Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

#زندگی_اے_تیرے_نال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #11
    شروعات اچھی ہے کہانی کی

    Comment


    • #12
      #زندگی_اے_تیرے_نال
      #قسط_نمبر_2



      "سنا ہے کیا آپ نے ملک جی ساتھ کے گاؤں کا عرشمان ملک اس مرتبہ پھر سے الیکشن ہار گیا۔۔۔"

      اپنے منشی کی بات پر ساٹھ سالہ آدمی کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔

      "عرشمان ملک خود کو سمجھتا بہت کچھ ہے لیکن سچ یہی ہے کہ وہ ابھی بچہ ہے۔کتنی ہی بار کہا اسے کہ زرا ہوشیاری سے کام لے اور لوگوں کو پیسہ کھلا کر ووٹ حاصل کر لے لیکن نہیں جی جیتے گا تو ایمانداری سے نہیں تو ہار ہی سہی۔۔۔۔ہوں عزم جیتنے دے گا جیسے اسے۔۔۔۔۔"

      اتحاد ملک نے طنزیہ ہنسے ہنستے ہوئے کہا تو اسکا منشی بھی ہلکا سا مسکرا دیا۔

      "ویسے مجھے سمجھ نہیں آتا ملک صاحب آپ نے اپنے معاملات ملکوں کے ساتھ کیوں رکھے ہیں حالانکہ آپ اس گاؤں کے سردار ہیں اور اگر آپ اپنے معاملات عزم چوہدری کے ساتھ طے کر لیں تو آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ بھی تو ہمارے ہمسایہ گاؤں کا سردار ہے۔۔۔۔"

      اتحاد ملک نے سگریٹ جیب سے نکالا اور سلگا کر اپنے سیاہی مائل ہونٹوں میں دبا لیا۔

      "وہی بات منشی جو میں نے تمہیں پہلے بتائی تھی کہ عرشمان ملک ابھی بچہ ہے لیکن عزم بچہ نہیں بہت زیادہ شاطر انسان ہے وہ اور ایسے شاطر انسان سے دور رہنا ہی میری صحت کے لیے ٹھیک ہے۔۔۔۔"

      منشی نے اثبات میں سر ہلایا اور کھیتوں کے ساتھ ساتھ اتحاد ملک کے پیچھے چلنے لگا۔

      "میں نے عرشمان کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ یہاں آئے اور ہم مل کر زراعت کے لیے کچھ نیا کریں اس سے کافی منافع ہو گا ہمیں۔۔۔۔"

      "جی بہتر ملک جی۔۔۔"

      منشی نے اتحاد ملک کی ہاں میں ہاں ملائی۔ابھی اتحاد ملک نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے ہی تھے جب اسکے کانوں میں ایک چہکتی ہوئی آواز پڑی۔

      "میں بتا رہی ہوں ابا یہ لسی پی لے ورنہ یہیں گرا دوں گی ایک تو اتنی دھوپ میں یہ لسی بنا کے لائی ہوں اور تو ہے کہ پی نہیں رہا۔۔۔۔"

      اتحاد ملک کا پورا دھیان ایک کھیت کے کنارے کھڑے اس نازک وجود پر پڑا جو کھیت میں چاول بوتے ہوئے شخص سے مخاطب تھا۔

      "ایک تو نوری تو اور تیری تیزیاں دو منٹ سکھ کا سانس نہیں لیا جاتا تیرے سے۔۔۔۔"

      کھیت میں کام کرنے والے آدمی نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔

      "ہاں بڑی جلدی ہے مجھے اپنی سہیلیوں کے ساتھ چوڑیاں لینے جانا ہے ناں ابا اب جلدی سے آ کر یہ لسی لے بھی لے ورنہ قسم کھا کے کہتی ہوں یہ گرا دوں گی۔۔۔۔"

      اتحاد ملک کے قدم خود بخود اس چلبلی سی باتیں کرنے والی کی جانب اٹھے تھے جو ہر شے سے بے نیاز اپنے باپ کو باقاعدہ دھمکیاں لگا رہی تھی۔

      "گرا دے اپنے باپ کی بیٹی ہے ناں تو ابھی کے ابھی گرا دے۔۔۔۔"

      اپنے باپ کی بات پر اس لڑکی نے اب باقاعدہ اپنے دانت کچکچائے اور غصے میں مڑ کر پیالے میں موجود ساری لسی زمین پر پھینک دی۔

