Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    #زندگی_اے_تیرے_نال



    #قسط_نمبر_23





    عرشمان اور آن سر سبز پہاڑوں کی سیر کے لیے گئے تھے جب انکی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی۔اب عرشمان گاڑی کا بونٹ کھول کر مسلہ دریافت کرنے کی کوشش میں تھا اور آن اسکے پاس کھڑی ارد گرد سر سبز پہاڑوں اور پاس سے گزرتی جھیل کو دیکھ رہی تھی۔



    "پتہ نہیں کیا مسلہ ہو گیا ہے اسے۔۔۔۔"



    عرشمان نے پریشانی سے یہاں وہاں دیکھا دور دور تک کسی آبادی یا انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔



    "اف کیا ہو گیا ہے مان خراب ہونے والی چیز تھی ہو گئی آپ اسے چھوڑیں اور یہاں دھیان دیں دیکھیں کتنا پیارا منظر ہے اور یہ بادل اففف۔۔۔۔"



    آن نے خالی سڑکے کے درمیان میں آ کر گھومتے ہوئے کہا۔جہاں وہ بادل آن کو خوبصورت لگ رہے تھے وہیں وہ عرشمان کی پریشانی بڑھا رہے تھے۔



    "اگر بارش آ گئی تو ساری خوبصورتی نکل جائے گی۔۔۔۔"



    عرشمان سنجیدگی سے کہتے ہوئے گاڑی کو دیکھنے لگا۔



    "ہائے سچی آپکو پتہ ہے میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ آپکا اور میرا پہاڑوں میں گھر ہوتا آپ لکڑیاں کاٹ کر گھر آیا کرتے اور میں آپکا انتظار کیا کرتی کتنی مزے کی زندگی ہوتی ناں۔۔۔۔"



    آن نے واپس اس کے پاس آتے ہوئے خوشی سے کہا تو عرشمان سر جھٹک کر اپنا کام کرنے لگا۔



    "ویسے مان ہم ڈنر کیسے کرتے یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔۔"



    آن نے پریشانی سے کہا۔



    "ہاں تو آدھا جنگلی تو بنا ہی دیا ہے پورے جنگلی بن جائیں گے یہاں جانوروں کا شکار کر کے انہیں پکا لیا کریں گے۔۔۔۔"



    عرشمان نے الجھن سے کہا تو آن ہنس دی۔



    "یہ سہی کہا مان آپ نے تو اسے چھوڑیں ناں رات ہونے والی ہے چل کے شکار کرتے ہیں۔۔۔۔"



    آن نے شرارت سے کہا تو عرشمان اسے گھورتا پھر سے گاڑی کا معائنہ کرنے لگا۔تبھی اسکے کانوں میں بکریوں کی آواز پڑی تو شکر کا سانس لیتے عرشمان نے گاڑی کو چھوڑا اور یہاں وہاں دیکھنے لگا۔



    دور ہی ایک آدمی اپنی بھیڑوں کو لے کر وہاں آ رہا تھا۔اسکے تھوڑا قریب آتے ہی عرشمان اسکے پاس گیا جبکہ آن گاڑی کے پاس ہی کھڑی رہی۔



    "سنیے کیا یہاں قریب کوئی میکینک مل سکتا ہے۔۔۔۔؟"



    عرشمان کے سوال پر آدمی نے اپنی بھیڑوں سے دھیان ہٹا کر عرشمان کو دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔



    "عرشمان صاحب آپ یہاں۔۔۔۔؟"



    اس آدمی کی بات عرشمان کو حیرت میں ڈال گئی۔



    "معاف کریے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔"



    عرشمان نے عاجزی سے کہا۔



    "آپ مجھے بھول گئے ہوں گے صاحب لیکن میں نہیں بھول سکتا چار سال پہلے آپ اپنے بھائی کے ساتھ یہاں آئے تھے ۔آپکو یاد ہے میرا بیٹا میرے ساتھ آیا تھا اور چوٹی سے گر کر اسے چوٹ لگ گئی تھی پھر آپ اسے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے تھے اور اسکے علاج کے پیسے بھی دیے۔۔۔۔آپکا احسان میں کبھی بھلا سکتا ہوں بھلا؟"



    آدمی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جاتا۔



    "اب آپ کا بیٹا کیسا ہے۔۔۔۔؟"



    "وہ تو اچھا بھلا ہے صاحب لیکن آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں کچھ دیر رات ہو جائے گی اور یہاں جنگلی جانور بستے ہیں۔"



    آدمی نے پریشانی سے کہا تو عرشمان ساتھ کھڑی آن پر نظر ڈالتا مزید پریشان ہو گیا۔



    "کیا یہاں کوئی میکینک ملے گا۔۔۔۔؟"



    عرشمان کی پریشانی دیکھ کر وہ آدمی بھی پریشان ہو گیا۔



    "میکینک تو کیا صاحب یہاں تو دور دور تک کسی کا گھر بھی نہیں ہے میرا اپنا گھر کافی فاصلے پر ہے میں تو یہاں اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لیے لایا تھا۔"



    عرشمان نے پھر سے پلٹ کر آن کو دیکھا جو ان نظاروں میں کھوئی اپنی چادر کے کونے کو انگلیوں میں گھما رہی تھی۔



    "میرا وہ بیٹا جسے آپ نے بچایا تھا صاحب وہ میکینک ہے لیکن ابھی گھر پر ہے۔۔۔۔"



    عرشمان نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو پریشانی مزید بڑھ گئی کیونکہ اس ایریا میں سروس بھی نہیں تھی۔اس سے پہلے کہ وہ اس آدمی کو کچھ کہتا ایک گاڑی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔دور سے آتی بس کو دیکھ کر وہ آدمی مسکرا دیا۔



    "آپ اس بس میں چلے جانا صاحب۔آپ مجھے اپنا پتہ بتا دیں میں صبح اپنے بیٹے کو یہاں لا کر آپکی گاڑی ٹھیک کروا دوں گا اور وہ آپکے پاس گاڑی چھوڑ بھی جائے گا۔۔۔۔"



    عرشمان نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی کی چابی اسے دی۔ویسے بھی اسے گاڑی کی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس میں ٹریکر لگا تھا۔عرشمان اب وہاں کھڑا بس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔



    بس کے قریب آنے پر عرشمان نے بس کو ہاتھ دیا تو بس رک گئی اور پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک آدمی باہر آیا۔



    "جی سر؟"



    آدمی کے پڑھے لکھے لہجے نے عرشمان کو حیران کیا تھا۔



    "ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا آپ پلیز ہمیں شہر تک چھوڑ سکتے ہیں تا کہ ہم اپنے ہوٹل چلے جائیں۔۔۔۔"



    اس بات پر اس آدمی نے پریشانی سے بس کے اندر دیکھا ۔



    "لیکن سر یہ پرائیویٹ بس ہے ہم بچیوں کا ٹور لے کر جا رہے ہیں سوری لیکن ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔۔۔۔"



    آدمی نے اپنا مسلہ بیان کیا۔



    "دیکھیں صاحب یہ دونوں اس وقت کہاں جائیں گے میاں بیوی ہیں بہت شریف لوگ ہیں آپ ان کی مدد کر دیں۔۔۔۔"



    عرشمان کے ساتھ کھڑے چہراوے نے کہا تو آدمی نے پھر سے بس کے اندر دیکھا۔



    "ٹھیک ہے آپ آ جائیں ۔۔۔۔"



    اس آدمی کی بات پر عرشمان نے شکر ادا کیا اور گاڑی کے پاس کھڑی آن کے پاس آیا۔



    "چلو ہمیں اس بس میں جانا ہے۔۔۔۔"



    عرشمان کی بات پر آن کا منہ بن گیا۔



    "یعنی ہم آج رات یہاں نہیں گزاریں گے؟"



    عرشمان نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس بس میں لے آیا لیکن بس کا منظر دیکھ کر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے کیونکہ بس میں صرف لڑکیاں موجود تھیں اور سب ہی انہیں ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ مارس سے آئے ایلین ہوں۔



    "سٹوڈینٹس ان دونوں کی گاڑی خراب ہو گئی ہے تو شہر تک یہ دونوں ہمارے ساتھ سفر کریں گے آئی ہوپ آپ سب کو کوئی اشو نہیں ہو گا۔۔۔۔"



    پروفیسر کی بات پر لڑکیوں نے شریر نگاہوں سے ایک دوسری کو دیکھا۔



    "نو سر ایبسلوٹلی ناٹ۔۔۔۔"



    انکی بات پر پروفیسر مسکرا دیا۔



    "تو پھر انہیں بیٹھنے کے لیے سیٹ دیں۔۔۔"



    پروفیسر کے حکم پر بس کے درمیان کی سیٹ پر بیٹھی دو لڑکیاں فوراً اٹھ گئیں۔



    "یہاں آ جائیں آپ ہم دونوں پیچھے چلی جاتی ہیں۔۔۔۔"



    عرشمان نے آن کا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ سیٹ تک لا کر خود کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھ گیا اور آن کو اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔انکے بیٹھتے ہی پروفیسر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔



    "سر بور ہو رہے ہیں میوزک لگا دیں پلیز ۔۔۔۔"



    ایک لڑکی نے فرمائش کی اور پھر بس میں گانا چلنے لگا۔



    " خیریت پوچھو

    کبھی تو کیفیت پوچھو

    تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے

    دل میرا دیکھو

    نہ میری حیثیت پوچھو

    تیرے بن ایک دن جیسے

    سو سال لگ

    انجام ہے طے میرا

    ہونا مجھے ہے تیرا

    جتنی بھی ہوں دوریاں

    فلحال ہیں یہ دوریاں

    فلحال ہیں

    او خیریت پوچھو

    کبھی تو کیفیت پوچھو

    تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے"



    گانا بجتے ہی سب لڑکیاں بھی تالیاں بجاتے ہوئے خود بھی گانے لگیں اور عرشمان گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔وہ بس جلد از جلد واپس پہنچنا چاہتا تھا جبکہ ان لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں کو مسکرا کر دیکھتی آن اس سفر کے کبھی ختم نہ ہونے کی دعائیں کر رہی تھی۔

    ????

    "آپ دونوں ہزبینڈ وائف ہیں کیا ؟"



    آن کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے اسکی جانب اپنا رخ کرتے ہوئے پوچھا تو آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔



    "واؤ اتنا پیارا کپل ہے ناں آپکا کہ کیا کہوں یو آر بوتھ جسٹ میڈ فار ایچ ادر۔۔۔۔"



    آن کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی اسکی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگی۔



    "تھینک یو ۔۔۔۔"



    آن نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ تعریف پر اسکے گال گلابی ہوئے تھے۔



    "آپی آپکی ارینج میرج ہوئی یا لو میرج۔۔۔۔؟"



    اس سوال پر آن نے عرشمان کی طرف دیکھا جو مسلسل گاڑی سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔



    "یہ سوال زرا مشکل ہے۔۔۔۔"



    آن کے جواب پر لڑکیاں حیران ہوئیں۔



    "میری انگیجمیٹ انکے بابا یعنی میرے تایا ابو نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان سے کر دی تھی کہ اگر لڑکی ہوئی تو اسکی شادی ان سے ہو گی۔اس لیے یہ ارینج میرج ہوئی لیکن جب سے لفظوں کو سمجھنا شروع کیا تو یہی جانا کہ میں ان کی ہوں،جب سے محبت کے جذبے کو سمجھنا شروع کیا تو انکے سوا کسی کا خیال ہی نہیں آیا تو سمجھ لیں کہ یہ لو میرج ہے۔۔۔۔ "



    آن نے مسکرا کر عرشمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا لیکن چہرے کی سختی بیان کر رہی تھی کہ وہ بمشکل ہی ضبط کیے وہاں بیٹھا تھا۔



    "واؤ۔۔۔۔یار کاش میرے بابا بھی میرے پیدا ہونے سے پہلے میری انگیجمنٹ میرے کزن سالار بھائی سے کر دیتے اب انکی شادی کہیں اور ہو گئی ہے اور انکے دو بچے بھی ہیں اور میں یہاں کتابوں میں سر کھپا رہی ہوں۔۔۔۔"



    ایک لڑکی کی بات پر سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں اور انکے ساتھ ساتھ آن بھی کھل کر ہنس دی۔آج کتنے دونوں کے بعد وہ اس پل کو کھل کر جی رہی تھی۔کتنے عرصے کے بعد اسکی آنکھوں میں آنسؤں کی بجائے چہرے پر ایک خالص مسکان تھی۔



    "ویسے آپ کے ہزینڈ کرتے کیا ہیں؟"



    ایک لڑکی نے آن سے سوال کیا۔



    "ویسے تو انکا اپنا بزنس ہے لیکن ہم پنجاب کے ایک گاؤں سے ہیں اور ہماری بہت سی زمین ہیں تو گاؤں کے معاملات دیکھتے ہیں یہ۔۔۔۔۔"



    "یعنی کہ آپ کے ہزبینڈ وڈیرے ہیں۔۔۔۔؟"



    ایک لڑکی نے جلدی سے پوچھا تو آن ہنس دی۔



    "جی وڈیرے ہیں ملک خاندان سے ہیں ہم۔۔۔۔"



    آن کی بات پر وہ لڑکیاں ایک آہ بھر کر رہ گئیں۔



    "آپی مائنڈ مت کرنا لیکن آپ کا ہزبنیڈ ایسا لگتا ہے کسی ناول کے ہیرو ہو ہائے سچی یہ روڈ سا ہینڈسم مکھڑا اور اوپر سے ہٹا کٹا پنجابی منڈا اور سب سے اہم وڈیرا ہائے آپی جیلسی ہو رہی آپ سے۔۔۔۔"



    لڑکی کی بات پر آن عرشمان کو دیکھتے ہوئے ہنس دی۔



    "آپی آپ کیا کرتی ہیں۔۔۔؟"



    اب سوال ایک عینک والی کیوٹ سی لڑکی کی جانب سے آیا جو تب سے خاموش بیٹھی تھی۔



    "میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔۔"



    آن نے مسکراتے ہوئے عام سے انداز میں بتایا۔



    "اف اُمی کہا تھا ناں پری میڈیکل پڑھتے ہیں اور ڈاکٹر بنتے ہیں دیکھ اتنا کمال کر وڈیرا شوہر ملتا ہے ڈاکٹر بن کے تجھے ہی شوق تھا پری انجینئرنگ پڑھنے کا۔"



    عینک والی لڑکی کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے منہ بنا کر کہا۔



    "مجھے وڈیرا نہیں چاہیے مجھے تو بس کمپیوٹر پڑھانے والا وہ سڑو سا سر دانش چاہیے ۔۔۔"



    عینک والی لڑکی نے گلابی گالوں کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے پروفیسر کو دیکھتے ہوئے کہا۔



    "اووووووو۔۔۔۔۔"



    سب لڑکیاں ہوٹنگ کر کے ہنسنے لگیں تو سر نے ایک بار مڑ کر سب کو دیکھا لیکن جب نظر اس عینک والی لڑکی پر پڑی تو آنکھوں میں نرمی آئی اور وہ پھر سے اپنا دھیان سامنے کر گیا۔



    "آپی اتنا مزہ آیا ناں آپ کے ساتھ کہ کیا بتائیں آپکو بھی ہمارے ساتھ مزہ آیا ناں۔۔۔۔۔"



    ایک لڑکی کے پوچھنے پر آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔



    "بہت زیادہ۔۔۔۔"



    "لیکن لگتا ہے آپ کے ہزبینڈ کو مزہ نہیں آیا تب سے ایسے کھڑکی سے باہر دیکھ رہے ہیں جیسے سڑک پر کیٹرینا کیف کملی کملی پر ڈانس کرتی نظر آ رہی ہو۔۔۔۔"



    ایک لڑکی نے شرارت سے کہا تو سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں۔



    "کملی کملی سے یار آیا کہ اندھیرا ہو گیا ہے تو مزہ کریں۔۔۔۔؟"



    آن کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے آنکھ دبا کر کہا تو سب مسکرا دیں۔



    "سر کملی کملی سانگ لگا دیں۔۔۔۔"



    لڑکیوں کی فرمائش پر سر نے گہرا سانس لے کر گانا لگا دیا اور ایک لڑکی اٹھ کر آن کے پاس کھڑی ہو گئی اور دوسری لڑکی کو اشارہ کیا۔بس پھر اس لڑکی نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی ایسا ڈانس کیا کہ آن حیران رہ گئی۔



    "آپی آپ بھی کر کے دیکھائیں ناں ڈانس۔۔۔۔"



    گانا ختم ہونے پر ادائیں دیکھانے والی اس لڑکی نے کہا۔



    "مم ۔۔۔۔مجھے نہیں آتا۔۔۔۔"



    "تو کیا ہو گیا آپی یہاں کونسا نچ بلیے کا کامپیٹیشن ہو رہا ہے پلیز تھوڑا سا۔۔۔۔"



    آن نے پریشانی سے یہاں وہاں سب لڑکیوں کو دیکھا جو بہت امید سے اسے دیکھ رہی تھیں اچانک ہی عرشمان نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور سختی سے گھور کر اسے دیکھا۔



    "سوچنا بھی مت۔۔۔۔"



    عرشمان کی حرکت پر آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔



    "اوووو۔۔۔۔۔"



    سب لڑکیوں نے ایک بار پھر سے ہوٹ کیا۔



    "یار یہ وڈیرا تو پوزیسسو بھی ہے ہائے آپی دھیان سے سونا میں رات کو آ کر آپکے وڈیرے کو کڈنیپ نہ کر لوں۔۔۔۔"



    ایک لڑکی نے شرارت سے آنکھ دبا کر کہا تو سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔تبھی اچانک بس رک گئی اور عرشمان نے سکھ کا سانس لیا۔پروفیسر بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کی جانب آیا۔



    "سر ہم مال روڈ پہنچ گئے ہیں اب آپ یہاں سے ٹیکسی لے کر اپنے ہوٹل جا سکتے ہیں ہم آپ کو ہوٹل چھوڑ آتے لیکن بچیوں کو کیمپنگ کے لیے لے کر جانا ہے اور ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"



    پروفیسر نے وضاحت دی۔



    "کوئی بات نہیں آپ کا شکریہ۔"



    اتنا کہہ کر عرشمان نے آن کا ہاتھ پکڑا اور کھڑا ہونا چاہا لیکن اچانک ہی ایک لڑکی نے اپنا ہاتھ آن کے دوسرے ہاتھ پر رکھا۔



    "پلیز آپی نہ جائیں آپ بھی ہمارے ساتھ کیمپنگ کرنے چلیں ساری رات کھل کر انجوائے کریں گے۔۔۔۔"



    لڑکی کی بات پر باقی سب نے بھی ہاں میں سر ہلایا تبھی دو اور لڑکیوں نے آن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔



    "ہم نے اتنا انجوائے کیا آپ کے ساتھ ابھی نہ جائیں ناں پلیز کل ہم نے بھی واپس آنا ہے سٹی ہم آپکو چھوڑ دیں گے آپکے ہوٹل پلیز۔۔۔۔"



    اب کی بار دوسری لڑکی نے کہا۔



    "آن چلو۔۔۔۔"



    عرشمان نے دانت کچکچا کر کہا تو آن نے بے بسی سے عرشمان کی جانب دیکھا۔



    "بچے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم کسی کو بھی یوں ساتھ نہیں لے جا سکتے کالج یہ الاؤ نہیں کرتا۔پہلے ہی ہم انہیں لفٹ دے کر رول توڑ چکے ہیں اگر پرنسپل سر کو پتہ چلا تو؟"



    پروفیسر نے پریشانی سے کہا تو لڑکیاں منہ بسور کر انہیں دیکھنے لگیں۔



    "سر کون بتائے گا پرنسپل سر کو ہم میں سے تو کوئی نہیں بتا رہا بتائے گا کیا کوئی؟"



    ایک لڑکی کے پوچھنے پر سب نے ایک ساتھ نہیں کہا۔



    "پلیز سر کیا ہو گیا ہے یہ دونوں کونسا دہشت گرد ہیں جو آپ ڈر رہیں ہیں چِل کریں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"



    اب دوسری لڑکی نے کہا تو پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری۔



    "اور ہاشم سر کا کیا کریں گے جو کیمنگ پلیس پہ ہمارا ویٹ کر رہے ہیں؟انہیں کیا بتائیں گے کہ کون ہیں یہ لوگ؟"



    پروفیسر کے سوال پر سب لڑکیوں نے ایک دوسری کی جانب دیکھا۔



    "آپ انکی فکر مت کریں سر ہم انہیں سمجھا لیں گے پلیز سر مان جائیں ناں پلیز۔۔۔۔"



    سب لڑکیاں ایک ساتھ پلیز پلیز کہنے لگیں تو پروفیسر نے اضطراب سے سب کو دیکھا۔



    "سوری بچے میں پرمیشن نہیں دے سکتا۔۔۔"



    پروفیسر کی بات پر سب لڑکیوں نے منہ بسور لیا لیکن پھر وہ عینک والی کیوٹ سی لڑکی اٹھ کر پروفیسر کے سامنے گئی اور اپنے ہاتھ آپس میں ملنے لگی۔



    "پپ۔۔۔۔پلیز سر مان جائیں ناں آپی بہت اچھی ہیں ہمیں انکے ساتھ وقت گزارنا ہے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔"



    لڑکی کے سر اٹھا کر پلیز کہنے پر پروفیسر نے بے بسی سے یہاں وہاں دیکھا۔



    "ٹھیک ہے اگر یہ دونوں مان جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"



    "یےےےےےے"



    پروفیسر سے اجازت ملنے پر سب نے خوشی سے کہا تو وہ عینک والی لڑکی واپس آ کر بیٹھ گئی اور ایک شرمیلی سی نگاہ اٹھا کر پروفیسر کو دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا گئی۔



    "آپ چلیں گی ناں ہمارے ساتھ کیمپنگ پر آپی۔۔۔؟"



    اس سوال پر آن نے اجازت طلب نظروں سے عرشمان کو دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھا۔



    "بالکل نہیں ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔"



    عرشمان آن کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کر کھڑا ہوا لیکن آن اپنی سیٹ پر بیٹھی رہی۔



    "میں بھی انکے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں مان اتنا مزہ مجھے کبھی نہیں آیا جتنا آج آیا کیا آپ میری خوشی کے لیے مان نہیں سکتے؟"



    آن نے اتنی امید سے پوچھا کہ ایک پل کے لیے انکار کرنا عرشمان کے لیے ناممکن ہو گیا لیکن پھر اس نے اپنی مظبوطی کو قائم کیا۔



    "آن ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔۔"



    عرشمان نے سختی سے حکم دیا۔



    "اوئے سڑو وڈیرے مان جاؤ ناں کھا نہیں جائیں گی ہم تمہیں۔۔۔۔۔"



    ایک لڑکی نے کہا تو عرشمان نے آن کو گھورا جو اپنی سیٹ سے اٹھ نہیں رہی تھی۔



    "پلیز مان جائیں ناں میری خاطر۔۔۔"



    آن نے بہت زیادہ محبت سے کہا لیکن عرشمان نے اسے بس گھورا۔



    "پلیز مان۔۔۔۔"



    اب کی بار آن نے اتنی محبت سے کہا کہ سب لڑکیوں نے آہ بھر کر آن کو دیکھا۔



    "پلیز مان۔۔۔۔مان جاؤ ناں۔۔۔"



    سب لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لے کر یہاں وہاں دیکھا اور پھر دانت کچکچاتا واپس سیٹ پر بیٹھ گیا۔سب لڑکیوں نے خوشی سے یاہو کا نعرہ لگایا تو پروفیسر بھی واپس سیٹ پر چلا گیا اور گاڑی پھر سے سٹارٹ ہو گئی۔



    آن نے آہستہ سے اپنا ہاتھ عرشمان کے ہاتھ پر رکھا اور مسکرا دی۔



    "تھینک یو۔۔۔۔"



    عرشمان نے جواب میں ایک نظر آن کو دیکھا اور پھر سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جبکہ آن خود کو ملنے والی خوشی پر دوبارہ سے لڑکیوں کی منچلی باتوں میں کھو گئی۔

    ????

    کیمپنگ پلیس پر پہنچ کر لڑکیوں اور پرفیسر نے جیسے تیسے دوسرے پروفیسر کو منایا تھا لیکن آخر کار ان کے مان جانے پر سب نے شکر کا سانس لیا اور اب دونوں پروفیسر مل کر باربی کیو کی تیاری کر رہے تھے اور عرشمان بھی انکی مدد کرنے کی غرض سے انکے پاس چلا گیا تھا جبکہ آن سب سٹوڈینٹس کے پاس بیٹھی تھی۔



    جس جگہ وہ موجود تھے وہ ایک جنگل کے ساتھ تھی اور خاص طور پر کیمپنگ کے لیے ایک ایرایا بڑی بڑی لائٹیں لگا کر مخصوص کیا گیا تھا۔



    آن لڑکیوں کے پاس بیٹھی دلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔وہ زیادہ بڑی کلاس نہیں تھی بس اکیس لڑکیاں تھیں اور اپنی کلاس کا اچھا رزلٹ آنے پر انعام کی صورت میں سرگودھا سے یہاں ٹرپ پر آئی تھیں۔ان کے ساتھ اٹھکھیلیوں اور باتوں میں وقت کہاں گیا آن کو اندازہ ہی نہیں ہوا۔پروفیسر دانش ان سب کے پاس آئے۔



    "چلو بھئی سب بابی کیو ریڈی ہے ڈنر کا ٹائم ہو گیا۔"



    اس بات پر سب لڑکیاں خوشی سے چہکتی ہوئی وہاں چل دی جہاں انہوں نے گھاس پر چٹائی بچھا کر سب کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا۔



    آن آ کر عرشمان کے ساتھ بیٹھ گئی۔باربی کیو کے ساتھ ساتھ کڑاہی اور نان کا بھی بندوبست تھا۔سب نے مل کر کھانا کھایا۔



    "آئی ہوپ آپ دونوں کو ہمارے ساتھ کوئی مسلہ نہیں ہوا ہو گا۔رات سونے کی ٹینشن مت لیں ویسے میرا اور ہاشم سر کا ٹینٹ علیحدہ تھا اب آپ دونوں میرے ٹینٹ میں سو جائے گا اور میں ہاشم سر سے شئیر کر لوں گا۔"



    پروفیسر دانش نے عرشمان کو بتایا تو عرشمان نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔



    "آپ کا بہت شکریہ۔"



    عرشمان نے نرمی سے کہا کھانا کھانے لگا۔کھانے کے بعد وہیں دائرے میں بیٹھے بیٹھے اٹھکھیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔



    "سر گیم کھیلتے ہیں۔"



    ایک لڑکی نے جلدی سے فرمائش کی۔



    "ہممم کیا گیم کھیلیں؟"



    پروفیسر نے دلچسپی سے پوچھا۔



    "میرے پاس فٹ بال ہے۔"



    "پاگل اس وقت فٹ بال کھیلیں گے تو بال جنگل میں چلی جائے گی اور پھر شیر کے منہ سے لانا تم بال۔"



    ایک لڑکی نے فوراً کہا تو عرشمان کے علاوہ سب ہنس دیے۔



    "ارے نہیں یار فٹ بال سے پاس دا بال کھیلتے ہیں جس پر بال رکے گی اسے ایک ٹاسک دیں گے جو اسے پورا کرنا ہو گا۔"



    لڑکی کا آئیڈیا سب کو ہی پسند آیا تو وہ جلدی سے اپنے کیمپ میں گئی اور بیگ سے فٹ بال نکال کر لائی۔



    "ہاشم سر آپ کے والا گیم نہیں آپ میوزک چلا لیں بس اسے روک دیجیے گا"



    ایک لڑکی نے ہاشم سر سے کہا تو انہوں نے گہرا سانس لیا اور جیب سے موبائل نکالا۔کافی دیر وہ گیم چلتا رہا جس میں بال کبھی کسی لڑکی پر رکتی تو کبھی کسی اور پر۔ سب ہی کو عجیب و غریب ٹاسک دیے گئے جیسے زبان سے ناک کو چھونا،بندر کی آواز نکالنا اور کتنی ہی بار اٹھک بیٹھک کرنا وغیرہ۔



    ان سب میں عرشمان بس آن کو دیکھ رہا تھا جو کھلکھلاتے ہوئے ہر چیز کھل کر انجوائے کر رہی تھی۔تبھی بال آن کے ہاتھوں میں آئی تو میوزک رک گیا یہ دیکھ کر سب لڑکیوں نے ہوٹنگ کی۔



    "آپی آپ کے لیے میں نے کب سے ایک ٹاسک سوچا ہے"



    ایک لڑکی نے پر جوشی سے کہا تو آن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔



    "آپ نا بھائی کے لیے ایک گانا سنائیں"



    لڑکی کی فرمائش پر سب نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ آن اضطراب میں آ گئی تھی۔



    "میں نے کبھی گانا نہیں گایا"



    "نونونو۔۔۔۔کوئی بہانا نہیں چلے گا ٹاسک پورا کرنا ہی پڑے گا۔"



    آن نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے عرشمان کو دیکھا پھر اسکی ناراضگی یاد آنے پر مسکرا کر اسے دیکھا۔



    "کچی ڈوریوں ڈوریوں ڈوریوں سے مینو تو باندھ لے

    پکی یاریوں یاریوں یاریوں میں ہندے نہ فاصلے

    اے ناراضگی کاغذی ساری تیری

    میرے سونیا سن لے میرے دل دیاں گلاں

    کراں گے نال نال بے کے اکھ نال اکھ نو ملا کے

    دل دیاں گلاں کراں گے روز روز بے کے سچیاں محبتاں نبھا کے

    ستاوے مینو کیوں رولاوے مینو کیوں ایویں چوٹھا موٹھا رس کے رسا کے

    دل دیاں گلاں ۔۔۔۔۔"



    آن کے گانا ختم کرنے پر سب لڑکیوں نے تالیاں بجائیں اور ایک نے تو شرارت میں دو انگلیاں منہ میں رکھ کر سی ٹی بھی بجا دی جس پر پروفیسر ہاشم نے اسے گھور کر دیکھا۔



    تبھی انتظامیہ کا ایک آدمی گھبرایا سا پروفیسر دانش کے پاس آیا اور انہیں کچھ بتانے لگا جسے سن کر پروفیسر دانش بھی پریشان ہو گئے۔



    "سب لڑکیاں میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔سب اپنے اپنے کیمپ میں جائیں اور اچھی طرح سے کیمپ کی زپ بند کر لیں۔نہ ہی کوئی آواز کرنا اور نہ ہی لائٹ جلانا اور جب تک ہم نہیں کہتے کوئی باہر نہیں آئے"



    پروفیسر کے پریشانی سے کہنے پر سب نے فکر مندی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔



    "لیکن سر ہوا کیا؟"



    "جو کہا ہے کرو۔۔۔۔"



    پروفیسر کے حکم پر سب لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں تو پروفیسر دانش آن اور عرشمان کے پاس آیا۔



    "آپ دونوں بھی اس ریڈ والے کیمپ میں چلے جائیں۔"



    "لیکن ہوا کیا ہے؟"



    عرشمان نے پریشانی سے پوچھا۔



    "اس جنگل سے ایک جنگلی ریچھ تاریں توڑ کر کیمپنگ ایریا میں آ گیا ہے اس لیے سب کو انتباہ ہے کہ اپنے اپنے کیمپ میں خاموشی سے لائٹیں بند کر کے رہیں جب تک انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر واپس نہیں چھوڑ آتی۔۔۔۔"



    آن سہم کر عرشمان کے بازو سے چپک گئی اور عرشمان نے بھی اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ اس کیمپ تک لے گیا۔



    کیمپ کے اندر بس ایک ہی بستر تھا جو عرشمان جیسے آدمی کے لیے چھوٹا ہی ہونا تھا۔عرشمان نے کیمپ کی زپ ٹھیک سے بند کی اور آن کی طرف دیکھا جو سہم کر اسے دیکھ رہی تھی۔



    "مان اب کیا ہو گا۔۔۔۔؟"



    خوف سے آن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔عرشمان اسکے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں لے کر اس بستر پر لیٹ گیا اور اسکا چہرہ اپنے سینے میں چھپا لیا۔



    "ڈرو مت کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"



    عرشمان نے اسے حوصلہ دیا تبھی اس ایریا کی ساری لائٹیں بند ہو گئیں اور اب بس چاند ہی تھوڑی تھوڑی سی روشنی کر رہا تھا۔



    "مان اگر وہ یہاں آ گیا تو؟"



    آن نے سہمی سی آواز میں پوچھا۔



    "تو اسے مجھ سے گزر کر تم تک پہنچنا ہو گا۔"



    عرشمان نے عام سے انداز میں کہا۔آن کے اس خوف میں وہ پہلے جیسا مان بن چکا تھا۔



    "نہیں مان آپ کو کھونے کی بجائے میں مرنا پسند کروں گی۔"



    عرشمان کو آن کے آنسو اپنے سینے میں جزب ہوتے محسوس ہوئے۔تبھی فضا میں ریچھ کی دہاڑ گونجی تو آن مزید سہم کر عرشمان کے اندر چھپ گئی۔عرشمان اس ریچھ کا ہیولا کیمپ کے باہر دیکھ سکتا تھا۔



    "مان۔۔۔"



    "شششش۔۔۔۔"



    عرشمان نے اسکے کان میں سرگوشی کر کے اسے خاموش رہنے کا کہا۔



    "و۔۔۔وہ باہر ہی ہے ناں۔۔۔۔مان وہ کیمپ کو پھاڑ کر اندر آ جائے گا۔۔۔۔"



    آن نے سرگوشی کی لیکن عرشمان چاہتا تھا وہ خاموش رہے کیونکہ اسکی سرگوشی بھی اس ریچھ کو ہوشیار کر رہی تھی۔



    "مان مجھے ڈر۔۔۔۔"



    اب کی بار عرشمان نے اسکا سر اپنے سینے سے نکالا اور اسے خاموش کرانے کے لیے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔عرشمان کے ایسا کرتے ہی آن کی آواز تو کیا اسکا سانس تک بند ہو گیا تھا۔عرشمان کی شرٹ کا کالر اپنے ہاتھ میں دبوچ کر آن خود پر اس اچانک حملے کے زیر اثر بری طرح سے کانپنے لگی تھی۔



    دل ایسے تھا جیسے حلق سے اچھل کر باہر آ جائے گا۔باہر سے آنے والی آوازوں سے وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر لے جا چکی ہے۔اسی بات سے آگاہ کرنے کرنے کے لیے آن نے عرشمان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن عرشمان کو اب ہوش ہی کہاں تھا۔



    اس نے آن کے مزاحمت کرتے ہاتھ پکڑ اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیے اور اسکے لمس میں مزید شدت آ گئی۔آن کو لگ رہا تھا جیسے وہ اسکی سانسیں ہی پی جائے گا۔



    اچانک ہی عرشمان نے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشی اور اسکے گلے سے دوپٹہ نکالتا اسکی گردن پر جھک گیا۔



    "مان۔۔۔"



    آن نے سہم کر اسے پکارا۔عرشمان کی وہ منمانیاں اسے بری طرح سے کپکپانے پر مجبور کر رہی تھیں۔



    "مان پلیز۔۔۔۔"



    "چپ آن آواز نہ آئے تمہاری ورنہ قسم کھاتا ہوں اس ریچھ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا تمہارے حق میں۔۔۔۔"



    عرشمان بولنے سے زیادہ غرایا اور اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رگڑتے ہوئے گستاخیاں کرنے لگا۔آن بے بسی سے تکیے کو اپنی مٹھیوں میں دبوچتی اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔



    جان تو اسکی تب ہوا ہوئی جب اس نے اپنے کندھے سے شرٹ سرکتی محسوس کی اور عرشمان کا ہاتھ اسکی جان کا الگ وبال بنا ہوا تھا۔عرشمان نے اپنے ہونٹ اسکے کندھے پر رکھنے کے بعد اپنے دانت وہاں دبائے تو آن سسک کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔



    "عرشمان صاحب۔"



    پروفیسر دانش کی آواز پر عرشمان ہوش میں آیا اور اس نے اپنا چہرہ آن کی گردن سے نکالا۔



    "جی؟"



    عرشمان نے کیمپ کے باہر سے آتی ٹارچ کی ہلکی سی روشنی میں آن کے چہرے کے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔



    "وہ آپکو بتانا تھا کہ انتظامیہ نے ریچھ کو پکڑ لیا ہے اب اگر آپ باہر آنا چاہیں تو بے فکر ہو کر آ سکتے ہیں۔۔۔۔"



    عرشمان بس آن کو دیکھنے میں مصروف تھا جو ابھی بھی آنکھیں زور سے میچے کپکپا رہی تھی۔



    " ہم تھک گئے ہیں اب آرام کریں گے آپکا شکریہ۔۔۔۔"



    عرشمان نے آن کے تھرتھراتے نازک لبوں کو پر تپش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو پروفیسر وہاں سے چلا گیا۔آن نے اپنی پلکیں اٹھا کر عرشمان کو دیکھا جو آن کو نہ جانے کن نظروں سے تکنے میں مصروف تھا۔



    "سو جاؤ آن ملک ورنہ جو کرتے رک گیا اب نہیں رکوں گا۔۔۔۔"



    عرشمان کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی۔آن فوراً آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔عرشمان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔



    "بزدل۔۔۔۔"



    اس نے زیر لب کہا اور پھر خود بھی سکون سے آنکھیں موند کر سو گیا۔وہ کچھ بھی کر لیتا اس بات سے انکار نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے سکون اپنی آن کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔

    ????

    Comment


    • #62
      #زندگی_اے_تیرے_نال



      #قسط_نمبر_24







      کنیز گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اپنے ہاتھ آپس میں مسل رہی تھی جب سلطان نے ایک مسکراتی نگاہ اس پر ڈالی۔



      "کیا ہوا تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟"



      سلطان کے سوال پر کنیز نے اسے دیکھا،گال پھر سے گلال چھلکانے لگے اور اس نے اپنا سر فوراً جھکا لیا۔



      "نننن۔۔۔۔نہیں تو میں کب گھبرا رہی ہوں۔۔۔۔"



      کنیز صاف مکر گئی حالانکہ صبح سے اسکی یہی حالت تھی وہ سلطان سے نگاہ تک نہیں ملا رہی تھی اگر سلطان کوئی بات بھی پوچھتا تو گھبراتے ہوئے اسکا جواب دے دیتی۔



      "تم نے جھوٹ بولا نوری ؟ تم نے تو کہا تھا تم جھوٹ نہیں بولتی۔اب گناہ ہو گا تمہیں بہت زیادہ۔"



      سلطان کی بات پر کنیز کی آنکھیں بڑی ہو گئیں وہ بری طرح سے ڈر چکی تھی۔



      "نن۔۔۔۔نہیں سائیں جی میں نے جھوٹ نہیں بولا میں گھبرا نہیں رہی میں تو بس۔۔۔۔"



      کنیز کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے تو اپنا سر جھکا گئی۔سلطان نے اسے اضطراب میں دیکھ کر گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور اسکی جانب مڑ کر اسکے ہاتھ تھام لیے۔



      " بتاؤ مجھے کیا بات ہے کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟"



      سلطان نے محبت سے پوچھا۔وہ جانتا تھا کہ جو کچھ ہوا اسکے بعد کنیز اس سے شرمائے گی لیکن کنیز کا اس قدر گھبرا جانا اسے پریشان کر رہا تھا۔



      "سسس۔۔۔۔سائیں وہ۔۔۔۔وہ کل آپ نے۔۔۔۔۔آپ نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ؟"



      کنیز نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ سلطان کو بے ساختہ ٹوٹ کر اس پر پیار آیا۔وہ کیوں بھول گیا تھا کہ اسکی جان عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی وہ بہت زیادہ معصوم تھی۔



      "میں نے تو بس پیار کیا تھا میری جان۔۔۔۔"



      سلطان نے بوجھل سے لہجے میں اسکا گال سہلاتے ہوئے کہا تو کنیز مزید سہم کر اسے دیکھنے لگی۔



      "یی۔۔۔۔یہ کیسا پیار ہوا؟ایسے پیار کوئی نہیں کرتا سسس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"



      "اچھا تو کیسے کرتے ہیں؟"



      سلطان نے اسکے چہرے کی گھبراہٹ دیکھتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔



      "اا۔۔۔۔اماں تو بس گلے لگاتی تھیں یا گال چوم لیتی تھیں ایسے تو ۔۔۔۔۔"



      اس سے آگے کنیز سے کچھ کہا نہیں گیا اور وہ لہو چھلکاتا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا گئی۔اس کی اس حرکت پر سلطان کا قہقہ گاڑی میں گونجا۔



      "میں تمہاری اماں نہیں میری جان شوہر ہوں میرے محبت جتانے کا انداز سب سے الگ ہو گا۔۔۔۔"



      اچانک ہی سلطان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا تو کنیز سہم کر اسے دیکھنے لگی۔



      "اور تمہیں میری ہر منمانی کو سہنا ہو گا۔۔۔۔۔"



      سلطان نے اسکے ہونٹوں پر فوکس کرتے ہوئے حکم دیا تو کنیز نے ہاں میں سر ہلایا۔سلطان نے گہرا سانس لے کر اسے چھوڑا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔



      "تم تو اپنا جوگی بنا لو گی مجھے اور پھر بھی تمہیں علم نہیں ہو گا کہ تم نے کیا کیا ہے۔۔۔۔"



      سلطان کی بات پر کنیز نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔



      "ہم کہاں جا رہے ہیں؟"



      کنیز نے دلچسپی سے پوچھا۔سلطان نے اسے بس اتنا بتایا تھا کہ کہیں جانا ہے لیکن کہاں جانا ہے یہ اس نے نہیں بتایا تھا۔



      "گاؤں واپس۔۔۔"



      "کیا سچ میں ہم اماں بی کے پاس واپس جا رہے ہیں۔۔۔"



      کنیز کی پر جوشی پر سلطان مسکرا دیا اور ہاں میں سر ہلایا۔



      "میں نے اماں بی کو بڑا یاد کیا شہر اب میں پھر سے انکے پاس سویا کروں گی ناں۔۔۔ "



      کنیز کی چالاکی سمجھ کر سلطان نے اسے گھور کر دیکھا۔



      "اتنی بھی معصوم نہیں ہو تم۔۔۔۔"



      کنیز نے اپنی مسکان کو چھپانے کے لیے چہرہ جھکا لیا اور اسکی ادا پر ہنستا سلطان اپنے دھیان ڈرائیو کرنے لگا۔وہ بس جلد از جلد حویلی پہنچ کر سب کو اپنے اور کنیز کے رشتے کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔



      وہ جانتا تھا کہ اسکی ماں اس سے ناراض ہوں گی لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کچھ بھی کر کے انہیں منا لے گا۔



      حویلی کے باہر گاڑی رکتے ہی کنیز جلدی سے گاڑی سے نکل کر اماں بی کے کمرے کی جانب چلی گئی اور سلطان بھی مسکراتا ہوا اسکے پیچھے آیا۔



      دروازے میں کھڑے ہو کر وہ اپنی بیوی کو اماں بی کے گلے لگا دیکھ کر مسکرا دیا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں کے بعد ان سے ملی ہو۔



      فرحین بیگم کے خیال پر سلطان دروازے سے ہٹا اور انکے کمرے کی جانب چل دیا لیکن انابیہ کو انکے کمرے سے باہر نکلتا دیکھ اسکے قدم رک گئے۔



      "ارے آپ واپس آ گئے سلطان؟"



      انابیہ نے ایک ادا سے پوچھا۔



      "ہمممم ۔۔۔۔۔امی کہاں ہیں ؟"



      "وہ انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں نے دوائی دے کر سلا دیا۔۔۔۔"



      اس بات پر سلطان کا دل بری طرح سے دھڑکا۔



      "کیا ہوا امی کو؟"



      "بس زرا سا بی پی شوٹ کیا تھا اس وجہ سے سر درد ہو رہا تھا آپ نے ملنا ہے تو جگا دوں انہیں؟"



      سلطان نے انکار میں سر ہلایا۔



      "نہیں میں ان سے بعد میں مل لوں گا ابھی انہیں آرام کرنے دو۔۔۔۔"



      اتنا کہہ کر سلطان اپنے کمرے میں آ گیا۔اب وہ زرا سا پریشان ہوا تھا کہ فرحین بیگم کی طبیعت پہلے ہی خراب تھی ایسے میں وہ ان سے اتنی بڑی بات کیسے کہتا لیکن پھر بھی سلطان نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ کنیز کا سچ اپنی ماں کو بتا کر ہی رہے گا۔

      ????

      لیزا سو کر اٹھی تو اسکی نظر روپ پڑی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔لیزا نے اس سے نظریں ہٹا کر ایک نظر کلاک کو دیکھا جہاں دن کا ایک بج رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ دو دن سے وہ اتنا کیوں سو رہی تھی۔



      "اب کیسی طبعیت ہے آپ کی؟"



      لیزا نے ایک پل کو آنکھیں بند کیں۔دو دن ہو گئے تھے اسے دھوپ میں کھڑے ہونے کی وجہ سے سن برن اور سن سٹروک ہوئے چاہے اب اسکی طبیعت کافی بہتر تھی لیکن جو بات لیزا کو تکلیف دے رہی تھی وہ یہ تھی کہ ان دو دنوں میں ایک بار بھی عزم اسکا حال تک پوچھنے نہیں آیا تھا۔



      وہ جس نے لیزا کی یہ حالت کی اسے اتنا سا بھی خیال نہیں تھا کہ ایک بار اسے دیکھ ہی لیتا۔نہ جانے کیوں عزم کے اس رویے نے لیزا کو اسکی سوچ سے زیادہ تکلیف دی تھی۔



      "زندہ ہوں۔۔۔۔"



      لیزا نے روکھے سے انداز میں کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔پتہ نہیں کیوں اسکا دل کر رہا تھا ہر چیز کو تہس نہس کر دے۔



      "نہیں جی اب آپ ٹھیک ہیں دیکھیں جلد کی ریڈنیس بھی چلی گئی ہے اور اب کوئی اور مسلہ بھی نہیں آپ بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔۔"



      روپ نے مسکراتے ہوئے کہا اور لیزا نے گہرا سانس لے کر اپنے بال لپیٹتے ہوئے انکا ایک جوڑا بنایا۔



      "ویسے ایک بات کہوں۔۔۔؟"



      "ہمممم؟"



      لیزا نے عام سے انداز میں کہا۔



      "آپ بہت قسمت والی ہیں کہ آپکو چوہدری جی جیسے خیال رکھنے والے شوہر ملے ہیں۔۔۔۔"



      لیزا نے حیرت سے روپ کو دیکھا پھر اسکے ہونٹوں پر ایک گھائل مسکان آئی۔



      "اگر تمہاری نظر میں یہ اچھا شوہر ہے تو برا شوہر کیا ہو گا؟"



      روپ نے حیرت سے لیزا کو دیکھا۔



      "اسے میری زرا سی بھی پرواہ ہے کیا؟میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ دھوپ میں رہ کر میری طبیعت خراب ہو جائے گی اس نے پھر بھی مجھے نہیں جانے دیا۔جانتی ہو اگر زیادہ دیر اس دھوپ میں رہتی تو مر بھی سکتی تھی میں لیکن اس اچھے شوہر کو اس سے کیا فرق پڑتا؟"



      لیزا نے انتہائی زیادہ غصے سے کہا جبکہ آنکھیں غصے اور ضبط سے نم ہو چکی تھیں۔



      "اور تو اور اگر میری طبیعت اسکی وجہ سے خراب ہو گئی ہے تو بجائے اسکے کہ اپنی غلطی کو ایکسیپٹ کرے،مجھ سے معافی مانگے اس نے تو ایک مرتبہ مجھے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ابھی بھی وہ تمہاری نظروں میں اچھا شوہر ہے ؟"



      لیزا نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ روپ کو دیکھا جو ہکی بکی سی اسے دیکھ رہی تھی۔



      "وہ اچھا شوہر نہیں ہے روپ وہ ایک انا پرست اور انتہائی لاپرواہ شوہر ہے اور مجھے اسکے پاس نہیں رہنا۔۔۔۔"



      اتنا کہہ کر لیزا بیڈ سے اٹھی اور واش روم کی جانب جانے لگی۔



      "آپ کتنا غلط سوچ رہی ہیں ناں چوہدری جی کہ بارے میں اگر آپکو سچ بتا دوں تو آپ کو اپنے کہے الفاظ پر بہت دکھ ہو گا۔"



      روپ کی آواز پر لیزا نے پلٹ کر اسے دیکھا۔



      "او اچھا بتاؤ مجھے سچ۔۔۔۔"



      لیزا نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا تو روپ نے گہرا سانس لیا۔



      "پچھلی دو راتوں سے مسلسل وہ آپکے ساتھ رہے ہیں۔آپ کو اس لیے نہیں پتہ کیونکہ آپ کو کھانے کے بعد جو دوائی دی جاتی ہے وہ آپکو ریلیکس کرنے کے لیے ہے اور آپ اسے کھا کر گہری نیند سو جاتی ہیں۔۔۔۔"



      روپ کی بات پر لیزا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔



      "یہ دو راتیں انہوں نے مسلسل جاگ کر آپ کے ساتھ گزاری ہیں۔اس رات بھی وہ ساری رات آپکا خیال رکھتے رہے کبھی آپکو ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرتے تو کبھی آپکی جلی جلد پر ایلو ویرا جیل لگاتے۔۔۔۔"



      لیزا اب بے یقینی سے روپ کو دیکھ رہی تھی ۔



      "اگر دن کی بات کریں تو جانتی ہیں وہ کہاں ہوتے ہیں؟"



      روپ ایک پل کو رکی اور آنکھیں اٹھا کر لیزا کو دیکھا۔



      "سارا سارا دن اپنا ہر کام تپتی دھوپ میں کھڑے ہو کر کرتے ہیں تا کہ اس تکلیف سے خود کو دو چار کر سکیں جس سے آپ انکی وجہ سے گزریں۔۔۔۔"



      لیزا کو لگا روپ کی بات پر اسکی سانسیں تھم گئی ہوں۔



      "آپ کو یقین نہیں ناں تو آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔"



      روپ نے لیزا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے حویلی کی پچھلی جانب لے آئی۔ایک کھڑکی کے پاس آ کر روپ نے لیزا کو سامنے کیا۔



      "دیکھیں باہر آج انکا کام گھر پر ہی کرنے والا تھا تو صبح سے وہاں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔۔۔۔"



      لیزا نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے عزم کی حالت کو دیکھا جو دھوپ میں بیٹھا کچھ کاغزات دیکھ رہا تھا جبکہ قمیض پسینے سے بھگ چکی تھی لیکن پھر بھی وہ دھوپ میں ایسے بیٹھا تھا جیسے جون کی گرمی کی بجائے دسمبر کا موسم ہو اور وہ شوق سے دھوپ سیک رہا ہو۔



      "لاپرواہ وہ نہیں چوہدراین جی لاپرواہ آپ ہیں جنہیں انکی یہ الفت نظر ہی نہیں آتی۔۔۔۔"



      اتنا کہہ کر روپ وہاں سے چلی گئی اور لیزا ہکی بکی سی وہاں کھڑی عزم کو دیکھتی جا رہی تھی جو ابھی بھی دھوپ میں بیٹھا تھا جبکہ غلام اسکی حالت سے پریشان ہوتا کبھی اسے پانی دے رہا تھا تو کبھی اسکے سامنے کھڑے ہو کر اسے چھاؤں دینے کی کوشش کرتا لیکن عزم اسے سامنے سے پیچھے کر دیتا جیسے دھوپ اسکے لیے خوراک ہو۔



      لیزا بوجھل قدموں سے کمرے میں واپس آ گئی۔دل بہت بری طرح سے بے چین ہو رہا تھا دل کر رہا تھا کہ فوراً اسکے پاس جائے اور اسے وہاں سے اٹھا دے لیکن پھر اسکی انا آڑے آ جاتی جو لیزا کو بھڑکا رہی تھی کہ لیزا کو اسکی پروا نہیں کرنی چاہیے اس نے تو لیزا کو یہاں قید رکھا تھا۔



      شام ہونے تک اپنے کمرے میں بیٹھی لیزا اسی کشمکش سے دوچار رہی تھی لیکن پھر اسکا دل اسکی انا کو ہارنے پر مجبور کر گیا۔

      ????

      "آپی ہم آپکو بہت زیادہ مس کریں گے سچ میں آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔۔"



      بس انکے ہوٹل کے باہر رکی تھی جب سب لڑکیوں سے ملتی آن کو ایک لڑکی نے کہا تو آن نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔



      "مجھے بھی آپ سب بہت یاد آؤ گی مجھے اتنا اچھا کبھی نہیں لگا۔۔۔۔"



      آن نے سب لڑکیوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور عرشمان نے گہرا سانس لے کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے بس سے باہر لے آیا۔ہوٹل میں واپس آ کر عرشمان کی نظر آن کی آنکھوں میں موجود آنسوؤں پر پڑی تو عرشمان حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔



      "تم رو کیوں رہی ہو؟"



      آن نے نم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا اور فوراً اپنے آنسو پونچھ دیے۔



      "جان بوجھ کے نہیں رو رہی بس ان سے دور ہوتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔۔"



      عرشمان نے سرد آہ بھر کر اسے دیکھا۔اسکی آن ایسی ہی تھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر افسردہ ہو جانے والی وہ تو یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی رو رو کر مرے بغیر ڈاکٹر کیسے بن گئی۔



      "واپس چھوڑ آؤں تمہیں انکے پاس شوق پورا کر لو بلکہ واپس ہی مت آنا میرے پاس انہیں کے ساتھ چلی جانا ۔۔۔۔"



      آن نے حیرت سے عرشمان کی جانب دیکھا۔



      "اتنا غصہ کیوں ہو رہے ہیں ؟ اپنی آنکھوں سے رو رہی ہوں آپکی نہیں۔۔۔۔"



      آن نے غصے سے کہا اور باہر موجود بالکونی میں آ گئی۔کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ عرشمان اسکے پیچھے کھڑا ہے۔



      " رونا بند کرو آن۔۔۔"



      "کیوں آپکو کیا فرق پڑتا ہے مان میرے آنسو سے اب تو آپ کو مجھے روتے ہوئے دیکھ کر ہی سکون ملتا ہے۔۔۔۔"



      آن نے بے رخی سے کہا اور وہاں سے جانے لگی جب عرشمان نے اسکی کہنی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔



      "مجھے فرق نہیں پڑتا تمہارے آنسوں سے ،تم سے ؟؟؟؟"



      عرشمان نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔



      "اگر فرق پڑتا تو میری غلطی بھول کر مجھے معاف کر دیتے۔یہ کیسی محبت ہوئی عرشمان کہ میرے کہے چند لفظوں سے ختم ہو گئی۔جانتی ہوں میں غلط تھی جانتی ہوں مجھے سزا ملنی چاہیے لیکن سزا میرے گناہ سے زیادہ ہے مان۔۔۔۔"



      آن نے بہت آنکھوں سے کہا تو عرشمان کی پکڑ اسکے بازوؤں پر مظبوط ہو گئی۔



      "مجھے سمجھ نہیں آ رہا آپ کو کیسے مناؤں میں مان تھک چکی ہوں بری طرح سے۔۔۔۔"



      آن نے بھیگی پلکوں سے کہا تو عرشمان ضبط سے آنکھیں موند گیا۔



      "مت مناؤ مجھے آن مت ہلکان کرو اپنی نازک جان کو کیونکہ کچھ بھی ہو جائے میں نہیں ماننے والا۔۔۔۔"



      اتنا کہہ کر عرشمان وہاں سے چلا گیا اور آن کتنی ہی دیر بالکونی میں کھڑی آنسو بہاتی رہی تھی۔پھر کچھ یاد آنے پر اس نے آنسو پونچھے اور کمرے میں واپس آ کر اپنا بیگ کھولا۔



      ڈھونڈنے پر اسکی نگاہ اسی میکسی پر پڑی جو عرشمان نے اسے ولیمے کے لیے دلوائی تھی۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اس نے اس میکسی کو ساتھ کیوں رکھا تھا لیکن اس نے اب سوچ لیا تھا وہ اپنے محبوب کو منانے کی ایک اور کوشش کرنے والی تھی کیونکہ اسکی محبت نے ہارنا نہیں سیکھا تھا۔

      ????

      "عزم اب بس کر دے یار اٹھ جا یہاں سے اب تو شام ہونے کو ہے۔۔۔۔"



      غلام نے فکر مندی سے کہا۔دوبتے سورج کی تپش کافی کم ہو چکی تھی لیکن عزم کو یوں پسینے سے شرابور دیکھ کر غلام کافی پریشان ہو رہا تھا.



      "پریشان کیوں ہوتا ہے غلامے کچھ نہیں ہو گا مجھے دیکھ ناں نہ تو میری جلد جلی اور نہ ہی میں بے ہوش ہو رہا ہوں کم بخت اس دھوپ کی اتنی عادت ہے مجھے کہ سارے دن میں بھی یہ میرا وہ حال نہیں کر پا رہی جو اس نے پل بھر میں میری نازک سی ولایتی چوزی کا کیا۔"



      عزم نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔



      "عزم اب تو بس بھی کر دے ناں نہیں پتہ تھا تجھے ہو گئی تجھ سے غلطی اب کیا خود کو بیمار کر کے مانے گا تو۔۔۔۔۔اب میری بات سنے بغیر جا کہاں رہا ہے؟"



      غلام نے عزم کو جاتے دیکھا تو غصے سے پوچھنے لگا۔



      "نہانے۔۔۔۔یہ پسینے کی بدبو تیری بھابھی کے پاس لے کر گیا ناں تو پھر سے بے ہوش ہو جائے گی۔۔۔۔"



      عزم شرارت سے کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور غلام گہرا سانس لے کر رہ گیا۔اسکا دوست واقعی میں سنکی تھا۔



      نہانے کے بعد عزم ہال میں آیا اور صوفے پر بیٹھ کر اپنا ماتھا سہلانے لگا۔یہ دو دن بہت تھوڑی نیند لینے کی وجہ سے اسکا سر بری طرح سے گھوم رہا تھا۔اچانک ہی دو گورے ہاتھوں نے لال شربت کا گلاس اسکے سامنے کیا تو عزم نے حیرت نگاہیں اٹھا کر دیکھا لیکن جب اسکی آنکھیں شہد رنگ کی دو آنکھوں سے ٹکرائیں تو عزم کی حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔



      "جوس۔۔۔"



      لیزا نے گلاس کی جانب اشارہ کیا تو عزم نے شربت کا گلاس پکڑ کر ہونٹوں سے لگایا۔لیزا نے پاس کھڑکی ملازمہ سے ایک پلیٹ اور پانی کا جگ پکڑ کر میز پر رکھا اور ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا۔



      "یہ سب کیا ہے ولایتی چوزی ؟"



      عزم نے حیرت سے اپنے سامنے پڑی پلیٹ کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو کہ دوسری پلیٹ سے ڈھکی ہوئی تھی۔



      "چوہدراین جی نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے لیے کھانا بنایا ہے چوہدری جی اور وہ چاہتی ہیں کہ اب آپ پھر سے دھوپ میں مت رہا کریں انہوں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔۔"



      جواب روپ کی جانب آیا تو عزم نے حیرت سے لیزا کو دیکھا جو اس وقت ہلکے گلابی رنگ کے سادہ سے جوڑے میں ایک دمکتا گلاب لگ رہی تھی۔



      "کیا سچ میں ؟"



      عزم کا سوال روپ نے انگلش میں دہرایا تو لیزا نے ہاں میں سر ہلایا اور سامنے پڑی پلیٹ پر سے دوسری پلیٹ ہٹا کر اسے عزم کے سامنے کیا۔عزم نے حیرت سے پلیٹ میں موجود ان سوئیوں کے ساتھ فرائی ہوئے چکن کو دیکھا۔



      "یہ کیا بنایا ہے میری چوہدراین نے؟"



      عزم نے کانٹا پکڑ کر ان سوئیوں کو کانٹے میں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔



      "یہ اسپیگھٹی ہے چوہدری جی چوہدراین جی نے پورا گھنٹا لگا کر آپ کے لیے بنائی اور آپ کو پتہ ۔۔۔۔"



      "آپ کا شکریہ استانی جی لیکن اب آپ یہاں سے جائیں میں اپنی بیوی کے ساتھ اکیلے رہنا چاہوں گا۔"



      عزم نے کہا تھا روپ سے تھا لیکن نظریں مسلسل لیزا پر تھیں۔



      "لیکن میرے بغیر آپ دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے کیسے؟"



      روپ کے سوال پر عزم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔



      "دل سے۔۔۔۔"



      عزم کے جواب پر روپ نے گہرا سانس لیا اور وہاں سے چلی گئی۔اسکے جانے کے بعد وہ دونوں وہاں بالکل تنہا تھے۔عزم نے کانٹا پکڑ کر اسپیگھٹی کو اٹھا کر کھانا چاہا لیکن ساری اسپیگھٹی کانٹے میں سے گر گئی۔عزم تین چار بار بھی کوشش کرنے پر کامیاب نہیں ہوا تو لیزا نے اس سے کانٹا پکڑا اور اسپیگھٹی کو اچھی طرح کانٹے کے گرد لپیٹ کر عزم کے ہونٹوں تک لے گئی۔



      عزم نے اسے اپنے منہ میں لیا اور منہ بنا کر اپنے ہاتھ سے منہ کو ہوا دینے لگا۔یہ دیکھ کر لیزا پریشان ہوئی۔



      "ٹو ہاٹ ؟"



      لیزا نے پوچھا اور پھر اسپیگھٹی کو کانٹے کے گرد لپیٹنے کے بعد دو تین بار پھونک ماری اور عزم کے ہونٹوں کے پاس کیا۔یہ دیکھ کر عزم مسکرایا اور اسپیگھٹی اپنے منہ میں لے لی۔



      اب ہر بار لیزا پھونک مار کر اسے کھلا رہی تھی اور عزم بس اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔



      "از اٹ گڈ؟"



      لیزا نے پلیٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو عزم اسکی بات کا مطلب سمجھ کر مسکرا دیا۔



      "ویری گڈ۔۔۔۔"



      تعریف پر لیزا کے رخسار گلابی ہوئے اور وہ سر جھکا کر پھر سے وہ اسپیگھٹی عزم کو کھلانے لگی۔



      "ویسے ولایتی چوزی مجھے ساری زندگی یہ سویاں ہی کھلاؤ گی کیا ؟ ہٹا کٹا سا گبرو جوان شوہر ہے تمہارا اسکا ان سے کیا بنے گا اب تمہاری طرح چڑیا جتنا تو کھاتا نہیں میں اس لیے بہتر ہے کہ دیسی گھی کے پراٹھے بنانا سیکھ لو تم۔۔۔۔"



      عزم نے شرارت سے کہتے ہوئے لیزا کی آگے بڑھائی اسپیگھٹی کو منہ میں لیا۔



      "ویسے اتنا دل کرتا ہے میرا کہ تم مجھ سے باتیں کرو لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ایسے ہی ٹھیک نہیں ؟میں تمہیں کچھ بھی کہہ لوں نہ تم سمجتی ہو نہ ہی مجھے کچھ کہتی ہو۔۔۔"



      عزم اس سے باتیں کر رہا تھا اور لیزا خاموشی سے اسے کھلا رہی تھی۔



      "جیسے کہ اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ جس رات تم بیمار ہوئی تھی میں پورا گھنٹہ تمہیں اپنی باہوں میں لیے ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑا رہا تھا اور تمہارا وہ بھیگا بھیگا سا وجود مجھے بہت کچھ کرنے پر اکسا رہا تھا۔"



      عزم نے پر تپش نگاہوں سے لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا جو اپنے دھیان بس اسے کھلانے میں مصروف تھی۔



      "اور پھر واپس کمرے میں آ کر تمہارے بھیگے کپڑے بھی میں نے تبدیل کروائے تھے لیکن قسم کھاتا ہوں لائٹ بند کر دی تھی ورنہ تمہارا مومی وجود دیکھ کر خود ہی بہک جاتا تو مزید جان مشکل میں آنی تھی تمہاری۔۔۔۔"



      عزم کا یہ بات کہنے کے انداز ایسا تھا کہ اسکے الفاظ کو سمجھے بغیر لیزا کانپ کر رہ گئی اور سر جھکا کر اسپیگھٹی کو کانٹے پر لپیٹنے لگی۔



      "اب دیکھو ناں تم میری بات نہیں سمجھی تو کتنے آرام سے سب سن لیا اگر سمجھ لیتی تو یہی پلیٹ میرے سر میں اٹھا کر مار دیتی۔"



      عزم یہ کہہ کر ہنسا تو لیزا نے آخری نوالا بھی اسکے منہ میں ڈالا اور کانٹا خالی پلیٹ میں رکھ دیا۔



      "سوری میری ولایتی چوزی تمہاری بات نہ ماننے کے لیے سوری،تمہیں تکلیف دینے کے لیے سوری۔۔۔۔"



      لیزا کو اسکی بات میں صرف ولایتی چوزی اور سوری لفظ سمجھ آیا تو وہ سمجھ گئی کہ عزم معافی مانگ رہا ہے۔اس نے عزم کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور اٹھا کر عزم کے کانوں پر رکھ دیے۔



      "ناؤ سے سوری۔۔۔۔"



      لیزا کی فرمائش سمجھ کر عزم کے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ آئی۔



      "سوری۔۔۔۔"



      "اٹس اوکے ۔۔۔۔"



      لیزا نے مسکرا کر کہا اور اسکے ہاتھ کانوں سے ہٹا دیے۔پھر اس نے عزم کا ہاتھ دیکھا جو دھوپ میں رہنے کی وجہ سے سانولا ہو چکا تھا۔



      "تمہاری سکن پر ٹین آ گیا ہے دھوپ میں رہ کر۔۔۔۔"



      لیزا کی بات پر عزم کے ماتھے پر بل آئے تو لیزا نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھا اور انگلی سے اسکے رنگ کی جانب اشارہ کر کے اپنے سفید ہاتھ پر انگلی رکھی تو عزم اسکی بات سمجھتا قہقہ لگا کر ہنس دیا۔



      "فکر مت کرو تم ہو ناں اتنی گوری ہمارے بچے تم پر ہی جائیں گے گورے چٹے۔۔۔"



      عزم نے آنکھ دبا کر کہا اور پھر سامنے پڑی خالی پلیٹ کو دیکھا۔



      "اچھا ولایتی چوزی میٹھے میں کیا بنایا ہے پہلے ہی تھوڑی سی سویاں کھلائی ہیں بس اب میٹھے میں بھی کچھ ہے یا نہیں؟"



      عزم کے سوال پر لیزا نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔



      "کیا کہتے تھے یار میٹھے کو۔۔۔۔سس۔۔۔سویٹ ہاں۔۔۔۔۔سویٹ وئیر ہے؟"



      عزم کی انگلش پر لیزا ہلکا سا ہنسی۔



      "Sorry I didn't make anything sweet."



      عزم کے چہرے پر الجھن دیکھ کر لیزا نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اٹھائے۔



      "نو سویٹ۔۔۔ "



      اس نے انگوٹھے گھماتے ہوئے کہا۔



      "ہے ناں سویٹ اب تم نے کچھ بنایا نہیں میٹھے میں تو مجبوراً مجھے اسی میٹھے پر گزارا کرنا پڑے گا۔۔۔"



      عزم نے لیزا کے گلابی ہونٹوں پر فوکس کرتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ لیزا اسکی بات کا مطلب سمجھتی عزم نے اسے گردن کے پیچھے سے پکڑ کے اپنے قریب کیا اور اسکے نچلے لب کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر ایسی جان لیوا گستاخی کی کہ لیزا اسکی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔



      عزم کے چھوڑنے پر لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا جو ابھی بھی اسکے ہونٹوں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ سب سے لزیز شراب ہوں اور عزم ایک شرابی۔



      "ویری سویٹ۔۔۔۔"



      عزم کی گھمبیر آواز پر لیزا کانپ کر رہ گئی۔



      "تمہیں ساری زندگی میٹھا بنانے کی ضرورت نہیں ولایتی چوزی کھانے کے بعد اب بس اسی میٹھے کی طلب ہو گی مجھے۔۔۔۔"



      عزم نے اسکا نچلا لب اپنے انگوٹھے سے سہلا کر کہا تو لیزا آنکھیں میچ کر کپکپانے لگی۔



      "شہد کی مٹھاس اپنی جگہ ساقی

      لیکن ہائے میرے محبوب کے یہ ہونٹ ۔۔۔۔"



      اس سے پہلے کہ عزم پھر سے ان ہونٹوں پر جھکتا لیزا نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کیا اور بھاگ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔دروازہ بند کر کے لیزا اسی کے ساتھ لگی گہرے سانس بھرنے لگی۔اس شخص کی بے باکیاں سہنا کہاں آسان تھا وہ بولڈ سی لڑکی بھی اس کے سامنے شرم سے پانی پانی ہو جاتی تھی۔

      ????

