Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #41
    یہ کسی ڈائجسٹ کی کہانی لگتی ہے جس میں بیچ بیچ میں سیکس کے سین ڈال دیے جائیں گے۔
    اتنا تفصیل سے مکالمے لکھنا اور وضاحت کے ساتھ منظر کشی کرنا عام رائٹر کے بس کی بات نہیں۔
    یہ اسٹائل زیادہ تر خواتین کے رسائل میں پڑھا تھا عرصہ دراز قبل۔
    اب تو یوٹیوب اور واٹس ایپ بھی فاسٹ پلے کا آپشن دیتے ہیں۔
    اس کہانی کو انجوائے کرنا میرے بس کی تو بات نہیں۔
    بحیثیت مجموعی اس کہانی کو پڑھنے سے نہ تو کیفیت طاری ہو گی اور نہ وہ مقصد پورا ہو گا جس کے لیے سائٹ وزٹ کی جاتی ہے۔
    وہ مقصد ہے ذہنی تفریح
    جس سے سارا دن کا اسٹریس دور ہو جائے۔
    اس قصے کو پڑھنے کی کوشش میں تو سر مزید چکرا جائے گا۔
    جنسی کہانی تو کوئی بھی بنا سکتا ہے
    چار جسمانی اعضاء کے نام استعمال کریں۔
    ایک مردانہ اور تین زنانہ

    ایک گھنٹے میں اسٹوری پوسٹ ہو جائے گی۔
    پڑوسن سے لے کر کسٹمر تک

    جس کی چاہیں مار لیں
    مگر کلاسک اسٹوری وہ ہوتی ہے جو زمین پر چلے

    حقیقت کے قریب قریب
    کوئی ایسا کردار لکھیں گے جو زمین سے ایک فٹ اوپر بغیر قدم بڑھائے ہوا کے دوش پر تیرتا ہوا جاتا ہے تو کہانی میں لذت نہیں رہتی۔
    گاؤں کی پنچایت یا چوپال تو اکثر جگہ مل جاتی ہے۔
    گاؤں کے الیکشن بھی کروا دیے۔
    اس کے آگے پڑھنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں۔
    ساری بات لکھنے کا مقصد اپنا نظریہ پیش کرنا تھا۔
    مجھے اس پوسٹ کے جاری رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
    اصلاح کا کوئی نکتہ ذہن میں آئےہم تو میری یا اپنی اصلاح کر دیں۔
    یا پھر میری بات سے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی ہو جائےگی۔


    Comment


    • #42
      Originally posted by Man moji View Post
      Bosses
      اگر ائندہ اس فونٹ میں پوسٹ ہوئی سٹوری اپروول نہیں ہونی ۔
      ہم نے اتنی محنت کی اس فورم پر آپ یہ ایسے فونٹ میں پوسٹ کر رہے ہیں ۔

      ایک بار پہلے بھی آپ کو بتایا ہے ۔

      نیچے لنک دے رہا ہو اس پر عمل کرے سٹوری کو جمیل نوری فونٹ میں پوسٹ کرے ۔
      شکریہ


      https://urdustoryworld.com/forum/mai...8C%D9%86%D8%AC



      janab problem kis ma ha size ma k front ma plz confirm krya t la problem solve ho ska

      Comment


      • #43
        Kahani ma ek naya mor a gya

        Comment


        • #44
          Aarmishan jo aan sa boht pyar karta tha ab nafrat karne laga ha deakhte han ab agye kya hota ha

          Comment


          • #45
            #زندگی_اے_تیرے_نال

            #قسط_نمبر_17



            آن کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پر موجود تھی،اسکا عروسی جوڑا ابھی بھی اسکے وجود پر تھا۔رات کا گزرا ہر منظر یاد آنے پر اسکی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں۔وہ روتی سسکتی فرش پر ہی سو گئی تھی اور عرشمان اس سے بے نیاز بیڈ پر لیٹا رہا تھا۔

            آن کو یاد تھا کہ وہ فرش پر سوئی تھی تو بیڈ پر کیسے آئی کیا عرشمان نے اسے۔۔۔۔

            دل نے ایک ہلکی سی امید دلائی تو اپنے آنسو پونچھ کر وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور فریش ہونے کی غرض سے واش روم میں جانے لگی جب اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر آن کا دھیان دروازے کی جانب گیا۔

            "عرشمان تو کب کا اٹھ کر کام کے جا چکا ہے اور تم ابھی اٹھ۔۔۔۔"

            آن پر دھیان پڑتے ہی فرحین بیگم جو کمرے میں داخل ہوتے ہی شروع ہو گئی تھیں خاموشی سے اسے سر سے لے کر پیر تک دیکھنے لگیں۔

            "کیا بات ہے میں نے سوچا تھا کہ جتنا ترسنے اور مشکلوں کے بعد تم دونوں کی شادی ہوئی ہے تم مجھے شرمائی شرمائی سی ملو گی لیکن یہاں تو منظر ہی کچھ اور بیان کر رہا ہے ۔۔۔۔"

            فرحین بیگم نے آن کے پاس آ کر اسکے زیوارات کو چھوتے ہوئے کہا جو جوں کے توں تھے۔

            "کیا بات ہے عرشمان کو آخر کار عقل آ گئی کہ تم اسکے قابل نہیں یا تم ہی میرے بیٹے کی حق تلفی پر اتری ہو ۔۔۔۔"

            فرحین بیگم کی آواز طنز سے بھرپور تھی۔

            "نن۔۔۔۔نہیں بڑی امی ایسا کچھ نہیں وہ۔۔۔۔"

            آن کو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے اس لیے خاموش ہو گئی۔

            "دیکھو بی بی پہلے ہی اپنے تماشوں میں تم میرے بیٹے کو تیس سال کا کر چکی ہو اب آخر کار تم دونوں کی شادی ہو ہی گئی ہے تو اسکی قدر کرو۔شہزادہ ہے میرا بیٹا جو میں نے تم جیسی کو دے دیا ہے۔۔۔۔"

            فرحین بیگم نے حقارت سے آن کو سر سے لے کر پیر تک دیکھتے ہوئے کہا اور آن ہمیشہ کی طرح انکی باتوں کا کڑوا گھونٹ بنا کر پی گئی۔

            "عرشمان نے تو صبح سویرے کام پر جا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے اس شادی کی کتنی خوشی ہے تم بھی زرا یہ کپڑے بدلو اور آ کر میرے ساتھ ناشتے میں مدد کرواؤ انابیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔"

            فرحین بیگم کی بات پر آن نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ وہاں سے چلی گئیں اور آن کے تب سے اٹکے آنسو بہہ نکلے۔فریش ہو کر اس نے کپڑے بدلے اور فرحین بیگم کے ساتھ ناشتہ بنانے چلی گئی۔

            وہ ناشتہ رکھ رہی تھی جب اسے دیکھ کر اماں بی حیران رہ گئیں۔

            "آن بیٹا تم کیوں یہ سب کر رہی ہو ابھی کل ہی تو تمہاری شادی ہوئی ہے۔"

            اماں بی کی بات پر آن نے پریشانی سے فرحین بیگم کی جانب دیکھا۔

            "تو کیا ہو گیا ہے اماں بی اب اس گھر کی بہو کے آج نہیں تو کل سب اسے ہی سنبھالنا ہے۔ویسے بھی یہ کونسا کہیں اور سے بیاہ کر آئی ہے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ہی تو گئی ہے۔۔۔۔"

            اماں بی کے بری طرح سے گھورنے پر بھی فرحین بیگم خاموش نہیں ہوئی تھیں۔

            "بالکل جیسے انابیہ ایک کمرے سے بیاہ کر دوسرے کمرے میں جائے گی پھر تم اسے بھی اگلے دن ہی کام پر لگا دینا ٹھیک ہے۔۔۔۔"

            اماں بی کی بات پر فرحین بیگم دانت کچکچا کر رہ گئیں لیکن کچھ کہہ نہ پائیں۔

            "آن بیٹا کمرے میں جا کر زرا بھاری کپڑے اور زیور پہنو اب تم ملک خاندان کی بیٹی نہیں بہو ہو اور تمہیں اس بات کا خیال ہونا چاہیے۔۔۔۔"

            آن نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی جانب چلی گئی۔کمرے میں آ کر اس نے الماری کھولیں تو نگاہ ان کپڑوں پر پڑی جو وہ اور عرشمان مل کر لے کر آئے تھے۔ان کپڑوں کو دیکھ کر آن کی پلکیں پھر سے بھیگ گئیں۔

            وہ دونوں کتنے خوش تھے،کیسے محبت اور چاہت سے انہوں نے ایک دوسرے کے ہونے کے خواب دیکھے تھے۔اتنے لوگوں کی نظروں میں آنے کے بعد بھی وہ ایک دوسرے کے تو ہو گئے تھے لیکن محبت تو شائید لوگوں کی حاسد نظروں کی نذر ہو گئی تھی۔

            "آن۔۔۔۔"

            شاہد کی آواز پر آن نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور سنجیدگی سے مڑ کر انہیں دیکھا۔

            "جی؟"

            آن کا لہجہ کافی روکھا تھا۔

            "کچھ نہیں بیٹا بس تمہیں بتانے آیا تھا کہ میں آج واپس جا رہا ہوں اور جانے سے پہلے میں آخری مرتبہ۔۔۔۔۔آخری مرتبہ تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔"

            شاہد نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

            "یہ میرے لیے اتنا آسان نہیں۔۔۔آپ کے لیے جو چھوٹی سی بات ہے اس نے مجھے مکمل طور پر برباد کر دیا۔۔۔۔"

            "آن۔۔۔۔"

            شاہد نے کچھ کہنا چاہا لیکن آن نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روکا۔

            "آپ پلیز یہاں سے چلے جائیں اپنی اس دنیا میں واپس چلے جائیں جس کے لیے آپ نے مجھے اور امی کو چھوڑا تھا۔۔۔۔۔مجھے آپکے بغیر جینے کی عادت ہے۔۔۔۔"

            آن نے بے رخی سے کہتے ہوئے اپنا رخ پھیر لیا اور شاہد گہری آنکھوں کے ساتھ مڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ان کے جاتے ہی آن بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

            آخر وہ ہی تو اسکا ایک مان والا رشتہ تھے جو اب بھی اس دنیا میں تھے۔آن کا دل کرتا تھا انکے سینے پر سر رکھ کر اپنا ہر غم انہیں بیان کر دے لیکن انکی خود غرضی نے سب برباد کر دیا تھا۔انکی لیزا کے لیے محبت نے آن کو مکمل طور پر برباد کر دیا تھا۔
            ????
            "آپ نے بلایا اماں بی؟"