      جب اسکی نظر لسی سے بھیگتے مہنگے کھسے پر پڑی تو اس نے فوراً گھبرا کر اوپر دیکھا اور تب ہی اتحاد ملک ان کاجل لگی سیاہ آنکھوں کے سحر میں کھو گیا جو شائید اس دنیا کی سب سے حسین آنکھیں تھیں۔بڑی بڑی،سہمی سی کالی رات کی ماند چمکیلی آنکھیں۔

      صرف آنکھیں ہی نہیں اسکا تو پورا چہرہ نوخیز حسن کی علامت تھا۔گندمی سی سانولی رنگت پر وہ تیکھے نقوش اور کٹاؤ دار عنابی لب۔وہ لڑکی کوئی حور ہی تو تھی جو شائید راستہ بھول کر غلطی سے اس ظالم دنیا میں آ گئی تھی۔

      "اندھے ہو گئے ہو کیا بابا جی یا اس عمر میں آنکھیں خراب ہو گئی ہیں یا پھر شائید لسی سے نہانے کا شوق ہے جو یہاں آ گئے۔۔۔"

      اس لڑکی نے اپنی حسین آنکھوں کو سکیڑ کر کہا اور اسکی اس ادا پر اتحاد ملک کے ہونٹ مسکرا دیے جبکہ اپنی بیٹی کو کسی سے بات کرتا دیکھ اسکا باپ وہاں آ چکا تھا لیکن سامنے اتحاد ملک کو دیکھ کر اسکی روح تک خوف سے فنا ہوئی تھی۔

      "معافی سائیں معافی بچی ہے نادان ہے اسے نہیں پتہ تھا آپ کون ہیں معافی دے دیں۔"

      اس باپ نے فوراً اپنی بیٹی کو اپنے پیچھے چھپا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا جبکہ اتحاد ملک تو ابھی بھی اس دو آتشنہ حسن کے سحر میں ڈوبا مسکرا رہا تھا۔

      "بیٹی ہے یہ تمہاری؟"

      اس آدمی نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔

      "نام کیا ہے؟"

      "رشید احمد سائیں جی۔۔۔۔"

      رشید نے عقیدت سے سر جھکا کر کہا کیونکہ سامنے موجود شخص اس سے بھی دس سال بڑا تھا۔

      "تیرا نہیں تیری بیٹی کا نام پوچھا ہے۔۔۔۔"

      اتحاد نے اس لڑکی پر نظریں جماتے ہوئے کہا جو اپنے باپ کو یوں گھبرانے پر اب بھیگی بلی بنی اسکے پیچھے چھپی تھی۔

      "کنیز فاطمہ نام ہے سائیں جی اس کا لیکن ہم سب پیار سے نوری بلاتے ہیں۔۔۔۔"

      "نوری۔۔۔۔"

      اتحاد نے مسکراتے ہوئے اسکا نام دہرایا۔

      "کبھی دیکھا نہیں اسے گاؤں میں لگتا ہے بیٹیوں کو نکلنے نہیں دیتے گھر سے باہر۔"

      رشید نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلایا۔

      "جی سائیں جی ماشاءاللہ سے تین بیٹیاں ہیں میری اور سب سے قیمتی خزانہ ہیں یہ میرا بس انہیں کی حفاظت کے لیے انہیں گھر میں رکھتا ہوں۔وہ تو میری بیوی میکے گئی ہے اسی لیے یہ یہاں آئی۔۔۔۔اسکی نادانی معاف کر دیں سائیں جی۔۔۔۔"

      رشید ابھی بھی ہاتھ جوڑے کہہ رہا تھا کیونکہ اپنے سردار سے وہ اچھی طرح واقف تھا کہ وہ غلطیوں کو معاف کرنے والوں میں سے نہیں۔

      "اچھی بات ہے ایسے حسن کو چھپا کر ہی رکھنا چاہیے دنیا کے حالات اچھے نہیں۔۔۔۔"

      اتحاد نے اپنی غلیظ نگاہیں اس معصوم پر گاڑتے ہوئے کہا اور پھر مسکرا کر رشید کو دیکھا۔

      "کل مجھ سے حویلی ملنے آنا رشید کچھ خاص کام ہے تم سے۔۔۔۔"

