاؤں کا اصول توڑنے کی سزا دی جائے گی۔۔۔"
                    عزم کے حکم دیتے ہی ایک آدمی انکی جانب آیا تو لیزا سہم کر عرشمان کے قامتی وجود کے پیچھے چھپ گئی لیکن جیسے ہی اس آدمی نے لیزا کو پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا عرشمان اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑ گیا۔
                    "پھر کبھی ملکوں کی عزت کو چھونے کی سوچنا بھی مت۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان نے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔تکیلف کی شدت سے وہ آدمی چیختے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا اور لیزا حیرت سے عرشمان کو دیکھنے لگی جو اپنے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اس آدمی کی کلائی توڑ چکا تھا۔
                    "چلو یہاں سے۔۔۔۔"
                    عرشمان نے لیزا کا ہاتھ پکڑا جو ابھی بھی ہکی بکی سی اپنی آنکھیں پھیلائے عرشمان کو دیکھ رہی تھی۔غلام نے آگے بڑھ کر عرشمان کو روکنا چاہا لیکن عزم کا ہاتھ ہوا میں اٹھتا دیکھ کر وہیں رک گیا۔
                    "وہ اسے لے جا رہا ہے عزم تم روکتے کیوں نہیں اسے؟"
                    غلام نے حیرت سے عزم کو دیکھا جس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
                    "کیا ہوا مسکرا کیوں رہے ہو؟"
                    غلام کو لگا کہ اسکا دوست پاگل ہو چکا ہے۔
                    "تم نے اس لڑکی کی آنکھیں نہیں دیکھیں غلام اسکی آنکھوں میں عرشمان کے لیے وہی جنون اور چمک تھی جو میری آنکھوں میں آن کو دیکھ کر ہوتی ہے۔۔۔۔"
                    غلام کی حیرت میں یہ بات جان کر مزید اضافہ ہو گیا۔
                    "اب مجھے آن کو پانے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑے گی غلام تم دیکھنا میرا کام یہ لڑکی کر دے گی۔جتنی آگ اس میں بھری ہے یہ اپنی چاہت حاصل کر کے ہی دم لے گی۔۔۔۔"
                    عزم نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا۔
                    "عرشمان ملک جانتا بھی نہیں کہ وہ کہاں پھنس چکا ہے۔۔۔۔ہاہاہا بہت مزا آنے والا ہے اس کھیل میں غلامے بہت۔۔۔۔"
                    غلام اب کی بار مسکرایا نہیں تھا بلکہ پریشانی سے عزم کو دیکھ رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا تھا کہ پھر سے ایسا کچھ ہو جو سب برباد کر کے رکھ دے۔
                    ????
                    کنیز چارپائی پر بیٹھی روتے ہوئے اپنے پیر دبا رہی تھی جو بری طرح سے دکھ رہے تھے۔لیکن جن ہاتھوں سے وہ اپنے پیر دبا رہی تھی وہ ہاتھ تو پیروں سے بھی زیادہ درد کر رہے تھے اور انہیں دبانے والا کوئی نہیں تھا۔اپنی بے بسی محسوس کر کے کنیز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
                    اس نے سارا دن کام کر کے گزارا تھا۔راشدہ نے اس سے حویلی کا ہر کونہ صاف کروایا تھا اور وہ نازک پھول سی لڑکی جو اپنی بہن اور ماں کے ایک چھوٹا سا کام کہنے پر رونے لگ جاتی تھی آج سارا دن کام کرنے کے بعد اسکے جسم کا جوڑ جوڑ درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
                    "اماں۔۔۔۔۔۔بہت تھک گئی ہوں میں۔۔۔۔اتنا درد ہو رہا ہے میرے ہاتھوں میں۔۔۔۔"
                    کنیز نے اپنے نازک ہاتھوں کو دیکھا جو فرش پر پونچھا لگانے کی وجہ سے سرخ ہو رہے تھے۔
                    "تم نے تو کہا تھا سائیں جی اچھے ہیں اماں۔۔۔وہ فرشتہ ہیں جنہوں نے میری مدد کی۔۔۔۔تو انہوں نے مجھ سے اتنا کام کیوں کروایا۔۔۔۔"
                    کنیز نے روتے ہوئے شکوہ کیا لیکن اسکا یہ شکوہ سننے کے لیے وہاں کوئی نہیں تھا۔اگر اسکی ماں اسے یوں روتے دیکھ لیتی تو اپنے سینے سے لگا کر چپ کروا دیتی لیکن بابل کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد اسے سینے لگا کر چپ کروانے والا کوئی نہیں تھا۔
                    شائید یہی تو تھا ہر باپ کی لاڈلی کا مقدر کہ اپنی جس شہزادی کو باپ دنیا کی دھوپ سے بچا بچا کر کسی نازک پھول کی طرح پالتا ہے رخصت ہونے کے بعد وہ نازک جان انگاروں پر گھسیٹی جاتی ہے۔
                    کنیز نے اپنے دکھتے ہاتھوں پر پھونک ماری اور پھر انہیں اپنے سینے سے لگا کر رونے لگی۔
                    "پتہ ہے اماں سائیں جی یہاں آ کر ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے۔۔۔انہوں نے تو مجھے دیکھا بھی نہیں۔۔۔شائید وہ بھول گئے ہیں کہ میں انکی ببب۔۔۔بیو۔۔۔"
                    کنیز کے الفاظ فوراً اسکے حلق میں اٹک گئے اسے سلطان کا دیا حکم یاد آیا۔
                    "انکی میڈ کو انکا یہ محل بالکل اچھا نہیں لگا اماں بالکل اچھا نہیں لگا۔۔۔۔"
                    کنیز چارپائی پر لیٹ گئی اور تکیہ اپنی مٹھی میں بھینچ کر سسکتے ہوئے رونے لگی۔
                    "مجھے یہاں نہیں رہنا اماں نہیں رہنا۔۔۔۔میرا وہ چھوٹا سا گھر اس محل سے اچھا تھا بہت اچھا ۔۔۔۔مجھے اپنے پاس واپس بلا لو اماں۔۔۔۔واپس بلا لو۔۔۔۔"
                    کنیز نے روتے ہوئے سرگوشی کی اور کتنی ہی دیر اسکی سسکیاں اس چھوٹے سے کمرے میں گونجتی رہی تھیں۔آخر کار یونہی اپنی پلکوں پر آنسو سجائے تھکن سے چور وہ کب سو گئی اسے اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔
                    ابھی نہ جانے قسمت نے اس نازک پھول پر کتنے ظلم ڈھانے تھے۔
                    ????
                    رات کے سائے آسمان پر چھا رہے تھے جب عرشمان کی گاڑی ملکوں کی حویلی کے باہر رکی۔لیزا ابھی بھی خاموش سی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔گاڑی سے نکل کر عرشمان نے لیزا کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور اسے کلائی سے پکڑ کر باہر نکالتے ہوئے سیدھا اسکے کمرے کی جانب چل دیا۔
                    کمرے میں پہنچ کر عرشمان نے لیزا کو جھٹکے سے چھوڑا جسکی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے وہ بیڈ پر جا گری۔
                    "آج تم نے ہر حد پار کر دی جانتی ہو کیا ہوتا اگر وہ چوہدری تمہیں کل جرگے میں لے جاتا تو ملکوں کی عزت آن سب خاک میں مل جاتا۔۔۔۔"
                    لیزا ہکی بکی سی عرشمان کو دیکھنے لگی۔جرگے والی بات تو اسکے سر سے گزر گئی تھی لیکن پھر بھی وہ خاموش رہی۔
                    "میں تمہیں آخری بار وارن کر رہا ہوں اگر اب تمہاری وجہ سے ایسا کچھ ہوا تو سچ کہتا ہوں جان لے لوں گا تمہاری اور ایسا کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچوں گا کہ تم آن کی بہن ہو۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان کمرے سے باہر نکل گیا اور لیزا کتنی ہی دیر وہیں بیڈ پر بیٹھی رہی۔وہ خود بھی حیران تھی کہ آج عرشمان کا چلانا اسے برا کیوں نہیں لگا۔خود سے ایسے بات کرنے والے کا تو وہ منہ توڑ کر رکھ دیتی تھی تو آج کیوں اسکی ہر بات چپ چاپ سنتی رہی۔
                    لیزا کی نظر اپنی کلائی پر پڑی جہاں کی نازک جلد پر عرشمان کی سخت پکڑ کا لال نشان باقی تھا۔لیزا نے ہاتھ اٹھا کر دیکھا۔اسے اس ہلکے سے نشان پر عرشمان سے نفرت نہیں ہو رہی تھی اور وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
                    لیزا کو وہ پل یاد آیا جب اس تک پہنچتے ہاتھ کو عرشمان اپنی کلائی کے ایک جھٹکے سے توڑ چکا تھا۔وہ منظر یاد کر کے لیزا کے ہونٹ خود بخود مسکرا دیے۔
                    عرشمان نے اس آدمی کو کچھ کہا بھی تھا جو لیزا سمجھ نہیں پائی تھی لیکن عرشمان کی لہجے کے رعب نے اسے اندر تک سرشار کیا تھا۔
                    "تمہاری جو روڈنیس مجھے بری لگی تھی آج وہی دلکش لگ رہی ہے۔۔۔"
                    لیزا نے اپنی کلائی کے نشان کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
                    "بچ کے رہنا مجھ سے بیڈ بوائے بہت خطرناک ہوں میں۔۔۔"
                    لیزا گہرا سانس لے کر بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنے چہرے پر مسکان سجائے ،گلے میں موجود چین سے کھیلتے ہوئے عرشمان کے بارے سوچنے لگی۔
                    اس نے ایک پل کے لیے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جس شخص کے بارے میں وہ سوچ رہی تھی وہ اسکی بہن کا ہونے والا شوہر تھا،اسکی بہن کی ملکیت تھا۔وہ خود غرض سی لڑکی صرف اپنے اس دل کی مان رہی تھی جسے عرشمان ملک کی اپنوں کو محفوظ رکھنے کی ادا بھا گئی تھی۔
                    ????
                    ...........................................

                    #زندگی_اے_تیرے_نال
                    #قسط_نمبر_8
                    سلطان بلیک پینٹ پر سفید شرٹ پہنے آئنے کے سامنے کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا جب اچانک اسے احساس ہوا کہ اسکے کمرے میں کوئی ہے۔سلطان نے لپٹ کر دیکھا تو نظر فرحین بیگم پر پڑی جو اسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھیں۔سلطان انکے پاس آیا اور اپنا سر انکے آگے کر دیا۔
                    "صدا خوش رہو میرے شہزادے۔"
                    فرحین بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے ماتھے پر رکھے۔
                    "جب تک آپکی دعائیں میرے ساتھ ہیں میں ہمیشہ خوش ہی رہوں گا۔۔۔۔"
                    سلطان نے فرحین بیگم کو کرسی پر بیٹھایا اور خود انکے قدموں میں بیٹھ گیا۔
                    "اتنے دونوں سے کہاں تھے تم میرے سامنے بھی نہیں آئے۔۔۔۔"
                    سلطان کے ہونٹوں پر گھائل سی مسکان آئی۔
                    "بس اپنا آپ آپ کے سامنے آنے کے قابل نہیں لگ رہا تھا۔"
                    فرحین نے حیرت سے سلطان کو دیکھا۔
                    "تم تو میرے سب سے اچھے بیٹے ہو سلطان سب سے فرمانبردار تم ایسا پھر کبھی نہ سوچنا اپنے بارے میں۔۔۔۔"
                    سلطان نے اثبات میں سر ہلا کر اپنا سر فرحین بیگم کی گود میں رکھ دیا تو وہ محبت سے اسکے بال سہلانے لگیں۔
                    "سلطان میں نے کچھ سوچا ہے۔۔۔"
                    "حکم کریں امی۔۔۔۔"
                    سلطان نے ماں کی آغوش کو محسوس کرتے ہوئے سکون سے آنکھیں موند کر کہا۔
                    "میں چاہتی ہوں عرشمان کی شادی کے ساتھ ہی تمہاری اور انابیہ کی شادی بھی کر دی جائے۔۔۔۔"
                    سلطان کی بند آنکھیں فوراً کھل گئیں۔خیال لال جوڑے اور گھونگھٹ والی لڑکی کی جانب گیا۔
                    "امی اتنی جلدی یہ سب۔۔۔۔؟"
                    فرحین نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
                    "کیوں کوئی مسلہ ہے کیا؟"
                    سلطان نے واپس اپنا سر جھکا لیا۔
                    "میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔"
                    فرحین بیگم اسکی بات پر حیران رہ گئیں۔
                    "سلطان کیا تمہیں کوئی اور لڑکی پسند آ گئی ہے؟"
                    سلطان نے انکار میں سر ہلایا لیکن فرحین اسکی سن ہی کہاں رہی تھیں۔
                    "دیکھو سلطان عرشمان نے اپنی مرضی کی میں کچھ نہیں بولی۔آن سے اتنی نفرت ہونے کے باوجود میں نے اسے عرشمان کی خاطر بیٹی بنا کر قبول کر لیا لیکن اگر تم نے انابیہ کے ساتھ دھوکہ کرنے کا سوچا یا اس سے شادی نہیں کی تو میں قسم کھاتی ہوں سلطان میں اپنی جان دے دوں گی۔۔۔۔۔"
                    "امی۔۔۔۔۔"
                    سلطان نے حیرت سے فرحین بیگم کو دیکھا۔
                    "میری بہن کی شادی اتنے غریب خاندان میں ہوئی ہے۔۔۔سوچا تھا اس بچاری کی بیٹیاں یہاں آ کر سکون سے رہیں گی لیکن عرشمان کے سر سے آن کا بھوت نہیں اترتا اور اب تم بھی انابیہ کو۔۔۔۔"
                    "امی کیا ہو گیا ہے آپ کو میں نے کب شادی سے انکار کیا؟میں بس ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا پلیز بس مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔۔۔"
                    سلطان نے انکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔
                    "وعدہ کرتا ہوں آپ کا مان نہیں ٹوٹنے دوں گا۔۔۔ "
                    فرحین نے اپنے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا تو سلطان گہرا سانس لے کر وہاں سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔اب اسے اپنے فیصلے پر پہلے سے کہیں زیادہ پچھتاوا ہو رہا تھا وہ کتنی آسانی سے کسی غیر کی خاطر اپنوں کی تکلیف کا باعث بن گیا تھا لیکن اب اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
                    وہ اپنے دھیان سیڑھیاں اتر رہا تھا جب اسکے پیر سیڑھیوں پر پونچھا لگاتے ہاتھوں کے قریب جا کر رک گئے۔اس ملازمہ کے ہاتھوں پر مٹی مٹی سی مہندی دیکھ کر اسے اس لڑکی کا خیال آیا جو اسکی زمہ داری تھی لیکن اس خیال کو دباتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
                    یہ جانے بغیر کہ فرش پر پونچھا لگاتی لڑکی ہی اسکی وہ بیوی تھی جسے ابھی اس نے ایک نگاہ بھی نہیں دیکھا تھا اور اب وہ سلطان کے یوں خود کو نظر انداز کر کے چلے جانے پر درد ناک آنسؤں سے رو رہی تھی۔
                    سلطان ملک خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ رشتوں اور محبت کے کس بھنور میں پھنس چکا تھا۔
                    ????
                    "لیکن اگر انہیں شک ہوگیا کیا آپ نے مجھے بھیجا ہے تو ملک صاحب تو میری جان لے لیں گے مجھے بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے چوہدری صاحب۔۔۔۔"
                    عزم جو آئینے کے سامنے کھڑا اپنی بھورے رنگ کی قمیض کے کف لنکس بند کر رہا تھا ملازمہ کی بات پر اسے آئینے میں سے ہی گھورنے لگا۔
                    "میں تمہیں وہاں جاکر خودکش دھماکا کرنے کا تو نہیں کہہ رہا بس تمہیں ملکوں کی حویلی میں نوکری کرنی ہے اور آن کا خیال رکھنا ہے کہ کوئی اسے تکلیف نہ پہنچائے۔کیا یہ بہت زیادہ کام ہے؟"
                    عزم نے پرفیوم پکڑ کر خود پر چھڑکتے ہوئے کہا۔
                    "لیکن چوہدھری صاحب اگر ملک صاحب کو پتہ لگ گیا کہ میں ان کی منگ کی جاسوسی کر رہی ہوں تو مجھے ملک صاحب سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"
                    عزم اسکی جانب مڑا۔
                    "کچھ نہیں ہو گا گھبراؤ نہیں بس تم میری آن کا خیال رکھنا اسے ان سازشی لوگوں سے بچانا اور بدلے میں میں تمہیں مہینے کے پچاس ہزار روپے دوں گا۔۔۔۔۔"
                    پچاس ہزار کے ذکر پر عورت کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
                    "پچاس۔۔۔۔ہزار؟"
                    "کیوں کم ہیں؟"
                    "نہیں بہت ہیں چوہدری جی میں کل سے ہی ملکوں کی حویلی کام پر جانا شروع کر دوں گی۔۔۔۔"
                    عزم کے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
                    "لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر آن کو ذرا سا بھی نقصان ہوا تو یہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔۔۔۔"
                    عزم کی آنکھوں میں وارننگ دیکھ کر عورت نے تھوک نگلتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئی۔عزم نے آخری نگاہ خود کو آئنے میں دیکھا اور باہر گاڑیوں کے پاس آ گیا جہاں غلام اسکا انتظار کر رہا تھا۔
                    "واہ اتنی زیادہ تیاری یعنی ہسپتال جانے کا ارادہ ہے جناب کا۔۔۔۔"
                    اپنے دوست کی بات پر عزم مسکرائے بغیر نہ رہ سکا صرف غلام ہی تھا جو اسے اتنی اچھی طرح سے سمجھتا جی۔
                    "بالکل کافی دن ہو گئے تیری ہونے والی بھابھی کو تنگ کیے تو سوچا کیوں ناں آج دیدار عشقم ہی کیا جائے۔۔۔۔"
                    غلام نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔کچھ دیر بعد ہی وہ دونوں ہسپتال کے باہر کھڑے تھے۔عزم گاڑی سے نکلا اور گہری نگاہوں سے ہسپتال کو دیکھنے لگا پھر اس نے جیب سے رومال نکالا اور اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹنے لگا۔
                    "یہ کیا کر رہے ہو؟"
                    غلام اسکی حرکت پر حیران ہوتا پوچھ بیٹھا۔
                    "مریض بن رہا ہوں کیونکہ اسکے بغیر تو تیری بھابھی دھکے دے کر ہسپتال سے نکال دے گی ۔۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ غلام اسے روکتا عزم نے پوری طاقت سے اپنا ہاتھ گاڑی کے فرنٹ شیشے پر مار کر اسے توڑ دیا اور فوراً ہی عزم کے ہاتھ سے خون بہہ کر زمین پر گرنے لگا۔تکلیف کے باوجود اسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر غلام نے ٹھنڈی آہ بھری۔
                    "بالکل پاگل ہو تم عزم چوہدری۔۔۔ایک دم سنکی ۔۔۔۔"
                    "سنکی نہیں غلام عباس جوگی ہوں میں۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عزم ہسپتال کی جانب چل دیا تو غلام کو بھی اسکے پیچھے جانا پڑا۔اسکے ہسپتال میں داخل ہوتے ہی ملازم نے اسے دیکھ کر گہرا سانس لیا اور اسے وارڈ میں بیٹھا کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا۔
                    تھوڑی دیر کے بعد ایک نرس کو آدمی ڈاکٹر کے ساتھ کمرے میں آتے دیکھ عزم کے ماتھے پر بل آئے۔
                    "ابھی تک تم سب کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ میرے زخم کا علاج ڈاکٹرنی صاحبہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔جاؤ اور جا کر ڈاکٹرنی کو بلا کر لاؤ۔۔۔"
                    نرس نے پریشانی سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا۔
                    "ڈاکٹر آن آج چھٹی پر ہیں سر آپ اپنا علاج ان سے کروا لیں۔۔۔"
                    عزم کی آنکھوں میں جنون اترتا دیکھ غلام پریشان ہو گیا۔
                    "کیا مطلب چھٹی پر ہیں؟"
                    "وہ ڈاکٹر صاحبہ کو شائید اپنی شادی کی تیاری کے لیے جانا تھا اس لیے وہ آج نہیں آئیں۔۔۔۔"
                    آن کے عرشمان کے ساتھ ہونے کے خیال پر عزم نے اپنے صحیح ہاتھ کی مٹھی بھینچ لی۔
                    "آپ ان سے پٹی کروا لیں سر کیونکہ ڈاکٹر آن کل ہی ہاسپٹل آئیں گی۔۔۔۔"
                    عزم نے اپنی جنون سے بھری انگارہ آنکھیں اٹھا کر نرس کو دیکھا۔
                    "اس زخم پر مرحم صرف ڈاکٹرنی صاحبہ ہی لگائیں گی ورنہ یہ جوگی یہیں خون بہا بہا کر مر جائے گا۔۔۔۔"
                    غلام نے منہ کھول کر حیرت سے عزم کو دیکھا لیکن وہ اسکی آنکھوں میں چھپے عزم کو دیکھ سکتا تھا وہ جو کہہ رہا تھا کر کے دیکھانے والا تھا۔
                    ????