            سلطان کی آواز پر کتاب پڑتی اماں بی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور کتاب بند کر کے سائیڈ پر رکھتے ہوئے اسے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

            "ہاں بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔۔"

            "جی کہیں اماں بی۔"

            سلطان نے اماں بی کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

            "میں نے سنا ہے کہ تم واپس لاہور جا رہے ہو۔۔۔۔"

            سلطان نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا۔

            "وجہ جان سکتی ہوں؟"

            کیونکہ یہاں رہا تو اس سے دور نہیں رہ پاؤں گا سب کے سامنے پورے حق سے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور پھر ایسا کر کے میں اپنی ماں کا برسوں کا خواب اور ان کا دل دونوں توڑ دوں گا۔

            سلطان نے دل میں سوچا لیکن وہ یہ بات زبان پر لا نہیں پایا تھا اس لیے وہ بول اٹھا۔

            "کیونکہ مجھے وہاں کا بزنس سنبھالنا ہے۔۔۔۔"

            "ہممم بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن ایک مسلہ ہے۔۔۔۔"

            سلطان نے حیرت سے اماں بی کی جانب دیکھا۔

            "وہ بچی جسکی تم زمہ داری لے کر اپنے ساتھ لائے تھے۔۔۔۔میں نے سوچا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ لاہور جائے گی۔۔۔۔"

            اماں بی کی بات پر سلطان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

            "کک ۔۔۔کیوں۔۔۔؟"

            زندگی میں پہلی مرتبہ شائید سلطان ملک کوئی بات کرتے ہوئے ہکلایا تھا۔

            "کیونکہ وہ تمہاری میڈ ہے تو تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری خدمت کرے گی۔۔۔"

            اماں بی نے عام سے انداز میں کہا جیسے کہ یہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔

            "ویسے بھی اسے تم اپنے ساتھ لائے تھے تو وہ تمہاری ذمہ داری ہے میں نہیں چاہتی کہ تمہاری عدم موجودگی میں میں اسکا ٹھیک سے خیال نہ رکھ سکوں۔۔۔"

            سلطان اماں بی کی اتنی سی بات پر اضطراب میں آ چکا تھا۔وہ جس سے دور بھاگ کر لاہور جا رہا تھا اماں بی اسے ہی ساتھ لے جانے کا کہہ رہی تھیں۔

            وہاں جہاں وہ اکیلا رہتا تھا بلا خوف اس پر اپنا حق جتا سکتا تو بھلا کیسے وہ خود کو اس سے دور رکھتا جو اسکے روم روم میں بستی جا رہی تھی۔

            "لیکن اماں بی میں امی کو کیا جواب دوں گا اگر انہیں پتہ لگا تو۔۔۔"

            "فرحین کی فکر تم مت کرو میں اس سے کہوں گی میں نے کنیز کو اسکے ماں باپ سے ملنے بھیجا ہے ویسے بھی فرحین کونسا تمہارے پیچھے لاہور آ جائے گی۔"

            اماں بی پھر سے اسکی پریشانی کا حل نکال گئیں لیکن اصل پریشانی سے تو وہ واقف ہی نہیں تھیں۔

            "لیکن جب میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تب تو امی دیکھ لیں گی ناں آپ پلیز اسے میرے ساتھ مت بھیجیں میں امی کو دکھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔"

            یہ کہہ کر سلطان اپنا سر جھکا گیا۔اسکا ضمیر اسے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ یہ سب اس نے وہ فیصلہ کرتے ہوئے کیوں نہیں سوچا۔اب وہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ اس معصوم کی تکلیف کا باعث بھی بن رہا تھا۔سلطان کی پریشانی دیکھ کر اماں بی نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

            "تم بہت اچھے بیٹے ہو سلطان۔مانتی ہوں کہ ماں سے افضل رشتہ کسی کا نہیں ہمارا اولین فریضہ ہماری ماں کی خدمت اور اطاعت ہے لیکن اپنی زمہ داریوں میں توازن قائم کرنا سیکھو بیٹا کیونکہ جواب تم نے صرف اپنی ماں کے حقوق کا نہیں حقوق العباد کا دینا ہے اور حقوق العباد میں ہر بندے کے حقوق شامل ہیں پھر وہ چاہے تمہاری ماں ہے یا تمہاری میڈ۔۔۔۔"

            سلطان اماں بی کی بات پر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔یہ اتنا بھی آسان نہیں تھا۔اگر وہ کنیز کو اسکا حق دیتا تو اپنی ماں کو خفا کر بیٹھتا اور اگر ماں کی پرواہ کرتا تو کنیز کو تا حیات اسکے حق سے محروم رکھتا۔وہ بہت بری کشمکش میں پھنس چکا تھا۔

            "ویسے بھی تمہیں اس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ فرحین تمہیں کنیز کو لے جاتے دیکھ کر پریشان ہو گی کیونکہ کنیز کو میں پہلے ہی تمہارے خاص آدمی اشفاق کے ساتھ لاہور کے لیے روانہ کر چکی ہوں۔۔۔۔"

            سلطان نے فوراً اپنا سر اٹھا کر اماں بی کو پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔

            "اب تم بے فکر ہو کر لاہور چلے جانا تمہارے پہنچنے سے پہلے ہی کنیز تمہارے گھر پہنچ چکی ہو گی۔۔۔۔"

            اماں بی مسکرا کر کہہ رہی تھیں اور اپنی معصوم بیوی کا کسی غیر مرد کے ساتھ ہونے کا خیال ہی سلطان کو پاگل کر رہا تھا۔اماں بی کو مزید کچھ کہے بغیر وہ اٹھا اور اپنے کمرے سے گاڑی کی چابیاں اور والٹ پکڑ کر جلدی سے باہر آ گیا۔

            ہڑبڑی میں وہ اپنا سامان تک لینا بھول گیا تھا۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اسے جلد از جلد کنیز کے پاس پہنچنا تھا۔وہ صرف اسکی تھی سلطان تو کسی کی نگاہ بھی اس پر برداشت نہ کرتا اور اماں بی اسے ایک غیر مرد کے ساتھ چار گھنٹے کے سفر کے لیے روانہ کر چکی تھیں۔

            سلطان کی پکڑ سٹیرنگ ویل پر مظبوط ہوئی۔رگیں غصے سے تن چکی تھیں۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر کنیز کے پاس پہنچ جائے۔گاؤں سے باہر نکل کر تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد اسے اپنی حویلی کی گاڑی نظر آئی تو اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی اور اپنی گاڑی اس گاڑی کے سامنے کر کے اسکا راستہ روک دیا۔

            اشفاق سلطان کی گاڑی سامنے آتے ہی بریک لگا چکا تھا اور سلطان کو غصے میں گاڑی سے نکلتا دیکھ پریشانی سے گاڑی سے اتر کر اسکے پاس گیا۔

            "خیریت ملک صاحب۔۔۔۔"

            سلطان نے لال آنکھوں سے اشفاق کو گھورا تو اشفاق گھبرا کر اپنا سر جھکا گیا۔سلطان نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر کنیز کو دیکھا جو اسے وہاں دیکھ کر پہلے حیران ہوئی تھی پھر اسکا غصہ دیکھ کر بری طرح سے سہم گئی۔

            "سس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔۔"

            اس سے پہلے کی کنیز کی بات پوری ہوتی سلطان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی سے باہر نکالا اور اشفاق کی جانب مڑا۔

            "اپنی بیوی کو لے جا سکتا ہوں میں تم حویلی واپس چلے جاؤ۔۔۔۔"

            سلطان نے سختی سے اشفاق کو کہا۔اشفاق نکاح کے وقت سلطان کے ساتھ موجود تھا اور اسکے نکاح کے گواہوں میں سے ایک گواہ تھا۔اسی لیے سلطان پورے حق سے کنیز کو اپنی ملکیت ظاہر کرتا اسے اپنے ساتھ کھینچتا اپنی گاڑی تک لا چکا تھا۔

            فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر سلطان نے کنیز کو گاڑی میں بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔مٹھیاں ابھی بھی سٹیرنگ ویل پر غصے سے کسی ہوئی تھیں۔

            "تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسکے ساتھ اکیلے آنے کی؟"

            سلطان نے اتنے غصے سے کہا کہ کنیز سہم کر گاڑی کے دروازے سے لگ گئی۔

            "وہ۔۔۔۔اماں بی نے کہا تھا۔۔۔۔اااا۔۔۔۔اس لیے۔۔۔۔"

            "اماں بی کی بیوی ہو تم یا میری؟تمہیں مجھ سے اجازت لینی چاہیے تھی یا ان سے؟"

            سلطان کی بات پر کنیز نے جس زخم کو بہت مشکل سے ڈھانپا تھا وہ پھر سے ہرا ہو گیا اور بے اختیار ہی اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

            "بب۔۔۔۔بیوی نہیں سائیں میڈ۔۔۔۔"

            کنیز کی رندھی ہوئی آواز پر سلطان نے حیرت سے اسے دیکھا۔سلطان کو لگا کہ وہ اسکے غصے سے ڈر گئی ہے اسی لیے رو رہی ہے۔ایک گہرا سانس لے کر سلطان نے اپنے غصے کو قابو میں کیا۔

            "آج کے بعد ایسا پھر کبھی مت کرنا میں بالکل گوارا نہیں کروں گا کہ میری ملکیت کسی غیر مرد کے ساتھ تنہا ہو۔۔۔۔"

            سلطان کے زرا سا نرمی سے کہنے پر کنیز نے اپنے آنسو پونچھے اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

            "بہتر سائیں۔۔۔"

            سلطان کو اسکا سائیں جی کی جگہ صرف سائیں کہنا ٹھٹھکا۔اسکے اس ناراضگی کے معصوم اظہار کو سمجھتا سلطان غصہ بھلا کر مسکرا دیا اور کنیز خاموشی سے گاڑی سے باہر گزرنے والے نظارے دیکھنے لگی۔سلطان کو اسکی یہ خاموشی خاص اچھی نہیں لگی تھی۔وہ چاہتا تھا کنیز اس سے باتیں کریں۔

            "باتیں کرو مجھ سے۔۔۔۔"

            سلطان کے اگلے حکم پر کنیز نے حیرت سے اسکو دیکھا۔

            "کیا باتیں کروں سائیں؟"

            "کچھ بھی بس مجھ سے باتیں کرو۔۔۔۔"

