Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    بہت ہی شاندار کہانی۔ ہے آن بیچاری کے ساتھ بھورہ ہو رہا ہے اور عزم نے تو غزل کوسیدے راستے پے لا کے ہی رہے گا

    Comment


    • #52
      Originally posted by Man moji View Post


      پھر ویسے ہی پوسٹ کر دی لنک دیا ہے جو وہا سے سیکھ لے مہربانی کرے ۔
      janab (font to ma Times New Roman) select krta hun aur (Size 26/28) ma post Ki thi
      to ab problem Kya aur sath
      (Bold) kr data hun
      to janab ab hi bato kya ma (Font) na select krno
      aur sath kya
      (Bold) bi na krno janab ma hr update to ma asa krta hun
      hna ab na
      (Size 26/26) k kha tha
      to janab ab kya krna ha plz inform kr dya
      problem Kya hoi ha Kya(Bold) ni select krna
      Kya (font) ni select krna
      problem solve krya ta k update di ja ska
      [bosses]Bhot shukria[bosses]

      Comment


      • #53
        Zabardast ja rahi hai kahani..

        Comment


        • #54



          #زندگی_اے_تیرے_نال



          #قسط_نمبر_19





          لیزا جتنی تیز ہو سکتا تھا بھاگ رہی تھی۔پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اسے کہاں جانا ہے پھر اسکی نظر پولیس سٹیشن کے سائن بورڈ پر پڑی تو جلدی سے اس جانب بھاگ گئی۔



          پولی سٹیشن داخل ہو کر اس وہ ایک جگہ رکی اور گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔اتنا بھاگنے کی وجہ سے اسکا سانس بری طرح سے پھول چکا تھا۔



          لیکن اب اپنی منزل کے اتنا قریب پہنچ کر وہ ہار نہیں مان سکتی تھی۔وہ جلدی سے وہاں نظر آتے ایک کانسٹیبل کے پاس گئی۔



          "مجھے ایک شخص کے خلاف رپورٹ فائل کرنی ہے۔۔۔۔"



          لیزا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا تو کانسٹیبل اسکے انگلش میں بات کرنے پر گھبرا گیا۔



          "تو آپ ہمارے سردار کے پاس چلی جاتیں آپکا ہر مسلہ حل کر دینا تھا انہوں نے۔۔۔۔"



          کانسٹیبل نے اردو میں کہا۔



          "تمہیں انگلش نہیں آتی؟"



          لیزا کے پوچھنے پر کانسٹیبل گھبرا گیا۔



          "تھوڑی تھوڑی آتی ہے۔۔۔۔"



          لیزا نے گہرا سانس لیا تبھی اسکی نظر ایک کمرے کے باہر لگے بورڈ پر گئی جہاں پولیس انسپکٹر لکھا تھا۔لیزا فوراً دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو گئی۔



          "ایکسیوزمی سر مجھے رپورٹ فائل کرنی ہے۔۔۔"



          لیزا کی آواز پر اخبار پڑتے انسپیکٹر نے چہرے کے سامنے سے اخبار ہٹایا۔خباثت سے پان چباتے ہوئے اس نے لیزا کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا تھا۔



          "کس کے خلاف۔۔۔"



          انسپیکٹر کے انگلش میں پوچھنے پر لیزا نے شکر ادا کیا۔



          "عزم چوہدری کے خلاف اس نے مجھے زبردستی اپنے پاس رکھا ہے اور کسی بھی پل وہ یہاں آتا ہو گا اور مجھے اس سے چھٹکارا چاہیے۔۔۔۔"



          لیزا کی بات پر انسپکٹر نے ایک جانب پان تھوکا تو لیزا ناک چڑھا کر اسے دیکھنے لگی۔



          "عزم چوہدری اس گاؤں کا سردار ہے اس کے خلاف رپورٹ لکھوانے کا کوئی فایدہ نہیں انگریزی میم صاحبہ آپ ایک کام کرو میرے ساتھ چلو میں آپ کو عرشمان ملک کے گھر لے جاتا ہوں ۔اگر عزم چوہدری سے نپٹنے کی کوئی طاقت رکھتا ہے تو صرف عرشمان ملک۔"



          عرشمان کے ذکر پر لیزا کی آنکھوں میں چمک آئی۔ہاں وہ وہیں تو جانا چاہتی تھی۔عرشمان کو آن سے چھین کر اپنا مقدر بنانا چاہتی تھی۔



          "ٹھیک ہے مجھے لے چلو اسے پاس۔۔۔۔"



          لیزا کی بات پر انسپکٹر کی آنکھوں میں چمک آئی۔اس نے اپنی جیپ کی چابی پکڑی اور باہر کی جانب چل دیا تو لیزا بھی اسکے پیچھے چلنے لگی۔



          "صاحب میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔"



          کانسٹیبل نے آگے ہو کر گھبراتے ہوئے پوچھا۔



          "کیوں تو میرا باڈی گارڈ ہے کیا؟سکون سے بیٹھا رہ یہاں ایک تو عزم چوہدری کی وجہ سے کوئی اپنا مسلہ لے کر پولیس کے پاس نہیں آتا۔اگر یہ بیچاری میم صاحب آئی ہی ہے تو میں اسکی مدد نہ کروں۔۔۔۔تو یہاں کا دھیان رکھ میں انکا دھیان رکھ لوں گا۔۔۔۔"



          انسپیکٹر نے خباثت سے لیزا کو دیکھا جو انکے باتوں سے انجان پھر سے اسکی ہمراہی میں چلنے لگی۔کانسٹیبل چاہ کر بھی لیزا کو یہ نہیں بتا پایا کہ جس شخص پر وہ بھروسا کر رہی تھی وہ انتہائی گھٹیا انسان تھا۔



          لیزا انسپکٹر کے جیپ میں سوار ہوتے ہی اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔



          "تھینک یو سو مچ سر میری ہیلپ کرنے کے لیے۔میں واقعی اس شخص سے پریشان ہو چکی تھی۔۔۔۔"



          لیزا نے خوشی سے انسپیکٹر کو کہا تو انسپکٹر اپنے پان سے لال ہوئے دانت دیکھا کر مسکرانے لگا۔



          "ارے شکریہ کی کوئی بات نہیں آپ جیسی لڑکیوں کی مدد کرنا تو فرض ہے ہمارا۔۔۔۔"



          انسپیکٹر نے لیزا کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا اور لیزا جیپ کی کھڑکی سے باہر دیکھتی جلد از جلد ملکوں کی حویلی پہنچنے کا انتظار کرنے لگی۔



          کچھ دیر بعد انسپکٹر نے گاڑی سنسان کھیتوں میں لا کر روک دی تو لیزا نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔



          "کیا ہوا سر گاڑی خراب ہو گئی کیا؟"



          لیزا نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا کیونکہ دور دور تک کوئی مکینک کی دکان تک تو دور کوئی گھر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔



          "گاڑی نہیں نیت ضرور خراب ہو گئی ہے جان من۔۔۔۔"



          اچانک ہی انسپکٹر نے لیزا کی دودھیا کلائی اپنے ہاتھ میں تھام لی تو ایک چیخ لیزا کے ہونٹوں سے نکلی۔



          "یہ کیا کر رہے ہو پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔۔؟"



          لیزا نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔خوف سے اسکا دل بند ہو رہا تھا۔



          "ارے پاگل تو وہ ہے جس نے تجھ جیسے حسین بلا کر بھاگنے دیا فکر مت کر میں اتنا رحم دل ثابت نہیں ہوں گا۔۔۔۔"



          انسپیکٹر نے لیزا کے قریب ہونا چاہا تو اسکے منہ سے پان کی بو پر لیزا کا دل متلا گیا۔اس نے پوری طاقت لگا کر انسپکٹر کو دھکا دے کر خود سے دور کیا اور جلدی سے جیپ سے نکل کر بھاگنے لگی۔



          خوف سے اسکے لیے بھاگنا تک مشکل ہو گیا تھا جبکہ دوپٹہ اور جوتا تو گاڑی سے نکلتے ہی اس سے جدا ہو گیا تھا۔وہ بس ابھی اتنا جانتی تھی کہ اسے خود کو اس درندے سے بچانا تھا۔



          بھاگتے بھاگتے اسکے نازک پیروں میں کتنے ہی کانٹے اور پتھر چبھے تھے لیکن وہ پھر بھی بھاگتی رہی۔اچانک ہی وہ انسپکٹر اسکے پاس پہنچا اور اس نے لیزا کا ہاتھ پکڑ کر اسے زور کا جھٹکا دیتے ہوئے اپنی جانب کھینچا۔



          "بہت بھاگ لیا میری انگریزی میم اب زرا کام کی بات پر آتے ہیں۔۔۔۔۔"



          اس نے لیزا کا منہ ایک ہاتھ میں دبوچ کر اس کے ہونٹوں پر جھکنا چاہا تو لیزا اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی لیکن جب اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو حیرت سے آنکھیں کھولے اب اس انسپیکٹر کو دیکھنے لگی جو چاند کی روشنی میں زمین پر پڑا نظر آ رہا تھا جبکہ ناک سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔



          لیزا کو محسوس ہوا کہ کوئی اسکے قریب کھڑا ہے تو لیزا نے جلدی سے اسکی جانب دیکھا تو آنکھوں میں شکرانے کے آنسو آ گئے کیونکہ وہ شخص اور کوئی نہیں اسکا شوہر عزم تھا جو اس انسپکٹر کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسکی جان نکال دے گا۔



          "تیری اتنی مجال پولیسیے کہ تو اسے اپنے گندے ہاتھوں سے چھوئے۔۔۔۔۔جانتا ہے یہ کون ہے۔۔۔۔۔"



          عزم انسپیکٹر کے قریب ہوا اور اپنا پیر اسکے ہاتھ پر رکھ دیا تو انسپیکٹر درد سے کراہ اٹھا۔



          "عزم چوہدری کی عزت ہے یہ لڑکی اسکی بیوی ہے اور تو نے ان ہاتھوں سے اسے چھوا۔۔۔۔"



          عزم نے نفرت سے اپنے پیر کے نیچے موجود ہاتھ کو دیکھا اور پھر انسپیکٹر کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا۔



          "تیرا فرض لوگوں کی حفاظت ہے اور تو ہی انکا لٹیرا بن رہا ہے۔۔۔۔"



          اتنا کہہ کر عزم نے اتنی زور سے اسکے منہ پر مکا مارا کہ انسپیکٹر کے دو دانت ٹوٹ کر زمین پر گر گئے۔



          "مم۔۔۔۔معاف کر دو ۔۔۔۔چچچ۔۔۔۔۔چوہدری جی۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ۔۔۔۔یہ آپکی ببب۔۔۔۔بیوی۔۔۔۔"



          انسپیکٹر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی عزم نے ایک زور دار گھونسہ اسکے پیٹ میں مارا تو وہ درد سے کراہ اٹھا۔



          "تو نے میری عزت پر نگاہ ڈالی انسپیکٹر تیرا گناہ بہت زیادہ بڑا ہے۔۔۔۔"



          اتنا کہہ کر عزم نے اسے پاس کھڑے غلام کی جانب پھینکا۔



          "گاڑی کے نیچے دے کر ہاتھ کچل دے اسکے تا کہ کسی کی بیوی تو کیا اپنی بیوی کو چھونے کے بھی قابل نہ رہے یہ۔۔۔۔"



          عزم کی بات پر انسپکٹر کی روح تک خوف سے فنا ہو گئی لیکن غلام اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر کھینچ کر سڑک کے پاس لے گیا جہاں انکی گاڑی اور آدمی کھڑے تھے۔



          انکے جاتے ہی عزم لیزا کے پاس آیا جو تب سے سہمی سی وہاں کھڑی انتظار کر رہی تھی کہ عزم کب اسکی غلطی کی وجہ سے اس پر چلانا شروع ہو۔عزم کچھ فاصلے پر کھڑی انسپیکٹر کی گاڑی کے پاس گیا اور وہاں سے لیزا کا دوپٹہ لا کر اس نے لیزا کے سر پر دے کر اچھی طرح سے اس کے گرد لپیٹ دیا تو لیزا نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے عزم کے سینے سے لپٹ گئی۔



          "آئی ایم سوری۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔آئی ایم سو سوری۔۔۔۔"



          لیزا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔اگر یہ شخص آج یہاں نہیں آتا تو اپنا انجام لیزا سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔تبھی گاڑی چلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی انسپکٹر کی دل خراش چیخیں فضا میں گونجی تھیں۔خوف محسوس کرتے لیزا کا روم روم کانپ اٹھا اور وہ مزید روتے ہوئے عزم سے لپٹ گئی۔



          "ششش۔۔۔۔میری ولایتی چوزی تم تو میری شیرنی ہو ناں پھر اتنا کیسے ڈر گئی میرے ہوتے ہوئے کچھ ہو سکتا ہے تمہیں۔۔۔۔"



          عزم کے انتہائی زیادہ محبت بھرے لہجے پر لیزا مزید رونے لگی۔عزم اس پر غصہ کرتا تو شائید وہ تھوڑا سنبھل جاتی لیکن اسکی اس نرمی اور محبت پر لیزا مزید ٹوٹ کر بکھری تھی۔



          "مم ۔۔۔۔میں تم سے دور جانا چاہتی تھی۔۔۔۔آآآ۔۔۔۔۔آزاد ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔مجھے لگا کہ مم۔۔۔۔مجھے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔۔۔اپنا خیال رکھ لوں گی۔۔۔۔لیکن اگر آج تم نہیں آتے تو۔۔۔۔"



          اتنا کہہ کر لیزا پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور عزم نے بے ساختہ اسکی کمر سہلا کر اسے دلاسہ دیا۔



          "میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا ولایتی چوزی ہمیشہ۔۔۔۔"



          عزم نے اسکا چہرہ اپنے سینے سے نکالا اور اسکے آنسؤں کو انگلی کی پوروں سے صاف کر دیا۔



          "بس پھر سے میری دیسی شیرنی بن جاؤ تم جو خود کو دیکھنے والے کی بھی آنکھیں نوچ لے۔۔۔۔"



          عزم نے مسکرا کر کہا تو لیزا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسکے بھاگنے پر غصہ کرنے کی بجائے اتنی محبت سے پیش کیوں آ رہا تھا۔



          "چلو گھر واپس چلتے ہیں۔۔۔۔۔"



          عزم نے اسے اپنے ساتھ لگا کر چلانا چاہا۔



          "سسسس۔۔۔۔"



          لیزا کی سسکی پر عزم نے حیرت سے اسکے پیروں کا دیکھا جو اس کانٹے دار راستے پر جوتوں کے بغیر تھے۔ہلکا سا جھک کر عزم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو لیزا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔



          "کچھ کھایا پیا کرو ولایتی چوزی پھول جتنا وزن ہے تمہارا یہاں تیز آندھیاں آتی رہتی ہیں اڑ نہ جانا۔۔۔۔۔"



          عزم نے اسے گاڑی کی جانب لے جاتے ہوئے کہا اور لیزا خواب کی سی کیفیت میں اسے دیکھتی جا رہی تھی۔



          "مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔۔"



          اس نے اپنا اکثر ہی کہا جانے والا ڈائیلاگ پھر سے دہرایا۔



          "اففففف یہ انگریزی جلد از جلد اردو سیکھانے پڑے گی تمہیں ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔۔۔۔"



          عزم شریر انداز میں کہتے ہوئے اسے گاڑی کے پاس لے آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔



          "ممم۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے اپنے ڈیڈ کے پاس جانا ہے۔۔۔۔"



          لیزا نے چھوٹے بچوں کی طرح عزم کے سینے میں منہ چھپا کر روتے ہوئے کہا۔سچ تو یہ تھا کہ وہ ابھی بھی اس واقعے اور شخص کے خوف سے باہر نہیں آئی تھی۔



          "ششش میری چھوٹی سی جان میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔۔"



          عزم نے اسے اپنے سینے میں چھپاتے ہوئے کہا تو اسکی مظبوط باہوں کے حصار کو محسوس کرتے ہوئے لیزا سکون سے آنکھیں موند گئی۔اسکے دل کو یقین تھا کہ اس شخص کے ہوتے ہوئے کوئی لیزا کو چھو بھی نہیں سکتا جبکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کچھ ہونے کے خیال سے اس مظبوط شخص کا دل بھی پر خوف تھا اور اپنے اس خوف پر وہ خود بھی حیران تھا۔

          ????

          سلطان اتنے دن کے بعد واپس آیا تھا اس لیے اسکا کام معمول سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے گھر کے لیے نکلتے کافی دیر ہو چکی تھی۔



          "آخر کار واپس آ ہی گئے تم سلطان ملک مجھے تو لگا تھا کہ تمہارا کوئی ارادہ ہی نہیں

          ۔۔۔۔۔"



          ایک خوشگوار آواز پر سلطان نے حیرت سے مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا۔



          "ماہم۔۔۔۔"



          اپنی بزنس پارٹنر کو دیکھ کر سلطان کافی خوش ہوا کیونکہ وہ اسکی بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ کافی اچھی دوست بھی تھی۔



          "زہے نصیب مسٹر آپکو ہم یاد ہیں ہمیں تو لگا بھائی کی شادی نے آپکی یاداشت ہی چھین لی ہے جو واپس آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔"



          ماہا نے سلطان کے پاس آتے ہوئے پوچھا۔



          'ایسی کوئی بات نہیں بس زرا مصروفیت تھی تم بتاؤ حاشر کیسا ہے۔۔۔؟"



          سلطان نے ماہم کے خاوند کے بارے میں پوچھا۔



          "وہ تو ٹھیک ہے میں ہی ٹھیک نہیں سر میں بری طرح سے درد ہو رہا ہے اپنے گھر لے جا کر اچھی سی چائے پلا تو میں تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔"



          ماہم کے شرارت سے کہنے پر سلطان ہلکا سا ہنس دیا۔



          "شیور۔۔۔۔"



          سلطان نے اسے گاڑی کی جانب اشارہ کیا تو ماہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور سلطان بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے لگا۔



          "ویسے تم کب شادی کر رہے ہو بھائی دیکھو میں نہیں چاہتی کہ میرا اچھا دوست بوڑھا ہو کے شادی کرے۔۔۔"



          ماہم کے شرارت سے کہنے پر ایک افسردہ سی مسکراہٹ سلطان کے چہرے پر آئی۔



          "ماہم وہ۔۔۔۔تمہیں کچھ بتانا ہے۔۔۔"



          سلطان کی گھبراہٹ پر ماہم نے حیرت سے اسے دیکھا۔



          "کیا ہوا؟"



          ماہم کے پوچھنے پر سلطان نے گہرا سانس لیا اور اسے اپنے اور کنیز کے نکاح ہے بارے میں ہر بات بتا دی جسے سننے کے بعد ماہم منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔



          "تم شادی کر چکے ہو؟ او مائے گاڈ یار یہ بات تو حاشر کو بتانی چاہیے۔۔۔۔"



          ماہم میں فوراً اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔



          "کیا ہوگیا ہے ماہم میں نے یہ بات تمہیں سیلیبریٹ کرنے کے لیے نہیں بتائی بلکہ اپنی مشکل تمہارے سامنے بیان کی ہے۔۔۔۔۔"



          سلطان نے اسے بتایا لیکن اس کا دھیان سلطان پر تھا ہی کب وہ تو اپنے شوہر کو کال ملانے میں مصروف تھی۔



          "ہیلو حاشر تمہیں پتہ ہے سلطان نے شادی کر لی یار دیکھو کتنا چھپا رستم نکلا یہ۔۔۔۔"



          ماہم نے شرارت سے سلطان کی طرف دیکھا۔



          "ہاں تو معاف تو نہیں کرنے والے اسے۔اسے کیا لگا چپ چاپ شادی کر کے بچ جائے گا کنجوس مکھی چوس کہیں کا تم فکر مت کرو میں ہوں ناں اسکے اندر سے ٹریٹ نکوالوں گی۔۔۔"



          ماہم نے سلطان کو دیکھ کر شرارت سے کہا اور سلطان گہرا سانس لے کر رہ گیا۔آخر کار سلطان نے اپنے گھر کے باہر گاڑی روکی تو ماہم نے فون بند کیا اور فوراً گاڑی سے باہر نکل آئی۔



          "کہاں ہے وہ مجھے فوراً دیکھنا ہے اسے۔۔۔"