      رشید نے فوراً عقیدت سے ہاں میں سر ہلایا۔

      "جو حکم سائیں جی۔۔۔۔"

      اتحاد نے مسکرا کر اپنی مونچھ کو تاؤ دیا اور آخری نگاہ کنیز پر ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔اتحاد کے چہرے کی اس مسکراہٹ کو اسکے منشی نے حیرت سے دیکھا۔

      "کیا ہوا ملک جی کافی خوش نظر آ رہے ہیں۔۔۔"

      اسکی بات پر اتحاد کی مسکان گہری ہو گئی۔

      "ہاں منشی کچھ بہت خاص دل کو بھا گیا ہے اور جو اتحاد ملک کے دل کو بھا جائے اسے تو بس اسکا ہونا ہے۔۔۔۔"

      اتحاد کے چہرے سے اسکی ہوس عیاں تھی جس میں وہ یہ تک بھول چکا تھا کہ وہ معصوم اسکی بیٹی کی عمر سے بھی چھوٹی تھی۔
      ????
      فرحین بیگم اپنے کمرے میں کھڑی اپنے کپڑے طے کر کے الماری میں رکھ رہی تھیں جب اچانک انہیں اپنے بازؤں پر ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا تو مسکرا دیں اور فوراً پلٹ کر مسکراتے ہوئے اونچا ہو کر اپنے ہونٹ وہاں موجود لڑکے کے ماتھے پر رکھ دیے۔

      "میرا شہزادہ،میرے جگر کا ٹکڑا آ گیا۔۔۔۔"

      فرحین کی بات پر وہ لڑکا بھی مسکرا دیا اور اس نے اپنے ہونٹ فرحین بیگم کے ماتھے پر رکھے۔

      "کیسی ہیں آپ امی؟"

      اس لڑکے نے فرحین بیگم کو بیڈ پر بیٹھایا اور خود ان کے قدموں میں بیٹھ کر پوچھنے لگا۔

      "تمہیں دیکھ لیا ہے ناں اب بالکل ٹھیک ہو گئیں ہوں۔۔۔۔"

      فرحین نے اس ستائیس سالہ لڑکے کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

      "باقی سب سے ملے تم سلطان؟"

      سلطان نے ہلکا سا مسکرا کر انکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیے۔

      "آپ سے پہلے کسی اور سے مل سکتا تھا میں؟ آپ ہی میرا سکون ہیں امی میری جنت۔۔۔۔۔"

      فرحین بیگم نے دنیا جہان کی چاہت آنکھوں میں سمو کر اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھا۔

      "کبھی کبھی تو لگتا ہے بس تمہیں ہی میری پرواہ ہے سلطان ورنہ عرشمان کے لیے تو آن سے بڑھ کر کوئی اہم ہی نہیں۔۔۔۔"

      فرحین بیگم نے منہ بسور کر کہا۔

      "ایسا نہیں بھائی بہت پیار کرتے ہیں آپ سے۔۔۔۔"

      فرحین کے ہونٹوں پر گھائل مسکان آئی۔

      "ہاں لیکن آن سے کم۔۔۔۔۔"

      "کوئی بات نہیں میں چاہتا ہوں ناں آپ کو سب سے زیادہ آپ کے علاوہ میرے لیے کسی کی خوشی اہمیت نہیں رکھتی اور آپکی خواہش پر خود کو بھی قربان کر دوں۔۔۔۔"

      سلطان نے اپنا سر فرحین کی گود میں رکھا تو وہ بھی محبت سے اسکے سر میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔

      "تو شہر کو چھوڑ کر میرے پاس کیوں نہیں آ جاتے تم؟"

      "کاش آ سکتا امی لیکن زمہ داریاں ایسا نہیں کرنے دیتیں۔۔۔۔شہر والا بزنس میں یہاں رہ کر نہیں چلا سکتا اور یہاں رہوں گا تو عرشمان بھائی کو شہر جانا پڑے گا جو وہ بالکل نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔"

      سلطان نے سرد آہ بھرتے ہوئے اپنی مجبوریاں بتائیں۔

      "فکر مت کرو آن سے شادی کے بعد سب سے پہلا کام شہر رہنے والا ہی کرے گا وہ۔۔۔۔"

      سلطان انکی بات پر ہلکا سا ہنس دیا۔

      "اچھا اب میں اماں بی سے مل کر آتا ہوں۔۔۔۔"