                    آن حیرت سے عرشمان کو دیکھ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے اسکے کمرے میں آیا تھا۔
                    "شاپنگ؟"
                    عرشمان نے ہلکا سا ہنس کر ہاں میں سر ہلایا۔
                    "اس دن بھی ہم نہیں جا سکے لیکن آج ہم دونوں ضرور چلیں گے۔"
                    "لیکن مان بڑی امی کو برا لگے گا وہ نہیں چاہتیں کہ ہم شادی سے پہلے کہیں تنہا جائیں۔۔۔۔"
                    آن نے اپنی پریشانی بیان کی۔
                    "ان کی فکر مت کرو میں نے اماں بی سے کہا ہے کہ ہمیں ایک بزرگ کو شادی سے پہلے سلام کرنے جانا ہے تاکہ ہماری ازواجی زندگی بہت خوشحال گزرے اور اماں بی نے کی امی کو حکم دیا ہے کہ وہ ہمیں ساتھ جانے دیں۔۔۔۔"
                    آن کا منہ اب حیرت سے کھل چکا تھا۔
                    "مان آپ نے جھوٹ کا سہارا لینے کے لیے بزرگوں کو استعمال کیا کتنی بری بات ہے۔۔۔۔"
                    عرشمان ہلکا سا ہنس کر اسکے پاس آیا۔
                    "فکر مت کرو بزرگ معاف کر دیں گے ولی ہوتے ہیں وہ اللہ کے بہت رحم ہوتا ہے انکے دل میں۔۔۔۔"
                    عرشمان نے ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہا تو آن اپنا چہرہ جھکا گئی۔
                    "اب بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ہمیں دیر نہیں کرنی۔۔۔"
                    آن نے اثبات میں سر ہلایا اور کپڑے چینج کرنے چلی گئی۔واپس کمرے میں آ کر اسنے اچھی طرح سے چادر پی تو بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑا اسکا موبائل بجنے لگا۔
                    "ہیلو۔۔۔"
                    عرشمان نے اسکا فون اٹھا کر کان سے لگا۔
                    "ہیلو سر کیا میری ڈاکٹر آن سے بات ہو سکتی ہے ۔۔۔۔؟"
                    نرس کی گھبرائی آواز پر عرشمان نے موبائل ان کی جانب بڑھایا۔
                    "ہیلو۔۔۔۔"
                    آن نے موبائل کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
                    "ہیلو میم وہ۔۔۔۔وہ چوہدری جی یہاں آئے ہیں انکے ہاتھ پر بہت زیادہ چوٹ لگی ہے اور وہ کسی سے اپنا علاج نہیں کروا رہے کہتے ہیں آپ یہاں آ کر انکو پٹی کریں گی تو ہی وہ کروائیں گے۔۔۔۔"
                    نرس کی بات پر آن کی پکڑ موبائل کے گرد مظبوط ہو گئی۔اس کا دل کیا کہ اسکی جان لے لے۔۔۔
                    "اگر نہیں مان رہا تو ہاسپٹل سے نکال دو۔"
                    آن کے سخت لہجے پر عرشمان نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔
                    "میم انکا بہت خون بہہ چکا ہے،پچھلے آدھے گھنٹے سے انکا خون نکل رہا ہے اگر ایسا ہی رہا تو کچھ ہی دیر میں وہ خون کی کمی سے باعث بے ہوش ہو جائیں گے اور کہیں انہیں کچھ ہو نہ جائے۔۔۔۔"
                    آن نے اب اضطراب سے عرشمان کی جانب دیکھا جو اسے پریشانی سے دیکھ رہا تھا۔
                    "لیکن اگر اتنی دیر سے چوٹ لگی ہے تو اب تک تو خون جم کر رک جانا چاہیے تھا ناں۔۔۔؟"
                    اب تو آن بھی پریشان ہو چکی تھی۔
                    "لیکن میم وہ خون کو رکنے دیں تو ناں خون رکتا ہے تو وہ زخم کو کھرید کر پھر سے خون کو بہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔۔۔"
                    آن نے گہرا سانس لیا اور کوئی جواب دیے بغیر فون بند کر دیا۔اسکے چہرے پر اضطراب دیکھ کر عرشمان اسکے قریب ہوا۔
                    "کیا بات ہے آن ؟"
                    "مان وہ۔۔۔۔"
                    آن نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا۔کیا وہ اس شخص کی خاطر اپنے مان سے جھوٹ بولنے والی تھی۔
                    "مان ایک ضدی بچہ ہے جو میرے سوا کسی سے علاج نہیں کرواتا اور ابھی بھی اسے چوٹ لگی ہے اور وہ کسی سے ہینڈل نہیں ہو رہا۔۔۔۔مان وہ اپنی طبیعت زیادہ خراب کر لے گا مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں؟"
                    عرشمان نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
                    "بس اتنی سی بات؟تم جاؤ اور جا کر اپنا فرض پورا کرو ہم شاپنگ پر پھر کبھی چلے جائیں گے۔۔۔"
                    "لیکن مان۔۔۔۔"
                    "دیکھو آن میں جانتا ہوں تم ڈاکٹر اس لیے بنی کیونکہ تمہیں اس کام سے پیار ہے لوگوں کے کام آنا چاہتی ہو تم اور مجھے ہر اس چیز سے پیار ہے جس سے میری آن کو پیار ہے۔۔۔۔"
                    عرشمان کی محبت پر آن کی پلکیں بھیگ گئیں۔کیا وہ اس گھٹیا شخص کی خاطر اس بے لوث محبت کو دغا دینے جا رہی تھی۔
                    "تم جاؤ آن ہم شاپنگ پر پھر کبھی چلے جائیں گے یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں۔۔۔۔"
                    آن نے اپنا سر شرمندگی سے جھکا لیا اور اثبات میں سر ہلا کر باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔آنکھیں عرشمان کو دغا دینے کے خیال سے مسلسل بہہ رہی تھیں لیکن وہ کیا کرتی وہ اپنی وجہ سے کسی کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
                    ہاسپٹل پہنچ کر وہ سیدھا اس وارڈ میں گئی جہاں عزم کو رکھا گیا تھا۔وارڈ میں داخل ہوتے ہی جب اس نے عزم کے قدموں میں پھیلا خون اور اسکے خون سے لت پت ہوئے ہاتھ کو دیکھا تو نرس کو ڈریسنگ کا سامان لانے کا کہہ کر پریشانی سے اسکی جانب بڑھ گئی۔
                    عزم کے ہاتھ کی ڈریسنگ کرنے کے بعد آن نے اسکی جانب دیکھا جو خون کی کمی سے بس بے ہوش ہونے والا تھا۔
                    سسٹر A+ بلڈ گروپ کا بندوبست کریں ہمیں انہیں خون لگانا ہو گا۔۔۔۔"
                    نرس نے ہاں میں سر ہلایا اور تقریباً آدھے گھنٹے کی تک و دو کے بعد خون کی بوتل لے کر وارڈ میں داخل ہوئی۔عزم کو بیڈ پر لیٹا نے کے بعد آن نے اسے ڈرپ کی صورت میں خون لگانا شروع کیا۔
                    "میری تکلیف نہیں برداشت ہوئی ناں۔۔۔۔۔اس کے باجود کہتی ہو کہ مجھ سے نفرت ہے تمہیں۔۔۔۔۔تمہیں مجھ سے نفرت نہیں آن بلکہ دیکھنا ایک دن اسے بھول کر تم مجھے چاہو گی۔۔۔۔اتنا جتنا میں تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔۔"
                    عزم بمشکل اپنی بند ہوتی آنکھیں کھول کر کہہ رہا تھا جبکہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد اب آن اسے نفرت سے دیکھ رہی تھی۔
                    "مجھے تم سے سچ میں نفرت نہیں تھی لیکن اب تم سے نفرت ہو رہی ہے۔۔۔۔"
                    عزم کے ماتھے پر بل آتے دیکھ آن اپنے سینے پر ہاتھ باندھ گئی۔
                    "یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے تم کہ تمہیں بہت محبت ہے مجھ سے؟"ہوں جو انسان خود سے محبت نہیں کرتا وہ کسی کو کیا چاہے گا۔۔۔۔"
                    عزم نے حیرت سے آن کو دیکھا۔
                    "یہ خون فالتو میں بہا کر تمہیں کیا لگتا ہے خود کو رانجھا یا جوگی ثابت کیا ہے تم نے؟"
                    آن نے نفرت سے عزم کو دیکھا۔
                    "یہ جو خون کی بوتل میں نے تمہیں لگائی ہے ناں اس سے ایک انسان کی جان بچ سکتی تھی لیکن تم نے اسکی قدر جانے بغیر اسے فالتو میں ضائع کیا۔۔۔۔"
                    آن زرا سا عزم کے قریب ہوئی جو حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔
                    "اس خون اور تندرستی کی قدر تمہیں تب آتی جب تمہارا کوئی پیارا یہاں لیٹا جان کی بازی لگا رہا ہوتا اور تم اسکے لیے خون کی ایک بوند ڈھونڈنے کے لیے خاک چھان رہے ہوتے۔۔۔۔"
                    عزم اس کی آنکھوں میں اپنے لیے واضح نفرت دیکھ سکتا تھا۔
                    "اگر اپنے اس ہٹے کٹے تند رات جسم سے خون بہانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنا خون ان بچوں کو دو جو ہر روز خون کی بوند بوند کو ترستے زندگی موت سے لڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔جن ہر قدرت تمہارے جتنی مہربان ہو کر انہیں ایک تندرست جسم نہ دے سکی۔اپنا یہ خون ان کے لیے بہاؤ تا کہ تمہارے تندرست پیدا ہونے کا قرض ادا ہو سکے اور تم اپنی صحت کے لیے خدا کے سامنے شکر گزار ہو سکو۔۔۔۔"
                    آن نے غصے سے کہا اور وہاں سے جانے لگی لیکن پھر ایک خیال کے تحت اس نے پلٹ کر عزم کو دیکھا جو ہکا بکا سا اسے تک رہا تھا۔
                    "آج کے بعد اگر تم یہاں مر بھی گئے ناں تو بھی میں تمہیں نہیں بچاؤں گی کیونکہ تم جیسے فالتو انسان پر اپنا ہنر اور وقت ضائع کرنے کی بجائے میں اسکی مدد کرنا پسند کروں گی جو واقعی اسکا حقدار ہو۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر آن وہاں سے چلی گئی اور عزم اپنے جسم میں قطرہ قطرہ جاتے اس خون کو دیکھتا اسکی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
                    ????
                    آن کے ہاسپٹل جانے کے بعد عرشمان نے ڈیرے پر جا کر اپنا کام نپٹانے کا سوچا۔اس مقصد کے لیے اس نے اپنی گاڑی پکڑی اور اسے چلا کر ڈیرے پر جانے لگا۔ابھی وہ گاڑی کچھ دور ہی گیا تھا جب اسے احساس ہوا کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو چکا ہے
                    اس احساس کے تحت عرشمان گاڑی سے باہر آیا اور گہرا سانس لے کر ٹائر کو دیکھنے لگا جو بلکل فلیٹ ہو چکا تھا۔وہ گاڑی کی ڈگی سے ایکسٹرا ٹائر نکالنے کے لیے گیا لیکن اسے ایسا لگا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ کے پاس کوئی ہو۔اس نے فوراً پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا تو ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے چھپی لیزا کو دیکھ کر اسکے ماتھے پر بل آ گئے۔
                    "تم یہاں کیا کر ہو؟"
                    عرشمان انگلش میں غرایا تو لیزا نے ہلکا سا چہرہ اسکی جانب موڑا اور مسکرا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑ لیے۔
                    "میں سوری بولنا چاہتی تھی اس لیے۔۔۔۔"
                    عرشمان نے غصے سے اپنے دانت کچکچائے۔
                    "باہر آؤ فوراً۔۔۔۔"
                    عرشمان کے حکم دیتے ہی لیزا گاڑی سے باہر آ کر اسکے سامنے کھڑی ہو گئی۔اس وقت اس نے جینز پر سفید فراک پہنی تھی جو گھٹنوں سے اپر تک تھی اور کہنیوں تک بازو ہونے کی وجہ سے اس میں لیزا کا سارا وجود چھپا ہوا تھا۔
                    بالوں کی ہمیشہ کی طرح پونی ٹیل بنائے اور ہلکے سے میک اپ میں وہ درختوں کی چھاؤں میں کھڑی بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی لیکن عرشمان نے تو ایک نظر بھر کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔
                    "تم یہاں کیوں آئی وہ بھی یوں چھپ کر؟"
                    عرشمان کی جو سختی لیزا کو بری لگتی تھی آج وہی اس کے دل میں اتر رہی تھی۔
                    "اگر گھر تم سے بات کرنا چاہتی تو تم ڈانٹ کر واپس کمرے میں بھیج دیتے لیکن یہاں تم مجھے کہیں نہیں بھیج سکتے۔"
                    لیزا نے مسکرا کر اردگرد دیکھتے ہوئے کہا جہاں دور دور تک صرف کھیت دیکھائی دے رہے تھے۔
                    "یعنی یہ ٹائر پنکچر۔۔۔۔"
                    عرشمان نے بات کو سمجھتے لیزا کی جانب غصے سے دیکھا تو اس نے فوراً اپنے کان پکڑ لیے۔
                    "ڈبل سوری بیڈ بوائے لیکن مجھے تم سے معافی مانگنی تھی ناں۔۔۔۔"
                    عرشمان نے سختی سے اسے دیکھا۔
                    "تمیز سے بات کرو۔۔۔۔"
                    "اوکے مسٹر بیڈ بوائے۔۔۔۔"
                    لیزا نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لیا اور ڈگی میں سے ٹائر نکال کر گاڑی کا ٹائر چینج کرنے لگا۔
                    "ارے یہ خود کیوں کر رہے ہو کسی میکینک کو ڈھونڈ لیتے ہیں ناں؟"
                    لیزا کی بات پر عرشمان نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس سے بڑا پاگل کوئی نہ ہو۔۔۔۔
                    "دیکھ رہی ہو ہم کہاں پھنسے ہیں یہاں سے ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد ہمیں میکینک ملے گا میری تو خیر ہے لیکن تم وہاں تک جاتے جاتے مر جاؤ گی۔۔۔۔"
                    لیزا نے منہ بسور کر اسے دیکھا۔
                    "اب اتنی بھی کمزور نہیں میں بہت سٹرانگ ہوں۔۔۔۔ابھی دیکھو تم۔۔۔۔"
                    لیزا نے اتنا کہا اور گاڑی کے پاس پڑا ٹائر اٹھانا چاہا لیکن وہ ٹائر تو اٹھا نہیں پائی البتہ خود زمین پر گر گئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی عرشمان ہلکا سا ہنس دیا۔
                    اسکی مسکراہٹ کی خوبصورتی میں کھوئی سی وہ اسے دیکھے جا رہی تھی۔
                    "سمائل تو اسکی اور بھی قاتلانہ ہے یار۔۔۔۔"
                    لیزا نے ہلکے سے کہا تبھی عرشمان اسکے پاس آیا،اسے کونی سے پکڑ کر کھڑا کیا اور خود گاڑی کا ٹائر بدلنے لگا۔
                    "ویسے تمہارے ہنسنے کا کیا مطلب سمجھوں کہ تم نے مجھے اس دن کے لیے معاف کر دیا؟"
                    "اتنی آسانی سے معاف کرنا عرشمان ملک کی فطرت نہیں۔۔۔"
                    عرشمان جو ٹائر کو کھول رہا تھا اس پر دھیان دیے بغیر بولا۔
                    "تو کیا کرنا پڑے گا مجھے معافی کے لیے؟"
                    عرشمان نے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا جو بہت امید سے یہ بات پوچھ رہی تھی۔
                    "زیادہ کچھ نہیں بس گھر میں سب کی عزت کرو،اپنے میں تھوڑی حیا پیدا کر لو اور آن کو ایک بہن کا پیار دے دو جسے اس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے۔۔۔۔"
                    آخری بات کہتے ہوئے عرشمان کے چہرے پر خواب کی سی کیفیت تھی جیسے وہ آن کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہو ۔۔۔
                    "اوکے ڈن میں یہ سب کروں گی لیکن بدلے میں تم بھی میرے ساتھ ایٹیٹیوڈ سے پیش آنا بند کرو گے۔۔۔۔اوکے؟"
                    لیزا نے اپنا ہاتھ عرشمان کی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا
                    "ڈن۔۔۔۔"
                    عرشمان نے اسکا ہاتھ پکڑے بغیر کہا اور گاڑی کا ٹائر بدلنے لگا۔لیزا بھی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔
                    کچھ دیر بعد گرمی کی شدت سے عرشمان کی شرٹ پسینے سے بھیگ گئی تو اس نے شرٹ اتار کر گاڑی پر رکھی اور اپنے دھیان ٹائر بدلنے لگا۔جبکہ اسکے توانا جسم کو دیکھ کر لیزا کا منہ واؤ شیپ میں گول ہوا۔
                    موقع دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور چپکے سے اپنی ایک سیلفی عرشمان کے ساتھ بنا لی جو بعد میں وہ انسٹاگرام پر اپلوڈ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
                    "چلو گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔"
                    ٹائر چینج کر کے عرشمان نے شرٹ دوبارہ پہنتے ہوئے کہا۔
                    "مت پہنو نہ پلیز۔۔۔۔"
                    "کچھ کہا تم نے؟"
                    لیزا کی ہلکی سی سرگوشی عرشمان کو سمجھ نہ آئی تو پوچھ بیٹھا۔
                    "کچھ نہیں۔۔۔۔"
                    لیزا نے فورا اسے کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لیا۔
                    "گاڑی میں بیٹھو"
                    عرشمان اسے حکم دیتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تو لیزا بھی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی لیکن گاڑی کو واپس حویلی کی جانب جاتا دیکھ لیزا نے منہ بسور لیا۔
                    "واپس کیوں وہاں جاتے ہیں ناں جہاں تم جا رہے تھے؟"
                    عرشمان نے اسے سختی سے دیکھا۔
                    "لگتا ہے تم نہیں چاہتی کہ تم سے نرمی سے پیش آیا جائے؟چپ چاپ واپس گھر چلو۔۔۔۔"
                    لیزا نے منہ بسور کر اسے دیکھا۔
                    " بیڈ بوائے ۔۔۔۔"
                    لیزا نے ہلکی سے سرگوشی کی لیکن پھر عرشمان کو توجہ سے گاڑی چلاتا دیکھ کر مسکرا دی۔
                    "بٹ ہینڈسم بیڈ بوائے۔۔۔۔"
                    لیزا نے مسکرا کر عرشمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو آن کے بارے میں سوچتے ہوئے خود بھی مسکرا رہا تھا۔کل کچھ بھی ہو جاتا وہ ہر حال میں آن کو شاپنگ پر لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا یہ جانے بغیر کہ جس محبت کو پانے کی چاہ میں وہ اتنا بے چین ہو رہا تھا اس محبت کو بہت جلد کسی کی نظر لگنے والی تھی۔
                    ????
                    کنیز بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔آنسو پلکوں پر ٹھہر کر اسکی حسین آنکھوں کو مزید قاتلانہ بنا رہے تھے۔
                    "سائیں جی میرے پاس سے گزر گئے اور مجھے دیکھا تک نہیں۔۔۔۔"
                    کنیز نے بے چینی سے کہا اور چارپائی پر بیٹھ کر رونے لگی۔
                    "کیا وہ بس مجھے کام کروانے کے لیے یہاں لائے ہیں؟"
                    کنیز نے افسوس سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جن کی مہندی اب ماند پڑھ چکی تھی۔
                    "ہو۔۔۔۔ہو سکتا ہے انہوں نے مجھے پہچانا نہ ہو انہوں نے مجھے بھلا کونسا دیکھا تھا۔۔۔۔"
                    کنیز نے سوچتے ہوئے کہا تو اسے یاد آیا کہ سلطان کے سامنے تو وہ گھونگھٹ میں رہی تھی۔
                    "ہاں۔۔۔۔ہو سکتا ہے وہ بھول گئے ہوں کہ ان کی شادی ہوئی تھی مجھ سے۔۔۔"
                    کنیز نے معصومیت سے سوچا۔
                    "تو پھر اب میں کیا کروں۔۔۔۔کیا یاد کرواؤں ان کو۔۔۔"
                    کنیز نے بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلے۔۔
                    "ہاں انہیں یاد کرواتی ہوں۔۔۔اور ان سے پوچھ بھی لوں گی کیا مجھے کام کرنے لائے ہیں یہاں اگر انہوں نے حکم دیا تو پھر سب کام کر لیا کروں گی چاہے کتنا ہی تھک جاؤں۔۔۔۔"
                    کنیز نے سوچا اور کمرے سے باہر جانے لگی۔اتنے دونوں سے یہاں کام کرتے ہوئے وہ یہ تو جان گئی تھی کہ سلطان کا کمرہ کون سا ہے۔وہ رات بھی کنیز نے رو کر گزاری تھی جب اسے یہ علم ہوا تھا کہ وہ خود تو ایک عالیشان کمرے میں رہتا تھا اور اسے اس نے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا تھا۔
                    کنیز کو لگا تھا وہ اسے اپنے قابل نہیں سمجھتا۔انہیں سوالوں کے جواب پانے کیلئے کنیز نے ہمت کی اور اچھی طرح سے دوپٹہ لیتی چپکے سے گھبراتے ہوئے سلطان کے کمرے کی جانب چل دی۔
                    کمرے کے باہر پہنچ کر کتنی ہی دیر وہ اضطراب کے عالم میں اپنے ناخن کھرچتی رہی پھر ہمت کر کے اس نے دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔
                    سامنے ہی اسکی نظر سلطان پر پڑی جو گہری بستر پر لیٹا گہری نیند سو رہا تھا۔کنیز نے حیرت سے کمرے کو دیکھا جو اتنی گرمی میں بھی کافی ٹھنڈا تھا۔اسک ٹھنڈک کا راز بھی جلد ہی کھل گیا جب اسکی نظر دیوار سے لگی مشین پر گئی جس میں سے بہت ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔
                    کنیز ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی سلطان کے پاس گئی اور حسرت سے اسے دیکھنے لگی جو اس نازک جان سے یوں جانوروں کی طرح کام کروا کر خود کتنے سکون سے سو رہا تھا۔کنیز کی پلکیں خود بخود نم ہو گئیں۔
                    "آپ زرا اچھے نہیں بس شہری بابو گڈے کی طرح پیارے ہو۔۔۔لیکن اچھے نہیں سائیں جی بالکل بھی نہیں اچھے۔۔۔۔"
                    کنیز سلطان کے بستر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی اسے سوتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی۔وہ سوتے ہوئے اس قدر دلکش کر لگ رہا تھا کہ کنیز چاہ کر بھی اس پر غصہ نہیں کر پا رہی تھی لیکن اسے بھی تو کنیز کی پرواہ نہیں تھی۔
                    "کوئی اپنی بی۔۔۔۔"
                    کنیز نے سہم کر گہری نیند میں ڈوبے سلطان کو دیکھا۔وہ بیوی کا لفظ زبان پر لا کر غلطی سے بھی اسکی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
                    "کوئی اپنی میڈ سے اتنا کام کرواتا ہے کیا؟بہت ظالم نکلا میرا شہری بابو گڈا۔۔۔۔"
                    کنیز نے منہ بسور کر آنسؤں سے تر آنکھوں سے کہا اور زرا سا اسکے قریب ہو کر ہلکا سا اسکے ماتھے پر آئے بالوں کو چھوا۔
                    "آپکی کنیز آپ سے بہت ناراض ہے سائیں جی اب وہ آپ کی خدمت نہیں کرے گی۔۔۔۔ "
                    کنیز نے شکوہ کیا اور اٹھ کر جانے لگی لیکن اچانک ہی سلطان نے نیند میں اسکا ہاتھ تھام کر اپنے چہرے کے نیچے رکھ لیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔
                    سلطان کے ہاتھ کے ساتھ ساتھ اسکی داڑھی کا لمس اپنے نازک ہاتھ پر محسوس کر کنیز کی نازک جان کانپ کر رہ گئی۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا لیکن سلطان کی پکڑ اسکے نازک ہاتھ پر مزید مظبوط ہو گئی۔
                    کنیز نے گھبراتے ہوئے اپنی کوشش زیادہ کر دی تو نیند کے مزے لیتے سلطان کو اسکی حرکت شائید پسند نہیں آئی تھی اسی لیے اسنے سیدھے ہو کر اسکے ہاتھ کو زور سے اپنی جانب کھینچا اور کنیز اپنا توازن کھوتی اس پر گر گئی۔
                    سلطان نے اپنی آنکھیں ہلکی سی کھول کر اسے دیکھا تو نائٹ بلب اور چاندنی رات کی روشنی میں اسکا سامنا دو سیاہ آنکھوں سے ہوا جو اس دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں تھیں اور اسکی باہوں میں موجود وہ لڑکی اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی تھی۔
                    سلطان کو لگا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہا تھا اور وہ لڑکی ایک سراب تھی اصلیت میں بھلا کوئی اس قدر خوبصورت کیسے ہو سکتا تھا۔
                    "تم ایک پری ہو ناں۔۔۔۔۔؟"
                    سلطان کی گھمبیر نیند سے بوجھل آواز پر کنیز کا تب سے اٹکا سانس بحال ہوا۔۔۔
                    "نن۔۔۔۔نہیں میں نوری ہوں۔۔۔۔"
                    کنیز خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کنیز کی جگہ نوری کیوں بول گئی تھی۔نوری تو وہ بس اپنے ماں باپ کے لیے تھی جو اسے پیار سے نوری کہہ کر بلاتے تھے۔
                    "ہاں تم سچ میں نور ہو کوئی انسان اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے بھلا۔۔۔۔"
                    سلطان کی بات پر پہلے سے ہی خوبصورت آنکھیں پھیل کر مزید خوبصورت ہو گئیں اور سلطان کی بس ہوئی تھی۔اسکی آغوش میں یہ لڑکی بس ایک خواب تھی،ایک سراب اور خواب میں تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ناں سلطان نے غیر دماغی میں سوچا تو اسکی نظریں کٹاؤ دار کپکپاتے لبوں پر ٹھہر گئیں۔
                    "مجھے میری گستاخی پر معاف کر دینا حسین سی نوری لیکن اتنا حسین خواب مجھے پھر کبھی نہیں آئے گا۔۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ کنیز اسکی بات سمجھتی سلطان نے اپنا ہاتھ اسکے بالوں میں پھنسایا اور اسے خود کے قریب کرتے ہوئے اسکے نازک لبوں کو اپنی پر شدت گرفت میں لے لیا۔
                    سلطان کی اس بے باک حرکت پر کنیز کی جان حلق میں اٹک گئی اسنے خود کو چھڑوانا چاہا تو سلطان کے ماتھے پر بل آئے اور کنیز کے نرم لبوں کو مزید شدت سے دوچار ہونا پڑا۔
                    وہ معصوم بس اسکی مظبوط گرفت میں بے حال ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔آخر وہ سلطان کنیز کی کیونکر سنتا کنیز اس کی ملکیت جو تھی۔
                    سلطان نے اسے یونہی اپنی آغوش میں بھرے کروٹ بدلی اور اسے خود کے نیچے کر اس پر حاوی ہو گیا۔جبکہ وہ بے چاری تو نہ ہی خود پر ہوئے حملے سے سنبھل پا رہی تھی اور نہ ہی اسکی شدتوں کا مقصد سمجھ پا رہی تھی۔
                    سلطان نے اسکے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹائے تو وہ گہرے گہرے سانس بھرنے لگی لیکن سلطان پھر سے بھرپور شدت سے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور اپنے سینے پر مزاحمت کرتے ہاتھوں کو تھام کر بیڈ سے لگا گیا۔
                    اسکی بڑھتی شدتوں پر کنیز کی جان نکلنے کے در پر ہو گئی لیکن وہ بے بس سے اسکی آغوش میں دبی کچھ کر ہی نہیں پا رہی تھی۔سلطان کے ہونٹ سرکتے ہوئے اب اسکی گردن تک جا چکے تھے۔
                    "نہیں سائیں جی۔۔۔۔ممم۔۔۔میں مر جاؤں گی مت کریں ایسا۔۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی گستاخی کرتا اس پری کی نم اور سہمی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔سلطان نے بوجھل خواب ناک آنکھوں سے اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔
                    "مجھ سے ناراض مت ہونا حسین نوری اور پھر سے میرے خواب میں آ جانا تمہیں خدا کا واسطہ ہر رات میرے خواب میں آ جانا۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر سلطان نے اسے اپنی آغوش میں بھرا اور اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا کر سکون کی نیند سو گیا۔جبکہ اسکی اس قربت پر تھر تھر کانپتی کنیز اس کی حرکتوں کے بارے میں سوچتی خفقت سے گلابی ہو رہی تھی۔
                    "آپ برے ہی نہیں بے حیا بھی ہو شہری بابو گڈے۔۔۔۔جانے کیا ہو گیا تھا آپ کو ۔۔۔۔ایسا پھر کبھی مت کرنا میرا سانس رک گیا تھا۔۔۔۔آپ رکتے نہیں تو میں تو مر ہی جاتی۔۔۔۔"
                    کنیز نے آہستہ سے کہا اور وہ سب یاد کر کے پھر سے پاؤں کے ناخن تک سرخ ہو گئی پھر جیسے تیسے اس نے خود کو اسکی آغوش سے نکالا اور خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئی۔
                    اپنے کمرے میں واپس آنے کے بعد پوری رات اس نے سلطان کی بے باکیوں پر حیا سے پلکیں جھکاتے اور اسکی شدتوں پر کانپتے گزاری تھی۔وہ شدتیں جن کو وہ معصوم سمجھنے سے بالکل قاصر تھی اسی لیے پوری رات میں کتنی ہی مرتبہ اسے بے شرم کے لقب سے نواز چکی تھی۔
                    ???

