#زندگی_اے_تیرے_نال
#قسط_نمبر_23
عرشمان اور آن سر سبز پہاڑوں کی سیر کے لیے گئے تھے جب انکی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی۔اب عرشمان گاڑی کا بونٹ کھول کر مسلہ دریافت کرنے کی کوشش میں تھا اور آن اسکے پاس کھڑی ارد گرد سر سبز پہاڑوں اور پاس سے گزرتی جھیل کو دیکھ رہی تھی۔
"پتہ نہیں کیا مسلہ ہو گیا ہے اسے۔۔۔۔"
عرشمان نے پریشانی سے یہاں وہاں دیکھا دور دور تک کسی آبادی یا انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
"اف کیا ہو گیا ہے مان خراب ہونے والی چیز تھی ہو گئی آپ اسے چھوڑیں اور یہاں دھیان دیں دیکھیں کتنا پیارا منظر ہے اور یہ بادل اففف۔۔۔۔"
آن نے خالی سڑکے کے درمیان میں آ کر گھومتے ہوئے کہا۔جہاں وہ بادل آن کو خوبصورت لگ رہے تھے وہیں وہ عرشمان کی پریشانی بڑھا رہے تھے۔
"اگر بارش آ گئی تو ساری خوبصورتی نکل جائے گی۔۔۔۔"
عرشمان سنجیدگی سے کہتے ہوئے گاڑی کو دیکھنے لگا۔
"ہائے سچی آپکو پتہ ہے میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ آپکا اور میرا پہاڑوں میں گھر ہوتا آپ لکڑیاں کاٹ کر گھر آیا کرتے اور میں آپکا انتظار کیا کرتی کتنی مزے کی زندگی ہوتی ناں۔۔۔۔"
آن نے واپس اس کے پاس آتے ہوئے خوشی سے کہا تو عرشمان سر جھٹک کر اپنا کام کرنے لگا۔
"ویسے مان ہم ڈنر کیسے کرتے یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔۔"
آن نے پریشانی سے کہا۔
"ہاں تو آدھا جنگلی تو بنا ہی دیا ہے پورے جنگلی بن جائیں گے یہاں جانوروں کا شکار کر کے انہیں پکا لیا کریں گے۔۔۔۔"
عرشمان نے الجھن سے کہا تو آن ہنس دی۔
"یہ سہی کہا مان آپ نے تو اسے چھوڑیں ناں رات ہونے والی ہے چل کے شکار کرتے ہیں۔۔۔۔"
آن نے شرارت سے کہا تو عرشمان اسے گھورتا پھر سے گاڑی کا معائنہ کرنے لگا۔تبھی اسکے کانوں میں بکریوں کی آواز پڑی تو شکر کا سانس لیتے عرشمان نے گاڑی کو چھوڑا اور یہاں وہاں دیکھنے لگا۔
دور ہی ایک آدمی اپنی بھیڑوں کو لے کر وہاں آ رہا تھا۔اسکے تھوڑا قریب آتے ہی عرشمان اسکے پاس گیا جبکہ آن گاڑی کے پاس ہی کھڑی رہی۔
"سنیے کیا یہاں قریب کوئی میکینک مل سکتا ہے۔۔۔۔؟"
عرشمان کے سوال پر آدمی نے اپنی بھیڑوں سے دھیان ہٹا کر عرشمان کو دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"عرشمان صاحب آپ یہاں۔۔۔۔؟"
اس آدمی کی بات عرشمان کو حیرت میں ڈال گئی۔
"معاف کریے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے عاجزی سے کہا۔
"آپ مجھے بھول گئے ہوں گے صاحب لیکن میں نہیں بھول سکتا چار سال پہلے آپ اپنے بھائی کے ساتھ یہاں آئے تھے ۔آپکو یاد ہے میرا بیٹا میرے ساتھ آیا تھا اور چوٹی سے گر کر اسے چوٹ لگ گئی تھی پھر آپ اسے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے تھے اور اسکے علاج کے پیسے بھی دیے۔۔۔۔آپکا احسان میں کبھی بھلا سکتا ہوں بھلا؟"
آدمی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جاتا۔
"اب آپ کا بیٹا کیسا ہے۔۔۔۔؟"
"وہ تو اچھا بھلا ہے صاحب لیکن آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں کچھ دیر رات ہو جائے گی اور یہاں جنگلی جانور بستے ہیں۔"
آدمی نے پریشانی سے کہا تو عرشمان ساتھ کھڑی آن پر نظر ڈالتا مزید پریشان ہو گیا۔
"کیا یہاں کوئی میکینک ملے گا۔۔۔۔؟"
عرشمان کی پریشانی دیکھ کر وہ آدمی بھی پریشان ہو گیا۔
"میکینک تو کیا صاحب یہاں تو دور دور تک کسی کا گھر بھی نہیں ہے میرا اپنا گھر کافی فاصلے پر ہے میں تو یہاں اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لیے لایا تھا۔"
عرشمان نے پھر سے پلٹ کر آن کو دیکھا جو ان نظاروں میں کھوئی اپنی چادر کے کونے کو انگلیوں میں گھما رہی تھی۔
"میرا وہ بیٹا جسے آپ نے بچایا تھا صاحب وہ میکینک ہے لیکن ابھی گھر پر ہے۔۔۔۔"
عرشمان نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو پریشانی مزید بڑھ گئی کیونکہ اس ایریا میں سروس بھی نہیں تھی۔اس سے پہلے کہ وہ اس آدمی کو کچھ کہتا ایک گاڑی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔دور سے آتی بس کو دیکھ کر وہ آدمی مسکرا دیا۔
"آپ اس بس میں چلے جانا صاحب۔آپ مجھے اپنا پتہ بتا دیں میں صبح اپنے بیٹے کو یہاں لا کر آپکی گاڑی ٹھیک کروا دوں گا اور وہ آپکے پاس گاڑی چھوڑ بھی جائے گا۔۔۔۔"
عرشمان نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی کی چابی اسے دی۔ویسے بھی اسے گاڑی کی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس میں ٹریکر لگا تھا۔عرشمان اب وہاں کھڑا بس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔
بس کے قریب آنے پر عرشمان نے بس کو ہاتھ دیا تو بس رک گئی اور پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک آدمی باہر آیا۔
"جی سر؟"
آدمی کے پڑھے لکھے لہجے نے عرشمان کو حیران کیا تھا۔
"ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا آپ پلیز ہمیں شہر تک چھوڑ سکتے ہیں تا کہ ہم اپنے ہوٹل چلے جائیں۔۔۔۔"
اس بات پر اس آدمی نے پریشانی سے بس کے اندر دیکھا ۔
"لیکن سر یہ پرائیویٹ بس ہے ہم بچیوں کا ٹور لے کر جا رہے ہیں سوری لیکن ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔۔۔۔"
آدمی نے اپنا مسلہ بیان کیا۔
"دیکھیں صاحب یہ دونوں اس وقت کہاں جائیں گے میاں بیوی ہیں بہت شریف لوگ ہیں آپ ان کی مدد کر دیں۔۔۔۔"
عرشمان کے ساتھ کھڑے چہراوے نے کہا تو آدمی نے پھر سے بس کے اندر دیکھا۔
"ٹھیک ہے آپ آ جائیں ۔۔۔۔"
اس آدمی کی بات پر عرشمان نے شکر ادا کیا اور گاڑی کے پاس کھڑی آن کے پاس آیا۔
"چلو ہمیں اس بس میں جانا ہے۔۔۔۔"
عرشمان کی بات پر آن کا منہ بن گیا۔
"یعنی ہم آج رات یہاں نہیں گزاریں گے؟"
عرشمان نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس بس میں لے آیا لیکن بس کا منظر دیکھ کر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے کیونکہ بس میں صرف لڑکیاں موجود تھیں اور سب ہی انہیں ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ مارس سے آئے ایلین ہوں۔
"سٹوڈینٹس ان دونوں کی گاڑی خراب ہو گئی ہے تو شہر تک یہ دونوں ہمارے ساتھ سفر کریں گے آئی ہوپ آپ سب کو کوئی اشو نہیں ہو گا۔۔۔۔"
پروفیسر کی بات پر لڑکیوں نے شریر نگاہوں سے ایک دوسری کو دیکھا۔
"نو سر ایبسلوٹلی ناٹ۔۔۔۔"
انکی بات پر پروفیسر مسکرا دیا۔
"تو پھر انہیں بیٹھنے کے لیے سیٹ دیں۔۔۔"
پروفیسر کے حکم پر بس کے درمیان کی سیٹ پر بیٹھی دو لڑکیاں فوراً اٹھ گئیں۔
"یہاں آ جائیں آپ ہم دونوں پیچھے چلی جاتی ہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے آن کا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ سیٹ تک لا کر خود کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھ گیا اور آن کو اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔انکے بیٹھتے ہی پروفیسر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔
"سر بور ہو رہے ہیں میوزک لگا دیں پلیز ۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے فرمائش کی اور پھر بس میں گانا چلنے لگا۔
" خیریت پوچھو
کبھی تو کیفیت پوچھو
تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے
دل میرا دیکھو
نہ میری حیثیت پوچھو
تیرے بن ایک دن جیسے
سو سال لگ
انجام ہے طے میرا
ہونا مجھے ہے تیرا
جتنی بھی ہوں دوریاں
فلحال ہیں یہ دوریاں
فلحال ہیں
او خیریت پوچھو
کبھی تو کیفیت پوچھو
تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے"
گانا بجتے ہی سب لڑکیاں بھی تالیاں بجاتے ہوئے خود بھی گانے لگیں اور عرشمان گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔وہ بس جلد از جلد واپس پہنچنا چاہتا تھا جبکہ ان لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں کو مسکرا کر دیکھتی آن اس سفر کے کبھی ختم نہ ہونے کی دعائیں کر رہی تھی۔
????