      فرحین نے سلطان کا ماتھا چوم کر ہاں میں سر ہلایا تو وہ وہاں سے اٹھ کر اماں بی کے کمرے کی جانب چل دیا جو ظہر کی نماز کے بعد اذکار میں مصروف تھیں۔

      اپنے دوسرے پوتے کو دیکھتے ہی اماں بی کے لب مسکرا دیے اور انہوں نے سلطان کو پاس آنے کا اشارہ کیا۔

      "کیسے ہو میرے بچے؟"

      سلطان نے عقیدت سے انکے ہاتھ کا بوسا لیا۔

      "بالکل ٹھیک ہوں اور آپ سب کو دیکھ کر سکون میں بھی ہوں۔۔۔۔"

      اماں بی سلطان کی بات پر مسکرا دیں اور اسے محبت سے دیکھا۔سلطان عرشمان سے بس تین سال چھوٹا تھا اور قد و قامت سے بالکل اسکے جیسا ہی تھا بس عرشمان کے برعکس سلطان صاف رنگت کا مالک تھا۔
      مگر دونوں بھائیوں کے مزاج بالکل مختلف تھے عرشمان جہاں بہت جلد غصے میں آ جاتا تھا سلطان وہیں ٹھنڈے دماغ کا اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والا شخص تھا لیکن ایک چیز تھی جو دونوں بھائیوں میں ایک جیسی تھی وہ تھی چوہدری خاندان سے نفرت۔

      "کام کیسا جا رہا ہے تمہارا؟"

      "الحمدللہ بہت اچھا اماں بی اس مرتبہ پچھلے سال سے بھی چار گنا زیادہ منافع ہوا ہے۔۔۔۔"

      سلطان کے فخر سے بتانے پر اماں بی نے اسے نظر بد سے بچانے کے لیے اس پر پھونک ماری۔

      "ماشاءاللہ پھر تیار رہنا شام کو درگاہ چادر چڑھانے چلیں گے میں نے منت مانی تھی۔۔۔۔"

      درگاہ کے نام پر ہی سلطان کے چہرے پر ناگواری آ چکی تھی۔

      "آپ جانتی ہیں اماں بی مجھے نہ تو اس سب پر یقین ہے اور نہ ہی یہ سب پسند ہے تو پھر یہ سب؟"

      اماں بی کے گھورنے پر سلطان خاموش ہو گیا۔

      "بزرگوں کے بارے میں ایسا نہیں کہتے سلطان اللہ کے نیک بندے ہیں وہ۔۔۔۔میں اکیلی چلی جاتی پر تمہیں ساتھ لانے کی منت مانی تھی اب اگر تم چاہتے ہو کہ میری منت ادھوری رہے تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔"

      سلطان نے گہرا سانس لے کر کچھ دیر سوچا پھر بولا۔

      "ٹھیک ہے۔۔۔۔"

      اماں بی نے مسکرا کر اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔وہ ایسا ہی تو تھا کسی کا دل نہ دکھانے والا سب کا خیال رکھنے والا۔اماں بی کو فرحین کی بھانجی انابیہ کی قسمت پر رشک ہوا جو سلطان کی منگ تھی اور اسکے نصیب میں ایک انمول ہیرا لکھا تھا۔

      لیکن ایک خیال انکے دل میں آیا کہ کاش انابیہ جیسی دوغلی لڑکی سلطان کا نصیب نہ ہوتی کاش سلطان کو کوئی ایسی لڑکی ملتی جو اس کے قابل ہوتی ۔۔۔۔۔کاش۔۔۔۔
      ????
      جینز پر ٹاپ پہنے اور اپنے سنہری بھورے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے وہ کچن میں آئی اور جوس کھول کر گلابی ہونٹوں سے لگا لیا۔

      ماتھے پر کٹے ہوئے سٹائلش سے بال پسینے سے بھیک کر مزید دلکش لگنے لگے تھے۔جوس کی بوتل واپس فریج میں رکھتی وہ ڈائنگ ٹیبل کے پاس آئی اور سیب پکڑ کر کھانے لگی۔

      "ارے اتنی جلدی اٹھ گئی تم؟"