                    ...........................................

                    #زندگی_اے_تیرے_نال
                    #قسط_نمبر_9
                    آنکھ کھلنے پر سلطان گہرا سانس لیتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔اسے یاد آیا کہ کل فرحین بیگم سے کی باتوں کے بعد وہ اس قدر پریشان تھا کہ رات بہت کوشش کے باوجود اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔اس لیے وہ کافی ہیوی ڈوز والی نیند کی گولیاں کھا کر سو گیا تھا۔جس کے نتیجے میں اس کا سر اس وقت بری طرح سے بھاری ہو رہا تھا۔
                    سلطان کو رات میں دیکھا وہ خواب یاد آیا تو چہرے پر ایک مسکراہٹ سی آ گئی۔اس نے آج تک اتنا حسین خواب نہیں دیکھا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ پھر سے سو جائے اور وہ حسین پری ایک بار پھر سے اسکے خواب میں آ جائے۔
                    نہ جانے وہ کیسا خواب تھا کہ سلطان ابھی بھی اپنے ہونٹوں پر وہ نرم پھولوں سا احساس محسوس کر سکتا تھا۔اسے اپنے وجود سے ابھی بھی اس پری کی خوشبو آ رہی تھی جیسے کہ وہ اسکے اندر سما گئی ہو۔
                    "نوری ۔۔۔۔"
                    سلطان نے زیر لب اسکا نام دہرایا اور مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔فریش ہونے کے بعد تیار ہونے تک اسکے ذہن پر اسی لڑکی کا احساس رہا تو سلطان نے گہرا سانس لے کر خود کو آئنے میں دیکھا۔
                    "بس بھی کر دو اسکے بارے میں سوچنا بس ایک حسین خواب تھی وہ جو کبھی سچ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔"
                    پھر کچھ سوچ کر سلطان کے چہرے پر ایک سایہ سا دوڑ گیا۔
                    "اگر وہ سچ بھی ہوتی تو پھر بھی میرا مقدر نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔"
                    سلطان نے انابیہ کو یاد کرتے ہوئے افسوس سے کہا اور اس لڑکی پر سے دھیان ہٹاتے ہوئے تیار ہونے لگا لیکن اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اس لڑکی کو دماغ سے نکالنا اتنا آسان بھی نہیں تھا وہ سلطان کے حواس پر بہت بری طرح سے حاوی ہو چکی تھی۔
                    "سلطان۔۔۔ "
                    فرحین بیگم کی آواز پر سلطان نے پلٹ کر انہیں دیکھا لیکن انکے ساتھ انابیہ کو دیکھ کر سلطان کی ساری پریشانی سارا اضطراب اس پر پھر سے حاوی ہو گیا۔
                    "جی امی۔۔۔۔؟"
                    فرحین بیگم اسکے پاس آئیں اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔سلطان نے بے ساختہ جھک کر انکے لیے آسانی پیدا کی۔
                    "ابھی تک ناراض ہو مجھ سے؟"
                    سلطان نے حیرت سے انکی جانب دیکھا۔
                    "آپ سے ناراض ہو سکتا ہوں میں؟آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے ۔۔۔؟"
                    سلطان کی محبت فرحین بیگم کا مان مزید بڑھا گئی۔
                    "مجھے معاف کر دو بیٹا مجھے تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہیے تم جب چاہو گے تب ہی تم دونوں کی شادی ہو گی مجھے تم پر پورا یقین ہے کہ تم کبھی بھی انابیہ کو دھوکا دے کر میرا مان نہیں توڑو گے۔۔۔۔"
                    فرحین بیگم کی بات پر سلطان نے اپنا سر جھکا لیا۔
                    "خیر میں تمہیں یہاں یہ کہنے آئی تھی کہ انابیہ نے ابھی تک عرشمان کی شادی کی تیاری نہیں کی تو تم اسے اپنے ساتھ شہر لے جاؤ اور شاپنگ کروا دو ۔۔۔۔۔۔"
                    سلطان فرحین کے حکم پر پریشان ہوا۔
                    "لیکن امی ہم دونوں اکیلے۔۔۔۔۔؟"
                    "تو کیا ہوا؟ انابیہ تمہاری منگیتر ہے بیٹا کوئی پرائی تو نہیں چلو شاباش اسے لے کر جاؤ۔۔۔۔"
                    سلطان فرحین بیگم کو بتانا چاہتا تھا کہ منگیتر ہی سہی لیکن انابیہ پھر بھی اسکے لیے غیر محرم ہی تھی لیکن وہ اپنی ماں کی حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اپنا سر فرمانبرداری سے جھکا گیا۔
                    "جو حکم امی۔۔۔۔"
                    سلطان اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور فرحین بیگم نے مسکراتے ہوئے انابیہ کی جانب دیکھا۔
                    "سلطان کو اپنی مٹھی میں قید کر لو انابیہ تا کہ کسی کا ہونا تو دور اسکے ذہن میں بھی کسی کا خیال نہیں آئے ۔۔۔۔سمجھ گئی ناں ؟"
                    انابیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور تیار ہونے چلی گئی۔سلطان کے ساتھ شاپنگ پر جانے کے لیے اسے بہت زیادہ حسین دیکھنا تھا۔کاش وہ جانتی کہ ایک حسین پری پہلے ہی سلطان کے خواب میں آ کر اسکے دل میں حکمرانی کا پہلا جھنڈا گاڑھ چکی تھی۔
                    ????
                    "تم دونوں کہیں جا رہے ہو کیا؟"
                    فرحین بیگم نے گہری نگاہوں سے آن کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو ایک چادر میں لپٹی عرشمان کے پیچھے کھڑی تھی۔
                    "جی امی۔۔۔وہ یاد ہے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے اور آن کو ایک بزرگ کو سلام کرنے جانا ہے بس وہیں جا رہے تھے۔۔۔۔۔"
                    فرحین بیگم کی نظریں ابھی بھی آن ہر تھیں جو سر جھکائے کھڑی تھی۔
                    "لیکن بیٹا تم دونوں یوں اکیلے کیسے جا سکتے ہو لوگ کیا کہیں گے کہ چند دونوں میں شادی ہے انکی اور یہ دونوں اکیلے گھوم رہے ہیں تمہیں ملکوں کے مان کا ذرا سا خیال کرنا چاہیے ۔۔۔۔صحیح کہہ رہی ہوں ناں میں اماں بی۔۔۔۔"
                    فرحین بیگم کی بات پر اماں بی نے افسوس سے اپنا سر جھٹکا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو انہوں نے فرحین بیگم کو سلطان اور انابیہ کو ہنسی خوشی بھیجتے دیکھا تھا اور اب جب بات آن کی تھی تو انہیں اصول یاد آنے لگ گئے تھے۔
                    "آپ دونوں کہیں جا رہے ہیں کیا پلیز میں بھی چلوں؟"
                    اس سے پہلے کہ اماں بی کچھ کہتیں لیزا کی آواز ان سب کے کانوں میں پڑی جو چہکتی ہوئی وہاں داخل ہوئی تھی۔
                    "لیزا بیٹا وہ دونوں اپنے پروگرام پر جا رہے ہیں آپ میرے ساتھ چلے جانا جہاں بھی جانا ہے۔۔۔۔"
                    شاہد صاحب کے سمجھانے پر لیزا کا منہ بن گیا۔
                    "میں کونسا ان دونوں کو ڈسٹرب کروں گی ڈیڈ ویسے بھی آپ کے ساتھ تو کینیڈا بھی جایا کرتی تھی اب میرا اپنے کزن کے ساتھ جانے کا دل کر رہا ہے۔۔۔۔"
                    لیزا کی بات پر آن عرشمان کی بھینچی ہوئی مٹھیاں دیکھ سکتی تھی۔
                    "لیکن لیزا۔۔۔۔"
                    "پلیز ڈیڈ آپ ہی تو کہتے تھے میں اب سے گھلوں ملوں اب میں ایسا کر رہی ہوں تو آپ ہی روک رہے ہیں ۔۔۔۔ "
                    لیزا منہ بنا کر اماں بی کے پاس بیٹھ گئی تو شاہد صاحب نے گہرا سانس لیا۔
                    "شاہد کیا کہہ رہی ہے بچی؟"
                    اماں بی کے پوچھنے پر شاہد نے انہیں ہر بات بتا دی۔
                    "ہمممم ٹھیک کہہ رہی ہے جب سے وہ آئی ہے اسے کوئی بھی گھمانے نہیں لے کر گیا۔۔۔۔عرشمان تم لیزا کو بھی اپنے ساتھ کے جاؤ ایسے وہ بھی بزرگوں کو سلام کر لے گی اور تم دونوں کے اکیلے جانے پر جو اعتراض ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔۔۔۔"
                    آخری بات اماں بی نے فرحین بیگم کو جتلاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہی۔عرشمان نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلایا اور اپنے غصے کو دباتا وہاں سے چلا گیا۔
                    شاہد نے لیزا کو انکے ساتھ جانے کا کہا تو لیزا چہکتے ہوئے آن کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب چل دی۔گاڑی کے پاس آ کر لیزا نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا تو آن بھی خاموشی سے اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔
                    "اوہ گاڈ میں بہت ایکسائیٹڈ ہوں ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
                    لیزا نے زرا آگے ہو کر عرشمان سے پوچھا لیکن عرشمان تو شیشے میں سے آن کو گھورنے میں مصروف تھا جو اسکا غصہ محسوس کرتے ہوئے گھبرا کر اپنی چادر ٹھیک کر رہی تھی۔
                    "آگے آ کر بیٹھو۔۔۔۔۔"
                    عرشمان اردو میں بولنے سے زیادہ غرایا تو آن نے پریشانی سے شیشے میں اسکی انگارہ ہوتی آنکھوں کو دیکھا۔
                    "مان وہ اکیلی کیسے بیٹھے گی پیچھے؟پلیز آپ ایسے ہی چلیں۔۔۔۔"
                    اس بات پر عرشمان کی آنکھوں کو سکڑتا ہوا دیکھ کر آن مزید گھبرا گئی۔
                    "وہ بچی نہیں ہے جو اکیلے ڈر جائے گی آن میں کہہ رہا ہوں میری بات مانو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"
                    عرشمان کی وارننگ پر آن نے گھبرا کر لیزا کو دیکھا۔
                    "مم۔۔۔۔میں آپ کو منا لوں گی۔۔۔۔"
                    آن نے آہستہ سے کہا تو عرشمان کی پکڑ سٹیرنگ ویل پر انتہائی مظبوط ہو گئی اور وہ غصے سے ڈرائیو کرنے لگا جبکہ نظریں پھر بھی بار بار بھٹک کر شیشے پر جا رہی تھیں جہاں وہ آن کو ہنستے ہوئے لیزا سے باتیں کرتے دیکھ سکتا تھا۔
                    لاہور تک کا سفر کافی لمبا تھا لیکن جب مال پہنچ کر عرشمان نے گاڑی پارکنگ میں روکی تو لیزا حیران ہو کر دونوں کو دیکھنے لگی۔
                    "مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ ہم لوگ شاپنگ پر جا رہے ہیں میں زرا تیار ہو کر آتی تھوڑا میک اپ ہی کر لیتی۔۔۔۔"
                    لیزا نے آئنے میں دیکھ کر اپنے بال درست کرتے ہوئے کہا۔
                    "کوئی فایدہ نہیں لگنا پھر بھی تم نے چڑیل ہی تھا۔۔۔۔"
                    عرشمان نے دانت کچکچا کر اردو میں کہا تو آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
                    "مان۔۔۔۔"
                    "کیا کہا اس نے؟"
                    لیزا نے آن سے پوچھا تو وہ گڑبڑا کر عرشمان کو دیکھنے لگی۔
                    "انہوں نے کہا ہے کہ تمہیں میک اپ کی ضرورت نہیں تم ایسے ہی اچھی لگتی ہو ۔۔۔۔۔"
                    آن کی بات پر عرشمان نے گہرا سانس لیا۔
                    "ہاں میک اپ کی نہیں بلکہ پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہے۔"
                    عرشمان آہستہ سے کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو آن گھبرا کر اسکے پیچھے چل پڑی جبکہ لیزا وہیں کھڑی مسکراتے ہوئے خود کو آئنے میں دیکھ رہی تھی۔
                    "جانتی تھی کہ بہت جلد ہی تم بھی ہر آدمی کی طرح میری تعریف کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے ۔۔۔۔یعنی اب میرا کام آسان ہو گیا ہے۔۔۔۔"
                    لیزا نے اترا کر خود کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر بھاگ کر عرشمان اور آن کے پیچھے چلی گئی۔
                    "مان اتنے غصے میں کیوں ہیں آپ وہ بے چاری تو ہماری اردو میں کی باتیں سمجھ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔وہ ساتھ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔"
                    وہ تینوں لیفٹ میں کھڑے تھے جب آن نے آہستہ سے عرشمان کا غصہ کم کرنے کے لیے کہا۔
                    "تمہیں فرق نہیں پڑتا ہوگا لیکن مجھے پڑتا ہے۔۔۔۔میں یہ خاص لمحے تمہارے ساتھ کھل کر جینا چاہتا ہوں آن کیونکہ یہ لمحے پھر لوٹ کر ہماری زندگی میں نہیں آئیں گے لیکن اسی کو کباب میں ہڈی بننے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا۔۔۔۔"
                    عرشمان نے دانت پیس کر لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا جو مسکرا کر اپنا موبائل دیکھ رہی تھی۔
                    "اچھا پلیز اب غصہ چھوڑ دیں ناں جو ہونا تھا ہوگیا ہم ابھی بھی تو خوشی خوشی اس لمحے کو جی سکتے ہیں ناں۔۔۔۔"
                    آن نے مسکرا کر کہا لیکن عرشمان کا سر انکار میں ہلتا دیکھ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔
                    "پلیزززز مان میری خاطر ۔۔۔۔"
                    آن نے آہستہ سے عرشمان کا ہاتھ پکڑ کر کہا تو عرشمان ایک نظر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر دوسری نظر آن کی معصوم چہرے پر ڈال کر مسکرا دیا۔
                    "تم جانتی ہو کہ میں تم سے ناراض نہیں رہ سکتا۔۔۔۔"
                    اسکی بات پر آن کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ آئی ۔
                    "جانتی ہوں۔۔۔۔"
                    "یار پلیز انگلش میں بات کر لو ناں مجھے عجیب سا لگ رہا ہے ۔۔۔۔"
                    لیزا نے منہ بسور کر کیا تو آن نے فوراً عرشمان کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
                    "جو باتیں ہم کر رہے ہیں وہ تمہارے مقصد کی نہیں اس لیے رہنے ہی دو۔۔۔۔"
                    عرشمان نے انگلش میں لیزا سے کہا اور لفٹ کے رکتے ہی باہر نکل گیا۔
                    "بیڈ بوائے۔۔۔۔"
                    لیزا کے ناک سکیڑ کے کہنے پر آن ہلکا سا ہنسی اور عرشمان کے پیچھے چل دی۔عرشمان کا سارا دھیان آن کو اسکی پسند کی ہر شے کے کے دینے پر تھا۔وہ اس بات سے کتنا بے خبر تھا کہ سارا وقت وہ لیزا کی حسرت بھری نظروں میں رہا تھا۔
                    ان دونوں کی محبت کو دیکھتے ہوئے لیزا نے خود سے قسم کھائی تھی کہ وہ عرشمان کی اس سے بھی زیادہ محبت حاصل کر کے رہے گی۔
                    اس نے گہری نگاہوں سے ایک خوبصورت سی ہلکے جامنی رنگ کی انتہا کامدار میکسی کو دیکھا جو عرشمان آن کے لیے پسند کر چکا تھا۔
                    "مان یہ تو بہت مہنگی نہیں ہے؟"
                    آن نے گھبرا کر اس انتہائی خوبصورت میکسی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
                    "اسکی جتنی بھی قیمت ہو آن مجھے فرق نہیں پڑتا یہ رنگ تم پر بہت خوبصورت لگے گا اور جہاں امی نے تمہارا بارات کا جوڑا اپنی مرضی سے لیا ہے میں چاہتا ہوں ولیمے پر تم سر سے پیر تک میری پسند کا سجو ۔۔۔"
                    عرشمان کی بات پر آن کے رخسار گلابی ہو گئے۔
                    "میں اس میکسی میں تمہیں ایسے ہی گلاب بنتا دیکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں۔۔۔۔"
                    عرشمان نے اسکے کان میں سر گوشی کی اور اس میکسی کو پیک کرنے کا کہنے چلا گیا۔
                    "کتنا خوبصورت ڈریس ہے یہ عرشمان نے تمہارے لیے پسند کیا ہے کیا؟"
                    لیزا نے حسرت سے اس میکسی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
                    "مان کا فیورٹ کلر ہے یہ انہوں نے ہمارے ولیمے کے لیے پسند کی ہے یہ ڈریس اچھی ہے ناں۔۔۔"
                    لیزا نے خواب کی سی کیفیت سے اس ڈریس کو دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور پھر ایک سیلز مین آ کر اس ڈریس کو اتارنے لگا۔
                    "ایکسیوزمی میں آتی ہوں۔۔۔۔"
                    لیزا اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی اور پھر وہاں موجود ہر ڈریس کو دیکھنے لگی۔اچانک اسکی نظر ویسے ہی ہلکے جامنی رنگ کے لہنگے پر پڑی جو بھاری کامدار کرتی اور دوپٹے کے ساتھ اس میکسی سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔
                    "تمہیں اندازہ ہو گا عرشمان ملک کہ حسن کسے کہتے ہیں جب تم مجھے اپنے پسندیدہ رنگ میں دیکھو گے۔۔۔۔"
                    لیزا نے مسکرا کر سوچا اور اس لہنگے کو اپنے لیے خریدنے کا اردہ کر لیا۔کاش وہ جانتی کہ روحوں سے محبت کرنے والے لوگ حسن کے پجاری نہیں ہوتے اور عرشمان کو تو آن کی روح سے محبت نہیں بلکہ عشق تھا۔
                    ????
                    عرشمان کی شادی کی تیاریاں زور و شور پر تھیں اور سلطان اسی مقصد کے تحت وسیع میدان میں موجود کھیتوں کو صاف کروا رہا تھا تا کہ وہاں شادی کے لیے ٹینٹ وغیرہ لگوائے جا سکیں۔
                    عرشمان کا ارادہ شائید اپنی شادی پر پورے گاؤں کو بلانے کا تھا۔تپتی دھوپ میں آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے سلطان کام کرنے والوں پر نظر رکھے ہوئے تھا جب آنکھیں میچنے پر دو خوبصورت سی سہمی ہرنی جیسی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اسے یاد آئیں۔
                    اس سنہرے خواب کو دیکھے اسے کتنا ہی عرصہ گزر چکا تھا لیکن اب بھی اسے یاد کر کے سلطان کو لگا کہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسے اس تپتی دھوپ میں چھو گیا ہو۔
                    "بس کر دو اسکے بارے میں سوچنا سلطان ملک بس ایک خواب تھا وہ۔۔۔۔۔آخر کب اترے گی وہ تمہارے ذہن سے۔۔۔۔"
                    سلطان الجھن سے بڑبڑایا تو اسے ان گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کا لمس یاد آیا،سلطان کی بے باکی پر اس پری کا تھر تھر کانپنا یاد آیا، اسکی گستاخیوں پر اسکا سلطان میں سمٹ جانا یاد آیا۔
                    "خدارا ایک بار پھر سے میرے خواب میں آ جاؤ نوری یا پھر میرے دل وہ دماغ سے نکل جاؤ۔۔۔۔بندے کی برداشت یہیں تک تھی۔۔۔۔"
                    سلطان نے گہرا سانس لیتے ہوئے سوچا لیکن اس پری کا اسکی بے باکی پر منہ بسورنا یاد کر کے مسکرا دیا۔زندگی کے امتحان میں سکون کا باعث تھا نوری کا وہ خواب سلطان کے لیے۔
                    "اس تپتی دھوپ میں کس کو یاد کر کے مسکرایا جا رہا ہے چھوٹو۔۔۔۔"
                    اپنے عقب سے آنے والی جانی پہچانی آواز پر سلطان نے حیرت سے پلٹ کر دیکھا لیکن وہاں موجود شخص کو دیکھ کر سلطان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا۔
                    "تمہاری اتنی ہمت عزم چوہدری کہ تم ہماری زمینوں پر آؤ۔۔۔۔"
                    سلطان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر عزم کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔عزم کے لیے چہرے پر موجود نفرت صاف ظاہر تھی۔
                    "چچچچ۔۔۔۔کیا وقت آ گیا ہے ناں چھوٹو کبھی وہ دور تھا کہ تم ضد کر کے ہمارے گھر آتے تھے کیونکہ تمہیں اپنے زم بھائی کے ساتھ کھیلنا ہوتا تھا۔یاد ہے جب تمہاری امی تمہیں لینے آتی تھیں تو روتے ہوئے میرے پیچھے چھپ جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔"
                    وہ باتیں یاد کرتے ہوئے عزم کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔
                    "نہیں جانا مجھے عرشمان بھائی کے پاس وہ گندا ہے مجھے مارتا ہے مجھے زم بھائی کے پاس رہنا ہے مجھے ہمیشہ زم بھائی کے پاس رہنا ہے۔۔۔۔یہی کہا کرتے تھے ناں تم اپنی امی سے۔۔۔۔"
                    عزم نے آگے ہو کر اپنا ہاتھ سلطان کے سر کے پیچھے رکھا لیکن سلطان نے اسکا ہاتھ نفرت سے جھٹک دیا۔
                    "اور آج وہ زم بھائی تمہارے لیے عزم چوہدری بن گیا ہے۔۔۔۔"
                    عزم نے افسوس سے کہا۔
                    "کیونکہ اب میں کوئی بچہ نہیں رہا عزم چوہدری۔۔۔۔مت بھولو کہ تم اسی شخص کی اولاد ہو جس نے ہم سے ہمارے بابا کو چھینا،ہمیں یتیم کر دیا۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے کیونکہ تم ہمارے باپ کے قاتل کی اولاد ہو،کیونکہ تمہیں اپنے باپ کی بجائے ہم لوگ غلط لگے۔۔۔۔"
                    سلطان کی بات پر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔کڑوے ماضی کو کھرید کر سلطان بہت سے زخم تازہ کر چکا تھا۔
                    "یہی بات تمہارے اور تمہارے باپ کے بارے میں میں بھی کہہ سکتا ہوں لیکن تمہیں ایک بات بتاؤں سلطان تم اس سب کی وجہ سے مجھ سے نفرت نہیں کرتے۔۔۔۔"
                    سلطان اب باقاعدہ دانت کچکچا کر عزم کو دیکھ رہا تھا۔
                    "تم مجھ سے نفرت کرتے ہو کیونکہ عرشمان مجھ سے نفرت کرتا ہے۔۔۔۔تم ،اماں بی ،آن سب مجھ سے صرف اسی لیے نفرت کرتے ہو کیونکہ عرشمان ایسا کرتا ہے۔۔۔۔"
                    عزم کی آنکھوں میں نفرت دیکھ کر سلطان کی نفرت مزید گہری ہوئی تھی ۔
                    "اس نے تم سب کو مجھ سے چھین لیا۔۔۔۔سب کو اپنی جانب کر کے مجھے بالکل تنہا کر دیا اور میں اسے اس کی سزا ضرور دوں گا سلطان دیکھنا تم میں بھی اس سے اس کا سب کچھ چھین لوں گا۔۔۔۔"
                    عزم نے نفرت سے کہا اور مڑ کر وہاں سے جانے لگا۔
                    "اپنے خواب میں عزم چوہدری۔۔۔۔"
                    سلطان کی آواز پر عزم مڑا اور مسکرا کر سلطان کو دیکھا۔
                    "خواب اور حقیقت کا فرق تمہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا چھوٹو ۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عزم وہاں سے چلا گیا اور سلطان نے غصے سے پاس پڑی کرسی کو زمین پر پٹخ دیا۔اپنا ماضی یاد کر کے وہ بھی انگاروں پر لوٹ گیا تھا۔
                    ????