"آپ دونوں ہزبینڈ وائف ہیں کیا ؟"
آن کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے اسکی جانب اپنا رخ کرتے ہوئے پوچھا تو آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"واؤ اتنا پیارا کپل ہے ناں آپکا کہ کیا کہوں یو آر بوتھ جسٹ میڈ فار ایچ ادر۔۔۔۔"
آن کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی اسکی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگی۔
"تھینک یو ۔۔۔۔"
آن نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ تعریف پر اسکے گال گلابی ہوئے تھے۔
"آپی آپکی ارینج میرج ہوئی یا لو میرج۔۔۔۔؟"
اس سوال پر آن نے عرشمان کی طرف دیکھا جو مسلسل گاڑی سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔
"یہ سوال زرا مشکل ہے۔۔۔۔"
آن کے جواب پر لڑکیاں حیران ہوئیں۔
"میری انگیجمیٹ انکے بابا یعنی میرے تایا ابو نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان سے کر دی تھی کہ اگر لڑکی ہوئی تو اسکی شادی ان سے ہو گی۔اس لیے یہ ارینج میرج ہوئی لیکن جب سے لفظوں کو سمجھنا شروع کیا تو یہی جانا کہ میں ان کی ہوں،جب سے محبت کے جذبے کو سمجھنا شروع کیا تو انکے سوا کسی کا خیال ہی نہیں آیا تو سمجھ لیں کہ یہ لو میرج ہے۔۔۔۔ "
آن نے مسکرا کر عرشمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا لیکن چہرے کی سختی بیان کر رہی تھی کہ وہ بمشکل ہی ضبط کیے وہاں بیٹھا تھا۔
"واؤ۔۔۔۔یار کاش میرے بابا بھی میرے پیدا ہونے سے پہلے میری انگیجمنٹ میرے کزن سالار بھائی سے کر دیتے اب انکی شادی کہیں اور ہو گئی ہے اور انکے دو بچے بھی ہیں اور میں یہاں کتابوں میں سر کھپا رہی ہوں۔۔۔۔"
ایک لڑکی کی بات پر سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں اور انکے ساتھ ساتھ آن بھی کھل کر ہنس دی۔آج کتنے دونوں کے بعد وہ اس پل کو کھل کر جی رہی تھی۔کتنے عرصے کے بعد اسکی آنکھوں میں آنسؤں کی بجائے چہرے پر ایک خالص مسکان تھی۔
"ویسے آپ کے ہزینڈ کرتے کیا ہیں؟"
ایک لڑکی نے آن سے سوال کیا۔
"ویسے تو انکا اپنا بزنس ہے لیکن ہم پنجاب کے ایک گاؤں سے ہیں اور ہماری بہت سی زمین ہیں تو گاؤں کے معاملات دیکھتے ہیں یہ۔۔۔۔۔"
"یعنی کہ آپ کے ہزبینڈ وڈیرے ہیں۔۔۔۔؟"
ایک لڑکی نے جلدی سے پوچھا تو آن ہنس دی۔
"جی وڈیرے ہیں ملک خاندان سے ہیں ہم۔۔۔۔"
آن کی بات پر وہ لڑکیاں ایک آہ بھر کر رہ گئیں۔
"آپی مائنڈ مت کرنا لیکن آپ کا ہزبنیڈ ایسا لگتا ہے کسی ناول کے ہیرو ہو ہائے سچی یہ روڈ سا ہینڈسم مکھڑا اور اوپر سے ہٹا کٹا پنجابی منڈا اور سب سے اہم وڈیرا ہائے آپی جیلسی ہو رہی آپ سے۔۔۔۔"
لڑکی کی بات پر آن عرشمان کو دیکھتے ہوئے ہنس دی۔
"آپی آپ کیا کرتی ہیں۔۔۔؟"
اب سوال ایک عینک والی کیوٹ سی لڑکی کی جانب سے آیا جو تب سے خاموش بیٹھی تھی۔
"میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔۔"
آن نے مسکراتے ہوئے عام سے انداز میں بتایا۔
"اف اُمی کہا تھا ناں پری میڈیکل پڑھتے ہیں اور ڈاکٹر بنتے ہیں دیکھ اتنا کمال کر وڈیرا شوہر ملتا ہے ڈاکٹر بن کے تجھے ہی شوق تھا پری انجینئرنگ پڑھنے کا۔"
عینک والی لڑکی کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے منہ بنا کر کہا۔
"مجھے وڈیرا نہیں چاہیے مجھے تو بس کمپیوٹر پڑھانے والا وہ سڑو سا سر دانش چاہیے ۔۔۔"
عینک والی لڑکی نے گلابی گالوں کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے پروفیسر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اووووووو۔۔۔۔۔"
سب لڑکیاں ہوٹنگ کر کے ہنسنے لگیں تو سر نے ایک بار مڑ کر سب کو دیکھا لیکن جب نظر اس عینک والی لڑکی پر پڑی تو آنکھوں میں نرمی آئی اور وہ پھر سے اپنا دھیان سامنے کر گیا۔
"آپی اتنا مزہ آیا ناں آپ کے ساتھ کہ کیا بتائیں آپکو بھی ہمارے ساتھ مزہ آیا ناں۔۔۔۔۔"
ایک لڑکی کے پوچھنے پر آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"بہت زیادہ۔۔۔۔"
"لیکن لگتا ہے آپ کے ہزبینڈ کو مزہ نہیں آیا تب سے ایسے کھڑکی سے باہر دیکھ رہے ہیں جیسے سڑک پر کیٹرینا کیف کملی کملی پر ڈانس کرتی نظر آ رہی ہو۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے شرارت سے کہا تو سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں۔
"کملی کملی سے یار آیا کہ اندھیرا ہو گیا ہے تو مزہ کریں۔۔۔۔؟"
آن کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے آنکھ دبا کر کہا تو سب مسکرا دیں۔
"سر کملی کملی سانگ لگا دیں۔۔۔۔"
لڑکیوں کی فرمائش پر سر نے گہرا سانس لے کر گانا لگا دیا اور ایک لڑکی اٹھ کر آن کے پاس کھڑی ہو گئی اور دوسری لڑکی کو اشارہ کیا۔بس پھر اس لڑکی نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی ایسا ڈانس کیا کہ آن حیران رہ گئی۔
"آپی آپ بھی کر کے دیکھائیں ناں ڈانس۔۔۔۔"
گانا ختم ہونے پر ادائیں دیکھانے والی اس لڑکی نے کہا۔
"مم ۔۔۔۔مجھے نہیں آتا۔۔۔۔"
"تو کیا ہو گیا آپی یہاں کونسا نچ بلیے کا کامپیٹیشن ہو رہا ہے پلیز تھوڑا سا۔۔۔۔"
آن نے پریشانی سے یہاں وہاں سب لڑکیوں کو دیکھا جو بہت امید سے اسے دیکھ رہی تھیں اچانک ہی عرشمان نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور سختی سے گھور کر اسے دیکھا۔
"سوچنا بھی مت۔۔۔۔"
عرشمان کی حرکت پر آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"اوووو۔۔۔۔۔"
سب لڑکیوں نے ایک بار پھر سے ہوٹ کیا۔
"یار یہ وڈیرا تو پوزیسسو بھی ہے ہائے آپی دھیان سے سونا میں رات کو آ کر آپکے وڈیرے کو کڈنیپ نہ کر لوں۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے شرارت سے آنکھ دبا کر کہا تو سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔تبھی اچانک بس رک گئی اور عرشمان نے سکھ کا سانس لیا۔پروفیسر بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کی جانب آیا۔
"سر ہم مال روڈ پہنچ گئے ہیں اب آپ یہاں سے ٹیکسی لے کر اپنے ہوٹل جا سکتے ہیں ہم آپ کو ہوٹل چھوڑ آتے لیکن بچیوں کو کیمپنگ کے لیے لے کر جانا ہے اور ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"
پروفیسر نے وضاحت دی۔
"کوئی بات نہیں آپ کا شکریہ۔"
اتنا کہہ کر عرشمان نے آن کا ہاتھ پکڑا اور کھڑا ہونا چاہا لیکن اچانک ہی ایک لڑکی نے اپنا ہاتھ آن کے دوسرے ہاتھ پر رکھا۔
"پلیز آپی نہ جائیں آپ بھی ہمارے ساتھ کیمپنگ کرنے چلیں ساری رات کھل کر انجوائے کریں گے۔۔۔۔"
لڑکی کی بات پر باقی سب نے بھی ہاں میں سر ہلایا تبھی دو اور لڑکیوں نے آن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
"ہم نے اتنا انجوائے کیا آپ کے ساتھ ابھی نہ جائیں ناں پلیز کل ہم نے بھی واپس آنا ہے سٹی ہم آپکو چھوڑ دیں گے آپکے ہوٹل پلیز۔۔۔۔"
اب کی بار دوسری لڑکی نے کہا۔
"آن چلو۔۔۔۔"
عرشمان نے دانت کچکچا کر کہا تو آن نے بے بسی سے عرشمان کی جانب دیکھا۔
"بچے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم کسی کو بھی یوں ساتھ نہیں لے جا سکتے کالج یہ الاؤ نہیں کرتا۔پہلے ہی ہم انہیں لفٹ دے کر رول توڑ چکے ہیں اگر پرنسپل سر کو پتہ چلا تو؟"