            سلطان نے سنجیدگی سے جواب دیا تو وہ ننھی سی جان مشکل میں آ گئی۔اسے اپنے سلطان کا حکم بھی پورا کرنا تھا اور اسے سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے۔

            "موٹو پتلو اور باجی کی باتیں کر لوں آپ سے ؟مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔"

            کنیز نے افسردگی سے اپنے بہن بھائیوں کو یاد کرتے ہو کہا تو سلطان نے بے ساختہ ہاں میں سر ہلایا۔وہ اس سے بات کر رہی تھی سلطان کے لیے یہی سب سے اہم تھا۔

            "آپ کو پتہ ہے جو میرے چھوٹے بھائی موٹو پتلو ہیں ناں وہ دونوں۔۔۔۔۔"

            کنیز دلچسپی سے اسے اپنے بچپن کا ہر قصہ سنانا شروع ہو گئی اور سلطان اسکی معصوم باتوں میں کھویا اب سکون محسوس کر رہا تھا۔کچھ پل کے لیے ہی سہی لیکن وہ اپنی پریشانیاں اور کشمکش بھلانا چاہتا تھا اور کنیز کی معصوم باتیں یہ کام بخوبی سر انجام دے رہی تھیں۔

            "پھر پتہ ہے ایک دن باجی نے پورا گھر صاف کیا۔ میں نے موٹو پتلو کے ساتھ مل کے خوب گند مچایا جب باجی کو وہاں آتا دیکھا تو میں بھاگ گئی اور باجی نے میرے حصے کا بھی موٹو پتلو کو جوتوں سے مارا۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔"

            یہ بات بتا کر کنیز ہنسنے لگی اور سلطان خواب کی سی کیفیت میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔یہ لڑکی سچ میں اسکا سکون تھی اور اب تو وہ سلطان کے لیے متاع جان بنتی جا رہی تھی اور وہی اس بات سے انجان تھی۔
            ????
            دو دن ہو گئے تھے انکا نکاح ہوئے اور اس رات کے بعد لیزا کا عزم سے سامنا نہیں ہوا تھا۔بس ایک ملازمہ اسے کمرے میں آ کر کھانا دے جایا کرتی تھی اور لیزا بس یہ سوچتی رہتی تھی کہ وہ کیسے ایک شخص سے ہار مان گئی اور اس سے شادی کر لی۔

            وہ تو اپنی مرضی کی مالک تھی۔جدید دور کی ماڈرن ذہنیت والی لڑکی اور اس سے ہی اسکا باپ اور وہ شخص زبردستی کر گئے۔یہ سب سوچ کر عزم سے زیادہ لیزا کو خود پر غصہ آیا تھا۔

            وہ اس قید میں یوں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے والوں میں سے نہیں تھی۔وہ اس جاہل شخص کو بتانے کا ارادہ رکھتی تھی کہ وہ کیا چیز ہے۔لیزا اٹھ کر اپنے بیگ کے پاس آئی جو شاہد نے اگلے دن ہی اسکے لیے بھجوا دیا تھا اور اسے کھول کر اپنے لیے کپڑے نکالنے لگی۔

            آخر کار اسے ایک ڈریس پسند آیا تو اسے پکڑ کر واش روم میں چلی گئی اور شاور لینے کے بعد وہ کپڑے پہن کر واش روم سے باہر آئی۔آئنے میں اپنا جائزہ لے کر لیزا کے ہونٹ مسکرا دیے۔اس وقت وہ نیلے رنگ کے گھٹنوں سے بھی اوپر آتے سکرٹ اور لال شارٹ شرٹ میں ملبوس تھی جس میں سے اسکا پیٹ ہلکا سا چھلک رہا تھا۔

            بالوں کو خشک کرنے کے بعد اونچی پونی میں باندھ کر اس نے ہونٹوں پر گلوز لگایا اور ضروری سامان شولڈر بیگ میں ڈال کر کندھے پر لکٹاتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئی۔

            باہر کے گیٹ پر پہنچ کر اسنے باہر نکلنا چاہا تو دروازے پر کھڑے آدمیوں نے اسکا راستہ روک لیا۔

            "تم لوگوں کی اتنی جرات کہ میرا راستہ روکو جانے دو مجھے یہاں سے۔۔۔۔"

            لیزا کے انگلش میں دھاڑنے پر سب آدمی گھبرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔

            "چوہدری جی نے آپکو باہر جانے سے منع کیا ہے ہم آپ کو نہیں جانے دے سکتے۔۔۔۔"

            ایک آدمی نے سر جھکاتے ہوئے اردو میں کہا لیکن اسکی ساری بات لیزا کے سر پر سے گزر چکی تھی۔

            "جو بھی تم کہہ رہے ہو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا مجھے ابھی اور اسی وقت یہاں سے جانا ہے۔۔۔۔"

            لیزا نے آگے ہو کر خود گیٹ کھولنا چاہا۔

            "کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔"

            ایک آواز پر مڑ کر لیزا نے عزم کی جانب دیکھا جو غلام کے ساتھ ابھی وہیں آیا تھا لیکن جب اسکی نظر لیزا پر پڑی تو اسکا وہ لباس دیکھ کر وہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔جبکہ ساتھ کھڑا غلام اپنی نظریں شرم سے جھکا کر عزم کی قسمت پر ماتم کرنے لگا تھا۔

            "اپنے آدمیوں سے کہو مجھے یہاں سے جانے دیں ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"

            لیزا نے عزم کے سامنے آ کر کہا لیکن عزم کا دھیان اپنے ایک آدمی پر تھا جو ہوس بھری نگاہوں سے لیزا کو سر سے لے کر پیر تک دیکھ رہا تھا۔

            "نظریں جھکاؤ اپنی سب کے سب ورنہ رب کی سوں کبھی کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔"

            عزم کے چلانے پر اسکا ہر آدمی فوراً اپنی نظریں جھکا گیا۔اپنے آدمیوں پر سے دھیان ہٹا کر عزم نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے لیزا کو دیکھا جو اسکی امانت کو یوں سب کو دیکھا رہی تھی۔

            "تمہیں سنائی نہیں دیا میں کیا کہہ رہی ہوں مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔۔"

            لیزا کی بدتمیزی پر اب غلام کو بھی غصہ آنے لگا تھا لیکن پھر بھی اس نے ضبط کرتے ہوئے اسکی کہی بات عزم کو بتا دی۔

            "کہاں جانا ہے تم نے؟"

            غلام نے عزم کا سوال دہرایا تو لیزا کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔

            "سب سے پہلے تو پولیس سٹیشن جاؤں گی ڈرائیورز فائل کرنے اور پھر مجھ سے زور زبردستی کا کیس ڈالوں گی تم پر۔۔۔۔"

            لیزا کو لگا اسکی بات سے عزم ڈر جائے گا لیکن عزم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر لیزا حیران رہ گئی۔

            "ضرور بلکہ میں تمہیں خود لے کر جاؤں گا پولیس سٹیشن لیکن فلحال تم اندر جاؤ اور کچھ ڈھنگ کا پہن کر آؤ ۔۔۔۔۔"

            عزم کی آخری بات غلام نے دانت کچکچاتے ہوئے لیزا کو بتائی تھی۔جبکہ عزم کی بات سن کر لیزا اسکے قریب ہوئی اور شہد رنگ کی آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورنے لگی۔

            "یہ میرا جسم ہے مسٹر میرا جو دل کرے گا پہنوں گی جتنا دل کرے گا اتنا اس جسم کو دیکھاؤں گی تم یا کوئی بھی مجھے میری مرضی کرنے سے نہیں روک سکتا اور مسٹر میرے کپڑے بڑے کروانے کی بجائے اپنی سوچ بڑی کرواؤ۔۔۔۔"

            لیزا کی بات پر غلام نے ایسے عزم کو دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو اب بھگتو اور ساری بات عزم کو بتا دی لیکن یہ بات جان کر عزم نے کچھ نہیں کہا بلکہ لیزا کا ہاتھ سختی سے پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا اسی کمرے میں کے آیا جہاں لیزا دو دن سے رہ رہی تھی۔

            "جاہل انسان چھوڑو مجھے میں تمہاری یہ زور زبردستی برداشت نہیں کرنے والی میں تمہیں۔۔۔۔"

            لیزا کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عزم نے اسے بیڈ پر پھینکا۔لیزا بپھری شیرنی بنی غصے سے عزم کو دیکھنے لگی۔

            "یو۔۔۔۔"

            عزم نے آگے ہو کر لیزا کو پیر سے پکڑ کر کھینچا تو وہ بیڈ پر گر گئی اور اسکے گرتے ہی عزم اس پر حاوی ہوا۔عزم نے اسکا چھوٹا سا وجود اپنے بھاری بھرکم وجود کی گرفت میں لے لیا۔

            "بہت شوق ہے ناں تمہیں یہ جسم دیکھانے کا تو ٹھیک ہے میری جان اختیار رکھتا ہوں اس وجود پر زرا پوری طرح دیکھاؤ اسے مجھے۔۔۔۔"

            لیزا نے دانت کچکچا کر عزم کو بتانا چاہا کہ وہ اسکی بات نہیں سمجھی لیکن عزم کا گرم ہاتھ اپنے ٹانگ پر محسوس کر اسکے الفاظ حلق میں ہی اٹک گئے۔

            "یی۔۔۔۔یہ تم کیا....؟"

            "تمہیں یہ ٹانگیں دیکھاتے حیا نہیں آتی ناں تو پھر کیوں ناں پوری طرح سے دیکھاؤ۔۔۔۔"

            اپنا سکرٹ اوپر کو سرکنے کے بعد لیزا کو عزم کا ہاتھ اپنی تھائی پر محسوس ہوا تو وہ جی جان سے کانپ اٹھی۔گال خود بخود گلال چھلکانے لگے۔

            "نن ۔۔۔۔۔نو پلیز۔۔۔۔"

            لیزا نے اپنا کانپتا ہاتھ عزم کے ہاتھ پر رکھ کر اسے مزید کچھ کرنے سے روکنا چاہا۔

            "کیا ہوا اب کیوں روک رہی ہو تمہارا جسم ہے جتنا مرضی دیکھاؤ۔۔۔یا شائید تمہیں ٹانگیں نہیں کچھ اور دیکھانے میں دلچسپی ہے۔۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم نے ہاتھ اسکی ٹانگوں سے ہٹا کر پیٹ پر رکھ دیا تو لیزا کی جان نکلنے کے در پر ہو گئی۔اب وہ آہستہ آہستہ اسکی شرٹ اوپر کھسکا رہا تھا۔