                    "اس مرتبہ ہماری چاولوں کی فصل بہت اچھی ہو گی ملک جی۔۔۔۔"
                    عرشمان کے ملازم نے اسے بتایا تو عرشمان نے خاموشی سے ہاں میں سر ہلایا اور ایک طائرانہ نگاہ اپنے کھیتوں پر ڈالی جہاں دور دور تک چاول کی فصل لگی نظر آرہی تھی۔
                    " ہممم۔۔۔۔زیادہ خوشی مجھے تب ہوگی جب ہماری فصل عزم چوہدری سے زیادہ اچھی ہو۔۔۔۔"
                    "اسکا ایک طریقہ ہے میرے پاس ملک صاحب۔۔۔"
                    ایک ملازم نے تھوڑا سا آگے ہو کر کہا تو عرشمان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
                    "عزم چوہدری کی فصل جب پک کر تیار ہو گی تو ہم اسکے کھیت میں آگ لگوا دیں گے ایسے ہمارا منافع اس سے زیادہ ہو گا اور گاؤں کے لوگوں میں آپ کی واہ۔۔۔"
                    ملازم جو اپنی ہی دھن میں بولتا جا رہا تھا عرشمان کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
                    "اسے آج ہی کام سے نکال دو رگو مجھے ایسا شخص یہاں نہیں چاہیے جو اناج اور غریب کے رزق کے نقصان کو دشمن کا نقصان سمجھتا ہو۔۔۔۔"
                    عرشمان کی بات پر اس آدمی نے اپنا تھوک نگلا۔۔
                    "ملک صاحب میں تو۔۔۔۔"
                    اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن عرشمان کی گھوری پر اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
                    "اگر پھر کبھی کچھ بولنے کے قابل رہنا چاہتے ہو تو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"
                    عرشمان کے غرانے پر وہ آدمی فوراً وہاں سے چلا گیا۔عرشمان اپنے غصے کو کم کرتا پھر سے اپنی فصلوں کو دیکھنے لگا۔پھر اس نے مڑ کر کچے راستے کی دوسری طرف دیکھا جہاں عزم چوہدری کی فصل لہلہا رہی تھی۔
                    "دوڑ لگا لو عزم دیکھنا میں ہی جیتوں گا۔۔۔۔"
                    عرشمان کے کانوں میں اپنی ہی آواز پڑی۔
                    "چل بچو آج تیرا یہ شوق بھی پورا کر ہی دیتے ہیں۔۔۔۔"
                    عزم کی آواز کانوں میں پڑنے کے بعد اپنے اور عزم کے بچپن کا عکس اس کچے راستے پر کھلکھلا کر بھاگتے ۔ہوئے نظر آیا۔
                    "یہ میرے کھیت ہیں ناں عزم اور وہ تمہارے۔۔۔۔"
                    عرشمان کو اپنی کہی بات یاد آئی تو وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
                    "نہیں میرے بھائی یہاں کچھ تمہارا میرا نہیں یہ سب ہمارا ہے،یہ گاؤں ہمارا ہے چوہدریوں اور ملکوں کا گاؤں۔۔۔۔"
                    عزم کی آواز کانوں میں گونجنے ہر عرشمان ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔ماضی کی وہ میٹھی یادیں آج کڑوا زہر گھول رہی تھیں۔
                    "مالک۔۔۔۔"
                    اپنے ملازم کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے عرشمان یادوں کے سحر سے نکلا۔
                    "بادل ہو رہے ہیں مالک آندھی آ رہی ہے ہمیں یہاں سے چلنا چاہے۔۔۔۔"
                    ملازم کی بات پر عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا۔
                    "تم سب چلو میں آتا ہوں۔۔۔۔"
                    ملازم نے ہاں میں سر ہلایا اور باقی ملازموں کو لے کر وہاں سے چلا گیا جبکہ عرشمان اس آندھی میں بھی کتنی ہی دیر وہاں کھڑا اپنا ماضی یاد کرتا رہا تھا۔
                    "ہیے۔۔۔۔ہیے۔۔۔۔"
                    ایک درخت کے پیچھے سے آنے والی آواز پر عرشمان حیران ہو کر مڑا۔
                    "کون ہے وہاں۔۔۔۔"
                    عرشمان کے پکارنے پر ایک مسکراتا چہرہ درخت کی اوٹ میں سے نکلا۔
                    "تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"
                    لیزا کو دیکھتے ہی عرشمان نے سختی سے پوچھا تو لیزا مسکرا کر درخت کے پیچھے سے باہر آئی۔
                    "تم سے بات کرنی تھی لیکن تم یا تو ملتے ہی نہیں یا اکیلے نہیں ملتے اس لیے سوچا تمہارے پیچھے آ جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔"
                    لیزا نے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے اور چل کر عرشمان کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔اس وقت وہ ہلکے سے پہلے رنگ کے فراک میں ملبوس تھی جس بازو تو شارٹ تھے لیکن اس نے فراک کے نیچے جینز پہن رکھی تھی۔بالوں کو کھلا چھوڑے مناسب سے میک اپ کے ساتھ آج وہ معمول سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
                    عرشمان نے دھیان دیا تھا کہ اب وہ پہلے کی طرح اوباش کپڑے نہیں پہنتی تھی اور سب کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی بجائے بہت محبت سے پیش آتی تھی اور انہیں باتوں کی وجہ سے عرشمان کی سختی بھی کم ہو چکی تھی ۔
                    "کہو کیا کہنا ہے تمہیں؟"
                    عرشمان کے سوال پر لیزا نے چہرے ہوا کی وجہ سے چہرے پر آتے بال ہٹائے اور مسکرا دی۔
                    "آئی نو میں بہت فاسٹ جا رہی ہوں لیکن کیا کروں میرے پاس وقت نہیں ہے زیادہ مجھے کیسے بھی تمہاری شادی سے پہلے تم سے یہ بات کرنی تھی۔"
                    اسکی بات پر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے۔
                    "کیسی بات۔۔۔۔"
                    لیزا کے گھبرا کر اپنے ہونٹوں کو کاٹا اور ایک گھٹنے کو زمین پر رکھ کر جھک گئی اور ہاتھ میں پکڑا پھول عرشمان کے سامنے کیا۔
                    "آئی رئیلی رئیلی لائیک یو بیڈ بوائے۔۔۔۔بہت چاہتی ہوں میں تمہیں سب سے زیادہ چاہتی ہوں میں تمہیں ۔۔۔۔"
                    "یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔۔۔؟"
                    عرشمان کے غصے سے چلانے پر لیزا فوراً کھڑی ہوئی۔
                    "بکواس نہیں کر رہی سچ کہہ رہی ہوں آئی لو یو۔۔۔"
                    "شٹ اپ جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔تمہاری بہن کا ہونے والا شوہر ہوں میں۔۔۔۔"
                    اس بات پر لیزا کی آنکھوں میں جنون اترا اور وہ عرشمان کے قریب ہوئی۔
                    "تو کوئی بات نہیں تم اس سے شادی سے انکار کر کے مجھ سے شادی کر لو۔۔۔۔یقین کرو آن تمہیں میرے جتنا نہیں چاہتی ہو گی۔۔۔"
                    عرشمان اس بات پر آپے سے باہر ہو گیا۔اس نے لیزا کے ہوا میں لہراتے بھورے بال اپنی مٹھی میں جکڑے اور انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔
                    "میری آن کا ذکر بھی مت کرنا ورنہ تمہاری زبان گدی سے نکال دوں گا۔۔۔۔میں عشق کرتا ہوں اس سے تم تو کیا دنیا کی کوئی بھی لڑکی اسے مجھ سے جدا نہیں کر سکتی۔۔۔۔"
                    عرشمان کی آنکھوں میں آن کے لیے محبت دیکھ کر لیزا کا جنون مزید بڑھ گیا۔
                    "تم میرے ہو عرشمان ملک۔۔۔۔تم مجھے جانتے نہیں جو چاہتی ہوں اسے پا کر ہی دم لیتی ہوں۔۔۔۔"
                    عرشمان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر لیزا اپنی مٹھیاں بھینچ گئی۔
                    "اپنی جی جان لگا لو میں اپنی آن کا تھا اور اسکا ہی رہوں گا کر لو جو کر سکتی ہو۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عرشمان نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور وہاں سے چلا گیا۔ جبکہ اسکے جانے کے بعد لیزا اس کچے راستے پر بیٹھتی چلی گئی۔شہد رنگ کی آنکھیں غصے اور جنون سے تر ہو رہی تھیں۔
                    "تم میرے ہو صرف میرے میں چھین لوں گی تمہیں اس سے چھین لوں گی۔۔۔۔"
                    لیزا چلائی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ساتھ ہی بارش بھی شروع ہوئی جو اسکے آنسؤں کو دھو کر بے مول کرنے لگی تھی۔
                    "کیا بات ہے کل کی شیرنی آج بھیگی بلی بنی یوں سنسان راستے پر رو رہی ہے۔۔۔۔ایسا کیا ہو گیا اس کے ساتھ۔۔۔۔"
                    ایک آواز پر لیزا نے لال ہوتی نگاہیں اٹھا کر عزم کو دیکھا جو اسکے سامنے کھڑا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
                    "اکیلا چھوڑ دو مجھے جاہل انسان۔۔۔۔"
                    لیزا نم آنکھوں سے چلائی تو عزم جانے کی بجائے مسکرا کر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
                    "جانتی ہو نہ میں انگریزی سمجھوں گا اور نہ تم اردو تو ہمارا تو بات کرنا ہی بلا جواز ہے۔۔۔۔"
                    عزم ہلکا سا مسکرایا تو لیزا آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔
                    "لیکن اس بات کا فایدہ بھی تو ہو سکتا ہے ناں کہ تم اپنا غم مجھے بتا لو اور میں اپنی تنہائی تم سے بانٹ لیتا ہوں۔ایک دوسرے کو سمجھیں گے ہی نہیں تو راز کیسے کھولیں گے ایک دوسرے کے۔۔۔ "
                    عزم نے مسکرا کر کہا تو لیزا نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔آنسؤں سے لال ہوتی آنکھیں اور بارش میں بھگا وجود اسکے حسن کو مزید دو آتشنہ کر چکا تھا لیکن عزم کی نظریں بس اسکے معصوم اور مجبور چہرے پر ٹکی تھیں۔
                    "مجھے اس سے محبت ہے بہت محبت ہے۔۔۔۔"
                    نہ جانے لیزا کی باتوں کو سمجھے بغیر ہی سمجھ گئی تھی یا اپنا غم کسی سے بانٹنا چاہتی جو روتے ہوئے اس کو ہر بات بتانے لگی۔
                    "لیکن وہ مجھے نہیں چاہتا وہ اسے چاہتا ہے شائید اتنا ہی جتنا میں اسے چاہتی ہوں۔۔۔۔"
                    لیزا نے گھائل آنکھوں سے عزم کو دیکھا جو ایسے اسے سن رہا تھا جیسے اسکی ہر بات سمجھ رہا ہو۔
                    "جانتے ہو ہر کوئی مجھے پانا چاہتا تھا لیکن میں کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھتی تھی سوچا تھا لیزا صرف اسکی ہو گی جو اسکے دل پر حکومت کرے گا۔۔۔۔۔"
                    لیزا کے ہونٹوں پر گھائل مسکان آئی۔
                    "لیکن جسے لیزا نے چاہا وہ اسے دھتکار گیا بری طرح سے دھتکار گیا۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر لیزا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور عزم کتنی ہی دیر اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے گہری نگاہوں سے دیکھتا رہا تھا۔
                    "کبھی میری زندگی میں ہر خوشی تھی جان سے زیادہ چاہنے والے ماں باپ بہت ہی پیاری سی نانی، دو چھوٹے بھائی، پھپھو ،آن سب تھے میرے پاس۔۔۔۔پورا جہان تھا۔۔۔۔"
                    عزم کی آواز پر لیزا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنے آنسو روک کر وہ اسکے چہرے کی سنجیدگی کو دیکھنے لگی۔
                    "پھر ایک طوفان آیا اور سب بکھر گیا میں نے اپنے ماں باپ کو کھو دیا۔۔۔۔"
                    عزم نے کرب سے لیزا کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اسکی ہر بات سمجھ رہی ہو۔
                    "جانتی ہو میرے ماں باپ کے جانے کے بعد مجھے کسی کے پیار کی ضرورت تھی ایک سہارے کی ضرورت تھی لیکن اس عرشمان نے مجھ سے سب چھین لیا۔میری نانی،بھائی،آن اس نے سب چھین کر اپنا دامن بھر لیا اور مجھے تنہا کر دیا بالکل تنہا۔۔۔۔"
                    عزم ایسے لگ رہا تھا جیسے یادوں کے بھنور میں اٹکا ہو۔بارش ابھی بھی ان دونوں کو بھگو رہی تھی اور وہ دونوں ہر شے سے بے نیاز ایک دوسرے کو اپنا غم سنا رہے تھے یہ جاننے کی باوجود کو سامنے والا اسکی بات نہیں سمجھے گا۔
                    "اب میں بھی اس سے آن کو چھین لوں گا۔۔۔۔اسے چھین لوں گا جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا ہے پھر اسکو اسی طرح تڑپتا دیکھ مجھے سکون ہو گا جیسے میں تڑپتا تھا۔۔۔۔ہاں میں اس سے اسکی محبت چھین لوں گا بالکل جیسے اس نے مجھ سے سب چھین لیا تھا۔۔۔ "
                    عزم نے نفرت سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا جبکہ لیزا ابھی بھی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
                    "لیزا نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا۔۔۔میں نے آج تک جو چاہا ہے وہ پایا ہے میں اسے بھی پا کر رہوں گی اور ایسا کرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔۔"
                    لیزا نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے جنون سے کہا۔ایک دوسرے کو اپنا غم بتا کر اب دونوں ہی کرب کی انتہا سے باہر آ چکے تھے۔
                    "دیکھا ایک دوسرے کو بتانے کا کتنا فایدہ ہوا نہ تم مجھے سمجھ کر میرے راز جان پائی اور نہ میں تمہیں سمجھ کر لیکن دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ۔۔۔۔۔"
                    عزم نے مسکرا کر کہا تو لیزا کے ماتھے پر بل آئے۔
                    "مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم کیا کہہ رہے ہو جاہل آدمی۔۔۔۔"
                    لیزا نے دانت پیس کر کہا تو عزم مسکرا دیا۔
                    "افف کم انگریزی بولا کر ولایتی چوزی سر پر سے گزر جاتی ہے۔۔۔۔"
                    لیزا نے آنکھیں سکیڑ کر عزم کو دیکھا اور پھر وہ بھی مسکرا دی۔دونوں ہی اپنے نفس اور جنون میں کسی کی محبت کو آگ لگانے کا سوچ بیٹھے تھے یہ جانے بغیر کہ قسمت نے تو کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔
                    ????
                    ...........................................

                    #زندگی_اے_تیرے_
                    _شاہ
                    #قسط_نمبر_10
                    Sultan Noori special ?
                    عرشمان انتہائی زیادہ غصے میں گھر داخل ہوا تھا۔لیزا کی وہ باتیں اسے آپے سے باہر کر رہی تھیں۔آخر اسے کیونکر اندازہ نہ ہوا کہ وہ لڑکی اس حد تک آگے بڑھ چکی تھی۔
                    اپنے کمرے میں آ کر عرشمان نے غصے سے ایک کرسی کو زمین پر پٹخا اور بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔اسکا دل کیا ابھی شاہد کے پاس جا کر اسے کہے کہ اپنی گھٹیا بیٹی کو اٹھا کر یہاں سے چلا جائے۔
                    "مان۔۔۔۔"
                    آن کی پریشان سی آواز پر عرشمان نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں آن کھڑی سہمی نگاہوں سے اسکے اس غصے کو دیکھ رہی تھی۔
                    "میں نے کچھ ٹوٹنے کی آواز سنی تھی کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہیں آپ؟"
                    آن کے سوال پر عرشمان فوراً اسکے پاس آیا اور اسے کمرے میں کھینچ کر دروازہ بند کر دیا۔اس سے پہلے کہ آن کو کچھ سمجھ آتا عرشمان اسے دروازے سے لگا کر اپنے دونوں ہاتھ اسکے سر کے اردگرد رکھ چکا تھا۔
                    "مان۔۔۔۔"
                    آن نے سہم کر اسکی جانب دیکھا۔عرشمان کا یہ غصہ اسے اب سچ میں ڈرا رہا تھا۔
                    "کیوں آن ہر کوئی کیوں چھیننا چاہتا ہے تمہیں مجھ سے۔۔۔۔ہر کوئی کیوں ہماری محبت کا دشمن ہے۔۔۔۔۔"
                    آن نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔کیا اسے عزم کے بارے میں پتہ چل گیا تھا؟
                    "کیا ہوا مان۔۔۔۔؟"
                    عرشمان نے اسے جواب دینے کی بجائے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکا دیا اور اپنی آنکھیں موند گیا جبکہ اسکی اس قربت پر آن سانس تک لینا بھول چکی تھی۔
                    "میں انہیں تمہیں نہیں چھیننے دوں گا آن میں کسی کو بھی تمہیں خود سے نہیں چھننے دوں گا۔۔۔۔عشق ہو تم میرا،میرے جینے کی وجہ ہو۔۔۔۔"
                    آن ابھی بھی حیرت سے عرشمان کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت کرب کی انتہا پر تھا۔ضرور عزم نے ہی اسے کچھ کہا تھا۔
                    "مان مجھ پر بھروسہ رکھیں میں آپ کے ساتھ ہوں ہمیشہ۔۔۔۔۔میں آپکے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی ہوں۔۔۔۔"
                    آن کی بات پر عرشمان نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اسکے چہرے کو محبت سے دیکھتا اس سے دور ہو گیا۔
                    "اگر قسمت نے ہمارا ساتھ لکھا ہے تو ہمیں کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا۔۔۔۔"
                    عرشمان کا سر انکار میں ہلتا دیکھ آن اضطراب میں آ گئی۔
                    "میں قسمت کو بھی ہمیں جدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا آن۔۔۔۔"
                    آن اسکی بات پر مسکرا کر اسکے پاس آئی اور اسکا ہاتھ آہستہ سے پکڑ لیا۔
                    "مجھ پر اور ہماری محبت پر بھروسہ رکھیں مان جب تک ہم ساتھ ہیں کوئی کچھ بھی کر لے ہمارے درمیان نہیں آ سکے گا بس پلیز آپ مجھ سے کبھی بدگمان مت ہونا۔۔۔۔"
                    عرشمان نے اس بات پر آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
                    "عرشمان مر تو سکتا ہے لیکن اپنی آن سے بدگمان نہیں ہو سکتا۔۔۔"
                    آن کو مسکراتا دیکھ کر عرشمان بھی اب سکون میں آ چکا تھا۔ہاں ان دونوں کو کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا تھا۔
                    "تو پھر پریشانی کو چھوڑیں اور خوشی خوشی اس لمحے کو جئیں جو ہمارے لیے بہت خاص ہے ۔۔۔۔۔"
                    آن نے محبت سے کہا اور وہاں سے جانے لگی لیکن عرشمان نے فوراً اسکا ہاتھ تھام لیا۔
                    "لمحے خاص تب ہوں گے جب تم دلہن بن کر یہاں آؤ گی۔۔۔۔"
                    عرشمان کی بات پر آن کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی سی مسکان آئی اور وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں سے بھاگ گئی۔جبکہ اسکے جاتے ہی عرشمان پھر سے لیزا کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔
                    "تم کچھ بھی کر لو میں اپنی آن کا ہی رہوں گا بالکل جیسے وہ میری ہے۔۔۔۔ہمارے درمیان میں کسی کو نہیں آنے دوں گا کسی کو بھی نہیں ۔۔۔"
                    عرشمان ضبط سے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہنے لگا۔وہ لیزا اور عزم دونوں کے سامنے آن کو پا کر اپنی محبت کو امر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
                    ????