      فرحین بیگم نے کھانا اپنے کمرے میں ہی کھایا تھا اور اس بات کا علم جب سلطان کو ہوا تو وہ سیدھا انکے کمرے میں ہی آ گیا۔سلطان کو دیکھ کر فرحین بیگم نے بے چینی سے اسے اپنے پاس بلایا۔



      "کیا ہو گیا امی طبیعت کیوں خراب ہے آپکی۔۔۔۔؟"



      سلطان نے انکے پاس بیٹھ کر انکے ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا۔



      "کچھ نہیں بیٹا تمہیں دیکھ لیا ناں اب بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔"



      فرحین بیگم نے محبت سے کہا لیکن پریشانی انکے چہرے پر جوں کی توں تھی۔



      "آپ کچھ کہنا چاہتی تھیں مجھے ؟"



      فرحین بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔



      "بیٹا اماں بی۔۔۔۔وہ تمہیں عرشمان کی طرح مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ تم بھی مجھ سے دور ہو جاؤ اور میں بالکل تنہا ہو جاؤں۔۔۔۔"



      "ایسا کچھ نہیں ہے امی اور نہ ہی میں ایسا کبھی ہونے دوں گا آپکو آپ کے بیٹے سے کوئی دور نہیں کر سکتا۔۔۔۔"



      سلطان کی بات پر فرحین بیگم مسکرا دیں۔



      "جانتی ہوں بیٹا تم تو میرا مان ہو۔۔۔۔اسی لیے میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ فیصلہ بتانے کے لیے میں نے تمہیں یہاں بلایا تھا۔"



      فرحین بیگم کی بات پر سلطان کے ماتھے پر بل آئے۔



      "کیسا فیصلہ ؟"



      "میں اگلے مہینے تمہاری اور انابیہ کی شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔"



      فرحین بیگم نے اپنے الفاظ کے بم سلطان پر گرائے اور وہ سکتے کے عالم میں وہاں بیٹھا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے بس اسکی نوری کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا اسکی مسکان،اسکی خوشی۔



      "میں جانتی ہوں کہ تم ابھی انتظار کرنا چاہتے تھے لیکن میں تم دونوں کی شادی کر کے یہ ثابت کر دوں گی کہ میرے بیٹے کے لیے سب سے اہم اسکی ماں کی خوشی ہے۔۔۔۔ہے ناں سلطان ؟"



      فرحین بیگم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو سلطان نے انکے چہرے پر اس امید کو مردہ آنکھوں سے دیکھا۔وہ جانتا تھا کہ انکار کر کے وہ اپنی ماں کو دکھی کر دے گا لیکن اب اسے اپنے شوہر ہونے کا فرض پورا کرنا تھا۔



      "امی۔۔۔۔۔میں انابیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔"



      فرحین بیگم نے فوراً اپنے ہاتھ سلطان کے ہاتھوں پر سے ہٹائے اور سکتے کے عالم میں اسے دیکھنے لگیں۔



      "میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں امی اور میں اس سے شادی کر۔۔۔۔امی۔۔۔۔"



      فرحین بیگم کو اپنا چکراتا سر تھامتے دیکھ کر سلطان پریشان سے انکی جانب بڑھا لیکن فرحین بیگم نے اسے دھکا دے کر خود سے دور کر دیا۔



      "نکلے ناں تم بھی اپنے بھائی جیسے۔۔۔۔تمہیں بھی میرے سے کوئی سروکار نہیں میری خواہش سے کوئی واسطہ نہیں بس اپنی خواہش اپنی خوشی پیاری ہے تمہیں۔۔۔۔"



      فرحین بیگم روتے ہوئے چلائیں اور سلطان اپنا سب سے ڈراؤنا خواب سچ ہوتا دیکھ بے چین ہوا۔آج وہ اپنی جنت کی آنکھوں میں آنسؤں کا باعث بنا تھا۔



      "امی ایک بار میری بات تو سن لیں۔۔۔۔۔"



      "کیا سنوں میں سن تو لیا کہ تمہیں نہیں کرنی انابیہ سے شادی،تمہیں میری خوشی میری چاہت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو ٹھیک ہے سلطان ملک رہو اپنی خوشی میں خوش اور دعا کرو کہ تمہاری ماں مر جائے اپنی بہن کو اسکی بیٹی واپس بھیجنے سے پہلے مر جائے وہ۔۔۔۔۔۔دعا کرو مر جاؤں میں اور تم دونوں خوش رہو۔۔۔۔"



      فرحین بیگم روتے ہوئے چلا رہی تھیں اور سلطان بے چینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔



      "ہاں مر جاؤں میں۔۔۔۔مر جاؤں میں۔۔۔۔"



      فرحین بیگم نے کمزور سے انداز میں کہا اور بے ہوش ہو کر بیڈ پر گر گئیں۔انہیں اس حالت میں دیکھ کر سلطان کا دل بند ہوا تھا۔



      "امی۔۔۔۔۔"



      سلطان نے انکو اپنی باہوں میں لیا لیکن انکو مکمل طور پر بے حواس دیکھ کر سلطان بہت زیادہ بے چین ہوا۔اس نے جلدی سے انہیں اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنی گاڑی کی جانب بھاگا۔ضمیر اسے بہت بری طرح سے جھنجھوڑ رہا تھا وہ اپنی ماں کی اس حالت کا زمہ دار تھا ۔

      Comment


      • #63

        #زندگی_اے_تیرے_نال



        #قسط_نمبر_25







        سلطان پریشانی کے عالم میں ہسپتال کے کاریڈور میں بیٹھا تھا۔ڈاکٹر اسے بتا کر گئے تھے کہ فرحین بیگم کی طبیعت اب بہتر تھی۔انکا بی پی زیادہ شوٹ ہونے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں لیکن اب انکی طبیعت کافی بہتر تھی لیکن ڈاکٹرز نے یہ تاکید بھی کی تھی کہ انکو کسی بھی طرح کے ڈپریشن سے بچایا جائے ورنہ انکے دماغ کے لیے ایک اور جھٹکا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔



        سلطان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے ایک طرف اسکی ماں کی زندگی تھی تو دوسری جانب کنیز اور سلطان دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں چننا چاہتا تھا۔موبائل بجنے کی آواز پر سلطان نے مردہ حالت میں جیب سے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔



        "سلطان بیٹا اب کیسی طبعیت ہے فرحین کی اگر کوئی زیادہ مسلہ ہے تو میں ہسپتال آ جاؤں؟"



        اماں بی کی پریشان سی آواز سلطان کے کانوں میں گونجی۔



        "آپ پریشان مت ہوں اماں بی امی پہلے سے بہتر ہیں بس دوائیوں کے زیر اثر سو رہی ہیں جیسے ہی اٹھیں گی میں آپکی بات کروا دوں گا۔۔۔"



        سلطان نے اپنا ماتھا سہلاتے ہوئے کہا۔



        "ان شاءاللہ وہ ٹھیک ہو جائے گی بیٹا بس تم پریشان مت ہو۔۔۔۔"



        اماں بی نے سلطان کو تسلی دی۔



        "اگر تم کہو تو میں عرشمان کو واپس بلا لوں۔۔۔۔؟"



        سلطان نے فوراً اپنا سر انکار میں ہلایا۔



        "نہیں آپ انہیں پریشان مت کریں میں سب سنبھال لوں گا۔۔۔"



        "ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہیں بہتر لگے۔۔۔۔"



        اماں بی نے محبت سے کہا اور پھر خاموش ہو گئیں۔



        "اماں بی۔۔۔۔"



        "جی بیٹا۔۔۔۔"



        سلطان کے پکارنے پر اماں بی نے محبت سے پوچھا۔



        "وہ۔۔۔۔وہ کیسی ہے؟"میری نوری کیسی ہے؟



        سلطان چاہ کر بھی اسے میری نوری اپنی زبان سے نہیں کہہ پایا۔



        "کنیز کا پوچھ رہے ہو بیٹا؟فکر مت کرو ماشاءاللہ ٹھیک ہے وہ بس تمہارا پوچھ رہی تھی۔"



        سلطان ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔اسکی ساری ہمت ختم ہوتی جا رہی تھی۔



        "اسکا خیال رکھیے گا اماں بی وہ میری۔۔۔۔وہ میری زمہ داری ہے۔"



        اتنا کہہ کر سلطان نے فون بند کر دیا اور اپنا سر ہاتھوں میں تھام گیا۔وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ زندگی نے اسے ابھی کن امتحانوں سے دوچار کرنا تھا۔



        "انہیں ہوش آ گیا ہے سلطان صاحب۔"



        ڈاکٹر کی آواز پر سلطان بے چینی سے اٹھ کر وارڈ کی جانب گیا۔دروازہ کھولتے ہی اسکی نگاہ فرحین بیگم پر پڑی جو اسے دیکھتے ہیں

        اپنا چہرہ دوسری جانب موڑ گئیں۔



        "امی سلطان۔۔۔۔"



        سلطان انکے پاس آیا اور انکا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا لیکن فرحین بیگم نے اپنا ہاتھ بے رخی سے کھینچ لیا۔



        "چلے جاؤ یہاں سے سلطان ملک مجھے چین سے مرنے دو۔۔۔۔"



        فرحین بیگم کی آواز میں بہت زیادہ بے رخی تھی اور اپنی ماں کی یہ بے رخی سلطان کا دل چیر کر رکھ گئی۔



        "امی پلیز ایک بار میری بات تو۔۔۔"



        "کیا سنوں میں کچھ سننے کے قابل ہی کہاں چھوڑا ہے تم نے مجھے۔۔۔"



        فرحین بیگم نے روتے ہوئے کہا تو سلطان ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔



        "بلکہ تم بتاؤ مجھے سلطان ملک کہ کیا جواب دوں گی میں اپنی اس بہن کو جس سے اسکی چھوٹی سی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر لیا تھا میں نے۔۔۔۔"



        فرحین بیگم نے روتے ہوئے کہا اور سلطان بس سر جھکائے انکی بات سن رہا تھا۔



        اور میں کیا جواب دوں گا اپنی نوری کو امی جسے اپنے نکاح میں لے کر یہاں لایا کیا کہوں گا اس سے کہ تمہارا شوہر اتنا کمزور ہے کہ اپنی زمہ داری نہیں نبھا سکتا۔



        سلطان چاہ کر بھی یہ بات انہیں نہیں کہہ پایا تھا۔ایسا کر کے وہ اپنی ماں کو مزید دکھی کر دیتا۔



        "کیا مستقبل ہو گا انابیہ کا جس نے ساری زندگی تمہارے نام سے منسلک ہو کر گزار دی۔کون تھامے گا اسکا ہاتھ بلکہ جب تم اس سے منگنی توڑو گے وہ بے چاری تو شائید خود کشی ہی کر لے۔۔۔۔"



        فرحین بیگم اپنی باتوں سے سلطان کا کرب بڑھاتی جا رہی تھیں۔



        اور اگر میں نے اپنی نوری کو چھوڑ دیا تو اسے تو خود کشی بھی نہیں کرنی پڑے گی امی وہ ویسے ہی مر جائے گی۔



        سلطان نے کرب سے اپنی آنکھیں موندتے ہوئے سوچا۔



        "اور یہ سب دیکھنے سے پہلے میں مرنا پسند کروں گی ہاں سلطان ملک مجھے مرنے دو۔۔۔۔"



        سلطان نے تڑپ کر اپنی ماں کو دیکھا۔



        "امی پلیز ایک بار میری بات تو سن لیں جس لڑکی سے میں محبت کرتا ہوں وہ میری۔۔۔"



        "مجھے تمہاری کوئی وضاحت نہیں چاہیے میری طرف سے جو مرضی کرو تم بس اتنا احسان کرنا کہ اسے اس گھر میں لانے سے پہلے میرا جنازہ اٹھنے کا انتظار کر لینا۔"



        سلطان نے حیرت سے فرحین بیگم کو دیکھا۔



        "امی۔۔۔۔"



        "ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا سلطان ملک تمہیں دنیا میں عورتیں تو بہت مل جائیں گی لیکن ماں ایک ہی ملتی ہے اور اس ماں کا دل دکھا کر تم کبھی خوش نہیں رہ سکو گے۔۔۔۔"



        فرحین نے روتے ہوئے کہا اور سلطان انہیں کرب سے دیکھتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔زندگی کے جس دوراہے پر آج وہ کھڑا تھا اس کے پاس منزل تک کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

        ????

        عرشمان کھانا لے کر ہوٹل واپس آیا تو کمرے میں گھپ اندھیرا دیکھ کر حیران ہوا لیکن لائٹ جلانے پر جب اسکی نظر بیڈ کے پاس کھڑی آن پر گئی تو دل بہت زور سے دھڑکا۔اسکی دلائی ہلکے جامنی رنگ کی میکسی میں کھلے بالوں اور مناسب میک اپ کے ساتھ سجی وہ اسکے خوابوں کی شہزادی ہی تو لگ رہی تھی۔



        آج عرشمان کو اپنا بچپن کا ہر خواب پورا ہوتا نظر آیا تو وہ خواب کی سی کیفیت میں چلتا اسکے پاس۔عرشمان کو پاس آتا دیکھ آن نظر جھکا گئی جبکہ عرشمان کی نظر اسکے گلابی لپسٹک سے سجے ہونٹوں پر تھی۔



        "یہ سب کیا ہے؟"



        بہت مشکل سے عرشمان نے اپنے بہکے جزبات کو اپنے لہجے میں چھلکنے سے روکا تھا۔جواب میں آن نے خاموشی سے اپنے ہاتھ اٹھا کر اپنے کانوں پر رکھ دیے۔



        "مجھے معاف کر دیں مان آپکی محبت پر بھروسہ نہ کرنے کے لیے معاف کر دیں،اسکی توحین کے لیے معاف کر دیں پلیز اب آپکی آن تھک چکی ہے مان مزید آپکی ناراضگی سے نہیں لڑ پائے گی۔"



        آن نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو عرشمان خواب کی سی کیفیت میں اسکے قریب ہوا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔



        "تھک تو میں چکا ہوں آن،تمہیں اس کرب کا اندازہ ہی نہیں جس سے تمہارا مان گزرتا آیا ہے۔۔۔"



        آن نے نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔



        "تو ختم کر دیں ناں یہ کرب مان آزاد کر دے اب ہم دونوں کو اس تکلیف سے میں خوش رہنا چاہتی ہوں مان ان آنسوؤں سے اکتا گئی ہوں کیا آپ مجھے وہ خوشی نہیں دے سکتے جس کا میں نے ہمیشہ خواب دیکھا؟"



        آن کے سوال پر عرشمان اپنی آنکھیں موند گیا۔



        "پلیز مان اب بس کر دیں نہیں رہنا چاہتی آپ سے دور۔۔۔۔"



        آن نے اسکے سینے پر اپنا سر رکھا تو عرشمان کے ہاتھ خود بخود اسکی کمر کے گرد جا لپٹے۔کتنی ہی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کی آغوش میں وہاں کھڑے رہے تھے۔



        "کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا مان؟"



        آن نے سر اٹھا کر بہت امید سے پوچھا تو عرشمان بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔اسکا وہ سجا سنورا سا روپ اسے بہکا رہا تھا۔وہ تو بچپن سے ہی اسکی چاہت تھی اور اب وہ چاہت ملکیت بنی اسکی آغوش میں کھڑی اسے بہت کچھ کرنے پر اکسا رہی تھی۔



        عرشمان آخر کار خود سے لڑتی جنگ ہارا تھا۔آن کو اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے وہ اسکے ہونٹوں پر جھکا اور اسکی سانسوں پر اپنی حکومت قائم کر لی۔



        آن نے گھبرا کر اسکی شرٹ کا کالر دبوچا وہ مزید مزاحمت کر کے عرشمان کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن عرشمان کی وہ شدت اور جنون آن کا سانس روک رہے تھے۔ہر گزرتا لمحہ عرشمان کی بے چینی کو مزید بڑھا رہا تھا اور آن کی جان مزید مشکل میں آ رہی تھی۔



        اچانک ہی عرشمان نے آن کو خود سے دور دھکیل کر بیڈ پر پھینکا تو آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی جبکہ چہرے پر اسکے قرب کا گلال اسکے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔



        "مان۔۔۔۔"



        "بس بہت ہو گیا آن ملک تمہیں کیا لگتا ہے تمہاری ان چیپ حرکتوں سے بہکا لو گی تم مجھے؟ہاں مجھے جھکنے پر مجبور کر لو گی نہیں آن ملک میں تمہاری ان گھٹیا کوششوں سے زیر ہونے والا نہیں۔"



        عرشمان کے الفاظ آن کے دل کو بہت بری طرح سے چھلنی کر گئے۔



        "گھٹیا حرکتیں ؟مان میں اپنے محرم کے لیے سجی ہوں کسی غیر کے لیے نہیں اور آپ مجھے ایسے۔۔۔۔۔"



        "مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم کس کے لیے سجی لیکن ہم دونوں جانتے ہیں کہ تمہارے سجنے کا کیا مقصد ہے اور اگر تم اتنی ہی بے چین ہو اس سب کے لیے تو تمہاری یہ خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔"



        عرشمان اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا آن کے قریب ہوا تو آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔بے ساختہ اسکا ہاتھ اٹھا اور اس نے عرشمان کو دھکا دے کر خود سے دور کر دیا۔



        "بس بہت ہو گیا ؟سمجھا کیا ہے آپ نے مجھے۔۔۔۔۔ جب دل میں آیا ذلیل کر دیا۔۔۔۔۔اپنی بیوی کو گھٹیا اور چیپ کہہ کر آپ نے آج ہر حد پار کر دی مان ہر حد پار کر دی ۔۔۔۔"



        اتنا کہہ کر آن نے اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپایا اور سسک سسک کر رونے لگی جبکہ عرشمان اپنی مٹھیاں بھینچتا کمرے سے باہر ہوٹل کے لان میں آ گیا۔



        سگریٹ سلگا کر وہ کتنی ہی دیر لان میں چکر لگاتا اپنی کہی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ خود کی جان لے لے وہ کیسے اپنی آن کو اتنی گھٹیا باتیں کہہ گیا۔



        وہ شائید ابھی بھی کمرے میں بیٹھی رو رہی ہو۔یہ خیال آتے ہی عرشمان کمرے میں واپس گیا۔



        "آن۔۔۔"



        خالی کمرہ دیکھ کر عرشمان نے آن کو پکارا لیکن جب اسے واش روم بھی خالی ملا تو اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔بے چینی سے کمرے میں واپس آنے پر اسکی نظر بیڈ پر پڑی جہاں وہی ہلکے جامنی رنگ کا ڈریس پڑا تھا۔عرشمان نے اسے اٹھایا تو اسے ایک کاغذ ملا۔



        "اپنی سانسوں میں آباد رکھنا مجھے

        میں رہوں یا نہ رہوں یاد رکھنا مجھے"



        آن کی لکھائی میں لکھی وہ سطریں دیکھ کر عرشمان کو لگا کہ کسی نے اسکا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو وہ سمجھ چکا تھا کہ اسکی آن اسے چھوڑ کر جا چکی ہے۔



        یہ سوچ آتے ہی عرشمان بھاگ کر اپنی گاڑی تک گیا۔وہ اپنی آن کو واپس لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔وہ مر تو سکتا تھا لیکن آن سے دوری اس کے لیے موت سے بھی بدتر تھی۔

        ????

        دو گھنٹوں تک وہ آن کو ڈھونڈتا سڑکوں پر خوار ہوتا رہا تھا لیکن آن اسے کہیں نہیں ملی۔ہر گزرتا لمحہ اسکی بے چینی اور خوف کو بڑھا رہا تھا۔



        اس سب پر آسمان پر چھاتے کالے بادل اور رات کا بڑھتا اندھیرا اسکی پریشانی مزید بڑھا گیا تھا۔دل بار بار اپنے رب سے دعائیں مانگ رہا تھا کہ اسے آن مل جائے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر گزرے گا۔



        بارش زوروں شور سے شروع ہو چکی تھی اور عرشمان کی پریشانی مزید بڑھا گئی۔نہ جانے آن کہاں کس حال میں ہوتی۔یہ خیال عرشمان کی سانسیں روک رہا تھا۔



        آن کو ڈھونڈتے وہ بے چینی سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔کتنے ہی بس سٹیشن کے بعد اب وہ ایک بس سٹیشن پر آیا اور پاگلوں کی طرح یہاں وہاں بھاگتا آن کو ڈھونڈنے لگا۔



        اچانک ہی اسکی نظر آن پر پڑی جو سفید چادر لیے بینچ پر بیٹھی تھی۔بارش سے نازک وجود مکمل طور پر بھیگ چکا تھا۔اسے صحیح سلامت دیکھ کر جہاں ایک سکون عرشمان کی رنگوں میں اترا تھا وہیں اسکی اس حرکت پر غصہ بھی اسکے اعصاب پر سوار ہوا۔



        تنی ہوئی رگوں کے ساتھ وہ آن کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھینچنے لگا۔



        "یہ کیا حرکت ہے چھوڑیں میرا ہاتھ۔۔۔"



        آن غصے سے چلائی لیکن عرشمان نے اسکا ہاتھ چھوڑنے کی بجائے اسے لا کر گاڑی میں ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔



        "آپ یہ۔۔۔۔"



        "شٹ اپ جسٹ شٹ اپ تمہاری ہمت کیسے ہوئی وہاں سے آنے کی؟"



        عرشمان اتنے غصے سے چلایا کہ آن سہم کر اسے دیکھنے لگی۔



        "آآآپ کو میری ضرورت ہی نہیں تو کیوں رکتی میں وہاں۔۔۔؟"



        آن نے روتے ہوئے پوچھا تو عرشمان نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورا۔



        "کچھ زیادہ ہی ہمت نہیں آ گئی تم میں؟"



        عرشمان بولنے سے زیادہ غرایا تھا۔



        "آپ مجھ سے یوں زبردستی۔۔۔"



        "بس آن اب آواز نہ آئے تمہاری پہلے ہی بہت مشکل سے خود پر قابو کیے بیٹھا ہوں کہیں غصے میں کچھ الٹا مت کر دوں اس لیے خاموش ہی رہو ۔۔۔"



        عرشمان کے انداز میں نہ جانے ایسی کونسی وارننگ تھی کہ آن بری طرح سے سہم گئی۔وہ دونوں ہوٹل کے راستے میں تھے لیکن سامنے پولیس کی ناقہ بندی دیکھ کر عرشمان پریشان ہوا۔



        "کیا ہوا؟"



        پولیس والے کے وہاں آنے پر عرشمان نے پوچھا۔



        "کچھ نہیں سر بارش کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے تو راستہ بلاک ہے آپ ابھی اس راستے سے نہیں جا سکتے۔"



        پولیس والے کی بات پر عرشمان نے گہرا سانس لیا۔



        "لیکن ہمارا ہوٹل وہاں ہے۔۔۔۔"



        "سوری سر لیکن میرے خیال سے آپکو کسی اور ہوٹل میں رات گزار لینی چاہیے راستہ کلیر کرتے کرتے صبح تک کا وقت ہو جائے گا۔"



        عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی واپس موڑ لی۔آخر کار اسے ایک ہوٹل نظر آیا تو اس نے گاڑی پارکنگ ایریا میں روکی اور روم بک کروانے چلا گیا۔



        بارش ابھی بھی زور و شور پر تھی۔وہ ہوٹل زیادہ اچھا تو نہیں تھا لیکن وہاں رات گزاری جا سکتی تھی۔روم بک ہونے کے بعد عرشمان آن کے پاس آیا اور اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔



        آن کے کپڑے بارش میں بھیگنے کی وجہ سے گیلے ہو چکے تھے اور مری کا موسم بارش کا وجہ سے کافی سرد ہو گیا تھا عرشمان نہیں چاہتا تھا کہ وہ بیمار ہو جائے اس لیے وہ ہوٹل کی لابی میں آیا۔



        "کیا مجھے ایکسٹرا کپڑے مل سکتے ہیں؟"



        عرشمان کے سوال پر کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے اسکے گیلے کپڑوں کو دیکھا۔



        "سوری سر ہمارے پاس کپڑوں کی سروس تو نہیں لیکن باتھ روبز ہیں میں آپکو وہ بھجواتا ہوں۔۔۔۔"



        عرشمان اثبات میں سر ہلا کر کمرے میں چلا گیا اور آن کو دیکھا جو خاموش سے بیڈ پر بازو اپنے گرد لپیٹے بیٹھی تھی جبکہ جسم ٹھنڈ کی وجہ سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔



        دروازہ کھٹکنے پر عرشمان دروازے کے پاس گیا تو ویٹر نے اسے باتھ روب دی لیکن شائید اسے لگا تھا عرشمان وہاں اکیلا ہی ہے اسی لیے وہ بس ایک باتھ روب دے کر گیا تھا۔



        عرشمان گہرا سانس لے کر آن کے پاس آیا اور باتھ روب اسکے سامنے کی۔



        "جاؤ یہ گیلے کپڑے چینج کر آؤ۔۔۔۔"



        آن جو اسکے غصے سے پہلے ہی ڈری تھی خاموشی سے باتھ روب پکڑ کر واش روم میں بند ہو گئی۔عرشمان نے بھی اپنی شرٹ اتاری اور اپنا اوپری جسم تولیے سے خشک کرنے کے بعد اپنے بال تولیے سے رگڑنے لگا۔



        دروازہ کھٹکنے کی آواز پر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے روم سروس والا کھانا لیے کھڑا تھا۔عرشمان نے اس سے کھانا لیا اور کمرے میں لا کر رکھ دیا لیکن پریشانی کی بات تو یہ تھی کہ آن ابھی تک واش روم سے باہر نہیں آئی تھی۔



        "آ جاؤ آن کھانا آ گیا ہے ٹھنڈا ہو جائے گا۔"



        عرشمان نے اسکو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو عرشمان پریشان ہو گیا۔



        "آن تم ٹھیک تو ہو ناں۔۔۔"



        عرشمان نے دروازے کے پاس آ کر پریشانی سے پوچھا۔



        "ججج۔۔۔۔جی ٹھیک ہوں۔۔۔"



        آن کی گھبرائی سی آواز باہر آئی۔



        "تو باہر کیوں نہیں آ رہی تم؟"



        عرشمان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔



        "وہ۔۔۔۔وہ یہ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔"



        آن کا رویہ اسے حیران کر رہا تھا۔بغیر کچھ سوچے سمجھے عرشمان نے ناب گھمایا تو دروازہ کھل گیا کیونکہ شائید دروازے کا لاک بھی خراب تھا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر عرشمان کو لگا کہ اسکا دل دھڑکنا ہی بھول گیا ہو۔



        آن گھبرائی گھبرائی سی دیوار کے ساتھ لگی سفید باتھ روب جو کہ اسکے گھٹنوں تک آ رہی تھی اسے کھینچ کر لمبا کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ کھلے ہوئے گیلے بال اسکے کندھوں اور چہرے پر آ رہے تھے۔



        "مم ۔۔۔مان یہ۔۔۔"



        آن نے سر جھکاتے ہوئے کہا جبکہ رخسار اسکے سامنے اس حالت میں ہونے کی وجہ سے تپ گئے تھے۔



        "کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے آ کر کھا لو ۔۔۔۔"



        اتنا کہہ کر عرشمان وہاں سے چلا گیا تو آن تھوک نگلتی باہر آئی اور خاموشی سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔عرشمان بظاہر تو کھانا کھا رہا تھا لیکن اسکا سارا دھیان آن پر تھا جو آن کو بری طرح سے کنفیوز کر رہا تھا۔



        کھانا کھانے کے بعد آن جلدی سے بستر میں گھس گئی اور کمفرٹر خود پر لے کر اپنی ٹانگوں کو چھپانے لگی۔ویٹر کو برتن دے کر عرشمان بھی بیڈ پر آیا اور خاموشی سے لائٹ بند کر کے لیٹ گیا۔



        کمرے کی وہ تنہائی،رات کا پہر اور بغل میں نازک سا وہ حلال وجود۔آج یہ سب باتیں عرشمان کو معمول سے زیادہ بہکا رہی تھیں۔



        اچانک ہی بجلی زور سے چمکی تو آن نے سہم کر اپنا ہاتھ عرشمان کے سینے پر رکھ دیا۔اسکے برہنہ سینے پر گھنے بالوں کی چبھن کو محسوس کرتے آن نے اپنا ہاتھ واپس کھینچنا چاہا لیکن عرشمان اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ گیا۔



        "مان۔۔۔۔۔"



        آن نے گھبرا کر اسے پکارا تو اسکی آواز پر خود سے لڑتی جنگ عرشمان ہار گیا۔اس نے آن کو بازو سے کھینچ کر خود پر گرا لیا۔



        "مان یہ آپ۔۔۔۔"



        آن کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عرشمان اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں جکڑ گیا۔اسکی بے باکی پر آن سانس تک لینا بھول گئی اور عرشمان بے خود سا ہوا بہکتا چلا گیا۔



        اپنے ایک ہاتھ میں آن کا سر پکڑے وہ اسکی ساری مزاحمت ختم کر گیا۔آن کو اسکا دوسرا ہاتھ اپنی ٹانگوں پر محسوس ہوا تو اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے دور ہوئی اور گھبرا کر اسے دیکھنے لگی۔



        "مان۔۔۔"



        "بس آن اب بہت ہو گیا میری برداشت ختم ہو چکی ہے۔۔۔۔"



        اتنا کہہ کر عرشمان اسے اپنے نیچے لے کر اس پر حاوی ہو گیا۔اسکی حرکت پر آن کانپ کر رہ گئی۔



        "نن۔۔۔۔نہیں مان آپ۔۔۔۔"



        "شش۔۔۔۔۔"



        عرشمان نے اسکے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی ۔



        "جو ہو رہا ہے ہونے دو تمہارے ہونٹوں سے انکار بالکل برداشت نہیں کرنے والا۔اس وقت سب بھول جانا چاہتا ہوں میں آن بس یاد رکھنا چاہتا ہوں تو تمہیں اور اپنی محبت کو۔۔۔"



        اتنا کہہ کر عرشمان اسکی گردن پر جھک گیا۔عرشمان کی بے باکیاں آن کو بری طرح سے کپکپانے پر مجبور کر رہی تھیں لیکن بہت کوشش کے باوجود وہ مزاحمت نہیں کر پا رہی تھی۔



        عرشمان کا ہاتھ اسے باتھ روب کی بیلٹ پر محسوس ہوا تو آن نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔



        "مان ۔۔۔ "



        "میں آج اپنی اس محبت کو امر کر دوں گا آن تا کہ ہمیں چاہ کر بھی کوئی جدا نہ کر سکے۔۔۔۔کوئی بھی نہیں آن تم بھی نہیں ۔۔۔"



        اتنا کہہ کر عرشمان پھر سے اسکے ہونٹوں کو اپنی پر شدت گرفت میں جکڑ گیا اور ہاتھ آہستہ آہستہ اس باتھ روب کو اسکے کندھوں سے سرکانے لگے۔



        جبکہ آن اسکی بے باکیوں کو سہتی اسکے کندھے اپنے ہاتھ میں دبوچ گئی۔وہ اپنا آپ اپنی محبت کے سپرد کر گئی اس امید سے کہ اسکی خود سپردگی عرشمان کی ساری رنجشیں ختم کر دے گی اور پھر صبح ہونے پر اسے اسکا مان واپس مل جائے گا وہ مان جو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔



        جیسے جیسے رات گزر رہی تھی عرشمان کی شدتیں بڑھتی جا رہی تھیں اور آن اسکے جنون پر بے حال ہوتی اسی کی پناہوں میں چھپ گئی۔آخر وہی تو اسکی جائے پناہ تھا۔آن کا اس کے علاوہ تھا ہو کون۔



        وہ طوفانی رات ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا کر گئی تھی۔

        ????

        "بولا ناں نہیں لوں گی دوائی دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"



        فرحین بیگم چلائیں تو سلطان نے گھبرا کر انہیں دیکھا۔کل سے وہ نہ تو دوا لے رہی تھیں اور نہ ہی ڈاکٹرز کو اپنا علاج کرنے دے رہی تھیں۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ انکا بی پی بڑھتا جا رہا تھا۔



        " امی اگر آپ دوائی نہیں لیں گی تو آپکی طبیعت مزید خراب ہو جائے گی پلیز دوائی لے لیں۔۔۔۔"



        سلطان نے دوائی انکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا لیکن فرحین بیگم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ مار کر اسے پھینک دیا۔



        "ہونے دو طبیعت خراب نہیں پروا مجھے اپنی مرنا چاہتی ہوں میں سنا تم نے مرنا چاہتی ہوں میں۔۔۔۔"



        فرحین بیگم نے روتے ہوئے کہا اور پھر انہیں اپنا ہاتھ سینے پر رکھتے دیکھ سلطان پریشانی سے انکی جانب بڑھا۔



        "امی۔۔۔۔"



        سلطان فکر مندی سے چلایا جبکہ پاس کھڑی نرس فوراً ڈاکٹر کو بلانے گئی تھی۔ڈاکٹر نے کمرے میں آتے ہی پریشان ہوئے سلطان کو کمرے سے باہر بھیج دیا اور خود انکا چیک اپ کرنے لگا۔



        کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا تو سلطان پریشانی سے انکی جانب بڑھا۔



        "دیکھیں مسٹر ملک مجھے لگتا ہے انہیں مائینر سا ہارٹ اٹیک ہوا ہے اگر انکا بی پی کنٹرول نہیں ہوا تو مسلہ زیادہ ہو گا آپ کیسے بھی انہیں دوائی لینے پر مجبور کریں ورنہ مشکل بہت بڑھ جائے گی۔"



        اتنا کہہ کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا اور سلطان پریشانی کے عالم میں بینچ پر بیٹھ گیا۔کل سے وہ فرحین بیگم کی یہ حالت دیکھ رہا تھا اور اب اسکی بس ہو چکی تھی۔وہ اپنی ماں کو دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ کیا کرتا کنیز بھی تو اسکی زمہ داری تھی۔



        سلطان بوجھل قدموں سے اٹھ کر وارڈ میں داخل ہوا اور فرحین بیگم کی کرسی کے پاس بیٹھ گیا۔کتنی ہی دیر وہ انہیں یوں بے ہوش پڑے دیکھتا رہا۔



        آخر کار فرحین بیگم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سلطان کو مردہ آنکھوں سے دیکھا۔



        "پھر سے بچا لیا مجھے۔۔۔۔کیا چاہتے ہو۔۔۔۔نہ چین سے جینے دے رہے ہو نہ مرنے۔۔۔۔۔مجھے مر جانے دو سلطان تا کہ تم اپنی زندگی میں خوش رہ سکو۔"



        اتنا کہہ کر فرحین بیگم اپنی آنکھیں موند گئیں اور سلطان کی آنکھوں سے دو آنسو بہہ نکلے۔



        "مجھے آپکا فیصلہ منظور ہے امی میں انابیہ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔۔"



        سلطان کی بات پر فرحین بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا۔



        "مجھے تمہارا احسان نہیں چاہیے۔۔۔۔میں نہیں چاہوں گی کہ انابیہ سوتن کا بوجھ سہے کل کو تم اس لڑکی کو اپنا کر انابیہ کو طلاق دے دو گے تو۔۔۔"



        "نہیں امی ایسا نہیں ہو گا میں وہی کروں گا جو آپکی خواہش ہے بس آپ دوائی لے لیں آپ کو نہیں کھو سکتا۔۔۔۔"



        سلطان نے ہاتھ میں پکڑی دوائی فرحین بیگم کے سامنے کی تو فرحین بیگم نے مسکرا کر دوائی پکڑ لی۔سلطان نے پانی کا گلاس انہیں پکڑایا تو فرحین بیگم نے دوائی پانی سے نگل لی۔



        "دیکھنا سلطان تم بہت خوش رہو گے انابیہ کے ساتھ وہ تم سے اتنا پیار کرے گی کہ تم اس لڑکی کو بھول جاؤ گے۔۔۔۔"



        فرحین بیگم نے محبت سے کہا تو سلطان اپنی آنکھیں کرب سے موند گیا۔کتنے ہی آنسو اسکے گال پر بہے تھے۔



        نہیں امی میں مر کر بھی اپنی نوری کو نہیں بھول سکتا مر کر بھی نہیں۔۔۔



        سلطان ایک بار پھر یہ بات اپنی زبان پر لانے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔

        ????

        عرشمان کی آنکھ کھلی تو پہلی نظر آن پر پڑی جو اسکی شدتوں سے چور اسکی پناہوں میں سمٹی ہوئی سو رہی تھی۔عرشمان کتنی ہی دیر اسکے پاس لیٹا اسے دیکھتا رہا تھا۔اسکی نگاہ بار بار بھٹک کر اسکے ہونٹوں اور اپنے جنون کے نشانوں پر جا رہی تھی۔



        اسکی نگاہوں کی تپش محسوس کرتے آن کی آنکھ کھلی تو عرشمان کو خود کو دیکھتا پا کر ایک شرمیلی سی مسکان اسکے ہونٹوں پر آئی۔اس نے فوراً اپنا سر جھکا لیا۔



        عرشمان کو بس خاموشی سے خود کو گھورتا پا کر آن مزید کنفیوز ہو گئی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عرشمان سے کیا کہے اور پھر وہ شرم و حیا تو اسکی زبان کو بالکل بند کر گئی تھی۔



        اچانک ہی عرشمان اسکے پاس سے اٹھا تو آن نے گھبرا کر کمفٹر کر اپنی مٹھی میں دبوچ لیا۔



        "اٹھ کر چینج کر لو ہمیں ہوٹل واپس جانا ہے ۔۔۔"



        عرشمان کی بے رخی اور سنجیدگی پر آن نے حیرت سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔کیا اسکا خود کو نچھاور کر دینا بھی عرشمان کا غصہ مٹا نہیں پایا تھا۔



        "مان۔۔۔"



        "جلدی کرو میرے پاس فالتو کا وقت نہیں۔۔۔"



        عرشمان نے اپنی شرٹ پہنتے ہوئے کہا جو اب تک سوکھ چکی تھی۔اسکے کمرے سے باہر نکلتے ہی آن کی آنکھوں سے دو آنسو بہے لیکن پھر اس نے خود کو تسلی دی کہ ہو سکتا ہے عرشمان اس سے محبت سے پیش آئے ہو سکتا ہے اسکی یہ بے رخی دو پل کی ہو اور پھر سب ٹھیک ہو جائے۔



        آن نے امید سے سوچا اور اٹھ کر کپڑے چینج کرنے چلی گئی۔چینج کر کے وہ باہر آئی جہاں عرشمان گاڑی کے پاس کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا۔



        پورا راستہ عرشمان نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور آن چاہ کر بھی کچھ کہنے کی ہمت اکٹھا نہیں کر پائی۔ہوٹل واپس پہنچ کر عرشمان کمرے میں گیا اور اپنا سامان پکڑ کر پیک کرنے لگا۔



        "اپنا سامان پیک کر لو آن ہم دونوں آج ہی واپس جا رہے ہیں۔۔۔"



        عرشمان کی بات پر آن نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اور اسکے پاس آئی۔



        "مان۔۔۔۔"



        آن نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھا تو عرشمان حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔



        "کیا آپ نے ابھی بھی مجھے معاف نہیں کیا مان اتنا سب ہونے کے بعد بھی؟"



        آن کے سوال پر عرشمان اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔



        "اپنا سامان پیک کرو آن ہم واپس جا رہے ہیں۔۔۔"



        "نہیں مان ہم تب تک واپس نہیں جا رہے جب تک آپ میری بات کا جواب نہیں دیتے کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا؟"



        آن نے بہت امید سے پوچھا اور عرشمان کتنی ہی دیر اسکی آنکھوں میں امید کو دیکھتا رہا تھا۔



        "نہیں میں نے پہلے بھی تمہیں یہی کہا تھا اور آج بھی یہی کہہ رہا ہوں میں چاہ کر بھی تمہیں معاف نہیں کر سکتا۔۔۔۔"



        عرشمان ملک آج اپنے الفاظ سے اپنی محبت کا دل بہت بری طرح سے توڑ گیا تھا۔وہ جو اپنا جسم و جاں اس پر نچھاور کر گئی تھی کیا وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ اسکی ایک غلطی کو بھول جاتا۔



        "آپ اب ظلم کر رہے ہیں مان۔۔۔۔"



        آن نے بہتی آنکھوں سے کہا۔اسکی آنکھیں اسکے کرب کی انتہا بیان کر رہی تھیں لیکن پھر بھی عرشمان کو اس پر رحم نہیں آیا۔



        "جانتا ہوں۔۔۔۔باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں سامان لے کر آ جانا۔۔۔۔"



        اتنا کہہ کر عرشمان وہاں سے چلا گیا اور آن زمین پر بیٹھ کر سسک سسک کر رونے لگی۔عرشمان ملک جزبات میں بہت کھرا ثابت ہوا تھا آج تک اس نے جتنی شدت سے محبت نبھائی تھی اب نفرت بھی وہ اسی جنون سے نبھا رہا تھا۔

        ???

        Comment


        • #64
          #زندگی_اے_تیرے_نال



          #قسط_نمبر_26(پارٹ 1)





          لیزا کا موڈ بری طرح سے آف تھا کیونکہ اتنے دنوں سے وہ اس حویلی میں ہی موجود تھی باہر جانا تو دور اس حادثے کے بعد تو عزم نے اسکا گھر کے صحن میں نکلنا تک بند کیا تھا کہ کہیں تیز دھوپ میں اسکی طبیعت نہ خراب ہو جائے۔



          اسکی یہ فکر مندی نے جہاں لیزا کو ایک پوری رات اسکے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا تھا وہیں اب اس قید سے اسے گھٹن ہو رہی تھی۔لیزا اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگی جب باہر سے آتی روپ اس سے بری طرح سے ٹکرائی ۔



          اتنے دنوں سے اسکا ایک آسرا روپ ہی تو تھی جس کے ساتھ وقت گزار کر وہ اب لیزا کو بہت اچھی لگنے لگی تھی۔



          "چوہدراین جی میں آپکے پاس ہی آ رہی تھی۔"



          "کیوں کوئی خاص بات؟"



          لیزا نے بے زاری سے پوچھا۔



          "ہاں آپکو پتہ ہے گاؤں میں میلہ لگا ہے۔"



          روپ کی بات پر لیزا کے ماتھے پر بل آئے۔



          "یہ میلا کیا ہوتا ہے ؟"



          "میلا سمجھ لیں ایک طرح کا فئیر ہے جس میں طرح طرح کے سٹال لگتے ہیں اور بہت سے جھولے ہوتے ہیں اور طرح طرح کی کھانے کی چیزیں،لوگ اور بہت ساری رونک۔۔۔۔"



          روپ نے کافی پر جوشی سے بتایا۔



          "تو مجھے کیوں بتا رہی ہو یہ سب میں کیا کروں؟"



          "آپ کو اس لیے بتا رہی تھی کہ کیوں نہ میں اور آپ میلا دیکھنے چلیں۔۔۔ "



          ایک طنزیہ مسکراہٹ لیزا کے ہونٹوں پر آئی۔



          "ہاں جیسے عزم جانے دے گا ناں۔۔۔"



          "ارے یہی تو بات ہے چوہدراین جی آپ کھڑکی تو کھول کر دیکھیں آسمان پر اتنے پیارے بادل چھائے ہیں زرا سی دھوپ نہیں ہے۔"



          یہ بات جان کر لیزا کے چہرے پر بھی دلچسپی آئی۔ہاں وہ گھومنا چاہتی تھی مزے کرنا چاہتی تھی۔



          "آپ ناں جائیں اور چوہدری جی سے بہت زیادہ پیار سے پوچھیں دیکھنا وہ مان جائیں گے۔۔۔۔"



          روپ کی بات پر لیزا مسکرائی اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ڈھونڈنے کے بعد اسے عزم ہال میں آتا دیکھائی تو دونوں اسکی جانب چل دیں۔



          "عزم۔۔۔۔"



          لیزا کے پکارنے پر عزم رکا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔وہ زرا جلدی میں لگ رہا تھا۔



          "مجھے تم سے بات کرنی ہے؟"



          لیزا کی بات روپ نے اردو میں دہرائی تو عزم سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا جسکا صاف مطلب تھا کہ کہو کیا کہنا ہے۔



          "روپ بتا رہی تھی کہ گاؤں میں میلا لگا ہے مجھے وہ دیکھنے جانا ہے۔۔۔۔"



          لیزا کی فرمائش پر عزم نے آنکھیں چھوٹی کر کے روپ کو دیکھا۔



          "نہیں۔۔۔۔"



          عزم نے ایک لفظی جواب دیا اور وہاں سے جانا چاہا لیکن لیزا فوراً اسکے سامنے ہوئی۔



          "لیکن عزم باہر دھوپ بھی نہیں ہے تو مجھے کچھ نہیں ہو گا اور ویسے بھی حویلی میں بیٹھ کر بور ہو چکی ہوں پلیز مجھے جانے دو۔۔۔اگر چاہو تو تم بھی ساتھ چل سکتے ہو۔"



          لیزا کی ہڑبڑی میں کہی بات روپ نے دہرائی تو عزم نے زرا سختی سے اسے دیکھا۔



          "نہیں غزل۔۔۔۔"



          لیزا جانتی تھی کہ عزم اسے غزل تبھی بلاتا ہے جب وہ سیریس موڈ میں ہو۔لیزا باہر جانے کے لیے اتنی بے چین تھی کہ بغیر سوچے سمجھے آگے بڑھی اور عزم کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اپنا سر اوپر کرتے ہوئے اسے دیکھا۔



          "پلیز عزم جانے دو مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔"



          لیزا نے اتنی چاہت سے کہا کہ عزم انکار کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔اس نے بے بسی سے غلام کی جانب دیکھا۔



          "میں نہیں جا سکتا مجھے ضروری کام ہے لیکن تم چند آدمیوں کو لے کر انکے ساتھ جاؤ گے۔ سائے کی طرح انکے ساتھ رہنا میری بیوی پر کسی کی غلط نگاہ بھی برداشت نہیں کروں گا اور اگر دھوپ نکلے تو فوراً اسے گاڑی میں بیٹھا کر واپس لے آؤ گے۔۔۔۔"



          غلام نے اثبات میں سر ہلایا تو عزم لیزا کی جانب مڑا۔



          "ٹھیک ہے تم جا سکتی ہو لیکن غلام کے ساتھ رہنا اور چادر اوڑھ کر جانا۔"



          روپ نے لیزا کو یہ بات بتائی تو لیزا خوشی سے چہکتی عزم کے گلے لگ گئی اور اپنے ہونٹ اسکے گال پر رکھے۔



          "تھینک یو سو مچ۔۔۔۔"



          لیزا کی اس حرکت پر عزم کی آنکھوں میں حرارت اتری اور اسے خود سے دور کر کے عزم اسکے کان کے پاس جھکا۔



          "تنہا ہوتا تو تمہاری اس حرکت کی قیمت بہت بھاری ہونی تھی میری ولایتی چوزی۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔"



          اتنا کہہ کر عزم وہاں سے چلا گیا اور لیزا مسکراتے روپ کے ساتھ کمرے میں چلی گئی۔عزم کی بات پر عمل کرتے ہوئے روپ نے اسے چادر دی جو لیزا نے بخوشی خود پر اوڑھ لی جب تک وہ باہر جا رہی تھی اسے ہر بات منظور تھی۔



          وہ دونوں خوشی سے چہکتی ہوئی اس گاڑی کے پاس آئیں جس کے باہر غلام کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔انکے گاڑی میں بیٹھتے ہی غلام ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ایک گاڑی انکے آگے جبکہ دوسری انکے پیچھے چلنے لگی۔



          "اتنے لوگ ہمارے ساتھ کیوں آ رہے ہیں۔۔۔."



          لیزا نے حیرت سے اپنے آگے پیچھے موجود گاڑی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔



          "یہ آپکے گارڈز ہیں چوہدراین جی آخر کار گاؤں کے سردار کی بیوی ہیں آپ آپکی حفاظت سے بڑھ کر انکے لیے کچھ نہیں۔۔۔۔"



          روپ کی بات پر لیزا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔تقریباً دس منٹ کے بعد وہ لوگ میلے پر پہنچ گئے اور وہاں کی چکاچوند دیکھ کر لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔وہ خوشگوار موڈ میں روپ کا ہاتھ تھام کر میلے کی جانب بڑھ گئی تو غلام نے آدمیوں کو وہاں رکنے کا اشارہ کیا اور خود ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔



          "تو کیا کیا ٹرائی کریں گی آپ؟"



          روپ کے سوال پر لیزا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔



          "مجھے اس رائیڈ پر بیٹھنا ہے۔۔۔۔"



          لیزا نے وہاں چلتی کشتی نما جھولے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔



          "نہیں آپ اس پر نہیں بیٹھیں گیں ایک تو یہ سیف نہیں ہے اور دوسرا اس پر بہت سے آدمی موجود ہیں۔۔۔۔"



          غلام کے اردو میں کہنے پر لیزا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو روپ نے اسکی کہی بات انگلش میں بتائی۔



          "اور باقی رائیڈز کا کیا۔۔۔؟"



          روپ نے لیزا کی بات اردو میں دہرائی تو غلام نے مسکرا کر روپ کو دیکھا۔



          "آپ کسی بھی جھولے پر نہیں بیٹھ رہیں۔۔۔۔"



          روپ کے بتانے پر لیزا نے دانت کچکچائے اور روپ کا ہاتھ تھام کر اسے ایک جانب لے گئی۔



          "چلو کچھ کھاتے ہیں۔۔۔"



          لیزا کے کہنے پر روپ مسکرائی۔



          "آئیں آپ کو پاکستان کی سب سے خاص چیز کھلاتی ہوں۔۔۔"



          اتنا کہہ کر روپ اسے گول گپوں کے سٹال پر لے آئی۔



          "مجھے نہیں لگتا چوہدراین جی کو یہ کھانے چاہیں انہیں اتنے تیکھے کھانوں کی عادت نہیں ہے۔۔۔۔"



          غلام نے روپ سے کہا تو روپ نے گہرا سانس لیا اور لیزا کے کان کے پاس جھک کر اسے غلام کی کہی بات بتائی۔



          "مجھے نہیں لگتا کہ یہ بندہ ہمیں مزے کرنے دے گا ہر دوسری چیز سے تو منع کر رہا ہے یہ۔۔۔"



          روپ کی بات پر لیزا نے منہ بنا کر غلام کو دیکھا پھر ایک ترکیب اسکے ذہن میں آئی۔



          "کیا یہ سپائسی ہوتے ہیں ؟"



          لیزا نے گول گپوں کی جانب اشارہ کر کے پوچھا تو روپ نے اثبات میں سر ہلایا۔لیزا نے وہاں پڑی گول گپوں کی پلیٹ میں سے ایک اٹھایا اور اسے اپنے منہ میں ڈال لیا۔



          مرچی نے فوراً اپنا اثر دیکھایا۔لیزا کی چھوٹی سی ناک لال ہو گئی اور وہ بری طرح سے کھانسنے لگی۔



          "اوہ گاڈ واٹر ۔۔۔۔"



          غلام نے پریشانی سے لیزا کی جانب دیکھا جو کھانستے ہوئے کہہ رہی تھی اور جلدی سے پانی لینے چلا گیا۔لیزا نے فوراً روپ کا ہاتھ پکڑ اور بھاگ کر وہاں سے غائب ہو گئیں۔



          گول گپوں کے سٹال سے کافی دور بھاگنے کے بعد لیزا نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور قہقہ لگا کر ہنسنے لگی۔اسے ہنستا دیکھ روپ بھی ہنس دی۔



          "اب کھل کر انجوائے کرتے ہیں۔۔۔"



          لیزا نے آنکھ دبا کر کہا۔



          "کیا کریں سب سے پہلے ؟"



          روپ کے سوال پر لیزا کو اس مرچی کا خیال آیا جو اس نے گول گپوں کی صورت میں کھائی تھی۔



          "سب سے پہلے کچھ پیتے ہیں۔"



          روپ نے ہاں میں سر ہلایا اور لیزا کو جوس کے سٹال پر لے آئی۔تازہ پھلوں کا جوس پینے کے بعد دونوں کا بھاگنے کی وجہ سے پھولا سانس برقرار ہوا۔



          "باجی پیسے۔۔۔۔"



          سٹال والے کی بات پر روپ نے پریشانی سے لیزا کی جانب دیکھا۔



          "پیسے ہیں آپ کے پاس؟"



          "میرے پاس پیسے کیوں ہوں گے عزم نے تو اس مقصد کے لیے غلام کو بھیجا تھا تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں کیا؟"



          لیزا نے واپس اسی سے سوال کیا۔



          "ابھی آپکے شوہر نے سیلری نہیں دی مجھے میرے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے۔۔۔۔"



          روپ کی بات پر لیزا نے اپنا سر تھام لیا پھر کچھ یاد آنے پر ایک مسکان کے ساتھ اس جوس والے کو دیکھا۔



          "تم جانتے ہو میں کون ہوں ؟"



          لیزا کی انگلش پر دکاندار پریشان ہوا تو روپ نے اردو میں بات دہرا کر اس کے لیے آسانی پیدا کی۔



          "میں عزم کی بیوی ہوں تم لوگوں کے چوہدری کی اور تم مجھ سے پیسے لو گے ؟"



          روپ نے مسکرا کر لیزا کی بات اردو میں دہرائی تو آدمی اضطراب میں آ گیا اور انکار میں سر ہلایا۔



          "آپ سے کیسے پیسے لے سکتا ہوں چوہدراین جی آپ کچھ بھی لے سکتی ہیں پیسوں کے بغیر۔"



          روپ نے مسکراتے ہوئے یہ بات لیزا کو بتائی تو وہ مسکرا دی اسکے بعد لیزا نے عزم کا نام استعمال کر کے پورا میلا فری میں انجوائے کیا۔



          جو اسکے دل میں آیا وہ کھایا،جس جھولے پر دل کیا بیٹھی،پھر اسکی نگاہ ایک عورت پر پڑی جو ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن والے چھاپے لگا رہی تھی تو مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کر دیا۔اپنے نازک سے سفید ہاتھ پر وہ ڈیزائن دیکھ کر لیزا مسکرا دی۔



          "بہت پیاری لگی ہے چوہدراین جی اب ان پیاری سی کلائیوں میں بھی کچھ پہنتے ہیں۔"



          اتنا کہہ کر روپ اسے چوڑیوں کے سٹال پر لے گئی اور اسے پیاری پیاری سی چوڑیاں دلوائیں۔لیزا حیران ہو گئی تھی کہ کیسے عزم کے نام پر اسے سب کچھ فری میں مل رہا تھا۔



          چوڑیوں کے سٹال سے وہ دونوں ایک طرف جانے لگیں تو نگاہ غلام پر پڑی جو پریشان سا یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔وہ دونوں فوراً دوسری جانب پلٹیں اور دوڑ لگا کر دوسری سائیڈ پر آ گئیں۔



          "اچھا مزہ چکھایا اسے زیادہ ہی ہوشیار بن رہا تھا۔۔۔۔"



          روپ نے ہنستے ہوئے کہا تو لیزا مزید ہنس دی۔غلام کے حال پر ہنستی دونوں ہی بے حال ہو رہی تھیں۔کچھ دور آنے پر اچانک ہی لیزا کی نگاہ عزم پر پڑی جو گاڑی کے پاس کھڑا اسے گھور رہا تھا۔روپ نے لیزا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو گھبرا گئی لیکن جب نظر عزم کے پیچھے غصے سے پاگل ہوتے غلام پر پڑی تو روپ کی ہنسی چھوٹ گئی۔لیزا خوشی سے چہکتے ہوئے عزم کے پاس گئی۔



          "عزم تمہیں پتہ ہے آج میں نے کتنا ۔۔۔۔ "



          چٹاخ ۔۔۔۔ایک زور دار تھپڑ کی آواز پر لیزا کے الفاظ اسکے منہ میں اٹک گئے اور وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے حیرت سے عزم کو دیکھنے لگی جس نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔



          "میں نے تمہیں غلام کے ساتھ رہنے کا کہا تھا اور تم بجائے میری بات ماننے کے اسے بیوقوف بنا کر اکیلی چلی گئی۔ہمت کیسے ہوئی تمہاری ایسا کرنے کی۔۔۔۔"



          عزم کے غصے سے چلانے پر روپ سہم کر بری طرح سے کانپنے لگی۔اس میں تو اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ لیزا کو عزم کی بات انگلش میں بتا دیتی لیکن اسکی یہ مشکل غلام نے آسان کر دی جس نے عزم کی کہی ہر بات لیزا کو انتہائی اچھی انگلش میں بتائی۔



          "میں نے تمہیں آزادی دی کیونکہ یہ تمہارا حق ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم اس آزادی کا ناجائز فایدہ اٹھاؤ "



          عزم کے ایسا کہنے پر غلام نے پھر سے یہ بات انگلش میں بتا دی۔لیزا بس اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے سر جھکائے کھڑی تھی۔



          "امید کرتا ہوں آئندہ تم ایسا نہیں کرو گی۔۔۔۔"



          اتنا کہہ کر عزم نے غلام کی جانب دیکھا جس نے یہ بات لیزا کو کہی تو عزم نے لیزا کا ہاتھ پکڑا اور اسے گاڑی میں بیٹھانا چاہا لیکن لیزا نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔



          "بچپن سے میں نے وہ کیا جو میرے دل میں آیا بنا کسی کی روک ٹوک کے وہاں گئی جہاں میرا دل کیا کبھی اپنے ڈیڈ سے بھی اجازت نہیں مانگی اور نہ ہی آج تک انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔"



          لیزا کی آواز پر عزم رکا اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔غلام نے لیزا کی بات اردو میں دہرا دی۔



          "آج تک کسی نے بھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا ۔۔۔"



          اتنا کہہ کر لیزا عزم کے پاس آئی اور اپنی نم ہوتی شہد رنگ کی آنکھوں سے اسے دیکھا۔



          " تم نے اس دن پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا لیکن آج تک میں نے اس بارے میں تمہیں کچھ نہیں کہا کیونکہ کہیں نہ کہیں مجھے یہ لگتا تھا کہ میں وہ تھپڑ ڈیزرو کرتی تھی۔اپنی خود غرضی کی وجہ سے وہ تھپڑ میں ڈیزرو کرتی تھی لیکن یہ ۔۔۔۔"



          لیزا نے اپنے گال کی جانب اشارہ کیا جس پر عزم کے بھارے ہاتھ کا نشان موجود تھا۔غلام نے آہستہ سے اسکی بات اردو میں دہرائی۔



          "یہ میں ڈیزرو نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔نہیں کرتی تھی۔۔۔۔"



          یہ بات کہتے ہوئے کتنے ہی آنسو لیزا کی آنکھوں سے بہے تھے۔



          "لیکن اگر مجھے مار کر تمہارے مردانہ غرور کو تسکین ملتی ہے تو مارو مجھے۔۔۔۔مارو لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ کمزور پر ہاتھ اٹھا کر اپنے آپ کو طاقت ور اور سربراہ سمجھنے والا مرد میری نظر میں مرد ہی کہلانے کے قابل نہیں۔۔۔۔"



          لیزا نے اسے نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا اور عزم غلام کی اردو میں دہرائی ہر بات خاموشی سے وہاں کھڑا سن رہا تھا۔



          "تم اس مقام کے قابل ہی نہیں جو میں تمہیں دے رہی تھی۔۔۔۔جو میں تمہیں سمجھ رہی تھی تم اسکے قابل نہیں تم ویسے ہی ہو جیسا میری ماں نے کہا تھا بے حس اور مردانگی کا غرور رکھنے والے۔۔۔۔"



          لیزا نے اسکے چوڑے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے کہا جبکہ آنسو مسلسل بہہ کر گال پر آ رہے تھے۔



          "آئی ہیٹ یو عزم چوہدری آئی ہیٹ یو۔۔۔"



          اتنا کہہ کر لیزا روتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ عزم کتنی ہی دیر سکتے کے عالم میں وہیں کھڑا رہا تھا۔غلام بس عزم کے چہرے پر اس سنجیدگی کو دیکھ رہا تھا اور روپ عزم کے غصے سے سہمی سائیڈ پر کھڑی کانپ رہی تھی۔



          عزم کی نظر روپ اور غلام پر پڑی تو اسے فوراً اپنے غصے کا شدت سے احساس ہوا۔وہ غصے میں بہت غلط کر چکا تھا۔وہ تھپڑ اس نے لیزا کے گال پر نہیں بلکہ اسکی شخصیت کو مارا تھا۔



          "ایک بات کہوں گی چوہدری جی۔۔۔۔"



          روپ کے ہمت کر کے کہنے پر عزم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔



          "آپ نے ابھی تک انہیں بدلنے میں جو محنت کی تھی وہ آپ بس اس ایک تھپڑ کی وجہ سے ضائع کر چکے ہیں۔۔۔"



          روپ کی بات پر عزم نے ضبط سے آنکھیں موندیں اور خاموشی سے لیزا کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔پورا راستہ وہ لیزا کے رونے کی آواز سنتا رہا لیکن کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔



          گھر واپس پہنچتے ہی لیزا کمرے میں چلی گئی تو عزم بھی ہمت کرتا اسکے پیچھے آیا۔نظر لیزا پر پڑی جو بیڈ پر الٹا لیٹے رونے کا شغل کر رہی تھی۔عزم نے اسکے پاس آ کر اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا جسے لیزا نے بری طرح سے جھٹک دیا۔



          "لیو می الون۔۔۔۔۔"



          لیزا غصے سے چلائی لیکن عزم نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کیا اور سنجیدگی سے اسکے گال کو دیکھنے لگا جو اسکے تھپڑ کی وجہ سے لال ہو رہا تھا۔

          عزم نے نرمی سے اسکے گال کو چھوا تو ،لیزا فوراً اس سے دور ہو گئی۔



          "ڈونٹ ٹچ می۔۔۔"



          لیزا کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے عزم نے اسے اپنے قریب کھینچا اور اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے گال پر رکھے۔لیزا نے اپنے آپ کو چھڑوانا چاہا لیکن عزم اسے اپنی مظبوط گرفت میں جکڑے اسکے گال پر موجود اپنی انگلی کے ہر نشان کو نرمی سے چومنے لگا۔اسکی اس حرکت پر لیزا کی آنکھیں مزید روانی سے بہنے لگیں۔



          "آئی ول نیور فارگیو یو فار دس نیور۔۔۔۔"



          گال کے بعد عزم نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور نرمی سے اپنے ہونٹ اسکی آنکھوں پر رکھے۔پھر اسکے دوسرے گال کو چومتا وہ اسکے ہونٹوں تک آیا اور پھر انتہائی نرمی اور محبت سے اسکے پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھونے لگا۔



          اسکے لمس میں اتنی محبت اتنی نرمی تھی کہ لیزا بھی اپنے آنسو بھلائے بنا کسی مزاحمت کے اسکی گرفت میں بیٹھی رہی۔



          "ہو سکے تو اپنے چوہدری کو معاف کر دینا میری ولایتی چوزی جانتا ہوں جو کیا وہ بہت غلط تھا لیکن جزبات میں بہہ گیا تھا۔۔۔"



          عزم نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے سرگوشی کی تو لیزا کی آنکھیں پھر سے بہنے لگیں۔



          "تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ کیا حالت ہوئی میری جب غلام نے مجھے فون کر کے یہ بتایا کہ تم کیسے اسے چکما دے کر بھاگ گئی اور پھر اسے کہیں نہیں ملی۔مجھے لگا کہ کسی نے میرا سینا چیر کر میرا دل نکال لیا ہو۔۔۔۔"



          عزم ہلکی سی آواز میں اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھ رہا تھا اور وہ اس سب سے بے نیاز اسی کے سینے سے لگی آنسو بہانے میں مصروف تھی جس نے اسے تکلیف پہنچائی تھی۔



          "اپنا سب کچھ کھو کر جینا سیکھا ہے میں نے غزل چوہدری لیکن تمہیں نہیں کھو سکتا۔۔۔۔"



          اس خیال پر ہی عزم کی پکڑ اس پر مظبوط ہوئی۔



          "نہیں جانتا کہ تمہارے لیے میرے یہ جزبات کیا ہیں غزل بس اتنا جانتا ہوں کہ اب یہ جزبات اور تم میرا سب کچھ ہو۔۔۔۔"



          اتنا کہہ کر عزم نے اسکا چہرہ دیکھا تو مسکرا دیا کیونکہ وہ اسکے سینے سے لگی سو چکی تھی جبکہ چند آنسو ابھی بھی پلکوں پر ٹکے تھے۔



          "اس تھپڑ کا حساب ضرور چکاؤں گا تمہاری ناراضگی سر آنکھوں پر میری جان میں تمہیں منا کر ہی دم لوں گا۔۔۔"



          اتنا کہہ کر عزم نے اسے خود میں بھینچا اور سکون سے آنکھیں موند گیا۔اسکی دوری کے خیال پر تب سے بے چین ہونے والا دل اب اسکے قرب پر سکون حاصل کر گیا تھا۔

          ????