            لیزا نے پھر سے اپنا کانپتا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا لیکن عزم جو اسکے پیٹ پر پہنے موتی کو محسوس کر چکا تھا شان سے مسکرا دیا۔

            "ولایتی چوزی زیور پہننے کی یہ کونسی جگہ ہے زرا دیکھنے تو دو اب کہاں کہاں زیور پہن رکھا ہے تم نے آخر تم میں کونسی شرم حیا ہے جو کتراؤ گی۔"

            معنی خیزی سے کہتے ہوئے عزم اسکے پیٹ کے موتی پر جھکا اور اسے اپنے دانتوں میں دبا کر ہلکا سا کھینچا تو لیزا سہم کر اپنی آنکھیں زور سے موند گئی۔یہ شخص اسکی سوچ اور ہمت سے زیادہ بے باک ثابت ہوا تھا۔

            "پلیز۔۔۔۔ایسا مت کرو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب میں ایسے کپڑے نہیں پہنوں گی وعدہ۔۔۔۔"

            لیزا خود نہیں جانتی تھی کہ ایک بار پھر سے کیسے وہ اس شخص کی باتیں سمجھے بغیر ہی سمجھ چکی ہے۔

            عزم نے اپنا سر اٹھا کر گہری نگاہوں سے اسکے چہرے پر حیا کے رنگوں کو دیکھا جو اس لڑکی کو پہلے سے کئی زیادہ خوبصورت بنا گئے تھے۔

            "ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا یہ شرم و حیا جو اس وقت تمہارے چہرے پر ہے یہ عورت کا سب سے قیمتی گہنا ہے اور اسکی حفاظت تمہارا سب سے بڑا فرض ہے۔۔۔۔"

            اچانک ہی عزم اسکے اتنا قریب ہوا کہ لیزا کو اسکی سانسوں کی مہک اپنی سانسوں میں گھلتی محسوس ہونے لگی۔

            "اور تمہارا یہ جسم تمہارا نہیں میرا ہے۔پوری کی پوری تم میری ملکیت ہو غزل عزم چوہدری اس جسم پر تمہاری نہیں میری مرضی چلے گی اور اگر آج کے بعد تم نے میری امانت کسی اور مرد کو دیکھانے کا سوچا تو۔۔۔۔"

            اچانک ہی عزم نے اسکے کپکپاتے نچلے لب کو اپنے دانتوں کے درمیان لے کر کھینچا تو لیزا کا روم روم کانپ اٹھا۔وہ اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔ کچھ دیر کے بعد عزم نے اسکا نازک ہونٹ چھوڑ دیا جو اتنی سی گستاخی پر ہی لال ہو چکا تھا۔

            "تو اگلی بار وہ سب بھی دیکھ لوں گا جو نہیں دیکھانا چاہتی تم۔۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم اس سے دور ہوا اور مسکرا کر اسکی زور سے میچی آنکھوں اور کپکپاتے وجود کو دیکھنے لگا۔

            "Understand?"

            عزم کے پوچھنے پر لیزا نے فوراً اثبات میں سر ہلایا تو عزم نے اسکا بیگ پکڑا اور کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ لیزا اسکی بات تو نہیں سمجھی تھی لیکن پھر بھی وہ شخص اپنے بے باک لمس سے اسے ہر بات سمجھا گیا تھا۔

            کچھ جلنے کی بدبو پر لیزا نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر کھڑکی کے پاس آئی تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ عزم باہر صحن میں اسکا بیگ رکھ کر جلا چکا تھا۔

            لیزا کا دل کیا کہ جا کر اس آدمی کا منہ توڑ دے لیکن اسکی بے باکیاں یاد کر کے پھر سے لیزا کا روم روم کانپ گیا۔فلحال وہ اس شخص کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔
            ????
            وہ دونوں لاہور پہنچ گئے تھے۔سلطان سیدھا اسے اپنے گھر لے کر گیا تھا جو اسکے اتنا عرصہ غائب رہنے کی وجہ سے بند تھا۔سلطان نے اپنا سامان نکالا تو کنیز نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔

            "آپ میرا سامان تو اسی گاڑی میں چھوڑ آئے سائیں اب میں کیا کروں گی؟"

            سلطان خاموشی سے آگے چلنے لگا تو کنیز بھی اسکے پیچھے پیچھے چل دی۔

            "کوئی بات نہیں ہم کل جا کر شاپنگ کر لیں گے۔۔۔۔"

            سلطان نے عام سے انداز میں کہا اور دروازہ کھول کر آگے بڑھتے ہوئے گھر کی لائٹس آن کرنے لگا۔کنیز اب منہ کھولے اس گھر کو دیکھ رہی تھی جو گاؤں کی حویلی جتنا بڑا تو نہیں تھا لیکن ماڈرن طرز کا وہ صاف ستھرا سا گھر بہت زیادہ پیارا تھا۔

            "روزانہ ملازمہ صبح آ کر گھر صاف کر جاتی ہے اور ہفتے بعد کپڑے بھی دو دیتی ہے اس لیے تم ان میں سے کوئی کام نہیں کرو گی۔۔۔۔۔"

            سلطان نے سامان صوفے پر رکھتے ہوئے کہا۔

            "اور ہاں تم اکیلی گھر سے باہر مت نکلنا بڑا شہر ہے کہیں تم کھو۔۔۔۔"

            سلطان اپنی بات کہتے ہوئے کنیز کی جانب مڑا تو الفاظ منہ میں ہی رہ گئے کیونکہ کنیز کا دھیان اسکی باتوں پر بالکل نہیں تھا وہ تو چہرے پر حیرت اور مسکان لیے کسی کھوئے ہوئے بچے کی طرح اسکے گھر کو دیکھ رہی تھی۔

            "یہ ٹی وی ہے سائیں؟"

            کنیز نے لاونج میں لگی بڑی سی ایل سی ڈی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔سلطان کے اثبات میں سر ہلانے پر اسکی آنکھیں خوشگوار حیرت سے پھیل گئیں۔

            "میں اسے دیکھ لیا کروں؟پتہ ہے جب میری اماں سردار کے گھر صفائی کرنے جاتی تھیں تو میں چادر سے منہ چھپا کے انکے پیچھے چلی جایا کرتی تھی۔انکے گھر بھی ٹی وی تھا جو انکی بیٹی بیٹھ کے دیکھا کرتی تھی۔وہ اس ٹی وی پہ ۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کاٹ۔۔۔"

            "کارٹون۔۔۔۔"

            سلطان نے اسکے لیے آسانی پیدا کی تو کنیز مسکرا دی۔

            "جی وہ کارٹون دیکھا کرتی تھی اور میں وہ دیکھنے کے لیے انکے پورے برآمدے میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔۔۔۔"

            کنیز نے ہلکا سا ہنس کر کہا اور اسکی معصومیت پر سلطان مسکرا دیا ۔

            "یہ تمہارا اپنا گھر کے کنیز تم جو چاہے استمعال کر سکتی ہو تمہیں میری یا کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"

            سلطان کی بات پر کنیز کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور اس نے سر جھکا کر اثبات میں ہلایا۔وہ پھر سے فرمانبردار سی بیوی بن چکی تھی۔

            " وہاں اوپر میرا کمرہ ہے اور تم یہاں نیچے سو جانا۔میں ہم دونوں کے لیے کھانا لے کر آتا ہوں۔۔۔۔"

            سلطان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور اسکے جاتے ہی دو آنسو کنیز کی پلکوں پر ٹھہر سے گئے۔

            "نہیں سائیں یہ میرا گھر نہیں۔۔۔کنیز کا کوئی گھر نہیں ہوتا وہ تو بس ملازمہ ہوتی ہے۔۔۔۔بس ایک میڈ۔۔۔۔"

            کنیز نے افسردگی سے کہا اور پلکوں پر ٹھہرے آنسو رخسار پر بہنے لگے۔
            ????

            Comment


            • #46
              #زندگی_اے_تیرے_نال



              #قسط_نمبر_18(پارٹ 1)



              عرشمان رات کو کمرے میں واپس آیا تو پہلی نگاہ آن پر پڑی جو مسکراتے ہوئے اسکے پاس آئی تھی۔اس وقت وہ گلابی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔کھلے بالوں اور ہلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ معمول سے کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

              "کیسا گزرا آپ کا دن؟"

              عرشمان اسے نظر انداز کرتا ہوا بیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارنے لگا۔

              "تھک گئے ہوں گے ناں آپ میں آپ کے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔۔۔۔"

              آن اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگی۔

              "کوئی ضرورت نہیں کھانا کھا کر آیا ہوں میں۔۔۔۔"

              عرشمان کی بات پر آن کا منہ بن گیا اور اس نے مڑ کر عرشمان کو دیکھا۔

              "یہ کیا بات ہوئی بھلا آپ کے انتظار میں میں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا اور آپ کھا کر آئے ہیں۔۔۔"

              آن واپس اسکے پاس آئی تو عرشمان اٹھ کر ڈریسنگ روم کی جانب چل دیا۔

              "میں نے نہیں کہا تھا انتظار کرنے کو اب جو مرضی کرو میری بلا سے۔۔۔۔"

              عرشمان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے واش روم میں جانا چاہا لیکن آن نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روک لیا۔

              "پلیز مان اب بس بھی کر دیں یہ ناراضگی مجھے آپ کے بے پناہ پیار کی عادت ہے یہ بے رخی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی۔۔۔۔"

              آن نے نم آواز میں کہا تو عرشمان ضبط سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔

              "میرا ہاتھ چھوڑو آن۔۔۔۔"

              عرشمان نے سختی سے کہا تو آن نے اسکا ہاتھ مزید زور سے پکڑ لیا۔

              "مان میں آپ سے بہت۔۔۔"

              "میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑو۔۔۔"

              عرشمان نے سختی سے اپنا ہاتھ کھینچا تو آن جو اسکا ہاتھ مظبوط اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی۔اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی عرشمان نے اسے پکڑ کر گرنے سے روکا۔

              آن نے اپنی نم پلکیں اٹھا کر عرشمان کو دیکھا جو اسے دیکھ رہا تھا۔اسکی خوبصورتی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ عرشمان کے لیے بہت محنت سے تیار ہوئی تھی۔