          ماہم نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا اور سلطان بس اسے روکتا رہ گیا۔ماہم کو یہ بات بتا کر اب وہ خود پچھتا رہا تھا۔



          گھر میں داخل ہونے پر سلطان کچن سے آنے والے شور پر اس طرف چل دیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر جم سا گیا۔



          کنیز اس وقت اسکی شلوار قمیض میں ملبوس شائید کچھ بنانے میں مصروف تھی جبکہ گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تک آتے بال کھلے تھے۔سلطان نے آج پہلی بار اسکے کھلے بال دیکھے تھے ورنہ وہ تو چوٹی بنا کر اور دوپٹہ لے کر رکھتی تھی۔



          اچانک ہی کنیز فروٹس کا بول پکڑ کر مڑی تو وہاں سلطان کو کھڑا دیکھ کر خوف سے اچھل پڑی اور بول سمیت سارے پھل زمین بوس ہو گئے۔



          "مممم۔۔۔۔معافی سائیں۔۔۔"



          اتنا کہہ کر کنیز زمین پر بیٹھ گئی اور ہلکا سا جھک کر وہ پھل اٹھانے لگی۔قمیض کا اوپری بٹن کھلا تھا اور وہ اسکے نازک وجود کے لیے بہت بڑی تھی جسکی وجہ سے سلطان اسکو دیکھ کر ضبط سے اپنی آنکھیں موند گیا۔



          "یہ تم نے کیا پہن رکھا ہے؟"



          سلطان کے سختی سے پوچھنے پر کنیز جلدی سے کھڑی ہوئی اور پھل کاؤنٹر پر رکھ کر جلدی سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھ لیا۔



          "وہ۔۔۔۔میرے پاس کپڑے نہیں تھے اور ان کپڑوں پر سالن گر گیا تھا تتت۔۔۔۔تو میں نے نہا کر آپ کے کپڑے پہن لیے۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے معاف کر دیں سائیں۔۔۔۔"



          کنیز بری طرح سہم چکی تھی اسی لیے گھبراتے ہوئے صفائی پیش کرنے لگی اور سلطان کو یاد آیا کہ اس نے اسے شاپنگ پر لے کر جانا تھا۔اسکا دل کیا اپنی جان لے لے کہاں ایک طرف یہ لڑکی تھی جو اپنا جی جان سب اس کی خدمت میں لگا دیتی تھی اور ایک طرف سلطان تھا جس نے ایک پل کے لیے بھی اسکا خیال نہیں رکھا تھا۔



          "کہاں چھپا رکھا ہے تم نے اسے سلطان ملک بتاؤ مجھے ورنہ۔۔۔۔"



          ماہم نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا لیکن کنیز کو دیکھ کر اسکے الفاظ منہ میں ہی اٹک گئے۔



          "سلطان تم نے اتنی چھوٹی سی لڑکی سے شادی کی ہے یار۔۔۔۔اف کتنے سال کی ہو تم بیٹا۔۔۔۔۔"



          ماہم نے کنیز کے پاس آ کر اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے کہا تو کنیز گھبرا کر سلطان کو دیکھنے لگی۔



          "سس۔۔۔۔سترہ سال کی ہوں باجی۔۔۔۔"



          "باجی ۔۔۔۔اوہ گاڈ گرل نیور ایور کال می باجی اگین۔۔۔۔"



          ماہم نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا تو کنیز اسکی انگلش سن کر اب مزید اضطراب میں آ چکی تھی۔



          "ماہم ہم باہر بیٹھتے ہیں۔۔۔۔نوری تم ہمارے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔"



          کنیز نے فوراً اثبات میں سر ہلایا تو ماہم سلطان کے ساتھ باہر لان میں آ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔



          "سلطان وہ کتنی کیوٹ ہے یار دل کرتا ہے اپنے بیگ میں ڈال کے گھر لے جاؤں اسے۔۔۔۔"



          ماہم کی بات پر سلطان نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔



          "سوچنا بھی مت کچھ بھی برداشت کر سکتا ہوں لیکن اسے مجھ سے دور لے جانے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔"



          سلطان کی سختی پر ماہم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔



          "ہائے اتنی پوزیسسیونیس اس معصوم سی گڑیا کے لیے۔۔۔اتنی ہی پسند ہے وہ تمہیں تو پرابلم کیا ہے؟"



          ماہم کے سوال پر سلطان نے ٹھنڈی آہ بھری۔



          "میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے امی نے مجھے یہی کہا ہے کہ میری شادی صرف انابیہ سے ہو گی اور یہ انکی سب سے بڑی خواہش ہے ماہم اور اگر اب انہیں یہ پتہ چلا کہ میں اپنی مرضی سے شادی کر چکا ہوں تو وہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔۔۔میں انہیں خفا نہیں کر سکتا ماہم۔"



          سلطان نے اپنی آنکھوں کے درمیان کا حصہ اپنی انگلیوں میں تھام لیا۔



          "یار کیا ہو گیا ہے تم بتا دو انہیں شروع میں غصہ کریں گی پھر مان ہی جائیں گی ناں۔۔۔"



          سلطان نے اپنا سر انکار میں سر ہلایا۔



          "وہ اپنی بہن سے ان کے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں ماہم انکا دل ٹوٹ جائے گا۔۔۔"



          ماہم نے گہرا سانس لے کر سلطان کو دیکھا۔



          "دیکھو سلطان تم یہاں صرف اپنی ماں کے بارے میں سوچ رہے ہو جبکہ تمہیں دونوں کے بارے میں۔۔۔۔"



          "سائیں چائے۔۔۔"



          کنیز کی آواز پر دونوں کا دھیان کنیز کی جانب گیا جو سلیقے سے سر پر دوپٹہ سجائے چائے کے ساتھ کافی سارے لوازمات لے کر وہاں آئی تھی۔سلطان کے اثبات میں سر ہلانے پر کنیز نے ٹرے ٹیبل پر رکھ دی اور چائے کا کپ پکڑ کر پہلے سلطان اور پھر ماہم کی جانب کیا۔



          "گڑیا چھوڑو کن فارمیلیٹیز میں پڑھ گئی ہو یہاں بیٹھو میرے پاس۔۔۔۔"



          ماہم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھایا۔تبھی سلطان کا فون بجنے لگا تو وہ ایکسیوزمی کہتا اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔



          "یو آر جسٹ ٹو مچ کیوٹ۔۔۔۔"



          ماہم نے کنیز کے گال کھینچ کر کہا۔



          "آپ شادی شدہ ہیں؟"



          کنیز کے پوچھنے پر ماہم نے اثبات میں سر ہلایا تو کنیز کو لگا اسکے دل سے ایک بوجھ اتر گیا ہو۔



          "آپ بھی سائیں جی کی فاسنے ہیں کیا۔۔۔؟"



          "فاسنے؟"



          ماہم نے ابرو اچکا کر پوچھا۔



          "جج۔۔۔جی سائیں نے بتایا تھا فاسنے دوست کو کہتے ہیں جیسے انابیہ باجی انکی فاسنے ہیں آپ بھی انکی دوست ہیں کیا؟"



          اسکی گھبراہٹ سے ماہم اندازہ لگا گئی کہ وہ سلطان اور اسکو لے کر گھبرا رہی تھی۔ماہم کو سمجھ آیا کہ وہ فیانسے کو فاسنے کہہ رہی ہے تو اسکا دل کیا سلطان کا منہ توڑ دے۔اسے بے ساختہ اس معصوم گڑیا پر رحم آیا۔



          "نہیں میری جان تم مجھے سلطان کی بڑی بہن اور اپنی نند سمجھو۔۔۔۔"



          ماہم نے پھر سے کنیز کا گال کھینچا تو کنیز شرما کر اپنا سر جھکا گئی۔



          "ویسے جتنی تم پیاری ہو ناں چٹکیوں میں سلطان کو اپنا دیوانا بنا لو گی بس جورو کا غلام بنا لو اسے تا کہ میرا شوہر بھی اسے جورو کا غلام کہہ کر بدلہ اتار لے۔۔۔۔"



          ماہم نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا تو کنیز کے چہرے پر شرم کی جگہ گہری افسردگی ابھری۔



          "ممم۔۔۔۔میں سائیں کو اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔انہیں تو اپنے جیسی پڑھی لکھی بیوی چاہیے تھی ناں اور میں تو۔۔۔۔"



          اچانک ہی کنیز کو ایک خیال آیا تو اس نے بہت امید سے ماہم کو دیکھا۔



          "آپ مجھے پڑھائیں گی باجی۔۔؟اپنی جیسی انگریزی بولنا سیکھا دیں گی پھر میں بھی سائیں کو اچھی لگوں گی وہ سب گاؤں میں سب کو بتا سکیں گے کہ میں انکی بیوی ہوں م۔۔۔"میڈ نہیں۔۔۔"



          آخری بات کنیز نے اپنے دل میں ہی کہی۔



          "سلطان ملک آئی سوئیر آئی ول کل یو فار دس۔۔۔۔"



          ماہم نے غصے سے کہا تو کنیز حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔



          "تم فکر مت کرو میں نہ صرف تمہیں انگلش سیکھاوں گی بلکہ ایسا بناؤں گی کہ یہ سلطان اپنی کنیز کے پیروں میں گر جائے گا۔۔۔"



          ماہم نے کچھ سوچ کر مسکراتے ہوئے چائے کی چسکی لی۔وہ جانتی تھی اسے کیا کرنا تھا۔

          ????

          صبح ہوتے ہی عرشمان اور آن بائے روڈ مری کے لیے نکل چکے تھے۔اماں بی نے تو عرشمان کو ڈرائیور کو ساتھ لے جانے کا کہا تھا لیکن عرشمان نے انکار کر دیا تھا اسی لیے اب وہ خود ہی کار ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ آن اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی مسکراتے ہوئے پاس سے گزرتے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی۔



          "آپکو پتہ ہے مان میرے سکول کالج میں اتنے ٹورز مری گئے۔میری دوستوں نے بھی مجھے ساتھ آنے کو کہا لیکن میں نہیں گئی کیونکہ مجھے یہ نظارے بس آپ کے ساتھ دیکھنے تھے۔۔۔۔"



          آن نے عرشمان کی جانب مڑتے ہوئے کہا جو خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔



          "اتنے پسند ہیں ناں مجھے پہاڑ کہ دل کرتا ہے ان میں کھو جاؤں اور پھر کبھی واپس نہ جانا پڑے۔۔۔۔"



          آن نے پہاڑوں کو خواب کی سی کیفیت میں دیکھتے ہوئے کہا۔وہ اتنا سفر گزرنے کے باوجود مری سے کچھ فاصلے پر تھے۔



          "پھر آپکو پتہ ہے۔۔۔"



          "بس بھی کر دو اور کتنا بولو گی تم۔۔۔۔"



          اچانک ہی عرشمان نے سختی سے کہا تو آن منہ بنا کر اسے دیکھنے لگی۔



          "ہیلو مسٹر اپنا یہ سڑا بیحیو اب ٹھیک کر لیں ہنی مون زندگی میں ایک بار آتا ہے اور میں اپنے سڑے بیحیو کی وجہ سے اپنا ہنی مون برباد نہیں کرنے والی۔۔۔۔"



          آن خود نہیں جانتی تھی کہ وہ غصے میں کیا کہہ چکی تھی۔



          "اگر تمہاری یہی حرکتیں رہیں تو ہنی مون برباد جانے بھی نہیں دوں گا۔۔۔۔"



          عرشمان نے پر تپش نگاہوں سے اسے سر سے پر پیر تک دیکھا اور پھر گہرا سانس لے کر ڈرائیو کرنے لگا۔



          "مان۔۔۔"



          "بس آن چپ آواز نہ آئے اب تمہاری۔۔۔۔"



          عرشمان نے سختی سے کہا تو آن منہ پھلا کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔وہ ان پلوں کو کھل کر جینا چاہتی تھی اپنی محبت سے عرشمان کی ناراضگی دور کرنا چاہتی تھی لیکن عرشمان اسے موقع ہی نہیں دے رہا تھا۔



          آن کا دھیان گاڑی میں لگے پلئیر پر گیا تو اس نے اسے آن کیا۔



          "یہ کیا کر رہی ہو؟"



          عرشمان نے حیرت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔



          "اب آپ تو بولنے نہیں دے رہے ایٹ لیٹس سانگز تو لگا ہی سکتی ہوں ناں۔۔۔"



          آن نے مسکرا کر کہا اور گانے کا ٹائٹل دیکھے بغیر ہی اسے سٹارٹ کر دیا۔



          "تیرے سامنے آ جانے سے یہ دل میرا دھڑکا ہے

          یہ غلطی نہیں ہے تیری قصور نظر کا ہے۔۔۔"



          گانے کی آواز گاڑی میں گونجنے پر آن نے مسکرا کر عرشمان کو دیکھا لیکن اگلے بول سن کر وہ پاؤں کے ناخن تک سرخ ہوئی تھی۔



          "جس بات کا تجھ کو ڈر ہے وہ کر کے دیکھا دوں گا۔

          ایسے نہ مجھے تم دیکھو سینے سے لگا لوں گا

          تم کو میں زرا لوں گا تم سے دل میں چھپا لوں گا۔۔۔۔"



          آن نے فوراً اپنا کانپتا ہاتھ آگے بڑھا کر گانا چینج کیا۔



          "آج پھر تم پہ پیار آیا ہے

          بے حد اور بے حساب آیا ہے۔۔۔۔"



          آن نے اب کی بار گھبرا کر عرشمان کو دیکھا جو بمشکل اپنی مسکان کا گلا گھونٹ رہا تھا۔آن نے پھر سے گانا چینج کیا۔



          "لبوں کو لبوں پہ سجاؤ۔۔۔۔"



          آن نے اتنا سن کر ہی میوزک پلیئر بند کر دیا۔جسم کا پورا خون سمٹ کر چہرے پر آ چکا تھا۔عرشمان اسکی حالت دیکھ کر مزید اپنی ہنسی پر ضبط نہیں کر سکا۔



          "ہو گیا گانوں کا شوق پورا؟"



          آن نے منہ بسور کر اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا۔



          "استغفار مان کیسے گانے رکھے ہیں آپ نے پاس۔۔۔۔"



          "ہاں تو تمہارا قصور ہے تمہیں کس نے کہا تھا اسے چلانے کو۔۔۔"



          اسکی بات پر آن اندر ہی اندر خوش ہوئی تھی۔وہ پل بھر کے لیے ہی سہی لیکن غصہ بھلا کر پرانا مان بن چکا تھا۔



          "مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ نے ایسے گانے رکھے ہیں پتہ ہوتا تو نہیں چلاتی میں۔۔۔۔۔"



          آن نے منہ بسور کر کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔



          "یہ گانے نہیں میرے ارادے ہیں۔۔۔۔"



          عرشمان کی بات پر آن کا روم روم کانپ گیا۔عرشمان نے دلچسپ نگاہوں سے اسکے چہرے پر آئے رنگوں کو دیکھا۔



          "کاش وہ سب نہ ہوا ہوتا آن جو ہوا تو یہ پل تمہاری سوچ سے زیادہ حسین ہوتے۔۔۔۔"



          عرشمان کی مٹھیاں سٹیرنگ ویل پر خود بخود مظبوط ہوئی تھیں۔اسکا مان پھر سے اپنے خول میں بند ہو رہا تھا۔



          "مان۔۔۔۔"



          "خاموش ہو جاؤ ورنہ قسم کھاتا ہوں یہیں سے واپس لے جاؤں گا پھر چاہے اماں بی کچھ بھی کہتی رہیں مجھے فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔"



          عرشمان نے اتنی سختی سے کہا کہ آن خوف سے اچھل کر اسے دیکھنے لگی۔



          "سب بھول کر مجھے معاف نہیں کر سکتے آپ ؟"



          آن نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔



          "نہیں۔۔۔۔چاہ کر بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔"



          عرشمان نے دانت کچکچا کر کہا اور آن کھڑکی سی باہر دیکھتی خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔اپنے روٹھے ساجن کو منانے کے لیے اسے جانے کتنے جتن اور کرنے تھے۔

          Comment


          • #55

            #زندگی_اے_تیرے_نال



            #قسط_نمبر_20





            دوپہر کے ایک بچے لیزا کی آنکھ کھلی تو اس نے گھومتے سر کے ساتھ چھت کو دیکھا۔رات کا گزرا ہر پل یاد کر کے وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔اسے یاد تھا کہ عزم اسے اس گھٹیا انسان سے بچا کر گھر لایا تھا اور پھر اس نے اسے ایک دوائی دی تھی جسے کھا کر لیزا سو گئی اسکے بعد کچھ بھی لیزا کو یاد نہیں تھا۔



            "ارے اٹھ گئیں آپ چوہدراین جی۔۔۔۔"



            روپ نے لیزا کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔



            "وہ کل رات میں۔۔۔۔کیا تم میرے پاس تھی۔۔۔۔؟"



            لیزا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ روپ سے کیا پوچھے۔



            "میں تو نہیں چوہدری جی تھے آپ کے پاس۔پتہ ہے آپکو آپکے پاؤں پر کانٹے چبھے ہوئے تھے اپکے سونے کے بعد چوہدری جی نے خود آپکے پیروں سے وہ کانٹے نکالے اور پھر آپ کے پیروں پر مرہم لگایا۔اب کیسا محسوس ہو رہا ہے آپ کے پیروں کو۔۔۔۔"



            روپ کی بات پر لیزا مزید حیران رہ گئی۔اس نے تو سوچا تھا کہ عزم اسکے بھاگنے کی حرکت پر اس پہ بہت زیادہ غصہ کرے گا لیکن عزم کی یہ نرمی لیزا کو حیران کر رہی تھی۔اس نے اپنے پیروں پر سے کمفرٹر ہٹا کر اپنے پیر دیکھے جہاں دوائی ابھی بھی لگی تھی۔



            نہ جانے کیوں اسے یوں خود کا خیال رکھتے ہوئے سوچا کر لیزا کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔



            "ایک بات پوچھوں تم سے۔۔۔۔"



            لیزا نے اپنے پیر پر لگی ایک خراش کو ہلکے سے چھوتے ہوئے پوچھا۔



            "ضرور۔۔۔۔"



            "ولایتی چوزی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟"



            لیزا کے سوال پر روپ ہلکا سا ہنس دی اور لیزا کو مطلب بتایا جس پر لیزا کے ماتھے پر بل لیکن ہونٹوں پر مسکان آئی تھی۔



            "اور د۔۔۔دیسی شیرنی کا۔۔۔۔؟"



            لیزا نے پھر سے خواب کی سی کیفیت میں پوچھا۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ ان باتوں کا مطلب کیوں جاننا چاہ رہی تھی جو عزم اسے پکارتا تھا۔عزم نے تو اسے زبردستی یہاں قید کر کے رکھا تھا ناں اسے تو عرشمان کے پاس جانا تھا اسے آن سے چھیننا تھا۔لیزا نے اپنا مقصد یاد کرتے ہوئے سوچا جو نہ جانے کیوں اب اسے بلا جواز لگتا تھا۔اسکی ضد تو نکاح کے بعد سے جیسے کہیں جا سوئی تھی۔



            "دیسی کہتے ہیں خالص کو جو زیادہ تر یہاں کے پنجابی لوگوں کو سمجھا جاتا ہے اور شیرنی لائنیس کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔"



            روپ کے بتانے پر لیزا نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا۔



            "آپ چوہدری جی کو اپنے نازک وجود سے ولایتی چوزی جبکہ اپنے جزبے اور بہادری سے دیسی شیرنی لگتی ہیں۔۔۔۔"



            روپ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا تو لیزا کو عزم کی کل رات کہی باتوں کا مطلب سمجھ میں آیا۔وہ کل رات بھی اسے بہادر ہونے کو کہہ رہا تھا،شیرنی بننے کو کہہ رہا تھا اور لیزا تو سوچتی تھی کہ وہ اسے یہاں کی کمزور اور ڈرپوک عورتوں کی طرح ڈرا کر رکھنا چاہتا ہے۔