          Comment


          • #65
            #زندگی_اے_تیرے_نال

            #قسط_نمبر_26(پارٹ 2)



            "چوہدراین جی ضد مت کریں پلیز کچھ کھا لیں۔"

            روپ نے لیزا سے کہا جو صبح سے اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جبکہ نہ تو اس نے کل رات سے کچھ کھایا تھا اور نہ ہی کسی سے بات کی تھی۔

            "پلیز ایک گلاس دودھ ہی پی لیں۔۔۔"

            روپ نے دودھ کا گلاس لیزا کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا لیکن لیزا نے ہاتھ مار کر اس گلاس کو پھینک دیا۔کمرے میں داخل ہوتے عزم نے جب زمین پر ٹوٹا ہوا گلاس اور بکھرا دودھ دیکھا تو گہرا سانس لے کر اسکی جانب آیا۔

            "آپ جائیں استانی جی میں دیکھ لوں گا انہیں۔۔۔"

            روپ عزم کا حکم مانتی دروازا بند کر کے وہاں سے چلی گئی۔عزم لیزا کے پاس آیا اور اسکے سامنے پڑے پراٹھے کا نوالہ بنا کر لیزا کے سامنے کیا لیکن لیزا اپنا منہ موڑ گئی۔

            "ناراضگی مجھ سے ہے کھانے سے تو نہیں کم از کم کچھ کھا کر ناراض ہونے کی طاقت تو خود میں پیدا کر لو۔"

            عزم نے بہت زیادہ نرمی سے کہا لیکن لیزا نے اسکی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا۔عزم نے دوسرے ہاتھ سے اسکی ٹھوڈی پکڑ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا تو نظر اپنی انگلیوں کے نشان پر پڑی جو ابھی بھی وہاں قائم تھا۔عزم کا دل کیا اپنا وہ ہاتھ توڑ دے جس نے اسکی ولایتی چوزی کو تکلیف پہنچائی تھی۔

            "جانتا ہوں کہ میرے عمل نے اس نازک چہرے سے زیادہ اس دل کو چھلنی کیا ہے لیکن دیکھنا اس دل کو پھر سے جوڑ کر رہوں گا۔۔۔۔"

            عزم نے اسکے گال کو نرمی سے چھونا چاہا تو لیزا نے فوراً اپنا چہرہ اسکی پہنچ سے دور کر لیا۔

            "مجھے تو لگا تھا کہ غصے میں تم میری دیسی شیرنی بنو گی جو میرے بال نوچ دے گی لیکن تمہاری یہ خاموشی۔۔۔۔۔تم پر بالکل نہیں جچ رہی۔۔۔۔"

            عزم کی نظر اسکے ہاتھوں پر بنے ڈیزائین اور چوڑیوں پر گیا تو عزم نے نرمی سے آن چوڑیوں کو چھوا۔اسکے ایسا کرتے ہی لیزا اس سے دور ہوئی اور چوڑیاں اپنی کلائی سے نکال کر فرش پر پھینک کر توڑ دیں۔

            اب وہ اپنے ہاتھوں پر بنا ڈیزائین غصے سے مٹا رہی تھی۔عزم گہرا سانس لے کر اسکے قریب ہوا اور اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اونچا کیا۔

            "بس کر دو ناں یہ غصہ میری جان اور بس زرا اپنی انگریزی بول کر سر کھا لو میرا۔"

            عزم نے نرمی سے کہا لیکن کچھ کہنا تو دور لیزا نے اسکی جانب دیکھا تک نہیں تھا۔عزم نے گہرا سانس لے کر اسکی ٹھوڈی کو چھوڑا۔

            "اگر تم ضدی ہو تو میں بھی ضد میں تم سے بڑا ہوں تمہیں منا کر ہی دم دوں گا۔۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم نے اسکی ٹھوڈی چھوڑی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ سمجھ چکا تھا کہ اسے اپنی چوزی کو کیسے منانا تھا۔
            ????
            "یہ آپ کے لیے چوہدری جی نے بھیجا ہے وہ چاہتے ہیں کہ آپ اسے پہن کر تیار ہو جائیں۔"

            روپ نے ایک ڈبہ لیزا کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا لیکن لیزا تو ایسے تھی جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔

            "پلیز چوہدراین جی اب غصہ تھوک بھی دیں مانا ان سے غلطی ہوئی لیکن انہوں نے آپ سے معافی تو مانگی ہے ناں۔۔۔"

            روپ نے وہ ڈبہ اسکے پاس رکھ کر اسے سمجھایا۔

            "اور ابھی بھی وہ آپکو منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔"

            روپ لاچارگی سے کہہ رہی تھی اور لیزا مسلسل اسے نظر انداز کیے بیٹھی تھی۔

            "آپکا دکھ سمجھ سکتی ہوں آپ کا غصہ اپنی جگہ جائز ہے لیکن کسی کو موقع نہ دینا زیادتی ہے۔"

            اس بات پر لیزا نے روپ کی جانب دیکھا تو روپ نے شکر کا سانس لیا۔

            "غلطیاں ہر انسان سے ہوتی ہیں چوہدراین جی آپ سے بھی ہوئی ہوں گی کبھی سوچا ہے کہ اپکی غلطی پر اگر کوئی آپکو معافی مانگنے کے باجود بھی معاف نہ کرتا تو آپکو کیسا لگتا؟"

            روپ نے اپنا ہاتھ لیزا کے کندھے پر رکھا۔

            "بس ایک بار خود کو انکی جگہ پر رکھ کر دیکھیں باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔"

            اتنا کہہ کر روپ وہاں سے چلی گئی اور لیزا کتنی ہی دیر اسکی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی ۔پھر کافی سوچنے کے بعد وہ اٹھی اور اس ڈبے کو پکڑ کر واش روم میں گھس گئی۔

            تقریباً پندرہ منٹ کے بعد وہ تیار ہو کر نیچے آئی جہاں عزم بے چینی سے اسکا انتظار کر رہا تھا۔لیزا کو ایک نظر دیکھتے ہی وہ دیکھتا رہ گیا۔

            آج اس نے اپنی چوزی کو کالے رنگ کا جوڑا دیا تھا جس میں اسکی گوری رنگت مزید نکھر کر اسے پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت بنا رہی تھی۔

            لیزا خاموشی سے اسکے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تو عزم نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہا لیکن لیزا فوراً اپنا ہاتھ واپس کھینچ گئی۔عزم کے اشارہ کرنے پر ملازمہ نے ایک کالی چادر لیزا کو اوڑھا دی۔

            "چلو۔۔۔"

            عزم نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور اپنی گاڑی میں لے آیا۔رات کے سائے آسمان پر لہرا رہے تھے اور لیزا بس خاموشی سے اسکے ساتھ کار میں بیٹھی تھی۔

            منزل پر پہنچ کر کار رکنے پر لیزا عزم سے پہلے ہی گاڑی سے نکلی اور اس جگہ کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔یہ وہی میلا تھا جہاں وہ کل آئی تھی لیکن کل کے ہجوم کے برعکس آج میلے پر دکانداروں کے علاؤہ کوئی بھی نہیں تھا۔

            "تم آزادی سے یہ میلا گھومنا چاہتی تھی ناں بغیر کسی کی روک ٹوک کے لو میری ملکہ یہ سب تمہاری ملکیت ہے جو دل میں آئے کرو تمہیں کوئی منع نہیں کرے گا۔۔۔۔"

            عزم نے اپنی بات کہہ کر غلام کو اشارہ کیا تو اس نے عزم کی بات انگلش میں دہرا دی۔

            "آج اس جگہ پر بس میری ولایتی چوزی کا راج ہے یہ سب تمہارا ہے۔۔۔۔۔"

            غلام کے یہ بات بتانے پر لیزا نے ایک نظر اس میلے کو دیکھا اور پھر خاموشی سے چلنے لگی۔عزم بھی اپنی کمر پر ہاتھ باندھتا اسکی پیش قدمی میں چلنے لگا۔ہر سٹال پر موجود دکاندار انہیں حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے التجا کر رہا ہو ایک بار گاؤں کے چوہدری چوہدراین اسکی دکان پر آ جائیں۔

            آخر کار لیزا آسمانی جھولے کے پاس رکی اور کچھ سوچ کر اسکی ایک ڈولی میں بیٹھ گئی۔اسکی پسند عزم کو اسکے لیے پسند نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی وہ اسکے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور تیکھی نظروں سے جھولے کے مالک کو دیکھا۔

            "آہستہ چلانا میری بیوی کے چہرے پر خوف کی ایک بھی شکن تمہارے لیے اچھی ثابت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔"

            عزم کے حکم پر جھولے والے نے گھبراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور جھولا شروع کر دیا۔لیزا بس خاموشی سے بیٹھی جھولے سے نظر آنے والے منظر کو دیکھ رہی تھی اور عزم اسے۔

            تیسرے چوتھے چکر کے بعد جب انکی ڈولی سب سے اوپر پہنچی تو جھولا اچانک ہی رک گیا اور پورے میلے کی لائٹ چلی گئی۔لیزا نے گھبرا کر عزم کی جانب دیکھا۔

            "گھبراؤ مت کوئی مسلہ ہو گیا ہو گا ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔"

            عزم نے نیچے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

            "ویسے چوزی ناراضگی کی پکی ہو تم کافی شائید اپنے پیروں میں گرا کر ہی مانو گی۔کیسی بات ہے ناں تم چھوٹی چھوٹی سی لڑکیاں ایک ہٹے کٹے مرد کو اپنے پیروں میں جھکانے کی طاقت رکھتی ہو اور ہم مرد خود کو طاقت ور سمجھتے ہیں۔۔۔۔"

            عزم نے ہلکے سے ہنستے ہوئے کہا لیکن لیزا تو ایسے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی جیسے وہاں تنہا ہو۔عزم نے گہرا سانس لے کر آنکھیں موند لیں اور ڈولی کو ہلکا ہلکا سا جھلانے لگا۔

            "رب دا ہی تب کوئی ہونا
            کر کوئی او جادو ٹونا
            من جائے من جائے ہائے میرا سوہنا
            رب دے سہارے چل دے
            نہ ہے کنارے چل دے
            کوئی ہے ناں کہارے چل دے
            کیا کہہ کے گیا تھا شاعر وہ سیانا
            آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا
            تو صبر تو کر میرے یار
            زرا سانس تو لے دلدار
            چل فکر نوں گولی مار یار
            ہیں دن جندڑی دے چار
            ہولے ہولے ہو جائے گا پیار چلیا
            ہولے ہولے ہو جائے گا پیار"

            عزم نے اس دشمن جان کو دیکھتے ہوئے گایا اور اسکے گانا ختم کرتے ہی میلے کی لائٹ آ گئی۔لیزا نے اس روشنی کی جانب دیکھا تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

            اتنی اونچائی سے اسکی نظر پورے میلے پر جا رہی تھی اور جیسے دکانوں کو سیٹ کیا گیا تھا سب کی لائٹیں مل کر ایک بڑا سا sorry لکھ رہی تھیں۔لیزا نے حیرت سے عزم کو دیکھا تو عزم نے بھی اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے۔

            "سوری۔۔۔۔"

            عزم کے منہ سے وہ الفاظ اور اسکی اس کاوش کو دیکھ کر لیزا کو دل کیا کہ اپنا سارا غصہ بھول جائے لیکن نہیں وہ اس شخص کو احساس دلانا چاہتی تھی کہ وہ کوئی غلام نہیں جس پہ جب دل کیا ہاتھ اٹھا لیا وہ اسکی بیوی تھی۔اس سے دی جانے والی عزت کی حقدار تھی وہ۔

            لیزا نے اپنا منہ پھیر لیا تو عزم نے گہرا سانس لے کر جھولے والے کو اشارہ کیا تو جھولا چلنے لگا اور اس نے ان دونوں کو نیچے اتار دیا۔

            نیچے اترتے ہی لیزا جیولری کی دکان پر گئی جبکہ عزم ابھی بھی اسکے پیچھے تھا۔لیزا نے ایک پینڈنٹ ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور اسے واپس رکھ کر مرنے لگی تو دکان پر بیٹھی عورت نے اسے ایک کاغذ دیا۔

            لیزا نے حیرت سے اس کاغذ کو کھول کر دیکھا تو اوپر سوری لفظ لکھا دیکھ کر اسکا دل بہت زور سے دھڑکا۔

            وہ پھر بھی ہر چیز کو نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی تو اسکی نظر ایک آدمی پر پڑی جو ہاتھ پر طوطا بیٹھائے وہاں بیٹھا تھا۔لیزا اسکے پاس گئی اور نرمی سے اس طوطے کو چھوا۔

            "سوری میری چوزی۔۔۔۔سوری۔۔۔سوری۔۔۔۔"

            طوطے کے بولنے پر لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس نے غصے سے طوطے کے مالک کو گھورا جو گھبرا کر عزم کی جانب دیکھ رہا تھا۔لیزا کے غصے سے وہاں سے جانے پر عزم مسکرا کر اسکے پیچھے آیا تو اسکی نظر لیزا پر پڑی جو ایک دکان کے باہر کھڑی حسرت بھری نظروں سے اس دکان میں جھانک رہی تھی۔

            عزم نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو نظر ایک بڑے سے ٹیڈی بیئر پر پڑی۔

            "کتنے کا ہے یہ؟"

            عزم نے دکاندار سے پوچھا۔

            "یہ بیچنے کے لیے نہیں ہے چوہدری جی آپکو صحیح نشانہ لگا کر انعام میں جیتنا ہو گا۔۔۔"

            دکاندار کی بات پر عزم کے ماتھے پر بل آئے اور اس نے جیب سے پیسے نکال کر دکاندار کو دیے ۔دکاندار کے ایک تیر پکڑانے پر عزم نے اپنے سامنے موجود بیس تیس غباروں کو دیکھا اور پھر ایک غبارے کا نشانہ لے کر تیر پھینکا۔

            لیکن وہاں سے چاکلیٹ انعام میں نکلتا دیکھ عزم کے ماتھے پر بل آئے۔وہ ہر بار کوشش کرتا رہا اور تقریباً پندرویں کوشش کے بعد ایک غبارے کے پیچھے سے ٹیڈی نکلا تو دکاندار نے شکر کا سانس لے کر ٹیڈی عزم کو پکڑا دیا۔

            عزم نے ٹیڈی لیزا کی جانب بڑھایا جو حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔لیزا نے جیسے ہی
            خود سے آدھے ٹیڈی کو باہوں میں لیا تو ٹیڈی میں سے سوری کی آواز لیزا کے کانوں میں گونجی۔

            اس سب کو عزم کی خود کو منانے کی سازش سمجھتے ہوئے لیزا کے ماتھے پر بل آئے لیکن پھر ایک مسکراہٹ خود بخود ہونٹوں پر آئی جسے چھپانے کے لیے اس نے اپنا چہرہ ٹیڈی کی نرم گردن میں چھپا لیا۔

            "اٹس اوکے۔۔۔۔"

            لیزا کی ہلکی سی سرگوشی پر عزم کو ایسا لگا اسے پورا جہان مل گیا ہو۔عزم نے دو انگلیاں ہونٹوں میں رکھ کر سی ٹی بجائی تو لیزا نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا۔

            "او مبارک میرے بھائیو محنت کامیاب ہو گئی مان گئی تم سب کی چوہدراین۔۔۔۔"

            عزم کی بات پر وہاں موجود ہر آدمی تالیاں بجانے لگا اور لیزا یہاں وہاں حیرت سے دیکھتی عزم کو دیکھنے لگی۔

            "تم نے یہ سب صرف مجھے منانے کے لیے کیا؟"

            لیزا نے حیرت کی انتہا سے پوچھا۔اسے آج تک اپنا آپ اس قدر خاص نہیں لگا تھا۔

            "اوئے غلامے آ جا اب یہاں تیری بھابھی پھر سے شروع ہو گئی یہ نگوڑی انگریزی۔۔۔۔"

            عزم کے بلانے پر غلام فوراً وہاں آیا اور لیزا سے پوچھنے لگا کہ اس نے عزم کو کیا کہا۔لیزا کے سوال دہرانے پر غلام نے مسکراتے ہوئے عزم کو اسکا سوال بتایا لیکن عزم اسے سوال کا جواب دینے کی بجائے اسکے پاس آیا اور نرمی سے اسکا گال سہلایا۔

            "یہ تو کچھ بھی نہیں تمہاری ناراضگی ختم کرنے کے لیے تو زمین آسمان ایک کر دے یہ چوہدری ۔۔۔۔"

            غلام کے یہ بات انگلش میں دہرانے پر لیزا کے رخسار گلابی ہو گئے اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ عزم کو کیا جواب دے۔

            "مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔"

            لیزا نے منہ بنا کر کہا تو عزم کے ساتھ ساتھ غلام نے بھی سکھ کا سانس لیا کیونکہ وہ پاگل لڑکی نے غصے میں کل رات سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اسکے بھوکے ہونے کی وجہ سے عزم نے بھی کھانا خود پر حرام کر رکھا تھا۔

            "تو ٹھیک ہے آؤ چوزی تمہیں بتاؤں کھانا کسے کہتے ہیں۔۔۔۔"

            عزم نے لیزا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اس سٹال پر لے آیا جہاں ایک آدمی تکے اور سیخ کباب تیار کر رہا تھا۔

            کباب اور تکے سامنے آنے پر بھوک کی وجہ سے لیزا کے منہ میں پانی آنے لگا۔وہ جلدی سے ایک بوٹی پکڑ کر اپنے ہونٹوں تک لے گئی لیکن پھر ایک خیال کے تحت اسکا ہاتھ ہونٹوں کے پاس ہی رک گیا۔

            اس نے ایک نظر عزم کو دیکھا اور پھر وہ بوٹی عزم کے ہونٹوں کے سامنے کر دی۔عزم نے مسکراتے ہوئے اس بوٹی کو منہ میں لیا اور سیخ کباب کا ٹکڑا توڑ کر لیزا کو کھلا دیا۔

            "یییییییممممممییییی۔۔۔۔۔"

            مزےدار ذائقہ پر لیزا نے آنکھیں موند کر کہا تو عزم کی آنکھوں میں حرارت اتری۔

            "یمی یہ نہیں میری چوزی تم ہو بس گھر جا کر ایک بار پھر سے ان گلابی لبوں کا جام چکھنے دو گی تو عنایت ہو گی تمہاری۔۔۔۔"

            عزم شدت سے کہتے ہوئے اسے کھانا کھلا رہا تھا اور لیزا اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا کھلا رہی تھی۔ضد اور جنون کی راہ پر چلنے والے آج عشق کی معراج پر پہنچے تھے لیکن دونوں ہی اس بات سے انجان تھے کہ ایک دوسرے کے لیے وہ جینے کی وجہ بنتے جا رہے تھے۔



            #زندگی_اے_تیرے_نال

            #قسط_نمبر_27



            فرحین بیگم کی طبیعت اب بہت زیادہ سنبھل چکی تھی ابھی کل ہی وہ ہسپتال سے واپس آئی تھیں اور بہت زیادہ خوش رہنے لگی تھیں۔ابھی بھی رات کے کھانے کے بعد انہوں نے سب کو ہال میں ہی روک لیا تھا۔

            "کیا بات ہے فرحین کوئی خاص بات ہے جو تم نے سب کو یہاں روکا ہے؟"

            اماں بی کے پوچھنے پر فرحین بیگم نے خوشی سے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا۔

            "بہت زیادہ خاص بات ہے اماں بی پہلے سوچا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد آپکو بتاؤں گی لیکن مجھ سے انتظار ہی نہیں ہو رہا اور اب تو آن اور عرشمان بھی واپس آ گئے ہیں تو سوچا کیوں نہ اس خوشی کو آپ سب سے بانٹ ہی لوں۔"

            فرحین بیگم نے خوشی سے چہکتے ہوئے انابیہ کو دیکھا جو شرمائی شرمائی سی سب کے درمیان بیٹھی تھی۔

            "پھر بتا بھی چکو فرحین۔"

            اماں بی نے مسکرا کر کہا۔

            "میں نے سلطان اور انابیہ کی شادی اگلے مہینے کرنے کا فیصلہ کر لیا اور سلطان کو بھی اس بات سے کوئی اعتراض نہیں۔"

            فرحین بیگم نے جتلاتی نظروں سے اماں بی کو دیکھتے ہوئے بتایا جبکہ اماں بی تو حیرت سے سلطان کو دیکھ رہی تھیں جو سر جھکائے وہاں بیٹھا تھا۔

            "کیا سچ میں سلطان ؟"

            اماں بی کے سوال پر سلطان کرب سے اپنی آنکھیں میچتا اثبات میں سر ہلا گیا۔اماں بی نے اسکے جواب پر گہرا سانس کے کر فرحین بیگم کو دیکھا۔

            "مبارک ہو فرحین اللہ بچوں کو خوشیاں مبارک کرے۔۔۔۔"

            فرحین بیگم کے ہونٹوں پر فاتح مسکان آئی اور انہوں نے عرشمان کو دیکھا۔

            "عرشمان بیٹا تم نے سب انتظامات بہترین طریقے سے کرنے ہیں میں چاہتی ہوں سلطان اور انابیہ کی شادی اس گاؤں کی سب سے یادگار شادی ہو۔"

            "ایسا ہی ہو گا امی۔"

            عرشمان کا جواب انکی خوشی بڑھا گیا۔

            "مجھے نیند آئی ہے میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔"

            سلطان نے اٹھتے ہوئے کہا اور ہر کسی کو نظر انداز کرتا وہاں سے چلا گیا۔کمرے میں آ کر اسکے اسکی چاہے، بے بسی سب اس پر حاوی ہو گئے۔

            اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی یہ سب صرف اور صرف اپنا قصور لگ رہا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ خود کی جان لے لے۔سلطان نے غصے سے کرسی کو ٹانگ مار کر فرش پر پٹخ دیا اور اپنے بال نوچتے ہوئے کمرے کے چکر کانٹے لگا۔

            "سائیں جی۔۔۔۔"

            کنیز کی گھبرائی سی آواز پر سلطان کا دھیان اسکی جانب گیا جو کمرے کے دروازے میں کھڑی گھبرائی سی اسے دیکھ رہی تھی۔

            "ممم۔۔۔۔میں نے کچھ گرنے کی آواز سنی تو یہاں آ گئی سب ٹھیک تو ہے سائیں جی۔۔۔۔"

            کنیز نے سہم کر پوچھا اور اسکی موجودگی پر سلطان کی ہمت جواب دے گئی۔وہ اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں کھینچتے ہوئے دروازہ بند کر دیا۔

            اس سے پہلے کہ کنیز کچھ سمجھتی سلطان اسے اپنے سینے میں بھینچ کر اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا چکا تھا۔

            "سس۔۔۔سائیں۔۔۔۔"

            کنیز نے گھبرا کر اسے پکارا لیکن جب اپنی گردن پر سلطا کے آنسو محسوس ہوئے تو گھبراہٹ فکر مندی میں بدل گئی۔

            "کیا ہوا سائیں آپ رو کیوں رہے ہیں؟"

            کنیز نے پریشانی سے اسکے مظبوط کندھوں کو تھامتے ہوئے پوچھا جبکہ اسکو اپنے قریب محسوس کر سلطان آنسؤں کو روانی سے بہنے کی اجازت دے چکا تھا۔

            "آآآ۔۔۔۔آپ کو کسی نے کچھ کہا کیا؟آپ مجھ سے ناراض ہیں کیا؟"

            کنیز نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔پہلے ہی جب اسے وہ دونوں یہاں آئے تھے سلطان کا اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنا کنیز کو بہت پریشان کر رہا تھا اور اب یہ سب۔وہ پکا کنیز سے ناراض تھا۔

            یہ خیال آتے ہی کنیز خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔سلطان نے اپنا چہرہ اسکی گردن سے نکال کر اسے بہت محبت اور حسرت سے دیکھا۔

            "آپ آپ مت روں سائیں جی مم۔۔۔۔مجھ سے آپکا رونا نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔آپ جو کہیں گے میں کروں گی بس آپ مت روں۔۔۔۔"

            کنیز کے یہ الفاظ سلطان کا پچھتاوا اور اسکی خود سے نفرت مزید بڑھا گئے۔

            "مجھے معاف کر دینا نوری۔۔"

            کنیز نے حیرت سے سلطان کو دیکھا۔

            "آپ معافی کیوں مانگ رہے ہیں سائیں جی آپ نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔"

            اسکی معصومیت پر سلطان ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔اگر تو اپنی ماں کا دل دکھانے پر خدا اسے بخشنے والا نہیں تھا تو اتنا معصوم دل توڑ کر بھی اسکی بخشش کبھی نہیں ہونے والی تھی۔

            "میں اسکے لیے معافی نہیں مانگ رہا جو میں نے کیا ہے بلکہ اس کے لیے معافی مانگ رہا ہوں جو میں کرنے جا رہا ہوں۔"

            "کیا کرنے جا رہے ہیں آپ ؟"

            کنیز نے حیرت سے پوچھا تو سلطان اپنی آنکھیں موند گیا۔

            تمہاری محبت،تمہارا حق کسی اور کو دینے جا رہا ہوں۔
            ایک وہی ہو گی جسے سلطان ملک کے نام سے دنیا جانے گی
            لیکن چاہ کر بھی تمہیں اپنا نام اپنی پہچان نہیں دے سکوں گا
            میں تم پر ظلم کی انتہا کرنے جا رہا ہوں نوری۔

            سلطان چاہ کر بھی یہ الفاظ زبان پر نہیں لا پایا۔وہ ابھی اتنی جلدی اپنی نوری کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔

            "بس مجھے معاف کر دینا اور ہو سکے تو مجھ سے اتنی نفرت مت کرنا کہ میرا چہرہ بھی دیکھنا گوارا مت کرو۔"

            سلطان کی بات پر کنیز کے آنسو اسکی آنکھوں میں ہی اٹک گئے اور اس نے منہ پھلا کر سلطان کو دیکھا۔

            "کنیز مر تو سکتی ہے لیکن آپ سے نفرت نہیں کر سکتی سائیں۔"

            اسکی بے لوث محبت پر سلطان نے اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا۔

            "لیکن یہ کنیز اپنے سلطان سے نفرت کرے گی۔سلطان اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دے گا۔"

            اس سے پہلے کہ کنیز اس سے کچھ پوچھتی سلطان اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔سلطان کی اس بے خودی پر کنیز خود میں ہی سمٹ گئی اور کانپتے ہاتھ میں اسکا کالر جکڑا۔

            "سائیں۔۔۔۔"

            سلطان کے دور ہونے پر کنیز نے اسے سہم کر پکارا۔

            "آج رات مجھ سے دور مت جاؤ کنیز میری زندگی کے یہ آخری پل مجھے سکون کے دے دو کیونکہ پھر باقی کی ساری زندگی مجھے بے سکونی میں گزارنی ہے۔"

            سلطان نے اسے بیڈ پر لیٹا کر اس پہ جھکتے ہوئے کہا تو کنیز خود سپردگی کے عالم میں اپنی آنکھیں میچ گئی۔وہ بھلا اپنے سلطان کو انکار کر سکتی تھی۔کاش وہ جانتی کہ سلطان کی یہ محبت اور قرب کتنا عارضی تھا بہت جلد وہ اسے ایک ایسا گھاؤ دینے والا تھا جو کبھی بھی نہیں بھر سکتا۔
            ????
            آن کمرے میں واپس آئی تو عرشمان پہلے سے بیڈ پر بیٹھا کچھ پیپرز دیکھ رہا تھا۔آن نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کپڑے پکڑے اور واش روم میں بند ہو گئی۔

            تین دن ہو گئے تھے ان دونوں کو واپس پہنچے لیکن ان تین دنوں میں نہ تو ان دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات کی تھی اور نہ ہی ایک دوسرے کو مخاطب کرتے تھے۔

            آن ابھی تک اسکا ہر ستم برداشت کرتی آئی تھی لیکن اپنا تن من اس پر نچھاور کرنے کے بعد بھی عرشمان کا وہ رویہ اسے مکمل طور پر توڑ چکا تھا۔

            تھک گئی تھی وہ اسکے سامنے جھک جھک کر اب تو اسکا ضمیر بھی اسے ملامت کرنے لگا تھا اسی لیے آن نے عرشمان کو اسکے حال پر چھوڑ دیا تھا اور اب وہ بس گھر والوں کے سامنے اس رشتے کو نبھا رہی تھی لیکن کہیں نہ کہیں ایک امید ابھی بھی باقی تھی کہ عرشمان کبھی نہ کبھی پھر سے پہلے جیسا ہو جائے گا۔

            نہا کر وہ کمرے میں واپس آئی اور آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال سنوارنے لگیں جب اس کے کانوں میں عرشمان کی آواز پڑی۔

            "آن ۔۔۔"

            آن نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا۔

            "یہاں آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔"

            آن کا دل بے ساختہ طور پر بہت زور سے دھڑکا وہ برس واپس ڈریسنگ پر رکھ کر عرشمان کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔عرشمان نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات اسکے سامنے کیے۔

            "یہ کیا ہے ؟"

            آن نے پیپرز ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا۔

            "تمہارے جاب آرڈرز ہیں میں نے تمہارے لیے لاہور کے ایک ہاسپٹل میں اپنائے کیا تھا تمہیں وہاں جاب مل گئی ہے۔۔۔۔"

            عرشمان کی بات پر آن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

            "لیکن۔۔۔۔"

            "وہاں اچھی سیلری کے ساتھ ساتھ تمہیں ہاسٹل میں رہائش بھی مل جائے گی اپنی پیکنگ ہر لینا تم کل ہی یہاں سے جا رہی ہو۔"

            عرشمان کی بات پر آن کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

            "لیکن کیوں آپ نے تو میرے لیے گاؤں میں ہی ہاسپٹل بنایا تھا ناں تا کہ مجھے جاب کے لیے شہر نہ جانا پڑے."آپ سے دور نہ جانا پڑے۔

            آخری بات آن اپنے دل میں کہہ پائی تھی۔

            "ہاں لیکن اب میں ہی یہ چاہتا ہوں کہ تم لاہور چلی جاؤ۔"

            "لیکن کیوں؟"

            آن نے اب کی بار غصے سے پوچھا تو عرشمان نے اسے گھورا۔

            "تمہاری آواز اس کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیے اور یہ میرا فیصلہ ہے جیسا کہا ہے چپ چاپ ویسا کرو۔"

            عرشمان کا لہجہ بہت زیادہ حکمیہ تھا۔

            "نہیں مان انف از انف میں آپکی بیوی ہوں غلام نہیں جسے جتنا چاہیں ذلیل کر لیں۔مانا مجھے معاف کرنا یا نہ کرنا آپ کا حق ہے مت کریں معاف لیکن اب اپنی ذات کی مزید تذلیل آپکے ہاتھوں برداشت نہیں کرنے والی میں۔"

            عرشمان نے آنکھیں چھوٹی کر کے آن کو دیکھا۔

            "میں ڈاکٹر بنی تھی تا کہ اپنے گاؤں کے لوگوں کے کام آ سکوں ۔میں یہاں سے کہیں نہیں جا رہی۔"

            آن نے حتمی فیصلہ سنایا اور اٹھ کھڑی ہوئی لیکن عرشمان نے سختی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس اپنے پاس بیٹھایا۔

            "تم نے سنا نہیں آن کہ میں نے کیا کہا۔تم کل ہی لاہور جا رہی ہو اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔"

            آن نے فوراً اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑوایا۔

            "آپ کچھ بھی کر لیں میں یہاں سے نہیں جانے والی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔"

            اتنا کہہ کر آن اٹھ کر وہاں سے جانے لگی۔

            "سوچ لو اگر تم یہاں سے نہیں گئی تو۔۔۔۔"

            "تو؟"

            عرشمان کے خاموش ہو جانے پر آن نے مڑ کر اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا۔عرشمان کچھ پل کے لیے خاموش رہا پھر آنکھیں موند کر بولا۔

            "تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔"

            ساتوں آسمان ایک ساتھ آن پر گرے وہ حیرت سے پھٹی آنکھوں سے عرشمان کو دیکھ رہی تھی جبکہ آنسو خود بخود بہہ کر گال پر آ گئے۔وہ ایک بت بنی عرشمان کو دیکھتی جا رہی تھی۔

            "کیا یہ تھی آپ کی محبت؟یہ تھی وہ چاہت جسکا خواب آپ نے بچپن سے میری آنکھوں میں سنجویا تھا؟"

            آن کے سوال پر عرشمان اپنے جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔

            "بولیں عرشمان ملک یہ تھی وہ وفا جسکی قسمیں آپ نے کھائیں تھیں؟کیا یہ تھا وہ عشق جو میری ایک خطا معاف نہیں کر سکا۔"

            آن کے انسو اب روانی سے بہنے لگے جبکہ عرشمان بس سر جھکائے وہاں بیٹھا تھا۔

            "اگر مجھ سے اتنا ہی اکتا گئے ہیں تو دعا کریں کہ میں مر جاؤں اور اگر دعا نہیں کر سکتے تو اپنے ہاتھوں سے زہر دے کر مار دیں مجھے۔۔۔۔"

            آن نے روتے ہوئے کہا۔اسکا دل عرشمان کے وہ ساتھ الفاظ مکمل طور پر توڑ چکے تھے۔

            "ویسے بھی میری مرنے کے بعد اس جسم کی تدفین ہی کریں گے آپ کیونکہ آپ کے یہ الفاظ مجھے ویسے ہی مار چکے ہیں۔"

            اتنا کہہ کر آن روتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی اور عرشمان چاہ کر بھی اسے نہیں روک پایا۔اس نے پوری طاقت سے اپنا ہاتھ بیڈ کے ساتھ پڑی میز پر مارا لیکن اس نے وہی کیا جو ضروری تھا۔
            ????
            "روپ عزم کہاں ہے؟"

            لیزا کی بے چینی پر روپ کھل کر مسکرا دی۔سچ تو یہ تھا کہ لیزا نے صبح سے عزم کو نہیں دیکھا تھا اور اب وہ اسے بس ایک جھلک دیکھنے کے لیے بہت بے چین ہو رہی تھی۔

            "آج انکے بابا کا سالانہ ختم تھا تو سارا دن وہیں مصروف تھے ابھی تو نہ جانے کہاں ہیں وہ؟"

            روپ کی بات پر لیزا نے گہرا سانس لیا۔وہ بھی یہ بات جانتی تھی کہ آج کچھ خاص تھا کیونکہ صبح سے ہی بہت سے لوگ انکے گھر میں قرآن پڑھنے آئے تھے۔

            لیزا عزم سے بات کرنا چاہتی تھی اسے ایک بار دیکھنا چاہتی تھی۔آج سارا دن اسے نہ دیکھ کر لیزا کو کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

            "آؤ میرے ساتھ غلام سے پوچھتے ہیں اسے ضرور پتہ ہو گا ۔۔۔۔"

            لیزا کے حکم دینے پر روپ اسکے پیچھے آئی۔کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد انہیں غلام عزم کے کمرے کے باہر کھڑا نظر آیا تو لیزا مسکرا کر اسکے پاس آئی۔

            "عزم کہاں ہے؟"

            لیزا کے سوال کے جواب پر غلام نے پریشانی سے ساتھ موجود کمرے کے بند دروازے کو دیکھا۔

            "وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتے ہیں۔۔۔۔"

            لیزا کے ماتھے پر بے ساختہ طور پر بل آ گئے۔

            "تم جا کر اس سے کہو کہ مجھے اس سے ملنا ہے۔۔۔۔"

            لیزا کی فرمائش پر غلام مزید پریشان ہوا۔

            "آج انکے ماں بابا کی برسی ہے چوہدراین جی وہ یہ دن اکثر ہی تنہا گزارتے ہیں آپ انہیں مجبور مت کریں۔"

            غلام نے سر جھکا کر کہا تو لیزا نے بے بسی سے روپ کو دیکھا۔لیزا کے اضطراب کو سمجھتی روپ غلام کے زرا قریب ہوئی۔

            "انہیں جانے دیں چوہدری جی کے پاس۔وہ بیوی ہیں انکی اگر اس وقت انکے غم میں کوئی شریک ہو کر انہیں دلاسہ دے سکتا ہے تو صرف چوہدراین جی۔"

            روپ کے اردو میں کہنے پر غلام نے کچھ دیر اسکی بات پر غور کیا اور پھر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے دروازے کے سامنے سے ہٹ گیا۔لیزا نے مسکرا کر روپ کو دیکھا اور کمرے میں داخل ہو گئی۔

            کمرے میں اندھیرا دیکھ کر لیزا کے ماتھے پر شکن آئی لیکن زرا سا آگے ہونے پر اسکی نظر عزم پر پڑی جو فرش پر بیٹھا کھڑکی سے آنے والی تھوڑی سی روشنی میں ایک تصویر کو دیکھ رہا تھا۔لیزا کے قدم خود بخود اسکی جانب اٹھے اور وہ اسکے پاس جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔

            لیزا کو محسوس ہوا کہ عزم رو رہا ہے تو وہ فوراً پریشان ہو گئی اور اپنا ہاتھ عزم کے کندھے پر رکھا۔

            "کیا ہوا؟"

            لیزا کی پکار پر عزم نے آنسؤں سے تر لال آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ہلکی سی روشنی میں وہ آنسو لیزا کے دل پر گرے تھے۔

            "کیوں آئی ہو تم یہاں؟اکیلا رہنا چاہتا ہوں میں اس وقت۔۔۔۔"

            عزم نے سنجیدگی سے کہا اور پھر سے تصویر کو دیکھنے لگا۔لیزا جو اسکی بات سمجھی نہیں تھی اب کی بار اسکا ہاتھ تھام گئی۔

            "گو۔۔۔۔الون۔۔۔"

            عزم نے اسے سمجھانا چاہا لیکن لیزا اسکا حکم سمجھ کر بھی اپنی جگہ سے نہیں اٹھی۔

            "جانتی ہوں میں تمہیں سمجھ نہیں پاؤں گی لیکن اپنا غم بتانے سے کم ہوتا ہے اور پھر میرے نہ سمجھنے کا فایدہ بھی تو ہے ناں۔سمجھوں گی ہی نہیں تو کسی اور کو بتاؤں گی کیسے ۔۔۔۔ "

            لیزا نے اسکے ہاتھ پر دباؤ بڑھایا۔

            "ٹیل می۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔جسٹ ٹاک ٹو می۔۔۔۔"

            لیزا نے بے چینی سے کہا وہ بس کیسے بھی اسکا غم کم کرنا چاہتی تھی اسکو سمجھنا چاہتی تھی۔عزم نے نم آنکھوں سے اپنے ہاتھ میں موجود تصویر کو دیکھا پھر ایک انگلی تصویر میں نظر آتے آدمی پر رکھی۔

            "یہ میرے بابا تھے سردار یوسف چوہدری۔اس گاؤں کے اب تک کے سب سے اچھے سردار۔لوگوں کا دل جیتنے والے اور ان سے محبت کرنے والے۔۔۔۔۔"

            عزم نے اپنے بابا سے انگلی ہٹا کر ساتھ موجود عورت پر رکھی۔

            "اور یہ میری ماں تھیں ثمن چوہدری۔ میرے بابا کو جان سے زیادہ چاہنے والیں ایک وفادار بیوی اور رحم دل سردارنی۔۔۔۔"

            اپنی ماں کی جانب دیکھتے ہوئے عزم کی آنکھوں میں محبتوں کا جہان تھا۔

            "جانتی ہو میرے ماں بابا نے مجھے اتنا پیار دیا جتنا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔جان سے زیادہ چاہتے تھے وہ مجھے میری ہر خواہش پوری کرتے،محبتوں بھرے ایک جہان میں پالا تھا انہوں نے مجھے۔۔۔۔"

            عزم کے ہونٹوں کو ہلکی سی مسکان نے چھوا۔

            "بابا کو بہت شوق تھا کہ میں پڑھوں لکھوں اور مجھے ذہر لگتی تھی پڑھائی۔۔۔ دس بار میں آٹھویں میں سے فیل ہوا آخر کار وہ ماننے پر آ گئے کہ دنیا یہاں کی وہاں ہو سکتی ہے مگر انکا بیٹا پاس نہیں ہو سکتا۔"

            عزم نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے لیزا کو دیکھا جو اسے ایسے سن رہی تھی جیسے اسکا کہا ایک ایک لفظ سمجھ رہی ہو۔

            "اور میری امی ہمیشہ میرا ساتھ دیتی تھیں میرے فیل ہونے پر مجھے کمرے میں چھپا دیتیں اور بابا کا غصہ ٹھنڈا کر کے انہیں میرے پاس لاتیں ۔۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم ہلکا سا ہنسا جبکہ دو آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔

            "بہت خوشیاں تھیں میری اس سنسان حویلی میں غزل بہت چہچہاہٹ تھی۔۔۔"

            عزم کی آنکھوں میں بے پناہ کرب تھا اور اس کرب کو محسوس کر لیزا کی پلکیں بھی نم ہو گئیں۔

            "پھر ایک دن سب خوشیوں کو نظر لگ گئی۔میرے ماں باپ،میری زندگی کی ہر خوشی مجھ سے چھین گئی۔"

            عزم نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں۔

            "جانتی ہو میرے بابا کو جان سے زیادہ چاہنے والی میری ماں نے خود پر پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگا لی۔۔۔۔"

            یہ بات کہتے ہوئے بہت سے آنسو عزم کی آنکھوں سے بہے اور ان آنسوؤں نے شہد رنگ کی آنکھوں کو بھی نم ہونے پر مجبور کیا۔

            "اور پھر میرے ماموں میرے بابا کو ہی میری ماں کا قاتل سمجھ کر انکی جان لینے چلے آئے ۔۔۔۔"

            عزم اس وقت مکمل طور پر ایک بکھرا ہوا شخص معلوم ہو رہا تھا۔

            "میرے بابا اور میرے ماموں جن کی دوستی کی یہ گاؤں مثالیں دیتا تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کی جان لے لی۔۔۔۔"

            عزم نے نظریں اٹھا کر لیزا کی جناب دیکھا۔

            "اور ظلم کی انتہا تو دیکھو اس عرشمان نے مجھے میرے باپ جیسا گھٹیا کہہ کر مجھ سے سب چھین لیا۔میرا ہر بچا کچا رشتہ اپنی حصے میں رکھ گیا وہ۔۔۔۔۔"

            کتنے ہر آنسو عزم کے گال سے بہہ کر زمین بوس ہو گئے۔

            "کسی کو میری تنہائی کا احساس نہیں آیا غزل کسی نے مجھ سے نفرت کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ میرا کوئی گناہ نہیں،اگر گناہ تھا تو صرف اتنا کہ میں یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ میرے بابا نے میری ماں اور ماموں کو مارا۔۔۔۔میں آج بھی نہیں مناتا یہ۔۔۔۔"

            عزم نے بے بسی سے سر جھکا کر کہا۔

            "تھک چکا ہوں تنہائی کے کرب سے۔اس احساس سے کہ میری ضرورت کسی کو نہیں،مجھ سے کسی کو محبت نہیں۔۔۔۔"

            عزم نے نم پلکیں اٹھا کر لیزا کو دیکھا جو اسکی باتوں کو سمجھے بغیر بھی نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

            "بس اتنا چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے بھی چاہے،میں کسی کی محبت اسکا کل جہاں ہوں لیکن شائید میں اس قابل ہی نہیں۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم نے اپنا سر جھکا لیا اور خاموشی سے آنسو بہانے لگا۔لیزا اسکا درد،اسکی تکلیف کم کرنا چاہتی تھی لیکن کیسے عزم تو اسکی بات کو سمجھتا ہی نہ۔

            کچھ دیر سوچنے کے بعد لیزا نے لفظوں کی بجائے بس اپنے دل میں اٹھنے والے جزبات کا سہارا لینا بہتر سمجھا۔وہ عزم کے قریب ہوئی اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اونچا کیا۔

            اپنی انگلی کے پوروں سے عزم کے آنسو پونچھنے پر بعد وہ اسکے اور قریب ہوئی اور نرمی سے اپنے ہونٹ اسکی دونوں آنکھوں پر رکھے۔

            اسکے بعد اس نے نرمی سے اسکے دونوں گالوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوا اور پھر آہستہ سے اسکے ہونٹوں کے قریب آئی۔عزم کا یہ قرب اور اپنے ہونٹوں پر اسکی دہکتی سانسیں محسوس کر لیزا کانپ کر رہ گئی۔

            مگر پھر اس نے ہمت کرتے ہوئے اپنے ہونٹ نرمی سے اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے اور جلدی سے اس سے دور ہو گئی۔اپنی بے باکی پر لیزا کے رخسار دہک کر گلابی ہو گئے۔

            اس نے وہاں سے اٹھ کر جانا چاہا لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں تھا۔جس محبت سے اس نے عزم کے جزبات کو ہوا دی تھی اب وہ کیسے اسے جانے دیتا۔

            عزم نے اسکی کلائی پکڑ کر ہلکے سے جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ زمین پر بیٹھے عزم کی گود میں پکے آم کی مانند گر گئی۔

            عزم نے اپنا ہاتھ اسکے بالوں میں پھنسایا اور شدت سے اسکے لبوں کو اپنے ہونٹوں سے الجھا لیا۔لیزا اسکے اس قدر جنون پر کپکپا کر رہ گئی لیکن چاہ کر بھی وہ خود کو عزم سے دور نہیں کر پائی۔

            ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عزم کا وہ بڑھتا جنون لیزا کی سانسیں روک رہا تھا۔اس نے عزم سے دور ہونا چاہا تو عزم نے مزید سختی سے اسکی کمر کو دبوچ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔

            "عزم۔۔۔۔"

            عزم ایک پل کے لیے اسکے ہونٹوں سے ہٹا تو لیزا نے سہم کر اسے پکارا۔عزم نے پر تپش نگاہوں سے اسکے گلابی ہوئے چہرے اور کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھا جو اسکی گستاخی پر سرخ ہو رہے تھے۔

            عزم نے اسے وہیں کارپٹ پر لیٹایا اور اسکے مزاحمت کرتے ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں تھام کر اسکے سر پر لے گیا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسنے لیزا کے گلے میں موجود دوپٹہ اس سے جدا کیا۔

            "بے بی لِسن۔۔۔۔"

            لیزا نے اسے پیار سے بہلانا چاہا لیکن اس ہٹے کٹے آدمی کو بے خودی میں بے بی پکارنے پر لیزا اپنا ہونٹ دانتوں تلے دبا گئی۔عزم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسکی اس حرکت کو دیکھا اور پھر اپنے انگوٹھے سے اسکا ہونٹ دانتوں سے آزاد کر دیا۔

            "یہ نازک لب میرا ہے میری چوزی اس پر یہ ستم صرف میں ڈھال سکتا ہوں۔۔۔۔"

            اتنا کہہ کر عزم نے خود پہلے سے سرخ نچلے ہونٹ کو دانتوں میں لے کر دبایا۔لیزا کپکپاتے ہوئے اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔

            "اپنی چیزوں کو لے کر بہت حساس ہوں میں آج کے بعد میری ملکیت سے گستاخی سوچ سمجھ کر کرنا کیونکہ تمہارا یہ نازک ولایتی وجود میری محبت سہہ لے وہی بہت ہے سزا کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔"

            عزم نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر کیا اور آہستہ آہستہ اسکی شرٹ کی زپ کھولنے لگا۔

            "نو پلیز۔۔۔۔"

            لیزا نے اسے روکنا چاہا لیکن عزم اس وقت کچھ سننا نہیں چاہتا تھا وہ اپنی تنہائی اس سے بانٹنا چاہتا تھا اپنا ہر غم اس سے مٹانا چاہتا تھا۔

            لیزا اسکے ہونٹوں کی نرمی اور مونچھوں کی چبھن گردن پر محسوس کرتی کانپ کر رہ گئی۔اپنی آنکھیں زور سے میچتی وہ عزم کی ہر من مانی برداشت کرنے لگی۔

            اس سے پہلے کہ عزم بے خودی میں ہر دیوار گرا جاتا دروازے پر ہونے والی دستک پر دونوں ہوش میں آئے۔عزم کے دور ہوتے ہی لیزا اٹھ کر اس سے دور ہوئی اور حیا سے سرخ ہوتے چہرے سے اسے دیکھنے لگی۔

            عزم کا دل کیا کہ دروازا کھٹکھٹانے والے کو یہاں سے بھیج دے اور وہ نازک سا کپکپاتا وجود پھر سے اپنی آغوش میں بھر لے۔

            "کیا مسلہ ہے؟"

            عزم نے غصے سے پوچھا تو کچھ پل کے لیے دوسری جانب خاموشی چھائی رہی۔

            "عزم تمہارا لیے فون ہے۔۔۔۔اس کے باپ کا۔۔۔۔"

            غلام کی بات پر عزم نے گہرا سانس لیا۔وہ اس بات پر حیران بھی تھا کہ اتنے عرصے کے بعد شاہد ملک نے اس سے رابطہ کرنے کا کیونکر سوچا۔

            "آتا ہوں۔۔۔۔"

            عزم اتنا کہہ کر لیزا کے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے اسکی کمر اپنی جانب کی اور زپ بند کر دی۔

            "آج تمہارے باپ نے بچا لیا تمہیں چوزی لیکن آئندہ سے سوچ سمجھ کر میرے قریب آنا بہت مشکل ہو گا میرا جنون جھیلنا ۔۔"

            لیزا کو وارن کرتے عزم نے اسکا دوپٹہ اس پر اوڑھا دیا اور خود کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ اسکے جاتے ہی لیزا اپنے کمرے میں واپس آ گئی اور وہ پوری رات اس نے ان گزرے لمحوں پر شرماتے اور کپکپاتے ہوئے گزاری تھی۔




            Comment


            • #66
              #زندگی_اے_تیرے_نال

              #قسط_نمبر_28(پارٹ 1)



              لیزا اس وقت لان میں درخت کی چھاؤں میں موجود جھولے پر بیٹھی تھی جبکہ ذہن مکمل طور پر عزم کی جانب تھا۔وہ کل رات عزم کی باتیں تو سمجھ نہیں پائی تھی لیکن اتنا ضرور سمجھ گئی تھی کہ وہ تصویر میں موجود آدمی اور عورت کی وجہ سے دکھی تھا اور یہ بھی کہ وہ دونوں اسکے ماں باپ تھے۔

              اچانک ہی کسی نے اسکے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی تو لیزا خیالوں کی دنیا سے باہر آئی اور روپ کو اپنے سامنے دیکھ کر مسکرا دی۔

              "کس کی یادوں میں گم ہیں آپ؟"

              روپ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔

              "قسم سے چوہدراین جی ابھی تک آپ نے ایک لفظ اردو کا نہیں سیکھا مجھ سے آپکو اللہ کا واسطہ ہے تھوڑی سی اردو سیکھ لیں ورنہ چوہدری جی مجھے نوکری سے نکال دیں گے۔"

              روپ کی بات پر لیزا نے گہرا سانس لے کر رہ گئی۔

              "میری بات سنو روپ تم عزم کے ماں باپ کے بارے میں کیا جانتی ہو؟"

              اس سوال پر روپ کا ماتھا پر شکن ہوا۔

              "زیادہ تو نہیں جانتی کیونکہ میں اس گاؤں کی نہیں بس یہاں گورئمنٹ جاب لگ گئی تو یہاں آنا پڑا۔باقی لوگوں سے ہی اتنا سنا ہے کہ چوہدری جی کی ماں ملکوں کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں۔کافی خوش تھیں وہ چوہدری جی کے بابا کے ساتھ لیکن پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے خود پر تیل ڈال کر خود کو آگ لگا لی۔"

              روپ کی بات پر لیزا کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔

              "یعنی عزم عرشمان کا کزن ہے ؟"

              لیزا کے حیرت سے پوچھنے پر روپ نے اثبات میں سر ہلایا۔

              "پھر؟"

              لیزا نے دلچسپی سے پوچھا۔

              "عرشمان کے بابا نے عزم کے بابا کو اپنی بہن کا قاتل سمجھا اور انہیں مارنے چلے آئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی جان لے لی۔"

              لیزا نے سہم کر روپ کی طرف دیکھا۔

              "لیکن کیوں اس سب کی وجہ کیا ہوئی ؟"

              اس سوال پر روپ نے بے بسی سے انکار میں سر ہلایا۔

              "یہ میں نہیں جانتی لیکن کسی ایسے کو جانتی ہوں جو آپ کو ان سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔"

              روپ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

              "میں دو منٹ میں آئی۔"

              روپ نے کی ذات کو کچھ کہنے کا موقع بھی نہیں دیا اور وہاں سے چلی گئی۔کچھ دیر کے بعد وہ غلام کو لے کر وہاں پر آئی۔

              "آپ نے بلایا چوہدراین جی ؟"

              غلام نے ہاتھ باندھ کر عقیدت سے پوچھا۔لیزا نے اسے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

              "کیا تم مجھے کچھ بتاؤ گے غلام؟"

              غلام نے سوالیہ نظروں سے لیزا کی جانب دیکھا۔

              "عزم کے مام ڈیڈ کو کیا ہوا تھا ؟"

              لیزا کے سوال پر غلام بے چینی سے یہاں وہاں دیکھنے لگا۔

              "مجھے نہیں لگتا اس بات کا جواب دینے کے لیے میں سہی آدمی ہوں۔"

              غلام نے گہرا سانس لے کر کہا۔

              "پلیز غلام اگر تم چاہتے ہو کہ کہ میں عزم کا غم بانٹوں تو اسکے لیے مجھے اسکا غم جاننا ہو گا پلیز بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا۔"

              لیزا کی بات پر غلام گہری سوچ میں ڈوب گیا اور پھر اس نے ایک نگاہ روپ کو دیکھا جو نظروں سے ہی اس سے جواب دینے کی التجا کر رہی تھی۔

              "عزم کے بابا یوسف چوہدری اور عرشمان کے بابا مجاہد ملک اس گاؤں کے سب سے امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور جو چیز گاؤں والوں کو سب سے زیادہ فایدہ دیتی تھی وہ تھی ان دونوں کی دوستی۔"

              غلام ایک پل کو رکا۔

              "دونوں دوست ایک دوسرے کے مترادف تھے۔عرشمان کے بابا غصے کے زرا تیز تھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بندوق نکال کر دھمکانا تو انکی عادت تھی جبکہ عزم کے بابا بہت ہی ٹھنڈے دماغ کے آدمی تھے۔"

              لیزا کے ساتھ ساتھ روپ بھی دلچسپی سے غلام کی بات سن رہی تھی۔

              "سردار چاہے یوسف چوہدری بنتے تھے مگر انکو ہمیشہ مجاہد ملک کی سپورٹ حاصل ہوتی تھی۔مجاہد ملک سردار بنے بغیر ہی گاؤں کی فلاح میں یوسف چوہدری کا پورا پورا ساتھ دیتے تھے۔"

              غلام نے ایک نظر لیزا کو دیکھا جو دلچسپی سے اسکی بات سن رہی تھی۔

              "پھر ان دونوں نے دوسری کو رشتہ داری میں بدلنے کا سوچا۔یوسف چوہدری نے انکی بہن ثمن ملک کا رشتہ مانگا تو شاہد ملک نے انہیں وہ رشتہ دے دیا اور بدلے میں یوسف چوہدری کی چھوٹی بہن شمع چوہدری کا رشتہ اپنے چھوٹے بھائی شاہد ملک یعنی اپکے بابا کے لیے مانگا۔"

              اسکی بات پر لیزا کے ماتھے پر شکن آئی۔

              "شاہد ملک کینیڈا میں پڑھائی کرتے تھے جہاں انکی ملاقات آپ کی والدہ سے ہوئی اور انہیں ان سے محبت ہو گئی۔وہ شمع چوہدری سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن بڑے بھائی کے دھمکانے پر مجبور ہو گئے۔اس کے بعد ملک خاندان کی بیٹی چوہدریوں میں جبکہ چوہدریوں کی بیٹی ملکوں میں بیاہ دی گئی۔"

              غلام نے گہرا سانس لیا۔

              "پھر ایک دن مجاہد ملک کا سامنہ فرحین حماد سے ہوا جو اٹھارہ سال کی عمر میں مجاہد ملک کے کھیتوں میں کام کرنے کی غرض سے آئی تھیں۔مجاہد صاحب نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے چھوٹے بہن بھائی یتیم ہو چکے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے انکے پاس کام کرنا چاہتی ہیں۔مجاہد کو ان کے اس جزبے سے کافی انسیت ہوئی۔انہوں نے فرحین کے چچا سے انکا ہاتھ مانگ لیا اور شادی کے بعد انکے چھوٹے بھائی اور بہن کی کفالت کا زمہ بھی خود لے لیا۔"

              غلام خواب کی سی کیفیت میں بول رہا تھا جیسے کہ سارا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہو۔

              "پہلے پہل تو سب اچھا چلتا رہا لیکن پھر ایک دن ایسا طوفان آیا جس نے سب کچھ برباد کر دیا۔"

              وہ سب یاد کر کے غلام کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا تھا۔
              ????
              (ماضی)
              ایک گاڑی ملکوں کی حویلی کے باہر رکی جسے دیکھ کر لان میں کھیلتے عرشمان اور سلطان کے چہرے پر ایک مسکان آئی۔

              "زم بھائی۔۔۔۔"

              تین سالہ سلطان نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور اٹھ کر بھاگنے لگا لیکن چھ سالہ عرشمان اس سے زیادہ تیز بھاگ کر پہلے ہی گاڑی سے نکلے عزم کے گلے لگ چکا تھا۔

              "پیچھے ہٹو میرا زم بھائی ہے۔۔۔۔"

              سلطان نے اپنے ننھے ہاتھوں سے عرشمان کو دھکا دیتے ہوئے کہا اور خود عزم سے لپٹ گیا۔بچوں کی ایک دوسرے کے لیے یہ محبت دیکھ کر یوسف اور ثمن مسکرا دیے۔

              "پھپھو سے نہیں ملو گے یا بس عزم کے آنے کی خوشی ہے تم دونوں کو؟"

              ثمن کی آواز پر دونوں عزم سے جدا ہو کر ثمن کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔

              "پھپھو آپکو پتہ ہے بابا نے کہا ہے آج چاچا کے ہاں ایک چھوٹی سی پیاری سی گڑیا آئے گی اور وہ گڑیا میری ہو گی۔"

              عرشمان نے سر اٹھا کر ثمن کو بتایا تو وہ مسکرا دیں۔

              "اوہ اچھا تو نام سوچا ہے گڑیا کا کیا رکھو گے؟"

              اس سوال پر عرشمان گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

              "پتہ نہیں گڑیا ہی رکھ لوں گا۔"

              اسکی بات پر یوسف اور ثمن دونوں ہنس دیے تبھی مجاہد ملک مسکراتے ہوئے وہاں پر آئے۔

              "روک لیا دونوں نے راستے میں ہی کم از کم اندر تو آنے دیتے۔"

              مجاہد نے یاد کو گلے لگاتے ہوئے کہا پھر مسکرا کر اپنی بہن کو دیکھا۔

              "چلو اندر چلتے ہیں اور تم دونوں عزم کو زیادہ تنگ مت کرنا۔"

              یوسف نے عرشمان اور سلطان کو گھورتے ہوئے کہا۔

              "یہ مجھے تنگ نہیں کرتے ماموں بھائی ہیں میرے۔"

              عزم نے ایک بازو عرشمان اور دوسرا سلطان کے کندھے پر رکھتے ہوئے دونوں کو قریب کر کے کہا تو مجاہد مسکرا دیے اور یوسف اور ثمن کو لے کر حویلی میں داخل ہو گئے۔

              "عزم بھائی کیا نام رکھوں میں اپنی گڑیا کا؟"

              عرشمان نے معصومیت سے پوچھا۔

              "بل بتوڑی رکھ لے۔۔۔۔"

              عزم کی بات پر عرشمان کا منہ بن گیا تو عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسے ہنستا دیکھ سلطان بھی ہنس دیا۔

              حویلی میں داخل ہوتے ہی ثمن شمع کے پاس چلی گئیں اور یوسف اور مجاہد باہر بیٹھے بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔بہن کے لیے فکر مندی یوسف کے چہرے پر صاف چھلک رہی تھی۔

              "شاہد نہیں آیا یوسف؟اسے اس مشکل وقت میں شمع کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔"

              یوسف کی بات پر مجاہد نے گہرا سانس لیا۔

              "کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو لیکن بس اسے ٹکٹ نہیں ملی واپسی کی کچھ دنوں میں واپس آ جائے گا ان شاءاللہ۔"

              یوسف نے اثبات میں سر ہلایا اور کچھ دیر کے بعد ثمن خوشی سے چہکتی ہوئی ہال میں داخل ہوئیں جبکہ باہوں میں کمبل میں چھپا ایک ننھا سا وجود تھا۔

              "مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے رحمت سے نوازا ہے شاہد بھائی کو۔"

              ثمن کے خوشی سے کہنے پر دونوں نے خدا کا لاکھوں شکر ادا کیا۔یوسف نے بے ساختہ اس چھوٹی سی بچی کو باہوں میں تھاما۔

              "ماشاءاللہ بالکل میری شمع جیسی ہے۔"

              یوسف نے بچی کو مجاہد کے سامنے کیا تو انہوں نے بھی اسے باہوں میں اٹھا لیا۔ان دونوں کی حویلی میں وہ پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی اور دونوں ہی اس بات سے بے انتہا خوش تھے۔

              "ماشاءاللہ،مٹھائی کے ٹوکرے منگواو آج پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی جائے گی۔"

              مجاہد نے ملازم کو حکم دیا جو اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔

              "شمع کیسی ہے ثمن؟"

              یوسف نے فکر مندی سے پوچھا۔

              "بالکل ٹھیک ہے الحمدللہ اماں بی اور فرحین بھابھی اسی کے پاس ہیں۔"

              اپنی بہن کی سلامتی کا جان کر یوسف نے خدا کا شکر ادا کیا۔

              "چلو اس سے مل کر اسے مبارکباد دیتے ہیں۔"

              یوسف نے کہا تو وہ تینوں کمرے میں موجود شمع کے پاس آئے اور مجاہد نے اسکی بیٹی کو اسکے ساتھ لیٹا دیا۔

              "بہت بہت مبارک ہو شمع تمہیں یہ بچی تمہاری اور شاہد کی زندگی میں رحمت بن کر آئی ہے۔"

              مجاہد کی بات پر شمع نے نم آنکھوں سے اپنی بچی کو دیکھا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے نصیبوں میں کیا لکھا تھا۔آج تک اس نے یہ بات یوسف اور مجاہد سے چھپائی تھی کہ شاہد کی زندگی میں اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔وہ اپنے دونوں بڑے بھائیوں کا مان کیسے ٹوٹنے دیتی جنہوں نے اسے بڑے مان سے شاہد کی دلہن بنایا تھا۔

              "بس دعا کریں بھائی صاحب اللہ میری بچی کے نصیب اچھے کرے۔"

              "ان شاءاللہ ۔"

              مجاہد نے مسکرا کر کہا تبھی عرشمان،سلطان اور عزم بھاگتے ہوئے وہاں آئے۔

              "یہ کون ہے بابا؟"

              سلطان نے شمع کے پاس جا کر ننھی سی گڑیا کو دیکھنا چاہا لیکن عرشمان نے اسے کھینچ کر اس سے دور کیا اور اسے بری طرح سے گھورنے لگا۔

              "یہ میری گڑیا ہے پہلے میں دیکھوں گا۔"

              عرشمان کی بات پر سب کے ہونٹوں پر ایک مسکان آئی۔عرشمان نے مسکرا کر اس ننھی سی گڑیا کو اپنی باہوں میں اٹھایا۔مجاہد نے فرحین کو اشارہ کیا تو انہوں نے ایک ڈبیہ مجاہد ہو پکڑائی۔مجاہد نے اجازت طلب نظروں سے اماں بی کی جانب دیکھا جنہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

              "شمع یہ میں نے تمہاری بیٹی کے لیے بنائی تھی۔تم جانتی ہو اسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی میں نے اسے اپنے عرشمان کے لیے سوچا تھا۔ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے یہ انگوٹھی پہنا کر اپنے عرشمان کے نام کرنا چاہتا ہوں۔"

              مجاہد کی بات پر شمع نے ایک نظر اپنے پاس بیٹھے عرشمان کو دیکھا جو اسکی بیٹی کو باہوں میں لیے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

              "جیسے آپ کی مرضی بھائی صاحب۔"

              اس جواب پر مجاہد نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا تو مجاہد نے مسکرا کر وہ انگوٹھی اس بچی کی چھوٹی سی انگلی میں ڈال دی۔

              "تم نے اسکا نام کیا سوچا ہے شمع؟"

              ثمن نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

              "میں نے تو نہیں سوچا بھابھی بھائی صاحب کی امانت ہے اب یہ جو نام رکھیں گے مجھے منظور ہو گا۔"

              شمع کی بات پر مجاہد مسکرا دیے۔انہیں اپنے بھائی کے مقدر پر فخر ہوا جس کے نصیب میں شمع جیسی وفادار عورت کا ساتھ لکھا تھا۔

              "آن۔۔۔میں اسکا نام آن رکھوں گا میرے عرشمان کی آن"

              "ماشاء... بہت پیارا نام ہے۔"

              ثمن نے مسکرا کر کہا اور سب لوگ مسکرا کر اس چھوٹی سی آن کو دیکھنے لگے۔اس بات سے بے خبر کہ خوشیاں کتنی عارضی ہوا کرتی ہیں۔
              ????
              اچھا وقت پر لگا کر اڑ گیا تھا۔سب بدل گیا تھا انکے بچے بڑے ہو چکے تھے اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو عرشمان کی آن کے لیے چاہت اور فکر۔شمع سے زیادہ تو وہ آن کا خیال رکھتا تھا۔

              اپنے اور شاہد کے رشتے کی وجہ سے جو فکر مندی شمع کو تھی وہ عرشمان کی محبت دیکھ کر دور ہو گئی تھی۔وہ سمجھ چکی تھیں کہ عرشمان انکی بیٹی کا جان سے زیادہ خیال رکھے گا۔

              انہوں نے تو جیسے تیسے شاہد جیسے لاپروا انسان کے ساتھ زندگی گزار ہی تھی لیکن انکی بیٹی کا مقدر خوشیوں اور محبتوں سے بھرا ہوا تھا۔

              ابھی کچھ دیر پہلے ہی اٹھارہ سالہ عرشمان سولہ سالہ سلطان اور بارہ سالہ آن کو میلا گھوما کر لایا تھا اور آن اب خوشی سے چہکتے ہوئے ہر وہ چیز اپنی ماں کو دیکھا رہی تھی جو اسے عرشمان نے لے کر دی تھی۔

              تبھی شاہد کمرے میں داخل ہوئے اور ایک نظر ان ماں بیٹی کو دیکھ کر واش روم میں چلے گئے۔مجاہد کے سختی سے بلانے پر شاہد چند دن پہلے ہی پانچ سال کے بعد پاکستان آئے تھے۔

              شمع کو امید تھی کہ شائید انکا رویہ بدل گیا ہو لیکن انکا روکھا انداز شمع کی امید ایک بار پھر مٹا گیا۔اچانک سے موبائل بجنے کی آواز پر شمع نے شاہد کی جیب سے وہ بٹن والا موبائل نکالا اور اسے دیکھنے لگیں۔

              ایک نظر واش روم کے بند دروازے کو دیکھنے کے بعد انہوں نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔

              "شاہد کب واپس آؤ گے تم یہ لیزا نے جینا حرام کیا ہے میرا تمہارے بغیر کھانا پینا تک چھوڑ چکی ہے۔"

              شمع کے کال پک کرتے ہی ایک عورت غصے سے انگلش میں کہنے لگی۔

              "ججج۔۔۔۔جی آپ کون؟"

              شمع نے گھبراتے ہوئے انگلش میں پوچھا۔

              "تم کون ہو؟شاہد کہاں ہے؟"

              اس سوال پر شمع نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا۔

              "مم۔۔۔میں ملازمہ ہوں آپکا کوئی پیغام ہیں تو بتا دیں۔"

              شمع کی بات پر کچھ دیر کے لیے دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔

              "شاہد گھر آئے تو اس سے کہنا کہ کینیڈا سے اسکی بیوی مارتھا کا فون تھا جو یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ اسکی بیٹی نے اسکی بیوی کا جینا حرام کیا ہے تو جلد از جلد کینیڈا واپس آ جائے "

              اتنا کہہ کر مارتھا نے فون بند کر دیا اور شمع سکتے کے عالم میں آ چکی تھی۔کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ کر زمین پر گرے۔شاہد نے باہر آ کر اسکے ہاتھ میں اپنا موبائل دیکھا تو غصے سے اسکے پاس آئے۔

              "تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے موبائل کو ہاتھ لگانے کی۔"

              شاہد نے موبائل پکڑ کر ریسیوڈ کالز میں مارتھا کا نمبر دیکھا تو گھبرا گئے۔

              "آپ نے کینیڈا میں شادی کی ہوئی ہے شاہد؟اور آپکی ایک بیٹی بھی ہے اس سے؟"

              شمع نے نم آواز میں پوچھا تو شاہد نے گہرا سانس لیا۔

              "ہاں کی ہوئی ہے۔"

              انکے جواب پر شمع نے شکوہ کناں نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا۔

              "آج تک اپکی بے رخی،لاپرواہی سب برداشت کرتی رہی میں لیکن اب بہت ہو گیا میں ابھی جا کر مجاہد بھائی صاحب کو سب بتا دوں گی۔"

              اتنا کہہ کر شمع وہاں سے جانے لگی تو شاہد نے اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مار دیا۔

              "خبردار جو ایک قدم بھی باہر نکالا تم نے یہاں سے جان لے لوں گا تمہاری۔"

              شاہد کے غصے پر آن نے بھی سہم کر اپنے باپ کو دیکھا۔

              "شادی ہی کی ہے ناں میں نے کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے بی بی اور اتنے سالوں میں تم میرے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا پائی تو میں کیا کرتا؟"

              شمع نے حیرت سے شاہد کو دیکھا۔وہ شاہد سے پوچھنا چاہتی تھی کہ شاہد نے اسے موقع ہی کب دیا تھا۔

              "مارتھا سے میں محبت کرتا ہوں اور بہت خوش ہوں اسکے ساتھ۔۔۔۔سنا تم نے مجھے تمہاری نہ کل کوئی ضرورت تھی نہ آج کوئی ضرورت ہے۔"

              شاہد کتنی ہی آسانی سے اپنے الفاظ سے شمع کا دل چھلنی کر گیا تھا۔

              "اگر شوق پورا کرنا ہے ناں بھائی صاحب کو بتانے کا تو کرو لیکن ایک بات یاد رکھنا اب ان سے ڈروں گا نہیں میں بلکہ ان کے سامنے تمہیں طلاق دے دوں گا پھر اس کو اٹھا کر چکی جانا اپنے بھائ کے گھر طلاق کا دھبا لگا کر۔"

              شمع نے بے یقینی سے اس آدمی کو دیکھا۔کیا کوئی اس قدر بھی سنگ دل ہو سکتا تھا۔

              "شاہد۔۔۔۔"

              "میں نے کہا تھا بھائی صاحب سے کہ مجھے نہیں کرنی تم سے شادی نہیں سمجھتا تمہیں میں اپنے قابل لیکن وہ نہیں مانے اب بھگتو تم۔"

              اتنا کہہ کر شاہد کمرے سے باہر چلے گئے اور شمع فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

              "امی۔۔۔۔۔"

              آن نے روتے ہوئے شمع کو پکارا اور اسکے سینے سے لپٹ گئی۔

              "آپ مت روں امی میں بڑے بابا کو بابا کی شکائیت لگاؤں گی پھر وہ ماریں گے انہیں۔"

              آن کی بات پر شمع نے انکار میں سر ہلایا۔

              "نہیں آن تمہیں میری قسم ہے کبھی کسی کو کچھ مت بتانا۔میں اپنے بھائی کا سر شرمندگی سے جھکتا ہوا نہیں دیکھ سکتی نہیں دیکھ سکتی۔"

              شمع نے آن کو اپنے سینے سے لگا کر کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔انہوں نے سوچ لیا تھا کہ انکی بیٹی ہی انکے جینے کا سہارا تھی اور اسی کے سہارے وہ زندگی کا یہ کڑوا گھونٹ پینے کو تیار تھیں۔

              "تم میری جیسی زندگی نہیں گزارو گی آن عرشمان تمہارا بہت زیادہ خیال رکھے گا دیکھنا تم وہ بہت اچھا لڑکا ہے تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں آنے دے گا وہ۔۔۔۔۔تم خوش رہو گی اپنی زندگی میں تمہاری ماں کی بدقسمتی کا سایہ تم پر نہیں پڑے گا آن نہیں پڑے گا۔"

              آن کا معصوم ذہن وہ باتیں سمجھ نہیں پایا تھا لیکن اپنی ماں کے آنسو اسے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر مجبور کر گئے تھے۔
              ????
              "مجاہد۔"

              فرحین بیگم کے پکارنے پر مجاہد نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔

              "نرمین کا فون آیا تھا ساحل یاد کر رہا ہے مجھے آپ اسے یہاں بلا لیں ناں۔"

              فرحین نے مجاہد کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنے بہن بھائی کا ذکر کیا۔مجاہد نے فرحین سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا بھی کیا تھا۔فرحین کی چھوٹی بہن نرمین کی شادی وہ شہر میں ایک اچھے آدمی سے کروا چکے تھے جبکہ انکا چھوٹا بھائی ساحل جو کہ بچپن سے گونگا بہرا تھا نرمین کے پاس رہ رہا تھا۔

              "تم جانتی ہو فرحین ساحل ساحل یہاں آ کر بہت زیادہ آوارہ گرد ہو جاتا ہے۔کتنی ہی بار گاؤں کی عورتوں نے اسکی شکایت کی ہے اسی وجہ سے اسے شہر نرمین کے پاس بھیجا ہے میں نے وہاں وہ ٹھیک رہے گا۔"

              مجاہد کی بات پر فرحین کا منہ بن گیا۔

              "اتنا معصوم بھائی ہے میرا مجاہد بے چارہ نہ سن سکتا ہے نہ ہی بول سکتا ہے اور یہ گاؤں کی عورتیں تو بس موقع چاہیے انہیں کسی بے چارے پر الزام لگانے کا۔"

              فرحین کی بات پر شاہد نے گہرا سانس لیا۔وہ جانتے تھے کہ فرحین اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں اتنا ہی پیار جتنا وہ عرشمان اور سلطان سے کرتی تھیں۔