پروفیسر نے پریشانی سے کہا تو لڑکیاں منہ بسور کر انہیں دیکھنے لگیں۔
"سر کون بتائے گا پرنسپل سر کو ہم میں سے تو کوئی نہیں بتا رہا بتائے گا کیا کوئی؟"
ایک لڑکی کے پوچھنے پر سب نے ایک ساتھ نہیں کہا۔
"پلیز سر کیا ہو گیا ہے یہ دونوں کونسا دہشت گرد ہیں جو آپ ڈر رہیں ہیں چِل کریں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"
اب دوسری لڑکی نے کہا تو پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"اور ہاشم سر کا کیا کریں گے جو کیمنگ پلیس پہ ہمارا ویٹ کر رہے ہیں؟انہیں کیا بتائیں گے کہ کون ہیں یہ لوگ؟"
پروفیسر کے سوال پر سب لڑکیوں نے ایک دوسری کی جانب دیکھا۔
"آپ انکی فکر مت کریں سر ہم انہیں سمجھا لیں گے پلیز سر مان جائیں ناں پلیز۔۔۔۔"
سب لڑکیاں ایک ساتھ پلیز پلیز کہنے لگیں تو پروفیسر نے اضطراب سے سب کو دیکھا۔
"سوری بچے میں پرمیشن نہیں دے سکتا۔۔۔"
پروفیسر کی بات پر سب لڑکیوں نے منہ بسور لیا لیکن پھر وہ عینک والی کیوٹ سی لڑکی اٹھ کر پروفیسر کے سامنے گئی اور اپنے ہاتھ آپس میں ملنے لگی۔
"پپ۔۔۔۔پلیز سر مان جائیں ناں آپی بہت اچھی ہیں ہمیں انکے ساتھ وقت گزارنا ہے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔"
لڑکی کے سر اٹھا کر پلیز کہنے پر پروفیسر نے بے بسی سے یہاں وہاں دیکھا۔
"ٹھیک ہے اگر یہ دونوں مان جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"
"یےےےےےے"
پروفیسر سے اجازت ملنے پر سب نے خوشی سے کہا تو وہ عینک والی لڑکی واپس آ کر بیٹھ گئی اور ایک شرمیلی سی نگاہ اٹھا کر پروفیسر کو دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا گئی۔
"آپ چلیں گی ناں ہمارے ساتھ کیمپنگ پر آپی۔۔۔؟"
اس سوال پر آن نے اجازت طلب نظروں سے عرشمان کو دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھا۔
"بالکل نہیں ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔"
عرشمان آن کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کر کھڑا ہوا لیکن آن اپنی سیٹ پر بیٹھی رہی۔
"میں بھی انکے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں مان اتنا مزہ مجھے کبھی نہیں آیا جتنا آج آیا کیا آپ میری خوشی کے لیے مان نہیں سکتے؟"
آن نے اتنی امید سے پوچھا کہ ایک پل کے لیے انکار کرنا عرشمان کے لیے ناممکن ہو گیا لیکن پھر اس نے اپنی مظبوطی کو قائم کیا۔
"آن ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے سختی سے حکم دیا۔
"اوئے سڑو وڈیرے مان جاؤ ناں کھا نہیں جائیں گی ہم تمہیں۔۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے کہا تو عرشمان نے آن کو گھورا جو اپنی سیٹ سے اٹھ نہیں رہی تھی۔
"پلیز مان جائیں ناں میری خاطر۔۔۔"
آن نے بہت زیادہ محبت سے کہا لیکن عرشمان نے اسے بس گھورا۔
"پلیز مان۔۔۔۔"
اب کی بار آن نے اتنی محبت سے کہا کہ سب لڑکیوں نے آہ بھر کر آن کو دیکھا۔
"پلیز مان۔۔۔۔مان جاؤ ناں۔۔۔"
سب لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لے کر یہاں وہاں دیکھا اور پھر دانت کچکچاتا واپس سیٹ پر بیٹھ گیا۔سب لڑکیوں نے خوشی سے یاہو کا نعرہ لگایا تو پروفیسر بھی واپس سیٹ پر چلا گیا اور گاڑی پھر سے سٹارٹ ہو گئی۔
آن نے آہستہ سے اپنا ہاتھ عرشمان کے ہاتھ پر رکھا اور مسکرا دی۔
"تھینک یو۔۔۔۔"
عرشمان نے جواب میں ایک نظر آن کو دیکھا اور پھر سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جبکہ آن خود کو ملنے والی خوشی پر دوبارہ سے لڑکیوں کی منچلی باتوں میں کھو گئی۔
????
کیمپنگ پلیس پر پہنچ کر لڑکیوں اور پرفیسر نے جیسے تیسے دوسرے پروفیسر کو منایا تھا لیکن آخر کار ان کے مان جانے پر سب نے شکر کا سانس لیا اور اب دونوں پروفیسر مل کر باربی کیو کی تیاری کر رہے تھے اور عرشمان بھی انکی مدد کرنے کی غرض سے انکے پاس چلا گیا تھا جبکہ آن سب سٹوڈینٹس کے پاس بیٹھی تھی۔
جس جگہ وہ موجود تھے وہ ایک جنگل کے ساتھ تھی اور خاص طور پر کیمپنگ کے لیے ایک ایرایا بڑی بڑی لائٹیں لگا کر مخصوص کیا گیا تھا۔
آن لڑکیوں کے پاس بیٹھی دلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔وہ زیادہ بڑی کلاس نہیں تھی بس اکیس لڑکیاں تھیں اور اپنی کلاس کا اچھا رزلٹ آنے پر انعام کی صورت میں سرگودھا سے یہاں ٹرپ پر آئی تھیں۔ان کے ساتھ اٹھکھیلیوں اور باتوں میں وقت کہاں گیا آن کو اندازہ ہی نہیں ہوا۔پروفیسر دانش ان سب کے پاس آئے۔
"چلو بھئی سب بابی کیو ریڈی ہے ڈنر کا ٹائم ہو گیا۔"
اس بات پر سب لڑکیاں خوشی سے چہکتی ہوئی وہاں چل دی جہاں انہوں نے گھاس پر چٹائی بچھا کر سب کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا۔
آن آ کر عرشمان کے ساتھ بیٹھ گئی۔باربی کیو کے ساتھ ساتھ کڑاہی اور نان کا بھی بندوبست تھا۔سب نے مل کر کھانا کھایا۔
"آئی ہوپ آپ دونوں کو ہمارے ساتھ کوئی مسلہ نہیں ہوا ہو گا۔رات سونے کی ٹینشن مت لیں ویسے میرا اور ہاشم سر کا ٹینٹ علیحدہ تھا اب آپ دونوں میرے ٹینٹ میں سو جائے گا اور میں ہاشم سر سے شئیر کر لوں گا۔"
پروفیسر دانش نے عرشمان کو بتایا تو عرشمان نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔
"آپ کا بہت شکریہ۔"
عرشمان نے نرمی سے کہا کھانا کھانے لگا۔کھانے کے بعد وہیں دائرے میں بیٹھے بیٹھے اٹھکھیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
"سر گیم کھیلتے ہیں۔"
ایک لڑکی نے جلدی سے فرمائش کی۔
"ہممم کیا گیم کھیلیں؟"
پروفیسر نے دلچسپی سے پوچھا۔
"میرے پاس فٹ بال ہے۔"
"پاگل اس وقت فٹ بال کھیلیں گے تو بال جنگل میں چلی جائے گی اور پھر شیر کے منہ سے لانا تم بال۔"
ایک لڑکی نے فوراً کہا تو عرشمان کے علاوہ سب ہنس دیے۔
"ارے نہیں یار فٹ بال سے پاس دا بال کھیلتے ہیں جس پر بال رکے گی اسے ایک ٹاسک دیں گے جو اسے پورا کرنا ہو گا۔"
لڑکی کا آئیڈیا سب کو ہی پسند آیا تو وہ جلدی سے اپنے کیمپ میں گئی اور بیگ سے فٹ بال نکال کر لائی۔
"ہاشم سر آپ کے والا گیم نہیں آپ میوزک چلا لیں بس اسے روک دیجیے گا"
ایک لڑکی نے ہاشم سر سے کہا تو انہوں نے گہرا سانس لیا اور جیب سے موبائل نکالا۔کافی دیر وہ گیم چلتا رہا جس میں بال کبھی کسی لڑکی پر رکتی تو کبھی کسی اور پر۔ سب ہی کو عجیب و غریب ٹاسک دیے گئے جیسے زبان سے ناک کو چھونا،بندر کی آواز نکالنا اور کتنی ہی بار اٹھک بیٹھک کرنا وغیرہ۔
ان سب میں عرشمان بس آن کو دیکھ رہا تھا جو کھلکھلاتے ہوئے ہر چیز کھل کر انجوائے کر رہی تھی۔تبھی بال آن کے ہاتھوں میں آئی تو میوزک رک گیا یہ دیکھ کر سب لڑکیوں نے ہوٹنگ کی۔
"آپی آپ کے لیے میں نے کب سے ایک ٹاسک سوچا ہے"
ایک لڑکی نے پر جوشی سے کہا تو آن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"آپ نا بھائی کے لیے ایک گانا سنائیں"
لڑکی کی فرمائش پر سب نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ آن اضطراب میں آ گئی تھی۔
"میں نے کبھی گانا نہیں گایا"