      شاہد کی آواز پر لیزا انکی جانب پلٹی اور کمر تک آتے بالوں کو کندھے پر رکھ لیا۔

      "اپنی ہیلتھ کی کیر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ڈیڈ امید ہے آپ بھی یہ بات سمجھیں۔۔۔۔"

      لیزا کے انداز پر شاہد نے گہرا سانس لیا۔لیزا کی پرورش مکمل طور پر اسکی انگریز ماں نے کی تھی یہی وجہ تھی کہ نہ تو اسے اردو آتی تھی اور نہ ہی وہ خود کو پاکستانی ماننے کو تیار تھی۔بلکہ وہ آدھی مغربی اور آدھی مشرقی لڑکی مکمل طور پر خود کو مغربی رنگ میں ڈھال چکی تھی۔

      "ویسے آپ نے مجھے کچھ کہنا تھا کل بھی آپ کہہ رہے تھے لیکن پھر آپ نے کچھ بتایا ہی نہیں۔۔۔۔"

      لیزا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا اور بریڈ پر پینٹ بٹر لگانے لگی۔شاہد بھی اسکے پاس بیٹھ گئے اور اپنے اندر وہ بات کہنے کی ہمت جمع کرنے لگے جو وہ کل بھی نہیں کر پائے تھے۔

      "تمہیں پتہ ہے تمہاری ماما سے پہلے میری میرے ملک پاکستان میں بھی ایک شادی ہوئی تھی اور وہاں بھی میری ایک بیٹی ہے اور میرے بھتیجے نے کال کر کے بتایا تھا کہ اگلے مہینے اسکی شادی ہے۔۔۔۔"

      "تو۔۔۔۔؟"

      شاہد جو کافی ہمت سے اسے یہ بات کہہ رہے تھے اسکے کندھے اچکا کر پوچھنے پر گہرا سانس لے کر رہ گئے۔

      "بیٹا اس لحاظ سے وہ تمہاری بہن لگتی ہے۔۔۔۔"

      لیزا نے بریڈ کا چھوٹا سا ٹکڑا کھایا اور کچھ سوچ کر نا سمجھی سے شاہد کو دیکھنے لگی۔

      "چاہتے کیا ہیں آپ ڈیڈ یہاں وہاں کی باتیں کرنے کی بجائے پوائنٹ پر آئیں۔۔۔۔"

      شاہد نے گہرا سانس لے کر پھر سے ہمت جمع کی اور بولے۔

      "میں چاہتا ہوں ہم دونوں اسکی شادی پر چلیں۔۔۔۔"

      شاہد کی بات پر لیزا نے بریڈ چبانا بند کیا اور نگاہیں سکیڑ کر انہیں دیکھنے لگی۔

      "تو جائیں آپ لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔۔"

      لیزا کا انداز عام سا تھا۔

      "لیکن بیٹا وہ تمہاری بھی تو بہن لگتی ہے ناں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے سب گھر والے تمہارے بارے میں جانے تمہیں اتنا ہی پیار دیں جتنا وہ آن سے کرتے ہیں۔۔۔۔"

      شاہد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

      "مجھے انکے پیار کی کوئی ضرورت نہیں اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو جائیں لیکن میں نہیں جا رہی۔۔۔۔۔"

      لیزا نے گویا حتمی فیصلہ سنایا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگی۔

      "لیکن کیوں بیٹا کیوں نہیں جانا چاہتی تم وہاں؟"

      شاہد کے سوال پر لیزا کو نہ چاہتے ہوئے بھی رکنا پڑا۔

      "کیونکہ میں ویسی نہیں بن سکتی جیسا وہ لوگ چاہتے ہیں مام کہتی تھیں وہ لڑکیوں کو بکریوں کی طرح باندھ کر قید کرتے ہیں اور آپ کو پتہ ہے مجھے اپنی مرضی سے جینا اچھا لگتا ہے ڈیڈ میں ایسے لوگوں میں نہیں جانا چاہتی جو مجھ پر پابندیاں لگائیں۔۔۔۔"

      شاہد نے اسکی بات پر سرد آہ بھری۔

      "ایسا کچھ نہیں ہے بیٹا تم جیسے چاہو وہاں رہنا اور ویسے بھی نئی جگہ دیکھنا تمہارے لیے نیا تجربہ رہے گا دیکھنا تم انجوائے ۔۔۔۔"

      "مجھے نہیں کرنا انجوائے۔۔۔۔"