              "ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی بلا لو اسے یہاں لیکن خیال رکھنا اسکا۔"

              فرحین نے خوشی سے چہکتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔انکے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ انکا بھائی یہاں آ رہا تھا۔پینتیس سال کا ہونے کے باوجود فرحین ساحل کو بچہ ہی سمجھتی تھی کیونکہ وہ بول اور سن نہیں سکتا تھا۔اسی لیے نہ تو ساحل کی شادی ہوئی تھی اور نہ ہی فرحین کا ایسا کوئی ارادہ تھا وہ بس اسے ہمیشہ اپنا بیٹا بنا کر پالنا چاہتی تھیں بالکل جیسے ماں باپ کی موت کے بعد انہوں نے اپنے بہن بھائی کو بچوں جیسے پالا تھا۔





              #زندگی_اے_تیرے_نال

              #قسط_نمبر_28(پارٹ 2)



              "اسلام و علیکم امی۔"

              اماں بی لاونج میں بیٹھی تھیں جب انکے کانوں میں اپنی بیٹی ثمن کی آواز پڑی تو انہوں نے خوشگوار حیرت سے سر اٹھا کر ثمن کو دیکھا جو بیس سالہ عزم اور یوسف کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔

              "آتے کیسے ہو میرے بچو آؤ بیٹھو ۔۔۔"

              اماں بی نے سب کو باری باری پیار دیتے ہوئے کہا۔

              "نہیں اماں بی بیٹھنے نہیں آئے بس آپکی بیٹی کو آپکے پاس چھوڑنا تھا زرا۔"

              "کیوں خیریت؟"

              اماں بی نے پریشانی سے یوسف سے پوچھا۔

              "بابا میرا داخلہ شہر کے بڑے کالج میں کروانا چاہتے ہیں نانو کہ شائید میں پڑھ لوں لیکن انہیں نہیں پتہ پڑھنا عزم چوہدری کی گھٹی میں ہی شامل نہیں۔"

              عزم نے اپنا کالر جھاڑ کر کہا تو اماں بی اور ثمن ہنس دیں اور یوسف نے عزم کا کان اپنے ہاتھ میں پکڑا جو انکے لیے زرا سا مشکل تھا کیونکہ عزم اب ان سے بھی زیادہ قد نکال چکا تھا۔

              "تمہیں تو میں بتاتا ہوں چل کر گاڑی میں بیٹھو زرا۔"

              یوسف نے کہا تو عزم اماں بی کی جانب دیکھ کر ایک آنکھ دباتا وہاں سے چلا گیا۔

              "بس دعا کریں اماں بی کہ اس بار یہ تھوڑا سا پڑھ لکھ جائے بڑی فکر ہے مجھے اسکی اور اسے بگاڑا آپکی بیٹی نے ہے جو اب یہاں بیٹھی ہنس رہی ہے۔"

              یوسف نے زرا سا گھور کر ثمن کو دیکھا پھر انکی مسکراہٹ پر مسکرا دیے۔وہ اپنی جان سے پیاری بیوی پر غصہ کر ہی کب پاتے تھے۔

              "ان ....... بیٹا میری دعائیں تم سب کے ساتھ ہیں۔"

              یوسف نے مسکرا کر اپنا سر اماں بی کے سامنے کیا تو اماں بی نے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر انہیں دعا دی۔

              "کل تک آ جائیں گے میں اور عزم واپس میری بیوی کا خیال رکھیے گا۔"

              اتنا کہہ کر یوسف وہاں سے چلے گئے اور ثمن نے مسکرا کر اماں بی کو دیکھا۔

              "میں شمع کے پاس جا رہی ہوں امی بعد میں آتی ہوں۔"

              اماں بی نے مسکرا کر کہا تو ثمن وہاں سے چلی گئیں۔انکی بیٹی کی خوشیاں انہیں اطمینان دیتی تھیں لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ خوشیاں کسی کی نظر میں آ چکی تھیں۔
              ????
              آدھی رات کا وقت تھا اور حسب معمول ثمن کو چائے کی طلب ہوئی۔یہ عادت بھی یوسف نے ہی اسے ڈالی تھی دیر رات تک جاگ کر باتیں کرنے والی اور چائے پینے والی۔اب چائے پئیے بغیر انہیں نیند کہاں سے آنی تھی۔

              ایک گہرا سانس لے کر ثمن نے پاس سوئی شمع اور آن کو دیکھا اور اٹھ کر کچن میں چائے بنانے آ گئی۔رات کے دو بجنے کی وجہ سے حویلی بالکل سنسان تھی۔

              ثمن نے چائے چلہے پر رکھی تو انہیں اپنے پیچھے کسی کی آہٹ کا احساس ہوا۔ثمن سہم کر پلٹیں لیکن اپنے پیچھے فرحین کے چھوٹے بھائی ساحل کو دیکھ کر مسکرا دیں جو ان سے تین سال چھوٹا تھا۔

              "کیا ہوا؟"

              ثمن نے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تو ساحل نے اپنے پیٹ کی جانب اشارہ کیا۔

              "بھوک لگی ہے؟"

              ثمن نے پھر سے اشارہ کر کے پوچھا تو ساحل نے اثبات میں سر ہلایا۔ثمن نے فریج سے کھانا نکالا اور اسکے لیے گرم کرنے لگیں۔

              ان کا سارا دھیان اپنے کام پر تھا اور ساحل کا ان پر۔انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا کہ ساحل انکے پیچھے کھڑا کن نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

              اچانک ہی ساحل نے آگے بڑھ کر انکا سفید نرم ہاتھ اپنے سیاہ ہاتھ میں تھام لیا تو ثمن نے سہم کر اسے دیکھا۔

              "چھوڑو کیا کر رہے ہو؟"

              ثمن نے کھینچ کر اپنا ہاتھ اس سے چھڑوایا تو ساحل نے گھور کر انہیں دیکھا اور اب کی بار انہیں کمر سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔

              "یہ کیا کر رہے ہو پاگل ہو گئے ہو کیا؟"

              ثمن نے خود کو چھڑوانا چاہا لیکن اسکی پکڑ بہت زیادہ مظبوط تھی۔ثمن نے سہم کر چلانے کے لیے اپنا منہ کھولا تو ساحل نے اپنا بھاری بھرکم ہاتھ انکے منہ پر رکھ دیا۔

              ثمن کی مزاحمت مزید زیادہ ہو گئی لیکن اس ہٹے کٹے مرد کے سامنے انکی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔وہ خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگیں لیکن اس نے انہیں کوئی موقع نہیں دیا۔

              انہیں وہیں کچن کے فرش پر پھینک کر ان پر اپنی درندگی مٹاتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ ثمن اپنی بے بسی پر ایک کونے میں سمٹی پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

              انہیں اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی جو اپنے شوہر کی امانت کا خیال نہیں رکھ پائیں کیا منہ دیکھاتیں وہ اپنے شوہر اور جوان بیٹے کو۔

              یہ سب سوچ کر ثمن کا دل کیا اپنی جان لے لیں تا کہ انہیں عزم اور یوسف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
              ????
              صبح ثمن شمع کو پھٹے کپڑوں کے ساتھ بکھری حالت میں کچن کے فرش پر بے ہوش ملیں تو انہوں نے سہم کر انہیں اپنی چادر سے ڈھانپا اور جلدی سے مجاہد کو بلانے چلی گئی۔

              ثمن کو ہوش آیا تو وہ ایک بیڈ پر تھیں ہر کوئی انکے پاس بیٹھا تھا۔ثمن کی نظر اماں بی پر گئی تو اپنی ماں کو دیکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

              "ثمن کیا ہوا میرا بچہ بتا مجھے۔"

              اماں بی نے پریشانی سے پوچھا۔ثمن کی وہ حالت انہیں بہت پریشان کر رہی تھی۔

              "امی۔۔۔۔"

              ثمن ان کے سینے سے لگ کر سسک سسک کر رو دیں۔اماں بی نے پریشانی سے مجاہد اور فرحین کو دیکھا جو خود بہت پریشان نظر آ رہے تھے۔

              "کیا ہوا ثمن بتا مجھے۔"

              اماں بی نے انکے بال سہلاتے ہوئے پوچھا۔

              "امی۔۔۔۔وہ ساحل نے وہ۔۔۔۔"

              ثمن نے روتے ہوئے اماں بی کو ہر بات بتا دی جسے سن کر کمرے میں موجود ہر شخص پتھر کا ہو چکا تھا۔

              "ننن۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔مممم۔۔۔۔میرا بھائی تو اتنا معصوم ہے وہ بے چارہ تو سن نہیں سکتا باؤلا ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔۔"

              فرحین نے روتے ہوئے کہا تو ثمن نے شکوہ کناں نگاہوں سے انہیں دیکھا۔

              "میں جھوٹ بول رہی ہوں بھابھی ؟"

              "ہاں جھوٹ بول رہی ہو تم میرا بھائی نہیں کر سکتا ایسا مجاہد آپکی بہن میرے معصوم بھائی پر جھوٹا الزام۔۔۔۔۔"

              چٹاخ۔۔۔۔ایک زور دار تھپڑ کی آواز نے فرحین کے الفاظ انکے منہ میں ہی روک دیے۔

              "میری بہن نے آج تک جھوٹ نہیں بولا سنا تم نے قصور تمہارے بھائی کا ہے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں کا۔"

              مجاہد وہاں سے جانے لگے تو فرحین نے فوراً روتے ہوئے انکا ہاتھ پکڑ لیا۔

              "نہیں مجاہد وہ بچہ ہے ایسا مت کریں میں اپنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔۔"

              ثمن نے حیرت سے اپنی بھابھی کو دیکھا۔کیا اسکی عزت کی کوئی قیمت نہیں تھی۔

              "تمہارے اس بچے نے مجھے سر اٹھا کر جینے کے قابل نہیں چھوڑا کیا جواب دوں گا میں اپنے دوست کو کہ اسکی عزت کی حفاظت نہیں کر سکا۔۔۔۔۔کیا جواب دوں گا اسکے جوان بیٹے کو میں فرحین۔۔۔۔کیا بتاؤں میں سب کو کہ میرے گونگے بہرے سالے نے ہی میری بہن کو بے آبرو۔۔۔۔"

              اس سے آگے مجاہد سے کچھ بولا نہیں گیا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جبکہ ثمن کی آنسؤں سے تر آنکھیں دروازے تک گئیں تو وہ وہ سانس تک لینا بھول گئیں۔

              وہیں دروازے میں یوسف اور عزم سکتے کے عالم میں کھڑے مجاہد کو دیکھ رہے تھے۔انکے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ مجاہد کی ہر بات سن چکے ہیں۔اپنے جوان بیٹے کی بھینچی ہوئیں مٹھیاں دیکھ کر ثمن کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔

              "بھائی صاحب۔۔۔یہ سچ نہیں ہے آپکی بیوی جھوٹا الزام لگا رہی ہے میرے بھائی پہ ایسا کچھ۔۔۔۔"

              فرحین نے کچھ کہنا چاہا لیکن یوسف نے ایک نگاہ ثمن کی تباہ حالت پر ڈالی اور غصے سے پلٹ کر حویلی سے باہر نکل گئے۔مجاہد اور فرحین پریشانی سے انکے پیچھے گئے ۔

              "یوسف میری بات سنو۔۔۔۔"

              مجاہد نے یوسف کو پکارا لیکن یوسف انکی سنے بغیر حویلی کی پچھلی جانب آئے جہاں ساحل کا کمرہ تھا۔کمرے کا دروازا کھولنے پر انکی نظر ساحل پر پڑی جو سکون سے چارپائی پر لیٹا سو رہا تھا۔

              یوسف نے اسے گریبان سے جکڑا اور بری طرح سے مارنا شروع کر دیا۔

              "بھائی صاحب نہیں چھوڑ دیں میری بھائی کو۔۔۔۔"

              فرحین نے روتے ہوئے کہا لیکن یوسف کسی کی بات سن کہاں رہے تھے۔وہ بس بری طرح سے ساحل کو مار رہے تھے۔فرحین نے آگے ہو کر اپنے بھائی کو چھڑوانا چاہا لیکن مجاہد نے انکا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر انہیں قریب جانے سے روکا۔

              "تو نے میری بیوی کو ہاتھ لگایا میری عزت کو تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔۔"

              یوسف نے زخموں سے چور ساحل کو خود سے دور پھینک کر کہا اور پھر اسی کی چارہ کاٹنے والی درانتی ہاتھ میں پکڑی اور اسے ساحل کے گلے میں مار دیا۔

              یہ دیکھ کر ایک دلخراش چیخ فرحین کے ہونٹوں سے نکلی اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئیں جبکہ کمرے کے کونے میں کھڑا عزم نفرت سے بے جان پڑے ساحل کو دیکھ رہا تھا۔اسکا بس چلتا تو اسے پھر سے زندہ کر کے خود مارتا۔
              ????
              ساحل کی تدفین شام ہوتے ہی کر دی گئی تھی۔تدفین کے بعد یوسف ثمن کو اپنے ساتھ لے گئے۔ثمن جانا نہیں چاہتی تھیں لیکن یوسف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انکو سنبھال لیں گے۔

              خود سے ہوئے واقعے کے بعد ثمن مکمل طور پر بکھر گئی تھیں اور یوسف کو لگا تھا کہ وہ انہیں سنبھال لیں گے اسی لیے وہ انہیں اپنے ساتھ کے گئے لیکن آدھی رات کو انکی آنکھ دلخراش چیخوں پر کھلی۔وہ گھبراہٹ کے مارے اٹھ کر کچن کی جانب آئے جہاں سے وہ چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

              تبھی عزم بھی وہاں آیا جو پریشانی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

              "بابا۔۔۔۔"

              یوسف نے کچن کے دروازے کو ہلایا لیکن وہ اندر سے لاک تھا۔دونوں نے مل کر دروازے کو دھکا لگایا تو وہ کھل گیا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر دونوں پر ہی آسمان ٹوٹ کر گرا تھا۔

              ثمن آگ میں لپٹے وجود کے ساتھ زمین پر گری چیخ رہی تھیں۔یوسف نے جلدی سے کچن کا بھاری پردہ اتار کر ان پر پھینکتے ہوئے آگ کو بجھانے کی کوشش کی جبکہ اپنی ماں کو اس حال میں دیکھ کر عزم ہزار موت مرا تھا۔

              آگ بجھاتے ہی یوسف انہیں اٹھا کر ہسپتال لے گئے لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ چکی تھیں۔صبح ہوتے ہی پورے گاؤں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ چوہدراین نے خود کو جلا کر خود کشی کر لی۔

              ملکوں کی حویلی سے سب لوگ چوہدریوں کی حویلی پہنچ چکے تھے۔اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر اماں بی اور مجاہد پھوٹ پھوٹ کر رو دیے تھے۔

              عرشمان اور سلطان پریشانی سے عزم کے پاس گئے جو رو بھی نہیں رہا تھا بس مردہ آنکھوں سے ایک کونے میں کھڑا اپنی ماں کی میت کو دیکھ رہا تھا۔

              "بھائی۔۔۔۔"

              شمع نے روتے ہوئے یوسف کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا جو ثمن کی میت کے پاس بیٹھے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔عزم کی طرح نہ تو وہ کچھ بول رہے تھے نہ ہی ایک آنسو انکی آنکھ سے گرا تھا۔

              "وہ کہہ رہی تھی یوسف کہ تمہارا اور عزم کا سامنا نہیں کر پائے گی۔۔۔۔وہ نہیں کر پائی تم دونوں کا سامنا نہیں کر پائی۔۔۔۔"

              اماں بی نے روتے ہوئے کہا تو دو آنسو یوسف کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔

              "نہیں اماں بی میری ثمن اتنی کمزور نہیں تھی کہ خود کی جان لے لیتی وہ بہت بہادر تھی۔وہ جانتی تھی کہ میری محبت اسکی طاقت ہے۔۔۔۔وہ جانتی تھی میں اسکے ساتھ ہوں۔۔۔۔"

              یوسف نے آہستہ آہستہ سے کہا تو مجاہد نم آنکھوں سے اپنے دوست کو دیکھنے لگے۔

              "اس نے خود کو نہیں مارا یہ کچھ ایسا ہوا ہے جو ہم سمجھ نہیں پا رہے لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں سمجھوں گا اور اس کو نہیں چھوڑوں گا جس نے یہ کیا۔۔۔۔مجھے اپنی ثمن کی قسم ہے۔۔۔۔"

              یوسف نے اپنا ہاتھ میت پر رکھ کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔شام تک تدفین کر دی گئی تھی کیونکہ انکی لاش بری سے جل چکی تھی۔ان سب کو لگا تھا کہ ایک قیامت ان پر آ کر گزر گئی ہو لیکن یہ تو بس شروعات تھی۔
              ????
              وہ سب کچھ دیر پہلے ہی ملکوں کی حویلی واپس آئے تھے۔اماں بی تو وہاں رکنا چاہتی تھیں لیکن یوسف نے کہا تھا کہ وہ کچھ وقت اکیلے گزارنا چاہتے ہیں۔

              اس لیے اماں بی عزم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لے آئی تھیں کیونکہ انہیں عزم کی بہت زیادہ فکر ہو رہی تھی جس نے ابھی تک ایک آنسو بھی اپنی ماں کی موت پر نہیں بہایا تھا۔

              حویلی پہنچ کر اماں بی نے ایک ڈاکٹر کو بلایا جس نے عزم کو نیند کی دوائی دے دی۔اس دوائی کے زیر اثر عزم کو سوتا دیکھ اماں بی نے سکھ کا سانس لیا اور اسکے پاس بیٹھ کر اسکے بالوں میں ہاتھ چلانے لگیں۔

              بیٹی کو کھونے کا غم اسکی اولاد کو دیکھ کر مزید ہرا ہو رہا تھا۔

              "یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم دونوں؟"

              مجاہد کے غصے سے بھرپور آواز اماں بی کے کانوں میں پڑی تو وہ پریشانی سے عزم کے پاس سے اٹھیں اور دروازہ بند کرتیں باہر ہال میں آ گئیں جہاں مجاہد غصے سے مٹھیاں بھینچے دو ملازماؤں کو دیکھ رہے تھے۔

              "وہی ملک جی جو سچ ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔"

              ایک ملازمہ نے کہا اور گھبرائی سی نگاہ ساتھ کھڑی ملازمہ پر ڈالی۔

              "اس رات چوہدری جی جب حویلی واپس آئے وہ بہت زیادہ غصے میں تھے۔عزم بیٹا تو گھر آتے ہی کہیں باہر چلا گیا تھا لیکن چوہدری جی بہت دیر تک چوہدراین پر چلاتے رہے تھے اور چوہدراین جی بس روتی رہی تھیں۔"

              ایک ملازمہ نے بتایا۔

              "پھر رات کو چوہدری جی نے سب ملازموں کو گھر جانے کا کہہ دیا۔جانا تو ہم دونوں کو بھی تھا لیکن دیر ہونے کی وجہ سے نہ جا سکیں۔"

              اتنا کہہ کر پہلی ملازمہ نے دوسری کی جانب دیکھا۔

              "آدھی رات کو ہماری آنکھ چوہدراین جی کی چیخوں سے کھلی ہم دونوں ڈر کے حویلی آئیں تو دیکھا چوہدری جی چوہدراین جی کو بری طرح سے مار رہے تھے اور انہیں بدکار اور نہ جانے کیا کیا گالیاں نکال رہے تھے۔"

              مجاہد حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

              "پھر وہ چوہدراین جی کو بالوں سے پکڑ کر باورچی خانے کے گئے۔چوہدراین جی بہت چلا رہی تھیں انہوں نے چوہدراین جی کو فرش پر پھینک کر ان پہ تیل ڈالا اور انہیں ماچس کی تیلی جلا کر ان پر پھینک دی۔"

              انکی بات پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

              "ہم بہت زیادہ ڈر گئی تھیں انہیں روکنے کی ہمت نہیں کر پائیں۔۔۔۔"

              ملازمہ نے سہم کر کہا تو وہ دوسری کی جانب دیکھنے لگی۔

              "چوہدراین جی جلتے ہوئے چیخ رہی تھیں پھر چوہدری جی باہر آئے اور دروازہ بند کر کے وہاں سے جانے لگے لیکن جب انہوں نے عزم بیٹے کو وہاں آتے دیکھا تو خود کی آگے ہو کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگے۔"

              اتنا کہہ کر ملازمہ خاموش ہو گئی اور وہاں موجود ہر شخص انکی بات پر پتھر کا ہو چکا تھا۔

              "یوسف ایسا نہیں کر سکتا مجاہد میں نہیں مانتی ان باتوں کو۔۔۔۔"

              اماں بی نے مجاہد کے پاس آ کر پریشانی سے کہا۔

              "جججج۔۔۔۔جی بھائی صاحب یوسف بھائی ایسا نہیں کر سکتے یہ دونوں جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔"

              شمع کے کہنے پر مجاہد نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے ملازماؤں کو گھورا۔

              "ہمارے پاس جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ملک جی بس ہم آپکو سچ سے آگاہ کرنا چاہتی تھیں باقی بات جب کرد کی غیرت پر آتی ہے تو وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا۔"

              اتنا کہہ کر ملازمہ وہاں سے چلی گئیں جبکہ مجاہد کتنی ہی دیر وہاں کھڑا رہا تھا۔پھر وہ اپنے کمرے سے ریوالور لے کر آیا تو سب لوگ سہم کر اسے دیکھنے لگے۔

              "مجاہد یہ تم۔۔۔؟"

              "فکر مت کریں امی میں اس سے کچھ سوال پوچھوں گا اگر اس نے صیح جواب دیے تو ٹھیک ورنہ اسے میری اس گولی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔۔۔۔"

              اتنا کہہ کر مجاہد باہر کی جانب چل دیے تو عرشمان پریشانی سے انکے پیچھے جانے لگا۔

              "نہیں عرشمان تم یہیں رکو گے یہ ہم دونوں کا معاملہ ہے کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آئے گا۔"

              اتنا کہہ کر مجاہد وہاں سے چلے گئے تو فرحین بیگم بھی اپنے کمرے میں چلی گئیں جبکہ باقی سب پریشانی سے وہیں بیٹھ گئے۔

              "میں بابا کے پیچھے جاتا ہوں۔"

              عرشمان نے پھر سے کہا تو اماں بی نے انکار میں سر ہلایا۔

              "نہیں بیٹا فکر مت کرو یوسف اسے سنبھال لے گا وہ دونوں بچپن کے دوست ہیں میں جانتی ہوں یوسف نے ایسا کچھ نہیں کیا اور وہ یہ بات مجاہد کو سمجھا لے گا۔"

              اماں بی کی بات پر عرشمان نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔وہ اپنے باپ کے پیچھے جانا چاہتا تھا لیکن وہ بے بس تھا۔

              کچھ دیر کے بعد عزم اٹھ کر وہاں آیا تو اماں بی اسے دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ وہ کم از کم آٹھ گھنٹے سویا رہے گا لیکن وہ تو دو گھنٹوں میں ہی اٹھ بیٹھا تھا۔

              "میں گھر جا رہا ہوں۔"

              عزم نے سنجیدگی سے کہا اور دروازے کی جانب جانے لگا۔

              "عرشمان بھائی کے ساتھ جاؤ اور آج رات اسکے پاس ہی رک جانا۔"

              اماں بی کے حکم پر عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا لیکن تبھی مجاہد کا ملازم بھاگتا ہوا وہاں آیا تھا۔

              "اماں بیگم۔۔۔۔اماں بیگم غضب ہو گیا۔"

              ملازم کی بات پر سب نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

              "کیا ہو گیا خورشید؟"

              اماں بی نے پریشانی سے پوچھا جبکہ دل بہت کچھ غلط ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔

              "چوہدری جی اور ملک جی نے ایک دوسرے کو گولیاں مار دیں اماں بیگم اور دونوں کو سانس نہیں آ رہا۔"

              ملازم کی بات پر گھر کے ہر فرد پر ایک پہاڑ ٹوٹ کر گرا تھا۔
              ?????
              جب تک وہ سب چوہدریوں کی حویلی پہنچنے مجاہد اور یوسف دونوں ہی دم توڑ چکے تھے۔ایک رہو انہیں مجاہد کے جبکہ دوسرا یوسف کے ہاتھ میں ملا تھا۔

              ایک گولی یوسف کے دل کے مقام پر لگی تھی جبکہ مجاہد کو گولی سر کی پچھلی جانب ماری گئی تھی۔

              پورا گاؤں ہی اس بات پر افسردہ تھا کہ دوستی کی مثال وہ دونوں دوست ایک دوسرے کی جان لے چکے تھے۔دونوں کو ہی غصل چوہدریوں کی حویلی میں دیا گیا تھا۔

              سلطان اور عرشمان کو تو ایسا لگ رہا تھا جیسے انکا جہان اجڑ گیا ہو جبکہ فرحین بیگم کی چیخوں سے پوری حویلی گونج رہی تھی۔

              سب سے بری حالت اگر کسی کی تھی تو عزم کی تھی جو اپنی ماں کو کھونے کے بعد اب اپنے باپ کو بھی کھو چکا تھا۔

              "خورشید۔۔۔۔"

              عرشمان کی آواز پر خورشید نے اٹھارہ سالہ لڑکے کو دیکھا جو ایسا لگ رہا تھا کہ چھوٹی سی عمر میں ہی نہ جانے کتنا بڑا ہو گیا ہو۔

              "بابا کا جنازہ اٹھانے کی تیاری کرو ہم انہیں اپنی حویلی لے کر جا رہے ہیں۔ان کا جنازہ انہیں کے قاتل کے ہاں سے نہیں اٹھے گا۔"

              عرشمان کی بات پر عزم نے بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا۔

              "عرشمان یہ تم کیا کہہ رہے ہو میرے بھائی۔"

              "مت بلاؤ مجھے بھائی۔"

              عرشمان کے چلانے پر سب آدمیوں نے اسے دیکھا۔

              "تمہارے باپ نے پہلے میری پھپھو کو مارا اور پھر میرے بابا کی بھی جان لے لی مجھے تم بھی اپنے باپ جیسے گھٹیا لگ رہے ہو سنا تم نے ۔۔۔"

              عرشمان کے چلانے پر اماں بی نے حیرت سے اسے دیکھا جو عرشمان کا چلانا سن کر باہر آئی تھیں۔

              "عرشمان یہ کیا کہہ رہے ہو بڑا بھائی ہے وہ تمہارا۔"

              اماں بی نے عرشمان کو سمجھانا چاہا۔

              "نہیں ہے یہ میرا بڑا بھائی اماں بی یہ بس میرے لیے میرے بابا کے قاتل کی اولاد ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔"

              عرشمان نے غصے سے نم ہوتی آنکھوں سے عزم کو دیکھتے ہوئے کہا۔

              "میرا بس چلے تو اسکے گھٹیا باپ کو میں زندہ کر کے ایک بار پھر سے مار دوں جس نے میرے بابا۔۔۔۔"

              عرشمان کے منہ پر پڑنے والے شور دار مکے نے اسکے الفاظ منہ میں ہی روک دیے۔

              "بس عرشمان بہت ہو گیا اگر میرے بابا کے خلاف ایک اور لفظ بھی کہا تم نے تو منہ توڑ دوں گا تمہارا میرے بابا نے ایسا کچھ نہیں کیا نہ تو انہوں نے میری ماں کو مارا ہے نہ ہی ماموں کو بس تم میں اتنی عقل نہیں کہ تم یہ بات سمجھ سکو۔۔۔۔"

              عزم نے غصے سے کہا جبکہ آن دونوں کو غصہ اماں بی کو پریشان کر رہا تھا۔

              "بابا کا جنازہ اٹھاؤ خورشید ہم ایک پل یہاں نہیں رہنے والے۔"

              عرشمان نے حکم دیا اور سب کو دیکھا۔

              "ہاں چلے جاؤ یہاں سے مجھے بھی تم جیسے گھٹیا سوچ والا آدمی اپنے گھر میں نہیں چاہیے اور لے جاؤ میرے باپ کے قاتل کو یہاں سے۔"

              عزم کے غصے سے کہنے پر عرشمان کی آنکھوں میں نفرت اتری۔

              "آج کے بعد اس حویلی سے یا یہاں کے کسی فرد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اگر کسی نے ان سے تعلق رکھنا چاہا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔"

              عرشمان نے سب کی جانب دیکھتے ہوئے رعب سے کہا۔

              "اس لیے سوچ لو جس کو میرے ساتھ آنا ہے ابھی چلو ۔۔۔۔"

              عرشمان نے اتنا کہہ کر سب کی جانب دیکھا تو فرحین نے سلطان کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کر عرشمان کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئیں۔عرشمان نے سوالیہ نظروں سے اماں بی کو دیکھا۔

              "عرشمان۔۔۔۔؟"

              "سوچ لیں اماں بی اگر ابھی یہاں رکیں آپ تو اس حویلی کے دروازے آپ کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔"

              عرشمان کی بات پر دو آنسو اماں بی کی آنکھوں سے نکلے۔انہوں نے آنسؤں سے تر آنکھوں سے اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھا اور عرشمان کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں۔

              "چچی؟"

              عرشمان کے سوالیہ انداز پر شمع نے رحم طلب نگاہوں سے عرشمان کو دیکھا اور پھر اپنے بھائی کی لاش دیکھا۔

              "اس شخص سے کسی کا کوئی تعلق ہونے کا مطلب ہے کہ میرا تعلق اس سے نہیں رہے گا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"

              عرشمان کہہ تو شمع سے رہا تھا لیکن اسکی نظریں شمع سے سہم کر لپٹی آن پر تھیں۔شمع نے بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے ہاتھ عزم کے سامنے جوڑ دیے۔

              "پھپھو۔۔۔۔"

              عزم کی لاچارگی ان کے دل کو چھلنی کر گئی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی بیٹی کا مستقبل چنا اور عرشمان کے پاس آ گئیں۔

              "چلو خورشید اب یہاں کسی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔"

              اتنا کہہ کر عرشمان وہاں سے چلا گیا اور خورشید نے آدمیوں کے ساتھ مل کر مجاہد کی میت کو وہاں سے اٹھا کر لے گیا جبکہ کسی کو عزم کا خیال نہیں آیا جو وہاں بالکل تنہا ہو گیا تھا بالکل اکیلا ۔
              ????
              شاہد کو مجاہد اور ثمن کی موت کی خبر ملی تو پہلی فلائٹ سے ہی واپس پاکستان آ گئے لیکن یہاں آ کر جب انہیں پوری بات پتہ چلی تو وہ غصے سے بے قابو ہوتے شمع کے پاس آئے اور انہیں بری طرح سے مارنے لگے۔

              "شاہد یہ کیا کر رہے ہو پاگل ہو گئے ہو کیا اس سب میں شمع کا کیا قصور ہے؟"

              اماں بی نے شمع کے آگے ہو کر انہیں اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے پوچھا۔

              "اسکا قصور یہ ہے اماں بی کہ یہ اس گھٹیا شخص کی بہن ہے جس نے مجھ سے میرے بہن بھائی چھینے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔ "

              شاہد نے آگے ہو کر پھر سے شمع کو پکڑنا چاہا۔

              "چاچو۔۔۔۔۔"

              عرشمان کے چلانے پر شاہد نے حیرت سے پلٹ کر عرشمان کو دیکھا جو اپنے باپ کی موت کے بعد سے بہت بڑا لگنے لگا تھا۔

              "چچی نے اس گھر کو چنا ہے یہاں کے لوگوں کو چنا ہے اب اس گھر سے انکا کوئی تعلق نہیں اس لیے وہ سزا کی حقدار نہیں۔۔۔جس نے اپنے گھٹیا باپ کو چنا اس سے ہر تعلق توڑ دیا گیا ہے اور اب وہ بس ملکوں کا دشمن ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔"

              عرشمان نے سنجیدگی سے کہا تو اماں بی بے بسی اپنا سر جھکا گئیں۔اپنے نواسے سے ہوئی زیادتی پر انکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

              "نہیں عرشمان اسکا اس حویلی سے کوئی تعلق نہیں اس گھٹیا خاندان سے جڑے کسی بھی شخص کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں اور جو تعلق ہے میں آج ختم کر دوں گا۔"

              شاہد کی بات پر شمع نے سہم کر اپنے شوہر کو دیکھا۔

              "شمع چوہدری میں شاہد ملک اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔۔۔"

              اتنا کہہ کر شاہد وہاں سے چلے گئے اور شمع کا پورا جہان انکے تین بول سے بکھر گیا تھا۔وہ مردہ حالت میں وہاں کھڑی تھیں اپنی زندگی کے اتنے سال اس شخص پر لگانے کے بعد آج اس نے انہیں یہ صلہ دیا تھا۔انہیں اس گناہ کی سزا دی جو انکا تھا ہی نہیں۔

              اتنے غم اپنی جان پر جھیلنے کے بعد یہ غم شمع کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا تھا۔ایک پل لگا تھا انکا دھڑکتا دل بند ہوا اور وہ زمین بوس ہو گئیں۔

              اماں بی نے روتے ہوئے شمع کو اٹھانا چاہا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ڈاکٹر کو بلایا گیا لیکن وہ بھی انکے لیے امید کی ہر کرن مٹاتی وہاں چلی گئی۔آج ان کی حویلی سے تیسرا جنازہ اٹھنے کو تیار تھا۔اگر کسی کو سنبھالنا ناممکن ہو رہا تھا تو وہ آن تھی جو اپنی ماں کے بچھڑنے کا غم جھیل نہیں پا رہی تھی۔

              عزم اپنی پھپھو کے جنازے کے لیے آیا لیکن عرشمان نے اسے حویلی میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں دی تھی۔اسکے مطابق شمع چوہدریوں کی بیٹی نہیں ملکوں کی بہو تھیں اور عزم کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

              اسی دن عزم کے دل میں عرشمان کے لیے ایک نفرت پیدا کی تھی ایک ایسی لازوال نفرت جس میں اس نے خود سے قسم کھائی تھی کہ وہ عرشمان کو ویسے ہی تنہا کرے گا جیسے عرشمان نے اسے کیا۔




              Comment


              • #67
                Wah kya zabardast update kahani ab past ma chali gye or dono ki dushmani ki wajha kya ha pata chali shuru ma to aazam boht bura insan lag raha tha mgr us ka sath jo bura hua ha us ka aesa banana banta tha dono khandanon ka darmeyan dushmani kisi or ki wajha sa bani ha ab deakhna ha ka kon ha in ki dushmani ki wajha

                Comment


                • #68
                  لاجواب کہانی ہے جتنی بار پڑو اتنا ہی مزا اتا ہے

                  Comment


                  • #69
                    #زندگی_اے_تیرے_نال

                    #قسط_نمبر_29



                    کنیز صبح نماز کے وقت ہی کمرے میں واپس آ گئی تھی۔اسے لگا کہ اماں بی سوئی ہوں گی لیکن انہیں جاگتا دیکھ کنیز گھبرا گئی تھی۔اماں بی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

                    "کہاں تھی تم کنیز؟"

                    اماں بی کے سوال پر کنیز بری طرح سے بوکھلا گئی۔

                    "وووو۔۔۔۔۔وہ میں اماں بی۔۔۔۔"

                    کنیز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیسے بتائے کہ وہ رات بھر انکے پوتے کے پاس تھی۔

                    "اماں بی۔۔۔"

                    فرحین بیگم کی آواز پر اماں بی کا دھیان دروازے میں کھڑکی فرحین بیگم پر گیا تو حیران رہ گئیں۔

                    "فرحین تم اس وقت یہاں سب خیر تو ہے؟"

                    اماں بی کے سوال پر فرحین بیگم مسکراتے ہوئے اندر آئیں۔

                    "بس اماں بی مجھے خوشی ہی اتنی تھی کہ پوری رات خوشی سے نیند نہیں آئی۔۔۔"

                    فرحین بیگم نے اماں بی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

                    "ابھی بھی بس ایک خیال ذہن میں آیا تو آپ سے مشورہ کرنے آ گئی۔"

                    "کیسا مشورہ؟"

                    اماں بی نے نرمی سے پوچھا۔

                    "سوچ رہی ہوں شادی سے پہلے انابیہ کی منگنی بھی کر دوں جانتی ہوں کہ ان دونوں کی منگنی بچپن میں ہو گئی تھی لیکن میں ایک تقریب کرنا چاہتی ہوں۔"

                    فرحین بیگم کے ارادے پر اماں بی کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی۔

                    "انابیہ باجی کی منگنی ہو رہی ہے؟"

                    کنیز نے خوشگوار حیرت سے پوچھا تو فرحین بیگم اسے گھورنے لگیں۔

                    "تم سے کسی نے کہا ہماری بات میں دخل دینے کو؟ اپنی حد میں رہو لڑکی دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"

                    فرحین بیگم کی سختی پر کنیز کا سر شرمندگی سے جھک گیا اور وہ فوراً کمرے سے نکل گئی جبکہ فرحین بیگم کے اس سلوک پر اماں بی سر جھٹک کر رہ گئیں۔

                    "تو بتائیں ناں اماں بی شادی سے پہلے کر لوں کیا منگنی کی تقریب ؟"

                    اماں بی نے انکے جوش پر سر آہ بھری۔

                    "تمہارا بیٹا ہے وہ فرحین جب اسے راضی کر ہی چکی ہو تو جو دل میں آ رہا ہے کرو میری اجازت کی تمہیں کیا ضرورت ؟"

                    اماں بی نے سنجیدگی سے کہا اور اٹھ کر نماز کی تیاری کرنے لگیں۔

                    "ٹھیک ہے اماں بی تو میں جلد ہی انکی منگنی کا فنکشن رکھ لیتی ہوں گھر میں نرمین اور اسکے بچے بھی خوش ہو جائیں گے۔"

                    اتنا کہہ کر فرحین بیگم خوشی سے دمکتی وہاں سے چلی گئیں تو اماں بی نے افسوس سے اپنا سر جھٹکا۔

                    "افسوس ہو رہا ہے مجھے فرحین تمہارے ماں ہونے پر جسے اپنی خوشی کی چمک میں بیٹے کا دکھ،اسکی ناپسندگی دیکھائی ہی نہیں دے رہی۔۔۔۔اللہ تمہیں ہدایت دے۔۔۔۔"

                    اتنا کہہ کر اماں بی نماز فجر کی تیاری کرنے لگیں اور نماز کے بعد بھی انکے ہونٹوں پر صرف سلطان کے لیے ہی دعا تھی کہ خدا اسے اپنی خوشی کی خاطر آواز اٹھانے کی ہمت دے ۔
                    ????
                    "سامان پیک ہو گیا تمہارا؟"

                    آن اپنی سوچوں میں گم اپنا سامان پیک کر رہی تھی جب اسکے کانوں میں عرشمان کی رعب دار آواز پڑی لیکن اس نے جواب دینے کی بجائے اپنے کام پر دھیان دیا۔

                    "اچھا کیا تم نے میری بات مان کر یقین کرو جو کر رہا ہوں بہتر کر رہا ہوں۔"

                    عرشمان کی بات پر آن نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھا۔

                    "نہیں عرشمان ملک آپ غلط ہیں میں آپکی بات مان کر یہاں سے نہیں جا رہی بلکہ میں یہاں سے اس لیے جا رہی ہوں کیونکہ ایک اور پل کے لیے بھی آپکی شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔"

                    عرشمان اس بات پر اپنی مٹھیاں بھینچ گیا لیکن اس نے بولا کچھ نہیں۔

                    "آپ فکر مت کریں آپ سے دور جانے پر مجھے کوئی دکھ کوئی تکلیف نہیں ہو رہی کیونکہ جو محبت مجھے دوری پر تکلیف دیتی تھی اسے تو آپ کل رات مکمل طور پر مار کر دفنا چکے ہیں۔"

                    آن نے نم پلکوں سے اسے دیکھا۔

                    "اور مرے ہوئے انسان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔"

                    اتنا کہہ کر آن نے بیگ بند کیا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

                    "میں تمہارا باہر گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں آ جاؤ۔"

                    عرشمان یہ بات کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور آن نے بے بسی سے اس کمرے کو دیکھا جہاں دلہن بن کر آنے کے اس نے خواب سنجویا تھا۔اسکی اور عرشمان کی محبت کا وہ جہاں آج مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔

                    آن نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جہاں عرشمان اسے چھوڑے گا وہ وہاں سے کہیں اور چلی جائے گی کسی ایسی جگہ جہاں سے وہ عرشمان کو پھر کبھی نہیں ملے گی۔

                    اس سے ہمیشہ کے لیے دوری کا خیال آن کے لیے کتنا دردناک تھا یہ کوئی اس سے پوچھتا لیکن عرشمان نے اسکے لیے کوئی اور راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا۔

                    آن الماری کے پاس آئی اور اس میں سے ان دونوں کا نکاح نامی ڈھونڈنے لگی۔نہ جانے کیوں وہ اسکے سب کے بعد بھی بس ایک نشانی اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی۔

                    آن نکاح کے کاغذات ڈھونڈ رہی تھی جب اچانک ایک خاکی رنگ کا لفافہ ان کاغزات میں سے نکل کر نیچے گرا اور ایک تصویر آدھی اس لفافے سے باہر نکلی۔

                    آن نے جھک کر اس لفافے کو پکڑا اور حیران ہوئی کہ اس میں کس کی تصویریں ہو سکتی تھیں۔آن نے وہ تصویریں نکال کر دیکھیں تو ساتوں آسمان اس پر ایک ساتھ گرے کیونکہ ہر ایک تصویر اسکی تھی لیکن وہ تصویریں ایسی تھیں کہ آن کا دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

                    اپنی آن برہنہ تصویروں میں وہ کپڑے بدل رہی تھی تو کسی میں نہا رہی تھی صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ تصویریں چھپ چھپا کر لی گئی تھیں۔

                    تصویروں کے بعد آن کو ایک کاغذ ملا جو اس نے کانپتے ہاتھوں میں پکڑ کر کھولا۔

                    "تمہیں کہا تھا نا عرشمان ملک کہ تمہاری بیوی کے ہونٹوں پر ایک مسکان بھی گوارا نہیں مجھے اور تم اسے چھپ چھپا کر گھمانے لے گئے واہ۔پہلے پہل تو میں نے تمہیں صرف اسے دکھی رکھنے کا کہا تھا لیکن تمہاری اس حرکت کی وجہ سے میری مانگ بڑھ گئی ہے اب تم اسے طلاق دے کر خود سے دور کر دو ورنہ اسکی یہ تصویریں پوری دنیا دیکھے گی اور پھر جو حالت تمہاری بیوی کی ہو گی ناں اسکے پاس خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔اس لیے اگر نہیں چاہتے کہ اسکی عزت کا تماشہ بن جائے تو اسے طلاق دے دو تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں سوچنے کو۔"

                    وہ الفاظ پڑھ کر آن بری طرح سے سہم گئی تھی۔ہاتھ پیر خوف سے پھول گئے تھے اور وہ بے یقینی سے ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ آخر کون ہو سکتا ہے جسے اس سے اتنی شدید نفرت تھی۔

                    "تم آئی نہیں ابھی تک کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔"

                    عرشمان نے کمرے میں آتے ہوئے کہا لیکن آن نے چہرے پر وہ خوف اور اسکے ہاتھ میں وہ خاکی کاغذ دیکھ کر اپنی جگہ پر ہی رک گیا۔

                    "ییی۔۔۔۔یہ سب کیا ہے ؟"

                    آن نے سہم کر اس سے پوچھا تو عرشمان سکتے کے عالم میں اپنی جگہ پر جم گیا۔جو راز وہ چھپانا چاہ رہا تھا وہ اب کھل چکا تھا۔
                    ????
                    لیزا کو جو باتیں غلام نے بتائی تھیں انکو جاننے کے بعد وہ کافی اضطراب میں رہی تھی۔پوری رات اس نے عزم کے ماضی کے بارے میں سوچ کر گزاری تھی۔ابھی صبح سویرے اپنے بستر میں بیٹھی وہ اسی بارے میں سوچ رہی تھی جب اسکے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا۔

                    لیزا نے ذہن میں آنے والی سوچ کو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن وہ خیال اسکے ذہن پر سوار ہو گیا تھا۔بہت سوچنے کے باجود جب لیزا کو یہ لگا کہ اسکا خیال درست ہے تو وہ بے چینی سے اٹھی اور کمرے سے باہر آ کر عزم کو ڈھونڈنے لگی۔

                    عزم اسے باہر صحن میں غلام کے ساتھ کہیں جاتا ملا تو لیزا اسکی جانب لپکی۔

                    "عزم۔۔۔۔"

                    لیزا کی پکار پر عزم مڑا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

                    "مجھے تم سے بات کرنی ہے بہت ضروری۔"

                    عزم نے ایک نظر غلام کو دیکھا جس نے اسے یہ بات اردو میں بتائی۔عزم نے اثبات میں سر ہلایا اور واپس حویلی میں داخل ہو گیا۔لیزا نے کچھ دیر سوچا اور پھر عزم کی جانب دیکھا۔

                    "عزم تمہارے ڈیڈ نے تمہارے انکل کو نہیں مارا نہ ہی تمہارے انکل نے تمہارے ڈیڈ کو مارا بلکہ کوئی تیسرا ہے جس نے یہ سب کیا"

                    لیزا کے اتنے یقین سے کہنے پر عزم کے ساتھ ساتھ غلام نے بھی اسے حیرت سے دیکھا۔

                    "یہ بات تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟"

                    غلام نے حیرت سے پوچھا۔لیزا نے بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلے اور سر اٹھا کر عزم کو دیکھا۔

                    "جو میں کہنے جا رہی ہوں وہ بس ایک مفروضہ ہے لیکن بات میں جو لاجک ہے وہ مجھے سکون سے رہنے نہیں دے رہا۔"

                    غلام نے لیزا کی بات اردو میں دہرائی۔

                    "بتاؤ کیا بتانا ہے۔"

                    عزم نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا تو لیزا گہرا سانس کے کر اپنا خیال بتانے لگی۔

                    "عزم تمہارے ڈیڈ ایک امن پسند آدمی تھے جو لڑائی وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑتے تھے اور میرے خیال سے اپنے پاس ہتھیار بھی نہیں رکھتے ہوں گے ایسا ہی ہے ناں؟"

                    غلام نے لیزا کی ساری بات اردو میں دہرائی تو عزم نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

                    "تو پھر جس دن تمہارے انکل ان کے پاس آئے انکے پاس گن کہاں سے آ گئی۔اب اگر کوئی کسی کو مارنے کے ارادے سے آیا ہے تو اسے اتنا موقع تو نہیں دے گا ناں کہ وہ جا کر گن لے کر آئے۔"

                    لیزا کی بات پر عزم کے ساتھ ساتھ غلام بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

                    "اور اس سے بھی زیادہ اہم بات۔۔۔۔"

                    لیزا یہ کہہ کر عزم کے پاس آئی اور اپنا ہاتھ اٹھا کر دو انگلیاں عزم کی جانب کیں۔

                    "اگر میں تمہارے سینے پر گولی چلاؤں گی تو یوں تمہارے سامنے کھڑی ہوں گی اور تمہیں مارنے کے بعد میں تمہارے مرنے کی تسلی کروں گی نہ کہ مڑ کر تمہیں اپنے سر میں گولی مارنے کا موقع دوں گی۔"

                    غلام کے یہ بات اردو میں بتانے پر عزم کے ماتھے پر بل آ گئے۔

                    "مطلب یہ کہ عرشمان کے ڈیڈ کو گولی سر کی بیک سائیڈ پر لگی تھی تو اگر انہوں نے تمہارے ڈیڈ کے سینے پر گولی چلا کر انہیں مار دیا تو ان کے سر پیچھے وہ گولی کیسے مار سکتے تھے؟"

                    لیزا اپنی باتوں سے انہیں ایک بار پھر سے اس سب کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر گئی تھی۔

                    "مجھے لگتا ہے کہ وہاں کوئی تو تیسرا موجود تھا عزم جس نے ان دونوں کو مارا کوئی ایسا تیسرا جس نے وہ سب کروایا اور وہ تیسرا آج بھی تم سب کے درمیان ہے"

                    لیزا اتنا کہہ کر عزم کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ تھام لیا۔

                    "میں چاہتی ہوں عزم کے تم اس شخص کو ڈھونڈ کر سزا دو تا کہ اپنے گلٹ سے باہر آ سکو۔تمہارے ڈیڈ نے کچھ نہیں کیا عزم نہ ہی عرشمان کے ڈیڈ نے پلیز تم دونوں اصلی گناہ گار کو ڈھونڈو جو سب کر کے آج بھی مزے سے زندگی گزار رہا ہے۔"

                    لیزا نے عزم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور عزم بھی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔غلام نے لیزا کی ساری بات اردو میں دہرائی تو عزم گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

                    "مجھے اکیلا چھوڑ دو۔"

                    عزم کے حکم پر غلام نے لیزا کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔لیزا بھی اس فیصلے کو بہتر سمجھتی غلام کے ساتھ وہاں سے آ گئی۔

                    "غزل۔۔۔۔"

                    غلام کے پکارنے پر لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا۔آج پہلی مرتبہ اس شخص نے لیزا کو پکارا تھا۔

                    "میں غلط تھا تم عزم کے لیے بالکل پرفیکٹ ہو اگر عزم کے لیے کوئی پرفیکٹ ہو سکتا تھا تو صرف تم۔۔۔۔ائی ایم پراوڈ آف یو۔"

                    غلام نے بڑے بھائی کی طرح اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ اپنی بات سے وہ لیزا کو سوچنے پر مجبور کر گیا تھا کہ کیا واقعی وہ عزم کے لیے پرفیکٹ تھی دونوں میں وہی فرق تھا جو مشرق اور مغرب میں ہے لیکن پھر بھی نہ جانے وہ کون سی طاقت تھی جو ان دونوں کو ایک بنا گئی تھی۔
                    ????
                    "بتائیں مجھے عرشمان کیا ہے یہ سب؟"

                    آن نے روتے ہوئے پوچھا جبکہ ہاتھ بری طرح سے کانپ رہے تھے۔عرشمان نے بے بسی سے اپنا سر جھکا لیا۔

                    "میں نہیں جانتا آن بس اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری ایسی ہی تصویریں ہمارے نکاح والے دن بھی مجھے بھیجی گئی تھیں اور ساتھ میرے لیے ایک پیغام تھا کہ تمہارے چہرے پر ایک مسکراہٹ اور یہ تصویریں پوری دنیا میں نشر کر دی جائیں گی۔"

                    عرشمان کی بات پر آن کو لگا اسکا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔جسم خوف سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔عرشمان اسکے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑا۔

                    "میں نہیں چاہتا تھا آن کہ تمہیں اس کی خبر ہو میں یہ خوف،یہ شرمندگی تمہارے چہرے پر نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔"

                    عرشمان نے کرب سے اپنی آنکھیں موند لیں جبکہ آن تو سکتے کے عالم میں وہاں کھڑی تھی سانس تک اسکے حلق میں اٹک چکا تھا۔

                    "آن۔۔۔۔آن سانس لو۔۔۔۔"

                    عرشمان نے سہم کر اسے پکارا لیکن آن کو اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونا مشکل لگ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی عرشمان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لا کر لیٹا دیا۔

                    "آن۔۔۔۔"

                    عرشمان نے اسکا گال تھپتپایا لیکن جب وہ ہوش میں نہ آئی تو عرشمان کے ہاتھ پیر بری طرح سے پھول گئے۔اس نے جلدی سے جگ سے پانی اپنے ہاتھ پر ڈالا اور اسے آن پر چھڑکنے لگا۔کچھ دیر بعد آن ہوش میں آئی اور عرشمان کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

                    "کون ہے وہ مان؟ کون ہے وہ جسے میری خوشی گوارا نہیں؟کون ہے جسے مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ میری آبرو تک کے پیچھے پڑا تھا کون ہے وہ مان؟"

                    آن کے سوال پر عرشمان کے چہرے پر بہت زیادہ نفرت آئی تھی۔

                    "پہلے تو میں نہیں جانتا تھا لیکن اب لگنے لگا ہے جیسے جانتا ہوں۔"

                    آن نے سہمی سی نگاہ عرشمان پر ڈالی۔

                    "مجھے شک نہیں بلکہ یقین ہے آن یہ سب تمہاری وہ بہن لیزا کر رہی ہے۔"

                    اس بات پر آن کی ہر خوف نگاہیں حیرت سے پھیل گئیں۔

                    "لیکن لیزا تو بابا کے ساتھ کینیڈا جا چکی ہے ناں"

                    عرشمان کا سر انکار میں ہلتا دیکھ آن مزید پریشان ہو گئی۔

                    "نہیں آن پہلے مجھے بھی یہی لگا تھا کہ وہ کینیڈا جا چکی ہے لیکن وہ یہیں ہے عزم چوہدری کی حویلی میں اسکی بیوی کے طور پر۔"

                    عرشمان نے آن پر بم گرایا۔

                    "کیا مطلب۔۔۔۔؟"

                    "مطلب چچا جانے سے پہلے اسکا نکاح عزم سے کر گئے تھے میں نہیں جانتا انہوں نے ایسا کیوں کیا اگر کچھ جانتا ہوں تو بس اتنا کہ ایک وہ اور اسکا شوہر ہی ہیں جنہیں ہماری خوشیاں گوارا نہیں اور میں انہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"

                    عرشمان نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔

                    " وہ اس حد تک کیسے گر سکتی ہے۔۔۔۔۔نہ جانے یہ تصویریں کس کس نے۔۔۔۔۔کاش میں مر جاؤں مان۔۔۔۔ایسی ذلت دیکھنے سے پہلے میں مر۔۔۔۔"

                    آن کے الفاظ پورے ہونے سے پہلے عرشمان نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا۔

                    "جب تک میں زندہ ہوں آن نہ تم پر اور نہ ہی تمہاری آبرو پر کوئی حرف آنے دوں گا تم دیکھنا میں تمہارے گناہ گار کو تمہارے قدموں میں لا کر پھینکوں گا۔"

                    عرشمان کی آواز عزم سے بھرپور تھی۔

                    "آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں مان؟کیوں اسکی بات مان کر مجھے ازیت دیتے رہے کیوں نہیں بتایا کہ کوئی آپ کو ایسا کرنے کے لیے بلیک میل کر رہا ہے؟"

                    آن کے سوال عرشمان کا سر جھکا گئے۔

                    "میں تمہیں اس ازیت سے نہیں گزارنا چاہتا تھا آن جس سے میں گزر رہا تھا تم سوچ نہیں سکتی کیا حالت ہوئی تھی میری جب میں نے ان تصویروں کو دیکھا۔"

                    اپنے نکاح کی وہ شام یاد کر کے ایک سایہ عرشمان کے چہرے پر آیا۔

                    "میں نے تو تمہیں اسی پل معاف کرنے کا سوچ لیا تھا جب تم میری بیوی بنی تھی۔جانتا ہوں اس رات غصے میں بہت کچھ بول گیا تھا آن لیکن پوری رات اس سب کے بارے میں سوچنے کے بعد میں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ مزید تم سے ناراض نہیں رہوں گا۔"

                    عرشمان نے آن کو اپنے سینے سے لگا کر اسکے بال سہلاتے ہوئے کہا جو ابھی بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔

                    "لیکن نکاح کے بعد جب میں کمرے میں واپس گیا تو یہ تصویریں مجھے وہاں ملیں ایک خط کے ساتھ جن میں یہ لکھا تھا کہ اگر تمہیں اس شادی سے کوئی سکھ یا خوشی ملی تو وہ یہ تصویریں نشر کر دے گا اس لیے تمہاری آنکھوں میں بس آنسو ہی رہنے چاہیں۔"

                    عرشمان بولتا جا رہا تھا اور آن اسکے سینے سے لگی خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔

                    "تمہیں یوں تکلیف دے کر میں کبھی خوش نہیں رہا آن تم سے زیادہ ازیت تمہارے وہ آنسو دیکھ کر مجھے ہوتی تھی دل کرتا تھا اپنی وہ زبان کاٹ لوں جس سے میں تمہارے آنسوؤں کا باعث بنا لیکن میں مجبور تھا آن بہت زیادہ مجبور نہیں جانتا تھا کہ میرا دشمن کون ہے "

                    عرشمان نے بے بسی سے کہا تو آن نے اس سے دور ہو کر اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا۔

                    "آپکو کیا لگتا ہے مان آپکا وہ رویہ مجھے تکلیف نہیں پہنچاتا تھا؟اپنی زندگی سے نفرت ہو گئی تھی مجھے مان اپنے آپ سے نفرت ہو گئی تھی آپ سوچ سکتے ہیں اسکی نفرت آپ کے لیے کیا ہو سکتی ہے جو اپکے جینے کی وجہ ہو۔"

                    آن کے غم سے کہنے پر عرشمان نے آن کو کھینچ کر اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

                    "ساری زندگی اپنے الفاظ کا مداوا کروں گا آن جتنی مرضی سزا دے لینا مجھے لیکن میں تمہاری عزت پر ہلکی سی آنچ بھی نہیں آنے دوں گا میں۔"

                    عرشمان کی پکڑ اسکے گرد مظبوط ہوئی جیسے کہ کوئی اسے اس سے چھین کر لے جائے گا۔

                    "اب ہم کیا کریں گے مان کیسے روکیں گے اسے؟"

                    آن نے سہم کر پوچھا۔دل ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بھی پل خوف سے بند ہو جائے گا۔

                    "فلحال تم لاہور جا رہی ہو آن تمہیں مری لے جا کر یہ تو سمجھ گیا تھا میں کہ اس لیزا کی پہنچ بس اس حویلی تک ہے اس لیے میں تمہیں اس حویلی سے دور بھیج دوں گا آن پھر جب وہ میری پکڑ میں ہو گی تو ہر چیز کا بدلہ لوں گا اس سے۔"

                    عرشمان نے وحشت سے کہا اور اسکی پکڑ آن کے گرد مظبوط ہو گئی لیکن وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی پر تھا دشمن تو اسکے بہت قریب تھا لیکن وہ اس سے انجان تھا۔
                    ????
                    کنیز اماں بی کے کمرے میں موجود انکے کپڑے استری کر رہی تھی۔اماں بی نے اسے کہا تھا کہ انکے سب کپڑے وہ شام تک استری کر دے اور دھیان سے انکے کمرے میں رہتے ہوئے وہ یہ کام کرے۔

                    کنیز حیران تھی کیونکہ اماں بی نے اتنی سختی سے اسے کبھی کوئی کام نہیں کہا تھا لیکن پھر بھی وہ پوری توجہ سے اپنا کام کر رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور فرحین بیگم کمرے میں آئیں۔

                    "تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

                    فرحین بیگم کے سوال پر کنیز کپڑے چھوڑ کر جلدی سے سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔

                    "اماں بی کے کپڑے استری کر رہی ہوں وہ اماں بی نے کہا تھا شام تک سارے کپڑے استری کر دوں۔"

                    کنیز نے بہت عقیدت سے جواب دیا۔

                    "اچھا چھوڑو یہ سب بعد میں بھی ہوتا رہے گا فلحال نیچے چلو منگنی ہے آج گھر میں بہت سارا کام ہے۔"

                    فرحین کے حکم نے کنیز کو بے چین کیا اسے سلطان کا حکم یاد آیا کہ وہ اماں بی کے علاوہ کسی کا کام نہ کرے۔

                    لیکن یہ تو سائیں جی کی ماں ہیں ناں انکا حکم نہ مانا تو زیادہ غصہ آئے گا سائیں جی کو۔

                    کنیز نے اضطراب کے عالم میں سوچا۔

                    "تمہیں سنائی نہیں دیا لڑکی میں نے کیا کہا چلو نیچے۔"

                    کنیز نے ہاں میں سر ہلایا اور نیچے آ کر باقی ملازماؤں کا ہاتھ بٹانے لگی جو طرح طرح کے کھانے میز پر سجانے میں مصروف تھیں۔

                    "میٹھائی کہاں ہے بھئی میٹھائی لاؤ۔۔۔۔"

                    فرحین بیگم کی آواز پر ایک ملازمہ نے مٹھائی کی بڑی سی پلیٹ کنیز کو پکڑا دی اور دوسری خود پکڑ لی۔

                    "آؤ میرے ساتھ۔"

                    کنیز نے ہاں میں سر ہلایا اور میٹھائی کی وہ پلیٹ لا کر وہاں موجود میز پر رکھ دی۔

                    "لو بھئی آ گئی میٹھائی بھی سلطان چلو انگوٹھی پہناؤ اب۔"

                    سلطان نے نام پر کنیز نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو یک وقت دل پر ہزار بجلیاں گریں۔وہ سلطان کوئی نہیں اسکا شوہر سلطان ملک ہی تھا جو گلابی سوٹ میں سجی انابیہ کے بغل میں بیٹھا۔

                    سلطان نے ایک نگاہ سانس روک کر وہاں کھڑی کنیز کو دیکھا اور پھر اپنا سر جھکاتے ہوئے انابیہ کا ہاتھ پکڑ کر اس میں انگوٹھی پہنا دی۔

                    اسکے ایسا کرتے ہی سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے لیکن کنیز کا دل کر رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر پوچھے یہاں کیا ہو رہا ہے کیوں اسکے شوہر کا ہاتھ کسی اور عورت کے ہاتھ میں ہے۔

                    وہ ایسا کرتی بھی لیکن پھر اسے اپنی اوقات یار آئی وہ کون ہوتی تھی کسی سے کچھ پوچھنے والی وہ تو بس کنیز تھی اور اپنے شوہر کے مطابق ایک میڈ(ملازمہ)بھلا اسکی بات کو کوئی اہمیت ہی کیوں دیتا۔

                    اپنی بے بسی اور کرب پر کنیز جلدی سے وہاں سے چلی گئی اور اماں بی کے کمرے میں واپس آ کر فرش پر بیٹھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔دل تھا کہ اس منظر پر نوحا کناں تھا بھلا کوئی بھی بیوی کیسے اپنے شوہر کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں برداشت کر سکتی تھی؟

                    کنیز کے احساس ہوا کہ اسکے سامنے کوئی کھڑا ہے تو کنیز نے گھٹنوں میں سے سر نکال کر سلطان کو دیکھا جو اسے کرب سے دیکھ رہا تھا۔

                    پھر سلطان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اسکے آنسو پونچھ دیے۔

                    "آآآ۔۔۔۔۔آپ انابیہ باجی سے منگنی کر رہے ہیں سائیں؟"

                    کنیز کے اس قدر کرب سے پوچھنے پر سلطان کا دل کیا کہ اپنے ہزار ٹکڑے کر دے لیکن پھر بھی اس نے ضبط سے آنکھیں موندتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

                    "شش۔۔۔۔شادی بھی کر لیں گے ان سے؟"

                    اب کی بار کنیز کی آواز میں پہلے سے بھی زیادہ کرب تھا۔سلطان نے پھر سے ہاں میں سر ہلا دیا اور کنیز کو لگا تھا کہ کسی نے اکسی جان نکال لی ہو۔

                    وہ فوراً سلطان سے دور ہوئی اور روتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکے سامنے جوڑ دیے۔

                    "آپکو اللہ کا واسطہ ہے سائیں آپ ان سے شادی نہ کریں۔۔۔ممم۔۔۔۔میں آپ کے قابل بن جاؤں گی آپ جو کہیں گے کروں گی۔۔۔۔سسسس۔۔۔۔ساری زندگی آپکے قدموں میں گزار دوں گی۔۔۔۔ااا۔۔۔۔انابیہ باجی کی طرح پڑھوں گی۔۔۔بب۔۔۔۔بس آپ ان سے شادی نہ کریں۔"

                    کنیز کی بات پر سلطان کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

                    "ممم۔۔۔مجھے پتہ ہے سائیں کہ آدمی۔۔۔۔چچچ۔۔۔۔چار شادیاں کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ببب۔۔۔۔باھ
                    جی نے بتایا تھا اور ہمارے سردار جی نے بھی دو شادیاں کی تھیں لیکن۔۔۔۔ممم۔۔۔میں نہیں چاہتی کہ آپ ایک اور شادی کر لیں۔۔۔۔بس میری یہ بات مان لیں سائیں کیں کبھی کچھ نہیں مانگوں گی۔۔۔۔۔"

                    کنیز نے روتے ہوئے کہا اور اب وہ سلطان کے پیروں میں بیٹھ کر اسکے پیر پکڑ چکی تھی۔

                    "ممم۔۔۔میں ساری زندگی آپکی کنیز بن کر رہوں گی سائیں دوسری شادی مت کریں آپ۔۔۔۔آپ کو اللہ کا واسطہ۔۔۔۔"

                    کنیز نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا تو سلطان کی بس ہوئی وہ خود بھی کنیز کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔

                    "بس کر دو کنیز مجھے میری نظروں میں مزید اتنا مت گراؤ کہ کبھی بھی احساس ندامت سے اٹھ نہ پاؤں میں۔۔۔۔"

                    سلطان نے آنکھیں موند کر کہا جبکہ دو آنسو اسکی پلکوں پر ٹھہرے تھے اور کنیز تو بس زارو قطار رونے میں مصروف تھی۔

                    "بس یہ سمجھ لو کہ تمہارا سلطان مجبور ہے کنیز اتنا مجبور کہ اپنی کنیز کو جان سے زیادہ چاہنے پر بھی اسے اپنی ملکہ نہیں بنا سکتا۔"

                    سلطان نے بے بسی سے کہا تو کنیز مزید سسک سسک کر رو دی۔وہ سب برداشت کر گئی تھی اسکا خود کو اپنی ملازمہ بتانا،راشدہ کا اس سے جانوروں کی طرح کام کروانا سب لیکن یہ اسکی برداشت سے باہر تھا۔

                    "بس مجھے معاف کر دینا کنیز میں تمہیں اپنے دل کے علاؤہ کہیں بھی اپنی محبت ،اپنی چاہت کا مقام نہیں دے پایا اور امید کرتا ہوں کہ خدا روز قیامت مجھے اس کی سخت سے سخت سزا دے،جہنم سے بھی زیادہ دردناک سزا۔"

                    اتنا کہہ کر سلطان اپنے آنسو پونچھتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا لیکن کنیز وہیں فرش پر بیٹھی روتی رہی تھی۔آج جو گھاؤ اسکے سلطان نے اسے دیا تھا وہ اس کنیز کو مکمل طور پر توڑ کر رکھ گیا تھا۔

                    .................................................. .................................................. .................................................. .................................................. ...........


                    #زندگی_اے_تیرے_نال
                    #قسط_نمبر_30



                    عرشمان آن کو لاہور چھوڑ کر آ چکا تھا لیکن سارا دھیان ابھی بھی اسی پر تھا۔وہ اسے خود سے دور کر کے محفوظ تو کر گیا تھا لیکن اپنا دل بھی اسی کے پاس چھوڑ آیا تھا۔وہ جس سے ایک پل کی دوری عرشمان ملک کو گوارا نہیں تھی آج مجبوری میں اسے خود سے اتنا دور بھیجنا پڑا تھا اور یہ عرشمان کے لیے سب سے بڑی سزا تھی۔

                    "ملک صاحب۔۔۔۔"

                    اپنے خاص آدمی کی آواز پر عرشمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

                    "آپ سے ملنے کوئی آیا ہے؟"

                    اس آدمی کی جھجک پر عرشمان کافی حیران ہوا۔اس سے اسکے ڈیرے پر اکثر کی کوئی نہ کوئی ملنے آتا تھا تو پھر اس گھبراہٹ کی وجہ؟

                    "کون ہے؟"

                    عرشمان نے سامنے موجود کاغذات پر دھیان دیتے ہوئے پوچھا۔

                    "ع۔۔۔۔عزم چوہدری۔۔۔۔"

                    اس نام پر عرشمان کی آنکھوں میں وحشت اتری اور اس نے انگارہ ہوتی آنکھیں اٹھا کر اپنے آدمی کو دیکھا۔

                    "اسکی اتنی جرات؟"

                    غصے سے کہتے عرشمان اپنی جگہ سے اٹھا اور ڈیرے سے باہر آیا جہاں عزم اپنی گاڑی کے پاس شان سے کھڑا تھا۔

                    "تمہاری اتنی ہمت کہ تم ملکوں کے ڈیرے پر قدم رکھو عزم چوہدری۔اگر چاہتے ہو ہاتھ پیر سلامت رہیں تو دفع ہو جاؤ یہاں سے ورنہ خود چل کے جانے کہ قابل نہیں رہو گے۔"

                    اسکی بات پر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔وہ اپنی گاڑی سے دور ہو کر عرشمان کے پاس آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

                    "تم سے بات کرنی ہے مجھے عرشمان۔"

                    "لیکن مجھے نہیں کرنی۔۔۔۔"

                    عرشمان نے عزم کا ہاتھ جھٹک کر کہا تو عزم نے گہرا سانس لے کر اپنے غصے پر قابو کیا۔اسکے سامنے موجود وہ آدمی اسے ابھی بھی اپنا نادان چھوٹا بھائی لگا تھا ۔

                    "بس ایک بار میری بات سن لو عرشمان اسکے بعد میں خود یہاں سے چلا جاؤں گا لیکن بس ایک بار جوش کی بجائے ہوش سے کام لے کر میری بات سن لو۔"

                    عرشمان نے اسکی بات پر کچھ دیر سوچا چہرے کے زاویے بتا رہے تھے کہ وہ اس شخص پر بھروسہ نہیں کرتا لیکن پھر کچھ سوچ کر عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

                    عزم اسکے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا تو عرشمان نے سرد مہری سے اسکی جانب دیکھا۔

                    "جو کہنا ہے جلدی کہو زیادہ دیر تمہیں یہاں برداشت نہیں کر سکتا میں۔"

                    عرشمان کی بات پر عزم نے سرد آہ بھری۔

                    "تمہارا یہ جوش اور جزبات سے کام لینا عرشمان ہمیں پہلے بھی نقصان میں ڈال گیا تھا اور آج بھی ڈال رہا ہے لیکن تمہاری طرح ہوش سے کام میں نے بھی نہیں لیا تھا اسی لیے تو اتنے سالوں سے یہ بات سوچ نہیں سکا."