"نونونو۔۔۔۔کوئی بہانا نہیں چلے گا ٹاسک پورا کرنا ہی پڑے گا۔"
آن نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے عرشمان کو دیکھا پھر اسکی ناراضگی یاد آنے پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
"کچی ڈوریوں ڈوریوں ڈوریوں سے مینو تو باندھ لے
پکی یاریوں یاریوں یاریوں میں ہندے نہ فاصلے
اے ناراضگی کاغذی ساری تیری
میرے سونیا سن لے میرے دل دیاں گلاں
کراں گے نال نال بے کے اکھ نال اکھ نو ملا کے
دل دیاں گلاں کراں گے روز روز بے کے سچیاں محبتاں نبھا کے
ستاوے مینو کیوں رولاوے مینو کیوں ایویں چوٹھا موٹھا رس کے رسا کے
دل دیاں گلاں ۔۔۔۔۔"
آن کے گانا ختم کرنے پر سب لڑکیوں نے تالیاں بجائیں اور ایک نے تو شرارت میں دو انگلیاں منہ میں رکھ کر سی ٹی بھی بجا دی جس پر پروفیسر ہاشم نے اسے گھور کر دیکھا۔
تبھی انتظامیہ کا ایک آدمی گھبرایا سا پروفیسر دانش کے پاس آیا اور انہیں کچھ بتانے لگا جسے سن کر پروفیسر دانش بھی پریشان ہو گئے۔
"سب لڑکیاں میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔سب اپنے اپنے کیمپ میں جائیں اور اچھی طرح سے کیمپ کی زپ بند کر لیں۔نہ ہی کوئی آواز کرنا اور نہ ہی لائٹ جلانا اور جب تک ہم نہیں کہتے کوئی باہر نہیں آئے"
پروفیسر کے پریشانی سے کہنے پر سب نے فکر مندی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"لیکن سر ہوا کیا؟"
"جو کہا ہے کرو۔۔۔۔"
پروفیسر کے حکم پر سب لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں تو پروفیسر دانش آن اور عرشمان کے پاس آیا۔
"آپ دونوں بھی اس ریڈ والے کیمپ میں چلے جائیں۔"
"لیکن ہوا کیا ہے؟"
عرشمان نے پریشانی سے پوچھا۔
"اس جنگل سے ایک جنگلی ریچھ تاریں توڑ کر کیمپنگ ایریا میں آ گیا ہے اس لیے سب کو انتباہ ہے کہ اپنے اپنے کیمپ میں خاموشی سے لائٹیں بند کر کے رہیں جب تک انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر واپس نہیں چھوڑ آتی۔۔۔۔"
آن سہم کر عرشمان کے بازو سے چپک گئی اور عرشمان نے بھی اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ اس کیمپ تک لے گیا۔
کیمپ کے اندر بس ایک ہی بستر تھا جو عرشمان جیسے آدمی کے لیے چھوٹا ہی ہونا تھا۔عرشمان نے کیمپ کی زپ ٹھیک سے بند کی اور آن کی طرف دیکھا جو سہم کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"مان اب کیا ہو گا۔۔۔۔؟"
خوف سے آن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔عرشمان اسکے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں لے کر اس بستر پر لیٹ گیا اور اسکا چہرہ اپنے سینے میں چھپا لیا۔
"ڈرو مت کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"
عرشمان نے اسے حوصلہ دیا تبھی اس ایریا کی ساری لائٹیں بند ہو گئیں اور اب بس چاند ہی تھوڑی تھوڑی سی روشنی کر رہا تھا۔
"مان اگر وہ یہاں آ گیا تو؟"
آن نے سہمی سی آواز میں پوچھا۔
"تو اسے مجھ سے گزر کر تم تک پہنچنا ہو گا۔"
عرشمان نے عام سے انداز میں کہا۔آن کے اس خوف میں وہ پہلے جیسا مان بن چکا تھا۔
"نہیں مان آپ کو کھونے کی بجائے میں مرنا پسند کروں گی۔"
عرشمان کو آن کے آنسو اپنے سینے میں جزب ہوتے محسوس ہوئے۔تبھی فضا میں ریچھ کی دہاڑ گونجی تو آن مزید سہم کر عرشمان کے اندر چھپ گئی۔عرشمان اس ریچھ کا ہیولا کیمپ کے باہر دیکھ سکتا تھا۔
"مان۔۔۔"
"شششش۔۔۔۔"
عرشمان نے اسکے کان میں سرگوشی کر کے اسے خاموش رہنے کا کہا۔
"و۔۔۔وہ باہر ہی ہے ناں۔۔۔۔مان وہ کیمپ کو پھاڑ کر اندر آ جائے گا۔۔۔۔"
آن نے سرگوشی کی لیکن عرشمان چاہتا تھا وہ خاموش رہے کیونکہ اسکی سرگوشی بھی اس ریچھ کو ہوشیار کر رہی تھی۔
"مان مجھے ڈر۔۔۔۔"
اب کی بار عرشمان نے اسکا سر اپنے سینے سے نکالا اور اسے خاموش کرانے کے لیے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔عرشمان کے ایسا کرتے ہی آن کی آواز تو کیا اسکا سانس تک بند ہو گیا تھا۔عرشمان کی شرٹ کا کالر اپنے ہاتھ میں دبوچ کر آن خود پر اس اچانک حملے کے زیر اثر بری طرح سے کانپنے لگی تھی۔
دل ایسے تھا جیسے حلق سے اچھل کر باہر آ جائے گا۔باہر سے آنے والی آوازوں سے وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر لے جا چکی ہے۔اسی بات سے آگاہ کرنے کرنے کے لیے آن نے عرشمان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن عرشمان کو اب ہوش ہی کہاں تھا۔
اس نے آن کے مزاحمت کرتے ہاتھ پکڑ اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیے اور اسکے لمس میں مزید شدت آ گئی۔آن کو لگ رہا تھا جیسے وہ اسکی سانسیں ہی پی جائے گا۔
اچانک ہی عرشمان نے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشی اور اسکے گلے سے دوپٹہ نکالتا اسکی گردن پر جھک گیا۔
"مان۔۔۔"
آن نے سہم کر اسے پکارا۔عرشمان کی وہ منمانیاں اسے بری طرح سے کپکپانے پر مجبور کر رہی تھیں۔
"مان پلیز۔۔۔۔"
"چپ آن آواز نہ آئے تمہاری ورنہ قسم کھاتا ہوں اس ریچھ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا تمہارے حق میں۔۔۔۔"
عرشمان بولنے سے زیادہ غرایا اور اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رگڑتے ہوئے گستاخیاں کرنے لگا۔آن بے بسی سے تکیے کو اپنی مٹھیوں میں دبوچتی اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔
جان تو اسکی تب ہوا ہوئی جب اس نے اپنے کندھے سے شرٹ سرکتی محسوس کی اور عرشمان کا ہاتھ اسکی جان کا الگ وبال بنا ہوا تھا۔عرشمان نے اپنے ہونٹ اسکے کندھے پر رکھنے کے بعد اپنے دانت وہاں دبائے تو آن سسک کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔
"عرشمان صاحب۔"
پروفیسر دانش کی آواز پر عرشمان ہوش میں آیا اور اس نے اپنا چہرہ آن کی گردن سے نکالا۔
"جی؟"
عرشمان نے کیمپ کے باہر سے آتی ٹارچ کی ہلکی سی روشنی میں آن کے چہرے کے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ آپکو بتانا تھا کہ انتظامیہ نے ریچھ کو پکڑ لیا ہے اب اگر آپ باہر آنا چاہیں تو بے فکر ہو کر آ سکتے ہیں۔۔۔۔"
عرشمان بس آن کو دیکھنے میں مصروف تھا جو ابھی بھی آنکھیں زور سے میچے کپکپا رہی تھی۔
" ہم تھک گئے ہیں اب آرام کریں گے آپکا شکریہ۔۔۔۔"
عرشمان نے آن کے تھرتھراتے نازک لبوں کو پر تپش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو پروفیسر وہاں سے چلا گیا۔آن نے اپنی پلکیں اٹھا کر عرشمان کو دیکھا جو آن کو نہ جانے کن نظروں سے تکنے میں مصروف تھا۔
"سو جاؤ آن ملک ورنہ جو کرتے رک گیا اب نہیں رکوں گا۔۔۔۔"
عرشمان کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی۔آن فوراً آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔عرشمان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔
"بزدل۔۔۔۔"
اس نے زیر لب کہا اور پھر خود بھی سکون سے آنکھیں موند کر سو گیا۔وہ کچھ بھی کر لیتا اس بات سے انکار نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے سکون اپنی آن کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔
????