                    "سلطان صاحب کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔۔۔۔"
                    سلطان عرشمان کے ڈیرے پر موجود اسکے حصے کے کام دیکھ رہا تھا جب ملازم کے بتانے پر سلطان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
                    "کون۔۔۔۔؟"
                    "کوئی رشید احمد ہے کہتا ہے آپ سے ملنا ہے۔۔۔۔"
                    سلطان نے اثبات میں سر ہلایا۔
                    "اندر بھیجو اسے۔۔۔۔"
                    ملازم اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا اور سلطان اس نام کے بارے میں سوچنے لگا جو اسے سنا ہوا سا لگ رہا تھا۔ عرشمان کو کسی کام کے سلسلے میں شہر جانا پڑا تھا اسی لیے آج وہ عرشمان کی جگہ ڈیرے پر آیا تھا۔
                    اس سے پہلے کہ سلطان رشید احمد کو یاد کرنے میں زیادہ محنت کرتا ایک بوڑھا آدمی اس کمرے میں داخل ہوا۔اس آدمی کو دیکھ کر سلطان پھر سے اضطراب میں آ چکا تھا کیونکہ رشید احمد کوئی اور نہیں اسکی اس بیوی کا باپ تھا جسے سلطان ابھی تک بھلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا آیا تھا۔
                    "سلام سائیں۔۔۔"
                    رشید نے سر پر رکھی ایک گٹھری سلطان کے پاس پڑی کرسی پر رکھی اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔
                    "آپ یہاں۔۔۔۔"
                    سلطان کی حیرت پر رشید ہلکا سا مسکرایا۔
                    "میں بہت مشکل سے چھپ چھپا کر یہاں آیا ہوں سائیں۔۔۔۔سردار نے میرا یا میرے گھر والوں کا گاؤں سے نکلنا بند کر دیا تا کہ میں اپنی بیٹی سے نہ مل سکوں لیکن آج جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ شہر چلے گئے تو میں موقع دیکھ کر آپ سے ملنے آ گیا۔۔۔۔"
                    سلطان نے اثبات میں سر ہلایا اور اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
                    "آپ کچھ لیں گے؟"
                    سلطان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس شخص سے کیا بات کرے۔وہ تو جانتا بھی نہیں تھا کہ اسکی بیٹی کس حال میں ہو گی لیکن وہ اتنا جانتا تھا کہ وہ سلطان ملک کے گھر تھی تو محفوظ ہی ہو گی۔
                    "نہیں سائیں بس مجھے آپ سے ملنا تھا۔۔۔۔"
                    رشید نے سر جھکا کر کہا اور پھر بہت ہمت کر کے اس نے سلطان کی جانب دیکھا۔
                    "میری بیٹی کیسی ہے سائیں میری کنیز کیسی ہے۔۔۔۔؟"
                    رشید کے سوال اور اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سلطان کا دل کیا کہ اپنی جان لے لے۔آخر اس نے کیونکر وہ زمہ داری اٹھائی جو وہ نبھا نہیں سکتا تھا۔
                    "آپ فکر مت کریں میں اس کا خیال رکھوں گا۔۔۔۔"
                    سلطان نے ہمت کرتے ہوئے کہا لیکن اسکے ضمیر نے اسے ملامت کرتے ہوئے جھوٹا کہا تھا۔
                    "وہ بہت معصوم ہے سائیں بچی ہے ابھی اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کر دینا جھلی ہے وہ۔۔۔۔"
                    رشید نے اپنے ہاتھ جوڑ کر کہا اور ایسا کر کے وہ سلطان کو اسکی نظروں میں مزید گرا چکا تھا۔
                    "اگر آپ اس سے ملنا چاہیں تو حویلی جا کر مل سکتے ہیں۔۔۔۔"
                    سلطان کی بات پر رشید کے چہرے پر ایک سایہ سا دوڑ گیا۔
                    "نہیں سائیں جی میں پہلے ہی یہاں آ کر بہت بڑی نادانی کر چکا ہوں۔۔۔اگر سردار کو پتہ چل گیا تو نا جانے کیا کر گزرے گا میری ایک اور بیٹی بھی ہے سائیں مجھے اسکی پرواہ بھی کرنی ہے۔۔۔۔"
                    سلطان نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا۔اسے اتحاد ملک جیسے گھٹیا انسان سے بے انتہا نفرت ہو رہی تھی جس نے سرداری کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔
                    "ی۔۔۔یہ خربوزے میں اپنے کھیت سے توڑ کر لایا تھا سائیں جانتا ہوں بڑا حقیر تحفہ ہے لیکن اس غریب کی اوقات میں ایسا کچھ نہیں تھا جو آپکو دے سکتا۔۔۔۔"
                    رشید نے اپنے ہاتھ سلطان کے سامنے جوڑ دیے۔
                    "نہیں آپ ایسا کہہ کر مجھے شرمندہ مت کریں آپ کا بہت شکریہ۔۔۔۔"
                    رشید کے چہرے پر اسکی بات پر خوشی آئی تھی۔
                    "آپ بہت زیادہ اچھے انسان ہیں سائیں اپنی بیٹی کی جو فکر مجھے تھی اب وہ بھی نہیں رہی میں جانتا ہوں آپ جیسا انسان اسکا بہت خیال رکھے گا۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر رشید کھڑا ہو گیا اور شرمندگی کے بوجھ تلے دبے سلطان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی۔
                    "یہ خربوزے کنیز کو دے کر کہیے گا کہ اسکا ابا اسکے لیے لایا تھا اسے بہت پسند ہیں یہ۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر رشید سے کچھ بولا نہیں گیا اور اپنے آنسوں پر قابو کرتا سلطان کو خدا حافظ بول کر وہاں سے چلا گیا لیکن جانے سے پہلے وہ شخص سلطان کے ضمیر کو کتنی بری طرح سے جھنجھوڑ چکا تھا۔
                    وہ شخص سلطان کو ایک مسیحا سمجھتا تھا جو اسکی بیٹی کا خیال رکھتا ہو گا جبکہ سلطان نے تو پلٹ کر اسے ایک بار دیکھا بھی نہیں تھا۔اس سے پوچھا بھی نہیں تھا کہ وہ ٹھیک تو ہے یا اپنا گھر بار چھوڑنے پر کس قدر دکھی ہے۔
                    بس اسے اپنی میڈ بنا کر گھر والوں کے سامنے پیش کر چکا تھا اور خود ایک ایسی لڑکی کے خیالوں میں کھویا رہتا تھا جو اس دنیا میں تھی ہی نہیں بس ایک خواب تھی۔سراب کے پیچھے بھاگتا سلطان ملک اصلیت کو بالکل فراموش کیے ہوئے تھا۔
                    لعنت ہے تم پر سلطان ملک انسانیت کے نام پر دھبہ ہو تم۔۔۔۔
                    سلطان کے ضمیر نے اسے ملامت کی تو سلطان نے گہرا سانس لیا اور رشید کی لائی اس گٹھری پر نظر ڈالتا اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔احساس شرمندگی اسے اندر تک جھنجھوڑ رہا تھا۔حویلی جانے کے ارادے سے وہ گاڑی میں بیٹھا اور سارا راستہ وہ رشید اور اس لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا جس کا اس نے چہرہ تک نہیں دیکھا تھا۔
                    حویلی پہنچ کر وہ اماں بی کے کمرے میں گیا تو وہ نماز ادا کرنے میں مصروف تھیں۔سلطان خاموشی سے وہاں موجود صوفے پر بیٹھ کر انکے نماز ختم کرنے کا انتظار کرنے لگا۔
                    دعا مانگ کر اماں بی نے مسکرا کر سلطان کو دیکھا لیکن سلطان کے چہرے پر اضطراب دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔
                    "کیا بات ہے سلطان اتنے پریشان کیوں ہو؟"
                    اماں بی نے اپنی نماز والی کرسی پر جائے نماز لپیٹ کر رکھتے ہوئے پوچھا۔سلطان کے چہرے پر احساس ندامت اور اضطراب انہیں بہت پریشان کر رہا تھا۔
                    "اماں بی وہ میں۔۔۔۔"
                    سلطان نے اتنا کہہ کر اپنا سر جھکا لیا۔انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
                    "اماں بی وہ لڑکی کہاں ہے جسے میں اپنے ساتھ لایا تھا؟"
                    سلطان کے سوال پر اماں بی ہلکا سا مسکرا دیں۔
                    "میں نے اسے راشدہ کی زمہ داری میں دیا تھا بیٹا۔ابھی کل ہی میں نے راشدہ سے اسکے بارے میں پوچھا تھا۔راشدہ نے بتایا کہ بالکل ٹھیک ہے اور اپنی زمہ داریاں اچھے سے سنبھال رہی ہے۔لیکن تم کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہو؟"
                    اماں بی کے سوال پر سلطان اٹھ کر انکے پاس آیا اور اپنا ہاتھ انکے ہاتھوں پر رکھ دیا۔
                    "میں نے خواب میں ایک لڑکی کو دیکھا تھا اماں بی۔۔۔۔۔بہت حسین لڑکی کو۔۔۔۔مم۔۔۔میں چاہ کر بھی اسے اپنے ذہن سے نہیں نکال پا رہا جتنا اسکے بارے میں نہیں سوچنا چاہتا اتنا ہی سوچتا ہوں مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں ۔۔۔۔"
                    اماں بی نے ہلکا سا مسکرا کر سلطان کو دیکھا ۔
                    "سراب کے پیچھے بھاگنے والا اور خوابوں میں جینے والا انسان ہمیشہ پچھتاتا ہے بیٹا۔خواب دنیا کی تلخی سے خود کو بچانے کا ایک ذریعہ تو ہو سکتے ہیں لیکن ان میں جینا اور انکے پورے ہونے کی توقع کرنا بس حماقت ہے کیونکہ جواب دہ ہمیں اس حقیقت کا ہونا ہے بیٹا خود سے منسلک رشتوں کا ہونا ہے۔۔۔سمجھ رہے ہو ناں میں کیا کہہ رہی ہوں۔"
                    سلطان کے اثبات میں سر ہلانے پر اماں بی مسکرا دیں۔
                    "تو بس انکی پرواہ کرو جو تم سے منسلک ہیں اور جب ایسا کرتے تھک جاؤ تو اپنی خوشی کے لیے کچھ دیر اپنے خواب میں جی لو۔۔۔۔"
                    سلطان نے کچھ سوچ کر اماں بی کی جانب دیکھا جو مسکرا رہی تھیں۔
                    "وہ لڑکی کہاں ہے اماں بی؟"
                    "راشدہ کے پاس ہو گی تم خود بھی ایک مرتبہ اس سے پوچھ لو کہ اسے کوئی مسلہ تو نہیں۔۔۔۔؟"
                    سلطان ہاں میں سر ہلا کر اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔اسے بس اس لڑکی کی خیریت معلوم کرنی تھی جو اسکی زمہ داری تھی۔
                    "راشدہ کہاں ہے۔۔۔۔"
                    ایک ملازمہ سے پوچھنے پر ملازمہ نے کچن کی جانب اشارہ کیا تو سلطان اس طرح چل دیا لیکن کچن میں داخل ہونے پر سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی رگیں غصے سے تن گئیں۔
                    ????
                    کنیز صاف صفائی کے بعد برتین دھو رہی تھی۔کل راشدہ کو اس کا کام پسند نہیں آیا تھا جس کی سزا کے طور پر آج اسے ناشتہ بھی نہیں ملا تھا۔
                    کنیز نے اس حویلی کو دیکھ کر کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہاں اس کے ساتھ یہ سلوک ہو گا۔راشدہ سارا دن اس سے جانوروں کی طرح کام لیتی تھی اور اپنے ساتھ ساتھ باقی ملازماؤں کو بس اس پر حکم چلانے کے لیے رکھا تھا۔شائید وہ ہر ملازمہ کے حصے کا کام کنیز سے ہی کروا رہی تھی۔
                    کئی مرتبہ کنیز نے سوچا کہ وہ سلطان سے جا کر پوچھے کہ کیا وہ اسے انسان نہیں سمجھتا تھا یا اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن کنیز اس کے سامنے نہیں جانا چاہتی تھی آخر اسے کونسا کنیز کی پرواہ تھی اس نے تو ایک بار پلٹ کر بھی کنیز کو نہیں دیکھا تھا۔
                    ویسے بھی اس رات اسکے کمرے میں جانے کے بعد اب کنیز میں اسکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔اسکی وہ بے باکیاں یاد کر کے آج بھی کنیز کا روم روم کانپ جاتا تھا۔
                    کنیز نے سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اپنے سامنے برتنوں کے ڈھیر کو دیکھا جو اتنا دھونے کے بعد بھی کم نہیں ہوا تھا۔ابھی اس نے ایک جگ ہاتھ میں پکڑا ہی تھا جب کھانا نہ کھانے اور مسلسل کام کرنے کی وجہ سے اسکا سر بری طرح سے چکرایا اور جگ کنیز کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔
                    چھن سے کچھ ٹوٹنے کی آواز پر کنیز نے سہم کر شیشے کے جگ کی ان کرچیوں کو دیکھا اور سہم کر ان کرچیوں سے دور ہو گئی۔کچھ ٹوٹنے کی آواز پر راشدہ فوراً باورچی خانے میں آئی اور انتہائی غصے سے کنیز کو گھورنے لگی۔
                    "یہ کیا کیا تو نے اتنا مہنگا جگ توڑ دیا جانتی ہے بیگم صاحبہ کیا حال کریں گی تیرا۔۔۔۔"
                    راشدہ کے چلانے پر پہلے سے ہی سہم کر اس ٹوٹے ہوئے جگ کو دیکھتی کنیز مزید سہم کر رونے لگی۔
                    "مم۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں باجی ممم۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔آہ"
                    کنیز کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے جب راشدہ آگے بڑھی اور ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا۔
                    "تجھے تو آج میں بتاتی ہوں یوں ٹوٹے ہاتھوں سے کام کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔"
                    اس سے پہلے کہ کنیز پہلے تھپڑ کے اثر سے باہر آتی راشدہ نے دو اور تھپڑ اسکے منہ پر مارے جن کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ گر گئی اور کچن کا کاؤنٹر اسکے ماتھے پر لگا۔
                    راشدہ نے آگے ہو کر اسے بالوں سے پکڑنا چاہا لیکن اچانک ہی اسکی نظر کچن کے دروازے پر پڑی جہاں سلطان کھڑا یہ منظر غصے سے انگارہ ہوتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
                    "تمہاری اتنی جرات کہ تم ہمارے گھر کے ملازموں سے یہ سلوک کرو۔۔۔۔"
                    سلطان کے غصے پر راشدہ بری طرح سے سہم گئی۔
                    "مم ۔۔۔معاف کر دیں صاحب لیکن یہ آپکی میڈ نے بیگم صاحبہ کا جگ توڑ دیا۔۔۔۔اس لیے میں۔۔۔۔"
                    میڈ۔۔۔۔؟کیا یہ وہی لڑکی تھی جسے سلطان۔۔۔۔؟
                    اس لڑکی کو فرش پر سر جھکا کر روتا دیکھ سلطان پتھر کا ہو چکا تھا۔اس کی نظر انہیں مہندی لگے سانولے ہاتھوں پر پڑی جن کی مہندی اب مٹ چکی تھی لیکن پھر بھی سلطان اسے پہچان گیا یعنی اسکی چھت کے نیچے یہ سلوک ایک ملازم نہیں بلکہ اسکی اپنی بیوی کے ساتھ ہو رہا تھا اور وہ ہی اس سے بے خبر تھا۔
                    سلطان فوراً آگے بڑھا اور اس لڑکی کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔بے ساختہ سلطان کی نظر اسکے ماتھے پر موجود زخم پر پڑی جس میں سے خون رس رہا تھا۔
                    "قصور اسی کا ہے سلطان صاحب انتہائی بے وقوف لڑکی ہے میں تو کہتی ہوں جہاں سے لائے تھے آپ اسے وہیں چھوڑ آئیں یہ یہاں کام کرنے کے قابل ہی نہیں۔۔۔۔۔"
                    راشدہ کی بات پر کنیز نے سہم کر اپنی آنسؤں سے تر آنکھوں سے سلطان کو دیکھا اور ان سیاہ نگاہوں کو دیکھتے ہی سلطان کو لگا جیسے ساتوں آسمان ٹوٹ کر اس پر گرے ہوں۔
                    اسکے خواب کی وہ پری سچ تھی۔اسکی نوری حقیقت کا روپ دھارے اسکے سامنے کھڑی تھی۔جس لڑکی کو خواب تصور کرتا وہ اسکے لیے تڑپتا رہا تھا وہ سر سے لے کر پیر تک اسی کی ملکیت تھی۔
                    نوری۔۔
                    سلطان کے لبوں نے بے آواز اسے پکارا اور پھر اس کی نظر ان آنکھوں سے ہٹ کر اسکے گال پر موجود تھپڑوں کے نشان اور ماتھے سے نکلتے خون پر پڑی تو اس نے اپنی نوری سے دھیان ہٹا کر انتہائی غضبناک آنکھوں سے راشدہ کو دیکھا۔سلطان کی اس پری کو تکلیف دینے کی وجہ سے سلطان اسے زندہ درگو کر دینا چاہتا تھا۔
                    بغیر کچھ سوچے سمجھے سلطان کنیز کو چھوڑ کر راشدہ کے پاس آیا اور اسکی گردن کو مظبوطی سے اپنے ہاتھ میں دبوچ لیا۔
                    "تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔۔میں تمہارے ہاتھ اکھاڑ کر پھینک دوں گا جاہل عورت۔۔۔۔"
                    سلطان کے چلانے پر کنیز کے ساتھ ساتھ وہاں آئی ہر ملازمہ سہم کر اسے دیکھنے لگی۔
                    "مممم۔۔۔۔معاف کر دیں صاحب غلطی۔۔۔۔"
                    "غلطی جو تم نے کیا ہے غلطی نہیں۔۔۔۔۔اگر چاہتی ہو کہ تمہیں زندہ چھوڑ دوں تو دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔میں تمہیں حویلی کی نوکری ہی نہیں بلکہ اس گاؤں سے نکالتا ہوں کل ہی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ یہاں سے دفع ہو جانا ورنہ تمہاری میت پر رونا پڑے گا انہیں۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر سلطان نے جھٹکے سے راشدہ کو چھوڑا اور روتی ہوئی کنیز کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہاں سے لے آیا۔اپنے کمرے میں آ کر اس نے کنیز کو بیڈ پر بیٹھایا اور مردہ انکھوں سے اسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھنے لگا۔
                    یعنی اس رات کنیز اس کے پاس آئی تھی اور وہ نیند کی دوائی کے زیر اثر اسے ایک خواب سمجھ بیٹھا تھا۔سلطان سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔
                    جو بات اس وقت سلطان کو اضطراب میں مبتلا کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ اسکا سب سے حسین خواب ہی اسکی ملکیت تھا اور سلطان کو اسی بات کا سب سے زیادہ افسوس تھا۔وہ کیسے انابیہ کو فراموش کر کے ہر حق اسے دے سکتا تھا یہ سلطان کے لیے ناممکن تھا۔
                    ایک گہرا سانس لے کر سلطان نے کنیز کی ٹھوڈی کو پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر کیا تو نظر اسکے زخم پر پڑی جس سے خون بہہ کر اب اسکے چہرے پر آ رہا تھا۔
                    سلطان کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے تو جلدی سے کمرے سے نکل کر آن کے کمرے کی جانب چل دیا اور بے چینی سے اسکا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔
                    "سلطان بھائی۔۔۔کیا ہوا خیر تو ہے ؟"
                    دروازہ کھولتے ہی آن کے سلطان کے چہرے پر پریشانی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
                    "اسکا خون نکل رہا ہے آن مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔۔۔۔میرے ساتھ آؤ۔۔۔۔"
                    سلطان کے ایسا کہنے پر آن کمرے سے جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لائی اور سلطان کے پیچھے پیچھے چل دی۔
                    سلطان کے کمرے میں ایک لڑکی کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر آن اسکے پاس گئی اور اسکے ماتھے کی چوٹ کا معائنہ کرنے لگی۔
                    "سی۔۔۔"
                    آن کے زخم کو چھوتے ہی کنیز کے ہونٹوں سے سسکی نکلی جس پر سلطان اپنی مٹھیاں ضبط سے بھینچ گیا۔
                    "شش۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔رو مت ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"
                    آن نے اسے بچوں کی طرح پچکار کر کہا اور اسکا زخم صاف کرنے لگی۔دوائی کی چبھن کو محسوس کرتی کنیز پھر سے سسکی اور سلطان کی بس ہوئی تھی اسی لیے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔باہر آ کر اس نے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر مارا۔
                    کیوں آخر کیوں اسے ہی سلطان کا حصہ ہونا تھا۔سلطان انابیہ کے سوا کسی کو اپنا نہیں سکتا تھا اسے اس کی اجازت نہیں تھی۔
                    ہاتھ میں اور اپنے دل میں اٹھتی تکلیف کو نظر انداز کر کے سلطان اماں بی کے کمرے کی جانب چل دیا اور اجازت کے بغیر ہی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گیا۔اماں بی نے حیرت سے سلطان کے چہرے پر اس غصے کو دیکھا۔
                    "کیا ہوا سلطان؟"
                    "آپ نے کہا تھا وہ ٹھیک ہے آپ نے کہا تھا راشدہ اسکا خیال رکھتی ہے۔وہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتی رہی نوری کے ساتھ اور آپ کو اسکی خبر بھی نہ ہوئی اماں بی۔۔۔۔ہماری چھت کے نیچے وہ اس پر ہاتھ اٹھاتی رہی اور ہمیں خبر ہی نہیں۔۔۔۔"
                    اماں بی کی آنکھیں سلطان کی بات پر حیرت سے پھیل گئیں۔
                    "مجھے سچ میں پتہ نہیں تھا سلطان مجھے لگا راشدہ اس بچی کا خیال رکھے گی۔۔۔۔"
                    سلطان نے افسوس سے انہیں دیکھا۔
                    "میں نے اسکے باپ سے وعدہ کیا تھا اماں بی کہ میں اسکا خیال رکھوں گا اور میں اپنا وعدہ نہیں نبھا پایا۔۔۔۔"
                    سلطان نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں اور اماں بی نے اسے افسوس سے دیکھا۔
                    "مجھے معاف کر دو بیٹا۔۔۔۔"
                    سلطان نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اماں بی نے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا۔
                    "کیا چاہتے ہو تم سلطان۔۔۔۔؟"
                    سلطان کو پاس بیٹھا کر اماں بی نے اسکا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
                    "وہ سرونٹ کرواٹر میں نہیں رہے گی اسکی جگہ وہ نہیں۔۔۔۔"اسکی جگہ میرے کمرے میں ہے اسکا مقام میرے دل میں ہے۔۔۔۔
                    دوسری بات سلطان چاہ کر بھی اپنے لبوں پر نہیں لا پایا۔
                    "اور وہ باقی ملازماؤں کی طرح کام نہیں کرے گی اماں بی وہ میری زمہ داری ہے۔۔۔۔"
                    اماں بی نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا۔
                    "دیکھو سلطان تم جانتے ہو اگر میں اسے یہاں حویلی میں رکھوں گی تو فرحین اسکے بارے میں ضرور پوچھے گی اور پھر جب میں اسے یہ بتاؤں گی کہ تم اسے یہاں لائے ہو تو وہ اس بچی کو ایک پل بھی اس حویلی میں نہیں رہنے دے گی۔تم جانتے ہو وہ تمہیں اور انابیہ کو لے کر کتنی حساس ہے۔۔۔۔"
                    سلطان نے بے بسی سے انکی جانب دیکھا۔
                    "پلیز اماں بی کچھ کریں پلیز۔۔۔۔"
                    سلطان کے چہرے پر اس بے بسی کو دیکھ کر اماں بی نے گہرا سانس لیا اور کچھ سوچنے لگیں۔آخر کار ایک ترکیب انکے ذہن میں آئی۔
                    "میں اسے اپنی خادمہ بنا کر رکھ سکتی ہوں بیٹا۔فرحین سے کہہ دوں گی کہ اسے میں نے اپنے کاموں کے لیے رکھا ہے اس لیے وہ بس میرے کام کرے گی اور میرے پاس ہی سویا کرے گی۔۔۔۔ٹھیک ہے؟"
                    اماں بی کے پوچھنے پر سلطان نے کچھ دیر سوچ کر اثبات میں سر ہلایا۔اماں بی جو کہہ رہی تھیں وہ سب سے بہتر تھا۔
                    "ٹھیک ہے پھر تم اسکے حوالے سے بے فکر ہو جاؤ وعدہ کرتی ہوں اب خود اسکا خیال رکھوں گی۔۔۔۔کیا نام بتایا تھا تم نے بچی کا؟"
                    "کنیز۔۔۔"
                    سلطان نے آہستہ سے کہا تو اماں بی مسکرا دیں۔
                    "ٹھیک ہے تم اسے میرے پاس بھیج دینا میں اسے سنبھال لوں گی۔۔۔"
                    سلطان نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے اٹھ کر باہر آ گیا۔دل تھا کہ بغاوت پر اترا تھا کہ اسکی جگہ یہاں نہیں سلطان کے پاس ہے وہ اسکی بیوی ہے،اسکی ملکیت ہے لیکن یہ حق سلطان اسے فلحال دینے سے قاصر تھا اور شائید کبھی دے بھی نہیں پاتا۔
                    ????