                    "صاف صاف کہو کیا کہنا ہے۔"

                    عرشمان نے اپنے سامنے پڑے پیپرز کو دیکھتے ہوئے کہا۔

                    "ماموں نے بابا کو نہیں مارا تھا عرشمان نہ ہی بابا نے ماموں کو مارا تھا بلکہ ہمیں وہ دیکھایا گیا جو وہاں ہوا ہی نہیں۔"

                    عرشمان بارہ سال پہلے کا ہر واقعہ یاد کر کے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔

                    "اور تمہیں کیونکر لگتا ہے کہ میں تمہاری بات پر یقین کروں گا؟"

                    "کیونکہ جو میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں مجھے امید ہے کہ تم بھی اس بارے میں سوچنے پر مجبور ضرور ہو جائے گے بس ایک بار میری بات کو جوش کی بجائے ہوش سے سننا۔"

                    کچھ دیر سوچ کر عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا تو عزم نے اسے ہر وہ بات بتا دی جو لیزا نے اسے بتائی تھی اور ان دلائل کو سن کر عرشمان بھی گہری سوچ میں ڈوب چکا تھا۔

                    "ہم دونوں نے ہی تب ایک غلطی کی عرشمان اس بارے میں سوچنے کی بجائے جزبات کے بھنور میں بہہ گئے شائید اسی لیے ہم دونوں یہ بات سوچ نہیں پائے لیکن کسی نے ایک ہی رات میں یہ بات سوچ لی۔"

                    آخری بات کہتے ہوئے عزم کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان آئی تھی۔عزم نے ایک نظر عرشمان کو دیکھا جو گہری سوچ میں ڈوبا وہاں بیٹھا تھا۔

                    "دیکھو عرشمان میں یہ نہیں کہتا کہ تم مجھ پر یقین کرو بس اتنا چاہتا ہوں تم اس بارے میں سوچو تا کہ ہم دونوں اس بے جا نفرت سے باہر آ سکیں جو سالوں سے ہمیں نگل رہی ہے۔"

                    اس بات پر عرشمان نے نظریں اٹھا کر عزم کو دیکھا وہ چاہ کر بھی عزم کو دھتکار نہیں سکتا تھا کیونکہ جو دلائل عزم نے دیے تھے وہ بے جا نہیں تھے۔اپنے پھوپھا کو تو وہ بھی جانتا تھا وہ تو انتہائی امن پسند آدمی تھے اور اسکی پھپھو کو جان سے زیادہ چاہتے تھے پھر وہ ایسا کیسے کر سکتے تھے لیکن پھر وہ ملازمائیں اور انکی باتیں۔

                    عرشمان بہت گہری کشمکش میں مبتلا ہو چکا تھا۔

                    "اگر جو تم کہہ رہے ہو وہ سچ ہے تو یہ سب کس نے کیا؟"

                    عرشمان نے اضطراب کے عالم میں پوچھا۔

                    "یہ میں نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ دشمن جو کوئی بھی تھا تمہارے یا میرے بہت قریب تھا اور شائید آج بھی ہے۔"

                    عرشمان اس بات پر مزید بے چین ہوا۔عزم گہرا سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔

                    "مجھے امید ہے عرشمان کہ اس مرتبہ تم عقلمندی سے کام لو گے نہ کہ جزبات سے۔"

                    اتنا کہہ کر عزم وہاں سے چلا گیا لیکن عرشمان کو مکمل طور پر اضطراب میں ڈال چکا تھا۔عرشمان ملک اپنے کیے ہر فیصلے اور اپنے بولے گئے ہر لفظ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو چکا تھا۔
                    ????
                    آج سلطان اور انابیہ کی مایوں کی رسم تھی۔سب لوگ خوشیوں میں مصروف تھے اور کنیز تنہا کمرے میں گھٹنوں میں چہرہ چھپائے رو رہی تھی۔

                    اسے سلطان اور انابیہ کی شادی کے بارے میں خبر ہوئے تقریباً دو ہفتے ہو چکے تھے اور یہ سارا وقت کنیز نے اماں بی سے چھپ کر کتنے آنسو بہائے تھے یہ وہی جانتی تھی۔

                    اپنی ہر نماز کے بعد اس نے رب سے بس یہی دعا مانگی تھی کہ سلطان بس اسکا رہے اسکی محبت بس اسے ملے لیکن شائید اسکی دعا بھی قبول نہیں ہو رہی تھی اسی لیے اسکا سلطان اسکے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل کر انابیہ کی گود میں گرتا جا رہا تھا۔

                    اس دن کے بعد کنیز کا سامنا بھی اس سے نہیں ہوا تھا شائید وہ کنیز سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا لیکن اس معصوم کو تو یہی لگ رہا تھا کہ اب وہ اپنے سلطان کو اچھی نہیں لگتی یا اس سے کوئی ایسی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے سلطان اس سے دور ہو کر انابیہ کا ہو رہا ہے۔

                    یہ بات اپنے معصوم ذہن میں بیٹھاتی کنیز اپنے آنسو پونچھ کر اٹھی اور سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی۔سلطان کے کمرے کے باہر آ کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے دروازا کھٹکھٹایا۔

                    "آ جاؤ۔"

                    سلطان کی سرد مہر سی آواز پر وہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گئی۔سلطان جو اپنی ماں کی خوشی کے لیے سفید شلوار قمیض پہن کر کھڑا تھا کنیز کو دیکھ کر اسکا ہر زخم پھر سے ہرا ہو گیا۔

                    کنیز نے ایک نظر اسے سر سے لے کر پیر تک دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے پاس آئی۔

                    "سس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"

                    کنیز کے پکارنے پر سلطان اپنا سر جھکا گیا۔اسکا دل کیا اس لڑکی کے پیروں میں گر جائے اور اس سے کی جانے والی زیادتی پر ساری زندگی اس سے معافی مانگتا رہے۔

                    "آآآ۔۔۔۔آپ سے کچھ پوچھ لوں؟"

                    کنیز کی رندھی ہوئی آواز نے اسے آدمی کا دل چیر کر رکھ دیا تھا۔

                    "پوچھو۔۔۔۔"

                    سلطان نے اپنے بکھرے جزبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

                    "مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے۔۔۔۔۔آآآ۔۔۔آپ بتا دیں قسم سے میں وہ غلطی پھر نہیں کروں گی۔۔۔۔"

                    کنیز کی بات نے سلطان کو مکمل طور پر توڑ کر رکھ دیا تھا۔سلطان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کرتے ہوئے اپنی آغوش میں لے کر اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپا لیا اور کب سے گلے میں اٹکے آنسؤں کو بہنے کی اجازت دے دی۔

                    "مم ۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے میں ہی بری ہوں۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اسی لیے آپ دوسری شادی کر رہے ہیں ناں۔۔۔۔مجھے بتا دیں میں نے کیا کیا ہے۔۔۔۔چاہے تو دو تھپڑ لگا لیں لیکن بس انابیہ باجی سے شادی نہ کریں۔۔۔۔"

                    کنیز نے اسکے مظبوط وجود میں سمٹ کر روتے ہوئے کہا تو سلطان کے آنسو مزید روانی سے بہنے لگے۔اسکا دل کیا اس نازک سی گڑیا کو اپنے دیے ہر گھاؤ سے بچا کر خود میں چھپا لے۔

                    "ایک بات یاد رکھنا کنیز تم بری نہیں ہو،نہ ہی تم نے کچھ کیا ہے اگر قصور ہے تو تمہاری قسمت کا جس نے تمہیں اتنے کمزور آدمی کے ساتھ جوڑا ہے۔۔۔۔"

                    سلطان نے اسکی کمر سہلاتے ہوئے کہا جو رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔

                    "جانتی ہو اگر تمہارے لیے دنیا سے لڑنے کی بات آتی تو میں بخوشی لڑ جاتا لیکن ایک جانب تم ہو کنیز،میری محبت ،چاہت،میرا جنون تو دوسری جانب میری ماں ہے وہ جو مجھے اس دنیا میں لائی،وہ جس کے قدموں تلے میری جنت ہے۔۔۔۔۔"

                    سلطان نے اسکی گردن سے چہرہ نکالے بغیر نم آواز میں کہا۔

                    "میں ان سے نہیں لڑ سکتا کنیز۔۔۔۔"

                    سلطان نے مظبوطی سے کنیز کو خود میں سماتے ہوئے کہا۔

                    "آآآ۔۔۔۔۔آپ ان سے رو کر کہیں ناں کہ میں آپکی بیوی ہوں وہ۔۔۔۔وہ مان جائیں گی جب میں اپنی اماں سے رو کر کچھ بھی مانگتی تھی تو میری اماں ضرور دیتی تھیں۔"

                    کنیز کی معصوم بات پر سلطان کو اپنے اندر سب کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔

                    "میرے بچپن سے انکی خواہش تھی کہ میری شادی انابیہ سے ہو اگر میں نے انکی خواہش پوری نہیں کی تو وہ ٹوٹ جائیں گی کنیز اپنی بہن کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہیں گی جن سے انکی بیٹی دس سال کی عمر میں امانت کے طور پر لے لی تھی۔"

                    سلطان نے اسے سمجھانا چاہا اپنی مجبوری سے آگاہ کرنا چاہا۔

                    "میں اپنی ماں کا سر شرمندگی سے جھکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔"

                    اس بات پر کنیز سلطان سے دور ہوئی اور نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔

                    "فاسنے۔۔۔دوست کو نہیں کہتے ناں؟مم۔۔۔۔منگیتر کو کہتے ہیں ناں؟"

                    کنیز کے سوال پر سلطان کا سر شرم سے جھک گیا اور اس نے ہاں میں سر ہلایا۔جبکہ اسکا جواب کنیز کو مکمل طور پر توڑ گیا تھا۔

                    "آپ نے پھر سے مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔۔میرے ان پڑھ ہونے کا فایدہ اٹھایا سائیں۔۔۔۔"

                    اسکی آواز میں موجود دکھ کو محسوس کر سلطان کا دل کیا کہ اپنی جان لے لے۔

                    "اللہ کسی کو کیسی بھی مشکل میں ڈال دے لیکن کبھی اتنا بے بس نہ کرے کہ لوگ اسکی بے بسی کا فایدہ اٹھانے لگیں کیونکہ جب اسے سب پتہ لگتا ہے ناں تو بہت تکلیف ہوتی ہے سائیں بہت۔۔۔ "

                    کنیز نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے کہا۔سلطان نے آگے ہو کر اسے اپنی باہوں میں لینا چاہا لیکن کنیز فوراً اس سے دور ہو گئی۔

                    "آپ اپنی امی کی بات مان لیں سائیں۔۔۔۔وہ آپکی ماں ہیں حق ہے انکا آپ پر۔۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرا کیا ہے کنیز کا کوئی حق نہیں ہوتا،کسی پر حق نہیں ہوتا۔۔۔۔"

                    کنیز نے روتے ہوئے کہا تو سلطان کرب سے اپنی آنکھیں موند گیا۔

                    "آپ کو شادی مبارک سائیں۔۔۔۔۔"

                    اتنا کہہ کر کنیز مڑی اور روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی لیکن جانے سے پہلے سلطان کو مکمل طور پر بکھیر گئی تھی۔سلطان نے اپنا ہاتھ ڈریسنگ کے شیشے پر اتنی زور مارا کے شیشہ ٹوٹ کر چکنا چور ہوتے ہوئے اسکے ہاتھ کو زخمی کر گیا۔

                    خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا لیکن سلطان کو اس کا کوئی احساس بھی نہیں تھا۔دل میں تو کرب کا طلاطم برپا تھا تو پھر جسم کی تکلیف اسے کہاں محسوس ہوتی۔ابھی تو کوئی اسکی بوٹی بوٹی نوچ لیتا تو اسے وہ بھی محسوس نہ ہوتا۔
                    ????
                    عرشمان حویلی واپس آتے ہی سیدھا اماں بی کے کمرے میں گیا تھا۔عرشمان کے چہرے پر وہ پریشانی دیکھ کر اماں بی بھی پریشان ہو گئیں۔

                    "کیا بات ہے عرشمان سب ٹھیک تو ہے؟آن تو ٹھیک ہے ناں؟"

                    اماں بی کو سب سے پہلے اپنی پوتی کا خیال آیا جسے عرشمان نہ جانے کیوں اتنی دور چھوڑ آیا تھا۔

                    "وہ ٹھیک ہے اماں بی اس وقت میری پریشانی آن نہیں بلکہ کچھ اور ہے؟"

                    عرشمان کی بات پر اماں بی نے اضطراب سے اسکی جانب دیکھا۔

                    "کیا ہو گیا ہے عرشمان؟"

                    "عزم مجھ سے ملنے آیا تھا۔"

                    عزم کے ذکر پر اماں بی کا دل بہت بے چین ہوا۔اپنی بیٹی کی اکلوتی نشانی سے وہ آج بھی خود کو نظریں ملانے کے قابل نہیں سمجھتی تھیں۔

                    "کیا کہا اس نے؟"

                    عرشمان نے ایک گہرا سانس لیا اور ساری بات جو عزم نے اسے بتائی تھی وہ اماں بی کو بتا دی جسے جان کر اماں بی بھی کافی پریشان ہو چکی تھیں۔

                    " ویسے تو میں یہ بات امی کو بھی بتانا چاہتا تھا لیکن وہ سلطان کی شادی کو لے کر بہت زیادہ خوش ہیں میں انہیں دکھی نہیں کرنا چاہتا اس لیے صرف آپ کو بتا رہا ہوں۔"

                    اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے اماں بی نے اثبات میں سر ہلایا۔

                    "اب تم کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟"

                    عرشمان نے کچھ دیر اس سوال پر غور کیا۔

                    "آپ کو وہ دونوں ملازمہ یاد ہیں جنہوں نے نے آ کر بابا سے یہ کہا تھا کہ پھوپھا نے پھپھو کو مارا ہے ؟"

                    اماں بی نے فورا اثبات میں سر ہلایا۔

                    "جیسا عزم کہہ رہا ہے اگر وہ سچ ہی تو ضرور ان ملازمہ نے جھوٹ بولا تھا اور وہ جھوٹ انہوں نے کسی کے کہنے پر بولا تھا۔ میں ان کا پتہ لگا کر ان سے ملوں گا اور ان سے سچ اگلواؤں گا پھر سارا سچ صاف ظاہر ہو جائے گا ۔"

                    ہم ابھی نے اس بات پر اثبات میں سر ہلایا کیونکہ اس وقت حکمت عملی کا مظاہرہ یہی تھا۔

                    "اس کا مطلب تمہیں عزم کی بات پر یقین ہے ؟"

                    عرشمان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کچھ دیر اس سوال کے بارے میں سوچا۔

                    "جو دلائل اس نے دیے ہیں انہیں دھتکارا نہیں جا سکتا۔ایک بار وہ ملازمہ اصلی گناہگار کا بتا دے پھر دیکھیں گے کہ میرے یقین کا کیا ہوتا ہے۔"

                    اماں بی نے عرشمان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جو گہری سوچ میں ڈوبے یہ بات کہہ رہا تھا۔

                    "میں دعا کروں گی کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو بے شک میرا رب سچ کو باطل پر فتح دینے والا ہے۔"

                    عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا تو اماں بی مسکرا دیں۔

                    "فلحال یہ بات ہم دونوں کے درمیان کی رہے تو بہتر ہے سچ ثابت ہو جانے پر ہم فرحین اور سلطان کو بھی اس بات سے آگاہ کر دیں گے۔"

                    "جی اماں بی یہی بہتر ہے۔"

                    عرشمان نے سنجیدگی سے کہا لیکن وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ کوئی دروازے کے باہر کھڑا انکی ہر ایک بات سن چکا تھا۔
                    ????
                    دو دن طرح طرح کے فنکشن کرنے کے بعد آج سلطان اور انابیہ کی شادی کا دن بھی آ پہنچا تھا۔کنیز اماں بی کے پاس سنجیدگی سے بیٹھی انکے پیر دبا رہی تھی۔

                    جتنا رونا تھا اس نے اس رات ہی رو لیا تھا اب وہ آنسو نہیں بہاتے تھی بس ایک بے جان گڑیا کی طرح تھی جسے جو کوئی بھی کچھ کہتا وہ کر دیتی۔

                    "کنیز بیٹا۔۔۔"

                    اماں بی کے پکارنے پر کنیز نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

                    "مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی دیکھو کتنی کمزور سی ہو گئی ہو تم۔"

                    اماں بی کی بات پر ایک سایہ سا کنیز کے چہرے پر آیا۔

                    جب زندہ رہنے کا دل ہی نہ کرے تو کمزوری صحت سے زیادہ اچھی لگنے لگتی ہے اماں بی۔

                    کنیز نے دل میں سوچا لیکن ان سے یہ بات کہی نہیں بس میں ٹھیک ہوں کہہ کر انکے پیر دبانے لگی۔اماں بی نے کچھ اور کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے لیکن تبھی فرحین بیگم کمرے میں آئیں۔

                    "ارے آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں اماں بی لڑکیاں تو دلہن کو بھی تیار کر رہی ہیں۔"

                    فرحین بیگم نے اپنی سفید رنگ کی ساڑی کا پلو سنبھالتے ہوئے کہا۔

                    "سلطان کہاں ہے وہ تیار ہو گیا؟"

                    سلطان کے ذکر پر کنیز کا دل ایک بار پھر سے خون کے آنسو رونے لگا لیکن آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہیں آیا۔

                    "نہیں وہ کل رات اسکے ہاتھ پر زرا سی چوٹی کے گئی تھی تو عرشمان اسے ہاسپٹل لے کر گیا ہے چیک کروانے بس کچھ ہی دیر میں آتے ہوں گے دونوں۔"

                    اماں بی نے ہاں میں سر ہلایا جبکہ سلطان کی چوٹ کے بارے میں جان کر کنیز بری طرح سے بے چین ہوئی تھی۔تبھی ایک ملازم اجازت لے اندر آیا۔

                    "آپ نے گجرے منگوائے تھے بی بی جی۔"

                    فرحین بیگم نے ہاں میں سر ہلا کر اس کے ہاتھ سے گجروں کا شاپر لیا اور کنیز کی جانب بڑھایا۔

                    "جاؤ انابیہ کو دے کر آؤ یہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہی ہے وہ۔"

                    انکی بات پر کنیز کا دل بہت بری طرح سے بے چین ہوا۔

                    "کنیز میری ملازمہ ہے فرحین تم اسے اپنا کام مت بولو۔۔۔۔کنیز بیٹا تم میرے کپڑے نکالو۔"

                    اماں بی نے نرمی سے کنیز سے کیا تو فرحین بیگم نے دانت کچکچائے۔

                    "کچھ نہیں ہو جائے گا اسے تھوڑا سا کام کرنے پر اور آپکی بہو ہے یہاں آپ کے کپڑے نکال دے گی۔۔۔۔جاؤ لڑکی۔"

                    فرحین بیگم نے حکم دیا تو کنیز نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شاپر ہاتھ میں پکڑا اور انابیہ کے کمرے کی جانب چل دی۔کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر انابیہ پر پڑی جو لال لہنگے میں ملبوس تھی اور تین چار لڑکیاں اسے سجانے میں مصروف تھیں۔

                    انابیہ کے اس سجے روپ کو کنیز نے مردہ آنکھوں سے دیکھا۔آج اس لڑکی نے سلطان کا ہو جانا تھا پھر کیا وہ سلطان کے پاس اسکے کمرے میں رہا کرے گی؟کیا سلطان اس سے ویسے ہی محبت جتائے گا جیسے اس نے کنیز کو جتائی تھی؟کیا انابیہ سے محبت ہونے کے بعد سلطان اسے چھوڑ دے گا؟اگر ایسا ہوا تو کنیز کہاں جائے گی؟انکے معاشرے میں تو شوہر کے گھر سے عورت کا جنازہ اٹھتا تھا۔اگر کنیز زندہ وہاں واپس گئی تو اسکے بابا کی عزت کا کیا ہو گا؟

                    یہ سب سوال اس قدر دردناک تھے کہ اس معصوم لڑکی نے اپنے مرنے کی دعا کی تھی۔

                    "وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ۔"

                    انابیہ کی آواز پر کنیز حقیقت کی دنیا میں واپس آئی اور انابیہ کے سامنے آ کر اس نے گجرے اسکے سامنے کیے۔

                    "بیگم صاحبہ نے بھیجے ہیں یہ گجرے۔"

                    "تو دے کیا رہی ہو پہناؤ مجھے۔"

                    انابیہ نے رعب سے کہا تو کنیز نے اسے ایسے دیکھا جیسے غلط سنا ہو لیکن پھر اس سب میں انابیہ کا کیا قصور تھا اسکے شوہر نے پہلے دن ہی اسکی حیثیت ایک ملازمہ کی رکھی تھی۔

                    کنیز اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اسکے ہاتھ تھام کر ان میں گجرے پہنانے لگی۔کیسی قسمت تھی اسکی اپنی سوتن کو سجانے کا کام بھی اسے ہی کرنا تھا۔

                    کنیز گجرے پہنا کر اٹھنے لگی تو انابیہ نے پائلوں کا جوڑا اسکے سامنے کیا۔

                    "یہ بھی پہناؤ۔۔۔"

                    اتنا کہہ کر انابیہ نے اپنے پیر اسکے سامنے کیے تو نہ چاہتے ہوئے بھی دو آنسو کنیز کی آنکھوں سے ٹوٹ کر فرش پر گرے۔

                    کنیز وہ پائلیں بھی اسکے پیروں میں پہنانے لگی۔

                    "ماشاءاللہ انابیہ کتنی پیاری لگ رہی ہو ناں تم بالکل سلطان کی ملکہ لگ رہی ہو۔"

                    انابیہ کی بڑی بہن فاریہ نے اسکی تعریف کرتے ہوئے کہا تو کنیز کی آنکھیں روانی سے بہنیں لگیں۔

                    "آپ بھی عرشمان بھائی کی ملکہ بنتیں اگر وہ آن نہ ہوتی تو پر کیا ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔"

                    انابیہ نے منہ بنا کر کہا اور اپنے قدموں میں بیٹھی کنیز کو دیکھا۔

                    "اب کیا نظر لگاؤ گی میرے پاؤں کو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"

                    انابیہ کے ایسا کہتے ہی کنیز اٹھ کر وہاں سے بھاگ گئی اور باہر آ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔یہ سب اسکے لیے بہت زیادہ مشکل تھا بھلا کوئی بھی بیوی اپنی آنکھوں سے اپنے شوہر کو کسی اور کا ہوتے کیسے دیکھ سکتی تھی۔

                    کنیز کے لیے بھی یہ سب ناممکن تھا لیکن یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اسے سب کچھ پھر بھی برداشت کرنا تھا۔اچانک ہی کنیز کا سر بری طرح سے چکرایا تو کنیز بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔اس نازک جان کی غم سہنے کی ہمت شائید ختم ہو چکی تھی۔
                    ????
                    "کیا ہوا بچی کو ڈاکٹر صاحبہ ٹھیک تو ہے ناں؟"

                    اماں بی نے پریشانی سے ڈاکٹر سے پوچھا جو کنیز کا چیک اپ کر کے ابھی کمرے سے باہر آئی تھیں۔وہ خاصہ پریشان ہو گئی تھیں جب ملازمہ نے آ کر انہیں یہ بتایا کہ کنیز انہیں ہال میں بے ہوش پڑی ملی تھی۔

                    "ٹھیک ہی تو وہ نہیں ہے آپ لوگ اتنے کئیر لیس کیسے ہو سکتے ہیں ایک تو وہ بچی بے چاری اتنی کم عمر ہے اور اس پر نا جانے کب سے بھوکی ہے آپکو اس حالت میں تو اسکا خیال رکھنا چاہے ناں۔"

                    ڈاکٹر نے زرا سختی سے کہا تو اماں بی کے ساتھ کھڑی فرحین بیگم نے حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھا۔

                    "اس حالت میں مطلب؟"

                    "وہ پریگننٹ ہیں آپ کو نہیں پتہ تھا کیا؟"

                    ڈاکٹر کی بات پر سب اماں بی کے ساتھ ساتھ فرحین بیگم بھی سکتے کے عالم میں آ گئیں۔

                    "دوائیاں میں نے لکھ دی ہیں پلیز آپ ان کا خیال رکھیں ورنہ انکے اور انکے بچے کے لیے بہت زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔"

                    ڈاکٹر نے ایک پرچی اماں بی کو پکڑا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔جبکہ اماں بی ابھی بھی سکتے کے عالم میں وہاں بیٹھی تھیں۔

                    "یہ کیسی ملازمہ رکھی ہے آپ نے اماں بی اللہ معاف کرے ہمارے گھر میں رہتے ہوئے اتنے گھٹیا کام۔۔۔چہرے سے دیکھو کیسے معصومیت ٹپکتی ہے اور کام دیکھو اسکے "

                    فرحین بیگم نے نفرت سے اماں بی کے کمرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں کنیز بے ہوش پڑی تھی۔

                    "ایسا گند ایک پل کے لیے بھی اپنے گھر میں نہ رہنے دوں میں ابھی اسی وقت نکال دوں گی اسے یہاں سے۔"

                    اتنا کہہ کر فرحین بیگم کمرے کی جانب چل پڑیں۔

                    "فرحین۔۔۔ "

                    اماں بی بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ فرحین کے پیچھے گئیں لیکن تب تک فرحین کنیز کو بالوں سے پکڑ کر بیڈ سے اٹھاتے ہوئے فرش پر پٹخ چکی تھیں۔

                    تکلیف محسوس کر کے کنیز ہڑبڑا کر اٹھ پڑی اور چکراتے سر کے ساتھ فرحین بیگم کو دیکھا۔

                    "گھٹیا بدکار لڑکی تجھے ایسے ناپاک کام کرنے کے لیے ہمارا ہی گھر ملا تھا۔۔۔اپنے ماں باپ کے ہاں کرتی نہ یہ گھٹیا کام۔"

                    فرحین بیگم نے کنیز کو بالوں سے پکڑ کر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تو کنیز سہم کر انہیں دیکھنے لگی۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس نے کیا کیا۔

                    "مم۔۔۔۔ممم۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔"

                    کنیز نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا اور اماں بی فرحین کو روکنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم کہاں تھا۔

                    "کچھ نہیں کیا واہ منہ کالا کر کے بھی کہتی ہے کچھ نہیں کیا بتا کون تھا تیرے ساتھ جو ہماری اس پاکیزہ حویلی میں گناہ کرتا رہا بتا تا کہ تیرے ساتھ اسے بھی نکالوں یہاں سے۔"

                    فرحین نے غصے سے کنیز کو فرش پر پھینکا تو وہ روتے ہوئے اماں بی کے پاس چلی گئی اور انکے پیر پکڑ کر رونے لگی۔

                    "اماں بی میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔"

                    اماں بی نے نم ہوتی آنکھوں سے اس لڑکی کو دیکھا جو شائید اپنا گناہ بھی نہیں جانتی تھی۔

                    "کچھ نہیں کیا تو کس کا ہے یہ بچہ جو تیرے پیٹ میں پل رہا ہے ہاں بتا کس کا گناہ ہے یہ۔"

                    فرحین بیگم نے غصے اسکی جانب بڑھتے ہوئے پوچھا تو کنیز سہم کر اماں بی کی ٹانگوں سے چپک گئی۔

                    "فرحین بس۔۔۔۔"

                    اماں بی نے سختی سے کہا اور اپنے پیروں میں پھوٹ پھوٹ کر روتی کنیز کے سر پر ہاتھ رکھا۔

                    "بتاؤ کنیز کس کا بچہ ہے یہ؟"

                    کنیز انکا سوال سمجھ نہیں پا رہی تھی پھر بھی اسکے ذہن میں بس سلطان کا خیال آیا وہ تو سلطان کی تھی اور اس سے منسلک ہر چیز بھی اسی کی ہونی تھی۔

                    "سسس۔۔۔۔سائیں جی۔۔۔سائیں جی کا۔۔۔۔"

                    یہ بات سن کر اماں بی سکتے کے عالم میں چلی گئیں بے ساختہ ان کے ہونٹوں سے سلطان کا نام نکلا۔جبکہ سلطان کے ذکر نے ہی فرحین بیگم کو پاگل کر دیا۔

                    وہ کنیز کے پاس آئیں اور اسے بالوں سے پکڑ کر بری طرح سے مارنے لگیں۔

                    "نیچ بدکار لڑکی اپنے گناہ کا الزام میرے بیٹے کے سر پر ڈال رہی ہے تجھے تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"

                    فرحین بیگم بری طرح سے اس معصوم کو مار رہی تھیں اور اماں بی میں تو اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ انہیں روکتیں۔

                    "اب ایک پل نہیں رہے گی تو یہاں ایک تو میں تجھے نہیں رہنے دوں گی ہمت کیسے ہوئی تیری اپنی گھٹیا زبان پر میرے بیٹے کا نام لانے کی اڈے بدنام کرنے کی۔"

                    فرحین بیگم نے کنیز کو بالوں سے پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے باہر ہال میں لے آئیں۔

                    "نن۔۔۔۔نہیں بیگم صاحبہ مجھے گھر سے مت نکالیں مم ۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا آپ۔۔۔۔آپ سائیں جی سے پوچھ لیں میں نے کچھ نہیں کیا۔"

                    کنیز پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور ہال میں موجود لوگ حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔

                    "کچھ نہیں کیا میں تیری جان لے لوں گی گھٹیا لڑکی۔۔۔۔میرے بیٹے پر الزام لگائے گی۔۔۔"

                    فرحین نے دو تھپڑ اور کنیز کے منہ پر مارے۔

                    "فرحین۔۔۔"

                    فرحین کا ہاتھ تیسری مرتبہ اٹھا لیکن اماں بی کی رعب دار آواز پر اپنی جگہ رک گیا۔

                    "یہ میری ملازمہ ہے اسکا فیصلہ میں خود کروں گی۔"

                    اماں بی کی بات پر فرحین نے غصے سے کنیز کو دیکھا لیکن پھر اسے چھوڑ دیا تو کنیز زمین پر بیٹھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

                    اماں بی کنیز کے پاس آئیں اور اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

                    "مم۔۔۔۔میں ۔۔۔۔نے کچھ۔۔۔۔ممم۔۔۔مجھے نہیں پتہ۔۔۔ "

                    کنیز سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا رونے کی وجہ سے بندھی ہچکیاں اسکا سانس روک رہی تھیں۔

                    "نکل جاؤ یہاں سے کنیز چلی جاؤ۔۔۔۔تماری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔"

                    اماں بی کی بات پر کنیز نے پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔

                    "اماں بی۔۔۔۔"

                    "جیسا کہا ہے ویسا کرو اس سے پہلے کہ تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں چلی جاؤ فوراً۔۔۔۔"

                    اماں بی نے اسے خود سے دور دھکیلا تو کنیز حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔

                    "اشفاق ۔۔۔"

                    اماں بی کے چلانے پر اشفاق ہڑبڑاتے ہوئے وہاں آیا۔

                    "لے جاؤ اس لڑکی کو یہاں سے اب ایک پل کے لیے بھی میں اسے یہاں برداشت نہیں کروں گی لے جاؤ۔۔۔۔"

                    اماں بی کے حکم۔ پر اشفاق نے سکتے کے عالم میں کھڑی کنیز کا بازو پکڑا اور اسے وہاں سے لے گیا جبکہ وہ معصوم ان سب سے ابھی بھی بس ایک سوال پوچھنا چاہتی تھی کہ آخر اسکا گناہ کیا تھا۔
                    ????




                    #زندگی_اے_تیرے_نال

                    #قسط_نمبر_31



                    "کیا بات ہے سلطان کیا تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو؟"

                    عرشمان نے سلطان سے پوچھا جو خاموشی سے سے اسکے پاس بیٹھا تھا۔وہ سلطان کے ہاتھ کی پٹی کروانے اسکے ساتھ ہاسپٹل آیا تھا۔صبح جب وہ اسکے کمرے میں گیا تھا تو اسکے ہاتھ پر سوکھا ہوا خون اور کانچ کے ٹوٹے ٹکڑے دیکھ کر پریشان ہو گیا جبکہ سلطان تو بیڈ کے ساتھ لگا ایسے فرش پر بیٹھا تھا جیسے اس دنیا کی بجائے کہیں اور ہی ہو۔

                    "کچھ نہیں۔"

                    سلطان نے انتہائی زیادہ سرد مہری سے کہا لیکن عرشمان کو اطمینان نہیں ملا۔اس نے ایک سنسان جگہ گاڑی روکی۔

                    "باہر نکلو گاڑی سے فوراً۔"

                    عرشمان نے حکمیہ انداز سے کہا اور گاڑی سے باہر نکل گیا۔کچھ دیر کے بعد سلطان بھی گاڑی سے باہر آیا۔

                    "بتاؤ مجھے سلطان کیا بات ہے؟"

                    عرشمان نے بڑے بھائی والے انداز میں پوچھا۔

                    "تم کیا کر لو گے؟کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔"

                    سلطان کی آواز میں بہت بے بسی تھی۔

                    "ہو سکتا ہے کچھ کر نہ سکوں لیکن کم از کم تمہیں یہ بتا دوں گا کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔"

                    عرشمان نے سلطان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

                    "بتاؤ مجھے سلطان۔۔۔۔"

                    اپنے بھائی کہا سہارا محسوس کر سلطان ٹوٹ گیا۔دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے اور اس نے ہر ایک بات عرشمان کو بتا دی۔

                    "میں نہیں جانتا عرشمان میں نے تب یہ فیصلہ کیوں لیا میں جانتا تھا کہ میرا مقدر بس انابیہ ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔"

                    سلطان نے بے بسی کی انتہا پر کہا اور عرشمان بس خاموشی سے اسکی بات سن رہا تھا۔

                    "مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ میری رگ رگ میں یوں بس جائے گی عرشمان،میں اسے بہت زیادہ تکلیف دے چکا ہوں میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔"

                    سلطان نے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھتے ہوئے کہا۔

                    "ایک طرف امی ہیں جو میرے انکار کے خیال سے ہی اس قدر بیمار ہو گئی تھیں اور ایک طرف وہ عرشمان جو بے چاری اپنی نازک جان پر کر غم چپ چاپ جھیل رہی ہے۔"

                    سلطان نے بے بسی کے عالم میں کہا۔

                    "میں کیا کروں عرشمان کسی ایک کو تکلیف دیے بغیر دوسرے کا ساتھ نہیں نبھا سکتا۔"

                    سلطان نے اپنے بال نوچتے ہوئے کہا۔عرشمان نے سنجیدگی سے اپنے بھائی کو دیکھا جو اس وقت مکمل طور پر ایک بکھرا ہوا انسان لگ رہا تھا۔

                    "گھر جاؤ جا اور جا کر سب کچھ امی کو سچ سچ بتا دو۔"

                    عرشمان کی رائے پر سلطان نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔

                    "جانتا ہوں ماں کے حقوق سب سے افضل ہیں لیکن ماں سے زیادہ صبر اور حوصلہ بھی کسی اور میں نہیں ہوتا۔اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے ماں کی محبت سے اپنی محبت کو تشبیہ دی ہے کیونکہ ماں کبھی نہ کبھی اپنے بچے کو معاف کر ہی دیتی ہے۔"

                    عرشمان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھایا۔

                    "اس لیے خود سے اور اس لڑکی سے زیادتی کرنا بند کرو سلطان اور میرے ساتھ گھر چل کر امی کو ہر بات بتا دو۔کیں تمہارے ساتھ ہوں میرے بھائی۔"

                    عرشمان نے اسکی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا۔سلطان گہری سوچ میں ڈوب گیا پھر اس نے سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔

                    "ٹھیک ہے چلو۔"

                    عرشمان اسکی بات پر مسکرا دیا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔حویلی واپس پہنچنے پر گہری خاموشی نے ان کا استقبال کیا۔سب لوگ ہال میں موجود تھے لیکن ایسے خاموش تھے جیسے کہ کوئی طوفان آ کر گزر گیا ہو۔

                    سلطان نے ایک نگاہ عرشمان کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا تو سلطان فرحین بیگم کے پاس گیا اور انکے ہاتھ تھام لیے۔

                    "امی ۔۔"

                    سلطان کے پکارنے پر فرحین بیگم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اسکے سینے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔سلطان کے ساتھ ساتھ عرشمان بھی پل بھر میں پریشان ہوا۔

                    "کیا ہوا امی؟"

                    سلطان نے انہیں اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا۔

                    "سلطان وہ۔۔۔۔اماں بی کی وہ گھٹیا ملازمہ۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں تمہیں کیسے بتاؤں۔"

                    کنیز کے ذکر پر سلطان کا دل بہت زور سے دھڑکا جیسے کسی انہونی کے لیے خبردار کر رہا ہو۔

                    "کیا ہوا کنیز کو؟"

                    سلطان نے بے چینی سے پوچھا۔

                    "وہ بے ہوش ہو گئی تھی ہم نے ڈاکٹر کو بلایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔۔۔۔ایک تو خود پتہ نہیں کس کے ساتھ منہ کالا کر کے کنواری ماں بننے والی تھی اور الزام تم پر لگانے لگی۔"

                    سلطان کو لگا کسی نے اسکا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔اسکی معصوم سی بیوی اسکے بچے کی ماں بننے والی تھی اور سلطان اسے کس کرب سے گزارتا رہا۔

                    "کہاں ہے وہ؟"

                    سلطان کا لب و لہجہ بے تابی سے بھرپور تھا۔

                    "نکال دیا ہم نے اس غلاظت کو گھر سے۔"

                    ساتوں آسمان ایک ساتھ ٹوٹ کر سلطان پر گرے اس نے فرحین بیگم کو کندھوں سے پکڑ کر بے تابی سے دیکھا۔

                    "یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی کہاں ہے میری نوری۔"

                    سلطان کے میری نوری کہنے پر فرحین بیگم ٹھٹک گئیں۔

                    "سلطان۔۔۔۔"

                    فرحین بیگم نے کچھ کہنا چاہا لیکن سلطان ان سے دور ہوا اور اماں بی کے پاس آیا جو صوفے پر بیٹھیں ایک غیر مرئی نقتے جو دیکھتی جا رہی تھیں۔

                    "کہاں ہے میری نوری اماں بی آپکو اسکی زمہ داری دی تھی ناں کہاں ہے وہ؟"

                    سلطان کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے ایک پل اور کنیز کو نہ دیکھا تو اسکا دل بند ہو جائے گا۔اماں بی نے نظریں اٹھا کر سلطان کو دیکھا۔

                    "تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو سلطان ؟کیا لگتی ہے وہ تمہاری؟"

                    اماں بی کے سوال پر سلطان ہکا بکا سا انہیں دیکھنے لگا۔

                    "کیا تھی اسکی حیثیت،اس گھر کی ملازمہ تھی بس وہ یہی بتایا تھا ناں تم نے مجھے کہ یہ ہماری میڈ ہے ۔"

                    سلطان بت بنا نم آنکھوں سے اپنی دادی کو دیکھ رہی تھا جو انتہائی سنجیدگی سے یہ باتیں کہہ رہی تھیں۔

                    "وہ بس ایک گھٹیا لڑکی تھی جو ہماری چھت کے نیچے رہتے ہوئے نہ جانے کس کس کے ساتھ وقت گزارتی رہی تو کیوں رکھتے ہم ایسی گھٹیا لڑکی کو اپنے پاس۔۔۔"

                    اماں بی کی بات پر عرشمان نے حیرت سے انہیں دیکھا۔آج تک انہوں نے کسی کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے تھے۔

                    "اس لیے نکال دیا ہم نے اس گھٹیا بدکار لڑکی اور اسکی حرام اولاد کو گھر سے۔"

                    اماں بی کی بات پر سلطان زمین پر بیٹھ گیا۔انکے ہاتھ خود بخود سلطان کی گرفت سے چھوٹ گئے۔

                    "تمہیں اسکی پرواہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آج شادی ہے تمہاری خوشیاں مناؤ۔بھول جاؤ اس گھٹیا عورت کو اسکا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔"

                    "تعلق ہے اماں بی۔۔۔۔تعلق ہے۔۔۔"

                    اچانک ہی سلطان انکی بات کاٹ کر چلایا تو سب لوگ حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

                    "نہ تو وہ لڑکی گھٹیا ہے اور نہ ہی اسکی اولاد حرام ہے وہ میری عزت ہے سنا آپ نے بیوی ہے وہ میری۔۔۔۔"

                    آخری سلطان اتنی اونچی چلایا کہ پوری حویلی میں اسکی آواز گونجی جبکہ اسکی بات پر فرحین ،انابیہ اور اسکے سب گھر والے سکتے کے عالم میں سلطان کو دیکھنے لگے۔

                    "وہ بچہ میرا تھا آپکے پوتے کا اور آپ نے اسے گھر سے نکال دیا۔۔۔آپ تو جانتی تھیں ناں وہ کتنی معصوم ہے آپ نے کیسے میری نوری کو بدکار سمجھا۔"

                    سلطان نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

                    "کیسے آپ سب نے میری عزت کو گھٹیا کہہ کر میرے گھر سے نکال دیا کیسے۔۔۔؟"

                    سلطان اس وقت کرب کی انتہا پر تھی اور اسکے الفاظ سب کو ہی بت بنا گئے تھے۔

                    "ممم۔۔۔میں نہیں جانے دوں گا اسے ڈھونڈ لوں گا اسے میں۔۔۔"

                    سلطان نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کر کہا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

                    "میں اسے واپس یہاں لاؤں گا۔۔۔میں اپنی نوری کو واپس لاؤں گا۔۔۔۔"

                    سلطان مڑتے ہوئے لڑکھڑایا تو عرشمان نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔اس وقت سلطان اپنے ہوش و حواس میں نہیں لگ رہا تھا۔

                    "خود کو سنبھالو میرے بھائی۔"

                    عرشمان نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔

                    "مجھے اسے ڈھونڈنا ہے عرشمان ابھی اسی وقت ڈھونڈنا۔۔۔۔"

                    عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے اپنے ساتھ باہر گاڑی میں لے گیا جبکہ گھر میں سب ابھی بھی بت بنے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔

                    شام تک وہ دونوں گاؤں کا ہر کونہ،گاؤں سے باہر جانے والا بس سٹاپ،ہر جگہ ڈھونڈ چکے تھے لیکن کنیز کو نہ تو ملنا تھا اور نہ ہی وہ ملی۔
                    ????
                    پورے گاؤں کا چپا چپا ڈھونڈنے کے بعد بھی جب کنیز انہیں نہیں ملی تو سلطان کو لگنے لگا اسکی دھڑکنیں رک جائیں گی۔اسے بہت شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اگر اس نے پہلے دن ہی ہمت کر کے سچ بولا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہوتا۔

                    وہ تو معصوم تھی بس اپنے سلطان کا پر حکم مانتی اسکی راہ پر چلتی رہی لیکن اب وہ معصوم جس بھی حال میں تھی وہ صرف اور صرف سلطان کا قصور تھا۔

                    "ہر جگہ دیکھ لیا سلطان وہ گاؤں میں تو نہیں ہے یہاں تک میرے آدمیوں نے سب کے گھروں میں بھی دیکھا ۔"

                    عرشمان نے سنجیدگی سے اپنے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا جو اس وقت مکمل طور پر بکھرا ہوا لگ رہا تھا۔

                    "سلطان ہمت کرو میرے بھائی ہم ڈھونڈ لیں گے اسے۔"

                    عرشمان کے یہ بات کہنے پر سلطان نے مردہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔

                    "کوئی ایسی جگہ ہے جہاں وہ جا سکتی ہو کیونکہ ہمارے گاؤں میں تو وہ نہیں ہے"

                    عرشمان نے پریشانی سے کہا تو سلطان نے خود پر قابو پاتے ہوئے اسے دیکھا۔

                    "ہو سکتا ہے وہ اپنے گاؤں گئی ہو۔۔۔۔ہاں عرشمان وہ اپنے ماں باپ کے پاس ہی گئی ہو گی۔"

                    عرشمان نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔کچھ دیر کے سفر کے بعد وہ کنیز کے گاؤں پہنچ گئے تھے۔کچھ لوگوں سے پوچھنے کے بعد انہیں کنیز کے باپ کے گھر کا پتہ ملا تو عرشمان سلطان کو لے کر وہاں چلا گیا۔

                    وہاں پہنچتے ہی سلطان نے بے چینی سے دروازا کھٹکھٹایا تو ایک بچے نے دروازہ کھولا اور سوالیہ نظروں سے سلطان کو دیکھا لیکن سلطان اسے نظر انداز کرتا گھر میں داخل ہو گیا۔

                    "کنیز۔۔۔"

                    سلطان کی پکار میں بہت بے چینی تھی وہ یہاں وہاں دیکھتا بس اپنی کنیز کو تلاش کرنا چاہ رہا تھا۔

                    "کیا ہوا سائیں سب ٹھیک تو ہے ناں؟"

                    کنیز کے بابا رشید نے سلطان کو وہاں دیکھا تو پریشانی سے اسکے پاس آئے جبکہ کنیز کی ماں بھی بے چین ہو کر انکی جانب بڑھی تھی۔

                    "بابا کنیز یہاں آئی ہے کیا؟"

                    سلطان نے پریشانی سے پوچھا تو دونوں میاں بیوی اڑے ہوئے رنگوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

                    "نہیں سائیں۔۔۔وہ یہاں کیسے آ سکتی ہے وہ تو آپکے پاس ہے ناں؟"

                    کنیز کی ماں نے بے تابی سے کہا۔

                    "مم۔۔۔۔میری بچی کہاں ہے سائیں آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسکا خیال رکھیں گے۔"

                    رشید نے روتے ہوئے کہا تو سلطان کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔

                    "وہ مجھ سے کھو گئی بابا روٹھ کر چلی گئی وہ مجھ سے۔"

                    سلطان نے بے بسی سے کہا جبکہ اسکی بات پر اس چھوٹے سے گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔کنیز کی ماں اور بہن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھیں اور اسکا باپ ایسا لگ رہا تھا جیسے اگلا سانس بھی نہیں لے سکے گا۔

                    "میری بچی تو بہت معصوم ہے سائیں وہ تو اپنی ماں سے وعدہ کر کے گئی تھی کہ ساری زندگی آپکی خدمت میں گزار دے گی پھر آپ نے اسے کیسے کھو دیا۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔"

                    رشید سے اتنا ہی کہا گیا اور وہ زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

                    "میں اسے ڈھونڈ لوں گا بابا اور اگر نہ ڈھونڈ پایا تو میں آپکا گناہ گار ہوں جو دل میں آئے سزا دیجیے گا "

                    سلطان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

                    "اتحاد ملک نے اسے گاؤں بدر کر دیا تھا اور ہمارے گاؤں کا اصول ہے کہ جسے گاؤں بدر کیا جاتا ہے اگر وہ گاؤں واپس آ جائے تو ساری زندگی اسے حویلی کی غلامی کرنی ہوگی۔"

                    رشید نے اپنے آنسو پونچھ کر کہا جبکہ کنیز کی ماں اور بہن کی سسکیاں ابھی بھی چھوٹے سے گھر میں گونج رہی تھیں۔

                    "اگر وہ یہاں واپس آئی بھی ہو گئ تو اتحاد ملک کی حویلی پہنچا دی گئی ہو گی۔"

                    اس بات پر سلطان کا دل بہت زیادہ بے چین ہوا۔رشید نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ سلطان کے سامنے جوڑ دیے۔

                    "ایک غریب کی بیٹی کے حال پر رحم کریں صاحب اسکو ڈھونڈ لیں دنیا سے بچا لیں۔ہم غریبوں کی سب سے بڑی دولت عزت ہی ہوتی ہے اسکے بغیر ہم جی نہیں پاتے۔"

                    اس شخص کو یوں روتا دیکھ کر سلطان کا احساس ندامت مزید گہرا ہو گیا۔وہ شائید ہی زندگی میں خود کو معاف کر پاتا۔

                    لیکن فلحال اسے پچھتانے کی بجائے کنیز کو ڈھونڈنا تھا۔اس گھر سے نکل کر وہ دونوں سیدھا اتحاد ملک کی حویلی گئے۔جہاں پہرے داروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن سلطان انہیں مکوں سے جڑتا اپنا آپ چھڑوا کر حویلی میں داخل ہو گیا اور سیدھا اتحاد ملک کے پاس گیا جو دالان میں بیٹھا پان چبا رہا تھا۔

                    سلطان کو دیکھ کر اتحاد حیران ہوا لیکن جب سلطان نے اسکے پاس جا کر اسے گریبان سے جکڑ لیا تو اتحاد ہکا بکا سا اسے دیکھنے لگا۔

                    "میری کنیز کہاں ہے بتا مجھے کہاں چھپایا ہے کنیز کو۔۔۔۔"

                    سلطان بولنے سے زیادہ غرایا تھا۔

                    "مجھے کیا پتہ وہ کہاں ہے اسے بیاہ کر لے گئے تھے تم یہاں سے۔"

                    اتحاد کے جواب پر سلطان نے زور دار مکا اسکے منہ پر مارا۔

                    "بتا مجھے کہاں ہے وہ ورنہ جان لے لوں گا تیری۔"

                    سلطان نے اسے بری طرح سے مارتے ہوئے کہا۔اس بے قابو ہوتا دیکھ عرشمان آگے بڑھا اور اسے روکا۔

                    "بس سلطان۔۔۔"

                    عرشمان نے سلطان کو اپنی پکڑ میں لے کر روکا ورنہ وہ شائید اس شخص کی جان ہی لے لیتا۔

                    "بتاؤ اتحاد ملک کہاں ہے کنیز؟"

                    عرشمان نے اتحاد سے پوچھا جو اپنے سوجے ہوئے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کراہ رہا تھا۔

                    "سچ کہہ رہا ہوں وہ یہاں نہیں آئی چاہے تو حویلی میں دیکھ لو۔۔۔۔"

                    اتحاد ملک نے شرافت سے کہا سچ تو یہ تھا کہ اسے سلطان سے بے تحاشا ڈر لگ رہا تھا۔اس بات پر سلطان عرشمان سے دور ہوا اور ہر جگہ کنیز کو تلاش کرنے لگا۔

                    اگلے گھنٹے میں وہ حویلی کا چپہ چپہ چھان چکا تھا لیکن اسے کنیز تو کیا اسکا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔آخر کار وہ تھکا ہارا بکھری حالت میں وہاں واپس آیا تو عرشمان نے اسے اپنے ساتھ لگایا اور وہاں سے لے جانے لگا۔

                    "ایک بات کہوں سلطان ملک اگر اسے کھونا ہی تھا تو میرے پاس ہی رہنے دیتا قسم سے اپنی آخری سانس تک نہ کھوتا میں اس نگینے کو۔"

                    عرشمان نے سلطان کے گرد اپنی پکڑ مظبوط کی تاکہ وہ کہیں اسے پھر سے نہ مارنے لگے لیکن سلطان اس وقت اس ہارے ہوئے شخص کی مانند تھا جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہو۔اور ایسا شخص کسی کو بھلا کیا کہتا اپنا دشمن وہ خود ہی تو تھا۔

                    پوری رات کنیز کو ہر جگہ ڈھونڈنے کے بعد عرشمان زبردستی سلطان کو حویلی واپس لے کر آیا ورنہ وہ تو جوگیوں کی طرح جگہ جگہ پھرنا چاہتا تھا۔

                    جب حویلی آ کر بھی سلطان نہ سنبھلا تو مجبوراً عرشمان کو ڈاکٹر کو بلانا پڑا جس نے اسے سکون آواز انجیکشن دیا جسکے بعد سلطان گہری نیند میں سو گیا۔

                    لیکن اسکا یہ سکون بہت عارضی تھا کیونکہ اپنا سکون گنوانے والا وہ خود ہی تو تھا۔
                    ????
                    "عزم"

                    غلام کی پکار پر اپنی حویلی کے صحن میں درخت کے نیچے بیٹھے عزم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

                    "عرشمان تم سے ملنے آیا ہے۔"

                    اس بات پر عزم کو خوشگوار حیرت ہوئی ۔تو کیا عرشمان نے واقعی اسکی بات کو سمجھ لیا تھا۔

                    "بھیجو اسے۔"

                    غلام ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد عرشمان وہاں پر آیا۔عرشمان کو دیکھتے ہی عزم نے اسے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔عرشمان سنجیدگی سے اسکے سامنے بیٹھ گیا۔

                    "کہو عرشمان کیسے آنا ہوا؟"

                    عزم کے سوال پر عرشمان نے پہلو بدلا۔سچ تو یہی تھا کہ آج عزم کے سامنے بیٹھتے ہوئے وہ نادم تھا،اپنے بچپنے اور جوش میں وہ اس شخص کے ساتھ بہت زیادتی کر چکا تھا۔

                    "میں یہ بتانے آیا تھا کہ مجھے تمہاری بات پر یقین ہے۔"

                    عزم نے اس بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔

                    "میں نے تمہاری بات پر غور کرتے ان ملازمہ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے پھپھو کے بارے میں بابا کو بتایا تھا لیکن ان تک پہنچتے مجھے یہ پتہ چلا کہ ایک ملازمہ تو بہت عرصہ پہلے وفات پا گئی تھی جبکہ دوسری میرے وہاں پہنچنے سے ایک رات پہلے ہی۔۔۔۔"

                    عرشمان ایک پل کو رکا۔

                    "کسی نے اسی کے دوپٹے سے اسکا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا۔"

                    اس بات پر عزم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

                    "ایسا کر کے اس اصلی مجرم نے مجھے خود تک پہنچنے سے بھلے روک دیا ہو لیکن اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ ہم صحیح راہ پر چل رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ہماری سوچ سے زیادہ ہمارے قریب ہے عزم کیونکہ یہ ملازمہ والی بات میرے اور اماں بی کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں جانتا تھا۔"

                    عرشمان کی بات پر عزم کچھ سوچنے لگا۔

                    "یعنی اصلی مجرم تمہاری حویلی میں ہے۔"

                    عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا تو عزم سرد آہ بھر کر رہ گیا۔

                    "ہمیں جلد از جلد اسکا پتہ لگانا ہو گا عرشمان تاکہ وہ مزید کچھ نہ کر سکے۔"

                    عرشمان نے ہاں میں سر ہلا کر اپنا سر جھکا لیا۔تبھی وہاں پر ملازمہ آئی اور کافی سارے لوازمات ان کے سامنے رکھ دیے۔پھر ایک ملازمہ نے ایک جوس کا گلاس عزم کے سامنے رکھا۔

                    "یہ آپ کے لیے خاص طور پر چوہدراین جی نے بھیجا ہے کہہ رہی تھیں گرمی بہت ہے۔"

                    ملازمہ نے لیزا کا پیغام عزم کو دیا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکے ذکر پر ہی جہاں عزم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی وہیں عرشمان کا موڈ سخت آف ہوا۔

                    "ایک بات کہوں عزم۔۔۔۔مجھے اس لڑکی پر بالکل بھی بھروسہ نہیں شائید تم نہیں جانتے لیکن پہلے یہ۔۔۔۔"

                    عرشمان ایک پل کو رکا۔

                    "وہ میرے اور آن کے درمیان آنا چاہ رہی تھی۔"

                    عرشمان کی بات پر عزم مسکرا دیا۔

                    "جانتا ہوں لیکن جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے اور بہتر یہی ہے کہ نہ جانو۔"

                    عزم نے جوس کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

                    "ایک اور بات ہے عزم۔۔۔۔کوئی آن کے پیچھے بھی پڑا ہے یا یوں سمجھ لو کہ وہ آن کو خوش نہیں دیکھنا چاہتا اور مجھے لگتا ہے کہ وہ تمہاری یہ بیوی ہے۔"

                    لیزا کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی عرشمان کے لہجے میں بہت نفرت تھی۔

                    "وہ کچھ نہیں کر سکتی عرشمان اس حویلی میں سانس تک وہ میری اجازت سے لیتی ہے تو بھلا اسکی وہاں تک رسائی کیسے ہوتی۔۔۔۔آن کے ساتھ جو کوئی بھی جو کچھ کر رہا ہے وہ اسی حویلی میں ہے۔۔۔۔شائید وہی دشمن جسکی ہمیں تلاش ہے۔"

                    عزم کی بات پر عرشمان اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔

                    "ایک بار وہ مل گیا تو اسکا وہ حال کروں گا کہ پھر کبھی ایسا سوچنے والے کی روح کانپ جائے گی۔"

                    عزم عرشمان کی آنکھوں میں جنون کی آگ دیکھ سکتا تھا۔

                    "بس پھر سے جوش میں ہوش گنوا کر غلط فیصلہ نے کرنا۔"

                    عزم نے اسے بڑے بھائی کی طرح سمجھایا لیکن عرشمان کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔

                    "مجھے معاف کر دینا عزم میں نے تب جو کیا۔۔۔۔میں اس کے لیے بہت شرمندہ ہوں۔۔۔۔"

                    عزم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے کندھے پر رکھا۔

                    "تم سوچ سکتے ہو عرشمان تم نے صرف اپنے بابا کو کھویا تھا جبکہ میں نے اپنے ماں بابا کو تو ہمیشہ کے لیے کھویا ہی تھا اور تم نے اپنے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی مجھ سے چھین کر بالکل تنہا کر دیا۔"

                    عزم کی بات اسکا سر مزید شرمندگی سے جھکا گئی۔

                    "سوچ سے ہو یہ زندگی کیسے کاٹی ہو گی عرشمان تم نہیں سوچ سکتے کیونکہ تمہارے پاس اماں بی تھیں،سلطان تھا،آن تھی تمہاری ماں تھیں اور میرے پاس بس میں۔۔۔۔"

                    عزم کی آنکھوں میں ایک کرب اترا تھا۔

                    "بیمار ہوتا تو کوئی حال تک پوچھنے والا نہ ہوتا اور کہاں میری ماں مجھے ہلکا سا بخار ہونے پر بھی ساری رات میرے سرہانے بیٹھ کر گزار دیتی تھی۔کامیابی پر کوئی سراہنے والا نہیں ہوتا تھا اور کہاں میرے بابا ریاضی میں سو میں سے تینتیس نمبر آنے پر بھی پورے گاؤں میں میٹھائی بنٹواتے تھے۔ایسا لگتا تھا عرشمان کے سب ہونے کے باجود بھی مجھے کسی نے مکمل طور پر لوٹ لیا ہو۔"

                    یہ باتیں کہتے ہوئے عزم کی پلکوں پر دو آنسو ٹھہر گئے تھے جنہیں اس نے بے دردی سے پونچھ دیا لیکن اپنی باتوں اور آنسؤں سے وہ سامنے بیٹھے آدمی کو ندامت کی گہری کھائی میں دھکیل چکا تھا۔

                    عرشمان نے نم ہوتی آنکھوں سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور انہیں عزم کے سامنے جوڑ دیا۔

                    "میں اس قابل تو نہیں لیکن ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔۔"

                    عزم نے حیرت سے اسکے جھکے سر،جڑے ہاتھوں اور نم پلکوں کو دیکھا تھا۔کہاں تھا وہ عرشمان ملک جو مر تو سکتا تھا لیکن عزم چوہدری ہے سامنے جھک نہیں سکتا تھا۔

                    کیسا تھا انسان کا یہ ضمیر بھی جو اسے غلطی کا احساس ہونے پر دشمن کے در پر بھی جھکا دیتا تھا۔

                    "اتنا آسان نہیں ہے یہ میرے لیے عرشمان،تمہارا معافی مانگنا میرے گزرے سال لوٹا نہیں سکتا۔"

                    عرشمان نے ہاں میں سر ہلایا اور انگوٹھے سے اپنے آنسو پونچھ دیے۔

                    "سمجھ سکتا ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر مجھے معاف کر سکو تو حویلی آ کر اماں بی سے مل لینا وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں لیکن تمہارا سامنا کرنے کی ہمت خود میں پیدا نہیں کر پا رہیں ۔"

                    عزم نے اثبات میں سر ہلایا۔

                    "میں اس بارے میں سوچوں گا۔"

                    اس بات پر عرشمان مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

                    "اب ہم مل کر اس دشمن کو ضرور پکڑ لیں گے عزم اور خود سے ہوئی زیادتی کا ہر بدلا لیں گے اس سے۔"

                    "ان شاءاللہ ۔"

                    عزم کی بات پر عرشمان مسکرا دیا اور اسے خدا حافظ کہتا وہاں سے چلا گیا جبکہ عزم یہ سوچنے لگا تھا کہ اس دشمن کو آن سے کیا مسلہ ہو سکتا تھا۔شائید یہ کہ آن کا تعلق چوہدریوں سے جڑتا تھا بہت سوچنے کے بعد عزم کا شک ایک ہی جانب جا رہا تھا لیکن نہ تو اسکا دل اور نہ ہی دماغ اس بات کو ماننے پر راضی ہو رہے تھے۔
                    ????
                    آج کنیز کو کھوئے ہوئے پورا ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور اس ہفتے میں سلطان نے سب گھر والوں کو بے چین کر دیا تھا۔یا تو وہ سارا سارا دن مارا مارا پھرتا کنیز کو ڈھونڈتا رہتا یا پھر اپنے کمرے میں بیٹھا آنسو بہاتا رہتا۔

                    فرحین بیگم نے اسے کتنا ہی بہلانے کی کوشش کی لیکن وہ تو کچھ کھاتا تک نہیں تھا۔یہاں تک کہ فرحین بیگم نے اپنی قسم بھی دے کر دیکھ لیا تھا۔

                    وہ شہزادوں سی آن بان رکھنے والا مرد کچھ ہی دنوں میں خود کو تباہ کر گیا تھا۔آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے پڑ گئے تھے اور اب تو یہ حال تھا کہ کھڑے ہوتے ہی وہ گر جاتا تھا۔

                    ابھی بھی اپنے کمرے میں لیٹا وہ کنیز کے بارے میں سوچ رہا تھا جو پورا ہفتہ ڈھونڈنے سے بھی اسے کہیں نہیں ملی تھی۔یہاں تک کہ اس نے اپنے لاہور والے گھر بھی پتہ کروا لیا تھا لیکن وہ وہاں بھی نہیں گئی تھی اور اب تو پولیس کو بھی اسکی تصویر بھیج دی گئی تھی اور وہ بھی اسے تلاش کر رہے تھے لیکن ہر جانب سے مایوسی سلطان ملک کو مکمل طور پر توڑ کر رکھ گئی تھی۔

                    ایک تو محبت کی دوری اور اس پر احساس ندامت اسے آہستہ آہستہ ختم کر رہے تھے۔اسکا دل کرتا تھا کہ وہ اپنی جان لے لے لیکن ایک آخری بار وہ کنیز کے پیروں میں گر کر اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔اپنے بچے کا منہ دیکھنا چاہتا تھا۔

                    اپنے اس بچے کا خیال آتے ہی سلطان کی آنکھوں سے پانی پھر سے بہنے لگا۔

                    کاش تم مر جاؤ سلطان ملک بھلا تمہارے جیسے نیچھ انسان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی۔جس کے ہوتے ہوئے اسکی معصوم پاکیزہ بیوی کو بدکار اور گھٹیا کہہ کر گھر سے نکال دیا گیا۔جس کے بچے کو اسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی حرام کہا گیا۔تم تو مرد کہلانے کے لائق ہی نہیں سلطان ملک بلکہ تمہیں تو جانور کہنا بھی اسکی توحین ہو گا۔

                    سلطان کے ضمیر نے اسے ملامت کی تو سلطان آنکھوں پر ہاتھ رکھتا سسک سسک کر رو دیا۔

                    "سوچا ہے کس حال میں ہو گی وہ بے چاری جو اس دنیا سے واقف ہی نہیں جو تم پر بھروسہ کرتی تمہیں ہی اپنا سب کچھ مانتی رہی کاش تم مر جاؤ سلطان ملک بلکہ موت بھی تمہارے لیے چھوٹی سزا ہے۔"

                    سلطان نے ضمیر نے پھر سے اس سے کہا اور سلطان کے دل نے سچ میں اپنے لیے موت کی دعا کی تھی۔۔۔اچانک دروازہ کھلا تو سلطان نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر فرحین بیگم کو دیکھا جو کھانے کی ٹرے لے کر وہاں کھڑی تھیں۔

                    "سلطان اللہ کے واسطے کچھ کھا لو تمہیں یوں پل پل مرتا نہیں دیکھ سکتی۔"

                    فرحین بیگم نے پھوٹ کر روتے ہوئے کہا جبکہ سلطان کی آنکھیں تو آنسو بہا کر بھی اب تھک چکی تھیں۔

                    "مجھے میری نوری واپس لا دیں امی کھا لوں گا"

                    سلطان کی آواز میں موجود درد محسوس کر فرحین بیگم کا کلیجہ پھٹنے کو ہو گیا۔

                    "وہ جا چکی ہے سلطان تم اسے بھول کیوں۔"

                    "بھول۔۔۔ہوں اگر چاہتی ہیں اسے بھول جاؤں تو دعا کریں کے کر جاؤں امی کیونکہ میری سانسوں کے ساتھ ہی اسکی یادیں دم توڑیں گی۔"

                    سلطان کی بات پر فرحین بیگم نے ہاتھ دل پر رکھا۔

                    "جانتی ہیں امی آپکی خاطر میں نے اسے بہت زیادہ تکلیف دی آپکی خوشی کے لیے اسکے ہر حق سے دستبردار ہوگیا۔"

                    سلطان ایک پل کو رکا اور پھر واپس اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔

                    "مجھے تنہا چھوڑ دیں امی۔میں اسی قابل ہوں کہ اسکی یادوں میں پل پل سسک سسک کر مر جاؤں۔"

                    سلطان کی بات پر فرحین بیگم نے لاچارگی سے اپنے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔

                    "سلطان ۔۔۔۔۔"

                    "پلیز چلی جائیں یہاں سے۔۔۔۔"

                    سلطان کی رندھی آواز پر فرحین بیگم دروازہ بند کر کے واپس چلی گئیں اور سلطان ایک بار پھر اپنے کرب میں خود کو غرق کر گیا۔
                    ????
                    عزم آئنے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔براون کلر کی کاٹن کی شلوار قمیض میں وہ کافی دلکش لگ رہا تھا۔اس نے پرفیوم پکڑ کر خود پر چھڑکا جب اسکے پیچھے سے ایک آواز آئی۔

                    "صاحب جوس۔"

                    عزم نے مڑے بغیر ہاں میں سر ہلایا تو ملازمہ نے میز پر جوس رکھا اور وہاں سے چلی گئی۔عزم ہاتھ میں گھڑی پہن رہا تھا جب اسکا دھیان دروازے میں سے کھانسنے کی آواز پر گیا۔

                    عزم نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو نگاہ لیزا پر پڑی جو گلابی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس، کندھوں پر دوپٹہ پھیلائے کمر پر ہاتھ باندھے کھڑی کس قدر دلکش لگ رہی تھی یہ کوئی عزم سے پوچھتا۔

                    "ہائے بزی مین ۔۔۔۔"

                    لیزا شرارت سے کہتی اسکے پاس آئی تو عزم کو بے ساختہ افسوس ہوا۔اپنی پریشانیوں میں اتنے عرصے سے وہ اس سے غافل رہا تھا۔

                    "کوئی کام تھا کیا؟"

                    عزم نے اس سے پوچھا تو لیزا جواب میں اسکے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔

                    "I want to talk."

                    عزم کے ماتھے پر بل آتے دیکھ لیزا نے اپنے ہونٹ کچلے اور پھر اسے اشارے سے سمجھانے کا سوچا۔

                    لیزا نے پہلے ایک انگلی خود پر رکھی اور پھر وہی انگلی عزم کے سینے پر رکھنے کے بعد اپنے ہونٹوں پر رکھ دی تو گھنی مونچھوں تلے عنابی ہونٹ مسکرا دیے۔

                    "ضرور میری جان۔"

                    عزم نے دونوں ہاتھ اسکے سر کے آس پاس رکھے اور اسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو لیزا فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ گئی اور شہد رنگ آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا۔

                    "I didn't mean that."

                    لیزا نے گلابی ہوئے چہرے کے ساتھ کہا پھر کچھ سوچ کر اس نے پھر سے انگلی اپنے پر رکھی۔

                    "Me"

                    لیزا نے ایک لفظ کہتے ہوئے انگلی عزم کے چوڑے سینے پر رکھی۔

                    "You "

                    پھر لیزا نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملایا۔

                    "Talk."

                    عزم نے اسکی آپس میں جڑی انگلیوں کو دیکھا تو مسکرا دیا۔

                    "ایسے اشارے مت کرو چوزی ورنہ کہیں جانا چھوڑ کر تم سے لپٹ جاؤں گا اور پھر دونوں ہی سارا دن اس کمرے میں گزاریں گے۔"

                    عزم نے اسکے ہونٹوں کے قریب ہوتے ہوئے کہا جن سے چیری کی خوشبو آ رہی تھی جو شائید اسکے ہونٹوں پر لگے گلوز کی وجہ سے تھی۔

                    "Please I need to talk to you."