#قسط_نمبر_23
عرشمان اور آن سر سبز پہاڑوں کی سیر کے لیے گئے تھے جب انکی گاڑی راستے میں خراب ہو گئی۔اب عرشمان گاڑی کا بونٹ کھول کر مسلہ دریافت کرنے کی کوشش میں تھا اور آن اسکے پاس کھڑی ارد گرد سر سبز پہاڑوں اور پاس سے گزرتی جھیل کو دیکھ رہی تھی۔
"پتہ نہیں کیا مسلہ ہو گیا ہے اسے۔۔۔۔"
عرشمان نے پریشانی سے یہاں وہاں دیکھا دور دور تک کسی آبادی یا انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
"اف کیا ہو گیا ہے مان خراب ہونے والی چیز تھی ہو گئی آپ اسے چھوڑیں اور یہاں دھیان دیں دیکھیں کتنا پیارا منظر ہے اور یہ بادل اففف۔۔۔۔"
آن نے خالی سڑکے کے درمیان میں آ کر گھومتے ہوئے کہا۔جہاں وہ بادل آن کو خوبصورت لگ رہے تھے وہیں وہ عرشمان کی پریشانی بڑھا رہے تھے۔
"اگر بارش آ گئی تو ساری خوبصورتی نکل جائے گی۔۔۔۔"
عرشمان سنجیدگی سے کہتے ہوئے گاڑی کو دیکھنے لگا۔
"ہائے سچی آپکو پتہ ہے میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ آپکا اور میرا پہاڑوں میں گھر ہوتا آپ لکڑیاں کاٹ کر گھر آیا کرتے اور میں آپکا انتظار کیا کرتی کتنی مزے کی زندگی ہوتی ناں۔۔۔۔"
آن نے واپس اس کے پاس آتے ہوئے خوشی سے کہا تو عرشمان سر جھٹک کر اپنا کام کرنے لگا۔
"ویسے مان ہم ڈنر کیسے کرتے یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔۔"
آن نے پریشانی سے کہا۔
"ہاں تو آدھا جنگلی تو بنا ہی دیا ہے پورے جنگلی بن جائیں گے یہاں جانوروں کا شکار کر کے انہیں پکا لیا کریں گے۔۔۔۔"
عرشمان نے الجھن سے کہا تو آن ہنس دی۔
"یہ سہی کہا مان آپ نے تو اسے چھوڑیں ناں رات ہونے والی ہے چل کے شکار کرتے ہیں۔۔۔۔"
آن نے شرارت سے کہا تو عرشمان اسے گھورتا پھر سے گاڑی کا معائنہ کرنے لگا۔تبھی اسکے کانوں میں بکریوں کی آواز پڑی تو شکر کا سانس لیتے عرشمان نے گاڑی کو چھوڑا اور یہاں وہاں دیکھنے لگا۔
دور ہی ایک آدمی اپنی بھیڑوں کو لے کر وہاں آ رہا تھا۔اسکے تھوڑا قریب آتے ہی عرشمان اسکے پاس گیا جبکہ آن گاڑی کے پاس ہی کھڑی رہی۔
"سنیے کیا یہاں قریب کوئی میکینک مل سکتا ہے۔۔۔۔؟"
عرشمان کے سوال پر آدمی نے اپنی بھیڑوں سے دھیان ہٹا کر عرشمان کو دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"عرشمان صاحب آپ یہاں۔۔۔۔؟"
اس آدمی کی بات عرشمان کو حیرت میں ڈال گئی۔
"معاف کریے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے عاجزی سے کہا۔
"آپ مجھے بھول گئے ہوں گے صاحب لیکن میں نہیں بھول سکتا چار سال پہلے آپ اپنے بھائی کے ساتھ یہاں آئے تھے ۔آپکو یاد ہے میرا بیٹا میرے ساتھ آیا تھا اور چوٹی سے گر کر اسے چوٹ لگ گئی تھی پھر آپ اسے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے تھے اور اسکے علاج کے پیسے بھی دیے۔۔۔۔آپکا احسان میں کبھی بھلا سکتا ہوں بھلا؟"
آدمی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خوشی سے پاگل ہو جاتا۔
"اب آپ کا بیٹا کیسا ہے۔۔۔۔؟"
"وہ تو اچھا بھلا ہے صاحب لیکن آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں کچھ دیر رات ہو جائے گی اور یہاں جنگلی جانور بستے ہیں۔"
آدمی نے پریشانی سے کہا تو عرشمان ساتھ کھڑی آن پر نظر ڈالتا مزید پریشان ہو گیا۔
"کیا یہاں کوئی میکینک ملے گا۔۔۔۔؟"
عرشمان کی پریشانی دیکھ کر وہ آدمی بھی پریشان ہو گیا۔
"میکینک تو کیا صاحب یہاں تو دور دور تک کسی کا گھر بھی نہیں ہے میرا اپنا گھر کافی فاصلے پر ہے میں تو یہاں اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لیے لایا تھا۔"
عرشمان نے پھر سے پلٹ کر آن کو دیکھا جو ان نظاروں میں کھوئی اپنی چادر کے کونے کو انگلیوں میں گھما رہی تھی۔
"میرا وہ بیٹا جسے آپ نے بچایا تھا صاحب وہ میکینک ہے لیکن ابھی گھر پر ہے۔۔۔۔"
عرشمان نے جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو پریشانی مزید بڑھ گئی کیونکہ اس ایریا میں سروس بھی نہیں تھی۔اس سے پہلے کہ وہ اس آدمی کو کچھ کہتا ایک گاڑی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔دور سے آتی بس کو دیکھ کر وہ آدمی مسکرا دیا۔
"آپ اس بس میں چلے جانا صاحب۔آپ مجھے اپنا پتہ بتا دیں میں صبح اپنے بیٹے کو یہاں لا کر آپکی گاڑی ٹھیک کروا دوں گا اور وہ آپکے پاس گاڑی چھوڑ بھی جائے گا۔۔۔۔"
عرشمان نے اثبات میں سر ہلا کر گاڑی کی چابی اسے دی۔ویسے بھی اسے گاڑی کی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ اس میں ٹریکر لگا تھا۔عرشمان اب وہاں کھڑا بس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔
بس کے قریب آنے پر عرشمان نے بس کو ہاتھ دیا تو بس رک گئی اور پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک آدمی باہر آیا۔
"جی سر؟"
آدمی کے پڑھے لکھے لہجے نے عرشمان کو حیران کیا تھا۔
"ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا آپ پلیز ہمیں شہر تک چھوڑ سکتے ہیں تا کہ ہم اپنے ہوٹل چلے جائیں۔۔۔۔"
اس بات پر اس آدمی نے پریشانی سے بس کے اندر دیکھا ۔
"لیکن سر یہ پرائیویٹ بس ہے ہم بچیوں کا ٹور لے کر جا رہے ہیں سوری لیکن ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔۔۔۔"
آدمی نے اپنا مسلہ بیان کیا۔
"دیکھیں صاحب یہ دونوں اس وقت کہاں جائیں گے میاں بیوی ہیں بہت شریف لوگ ہیں آپ ان کی مدد کر دیں۔۔۔۔"
عرشمان کے ساتھ کھڑے چہراوے نے کہا تو آدمی نے پھر سے بس کے اندر دیکھا۔
"ٹھیک ہے آپ آ جائیں ۔۔۔۔"
اس آدمی کی بات پر عرشمان نے شکر ادا کیا اور گاڑی کے پاس کھڑی آن کے پاس آیا۔
"چلو ہمیں اس بس میں جانا ہے۔۔۔۔"
عرشمان کی بات پر آن کا منہ بن گیا۔
"یعنی ہم آج رات یہاں نہیں گزاریں گے؟"
عرشمان نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ اس بس میں لے آیا لیکن بس کا منظر دیکھ کر عرشمان کے ماتھے پر بل آئے کیونکہ بس میں صرف لڑکیاں موجود تھیں اور سب ہی انہیں ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ مارس سے آئے ایلین ہوں۔
"سٹوڈینٹس ان دونوں کی گاڑی خراب ہو گئی ہے تو شہر تک یہ دونوں ہمارے ساتھ سفر کریں گے آئی ہوپ آپ سب کو کوئی اشو نہیں ہو گا۔۔۔۔"
پروفیسر کی بات پر لڑکیوں نے شریر نگاہوں سے ایک دوسری کو دیکھا۔
"نو سر ایبسلوٹلی ناٹ۔۔۔۔"
انکی بات پر پروفیسر مسکرا دیا۔
"تو پھر انہیں بیٹھنے کے لیے سیٹ دیں۔۔۔"
پروفیسر کے حکم پر بس کے درمیان کی سیٹ پر بیٹھی دو لڑکیاں فوراً اٹھ گئیں۔
"یہاں آ جائیں آپ ہم دونوں پیچھے چلی جاتی ہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے آن کا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ سیٹ تک لا کر خود کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھ گیا اور آن کو اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔انکے بیٹھتے ہی پروفیسر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔
"سر بور ہو رہے ہیں میوزک لگا دیں پلیز ۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے فرمائش کی اور پھر بس میں گانا چلنے لگا۔
" خیریت پوچھو
کبھی تو کیفیت پوچھو
تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے
دل میرا دیکھو
نہ میری حیثیت پوچھو
تیرے بن ایک دن جیسے
سو سال لگ
انجام ہے طے میرا
ہونا مجھے ہے تیرا
جتنی بھی ہوں دوریاں
فلحال ہیں یہ دوریاں
فلحال ہیں
او خیریت پوچھو
کبھی تو کیفیت پوچھو
تمہارے بن دیوانے کا کیا حال ہے"
گانا بجتے ہی سب لڑکیاں بھی تالیاں بجاتے ہوئے خود بھی گانے لگیں اور عرشمان گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔وہ بس جلد از جلد واپس پہنچنا چاہتا تھا جبکہ ان لڑکیوں کی اٹھکھیلیوں کو مسکرا کر دیکھتی آن اس سفر کے کبھی ختم نہ ہونے کی دعائیں کر رہی تھی۔
????