                    کنیز کے ماتھے پر پٹی کر کے آن نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
                    "اب درد تو نہیں ہو رہا؟"
                    آن کے اس قدر محبت سے بات کرنے پر کنیز نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا۔
                    "ہو رہا ہے۔۔۔۔"
                    اسکی معصومیت پر آن مسکرا دی اور اسکا چہرہ ہاتھ میں پکڑا۔
                    "ٹھیک ہو جائے گا فکر مت کرو۔۔۔"
                    آن نے نرمی سے اسکا گال سہلایا جو تھپڑ کے نشان سے لال ہو رہا تھا۔آن کو یہ جان کر افسوس ہوا کہ انکی چھت کے نیچے اس معصوم کے ساتھ یہ سلوک ہوا تھا اگر یہ بات عرشمان کو پتہ لگ جاتی تو اس ملازمہ کی جان ہی نکال دیتا جس نے اتنی جرات کی تھی۔
                    "نام کیا ہے تمہارا؟"
                    آن نے نرمی سے اس سے پوچھا۔
                    "ک۔۔۔کنیز فاطمہ۔۔۔۔۔اماں ابا نوری بلاتے۔۔۔۔تھے۔۔۔۔"
                    کنیز نے ہلکا سا روتے ہوئے کہا۔
                    "بہت پیارا نام ہے بالکل تمہاری طرح۔۔۔کتنے سال کی ہو تم؟"
                    کنیز نے اب نظریں اٹھا کر اس شفیق سی لڑکی کو دیکھا۔
                    "سترہ۔۔۔سال کی۔۔۔۔"
                    "ہممم۔۔۔۔یہاں کس کے ساتھ آئی تھی نوری؟"
                    آن بس اسے باتوں میں لگانا چاہتی تھی تا کہ اسکا دھیان تکلیف سے ہٹ جائے۔
                    "سائیں جی کے ساتھ۔۔۔میں انکی میڈ ہوں۔۔۔۔"
                    "میڈ؟"
                    آن کے پوچھنے پر کنیز نے ہاں میں سر ہلایا اور اسکے رخسار گلابی ہو گئے۔
                    "لیکن مم۔۔۔میں ان سے ناراض ہوں پتہ ہے آپ کو باجی انہوں نے ابا سے وعدہ کیا تھا کہ میرا خیال رکھیں گے۔۔۔۔اور یہاں آ کر سارا کام مجھ سے کروایا۔۔۔۔۔پتہ ہے وہ راشدہ باجی سب لڑکیوں کا کام مجھ سے کرواتی تھیں اور خود سب کے ساتھ بیٹھ کر مجھ پر ہنستی تھیں۔۔۔۔۔بھلا کوئی اپنی میڈ سے اتنا کام کرواتا ہے؟"
                    سلطان جو ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا اسکی باتیں سن کر اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا۔
                    "تو تم سلطان بھائی کو سب بتا دیتی۔۔۔"
                    آن نے اسکے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ اسکے کان کے پیچھے کرتے ہوئے نرمی سے کہا۔
                    "بتانے آئی تھی لیکن سائیں جی سو رہے تھے اور پھر۔۔۔۔"
                    وہ رات پھر سے یاد کر کے کنیز کی خوبصورت آنکھیں پھیل گئی اور گال گلاب کی مانند سرخ ہو گئے۔
                    "بالکل اچھے نہیں سائیں جی میں نے کٹی کر دینی ان سے اب۔۔۔۔"
                    کنیز نے منہ بسور کر کہا تو آن ہنس دی۔سلطان کے ہلکا سا کھانسنے پر آن نے سلطان کو دیکھا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ کنیز سہم کر کھڑی ہو گئی۔
                    "ہائے او ربا سائیں جی نے سن تو نہیں لیا۔۔۔ایک تو نوری منہ بند نہیں رہتا تیرا۔۔۔۔"
                    کنیز اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے ہلکا سا بڑبڑائی اور سلطان خواب کی سی کیفیت میں چل کر اسکے پاس آیا۔
                    دن کی روشنی میں وہ اسکے خواب سے بھی کہیں زیادہ حسین لگ رہی تھی۔رنگ بہت گورا نہیں بلکہ ہلکا سا سانولا اور گندمی تھا۔کمر تک آتی چوٹی نازک سے کندھے پر پڑی تھی۔
                    سلطان نے ہاتھ اسکی ٹھوڈی کے نیچے رکھ کر چہرہ اوپر کیا تو نظر اسکے چہرے پر پڑی جس کے تیکھے نقوش اور معصومیت اس پر سے نظر ہٹانا ناممکن کر دیتے تھے۔ستواں ناک میں پہنا لونگ شائید اس رات سلطان دیکھ نہیں پایا تھا لیکن اب اسکی چمک اس کے معصوم چہرے کے حسن کو بڑھا رہی تھی۔
                    کٹاؤ دار ہلکے گلابی اور عنابی رنگ کے نازک ہونٹ دیکھ کر سلطان کو لگا کہ اسکے گلے میں کانٹے اگ آئے ہوں۔دل تھا کہ پھر سے ان لبوں کو اپنی شدت سے چور کرنے کے لیے بغاوت پر اترا تھا۔
                    "بہت ظلم ہوا ناں تم پر۔۔۔۔میں نے تمہارا خیال نہیں رکھا تم سے غافل رہا۔۔۔۔"
                    سلطان کے ایسا کہنے پر کنیز کا چہرہ پھول گیا جیسے کچھ کہے بغیر ہی اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہ رہی ہو۔
                    "مجھے معاف کر۔۔۔"
                    "نہیں سائیں جی۔۔۔۔"
                    کنیز نے فوراً اپنی نظریں اٹھا کر سلطان کو دیکھا اور ان آنکھوں کو دیکھتے ہی سلطان پھر سے خود کو بھول گیا۔وہ گہری سیاہ پلکوں میں لپٹیں بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن میں لگتا تھا کہ قدرت نے ہی گہرا کاجل لگا کر بھیجا تھا سلطان کو پھر سے مدہوش کر گئیں۔
                    سلطان کی پکڑ اسکی ٹھوڈی پر مظبوط ہو گئی۔وہ لڑکی کیوں اسکا اس قدر امتحان لیتی تھی۔
                    "شوہر معافی مانگے تو گناہ ملتا ہے۔مجھے گناہ گار نہ کریں سائیں جی مجھے دوزخ میں نہیں جلنا۔۔۔۔"
                    کنیز اس سے کہہ رہی تھی لیکن وہ اسکی نظروں کے سحر سے نکلتا تو اسکی بات کو سمجھتا ناں۔
                    "اپنی نظریں جھکاؤ۔۔۔۔"
                    سلطان کے حکم پر وہ سیاہ آنکھیں پھیل کر مزید خوبصورت ہو گئیں۔
                    "جج۔۔۔۔جی سائیں جی۔۔۔۔"
                    سلطان ضبط سے اپنی آنکھیں میچ گیا۔اسکے چہرے پر وہ اضطراب دیکھ کر کنیز سہم گئی۔اسے لگا سلطان کو اس پر غصہ آ رہا ہے۔
                    "اپنی آنکھیں جھکاؤ لڑکی اور ہمیشہ مجھ سے نظریں جھکا کر بات کرنا سمجھی؟"
                    کنیز نے فوراً اپنی پلکیں جھکا لیں اور اثبات میں سر ہلایا۔
                    "تم آج سے میری دادی کے پاس رہو گی۔ان کا خیال رکھو گی اور ان ہی کے کمرے میں سویا کرو گی۔۔۔۔"
                    کنیز نے پھر سے اچھی بیوی کی طرح ہاں میں سر ہلا دیا۔
                    "اگر ان کے علاوہ کوئی بھی تمہیں کوئی کام کہے تو تم منع کر دو گی اور اس سے کہو گی کہ تم اماں بی کے سوا کسی کا کام نہیں کرو گی یہ میرا حکم ہے۔۔۔۔"
                    سلطان کی بات پر کنیز نے نظریں اٹھائیے بغیر ہاں میں سر ہلایا۔
                    "جو حکم سائیں جی۔۔۔۔"
                    کنیز کے آہستہ سے کہنے پر سلطان نے ایک نظر اسکے نازک وجود کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اسکے کپڑے اسکے نازک وجود کے لیے بہت بڑے تھے۔
                    "یہ کپڑے کہاں سے لیے تم نے؟"
                    "راشدہ باجی نے دیے تھے سائیں جی انکے کپڑے ہیں۔۔۔۔"
                    کنیز نے نظریں اٹھائیے بغیر کہا اور سلطان پھر سے شرمندگی کے بوجھ تلے دب گیا۔وہ کیسے اس سے بالکل ہی فراموش رہا تھا۔
                    "ہمم ٹھیک ہے جاؤ اب یہاں سے۔۔۔۔"
                    سلطان نے اسکی ٹھوڈی کو چھوڑ کر کہا تو کنیز فوراً وہاں سے چلی گئی اور سلطان نے اضطراب سے اپنے ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرے۔
                    زندگی اسکے لیے مشکل بہت زیادہ بڑھا چکی تھی۔نہ جانے یہ اسکے کس گناہ کی سزا تھی کہ اپنی جس بیوی کو اپنانے کے لیے وہ تڑپ رہا تھا وہ اسے چاہ کر بھی اپنا نہیں سکتا تھا اور یہ اسکی زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔
                    ????
                    Tars AA Raha Muje bechare sultan pa.
                    Uske lie Tu wakie ishq ek aag Ka drya ha aur doob k Jana ha?
                    Ab agy kya ho ga ............

                    Comment


                    • #30
                      Surprise ??
                      #زندگی_اے_تیرے_نال
                      #قسط_نمبر_12+11
                      کنیز گھبراتے ہوئے اماں بی کے کمرے میں آئی۔دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے اضطراب سے اپنے ہاتھ مسلے نا جانے اب اماں بی اسکے ساتھ کیسا سلوک کرتیں۔آخر کار ہمت کر کے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور شفیق سی آواز کے اجازت دینے کر اندر داخل ہو گئی۔
                      "ااا۔۔۔۔اسلام و علیکم ۔۔۔۔"
                      کنیز نے سر جھکا کر ہچکچاتے ہوئے کہا تو اماں بی اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔
                      "و علیکم السلام۔۔۔۔یہاں آؤ بیٹا۔۔۔۔"
                      انکے محبت سے پکارنے پر کنیز انکے پاس گئی تو اماں بی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بیٹھا لیا۔
                      "مجھے معاف کر دو بیٹا میں نے تمہیں راشدہ کے ذمے دے کر پھر تمہارا حال بھی نہیں پوچھا میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرے گی۔۔۔۔۔"
                      اماں بی نے نرمی سے اسکا لال ہوا گال سہلاتے ہوئے کہا جبکہ نظریں ماتھے پر بندھی پٹی پر تھیں۔
                      "نن۔۔۔۔نہیں خالہ جی آپ معافی نہ مانگیں بڑے معافی نہیں مانگتے۔۔۔۔"
                      اسکی ہچکچاہٹ اور ہلکے سے پنجابی لہجے پر اماں بی مسکرا دیں۔
                      "مجھے اماں بی بلایا کرو بیٹا باقی سب کی طرح۔اب تم نے بالکل فکر نہیں کرنی بس ہر وقت میرے ساتھ رہنا ہے اور اگر کوئی بھی پریشان کرے تو مجھے بتا دینا میں اسے دیکھ لوں گی۔۔۔۔"
                      کنیز نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اس معصوم پر اماں بی کو بے ساختہ پیار آیا۔
                      "بہت معصوم اور پیاری ہو تم بالکل میری آن کی طرح۔۔۔۔"
                      "آن ؟"
                      کنیز نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
                      "ہاں وہی جس نے تمہیں پٹی کی۔۔۔۔"
                      اماں بی نے نرمی سے اسکے ماتھے پر بندھی پٹی کو چھوتے ہوئے کہا۔
                      "اوہ وہ باجی وہ تو بہت اچھی ہیں پتہ ہے میری اماں کی طرح پھونکیں مار مار کے ملم (مرہم) لگایا انہوں نے ۔۔۔۔"
                      کنیز کے بتانے پر اماں بی کے چہرے کی مسکان غائب ہو گئی۔
                      "مجھے سلطان نے بتایا بیٹا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا مجھے سچ میں اس بات کا بہت افسوس ہے۔اتحاد ملک جیسے گھٹیا انسان کو کسی پر حکومت کرنے کا حق نہیں۔۔۔۔"
                      کنیز انکی بات پر اپنا سر جھکا گئی ۔
                      "تمہیں اپنے گھر والوں کی یاد تو آتی ہو گی ناں۔۔۔"
                      آج اس گھر میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ کسی نے اس سے یہ سوال کیا تھا۔اپنے پیاروں کو یاد کر کے کنیز کی آنکھیں آنسؤں سے لبریز ہو گئیں۔
                      "ننن۔۔۔۔نہیں باقی سب کی تو خیر ہے بس اماں ابا کی بہت یاد آتی ہے پتہ ہے جب کھانا نہیں کھاتی تھی تو اماں اتنے پیار سے اپنے ہاتھ سے کھلا دیتی تھیں اور ابا کے پاس پیسے نہیں بھی ہوتے تھے ناں تو بھی میرے لیے چوڑیاں اور سرمہ لاتے تھے۔۔۔۔انہیں پتہ تھا ان کی نوری کو بہت پسند ہیں یہ دونوں۔۔۔۔۔"
                      وہ وقت یاد کر کے کنیز اپنا ضبط کھو بیٹھی تھی اسی لیے سسک سسک کر روتے ہوئے انہیں بتانے لگی۔
                      "اور باجی۔۔۔۔مجھے بجلی کے چمکنے سے ڈر لگتا ہے تو جب بھی بجلی چمکتی تو باجی مجھے اپنے ساتھ لگا کے سلا دیتی تھیں اور موٹو پتلو۔۔۔۔"
                      اپنے بھائیوں کو یاد کر کے کنیز کی نم آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔
                      "وہ میرے ساتھ گڑیوں سے پین پرونی(پنجابی کھیل) کھیلتے تھے۔۔۔۔"
                      اماں بی نے نرمی سے اسکا گال تھاما تھا۔
                      "مجھے تھوڑی تھوڑی انکی بھی یاد آتی ہے لیکن اماں ابا سب سے زیادہ یاد آتے ہیں۔۔۔۔"
                      کنیز اتنا کہہ کر پھر سے سسک کر رو دی تو اماں بی نے نرمی سے اسکے آنسؤں کو پونچھا۔
                      "نہیں میرا بچہ رو مت میں وعدہ کرتی ہوں تم سے کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال کر تمہیں تمہارے ماں باپ سے ضرور ملاؤں گی۔۔۔۔"
                      "اور باجی اور موٹو پتلو سے بھی۔۔۔۔"
                      کنیز نے منہ بنا کر کہا تو اماں بی ہلکا سا ہنس دیں۔
                      "ہاں ان سے بھی۔۔۔۔"
                      انکو مسکراتا دیکھ کنیز بھی اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
                      "آپ بہت اچھی ہیں اماں بی۔۔۔۔"
                      "تم بھی بہت اچھی ہو پیاری سی گڑیا۔۔۔۔"
                      اماں بی نے نرمی سے کنیز کا گال کھینچ کر کہا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
                      "میں اس وقت زرا باہر گھر والوں کے ساتھ بیٹھتی ہوں تم آرام سے سو جاؤ لیکن پہلے میں تمہارے لیے کھانا بجھواتی ہوں تم کچھ کھا لینا۔۔۔"
                      اماں بی اتنا کہہ کر کمرے سے چلی گئیں اور کنیز وہاں بیٹھ کر آج ہوئے ہر واقعے کو یاد کرنے لگی۔تبھی دروازا کھٹکنے کی آواز پر اسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ جلدی سے اٹھ کر دروازے تک گئی اور دروازہ کھول دیا۔
                      "یہ کھانا اماں بی نے بھجوایا ہے ۔۔۔"
                      ایک ملازمہ نے کھانا کنیز کے سامنے کرتے ہوئے سر جھکا کر کہا تو کنیز نے کھانا پکڑ لیا۔
                      "اب کیوں منہ نیچے کر کے کھڑی ہو کل تو بڑے قہقے لگا کر ہنس رہی تھی میرے پر جب میں صفائی کر رہی تھی۔۔۔۔"
                      کنیز نے منہ بنا کر کہا تو ملازمہ خاموشی سے وہاں سے چلی گئی۔
                      "گھنی میسنی چالاکو ماسی اب دیکھو کیسے اماں حاجن بن رہی ہے۔۔۔۔"
                      کنیز نے دانت پیس کر کہا اور کمرے میں آ کر ٹرے میز پر رکھی۔ ٹرے میں تین سے چار طرح کا کھانا دیکھ کر اسے اپنی بے تحاشا بھوگ کا احساس ہوا۔اس نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا اور کھانا کھاتے ہوئے اس حسن سلوک پر بے ساختہ اسکی آنکھیں نم ہوئیں۔
                      "سائیں جی ہمیشہ ایسے ہی رہیں یا اللہ پاک جی اب وہ مجھ سے اتنا زیادہ کام نہ کروائیں۔۔۔۔"
                      کنیز نے بے ساختہ دعا کی اور اسکے کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد ہی ملازمہ آ کر وہ ٹرے اٹھا کر لے گئی۔کنیز کو یاد آیا کہ اماں بی نے اسے سونے کا کہا تھا کمرے میں موجود صوفے پر لیٹ کر اپنا دوپٹہ اوپر لیا اور تھکن سے چور کچھ ہی دیر میں اردگرد سے فراموش ہوتی گہری نیند میں ڈوب گئی۔
                      اس بات سے بے خبر کے اسے کچھ دینے کی غرض سے وہاں آیا سلطان اسے یوں صوفے پر سوتا دیکھ کر بے اختیار اسکی جانب آیا تھا اور کتنی ہی دیر اسکے پاس کھڑا اسے معصومیت سے سوتے ہوئے دیکھتا رہا تھا۔
                      پھر اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگز اسکے پاس پڑے میز پر رکھے اور کچھ سوچ کر ایک کاغذ پکڑ کر اس پر کچھ لکھنے کے بعد وہ نوٹ ان شاپنگ بیگز پر رکھ کر کنیز کو دیکھنے لگا۔
                      "کوشش کروں گا کہ تمہارے بن کہے ہی تمہاری ہر خواہش پوری کر دوں۔۔۔۔بس تمہارے ڈرنے پر تمہیں اپنی آغوش میں بھر کر سلا نہیں سکتا لیکن کاش ایسا بھی کر سکتا کاش۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر سلطان نے اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا اور نرمی سے اسکے سر پر بندھی پٹی کے بعد اسکے گال کو چھوا۔نظر بھٹک کر پھر سے ان کٹاؤ دار نیم وا لبوں پر جا ٹھہری تو بے ساختگی میں اپنے انگوٹھے سے اسکے نچلے لب کو سہلایا۔
                      وہ بے اختیاری میں اپنے سوئے جزبات کو پھر سے بھڑکا چکا تھا اسی لیے ضبط سے مٹھیاں کستا اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔اسکے جانے کے کچھ دیر بعد ہی کنیز کی آنکھ کھلی تو پہلی نظر اپنے پاس پڑے ان بڑے بڑے شاپنگ بیگز پر پڑی۔
                      "یہ۔۔۔۔یہ شاپر کس کے ہیں کہیں اماں بی کے تو نہیں؟"
                      کنیز نے اٹھ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوچا پھر انہیں اماں بی کی چیزیں سمجھ کر الماری میں رکھنے کی غرض سے اٹھی تو اسکی نظر ان پر پڑے کاغذ پر گئی۔
                      کنیز نے اس کاغذ کو پکڑا تو اس پر پیاری سی لکھائی میں اردو میں کچھ لکھا تھا۔کنیز نے آہستہ آہستہ الفاظ کے توڑ جوڑ کرتے ہوئے ان الفاظ کو پڑھنا شروع کیا۔
                      "اااا۔۔۔اس میں تم۔۔۔تمہارے لیے ہر۔۔۔۔چچچ۔۔۔۔چیز ہے پھر ککک۔۔۔۔کبھی کچھ چاہیے ہو تو مممم۔۔۔۔۔مجھے بتا دینا۔۔۔۔سل۔۔۔سلطان۔۔۔۔۔"
                      سلطان کے نام پر کنیز کا دل بہت زوروں سے دھڑکا۔تو کیا یہ سب سلطان اس کے لیے لایا تھا اماں بی کے لیے نہیں۔۔۔۔
                      کنیز نے کپکپاتے ہاتھوں سے پہلے تین بیگ کھولے جن میں مختلف رنگوں کے کتنے ہی جوڑے تھے۔کنیز خوشی سے چہکتے ہوئے ہر جوڑے کو چھو کر دیکھنے لگی۔
                      ہر جوڑا شوخ رنگ کا انتہائی زیادہ خوبصورت اور مہنگا جوڑا معلوم ہوتا تھا۔کنیز نے جلدی سے دوسرے بیگز کو دیکھا جس میں اسکے لیے جوتوں کے تقریباً چار سے پانچ جوڑے تھے اور سب ہی بہت پیارے تھے۔کنیز نے کڑھائی والی ایک چپل پیر میں پہن کر دیکھی تو یہ جان کر حیران رہ گئی کہ وہ اسی کے ماپ کی تھی۔
                      کنیز کا ہاتھ بے ساختہ طور پر تیسرے شاپر کی جانب گیا جس میں دو ڈبے تھے۔پہلا ڈبہ کھولنے پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ اس میں سادہ سی رنگ برنگی چوڑیاں تھیں۔
                      "ہائے اور ربا سائیں جی نے یہ سب میرے لیے لایا ہے۔۔۔۔"
                      کنیز نے دوسرا ڈبہ پکڑا جو کافی چھوٹا سا تھا۔اسکو کھول کر کنیز کے ماتھے پر بل آئے۔وہ اس میں موجود چھوٹی سی ڈبیہ کا مقصد سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
                      لیکن جب اس نے اس ڈبیہ کو کھولا تو اس ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
                      "سائیں جی میرے لیے سرمہ بھی لائے ہیں۔۔۔"
                      کنیز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جاتی۔اس لیے جلدی سے اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے گئی اور وہ کاجل جسے وہ سرمہ سمجھ رہی تھی آنکھوں میں لگا کر مسکراتے ہوئے خود کو دیکھنے لگی۔
                      پھر اس نے نیلے رنگ کا ایک جوڑا پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا تو اسکی مسکان گہری ہو گئی۔
                      "اللہ میاں جی سائیں جی تو بہت اچھے ہیں بلکہ وہ سب سے اچھے شوہر ہیں۔۔۔۔"
                      کنیز نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔وہ معصوم تو یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ بس ایک قطرہ پا کر اتنی خوش ہو رہی تھی جبکہ خدا نے تو اسے پورا دریا سونپا ہوا تھا بس اس دریا تک پہنچنے کے لیے اس معصوم کو انگاروں پر سے گزرنا تھا۔
                      ????
                      آج عرشمان اور آن کی مائوں کی رسم تھی اور اس غرض سے حویلی کو پوری طرح سے سجایا گیا تھا۔باہر سے حویلی میں اتنی لائٹنگ کی گئی تھی کہ رات میں وہ دمکتی ہوئی دور دور گاؤں تک نظر آ رہی تھی اور اندر سے بھی حویلی کو پیلے اور سفید پردوں کے ساتھ ساتھ پھولوں اور دیوں سے سجایا جا رہا تھا۔
                      عرشمان خود اپنی نگرانی میں وہ سجاوٹ کروا رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ آن اپنی زندگی کہ اس خاص موقع کو کبھی نہ بھولے۔آن کو یاد کر کے عرشمان کے ہونٹوں پر تبسم چھا گیا۔
                      اسے ہر وہ لمحہ یاد آنے لگا جو اس نے آن کے ساتھ گزرا تھا۔بچپن میں بھی نہ تو وہ اسے سلطان کے ساتھ کھیلنے دیتا اور نہ ہی عزم کے ساتھ بس اسے خود سے ہی جوڑے رکھتا تھا۔
                      اسکے ساتھ اسکی گڑیوں سے کھیلا کرتا تھا اور اسکی پونیاں بھی خود ہی کرتا تھا۔عرشمان کو یاد تھا کہ اسکی چچی یہی کہتی تھیں کہ انہیں آن کو سنبھالنا ہی نہیں پڑتا ان کا آدھا کام تو عرشمان کر دیتا ہے۔
                      وہ سب یاد کر کے عرشمان کے ہونٹ مسکرا دیے۔اب وہ اپنے عشق کی معراج پر تھا۔اسے جیت کر اپنے دشمنوں کے سامنے فتح یاب ہونے والا تھا۔
                      اس نے سوچا تھا کہ گھر والوں سے بات کر کے آن سے اپنا نکاح پہلے ہی کروا لے لیکن وہ آن کو یہ نہیں دیکھانا چاہتا تھا کہ اسے ان کی محبت کی طاقت پر بھروسہ نہیں وہ جانتا تھا کہ ان کی محبت میں اتنی طاقت ضرور تھی کہ وہ محبت فتح یاب ہوتی۔وہ جس نے اپنی ہر دعا میں بس آن کو مانگا تھا اسکا خدا کیسے اس سے آن کو چھین سکتا تھا۔
                      "صاحب جی یہ پھول کہاں پر لگاؤں۔۔۔۔؟"
                      ایک آواز پر عرشمان کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔عرشمان نے اردگرد کا جائزہ لیتے ہو ایک جانب اشارہ کیا تو وہ آدمی اس طرف چلا گیا۔عرشمان وہاں سے جانے لگا تو اسکا دھیان لیزا پر گیا جو ٹراؤزر شرٹ پہنے اور بالوں کا اونچا جوڑا بنائے اسی جانب آ رہی تھی۔
                      لیزا کو دیکھتے ہی عرشمان کی آنکھوں میں نفرت اتری تھی جبکہ عرشمان کو دیکھ کر اس نے موبائل ٹروزار کی جیب میں رکھا اور اسی کی جانب آ گئی۔
                      "اوہ تو خوب تیاریاں چل رہی ہیں شادی کی۔۔۔۔"
                      لیزا نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا۔عرشمان کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر بھی وہ اس کے قریب ہوئی تھی۔
                      "تم بس چار دن کی مہمان ہو یہاں تو بہتر ہے کہ مہمان بن کر رہو۔۔۔۔"
                      عرشمان کی بات پر لیزا کے ہونٹ مسکرا دیے۔
                      "سوچ لو مسٹر بیڈ بوائے تم چاہو تو میں بخوشی ہمیشہ کے لیے یہاں رہ سکتی ہوں۔"
                      لیزا تھوڑا اور قریب ہوئی تو عرشمان بے ساختہ اس سے دور ہو گیا۔
                      "ابھی بھی وقت ہے سوچ لو اس سے بہتر آپشن ہوں میں۔۔۔۔"
                      لیزا نے ایک آنکھ دبا کر کہا جبکہ اسکی حرکت پر عرشمان کا دل کر رہا تھا ایک تھپڑ اسکے منہ پر مار دے۔
                      "بہتر تمہارے لیے یہی ہے کہ میرے سامنے مت آنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"
                      عرشمان کی دھمکی پر لیزا نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔
                      "میں تو پورے جلوے سے سامنے آؤں گی بیڈ بوائے اور دیکھوں گی کہ تم میں کتنی ہمت ہے تمہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ لیزا ملک سے نظریں ہٹا پانا اتنا آسان کام نہیں۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر لیزا نے اپنی دو انگلیاں ہونٹوں سے لگائیں اور انہیں عرشمان کی جانب کرتی وہاں سے چلی گئی۔جبکہ اسکے اتنے شانت روئے پر عرشمان حیران تھا۔اسے تو لگا تھا وہ گھر آ کر خوب واویلا کرے گی۔
                      اور تو اور اس نے اتنے دونوں سے عزم کو بھی نہیں دیکھا تھا جیسے کہ اسے ان کی شادی کی خبر ہی نہ ہو۔لیزا اور عزم کی یہ خاموشی عرشمان کو حیران کر رہی تھی۔کاش وہ جانتا کہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔
                      ????