                    لیزا کے منہ بنانے پر عزم مسکرا دیا۔اتنا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہ رہی ہے وہ تو بس اسے تنگ کر رہا تھا۔

                    "کہو کیا کہنا ہے۔"

                    عزم کے ایسا کہنے پر لیزا مسکرا دی۔اس نے پھر سے اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے اور شرمیلی سی مسکان کے ساتھ سر اٹھا کر عزم کو دیکھا۔

                    "کیا آپ آآ۔۔۔۔آج رات جلدی گھر آ جائیں گے؟"

                    لیزا کو اردو میں یہ بات کہتا دیکھ عزم کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی حیرت سے کھل گیا۔

                    "میں۔۔۔آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ مجھے کتنے اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔"

                    لیزا زرا اٹک کر اردو بول رہی تھی اور اسکے انگریزی لہجے میں بولی گئی وہ اردو عزم کو اس دنیا کی سب سے میٹھی زبان لگ رہی تھی۔

                    "آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ دل آپ کے لیے دھڑکتا ہے،یہ سانسیں آپ کے لیے چلتی ہیں،آپ کے بغیر۔۔۔"

                    لیزا اچانک اٹک گئی اور منہ بنا کر عزم کو دیکھا۔

                    "بب۔۔۔باقی باتیں رات میں بتاؤں گی ابھی سب بول دیا تو آپ ۔۔۔۔۔آپ جائیں گے ہی نہیں۔"

                    اس آخری بات کو روپ کی شرارت سمجھتا عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

                    "تم کہو تو سہی میری چوزی جانے کی بجائے سارا دن تم سے لپٹ کر گزار دوں گا ۔۔۔"

                    عزم نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا تو لیزا کے رخسار گلابی ہو گئے۔

                    "اب مجھے اتنی اردو بھی نہیں آتی۔"

                    لیزا نے پھر سے انگلش میں کہا تو عزم مسکرا دیا۔

                    "ناؤ گو۔۔۔"

                    لیزا نے اسکی کمر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا لیکن عزم اسکی مزاحمت کو ہاتھ کے ایک جھٹکے سے ترک کرتا اسے واپس اپنی دہکتی گرفت میں جکڑ گیا۔

                    "رات کو واپس آؤں گا تو ان پیارے ہونٹوں سے جو یہ باتیں کہیں ہیں ناں ان سب کا جواب سود سمیت دوں گا۔۔۔"

                    عزم نے جھک کر اسکے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبایا تو لیزا سہم کر اپنی آنکھیں موند گئی۔

                    "تیار رہنا میری چوزی یہ رات بہت بھاری گزرے گی اس نازک جان پر۔"

                    عزم نے اسکا ہونٹ انگوٹھے سے سہلایا جو اسکی گستاخی پر لال ہو رہا تھا۔اس سے دور ہو کر عزم نے جوس کا گلاس پکڑا اور اپنے ہونٹوں سے لگانے لگا لیکن اچانک ہی لیزا نے اسکی کلائی پکڑی اور شرارت سے گلاس اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے سارا جوس پی گئی۔

                    عزم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔

                    "آئی ول بی ویٹنگ فار یو ڈئیر ہزبینڈ۔۔۔۔"

                    لیزا نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور وہاں سے جانے لگی لیکن عزم نے اسکی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے سے کھینچتے ہوئے واپس اپنی باہوں میں لے لیا۔

                    "میرے حصے کا جوس پی لیا ہے اب کچھ اور دو مجھے پینے کو۔"

                    عزم نے اسکے ہونٹوں پر جھکنا چاہا لیکن عین وقت پر لیزا نے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا اور شرارتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

                    "ویٹ فار دا نائٹ بے بی۔۔۔۔امممم اب جائیے ورنہ دیر ہو جائے گا۔۔۔۔"

                    لیزا کے شرارت سے اردو میں کہنے پر عزم کی آنکھوں میں حرارت اتری۔وہ لڑکی نہیں جانتی تھی کہ وہ آگ سے کھیل رہی تھی۔جس جنون کو وہ اپنی شرارتوں سے بھڑکا رہی تھی اسی کی نازک جان پر بھاری گزرنے والا تھا۔

                    "تمہیں تو رات میں دیکھوں گا۔"

                    عزم نے اسکے ہونٹوں پر رکھے ہاتھ کو چوم کر کہا اور اس سے دور ہو کر اپنا والٹ اور چابیاں پکڑتا وہاں سے جانے لگا۔ابھی وہ کچھ ہی دور گیا تھا جب اسکے کان میں لیزا کی آواز پڑی۔

                    "عزم۔۔۔۔"

                    اسکی پکار پر عزم مسکرا دیا۔

                    "اب دیر نہیں ہو گی چوزی؟"

                    عزم شرارت سے کہتے ہوئے پلٹا لیکن لیزا پر نظر پڑتے ہی اسکی مسکان غائب ہو گئی۔لیزا کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا جیسے کہ جسم میں خون کا قطرہ بھی نہ ہو اور وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے تکلیف سے نم ہوتی آنکھوں سے عزم کو دیکھ رہی تھی۔

                    پھر خون کی ایک لکیر اسکے ہونٹوں کے پاس سے نکلی اور آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی عزم نے آگے ہو کر اسے اپنی باہوں میں لے لیا۔

                    "غزل۔۔۔۔"

                    عزم نے پریشانی سے اسے پکارا مگر پھر اسکے منہ سے اور خون نکلتا دیکھ عزم کو لگا اسکا پورا جہان اجڑ گیا ہو۔

                    "غلام۔۔۔۔"

                    عزم کی دردناک چیخ پوری حویلی میں گونجی تھی۔دل تھا کہ جیسے کسی بھی پل بند ہو جائے گا۔کیا وہ ایک بار پھر سے سب کچھ کھونے کے دہانے پر تھا۔
                    ???



                    Comment


                    • #70
                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_32



                      وہ لوگ ہڑبڑی میں لیزا کو گاؤں میں بنے ہسپتال میں لے گئے تھے۔وہاں موجود ڈاکٹرز اسکا چیک اپ کر رہے تھے اور باہر ہال میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔

                      اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی دھڑکنیں اندر موجود لڑکی سے جڑی ہوں اگر اسکو کچھ ہوا تو عزم کا سانس بھی رک جائے گا۔عزم کو یوں ماہی بے آب کی طرح تڑپتا دیکھ غلام کافی پریشان ہوتا اسکے پاس آیا۔

                      "عزم یار حوصلہ کرو کچھ نہیں ہو گا اسے۔"

                      غلام نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

                      "ہاں کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔کچھ نہیں ہو گا غلام میرا رب مہربان ہے ہم پر ہماری حیثیت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور وہ جانتا ہے غلام اب اس کے بندے میں مزید امتحان برداشت کرنے کی سکت ختم ہو چکی ہے۔"

                      عزم نے وہاں موجود بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔انسو پلکوں پر ٹھہرے ہوئے تھے اور اسے اپنی ٹانگوں پر کھڑے رہنا تک مشکل لگ رہا تھا۔

                      "لیکن یہ سب کرنے کی جرات کس کی ہوئی عزم وہ بھی چوہدریوں کی حویلی میں۔۔۔"

                      غلام نے غصے سے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔

                      "تمہیں یاد ہے عزم کہ لیزا نے کیا کھایا تھا یا کس نے اسے دیا ہم اسے چھوڑیں گے نہیں۔"

                      غلام کے سوال پر عزم کو وہ جوس کا گلاس یاد آیا جو ملازمہ اسے دے کر گئی تھی لیکن وہ لیزا نے پی لیا تھا۔عزم نے اس ملازمہ کو مڑ کر نہیں دیکھا تھا اور اب اسے اس بات کا حد سے زیادہ افسوس ہو رہا تھا۔

                      "وہ جوس میرے لیے آیا تھا غلام۔۔۔۔۔وہ زہر میرے حصے کا تھا لیکن اس نے اسے پی لیا۔۔۔۔میرے حصے کی تکلیف کو وہ سہہ رہی ہے۔۔۔۔۔"

                      عزم نے بے بسی سے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپایا اور سسک سسک کر رونے لگا۔اپنے دوست کو اس حال میں دیکھ کر غلام کی پلکیں بھی بھیگ گئیں۔

                      "فکر مت کرو عزم کچھ نہیں ہو گا اسے اور ہم اس کے ساتھ ایسا کرنے والے کو پکڑ کر سخت سے سخت سزا دیں گے۔"

                      غلام نے اسے حوصلہ دینا چاہا لیکن اسے حوصلہ کہاں سے ملتا جس کی محبت اس کے حصے کی موت سے لڑ رہی تھی۔

                      کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر باہر آیا تو دونوں بے چینی سے ڈاکٹر کی جانب بڑھے۔

                      "ہم نے زہر انکے معدے سے نکلا تو دیا ہے لیکن وہ زہر بہت زیادہ سٹرانگ تھا اپنا اثر بہت جلدی انکے پورے جسم پر چھوڑ چکا ہے۔"

                      ڈاکٹر کی بات انکی پریشانی کو دوگنا کر گئی۔

                      "سوری چوہدری جی لیکن اب یہ ہمارے والا کیس نہیں رہا بہتر ہے آپ انہیں لاہور کے جائیں ہم انہیں یہاں بچا نہیں سکیں گے۔"

                      ڈاکٹر نے آخری الفاظ سے عزم کے دل پر بجلیاں گرائیں۔عزم نے بس ایک نظر غلام کو دیکھا تو وہ ہاں میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔قریبی قصبے سے تھوڑی ہی دیر میں ایک ایمبولینس وہاں آ چکی تھی جس میں انہوں نے لیزا کو لیٹایا اور عزم ایک نرس کے ساتھ اس میں بیٹھ گیا جبکہ غلام ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔

                      عزم نے لیزا کا ہاتھ تھاما تو لیزا نے بند ہوتی شہد رنگ آنکھوں سے اسے دیکھا۔

                      "میم۔۔۔۔میم پلیز اپنی آنکھیں کھولیں سوئے گا مت۔۔۔۔"

                      نرس نے لیزا کا گال تھپتپاتے ہوئے کہا لیکن لیزا نے تکلیف میں ہلکا سا منہ بنایا اور آنکھیں بند کر گئی۔

                      "سر پلیز انہیں جگائیں اگر یہ سو گئیں تو زہر کا اثر اور زیادہ ہو جائے گا اور یہ لاہور تک زندہ نہیں پہنچ پائیں گی۔"

                      نرس کی بات پر عزم نے پریشانی سے لیزا کو دیکھا اور اسکا گال ہاتھ میں پکڑا۔

                      "غزل اٹھو۔۔۔خبردار تم سوئی تو بہت برا پیش آؤں گا میں۔۔۔۔"

                      نہ چاہتے ہوئے بھی عزم کی آواز پریشانی سے رندھ گئی تھی جبکہ اسکی بات پر لیزا نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر عزم کو دیکھا جن میں بہت زیادہ تکلیف تھی۔

                      "پلیز۔۔۔آئی وانٹ ٹو سلیپ۔۔۔۔۔جسٹ لیٹ می سلیپ۔"

                      لیزا نے کمزور سی آواز میں کہا جبکہ آنکھیں خود بخود بند ہو رہی تھیں۔

                      "ہر گز نہیں سونے دوں گا میں تمہیں اٹھو فوراً۔۔۔۔"

                      عزم نے اسکا چہرہ پکڑ کر ہلایا تو لیزا نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔

                      "اٹ ہرٹس۔۔۔۔۔اٹ ہرٹس سو بیڈ۔۔۔۔"

                      تکلیف سے لیزا کی پلکیں بھیگ گئیں اور عزم کی آنکھوں سے دو آنسو جدا ہو کر اس کے چہرے پر گرے۔

                      "جانتا ہوں لیکن وعدہ کرتا ہوں تمہاری ہر تکلیف ختم کر دوں گا کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔"

                      عزم نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے لگایا۔لیزا اب بمشکل سانس لے رہی تھی۔جب بھی وہ آنکھیں بند کرتی عزم اسے فوراً جگا دیتا۔

                      "ٹٹٹ۔۔۔۔ٹیک۔۔۔۔۔ٹیک می ان یور آرمز۔۔۔۔"

                      لیزا بات پر عزم نے ایک نگاہ نرس کو دیکھا لیکن پھر اسے نظر انداز کرتا لیزا کے سرہانے بیٹھا اور اسکا سر اٹھا کر اس نے اپنی گود میں رکھ لیا۔

                      "ٹیک مائے۔۔۔۔ٹیک مائے ہینڈ۔"

                      لیزا کی اگلی فرمائش پر عزم نے فوراً اسکے پیٹ پر پڑا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا جبکہ دوسرا ہاتھ اسکے بال سہلا رہا تھا۔لیزا نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھا جسکے آنسو مسلسل لیزا کے چہرے پر گر رہے تھے۔

                      "آئی ڈونٹ وانٹ ٹو ڈائے۔۔۔۔آآ۔۔۔۔آئی وانٹ ٹو لیو ود یو۔۔۔۔"

                      لیزا کی آواز اتنی ہلکی ہو چکی تھی کہ عزم کو اسکی بات سننے کے لیے کان اسکے منہ کے پاس کرنا پڑھ رہا تھا۔

                      "کچھ نہیں ہو گا تمہیں سنا تم نے میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔۔۔۔"

                      عزم نے اسے خود سے لگاتے ہوئے کہا اور ڈرائیور کو جلدی گاڑی چلانے کا حکم دیا۔چار گھنٹے کا سفر وہ لوگ اڑھائی گھنٹے میں طے ہر چکے تھے۔

                      لاہور ہاسپٹل پہنچتے ہی عملہ لیزا کو ایمرجنسی میں لے گیا تھا۔ڈاکٹر اسکا چیک اپ کر رہے تھے اور باہر عزم کی دھڑکنیں رک رہی تھیں۔غلام بھی پریشانی سے اسکے پاس کھڑا تھا نہ جانے اب قسمت نے کونسا پہلو لینا تھا۔

                      اچانک ہی ڈاکٹر ایمرجنسی وارڈ سے باہر آیا تو عزم بے چینی سے اسکی جانب بڑھا۔

                      "دیکھیں مسٹر آپکی وائف کی باڈی میں زہر پوری طرح سے پھیل چکا ہے اس لیے فلحال میں کچھ کہہ نہیں سکتا دوسرا یہ پولیس کیس ہے تو مجھے پولیس کو انفارم کرنا ہو گا باقی آپ دعا کریں۔"

                      ڈاکٹر اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور عزم وہاں بت بنا کھڑا رہا۔

                      "عزم۔۔۔۔"

                      غلام نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اس نے عزم کو آج تک اتنا بکھرا ہوا نہیں دیکھا تھا۔

                      "اسے ۔۔۔۔۔اسے کچھ ہو گیا تو جی نہیں پاؤں گا غلام نہیں جی پاؤں گا۔۔۔۔"

                      غلام نے عزم کو اپنے گلے سے لگایا تو عزم سسک سسک کر رو دیا اور غلام نے بے ساختہ خدا سے دعا کی تھی کہ وہ عزم کی جان کو زندگی دے دے۔
                      ????
                      "ڈاکٹر آن ڈاکٹر حمید آپکو ایمرجنسی میں بلا رہے ہیں۔"

                      نرس کی بات پر سٹاف روم میں بیٹھی آن نے گود میں پڑی کتاب سے دھیان ہٹایا۔اسے یہاں لاہور آئے کافی عرصہ ہو گیا تھا لیکن ابھی تک وہ اپنے ماضی سے باہر نہیں آ پائی تھی اسی لیے کہیں بھی بیٹھے بیٹھے کھو جاتی۔

                      ابھی بھی ویسے تو وہ کتاب پڑھنے بیٹھی تھی لیکن دھیان خود بخود عرشمان کی جانب چلا گیا تھا جو ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔کیا عرشمان کو ان تصویروں کی وجہ سے آن سے نفرت ہو گئی تھی؟کیا اس بلیک میلر نے وہ تصویریں نشر کر دی تھیں؟

                      یہ خیال آتے ہی آن کو لگا کہ اسکا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔اسکی زندگی کا ہر پل اسی خوف کے زیر اثر تو گزر رہا تھا۔

                      "ڈاکٹر آن۔۔۔۔"

                      نرس کے دوبارہ پکارنے پر آن نے فوراً اسے دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

                      "سوری کچھ کہا آپ نے؟"

                      "ڈاکٹر حمید آپکو ایمرجنسی میں بلا رہے ہیں۔"

                      نرس نے اپنی بات دہرائی تو آن نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا کوٹ پہن کر ایمرجنسی کی جانب چل دی۔ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر مشینوں میں جکڑے نازک سے وجود پر پڑی جس کے گرد ڈاکٹر اور دوسرا سٹاف کھڑے اپنا ہنر اسکی جان بچانے پر لگا رہے تھے۔

                      "ڈاکٹر آن ہری اپ اینڈ گیٹ ریڈی اٹس کیس آف سوئیر پوائزننگ۔"

                      ڈاکٹر حمید کی بات پر آن نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا اور سرجیکل کوٹ پہننے چلی گئی۔تیار ہو کر آن اس لڑکی کے پاس آئی تو ساتوں آسمان اس پر ایک ساتھ گرے۔

                      کیونکہ مشینوں میں جکڑا وہ وجود اور کسی کا نہیں اسکی چھوٹی بہن کا تھا ۔وہ بہن جس نے یہاں آتے ہی اسکی خوشیوں پر ڈاکہ ڈالنا چاہا وہ بہن جو شائید ابھی بھی اسکی خوشیوں کی دشمن تھی۔

                      آن کو یوں بت بنا دیکھ ڈاکٹر حمید نے اسکے بازو کو چھوا۔

                      "کھڑی مت رہیں ڈاکٹر میری ہیلپ کریں ہمیں اسکی جان بچانی ہے۔"

                      ڈاکٹر حمید کی بات پر آن نے ہاں میں سر ہلایا۔ہاں وہ ابھی صرف ایک ڈاکٹر تھی اور سامنے پڑی وہ لڑکی ایک مریض جسکی جان انہیں بچانی تھی۔

                      انہوں نے لیزا کو مخصوص دوائیاں دیں اور اسکا معدہ واش کرنے لگے تو کتنا ہی خون الٹی کی صورت میں اسکے منہ سے نکلا۔

                      "ڈیم اٹ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ان کا بہت زیادہ بلڈ لاس ہو جائے گا۔نرس فوراً بلڈ ارینج کریں AB+۔"

                      ڈاکٹر کے حکم پر نرس ہاں میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔آن لیزا کے علاج میں ڈاکٹر حمید کا پورے دل سے ساتھ دینے لگی۔

                      "ڈاکٹر AB+ ہمارے بلڈ بینک سے ختم ہو چکا ہے۔"

                      نرس نے پریشانی سے کہا تو ڈاکٹر نے فکر مندی سے اس مانیٹر کو دیکھا جہاں لیزا کی حالت بیان ہو رہی تھی۔

                      "تو کہیں اور سے پتہ کریں اگر انہیں بلڈ نہیں ملا تو یہ بچ نہیں پائیں گی۔"

                      ڈاکٹر کی بات پر آن نے پریشان ہو کر اس لڑکی کو دیکھا جو اسکی بہن تھی۔پھر ایک جھماکہ سا اسکے ذہن میں ہوا۔

                      "کیا ان کے ہزبینڈ ساتھ آئے ہیں ؟"

                      آن کے پوچھنے پر نرس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

                      "آپ انکا بلڈ لے لیں انکا بلڈ گروپ A+ ہے۔۔۔۔"

                      آن کی بات پر ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ نرس نے بھی حیرت سے اسے دیکھا۔

                      "ٹرسٹ می میں انہیں جانتی ہوں۔"

                      آن نے پختہ لہجے میں کہا تو ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا کیونکہ A+ بلڈ گروپ A+ اور AB+ دونوں کو لگ سکتا تھا۔نرس کے جانے کے بعد آن پھر سے ڈاکٹر حمید کی مدد کرنے لگی لیکن اسکے ہاتھ بری طرح سے کانپ رہے تھے۔

                      جو بھی تھی جیسی بھی تھی وہ لڑکی اسکی بہن تھی اور یہ بات آن کو بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی۔

                      "ڈاکٹر آن آپ جائیں اور بلڈ کا ارینج کریں میں انہیں دیکھ لوں گا۔"

                      ڈاکٹر سمجھ گیا تھا کہ آن اس لڑکی کو جانتی تھی شائید اسی وجہ سے پریشان ہو رہی تھی اس لیے ڈاکٹر نے اسے وہاں سے بھیج دیا۔آن ہاں میں سر ہلا کر ایمرجنسی وارڈ سے باہر آ گئی۔

                      لیزا کی وہ حالت اسے بہت زیادہ پریشان کر رہی تھی لیکن پھر بھی اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے نرس سے عزم کا پوچھا اور اس وارڈ میں آ گئی جہاں عزم کو خون دینے کے لیے رکھا گیا تھا۔

                      آن خاموشی سے وارڈ میں داخل ہوئی اور عزم کو دیکھنے لگی جو سنجیدگی سے بیڈ پر لیٹا تھا جبکہ قطرہ قطرہ خون جسم سے نکل کر ایک بوتل میں جمع ہو رہا تھا۔

                      بوتل بھر جانے پر نرس نے ڈرپ کو اس سے جدا کیا تو عزم نے حیرت سے اسے دیکھا۔

                      "بس اتنا ہی۔۔۔۔کافی ہو گا کیا؟"

                      عزم کی آواز میں بہت زیادہ بے چینی تھی۔

                      "کافی تو نہیں ہو گا سر لیکن آپ سے اور خون لیا تو آپکی طبیعت بگڑ سکتی ہے۔"

                      نرس کی بات پر عزم کے ماتھے پر بل آئے۔

                      "کچھ نہیں ہو گا مجھے چاہے تو میرے جسم کا ایک ایک قطرہ بھی نکال لو لیکن میری بیوی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔"

                      وہاں موجود ہر شخص عزم کی رندھی آواز میں بے تحاشا محبت اور تڑپ محسوس کر سکتا تھا۔نرس نے کچھ کہنا چاہا لیکن تبھی اسکے کانوں میں آن کی آواز پڑی۔

                      "آپ یہاں سے جائے باقی میں دیکھ لوں گی۔"

                      آن کے حکم دینے پر نرس وہاں سے چلی گئی جبکہ عزم کے ساتھ ساتھ کمرے کے کونے میں کھڑے غلام نے بھی حیرت سے اسے دیکھا تھا۔آن عزم کے پاس آئی اور ڈرپ دوبارہ سے اسکے جسم سے اٹیچ کر کے خالی بوتل سے لگا دی۔عزم کے خون کا قطرہ قطرہ اس بوتل میں جمع ہونے لگا۔

                      "یاد ہے عزم چوہدری ایک بار میں نے کہا تھا کہ اس خون کی قدر تمہیں تب آئے گی جب تمہارا کوئی اپنا اندر پڑا زندگی موت سے لڑ رہا ہو گا۔"

                      آن کا دھیان تو خون کی بوتل پر تھا لیکن الفاظ صرف عزم کے لیے تھے۔

                      "دیکھو آج تمہیں احساس ہو رہا ہے کہ تمہارے جسم کے خون کی ایک ایک بوند کتنی اہم ہے جسے تم اپنی ضد کو محبت کا نام دے کر ضائع کرتے رہے۔"

                      آن کے بات نے عزم کو اسکا ماضی یاد دلایا تو وہ اپنی آنکھیں موند گیا۔

                      "جس سے محبت ہوتی ہے ناں عزم اسکے لیے ہمیں خود کو نقصان پہنچانے یا مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی اسکی جدائی کا خیال ہی آپکی جان لے لیتا ہے۔"

                      آن نے عرشمان کو یاد کرتے ہوئے خواب ناک انداز میں کہا۔

                      "اب جیسے خود کو ہی دیکھ لو ایسا لگ رہا ہے تمہاری سانسوں کی ڈور اس لڑکی سے جڑی ہو اگر وہ نہیں رہے گی تو بچو گے تم بھی نہیں۔۔۔۔"

                      آن کی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔

                      "اب تمہیں اندازہ ہوا عزم کہ محبت کیا ہوتی ہے اور ضد کیا ہوتی ہے؟"

                      آن نے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "ضد وہ تھی جسے آج سے کچھ ماہ پہلے تک تم محبت سمجھ رہے تھے۔"

                      آن کا انداز سمجھانے والا تھا اور عزم بس سنجیدگی سے وہاں لیٹا اسکی ہر بات سن رہا تھا۔

                      "اور محبت یہ ہے عزم جو تم ایمرجنسی میں لیٹی اس لڑکی سے کرتے ہو۔"

                      اچانک ہی آن نے عزم کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو عزم نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "اور فکر مت کرو اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری محبت نہیں چھینیں گے وہ مہربان ہیں۔"

                      اتنا کہہ کر آن نے آدھی ہوئی خون کی بوتل عزم سے جدا کی اور وہاں سے چلی گئی جبکہ عزم وہاں لیٹا اسکی باتوں کے بارے میں سوچتا رہ گیا۔

                      یہ بات تو عزم بہت پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آن کے لیے اسکے جزبات ضد سے زیادہ کچھ نہ تھے۔اپنے دشمن کو زیر کرنے کی ضد ،اسکی آنکھوں میں ہار اور تڑپ دیکھنے کی ضد۔

                      لیکن ایک بات آن نے غلط کہی تھی۔زندگی اور موت سے لڑتی وہ لڑکی عزم کی محبت نہیں تھی وہ اسکا عشق تھی،اسکے جینے کی واحد وجہ اور اس بات کا اب عزم کو مکمل طور پر اندازہ ہو چکا تھا۔
                      ????
                      سلطان اپنے اندھیرے کمرے میں لیٹا تھا۔اس پر عجیب سی غنودگی طاری تھی دماغ تو جیسے حاضر تھا لیکن جسم نیند کی حالت میں بے جان ہوا تھا۔

                      جبکہ پلکیں ابھی بھی آنسؤں سے تر تھیں جیسے کہ آنسو کبھی خشک ہونے کا نام ہی نہ لیتے ہوں۔

                      آپ آپ مت روں سائیں جی مم۔۔۔۔مجھ سے آپکا رونا نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔آپ جو کہیں گے میں کروں گی بس آپ مت روں۔۔۔

                      کنیز کے وہ الفاظ یاد کر کے سلطان کے آنسو مزید روانی سے بہنے لگے۔وہ لڑکی جو اسکی آنکھ میں ایک آنسو برداشت نہیں کر پاتی تھی کہاں سلطان نے اسکی زندگی آنسؤں سے بھر دی تھی۔نہ جانے اب وہ کہاں تھی کس حال میں تھی اور ان کا بچہ۔۔۔۔

                      اپنے بچے کا خیال آتے ہی سلطان کو ایسے لگنے لگا کہ جیسے کسی نے اسے انگاروں پر لیٹا دیا ہو۔وہ بے چین ہو کر بیڈ پر بیٹھ گیا جبکہ آنکھوں سے آنسو اب روانی سے بہنے لگے تھے۔وہ اس شخص کی مانند تھا جس نے اپنا جہان خود ہی لوٹ لیا ہو۔

                      ربا تو ہی جانے میرا حال
                      دل نہیں لگدا
                      جندڑی میری بے حال
                      دل نہیں لگدا
                      اے اکھیاں ڈھونڈدی ہار گئیں
                      کہاں ہے میرا یار بتا دے
                      اے سارے دن رات اجاڑ گئیں
                      ملا دے میرا یار
                      مولا مولا میرا یار ملا
                      مولا مولا اک وار ملا دے
                      دیواں تینو واسطہ
                      واسطہ پیار دا

                      اچانک ہی دروازہ کھلا تو دروازے سے آنے والی روشنی پر سلطان اپنی آنکھیں زور سے میچ گیا لیکن کمرے میں داخل ہونے والے نے لائٹ بھی آن کر دی تو سلطان کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

                      "اکیلا رہنا چاہتا ہوں میں کیا اتنی سی بات آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی؟"

                      سلطان غصے سے چلایا لیکن کمزوری کی وجہ سے اسکا چلانا بھی عام بات کے برابر ہی تھا۔

                      "کھانا میز پر رکھ دو اور جاؤ۔"

                      اماں بی کی آواز پر سلطان نے آنکھیں کھولیں اور حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔اتنے دنوں میں آج پہلی بار وہ اسکے پاس آئی تھیں۔

                      "تم نے یہ سب کیا لگا رکھا ہے سلطان کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟جانتے ہو فرحین اور عرشمان کتنے پریشان ہیں تمہاری وجہ سے ۔"

                      اماں بی نے زرا سختی سے کہا لیکن پھر سلطان کو پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ کر اسکے پاس آئیں اور اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

                      "عرشمان ڈھونڈ تو رہا ہے ناں اسے تم فکر مت کرو مل جائے گی وہ۔فلحال خود پر ظلم کرنا بند کرو اور کھانا کھاؤ۔"

                      اماں بی کے لہجے میں نرمی کے ساتھ ساتھ سختی بھی تھی۔

                      "نہیں اماں بی وہ مجھے اب نہیں ملے گی ناراض ہو گئی ہے مجھ سے۔"

                      سلطان نے بھیگی ہوئی پلکیں موند کر کہا۔

                      "تم نے کام بھی تو ایسا ہی کیا ناں سلطان اس معصوم بچی کے ساتھ اتنی زیادتی کی تم نے اسے اپنے نکاح میں لے کر بھی تم نے اس گھر میں اسکی حیثیت بس ایک ملازمہ کی رکھی اور اپنا حق کتنی شان سے اس پر جتاتے رہے۔جانتے ہو کسی کی حق تلفی کا کیا عذاب ہوتا ہے؟"

                      اماں بی نے اسے دادی بن کر سمجھاتے ہوئے کہا۔

                      "تو میں کیا کرتا اماں بی امی سے میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ میں انابیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو آپ نے انکی حالت دیکھ ہی لی تھی ناں اور اگر میں انہیں بتاتا کہ میں شادی کر چکا ہوں تو ان کے دل پر کیا بیتی۔"

                      سلطان نے اپنی مجبوری بیان کی ۔

                      "تو؟"

                      اماں بی کے عام سے انداز میں کہنے پر سلطان نے حیرت سے انہیں دیکھا۔

                      "دیکھو سلطان ملک اگر ماں کے حقوق کی بات کریں تو تمہارا فرض اسکی خدمت ہے،اسکی اطاعت ہے لیکن شادی کرنا تمہارا اپنا حق ہے سلطان اس میں تم اپنی مرضی کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"

                      سلطان حیرت سے اپنی دادی کی باتیں ان رہا تھا۔

                      "جانتی ہوں معاشرے کے مطابق اپنی مرضی سے شادی کرنے والی اولاد خود سر اور انتہائی نافرمان ہے لیکن افسوس تو اس بات پر ہے سلطان کہ ہمارا معاشرہ ہمارے دین سے بہت جدا ہے۔"

                      اماں بی ایک پل کو رکیں۔

                      "ہمارا دین ایک مرد اور عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے سلطان تم چاہو تو انابیہ سے دوسری شادی کر سکتے ہو اگر نہیں چاہتے تو تمہیں کوئی مجبور نہیں کر سکتا اور اگر فرحین تمہیں ایسا کرنے کے لیے مجبور کر ہی رہی تھی تو غلط وہ تھی سلطان تم نہیں۔"

                      سلطان بس خاموشی سے سر جھکائے اماں بی کی باتیں سن رہا تھا۔

                      "اسی طرح جو مرد اپنی بیوی کا احساس کرتا ہے اسے محبت دیتا ہے یہ دنیا اسے زن مرید کہتی ہے اور وہی مرد جب اپنی ماں کی خدمت خود بھی کرتا ہے اور اپنی بیوی سے بھی کرواتا ہے تو دنیا اسے ظالم کہتی ہے۔"

                      اماں بی کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکان آئی۔

                      "حالانکہ ہونا تو ایسا چاہیے کہ وہ آدمی دونوں کام کرے اپنی بیوی کو اتنی محبت اتنی چاہت دے کے وہ اپنی ساس کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اسے مجبور کرنے کی بجائے وہ بیٹے ہونے کا فرض خود پورا کرے اور بیوی کو محبت دے کر شوہر ہونے کا فرض پورا کرے۔"

                      اماں بی کا لہجہ اتنا میٹھا تھا کہ سلطان انکی باتوں میں کھو گیا۔

                      "اگر اس سب کے بعد بھی بیوی یا ماں خوش نہیں ہوتیں تو یہ مرد کی نا انصافی نہیں انکی نا شکری ہے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو نہ کہ ایک کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف پہنچاؤ۔۔۔۔"

                      اماں بی نے سمجھا کر افسوس سے سلطان کو دیکھا۔

                      "حقوق اور فرائض کو نہ سمجھتے ہوئے تم نے جو زیادتی اس بچی سے کی وہ تمہارا گناہ تھا۔"

                      اس بات پر سلطان کی آنکھوں سے دو آنسو گرے تھے۔

                      "اور اب جب گناہ کی سزا کا وقت آیا ہے تو یوں کمزور ہو کر بیٹھ گئے۔ہمت کرو اور اپنی غلطیوں کی سزا بھگتو ۔"

                      اماں بی کا لہجہ پھر سے سخت ہوا۔سلطان نے بے بسی سے انہیں دیکھا۔

                      "میں کیا کروں اماں بی؟"

                      اسکے سوال پر اماں بی مسکرا کر اٹھیں اور کھانے کی ٹرے لا کر اسکے سامنے رکھتے ہوئے ایک نوالا توڑا۔

                      "اسکا شوہر ہونے کا جو فرض پورا نہیں کیا اسے پورا کرو سب کو بتاؤ کہ اس بچی کی کیا اہمیت ہے اور تم اس سے محبت کرتے ہو کسی اور کو اپنانا نہیں چاہتے۔"

                      اماں بی نے نوالا سلطان کے منہ کے پاس کیا لیکن سلطان نے اس نوالے کو کھانے کے لیے منہ نہیں کھولا۔

                      "خود کو سنبھال کر طاقت بناؤ اور اسے ڈھونڈ کر یہاں واپس لا کر اسے اسکا مقام دو۔"

                      سلطان نے لاچارگی سے انہیں دیکھا۔

                      "کیسے ڈھونڈوں اسے ہر جگہ ڈھونڈ چکا ہوں لیکن وہ نہیں ملی۔"

                      اس بات پر اماں بی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔

                      "اپنے رب سے معافی مانگ کر اسے مانگو دیکھنا وسیلہ میرا رب خود پیدا کر دے گا۔"

                      اماں بی نے محبت سے اپنا بایاں ہاتھ سلطان کے گال پر رکھ کر کہا۔

                      "چلو اب کھانا کھاؤ۔۔۔۔"

                      اماں بی کی بات پر سلطان نے کچھ سوچتے ہوئے وہ نوالا اپنے منہ میں کے لیا۔ہاں وہ یوں تھک کر نہیں بیٹھنے والا تھا وہ اپنی کنیز کو ڈھونڈنے کا ارادہ رکھتا رکھتا تھا اور پھر یہ سلطان اپنی کنیز کے قدموں میں زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
                      ????
                      عزم اور غلام پریشانی کے عالم میں ایمرجنسی وارڈ کے باہر بیٹھے تھے۔عزم کو جتنی سورتیں اور دعائیں آتی تھیں وہ پڑھ کر اپنی غزل کو خدا سے مانگ چکا تھا لیکن دل کی بے چینی تو بس محبوب کو صحیح سلامت دیکھ کر ہی ختم ہونی تھی۔اچانک ہی ڈاکٹر وارڈ سے باہر آیا تو عزم بے چین ہو کر ڈاکٹر کے پاس گیا۔

                      "فکر مت کریں مسٹر عزم وہ خطرے سے باہر ہیں اب۔"

                      ڈاکٹر کی بات پر عزم آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے زرا سا سائیڈ پر ہوا اور اپنے خدا کے حضور سجدہِ شکر میں گر کے سسکتے ہوئے رونے لگا۔غلام نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنے گلے سے لگا لیا۔

                      "مبارک ہو دوست تمہیں تمہاری زندگی کی زندگی بہت مبارک ہو "

                      عزم نے اسے مسکرا کر دیکھا اور ڈاکٹر کی جانب مڑا۔

                      "کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟"

                      "فلحال تو وہ نیند میں ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر میں ہم انہیں وارڈ میں شفٹ کر دیں گے پھر آپ ان سے مل سکتے ہیں۔"

                      ڈاکٹر اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور عزم پھر سے خدا کا شکر ادا کرنے لگا جبکہ آنسو اب شکرانے کے آنسؤں میں بدل چکے تھے۔

                      آخر کار ایک نرس نے آ کر اسے بتایا کہ لیزا کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا ہے اور عزم اس سے مل سکتا ہے۔عزم بے چینی سے وارڈ میں داخل ہوا اور لیزا پر نظر پڑتے ہی اسکے پاس چلا گیا۔

                      کتنی دیر وہ اسکو دیکھتے ہوئے اپنے اندر سکون اتارتا رہا پھر اس نے جھک کر اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ملایا تو کتنے ہی آنسو لیزا کے چہرے پر گرے۔

                      "ایک بار ٹھیک ہو کر گھر چلو بس تم مجھے اتنا تڑپانے کا حساب سود سمیت وصول کروں گا۔"

                      عزم نے لیزا کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔اب غم ختم ہوا تھا تو غصہ اسکے اعصاب پر حاوی ہوا۔وہ فوراً باہر کھڑے غلام کے پاس آیا تھا۔

                      "تم واپس گاؤں جاؤ غلام اور ملازمہ ہے بھیس میں چھپے اس بہروپیے کو تلاش کرو جس نے میری زندگی مجھ سے چھننے کی جرات کی پھر اسکی سزا کو میں سب کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا۔"

                      عزم نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا تو اسکے غصے کو محسوس کرتے غلام نے ہاں میں سر ہلایا۔

                      "میرے واپس آنے تک مجھے وہ چاہیے غلام ہر حال میں۔"

                      غلام نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔جبکہ عزم پھر سے لیزا کے پاس واپس جا چکا تھا ۔
                      جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_33



                      لیزا کی آنکھیں کھلیں تو نگاہ ایک مسکراتے ہوئے آدمی پر پڑی جو سفید رنگ کا کوٹ پہنے اسکے بیڈ کے پاس کھڑا تھا۔

                      "نئی زندگی بہت بہت مبارک ہو آپکو مسز چوہدری۔"

                      اسکے یہ بات اردو میں کہنے پر لیزا نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "اس نے ساری زندگی کینیڈا میں گزاری ہے ڈاکٹر۔اسے اردو نہیں آتی۔"

                      ایک جانی پہچانی سی آواز پر لیزا نے اپنی نظریں ڈاکٹر سے ہٹا کر اپنے سرہانے موجود ڈرپ سٹینڈ کے پاس کھڑی آن کو دیکھا۔

                      ڈاکٹر نے پہلے کہی بات انگلش میں دہرا کر لیزا کا دھیان اپنی جناب کھینچا۔

                      "آپکو پتہ اگر آپ زندہ ہیں تو اپنے ہزبیڈ اور ڈاکٹر آن کی وجہ سے۔اگر ڈاکٹر آن ہمیں نہیں بتاتیں کہ آپکے ہزبینڈ کا بلڈ آپ کو لگ سکتا ہے تو بہت زیادہ پرابلم ہو جاتی۔"

                      ڈاکٹر کی بات نے لیزا کا ایک اندھے کنوئیں میں دھکیلا تھا جہاں اسے یاد آ رہا تھا تو بس یہ کہ یہ دنیا واقعی مقافات عمل تھی۔جسے ایک دن اس نے اپنے جنون میں مارنا چاہا تھا آج وہی اسکی جان بچا گئی تھی۔کبھی لیزا نے اسے زہر دینے کی کوشش کی تھی اور آج لیزا خود بھی زہر کا شکار ہو گئی تھی۔لیزا کو اس بات سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا کیا گناہ کبھی نہ کبھی لوٹ کر ہمارے سامنے ضرور آتا ہے۔

                      اور اس احساس گناہ کے باعث لیزا آن کا سامنا بھی نہیں کر پا رہی تھی۔

                      "ویسے آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں ناں؟کیا رشتہ ہے آپ دونوں کے درمیان۔"

                      ڈاکٹر کی بات نے لیزا کو اسکے خیالوں سے باہر نکالا شائید وہ چاہتا تھا لیزا کچھ بولے لیکن لیزا کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

                      "یہ میری چھوٹی بہن ہے۔"

                      آن نے ہی اسکی مشکل آسان کر دی اور اسکے ساتھ اتنا سب کرنے کے بعد بھی آن کا اسے اپنی بہن کہنا لیزا کا پچھتاوا بڑھا گیا۔

                      "اوہ۔۔۔"

                      ڈاکٹر کو آن کی بات نے کافی حیران کیا۔

                      "میں باقی پیشنٹس کو دیکھ لوں۔"

                      آن اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی تو ڈاکٹر بھی اس سے اسکا حال پوچھنے اور اسکا چیک اپ کرنے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی لیزا کی نظر دروازے میں کھڑے عزم پر پڑی جو وہاں سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔

                      اسے دیکھ کر لیزا نے شکر ادا کیا کہ وہ زندہ تھی کیونکہ موت سے زیادہ دردناک خیال تو موت کے بعد اس سے دور جانے کا تھا۔

                      "ہائے۔۔۔"

                      لیزا نے ہلکے سے کہا تو عزم اسکے پاس آیا اور اسے گہری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

                      "کس نے اجازت دی تھی تمہیں میرے حصے کی تکلیف کو اٹھانے کی؟ میرے حصے کی تکلیف صرف میری ہے سنا تم نے آئندہ ایسا کچھ کیا ناں تو ہسپتال لانے کی بجائے خود ہی گلا گھونٹ کر مار دوں گا۔"

                      لیزا اسکی اردو میں کہی بات سمجھ تو نہیں پائی لیکن اسکی آواز میں موجود فکر مندی اور پلکوں پر ٹھہرے آنسو دیکھ کر ہلکا مسکرا دی۔

                      لیزا نے خاموشی سے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کیا جسے عزم تھام کر اسکے پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گیا اور وہ ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔

                      "Can't live without you
                      Can't die without you
                      You have become more
                      Essential than life itself."

                      لیزا نے آہستہ سے کہا اور کمزوری کے باعث اپنی آنکھیں موند گئی۔لیکن نیند میں جانے سے پہلے وہ اپنا ہاتھ عزم کے ہاتھ میں محسوس کر سکتی تھی اور یہ احساس اسکے لیے دنیا کا سب سے قیمتی احساس تھا جس کے لیے شائید آج وہ زندہ تھی۔
                      ????
                      آن ہاسپٹل کے لیے تیار ہو رہی تھی۔آئنے کے سامنے کھڑی سادہ سی سفید شلوار قمیض میں ملبوس اس نے ایک سنجیدہ سی نگاہ خود پر ڈالی اور پھر اپنا کوٹ پکڑ کے بازو پر ڈال کر باہر جانے لگی لیکن اب جب اسکی نگاہ آئنے میں اٹھی تو وہ تنہا نہیں تھی بلکہ عرشمان اسکے پیچھے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔آن شیشے میں بھی اسکی آنکھوں میں چھا غصہ اور جنون دیکھ سکتی تھی۔

                      "کس نے کہا تم سے یہ رنگ پہننے کو جانتی ہو ناں نفرت ہے مجھے اس رنگ سے ابھی جاؤ اور کپڑے بدل کر آؤ۔۔۔۔"

                      اتنا عرصہ اسے یہاں تنہا کڑنے کے لیے چھوڑنے کے بعد یہاں آ کر اس پر دھونس جمانا آن کو غصہ دلا گیا تبھی وہ پلٹی اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتی بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے پاس جا کر اپنی گھڑی اٹھا کر پہننے لگی۔

                      "تمہیں سنائی نہیں دیا آن میں نے کیا کہا۔چینج کرو یہ کپڑے۔"

                      عرشمان اسکے پاس آیا اور اسے کہنی سے پکڑ کر لال ہوتی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔اسے کہاں گوارا تھا آن کا اسے انظر انداز کرنا لیکن آن نے نرمی سے اپنا بازو چھڑوایا اور اب کی بار اپنے بیگ کے پاس آئی۔

                      "تم مجھے اگنور کیوں کر رہی ہو؟جسٹ ٹاک ٹو می ڈیم اٹ۔۔۔۔"

                      عرشمان نے اسے دونوں بازوں سے دبوچ کر جھنجھوڑا تو آن کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان آئی۔

                      "بس اتنے میں ہی بس ہو گئی آپ کی اور آپ جو مجھے ہماری شادی کے بعد سے اگنور کرتے رہے اسکا کیا،میری ذات کی ہر پل دھجیاں اڑاتے رہے میں بھی تو برداشت کرتی رہی ناں تو اب آپ بھی کریں۔۔۔۔"

                      اتنا کہہ کر آن نے اپنا آپ اس سے چھڑوانا چاہا لیکن نتیجتاً عرشمان کی پکڑ اس پر مزید مظبوط ہو گئی۔

                      "بتا تو چکا ہوں آن وہ سب میری مجبوری تھی قسم کھاتا ہوں تمہیں جان بوجھ کر تکلیف نہیں پہنچائی میں نے۔"

                      عرشمان کی بات پر آن کی پلکیں نم ہو گئیں۔

                      "اور یہ عرشمان؟یہ کیا ہے اب تو کر دیا ناں آپ نے خود سے دور اب تو اس دشمن کو سکون ہے ناں تو پھر کہاں تھے آپ اتنا عرصہ؟کیا ایک پل کے لیے بھی آپ کو خیال آیا کہ میں کس حال میں ہو سکتی ہوں؟کیا آپ نے ایک بار بھی آ کر مجھ سے پوچھا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے؟"

                      آن نے اسکا گریبان ہاتھ میں جکڑ کر روتے ہوئے پوچھا تو عرشمان کو بے ساختہ اس پر پیار آیا۔اس نے آن کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگایا تو آن پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

                      "مجھے معاف کر دو میری جان مانتا ہوں کہ تم سے تب غافل رہا جب تمہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی لیکن مجبوریاں ایسی بن گئی تھیں کہ چاہ کر بھی میں گاؤں سے نہیں نکل سکا۔"

                      عرشمان نے اسکے بال سہلاتے ہوئے محبت سے کہا۔

                      "کیسی مجبوریاں؟"

                      آن نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے پریشانی سے پوچھا تو عرشمان نے اسے ہر ایک بات بتا دی۔جسے سن کر آن عرشمان کے سینے سے چہرہ نکال کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

                      "اسکا مطلب سلطان بھائی نے نوری سے نکاح کیا ہوا تھا؟"

                      عرشمان نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔

                      "اور اب جب اسے اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے کھو چکا ہے تو اپنی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔بس ایک کمرے میں قید کر لیا ہے خود کو نہ ہی کچھ کھاتا ہے اور نہ ہی کسی سے بات کرتا ہے سمجھ نہیں آ رہا مجھے کیا کروں اسکا۔"

                      عرشمان نے پریشانی سے کہا اور اپنے دیور کے اس حال پر آن کی پلکیں بھی بھیگ گئیں جسے وہ بچپن سے بڑا بھائی مانتی آئی تھی۔

                      "اور یہی نہیں آن ایک اور پریشانی ہے جس سے مجھے بہت پہلے آگاہ ہونا چاہیے تھا لیکن۔۔۔۔"

                      آن نے اسکے رک جانے پر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو عرشمان نے اسے عزم کی بتائی ہر بات بتا دی۔

                      "وہ دشمن شائید آج بھی ہماری حویلی میں ہماری ناک کے نیچے چھپا بیٹھا ہے اور ہم اسے جانتے تک نہیں۔۔۔۔"

                      عرشمان کے ماتھے پر غصے سے شکن آتے دیکھ آن بھی پریشان ہوئی۔

                      "اور جانتی ہو آن میں غلط تھا وہ تصویریں اور وہ سب جو ہوا وہ بھی لیزا نے نہیں کیا بلکہ مجھے لگتا ہے اس کے پیچھے بھی وہی دشمن ہے نا جانے کون ہے وہ جسے ہماری خوشی گوارا نہیں؟"

                      عرشمان اب اپنی مٹھیاں ضبط سے بھینچ گیا تو آن اپنا سر جھکا گئی۔کہاں اسے ہر پریشانی سے بچا کر یہاں چھوڑے وہ اکیلا ہی ہر مشکل سے لڑ رہا تھا اور آن اسے ہی قصور وار ٹھہرا رہی تھی۔

                      جو کچھ بھی ہوا اس نے جتنی تکلیف آن کو دی تھی اتنی ہی عرشمان کو بھی تو دی تھی شائید آن سے بھی زیادہ۔

                      "آئی ایم سوری مان۔۔۔۔"

                      آن نے شرمندگی سے سر جھکاتے نم آواز میں کہا تو عرشمان نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کھینچتے ہوئے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔

                      "نہیں میری جان جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں بس یہ ہمارا مقدر ہے آن جس میں نہ جانے کتنی ہی تکلیفیں لکھی ہیں لیکن اب میں ہر تکلیف کو مٹا دوں گا آن تم سے وعدہ کرتا ہوں ہماری زندگی اتنی ہی خوشحال بناؤں گا جتنی ہم نے اپنے خوابوں میں دیکھی تھی۔"

                      عرشمان نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے تو آن خود میں ہی سمٹ گئی۔

                      "مجھے ہاسپٹل جانا ہے دیر ہو رہی ہے۔"

                      عرشمان کے ہونٹ ماتھے سے گردش کرتے اسکے گال تک آئے تو آن نے گھبرا کر کہا لیکن عرشمان اسکی سن ہی کہاں رہا تھا۔اتنے دنوں کے بعد اپنی محبت اپنے سکون کو اپنے قریب پا کر وہ بے چین ہو چکا تھا۔

                      عرشمان نے اسکے ہونٹوں پر جھکنا چاہا تو آن نے اپنا گلابی ہوا چہرہ پھیر لیا لیکن اسکی یہ حرکت عرشمان کو خاص پسند نہیں آئی اسی لیے اس نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پورے حق اور شدت سے اسکے ہونٹوں کو اپنی قید میں لے لیا۔

                      اتنے دنوں کے بعد محبت کا یہ قربت عرشمان کو بے چین کر رہی تھی لیکن اس کی بے چینی سہنا آن کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔اسی لیے اس سے دور ہو کر اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپاتے ہوئے گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔

                      "اپنے دل میں بستے محبتوں کے اس طوفان کو بہت دیر سے خود میں باندھ رکھا ہے میں نے میرے دل کے قرار جب وقت ملے گا تو فرصت سے تمہیں اپنی بے چینی دیکھاؤں گا۔"

                      عرشمان کی بات پر آن اپنے پیروں کے ناخن تک سرخ ہوئی۔عرشمان نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکال کر جان لٹاتی نظروں سے اسے دیکھا۔

                      "اب فوراً یہ کپڑے بدلو ورنہ یہ کام مجھے بھی اچھی طرح سے کرنا آتا ہے۔"

                      عرشمان نے زرا گھور کر کہا تو آن اس سے گھبراتی فوراً الماری سے گلابی رنگ کا ایک جوڑا نکال کر واش روم میں گھس گئی۔

                      کچھ دیر کے بعد وہ واش روم سے باہر آئی تو عرشمان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

                      "آپ آج یہاں میرے پاس رکیں گے کیا؟"

                      آن کے پوچھنے پر عرشمان کی مسکان غائب ہوئی۔وہ اس کے پاس رکنا چاہتا تھا لیکن یہ مجبوریاں۔

                      "نہیں آن چاہ کر بھی نہیں رک سکتا مجھے واپس جا کر عزم سے ملنا ہے اسے سے آگے کا۔۔۔"

                      "لیکن وہ تو یہی ہے ہاسپٹل میں۔"

                      آن نے عرشمان کی بات کاٹ کر کہا تو عرشمان حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

                      "آپکو نہیں پتہ؟لیزا کو کسی نے ذہر دے کر مارنے کی کوشش کی۔۔۔"

                      آن نے عرشمان کو ساری بات بتائی تو عرشمان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔یعنی کہ وہ دشمن جان گیا تھا کہ عرشمان اور عزم اپنے درمیان موجود غلط فہمیوں کو ختم کر چکے ہیں اسی لیے وہ عزم تک پہنچ گیا۔عرشمان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔

                      "آپ ان سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ لیزا کے پاس اسکے وارڈ میں ہی ملیں گے۔"

                      "نہیں آن ابھی وہ بہت زیادہ پریشان ہو گا فلحال ہر معاملہ میں خود ہی دیکھ لوں گا اور میرے خیال سے چچا کو بھی لیزا کے بارے میں خبر ہونی چاہیے۔"

                      آن نے ہاں میں سر ہلایا تو عرشمان اسکے پاس آیا اور محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ٹکایا۔

                      "تمہارے اندر میری جان بسی ہے خود کو میری امانت سمجھ کر اپنا خیال رکھنا۔"

                      اتنا کہہ کر عرشمان نے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور وہاں سے چلا گیا جبکہ اسکی حرکت پر آن کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان آئی اور اس نے اپنے ماتھے کو چھوا۔اپنی محبت کو پھر سے پہلے جیسا پا کر اسکی زندگی کی ساری رونک واپس لوٹ آئی تھی۔
                      ????
                      لیزا کی طبیعت اب کافی حد تک سمبھل چکی تھی۔جتنا عرصہ وہ ہاسپٹل میں رہی تھی عزم نے ہر ایک پل اسکے ساتھ گزارا تھا۔وہ اسکا اس قدر خیال رکھتا تھا کہ لیزا کو اپنی قسمت پر رشک ہونے لگا تھا۔

                      اسے کچھ بھی دینے سے پہلے عزم خود اسے چکھتا تھا شائید وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکے حصے کی تکلیف پھر سے لیزا سہے اور وہ نہیں جانتا تھا اسکی یہ حرکت لیزا کے دل کا کیا حال کرتی تھی۔

                      وہ ضدی سی لڑکی جسے عرشمان ملک صرف پسند آیا تھا تو وہ اسکے پیچھے اس قدر پاگل ہو گئی تھی کہ خود کو اور دوسروں کو مارنے تک چلی آئی۔یہ شخص تو اسکا جنون،اسکی عاشقی بن بیٹھا تھا اس کے لیے وہ کس حد تک جا سکتی تھی یہ تو لیزا بھی نہیں جانتی تھی۔

                      ابھی بھی لیزا کب سے بس اسے تکنے میں مصروف تھی جو بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھا اپنا سر لیزا کے بیڈ پر رکھے سو رہا تھا جبکہ لیزا کا ہاتھ نیند میں بھی مسلسل اس کی گرفت میں تھا جیسے اسے ایک ڈر ہو کہ کہیں وہ دور نہ چلی جائے۔

                      آج اسے دیکھ کر لیزا کو احساس ہوا تھا کہ وہ کتنی زیاہ بے وقوف تھی جو خود کو اور اپنی عزت نفس کو اس شخص کے پیچھے تار تار کرتی رہی جسنے کبھی اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔

                      آج اسے لگ رہا تھا عقلمند انسان وہ نہیں ہوتا جو اسے دنیا سے چھین لے جسے وہ چاہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اسکا بن جائے جو اسے ٹوٹ کر چاہتا ہو۔جیسے وہ انگریزی میم سر سے لے کر پیر تک اپنے اس پنجابی منڈے کی ہو چکی تھی۔

                      لیزا تکلیفوں کو نظر انداز کرتی اسکی جانب کروٹ لے کر اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ اسکے بالوں میں چلانے لگی۔

                      You are the light
                      You are the night
                      You are the color of my blood
                      You are the cure you are the pain
                      You are the only thing I want to touch
                      Never knew that it could mean so much so much
                      You are the fear I don't care
                      I have never been so high
                      Follow me through the dark
                      Let me take you past the satellite
                      You can see the world you brought to life to life

                      لیزا اسے دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ گنگا رہی تھی۔دل تھا کہ کہہ رہا تھا زندگی بس اسے یونہی دیکھتے ہوئے گزار دے۔دل میں امٹنے والی خواہش پر لیزا زرا سا آگے ہوئی اور اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھ دیے۔

                      اپنے ماتھے پر پھولوں سا نرم احساس محسوس کر عزم کی آنکھیں کھل گئی تو لیزا گھبرا کر فوراً سیدھی ہو گئی۔عزم نے ایک نگاہ اسکے ہاتھ کو دیکھا جو اسکی گرفت میں تھا۔

                      "کیا ہوا ٹھیک تو ہو درد تو نہیں ہو رہا؟"

                      عزم کے سوال پر لیزا نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔ابھی تک وہ درد لفظ سے اچھی طرح واقف ہو چکی تھی کیونکہ ان دنوں میں عزم اس سے یہ بات ہزار مرتبہ پوچھ چکا تھا۔

                      عزم کو لگا کہ شائید اسے اسکی بات کی سمجھ نہیں آئی تو اس نے لیزا کا ہاتھ دبایا۔

                      "فائن؟"

                      عزم کی آواز میں موجود فکر پر لیزا کا دل زور سے دھڑکا۔

                      "ناٹ فائن۔"

                      عزم کے ماتھے پر شکن نمایاں ہوئی۔وہ فوراً اٹھا اور ڈاکٹر کو بلا لایا جس پر لیزا کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے۔

                      "کیا ہوا مس آپ کے ہزبینڈ کہہ رہے ہیں آپکی طبیعت ٹھیک نہیں کوئی ایشو ہے کیا؟"

                      ڈاکٹر نے لیزا کی نبض چیک کرتے ہوئے پوچھا۔

                      "میں بالکل ٹھیک ہوں ڈاکٹر اور یہی میری پرابلم ہے اب میں گھر جانا چاہتی ہوں بور ہو گئی ہوں یہاں رہ رہ کر پلیز میرے ہزبینڈ کو بتائیں آپ۔"

                      لیزا نے منہ بسور کر کہا تو ڈاکٹر نے مسکرا کر ہر بات عزم کو بتا دی۔

                      "لیکن ابھی گھر کیسے جا سکتے ہیں اسکی طبیعت ٹھیک نہیں آپ اسکا مکمل علاج کریں ڈاکٹر صاحب۔"

                      عزم نے زرا رعب سے لیزا کو دیکھتے ہوئے کہا تو لیزا کا منہ مزید پھول گیا۔

                      "دراصل اب وہ ٹھیک ہیں مسٹر عزم،آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں بس اگلے ہفتے چیک اپ کروانے کے لیے یہاں لائے گا باقی میں انکے ڈسچارج پیپر بنوا دیتا ہوں۔آپ میرے روم میں آئیں آپ کو کچھ ڈیٹیلز بتانی ہیں۔"

                      عزم نے ہاں میں سر ہلایا تو ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا۔عزم ہلکا سا مسکرا کر لیزا کے پاس آیا اور اپنے ہاتھ اسکے سر کے دائیں بائیں رکھ کر اس پر جھکا تو اسکی اس اچانک قربت پر لیزا سانس روکے ہکی بکی سی اسے دیکھنے لگی۔

                      "تمہارا یہ سوجا منہ گھر جا کر ٹھیک کرتا ہوں پھر اس دن کی باتوں کا حساب بھی تو باقی ہے۔"

                      عزم نے اسکی تیکھی ناک پر اپنے ہونٹ رکھے تو لیزا زور سے اپنی آنکھیں موند کر کانپنے لگی۔ایک مسکراتی نگاہ اس پر ڈال کر عزم وہاں سے چلا گیا جبکہ لیزا اسکی قربت پر کانپتی اپنی دھڑکنیں شمار کر کے رہ گئی۔
                      ????
                      فجر کا وقت ہو رہا تھا جب سلطان نماز ادا کرنے مسجد میں گیا۔انسان دکھ اور تکلیف سے شائید گزارا ہی اسی لیے جاتا ہے تا کہ اپنے رب کے قریب ہو سکے۔یہی معاملہ سلطان کے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔

                      اتنی عقیدت اور توجہ سے اس نے کبھی نماز ادا نہیں کی تھی جتنی دلجوئی سے وہ اب ادا کرنے لگ گیا تھا۔نماز ختم ہونے کے بعد ہمیشہ کی طرح اسکی آنکھوں میں آنسو ہے تھے اور اپنے ہاتھ دعا میں اٹھا کر ہمیشہ کی طرح اپنی خطا کی معافی اور اپنی کنیز کے ملنے کی دعائیں کرنے لگا۔

                      اسکی دعائیں وہاں موجود پر موجود ہر نمازی سے زیادہ طویل ہوتی تھیں۔دعا ختم کر کے اس نے آنسو پونچھے اور حویلی واپس آ گیا۔نہا کر کپڑے بدلنے کے بعد وہ ایک بار پھر سے کنیز کو تلاش کرنے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب دروازہ کھلا اور فرحین بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔

                      "اسلام و علیکم امی۔"

                      سلطان نے عقیدت سے انہیں سلام کیا اور انکے سامنے آ کر اپنا سر انکے سامنے جھکا دیا۔

                      "و علیکم السلام میری جان۔۔۔۔"

                      فرحین بیگم نے محبت سے کہتے ہوئے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور اسے یوں تیار دیکھ مسکرا دیں۔سلطان اب سنبھل چکا تھا خود کو ایک کمرے میں قید کر کے ختم نہیں کر رہا تھا اور یہی بات انہیں سکون دے گئی تھی۔

                      "شکر ہے بیٹا تم نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ورنہ میں تو تمہاری فکر میں بے حال ہو رہی تھی۔"

                      انکی بات پر ایک افسردہ سی مسکان سلطان کے چہرے پر آئی۔کاش کوئی اسکے دل میں جھانک کر دیکھتا تو پتہ چلتا کہ اندر سے وہ وہی بکھرا ہوا سلطان تھا جو اپنی کنیز کے کھونے پر مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔

                      "آپ میرے لیے پریشان مت ہوا کریں امی آپ بتائیں آپ کو کوئی کام تھا مجھ سے۔"

                      سلطان کے پوچھنے پر فرحین بیگم نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔

                      "ہاں بیٹا میں نے تم سے پوچھنا تھا کہ اب آگے کیا کرنا ہے پہلے ہی تمہاری انابیہ سے شادی ہوتے ہوتے رہ گئی اور وہ بے چاری کتنا دکھی رہتی ہے اسکا اندازہ ہے تمہیں؟"

                      فرحین بیگم کی انکھوں میں ایک شکوہ تھا۔

                      "آپ کیا چاہتی ہیں امی؟"

                      سلطان نے سنجیدگی سے انکی خواہش پوچھی۔

                      "میں چاہتی ہوں کہ سادگی سے تم دونوں کا نکاح کر دیا جائے تا کہ اس بے چاری پر جو لوگ سوال اٹھا رہے ہیں ان کے منہ کو تو تالا لگے۔"

                      سلطان نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا۔کیا انہیں سلطان کی آنکھوں میں کنیز کے لیے محبت اور تڑپ نظر نہیں آتی تھی جو وہ یہ بات کہہ رہی تھیں۔

                      "معاف کریے گا امی لیکن میں انابیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا میں اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں اور اسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔"

                      سلطان کی بات پر فرحین بیگم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔کیا انہیں انکار کرنے والا انکا وہی فرمانبردار بیٹا تھا۔

                      "یہ تم کیا کہہ رہے ہو سلطان؟"

                      "وہی امی جو سچ ہے میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں اور اسکے علاوہ کسی عورت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔"

                      سلطان نے نرمی سے کہا لیکن فرحین بیگم کے ماتھے پر غصے سے شکن ابھر آئی۔

                      "اور انابیہ کا کیا سلطان جو بچپن سے تمہارے نام پر بیٹھی ہے؟"

                      "منگنی کوئی ایسا رشتہ نہیں امی کہ اسے پختہ سمجھ لیا جائے یہ بس دنیاوی اور معاشرتی کھیل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں اگر مجھے کسی کی پرواہ کرنی ہے تو میری بیوی کی امی جو میرے نکاح میں ہے۔"

                      فرحین بیگم کے غصے پر بھی سلطان کی نرمی اور عقیدت جوں کی توں قائم تھی۔

                      "سلطان یہ تم کیا کہہ رہے ہو میں کیا منہ دکھاؤں بی نرمین کو،کیا جواب دوں گی میں اسے۔۔۔۔؟"

                      فرحین بیگم غصے اور صدمے سے چلائیں لیکن سلطان نے ان کے کندھوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔

                      "فکر مت کریں امی میں آپکا سر خالہ کے سامنے جھکنے نہیں دوں گا میں خود ان سے معزرت کروں گا اور یہی نہیں انابیہ کے لیے اچھے سے اچھا لڑکا تلاش کر کے اسکی شادی میں خود کروں گا۔"

                      سلطان نے وعدہ کیا لیکن فرحین بیگم کو مطمئن نہیں کر پایا۔

                      "اور میرا کیا سلطان میں نے تو تمہارے اور عرشمان دونوں کے لیے اپنی بھانجیوں کو سوچا تھا۔سوچا تھا کہ یہاں آ کر غیر لڑکیاں میرا جینا حرام کریں گی اس سے بہتر ہے کہ میں اپنی بھانجیوں کو لے آئیں جنہیں اپنی خالہ کا احساس تو ہو گا لیکن قسمت دیکھو نہ عرشمان کو میری خواہش سے کوئی فرق پڑتا تھا اور اب نہ ہی تمہیں پڑتا ہے کیا یہی دن دیکھنے کے لیے میں نے تم دونوں کو پال پوس کر بڑا کیا تھا سلطان؟"

                      فرحین بیگم نے روتے ہوئے سلطان کا سر شرمندگی سے جھک گیا لیکن اس نے کچھ کہا نہیں۔

                      "مجھے معاف کر دیں امی آپکی ہر خواہش سر آنکھوں پر لیکن میں آپکی یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا۔"

                      سلطان نے عاجزی سے کہا اور انکے ہاتھ پکڑ لیئے۔

                      "اور آپ فکر مت کریں امی کنیز اور آن بھابھی دونوں آپکی بہت خدمت کریں گی،آپکی عزت کریں گی آپ بس انہیں موقع دیں۔"

                      سلطان نے انہیں سمجھایا لیکن فرحین بیگم کو معاملہ اپنے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو ماہی بے آب کی طرح تڑپ گئیں۔

                      "سلطان ملک ماں کا حکم ماننا بیٹے کا فرض ہے تم وہی کرو گے جو میں کہوں گی۔"

                      فرحین بیگم نے غصے سے کہا لیکن سلطان ابھی بھی انکے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔

                      "بالکل امی آپکا حکم ماننا میرا فرض ہے لیکن جب بات کسی کے حق کی آئے تو میں کسی کے کہنے پر کسی کی حق تلفی نہیں کر سکتا امی آپ کی بھی نہیں۔"

                      سلطان کی بات پر فرحین بیگم نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

                      "ویسے بھی امی مجھے میری مرضی سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے میرا دین اور اس معاملے میں مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کر سکتا آپ بھی نہیں۔"

                      یہ بات کہتے ہوئے نہ تو سلطان کے لہجے میں کوئی غصہ تھا نہ ہی بدتمیزی بلکہ اسنے انتہائی عاجزی سے انہیں اپنے حق سے آگاہ کیا۔

                      "اب اگر آپ کو کوئی کام نہیں ہے تو کیا میں جا سکتا ہوں؟"

                      سلطان کے سوال پر فرحین بیگم نے افسوس سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "جب اپنی ہی مرضی کرنی ہے تو جو مرضی کرتے پھرو سلطان لیکن ایک بات یاد رکھنا ماں کو ناخوش کر کے تم بھی کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گے۔"

                      اتنا کہہ کر فرحین بیگم وہاں سے چلی گئیں اور سلطان پر اپنی ماں کو دکھی کرنے کا پچھتاوا حاوی ہونے لگا۔

                      "تمہارا فرض پورا کرنے کے بعد بھی اگر وہ خوش نہ ہوں سلطان تو یہ انکی ناشکری ہے۔"

                      اماں بی کے کہے الفاظ یاد کر کے سلطان نے گہرا سانس لیا اور کار کی چابیاں پکڑتا حویلی سے باہر نکل گیا فلحال اسے اپنی بیوی کو تلاش کرنا تھا۔
                      ????
                      عزم لیزا کے ڈسچارج ہوتے ہی اسے حویلی واپس لے آیا تھا۔ابھی اس نے اسے کمرے میں لے جا کر سوپ ہلایا تھا اور دوائی دینے کے بعد روپ کو سائے کی طرح اسکے ساتھ رہنے کی تلقین کر کے خود غلام کے پاس آ گیا۔

                      "کہاں ہے میرا دشمن غلام تمہیں کہا تھا واپس آتے ہی وہ مجھے چاہیے۔"

                      عزم کی بات غلام کا سر جھکا گئی۔

                      "میں نے اسے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی عزم لیکن باہر سے کوئی بھی حویلی میں داخل نہیں ہوا۔اس لیے شائید ہمارے ہی کسی ملازم نے یہ حرکت پیسوں کے لالچ میں کی ہے لیکن وہ کون ہے یہ پتہ نہیں لگا پایا۔"

                      غلام کی بات پر عزم اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔

                      "تو ٹھیک ہے سب ملازموں کو حویلی کے کام سے نکال کر ڈیرے اور کھیتوں کے کام دے دو حویلی میں بس وہی ملازم رہیں گے جن پر ہم آنکھ بند کر کے بھروسہ کر سکتے ہیں باقی۔وہی حویلی کا نظام دیکھیں گے جب تک میں اپنے دشمن کی گردن تک نہیں پہنچ جاتا۔"

                      غلام نے ہاں میں سر ہلایا تو عزم واپس لیزا کے پاس جانے لگا لیکن تبھی ایک ملازم گھبرایا سا عزم کے پاس آیا۔

                      "چوہدری جی باہر شاہد ملک صاحب آئے ہیں وہ چوہدراین جی سے ملنا چاہتے ہیں فوراً۔"

                      ملازم کی بات پر غلام نے حیرت سے عزم کی جانب دیکھا۔دونوں کے ذہن میں بس ایک ہی سوال تھا بھلا شاہد ملک کب واپس آیا۔

                      "بھیجو انہیں۔"

                      ملازم ہاں میں سر ہلا کر چلا گیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد شاہد ملک پریشانی کے عالم میں وہاں آئے۔

                      "لیزا کہاں ہے؟"

                      شاہد کی آواز سے پریشانی صاف چھلک رہی تھی۔

                      "لیزا نہیں شاہد ملک غزل عزم چوہدری مت بھولو کہ اس حویلی کی چوہدراین ہے اب وہ۔"

                      عزم نے لیزا پر اپنی ملکیت ظاہر کرتے ہوئے شاہد ملک کو یاد دلانا چاہا کہ وہ صرف اسکی ہے۔

                      "اس وقت میں بحث نہیں کرنا چاہتا عزم کہاں ہے میری بچی؟"

                      شاہد کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے عزم نے گہرا سانس لیا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔شاہد عزم کی ہمراہی میں اس کمرے تک آیا جہاں لیزا آرام کر رہی تھی۔شاہد کی نظر بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہوئی لیزا پر پڑی تو جلدی سے اسکے پاس گیا اور اسکے پاس بیٹھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

                      "لیزا میری جان اب کیسی ہو تم؟ٹھیک تو ہو ناں مجھے بتاؤ ۔۔۔۔"

                      شاہد بے چینی سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگے جبکہ نم آواز میں پریشانی صاف چھلک رہی تھی۔روپ لیزا سے دور ہو کر عزم سے زرا فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔

                      "تم جانتی ہو جب مجھے تمہاری حالت کا پتہ چلا تو میرے دل پر کیا گزری۔۔۔۔مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میری بچی پر کیا بیت رہی ہے اگر عرشمان مجھے فون کر کے نہیں بتاتا تو شائید مجھے پتہ چلتا ہی نہ۔۔۔۔"

                      شاہد کی آواز اب باقاعدہ آنسوؤں سے رندھ چکی تھی جبکہ عزم سینے پر ہاتھ باندھے وہاں کھڑا لیزا کو دیکھ رہا تھا جو اپنے باپ کی بات سن رہی تھی۔روپ ہر بات آہستہ سے عزم کو اردو میں بتا رہی تھی۔

                      "مانتا ہوں تم سے غلطی ہوئی تھی لیزا لیکن میں جزبات میں آ کر تمہیں بہت سخت سزا دے گیا اور اس کا احساس مجھے آج ہو رہا ہے مجھے معاف کر دو میرا بچہ۔۔۔۔"

                      شاہد نے لیزا کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑے لیکن لیزا بس مردہ آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔

                      "لیکن اب میں تمہیں مزید سزا نہیں دوں گا ایک پل کے لیے تمہیں یہاں نہیں رہنے دوں گا میں تمہیں واپس کینیڈا لے کر جا رہا ہوں لیزا ."