            دروازہ کھلنے کی آواز پر لیزا کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور اس نے حیرت سے چہرہ اٹھا کر عزم کو دیکھا۔اس وقت وہ آسمانی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔لیزا نے غور کیا کہ اسکا قد کافی لمبا تھا شائید چھے فٹ سات انچ تک اور قامتی جسم اسکے باقاعدگی سے کثرت کرنے کا گواہ تھا۔گندمی سی رنگت پر نارمل سی داڑھی اور وہ گھنی مونچھیں مزید بھلی دیکھتی تھیں جبکہ بال سیدھے اور دیکھنے میں کافی ملائم معلوم ہوتے تھے۔



            لیزا نے آج پہلی مرتبہ اسے اتنی توجہ سے دیکھا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اسکا زبردستی بنائے جانے والا شوہر کافی ہینڈسم تھا شائید عرشمان سے بھی زیادہ۔



            "اب کیسی طبعیت ہے تمہاری؟"



            عزم کے پوچھنے پر روپ نے عزم کا سوال انگلش میں دہرایا۔



            "اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔ان سے بولو میری مدد کرنے کا شکریہ۔۔۔۔"



            لیزا نے عزم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔جبکہ روپ کے اسکی کہی بات اردو میں بتانے پر عزم کے ماتھے پر بل آئے تھے۔



            "ایسی کونسی ضرورت پڑی تھی تمہیں بھاگنے کی بولا تھا ناں کہ خود لے جاؤں گا پولیس سٹیشن شوق پورا کر لینا پھر کیا ضرورت تھی وہاں اکیلے جانے کی اگر میں وہاں نہیں پہنچتا تو سوچا ہے کیا ہو جاتا۔۔۔۔"



            عزم کے اتنے غصے سے یہ بات کہنے پر روپ نے گھبرا کر لیزا کو دیکھا اور اسے ہر بات بتا دی جبکہ رات کہ بعد اب عزم کو غصہ کرتا دیکھ لیزا کے ماتھے پر بل آئے اور وہ اپنے پیر میں موجود تکلیف کو نظر انداز کرتی اٹھ کر عزم کے پاس آئی۔



            "کیونکہ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ سنا تم نے۔۔۔۔۔"



            عزم نے اب باقاعدہ دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔



            "تو کہاں جانا ہے تمہیں ہاں ملکوں کی حویلی کون ہے تمہارا وہاں وہ عرشمان۔۔۔۔؟"



            عزم جو جنون میں اسے جانے کیا کہنے کا ارادہ رکھتا تھا روپ کی وجہ سے خاموش ہو گیا۔



            "نو مسٹر میں نے سوچ لیا ہے اب مزید میں کسی کے پیچھے خوار نہیں ہونے والی اور اسکے پیچھے تو ہر گز نہیں جسے میری پرواہ ہی نہیں۔۔۔۔پہلے ہی اپنی اس بیوقوفی کی وجہ سے بہت برا پھنسی ہوں میں۔۔۔۔"



            لیزا نے ان دونوں کے نکاح پر چوٹ کرتے ہوئے کہا اور عزم کے مزید قریب ہو کر اپنے قدم اونچے کرتے ہوئے اسکی آنکھوں میں بہادری سے دیکھنے لگی۔



            "مجھے اپنے ڈیڈ کے پاس جانا ہے اپنی دنیا میں واپس میں یہاں کے لیے نہیں بنی سنا تم نے اور نہ ہی میں تم جیسے شخص کے ساتھ رہوں گی تو ابھی اسی وقت مجھے ملکوں کے گھر میرے ڈیڈ کے پاس چھوڑ کر آؤ۔۔۔۔"



            لیزا کے حکمیہ لہجے پر روپ ایک پل کے لیے گھبرائی لیکن پھر عزم کے چہرے پر سختی دیکھ کر اس نے ہر بات عزم کو بتا دی جسے سن کر عزم کے ہونٹوں پر گہری مسکان چھا گئی۔



            "تمہارے بابا تو کینیڈا واپس جا چکے ہیں ولایتی چوزی اور جانے سے پہلے مجھے یہ کہہ کر گئے ہیں کہ انہیں تم سے کوئی سروکار نہیں میرے دل میں جو آئے کروں تمہارے ساتھ۔۔۔۔"



            روپ نے عزم کی بات انگلش میں دہرائی تو لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔



            "تت۔۔۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرے ڈیڈ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔۔۔۔وہ مجھ سے ملے بغیر کینیڈا کیسے جا سکتے ہیں تم جھوٹ بول رہے ہو ناں۔۔۔۔"



            نہ چاہتے ہوئے بھی لیزا کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسکا باپ جو اسے جان سے زیادہ چاہتا تھا آج اسے پوری طرح سے ایک غیر مرد کے سپرد کر کے جا چکا تھا۔



            "اگر تمہیں کوئی شک ہے تو لے جاتا ہوں تمہیں ملکوں کی حویلی اپنا ہر شک وہاں جا کر مٹا لینا ۔۔۔۔"



            لیزا عزم کی آنکھوں میں سچائی دیکھ سکتی تھی وہ جو کہہ رہا تھا سچ تھا اسکا باپ سچ میں اسے پرایا کر کے جا چکا تھا۔یہ سوچ کر لیزا فوراً عزم سے دور ہوئی اور بیڈ پر لیٹ کر اپنا منہ تکیے میں دیتے ہوئے سسک سسک کر رو دی۔



            "چوہدراین جی۔۔۔۔"



            روپ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دینا چاہا لیکن لیزا نے اسکا ہاتھ بری طرح سے جھٹک دیا۔



            "لیو می الون۔۔۔۔"



            لیزا روتے ہوئے چلائی تو روپ نے بے بسی سے عزم کو دیکھا جو سنجیدگی سے عزم کو دیکھ رہی تھی۔



            "اکیلا چھوڑ دو اسے فلحال۔۔۔۔اپنا غم و غصہ آنسوؤں کی صورت میں بہا لینے دو۔۔۔۔مکمل طور پر ٹوٹ کر بکھرنے دو اسے تا کہ میں اسے سمیٹ کر وہ بنا سکوں جو اسے بنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔"



            اتنا کہہ کر عزم کمرے سے باہر نکل گیا تو روپ بھی بے بسی سے روتی ہوئی لیزا کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔وہ صیح کہہ رہا تھا فلحال اسکا اکیلے رہنا ہی بہتر تھا ۔

            ????

            سلطان صبح جلد ہی آفس کے لیے نکل گیا تھا۔ اتنے دن آفس نہ جانے کی وجہ سے اسکا کام کافی بڑھ گیا تھا۔سلطان کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی ملازمہ وہاں آ کر سارا گھر صاف کر کے جا چکی تھی اور اب کنیز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اس لیے اپنا اکلوتا سوٹ دھو کر پریس کرنے کے بعد وہی پہن چکی تھی۔



            سلطان نے کہا تھا کہ وہ اسے نئے کپڑے دلوائے گا لیکن وہ شائید مصروفیت میں ٹائم نہیں نکال پا رہا تھا۔کنیز نے سوچا کہ وہ اسے مجبور نہیں کرے گی۔کپڑے چینج کر کے اس نے بالوں کی چوٹی بنا کر دوپٹہ ٹھیک سے سر پر لیا اور گھر سے باہر بنے لان میں آ کر وہاں لگے پودوں کو دیکھنے لگی۔



            جب اچانک ہی چوکیدار نے گیٹ کھولا اور ایک گاڑی کمرے میں داخل ہوئی۔کنیز نے پریشان ہو کر اس گاڑی کو دیکھا کیونکہ وہ سلطان کی گاڑی نہیں تھی لیکن پھر گاڑی میں سے ماہم کو نکلتا دیکھ کر مسکرا دی اور جلدی سے اسکے پاس آئی۔
            "اسلام و علیکم باجی۔۔۔۔"



            "و علیکم السلام کیوٹی کیسی ہو۔۔۔۔؟"



            ماہم نے اسے ہلکا سا گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔



            "میں بالکل ٹھیک ہوں آپ آئیں اندر میں آپکے لیے شربت بناتی ہوں۔۔۔۔"



            کنیز کی چاہت پر ماہم کھل کر مسکرا دی۔



            "نہیں کیوٹی مجھے دیر ہو رہی ہے بلکہ تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں ہی لینے آئی ہوں۔۔۔۔۔"



            "ممم۔۔مجھے لینے۔۔۔۔؟"



            کنیز نے حیرت سے پوچھا ۔



            "ہاں مجھے سلطان نے بتایا تھا کہ اس نے تمہیں شاپنگ کروانی ہے تو میں نے اس سے کہا کہ میں تمہیں لے جاتی ہوں شاپنگ پر زیادہ اچھی طرح سے کروا دوں گی سو گیس واٹ وہ مان بھی گیا۔۔۔۔"



            ماہم نے خوشی سے کہا اور پرس میں سے سلطان کا کریڈٹ کارڈ نکال کر کنیز کے سامنے کیا۔



            "یہ دیا ہے تمہارے شوہر نے تمہیں شاپنگ کروانے کے لیے آج لوٹ لیں گے اسے ہم۔۔۔۔"



            ماہم نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔



            "چلو اب جلدی سے گاڑی میں بیٹھو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"



            ماہم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا لیکن کنیز اپنا سر جھکا کر اضطراب سے ہاتھ مسلنے لگی۔



            "کیا ہوا؟"



            "وہ باجی۔۔۔مم۔۔۔میں نے سائیں سے اجازت نہیں لی کہیں جانے کی ان سے پوچھے بغیر نہیں جاؤں گی۔۔۔۔آپ ایسا کریں ہم کل چلیں گے آج جب وہ گھر آئیں گے تو میں ان سے پوچھ لوں گی۔۔۔۔۔"



            کنیز کی بات پر ماہم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا۔



            "تم ناں ہر آدمی کی ڈریم وائف ہو سچی۔۔۔۔"



            "جی باجی؟"



            کنیز نے نا سمجھی سے پوچھا تو ماہم مسکرا دی اور پرس سے موبائل نکال کر سلطان کو کال ملائی۔



            "ہیلو سلطان۔۔۔۔ہاں تمہاری یہ بیوی تمہاری اجازت کے بغیر میرے ساتھ نہیں جائے گی لو بات کرو اس سے۔۔۔"



            ماہم نے موبائل کنیز کے سامنے کیا تو کنیز نے گھبراتے ہوئے موبائل کان سے لگایا۔



            "سس۔۔۔سائیں۔۔۔"



            "تم جاؤ ماہم کے ساتھ میں نے خود اس سے کہا ہے تمہیں لے جانے کو۔۔۔۔"



            سلطان نے فوراً کہا شائید وہ کافی مصروف تھا۔



            "جج۔۔۔۔جو حکم سائیں۔۔۔۔"



            کنیز نے موبائل ماہم کی طرف واپس کیا۔



            "میں چادر لے کر آتی ہوں۔۔۔۔"



            اتنا کہہ کر کنیز گھر کے اندر چلی گئی اور کچھ دیر بعد چادر لے کر باہر آئی تو ماہم نے اسے گاڑی میں بیٹھایا اور خود گاڑی ڈرائیو کرنے لگی۔



            "باجی آپ گاڑی بھی چلا لیتی ہیں؟"



            کنیز نے آنکھیں بڑی کر کے حیرت سے پوچھا تو ماہم ہنس دی۔



            "کیوں تمہیں سیکھنی ہے کیا چلانا؟"



            کنیز نے فوراً سر انکار میں ہلایا۔



            "گاڑی چلانا تو سائیں کا کام ہے انکے کام کرتے میں اچھی تو نہیں لگوں گی ناں۔۔۔۔"



            کنیز کی بات پر ماہم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔



            "یو آر جسٹ ٹو کیوٹ۔۔۔۔"



            ماہم نے محبت سے کہا اور اس کے ساتھ ہلکی پھلکی باتیں کرتی اسے ایمپوریم مال لے گئی۔مال میں داخل ہو کر کنیز کو ایسا لگا کہ وہ کسی اور دنیا میں آ گئی ہو۔ایسا کچھ بھی اس نے آج تک نہیں دیکھا اتنی ساری بڑی بڑی اور خوبصورت دکانیں،اتنے سارے لوگ اور وہ خوبصورتی اور چہل پہل ہاں وہ کوئی اور ہی جہان معلوم ہو رہا تھا۔



            "باجی آپ میرا ہاتھ پکڑ لیں اتنے لوگوں میں گم گئی تو۔۔۔۔"



            کنیز کے حیرت سے کہنے پر ماہم ہنس دی اور اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔



            "چلو سب سے پہلے تمہیں کپڑے دلاتے ہیں۔۔۔۔"



            ماہم نے اسے ایسکلیٹر کی جاب لے کر جاتے ہوئے کہا اور ان چلتی سیڑھیوں کو دیکھ کر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ماہم کے ان پر قدم رکھے ہی کنیز نے گھبراتے ہوئے ان سیڑھیوں پر پیر رکھا اور سہم کر ماہم کے بازو سے لپٹ گئی لیکن پھر سیڑھیوں کے ساتھ خود بخود ہی اوپر جانے پر خوشگواری سے ہنس دی۔



            "یہ سیڑھیاں کتنی اچھی ہیں باجی میں سائیں کو کہوں گی گھر ایسی سیڑھیاں لگوا لیں پھر ہم تھکیں گے ہی نہیں۔۔۔"



            ماہم اسکی بات پر ہنس دی۔



            "ہاں ہاں کیوں نہیں سلطان تمہاری کوئی بات ٹال سکتا ہے بھلا۔۔۔۔"



            ماہم نے اسکا گال کھینچ کر کہا اور اسے کپڑوں کے ڈپارٹمنٹ کی جانب لے گئی۔ماہم کتنے ہی پیارے پیارے کپڑے اسکے ساتھ لگا لگا کر دیکھتے ہوئے اسکے لیے لینے لگی۔



            "بب۔۔۔۔۔باجی بس کر دیں بڑا خرچہ ہو جائے گا سائیں کا۔۔۔"



            کنیز نے پریشانی سے کہا تو ماہم نے اسے گھورا۔



            "تو؟ اسکی کمائی پر حق ہے تمہارا تمہارے لیے کماتا ہے وہ ایک بات یاد رکھنا کنیز کبھی اپنا حق مت چھوڑنا ورنہ بہت سے لوگ اس پر ڈاکہ ڈالنے بیٹھ جائیں گے۔۔۔۔"



            ماہم نے اسے سمجھایا اور اپنی مرضی سے اسکے لیے کپڑے جوتے لینے لگی۔آخر کار اپنی تسلی سے سب لے کر وہ کنیز کو مال سے باہر لے آئی۔



            "اب ہم گھر جائیں گے؟"



            کنیز نے معصومیت سے پوچھا۔



            "نہیں کیوٹی اب ہم سلطان کے ہوش اڑانے کا سامان لینے جائیں گے۔۔۔۔"



            کنیز نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ماہم اسے اب ایک بیوٹی سیلون لے کر گئی تھی۔



            "ہائے ماہم۔۔۔۔کیسی ہو یار۔۔۔۔؟"



            سیلون کی مالک جو کہ ماہم کی دوست تھی اس نے ماہم کے گلے لگتے ہوئے پوچھا۔



            "میں ایک دم فینٹاسٹک حسینہ۔۔۔۔"



            ماہم نے ایک نظر کنیز کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے اردگرد دیکھ رہی تھی۔



            "ابھی کچھ دن پہلے تو تم سب کروا کر گئی تھی آج پھر سے یہاں کا خیال کیوں آ گیا۔"



            حسینہ نے ماہم سے پوچھا تو مسکرا دی۔



            "آج مجھے نہیں تمہیں اسے سجانا ہے اسکے سجنا کے لیے۔بس ایسا کچھ کرو حسینہ کہ جو اسے دیکھے تو دیکھتا ہی رہ جائے۔۔۔۔"



            ماہم کی بات پر حسینہ نے کنیز کو سر سے لے کر پیر تک دیکھا اور مسکرا دی۔



            "ضرور۔۔۔۔"



            کچھ ہی دیر میں وہ کنیز کو کرسی پر بیٹھا کر نہ جانے کتنی ہی طرح چکی کریمیں بار بار اسکے چہرے پر لگا چکی تھی جبکہ دوسری لڑکی اس کے ہاتھوں اور ناخنوں پر بھی کریمیں لگا رہی تھی اور ماہم ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے میگزین دیکھنے لگی۔



            "باجی ان کریموں سے میں گوری چٹی ہو جاؤں گی کیا وہ تصویر والی میم کی طرح؟"



            کنیز کے سوال پر حسینہ نے حیرت سے ماہم کو دیکھا جس نے جواب میں ایک آنکھ شرارت سے دبائی۔



            "تمہیں گورے ہونے کی کیا ضرورت تم ایسے ہی پیاری ہو۔۔۔۔"



            ماہم نے نرمی سے کہا تبھی ایک لڑکی نے کنیز کے پیر پکڑ کر انہیں پانی میں رکھنا چاہا تو کنیز نے فوراً اپنے پیر کھینچ لیے۔



            "اللہ توبہ باجی میرے پیر نہ پکڑیں آپ مجھے اچھا نہیں لگتا میں خود کر لوں گی۔۔۔۔"



            "کنیز۔۔۔۔"



            کنیز کی بات پر ماہم نے اسے ڈپٹا تو کنیز حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔



            "چپ چاپ انہیں کرنے دو جو کر رہی ہیں۔۔۔۔"



            کنیز نے منہ بنا کر ہاں میں سر ہلایا اور خاموش ہو گئی۔جب ایک لڑکی اسکی ٹانگ سے شلوار اوپر کر کے اس پر گرم گرم کریم لگانے لگی تو بھی کنیز خاموش رہی لیکن جب اس کریم کے جم جانے پر اس لڑکی نے اس کریم کو کھینچا تو اپنے بال کھچنے پر کنیز چیخ اٹھی اور اپنی دونوں ٹانگیں کرسی پر رکھ لیں۔



            "ہائے مجھے نہیں کروانا یہ۔۔۔۔بب۔۔۔باجی۔۔۔"



            کنیز نے روتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا تو ماہم گہرا سانس لے کر اسکے پاس آئی۔



            "یہ سب سلطان کا حکم ہے کنیز چپ چاپ برداشت کرو۔۔۔۔"



            ماہم کی بات پر کنیز کے آنسو رک گئے اور اس نے حیرت سے ماہم کو دیکھا۔



            "سائیں کک۔۔۔۔کتنے برے ہیں۔۔۔مجھے درد دے کر اچھا لگتا ہے کیا انہیں۔۔۔۔"



            ماہم نے گہرا سانس لیا۔



            "تو تم سلطان کی بات نہیں مانو گی۔۔۔۔"



            ماہم نے موبائل اپنے پرس سے نکالا تو کنیز نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔



            "نن۔۔۔۔نہیں آپ سائیں کو مت بتائیں ممم۔۔۔میں کچھ نہیں کہتی۔۔۔۔"



            ماہم نے مسکرا کر لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ پھر سے کنیز کی ویکسنگ کرنے لگی۔اب کی بار کنیز چیخی تو نہیں تھی لیکن اسکے بھینچے ہوئے ہونٹ اور آنسو اسکا درد بیان کر رہے تھے۔



            آخر کار ویکسنگ ختم ہوئی تو کنیز کے ساتھ ساتھ کب سے اسکے آنسو برداشت کرتی ماہم نے بھی سکھ کا سانس لیا۔وہ جانتی تھی کہ سلطان کو پتہ لگ گیا کہ ماہم نے اسکی چھوٹی سی بیوی کو اتنی تکلیف دی تو اسکی خیر نہیں۔آخر کار سارا کام ہونے پر حسینہ اسکے بالوں کی جانب آئی۔



            "اسکے بالوں کا کیا کرنا ہے۔۔۔۔"



            ماہم نے ایک نظر اسکے لمبے بالوں کو دیکھا جو کافی خوبصورت لگ رہے تھے لیکن اگر انہیں کوئی شیپ دی جاتی تو اور بھی اچھے لگنے لگتے۔



            "ہلکی لئیرز میں کاٹ دو لیکن انکی لینتھ خراب مت کرنا اور کوئی کلر مت کرنا بس انکی نیچرل بیوٹی برقرار رہے۔۔۔۔۔"



            "ککک۔۔۔کیا میرے بال کاٹ دیں گے نہیں بب۔۔۔۔باجی میری امی میری کھال ادھیڑ دیں گی پتہ ہے اتنی محنت سے سرسوں کا تیل لگا لگا کے اور پراندہ ڈال ڈال کے لمبے کیے تھے انہوں نے۔۔۔۔"



            کنیز نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا تو ماہم نے اسے گھور کر دیکھا۔



            "خاموش رہو بس۔۔۔حسینہ جو کہا ہے کرو۔۔۔۔"



            حسینہ نے ہاں میں سر ہلایا اور کنیز کے بال لئیرز میں کاٹنے لگی جبکہ وہ مسلسل کنیز کے سوں سوں کر کے رونے کی آواز سن سکتی تھی۔کٹنگ کے بعد حسینہ اسکے بالوں کا کیراٹین کرنے لگی۔



            سارا کام ہو جانے پر ماہم نے ایک ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ کنیز کی جانب کیا۔



            "جاؤ چینج کر کے آؤ اسے۔۔۔۔"



            کنیز نے منہ بنا کر وہ ڈریس پکڑا۔



            "غلط لگا تھا مجھے آپ زرا اچھی نہیں۔۔۔۔"



            اتنا کہہ کر کنیز واش روم چلی گئی اور شاور لینے کے بعد وہ کپڑے پہن کر باہر آئی تو حسینہ نے پھر سے اسے آئنے سے سامنے بیٹھا دیا اور اسکے چہرے پر ہلکا سا نفاست بھرا میک اپ کرنے کے بعد اسکے کمر سے نیچے جاتے لئیر میں کٹے بالوں کا ہلکا سا سٹائل بنا دیا۔



            "شی از ریڈی ماہم۔۔۔۔"



            حسینہ کی آواز پر ماہم نے میگزین سے دھیان ہٹا کر ایک نظر کنیز کو دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔



            "سلطان ملک تم تو گئے کام سے۔۔۔۔"



            ماہم نے اپنی کامیابی پر مسکراتے ہوئے سوچا۔وہ جانتی تھی کہ اچھی دوست بن کر اپنے دوست کا گھر اسکی پسند کے ساتھ بسانے میں وہ کامیاب ہونے والی تھی۔

            ????