              عرشمان کی نظر اسکے کپکپاتے ہونٹوں پر پڑی جو آن نے گلابی لپسٹک سے سجائے تھے۔انہیں دیکھ کر عرشمان کو لگا کہ اسکے گلے میں کانٹے اگ آئے ہوں۔وہ تو بچپن سے اسکی چاہت تھی اور اب بچپن کی وہ محبت مکمل طور پر اسکی ہو چکی تھی۔یہ احساس ملکیت عرشمان کو بہت کچھ کرنے پر اکسا رہا تھا لیکن وہ اتنا بھی کمزور نہیں تھا۔

              "تمہیں اتنی محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ تمہاری یہ سب کوششیں بیکار ہیں ۔۔۔۔"

              عرشمان نے اسکے ہونٹوں سے لپسٹک اپنے انگوٹھے سے مٹاتے ہوئے کہا۔اسکے لمس میں اتنی شدت تھی کہ آن اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی اور اسکی اس خود سپردگی کے عالم نے عرشمان کو مزید بے چین کر دیا۔اس سے پہلے کی وہ ان نازک ہونٹوں پر جھک کر کوئی گستاخی کرتا دروازہ کھٹکنے کی آواز پر عرشمان آن سے دور ہوا تو آن بھی ہوش میں آئی اور اپنا گلابی ہوا چہرہ جھکا گئی۔

              "کیا کام کے؟"

              "ملک صاحب آپ کو اور آن بی بی کو اماں بی اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔۔۔۔"

              عرشمان کے رعب سے پوچھنے پر ملازمہ کی آواز کمرے میں آئی۔

              "ہمم ٹھیک ہے چلو آتا ہوں۔۔۔۔"

              عرشمان نے اتنا کہہ کر کپڑے کرسی پر رکھے اور اماں بی کے کمرے میں جانے لگا تو آن بھی اسکے پیچھے چل دی۔

              "آپ نے بلایا اماں بی؟"

              کمرے میں داخل ہو کر عرشمان نے اماں بی سے پوچھا تو اماں بی نے اثبات میں سر ہلایا۔

              "یہاں آؤ میرے پاس دونوں۔۔۔۔"

              اماں بی کے بیڈ کی جانب اشارہ کرنے پر عرشمان اور آن انکے پاس بیٹھ گئے۔

              "کیا بات ہے عرشمان آج تمہاری شادی کا پہلا دن تھا اور تم کام ہر چلے گئے؟یہ کیا حرکت کی تم نے؟"

              اماں بی کا لہجہ کافی سخت تھا۔

              "اماں بی ضروری کام تھا۔۔۔۔"

              "جتنا بھی ضروری کام کیوں نہ ہوتا تمہاری زندگی اور بیوی سے زیادہ ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ایک شوہر کے لیے سب سے اہم اسکی بیوی ہونی چاہیے اور کچھ نہیں۔۔۔۔"

              اماں بی نے عرشمان کو ڈپٹتے ہوئے کہا تو وہ اپنا سر جھکا گیا لیکن مٹھیاں ضبط سے کسی ہوئی تھیں۔

              "میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم آن کو گھمانے مری چلے جاؤ اس لیے اپنا جو کام ہے کل ختم کر لینا تا کہ پرسوں تم دونوں وہاں کے لیے نکل سکو۔"

              اماں بی کی بات پر عرشمان کے ساتھ ساتھ آن نے بھی حیرت سے انہیں دیکھا۔

              "لیکن اماں بی سلطان بھی لاہور واپس چلا گیا ہے اور یہاں کے معاملات۔۔۔۔"

              "تمہارا خاص آدمی ایک ہفتہ سنبھال ہی لے گا فلحال تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو کیونکہ یہ سب سے اہم ہے۔۔۔۔"

              اماں بی نے گویا حتمی فیصلہ سنایا اور عرشمان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ انہیں کیسے منع کرے۔

              "اماں بی ہم پھر کبھی۔۔۔۔"

              "عرشمان بس۔۔۔۔۔یہ میرا حکم ہے تم کل اپنا سارا کام ختم کر لو اور پھر پرسوں آن کو لے کر مری کے لیے نکل جانا۔۔۔۔"

              کچھ سوچ کر عرشمان نے گہرا سانس لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو اماں بی آن کی جانب متوجہ ہوئیں۔

              "تم پیکنگ کر لینا اور ہاں گھر میں اس کی خبر تب ہی ہو جب تم دونوں یہاں سے نکلنے لگو میں نہیں چاہتی کہ کوئی اب اس بات میں بھی مسلہ پیدا کرے۔۔۔۔۔"

              آن نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔

              "اب تم دونوں یہاں سے جا سکتے ہو۔۔۔۔"

              اماں بی کے اجازت دینے پر عرشمان وہاں سے اٹھ گیا لیکن آن اسکے جاتے ہی بھاگ کر اماں بی کے سینے سے لپٹ گئی۔

              "ببںببہہہہہتتت۔۔۔۔۔شکریہ اماں بی آپ اس دنیا کی سب سے اچھی دادی ہیں۔۔۔۔"

              اماں بی کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی اور انہوں نے اپنا ہاتھ آن کے سر پر رکھا۔

              "بس ہمیشہ یونہی خوش رہو تم اور اب میں نے موقع دیا ہے تو اسے منا کر ہی واپس آنا۔۔۔۔"

              آن نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا تو اماں بی مسکرا کر اسے دعائیں دینے لگیں جبکہ آن تو یہ سوچ رہی تھی کہ ایک ہفتہ اپنی زندگی کا ہر پل عرشمان کے ساتھ بتا کر وہ اسے منا ہی لے گی اور پھر سے انکی زندگی پہلے جیسی ہو جائے گی،محبت اور خوشیوں سے بھرپور۔۔۔۔۔
              ????
              کھانا کھانے کے بعد کنیز برتن لے کر کچن میں چلی گئی اور انہیں صاف کرنے کے بعد سلطان کے لیے چائے بنا کر لائی۔

              "تمہیں کیسے پتہ چلا مجھے چائے کی طلب ہو رہی ہے؟"

              سلطان کے پوچھنے پر کنیز سر جھکا کر ہاتھ مسلنے لگی۔

              "مم ۔۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ کھانے کے بعد چائے پیتے ہیں۔۔۔۔گگگ۔۔۔۔۔گاؤں میں آپ کو چھپ چھپ کے دیکھا کرتی تھی میں۔۔۔۔"

              کنیز کے اقرار پر سلطان کے ہونٹوں پر تبسم پھیلا۔

              "ایک بات بتاؤ مجھے تم ہمیشہ سچ بولتی ہو کیا؟"

              سلطان نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے پوچھا تو کنیز سر جھکا کر اسکے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔

              "کوشش کرتی ہوں لیکن کبھی کبھی بولا جاتا ہے جھوٹ ایک بار باجی کے حصے کی کھیر لڑی تھی وہ میں نے کھا لی اور بعد میں اماں کو جھوٹ بول دیا کہ میں نے نہیں کھائی تب اماں نے بتایا تھا کہ قیامت کے دن فرشتے جھوٹ بولنے والے کی زبان پر جلتا کوئلہ رکھیں گے تو میں اتنا ڈر گئی ۔۔۔۔اب کوشش کرتی ہوں جھوٹ نہ بولوں ۔۔۔۔۔"

              سلطان نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ اسکی بات پر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔کنیز اسے بہت قسمت والی لگی تھی جو وہ اتنی پاکیزہ اتنی صاف دل تھی جبکہ سلطان تو اسکے ساتھ ساتھ اپنی ماں سے بھی جھوٹ بول رہا تھا۔

              اچانک موبائل بجنے کی آواز پر سلطان خیالوں سے باہر آیا اور موبائل پکڑ دیکھا۔فرحین بیگم کا فون آتا دیکھ سلطان پریشان ہوا۔وہ جانتا تھا کہ فرحین بیگم اس سے یہی پوچھیں گی کہ وہ ان سے ملے بغیر کیوں گیا۔

              "سنو تم وہ سامنے کمرے میں سو جانا میں اب اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔۔۔۔"

              اتنا کہہ کر سلطان اٹھا اور کال پک کر کے موبائل کان سے لگاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔کنیز بھی کپ کچن میں چھوڑ کر آنے کے بعد کمرے میں چلی گئی۔

              اپنا کمرہ دیکھ کر کنیز کے ہونٹوں پر مسکان آئی۔بے ساختہ اس کے قدم گلاس وال کی جانب اٹھے جس کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تھا اور وہ وہاں سے لان کا خوبصورت منظر دیکھ سکتی تھی۔باہر ہلکی ہلکی بارش ہوتے دیکھ کنیز مسکرا دی۔

              "شکر اللہ کا بارش ہوئی ابا کی فصل اچھی ہو جائے گی اب۔۔۔"

              کنیز کو اپنے باپ کا خیال آیا تو انہیں یاد کر کے مسکرانے لگی۔بارش آہستہ آہستہ تیز ہو چکی تھی اور کنیز کتنی ہی دیر اس گلاس وال کے پاس کھڑی بارش کو دیکھتی رہی۔اچانک ہی بجلی کی زور دار چمک اور گونج ہوئی تو کنیز خوف سے اچھل پڑی اور جلدی سے پردے آگے کر کے بیڈ پر آ کر سمٹتے ہوئے بیٹھ گئی۔

              "اللہ میاں جی بجلی نہ چمکے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بجلی کے بغیر ہی بارش کر دیں ناں۔۔۔۔۔"

              کنیز نے سہم مزید خود میں سمٹتے ہوئے دعا کی لیکن شائید اسکی دعا قبول نہیں ہوئی تھی کیونکہ بجلی اور زیادہ زور سے چمکنے لگی۔

              اب تو خوف سے کنیز کی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے۔اگر وہ اپنے گھر ہوتی تو اسکی باجی دوڑ کے اسکے پاس آ جاتیں اور اسے ساتھ لگا لیتیں کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ کنیز کو بجلی سے ڈر لگتا ہے لیکن یہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو اسکا خیال رکھتا۔

              "سس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"

              سلطان کا خیال آنے پر کنیز جلدی سے جوتے پہنے بغیر اٹھی اور بھاگ کر سلطان کے کمرے کی جانب جانے لگی۔سلطان کے کمرے کے پاس پہنچ کر وہ دروازہ کھٹکھٹائے بغیر ہی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گئی اور نم آنکھوں سے سلطان کو دیکھنے لگی جو لیپ ٹاپ پر اپنا کوئی کام کر رہا تھا۔

              "سس۔۔۔۔سائیں ۔۔۔"

              کنیز کی آنسؤں سے تر آواز پر سلطان نے پریشانی سے اسے دیکھا۔اسکے آنسو دیکھ کر سلطان بے چینی سے اٹھ کر اسکے پاس آیا۔