                      شاہد کی بات پر روپ کا رنگ فق ہو گیا اس نے ایک سہمی نگاہ عزم پر ڈال کر اسے شاہد کی بات اردو میں بتا دی لیکن پھر بھی عزم کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا تھا۔

                      "چلو گی ناں اپنے ڈیڈ کو معاف کر کے انکے ساتھ؟"

                      شاہد نے اپنا ہاتھ لیزا کے سامنے کیا تو لیزا کتنی ہی دیر اپنے سامنے پھیلے اپنے باپ کے ہاتھ کو دیکھتی رہی پھر اس نے کمزور سا ہاتھ اٹھا کر شاہد کے ہاتھ پر رکھ دیا تو شاہد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی جبکہ عزم کی آنکھوں میں جنون اترا تھا۔وہ اس سے دور ہونے کا سوچ بھی کیسے سکتی تھی کیا وہ نہیں جانتی تھی وہ سر سے لے کر پیر تک صرف اور صرف عزم چوہدری کی تھی۔
                      ????






                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_34



                      لیزا کے ہاتھ تھام لینے پر شاہد مسکرائے لیکن اگلے ہی لمحے لیزا نے انکا ہاتھ بری طرح سے جھٹک دیا۔شاہد نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔

                      "یو نو واٹ ڈیڈ مجھے لگتا تھا کہ آپ اس دنیا کے سب سے اچھے ڈیڈ ہیں لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میں غلط تھی وہ انسان اچھا باپ کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی اولاد سے پیار ہی نہ کرتا ہو۔"

                      لیزا کی بات پر شاہد حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ روپ نے ساری بات عزم کو اردو میں بتا دی جو ابھی بھی سنجیدگی سے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

                      "آپ کو کیا لگا کہ میں آن ہوں جو آپ کچھ بھی کر کے بعد میں معافی مانگیں گے اور میں اعلیٰ ظرف کر مظاہرہ کرتی آپکو معاف کر دوں گی۔۔۔نو ڈیڈ میں لیزا ہوں جسکی پرورش افسوس سے آپ نے اور مما نے ہی کی ہے میں آپکو معاف نہیں کرنے والی۔"

                      لیزا نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا جنکی آنکھوں میں بھی آنسو آ چکے تھے۔

                      "آپ نے کبھی فیصلہ لینے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ میرے فیصلے سے کسی کے دل پر کیا گزرے گی بس وہ کیا جو آپکا دل کیا اسی لیے پہلے اپنی پہلی بیوی کو خود سے بدگمان کیا،پھر آن کو اور اب مجھے۔۔۔۔"

                      لیزا نے شاہد سے نظریں ہٹا کر عزم کو دیکھا تو اسے دیکھتے ہی نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

                      "اسے میری قسمت یا کسی کی اچھائی سمجھیں ڈیڈ لیکن آپ مجھے جو زندگی زبردستی مجھ پر مسلط کر گئے تھے اب مجھے اس زندگی سے زیادہ اچھا کچھ نہیں لگتا۔"

                      لیزا کی بات پر روپ کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی اور اس نے ساری بات عزم کو بتا دی۔

                      "مجھے اب یہیں رہنا ہے ڈیڈ کیونکہ یہاں سے کسی نے مجھے ایسے باندھ دیا ہے کہ یہاں سے کہیں جاؤں گی تو مر جاؤں گی۔"

                      لیزا کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اسکی آنکھوں سے بھی عزم کے لیے محبت چھلک رہی تھی بے تحاشا محبت۔

                      "آپ جائیں ڈیڈ کینیڈا واپس اپنے رشتوں اپنے پیاروں سے دور اس دنیاوی زندگی کے پیچھے جسے کبھی آپ نے میرا مقصد بھی بنایا تھا۔"

                      لیزا نے واپس شاہد کی جانب دیکھا جو سر جھکائے وہاں بیٹھے تھے۔

                      "لیکن اب مجھے سمجھ آ گیا ہے کہ وہاں کی وہ آزادی،عیاشی اور خوشی کتنی عارضی ہے اگر کچھ دائمی ہے تو صرف محبت۔۔۔۔اور دعا کرتیں ہوں ڈیڈ کہ کاش آپکو بھی کبھی یہ بات سمجھ میں آ جائے۔"

                      شاہد نے نم آنکھیں اٹھا کر لیزا کو دیکھا۔

                      "لیزا۔۔۔"

                      "لیزا نہیں ڈیڈ غزل ۔۔۔۔غزل عزم چوہدری۔۔۔۔"

                      لیزا کے سختی سے کہنے پر شاہد کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

                      "بہت مشکل سے ملی ہے میری پہچان مجھے،کسی کی عنایت ہے یہ مجھ پر اب میں اسے کبھی کھونا نہیں چاہتی۔۔۔"

                      لیزا ایک پل کو رکی اور پھر شاہد سے زرا دور ہو کر لیٹتے ہوئے خود کو کمفرٹر میں چھپا لیا۔

                      "اب آپ جائیں مجھے نیند آئی ہے ۔۔۔"

                      اتنا کہہ کر لیزا نے آنکھیں بند کر لیں اور شاہد حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھتے رہے جس پر نہ جانے اس شخص نے کیا جادو کیا تھا کہ ایک ان دیکھی ڈور سے اسے مکمل طور پر خود سے باندھ لیا تھا۔کاش وہ جانتے کہ اس جادو کا نام محبت ہے جو دشمن کو بھی دشمن کے گھر کا فقیر بنا دے۔

                      شاہد نے ایک آخری نگاہ اس پر ڈالی اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگے لیکن جب نظر دروازے میں کھڑے عزم پر پڑی تو اسکے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

                      "وہ تم سے بہت محبت کرنے لگی ہے عزم۔اس محبت کی قدر کرنا۔"

                      اتنا کہہ کر شاہد وہاں سے چلے گئے اور عزم کتنی ہی دیر وہاں کھڑا لیزا کو دیکھتا رہا جو اپنی آنکھیں موندیں سونے کی کوشش کر رہی تھی۔

                      "استانی جی مجھے کام ہے آپ سے آ کر میری بات سنیں۔۔۔۔"

                      عزم روپ کو حکم دے کر کمرے سے باہر نکل گیا اور روپ مسکرا دی۔عشق کا جادو دونوں کے ہی سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
                      ????
                      شاہد لیزا کے پاس سے ملکوں کی حویلی میں آئے تھے اور اب اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھے اپنی ہر خطا انہیں بتانے کے بعد آنسو بہانے میں مصروف تھے۔

                      "میں ہمیشہ سے ہی بہت خود غرض رہا امی اپنی خوشی اپنی خواہش کے علاؤہ کسی کا نہیں سوچا،یہ نہیں سوچا کہ اصلی محبت امتحان مانگتی ہے،قربانیاں مانگتی ہے اور میں کبھی کچھ قربان کرنے کو تیار ہی نہیں ہوا۔"

                      شاہد نے روتے ہوئے کہا اور اماں بی سنجیدگی اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں جو اس وقت مکمل طور پر بکھرا ہوا انسان لگ رہا تھا۔

                      "اسی لیے خود سے منسلک ہر رشتے کو تکلیف دی امی میں نے۔آپ کو آن کو لیزا کو۔۔۔۔"

                      شاہد ایک پل کو رکے اور پھر آنکھوں میں کرب سا سما گیا۔

                      "اور سب سے زیادہ شمع کو۔۔۔۔"

                      شمع کا ذکر کرتے ہی شاہد سسک سسک کر رو دیے۔

                      "میرے کبھی بخشش نہیں ہو گی امی نہ مجھے اللہ معاف کرے گا اور نہ ہی میرے بچے مجھے کبھی معافی نہیں ملے گی۔۔۔۔"

                      اتنا کہہ کر شاہد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اماں بی بس بے بسی سے انہیں دیکھتی جا رہی تھیں۔وہ انہیں کہتی بھی کیا خود کو برباد بھی تو انہوں نے خود ہی کیا تھا۔

                      "بس کر دو شاہد صبر سے کام لو جب خطا کر ہی چکے ہو تو نتیجہ سہنے کی برداشت پیدا کرو اپنے اندر۔"

                      اماں بی نے شاہد کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا لیکن انکے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

                      "میں کیا کروں امی کیسے صبر کروں؟میری بیٹیاں مجھ سے نفرت کرنے لگی ہیں کیا کروں میں؟"

                      شاہد نے اپنے بال ہاتھوں میں پکڑ کے روتے ہوئے پوچھا۔

                      "معافی مانگو ان سے شاہد انہیں وہ محبت اور تحفظ دو جن کی وہ حقدار ہیں خاص طور پر آن۔لیزا نے تو پھر بھی تمہاری محبت دیکھی ہے شاہد لیکن آن نے بس تمہاری بے رخی دیکھی ہے اب اسے اپنی محبت بھی تو دیکھاؤ۔"

                      اماں بی کی بات کو سمجھتے شاہد کے آنسو آنکھوں میں ہی ٹھہر گئے اور انہوں نے اس بارے میں سوچ کر اپنے آنسو پونچھ کر اماں بی کو دیکھا۔

                      "آن کہاں ہے امی مجھے اس سے ملنا ہے بات کرنی ہے؟"

                      اماں بی نے آج پہلی مرتبہ شاہد کے اندر اپنی بیٹی کے لیے اس قدر بے چینی دیکھی تھی۔

                      "وہ یہاں نہیں ہے شاہد لاہور ہے عرشمان نے اسے وہاں نوکری دلوائی ہے اور وہ وہیں ہاسٹل میں رہتی ہے۔"

                      شاہد نے حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔

                      "لیکن کیوں امی عرشمان نے تو اسکے لیے یہاں ہاسپٹل بنوایا تھا ناں پھر وہ وہاں کیوں رہتی ہے؟"

                      "یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے شاہد میں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتی۔۔۔"

                      اماں بی کی بات پر شاہد کے چہرے کی رونق ماند پڑھ گئی۔

                      "تم پریشان مت ہو میں عرشمان کو کہتی ہوں کہ وہ آن کو کچھ عرصے کے لیے یہاں تم سے ملوانے لے کر آئے۔"

                      اتنا کہہ کر اماں بی نے ملازمہ کو آواز دی اور اسے عرشمان کو بلانے کا کہا۔کچھ دیر کے بعد عرشمان اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا۔

                      "آپ نے بلایا تھا اماں بی؟"

                      عرشمان کے پوچھنے پر اماں بی نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔عرشمان فوراً ان کے پاس بیٹھ گیا۔

                      "عرشمان میں چاہتی ہوں تم آن کو واپس لے کر آؤ شاہد اس سے ملنا چاہتا ہے ۔"

                      عرشمان نے ایک نظر شاہد کو دیکھ کر گہرا سانس لیا ۔

                      "لیکن امی اس کی وہاں نئی نئی نوکری لگی ہے اتنی جلدی میں اسے کیسے واپس لے آؤں ؟"

                      عرشمان نے بہانہ کرنے کی کوشش کی۔

                      "یہ میرا نہیں تمہارا مسئلہ ہے بس یہ میرا حکم ہے کہ تم اسے جلد از جلد یہاں واپس لے کر آؤ ۔"

                      اماں بی کا یہ حکم عرشمان کو پریشان کر گیا۔وہ انہیں کیسے بتاتا کہ اس نے آن کو وہاں اسی کی حفاظت کے لیے چھوڑا تھا اور وہ اماں بی کا حکم بھی ٹال نہیں سکتا تھا۔

                      "جی اماں بی۔"

                      عرشمان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو اماں بی شاہد کو دیکھ کر مسکرا دیں۔

                      "مجھے امید ہے بیٹا کہ اب تم اپنی ساری غلطیوں کا ازالہ ضرور کرو گے۔آن کوہ محبت و چاہت سرور دو گے جس پر اس کا بچپن سے حق ہے ۔"

                      شاہد نے فوراً ہاں میں سر ہلایا اور بے چینی سے اماں بی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔

                      "وعدہ کرتا ہوں امی وعدہ کرتا ہوں"

                      شاہد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر رہیں گے پھر چاہے اس کے لیے انہیں اپنی بیٹی کے قدموں میں ہی کیوں نہ جھکنا پڑتا۔
                      ????
                      "جلدی سے یہ پہن کر تیار ہو جائیں چوہدراین جی آپ کے شوہر کا حکم ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ جانا ہے۔"

                      روپ نے ایک ڈبہ لیزا کے سامنے کرتے ہوئے کہا تو لیزا نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا پھر ڈبہ ہاتھ میں پکڑ کر کھولا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔کیونکہ اسکے اندر سلور کلر کا ایک انتہائی خوبصورت فراک تھا۔

                      جس کی چیسٹ پر سلور موتیوں کا نفیس کام ہوا تھا جبکہ باقی کا حصہ پھولی ہوئی جالی اور سلک کے کپڑے میں پیروں تک تھا۔

                      "واؤ۔۔۔۔۔"

                      لیزا نے اس فراک کو دیکھ کر بے ساختہ کہا اور اٹھ کر آئنے کے سامنے آتے ہوئے اسے خود سے لگا کر دیکھنے لگی۔

                      "کیا کچھ اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے؟"

                      لیزا کے پوچھنے پر روپ ہنس دی۔

                      "بالکل آپ ہو سکتی ہیں ناں۔۔۔۔اب جائیں چینج کر کے آئیں پھر تیار بھی تو ہونا ہے۔"

                      لیزا نے ہاں میں سر ہلایا اور فراک پکڑ کر واش روم میں چلی گئی۔شاور لے کر وہ باربی فراک پہننے کے بعد لیزا گیلے بالوں کے ساتھ باہر آئی اور گھوم کر روپ کو دیکھانے لگی۔

                      "داد دینی پڑے گی چوہدری جی کی پسند کو۔"

                      روپ نے ہلکی سی سیٹی بجا کر کہا تو لیزا ہنس دی اور آئنے کے سامنے آ کر تیار ہونے لگی۔

                      بال سکھانے کے بعد اس نے بالوں کو کرل کر کے کمر پر بکھیر دیا اور پھر نفاست سے میک اپ کر کے خود کو سجانے لگی۔چھوٹے چھوٹے سلور ٹاپس اور میچنگ پینڈنٹ گلے میں پہننے کے بعد لیزا نے مسکرا کر خود کو دیکھا۔

                      کمزوری سے اسکے چہرے پر اب پہلے جیسی رونق نہیں رہی تھی لیکن وہ اس بات کو مہارت سے میک اپ سے چھپا گئی تھی اور اب وہ پہلے والی لیزا لگ رہی تھی جو اپنے حسن کی بجلیاں کسی پر بھی گرا سکتی تھی۔

                      "ماشاءاللہ چوہدراین جی کسی کی نظر نہ لگے آپ کو ۔۔۔"

                      روپ کی بات پر لیزا مسکرا دی تبھی ایک ملازمہ وہاں آئی۔

                      "چوہدراین جی تیار ہو گئی ہیں تو غلام بھائی انہیں باہر بلا رہے ہیں۔"

                      ملازمہ نے ایک لال رنگ کی چادر روپ کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو روپ نے چادر پکڑی کر مسکراتے ہوئے لیزا کے فراک کے سلیو لیس بازؤں کو دیکھا۔کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ عزم چوہدری کسی غیر مرد کی نگاہ اپنی ملکیت پر پڑنے دیتا۔

                      روپ نے وہ چادر لیزا پر اوڑھا دی اور اسے اپنے ساتھ باہر لے کر آئی جہاں غلام گاڑی کے پاس کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا۔لیزا کے ساتھ آتی روپ کو دیکھ کر غلام کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔

                      "آپ بھی تیار ہو جاتیں استانی جی۔"

                      روپ نے حیرت سے نکھیں پھیلا کر غلام کو دیکھا۔

                      "کیوں جی ڈیٹ پر تو چوہدری جی لے کر جا رہے ہیں ناں چوہدراین جی کو میں پاگل ہوں جو یونہی تیار ہو کر بیٹھ جاتی۔"

                      روپ نے منہ بنا کر کہا اور لیزا کی کار میں بیٹھنے میں مدد کرنے لگی۔

                      "آپ چلنے کو تیار تو ہوں جوگی کب سے منتظر ہے آپکو دنیا سے دور لے جانے کو۔"

                      روپ لیزا کا فراک گاڑی میں سیٹ کر رہی تھی جب غلام نے اسے دیکھ کر سرد سی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

                      "کچھ کہا آپ نے؟"

                      روپ کے پوچھنے پر غلام نے ہنس کر انکار میں سر ہلایا تو روپ منہ بنا کر وہاں سے چلی گئی اور غلام ہنستا ہوا عزم کی امانت کو اس تک پہنچانے چل دیا۔

                      گاڑی ایک جگہ پر رکی تو لیزا نے حیرت سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔رات کے سائے آسمان پر لہرا رہے تھے اور کھلے میدان میں سلور اور گرے رنگ کے پردے لگا کر ایک ٹینٹ بنایا گیا تھا جسے سجاتی سفید رنگ کی لائٹیں ایک انتہائی خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔

                      لیزا کار میں سے نکلی تو اسکے پیر لال رنگ کے کارپٹ پر پڑے۔لیزا خواب کی سی کیفیت میں چلتی اس ٹینٹ کی جانب چل پڑی جو سارا کا سارا پردوں میں چھپا تھا۔

                      اسکے گاڑی سے نکلتے ہی غلام گاڑی لے کر وہاں سے جا چکا تھا۔لیزا نے اپنے سامنے موجود سلور پردے ہٹائے تو نظر اس ٹینٹ کے اندر کے منظر پر پڑی۔

                      زمین پر گرے کلر کا کرپٹ پڑا تھا اور جس چیز نے لیزا کی توجہ اپنی طرف کھینچی وہ ٹینٹ کے سینٹر میں موجود میز اور دو کرسیاں تھیں۔لیزا میز کے پاس گئی تو نظر اس پر پڑے سفید گلابوں کے گلدستے پر پڑی۔

                      لیزا نے گلدستہ اٹھا کر اپنی ناک کے پاس کیا اور مسکرا دی۔تبھی کسی نے اپنے ہاتھ اسکی نازک کمر پر رکھے تو لیزا کے ہونٹوں کو شرمیلی مسکراہٹ نے چھوا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکے شوہر کے ہوتے ہوئے ایسا کرنے کی جرات کسی میں نہیں تھی۔

                      اپنے ہاتھوں میں دعاؤں کی طرح اٹھا لوں تم کو
                      مل جاؤ تو خزانے کی طرح چھپا لوں تم کو"

                      اپنے کان پر عزم کی سانسوں کی حرارت اور سرگوشی محسوس کر لیزا کی ہتھیلیوں میں نمی آ گئی۔اچانک ہی عزم نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکے ہاتھوں سے پھولوں کا گلدستہ پکڑ کر سائیڈ پر رکھ دیا۔

                      عزم نے مسکراتی نظروں سے اسکا جھکا ہوا چہرہ دیکھا اور پھر اس کے گرد لپٹی چادر اتار کر سائیڈ پر رکھ دی۔

                      "اب اپنے محرم تک پہنچا دی گئی ہو تم اس پردے کا کوئی مقصد نہیں رہا۔"

                      عزم نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا جو آسمان سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی۔لیزا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے آج تک وہ اتنا کنفیوز نہیں ہوئی تھی اسی لیے اپنے ہاتھوں کو دیکھتی انگلی میں پہنی انگوٹھی گھماتی جا رہی تھی۔

                      "آج میرے سوا کسی کو مت دیکھو میری جان کسی کو مت چھوؤ با خدا اس انگوٹھی سے بھی جلن ہو رہی ہے مجھے۔"

                      عزم نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اونچا کیا تو لیزا ہکی بکی سی عزم کو دیکھنے لگی۔آج تک اس نے عزم کو شلوار قمیض میں ہی دیکھا تھا لیکن آج وہ گرے کلر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا جبکہ سفید شرٹ کے اوپری دو بٹن کھلے ہونے کی وجہ سے اسکا چوڑا سینا عیاں ہو رہا تھا۔

                      اس نئے روپ میں لیزا کو لگ رہا تھا کہ اس سے خوبصورت آدمی اس نے آج تک نہیں دیکھا۔لیزا کو یوں ہلکے جھپکائے بنا اسے دیکھتا پا کر عزم مسکرا دیا اور اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی۔

                      "مدہوش تو مجھے ہونا تھا چوزی تمہارا یہ حسن دیکھ کر اور یہاں تم مجھے ایسے دیکھ رہی ہو جیسے کھا ہی جاؤ گی۔۔۔۔"

                      عزم نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کھینچتے ہوئے کہا۔لیزا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا اور پھر اسکا کالر پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے قریب کھینچا۔

                      "تم وہ نہیں ہو مسٹر جو تم دیکھائی دیتے ہو ضرورت سے زیادہ چالاک ہو تم۔"

                      لیزا کی بات پر عزم مسکرا دیا۔

                      "مجھے تمہاری انگریزی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی چوزی۔۔۔۔نو انڈرسٹینڈ۔۔۔"

                      عزم کی بات کو سمجھ کر لیزا کی آنکھیں مزید سکڑ گئیں۔

                      "اس دن ایمبولنس میں تو میری ہر بات سمجھ آ رہی تھی۔تمہیں کہا مجھے اپنی باہوں میں لو تو لے لیا، کہا ہاتھ تھامو تو تھام لیا۔اگر انگلش نہیں آتی تو کیسے سمجھ گئے؟"

                      لیزا کے پوچھنے پر عزم بس مسکرا دیا تو لیزا نے دانت کچکائے۔

                      "اوکے نہیں بتانا مجھے تو چلی جاتی ہوں میں میرے یہاں رکنے کا کیا مقصد؟بلکہ ڈیڈ کے ساتھ ہی چلی جاتی ہوں۔"

                      لیزا نے اس سے دور ہونے کی کوشش کیے بغیر کہا لیکن اب کی بار عزم کی آنکھوں میں جنون اترا تھا۔

                      "دور جا کر تو بتاؤ تم جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔"

                      عزم نے بالوں سے پکڑ کر اسکا چہرہ اپنے قریب کرتے ہوئے کہا تو لیزا مسکرا دی۔

                      "تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں جانے کی بات کر رہی ہوں؟"

                      لیزا کی چالاکی سمجھ کر عزم کے ہونٹ مسکرا دیے لیکن اس نے لیزا کو جواب دینے کی بجائے اسکے لبوں کو اپنے ہونٹوں کی پر شدت گرفت میں لے لیا تو لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ عزم کی گرفت میں کانپ کر رہ گئی۔

                      اسے اپنا جنون دیکھانے کے بعد عزم اسکے ہونٹوں سے دور ہوا اور انگھوٹے سے اسکا لال ہوا نچلا ہونٹ سہلانے لگا۔

                      "You are sweeter than honey love
                      Save yourself or I'll eat you whole."

                      عزم کے اتنی اچھی انگلش میں یہ بات کہنے پر لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

                      "تمہیں انگلش بولنی آتی ہے؟"

                      لیزا کی حیرت پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

                      "ہاں میری جان آتی ہے شائید تم سے بھی زیادہ اچھی انگلش بولنی آتی ہے۔"

                      عزم نے ایک آنکھ ونک کر کے دوبارہ انگلش میں کہا تو لیزا کو لگا وہ حیرت سے بے ہوش ہی ہو جائے گی۔

                      "کب سے؟"

                      "پچھلے دس سالوں سے۔"

                      یہ بات لیزا کے لیے مزید حیران کن ثابت ہوئی۔

                      "تو سب کو کیوں لگتا ہے کہ تم انگلش نہیں بول سکتے؟اوہ گاڈ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا پلیز بتاؤ مجھے۔"

                      لیزا کی بے چینی سے بری حالت ہو رہی تھی اور اسکی یہ حالت دیکھ کر عزم بے ساختہ ہنس دیا۔

                      "میرے بابا نے اپنی وفات سے پہلے میرا ایڈمشن شہر کے بڑے سکول میں کروانا چاہا اور انکے جانے کے بعد میرا ایڈمیشن بھی وہاں ہو گیا ۔

                      عزم ایک پل کو رکا اور اس کے چہرے پر افسردگی آئی تھی۔

                      "میرے بابا کی بہت بڑی خواہش تھی کہ میں پڑھوں لیکن میں نے انکی یہ خواہش پوری نہیں کی مگر ان کے دور جانے کے بعد انکی اس خواہش کو اپنی خواہش بنا لیا اور اس بات کو سب سے راز رکھ کر شہر پڑھنے جاتا رہا۔"

                      عزم پوری بات بتا کر پھر سے مسکرا دیا لیکن لیزا ابھی بھی مطمئن ہوئی۔

                      "لیکن تم نے یہ بات سب سے کیوں چھپائی یہاں تک کہ غلام سے بھی۔"

                      "پہلے پہل تو مجھے عجیب لگا اپنے اتنا بڑے ہونے کے بعد پڑھائی کرنا اس لیے نہیں بتایا لیکن بعد میں سوچا کہ کیوں ناں اپنے ان پڑھ ہونے کا دیکھاوا کر کے لوگوں کی وفاداری آزما لوں۔"

                      عزم کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔

                      "اوہ گاڈ۔۔۔۔کتنا پڑھے ہو تم؟"

                      لیزا نے مزید بے چینی سے پوچھا اور اسکی یہ حالت عزم کو بہت مزہ دے رہی تھی۔

                      "زیادہ نہیں بس سائیکولوجی میں ماسٹرز کیا ہے تا کہ سمجھ سکوں کہ اگلے کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔"

                      عزم کی بات پر لیزا کو لگا کہ وہ بے ہوش ہو جائے گی۔اسے اپنے شروع کے دن یاد آنے لگے جب وہ کتنی بہادری سے اسے گالیاں نکالتی تھی۔

                      "یعنی تم وہ۔۔۔۔وہ سب سمجھ جاتے تھے جو میں کہتی تھی۔۔۔"

                      لیزا نے ہچکچاتے ہوئے کہا تو عزم ہنس دیا۔

                      "ہاں ناں میری راسکلنی تمہارا وہ مجھے پاگل،سنکی کمینا کہنا کیسے بھول سکتا ہوں بھلا؟"

                      عزم کی بات پر لیزا کا دل کیا کہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرے۔

                      "سوری۔۔۔۔"

                      لیزا نے احساسِ شرمندگی سے کہا تو عزم نے اسے اپنے قریب کر لیا۔

                      "کوئی بات نہیں میری چوزی تمہارا ہر انداز دل کو گھائل ہی کرتا ہے چاہو تو ابھی بھی مجھے گالیاں نکال کر دیکھ لو لیکن جواب میں میں بس ان ہونٹوں کو چوموں گا ہی۔۔"

                      عزم نے اسکے ہونٹوں کے قریب ہوتے ہوئے کہا تو اسکی بات پر لیزا کپکپا کر رہ گئی۔

                      "عزم۔۔۔"

                      "ہممم۔۔۔۔"

                      اب عزم اسے اپنی باہوں میں لیے اپنا چہرہ اسکے بالوں میں چھپاتا اسکی خوشبو اپنے اندر اتار رہا تھا۔

                      "تمہیں تو انگلش آتی ہے ناں تو مجھے اردو سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ناں۔"

                      اس انوکھی فرمائش پر عزم نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر حیرت سے اسے دیکھا۔

                      "سچ میں بہت مشکل ہے اسکے تو ایلفابیٹس سیکھنے میں پورا ہفتہ لگا مجھے۔"

                      لیزا نے وضاحت دینا چاہی لیکن پھر عزم کو قہقہ لگا کر ہنستا دیکھ اپنا منہ بسور گئی۔

                      "اردو تو تمہیں سیکھنی پڑے گی میری چوزی اب مجھے اپنے بچوں کو تمہاری طرح انگریز تھوڑی بنانا ہے۔ہاں اگر کوئی فرق پڑے گا تو بس اتنا کہ استانی جی کی جگہ اب میں خود تمہیں اردو سیکھاؤں گا۔باخدا دو مہینوں میں انہوں نے تمہیں بس ایلفابیٹس سیکھائے پوری اردو سیکھاتے سیکھاتے تو بوڑھا کر دیں گی۔"

                      عزم کی پہلی بات پر جہاں لیزا کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی وہیں دوسری بات پر اس نے ہنستے ہوئے اپنا سر عزم کے سینے پر رکھ دیا۔

                      "عزم۔۔۔"

                      "ہمم۔۔۔۔"

                      عزم نے اسکے گرد اپنے بازو لپیٹتے ہوئے پوچھا۔

                      "میں تم سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی تمہاری ہر بات سننا اور سمجھنا چاہتی تھی اب جب ہم دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں تو دل کر رہا ہے ہر بات ابھی کہہ دوں۔۔۔۔"

                      "تو کہہ دو۔۔۔"

                      عزم نے اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے کہا۔

                      "عزم۔۔۔۔میں تم سے۔۔۔۔میں تم سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں۔۔۔۔پلیز کبھی مجھے چھوڑ کر مت جانا میں تمہارے بغیر مر۔۔۔"

                      اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عزم نے اسے گردن کے پیچھے سے پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا اور انتہائی شدت سے اسکے نازک ہونٹوں پر جھک گیا۔لیزا بس اسکی گرفت میں کانپنے کے علاؤہ کچھ نہ کر پائی۔

                      اپنا دل بھر جانے پر عزم اس سے دور ہوا اور آنکھیں سکیڑ کر اسکے ہونٹوں کو دیکھنے لگا۔

                      "اف تمہارے یہ ہونٹ مجھے اپنا شرابی بنا لیں گے چوزی۔بس دل کرتا ہے میرے ہونٹ ان سے الجھے رہیں۔۔۔۔"

                      عزم کی بات پر لیزا اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی لیکن پھر اس نے منہ بسور کر عزم کو دیکھا۔

                      "تمہاری باتیں سمجھ میں نہ آتی تو ہی اچھا تھا۔"

                      اس بات پر عزم پھر سے ہنس دیا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔

                      "اب تو تمہیں جھلینا پڑے گا میری باتوں کو بھی اور مجھے بھی بس جلدی سے بلکل ٹھیک ہو جاؤ تا کہ اپنا ہر حق تم سے سود سمیت وصول کر سکوں۔۔۔۔"

                      لیزا نے اس بات پر اپنا دہکتا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا۔

                      "چلو آؤ اب کھانا لگ گیا ہو گا کھانا کھاتے ہیں پھر تمہاری دوائی کا وقت ہو رہا ہے۔"

                      عزم نے اسکی چادر اس کے گرد لپیٹ کر اسے اپنے ساتھ لگاتے ٹینٹ سے باہر لے جانے لگا اور لیزا بھی اسکے ساتھ بخوشی چل دی۔اپنی زندگی کی اس نئی راہ پر وہ عزم کے ساتھ چلنے کو بخوشی تیار تھی۔
                      ????
                      عزم نماز فجر ادا کرنے کے بعد حسب معمول کثرت کرنے کے بعد اپنے معاملات دیکھنے کے لیے تیار ہونے لگا تھا۔کل رات وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی لیزا آدھی رات اسکے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی اور عزم کو اسکی صحت کی پروا تھی اسی لیے اسے سونے کا کہا لیکن لیزا کا دل تو اس سے کتنی ہی باتیں کرنے کا کر رہا تھا۔

                      آخر کار عزم نے اسے اپنی باہوں میں لے کر اسے دھمکی دی کہ اگر وہ نہیں سوئی تو عزم ابھی اپنا حق لے لے گا۔اسکا اتنا کہنا تھا کہ لیزا اسکی شرٹ اپنی مٹھی میں لے کر فوراً آنکھیں زور سے میچ کر سونے لگی۔اپنی چوزی کو یاد کر کے عزم کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی۔

                      "چوہدری جی عرشمان ملک آپ سے ملنے آئے ہیں۔"

                      ملازم کی آواز نے عزم کا دھیان بٹایا تو عزم نے سنجیدگی سے ہاں میں سر ہلا دیا۔کچھ دیر کے بعد عرشمان وہاں آیا جسے عزم نے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

                      "کیا ہوا سب خیریت تو ہے عرشمان؟"

                      عزم نے اسکے چہرے پر موجود پریشانی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

                      "اماں بی چاہتی ہیں میں آن کو گاؤں واپس لے آؤں۔"

                      "تو؟"

                      عزم نے عام سے انداز میں پوچھا۔

                      "لیکن ابھی تک اس دشمن کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا عزم اگر اس نے آن کو کچھ کر دیا تو۔۔۔۔میں کچھ بھی برداشت کر سکتا ہوں عزم لیکن اس پر ہلکی سی آنچ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔"

                      عرشمان نے بے بسی سے کیا تو عزم اٹھ کر اس کے پاس آیا اور اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔

                      "اور ایسے ہمیں کچھ پتہ چلے گا بھی نہیں۔"

                      "تو کیا کریں عزم نہ جانے کون ہے وہ شاطر انسان خود تک پہنچنے کی ہر راہ مٹا دی ہے اس نے۔"

                      عرشمان کی بات پر عزم گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

                      "ہم وہی کریں گے عرشمان جو وہ چاہتا ہے۔"

                      عرشمان نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "وہ اس بات سے ڈر رہا ہے کہ ہم دونوں ایک ہو کر اسے تلاش نہ کر لیں اور ہم اسکے اسی خوف پر وار کریں گے پھر وہ ایک غلطی کر کے خود ہی سامنے آ جائے گا۔"

                      عزم کی بات پر عرشمان بھی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

                      "تم آن کو واپس لاؤ عرشمان اور میں بھی وہاں آتا ہوں ہم اسے دیکھا دیں گے کہ اسکی ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے۔"

                      عرشمان نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا کیونکہ جو بات عزم کہہ رہا تھا اس میں حکمت عملی تھی۔انکا ایک ہونا ہی ان کی طاقت اور انکے دشمن کی کمزوری تھی۔
                      ????







                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_35



                      صبح کے دس بج رہے تھے۔عزم اپنے گھر کے ہال میں صوفے پر بیٹھا تھا جبکہ اسکے ہر طرف بھگدڑ مچی تھی اور مفتی بھی کیوں نہ اسکا بیوی پہلی بار اسکے لیے ناشتہ بنا رہی تھی جسکا انتظار عزم پچھلے ایک گھنٹے سے کر رہا تھا۔

                      "کہیں یہ پائے نان تو بنانے نہیں بیٹھ گئی اتنا وقت تو ان کو بنانے میں بھی نہیں لگتا۔"

                      عزم نے اپنی گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے گہرا سانس لے کر سوچا۔لیکن پھر ناشتے نام کا شاہکار تیار ہو ہی گیا اور لیزا ایک ملازمہ اور روپ کے ہمراہ تین چار پلیٹیں لے کر وہاں آئی۔

                      عزم حیرت سے اپنے سامنے موجود پلیٹوں کو دیکھنے لگا۔جن میں سے ایک میں تو بریڈ کے دو پیسوں کے درمیان کھیرے اور ٹماٹر رکھ کر سینڈ وچ بنایا گیا تھا جبکہ دوسری پلیٹ میں ایک فرائی انڈا تھا اور تیسری پلیٹ میں پھولوں کی شیپ میں فروٹس کو چھوٹا چھوٹا کاٹ کر مکس کیا گیا تھا۔عزم نے امید سے آخری پلیٹ کو دیکھا۔جس میں چاکلیٹ سیرپ کی ایک لائن گرا کر اسکے اوپر ایک براؤنی رکھی گئی تھی۔

                      "یہ سب میں نے سپیشلی تمہارے لیے بنایا ہے عزم تمہیں پسند آیا؟"

                      لیزا کی امید سے بھرپور آواز عزم کے کانوں میں پڑی تو وہ مسکرا دیا۔اسکا دل تو کہہ رہا تھا کہ دیسی گھی کے دو تین پراٹھے کھانے والے آدمی کا اس سب سے کیا بنے گا لیکن ایسا کہہ کر وہ اپنی بیوی کے چہرے کی مسکراہٹ غائب نہیں کرنے والا تھا۔

                      "چوہدری جی چوہدراین جی کہہ رہی ہیں کہ یہ سب انہوں نے خاص آپ کے لیے بنایا ہے تو بتائیں کیسا لگا آپ کو؟"

                      روپ نے عزم کی آسانی کے لیے اردو بولی تو عزم کے ہونٹ مسکرا دیے۔اس نے سینڈ وچ پکڑ کر اسکی ایک بائٹ لی اور بہت مشکل سے کھیرے کے ذائقے پر اپنا منہ بننے سے روکا کیونکہ اسے کھیرا بلکل پسند نہیں تھا۔

                      "بہت زیادہ اچھا لگا میرے دل کے چین ایسا ہو سکتا ہے تم کچھ بناؤ اور وہ اچھا نہ بنے۔"

                      عزم نے انگلش میں کہا تو روپ نے مسکرا کر لیزا کو دیکھا۔

                      "ہی از سئینگ دیٹ۔۔۔"

                      روپ نے اتنا ہی کہا جب اسے احساس ہوا کہ عزم نے پہلے ہی بات انگلش میں کہی تھی۔اس احساس پر روپ کا منہ حیرت سے کھل گیا جبکہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر لیزا کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔

                      "آآآ۔۔۔۔۔آپ نے انگلش بولنا کب سیکھی؟"

                      روپ نے حیرت سے پوچھا تو عزم نے ہنستے ہوئے ہاتھ میں پکڑے سینڈوچ کا بائٹ لیا۔

                      "اب آپ تو میری بیوی کو اردو سیکھا نہیں پا رہی تھیں تو سوچا کہ کیوں نہ میں انگلش سیکھ لوں۔"

                      اتنا کہہ کر عزم نے ایک اور بائٹ لے کر سینڈ وچ ختم کر لیا اور لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ سینڈ وچ صرف تین بائٹس میں ختم کر چکا تھا۔اب اسے احساس ہوا تھا کہ جو لیزا کے لیے بھرپور ناشتہ تھا وہ عزم کے لیے بہت کم تھا کیونکہ اسکے شوہر کی بھوک اس سے کہیں زیادہ تھی۔لیزا نے سوچ لیا تھا کہ اگلی بار وہ بنائے گی جو اسکا شوہر کھاتا ہے لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اپنے فیصلے پر کتنا جلدی پچھتانے والی تھی۔

                      "اااا۔۔۔۔اسکا مطلب میری نوکری گئی؟"

                      روپ کا انداز ایسا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عزم کو ہنسی آ گئی۔

                      "نوکری کیوں گئی آپ واپس سکول بچوں کو پڑھائیں گی ناں۔"

                      "ننن۔۔۔نہیں چوہدری جی مجھے بچوں کو نہیں پڑھانا مجھے تو پڑھانا اچھا بھی نہیں لگتا۔۔۔۔میں یہاں حویلی میں کسی اور کو انگلش سیکھا دوں گی۔۔۔۔"

                      روپ نے بہت بے چینی سے کہا اور پھر وہاں کھڑی ملازمہ کو دیکھا۔

                      "سنو تمہیں انگلش آتی ہے؟"

                      ملازمہ نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔

                      "سیکھو گی؟"

                      "نہیں استانی جی میں انگریزی سیکھ کے کیا کروں گی دھونے تو برتن ہی ہیں کونسا میرے انگریزی بولنے سے خود دھل جائیں گے۔"

                      ملازمہ کی بات پر جہاں عزم ہنسا تھا وہیں روپ کا منہ بن گیا۔اسکے ناشتہ ختم کرنے پر غلام وہاں پر آیا تو عزم نے ایک نظر روپ کو دیکھا جو ایسے لگ رہا تھا کہ رونے لگ جائے گی۔

                      "آپ فکر مت کریں استانی جی ہم نے آپ کے لیے نئی نوکری ڈھونڈی ہے جو آپکو تا حیات کرنی ہے امید ہے قبول ہو گی۔"

                      اتنا کہہ کر عزم نے غلام کو دیکھا۔

                      "تم استانی جی کو انکے گھر چھوڑ آؤ غلام ہم دونوں خود چلے جائیں گے۔"

                      غلام نے اس بات پر مسکرا کر روپ کی جانب دیکھا۔

                      "آ جائیے استانی جی باہر گاڑی میں آپکا انتظار کر رہا ہوں۔"

                      غلام تو یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا لیکن روپ نم آنکھوں سے لیزا کے گلے سے لگ گئی۔

                      "آئی ول مس یو سو مچ لیزا۔"

                      اسکی افسردگی پر لیزا مسکرا دی۔اگر عزم نے سارا پلین اسے پہلے ہی نہ بتایا ہوتا تو وہ بھی اپنی اتنی پیاری دوست کے دور جانے پر دکھی ہو جاتی۔

                      "آئی ول مس یو ٹو بے بی۔"

                      لیزا نے روپ کا گال چوما تو روپ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اپنے کمرے میں سامان پیک کرنے چلی گئی۔عزم نے ملازمہ کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا اور لیزا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بیٹھا لیا۔

                      لیزا نے اسکی پلیٹ کی جانب دیکھا جہاں سے وہ انڈا،سینڈ وچ اور فروٹس کھا چکا تھا جبکہ براؤنی ابھی بھی وہیں موجود تھی۔

                      "آج میں نے تمہارے لیے میٹھا بھی بنایا تھا لیکن تم نے کھایا نہیں؟"

                      عزم نے مسکرا کر اس براؤنی کو دیکھا اور اسے اٹھا کر لیزا کے ہونٹوں کے پاس لے گیا۔لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا اور منہ کھول کر وہ براؤنی کھا لی۔

                      "کیونکہ اب مجھے بس ایک ہی میٹھے کی طلب رہ گئی ہے میری جان اور وہ میں صبح اٹھتے ہی چھک چکا ہوں۔"

                      عزم نے اسکے کان میں سرگوشی کی تو لیزا کا چہرہ گلابی ہو گیا۔اسے صبح کا منظر یاد آیا جب اسکی آنکھ اپنے ہونٹوں پر دہکتا شدت بھرا لمس محسوس کر کے کھلی تھی۔

                      "تم بہت بے حیا ہو۔"

                      لیزا نے دہکتا چہرہ اسکے سینے میں چھپاتے کہا تو عزم ہنس دیا۔

                      "بے حیائی تو ابھی دیکھانی ہے میرے من کے چین بس ذرا رک جاؤ۔۔۔۔"

                      عزم نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکالا اور اسکی چھوٹی سی ناک چوم کر کہا۔

                      "اب تیار ہو جاؤ تمہیں لے کر کہیں جانا ہے۔"

                      "کہاں؟"

                      "بس ہے ایک سرپرائز تم تیار ہو جاؤ اور گلابی رنگ پہننا۔۔۔"

                      عزم کی فرمائش پر لیزا مسکرا دی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔وہ تو ایک مغربی آزاد خیال لڑکی تھی جو مرد کی بات ماننا اسکی غلامی کرنے کے مترادف سمجھتی تھی لیکن اب الماری میں موجود کپڑے دیکھتے ہوئے اسکی نظر بس گلابی سوٹوں پر تھی۔

                      عزم نے اس ٹھیڑی ہوئی لڑکی کو سختی کر کے توڑا نہیں تھا بلکہ اپنی محبت سے سیدھا کر دیا تھا اور اب وہ لڑکی خود کو مکمل طور پر عزم کے رنگ میں ڈھال چکی تھی اور یہی انکی محبت کی جیت تھی۔
                      ????
                      غلام کار ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ گاڑی میں مسلسل سوں سوں کی آواز آ رہی تھی۔غلام نے گہرا سانس لے کر ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی روپ کو دیکھا جو تب سے رونے کا شغل فرما رہی تھی۔

                      "کیا ہوا استانی جی رو کیوں رہی ہیں؟"

                      روپ نے لال ہوتی آنکھوں سے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔ایک تو وہ لال ہوئی قاتلانہ آنکھیں اور آج تو ان پر چشمے کے پہرہ بھی نہیں تھا۔غلام کو ان میں اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تو اس سے دھیان ہٹا کر ڈرائیونگ کرنے لگا۔

                      "آپ کو نوکری سے نکال کر گھر بھیج دیا جائے تو پتہ چلے گا کہ رو کیوں رہی ہوں۔"

                      روپ کی رندھی ہوئی آواز گاڑی میں گونجی اور وہ پھر سے رونے لگی۔

                      "تو کیا آپ کو یہ نوکری اتنی ہی پسند تھی؟"

                      "اور نہیں تو کیا؟کام کیا تھا بس لیزا کے ساتھ گھومنا، مزے کرنا،اس سے باتیں کرنا اور پھر وہ اتنی پیاری سی گڑیا ہے پتہ ہے کتنا مزہ آتا تھا اسے تیار کرنے کا۔"

                      غلام کو وہ روتی ہوئی کوئی بچی لگ رہی تھی جس سے اسکی پسند کی گڑیا چھین لی گئی ہو۔

                      "لیکن ہم نے تو آپ کے لیے علیحدہ نوکری ڈھونڈی ہے اور امید ہے کہ وہ نوکری آپ کو اور زیادہ پسند آئے گی۔"

                      غلام نے معنی خیزی سے کہا تو روپ نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

                      "اب کوئی نوکری پسند نہیں آنی مجھے۔بلکہ اب مجھے جاب ہی نہیں کرنی۔"

                      "لیکن شادی تو کرنی ہے ناں؟"

                      غلام نے اچانک ہی پوچھا تو روپ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔

                      "شادی لیکن کس سے؟"

                      غلام اسکے انداز پر قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

                      "ہے ایک نا چیز جسے بھا گئی ہیں آپ۔"

                      روپ نے نا سمجھی سے اس پاگل آدمی کو دیکھا جسکی بات اسکے سر پر سے گزر گئی تھی۔اچانک ہی گاڑی روپ کی گلی کے باہر رکی تو روپ نے اسکی جانب دیکھا۔

                      "اللہ حافظ یاد آئیں گے آپ سب۔"

                      جواب میں غلام مسکرا دیا۔

                      "اور ہمارے جزبات تو یاد سے بہت زیادہ ہیں استانی جی پتہ نہیں ایک ایک پل کیسے گزرنے والا ہے۔"

                      "جی؟"

                      غلام کی سرگوشی پر روپ نے حیرت سے پوچھا۔

                      "کچھ نہیں استانی جی بس چند دنوں کے بعد میرے گھر والے اور چوہدری جی آپکے گھر آئیں گے۔آپ کے بابا سے کچھ قیمتی مانگنے امید ہے آپکا جواب ہاں ہی ہو گا۔"

                      اتنا کہہ کر غلام نے اسکی جانب جھکتے ہوئے گاڑی کا دروازا کھول دیا۔روپ جو اسے نا سمجھی سے دیکھ رہی تھی اسکی بات سمجھ آئی تو پل میں چہرہ لہو چھلکانے لگا اور وہ فوراً گاڑی سے باہر نکل گئی۔

                      "تیار رہیے گا استانی جی کوئی آپ کو ہمیشہ کے لیے نوکری پر رکھنے کو بہت بے تاب ہے۔"

                      اتنا کہہ کر غلام نے ایک آخری نگاہ اسکے گلابی ہوئے چہرے پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔جبکہ روپ کتنی ہی دیر وہاں کھڑی اسکے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ہاں اسے عمر بھر کی یہ نوکری منظور تھی کیونکہ ایسے وہ جب چاہتی لیزا سے مل سکتی تھی۔

                      اور ویسے بھی چوہدری جی کا وہ منشی اتنا برا بھی نہیں تھا کہ اسے انکار کیا جاتا۔اس سوچ کے ساتھ ایک شرمیلی سی مسکان روپ کے ہونٹوں پر آئی اور وہ اپنے گھر کی جانب چل دی۔اب بس اسے اپنی نئی نوکری پر جانے کا انتظار بے چینی سے کرنا تھا۔
                      ????
                      "ہم کہاں جا رہے ہیں ؟"

                      لیزا یہ بات نہ جانے کتنی بار پوچھ چکی تھی لیکن عزم نے اسے نہیں بتایا۔وہ بس اپنے دھیان گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور لیزا یہ جاننے کے لیے بے چین تھی کہ وہ آخر جا کہاں رہے ہیں۔جب گاڑی ملکوں کی حویلی کے باہر رکی تو لیزا نے حیرت سے عزم کی جانب دیکھا۔

                      "ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟"

                      اس سوال پر عزم ہلکا سا ہنس دیا۔

                      "تم شاید دنیا کی پہلی لڑکی ہو جو میکے میں آکر یہ پوچھ رہی ہوں کہ ہم یہاں کیوں آئے ورنہ لڑکیاں تو میکے آ کر یہ بھول جاتی ہیں کہ انکے پیچھے بھی کوئی انکا انتظار کر رہا ہے۔"

                      عزم نے اسکا موڈ اچھا کرنے کے لیے شرارتاً کہا لیکن لیزا کے ماتھے پر شکن جوں کی توں تھی۔ایک گہرا سانس لے کر عزم نے اسکا ہاتھ پکڑا۔

                      "دیکھو غزل وہ تم ہی ہو جس نے میری آنکھیں کھولیں اور مجھے اس سچائی سے باور کروایا جو اتنے سالوں سے جزبات میں بہہ کر میں سمجھ نہیں سکا۔"

                      لیزا نے سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔

                      "غلطیاں سب سے ہوتیں ہیں تم سے بھی ہوئیں اور مجھ سے بھی جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہماری غلطیوں پر معاف کر دیا جائے تو ہمیں معاف کرنا آنا بھی چاہیے ناں۔"

                      عزم نے اسے محبت سے سمجھایا اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر اونچا کیا۔

                      "اس لیے مجھ پر بھروسہ رکھو اور چلو۔"

                      عزم نے اسکے سامنے اپنا ہاتھ کیا تو کچھ سوچ کر لیزا نے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسکے ساتھ گاڑی سے باہر آ گئی۔وہ جیسے ہی حویلی کے گیٹ سے صحن میں داخل ہوئے تو ایک ملازم فوراً اسکی خبر دینے حویلی میں گیا۔

                      جب وہ دروازے پر پہنچے تو عرشمان دروازے پر کھڑا تھا۔عزم کو بارہ سال پہلے کا وہ وقت یاد آیا جب وہ یہاں آخری بار اپنی پھپھو کو دیکھنے آیا تھا اور عرشمان نے اسے حویلی میں داخل ہونے نہیں دیا تھا اور عرشمان کی آنکھوں کے سامنے بھی تو وہی منظر چل رہا تھا۔

                      عزم کے قدم حویلی کی پہلی سیڑھی تک گئے تو وہی رک گئے۔یہ دیکھ کر عرشمان اسکے پاس آیا اور اپنا ہاتھ اسکے سامنے کیا۔عزم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

                      "میرے اس گناہ کو چھوٹے بھائی کی خطا سمجھ کر معاف کر دو عزم۔"

                      عرشمان کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو دیکھ کر عزم نے اسکا ہاتھ تھام لیا اور اسے کھینچ کر اپنے گلے سے لگا لیا۔عزم کے اس عمل پر کتنے ہی آنسو عرشمان کی آنکھوں سے بہے۔

                      "معاف کیا میں نے تمہیں عرشمان۔۔۔"

                      عرشمان عزم سے دور ہوا اور مسکرا کر اسے دیکھا۔

                      "شکریہ عزم تمہارا یہ احسان مر کر بھی نہیں چکا سکوں گا۔"

                      عرشمان نے مسکراتے ہوئے انگوٹھے سے اپنے آنسو پونچھے لیکن جب نگاہ پیچھے کھڑی لیزا پر پڑی تو چہرے کی مسکان غائب ہو گئی اور آنکھوں میں سختی اتری تھی۔

                      "بھابھی ہے تمہاری۔۔۔"

                      عزم نے عرشمان کو گھور کر کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لیا۔

                      "چھوڑو سب آؤ اندر چلتے ہیں۔میں نے سب کو ہال میں جمع کیا ہے یہ کہہ کر کہ ایک سرپرائز ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا سرپرائز ہے۔"

                      عرشمان نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو عزم مسکرا دیا اور اپنا ہاتھ لیزا کی جانب کیا جس نے آگے ہو کر فوراً اسکا ہاتھ تھام لیا۔لیزا کی نظریں تب سے عرشمان پر تھیں اور اسے دیکھتے ہوئے وہ کتنی ہی بار اپنا دل ٹٹول چکی تھی کہ کہیں پہلے جیسے کوئی جزبات اسکے دل میں چھپے تو نہیں تھے۔

                      مگر جب اسے دیکھ کر دل میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی تو لیزا نے سکھ کا سانس لیا۔اسے اب خود پر ہنسی آ رہی تھی کہ کیسے پل بھر کی اٹریکشن کے پیچھے وہ خود کو خوار کرتی رہی تھی۔

                      جب لیزا نے اپنا ہاتھ عزم کے ہاتھ میں دیا تو اسکا دل فوراً بہت زور سے دھڑکنے لگا۔لیزا اب محبت اور ضد کے درمیان کا فرق سمجھ چکی تھی۔

                      وہ تینوں حویلی میں داخل ہوئے تو عزم اور لیزا کو دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔اماں بی تو اپنی جگہ پر ہی جم چکی تھیں۔نواسے سے کی زیادتی کا احساس اور پچھتاوا ان پر حاوی ہو رہا تھا۔

                      جبکہ انکے ساتھ بیٹھے شاہد تو حسرت سے لیزا کو دیکھ رہے تھے جس نے انہیں ایک بار دیکھا تک نہیں تھا۔

                      "یہ یہاں کیا کر رہے ہیں بھائی؟"

                      سوال سلطان کی جانب سے آیا جو ایک کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا جبکہ فرحین بیگم اور انابیہ بھی حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

                      "سلطان تمیز سے بات کرو بڑا بھائی ہے یہ ہم دونوں کا۔"

                      عرشمان نے غصے سے کہا اور سب کی جانب دیکھا۔

                      "تب میں غلطی پر تھا نادان تھا جسکی سزا میں نے عزم کو دی لیکن اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں۔عزم نے کچھ نہیں کیا سلطان نہ ہی پھوپھا نے کچھ کیا تھا یہ سب ایک سوچے سمجھی سازش تھی جسکی سمجھ ہمیں اب آئی۔"

                      سب عرشمان کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔عرشمان نے ایک گہرا سانس لے کر ساری بات وہاں موجود ہر شخص کو بتا دی۔جسے سن کر سب ہی سکتے میں آ چکے تھے۔

                      "یہ سب سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا وہ جو کوئی بھی تھا اس کا ارادہ ہم دونوں خاندانوں میں پھوٹ ڈالنے کا تھا اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ ہماری حویلی میں سے ہی کوئی ہے۔"

                      عرشمان کی بات پر عزم نے ایک نگاہ وہاں کھڑے ہر شخص کو دیکھا جب اسکی نگاہ ایک وجود پر ٹھہر گئی جسکا رنگ بالکل فق ہو چکا تھا۔عزم کے ہونٹوں پر گہری مسکان آئی تھی۔

                      "کون ہے وہ؟"

                      شاہد نے پریشانی سے پوچھا۔

                      "پتہ نہیں لیکن جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔"

                      عرشمان نے عزم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جس نے ہاں میں سر ہلایا اور لیزا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اماں بی کے پاس آیا اور لیزا کا ہاتھ چھوڑ کر ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

                      "اماں بی۔"

                      عزم نے انکے ہاتھ تھام کر انہیں پکارا تو اماں بی کا سر شرم سے جھک گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔انہیں یوں روتا دیکھ عزم نے پریشان ہو کر عرشمان کو دیکھا۔

                      اماں بی نے اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ چھوڑائے اور انہیں عزم کے سامنے جوڑ دیا۔

                      "مجھے معاف کر دو بیٹا میں نے جانے انجانے تم سے بہت زیادتیاں کیں مجھے معاف ۔۔۔۔"

                      "نہیں اماں بی بڑے چھوٹے سے معافی نہیں مانگتے"

                      عزم نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔

                      "نہیں بیٹا جب بڑے اپنے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیں تو بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے معافی مانگیں۔"

                      اماں بی نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا تو عزم نے انکے جڑے ہوئے ہاتھوں کو چوما اور اپنا سر انکے گود میں رکھ دیا۔

                      "مجھے بس آپکا پیار چاہیے اماں بی جو ہونا تھا ہو گیا ماضی کو یاد کر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے دکھ کے تو بہتر ہے ہم اپنے آج کو دیکھیں۔"

                      عزم نے سر اٹھا کر انہیں محبت سے دیکھتے ہوئے انکے آنسو پونچھ دیے تو اماں بی مسکرا دیں۔

                      "ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔"

                      اماں بی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عزم مسکرا دیا اور پاس کھڑی لیزا کو اشارہ کیا تو وہ بھی اماں بی کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔لیزا کو عزم کے ساتھ دیکھ کر اماں بی حیران ہوئی تھیں۔

                      "آپکی بہو۔۔۔۔"

                      عزم کی بات پر اماں بی مزید حیران ہو گئیں ۔

                      "یہ سب کب ہوا؟"

                      اماں بی کے حیرت سے پوچھنے پر عزم نے مسکرا کر لیزا کو دیکھا۔

                      "میرے کینیڈا جانے سے پہلے م۔۔۔۔میں خود لیزا کا نکاح عزم سے کر کے گیا تھا۔"

                      جواب شاہد کی جانب سے آیا اور انکے جواب نے سب کو حیران کیا۔

                      "میں ایک اچھا باپ ثابت نہیں ہوا نہ ہی لیزا کے لیے جسے میں نے بچپن سے نازوں سے پالا اور نہ ہی آن کے لیے جس کے باپ ہونے کا فرض میں نے کبھی پورا ہی نہیں کیا۔"

                      شاہد نے آن کو دیکھتے ہوئے کہا جسے عرشمان آج صبح ہی لاہور سے واپس لایا تھا اور اس وقت وہ دیوار کے ساتھ سر جھکائے کھڑی تھی۔

                      "میں بہت برا انسان ہوں خود سے جڑے رشتوں سے بس زیادتی ہی کی ہے۔۔۔۔ساری زندگی شمع کو صرف اس گناہ کی سزا دی کہ وہ مجھے پسند نہیں تھی۔۔۔۔"

                      شمع کے ذکر پر ہی شاہد کی پلکیں نم ہو گئیں جبکہ اپنی ماں کو یاد کر آن کی آنکھیں بھی بہنے لگی تھیں۔

                      "اس نے کب کب کوشش نہیں کی کہ میرے دل میں جگہ بنا سکے اور میں نے ہمیشہ اسے دھتکارا اور ایک جانب تم ہو عزم۔۔۔۔جس نے سب جاننے کے باجود۔۔۔یہ جاننے کے باجود کہ لیزا اس شخص کی بیٹی ہے جس نے تمہاری پھپھو پر اتنا ظلم کیا لیکن تم نے پھر بھی اڈے اتنی محبت دی۔۔۔تم بہت عزیم ہو عزم بہت عزیم۔۔۔۔"

                      اتنا کہہ کر شاہد پھوٹ پھوٹ کر رو دیے اور لیزا نے بے چینی سے عزم کو دیکھا جس نے آگے ہو کر شاہد کے ہاتھ تھامے۔

                      "میں کسی کو کسی کے گناہ کی سزا دینے کے حق میں نہیں۔ایک بار مجھ سے بھی ہوئی تھی یہ غلطی شکر کرتا ہوں کہ وقت رہتے مجھے خیال آ گیا۔"

                      عزم نے ایک نظر آن کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔

                      "انسان غلطیوں کا پتلا ہوتا ہے شاہد صاحب سب سے خطا ہوتی ہے لیکن جو اپنی خطا سے سیکھ کر اسے سدھار لے وہ انسان ہے اور جو ایک غلطی کو چھپانے کے لیے ہزار گناہ اور کرے وہ شیطان۔"

                      عزم نے کمرے میں کھڑے ایک وجود کی جانب دیکھ کر کہا پھر گہرا سانس لے کر لیزا کی جانب مڑا۔

                      "اب اپنے ڈیڈ کو معاف کر دو میری چوزی۔معاف کرنے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا۔"

                      عزم کو لیزا سے انگلش میں بات کرتا دیکھ سب نے خوشگوار حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔

                      "کیا پڑھا لکھا ہوں بھئی بابا کا خواب پورا کیا ہے۔"

                      عزم نے شرارت سے کہا تو سب ہنس دیے کیونکہ سب جانتے تھے کہ عزم کو پڑھائی سے کس قدر چڑ تھی۔لیزا نے سر جھکا کر بیٹھے شاہد کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے تو شاہد نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔

                      "اٹس اوکے ڈیڈ۔۔۔۔اٹس اوکے ۔۔۔"

                      لیزا کے ایسا کہتے ہی شاہد نے روتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور آنسوؤں سے تر آنکھیں اٹھا کر آن کو دیکھا۔

                      "آن بیٹا۔"

                      اماں بی نے آن کو پکارا لیکن آن نے اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔

                      "یہ میرے لیے اتنا آسان نہیں اماں بی۔۔۔۔"

                      آن نے روتے ہوئے کہا تو شاہد کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔

                      "اپنا ہر حق انہیں معاف کیا اماں بی لیکن اپنی ماں کے وہ آنسو۔۔۔۔وہ آنسو میں نہیں معاف کر سکتی نہ ہی بھول سکتی ہوں کبھی بھی نہیں۔"

                      اتنا کہہ کر آن روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اور شاہد کا دل کیا اپنی جان لے لیں۔

                      "آپ فکر مت کریں چچا میں اسے سمجھاؤں گا۔"

                      شاہد نے اپنا سر انکار میں ہلایا۔

                      "وہ نہیں سمجھے گی میں نے جانے انجانے اس سے بہت زیادتی کی ہے۔وہ تو کوئی اسکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو مجھے معاف نہیں کرتا ۔۔۔۔میں خود کو بھی معاف نہیں کرتا۔"

                      اتنا کہہ کر شاہد وہاں سے چلے گئے اور لیزا نے پریشانی سے عزم کو دیکھا جس نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے دلاسہ دیا۔

                      "فرحین ملازمہ سے کہو کھانے کا بندوبست کرے بچے کب سے آئے ہیں انہیں پانی پوچھو۔"

                      فرحین ہاں میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئیں تو انابیہ بھی انکے پیچھے چل دی۔اماں بی نے لیزا اور عزم کو اپنے پاس صوفے پر بیٹھایا۔جبکہ عرشمان آن کے پیچھے جا چکا تھا اور سلطان ابھی بھی بت بنا اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔

                      "میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں عزم امید کرتی ہوں تم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہو۔"

                      اس بات پر عزم نے مسکرا کر لیزا کو دیکھا۔

                      "جان سے بھی زیادہ۔"

                      اماں بی نے اس بات پر مسکرا کر لیزا کا ماتھا چوما۔تبھی ایک ملازمہ جوس لے کر وہاں آئی۔اس نے ایک گلاس لیزا کے سامنے کیا جسے عزم نے اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس میں سے ایک گھونٹ بھر کر دو منٹ کے بعد وہ گلاس لیزا کو پکڑا دیا۔

                      اسکی احتیاط پر لیزا مسکرا دی اور اسے دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ گلاس کی اسی جگہ پر رکھے جہاں عزم کے ہونٹ تھے۔یہ دیکھ کر عزم کی آنکھوں میں حرارت اتری تھی۔

                      شام تک وہ دونوں وہیں رہے تھے۔جب واپسی کا وقت آیا تو ایک بار پھر سے سب انہیں وداع کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔عزم نے لیزا کا ہاتھ تھام کر اسے ساتھ لے جانا چاہا تو اماں بی نے لیزا کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔

                      "غزل کہیں نہیں جا رہی عزم ملکوں کی بیٹی یونہی وداع نہیں ہو گی اگر اسے لے کر جانا ہے تو جاؤ اور دھوم دھام سے بارات لے کر آؤ۔"

                      "لیکن اماں بی۔"

                      اماں بی کی بات پر عزم نے بے بسی سے انہیں دیکھا جبکہ لیزا تو بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

                      "کوئی لیکن ویکن نہیں ہماری بچی دھوم دھام سے بیاہی جائے گی۔"

                      اماں بی نے گویا فیصلہ سنایا لیکن عزم پریشان تھا وہ لیزا کو یہاں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔اماں بی عزم کے پاس آئیں اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا۔

                      "فکر مت کرو بیٹا وہ تمہاری امانت ہے میرے پاس جان سے زیادہ خیال رکھوں گی اسکا۔"

                      عزم نے گہرا سانس کے کر ہاں میں سر ہلایا کیونکہ وہ اماں بی کو انکار نہیں کر سکتا تھا۔

                      "پھر تیاری کر لو عرشمان ملک بہت جلد آ رہا ہوں بارات لے کر۔"

                      عزم کی بات پر عرشمان مسکرا دیا۔

                      "ہم انتظار میں ہیں چوہدری جی۔"

                      اس بات پر عزم نے ایک نظر لیزا کو دیکھا جو خود بھی منہ بنائے اسے دیکھ رہی۔عزم اسکے پاس آیا اور زرا سا اسکے کان کے پاس جھکا۔

                      "ایک ہفتہ مل رہا ہے بس تمہیں اپنے میکے رہ کر کھا پی کے صحت بنا لینا کیونکہ جب دلہن بن کر میرے پاس آؤ گی تو سارے حساب بے باک کرنے ہوں گے۔"

                      لیزا اسکی سرگوشی پر کانپ کر رہ گئی اور عزم نے مسکرا کر اماں بی کو دیکھا۔

                      "اپنی جان آپ کے حوالے کر رہا ہوں اماں بی اسکے بغیر مر جائے گا آپکا نواسہ "

                      اتنا کہہ کر عزم وہاں سے چلا گیا اور اماں بی انکی محبت پر اطمینان سے مسکرا دیں۔اتنے سالوں کے بعد پھر سے انکی حویلیاں خوشیوں سے چہکنے والی تھیں۔
                      ????