"آپ دونوں ہزبینڈ وائف ہیں کیا ؟"
آن کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے اسکی جانب اپنا رخ کرتے ہوئے پوچھا تو آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"واؤ اتنا پیارا کپل ہے ناں آپکا کہ کیا کہوں یو آر بوتھ جسٹ میڈ فار ایچ ادر۔۔۔۔"
آن کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی اسکی جانب متوجہ ہو کر کہنے لگی۔
"تھینک یو ۔۔۔۔"
آن نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ تعریف پر اسکے گال گلابی ہوئے تھے۔
"آپی آپکی ارینج میرج ہوئی یا لو میرج۔۔۔۔؟"
اس سوال پر آن نے عرشمان کی طرف دیکھا جو مسلسل گاڑی سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔
"یہ سوال زرا مشکل ہے۔۔۔۔"
آن کے جواب پر لڑکیاں حیران ہوئیں۔
"میری انگیجمیٹ انکے بابا یعنی میرے تایا ابو نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان سے کر دی تھی کہ اگر لڑکی ہوئی تو اسکی شادی ان سے ہو گی۔اس لیے یہ ارینج میرج ہوئی لیکن جب سے لفظوں کو سمجھنا شروع کیا تو یہی جانا کہ میں ان کی ہوں،جب سے محبت کے جذبے کو سمجھنا شروع کیا تو انکے سوا کسی کا خیال ہی نہیں آیا تو سمجھ لیں کہ یہ لو میرج ہے۔۔۔۔ "
آن نے مسکرا کر عرشمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو ابھی بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا لیکن چہرے کی سختی بیان کر رہی تھی کہ وہ بمشکل ہی ضبط کیے وہاں بیٹھا تھا۔
"واؤ۔۔۔۔یار کاش میرے بابا بھی میرے پیدا ہونے سے پہلے میری انگیجمنٹ میرے کزن سالار بھائی سے کر دیتے اب انکی شادی کہیں اور ہو گئی ہے اور انکے دو بچے بھی ہیں اور میں یہاں کتابوں میں سر کھپا رہی ہوں۔۔۔۔"
ایک لڑکی کی بات پر سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں اور انکے ساتھ ساتھ آن بھی کھل کر ہنس دی۔آج کتنے دونوں کے بعد وہ اس پل کو کھل کر جی رہی تھی۔کتنے عرصے کے بعد اسکی آنکھوں میں آنسؤں کی بجائے چہرے پر ایک خالص مسکان تھی۔
"ویسے آپ کے ہزینڈ کرتے کیا ہیں؟"
ایک لڑکی نے آن سے سوال کیا۔
"ویسے تو انکا اپنا بزنس ہے لیکن ہم پنجاب کے ایک گاؤں سے ہیں اور ہماری بہت سی زمین ہیں تو گاؤں کے معاملات دیکھتے ہیں یہ۔۔۔۔۔"
"یعنی کہ آپ کے ہزبینڈ وڈیرے ہیں۔۔۔۔؟"
ایک لڑکی نے جلدی سے پوچھا تو آن ہنس دی۔
"جی وڈیرے ہیں ملک خاندان سے ہیں ہم۔۔۔۔"
آن کی بات پر وہ لڑکیاں ایک آہ بھر کر رہ گئیں۔
"آپی مائنڈ مت کرنا لیکن آپ کا ہزبنیڈ ایسا لگتا ہے کسی ناول کے ہیرو ہو ہائے سچی یہ روڈ سا ہینڈسم مکھڑا اور اوپر سے ہٹا کٹا پنجابی منڈا اور سب سے اہم وڈیرا ہائے آپی جیلسی ہو رہی آپ سے۔۔۔۔"
لڑکی کی بات پر آن عرشمان کو دیکھتے ہوئے ہنس دی۔
"آپی آپ کیا کرتی ہیں۔۔۔؟"
اب سوال ایک عینک والی کیوٹ سی لڑکی کی جانب سے آیا جو تب سے خاموش بیٹھی تھی۔
"میں ڈاکٹر ہوں۔۔۔۔"
آن نے مسکراتے ہوئے عام سے انداز میں بتایا۔
"اف اُمی کہا تھا ناں پری میڈیکل پڑھتے ہیں اور ڈاکٹر بنتے ہیں دیکھ اتنا کمال کر وڈیرا شوہر ملتا ہے ڈاکٹر بن کے تجھے ہی شوق تھا پری انجینئرنگ پڑھنے کا۔"
عینک والی لڑکی کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے منہ بنا کر کہا۔
"مجھے وڈیرا نہیں چاہیے مجھے تو بس کمپیوٹر پڑھانے والا وہ سڑو سا سر دانش چاہیے ۔۔۔"
عینک والی لڑکی نے گلابی گالوں کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے پروفیسر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اووووووو۔۔۔۔۔"
سب لڑکیاں ہوٹنگ کر کے ہنسنے لگیں تو سر نے ایک بار مڑ کر سب کو دیکھا لیکن جب نظر اس عینک والی لڑکی پر پڑی تو آنکھوں میں نرمی آئی اور وہ پھر سے اپنا دھیان سامنے کر گیا۔
"آپی اتنا مزہ آیا ناں آپ کے ساتھ کہ کیا بتائیں آپکو بھی ہمارے ساتھ مزہ آیا ناں۔۔۔۔۔"
ایک لڑکی کے پوچھنے پر آن نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"بہت زیادہ۔۔۔۔"
"لیکن لگتا ہے آپ کے ہزبینڈ کو مزہ نہیں آیا تب سے ایسے کھڑکی سے باہر دیکھ رہے ہیں جیسے سڑک پر کیٹرینا کیف کملی کملی پر ڈانس کرتی نظر آ رہی ہو۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے شرارت سے کہا تو سب لڑکیاں قہقہ لگا کر ہنس دیں۔
"کملی کملی سے یار آیا کہ اندھیرا ہو گیا ہے تو مزہ کریں۔۔۔۔؟"
آن کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے آنکھ دبا کر کہا تو سب مسکرا دیں۔
"سر کملی کملی سانگ لگا دیں۔۔۔۔"
لڑکیوں کی فرمائش پر سر نے گہرا سانس لے کر گانا لگا دیا اور ایک لڑکی اٹھ کر آن کے پاس کھڑی ہو گئی اور دوسری لڑکی کو اشارہ کیا۔بس پھر اس لڑکی نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی ایسا ڈانس کیا کہ آن حیران رہ گئی۔
"آپی آپ بھی کر کے دیکھائیں ناں ڈانس۔۔۔۔"
گانا ختم ہونے پر ادائیں دیکھانے والی اس لڑکی نے کہا۔
"مم ۔۔۔۔مجھے نہیں آتا۔۔۔۔"
"تو کیا ہو گیا آپی یہاں کونسا نچ بلیے کا کامپیٹیشن ہو رہا ہے پلیز تھوڑا سا۔۔۔۔"
آن نے پریشانی سے یہاں وہاں سب لڑکیوں کو دیکھا جو بہت امید سے اسے دیکھ رہی تھیں اچانک ہی عرشمان نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور سختی سے گھور کر اسے دیکھا۔
"سوچنا بھی مت۔۔۔۔"
عرشمان کی حرکت پر آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"اوووو۔۔۔۔۔"
سب لڑکیوں نے ایک بار پھر سے ہوٹ کیا۔
"یار یہ وڈیرا تو پوزیسسو بھی ہے ہائے آپی دھیان سے سونا میں رات کو آ کر آپکے وڈیرے کو کڈنیپ نہ کر لوں۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے شرارت سے آنکھ دبا کر کہا تو سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔تبھی اچانک بس رک گئی اور عرشمان نے سکھ کا سانس لیا۔پروفیسر بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کی جانب آیا۔
"سر ہم مال روڈ پہنچ گئے ہیں اب آپ یہاں سے ٹیکسی لے کر اپنے ہوٹل جا سکتے ہیں ہم آپ کو ہوٹل چھوڑ آتے لیکن بچیوں کو کیمپنگ کے لیے لے کر جانا ہے اور ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"
پروفیسر نے وضاحت دی۔
"کوئی بات نہیں آپ کا شکریہ۔"
اتنا کہہ کر عرشمان نے آن کا ہاتھ پکڑا اور کھڑا ہونا چاہا لیکن اچانک ہی ایک لڑکی نے اپنا ہاتھ آن کے دوسرے ہاتھ پر رکھا۔
"پلیز آپی نہ جائیں آپ بھی ہمارے ساتھ کیمپنگ کرنے چلیں ساری رات کھل کر انجوائے کریں گے۔۔۔۔"
لڑکی کی بات پر باقی سب نے بھی ہاں میں سر ہلایا تبھی دو اور لڑکیوں نے آن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
"ہم نے اتنا انجوائے کیا آپ کے ساتھ ابھی نہ جائیں ناں پلیز کل ہم نے بھی واپس آنا ہے سٹی ہم آپکو چھوڑ دیں گے آپکے ہوٹل پلیز۔۔۔۔"
اب کی بار دوسری لڑکی نے کہا۔
"آن چلو۔۔۔۔"
عرشمان نے دانت کچکچا کر کہا تو آن نے بے بسی سے عرشمان کی جانب دیکھا۔
"بچے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم کسی کو بھی یوں ساتھ نہیں لے جا سکتے کالج یہ الاؤ نہیں کرتا۔پہلے ہی ہم انہیں لفٹ دے کر رول توڑ چکے ہیں اگر پرنسپل سر کو پتہ چلا تو؟"