            لیزا کو کمرے میں اکیلا چھوڑنے کے بعد اپنی بوریت دور کرنے روپ حویلی کے صحن میں آئی اور وہاں لگے آم کے درخت پر کچے آموں کو للچاتی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ جب منہ میں بے ساختہ پانی آنے لگا تو اس نے جھک کر ایک پتھر اٹھایا اور آم کا نشانہ لے کر مارا لیکن اسکا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ آم کو لگنا تو دور پتھر اسکے قریب بھی نہیں گیا۔



            منہ بنا کر وہ دوسری سائیڈ پر آئی اور پھر سے پتھر اٹھا کر آم کو مارا لیکن بے سود۔اب کی بار روپ نے اپنے دانت کچکچائے اور پھر سے پتھر اٹھا کر پوری طاقت سے آم کو مارنا چاہا۔



            مگر اس بار تو پتھر درخت کی جانب بھی نہیں گیا بلکہ درخت سے دور ہوتا سیدھا حویلی کی جانب جاتے ایک شخص کے سر پر لگا۔



            یہ دیکھ کر روپ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔وہ آدمی سر ملتا جیسے ہی پلٹا روپ فوراً درخت کے پیچھے چھپ گئی۔



            "کون ہے وہاں۔۔۔۔کس نے مارا مجھے پتھر۔۔۔۔؟"



            اس آدمی کی رعب دار آواز پر روپ کا روم روم کانپ اٹھا۔



            "میں نے نہیں دیکھا کس نے مارا کک۔۔۔۔کسی اور سے پوچھ لو۔۔۔۔"



            روپ نے درخت کی اوٹ سے نکلے بغیر کہا تو اس شخص کے ماتھے پر بل آئے اور وہ روپ کے پاس آ کر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔جو بڑے سے چشمے کے پیچھے چھپائی اپنی آنکھیں زور سے میچے کھڑی تھی۔



            "کون ہو تم۔۔۔۔؟یہاں چوری کرنے آئی ہو کیا؟"



            غلام کے سوال پر روپ کی آنکھیں فوراً کھلیں اور اس نے گھور کر اس آدمی کو دیکھا۔



            "او ہیلو ہوتے کون ہو مجھے چور کہنے والے خود کی شکل دیکھی ہے شکل سے ہی ڈاکوؤں کے خاندان کے لگتے ہو۔۔۔۔"



            روپ نے اسکی بڑی بڑی مونچھوں پر چوٹ کرتے ہوئے کہا۔



            "میں غلام عباس ہوں چوہدری جی کا سب سے خاص آدمی اور دوست ۔۔۔۔۔"



            غلام نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اس چھوٹی سی پٹاخہ کو گھورتے ہوئے کہا۔



            "تو میں بھی روپ شہزادی ہوں چوہدرائین جی کی اردو کی استانی۔۔۔۔"



            روپ نے اسی کے انداز میں سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا۔غلام کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی ۔



            "ہوں۔۔۔۔تمہیں خود انگلش آتی ہے کیا جو چوہدراین جی کو اردو سیکھاؤ گی؟"



            "او ہیلو ایم اے انگلش کیا ہے میں نے تمہاری سات پشتوں نے اتنی انگلش نہیں پڑی ہونی جتنی میں نے اکیلی نے پڑی ہے گنوار آدمی۔۔۔۔"



            روپ کے تیکھے انداز پر غلام کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔



            "وہ تو پتہ لگ ہی رہا ہے۔۔۔۔"



            غلام نے دلچسپ نگاہوں سے اسکی آنکھوں پر لگے چشمے کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اپنا ایک کندھا درخت سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔



            "مجھے بھی سیکھا دو گی انگلش قسم سے جدی پشتی ان پڑھ ہوں ایک حرف بھی بولنا نہیں آتا انگلش کا۔۔۔۔"



            غلام نے شرارت سے کہا نہ جانے کیوں یہ چھوٹی سی لڑکی اسے بہت مزہ دے رہی تھی۔



            "یہ کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔بولو انگلش۔۔۔۔"



            "انگلش۔۔۔"



            غلام نے فوراً کہا۔



            "مبارک ہو آ گئی تمہیں انگلش اب جتنی تیزی سے دل کرے بولنا۔۔۔"



            اتنا کہہ کر روپ وہاں سے بھاگ گئی اور غلام اسکی چالاکی پر ہنستا رہ گیا۔وہ جانتا تھا کہ عزم نے لیزا کو اردو سیکھانے کی لیے ایک ٹیچر کو رکھا ہے لیکن غلام یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ٹیچر اتنی دلچسپ لڑکی ہو گی۔



            "غلام بھائی آپ کو چوہدری جی بلا رہے ہیں۔۔۔۔"



            ایک آدمی کے بتانے پر غلام نے اثبات میں سر ہلایا اور عزم کے پاس چلا گیا جو اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا کسی کاغذ کو دیکھ رہا تھا۔



            "خیریت چوہدری جی آج مجھے کیونکر یاد کیا۔۔۔۔"



            غلام نے بلا اجازت عزم کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا تو عزم نے وہ کاغزات غلام کے سامنے کیے۔



            "ایک تو یہ زمین کے معمالات سنبھال لینا اور دوسرا میں چاہتا ہوں کہ سب گاؤں والوں کو بتا دیا جائے کہ عزم چوہدری شادی کر چکا ہے اور اسکی بیوی کون ہے۔۔۔ "



            عزم کی بات پر غلام ہکا بکا سا اسے دیکھنے لگا۔



            "لیکن کیوں؟"



            "کیونکہ اگر سب کو خبر ہوتی کہ یہ لڑکی میری بیوی ہے تو جو کل رات ہوا وہ نہیں ہوتا اور میں نہیں چاہتا کہ ایسا پھر سے ہو۔۔۔۔"



            عزم نے کافی سنجیدگی سے کہا ۔



            "لیکن عزم اگر وہ پھر سے بھاگ گئی یا اس نے کچھ الٹا کیا تو کیا عزت رہ جائے گی تمہاری گاؤں میں۔۔۔۔"



            غلام کے بات پر عزم کے لب مسکرا دیے۔



            "اب وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔۔۔۔"



            عزم کے اس یقین نے غلام کو مزید حیران کر دیا۔



            "تم بس لوگوں کو اکٹھا ہونے کا پیغام دو ان سے کہو کہ عزم چوہدری سب کو انکی چوہدراین سے ملانا چاہتا ہے باقی سب میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔"



            غلام نے گہرا سانس لے کر ہاں میں سر ہلایا۔



            "جیسے تمہیں ٹھیک لگے لیکن میں اس لڑکی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔"



            غلام نے اپنا جواز بیان کیا۔



            "تجھے کیا لگتا ہے میں کرتا ہوں اس پر بھروسہ۔۔۔؟"



            غلام نے حیرت سے عزم کو دیکھا۔



            "ہاہاہا غلامے ابھی بچہ ہے تو نہیں سمجھے گا جا جیسا کہا ہے کر کل دوپہر تک سارا انتظام ہو جانا چاہیے۔۔۔۔"



            غلام نے ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔سچ تو یہ تھا کہ اسکا بچپن کا دوست ہی اسکی سمجھ سے باہر تھا۔

            ????

            سلطان کی میٹنگ ختم ہوتے کافی ٹائم ہو گیا تھا جب وہ گھر پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے۔اسے بے ساختہ طور پر کنیز کا خیال آیا کہیں نہ کہیں اسکے گھر دیر سے آنے کی وجہ کنیز ہی تھی وہ تو بس اس سے دور رہنا چاہتا تھا کیونکہ جتنا وہ اسکے قریب رہتا تھا اسکا دل اتنا ہی اسکے لیے تڑپتا تھا۔



            سلطان اپنے کمرے کی جانب جانے لگا جب اسکی نگاہ کنیز کے کمرے سے آنے والی روشنی پر پڑی۔کہیں وہ اسکا انتظار تو نہیں کر رہی تھی؟نہ جانے اس نے کچھ کھایا بھی تھا یا نہیں؟یہ سوچ آنے پر وہ کنیز کے کمرے کی جانب چل دیا۔



            "اے سے ایپل۔۔۔بی سے بب۔۔۔اف کیا بتایا تھا یہ باجی نے۔۔۔۔"



            سلطان نے حیرت سے کنیز کو دیکھا جو بیڈ پر بیٹھ کر سر جھکائے جانے کیا کر رہی تھی۔



            "تم سوئی نہیں۔۔۔۔؟"



            سلطان کی آواز پر کنیز نے سہم کر اپنا سر اوپر کیا اور سامنے پڑی کتاب اپنے پیچھے چھپا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔



            "وو۔۔۔۔وہ وہ میں آپکا انتظار کر رہی تھی کھانا لگاؤں آپ کے لیے؟"



            کنیز نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے سلطان سے پوچھا لیکن سلطان اسکی بات سن کہا رہا تھا اسکا سارا دھیان تو بس اسے دیکھنے میں تھا۔



            گلابی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس نفاست سے کیے میک اپ اور کندھوں پر پھیلے ملائم بالوں کے ساتھ وہ خواب ناک ہی تو لگ رہی تھی۔جبکہ سٹائلش کٹنگ کی وجہ سے کچھ آوارہ لٹیں بار بار اسکے حسین چہرے کو محبت سے چھو کر سلطان کی بے چینی کو بڑھا رہیں تھی۔



            سلطان خواب کی سی کیفیت میں چلتا اسکے پاس آیا اور اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اونچا کیا۔جھکی ہوئی نظروں سے ہوتی پر تپش نگاہیں گلابی لپسٹک سے سجے کپکپاتے ہونٹوں پر پڑیں تو سلطان کی آنکھوں میں جنون اترا۔



            "کس نے کیا یہ سب۔۔۔۔؟"



            سلطان کے لہجے کی سختی پر کنیز سہم کر اب پوری کی پوری کانپنے لگی۔



            "وہ۔۔۔ماہم باجی ناں وہ۔۔۔۔پپپ۔۔۔پارلر لے کر گئی تھیں۔۔۔آپکو میں اچھی نہیں لگ رہی کیا ۔۔۔۔؟"



            کنیز نے بہت امید سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا اور پھر اسکے حکم کی تکمیل کرتی نظریں جھکا گئی۔



            "کاش کاش میں تمہیں بتا سکتا کہ تم مجھے کس قدر اچھی لگ رہی ہو۔۔۔۔"



            سلطان نے اپنے انگوٹھے سے اسکے ہونٹوں پر لگی لپسٹک کو ہٹایا۔



            "کاش تمہیں اپنے عمل سے بتا سکتا کہ تمہاری میرے لیے سجنے کی کوشش میری کیا حالت کر رہی ہے نوری۔۔۔۔"



            سلطان نے آنکھیں بے بسی سے موندتے ہوئے اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپایا تو کنیز گھبرا کر اپنی آنکھیں موند گئی۔



            "سس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"



            "کاش تمہارا یہ پور پور جو تم نے میرے لیے سجایا ہے اپنی محبت کی بارش میں بھگو سکتا نوری تو تمہیں میری ان شدتوں کا اندازہ ہوتا جن کو میں کب سے برداشت کر رہا ہوں۔۔۔۔"



            سلطان نے اپنے ہونٹ اسکی نازک گردن سے مس کیے۔



            "خدارا میرا اور امتحان مت لو میری جان اس جنون کو مت للکارو جسے جھیلنے کے لیے تم بہت نازک ہو۔۔۔۔"



            سلطان نے اسکی گردن کا حصہ دانتوں میں لے کر دبایا تو کنیز سسک اٹھی جبکہ روم روم خوف سے کانپ اٹھا تھا۔سلطان نے اسکی گردن سے منہ نکال کر بے بسی سے اسکے کپکپاتے ہونٹوں اور لرزتی پلکوں کا رقص دیکھا۔



            "ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن

            خاک ہو جائیں گے ہم،تم کو خبر ہونے تک"



            اتنا کہہ کر سلطان نے اسے کانپتے ہوئے چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ جانتا تھا ماہم نے یہ کوشش اسے کنیز کے قریب کرنے کے لیے کی تھی لیکن سلطان خود کو اتنا کمزور نہیں کر سکتا تھا تب جب وہ جانتا تھا کہ جس راستے پر وہ کنیز کو چلا رہا ہے اسکی کوئی منزل نہیں تھی۔

            Comment


            • #56
              #زندگی_اے_تیرے_نال



              #قسط_نمبر_21







              کل سے لیزا اپنے کمرے میں ہی بند رہی تھی نہ تو وہ کسی سے بات کرتی تھی اور نہ ہی ملتی تھی یہاں تک کہ روپ نے بھی اس سے بات کرنے کوشش کی لیکن جو کوئی بھی کمرے میں جاتا تو لیزا چیختے چلاتے ہوئے اسے کمرے سے نکال دیتی۔



              ابھی بھی روپ لیزا سے کافی ساری ڈانٹ کھا کر سہمی سی کمرے کے باہر کھڑی تھی جب چند ملازماؤں کے ساتھ عزم وہاں پر آیا۔



              "کیا بات ہے یہاں کیوں کھڑی ہو؟"



              "چوہدری جی وہ چوہدراین جی بہت غصے میں ہیں کوئی بھی کمرے میں جائے تو ڈانٹنے لگے جاتی ہیں آپ بھی نہ جائیں سچی ایسا لگتا ہے سر ہی پھاڑ دیں گی اگلے کا۔۔۔۔"



              روپ کے سہم کر بتانے پر عزم نے گہرا سانس لیا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔



              "آؤ میرے ساتھ دیکھ لیتے ہیں اس چوہدراین کو بھی۔۔۔۔"



              عزم کی بات پر روپ گھبرائی سی اسکے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی شیشے کا گلاس اڑ کر انکی جانب آیا جسے عزم نے قریب آتے ہی کیچ کر لیا۔



              "تم لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ اکیلا چھوڑ دو مجھے کیوں مرنا چاہتے ہو میرے ہاتھوں۔۔۔۔"



              لیزا غصے سے چلائی تو عزم نے ایک نظر اسے دیکھا۔دوپٹے سے بے نیاز سبز رنگ کی فراک میں ملبوس بکھرے سے حلیے میں بھی وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔



              "یہ تمہارے اندر کی شیرنی اس رات کہاں جا سوئی تھی ہاں اس رات تو بھیگی بلی بنی ہوئی تھی۔۔۔۔"



              روپ نے عزم کے پیچھے سے سامنے آئے بغیر ہی اسکی بات لیزا کو انگلش میں بتا دی۔جبکہ لیزا نے اسے لال آنکھوں سے گھورا تھا۔



              "جسٹ لیو میں الون یو راسکل۔۔۔۔"



              لیزا کی بات پر روپ کا منہ کھل گیا۔ہا کیسی لڑکی ہے کتنے کھلے عام شوہر کو گالیاں نکال رہی ہے۔روپ نے بے ساختہ سوچا۔



              "لیو می الون تو سمجھتا ہوں استانی جی یہ راسکل کیا بلا ہے۔۔۔؟"



              عزم کے سوال پر روپ بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔



              "راسکل۔۔۔۔رس ملائی کو کہتے ہیں۔۔۔۔"



              اس بات پر عزم قہقہ لگا کر ہنس دیا اور لیزا کو دیکھا جو اسے ایسے گھور رہی تھی جیسے کچا چبا جائے گی۔عزم نے ساتھ آئی ملازمہ سے ایک ڈبہ پکڑا اور اسے لیزا کے سامنے کیا۔



              "یہ پہن کر تیار ہو جاؤ میری راسکلنی کہیں لے کر جانا ہے تمہیں۔۔۔۔۔"



              عزم کے ایسا کہتے ہی روپ نے یہ بات اسے انگلش میں بتائی تو لیزا نے غصے سے اس ڈبے کو دیکھا اور پھر پکڑ کر پوری طاقت سے اسے فرش پر پھینک دیا۔



              "مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا سنا تم نے مجھے بس اکیلا رہنا ہے اگر نہیں اکیلا چھوڑنا تو بتا دو مر کر قبر میں اکیلی رہ لوں گی۔۔۔۔"



              یہ بات کہتے ہوئے دو آنسو لیزا کی آنکھوں میں آئے۔اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اسکا زخم ابھی تک بھرا نہیں تھا۔



              روپ نے گھبراتے ہوئے اسکی کہی بات عزم کو اردو میں بتائی۔



              "چوہدری جی وہ کافی پریشان لگ رہی ہیں میرے خیال سے انہیں اکیلا۔۔"



              عزم نے ہاتھ اٹھا کر روپ کو بات مکمل کرنے سے روکا۔



              "یہ سب چیزیں اور کھانا یہاں رکھو اور جاؤ یہاں سے اپنی بیوی کو خود سنبھال لوں گا میں۔۔۔۔"



              عزم کے حکم پر ملازماؤں نے ہاتھ میں پکڑا سامان اور کھانا میز پر رکھا اور دروازہ بند کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔عزم کھانے کی ٹرے پکڑ کر لیزا کے پاس آیا اور اپنے ہاتھ سے نوالا توڑ کر اسکی جانب کیا۔



              لیزا نے غصے سے ہاتھ مار کر وہ نوالا پھینک دیا تو عزم نے غصہ کرنے کی بجائے دوبارہ نوالا بنا کر اسکے ہونٹوں کی جانب کیا۔لیزا نے پھر سے اس نوالے کو ہاتھ مار کر پھینک دیا تو عزم نے پھر سے نوالا بنا کر اسکے ہونٹوں کے پاس کیا۔



              اب کی بار لیزا کی بس ہوئی تھی۔غصے کی شکل میں اس پر حاوی ہوا غم ابل کر باہر آیا تو وہ عزم کے سینے سے لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔



              عزم نے نرمی سے اسکی کمر کو سہلایا۔عرشمان یہیں تو غلط تھا وہ اسکی ضد کو سختی سے قابو کرنے کے چکر میں اسے جنونی بنا گیا تھا لیکن لیزا کی ضد کے مقابلے میں عزم کی نرمی لیزا کو کمزور بنا جاتی تھی۔



              "شش۔۔۔۔میری چوزی رونا بند کرو اور بتا دو جو دل میں ہے غم کو بتا کر سینے سے نکال لو گی تو برا نہیں لگے گا۔۔۔۔"



              عزم نے نرمی سے اسکی کمرے سہلاتے ہوئے کہا تو لیزا کے رونے میں روانی آ گئی۔



              "مجھے میری مما پسند نہیں تھیں وہ بہت زیادہ دنیاوی تھیں مجھے بس اپنے جیسا بنانا چاہتی تھیں اور ڈیڈ سے بھی دور رکھتی تھیں۔۔۔۔"