                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_36(پارٹ 1)



                      شادی کی تیاریاں فوراً ہی شروع کر دی گئی تھیں۔عزم زیادہ دیر لیزا کو وہاں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور اماں بی کو بھی یہی بہتر لگا اس لیے انہوں نے بھی عزم کو پریشان نہیں کیا۔

                      بلکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ لیزا کی رخصتی کے ساتھ ساتھ عرشمان اور آن کا ولیمہ بھی کر دیا جائے اور یہ فیصلہ عرشمان کو بھی قبول تھا۔

                      پل بھر میں ان دونوں کے گھروں میں خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔عزم لیزا کو اور عرشمان آن کو شاپنگ کروانے کے لیے لے کر گیا تھا۔

                      عزم نے پر چیز لیزا کو اسکی پسند کی دلوائی تھی لیکن بس اسکی بارات کا جوڑا مکمل طور پر اپنی پسند کا لیا تھا جس پر لیزا کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ لہنگا تھا ہی اتنا خوبصورت۔

                      جبکہ دوسری جانب عرشمان نے ان کو گلابی رنگ کا ایک انتہائی خوبصورت فراک لے کر دیا تھا۔آن کو بھی اپنے مان کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور ہوتا بھی کیوں وہ کب سے آن کے کانوں میں شرارت سے بھر پور سرگوشیاں کر کے اسے بھی تو اس جوڑے کی طرح گلابی ہونے پر مجبور کر رہا تھا۔

                      ان سب خوشیوں میں اگر کوئی افسردہ تھا تو وہ سلطان ملک تھا جو اب اپنے آپ کو پہلے سے بھی زیادہ تنہا محسوس کر رہا تھا۔احساس گناہ اسے اندر سے جھنجوڑ رہا تھا جیسے اسے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے کنیز کا خیال رکھا ہوتا تو آج وہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح خوش ہوتا۔

                      شادی کی تیاریوں کے دوران جس چیز نے عزم اور عرشمان کو پریشان کیا تھا وہ انکے دشمن کی خاموشی تھی۔دونوں کو ہی یہ لگا تھا کہ انکا دشمن انکو پھر سے ایک ہوتا دیکھ ہڑبڑا جائے گا اور کوئی نہ کوئی غلطی ضرور کرے گا لیکن اس کی یہ خاموشی ان دونوں کو کھٹک رہی تھی۔

                      وہ بس دعا کر سکتے تھے کہ یہ خاموشی طوفان سے پہلے کی خاموشی نہ ہو۔جلدی کے چکر میں شادی کی تیاریوں کا سلسلہ ایک ہفتے میں ہی تمام کر دیا گیا تھا۔

                      ملکوں نے اپنی حویلی کو ایک بار پھر سے دلہن کی طرح سنایا تھا جبکہ عزم نے چوہدریوں کی حویلی تو کیا حویلی تک آنے والے ہر راستے کو بھی روشنیوں سے سجایا تھا۔

                      آج 12 سال کے بعد اس کے گھر میں بھی خوشیاں لوٹ کر آئی تھیں اور عزم دل کھول کر انہیں خوش آمدید کہنا چاہتا تھا۔مہندی کی تقریب ملکوں کی حویلی میں ہونا طے پائی تھی جس کے لیے عزم پورے شور شرابے اور دھوم دھام سے آتش بازی کے ساتھ وہاں آیا تھا۔

                      جبکہ گاؤں کے کتنے ہی جوان لڑکے سردار کی شادی کی خوشی میں بھنگڑا کر رہے تھے اور یہ خوشی عزم کی شادی سے زیادہ دونوں خاندانوں کے پھر سے ایک ہو جانے کی خوشی تھی۔

                      کمرے میں لیزا مسکراتے ہوئے آئنے کے سامنے بیٹھی تھی۔وہ اس وقت سبز رنگ کی کرتی میں ملبوس تھی جس کے نیچے بھاری کام کا گلابی شرارہ اور سر پر اورنج دوپٹہ ڈال کر کمر پر پھینک دیا گیا تھا۔

                      جبکہ تازہ پھولوں سے بنے زیور اور گجرے اسکے حسن کو مزید نکھار بخش رہے تھے۔اماں بی جو ابھی آن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تھیں لیزا کو اتنا خوبصورت لگتا دیکھ مسکرا کر اسکے پاس آئیں تو لیزا انکے ادب میں کھڑی ہو گئی۔

                      اس ایک ہفتے میں اسکے دل میں ہر رشتے کا مقام اور خاص طور پر اماں بی کے لیے عقیدت بہت بڑھ گئی تھی۔اماں بی تو اس سے ویسی محبت کرتی تھیں جس کی لیزا کو حسرت رہی تھی۔

                      "ماشاءاللہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو میرا چندا کسی کی نظر نہ لگے۔"

                      اماں بی نے ہاتھ میں پکڑے ہزاروں کے نوٹ لیزا پر وارتے ہوئے کہا اور وہ پیسے پاس کھڑی ملازمہ کو پکڑا دیے جبکہ انکی بات کو نہ سمجھ کر لیزا نے یہاں وہاں دیکھا کہ شائید کوئی اسے انکی بات کا مطلب بتا دے۔

                      اتنے دونوں سے تو شاہد اماں بی کی باتیں سمجھنے میں اسکی مدد کرتے آئے تھے۔لیزا کی نظر دروازے میں کھڑی آن پر پڑی تو اسکا سر شرمندگی سے جھک گیا۔

                      "آن بیٹا تم بہن کو باہر لے آؤ میں زرا دیکھ لوں عزم کے استقبال میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔"

                      اماں بی کے حکم پر آن اثبات میں سر ہلا کر کمرے میں داخل ہوئی تو اماں بی ملازمہ کو لے کر وہاں سے چلی گئیں۔

                      آن نے ایک نظر لیزا کو دیکھا اور پھر اس کے دوپٹے کا ایک پلو پکڑ کر سامنے کرتے ہوئے مسکرا دی۔

                      "سچ میں بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو تم کسی کی نظر نہ لگے تمہیں۔"

                      آن کا لہجہ ویسا ہی تھا جیسا ایک بڑی بہن کا چھوٹی بہن کے لیے ہو سکتا تھا۔لیزا نے اسکے کھڑے جزبات پر نم پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔

                      "آئی ایم سوری آن میں نے تم سے بہت زیادہ زیادتی کی اپنی ضد میں تم سے تمہارا سب کچھ چھیننا چاہا یہ تو نہیں سوچا کہ تم میری بہن ہو۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کس منہ سے تم سے معافی مانگوں۔۔۔۔"

                      لیزا کی نم آواز پر آن آگے بڑھی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔

                      "سب بھول جاؤ غزل وہ سب بس برا ماضی تھا۔بے شک اللہ نے تمہیں سیدھی راہ دیکھائی۔"

                      آن نے محبت سے کہا لیکن لیزا کا پچھتاوا کم نہیں ہوا۔

                      "نہیں آن تم نہیں جانتی میں غلط نہیں بلکہ بری تھی بہت زیادہ بری۔۔۔۔تمہیں پتہ ہے عرشمان کو تم سے چھیننے کے لیے میں نے۔۔۔"

                      لیزا کو وہ پل یاد آیا جب اس نے آن کو جان لیوا زہر دینا چاہا۔یہ شائید اسکے لیے مقافات عمل ہی تھا کہ جیسے اس نے زہر دے کر اپنی بہن کو مارنا چاہا ویسے ہی وہ بھی کسی کے ذہر دینے پر زندگی اور موت سے لڑی تھی۔

                      "ششش ۔۔۔۔وہ سب دہرا کر خود کو شرمندہ مت کرو غزل میں سب بھول گئی ہوں تم بھی بھول جاؤ۔اب بس ان خوشیوں کے بارے میں سوچو جو تمہاری منتظر ہیں۔"

                      آن نے لیزا کو خود سے دور کر کے نرمی سے اسکے آنسو پونچھ کر کہا۔

                      "دیکھو سارا لائینر خراب کر لیا تم نے لاؤ میں ٹھیک کرتی ہوں۔"

                      آن ڈریسنگ کے پاس گئی اور لائینر لا کر لیزا کی آنکھوں پر لگا لائینر ٹھیک کرنے لگی۔اپنی بڑی بہن کی یہ محبت اور رحم دلی دیکھ لیزا کے دل میں بے ساختہ اپنی ماں کے لیے نفرت پیدا ہوئی جس نے اسے اتنی زیادہ محبت والے رشتوں سے دور رکھا تھا۔

                      لائینر ٹھیک کر کے آن نے لیزا کو کندھوں سے پکڑا اور اسے آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتے ہوئے حویلی کے وسیع لان میں لے آئی جہاں تقریب کا بندوبست کیا گیا تھا۔

                      عزم کی نظر اپنی جانب آتی لیزا پر پڑی تو اسے لگا کہ وہ سانس تک لینا بھول گیا ہو۔وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی کسی آسمان سے اتری پری کی طرح۔

                      آن نے لیزا کا ہاتھ عزم کے ہاتھ میں تھما دیا اور خود عرشمان کے پاس آ گئی جو سٹیج پر کی زرا سائیڈ پر کھڑا بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا۔

                      "مجھے یوں گھورنا بند کریں مان لوگ کیا سوچیں گے۔"

                      آن نے مصنوعی سختی سے کہا تو عرشمان نے ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے ہوئے اسے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔

                      "یہ اتنا خوبصورت لگنے سے پہلے سوچنا تھا۔"

                      عرشمان نے بھرپور نگاہ اس پر ڈالی تھی جو ہلکے سے پیلے رنگ کے جوڑے میں دمتکا ہوا چاند لگ رہی تھی۔

                      "اب اتنی بھی اچھی نہیں لگ رہی میں۔"

                      آن نے چہرے پر چھائی سرخی کو سر جھکا کر چھپاتے ہوئے کہا۔

                      "یہ تو ایک بار یہ سب ختم ہونے پر تم کمرے میں چلو پھر تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کس قدر خوبصورت لگ رہی ہو۔"

                      عرشمان نے اسکے کان کے قریب جھک کر جان لیوا سرگوشی کی تو آن کانپ کر رہ گئی۔مری میں گزری اس رات کے بعد وہ دونوں پھر سے اتنے قریب نہیں آئے تھے لیکن آج آن کو عرشمان کے ارادے خطرناک لگ رہے تھے۔

                      بہت مشکل سے اس نے اپنا دھیان عرشمان سے ہٹا کر عزم اور لیزا پر ڈالنا چاہا لیکن اپنی کمر پر عرشمان کے ہاتھ کی تپش اور اسکی خوشبو کا احساس یہ کام ناممکن بنا گیا تھا۔

                      "کیسی لگ رہی ہوں ؟"

                      لیزا نے سرگوشی کرتے ہوئے عزم سے پوچھا جو خود بھی بھورے رنگ کی شلوار قمیض پر سکن کلر کی چنری گلے میں ڈالے حد سے زیادہ شاندار لگ رہا تھا۔

                      "یہ تو میں تمہیں فرصت سے اکیلے میں بتاؤں گا کہ تم کیسی لگ رہی ہو۔"

                      عزم نے بھی ہلکی سی سرگوشی کی تو لیزا مسکرا دی۔

                      "نو مسٹر ابھی ہماری رخصتی نہیں ہوئی جو تم ایسی باتیں سوچو اور شادی مکمل ہونے سے پہلے تو میرے پاس آنے کا سوچنا بھی مت۔"

                      لیزا نے عزم کو ہری جھنڈی دیکھاتے ہوئے اترا کر کہا جبکہ اسکے کھلے چیلنج پر عزم مسکرا دیا۔

                      "اور اگر میں تمہاری سانسوں سے بھی زیادہ پاس آ گیا تو؟"

                      عزم نے اسکے کان کے پاس ہو کر سرگوشی کی تو لیزا کو اپنی ہتھیلیاں نم ہوتی محسوس ہونے لگیں۔

                      "تو۔۔۔۔تو میں اماں بی کو بتا دوں گی وہ آپکو یہاں سے نکال دیں گی۔"

                      لیزا کی اس معصوم بات پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا۔

                      "دیکھتے ہیں میری ولایتی چوزی کہ کون جیتتا ہے یہ محبت کی جنگ۔"

                      عزم نے شرارتاً اسکی کمر میں ہلکی سی چوٹی کاٹی تو لیزا آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھنے لگی لیکن پھر عزم کے آنکھ ونک کرنے پر خود ہی شرما کر سر جھکا گئی۔

                      جبکہ محفل اور اس رونق سے دور کھڑے سلطان نے اپنے بھائیوں کی ان خوشیوں کو نم آنکھوں سے دیکھا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ ان کی خوشیوں سے جل رہا تھا بس آج ان دونوں کو اپنی محبت کے ساتھ یوں خوش دیکھ کر سلطان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور چیخ چیخ کر اس سے کہہ رہا تھا کہ کاش اس نے بھی اپنی محبت کو ان دونوں کی طرح سنبھال کر رکھا ہوتا تو وہ یوں کونے میں تنہا کھڑا آنسو نہ بہا رہا ہوتا۔

                      اپنے دل کی اس پکار پر سلطان وہاں سے پلٹ کر اپنے کمرے میں آ گیا تھا۔کمرے میں آتے ہی اس نے غم و غصے سے ڈریسنگ پر پڑی چیزوں کو زمین پر پھینک کر توڑ دیا اور اپنے بال ہاتھوں سے نوچتے ہوئے چیخ چیخ کر رونے لگا۔

                      "تم نہیں ہو محبت کے قابل تم اسی قابل ہو سلطان ملک جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔تم اسی قابل ہو کہ ساری زندگی اسکے ایک دیدار کے لیے تڑپ تڑپ کر مرو اسی قابل ہو تم۔"

                      اپنے ضمیر کی پکار پر سلطان فرش پر بیٹھتے ہوئے سسک سسک کر رونے لگا جب اسے اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس ہوا تو سلطان نے حیرت سے پلٹ کر فرحین بیگم کو دیکھا جو اسے نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔

                      "نے کرو خود پر اتنا ظلم بھول جاؤ اسے سلطان میں کل ہی تمہاری شادی انابیہ سے کروا دوں گی پھر دیکھنا تمہاری زندگی میں بھی خوشیاں لوٹ آئیں گی۔"

                      فرحین بیگم نے اسے محبت سے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن جواب میں سلطان نے فرش سے ایک کانچ کا ٹکڑا اٹھایا اور اسے فرحین بیگم کے ہاتھ میں دے دیا۔

                      "پھر میری جان لے لیں امی کیونکہ زندہ رہتے ہوئے اسے بھول نہیں پاؤں گا۔"

                      سلطان کی بات پر فرحین بیگم تڑپ کر رہ گئیں۔

                      "تم اس کے لیے اتنا تڑپ رہے ہو اور اسے تمہاری پروا بھی ہے؟اگر ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وہ تمہاری بیوی ہے تو وہ تو یہ بات بتا سکتی تھی ناں۔گھر کے باہر بیٹھ کر تمہارا انتظار کر سکتی تھی ناں لیکن اس نے تو پلٹ کر تمہیں دیکھا تک نہیں سلطان یہ بھی بھلا کوئی محبت ہوئی۔"

                      فرحین بیگم نے اپنی باتوں سے سلطان کے دل میں ایک پھانس گاڑنے کی کوشش کی۔

                      "نہ جانے کہاں ہو گی وہ اس وقت کس کے ساتھ ہو گی پتہ نہیں کس امیر زادے پر ڈورے۔۔۔۔"

                      "امی۔۔۔۔"

                      سلطان اتنی زور سے چلایا کہ فرحین بیگم سہم کر اسے دیکھنے لگیں۔

                      "کچھ بھی برداشت کروں گا لیکن اپنی نوری کے دامن پر ایک چھینٹا بھی برداشت نہیں کروں گا۔"

                      سلطان کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی بلند ہوئی تھی اور اپنے فرمانبردار بیٹے کے اس روپ پر فرحین بیگم حیرت سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگیں۔

                      "بری وہ نہیں امی برا آپ کا بیٹا ہے جس نے اس کی قدر نہیں اس سے اپنا ہر حق تو وصول کیا لیکن اس کے حقوق سے منہ پھیر گیا۔"

                      سلطان نے روتے ہوئے کہا جبکہ فرحین بیگم سکتے کے عالم میں وہاں کھڑی میں بیٹے کو دیکھ رہی تھیں جو اس وقت مکمل طور پر بکھرا ہوا شخص لگ رہا تھا جسے صرف اس کی محبت کی محبت کی سمیٹ سکتی تھی۔

                      "میری نوری تو بہت معصوم تھی امی بہت رحم دل اسے کٹھور میں نے بنایا۔۔۔۔میں اسی قابل ہو میں امی وہی کاٹ رہا ہوں جو میں نے بویا۔۔۔۔"

                      سلطان نے روتے ہوئے کہا تو فرینڈ بیگم نے تڑپ کر اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔

                      "سلطان۔"

                      "مجھے اکیلا چھوڑ دیں مجھے اس کی یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیں۔"

                      فرحین بیگم نے سلطان کو پھر سے کچھ کہنا چاہا لیکن جب سلطان میں انہیں کمرے سے چلے جانے کا کہا تو وہ بے بس ہو کر کمرے سے باہر آ گئیں۔

                      "اماں بی آپ یہاں؟"

                      فرحین بیگم نے اماں بی کو چھڑی کے سہارے سلطان کے کمرے کے باہر کھڑے دیکھا تو حیرت سے پوچھنے لگیں۔

                      "ہاں تمہیں اور سلطان کو یہاں آتا دیکھا تو پریشان ہو کر یہاں آ گئی۔"

                      اماں بی کے ایسا کہنے پر فرحین بیگم پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

                      "اسے سمجھائیں اماں بی کیوں ایک لڑکی کے پیچھے خود کو برباد کر رہا ہے؟"

                      فرحین کی بات پر اماں بی کے ہونٹ مسکرا دیے۔

                      "سمجھنے کی ضرورت اسے نہیں فرحین تمہیں ہے۔اور وہ خود کو برباد نہیں کر رہا بلکہ برباد ہونے پر اس کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔"

                      اماں بی کی بات پر فرحین بیگم حیرت سے انہیں دیکھنے لگیں جو مسکرا رہی تھیں۔

                      "میں اپنے اس بچے کے لیے دعا گو ہوں فرحین خدا بہت جلد اسے بھی اسکی خوشیاں لوٹائے گا اور تمہارے لیے بھی دعا کرتی ہوں کہ خدا تمہیں تمہارے بچوں کی خوشیوں میں خوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔"

                      اتنا کہہ کر اماں بی فرحین بیگم کو کڑنے کے لیے وہاں چھوڑ کر واپس باہر چلی گئیں جہاں اب ڈھول کی آواز کے ساتھ خوشیوں کی شہنائیاں اور آتش بازی سنائی دے رہی تھی۔
                      ????
                      تقریب ختم ہونے کے بعد لیزا اپنے کمرے میں واپس آئی۔اس نے جتنا آج انجوائے کیا تھا پہلے کبھی نہیں کیا۔وہ رونق اور سب کی محبت اسے ابھی بھی خوشی سے جگمگانے پر مجبور کر رہی تھی۔

                      لیزا نے آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر آخری بار خود کا جائزہ لیا اور مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ دوپٹے تک لے جا کر اسے اس کی پنوں سے آزاد کرنے لگی۔پنوں کی قید سے آزاد ہوتے ہی دوپٹہ زمین پر جا گرا تو لیزا نے بالوں میں لگی پھولوں کی بیل ہٹانے لگی لیکن اچانک ہی کسی نے اپنے ہاتھ اسکی نازک کمر پر رکھ دیے تو لیزا نے سہم کر آئنے میں سے عزم کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔

                      "یہاں کیسے آئے؟"

                      لیزا نے حیرت سے پوچھا کیونکہ اسے یاد تھا کہ کمرے میں آتے ہوئے وہ دروازہ لاک کر کے آئی تھی۔

                      "کھڑکی سے۔"

                      عزم نے کھڑکی کی جانب اشارہ کیا تو لیزا مزید حیران رہ گئی کیونکہ اسکا کمرہ سیکنڈ فلور پر تھا۔

                      "جب میں نے کہا تھا کہ تمہارے اس سجے ہوئے حسن کی تعریف میں تنہائی میں فرصت سے کروں گا تو ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی دیوار یا دروازہ مجھے روک سکتا۔"

                      عزم نے اپنے ہاتھ اسکے پیٹ کے گرد لپیٹ کر کندھے پر اپنی ٹھوڈی رکھتے ہوئے کہا۔

                      "عزم ۔۔۔۔"

                      لیزا نے اسے کچھ کہنا چاہا لیکن اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عزم اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ کے پاس لے آیا۔

                      "بب۔۔۔۔بات تو سنو۔۔۔"

                      لیزا نے گھبراتے ہوئے کہا لیکن عزم اسکی سن ہی کہاں رہا تھا۔اس نے لیزا کو بیڈ پر لیٹایا اور ساتھ ہی خود بھی اس پر جھک گیا۔

                      "اگر میں کہوں تم سا حسین کائنات میں نہیں ہے کہیں تعریف یہ بھی تو سچ ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔"

                      عزم گنگناتے ہوئے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گیا اور اب لیزا اپنی آنکھیں زور سے میچے اپنی شہہ رگ پر اسکا دہکتا لمس برداشت کر رہی تھی۔

                      "عزم۔۔۔۔"

                      لیزا نے گھبرا کر اسے پکارا تو عزم نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔پھولوں سے سجا اسکا مہکا وجود اسے بہت زیادہ بے خود کر رہا تھا اسی بے خودی میں عزم شدت سے اسکے گلابی لپسٹک سے سجے ہونٹوں پر جھک گیا۔

                      لیزا بس بے بسی سے تکیہ اپنی مٹھیوں میں بھینچ کر رہ گئی کیونکہ وہ اسکی سن ہی کہاں رہا تھا۔فرصت سے محبت کا جام پینے کے بعد عزم اسکے ہونٹوں سے ہٹتا پھر سے اس کی گردن تک اپنے ہونٹ لے جانے لگا لیکن لیزا نے فوراً اپنا مہندی سے سجا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔

                      "نو بے بی۔۔۔"

                      لیزا کے روکنے پر عزم نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے گھورا اور اسکا نازک ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر بیڈ سے لگا دیا۔

                      "تم مجھے میرا حق لینے سے نہیں روک سکتی۔"

                      عزم کہتے ہوئے اسکی گردن پر جھک گیا جو پہلے ہی اسکی داڑھی اور مونچھوں کی چبھن سے سرخ ہو رہی تھی۔

                      "عزم پلیز ۔۔۔۔ایک رات کی تو بات ہے۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ دلہن بن کر تمہارے پاس آؤں تو تب۔۔۔۔پلیز میری خواہش کا مان رکھ لو۔۔۔"

                      لیزا نے ہمت کرتے ہوئے آخر کار اسے اپنی خواہش سے آگاہ کر ہی دیا تو عزم نے گہرا سانس لے کر خود پر ضبط باندھا اور اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر جان لیوا گستاخی کی جس پر لیزا سہم کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔

                      "سوچ لو میری جان مجھے انتظار کروانا تمہارے حق میں بہتر ثابت نہیں ہو گا۔آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدت سہنی پڑے گی تمہیں اس نازک وجود پر۔۔۔۔۔بولو کر لو گی برداشت میرا جنون۔۔۔"

                      عزم کی سرگوشی پر لیزا کا روم روم کانپ اٹھا لیکن پھر بھی اس نے ہمت کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ تو عزم نے گہرا سانس لیا اور بیڈ پر لیٹ کر اسے اپنی باہوں میں لیتے ہوئے آنکھیں موند گیا۔

                      "تھینک یو۔۔۔۔"

                      لیزا نے مسکرا کر کہا تو عزم نے سرد آہ بھری۔

                      "انگلش نہ ہی آتی تو ہی اچھا تھا نہ تمہیں سمجھتا اور نہ ہی خود کو روکتا۔۔۔۔خیر کیا ہو سکتا ہے اب سو جاؤ تم۔۔۔۔۔"

                      عزم کی بات پر لیزا ہنس دی اور اپنا سر محبت سے اسکے کندھے پر رکھا۔

                      "لیکن میری بات کو سمجھ کر میری خواہش کر پورا کرنے کا شکریہ۔۔۔۔"

                      لیزا نے محبت سے کہا اور انعام کے طور پر اپنے ہونٹ محبت سے اسکے دل کے مقام پر رکھے۔اسکی حرکت پر ایک بار پھر سے عزم کی آنکھوں میں جنون اترا تھا۔

                      "سو جاؤ میری ولایتی چوزی،تمہارے ہونٹوں کی ایک اور ایسی گستاخی اور میں تمہاری ہر خواہش بھولتا تمہیں خود میں قید کر جاؤں گا۔"

                      عزم کی پکڑ خود پر سخت ہوتے اور اسکی آواز میں چھپے جنون پر لیزا سہم کر اپنی آنکھیں موند گئی۔عزم نے مسکرا کر اپنی متاع جان کو دیکھا جو اسی سے ڈرتے ہوئے اسی کی باہوں میں سمٹ کر سکون سے سو رہی تھی۔

                      جبکہ نیند میں بھی عزم کی قمیض اس نے مٹھی میں جکڑ رکھی تھی جیسے اسے ڈر ہو کہ عزم اس سے دور چلا جائے گا لیکن ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی تھے۔
                      ????






                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_36(پارٹ 2)



                      عرشمان سب مہمانوں کے لیے سونے کے انتظامات کرنے کے بعد کمرے میں آیا تو خالی کمرہ اسکا منہ چڑا رہا تھا۔وہ جس کی ساری محفل میں نظریں بس آن پر رہی تھیں اب اسے وہاں نہ پا کر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے۔

                      اسکی ہمت کیسے ہوئی تھی اتنا خوبصورت لگ کر اسکے جزبات کو بھڑکانے کے بعد یوں اس سے دور جانے کی۔عرشمان جانتا تھا کہ وہ کہاں چھپی ہو گی اس لیے سیدھا اماں بی کے کمرے کی جانب چل دیا اور اسکی توقع کے عین مطابق آن اسے وہی پر ملی تھی۔

                      "عرشمان بیٹا تم اس وقت یہاں کچھ چاہیے تھا کیا؟"

                      اماں بی نے عرشمان کو آن کو گھورتے ہوئے پایا تو نرمی سے پوچھ بیٹھیں۔

                      "جی اماں بی میرا کچھ بہت قیمتی ہے آپ کے پاس اجازت ہو تو لے جاؤں۔"

                      عرشمان کی بات پر جہاں اماں بی کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا وہیں آن خود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔

                      "تمہاری ملکیت ہے بیٹا تمہیں میری اجازت کی کیا ضرورت جب چاہے لے جاؤ۔۔۔۔میں زرا نماز ادا کر لوں۔"

                      اماں بی آن کی جانب دیکھ کر مسکرائیں اور اٹھ کر واش روم میں چلی گئیں جبکہ یہ آخری سہارا بھی ختم ہو جانے پر آن کا منہ بن گیا۔

                      عرشمان فوراً اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔آن خاموشی سے اسکے ساتھ چل دی۔کمرے میں داخل ہو کر عرشمان نے دروازہ بند کیا اور آن کو اسی دروازے کے ساتھ لگا کر اپنے ہاتھ اسکے اردگرد رکھتے ہوئے اسے گھورنے لگا۔

                      "مجھ سے دور جانے کی وجہ؟"

                      عرشمان کی آنکھوں میں جنون دیکھ کر آن بری طرح سے بوکھلا گئی۔

                      "مان وہ۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"

                      "مجھ سے؟"

                      عرشمان کے پوچھنے پر آن نے فوراً اپنا سر انکار میں ہلایا۔

                      "خوش ہونے سے ڈر لگتا ہے مان آپکے قریب آ کر دنیا بھول جانے سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔اس۔۔۔۔اس سے ڈر لگتا ہے جسے میری خوشی گوارا نہیں۔"

                      آخری بات کہتے ہی ان کی آنکھوں میں دو آنسو آ گئے جنہیں دیکھ کر عرشمان کا سارا غصہ ہوا ہو گیا اور اس نے آن کو نرمی سے خود میں بھینچ لیا۔

                      "ڈرو مت میری جان میں ہوں ناں ایک آنچ بھی نہیں آنے دوں گا تم پر۔"

                      عرشمان نے اسکی کمر سہلاتے ہوئے اسے دلاسہ دیا۔

                      "مان کیا اس نے پھر سے آپکو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔کہیں اسے میرے آپکے پاس رہنا۔۔۔"

                      آن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا پوچھے۔ان تصویروں کو یاد کر کے پھر سے اسکا روم روم خوف سے کانپ گیا تھا۔

                      "نہیں میری جان فلحال اس معاملے میں وہ بالکل خاموش ہے میرے خیال سے اس وقت میرے اور تم سے زیادہ اسے کسی اور کی فکر ہے۔"

                      عرشمان نے عزم کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا۔دشمن کی سب سے بڑی دقت فلحال عزم کا ان سب سے ایک بار پھر سے جڑ جانا تھا۔

                      لیکن مان وہ ہے کون مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے گھر میں ایسا کون ہے جس کے دل میں سب کے لیے اس قدر نفرت بھری ہے۔"

                      آن کے خوف سے کانپنے پر عرشمان نے آن کو مزید محبت سے خود سے لگاتے ہوئے اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہا۔

                      "وہ جو کوئی بھی ہے آن اسے میں اور عزم جلد از جلد ڈھونڈ لیں گے اور پھر اسے ہر آنسو کا حساب چکانا ہو گا جو اس کی وجہ سے میں تمہاری آنکھوں میں لایا۔"

                      اپنا رویہ یاد کر کے عرشمان نے افسوس سے کہا۔

                      "تم نے مجھے اس سب کے لیے معاف کر دیا ناں آن ؟"

                      عرشمان نے بہت زیادہ امید سے پوچھا تو آن اس سے دور ہوئی اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔

                      "اسی دن معاف کر دیا تھا مان جس دن سچ میرے سامنے آیا تھا بھلا آن اپنے مان سے خفا ہو سکتی ہے آپ ہی تو میرا سب کچھ ہیں۔"

                      آن نے ایک بار پھر سے اپنا سر اسکے چوڑے سینے پر رکھ لیا۔

                      "تو پھر مجھ پر بھروسہ رکھو آن میں ہماری محبت کو اس بھنور میں سے ضرور نکال لوں گا۔"

                      عرشمان نے اسے بھروسہ دلایا تو آن اطمینان سے مسکرا دی۔ہاں جب تک اسکا مان اسکے ساتھ تھا وہ کسی بھی دشمن کا مقابلہ کر سکتی تھی۔اچانک ہی عرشمان نے اسے گردن کی پچھلی جانب سے پکڑ کر اسکا سر اونچا کیا تو آن حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

                      "اب تمہاری اس خطا کی جانب آتے ہیں جو تم نے مجھ سے دور جا کر کی۔"

                      عرشمان کی آواز جزبات کی لو سے مزید گھمبیر ہو چکی تھی۔

                      "مان وہ۔۔۔"

                      آن نے اسے کچھ کہنا چاہا لیکن اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عرشمان اسکی سانسوں تک کو اپنی قید میں لے چکا تھا۔آن نے اسکے اس جنون پر مزاحمت کرنا چاہی تو عرشمان کی پکڑ اس پر مزید مظبوط ہو گئی۔

                      وہ بے بسی سے اسکی باہوں میں کھڑے ہو کر اسکا جنون سہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔

                      اچانک ہی عرشمان اس سے دور ہوا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو آن نے گھبرا کر اسکا کالر اپنی مٹھی میں جکڑا۔

                      "مان۔۔۔"

                      "اب بس آن بہت تڑپ لیا میں نے بہت تڑپا لیا تمہیں اب ہمارے درمیان کبھی کوئی نہیں آ پائے گا آج میں اپنی محبت کو اتنا امر کر دوں گا کہ موت کے سوا کسی میں ہمیں جدا کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔"

                      اتنا کہہ کر عرشمان نے اسے بیڈ پر لیٹایا اور اس پر کالی گھٹا کی مانند چھا گیا۔آن بھی اپنی گھبراہٹ کو پس پشت ڈال کر اپنا آپ اسے سونپ دیا۔گزرتی رات کے ہر لمحے نے انکی محبت کو امر کر دیا تھا۔
                      ????
                      اگلے دن لیزا کی رخصتی تھی اور اسی دن آن اور عرشمان کا ولیمہ بھی تھا۔ہر طرف گہما گہمی کا عالم تھا۔دو سے تین پارلر والیاں آن اور لیزا کو تیار کرنے بلائی گئی تھیں جو اس وقت اپنی مہارت سے انہیں سجا رہی تھیں۔

                      لیزا کا لہنگا لال رنگ کا تھا۔جس پر انتہائی نفاست سے سنہری بھاری کام ہوا تھا جبکہ کرتی اسکی کمر تک آتی تھی لیکن جو بات لیزا کو حیران کر رہی تھی وہ اسکی کرتی کا پیچھے کی جانب گہرا گلا اور ڈوریاں تھیں۔

                      اس کے شوہر نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ اسکی بیوی اتنی سی بھی عیاں ہو لیکن اسکا جواب بھی لیزا کو جلد ہی مل گیا جب پالر والی نے دوپٹہ اسکی کمر پر ایسے پھیلا دیا کہ اسکی کمر بالکل چھپ سی گئی ۔

                      "واؤ میں نے آج تک اتنی پیاری دلہن تیار نہیں کی اور ابھی تو جیولری پہننا باقی ہے۔"

                      پالر والی کی بات پر لیزا نے سوالیہ نظروں سے آن کی جانب دیکھا جو خود بھی گلابی رنگ کے پیروں تک آتے اس بھاری فراک میں بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

                      بس فرق تھا کہ لیزا کے بالوں کا جہاں اونچا کر کے جوڑا بنایا گیا تھا آن کے بال کھول کر شانوں پر پھیلا دیے گئے تھے۔چوہدریوں کے ہاں سے آنے والے زیوارات کو لیزا نے پھیلی آنکھوں جبکہ پالر والی نے حسرت سے دیکھا تھا۔

                      سونے کے وہ بھاری سیٹ جھمکے بندی اور نہ جانے کیا کیا تھا جو لال ڈبوں میں ملازمہ انکے سامنے رکھ کر گئی تھی۔

                      "چوہدری جی نے کہا ہے کہ انہیں یہ نتھ ضرور پہنائے گا۔"

                      ملازمہ نے ایک لال ڈبیہ پالر والی کو پکڑا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔پالر والی لیزا کو وہ زیورات پہنانے لگی۔ایک بھاری ہار کے ساتھ گلو بند اور جھمکے پہنانے کے بعد اس نے لیزا کے سر پر ماتھا پٹی والی بندیا سیٹ کی اور پھر وہ نتھ کی ڈبیہ کھول کر وہ نتھ لیزا کے ناک میں پہنا دی جس کا لال موتی سیدھا اسکے لپسٹک سے سجے ہونٹ سے ٹکرا رہا تھا۔

                      اسے مکمل تیار کرنے کے بعد پالر والی اسکے سامنے سے ہٹی تو لیزا نے پہلی بار خود کو آئنے میں دیکھا تو نظریں پلٹنا ہی بھول گئی۔آئنے میں نظر آنے والی وہ لڑکی وہ تو نہ تھی۔وہ لڑکی تو ایسا لگ رہا تھا کہ آسمانوں سے کوئ پری اتار لی گئی ہو۔یہ محبت کا روپ تھا جس نے اسکے حسن کو نکھار کر مزید دو آتشنہ بنا دیا تھا۔آن نے بھی لیزا کو دیکھا تو بے ساختہ طور پر ماشاءاللہ کہا۔

                      "بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو۔"

                      آن نے دل سے کہا تو لیزا نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا جو خود بھی مکمل طور پر تیار ہو چکی تھی اور اس گلابی لباس اور وائٹ گولڈ جیولری میں بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔

                      "تم بھی کسی سے کم نہیں لگ رہی۔"

                      لیزا نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو ان کے ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکان آئی۔کچھ دیر کے بعد شاہد اور فرحین بیگم وہاں پر آئے اور شاہد اپنی بیٹیوں کو دیکھ کر مسکرا دیے۔

                      "ماشاءاللہ بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو دونوں اللہ نظر بد سے بچائے۔"

                      شاہد نے لیزا کا ماتھا چوم کر کہا لیکن جب وہ آن کے پاس جانے لگے تو آن نے اپنا چہرہ پلٹ کر انہیں قریب آنے سے روکا۔اسکی یہ حرکت شاہد کے دل کو دکھی کر گئی لیکن اس میں آن کا بھی کیا قصور تھا سب کیا دھرا انکا اپنا تھا۔

                      "چلو ہمیں میرج ہال کے لیے نکلنا ہے۔"

                      شاہد نے انگلش میں کہا تا کہ آن کے ساتھ ساتھ لیزا بھی سمجھ سکے۔

                      "اماں بی کہاں ہیں؟"

                      آن نے فرحین بیگم سے پوچھا جو کافی سنجیدہ نظر آ رہی تھیں۔آن کو لگا کہ وہ سلطان کی وجہ سے پریشان تھیں جو آج کل کافی دکھی رہتا تھا۔

                      "پتہ نہیں کسی کام سے ملازم اشفاق کے ساتھ کہیں گئی ہیں کہہ رہی تھیں سیدھا میرج ہال ہی آئیں گی۔"

                      فرحین بیگم نے عام سے انداز میں کہا لیکن آن پریشانی سے یہ سوچنے لگی تھی کہ اماں بی کو ایسا کیا کام ہو سکتا تھا جو وہ یوں تنہا آج کے دن کہیں چلی گئی تھیں۔

                      شاہد نے لیزا کو پکڑا اور فرحین بیگم آن کو اپنے ساتھ لے کر باہر جانے لگیں۔گاڑی کے پاس سلطان انکا انتظار کر رہا تھا جسکی ذمہ داری عرشمان نے آن اور لیزا کو با حفاظت میرج ہال پہنچانے کی لگائی تھی۔

                      کچھ دیر کے بعد وہ گاؤں سے دور قصبے میں بنے اس بڑے سے میرج ہال میں پہنچ گئے۔لیزا اور آن کو برائیڈل روم میں پہنچا دیا گیا۔کچھ دیر کے بعد ہی ڈھول کی اور آتش بازی کی آواز آنے لگی تو آن نے مسکرا کر لیزا کو دیکھا۔

                      "لو میڈم آ گیا تمہارا دلہا۔"

                      آن کی بات پر لیزا کے گال دہک اٹھے۔کچھ دیر کے بعد اماں بی وہاں پر آئیں جنہوں نے محبت سے آن اور لیزا کا ماتھا چوما اور ان پر پیسے وار کر ساتھ آئی ملازمہ کو پکڑا دیے۔

                      "آپ کہاں گئی تھیں اماں بی؟"

                      آن نے پریشانی سے پوچھا تو اماں بی مسکرا دیں۔

                      "کسی کی خوشیاں واپس لانے ۔"

                      اماں بی کی بات آن کے سر پر سے گزر گئی۔اس سے پہلے کہ وہ ان سے وضاحت مانگتی اماں بی ملازمہ کو انکے پاس چھوڑ کر وہاں سے چلی گئیں۔

                      کچھ دیر کے بعد چند لڑکیاں مسکراتے ہوئے وہاں پر آئیں اور لیزا کو کھڑا کر کے اسکا لہنگا سنبھالتے ہوئے اسے وہاں سے لے جانے لگیں۔باہر آ کر انہوں نے لیزا کو شاہد صاحب کو پکڑا دیا جو مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے کر ہال کی جانب چل دیے۔لیزا کے ہال میں داخل ہوتے ہی ساری لائٹیں بند ہو گئیں صرف ایک لائٹ آن تھی جو لیزا پر پڑ رہی تھی۔

                      لیزا نے سامنے سٹیج پر کھڑے عزم کو دیکھا جو اندھیرے میں بمشکل نظر آ رہا تھا پھر بھی لیزا کو ایسے لگ رہا تھا کہ اسے اسکے سوا کچھ نظر نہ آ رہا ہو۔آہستہ آہستہ چلتی وہ عزم کے پاس جانے لگی ساتھ ہی ہال میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔

                      "بارشوں کا وہ مہینہ
                      بھول پائیں گے کبھی نہ
                      زلف سے جب پانی جھٹکا
                      تو نے جھوم کے
                      ہائے ایسی خوبصورت
                      بھول بیٹھے ہم شرافت
                      لوٹ آئیں پاگل آنکھیں
                      تجھ کو چوم کے
                      عشق تھا یا زہر چڑھ گیا تھا
                      ہوش میں آج تک آ نہ پائے
                      مست نظروں سے اللہ بچائے
                      حسن والوں سے اللہ بچائے
                      عاشقی قاتلوں کی گلی ہے
                      جیتے جی کوئی واپس نہ آئے
                      مست نظروں سے اللہ بچائے
                      حسن والوں سے اللہ بچائے"

                      لیزا کے پاس پہنچتے ہی عزم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے لیزا نے تھام لیا۔تبھی ہال کی لائٹ واپس آن ہو گئی۔لیزا نے مسکرا کر عزم کو دیکھا جو پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا۔

                      سکن کلر کی شیروانی اور میرون سٹائلش پگڑی پہنے وہ خود بھی حد سے زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔عزم کی نظریں اس سے ہوتی ہوئیں اسکے سرخ لبوں سے ٹکراتے نت کے موتی پر جا ٹھہریں تو اسکا دل کیا کہ ساری محفل اسی وقت ختم کر دے اور اسے سب کے سامنے اٹھا کر یہاں سے لے جائے۔

                      "آپکی ہی ہے دلہے میاں فرصت سے دیکھتے رہنا ابھی میرے پوتے کی باری بھی آنے دیں۔"

                      اماں بی نے ہنستے ہوئے کہا تو سلطان اپنی بے اختیاری پر مسکراتا اسے اپنے ساتھ لے کر وسط میں پڑے صوفے پر اماں بی کے پاس بیٹھ گیا جبکہ دو اور صوفے اسکے صوفے کے دونوں طرف ترچھے کر کے رکھے گئے تھے۔

                      عزم یہ تو جانتا تھا کہ ایک صوفہ عرشمان کے لیے تھا لیکن وہ دوسرا؟تبھی ہال کی لائٹیں دوبارہ بند ہو گئیں تو عزم نے گہرا سانس لیا۔

                      سامنے ہی ایک لائٹ میں آن فرحین بیگم کے ساتھ آتی ہوئی دیکھائی دینے لگی جبکہ گرے کلر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس عرشمان ملک سٹیج کے پاس کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے اپنی متاع جان کو دیکھ رہا تھا جو آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔ایک بار پھر سے گانے کی آواز اس ہال میں گونجنے لگی۔

                      "ہم اکیلے تھے مزے میں
                      بن پیے ہی تھے مزے میں
                      ایک دن ہمیں راستے میں
                      مل گئے پھر تم
                      رانجھا مجنو اگلے پچھلے
                      یاد آئے جب ہم پھسلے
                      ہنس کے لے لی جان نکلے
                      ایسے شاطر تم توبہ توبہ وہ تلوار آنکھیں
                      چیر ڈالا جگر ہائے ہائے
                      مست نظروں سے اللہ بچائے
                      حسن والوں سے اللہ بچائے"

                      عرشمان نے آن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما تو آن کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان آئی اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔عرشمان نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اسے اپنے ساتھ سٹیج پر لے آیا۔سب مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے بات کرنے لگے جب اچانک اماں بی نے سلطان کو اپنے پاس بلایا۔

                      "جی؟"

                      سلطان نے سنجیدگی سے سر جھکاتے ہوئے ان سے پوچھا۔

                      "تم بھی یہاں کھڑے ہو جاؤ سلطان اور اپنی دلہن کا استقبال کرو۔"

                      اماں بی کے حکم پر سلطان کے ساتھ ساتھ فرحین بیگم بھی ہکی بکی سی انہیں دیکھنے لگیں۔

                      "اماں بی یہ آپ کیا؟"

                      "جیسا کہا ہے سلطان کرو میں نے پہلے تمہیں یہ بات نہیں بتائی لیکن آج تمہارے بھائیوں کے ساتھ تمہاری بھی شادی ہے۔"

                      اب کی بار عزم اور عرشمان نے بھی حیرت سے اماں بی کو دیکھا جو بہت ہی آرام سے یہ بات کہہ رہی تھیں۔حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ سلطان کے جزبات صرف اپنی کنیز سے جڑے تھے۔

                      "نہیں اماں بی میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔"

                      سلطان نے عقیدت سے اپنا سر جھکاتے ہوئے انکار کیا۔

                      "بھروسہ رکھو سلطان اور جیسا کہا ہے کرو۔"

                      اماں بی نے سلطان کو حکم دیا اور غلام کو اشارہ کیا جس نے سلطان کو پکڑ کے سٹیج کی پہلی سیڑھی پر کھڑا کیا۔سلطان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

                      ایک اماں بی ہی تو تھیں جو اسے سمجھتی تھیں اور وہ بھی اسکے ساتھ ایسا کر رہی تھیں۔سلطان کا دل کیا یہاں سے غائب ہو جائے تا کہ اسکی نوری کے سوا کسی اور لڑکی کا سایہ بھی اس پر نہ پڑ سکے۔

                      لائٹیں ایک بار پھر سے بند ہوئی تھیں اور ہال کے دروازے پر ایک لڑکی کا ہیولا نمودار ہوا۔ایک سفید رنگ کی لائٹ جلی جسکا سارا فوکس وہ لڑکی تھی۔

                      دلہن کے لال جوڑے میں ملبوس ہاتھوں میں چوڑیاں اور چہرے پر گھونگھٹ ڈالے وہ دو لڑکیوں کے ہمراہ آہستہ آہستہ چلتی سلطان کی جانب آ رہی تھی لیکن سلطان تو پتھر کا بنا وہاں کھڑا تھا۔وہ لڑکی اب سلطان کے بالکل پاس پہنچ چکی تھی اور سلطان ابھی بھی اسکے سامنے ایک مورت بنا کھڑا تھا۔

                      "اسکا ہاتھ تھامو سلطان۔"

                      اماں بی کے حکم پر سلطان ہوش میں آیا اور اس لڑکی کو دیکھا جسے اسکی دلہن کہا جا رہا تھا۔سلطان نہیں جانتا تھا کہ وہ لڑکی کون تھی شائید انابیہ لیکن وہ جو کوئی بھی سلطان کسی کو بھی نہیں اپنا سکتا تھا اپنی دادی کے کہنے پر بھی نہیں۔

                      "معاف کریے گا اماں بی لیکن سلطان صرف اپنی کنیز کا ہے اور آخری سانس تک اسکا ہی رہے گا اسکے سوا وہ کسی کا نہیں ہو سکتا۔"

                      اتنا کہہ کر سلطان وہاں سے جانے لگا لیکن تبھی ہال کی لائٹیں دوبارہ آن ہو گئیں اور سلطان کی نظر سیدھا ان سانولے ہاتھوں پر گئی۔ایک پل لگا تھا سلطان کو وہ ہاتھ پہچاننے میں اس نے پہلی مرتبہ ان ہاتھوں کو ہی تو دیکھا تھا۔

                      سلطان ملک سانس تک لینا بھول گیا تھا اسے لگا وہ لڑکی کوئی خواب ہو یا سراب ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اسکی نوری ہو۔کانپتے ہاتھوں سے سلطان نے اسکا گھونگھٹ اٹھایا تو اسکا دل کیا اس لڑکی کے پیروں میں گر جائے۔

                      وہ لڑکی کوئی خواب نہیں تھی وہ سچ میں اسکی نوری تھی جو دلہن بنی نظریں جھکائے اسکے سامنے کھڑی تھی۔ایک بار پھر سے گانے کی آواز اس ہال میں گونجی۔

                      "ہم تمہارے تمہارے تمہارے ہوئے
                      ہاتھ تھے پہلے اب تو ستارے ہوئے
                      ہم تمہارے تمہارے تمہارے ہوئے
                      اسکی رحمت کے ایسے اشارے ہوئے
                      اسکی رحمت کے ایسے اشارے ہوئے
                      تم ہمارے ہمارے ہمارے ہوئے
                      ہاں عشق اپنا ہے معصوم اسکو
                      عشق اپنا ہے معصوم اسکو
                      دشمنوں کی نظر لگ نہ جائے
                      بری نظروں سے اللہ بچائے
                      عشق والوں کو اللہ بچائے"

                      سلطان کتنی ہی دیر وہاں کھڑا بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا اسے ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اسکی نوری اسکے سامنے کھڑی تھی۔سلطان نے مڑ کر بے یقینی سے اماں بی کو دیکھا جنہوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔

                      کسی کی پرواہ کیے بغیر سلطان کنیز کی جانب مڑا اور اسے اپنی باہوں میں بھینچ لیا۔کتنے ہی آنسو سلطان کی آنکھوں سے ٹوٹ کر اسکے دوپٹے میں جذب ہو گئے تھے۔اسکے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے ایک موقع پھر سے دیا گیا تھا اسکی نوری اسکے سامنے تھی۔کاش وہ یہ جانتا کہ اسکی باہوں میں کھڑی لڑکی ایک زندہ لاش کے سوا کچھ نہ تھی اپنی نوری کو تو وہ بہت پہلے ہی مار چکا تھا۔
                      ????





                      #زندگی_اے_تیرے_نال

                      #قسط_نمبر_37(پارٹ1)



                      شادی کا فنکشن کافی دھون دھام سے ختم ہوا تھا۔لیزا کو عزم کے ساتھ خوشی خوشی وداع کر دیا گیا تھا اور اب باقی سب نے بھی حویلی کی راہ واپس لے لی تھی۔کنیز کو وہاں دیکھ کر فرحین بیگم کے رویے نے اماں بی کو بہت مایوس کیا۔جہاں انہیں اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ہونا چاہیے تھا فرحین بیگم اپنی بہن نرمین اور اسکے گھر والوں کے ساتھ فنکشن چھوڑ کر گھر واپس آ گئی تھیں۔

                      اب آسمان پر شام کے سائے لہرانے لگے تھے۔وہ سب حویلی واپس پہنچے تو انہیں فرحین بیگم ،انابیہ اور نرمین لاونج میں انکا انتظار کرتے ہوئے نظر آئے۔

                      "مجھے آپ سے بات کرنی ہے اماں بی۔"

                      نرمین نے کافی غصے سے کہا تو اماں بی نے گہرا سانس لے کر عرشمان کی جانب دیکھا۔

                      "تم آن کو لے کر کمرے میں جاؤ عرشمان کافی تھک گئی ہو گی وہ۔"

                      "لیکن اماں بی۔۔"

                      "جیسا کہا ہے بیٹا ویسا کرو۔"

                      عرشمان وہاں رکنا چاہتا تھا تا کہ اسکی خالہ اگر کوئی غلط بات کریں تو عرشمان انہیں سمجھا سکے لیکن پھر انکا حکم مانتا آن کو لے کر وہاں سے چلا گیا جو خود بھی کافی پریشان نظر آ رہی تھی۔انکے جانے کے بعد اماں بی نے ایک ملازمہ کو کنیز کو سلطان کے کمرے میں چھوڑ کر آنے کا کہا اور خود سلطان کے ساتھ نرمین کے سامنے موجود صوفے پر بیٹھ گئیں۔

                      "اب کہو بیٹا کیا کہنا چاہتی ہو۔"

                      "میں کیا کہوں گی اماں بی آپ نے مجھے کچھ کہنے کے قابل چھوڑا ہے کیا؟بچپن سے آپ لوگوں نے میری بچی کو سلطان کے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنے پاس رکھا پھر اسکی شادی کی تیاریاں بھی کیں اور اس بیچاری کی شادی کے دن ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سلطان صاحب تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہیں۔ہم پھر بھی برداشت کر گئے لیکن اب یہ سب۔"

                      نرمین کا لہجہ کافی سخت تھا جسے اماں بی اور سلطان نے سر جھکا کر برادشت کیا۔

                      "میری بچی کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے آپ لوگوں نے اسے سماج میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑا کسی کے قابل نہیں چھوڑا آپ نے۔"

                      اتنا کہہ کر نرمین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

                      "تم چاہتی کیا ہو نرمین ؟"

                      اماں بی نے انتہائی نرمی سے پوچھا تو نرمین نے سر اٹھا کر اپنے آنسو پونچھے۔

                      "سلطان اس لڑکی کو طلاق دے کر انابیہ سے شادی کرے۔"

                      اپنی خالہ کی بات پر سلطان نے کچھ کہنا چاہا لیکن اماں بی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے بولنے سے روکا۔

                      "وہ بچی صرف سلطان کی بیوی اور اس گھر کی بہو ہی نہیں وہ سلطان کے بچے کی ماں بننے والی ہے اس گھر کو وارث دینے والی ہے اور اس حال میں اسے طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔اگر بات کریں بچے کے پیدا ہونے کے بعد کی تو ماں کو اولاد سے اور اولاد کو ماں سے دور کرنا ملکوں کے اصول میں شامل نہیں اس لیے سلطان کنیز کو کبھی بھی طلاق نہیں دے گا۔"

                      اماں بی کے جواب پر سلطان نے سکون کا سانس لیا۔

                      "ٹھیک ہے پھر مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے سلطان انابیہ سے بھی شادی کرے اور میری بیٹی کو اپنے پاس شہر میں علیحدہ گھر میں رکھے۔"

                      نرمین نے فوراً کہا تو اماں بی سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔

                      "دیکھو نرمین میں جانتی ہوں انابیہ کو بچپن سے سلطان کے نام سے جوڑا گیا لیکن ایسا کرنے والا سلطان نہیں تھا فرحین تھی۔تب وہ دونوں بچے تھے اور بڑے ہونے پر کسی کی پسندیدگی بدل سکتی ہے۔۔۔۔سلطان اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے وہ اسکے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔"

                      اماں بی جے سمجھانے پر نرمین نے کچھ کہنا چاہا لیکن اماں بی نے انہیں خاموشی سے سننے کا اشارہ کیا۔

                      "ہم اسکے ساتھ زبردستی کریں تو شائید وہ مان بھی جائے لیکن اسکا نتیجہ کیا نکلے گا؟صرف انابیہ کی زندگی برباد ہو گی۔پہلے بھی نے ایک بچے کے ساتھ زبردستی کر کے دیکھی تھی نرمین اور یقین کرو اپنے ساتھ ساتھ اس نے اسے بھی برباد کر دیا۔"

                      اماں بی نے گہرا سانس لیا۔

                      "میں نہیں چاہتی کہ انابیہ کے ساتھ وہ ہو جو شمع کے ساتھ ہوا اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم بچوں کو انکی مرضی سے زندگی گزارنے دیں۔"

                      اماں بی نے انتہائی نرمی سے سمجھایا لیکن نرمین کو روتا دیکھ پریشان ہو گئیں۔

                      "ایسے بھی تو وہ برباد کی ہے اماں بی کون کرے گا اس لڑکی سے شادی جس نے ساری زندگی کسی کی منگ کے طور پر گزاری ہو،جس کی شادی کے دن بھی اسکی شادی نہ ہوئی ہو۔"

                      اس بات پر سلطان کا سر شرمندگی سے جھک گیا اسے لگنے لگا کہ وہ انابیہ کا گناہگار تھا۔

                      "تم فکر مت کرو نرمین ہم نے انابیہ کو بیٹی بنایا تھا اور اسکی شادی ہم ہی کریں گے۔"

                      اس بات پر نرمین کے ساتھ ساتھ فرحین بیگم نے بھی حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔

                      "عرشمان کا ایک دوست ہے اسکا بیت اچھا کاروبار ہے شہر میں اپنا گھر سب کچھ ہے بس ماں باپ بچپن میں ہی ساتھ چھوڑ گئے اور بہن بھائی بھی نہیں ہیں۔ماشااللہ بہت اچھا اور شریف بچہ ہے وہ۔عرشمان نے اس سے انابیہ کے بارے میں بات کی تھی اسے کوئی اعتراض نہیں۔اسے بس ایک سلجھی ہوئی لڑکی چاہیے جو اسکی تنہائی کی ساتھی بن سکے۔"

                      اماں بی نے مسکرا کر انابیہ کو دیکھا جو سر جھکائے وہاں بیٹھی تھی۔

                      "تم سب اس سے مل لو پھر ہم خود اپنی بچی کی شادی دھوم دھام سے کریں گے۔"

                      اماں بی کی بات پر نرمین گہری سوچ میں ڈوب گئیں لیکن فرحین بیگم کو یہ فیصلہ شائید منظور نہیں تھا اس لیے غصے سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

                      "انابیہ کو اپنے گھر کی بہو بنانے کا سوچا تھا میں نے اماں بی کسی اور کی نہیں۔۔۔۔یہ میری خواہش ہے جسے سلطان کو پورا کرنا ہو گا۔"

                      فرحین کے غصے پر اماں بی نے سرد آہ بھری۔

                      "ماں کے لیے سب سے اہم اپنے بیٹے کی خوشی ہونی چاہیے فرحین۔اس لڑکی کے بغیر سلطان کی حالت تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ناں پھر تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو؟"

                      "میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔سلطان تم ابھی اور اسی وقت انابیہ سے نکاح کرو گے ورنہ میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔"

                      اپنی ماں کی بات پر سلطان حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔

                      "امی۔۔۔"

                      "ہاں یا نہ سلطان مجھے بس تم جواب دو۔"

                      فرحین بیگم نے سلطان کو مشکل میں ڈالا اور ماں بی کو ان پر افسوس ہوا جسے اپنے بیٹے کے حال پر رہم نہیں آتا تھا۔

                      "نہیں فرحین۔۔۔ میں اپنی بیٹی کی شادی ایک شادی شدہ مرد سے نہیں کرنا چاہتی جو اس سے محبت نہ کرے۔"

                      نرمین کی بات پر فرحین بیگم نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا۔

                      "یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟"

                      "وہی جو ٹھیک ہے۔"

                      نرمین نے عام سے انداز میں کہا اور اماں بی کی جانب مڑی۔

                      "آپ مجھے لڑکے سے ملائیں اماں بی میں دیکھنا چاہوں گی کہ وہ میری بیٹی کے قابل ہے یا نہیں۔"

                      نرمین کے بات کی نزاکت کو سمجھ جانے پر اماں بی نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔وہ چاہے فرحین سے عمر میں چھوٹی تھی لیکن اس سے عقلمند تھی۔

                      "ٹھیک ہے آپ سب رہیں اپنی خوشیوں میں خوش میرا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں۔"

                      اتنا کہہ کر فرحین بیگم غصے کے عالم میں وہاں سے چلی گئیں تو نرمین نے افسوس سے سر جھٹکا اور اماں بی سے انکے اور اپنے رویے کی معافی مانگتی وہ بھی انابیہ کو لے کر وہاں سے چلی گئیں۔

                      "امی مجھ سے ناراض ہو گئی ہیں۔"

                      سلطان نے افسوس سے کہا تو اماں بی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

                      "پریشان مت ہو بیٹا اسے بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ماں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی ہر ضد منوا سکے بلکہ ماں کے لیے سب سے اہم اس کی اولاد کی خوشیاں ہونی چاہیے۔مجھے امید ہے وقت رہتے وہ یہ بات سمجھ جائے گی۔"

                      اماں بھی نے سلطان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے نرمی سے سمجھایا۔

                      "فی الحال تم اس سب کی فکر چھوڑو اپنی بیوی کے پاس جاؤ ۔"

                      ان کی اس بات پر سلطان ان کے پاس سے اٹھا اور ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا۔

                      "آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا اماں بی۔"

                      اماں بی اس کی بات پر مسکرا دیں۔

                      "لیکن وہ آپ کو ملی کہاں اتنا عرصہ میں اس کو ڈھونڈتا رہا لیکن وہ مجھے نہیں ملی۔"

                      "وہ کھوئی ہی کب تھی بیٹا "

                      سلطان نے حیرت سے سر اٹھا کر اپنی دادی کو دیکھا۔

                      "تمہیں کیا لگا سلطان تم اتنی بڑی بات سب سے چھپا لو گے اور وہ ہمیشہ کے لئے چھپی رہے گی؟میں اسی دن سمجھ گئی تھی کہ وہ لڑکی تمہاری نظر میں ملازمہ سے زیادہ بہت خاص ہے جس دن دن اس کے سر پر چوٹ لگی تھی اور میں نے تمہاری آنکھوں میں اس کے لیے تڑپ دیکھی تھی۔"

                      سلطان ہیر سے اپنی دادی کو دیکھتا جا رہا تھا۔

                      "پھر جس دن میں نے کنیز کو یہ بتایا کہ میڈ کا مطلب بیوی نہیں ملازمہ ہوتا ہے تو اسکے آنسو مجھے بہت کچھ سمجھا گئے سلطان ۔"

                      اس بات پر سلطان کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔

                      "میں جانتی تھی کہ اشفاق تمہارا سب سے خاص ملازم ہے اسی لیے میں نے اسے اپنے پاس بلا کر اس سے سچ معلوم کرنا چاہا۔پہلے پہل تو اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا لیکن پھر اس نے مجھے ہر بات بتا دی کہ کیسے تم نے اسے ایک گھٹیا آدمی سے بچانے کے لیے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔"

                      اماں بی سلطان کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے نرمی سے کہہ رہی تھیں۔

                      "مجھے تمہارا فیصلہ پسند آیا سلطان لیکن پھر تمھاری بزدلی پر افسوس بھی ہوا۔میں چاہتی تھی تم اپنے اندر اسے اپنی بیوی بتانے کی ہمت پیدا کرو۔اسی لیے میں نے اسے تمہارے ساتھ لاہور بھیجا کی شاید تمہیں اپنے شوہر ہونے کے فرائض کا احساس ہو۔"

                      سلطان ایک بار پھر پچھتاوے کے گھڑے میں گرا تھا۔

                      "لیکن افسوس سلطان تم تب تک خاموش رہے جب تک پانی سر سے نہیں گزر گیا۔تم سوچ نہیں سکتے مجھے کی قدر افسوس ہوا جب اس ڈاکٹر نے یہ بتایا کہ کنیز تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے۔"

                      سلطان آنکھیں موند گیا جبکہ دو آنسو اسکی پلکوں پر ٹھہرے تھے۔

                      "مجھے اپنے پوتے پر بہت افسوس ہوا سلطان جس نے اپنا حق تو اس سے وصول کیا لیکن اسے اپنی بیوی کہلائے جانے کا حق تک نہیں دیا۔"

                      سلطان کی پلکوں پر ٹھہرے آنسو اماں بی کی گود میں گرنے لگے۔

                      "میں چاہتی تو سب کو بتا دیتی کہ وہ تمہاری بیوی ہے لیکن میں چاہتی تھی کہ یہ بات تم سب کو بتاؤ اس لئے میں نے اسے گھر سے نکال دیا لیکن اشفاق کو اسے باحفاظت عزم کے پاس چھوڑنے کا حکم دے دیا۔"

                      سلطان نے حیرت سے سر اٹھا کر اماں بی کو دیکھا تو اماں بی مسکرا دیں۔

                      "میں تمہیں جانتی تھی سلطان یہ جانتی تھی کہ تم ساری دنیا میں اسے ڈھونڈو گے لیکن عزم کے پاس نہیں۔"

                      سلطان پھر سے اپنا سر جھکا گیا۔

                      "وہ تمہاری امانت کے طور پر باحفاظت عزم کے پاس تھی بیٹا بس میں چاہتی تھی کہ تمہیں احساس ہو کہ تم نے ایک لڑکی کو کیسے برباد کیا اور اب جب تمہیں یہ احساس ہو گیا ہے تو میں اسے تمہارے پاس واپس لے آئی۔"

                      اماں بی نے محبت سے سلطان کو دیکھتے ہوئے کہا جو سر جھکائے انکے قدموں میں بیٹھا تھا۔

                      "میں نے اسے دنیا سے تو بچا لیا سلطان لیکن بکھرنے سے نہیں بچا پائی"

                      سلطان نے حیرت سے اماں بی کو دیکھا۔

                      "وہ اب وہ لڑکی نہیں ہی جو پہلے ہوتی تھی جو اسکے ساتھ ہوا سلطان اس سب سے وہ مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے اور مجھے امید ہے تم اس کو دیے ہر زخم کا مرہم ضرور بنو گے "

                      اماں بی نے سلطان کے ہاتھ تھام کر کہا تو سلطان نے اپنے آنسو پونچھ کر ہاں میں سر ہلایا۔

                      "میں وعدہ کرتا ہوں اماں بی اپنی محبت سے اسکا ہر زخم بھر دوں گا ساری زندگی اس سے کی زیادتی کا مداوا کرنے میں گزار دوں گا۔"

                      اماں بی نے مسکرا کر اسکا ماتھا چوما۔

                      "بس پھر پریشان مت ہو اور فلحال اپنا سارا دھیان کنیز پر لگاؤ جسے تمہاری محبت کی بہت ضرورت ہے۔فرحین کو میں سمجھا لوں گی۔"

                      سلطان نے ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ کھڑا ہوا لیکن پھر ایک خیال کے تحت واپس آ کر اماں سے لپٹ گیا۔اماں بی اسکی حرکت پر مسکرا دیں ایسا وہ بچپن میں بھی کیا کرتا تھا لیکن بڑے ہونے کے بعد اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔

                      "آپ اس دنیا کی سب سے اچھی دادی ہیں اماں بی اللہ نے آپ کو ہماری زندگی میں فرشتہ بنا کر بھیجا ہے۔"

                      اسکی بات پر اماں بی کی پلکوں پر ایک آنسو ٹھہر گیا۔

                      "نہیں بیٹا میں بھی انسان ہوں خطائیں مجھ سے بھی ہوئیں ہیں بس انسان کی طرح ان خطاؤں سے سیکھ کر خود کو سدھارنے کی کوشش کی ہے اور میرے خیال سے کامیاب شخص وہی ہے جو اپنی خطا سے سیکھ کر اسے سدھار لیتا ہے"

                      سلطان نے ان سے دور ہو کر ہاں میں سر ہلایا تو اماں بی نے محبت سے اسکا ماتھا چوما۔

                      "اب جاؤ اپنی بیوی کے پاس سلطان ملک اور اپنی ہر خطا کر سدھار لو"

                      سلطان اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا اور اماں بی اپنے ہر بچے کی خوشیوں کے لیے دعا کرنے لگیں۔
                      ????
                      عرشمان آن کو لے کر کمرے میں آیا۔آن جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کی سجاوٹ دیکھ کر حیران رہ گئی۔پورا کمرہ گلابی نیٹ کے پردوں لائٹوں اور پھولوں کے ساتھ انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔

                      آن نے حیرت سے عرشمان کو دیکھا جو اسکے تاثرات دیکھ کر مسکرا دیا۔

                      "مان یہ سب؟"

                      "آفشلی دیکھا جائے تو ہماری شادی آج ٹھیک سے ہوئی ہے تو میں نے سوچا شادی والے انتظامات بھی کیے جائیں۔"

                      عرشمان نے ایک ایک آنکھ دبا کر کہا تو آن گلابی ہوتا چہرہ جھکا گئی۔عرشمان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں پکڑ کر اونچا کیا اور جان نثار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

                      "تم نہیں جانتی آن کہ تم میرے لیے کیا اہمیت رکھتی ہو جان سے زیادہ عزیز ہو تم مجھے۔"

                      عرشمان نے اسکے سرخ ہوئے گال پر اپنے ہونٹ رکھ کر کہا تو آن خود میں ہی سمٹ گئی۔

                      "اور آپ بھی میرا سب کچھ ہیں مان آپکے بغیر آن کا کوئی وجود نہیں۔۔"

                      آن نے محبت سے اسکے ہاتھ تھام کر کہا تو عرشمان مسکرا دیا اور اپنی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی جس میں ہیرے کی نازک سی انگوٹھی تھی۔عرشمان نے آن کا ہاتھ تھام کر وہ انگوٹھی اسکی انگلی میں پہنا دی۔

                      "بچپن سے میں نے بس ایک خواب اپنی آنکھوں میں سنجویا تھا تمہیں اپنا بنانے کا تمہارے ساتھ اپنی ساری زندگی گزارنے کا۔"

                      عرشمان نے محبت سے اسکا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔

                      "بہت مشکلوں کے بعد حاصل ہوا ہے میرا یہ خواب مجھے آن میں اب اپنی آخری سانس تک اس خواب کے ساتھ گزار دینا چاہتا ہوں۔"

                      عرشمان کی محبت پر آن اپنا سر اسکے سینے پر رکھتی آنکھیں موند گئی۔

                      "ان شاءاللہ ایسا ہی ہو گا مان ایسا ہی ہو گا "

                      عرشمان نے مسکرا کر اسکے گرد اپنا حصار تنگ کیا۔وہ دونوں کتنی ہی دیر ایک دوسرے کی باہوں میں کھڑے رہے تھے پھر اچانک عرشمان نے اسکا سر اونچا کیا اور اسکے چہرے کے ہر نقش کو اپنے ہونٹوں سے چومنے لگا۔

                      آن نے گھبرا کر اسکا کالر اپنی مٹھی میں دبوچ لیا۔ابھی تو وہ اسکی کل رات والی شدتوں سے نہیں سنبھلی تھی۔

                      "مان۔۔۔۔"

                      عرشمان کو اپنے ہونٹوں کے قریب ہوتا دیکھ آن نے گھبرا کر اسے پکارا۔اسکی گھبراہٹ پر عرشمان نے مسکراتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔

                      "میری اس زندگی میں آ کر اسے حسین بنانے کا بہت شکریہ میری جان۔میرے ہر غم کا،ہر تکلیف کا ساتھی بننے کا شکریہ۔"

                      عرشمان نے نرمی سے اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے کہا تو آن خود میں ہی سمٹ گئی۔عرشمان کے الفاظ ہی نہیں ،اسکی آنکھیں ،اسکا ہر ایک عمل آن کے لیے بے پناہ محبت کا گواہ تھا اور اسکی اس محبت پر آن کو اپنا آپ بہت قیمتی لگنے لگا۔
                      ????



                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X