                      "ماشاءاللہ باجی آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔۔۔۔"
                      کنیز کے ایسا کہنے پر پیلے جوڑے اور پھولوں کے زیور سے سجے ہوئے آن نے ایک نگاہ اپنے آپ کو آئنے میں دیکھا اور پھر شرما کر خود ہی نظر جھکا گئی۔اسے تو اب بھی یہ ایک خواب ہی لگ رہا تھا کہ اپنی پہلی سانس سے اس نے جس کو چاہا تھا وہ اسکی ہونے کو تھی۔
                      "تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"
                      آن نے کنیز کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو خود بھی ہلکے سے پیلے جوڑے میں ملبوس آنکھوں میں گہرا کاجل سجائے اور کلائیوں میں پیلی چوڑیاں پہنے سادگی میں بھی کوئی حور لگ رہی تھی۔آن کی بات پر کنیز نے بے ساختہ اپنی قمیض کو چھوا۔
                      "سائیں جی نے لا کر دیا سب مجھے۔۔۔۔"
                      کنیز کے شرما کر کہنے پر آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔کہیں وہ معصوم سلطان کے حسن سلوک پر اس سے دل تو نہیں لگا بیٹھی تھی اگر ایسا ہوتا تو اس کا وہ دل بہت بری طرح سے ٹوٹنے والا تھا کیونکہ سلطان انابیہ کا مقدر تھا۔
                      خدایا بس یہ میرا وہم ہی ہو یہ لڑکی محبت کے روگ کے لیے بہت زیادہ معصوم ہے۔۔۔۔
                      آن نے دل میں ہی دعا مانگی۔کنیز اب اماں بی کے حسن سلوک سے بہت زیادہ خوش رہنے لگی تھی اور آن چاہتی تھی کہ وہ ایسے ہی مسکراتی رہے۔اس سے پہلے وہ کنیز سے کچھ کہتی کسی کے کھانسنے کی آواز پر دونوں کا دھیان دروازے کی جانب گیا جہاں شاہد صاحب کو کھڑا دیکھ کر آن نے فوراً اپنا دھیان واپس آئینے کی جانب کر لیا اور کنیز وہاں سے چلی گئی۔
                      اتنے عرصے سے وہ شاہد صاحب کو مکمل نظر انداز کرتی آئی تھی اور شاہد صاحب نے بھی اس سے بات کرنے میں زبردستی نہیں کی شائید وہ اس سے غافل رہنے پر شرمندہ تھے۔
                      "ماشاءاللہ پیاری لگ رہی ہو خدا تمہاری خوشیوں کو نظر بد سے بچائے۔"
                      شاہد صاحب نے آن کے قریب آتے ہوئے کہا لیکن آن نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔
                      "بیٹا جانتا ہوں جو میں نے کیا وہ بہت غلط تھا اپنے باپ ہونے کا ایک فرض میں نے پورا نہیں کیا اور یقین جانو اپنے اس فیصلے پر بہت زیادہ پچھتایا ہوں میں۔۔۔۔"
                      شاہد صاحب نے آن کو آئنے میں دیکھتے ہوئے کہا جبکہ آن تو بس مردہ آنکھوں سے انہیں دیکھتے جا رہی تھی۔
                      "میں اس قابل تو نہیں پھر بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔"
                      شاہد صاحب نے اپنے ہاتھ جوڑ کر نم آنکھوں سے کہا لیکن آن نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے اضطراب سے اسے دیکھا۔
                      "بیٹا کچھ تو کہو۔۔۔؟"
                      "کیا کہوں؟"
                      آن نے سنجیدگی سے پوچھا تو شاہد نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگے۔
                      "کچھ بھی غصہ کرو مجھ پر،لڑ لو مجھ سے کچھ بھی کہہ لو بس ایک بار بات تو کر لو۔۔۔۔"
                      شاہد کی بات پر آن کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔
                      "کس حق سے لڑوں آپ سے،کس حق سے غصہ کروں آپ پر۔جس اولاد نے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں والی زندگی گزاری ہو،ہر لمحہ یہ طعنہ برداشت کیا کہ میرے باپ کو ہی میری ضرورت نہیں سکول میں جب کوئی مجھ سے پوچھتا کہ میرے بابا کہاں ہیں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔۔۔"
                      آن نے مردہ آنکھوں سے انکی جانب دیکھا۔
                      "مجھے اب آپ کے بغیر جینے کی عادت ہو گئی ہے۔اب آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر میرے معاف کر دینے سے آپ کو سکون ملتا ہے تو جائیں آپ کو معاف کیا۔۔۔۔"
                      آن کی بے مروتی پر شاہد کا دل کٹ کے رہ گیا لیکن وہ اسی کے قابل تھے۔
                      "ہو سکے تو مجھے دل سے معاف کر دینا بیٹا بس تم ہمیشہ خوش رہو میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔کوشش کروں گا کہ کبھی باپ ہونے کا حق ادا کروں جو میں آج تک نہیں کر پایا۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر شاہد نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے آنسو پونچھتے وہاں سے چلے گئے۔جبکہ انکے جاتے ہی آن کے گلے میں بندھی آنسؤں کی گٹھری آزاد ہوئی اور بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر اسکی ہتھیلی کو بھگونے لگے۔
                      دروازہ کھٹکنے کی آواز پر آن نے اپنے آنسو پونچھے اور اندر آنے کی اجازت دے دی۔ایک ملازمہ جس نے اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپایا ہوا تھا جوس کا گلاس لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
                      "بی بی جی یہ آپ کے لیے۔۔۔۔"
                      آن نے حیرت سے اس جوس کے گلاس کو دیکھا۔
                      "لیکن میں نے تو یہ نہیں منگوایا تھا۔۔۔"
                      آن کی بات پر وہ ملازمہ تھوڑا اضطراب میں آ گئی۔
                      "وہ بی بی جی یہ عرشمان صاحب نے آپ کے لیے بھیجا ہے کہہ رہے تھے لوگ بہت ہیں اور گرمی بھی ہے آپ کو گھبراہٹ ہو گی اس لیے۔۔۔۔"
                      ملازمہ کی بات پر آن کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔عرشمان اسکی کتنی پرواہ کرتا تھا۔اسکی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتا تھا۔آن کے اثبات میں سر ہلانے پر ملازمہ وہاں سے چلی گئی اور آن نے وہ گلاس پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
                      دروازے کے پیچھے سے چھپ کر آن کو وہ جوس پیتے دیکھ ملازمہ نے اپنے پاس چھپایا ہوا موبائل نکالا اور فون ملا کر موبائل کان سے لگا لیا۔
                      "چوہدری جی کام ہو گیا جیسا آپ نے کہا تھا بالکل ویسا۔۔۔۔"
                      ملازمہ نے ہلکی سی سرگوشی کی۔
                      "شاباش۔تمہیں اس کا بہت بڑا انعام ملے گا میں حویلی کی پچھلی طرف تمہارا انتظار کر رہا ہوں جیسا کہا تھا ویسا کرو۔۔۔۔۔"
                      وہ عزم کی آواز میں چھپی مسکراہٹ محسوس کر سکتی تھی۔اس نے فون بند کر کے واپس چھپا لیا اور ایک نظر آن کو دیکھا جو اپنا چکراتا ہوا سر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھی اور اسکے دیکھتے ہی دیکھتے بے ہوش ہو کر سامنے موجود ڈریسنگ پر گر گئی۔
                      ملازمہ نے جلدی سے اسکے پاس جا کر اسے ایک چادر سے چھپایا اور دھڑکتے دل کے ساتھ اسے اپنے ساتھ لگا کر سب کی نظروں سے بچتے ہوئے پچھلے دروازے کی جانب چل دی۔حویلی کی پچھلی جانب کا وہ دروازہ کھول کر وہ آن کو باہر لائی تو نظر وہاں کھڑی کالی پراڈو اور اسکے باہر کھڑے دو آدمیوں پر پڑی۔
                      "سب باہر تقریب میں مصروف ہیں انہیں پیچھے کے راستے سے لے جاؤ اور دھیان رکھنا کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہو اگر تو کسی کو پتہ لگ گیا ناں کہ تم لوگ اپنا انجام سوچ نہیں سکتے۔۔۔"
                      ایک آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور آن کو پکڑنا چاہا لیکن تبھی ایک مظبوط ہاتھ اسکی کلائی تھام گیا اور دو آنکھوں نے اسے بری طرح سے گھورا۔
                      "ایسا سوچنا بھی مت۔۔۔۔"
                      عزم نے اتنا کہہ کر اسکا ہاتھ چھوڑا اور آن کا بے جان وجود اپنی باہوں میں لے کر مسکرا دیا۔اسکی جیت اور عرشمان ملک کی بربادی دونوں اسکی آغوش میں تھیں۔
                      "بولا تھا ناں کہ تم میری ہو گی دیکھ لو چرا لیا میں نے تمہیں اس سے۔۔۔۔"
                      عزم نے اسکے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر کہا اور اسے باہوں میں اٹھاتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گیا۔اسکے ایسا کرتے ہی دونوں آدمی بھی گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے چلے گئے۔
                      انکے جاتے ہی ملازمہ نے شکر ادا کیا اور واپس حویلی میں داخل ہو گئی۔وہ بس یہ دعا کر سکتی تھی کہ فلحال عرشمان ملک کو اس بات کی خبر نہ ہو کہ اسکی ہونے والی بیوی کو عزم چوہدری اس سے چرا کر لے جا چکا تھا۔
                      ????

                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                      #زندگی_اے_تیرے_نال
                      #قسط_نمبر_12



                      آن کو ہوش آیا تو پہلے تو اپنے چکراتے سر کی وجہ سے آنکھیں ہی نہیں کھول پائی پھر ہر چیز جیسے یاد آنے پر اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور سہم کر اردگرد دیکھنے لگی۔
                      اس وقت وہ ایک شاندار سے کمرے میں بیڈ پر لیٹی تھی۔اپنے بھاری ہوتے سر کو نظر انداز کرتی وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے کے پاس جا کر اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔
                      خود پر پہنے پیلے جوڑے کو دیکھ کر اسکی پلکیں نم ہو گئیں۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اگر وہ گھر والوں کو نہ ملی تو کیا ہو گا۔عرشمان تو اسے وہاں نہ پا کر پاگل ہو جائے گا۔
                      یہ سب سوچ کر آن بہت زیادہ بے چین ہو چکی تھی اسی لیے دروازے کو پوری طاقت سے کھٹکھٹانے اور جھنجھوڑنے لگی۔
                      "کھولو دروازہ۔۔۔۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں کھولو۔۔۔۔"
                      آن روتے ہوئے چلانے لگی۔وہ بس کسی بھی طرح سے یہاں سے جانا چاہتی تھی۔شائید اسکے چلانے کا اثر ہوا تھا اور وہاں کوئی آیا تھا۔دروازے کے ہینڈل کو ہلتا دیکھ آن ڈرتے ہوئے پیچھے ہوئی اور اپنی حفاظت کے لیے کسی شے کو ڈھونڈنے لگی۔
                      "او تو ہوش میں آ گئی تم اچھا ہے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔۔"
                      اس گھمبیر آواز پر آن نے حیرت سے دروازے کی جانب دیکھا جہاں عزم کھڑا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔پھر وہ کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔
                      "ت۔۔۔۔تم۔۔۔۔عزم یہ سب تم نے۔۔۔۔؟"
                      آن حیرت سے پوچھنے لگی۔اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ عزم اس حد تک گر جائے گا۔
                      "ہاں ڈاکٹرنی جی میں اور کسی میں ہو سکتی ہے بھلا اتنی جرات؟"
                      عزم اتنا کہہ کر آن کے قریب ہوا لیکن آن دو قدم پیچھے ہو کر اس سے دور ہو گئی۔
                      "کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں۔۔۔۔؟"
                      آن کے سوال پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
                      "پانی والا پائپ بند ہو گیا ہے وہ کھلوانے۔۔۔
                      ارے شادی سے اٹھا کر لایا ہوں تمہیں تو اسکا ایک ہی مقصد ہو گا ناں۔۔۔۔"
                      عزم پھر سے آن کے قریب ہوا تو آن نے پھر سے دور ہونا چاہا لیکن اس بار عزم اسکی کہنی پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روک گیا۔
                      "تمہیں حاصل کرنا میرا مقصد ہے آن ملک تمہیں اس کے مقدر سے چھین کر اپنا مقدر بنانا ہے مجھے۔۔۔۔۔اسکی خوشی سے اپنا دامن مہکانا مقصد ہے میرا۔۔۔۔"
                      عزم کی بات پر آن کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
                      "پپپ۔۔۔۔پاگل ہو گئے ہو کیا یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔"
                      آن صدمے سے چلائی لیکن عزم بے پروا سا بس اسے دیکھ رہا تھا۔
                      "وہی آن جو سچ ہے محبت کرتا ہوں میں تم سے اور تمہیں پا کر اپنی اس محبت کو امر کر دوں گا۔۔۔۔"
                      آن کے انکار میں سر ہلانے پر عزم کے لب مسکرا دیے۔
                      "ایسا ہی ہو گا ڈاکٹرنی جی۔۔۔ابھی نکاح خواں یہاں آئے گا اور ہمارا نکاح پڑھوائے گا پھر تمام خوشیاں اور چہچہاہٹ میری حویلی میں ہو گی اور اسکی حویلی میں ماتم صرف ماتم۔۔۔۔"
                      عزم نے جنون سے کہا اور آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔یہ وہ شخص تو بالکل ہی نہیں تھا جسے وہ بچپن سے جانتی تھی۔
                      "تمہیں یہ سب محبت لگتی ہے عزم چوہدری۔۔۔۔؟محبت لفظ کا مطلب بھی معلوم ہے تمہیں؟"
                      آن کے سوال پر عزم نے جنون سے اسکی جانب دیکھا۔
                      "تم اسے جو بھی سمجھو میرے لیے یہ محبت ہے اور اس بار میں اپنی محبت کو پا کر ہی دم لوں گا۔۔۔۔"
                      عزم نے شدت سے کہا لیکن آن کی آنکھوں میں افسوس دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا۔
                      "افسوس ہو رہا مجھے تم پر عزم چوہدری۔۔۔اس بات پر افسوس ہو رہا ہے کہ تم میرے ماموں جیسے عزیم شخص کی اولاد ہو۔۔۔۔"
                      اپنے باپ کے ذکر پر عزم آنکھیں سکیڑ کر آن کو دیکھنے لگا۔
                      "یہ محبت نہیں بس تمہاری ضد اور جنون ہے جس میں تم اتنے اندھے ہو چکے ہو کہ اچھے برے کی تمیز ہی بھول گئے۔۔۔۔"
                      آن نے غصے سے عزم کی جانب دیکھا جو ابھی بھی اسے جنونیت سے گھورنے میں مصروف تھا۔
                      "یہ کیسی محبت ہوئی جو اپنے محبوب کی عزت آبرو کسی کی پروا نہ کرے۔۔۔۔؟ تم نے ایک بار بھی سوچا کہ تمہاری اس حرکت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔۔۔۔؟"
                      آن نے غصے اور نفرت سے اسکی جانب دیکھا اور عزم حیرت سے بس اسکی آنکھوں میں اپنے لیے اس نفرت کو دیکھ رہا تھا۔
                      "زندگی بھر ہر کوئی میرے کردار کو نشانہ بنائے گا۔۔۔۔میں چیختی رہ جاؤں گی کہ میں اپنی مرضی سے نہیں گئی تھی مجھے تم زبردستی لے کر گئے لیکن کوئی میرا یقین نہیں کرے گا کیونکہ اس معاشرے میں غلطی ہمیشہ عورت کی ہی ہوتی ہے عزم چوہدری۔۔۔۔"
                      آن نے غصے سے کہا اور عزم بس بت بنا اسکی بات سن رہا تھا۔
                      "جس لڑکی سے تم محبت کا دعوہ کرتے ہو وہ کبھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہے گی۔اسکا کردار اسکی عزت ہمیشہ کے لیے داغدار ہو جائے گی۔۔۔۔کیا یہ ہے تمہاری محبت۔۔۔۔۔؟"
                      آن کے سوال کا عزم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔عزم کی خاموشی دیکھ کر آن نے اپنا بازو چھڑوا لیا اور اس سے دور ہوئی۔
                      "نہیں عزم چوہدری یہ محبت نہیں بس محبت کے لبادے میں لپٹی ضد ہے کیونکہ محبوب مر جاتا ہے لیکن اپنے عشق کی لاج پر آنچ نہیں آنے دیتا۔۔۔۔"
                      آن نے بے دردی سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو پونچھے۔
                      "محبت وہ ہے عزم چوہدری جو میرا مان مجھ سے کرتا ہے،محبت وہ ہے جو میں اپنے مان سے کرتی ہوں۔۔۔۔۔"
                      عزم اسکی آنکھوں میں عرشمان کے لیے محبت نہیں بلکہ بے پناہ عشق دیکھ سکتا تھا۔
                      "آزمانہ ہے اس محبت کو تو آزما لو بلاؤ میرے مان کو یہاں اور اس سے کہو کہ تم نے مجھے داغ دار کر دیا لیکن دیکھنا وہ پھر بھی مجھے اپنائے گا کیونکہ اسکی محبت سچی ہے اور تمہاری نہیں۔۔۔۔۔"
                      آن چلائی اور عزم بس خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ آن نے اپنے الفاظ سے اسکے ہونٹ سی دیے ہوں۔
                      "تم نے ایسا کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ روز قیامت اپنی پھپھو کو کیا جواب دو گے ۔انکی بیٹی سے ایسی محبت کی تم نے کہ اسے معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔"
                      اس بات پر عزم نے لال ہوتی آنکھوں سے آن کو دیکھا جو زارو قطار روتے ہوئے یہ بات کہہ رہی تھی۔
                      "اپنے بابا کو کیا جواب دو گے عزم کہ انکی بہن کی نشانی سے اسکی تمام خوشیاں چھین کر زبردستی اپنا دامن بھرنا چاہا۔۔۔"
                      دو آنسو عزم کی پلکوں پر ٹھہر گئے۔آن جانتی بھی نہیں تھی وہ اپنے الفاظ سے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے توڑ رہی تھی۔
                      "میں تم سے محبت نہیں کرتی۔۔۔میں اپنے مان سے محبت کرتی ہوں میں اسکے بغیر کبھی خوش نہیں رہوں گی خدارا اس بات کو سمجھو اور مجھے یہاں سے جانے دو۔۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر آن نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
                      "اپنی پھپھو کی عزت کی خاطر مجھے جانے دو یہاں سے میں تم سے بھیک مانگتی ہوں۔۔۔۔"
                      عزم کی پلکوں پر ٹھہرے آنسو بہہ کر اسکے گالوں پر گرے۔وہ بے بسی سے آن کو دیکھنے لگا جو زمین پر بیٹھے رو رہی تھی۔
                      "یہ محبت نہیں ہے عزم خدارا اپنی ضد کو اس پاک جذبے کا نام دے کر بدنام مت کرو ورنہ تم جیسے لڑکوں کی وجہ سے ہر لڑکی کا محبت نام کے لفظ سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔۔۔۔"
                      آن نے آنسوؤں سے تر شکوہ کناں نگاہیں اٹھا کر عزم کو دیکھا۔
                      "اس کا احساس تمہیں اس دن ہو گا جس دن تمہیں کسی سے سچی محبت ہو گی تب تمہیں پتہ چلے گا عزم کہ ہماری محبت کی عزت ہمیں اپنی عزت،جان ہر ایک چیز سے بڑھ کر ہوتی ہے۔۔۔اس دن تمہیں احساس ہو گا کہ محبت کس جزبے کا نام ہے۔۔۔۔۔"
                      عزم نے مردہ آنکھوں سے آن کی جانب دیکھا۔
                      "اگر ابھی بھی تمہیں عرشمان سے انتقام کی ضد کو اپنی محبت کہنا ہے تو میری جان لے کر کہیں پھینک دو مجھے کیونکہ اپنے مان کا سر لوگوں کے سامنے جھکتا دیکھنے سے پہلے میں مرنا پسند کرو گی۔۔۔مار دو مجھے عزم میری عزت کا تماشا بنانے سے پہلے مار دو مجھے۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر آن پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی اور عزم اپنی مٹھیاں بھینچتا کمرے سے باہر چلا گیا۔باہر آ کر اس نے غصے سے چیخ کر اپنا ہاتھ دیوار پر مارا۔آن کی باتوں سے اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی اس نفرت سے بھی کہیں زیادہ نفرت جو وہ عرشمان سے کرتا تھا۔
                      ????