              لیزا نے روتے ہوئے عزم کو بتایا۔



              "لیکن ڈیڈ مجھے بہت پیار کرتے تھے مان تھے وہ میرا،میرے ہیرو اور انکا یوں چھوڑ کر چلے جانا مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔۔"



              لیزا نے عزم کی شرٹ اپنی مٹھی میں دبوچی۔



              "مجھے لگتا تھا کوئی میرے ساتھ ہو نہ ہو ڈیڈ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے لیکن وہ چلے گئے مجھے چھوڑ کر۔۔۔"



              لیزا نے اپنا چہرہ عزم کے سینے میں چھپایا اور سسک کر رو دی۔جب تک اسکا غبار نہیں نکل گیا عزم نے یونہی اسے سینے سے لگ کر رونے دیا۔آخر کار دل ہلکا ہونے پر لیزا نے سر اٹھا کر عزم کو دیکھا۔



              "تم مجھے کبھی یہاں سے نہیں جانے دو گے ناں۔۔۔۔؟"



              لیزا کے سوال کا عزم نے کوئی جواب نہیں دیا بس اس نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھاما اور اپنے انگوٹھوں سے اسکے آنسو صاف کیے اور نوالا توڑ کر اسکے منہ میں ڈالا۔



              "تم بہت بہادر لڑکی ہو ولایتی چوزی کسی کی وجہ سے دکھی ہو کر کبھی خود کو تکلیف مت پہنچانا کیونکہ کسی کو ہمارے جینے مرنے سے فرق نہیں پڑتا اگر کسی کو فرق پڑتا ہے تو صرف اس کو جو تمہیں بے پناہ چاہتا ہو اور مزے کی بات پتہ ہے کیا ہے ؟اتنی محبت نہ تو تم سے کوئی کرتا ہے نہ ہی مجھ سے دونوں ہی اس معاملے میں بہت غریب ہیں۔۔۔۔"



              لیزا عزم کی بات سمجھے بغیر بھی دم سادھے اسے سن رہی تھی جیسے اسکے الفاظ لیزا کے دماغ کی بجائے دل میں اتر رہے ہوں اور عزم نرمی سے کہنے کے ساتھ ساتھ اسے کھانا کھلا رہا تھا۔



              "اس لیے اب یہ رونا دھونا چھوڑو اور خوش رہ کر ان لوگوں کو دیکھا دو کہ ہمیں ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکے ہیں ہم۔۔۔۔"



              عزم نے اسکی ناک کھینچ کر کہا اور اٹھ کر فرش پر پڑا وہ ڈبہ اٹھا کر لیزا کے پاس آیا۔



              "اب اسے پہن کر تیار ہو جاؤ ہمیں کہیں جانا ہے۔۔۔"



              عزم نے وہ ڈبہ لیزا کی جانب کیا تو لیزا نے انکار میں سر ہلایا۔عزم گہرا سانس لے کر اسکے پاس آیا اور اسے کھڑا کر کے اسکی کمر اپنی جانب کی۔اس سے پہلے کہ لیزا اسکا مقصد سمجھتی عزم اسکی کمر کے پیچھے موجود زپ کھول چکا تھا۔



              لیزا نے فوراً پلٹ کر اسے حیرت سے دیکھا۔



              "یہ کیا کر رہے ہو تم؟"



              لیزا نے اپنے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر شرٹ کو کھسکنے سے روکا۔



              "اگر شرافت سے نہیں پہنو گی تو پہنانا آتا ہے۔۔۔۔"



              عزم نے لیزا کی جانب وہ ڈبا کرتے ہوئے کہا تو لیزا نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا اور ڈبہ پکڑ کر واش روم میں چلی گئی۔



              کچھ دیر کے بعد وہ نہا کر عزم کا دیا وہ ڈریس پہنے واش روم سے باہر نکلی۔وہ ملٹی رنگوں کے خوبصورت امتزاج کا پیروں سے تھوڑا اوپر تک آتا فراک تھا جس پر موتیوں کا بھاری کام ہوا تھا۔



              جبکہ گیلے بال لیزا نے ایک کندھے پر رکھے تھے اور ان سے ٹپکتا قطرہ قطرہ پانی اس لباس کو بھگو کر عزم کو بے چین کر رہا تھا۔



              "ایک پرابلم ہے جا کر روپ کو بھیجو۔۔۔۔۔"



              لیزا نے اس سے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا لیکن عزم اسکی بات سنے بغیر اسکے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اسکی کمر اپنی جانب کی۔



              "میں نے ہی لیا ہے یہ تمہارے لیے پتہ ہے مجھے کیا پرابلم ہے۔۔۔۔"



              عزم نے پرابلم لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر پر موجود زپ پر رکھا۔اسکی وہ سفید بے داغ کمر دیکھ کر عزم کا دل کیا کہ اس مومی وجود کو اپنے ہونٹوں سے چھو لے لیکن فلحال ایسا کر کے وہ اپنا سر پھڑوانا نہیں چاہتا تھا۔



              عزم نے آہستہ آہستہ زپ کو اوپر کرنا شروع کیا تو اسکی گرم انگلیوں کا لمس محسوس کرتے لیزا کپکپا کر رہ گئی۔اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ شخص کیسے اپنے لمس سے بے جان کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔



              زپ تھوڑی ہی اوپر کر کے عزم کی نظر اسکی کمر کے وسط میں بنے تل پر گئی تو عزم بے خود ہوتا جھکا اور اس تل کو نرمی سے اپنے ہونٹوں سے چھوا۔



              اپنی کمر پر عزم کی گھنی مونچھوں کی چبھن محسوس کر لیزا نے دونوں ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیے جو ایسا لگ رہا تھا اچھل کر باہر آ جائے گا۔



              "بہت سے حسین راز چھپائے ہیں تم نے اس نازک وجود میں ولایتی چوزی جس دن موقع ملا تو فرصت سے ہر راز عیاں کروں گا۔"



              عزم نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور زپ کو مکمل طور پر بند کرتا اسے آئنے کے سامنے لا کر بیٹھا دیا۔پھر اس نے وہ ڈبہ کھولا جس میں اس نے جیولری رکھی تھی۔



              وہ بھاری سہاروں والے ملٹی جھمکے پکڑ کر عزم اسکے پاس آیا اور اسکے کانوں میں دونوں جھمکے پہنا دیے۔ پھر اس نے ملٹی چوڑیاں پکڑیں اور لیزا کی نازک کلائیو میں پہنانے لگا۔



              "انہیں کہتے ہیں چٹیاں کلایاں۔۔۔"



              عزم نے شرارت سے کہتے اسکی کلائی پر اپنی مونچھیں رگڑیں تو لیزا کانپ کر رہ گئی پھر عزم نے پائلوں کا جوڑا پکڑا اور لیزا کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکا پاؤں اپنے گھٹنے پر رکھا۔



              پائل پہنانے کے بعد اس نے دوسرا پاؤں پکڑ کر اپنے گھٹنے پر رکھا اور اس میں بھی پائل پہنانے لگا جب اسکی نظر اس خراش پر پڑی جو لیزا کو ننگے پیر کھیتوں میں بھاگنے کی وجہ سے لگی تھی۔



              عزم نے اسکا پیر اپنے ہونٹوں تک لا کر اس زخم کو نرمی سے ہونٹوں سے چھوا تو لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اسکی ماں نے تو اسے یہی بتایا تھا کہ مشرقی مرد عورتوں کو چیز کی طرح استعمال کرتے ہیں،اسے اپنے پیر کی جوتی سمجھتے ہیں اور قید کر کے رکھتے ہیں لیکن عزم تو ویسا باکل نہیں تھا۔



              اسکی یہ نرمی لیزا کو شش وپنج میں مبتلا کر دیتی تھی۔پھر عزم نے ملٹی رنگ کا ہی ایک خوبصورت سا کھسہ لیزا کے پیروں میں پہنایا اور اسکے پیچھے آ کر ہیر برش سے اسکے بال سنوارنے لگا۔



              لمبے بھورے بالوں کو ڈھیلی سی چوٹی میں باندھنے کے بعد عزم اسکے سامنے آیا اور ایک لال رنگ کی لپ سٹک پکڑ کر لیزا کے ہونٹوں پر سجا دی۔



              "پیا کے سنوارنے کا روپ دیکھنا چاہو گی خود پر۔۔۔۔"



              اتنا کہہ کر عزم لیزا کے سامنے سے ہٹا تو لیزا ہکی بکی سی خود کو دیکھنے لگی۔وہ آج تک اتنی خوبصورت نہیں لگی تھی جتنی وہ ابھی لگ رہی تھی۔نہ ہی فل میک اپ میں نہ ہی مغربی عیاں لباس میں۔لیزا آج خود سے ہی نظریں نہیں ہٹا پا رہی تھی۔



              عزم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور سوٹ کے ساتھ میچنگ دوپٹہ اسکے سر پر سلیقے سے دے کر بنا پلکیں جھکائے اسے دیکھنے لگا۔



              "کوئی بیس کالے بکرے قربانی کے لیے دینے پڑیں گے تمہیں نظر لگنے سے بچانے کے لیے۔۔۔۔"



              عزم اتنا کہہ کر اس پر جھکا اور ہونٹ اسکے دونوں گالوں پر رکھے۔لیزا کپکپاتے ہوئے اپنی آنکھیں موند گئی۔



              "رخسار پر لالی لگانا بھول گیا تھا لیکن کوئی بات ہے میرے لمس کی یہ لالی اتنی جلدی نہیں جائے گی تمہارے چہرے سے۔۔۔۔"



              اتنا کہہ کر عزم وہاں سے چلا گیا جبکہ لیزا ہکی بکی سی خود کو آئنے میں دیکھ رہی تھی۔کیا تھا یہ شخص لیزا کو وہ نہیں رہنے دیتا تھا جو وہ تھی بلکہ ایک نئی لڑکی بنا دیتا تھا جسکی بولتی اسکی قربت میں بند ہو جاتی تھی۔جانے کون تھی وہ لڑکی جو دنیا کا مقابلہ کرنے والی بولڈ سی لیزا ملک سے ایک گھبرائی شرمائی سی لڑکی میں تبدیل ہو جاتی تھی۔وہ جو بھی تھی لیزا کو اچھی لگنے لگی تھی۔

              ????

              "مان دو دن ہو گئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہم باہر گھومنے نہیں جائیں گے کیا؟"



              آن نے منہ بنا کر عرشمان سے پوچھا جو بیڈ پر بیٹھا موبائل پر نہ جانے کیا دیکھ رہا تھا۔یہاں آ کر عرشمان اس سے پہلے کی طرح سخت تو نہیں رہا تھا لیکن وہ ابھی بھی اس سے بات نہیں کرتا تھا۔



              آن کتنی ہی کوشش کرتی لیکن پھر خود کو نظر انداز کیے جانے پر خود ہی خاموش ہو کر آنسو بہانے لگ جاتی۔



              "یہاں آنے کا شوق تھا ناں تمہیں لو آ گئے اب اس سے زیادہ توقع مت رکھنا مجھ سے۔۔۔"



              عرشمان نے غصے سے کہا لیکن اب آن کی بس ہوئی تھی۔وہ عرشمان کے پاس آئی اور اسکا موبائل اسکے ہاتھ سے چھین لیا۔



              "یہ کیا حرکت ہے آن میرا موبائل واپس کرو۔۔۔۔۔"



              "نہیں کروں گی ہم یہاں موبائل دیکھنے نہیں آئے گھومنے پھرنے آئے ہیں انجوئے کرنے آئیں ہیں اور اب آپ مجھے باہر گھمانے لے کر جا رہے ہیں ورنہ۔۔۔۔"



              آن نے دانت کچکچا کر کہا تو عرشمان کے ماتھے پر بل آئے۔وہ بیڈ سے اتر کر آن کے پاس آیا اور اپنا سر جھکا کر اسے گھورنے لگا۔



              "ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟"



              عرشمان نے سختی سے پوچھا تو آن نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا پھر اسکا موبائل کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔آن کی اس جرات پر عرشمان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔



              "اب شرافت سے وہ کریں جو ہم یہاں کرنے آئے ہیں۔۔۔۔"



              آن نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عرشمان نے نگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے گھورا۔



              "ٹھیک ہے پھر۔۔۔"



              اتنا کہہ کر عرشمان نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا تو آن ہکی بکی سی اسے دیکھنے لگی۔



              "مم۔۔۔۔مان یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔؟"



              آن نے گھبراتے ہوئے پوچھا لیکن عرشمان کوئی بھی جواب دیے بغیر اسے بیڈ تک لایا اور اسے بیڈ پر اچھال کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔



              "ممم۔۔۔۔مان یہ آپ۔۔۔۔"



              شرٹ کے اوپری تین بٹن کھول کر عرشمان ان پر جھکا تو وہ سہم کر اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔



              "گھبرا کیوں رہی ہو تمہاری بات ہی تو مان رہا ہوں وہ کر رہا ہوں جو ہم یہاں کرنے آئے ہیں۔۔۔۔"



              عرشمان نے اس پر حاوی ہوتے ہوئے کہا تو آن نے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن عرشمان اسکے ہاتھوں کو اپنے مٹھی میں دبوچتا اسکے سر کے اوپر تکیے کے ساتھ لگا گیا۔



              "مم۔۔۔۔۔میرا یہ مطلب نہیں تھا مم۔۔۔"



              "لیکن میرا یہی مطلب ہے۔۔۔۔۔"



              عرشمان نے اسکے ہونٹوں کے قریب ہوتے ہوئے کہا تو آن کا روم روم کانپ اٹھا۔شادی کے بعد سے تو وہ بلکل بدل چکا تھا اسے بلانا تک پسند نہیں کرتا تھا تو پھر اب اسکا یہ بدلہ روپ ان کو مشکل میں ڈال رہا تھا۔



              "ممم۔۔۔۔مان پلیز۔۔۔۔"



              آن نے اپنی آنکھیں زور سے میچ کر کہا تو عرشمان نے بے بسی سے اسے دیکھا۔یہ لڑکی ہی تو اسکی پہلی خواہش تھی،اسکا جنون اسکی محبت،اسکا عشق سب یہی تو تھی پھر حالات نے ان دونوں کو کہاں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔



              جب سے عرشمان نے ان جزبات کو سمجھا تھا اس نے اپنے لیے صرف آن کو ہی سوچا تھا اپنے ہر خواب میں اپنی ہر چاہ میں اسے ہی محسوس کرنا چاہا تھا اور اسکی ہمیشہ کی چاہت آج اسکی پناہوں میں بے بسی سے کانپتی اسے بہت کچھ کرنے پر اکسا رہی تھی۔



              "مت کرو آن ایسا تم میرے ساتھ ساتھ خود کو بھی برباد کر دو گی مت کرو مجھے پھر سے بے بس نہیں کرتا اب میں محبت تم سے سنا تم نے نہیں کر سکتا میں تم سے محبت چاہ کر بھی نہیں۔۔۔۔"



              عرشمان کی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ کتنا ہی مجبور ہو۔آن نے حیرت سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اتنے دنوں کے بعد اپنے مان کی آنکھوں میں وہی محبت وہی تڑپ واپس دیکھ کر آن کی پلکیں نم ہو گئیں۔



              "مجھے معاف کر دیں مان۔۔۔۔پلیز مجھے معاف کر کے سب۔۔۔۔"



              اچانک ہی عرشمان اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسکے الفاظ کا گلا گھونٹ گیا تو اسکی اس بے خودی پر آن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔چہرہ پل بھر میں لہو چھلکانے لگا۔



              عرشمان کے لمس میں بہت زیادہ شدت تھی ایک تڑپ تھی جیسے کہ وہ اپنے لمس سے آن کو خود میں بسانا چاہ رہا ہو اور آن بے بسی سے اسکی گرفت میں کپکپاتی اسے اسکی منمانی کرنے دے رہی تھی۔



              اسے تو بس اپنے روٹھے ساجن کو منانا تھا اور اس کے لیے وہ کوئی بھی قمیت ادا کرنے کو تیار تھی۔جتنی اچانک عرشمان اس پر حاوی ہوا تھا اتنی ہی اچانک اس سے دور ہو گیا۔



              اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے عرشمان نے بے بسی سے آن کو اس بکھری حالت میں دیکھا تو اسکی آنکھوں میں وہ غصہ واپس لوٹ آیا۔اس نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور گاڑی کی چابیاں پکڑتا باہر کے دروازے کی جانب چل دیا۔



              "مان۔۔۔۔"



              آن نے گھبرا کر اسے پکارا۔وہ ابھی بھی اسکے اس جنون کے زیر اثر کپکپا رہی تھی۔



              "دس منٹ میں تیار ہو کر باہر آ جانا اور اگر نہ آئی تو یہیں سڑتی رہنا میری بلا سے۔۔۔۔"



              اتنا کہہ کر عرشمان کمرے سے باہر چلا گیا اور آن سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ یہاں ہوا کیا تھا۔عرشمان کی اس بے خودی کو یاد کرتے ہوئے آن نے شرمیلے سے انداز میں اپنے ہونٹوں کو چھوا اور پھر اٹھ کر کپڑے چینج کرنے چلی گئی۔اسے کسی بھی طرح دس منٹ میں تیار ہو کر عرشمان کے پاس پہنچنا تھا۔

              ????