              "کیا ہوا نوری تمہیں چوٹ لگی ہے کیا؟تم ٹھیک تو ہو؟"

              سلطان نے بے چینی سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر پوچھا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کنیز کو خود میں چھپا لے۔۔۔

              "سائیں وہ۔۔۔۔"

              کنیز نے کھڑکی کی جانب اشارہ کیا تو سلطان نے حیرت سے باہر چمکنے والی بجلی کو دیکھا۔وہ کیسے بھول گیا کہ کنیز کو بجلی کے چمکنے سے ڈر لگتا ہے۔اس سے پہلے کہ سلطان کچھ کرتا بجلی ایک بار پھر زور سے چمکی اور کنیز ایک چیخ مار کر سلطان کے سینے سے لپٹ گئی اور سلطان اسکی اس حرکت پر پتھر کا ہو چکا تھا۔

              "مم ۔۔۔۔مجھے میرے کمرے میں مت بھیجنا سائیں مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔مجھے اپنے پاس سلا لیں آپ کو اللہ کا واسطہ۔۔۔۔"

              کنیز نے روتے ہوئے کہا اور مزید سلطان کے قریب ہوئی جیسے اس میں چھپ جانا چاہ رہی ہو۔سلطان کے ہاتھ خود بخود اٹھے اور اس نے انہیں کنیز کی کمر کے گرد لپیٹ دیا۔

              "مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے نوری،خود سے۔۔۔۔"

              سلطان نے ضبط سے آنکھیں موندتے ہوئے کہا۔باہر موجود طوفانی رات اور دسترس میں اسکے خوابوں کی پری کا نازک وجود اسے بے بس کر رہا تھا۔

              "آپ کہیں گے۔۔۔۔تو میں ززز۔۔۔۔زمین پہ سو جاؤں گی بس مجھے یہاں سے مت بھیجنا۔۔۔۔"

              کنیز کی التجا پر سلطان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اسے بیڈ پر لے گیا۔بیڈ پر لیٹ کر کنیز کے کانپتے وجود کو خود سے لگاتے ہوئے سلطان اسکی کمر سہلا کر اسے حوصلہ دے رہا تھا۔

              "سائیں۔۔۔۔اللہ میاں سے کہیں ناں کہ بجلی کے بغیر بارش کر لیں۔۔۔۔۔بارش اتنی اچھی لگتی ہے۔۔۔۔بجلی نہیں اچھی لگتی۔۔۔۔"

              کنیز نے اپنا چہرہ سلطان کے سینے میں چھپاتے ہوئے کہا تو سلطان گہرا سانس لے کر رہ گیا۔

              "پہلے تم اس کے اس حقیر سے بندے پر رحم کرو میری جان۔۔۔میری ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔۔۔۔"

              سلطان نے اسکی گردن میں چہرہ چھپاتے ہوئے کہا۔احساس ملکیت تو چیخ چیخ کر اس سے کہہ رہا تھا کہ وہ اسی کی ہے،ہر حد پار کر لے بنا لے بھگو دے اسکا روم روم اپنے جنون کی بارش میں۔

              "جج۔۔۔جی ؟"

              کنیز نے گھبراتے ہوئے پوچھا لیکن ابھی بھی وہ سلطان سے دور نہیں ہوئی تھی۔

              "کچھ نہیں سو جاؤ بس ورنہ جو ہو گا ناں قسم کھاتا ہوں تمہیں بجلی سے ڈر نہیں لگے گا بلکہ مجھ سے لگنے لگے گا ۔۔۔۔۔"

              سلطان نے اسکا چہرہ پھر سے اپنے سینے میں دیتے ہوئے کہا اور ضبط سے آنکھیں موند گیا۔

              "سائیں۔۔۔۔"

              "ششش بس سو جاؤ میں تمہارے پاس ہوں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔۔۔۔"

              سلطان نے اتنی محبت سے کہا کہ کنیز کا سارا خوف بھاگ گیا اس نے ایک ہاتھ کی مٹھی میں سلطان کی شرٹ کو دبوچا اور سکون سے سو گئی جبکہ سلطان کو تو پوری رات سکون نصیب نہیں ہوا تھا۔

              اس وقت اسکی مثال ایسے مسافر کی تھی جو دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی پیاسا تھا کیونکہ وہ اس دریا کو اپنے گندے ہاتھوں سے میلا کرنے کے بعد سفر میں آگے بڑھنا نہیں چاہتا تھا۔
              ????
              عزم فجر کی نماز ادا کر کے کثرت کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آیا۔اپنے لیے کپڑے نکالنے پر اسکی نگاہ کرسی پر پڑے ڈھیر سارے شاپنگ بیگز پر پڑی تو لیزا کا خیال آیا۔

              "چلو تمہیں بتائیں ولایتی چوزی کے ڈھنگ کا لباس کسے کہتے ہیں۔تمہارا وہ باپ شائید تمہیں یہ باتیں سیکھانا بھول گیا تھا۔۔۔۔"

              عزم کو شاہد کا خیال آیا جو کل اسکے پاس اسے یہ بتانے آیا تھا کہ وہ کینیڈا واپس جا رہا ہے اور لیزا کے بارے میں اس نے گھر والوں سے یہی کہا ہے کہ شاہد نے اسے لاہور کے ہوٹل میں ٹھہرایا ہوا ہے اور جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جائے گا۔باقی عزم اگر چاہے تو سچائی ان سب تک پہنچا سکتا ہے۔

              عزم کو اس باپ کی بے بسی پر افسوس بھی ہوا۔وہ اپنی بیٹی کو سزا کے طور پر عزم سے بیاہ کر خوش نہیں تھا لیکن یہ بھی تو اسی کا قصور تھا۔اس نے کیوں اپنی بیٹی کو اس قدر آزادی دی کہ وہ سب کے لیے وبال جان بن گئی۔

              عزم سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اگر وہ لڑکی آن کی جان لینے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ کیا کر گزرتا۔آن سے متعلق اپنے جزبات عزم سمجھنے سے قاصر تھا۔اسے آن کی پرواہ بھی تھی لیکن اسکا عرشمان کا ہو جانا عزم کو اتنی تکلیف نہیں دے رہا تھا جتنی اس نے سوچا تھا بلکہ وہ اس بات سے مطمئن تھا کہ آن اپنی محبت کے ساتھ خوش تھی۔

              اگر اس دن وہ اسے واپس چھوڑ کر نہیں آتا تو شائید سچ میں اپنے ماں،بابا اور پھپھو کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتا۔مگر اب آن کو اس لڑکی سے بچا کر عزم کو لگ رہا تھا کہ اس نے اپنی غلطی کا مداوا کر لیا ہو۔

              اپنی سوچوں کو جھٹکتے عزم لیزا کے کمرے کی جانب چل دیا۔اس نے دروازہ کھولا تو لیزا اسے کل والے کپڑوں میں بیڈ پر بیٹھی نظر آئی۔عزم کو دیکھتے ہی اسکی پلکیں جھک گئیں اور اس نے بے ساختہ اپنا سکرٹ کھینچ کر لمبا کرنا چاہا۔

              عزم اسکی اس حرکت پر مسکرا دیا اور اسکے پاس جا کر شاپنگ بیگ اسکے سامنے کیے۔

              "یہ کیا ہے؟"

              لیزا نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

              "ڈھنگ کے کپڑے۔۔۔۔"

              لیزا کے نا سمجھی سے دیکھنے پر عزم نے گہرا سانس لیا۔

              "یار کیا مسلہ ہے میرا بس چلے تو اس آدمی کو زندہ کر کے پھر مار دوں جس نے انگریزی ایجاد کی تھی اب کپڑے کو کیا کہتے تھے انگریزی میں۔۔۔۔۔کل۔۔۔کلوتھ۔۔۔۔ہاں کلوتھ۔۔۔۔"

              عزم نے مسکرا کر کہا تو لیزا نے گہرا سانس لے کر ان کپڑوں کو پکڑ لیا۔

              "یہ پہن کر باہر آؤ تمہارے لیے ایک سرپریز ہے۔۔۔۔"

              "یو مین سرپرائز ؟"

              لیزا نے طنزیہ انداز میں اسکے لہجے کا مزاق بنایا۔

              "ہاں ہاں ولایتی چوزی یہی بس تمہاری طرح منہ ٹیڑھا کرنا نہیں آتا۔۔۔۔"

              عزم نے منہ بنا کر کہا اور پھر کپڑوں کی جانب اشارہ کر کے اسے باہر آنے کا اشارہ کرتا وہاں سے چلا گیا۔اسکے جاتے ہی لیزا نے دانت کچکچا کر ان کپڑوں کے بیگز کو دیکھا۔

              "بس کچھ پل اور برداشت کر لے لیزا ایک بار یہاں سے آزاد ہو گئی تو اس جاہل انسان کو اسکی نانی یاد نہ دلا دی تو کہنا۔۔۔۔۔"

              لیزا نے غصے سے خود کلامی کی اور کپڑے نکال کر دیکھنے لگی۔وہ سب ہی پاکستانی طرز کے فراک پاجامے اور شلوار قمیض تھیں اور سب کپڑے ہی بہت زیادہ خوبصورت تھے۔لیزا عزم کی پسند کو داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔

              آخر کار اسے ایک سبز رنگ کا ٹراؤزر اور قمیض پسند آئی تو اسے پہن کر لیزا خود کا جائزہ لینے لگی۔وہ ہمیشہ ہی پرفیکٹ دیکھنا چاہتی تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے دوپٹہ اپنے گلے میں ڈالا اور بالوں میں ہلکا سا کیچر لگا کر کمرے سے باہر نکل آئی۔

              پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ کہاں جائے پھر ایک ملازمہ نے وہاں آ کر ڈائینگ ہال کی جانب اشارہ کیا تو لیزا وہاں چلی گئی۔سامنے ہی عزم شان سے کرسی پر بیٹھا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔

              پہلے عزم نے اس پر ایک نگاہ ڈالی لیکن پھر نظریں خود بخود اس پر اٹھیں اور پلٹنا ہی بھول گئیں۔مشرقی لباس میں وہ مغربی لڑکی پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔سچ ہی ہے یہ حیا اور پردہ ہی تو ہے جو عورت کا حسن نکھار کر چار گنا زیادہ کر دیتا ہے۔

              "بیٹھو۔۔۔۔"

              عزم نے اس سے دھیان ہٹا کر کرسی کی جانب اشارہ کیا تو لیزا خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔

              "واٹ سرپرائز ؟"