                      "ماشاءاللہ بہت زیادہ اچھے لگ رہے ہو بیٹا۔۔۔۔"
                      اماں بی نے عرشمان کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔سفید رنگ کی شلوار قمیض پر پیلی چنری گلے میں ڈالے وہ سچ میں قابل دید لگ رہا تھا۔یا شائید یہ محبت کو پانے کی خوشی تھی جو ہر انسان کو ہی انوکھا روپ عطا کرتی ہے۔
                      "بس ہم دونوں کے لیے دعا کریے گا اماں بی کہ ہماری محبت کو کسی کی نظر نہ لگے۔بہت سی سیاہ نظروں میں ہم دونوں کا پیار۔۔۔"
                      عرشمان نے جتلاتی نظروں سے شاہد صاحب کو دیکھا جو اماں بی کے ساتھ کھڑے تھے۔
                      "پریشان مت ہو بیٹا اگر تم دونوں کے جزبات سچے اور کھرے ہیں تو اللہ تعالیٰ تم دونوں کے حامی و ناصر ہوں گے ان شاءاللہ۔"
                      اماں بی نے عرشمان کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا تو عرشمان اطمینان سے مسکرا دیا۔اسکے بزرگوں کی دعائیں ہی اسکے لیے سب کچھ تھیں۔
                      "ارے اب چلتے ہیں مہمان کب سے انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔"
                      فرحین بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو عرشمان نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
                      "انابیہ جاؤ لڑکیوں کے ساتھ جاؤ اور آن کو لے کر آؤ۔۔۔۔"
                      فرحین بیگم کے حکم پر انابیہ جو دور کھڑے سلطان کو کسی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی منہ بنا کر وہاں سے چلی گئی۔
                      "اب کل مہندی ہے اور پرسوں بارات بس دعا کرتی ہوں سب خیر خیریت سے ہو جائے۔۔۔نہ جانے کیوں دل گھبرا رہا ہے میرا۔۔۔۔"
                      فرحین بیگم نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
                      "فرحین اچھا سوچو سب بہتر ہو گا۔۔۔۔"
                      اماں بی نے فرحین کو ٹوکا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکی ہمراہی میں باہر لان کی جانب جانے لگیں جہاں سب مہمان ان لوگوں کا انتظار کر رہے تھے۔
                      "خالہ۔۔۔۔خالہ آن اپنے کمرے میں نہیں ہے۔۔۔۔"
                      انابیہ نے وہاں آتے ہی کہا تو سب کے اوسان خطا ہو گئے۔
                      "یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟"
                      عرشمان غصے سے چلایا اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔
                      "سچ کہہ رہی ہوں عرشمان بھائی کمرے اور واش روم دونوں میں نہیں ہے وہ۔۔۔"
                      عرشمان کو لگ رہا تھا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا اگر ایک پل کے لیے بھی اس نے آن کو نہ دیکھا تو اسکی سانسیں رک جائیں گی۔
                      "دیکھا مجھے پہلے ہی لگ رہا تھا کہ کچھ غلط ہو گا۔۔۔۔میں کہتی تھی ناں اماں بی بیٹی ماں پر ہی جاتی ہے نا جانے کہاں ۔۔۔۔"
                      "فرحین۔۔۔۔"
                      اماں بی نے چلا کر فرحین کو مزید کچھ بولنے سے ٹوکا۔
                      "بولنے سے پہلے کچھ سوچا تو کرو کم از کم۔۔۔۔اگر کمرے میں نہیں ہے تو کہیں اور ہو گی سب حویلی میں ڈھونڈو اسے آخر کہاں جائے گی وہ۔۔۔۔"
                      اماں بی کے ایسا کہنے پر شاہد نے اثبات میں سر ہلایا اور بے چینی کے عالم میں وہاں سے چلے گئے۔جبکہ عرشمان کو تو اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا مشکل لگ رہا تھا۔
                      "عرشمان بیٹا فکر مت کرو یہیں کہیں ہو گی وہ۔۔۔۔"
                      اماں بی کے ایسا کہنے پر عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا۔ہاں وہ یہیں کہیں ہو گی بھلا آن عرشمان سے دور کیسے جا سکتی تھی۔عرشمان فوراً وہاں سے چلا گیا اور آن کو ڈھونڈنے لگا۔کچھ کی دیر میں وہ حویلی کا چپہ چپہ ڈھونڈ چکے تھے لیکن آن کی کوئی خبر نہیں تھی اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عرشمان کو لگ رہا تھا کہ کوئی اسکے جسم سے اسکی جان نکال رہا ہو۔
                      مایوس ہو کر جب سب واپس ہال میں آئے تو فرحین بیگم منہ بنا کر سب کو دیکھنے لگیں۔
                      "دیکھا دیا ناں اس نے اپنا اصلی رنگ اسی دن سے ڈرتی تھی میں جانتی تھی یہ لڑکی میرے عرشمان کے قابل نہیں اسے برباد کر دے گی۔دیکھ لیں نکلی ناں اپنی ماں کی طرح گھٹیا۔۔۔۔"
                      "بس امی۔۔۔۔۔"
                      عرشمان کے چلانے پر سب حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔
                      "میری آن کے بارے میں کچھ بھی مت کہیے گا خود سے زیادہ بھروسہ ہے مجھے اس پر۔۔۔"
                      عرشمان کے الفاظ میں ہی نہیں اسکی آنکھوں میں بھی اس اعتبار کو فرحین بیگم نے چبھتی نگاہوں سے دیکھا۔
                      "اس سب کے بعد بھی عرشمان تمہیں اس پر بھروسہ ہے؟کس مٹی کے بنے ہو تم تمہیں سمجھ نہیں آ رہا کہ۔۔۔۔"
                      "آن۔۔۔۔"
                      اماں بی کی آواز پر سب نے فوراً انکی نظروں کے تعاقب میں دروازے کی جانب دیکھا جہاں آن کھڑی سہمی نگاہوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔آن کو دیکھ کر عرشمان کو لگا کہ اسکی رکی سانسیں بحال ہو گئی ہوں۔بغیر سوچے سمجھے یا کسی کی پرواہ کیے وہ آن کے پاس آیا اور اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔عرشمان کی محبت پر آن کے کب سے روکے ہوئے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے۔
                      "تم ٹھیک تو ہو کہاں تھی تم؟"
                      عرشمان اس سے دور ہوا اور اسکے ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا جیسے کہ یقین کرنا چاہ رہا ہو کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔
                      "مان وہ۔۔۔"
                      "آن بیٹا کہاں تھی تم ہم سب کتنا پریشان ہو گئے تھے۔۔۔۔"
                      اماں بی نے آن کے پاس آ کر کہا تو آن سب کو دیکھ کر عرشمان سے دور ہوئی اور خود پر ضبط باندھنے لگی۔
                      "اماں بی۔۔۔۔مان میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی،دم گھٹ رہا تھا تو میں چھت پر چلی گئی تھی۔۔۔۔۔سوری مجھے آپ کو بتا کر جانا چاہیے تھا ۔۔۔۔"
                      آن نے سر جھکا کر کہا لیکن وہ سچ بھی تو نہیں بتا سکتی تھی کیونکہ سچ سب برباد کر دیتا۔
                      "کوئی بات نہیں بیٹا بس ہم سب کافی پریشان ہو گئے تھے۔۔۔۔پھر کبھی ایسا ہو تو کسی کو بتا ضرور دینا۔۔۔۔"
                      آن نے اثبات میں سر ہلایا۔
                      "اب کیسی طبعیت ہے تمہاری۔۔۔۔"
                      اماں بی کے پوچھنے پر آن نے ایک نظر عرشمان کو دیکھا جو اسے کسی شبے نہیں بس فکر مندی سے دیکھ رہا تھا۔ہاں اس نے عزم کو جو کہا تھا وہ سب سچ تھا اسکا مان اسے اپنی جان اور عزت ہر چیز سے بڑھ کر چاہتا تھا۔
                      "اب کافی بہتر ہوں۔۔۔۔"
                      اماں بی نے ہاں میں سر ہلایا۔
                      "انابیہ اسے اسکے کمرے میں چھوڑ آؤ تھوڑا خود کو ترو تازہ کر لے تب تک ہم مہمانوں کے درمیان چلتے ہیں دیر ہونے کی وجہ سے بے چین ہو رہے ہوں گے۔۔۔۔"
                      عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا تو انابیہ آن کو وہاں سے لے گئی۔اپنے کمرے میں آ کر آن نے ایک نظر خود کو آئنے میں دیکھا۔آج اسکی زندگی برباد ہوتے ہوتے بچی تھی۔عزم کے کمرے سے باہر جانے پر اس نے سوچا کہ وہ عزم کو قائل نہیں کر سکی۔وہ بھی جانتی تھی کہ وہ کچھ بھی کر لیتی نہ عزم اسے وہاں سے بھاگنے دیتا اور نہ ہی وہ اسکا مقابلہ کر پاتی۔اس لیے وہ ہار مان کر اپنے گھٹنوں میں چہرہ دیے سسک سسک کر رونے لگی تھی لیکن تبھی عزم واپس کمرے میں داخل ہوا اور ایک چادر آن کی جانب بڑھائی۔
                      "مجھے معاف کر دو میں بہک گیا تھا اسے برباد کرنے کی ضد میں بھول گیا تھا کہ میں اس سے زیادہ تمہیں برباد کر رہا ہوں۔۔۔۔تم یہ خود پر اوڑھ کر باہر آ جاؤ جہاں سے تمہیں لایا تھا صیح سلامت وہیں واپس پہنچا دوں گا۔"
                      اتنا کہہ کر عزم کمرے سے باہر چلا گیا تھا اور آن فوراً چادر لے کر اسکے پیچھے آئی تھی۔سارا راستہ اس نے خاموشی سے گاڑی چلائی تھی اور پھر گاڑی ملکوں کی حویلی کے پچھلے دروازے کے پاس کھڑی کر دی۔
                      "تم آزاد ہو آن۔۔۔۔"
                      عزم کے ایسا کہنے پر آن نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔
                      "دعا کروں گی کہ خدا تمہارے حصے میں بھی کسی کی بے پناہ محبت اور خوشیاں لکھ دے۔۔۔۔۔"
                      آن کی بات پر عزم نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اسکی جانب دیکھا تھا۔
                      "تمہاری دعا قبول نہیں ہو گی کیونکہ خدا پہلے ہی میرے حصے کی محبت بھی عرشمان کے دامن میں ڈال چکا ہے۔۔۔۔۔اپنی زندگی میں خوش رہنا۔۔۔۔"
                      اتنا کہہ کر عزم نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور آن گاڑی سے نکل کر خاموشی سے حویلی میں داخل ہو گئی۔عزم کی مردہ آنکھوں میں وہ کرب اسے تکلیف پہنچا رہا تھا لیکن وہ کیا کرتی وہ اسکا مقدر نہیں تھی وہ بس اپنے مان کا مقدر تھی۔
                      ????
                      مایوں کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔آن اور عرشمان کو لان میں بنائے سٹیج پر بیٹھایا گیا تھا لیکن دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔عورتیں ڈھولک پر روایتی گانے گانے میں مصروف تھیں اور باہر مرد وہاں بجتے ڈھول پر بھنگڑا کرنے کے ساتھ ساتھ آتش بازی کرنے میں مصروف تھے۔
                      انہیں مہمانوں کے درمیان انابیہ کھڑی اپنے گھر والوں سے باتیں کر رہی تھی جو عرشمان کی شادی کے لیے آج ہی وہاں آئے تھے۔
                      "انابیہ وہ کون ہے؟"
                      اپنے بھائی ارحم کے پوچھنے پر انابیہ نے اسکی انگلی کے تعاقب میں دیکھا تو نظر کنیز پر پڑی جو بی اماں کے پاس کھڑی مسکراتے ہوئے اردگرد کی رونق کو دیکھ رہی تھی۔
                      "اماں بی کی ملازمہ ہے کیوں کیا ہوا؟"
                      انابیہ نے عام سے انداز میں پوچھا تو ارحم کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ آئی۔
                      "کافی خوبصورت ہے ۔۔۔ "
                      ارحم کی بات پر انابیہ نے گہرا سانس لیا۔
                      "بھائی کچھ الٹا مت کرنا سلطان زرا برداشت نہیں کرتے کہ کوئی ملازموں سے برا سلوک کرے ایسے میں تم لڑکیاں چھیڑو گے تو کیسے چلے گا۔۔۔۔"
                      ارحم نے منہ بسور کر انابیہ کی جانب دیکھا۔
                      "خالہ اور سلطان کے پیروں میں ہی کیوں نہیں بچھ جاتی تم ۔۔۔۔ بڑے خاندان میں منگنی کیا ہو گئی ہے تم تو ہم سب کو بھول ہی گئی ہو اپنے بھائی کا چھوٹا سا کام نہیں کر سکتی ۔۔۔۔"
                      "لیکن بھائی۔۔۔"
                      "دیکھو کچھ نہیں ہو گا بھروسہ رکھو تم بس ایک چھوٹا سا کام کر دو میرا باقی سب میں سنبھال لوں گا۔۔۔۔"
                      ارحم کی ضد کو دیکھتے ہوئے انابیہ نے گہرا سانس لیا۔
                      "کیا کروں ۔۔۔۔؟"
                      "بس اس ملازمہ کو اپنے کمرے میں بھیج دو زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔"
                      ارحم نے دانت نکال کر خباثت سے فرمائش کی تو انابیہ نے ہاں میں سر ہلایا۔لیکن اماں بی کے ہوتے ہوئے وہ بھلا انکی ملازمہ کو کیسے حکم دیتی لیکن یہ مسلہ بھی جلد ہی حل ہو گیا۔
                      فرحین بیگم اماں بی کو لے کر سٹیج پر آن کے پاس چلی گئیں اور انابیہ موقع دیکھ کر کنیز کے پاس آئی۔
                      "سنو لڑکی ۔۔۔۔"
                      انابیہ کے پکارنے پر کنیز نے فوراً اسکی جانب دیکھا۔
                      "جی باجی۔۔۔۔"
                      "جاؤ میرے کمرے میں پھولوں کے گجرے پڑے ہیں وہ لے کر آؤ۔۔۔۔۔"
                      انابیہ کے حکم دینے پر کنیز نے گھبرا کر اماں بی کی جانب دیکھا۔
                      "للل۔۔۔۔لیکن باجی سائیں جی نے کہا تھا میں بس اماں بی کے کام کروں کسی اور کے نہیں۔۔۔۔"
                      کنیز کی بات پر انابیہ نے آنکھیں سکیڑ کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔
                      "کون سائیں جی۔۔۔۔؟"
                      "وہ۔۔۔۔وہ جو اماں بی کے چھوٹے پوتے ہیں میں انکا نام کیسے لوں۔۔۔۔"
                      کنیز نے سر جھکا کر کہا جبکہ رخسار تو سلطان کے ذکر پر ہی دہک اٹھے تھے۔
                      "اوہ تو سلطان کی بات کر رہی ہو۔جانتی ہو میں کون ہوں میں سلطان کی فیانسے ہوں میرا حکم انکا حکم ہے تو جو کہا ہے ناں کرو۔۔۔۔"
                      انابیہ نے اترا کر کہا جبکہ کنیز اسکے حکم کو سلطان کا حکم سمجھتی اثبات میں سر ہلا کر حویلی کی جانب چلی گئی۔انابیہ کے اشارہ کرتے ہی ارحم بھی خباثت سے مسکراتے ہوئے اسکے پیچھے چلا گیا۔
                      انابیہ کے کمرے میں پہنچ کر کنیز نے ہر جگہ دیکھ لیا لیکن اسے گجرے کہیں نہیں ملے۔
                      "پتہ نہیں باجی نے کہاں رکھے ہیں گجرے میں ان سے پوچھ آتی ہوں۔۔۔۔"
                      کنیز اتنا سوچ کر مڑی اور مڑتے ہی وہ ایک سینے سے ٹکرا گئی تو بے ساختہ اسکے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی۔
                      "ششش۔۔۔۔ابھی چیخنے والا تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔۔۔۔"
                      ارحم نے اسکے معصوم چہرے کو غلیظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا جبکہ ایک انجان مرد کو دیکھ کر کنیز بری طرح سے سہم چکی تھی۔
                      "ممم۔۔۔۔مجھے جانے دیں صاحب جی مجھے کام ہے۔۔۔۔"
                      کنیز نے سہم کر کہا اور اس سے دور ہو کر وہاں سے جانا چاہا لیکن ارحم پھر سے آگے ہو کر اسکا راستہ روک گیا۔
                      "اتنی بھی کیا جلدی ہے تھوڑا دل بہلا دو میرا پھر چلی جانا۔۔۔۔"
                      ارحم نے اسکے سر پر موجود دوپٹے پر اپنا ہاتھ رکھا تو کنیز سہم کر اس سے دور ہونے لگی۔
                      "ارحم ۔۔۔۔۔"
                      اس سے پہلے کہ ارحم مزید کچھ کرتا سلطان کی رعب دار آواز پر ارحم فوراً کنیز سے دور ہوا اور گھبرا کر سلطان کو دیکھنے لگا جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے زندہ زمین میں گاڑ دے گا۔
                      "جج۔۔۔۔جی سلطان بھائی۔۔۔۔"
                      "میرے گھر میں موجود ہر لڑکی میری زمہ داری ہے اور میں بالکل گوارا نہیں کروں گا کہ تم ایسا کچھ کرو اس لیے آئندہ زرا محتاط رہنا۔۔۔۔"
                      سلطان نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا جبکہ اس نے خود کو ارحم کا وہ ہاتھ توڑنے سے کیسے روک رکھا تھا یہ وہی جانتا تھا۔
                      "جج۔۔۔۔جی بھائی۔۔۔۔"
                      ارحم اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور سلطان نے کنیز کو گھورا جو ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔
                      "کیا کرنے آئی تھی تم اکیلی یہاں جانتی ہو ناں سب باہر ہیں۔۔۔۔"
                      سلطان نے شکر ادا کیا کہ اسکی غیر موجودگی کو محسوس کر وہ اسے ڈھونڈنے آ گیا ورنہ یہاں جو ہوتا شائید اس پر سلطان سچ میں ارحم کی جان لے لیتا۔
                      "وہ۔۔۔۔۔وہ باجی نے گجرے لانے کا کہا تھا۔۔۔۔"
                      کنیز نے گھبراتے ہوئے کہا تو سلطان اسکے پاس آیا اور اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اونچا کیا۔سلطان کے حکم کے مطابق کنیز نے اپنی نظریں جھکا کر رکھیں تھیں۔
                      اسکے معصوم چہرے کو دیکھ کر سلطان کی پکڑ خود بخود اسکی ٹھوڈی پر سخت ہو گئی۔یہ لڑکی کیوں اسے ہر وقت اپنی جانب کھینچتی تھی۔آخر کیوں اس نے خود سے دور جانا اس قدر ناممکن بنایا ہوا تھا۔
                      "میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ اماں بی کے علاوہ تم کسی کی بات نہیں مانو گی پھر کیوں مانی تم نے اسکی بات۔۔۔۔؟"
                      سلطان کی سختی پر کنیز کا نازک وجود کانپ گیا اور اسکا یہ کانپنا سلطان کی نظروں سے چھپا نہیں رہا۔
                      "آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ورنہ سزا تمہاری یہ نازک جان جھیل نہیں پائے گی۔۔۔۔"
                      سلطان نے اپنے انگوٹھے سے اسکا نچلا لب سہلایا تو کنیز اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔سلطان کا دل کیا کہ ہر فاصلہ سمیٹ کر اپنے دل کا بہکا ارمان پورا کرتے ہوئے ان نازک لبوں سے اپنی پیاس بجھا لے لیکن وہ ایسا چاہ کر بھی وہ نہیں کر سکتا تھا۔
                      "آئندہ ایسا نہیں ہو۔۔۔۔"
                      سلطان نے حکم دے کر اسکی ٹھوڈی کو چھوڑا اور وہاں سے جانے لگا۔
                      "سائیں جی۔۔۔۔؟"
                      کنیز کے پکارنے پر سلطان نے پلٹ کر اسے دیکھا جو سر جھکائے وہاں کھڑی اضطراب سے اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔
                      "ہممم۔۔۔۔"
                      "فف۔۔۔فاس۔۔۔نہیں فاسنے۔۔۔سائیں جی یہ فاسنے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔؟"
                      کنیز کے سوال پر سلطان کے ماتھے پر بل آ گئے وہ فاسنے لفظ کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
                      "Fiance`؟"
                      سلطان نے درست لفظ کا اندازہ لگایا تو کنیز نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
                      "جی وہ۔۔۔۔وہ باجی نے کہا وہ آپکی فف۔۔۔یہی جو آپ نے بولا وہ ہیں یہ کیا ہوتا ہے سائیں جی؟"
                      کنیز کے معصومیت سے پوچھنے پر سلطان پھر سے احساس شرمندگی میں گھر چکا تھا۔اگر وہ اسے بتاتا کہ اسکا مطلب منگیتر ہوتا ہے تو اس معصوم پر کیا گزرتی۔
                      "دوست۔۔۔دوست کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔"
                      سلطان کو کچھ اور نہ سوجا تو یہی بول گیا جبکہ اسکی بات پر کنیز نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سر جھکا کر منہ بسور لیا۔
                      "کیا ہوا؟"
                      سلطان پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
                      "لڑکے لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتے سائیں جی گناہ ہوتا ہے توبہ کر لیں اللہ سے آپ۔۔۔۔"
                      کنیز کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی سلطان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔کیا کوئی آج کے زمانے میں بھی اس قدر معصوم اور سادہ ہو سکتا تھا۔وہ سچ میں آسمان سے آئی معصوم پری ہی تھی۔
                      "نہیں ہیں ناں اب آپ ان کے دوست۔۔۔۔؟"
                      سلطان کو خاموش دیکھ کر کنیز نے پوچھا۔
                      "نہیں۔۔۔۔"
                      سلطان کے جواب پر کنیز کے چہرے پر مسکراہٹ اور اطمینان آ گیا۔
                      "میں جو بھی ہوں دل سے بس اپنی پری کا ہوں۔۔۔۔۔"
                      سلطان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا جبکہ کنیز کے چہرے کی مسکراہٹ پھر سے غائب ہو چکی تھی اور اب وہ معصوم یہ سوچ رہی تھی کہ یہ پری کون تھی۔
                      ????
                      ملکوں کی حویلی میں خوشیوں کا شور اس قدر زیادہ تھا کہ اس سے کتنے فاصلے پر ہونے کے باجود اپنی سنسان حویلی کے سنسان کمرے میں لیٹا عزم اس شور کو سن سکتا تھا۔
                      ڈھول،پٹاخوں اور خوشیوں کی آواز سے اسے اپنی تنہائی سے نفرت ہو رہی تھی۔اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی۔جس خوشی کو اس نے عرشمان کے دامن سے چھینا تھا اسے پھر سے خود ہی اس کے دامن میں واپس ڈال آیا تھا۔
                      لیکن وہ بھی کیا کرتا آن نے سچ ہی تو کہا تھا اسکی اس حرکت پر اسکی ذات ہمیشہ کے لیے سوالوں کی زد میں آ جاتی اور پھر وہ روز قیامت اپنے بابا،ماں اور پھپھو کو کیا جواب دیتا۔
                      اپنے ماں بابا کا خیال آنے پر عزم اٹھ کر الماری کے پاس گیا اور اس میں سے اپنے ماں بابا کی تصویر نکال کر دیکھنے لگا۔کبھی انکی یہ حویلی بھی خوشیوں سے چہکتی تھی۔کبھی یہاں بھی رونق اور شور ہوا کرتا تھا۔وہ سب خوشیاں اور رونق آج عزم کو بہت شدت سے یاد آ رہی تھیں۔
                      "سالگرہ بہت بہت مبارک ہو عزم۔۔۔۔دیکھیں ناں جی سولہ سال کا ہو گیا ہمارا عزم اور پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔۔چلیں اب جلدی سے اپنے بیٹے کو دعا دیں۔۔۔۔"
                      عزم کے کانوں میں اپنی ماں کی آواز پڑی اور آنکھوں کے سامنے انکا ہیولا سا دیکھائی دینے لگا جو اسی کمرے میں عزم کے پاس ہاتھ میں کیک پکڑے بیٹھی تھیں جبکہ عزم کے بابا سامنے کھڑے جان نثار نظروں سے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
                      "یا اللہ میرے بیٹے کو لمبی صحت والی زندگی دینا اور اس مرتبہ اسے آٹھویں پاس کروا دینا جس میں یہ پچھلے تین سالوں سے فیل ہو رہے ہیں۔۔۔۔"
                      عزم کے بابا نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی تو اسکی ماں ہلکا سا ہنسنے لگیں۔
                      "پاس تو میں نے آپکی دعا سے بھی نہیں ہونا بابا کیونکہ میں فیل ہوتا نہیں کر دیا جاتا ہوں۔۔۔۔"
                      عزم کی بات پر اسکے بابا نے اسے گھورا تو عزم کی ماں نے فوراً اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
                      "خبردار جو آپ نے میرے بچے کو اسکی سالگرہ پر ڈانٹا تو بہت برا پیش آؤں گی میں۔۔۔۔"
                      عزم کے بابا ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے ۔۔۔۔
                      "تم بگاڑتی ہو اسے میرا چن ماہی۔۔۔۔"
                      "ہاں تو ایک ہی لعل ہے میرا اسے بھی نہ بگاڑوں؟"
                      عزم کی ماں نے شرارت سے اسکی جانب دیکھا تو عزم ہنس دیا اور ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر عزم کے بابا بھی مسکرا دیے۔
                      ان میٹھی یادوں کو یاد کر کے عزم کی پلکوں پر ٹھہرے آنسو اسکے گالوں پر بہنے لگے اور پھر وہ زمین پر بیٹھ کر اپنے ماں باپ کی تصویر کو سینے سے لگا کر سسک سسک کر رو دیا۔
                      اس نے رونا کب کا چھوڑ دیا تھا وہ تو اپنی تنہائی سے لڑنا سیکھ چکا تھا لیکن آج اسے اس تنہائی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔اتنی شدت سے تو اسے یہ احساس تب بھی نہیں ہوا تھا جب وہ اپنے بابا کو قبر میں دفنا کر آیا تھا۔
                      "میں تھک گیا ہوں بابا اکیلے رہ رہ کر تھک گیا ہوں۔۔۔۔اب مجھ سے مزید تنہا نہیں رہا جاتا۔۔۔۔"
                      عزم نے سسکتے ہوئے کہا۔اس وقت وہ وہ انسان بالکل نہیں لگ رہا تھا جو ہر بات کو ہنس کر مذاق بنا دیتا تھا۔آج وہ مکمل طور پر ایک بکھرا ہوا شخص معلوم ہو رہا تھا۔
                      "کیا میرا خوشیوں پر کوئی حق نہیں، کیا میرے دامن میں کسی کی محبت نہیں لکھی۔۔۔؟"
                      عزم نے ان دونوں کی تصویر کو اپنے سینے سے نکال کر دیکھا۔
                      "تھک گیا ہوں میں بابا اب اس تنہائی سے بہت زیادہ تھک گیا ہوں۔۔۔۔"
                      عزم نے روتے ہوئے کہا اور کتنی ہی دیر وہاں فرش پر بیٹھ کر اپنے ماں باپ کی تصویر سینے سے لگائے روتا رہا تھا جبکہ ملکوں کی حویلی میں ابھی بھی خوشیوں کی چہچہاہٹ اور شور اٹھ رہا تھا۔
                      ????
                      Azam ko Tu khayal AA gya lakin abhi ek Bla aur Baki ha Jo na janay Konsa tofan laye gi aur us Bla ko Tu Kisi rishtay Ka lehaz BHI Nahi ?Kia kren us Bla Ka ?

                      Last edited by Man moji; 07-08-2023, 05:50 PM.

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X