              عزم اسے ایک کھلے میدان میں لے کر آیا تھا جہاں ٹینٹ لگائے گئے تھے اور بہت سارے لوگ وہاں پر موجود تھے۔اتنے لوگوں کو وہاں دیکھ کر لیزا کافی حیران ہوئی تھی نہ جانے ایسا کونسا خاص کام تھا جس کے لیے عزم اسے یہاں لایا تھا۔



              مزید حیرت تو اسے تب ہوئی جب انکے اس ٹینٹ میں داخل ہوتے ہی عورتوں نے اس پر اور عزم پر بھول برسائے جیسے وہ دونوں کہیں کے راجا رانی ہوں اور یہی تو عزم کا مقصد تھا وہ لیزا کو دیکھانا چاہتا تھا کہ اسکی بیوی ہونے کے ناطے اس گاؤں میں اسکا کیا مقام تھا۔



              لیزا ہکی بکی سی عزم کے ساتھ چلتے ہوئے سٹیج پر گئی اور اسکے سٹیج پر پہنچنے تک ان دونوں پر پھولوں کی یہ بارش ہوتی رہی تھی۔عورتیں لیزا کو ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ بہت بڑی سیلیبریٹی ہو اور ہر کوئی اس سے ملنا چاہتا ہو۔



              اپنا آپ اتنا مشہور اور اہم تو لیزا کو انسٹاگرام پر دس میلین فالورز کر کے بھی نہیں لگا تھا۔



              "کیسا لگا چوہدراین جی اپنا ویلکم؟"



              عزم کی آواز پر لیزا نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اپنے سامنے موجود عورتوں کو دیکھنے لگی۔کچھ دیر کے بعد عزم وہاں سے اٹھ کر کہیں چلا گیا اور اسکے جاتے ہی روپ اسکے پاس آئی تھی۔



              "یہ سب کیا ہے روپ؟



              "یہ گاؤں میں آپکا ویلکم ہے چوہدراین جی گاؤں والوں کو کافی دیر سے چوہدری جی کی شادی کا انتظار تھا اور اب انکی شادی کے بعد اتنی پیاری سی چوہدراین کو دیکھ کر سب کافی خوش ہیں۔۔۔۔"



              روپ نے اسکی ٹھوڈی کو چھوتے ہوئے کہا اور پھر مسکرا کر سب عورتوں کو دیکھنے لگی۔



              "اور سب اس بات سے زیادہ خوش ہیں کہ آپ ملکوں کی بیٹی ہیں انہیں لگتا ہے کہ آپ وہ زریعہ ہیں جو ملکوں اور چوہدریوں کی بارہ سال پرانی دشمنی ختم کرنے کا ذریعہ بنیں گی اور پھر سے یہ دونوں خاندان ویسے ہی گھل مل جائیں گے جیسے پہلے تھے۔"



              روپ کی بات پر لیزا نے اسے حیرت سے دیکھا۔اس سے پہلے کہ وہ روپ سے مزید کچھ پوچھتی اسکے کانوں میں ڈھولک کی آواز پڑی اور عورتیں گانے کے ساتھ ساتھ لیزا کو روایتی رقص بھی دیکھا رہی تھیں۔



              لیزا توقع کے برعکس کافی انجوائے کر رہی تھی جب اچانک غلام وہاں پر آیا اور اس نے روپ سے کچھ کہا۔روپ اثبات میں سر ہلاتی لیزا کے پاس آئی۔



              "چلیں ملکہ کی آپکے بادشاہ سلامت آپکو بلا رہے ہیں کیونکہ آپکی رعایا کو آپکے آنے کی خوشی میں تحائف دیے جائیں گے۔۔۔۔۔"



              روپ کی بات پر لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔روپ اسے اپنے ساتھ لے کر ٹینٹ سے باہر آ گئی جہاں عزم بڑے سے میز کے سامنے کھڑا تھا اور بہت سے لوگ قطاریں بنائے ان اس میز کے سامنے کھڑے تھے۔



              لیزا نے حیرت سے میز پڑے ان بند لفافوں کو دیکھا جن میں شائید پیسے تھے۔لیزا عزم کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تو عزم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے لوگوں کو وہ لفافے دینے لگا جن کے بدلے لوگ ان دونوں کو دعائیں دے کر جا رہے تھے۔



              لیزا کو شدید گرمی کا احساس ہوا تو اس نے سر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا جہاں سورج اپنی آب و تاب پر چمک رہا تھا۔پہلے تو وہ ٹینٹ میں تھے اس لیے لیزا کو زیادہ گرمی نہیں لگی تھی لیکن اپنی ساری زندگی کینیڈا جیسے ٹھنڈے علاقے میں گزارنے والی اس لڑکی کو اتنی دھوپ اور گرمی کی عادت نہیں تھی۔



              "مجھے گھر جانا ہے عزم یہاں بہت گرمی ہے۔۔۔"



              لیزا نے عزم سے کہا لیکن وہ تو ایسے تھا جیسے اس نے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔لیزا نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑانا چاہا۔



              "ہوم عزم۔۔۔۔آئی وانٹ ٹو گو ہوم۔۔۔"



              لیزا نے آہستہ آہستہ کہا کہ شاید وہ اس کی بات سمجھ جائے لیکن عزم اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتا اسے مکمل نظرانداز کیے اپنے کام میں لگا رہا۔



              لیزا نے بے بسی سے یہاں وہاں دیکھا تو اسے روپ دور کھڑی نظر آئی۔شکر کا سانس لیتے ہوئے لیزا نے اسے اپنی جانب جانے کا اشارہ کیا تو روپ پریشانی سے یہاں وہاں دیکھتی اس کے پاس آ گئی۔



              "روپ اسے بتاؤ کہ مجھے گھر جانا ہے یہاں بہت زیادہ دھوپ ہے۔۔۔۔"



              لیزا کی فرمائش پر روپ نے پریشانی سے عزم کو دیکھا اور پھر لیزا کی بات اردو میں دہرا دی۔



              "نہیں۔۔۔۔۔"



              عزم نے سنجیدگی سے ایک لفظی جواب دیا اور اب تک یہاں رہتے ہوئے لیزا نہیں کا مطلب تو سمجھ ہی چکی تھی۔



              "لیکن عزم مجھے اس دھوپ کی عادت نہیں تم نہیں جانتے میری بہت بری حالت ہو گی۔۔۔"



              لیزا کی بے چینی پر روپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی بات اردو میں دہرائی۔



              "نہیں۔۔۔۔"



              عزم نے پھر سے کہا تو لیزا نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔



              "پلیز عزم میری بات سمجھنے کی۔۔۔۔"



              "نہیں تو نہیں۔۔۔۔"



              عزم نے اتنی سختی سے کہا کہ روپ خوف سے اچھل پڑی اور جلدی سے وہاں چلی گئی جبکہ لیزا غصے سے تر ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔جتنی دیر عزم نے سب لوگوں کو تحائف نہیں دے دیے اس نے لیزا کو اپنے ساتھ کھڑا کیے رکھا۔



              سب لوگوں کے فارغ ہو جانے کے بعد عزم نے غلام کو اپنے پاس بلایا اور لیزا کو گھر چھوڑنے کا کہا جبکہ خود وہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے مقصد سے وہیں رک گیا۔



              وہاں سے فارغ ہوتے ہوئے اسے رات کے آٹھ بج گئے تھے۔حویلی واپس آنے پر وہ جانتا تھا کہ اسکی ولایتی چوزی اس وقت غصے میں پھر سے دیسی شیرنی بنی بیٹھی ہو گی۔



              اس لیے اس نے اپنے اور اس کے لیے کھانا لیا اور اسکے کمرے میں آ گیا۔اس کی توقع کے عین مطابق لیزا تکیے میں چہرہ دیے الٹی لیٹی تھی۔



              "چلو ولایتی چوزی اٹھو کھانا کھاتے ہیں مجھے پتہ ہے تم نے غصے میں کچھ نہیں کھایا ہو گا اور تمہیں پتہ ہے کھایا میں نے بھی کچھ نہیں تو غصہ چھوڑو اور اٹھو اب مل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔"



              عزم نے کھانے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے خوشگوار انداز میں کہا۔



              "تم بھی تو کمال کرتی ہو ناں صرف دس منٹ کی بات تھی وہاں کھڑے ہونا اگر لوگوں کو یہ پتہ چلتا کہ انکی چوہدراین انکے لیے اتنی دیر وہاں کھڑی نہیں رہ سکتی تو کیا گزرتی انکے دل پر۔خود ہی سوچو تمہارا وہاں سے جانا کیسا لگتا۔۔۔۔"



              عزم نے اسکے پاس آ کر کہا لیکن اسکی بات سننا تو دور لیزا اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں۔



              "اچھا اب معافی مانگ لیتا ہوں میری ولایتی چوزی وہ کیا کہتے ہیں تمہاری انگریزی میں س۔۔۔۔سوری۔۔۔۔"



              عزم نے مسکراتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سیدھا کیا تو اسکی مسکان غائب ہوئی۔کیونکہ لیزا اس سے ناراض نہیں تھی بلکہ نیم بے ہوش حالت میں وہاں پڑی تھی۔چہرے کا رنگ بالکل لال ہو رہا تھا جیسے کہ وہ جل گئی ہو جبکہ وہ سانس بھی مشکل سے لے پا رہی تھی۔



              اسکی یہ حالت دیکھ کر عزم کے ہاتھ پیر پھول گئے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔



              "غلام۔۔۔۔۔غلام۔۔۔۔"



              عزم لیزا کو خود سے لگاتے ہوئے چلایا۔اسکی گھبرائی آواز کو سن کر غلام کے ساتھ ساتھ روپ بھی گھبرائی سی وہاں داخل ہوئی۔



              "کیا ہوا عزم سب ٹھیک۔۔۔۔؟"



              لیزا کی حالت دیکھ کر غلام کے الفاظ اسکے منہ میں ہی اٹک گئے۔



              "ڈاکٹر کو بلاؤ فوراً۔۔۔۔"



              عزم کے چلانے پر غلام بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا اور روپ جلدی سے پانی کا گلاس لے کر عزم کے پاس آئی۔عزم نے لیزا کے ہونٹوں سے پانی کا گلاس لگایا تو لیزا کمزور سی حلات میں آہستہ آہستہ وہ پانی اپنے اندر اتارنے لگی ۔



              تقریباً پندرہ منٹ کے بعد غلام ڈاکٹر کو لے کر وہاں آیا تھا اور یہ پندرہ منٹ کا انتظار عزم پر کتنا بھاری گزرا تھا یہ وہی جانتا تھا۔ڈاکٹر نے وہاں آتے ہی لیزا کا چیک اپ کیا اور اسے دوائیاں دینے کے بعد عزم کی جانب مڑا جو لیزا کا سر اپنی گود میں رکھے پریشانی سے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔



              "پریشان مت ہوں بس انہیں زیادہ دیر دھوپ میں رہنے کی وجہ سے سن سٹروک ہو گیا ہے۔میرے خیال میں یہ مغرب سے آئی ہیں اور وہاں کے لوگوں کو زیادہ دھوپ کی عادت نہیں ہوتی اس لیے ان کی یہ حالت ہو گئی ہے۔"



              ڈاکٹر کی بات پر ایک بوجھ عزم کے دل پر پڑا تھا۔



              "آپ پلیز کوشش کریے گا کہ آئندہ یہ زیادہ دیر دھوپ میں نہ رہیں اور فلحال انہیں زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں اور جلد پر ایلو ویرا جیل لگائیں۔۔۔۔"



              اتنا کہہ کر ڈاکٹر غلام کے ساتھ وہاں سے چلا گیا اور عزم نے مردہ آنکھوں سے اپنی گود میں بے سدھ پڑی لیزا کو دیکھا۔



              "شائید اسی لیے وہ گھر آنا چاہتی تھیں چوہدری جی وہ یہی کہہ رہی تھیں کہ انہیں اس دھوپ کی عادت نہیں۔۔۔۔"



              اتنا کہہ کر روپ نے بھی ان دونوں کو اکیلے چھوڑنا بہتر سمجھا اور وہاں سے چلی گئی۔عزم مردہ آنکھوں سے لیزا کے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔دل پر پڑا بوجھ مزید بھاری ہو گیا۔



              اسے اپنے آپ سے نفرت ہو رہی تھی کہ کیوں اس نے اسکی بات نہیں سنی،کیوں نہیں یہ سمجھا کہ اسکی ولایتی چوزی یہاں کے لوگوں جیسی نہیں وہ انتہائی نازک مزاج تھی۔

              عزم اسکی حالت کا مجرم خود کو سمجھ رہا تھا۔ہاں وہ خود اپنی بیوی کی اس حالت کا زمہ دار تھا۔

              ????

              Comment


              • #57
                Muhabbat ka afsaana hai..
                khawateen digest wala..
                Romance say bharpoor.

                Comment


                • #58
                  بہت الا ایک دلچسپ شاہکار ہے

                  Comment


                  • #59
                    #زندگی_اے_تیرے_نال



                    #قسط_نمبر_22(پارٹ 1)







                    "اے سے ایپل۔۔۔۔بی سے بال۔۔۔۔سی سے کیٹ۔۔۔۔ڈی سے ڈاگ۔۔۔۔"



                    کنیز نے یاد کیا ہوا سبق ماہم کو سنایا اور مسکرا کر اسے دیکھا۔



                    "ویری گڑ نوری تم تو بہت انٹیلیجینٹ ہو بھئی۔۔۔۔۔"



                    ماہم نے دل سے تعریف کی۔



                    "وہ کیا ہوتا ہے باجی؟"



                    کنیز نے کتاب سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا۔



                    "عقلمند جو کہ تم ہو۔۔۔۔"



                    ماہم نے اسکے بال سہلائے۔آج اسے ماہم نے آ کر تیار کیا تھا۔اس وقت وہ ہلکے سے پیلے رنگ کے سوٹ میں کھلے بالوں کے ساتھ کافی پیاری لگ رہی تھی۔اچانک ہی ماہم کے پرس میں پڑا موبائل بجنے لگا تو ماہم نے اسے پرس سے نکالا اور سامنے موجود نمبر دیکھ کر مسکرا دی۔



                    "ہیلو حاشر کیسے ہو؟"



                    ماہم نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگاتے ہوئے کہا۔



                    "کیا یار تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کب تک پہنچ رہے ہو گھر۔۔۔۔؟"



                    ماہم نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے پوچھا۔



                    "میں؟میں نے کہاں ہونا ہے اپنے سلطان کی جان کے پاس ہوں۔۔۔۔"



                    ماہم نے شرارت سے کنیز کا گال کھینچ کر کہا جبکہ خود کو سلطان کی جان کہے جانے پر کنیز شرم سے گلابی ہوتی سر جھکا گئی۔



                    "اوکے میں پہنچتی ہوں کچھ دیر میں۔۔۔۔لو یو۔۔۔"



                    ماہم نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا اور کنیز کی جانب دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ ایک انوکھی مخلوق ہو۔



                    "کیا ہوا؟"



                    "آپ اپنے شوہر کو نام سے باتیں ہیں؟"



                    کنیز کے سوال پر ماہم کے ہونٹ مسکرا دیے۔



                    "ہاں ویسے نام سے ہی بلاتی ہوں لیکن جب کبھی تنگ کرے تو بدتمیز،بے شرم،بے لحاظ بھی بلا لیتی ہوں۔۔۔"



                    ماہم کی بات کنیز کی حیرت میں اضافہ کر گئی۔



                    "ہا باجی شوہر کو ایسا نہیں کہتے گناہ ہوتا ہے بہت زیادہ۔۔۔۔"



                    "اچھا کس نے کہا تم سے یہ۔۔۔۔"



                    ماہم نے دلچسپی سے پوچھا۔



                    "میری امی نے بتایا۔۔۔۔انہوں نے کہا تھا شوہر کو اسکے نام سے نہیں بلاتے اسی لیے میں سائیں جی کو سائیں کہتی ہوں۔۔۔۔"



                    کنیز نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔



                    "اچھا تو اگر کوئی تم سے تمہارے شوہر کا نام پوچھے پھر تم کیا کرو گی؟"



                    اس سوال پر کنیز شش و پنج میں مبتلا ہو گئی۔



                    "مم۔۔۔میں وہ۔۔۔۔میں بولوں گی جو عرشمان بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں وہ ہیں میرے شوہر۔۔۔۔"



                    کنیز کی بات پر ماہم قہقہ لگا کر ہنسی اور پھر ہنستی چلی گئی۔



                    "ہائے میری کیوٹی دل کرتا ہے کھا جاؤں تمہیں۔۔۔۔"



                    ماہم نے کنیز کے گال کھینچتے ہوئے کہا اور بیگ پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔



                    "آپ جا رہی ہیں؟"



                    کنیز نے منہ بنا کر پوچھا۔



                    "اب کیا کروں میرے سر کے سائیں جی گھر آ رہے ہیں اگر ان کے آنے سے پہلے گھر نہ پہنچی تو نافرمانی ہو جائے گی ناں ان کی۔۔۔۔"



                    ماہم نے آنکھ مارتے ہوئے شرارتاً کہا تو کنیز پہلے ہنسی لیکن پھر سے اس نے منہ بسور لیا۔



                    "آپ کے بغیر میں کیا کروں گی کام تو کوئی ہوتا نہیں یہاں کرنے کو صفائی سائیں کرنے نہیں دیتے اور کھانا مجھے بنانا نہیں آتا تو وہ بھی ماسی بنا جاتی ہے میں کیا کروں۔۔۔۔؟"



                    کنیز نے اکتائے ہوئے پوچھا تو ماہم گہری سوچ میں ڈوب گئی۔اسے سلطان پر بھی غصہ آیا جو اسے وقت دینے کی بجائے آفس کے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔آخر کار ماہم کا دھیان دیوار پر لگی ایل سی ڈی پر گیا تو مسکرا دی۔



                    "تم ٹی وی دیکھو لو ٹائم پاس ہو جائے گا تمہارا ۔۔۔۔"



                    اس بات پر کنیز نے خوشی سے ہاں میں سر ہلایا۔



                    "آپ ناں مجھے کارٹون لگا دیں مجھے بہت پسند ہیں کارٹون وہ چوہے بلی والے۔۔۔۔"



                    ٹام اینڈ جیری کی شرارتیں یاد کر کنیز کھلکھلا کر ہنس دی لیکن ماہم نے ریمورٹ پکڑ کر چینل سرچ کیے اور پھر ایک ڈرامہ نظر آنے پر مسکرا کر کنیز کو دیکھا۔



                    "کارٹون چھوڑو اور یہ دیکھو تا کہ تمہیں تھوڑی عقل آئے اور تھوڑی سی بڑی ہو جاؤ تم۔۔۔۔"



                    ماہم نے کنیز کے سر پر چت لگاتے ہوئے کہا۔



                    "یہ کیا ہے باجی۔۔۔؟"



                    "اسے ڈرامہ کہتے ہیں سمجھ لو ہماری زندگی کا عکس ہوتے ہیں یہ جو کچھ ہماری زندگی میں ہوتا ہے اسکی ایک دلچسپ کہانی بنا کر ڈرامہ کی صورت میں دیکھا دیتے ہیں۔۔۔۔۔"



                    کنیز نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔



                    "اب میں چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے مجھے تم مزے کرو ۔۔۔۔"



                    اتنا کہہ کر ماہم نے اسکا گال چوما اور وہاں سے چلی گئی جبکہ کنیز کتنی ہی دیر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وہ ڈرامہ دیکھتی رہی تھی جس میں ایک بیوی کا شوہر اسے پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے کوئی اور لڑکی پسند تھی۔



                    اپنے شوہر کی خاطر اسکو روتا دیکھ کنیز بھی رو دی۔پھر ایک ایسا منظر آیا جس میں وہ لڑکی الٹیاں کر رہی تھی اور پھر بعد میں باورچی خانے میں جا کر کچے آم کھانے لگی۔



                    "ارے تمہیں الٹیاں ہو رہیں تھیں اب کچے آم کھا رہی ہو کہیں تمہیں خوشخبری تو نہیں؟"



                    لڑکی کی ساس کی بات پر اس لڑکی نے ساس کو حیرت سے دیکھا جبکہ کنیز اسکی بات نہ سمجھی۔



                    "مم ۔۔مطلب امی۔۔۔"



                    "دیکھو بیٹا ایک مہینے سے زیادہ ہو چلا ہے تم دونوں کی شادی کو اور اب تم اس خوشخبری کے بارے میں اپنے شوہر کو بتا دو پھر دیکھنا اسکی ساری ناراضگی ختم ہو جائے گی یہ خوشی ہی ایسی ہوتی ہے آدمی اپنی ساری خفگی ہر رنجش بھلا دیتا ہے تم آج اسکے گھر آتے ہی اسے یہ خوشخبری سناؤ۔۔۔۔"



                    اپنی ساس کی بات پر لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی جبکہ کنیز ریموٹ پر لال بٹن دبا کر ٹی وی بند کرتی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔



                    "میری اور سائیں جی کی شادی کو بھی تو ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے اور مجھے تو ابھی تک الٹیاں بھی نہیں آئیں اور کچی امبیوں کا تو سوچ کر ہی دانت کھٹے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔"



                    کنیز نے پریشانی سے سوچا۔



                    "ہائے کہیں سائیں جی اسی وجہ سے تو مجھ سے ناراض نہیں ہو گئے کہ میں نے انہیں خوشخبری نہیں سنائی اور اس لیے سارا سارا دن گھر بھی نہیں آتے۔۔۔۔اب میں کیا کروں۔۔۔۔"



                    کنیز کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اٹھ کر پریشانی سے ٹہلنے لگی۔صفائی والی بھی صفائی کر کے گھر جا چکی تھی اور ماسی تو کھانا دوپہر میں ہی بنا کر چلی گئی تھیں اب تو گھر میں بس چوکیدار تھا اور کنیز یہ بات اس سے تو پوچھنے سے رہی۔



                    "رات سائیں جی آئیں گے تو ان سے ہی پوچھ لوں گی۔۔۔۔"



                    کنیز نے فیصلہ کیا اور اس بات کو اپنے ذہن سے ہٹانا چاہا لیکن پھر بھی یہ بات مسلسل اسکے سر پر سوار رہی تھی۔

                    ????