پروفیسر نے پریشانی سے کہا تو لڑکیاں منہ بسور کر انہیں دیکھنے لگیں۔
"سر کون بتائے گا پرنسپل سر کو ہم میں سے تو کوئی نہیں بتا رہا بتائے گا کیا کوئی؟"
ایک لڑکی کے پوچھنے پر سب نے ایک ساتھ نہیں کہا۔
"پلیز سر کیا ہو گیا ہے یہ دونوں کونسا دہشت گرد ہیں جو آپ ڈر رہیں ہیں چِل کریں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"
اب دوسری لڑکی نے کہا تو پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"اور ہاشم سر کا کیا کریں گے جو کیمنگ پلیس پہ ہمارا ویٹ کر رہے ہیں؟انہیں کیا بتائیں گے کہ کون ہیں یہ لوگ؟"
پروفیسر کے سوال پر سب لڑکیوں نے ایک دوسری کی جانب دیکھا۔
"آپ انکی فکر مت کریں سر ہم انہیں سمجھا لیں گے پلیز سر مان جائیں ناں پلیز۔۔۔۔"
سب لڑکیاں ایک ساتھ پلیز پلیز کہنے لگیں تو پروفیسر نے اضطراب سے سب کو دیکھا۔
"سوری بچے میں پرمیشن نہیں دے سکتا۔۔۔"
پروفیسر کی بات پر سب لڑکیوں نے منہ بسور لیا لیکن پھر وہ عینک والی کیوٹ سی لڑکی اٹھ کر پروفیسر کے سامنے گئی اور اپنے ہاتھ آپس میں ملنے لگی۔
"پپ۔۔۔۔پلیز سر مان جائیں ناں آپی بہت اچھی ہیں ہمیں انکے ساتھ وقت گزارنا ہے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔"
لڑکی کے سر اٹھا کر پلیز کہنے پر پروفیسر نے بے بسی سے یہاں وہاں دیکھا۔
"ٹھیک ہے اگر یہ دونوں مان جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔"
"یےےےےےے"
پروفیسر سے اجازت ملنے پر سب نے خوشی سے کہا تو وہ عینک والی لڑکی واپس آ کر بیٹھ گئی اور ایک شرمیلی سی نگاہ اٹھا کر پروفیسر کو دیکھا اور پھر اپنا سر جھکا گئی۔
"آپ چلیں گی ناں ہمارے ساتھ کیمپنگ پر آپی۔۔۔؟"
اس سوال پر آن نے اجازت طلب نظروں سے عرشمان کو دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھا۔
"بالکل نہیں ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔"
عرشمان آن کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ کر کھڑا ہوا لیکن آن اپنی سیٹ پر بیٹھی رہی۔
"میں بھی انکے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں مان اتنا مزہ مجھے کبھی نہیں آیا جتنا آج آیا کیا آپ میری خوشی کے لیے مان نہیں سکتے؟"
آن نے اتنی امید سے پوچھا کہ ایک پل کے لیے انکار کرنا عرشمان کے لیے ناممکن ہو گیا لیکن پھر اس نے اپنی مظبوطی کو قائم کیا۔
"آن ہم ہوٹل واپس جا رہے ہیں۔۔۔۔"
عرشمان نے سختی سے حکم دیا۔
"اوئے سڑو وڈیرے مان جاؤ ناں کھا نہیں جائیں گی ہم تمہیں۔۔۔۔۔"
ایک لڑکی نے کہا تو عرشمان نے آن کو گھورا جو اپنی سیٹ سے اٹھ نہیں رہی تھی۔
"پلیز مان جائیں ناں میری خاطر۔۔۔"
آن نے بہت زیادہ محبت سے کہا لیکن عرشمان نے اسے بس گھورا۔
"پلیز مان۔۔۔۔"
اب کی بار آن نے اتنی محبت سے کہا کہ سب لڑکیوں نے آہ بھر کر آن کو دیکھا۔
"پلیز مان۔۔۔۔مان جاؤ ناں۔۔۔"
سب لڑکیوں نے ایک ساتھ کہا تو عرشمان نے گہرا سانس لے کر یہاں وہاں دیکھا اور پھر دانت کچکچاتا واپس سیٹ پر بیٹھ گیا۔سب لڑکیوں نے خوشی سے یاہو کا نعرہ لگایا تو پروفیسر بھی واپس سیٹ پر چلا گیا اور گاڑی پھر سے سٹارٹ ہو گئی۔
آن نے آہستہ سے اپنا ہاتھ عرشمان کے ہاتھ پر رکھا اور مسکرا دی۔
"تھینک یو۔۔۔۔"
عرشمان نے جواب میں ایک نظر آن کو دیکھا اور پھر سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جبکہ آن خود کو ملنے والی خوشی پر دوبارہ سے لڑکیوں کی منچلی باتوں میں کھو گئی۔
????
کیمپنگ پلیس پر پہنچ کر لڑکیوں اور پرفیسر نے جیسے تیسے دوسرے پروفیسر کو منایا تھا لیکن آخر کار ان کے مان جانے پر سب نے شکر کا سانس لیا اور اب دونوں پروفیسر مل کر باربی کیو کی تیاری کر رہے تھے اور عرشمان بھی انکی مدد کرنے کی غرض سے انکے پاس چلا گیا تھا جبکہ آن سب سٹوڈینٹس کے پاس بیٹھی تھی۔
جس جگہ وہ موجود تھے وہ ایک جنگل کے ساتھ تھی اور خاص طور پر کیمپنگ کے لیے ایک ایرایا بڑی بڑی لائٹیں لگا کر مخصوص کیا گیا تھا۔
آن لڑکیوں کے پاس بیٹھی دلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔وہ زیادہ بڑی کلاس نہیں تھی بس اکیس لڑکیاں تھیں اور اپنی کلاس کا اچھا رزلٹ آنے پر انعام کی صورت میں سرگودھا سے یہاں ٹرپ پر آئی تھیں۔ان کے ساتھ اٹھکھیلیوں اور باتوں میں وقت کہاں گیا آن کو اندازہ ہی نہیں ہوا۔پروفیسر دانش ان سب کے پاس آئے۔
"چلو بھئی سب بابی کیو ریڈی ہے ڈنر کا ٹائم ہو گیا۔"
اس بات پر سب لڑکیاں خوشی سے چہکتی ہوئی وہاں چل دی جہاں انہوں نے گھاس پر چٹائی بچھا کر سب کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا۔
آن آ کر عرشمان کے ساتھ بیٹھ گئی۔باربی کیو کے ساتھ ساتھ کڑاہی اور نان کا بھی بندوبست تھا۔سب نے مل کر کھانا کھایا۔
"آئی ہوپ آپ دونوں کو ہمارے ساتھ کوئی مسلہ نہیں ہوا ہو گا۔رات سونے کی ٹینشن مت لیں ویسے میرا اور ہاشم سر کا ٹینٹ علیحدہ تھا اب آپ دونوں میرے ٹینٹ میں سو جائے گا اور میں ہاشم سر سے شئیر کر لوں گا۔"
پروفیسر دانش نے عرشمان کو بتایا تو عرشمان نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔
"آپ کا بہت شکریہ۔"
عرشمان نے نرمی سے کہا کھانا کھانے لگا۔کھانے کے بعد وہیں دائرے میں بیٹھے بیٹھے اٹھکھیلیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
"سر گیم کھیلتے ہیں۔"
ایک لڑکی نے جلدی سے فرمائش کی۔
"ہممم کیا گیم کھیلیں؟"
پروفیسر نے دلچسپی سے پوچھا۔
"میرے پاس فٹ بال ہے۔"
"پاگل اس وقت فٹ بال کھیلیں گے تو بال جنگل میں چلی جائے گی اور پھر شیر کے منہ سے لانا تم بال۔"
ایک لڑکی نے فوراً کہا تو عرشمان کے علاوہ سب ہنس دیے۔
"ارے نہیں یار فٹ بال سے پاس دا بال کھیلتے ہیں جس پر بال رکے گی اسے ایک ٹاسک دیں گے جو اسے پورا کرنا ہو گا۔"
لڑکی کا آئیڈیا سب کو ہی پسند آیا تو وہ جلدی سے اپنے کیمپ میں گئی اور بیگ سے فٹ بال نکال کر لائی۔
"ہاشم سر آپ کے والا گیم نہیں آپ میوزک چلا لیں بس اسے روک دیجیے گا"
ایک لڑکی نے ہاشم سر سے کہا تو انہوں نے گہرا سانس لیا اور جیب سے موبائل نکالا۔کافی دیر وہ گیم چلتا رہا جس میں بال کبھی کسی لڑکی پر رکتی تو کبھی کسی اور پر۔ سب ہی کو عجیب و غریب ٹاسک دیے گئے جیسے زبان سے ناک کو چھونا،بندر کی آواز نکالنا اور کتنی ہی بار اٹھک بیٹھک کرنا وغیرہ۔
ان سب میں عرشمان بس آن کو دیکھ رہا تھا جو کھلکھلاتے ہوئے ہر چیز کھل کر انجوائے کر رہی تھی۔تبھی بال آن کے ہاتھوں میں آئی تو میوزک رک گیا یہ دیکھ کر سب لڑکیوں نے ہوٹنگ کی۔
"آپی آپ کے لیے میں نے کب سے ایک ٹاسک سوچا ہے"
ایک لڑکی نے پر جوشی سے کہا تو آن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"آپ نا بھائی کے لیے ایک گانا سنائیں"
لڑکی کی فرمائش پر سب نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ آن اضطراب میں آ گئی تھی۔
"میں نے کبھی گانا نہیں گایا"