              لیزا کے الجھن سے پوچھا تو عزم نے مسکرا کر ایک ملازمہ کو اشارہ کیا۔عزم کے اشارہ کرتے ہی ملازمہ وہاں سے چلی گئی اور کچھ دیر کے بعد چھوٹے سے معصوم چہرے پر بڑی سی عینک والی ایک لڑکی کو لے کر وہاں آئی۔

              "سس۔۔۔۔۔سلام چچچچچ۔۔۔۔چوہدری جی۔۔۔۔"

              لڑکی کی بات پر عزم نے اثبات میں سر ہلا کر اسے لیزا کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

              "آآآ۔۔۔۔۔آپ نے مجھے بب ۔۔۔۔بلایا چوہدری جججج۔۔۔جی آپکو ککک۔۔۔۔کوئ کام تھا کیا ممم۔۔۔۔"

              "ارے جلدی بول لو استانی جی ساری زندگی آپکا ایک جملہ سننے پر تو نہیں لگا دینی۔۔۔۔"

              عزم کی بات پر وہ لڑکی مزید کنفیوز ہو گئی۔عزم نے گہرا سانس لے کر لیزا کی جانب دیکھا۔

              "انکا نام روپ شہزادی ہے اور یہ گاؤں کے سکول میں انگریزی کی استانی ہیں۔میں نے انہیں یہاں بلایا ہے تاکہ یہ میری پیاری سی ولایتی بیوی کو اردو سیکھا سکیں آخر کب تک ہم دونوں تیسرے بندے کے زریعے باتیں کرتے رہیں گے۔۔۔۔"

              عزم نے مسکرا کر لیزا سے کہا جو دانت کچکچا کر اسے دیکھ رہی تھی اور روپ حیرت سے لیزا اور عزم کو دیکھ رہی تھی جو میاں بیوی تھے۔عزم نے لیزا سے دھیان ہٹا کر روپ کو دیکھا اور اپنی بھویں اچکائیں تو روپ نے بھی اسی انداز میں اپنی بھویں اچکا دیں۔

              عزم نے گہرا سانس لے کر آنکھوں سے لیزا کی جانب اشارہ کیا تو روپ نے بھی اپنی آنکھیں گھما کر لیزا کی جانب اشارہ کر دیا۔

              "استانی جی جو کہا ہے میری بیوی کو انگریزی میں بتائیں نہ کہ میری نکلیں اتاریں۔۔۔"

              "اوہ۔۔۔۔"

              بات کو سمجھ کر روپ نے جلدی سے کہا اور لیزا کو انگلش میں اپنا تعارف اور یہاں آنے کا مقصد بتانے لگی۔

              "اسے بتاؤ کہ تم اب اسی حویلی میں اسکے ساتھ رہو گی اور جتنی جلدی ہو سکے اسے اردو سیکھانے کی کوشش کرو گی۔۔۔"

              عزم کے حکم پر روپ نے ہاں میں سر ہلایا اور لیزا کو ہر بات بتا دی۔

              "اس کے خواب میں سیکھوں گی میں اردو میرا بس چلے تو اسکی زبان ہی کاٹ دوں تا کہ اردو تو کیا کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہے۔۔۔"

              لیزا نے دانت کچکچا کر کہا تو روپ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

              "کیا کہا اس نے؟"

              عزم کے پوچھنے پر روپ نے اپنا تھوک نگلا۔

              اگر تو نے یہ سب چوہدری جی کو بتایا تو انہیں غصہ آ جائے گا اور تیری نوکری شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی روپ سوچ لے سکول میں پچیس ہزار مہینے کا مل رہا تھا اور چوہدری جی اکٹھا ستر ہزار دے رہے ہیں۔۔۔

              روپ نے سوچا اور گھبرائی سی مسکان کے ساتھ عزم کو دیکھا۔

              "کہہ رہی ہیں کہ وہ آپ سے بات کرنے کے لیے اتنی بے چین ہیں کہ مہینے کیا آدھے مہینے میں فر فر اردو بولنے لگیں گی۔۔۔۔"

              روپ نے ہلکا سا ہنستے ہوئے جھوٹ بولا اور پھر اپنے جھوٹ پر عزم کو مسکراتا دیکھ سکون کا سانس لیا۔

              "اس سے کہو کہ آج یہ ان کپڑوں میں بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہے دل کر رہا ہے کہ پورا چہرہ کالے ٹیکوں سے بھر دوں تا کہ کسی کی نظر نہ لگے۔۔۔۔"

              عزم نے مسکرا کر لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا تو روپ نے اسکی ساری بات لیزا کو انگلش میں بتا دی۔

              "اور میرا دل کر رہا ہے اسکے منہ پر فرائنگ پین مار کر اسکا پہلے سے ڈراؤنا چہرہ اور بھی ڈراؤنا بنا دوں۔۔۔۔"

              لیزا کی بات پر روپ نے تھوک نگل کر مصنوعی مسکان کے ساتھ عزم کی جانب دیکھا جو اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

              "آپ بھی انہیں بہت پیارے لگ رہے ہیں انکا دل کر رہا ہے کہ آپکو کالا جوڑا پہنا دیں نظر سے بچانے کے لیے۔۔۔۔"

              روپ نے پھر سے جھوٹ بولا تو عزم نے اب شریر نگاہوں سے لیزا کو دیکھا جو آنکھوں سے ہی اس پر انگارے برسا رہی تھی۔

              "سچ میں اس دنیا کا سب سے حسین چہرہ ہے تمہارا بس دل کرتا ہے دیکھتے جاؤ۔۔۔۔"

              روپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی عزم کی بات لیزا کو بتا دی اور اپنی نروسنیس کم کرنے کے لیے پانی کا گلاس اٹھا کر پینے لگی۔

              "اور اس دنیا کا سب سے وحیات چہرہ ہے تمہارا جسے دیکھ کر دل کرتا ہے الٹی کر دوں۔۔۔۔"

              لیزا کی بات پر پانی روپ کے منہ سے فوارے کی طرح نکلا اور وہ بری طرح سے کھانسنے لگی۔توبہ کیا یہ لڑکی سچ میں چوہدری جی کی بیوی ہے۔روپ نے بے ساختہ سوچا۔

              "کیا کہا میری ولایتی چوزی نے؟"

              عزم نے پوچھا تو روپ سے تھا لیکن دھیان سارا لیزا پر تھا۔

              "ااا۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا وہ آپ سے کم خوبصورت ہیں آپ کو دیکھ کے کچھ اور دیکھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔۔۔۔"

              روپ کی بات پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا اور پھر مسکراتے ہوئے لیزا کو دیکھنے لگا۔

              "ہائے میری ولایتی چوزی کیسے کر لیتی ہو اتنا برا منہ بنا کر اتنی پیاری باتیں۔چہرے سے لگتا ہے کہ بس چلے تو کچا چبا جاؤ اور باتوں سے لگتا ہے کہ۔۔۔۔۔"

              اچانک ہی عزم جھک کر لیزا کے کان کے قریب ہوا۔

              "اردو سیکھ جاؤ پھر اکیلے میں بتاؤں گا کیا لگتا ہے باتوں سے۔۔۔۔۔"

              اتنا کہہ کر عزم اٹھ کر کھڑا ہو گیا تو روپ بھی احتراماً اٹھ کھڑی ہوئی۔

              "اسے کہو آج رات سفید جوڑا پہن کر تیار رہے اسے کہیں لے کر جانا ہے ۔تم اسکے ساتھ اسی کے کمرے میں رکو گی اور اسے جلد از جلد اردو سیکھاؤ۔۔۔۔"

              عزم کے حکم پر روپ نے ہاں میں سر ہلایا تو عزم وہاں سے چلا گیا۔اسکے جاتے ہی روپ نے سکھ کا سانس لیا اور لیزا کی جانب مڑی۔

              "وہ آج رات آپکو اپنے ساتھ باہر لے کر جانا چاہتے ہیں آپ سفید والا ڈریس پہن کر تیار رہنا۔۔۔۔۔"

              "باہر؟"

              لیزا نے بے ساختہ پوچھا کیا اسکے کانوں نے غلط سنا تھا وہ اس قید خانے سے باہر جانے والی تھی۔

              "جی شائید کسی خاص جگہ جانا ہو۔۔۔۔۔"

              روپ کی بات پر لیزا گہری سوچ میں ڈوب گئی۔اسکے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس حویلی سے باہر نکل رہی تھی چاہے عزم کے ساتھ ہی سہی۔

              یہ تمہارے پاس پہلا اور آخری موقع ہے لیزا۔خود کو آزاد کروا کر ہی دم لینا پھر اس شخص کو بھی دیکھ لیں گے جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔...

              لیزا نے سوچا اور مسکرا دی۔وہ یہ ایک موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی۔
              ????

              Comment


              • #47
                Originally posted by bosses View Post

                janab problem kis ma ha size ma k front ma plz confirm krya t la problem solve ho ska
                فونٹ کا کہے رہا ہو لنک بھی فونٹ کا بھیجا ہے ۔سٹوری جمیل نوری فونٹ میں پوسٹ کرے سائز 26 یا 28 رکھے ۔
                جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                Comment


                • #48
                  Originally posted by Man moji View Post
                  [right]

                  فونٹ کا کہے رہا ہو لنک بھی فونٹ کا بھیجا ہے ۔سٹوری جمیل نوری فونٹ میں پوسٹ کرے سائز 26 یا 28 رکھے ۔
                  theik ho gya janab

                  Comment


                  • #49
                    #زندگی_اے_تیرے_نال




                    #قسط_نمبر_18(پارٹ 2)