                    سلطان رات دیر سے کی گھر واپس آیا اور یہ دعا کرنے لگا کہ کنیز سو چکی ہو تا کہ اسے اسکا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہ اسی کی وجہ سے تو اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھتا تھا کیونکہ وہ اسکے ساتھ وقت گزار کر مزید اسکے قریب ہونا نہیں چاہتا تھا۔



                    لیکن سلطان کی یہ خوش فہمی ہال میں داخل ہوتے ہی دور ہو گئی جب کنیز اسے بے چینی سے ہال میں ٹہلتے ہوئے نظر آئی۔



                    "تم سوئی نہیں ابھی تک؟"



                    سلطان کی آواز پر کنیز فوراً اسکے پاس آئی اور بے چینی سے اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔



                    "وہ سائیں مجھے بات کرنی تھی آپ سے۔۔۔۔"



                    "ہم کہو۔۔۔"



                    سلطان نے اپنی شرٹ کے کف لنکس کھول کر بازو کہنیوں تک فولڈ کرتے ہوئے پوچھا۔



                    " مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ آپ سارا سارا دن گھر کیوں نہیں آتے اور گھر آتے ہی سونے کیوں چلے جاتے ہیں آپ۔۔۔۔۔آپ مجھ سے دور کیوں رہتے ہیں؟"



                    سلطان نے نظریں اٹھا کر حیرت سے اسکی جانب دیکھا جو کافی اضطراب میں دیکھائی دے رہی تھی۔کچے پیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس کمر پر پھیلے بالوں اور کندھے پر پھیلے دوپٹے کے ساتھ وہ بے چین سی کس قدر دلکش لگ رہی تھی یہ کوئی سلطان سے پوچھتا۔



                    "آپ ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔۔"



                    کنیز نے اپنا انکشاف ظاہر کیا۔



                    "اور میں بھلا تم سے ناراض کیوں ہوں گا؟"



                    سلطان نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا ۔



                    "کیونکہ میں نے آپ کو خوشخبری نہیں سنائی۔۔۔۔"



                    کنیز کی بات پر سلطان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔کیا وہ لڑکی اس بات سے واقف بھی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی تھی۔



                    "ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے ہماری شادی کو اور میں نے ابھی تک نہ تو الٹیاں کی ہیں اور نہ کچے آم کھائے ہیں اور نہ ہی آپکو خوشخبری سنائی ہے اسی لیے ناراض ہیں ناں آپ مجھ سے۔۔۔۔۔"



                    کنیز کی بات پر سلطان نے سرد آہ بھر کر اپنا ماتھا سہلایا وہ سچ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔



                    "کس نے کہی تم سے یہ باتیں۔۔۔۔؟"



                    "وہ میں نے ڈرامے میں دیکھا۔۔۔"



                    کنیز نے فوراً بتایا تو سلطان نے بے بسی سے اسکی جانب دیکھا۔اب وہ ہارتا جا رہا تھا یہ لڑکی خود سے دور رہنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن بنا رہی تھی۔سلطان نے اپنا ہاتھ اسکی کمر میں ڈال کر اسے اپنے قریب کھینچا اور دوسرا ہاتھ اسکی گردن کے پیچھے لے جا کر اسکا سر اوپر کو کیا۔



                    کنیز ایک گڑیا کی طرح بلا مزاحمت اسکی گرفت میں نظریں جھکائے کھڑی تھی۔



                    "جس خوشخبری کی وہ بات کر رہی تھی ناں وہ خوشخبری یونہی نہیں سنائی جائے گی اسکے لیے بہت کچھ جھیلنا پڑے گا میری نازک جان کو۔۔۔۔"



                    سلطان نے اسکا نچلا لب اپنے انگوٹھے سے سہلایا تو کنیز نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔



                    "ہر شام میری شدتوں سے دوچار ہونا پڑے گا میری محبتوں کو سہنا ہو گا تب۔۔۔۔"



                    اچانک ہی سلطان نے اسکا سر پیچھے سے تھام کر اپنے اتنے قریب کر لیا کہ اسکی سانسوں کی مہک اور مونچھوں کی میٹھی چبھن کنیز کو اپنے ہونٹوں پر محسوس ہونے لگی۔



                    "تب تم بھی کچے آم کھا کر مجھے خوشخبری سنا پاؤ گی۔۔۔۔"



                    اسکی معنی خیز بات پر کنیز کا روم روم کانپ گیا۔



                    "سسس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔آپ جو کہیں گے جج۔۔۔۔جھیل لوں گی بس مم۔۔۔۔مجھے آپکی ناراضگی ختم کرنی ہے۔۔۔۔ "



                    کنیز خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کہہ چکی ہے لیکن اسکے الفاظ اب سلطان ملک کا ہوش مکمل طور پر ختم کر چکے تھے اسی لیے بنا کچھ سوچے سمجھے اس نے کنیز کو کھینچ کر خود میں بھینچ لیا اور اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے الجھا لیا۔



                    اسکی حرکت پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ہاتھ خود بخود سلطان کے سینے پر جا کر اسے خود سے دور کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔جس پر سلطان کے عمل میں مزید شدت آ گئی۔وہ تو پہلے ہی اسکے لیے کب سے تڑپ رہا تھا تو پھر کیونکر اسکی مزاحمت برداشت کرتا۔



                    کنیز کو اپنی گرفت سے آزاد کیے بغیر سلطان نے اسے صوفے پر لیٹایا اور خود بھی اس پر جھکتے ہوئے اسکے مزاحمت کرتے ہاتھ اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لے لیے۔



                    اسکے بے پرواہ جنون کو سہتی کنیز سانس تک نہیں لے پا رہی تھی۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ سلطان اس دور نہ ہوا تو اسکی روح ہی فنا ہو جائے گی۔



                    "سسس۔۔۔۔سائیں۔۔۔"



                    اسکی رکتی سانسوں کا خیال کر سلطان اس سے دور ہوا تو کنیز نے سہم کر اسے پکارا جبکہ سلطان بے خود ہوتا اسکا دوپٹہ کھینچ کر اس سے دور کر چکا تھا اور اب اسکی نازک گردن پر جھکا اسے محبت بھرے لمس سے دوچار کر رہا تھا۔



                    "سس۔۔۔۔۔سائیں مم۔۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔۔"



                    کنیز نے روتے ہوئے کہا تو سلطان نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔



                    "تم تو کہتی تھی جھیل لو گی سب اور اتنی جلدی بس ہو گئی تمہاری۔۔۔۔"



                    سلطان نے اسکا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبایا تو کنیز آنکھیں بند کر کے سسک اٹھی۔



                    "یہ تو میرے جنون کی جھلک ہے بس میری جان سوچو جب محبت کی یہ برسات تمہارے پور پور پر کی تو کیا حال ہو گا تمہارا۔۔۔۔"



                    سلطان نے اس کے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلایا جو اسکے ظلم پر لال ہو رہا تھا۔



                    "سس۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔"



                    "فنا کر دے گا میرا یہ جنون تمہیں نوری اگر اپنا حق لینے پر آیا تو اور اگر نہیں لیا تو یہ جنون مجھے فنا کر دے گا۔۔۔۔"



                    سلطان نے بے بسی سے اسکی زور سے بند پلکوں کو تھر تھر کانپتے نازک وجود کو دیکھا جو اسکے سکون کا سامان تھا۔



                    "اس لیے بہتر یہی ہے میری جان کہ اس جنون میں تمہاری بجائے میں فنا ہو جاؤں۔۔۔۔"



                    اتنا کہہ کر سلطان اس سے دور ہوا اور جلدی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔جبکہ اس کے جنون کے زیر اثر کنیز اپنا دہکتا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔

                    ????

                    سلطان صبح کنیز کے اٹھنے سے پہلے ہی آفس چلا گیا تھا وہ شائید کنیز کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اور کنیز کو لگا کہ وہ ناراض ہو گیا ہے۔



                    سارا دن کنیز نے اسی پریشانی میں کاٹا تھا اور آج تو ماہم بھی نہیں آئی تھی جو کنیز اس سے پوچھ لیتی۔سلطان کی کل رات کی بے خودی یاد کر کے کنیز پھر سے خوف سے سہم گئی جبکہ چہرہ تپ کر لہو چھلکانے لگا تھا۔



                    "پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے سائیں کو ایسا کون کرتا ہے۔۔۔۔۔؟"



                    کنیز نے اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوچا جو دہک رہے تھے۔



                    "اماں کو جب میرے پہ پیار آتا تھا تو اماں تو میرا گال چوم لیتی تھیں اور باجی گلے لگا لیتی تھی لیکن ایسے تو کبھی کسی نے نہیں کیا۔۔۔۔"



                    کنیز کا ہاتھ خود بخود اپنے ہونٹوں کی جانب گیا تو وہ سب یاد کر کے پھر سے گھبرا گئی۔وہ معصوم ان جذبات کو سمجھنے سے قاصر تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ؟وہ پڑھی لکھی نہیں تھی نہ ہی اسکے ماں باپ نے اسے باہری لوگوں سے زیادہ گھلنے ملنے دیا تھا اور نہ ہی کسی نے کنیز سے کبھی ایسی کوئی بات کی تھی یہ سب احساسات اسکے لیے نئے تھے۔



                    کنیز کو کام کھانا بنانے والی ماسی کچن کی جانب جاتی نظر آئی تو اٹھ کر ان کے پاس آ گئی۔اس امید سے کے شائید وہ اسکی الجھن سلجھا دیں۔



                    "ماسی آپ سے کچھ پوچھ لوں؟"



                    کنیز کی آواز پر ماسی اسکی جانب پلٹ کر مسکرا دی۔



                    "ہاں پوچھو بیٹا کیا پوچھنا ہے۔۔۔۔"



                    ماسی نے سبزیاں نکال کر کاونٹر پر رکھتے ہوئے کہا جبکہ کنیز کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا پوچھے۔



                    "ماسی وہ سائیں جی ہیں ناں وہ۔۔۔۔۔"



                    کنیز سر جھکا کر ہاتھ مسلنے لگی تو ماسی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔



                    "کچھ کہا ہے کیا سلطان صاحب نے؟"



                    کنیز نے فوراً ہاں میں سر ہلایا لیکن پھر نہ میں ہلا دیا۔



                    "کہا نہیں وہ۔۔۔۔ماسی انہیں پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں۔۔۔"



                    ماسی کے ماتھے پر بل آ گئے وہ کنیز کی بات سمجھ نہیں پائی۔



                    "کیا ہو جاتا ہے بیٹا؟"



                    ماسی نے پریشانی سے پوچھا تو کنیز نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا اور انکے کان کے پاس ہو کر انہیں بتایا۔اسکی بات پر ماسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔



                    "وہ تمہارا شوہر ہے بیٹا اور یہ بس اسکی محبت ہے تم گھبراؤ نہیں۔۔۔"



                    ماسی نے دھیان سبزیوں کی جانب کرتے ہوئے کہا۔



                    "لیکن پہلے کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا۔۔۔۔"



                    کنیز نے پریشانی بیان کی تو ماسی نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا۔



                    "تمہاری شادی کے وقت تمہیں تمہاری ماں نے کچھ نہیں بتایا تھا کیا؟"



                    کنیز نے انکار میں سر ہلایا۔



                    "ایسا تو کچھ نہیں بتایا تھا انہوں نے تو بس سائیں کی خدمت کرنے کا کہا تھا انکی ہر بات ماننے کا کہا تھا۔۔۔۔۔"



                    کنیز نے پریشانی سے کہا تو ماسی نے گہرا سانس لیا۔



                    "دیکھو بیٹا کچھ ایسی باتیں،ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن پر صرف شوہر کا حق ہوتا ہے اور بیوی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو پورا کرے کیونکہ اللہ نے شوہر کے لیے اسے حلال قرار دیا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو گناہ ہو گا اسے۔۔۔۔۔"



                    ماسی کی بات پر کنیز کی آنکھیں حیرت سے بڑی ہو گئیں۔



                    "ننن۔۔۔۔نہیں نہیں مجھے گناہ نہیں لینا ماسی میں کیا کروں۔۔۔۔۔؟"



                    کنیز کے سوال پر ماسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔



                    "تم نا صاحب کے لیے تیار ہو سجو سنورو اور وہ جو بھی کہیں یا کریں گھبرائے بغیر انکی بات مان لو بس ہو گیا تمہارا فرض پورا۔"



                    کنیز نے ماسی کی بات پر غور کیا۔



                    "ٹھیک ہے ماسی۔۔۔"



                    اتنا کہہ کر کنیز جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور الماری کھول کر کپڑوں کا جائزہ لینے لگی۔بہت دیکھنے کے بعد اسے آف وائٹ کلر کا ایک فراک پسند آیا جس پر سنہری گوٹے کا کام ہوا تھا۔



                    کنیز نے اس فراک کو باہر نکالا اور اپنے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی۔پھر اس نے بکسے میں سے سفید اور سنہری رنگ کی چوڑیاں نکالیں اور سفید ہی رنگ کے جھمکے نکال کر مسکراتے ہوئے انہیں دیکھنے لگی۔



                    "میں آپ کے لیے بہت پیاری تیار ہوں گی سائیں جی اور پھر آپکی ہر بات بھی مانوں گی پھر میں آپ کو اچھی لگنے لگوں گی۔۔۔۔"



                    کنیز نے شرمیلی سی مسکان کے ساتھ سوچا اور کپڑے پکڑ کر واش روم میں چلی گئی۔نہانے کے بعد اس اس نے وہ کپڑے پہنے اور آئنے سے سامنے آ کر مسکراتے ہوئے چوڑیاں پہننے لگی۔



                    پھر اس نے وہ جھمکے اپنے کانوں میں پہنے اور بالوں میں کنگھی کر کے اپنے کانوں کے پاس سے بالوں کے دو لٹیں پکڑ کر انہیں سر کے پیچھے لے جا کر سنہری رنگ کے کلپ میں مقید کر لیا جو اسکے سر کے پیچھے ایسے لگ رہا تھا جیسے سنہری پھولوں کی بیل ہو۔



                    باقی کھلے بال کنیز نے اپنے کندھوں پر ڈال لیے اور پھر دوپٹہ بھی اپنے شانوں پر پھیلا کر پریشانی سے ڈریسنگ پر پڑے میک اپ کو دیکھنے لگی۔



                    "اتنی ساری کریمیں ہیں یہ پتہ نہیں باجی کونسی لگاتی ہیں ۔۔۔۔"



                    کنیز نے سوچا پھر کریم لگانے کا خیال ترک کرتی اس نے ایک گلابی لپسٹک پکڑ کر نفاست سے اپنے ہونٹوں پر لگائی اور پھر وہی لپسٹک ہلکی ہلکی سی اپنے گال پر لگا لی۔



                    ایسا وہ اپنی بہن کو کسی کی شادی پر کرتے ہوئے دیکھتے تھی۔پھر کنیز کا دھیان اپنی پسندیدہ شے کاجل پر گیا تو اس نے مسکرا کر کاجل پکڑا اور اپنی آنکھوں میں سجانے کے بعد مسکراتے ہوئے خود کو دیکھنے لگی۔



                    "دیکھا میں خود سے کتنی پیاری تیار ہو گئی کاش ماہم باجی یہاں ہوتیں تو انہیں دیکھاتی کہ اتنی بھی نکمی نہیں میں۔۔۔۔"



                    کنیز نے ہنستے ہوئے خود کلامی کی اور آئنے میں اپنا جائزہ لیا۔



                    "کنیز بیٹا میں نے کھانا بنا دیا ہے اب میں گھر جا رہی ہوں صاحب آئیں تو نہیں گرم کر کے دے دینا۔۔۔۔"



                    ماسی کی آواز پر کنیز نے جلدی سے اچھا جی کہا اور ایک بار پھر سے خود کو آئینے میں دیکھا۔اب بس وہ بے چینی سے سلطان کے گھر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔



                    رات کے آٹھ بج رہے تھے اور سلطان ابھی تک نہیں آیا تو کنیز شیشے کی کھڑکی کے پاس جا کر باہر لان کو دیکھنے لگی جب اچانک اسکی نظر آسمان پر چھائے بادلوں پر گئی تو وہ پریشان ہو گئی۔



                    "اللہ میاں جی آپ تو سب سے اچھے ہیں ناں آپ بارش کریں گے تو بجلی نہیں چمکائے گیں ہیں ناں۔۔۔۔"



                    کنیز نے معصومیت سے کہا اور پھر اسکی دعا قبول ہوئی۔رم جھم بارش شروع ہو گئی لیکن بجلی نہیں چمکی تو کنیز خوشی سے چہکتے ہوئے باہر آ گئی۔



                    اسے بجلی سے جتنا ڈر لگتا تھا بارش اسے اتنی ہی پسند تھی اور ایسا شاذونادر ہی ہوتا تھا کہ بجلی چمکتی بغیر بارش ہو جائے لیکن آج ایسا ہوا تھا اور کنیز اس پل کو کھل کر جینا چاہتی تھی۔

                    ????

                    Comment


                    • #60


                      #زندگی_اے_تیرے_نال



                      #قسط_نمبر_22(پارٹ 2)







                      سلطان نے جیسے ہی موسم خراب ہوتے دیکھا وہ گھر واپس آنے کے لیے نکل پڑا۔وہ جانتا تھا کہ کنیز گھر پر اکیلی ہے اور اگر بجلی چمکی تو وہ بری طرح ڈر جائے گی۔سچ تو یہ تھا کہ کل رات کے بعد وہ اسکے سامنے جانے سے بھی کترا رہا تھا۔



                      نہ جانے اس نے کیسے خود کو اپنا حق لینے سے روکا تھا اور نہ جانے وہ کب تک خود کو ایسا کرنے سے روک سکتا تھا۔کنیز کے معاملے میں اپنے جزبات پر ہمیشہ قابو پانے والے سلطان ملک نے ہمیشہ ہی خود کو بے بس پایا تھا۔



                      گھر کے باہر پہنچ کر سلطان نے جب دروازے پر چوکیدار کو نہیں پایا تو اسکے ماتھے پر بل آ گئے۔آخر وہ اتنی غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیسے کر سکتا تھا۔



                      سلطان نے گاڑی گھر سے باہر روکی اور موسلادھار بارش سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے گیٹ تک آیا اور اپنے پاس موجود چابی سے دروازا کھول کر اندر داخل ہوا۔



                      اندر داخل ہوتے ہی سلطان کا دھیان چوکیدار پر گیا جو گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑا ایک جانب دیکھ رہا تھا۔سلطان نے اسکے پاس جا کر اس سے پوچھنا چاہا کہ جب اسکی ڈیوٹی گیٹ سے باہر رہنے کی ہے تو وہ اندر کیا کر رہا ہے لیکن پھر اسکا دھیان چوکیدار کی نظروں کے تعاقب میں گیا تو خون غصے سے کھول اٹھا۔



                      اسکی بیوی اس وقت ہر چیز سے بے نیاز بارش میں گھومتے ہوئے اپنا گیلا دوپٹہ لہرا رہی تھی جبکہ بھیگنے کی وجہ سے لباس جسم سے چپک رہا تھا اور وہ گھٹیا چوکیدار اسے ہی یک تک دیکھنے میں مصروف تھا۔



                      "صفدر۔۔۔۔"



                      سلطان کی غصے سے بھری آواز پر صفدر نے سہم کر اسے دیکھا۔



                      "ججج۔۔۔۔جی صاحب۔۔۔۔"



                      "تمہاری ڈیوٹی گھر کے باہر ہے یا اندر؟"



                      سلطان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکی وہ آنکھیں ہی نوچ لے جن سے اس نے اسکی بیوی کو دیکھا۔



                      "صص۔۔۔۔صاحب جی باہر۔۔۔۔"



                      "تو کیا کر رہے ہو دفع ہو جاؤ باہر اور کل سے کام پر مت آنا مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔۔۔۔"



                      سلطان کے غصے سے کہنے پر وہ جلدی سے باہر چلا گیا۔وہ سلطان کو کچھ کہہ کر مزید غصہ دلانہ نہیں چاہتا تھا۔سلطان نے ایک نظر کنیز کو دیکھا جو خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ اپنا دوپٹہ ہاتھوں میں لیے لہرا رہی تھی۔



                      سلطان غصے سے چلتا اسکے پاس آیا اور ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچا تو کنیز کے ہونٹوں سے ایک چیخ نکل گئی اور اس نے سہم کر سلطان کو دیکھا جو انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔



                      خوف سے کنیز کو دوپٹے کا بھی خیال نہ رہا جو سلطان کے کھینچتے ہی اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا تھا۔



                      "سس۔۔۔سائیں۔۔۔"



                      "کیا کر رہی ہو تم یہاں؟اپنے اردگرد کا ہوش بھی ہے تمہیں کس نے حق دیا تمہیں کہ میری ملکیت کو یوں کسی کی بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بناتی رہو ۔۔۔۔۔"



                      سلطان کے غصے پر کنیز مزید ڈر گئی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سلطان اتنا غصہ کیوں کر رہا ہے۔



                      "کیا ہوا سائیں۔۔۔؟



                      اسکے اتنی معصومیت سے پوچھنے پر سلطان نے گہرا سانس لیا۔



                      "تمہیں تو بارش سے ڈر لگتا ہے ناں تو پھر یہاں کیا کر رہی ہو تم؟"