"نونونو۔۔۔۔کوئی بہانا نہیں چلے گا ٹاسک پورا کرنا ہی پڑے گا۔"
آن نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے عرشمان کو دیکھا پھر اسکی ناراضگی یاد آنے پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
"کچی ڈوریوں ڈوریوں ڈوریوں سے مینو تو باندھ لے
پکی یاریوں یاریوں یاریوں میں ہندے نہ فاصلے
اے ناراضگی کاغذی ساری تیری
میرے سونیا سن لے میرے دل دیاں گلاں
کراں گے نال نال بے کے اکھ نال اکھ نو ملا کے
دل دیاں گلاں کراں گے روز روز بے کے سچیاں محبتاں نبھا کے
ستاوے مینو کیوں رولاوے مینو کیوں ایویں چوٹھا موٹھا رس کے رسا کے
دل دیاں گلاں ۔۔۔۔۔"
آن کے گانا ختم کرنے پر سب لڑکیوں نے تالیاں بجائیں اور ایک نے تو شرارت میں دو انگلیاں منہ میں رکھ کر سی ٹی بھی بجا دی جس پر پروفیسر ہاشم نے اسے گھور کر دیکھا۔
تبھی انتظامیہ کا ایک آدمی گھبرایا سا پروفیسر دانش کے پاس آیا اور انہیں کچھ بتانے لگا جسے سن کر پروفیسر دانش بھی پریشان ہو گئے۔
"سب لڑکیاں میری بات دھیان سے سنو۔۔۔۔سب اپنے اپنے کیمپ میں جائیں اور اچھی طرح سے کیمپ کی زپ بند کر لیں۔نہ ہی کوئی آواز کرنا اور نہ ہی لائٹ جلانا اور جب تک ہم نہیں کہتے کوئی باہر نہیں آئے"
پروفیسر کے پریشانی سے کہنے پر سب نے فکر مندی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"لیکن سر ہوا کیا؟"
"جو کہا ہے کرو۔۔۔۔"
پروفیسر کے حکم پر سب لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں تو پروفیسر دانش آن اور عرشمان کے پاس آیا۔
"آپ دونوں بھی اس ریڈ والے کیمپ میں چلے جائیں۔"
"لیکن ہوا کیا ہے؟"
عرشمان نے پریشانی سے پوچھا۔
"اس جنگل سے ایک جنگلی ریچھ تاریں توڑ کر کیمپنگ ایریا میں آ گیا ہے اس لیے سب کو انتباہ ہے کہ اپنے اپنے کیمپ میں خاموشی سے لائٹیں بند کر کے رہیں جب تک انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر واپس نہیں چھوڑ آتی۔۔۔۔"
آن سہم کر عرشمان کے بازو سے چپک گئی اور عرشمان نے بھی اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھاما اور اسے اپنے ساتھ اس کیمپ تک لے گیا۔
کیمپ کے اندر بس ایک ہی بستر تھا جو عرشمان جیسے آدمی کے لیے چھوٹا ہی ہونا تھا۔عرشمان نے کیمپ کی زپ ٹھیک سے بند کی اور آن کی طرف دیکھا جو سہم کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"مان اب کیا ہو گا۔۔۔۔؟"
خوف سے آن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔عرشمان اسکے پاس آیا اور اسے اپنی باہوں میں لے کر اس بستر پر لیٹ گیا اور اسکا چہرہ اپنے سینے میں چھپا لیا۔
"ڈرو مت کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"
عرشمان نے اسے حوصلہ دیا تبھی اس ایریا کی ساری لائٹیں بند ہو گئیں اور اب بس چاند ہی تھوڑی تھوڑی سی روشنی کر رہا تھا۔
"مان اگر وہ یہاں آ گیا تو؟"
آن نے سہمی سی آواز میں پوچھا۔
"تو اسے مجھ سے گزر کر تم تک پہنچنا ہو گا۔"
عرشمان نے عام سے انداز میں کہا۔آن کے اس خوف میں وہ پہلے جیسا مان بن چکا تھا۔
"نہیں مان آپ کو کھونے کی بجائے میں مرنا پسند کروں گی۔"
عرشمان کو آن کے آنسو اپنے سینے میں جزب ہوتے محسوس ہوئے۔تبھی فضا میں ریچھ کی دہاڑ گونجی تو آن مزید سہم کر عرشمان کے اندر چھپ گئی۔عرشمان اس ریچھ کا ہیولا کیمپ کے باہر دیکھ سکتا تھا۔
"مان۔۔۔"
"شششش۔۔۔۔"
عرشمان نے اسکے کان میں سرگوشی کر کے اسے خاموش رہنے کا کہا۔
"و۔۔۔وہ باہر ہی ہے ناں۔۔۔۔مان وہ کیمپ کو پھاڑ کر اندر آ جائے گا۔۔۔۔"
آن نے سرگوشی کی لیکن عرشمان چاہتا تھا وہ خاموش رہے کیونکہ اسکی سرگوشی بھی اس ریچھ کو ہوشیار کر رہی تھی۔
"مان مجھے ڈر۔۔۔۔"
اب کی بار عرشمان نے اسکا سر اپنے سینے سے نکالا اور اسے خاموش کرانے کے لیے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا۔عرشمان کے ایسا کرتے ہی آن کی آواز تو کیا اسکا سانس تک بند ہو گیا تھا۔عرشمان کی شرٹ کا کالر اپنے ہاتھ میں دبوچ کر آن خود پر اس اچانک حملے کے زیر اثر بری طرح سے کانپنے لگی تھی۔
دل ایسے تھا جیسے حلق سے اچھل کر باہر آ جائے گا۔باہر سے آنے والی آوازوں سے وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ انتظامیہ ریچھ کو پکڑ کر لے جا چکی ہے۔اسی بات سے آگاہ کرنے کرنے کے لیے آن نے عرشمان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن عرشمان کو اب ہوش ہی کہاں تھا۔
اس نے آن کے مزاحمت کرتے ہاتھ پکڑ اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیے اور اسکے لمس میں مزید شدت آ گئی۔آن کو لگ رہا تھا جیسے وہ اسکی سانسیں ہی پی جائے گا۔
اچانک ہی عرشمان نے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشی اور اسکے گلے سے دوپٹہ نکالتا اسکی گردن پر جھک گیا۔
"مان۔۔۔"
آن نے سہم کر اسے پکارا۔عرشمان کی وہ منمانیاں اسے بری طرح سے کپکپانے پر مجبور کر رہی تھیں۔
"مان پلیز۔۔۔۔"
"چپ آن آواز نہ آئے تمہاری ورنہ قسم کھاتا ہوں اس ریچھ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا تمہارے حق میں۔۔۔۔"
عرشمان بولنے سے زیادہ غرایا اور اپنے ہونٹ اسکی گردن پر رگڑتے ہوئے گستاخیاں کرنے لگا۔آن بے بسی سے تکیے کو اپنی مٹھیوں میں دبوچتی اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔
جان تو اسکی تب ہوا ہوئی جب اس نے اپنے کندھے سے شرٹ سرکتی محسوس کی اور عرشمان کا ہاتھ اسکی جان کا الگ وبال بنا ہوا تھا۔عرشمان نے اپنے ہونٹ اسکے کندھے پر رکھنے کے بعد اپنے دانت وہاں دبائے تو آن سسک کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔
"عرشمان صاحب۔"
پروفیسر دانش کی آواز پر عرشمان ہوش میں آیا اور اس نے اپنا چہرہ آن کی گردن سے نکالا۔
"جی؟"
عرشمان نے کیمپ کے باہر سے آتی ٹارچ کی ہلکی سی روشنی میں آن کے چہرے کے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ آپکو بتانا تھا کہ انتظامیہ نے ریچھ کو پکڑ لیا ہے اب اگر آپ باہر آنا چاہیں تو بے فکر ہو کر آ سکتے ہیں۔۔۔۔"
عرشمان بس آن کو دیکھنے میں مصروف تھا جو ابھی بھی آنکھیں زور سے میچے کپکپا رہی تھی۔
" ہم تھک گئے ہیں اب آرام کریں گے آپکا شکریہ۔۔۔۔"
عرشمان نے آن کے تھرتھراتے نازک لبوں کو پر تپش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو پروفیسر وہاں سے چلا گیا۔آن نے اپنی پلکیں اٹھا کر عرشمان کو دیکھا جو آن کو نہ جانے کن نظروں سے تکنے میں مصروف تھا۔
"سو جاؤ آن ملک ورنہ جو کرتے رک گیا اب نہیں رکوں گا۔۔۔۔"
عرشمان کی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی۔آن فوراً آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی۔عرشمان نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔
"بزدل۔۔۔۔"
اس نے زیر لب کہا اور پھر خود بھی سکون سے آنکھیں موند کر سو گیا۔وہ کچھ بھی کر لیتا اس بات سے انکار نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے سکون اپنی آن کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔
????
Comment