                    Don't copy paste without my permission.
                    شام ہوتے ہی لیزا عزم کا کہا سفید جوڑا پہن کر تیار تھی۔اس وقت تو عزم اسے جو بھی کرنے کو کہتا وہ کر گزرتی کیونکہ اسے اس حویلی سے باہر نکل کر فرار کا راستہ جو تلاش کرنا تھا۔جو اس حویلی میں رہتے ہوئے نا ممکن تھا۔
                    اتنے دنوں سے حویلی کا جائزہ لے کر وہ یہ سمجھ چکی تھی کہ عزم کی اجازت کے بغیر یہاں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔حویلی کے دو گیٹ تھے اور دونوں پر چار چار پہرے دار ہمہ وقت پہرہ دیتے تھے اور دیواریں اونچی ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر کانٹے دار تاریں بھی لگیں تھیں اس لیے حویلی سے بھاگنا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔لیزا نے سوچ لیا تھا کہ باہر جا کر وہ یہ موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دے گی۔
                    "تیار ہیں آپ چوہدراین جی؟"
                    روپ کی آواز پر لیزا نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا۔
                    "تم مجھے یہ کیوں بلاتی ہو۔۔۔۔؟"
                    "کیونکہ آپ چوہدری جی کی بیوی ہیں اور اس لحاظ سے اس گاؤں کی چوہدراین۔۔۔۔"
                    روپ کے وضاحت دینے پر لیزا نے گہرا سانس لیا۔
                    "کوئی ضرورت نہیں مجھے یہ بلانے کی میرا نام لیزا ہے اور تم وہی بلاؤ مجھے۔۔۔۔یا چھوڑو میں کونسا یہاں رکنے والی ہوں۔۔۔"
                    آخری بات لیزا نے زیر لب کہی اور آئنے میں اپنا جائزہ لینے لگی۔سفید رنگ کے اس فراک پاجامے میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے بالوں کا کیا کرے۔
                    "میں آپکا سٹائل بناؤں؟بہت پیارے بال ہیں آپ کے سچی بہت پیارا سٹائل بنے گا۔۔۔"
                    روپ نے حسرت سے اسکے بھورے اور سنہری بالوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
                    "ہممم بنا دو۔۔۔۔"
                    لیزا نے اسکی طرف کمر کرتے ہوئے کہا تو روپ کو لگا کہ اسکی چاندی ہو گئی ہو اس نے لیزا کے بالوں کی فرنچ چوٹی بنائی اور اس میں جگہ جگہ پر موتی لگا کر اسے لیزا کے کندھے پر رکھ دیا۔
                    اس چوٹی کو دیکھ کر لیزا کا منہ واؤ شیپ میں کھل گیا۔وہ چوٹی اسکے چہرے پر بہت زیادہ جب رہی تھی۔
                    "کیسی لگی؟"
                    "بہت پیاری۔۔۔۔"
                    لیزا نے دل سے تعریف کی تو روپ کھل کر مسکرا دی۔لیزا نے دوپٹہ پھر سے اپنے گلے میں ڈالا اور ہونٹوں کو گلوز سے سجا کر آخری بار اپنا شیشے میں جائزہ لیا۔
                    "چوہدری جی میم صاحب کو نیچے بلا رہے ہیں۔۔۔۔"
                    ایک ملازمہ نے آ کر روپ سے کہا تو روپ نے اثبات میں سر ہلایا۔
                    "چلیں لیزا چوہدراین جی اپکا بلاوا آ گیا ہے۔۔۔"
                    لیزا نے اپنی آنکھیں گھمائیں اور روپ کے ساتھ نیچے چلی گئی جہاں عزم اسکا انتظار کر رہا تھا۔اس وقت وہ خود بھی کاٹن کی مایا لگی شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔بازو کہنیوں تک فولڈ کیے تھے۔پیروں میں پہنی کالی چپل اور سٹائل سے سیٹ کیے بالوں کے ساتھ گھنی داڑھی مونچھیں اس آدمی کو حد سے زیادہ شاہانہ بنا رہی تھیں۔
                    "چلیں۔۔۔۔۔؟"
                    لیزا کی آواز پر عزم نے اسکی جانب دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گیا۔وہ اس سفید لباس میں خود بھی تو جنت سے اتری حور لگ رہی تھی۔
                    "کیا بات ہے ولایتی چوزی صرف روپ سے ہی گھائل کر دو گی کیا آج؟"
                    عزم شریر سے انداز میں کہتا اسکے قریب ہوا۔
                    "پریوں سے زیادہ حسین لگ رہی ہو ان کپڑوں میں بالکل معصوم اور پاکیزہ۔۔۔۔بس ایک کمی ہے۔۔۔۔"
                    عزم نے اسکے گلے سے دوپٹہ نکالا تو لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں لیکن اگلے ہی لمحے عزم وہ دوپٹہ اسکے سر پر دے چکا تھا۔
                    "اف۔۔۔۔۔ربا میرے میں تا گڑ کھا کے مر جاواں۔۔۔۔"
                    عزم نے جن نظروں سے لیزا کو دیکھا تھا وہ نظریں لیزا کو نگاہیں جھکانے پر مجبور کر گئیں۔
                    بس کچھ دیر اور لیزا جان چھوٹ جائے گی تمہاری اس سے۔۔۔۔
                    لیزا نے سوچا اور گہرا سانس لے کر خود پر قابو کیا۔
                    "گو؟"
                    لیزا کے ایک لفظ میں پوچھنے پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
                    "او ضرور گو جی۔۔۔۔لگتا ہے باہر جانے کو کچھ زیادہ ہی بے چین ہے میری ولایتی چوزی۔۔۔۔"
                    عزم نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔
                    "چچچ۔۔۔۔چوہدری جی مجھے نہیں لے کے جائیں گے کیا ؟ میرے بنا باتیں کیسے سمجھیں گے ایک دوسرے کی؟"
                    روپ نے بھاگ کر انکے پاس آتے ہوئے پوچھا تو عزم نے مسکرا کر لیزا کی جانب دیکھا۔
                    "دل سے۔۔۔ایک دوسرے کی ہر بات دل سے سمجھ لیں گے ہم۔۔۔۔"
                    اتنا کہہ کر عزم لیزا کو اپنے ساتھ لے کر اپنی گاڑی کے پاس آیا اور اسے گاڑی میں بیٹھا کر خود ساتھ بیٹھ گیا۔انکے بیٹھتے ہی ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
                    "ہم درگاہ جا رہے ہیں تا کہ وہاں سلام کر کے اپنی زندگی کی نئی شروعات کر سکیں۔مانتا ہوں کہ ہماری شادی ہم دونوں کے لیے مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں تھی لیکن ہم چاہیں یا نہ چاہیں یہ زندگی ہمیں ساتھ گزارنی ہے تو کیوں نہ حالات سے سمجھوتا کر لیں۔۔۔۔،"
                    عزم نے لیزا کی جانب دیکھا جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔
                    "انڈرسٹینڈ؟"
                    عزم کے پوچھنے پر لیزا نے انکار میں سر ہلایا تو عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔پھر اچانک ہی وہ لیزا کے قریب ہوا تو لیزا گھبرا کر ڈرائیور کو دیکھنے لگی جو اپنے دھیان گاڑی چلا رہا تھا۔
                    "ہولے ہولے سب سمجھ جاؤ گی ولایتی چوزی میں ہوں ناں سب سمجھا دوں گا۔۔۔۔۔"
                    اچانک ہی انکی گاڑی گاؤں سے باہر نکلی اور گاڑی میں ہوئے اندھیرے کا فایدہ اٹھا کر عزم نے اپنے ہونٹوں میں اسکے کان کی لو کو دبایا تو لیزا کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا لیکن گاڑی کی لائٹ آن ہوتے ہی عزم لیزا سے دور ہو چکا تھا۔
                    "تو صبر تو کر میرے یار
                    زرا سانس تو لے دلدار
                    چل فکر نوں گولی مار یار
                    ہیں دن جندڑی دے چار
                    ہولے ہولے ہو جائے گا پیار چلیا
                    ہولے ہولے ہو جائے گا پیار۔۔۔"
                    عزم نے گنگنایا اور لیزا کو لگ رہا تھا کہ اسکے جسم کی ساری حساسیت اسکے کان کی لو میں چلی گئی ہو جہاں عزم نے اسے چھوا تھا۔
                    جلد از جلد اس آدمی سے دور جانا ہو گا ورنہ یہ پاگل کر دے گا مجھے۔۔۔۔
                    لیزا نے ایک ہاتھ اپنے گال پر رکھتے ہوئے سوچا جو عزم کی گستاخی پر تپ رہا تھا۔کچھ دیر کے بعد وہ درگاہ پہنچ چکے تھے۔
                    گاڑی سے باہر نکل کر عزم نے غلام کو دیکھا جو وہاں انکا انتظار کر رہا تھا۔غلام عزم کے حکم پر پہلے ہی وہاں آ کر لنگر کے لیے دیگیں بنوا چکا تھا۔
                    عزم لیزا کا ہاتھ تھام کر درگاہ کی جانب چل پڑا۔درگاہ کے چوراہے پر پہنچ کر اس نے جوتے اتارے تو لیزا نے بھی اپنے جوتے اتار دیے۔عزم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسے اپنے ساتھ دربار کے اندر لے آیا۔
                    قبر کے پاس آ کر عزم نے عقیدت سے قبر کو چھوا تو لیزا نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر عزم کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے پر لیزا نے بھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیے۔اس وقت دربار کے اس کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔
                    لیزا نے ایک نظر عزم کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے دعا مانگنے میں مصروف تھا۔لیزا کو یہ موقع سب سے بہترین لگا۔وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم عزم سے دور لے جانے لگی اور دربار کے کمرے سے نکلتے ہی اس نے ایک نظر عزم کو دیکھا اور جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی۔
                    عزم سے دور جانے پر نہ جانے کیوں اسکا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا لیکن اسے اپنی آزادی پیاری تھی اور اپنی آزادی اسے سامنے نظر آ رہی تھی۔
                    درگاہ سے باہر آ کر لیزا نے اپنے جوتے پہنے اور تیزی سے وہاں سے بھاگ گئی۔اسے عزم کو خبر ہونے سے پہلے کسی بھی حال میں پولیس سٹیشن پہنچنا تھا۔
                    جبکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے کمرے سے باہر نکلتے ہی عزم اسے بھاگتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کرے گی کیونکہ وہ آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔
                    "عزم وہ بھاگ رہی ہے۔۔۔۔"
                    غلام نے جلدی سے عزم کے پاس آتے ہوئے کہا تو عزم مسکرا دیا۔
                    "بھاگنے دو حویلی میں بیٹھ بیٹھ کے تھک گئی ہے بیچاری زرا ٹانگیں کھل جائیں گی اسکی۔۔۔۔"
                    عزم نے شان سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا تو غلام گہرا سانس لے کر رہ گیا۔اس ان پڑھ اور اسکی ولایتی چوزی کا رشتہ غلام کی سمجھ سے تو باہر تھا۔
                    ????

                    Comment


                    • #50
                      Originally posted by Bosses View Post

                      theik ho gya janab


                      پھر ویسے ہی پوسٹ کر دی لنک دیا ہے جو وہا سے سیکھ لے مہربانی کرے ۔
                      جب تک دائم و آباد رہے گی دنیا
                      ہم نہ ہو گے کوئی ہم سا نہ ہو گا

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X