                      سلطان کی انگلیاں اسکی کمر میں دھنسی۔وہ ابھی بھی اس بات کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا کہ ایک غیر مرد اسے اس حالت میں دیکھ رہا تھا اور کنیز کو اسکی خبر تک نہ تھی۔



                      "بارش سے نہیں بجلی سے ڈر لگتا ہے اور دیکھیں ناں سائیں ابھی بجلی نہیں چمک رہی۔۔۔۔"



                      کنیز نے خوشی سے چہچہاتے ہوئے کہا اور سلطان سے دور ہو کر اپنے بازو پھیلائے گھومنے لگی لیکن اچانک ہی اسکی ساری خوشی ملیا میٹ ہوئی۔روشنی کی تیز لہر آسمان میں نمودار ہوئی اور ساتھ ہی بادل بہت زور سے گرجا۔



                      کنیز ایک چیخ مار کر سلطان کے پاس آئی اور اسکے سینے میں چھپ گئی۔



                      "اا۔۔۔۔۔اندر چلیں سائیں۔۔۔۔ببب۔۔۔بجلی چمک رہی ہے۔۔۔۔۔"



                      کنیز کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سلطان کے اندر گھس جاتی اور سلطان بھی اسکے قرب پر مدہوش ہوتا اسے خود میں بھینچ گیا تھا۔



                      "اب کیا ہوا اب بھی خوشی خوشی بھیگو بارش میں اب کیوں ڈر لگ رہا ہے تمہیں۔۔۔؟"



                      سلطان نے اسکے بھیگے ہوش ربا وجود کو خود میں سمیٹتے ہوئے کہا۔۔



                      "بب۔۔۔۔بجلی چمک رہی ہے۔۔۔ممم۔۔۔۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے اس سے اا۔۔۔اماں نے بتایا تھا یہ کسی پر گر جائے تو بندہ مر جاتا ہے۔۔۔۔"



                      کنیز نے اپنا خوف بیان کیا۔



                      "فکر مت کرو میری جان اس بجلی کو بھی تم تک پہنچنے کے لیے مجھ سے گزرنا ہو گا آج تو تمہاری سانسوں کو بھی میری اجازت درکار ہو گی۔۔۔۔۔"



                      سلطان نے اسکی بھیگی گردن سے بارش کا پانی اپنے ہونٹوں پر چنتے ہوئے کہا۔



                      "سس۔۔۔۔سائیں اندر چلیں ناں۔۔۔۔اندر چل کے آپ جو کہیں گے مانوں گی بس اندر چلیں۔۔۔۔"



                      کنیز کی آواز بے چینی سے بھری ہوئی تھی لیکن سلطان کو ہوش ہی کہاں تھا۔وہ تو اس پر گری بارش کی بوندوں کو شبنم کے قطرے تصور کرتا اپنی پیاس بجھانے میں مصروف تھا۔



                      سلطان نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور اسکے حسین چہرے کو محبت سے نہارنے لگا۔بارش کے قطرے اسکے چہرے پر گرے اسے بے چین کر رہے تھے۔



                      "آ جا زندگی تجھ سے آدھی آدھی بانٹ لوں

                      میری صبح تو جی لے تیری شب میں کاٹ لوں"



                      سلطان نے اسکے بھیگے گلابی ہونٹوں کو انگلی سے چھوتے ہوئے پیاری سی آواز میں گنگنایا تو کنیز بجلی کا خوف بھلا گئی لیکن اب سلطان کا یہ قرب اسے کپکپانے پر مجبور کر رہا تھا۔سلطان مدہوشی کے عالم میں اسکے ہونٹوں پر جھک گیا اور کنیز سہم کر اپنی آنکھیں موندتی اسکا کالر اپنی مٹھی میں جکڑ گئی۔



                      کنیز کو مزاحمت نہ کرتے دیکھ سلطان کتنی ہی دیر اسکی سانسوں پر اپنی حکومت قائم کیے رہا۔اب اسکی ہمت جواب دے چکی تھی خود سے لڑتے لڑتے وہ تھک چکا تھا۔



                      کنیز کے ہونٹوں کو آزادی بخش کر سلطان نے اسکے لہو چھلکاتے چہرے کو محبت سے دیکھا۔



                      "پلکیں اٹھاؤ نوری۔۔۔۔میری آنکھوں میں دیکھو۔۔۔۔"



                      سلطان کے حکم پر کنیز اپنی آنکھیں زور سے میچ کر کپکپا گئی۔



                      "آپ نے منع کیا تھا سائیں۔۔۔۔"



                      کنیز نے اسے یاد دلانا چاہا۔



                      "ہاں کیا تھا میں نے منع کیونکہ تمہاری یہ آنکھیں میرے حواس سلب کر لیتی ہیں مجھ پر ایک نشے کی طرح طاری ہو جاتی ہیں نوری مجھے مدہوش کر دیتی ہیں لیکن آج میں مدہوش ہونا چاہتا ہوں۔۔۔۔"



                      سلطان نے اسکا گلال چہرہ سہلاتے ہوئے محبت بھری سرگوشی کی۔آسمان پر بجلی ابھی بھی چمک رہی تھی لیکن کنیز اس سے بے خبر تھی اسکا سارا دھیان اپنے سلطان پر تھا۔



                      "خود سے لڑ لڑ کر تھک چکا ہوں میں نوری اب مزید نہیں روک سکتا خود کو نہیں رہنا چاہتا تم سے دور اپنی ان نظروں کو اٹھاؤ میری جان اور میرے ہوش ختم کر دو تا کہ میں تمہارے سوا کچھ نہ دیکھوں،تمہارے علاوہ کچھ مت سوچوں۔۔۔۔"



                      سلطان نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اوپر کرتے ہوئے اسکی بند پلکوں کو بے چینی سے دیکھا۔



                      "میری آنکھوں میں دیکھو میری کنیز اور بنا لو اس سلطان کو اپنا غلام۔۔۔۔"



                      سلطان کے حکم پر کنیز نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ایسا ہو سکتا تھا کہ کنیز اپنے سلطان کا حکم ٹالتی۔اس نے جیسے ہی اپنی پلکیں اٹھا کر سلطان کی آنکھوں میں دیکھا سلطان ان آنکھوں کی خوبصورتی میں بہہ کر مدہوش ہو گیا۔خود سے کب سے لڑتی وہ جنگ آج سلطان ملک ان دو دھاری تلواروں کے سامنے ہار گیا تھا۔



                      سلطان نے اسکا کپکپاتا نازک وجود اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور اسے سیدھا اپنے کمرے میں لے آیا۔کمرے میں آ کر اس نے کنیز کو بیڈ پر لیٹایا اور خود دروازہ لاک کرتا اسکی جانب آنے لگا۔



                      سلطان کو یوں خود کے قریب آتا دیکھ کنیز خود میں ہی سمٹ گئی۔اسے ماسی کی کہی بات یاد آئی کہ اسکے شوہر کی خواہش پوری کرنا اسکا فرض ہے لیکن کنیز ان خواہشات کو سمجھتی ہی نہیں تھی تو انہیں پورا کیسے کرتی۔



                      "سسس۔۔۔سائیں بستر گیلا ہو رہا ہے مم۔۔۔۔میں کپڑے بدل آؤں۔۔۔؟"



                      کنیز نے اجازت طلب کرنی چاہی لیکن سلطان اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اس پر جھک گیا تو کنیز سانس تک لینا بھول گئی۔



                      "اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی تم بس آج خود کو مظبوط کر لو کیونکہ آج میں رحم نہیں کھانے والا۔۔۔۔"



                      سلطان نے اسکے بالوں سے سنہری کلپ نکال کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور اسکے بالوں کو ہاتھ سے الجھاتے ہوئے اپنی مٹھی میں جکڑ کر اسکا چہرہ اپنے ہونٹوں کے قریب کر لیا۔



                      "پاس آؤ میں تمہیں دیکھ لوں قریب سے

                      آنکھوں کو یہ راحتیں ملتی ہیں نصیب سے"



                      سلطان گنگناتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر جھک گیا تو کنیز نے کپکپاتے ہاتھوں میں اسکی شرٹ کو جکڑ لیا۔سلطان آج فرصت سے محبت کا جام پینے میں مصروف تھا اور کنیز اسکی نافرمانی کے خوف سے مزاحمت بھی نہیں کر رہی تھی۔



                      جب اسے لگا کہ وہ سانس بھی نہیں کے پائے گی تو اسنے سلطان کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے دور کیا۔کمرے کی خاموشی میں چوڑیوں کی چھنکار گونجی اور کنیز سلطان سے بچنے کے لیے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔



                      "بازؤں میں تم مجھے بے تحاشہ گھیرے ہو

                      کل کی فکر ہے کس کو تم ابھی تو میرے ہو۔۔۔۔"



                      سلطان نے پھر سے گنگنایا اور اسکا ہاتھ کنیز کی کمر پر موجد زپ کو کھولنے لگا۔



                      "سس۔۔۔سائیں۔۔۔"



                      کنیز نے سہم کر نم آواز میں اسے پکارا لیکن سلطان کو اسکی من مرضی سے روک نہیں پائی۔وہ کنیز کے کندھوں سر شرٹ آہستہ آہستہ سرکانے لگا۔



                      "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔۔"



                      کنیز نے روتے ہوئے اپنا مسلہ بیان کیا تو سلطان اپنے سینے سے اسکا چہرہ نکال کر جاں نثار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔



                      "سب سمجھ جاؤ گی نوری جب میری محبتوں کے طوفان سے گزرنا پڑے گا تو سمجھ جاؤ گی ان جزبات کو ابھی بس خود کو میرے سپرد کر دو اور سب بھول جاؤ۔۔۔"



                      سلطان نے اسے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے کہا تو کنیز اسکی بات مانتی اپنی آنکھیں زور سے میچ گئی۔اسکی اس خود سپردگی پر مسکراتے سلطان اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔



                      "چاہے جہاں بھی رہوں میں تجھ پہ ہی آ کر رکوں میں

                      اب دل میں رکھ نہ سکوں گا کوئی دوسرا جنوں میں۔۔۔"



                      سلطان گنگناتے ہوئے اس کے نازک وجود پر حاوی ہو گیا اور کنیز اپنی آنکھوں کو زور سے میچتی اسکی ہر من مانی برداشت کرنے لگی۔سلطان کا جنون، اسکی محبت سچ میں اسکے لیے جان لیوا ثابت ہوئی تھی۔



                      پوری رات سلطان کے اندر امٹنے والا طوفان کنیز کے لیے وبال جان بنا رہا تھا۔وہ کبھی سہم کر اس سے دور جانے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنی الجھن میں اس میں سمٹ جاتی لیکن سلطان نے ایک پل کے لیے بھی اسے اپنے جنون سے آزادی نہیں دی تھی۔دیتا بھی کیوں اس نے اتنی تڑپ کے بعد اپنی محبت کا سکون حاصل کیا تھا۔وہ سکون جس نے اسکی روح تک کو سر شار کر دیا تھا۔

                      ????

                      "آپ نے بلایا تھا اماں بی۔۔۔۔؟"



                      فرحین بیگم کی آواز پر اماں بی جو تسبیح پڑھ رہی تھیں انہوں نے تسبیح کو چوم کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور فرحین کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔



                      "جو میں کہنے لگی ہوں فرحین میری بات کو بہت اطمینان اور ٹھنڈے دماغ سے سننا۔۔۔"



                      اماں بی نے بات شروع کی تو فرحین بیگم نے حیرت سے انہیں دیکھا۔



                      "ایسی کیا بات ہے اماں بی؟"



                      اماں بی نے ایک سرد آہ بھری اور کچھ سوچتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔



                      "دیکھو فرحین سلطان بہت زیادہ اچھا اور فرمانبردار بچہ ہے اس نے آج تک تمہارا کوئی حکم نہیں ٹالا تمہاری ہر خواہش ہر چاہت پوری کی اس لیے میرے خیال میں اب تمہارا بھی فرض بنتا ہے کہ تم اس کی خوشیوں کے بارے میں سوچو۔۔۔۔"



                      فرحین بیگم کے ماتھے پر بل آ گئے۔



                      "آپ کہنا کیا چاہتی ہیں؟"



                      "سلطان۔۔۔۔وہ انابیہ کو پسند نہیں کرتا فرحین وہ بس تمہاری خوشی کے لیے اسے قبول کر رہا ہے ورنہ سلطان کے دل میں اسکی کوئی جگہ نہیں۔اس بات کو سمجھو اور انابیہ کی شادی سلطان سے کرنے کی بجائے سلطان سے اسکی مرضی اسکی خواہش معلوم کرو۔۔۔۔"



                      اماں بی کی بات پر فرحین بیگم کی رنگت زرد ہو گئی۔



                      "یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔"



                      "وہی فرحین جو سچ ہے لیکن اپنی بھانجی کی محبت میں تمہیں نظر نہیں آ رہا۔۔۔۔"



                      اماں بی نے عام سے انداز میں کہا۔



                      "جھوٹ بول رہی ہیں آپ میرے سلطان کی خوشی وہی ہے جو میری خوشی ہے وہ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرے گا۔۔.."



                      فرحین بیگم غصے سے چلائیں تو اماں بی نے گہرا سانس لیا۔



                      "یہی تو بات ہے فرحین اسی لیے میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ تم اسکی مرضی بھی جانو اسکی خوشی کا خیال رکھو۔۔۔"



                      فرحین بیگم نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔



                      "آپ میرے سلطان کو مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں ناں جیسے آپ نے عرشمان کو مجھ سے چھین کر اس آن کا غلام بنا دیا آپ ویسے ہی سلطان کو بھی مجھ سے چھیننا چاہتی ہیں۔۔۔۔"



                      فرحین بیگم روتے ہوئے چلائیں۔



                      "ایسا کچھ نہیں فرحین بات کو سمجھو۔۔۔"



                      "بات ہی تو سمجھ چکی ہوں اماں بی آپ کو تو ہمیشہ مجھ سے اور میرے۔ بہن بھائی سے نفرت ہی رہی ہے چھوٹے خاندان کے جو تھے ہم اس لیے آپ نہیں چاہتیں کہ سلطان انابیہ سے شادی کرے ایسا ہی ہے ناں۔۔۔۔"



                      فرحین کی سوچ پر اماں بی نے افسوس سے سر جھٹکا۔



                      "لیکن دیکھیے گا میرا سلطان میری بات ضرور مانے گا وہ انابیہ سے شادی کرے گا کسی اور سے نہیں میں کوئی اور لڑکی نہیں آنے دوں گی اسکی زندگی میں سنا آپ نے۔۔۔۔"



                      اتنا کہہ کر فرحین وہاں سے اٹھیں اور روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئیں جبکہ اماں بی بس سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔



                      "افسوس ہو رہا ہے مجھے تم پر فرحین تم آج بھی نہیں بدلی آج بھی تمہیں اپنے بچوں اور اپنے گھر سے زیادہ اپنے بہن بھائی کی پرواہ ہے۔انکی محبت میں تم اتنی اندھی ہو چکی ہو کہ تمہیں اپنے بیٹے کی خوشیوں،اسکی خواہش سے کوئی سروکار ہی نہیں۔۔۔۔اللہ تمہیں ہدایت دے۔۔۔۔"



                      اماں بی نے افسوس سے کہا اور پھر سے تسبیح پکڑ کر رب کی ثناء میں مصروف ہو گئیں۔بے ساختہ انکے دل سے سلطان کے لیے دعائیں نکلنے لگیں جو اپنا حق لینے میں عرشمان کی طرح بہادر اور خود سر نہیں تھا۔

                      ????

                      سلطان کب سے کنیز کے پاس بیٹھا محبت سے اسے دیکھ رہا تھا جو اسکی شدتوں سے چور بکھری سی حالت میں سو رہی تھی۔سلطان کی محبت اور قرب کا وہ رنگ نیند میں بھی اسکے چہرے پر چھلک رہا تھا۔



                      سلطان نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گال کو محبت سے چھوا تو کنیز اسکے لمس پر نیند میں بھی خود میں سمٹ گئی۔اسکی اس حرکت پر سلطان کو کل رات اسکا خود میں سمٹنا اور سلطان کے جنون پر سہم جانا یاد آیا۔



                      ایسا مت کریں سائیں ڈر لگ رہا ہے۔کنیز کے الفاظ یاد کر کے سلطان پھر سے بہکتا اسکے قریب ہونے لگا۔دل کیا ایک بار پھر اسکے پور پور کو اپنی محبت سے مہکا دے۔وہ اسی کی کنیز تھی سلطان کی ملکیت اور سلطان پھر سے اس پر اپنا حق جتا کر خود کو سکون کے وہ پل دینا چاہتا تھا جو کنیز کی قربت میں اسے نصیب ہوئے تھے۔



                      اس سے پہلے کے سلطان اسکے ادھ کھلے ہونٹوں پر جھک کر کوئی گستاخی کرتا اچانک اسکا دھیان اپنے موبائل پر گیا جو مسلسل بج رہا تھا لیکن سائیلنٹ پر ہونے کی وجہ سے اسے پتہ نہیں چلا۔



                      سلطان کا دل کیا کہ موبائل کو نظر انداز کرتا پھر سے ان پھولوں جیسے نازک وجود میں کھو جائے لیکن جب اسکی نظر فرحین بیگم کے نام اور اڑتالیس مس کالوں پر پڑی تو دل بہت زیادہ بے چین ہوا.



                      اس نے فوراً فرحین بیگم کو کال ملا کر موبائل کان سے لگایا۔



                      "ہیلو امی خیریت تو ہے۔۔۔۔؟"



                      "سلطان کہاں ہو تم میں رات سے تمہیں فون کر رہی ہوں اور تم نے ایک بار بھی فون نہیں اٹھایا۔۔۔۔"



                      فرحین بیگم کی بات پر سلطان نے گہرا سانس لے کر اپنا ماتھا سہلایا۔



                      "سوری امی موبائل سائلنٹ پر تھا۔آپ بتائیں سب خیر ہے ناں۔۔۔؟"



                      سلطان نے پریشانی سے پوچھا۔



                      "سلطان میں چاہتی ہوں تم جلد از جلد گھر واپس آؤ۔۔۔۔"



                      سلطان نے پریشانی سے سکون کی نیند سوئی کنیز کو دیکھا۔



                      "کیوں امی سب خیر تو ہے؟"



                      "ہاں بس تم واپس آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔"



                      سلطان نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلایا۔



                      "ٹھیک ہے امی میں جلد از جلد گاؤں واپس آنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔"



                      اتنا کہہ کر سلطان نے انہیں خدا حافظ کہا اور فون بند کر کے کنیز کو دیکھنے لگا۔سچائی کمی دنیا میں واپس لوٹنے پر اسے اپنی زمہ داریوں اور خود سے جڑے رشتوں کا خیال آیا تو اسے خود سے نفرت ہونے لگی۔



                      وہ کیسے اتنے مان سے کنیز سے اپنا ہر حق وصول کر گیا جبکہ وہ تو اسے اپنی بیوی کی پہچان بھی ٹھیک سے نہیں دے پایا تھا۔سلطان کا دل کر رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔



                      کنیز کے قریب جاتے ہوئے اس نے کیوں نہیں سوچا تھا کہ اسکی ماں نے تو اسکے لیے کچھ اور سوچا تھا۔مگر اب سلطان چاہ کر بھی اسکے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔



                      اسے ایسا لگ رہا تھا کہ کنیز نے اسے کسی اور عورت کے قابل چھوڑا ہی نہ ہو۔ہاں اس نے سوچ لیا تھا کہ اس معصوم سے اپنا حق وصولنے کے بعد وہ اسکا حق بھی اسے دے گا۔



                      اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کنیز کے بارے میں سب کچھ فرحین بیگم کو بتا دے گا اور یہ بھی بتا دے گا کہ وہ انابیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔وہ بتا دے گا کہ یہ سلطان صرف اور صرف اپنی کنیز کا ہے۔۔۔۔



                      سلطان نے کنیز کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے سوچا اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔اپنے جنون میں رات نہ تو خود کچھ کھایا تھا نہ اسے کھانے کا پوچھا تھا لیکن اب سلطان اسکا خیال رکھنا چاہتا تھا بالکل جیسے وہ سلطان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی تھی۔

                      ????

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X