      لیزا نے انتہائی بدتمیزی سے انکی بات کاٹ کر کہا اور وہاں سے جانے لگی۔شاہد نے ایک آخری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔

      "پلیز لیزا میری خاطر۔۔۔۔"

      لیزا نے گہرا سانس لیا اور وہاں کھڑی ہو کر غصے سے شاہد کی جانب مڑی لیکن انکے چہرے پر اس امید نے اسے پگھلنے پر مجبور کر دیا۔

      "فائن۔۔۔۔لیکن میری کچھ شرائط ہیں۔۔۔۔"

      لیزا کے ایسا کہتے ہی شاہد خوشی سے مسکرا دیے۔

      "کچھ بھی بیٹا۔۔۔۔۔"

      لیزا نے کچھ سوچا اور پھر بولنا شروع کیا۔

      "میرے جو دل میں آئے گا میں کروں گی مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور لوگوں سے زیادہ اٹیچ بھی نہیں ہوں گی اور سب سے خاص اس شادی کے ختم ہوتے ہی ہم کینیڈا واپس آ جائیں گے فوراً۔۔۔۔۔۔"

      شاہد نے اسکی شرطوں پر غور کیا پھر مسکرا کر بولے۔

      "ٹھیک ہے بیٹا ایز یو وش۔۔۔۔"

      لیزا ہلکا اپنی آنکھیں گھما کر وہاں سے چلی گئی تو شاہد خوشی سے مسکرا دیے۔وہ تو اسی میں بہت خوش تھے کہ اپنے سب گھر والوں کو وہ اپنی لاڈلی بیٹی سے ملائیں گے۔کاش وہ جانتے کہ یہ انکی زندگی سب سے بڑی غلطی تھی۔
      ????
      شام ہوتے ہی اماں بی سلطان کے ساتھ درگاہ جانے کے لیے تیار تھیں اور سلطان نہ چاہتے ہوئے بھی انکی خوشی کے لیے اس سب کا حصہ بن رہا تھا۔وہ سب تیاری کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے جب انکا سامنا انابیہ سے ہوا جو فرحین بیگم کے ساتھ مل کر میز پر کھانا لگا رہی تھی۔

      "ارے آپ کہیں جا رہے ہیں کیا؟"

      فرحین بیگم نے اماں بی سے پوچھا جبکہ انابیہ کی نگاہیں تو سلطان پر ٹکی تھیں جو اس وقت کاٹن کی کالی شلوار قمیض میں مردانہ وجاہت کی منہ بولتی مثال لگ رہا تھا۔

      "ہاں درگاہ جا رہے ہیں سلطان کی کامیابی کی منت ۔۔۔۔۔"

      "میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔"

      انابیہ اماں بی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی خوشی سے چہکتے ہوئے پوچھنے لگی۔جبکہ اسکی بات پر سلطان کے چہرے کی ناگواری بڑھ چکی تھی۔

      وہ اتنا چاہتا تھا کہ کم از کم اسکی منگیتر تو اسکی پسند نہ پسند کو سمجھے اور خود کو اسکے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔

      "میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔"

      سلطان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور انابیہ بھاگ کر اپنے کمرے سے چادر لینے چلی گئی۔کچھ ہی دیر میں وہ تینوں درگاہ کی جانب چل دیے۔کچھ ملازم ضروری سامان لیے پچھلی گاڑی میں آ رہے تھے۔

      درگاہ پہنچ کر سلطان نے سب ملازموں کو اماں بی کے ساتھ جانے کا کہا۔

      "تم اندر نہیں آ رہے؟"

      اماں بی نے حیرت سے پوچھا۔

      "نہیں اماں بی یہاں تک آ گیا آپ کے بزرگ خوش ہو جائیں گے لیکن اس سے زیادہ کی توقع مجھ سے مت رکھیے گا۔۔۔۔"

      اماں بی نے گہرا سانس لیا اور ملازموں کے ساتھ درگاہ کی جانب چل دیں جبکہ انابیہ تو اس لمحے کو غنیمت جان کر سلطان کے پاس ہی رک گئی تھی۔

      درگاہ میں دعا کرنے اور نذرانے پیش کرنے کے بعد اماں بی واپس آئیں اور درگاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا جوتا پکڑنے لگیں لیکن اس سے پہلے ہی دو مظبوط ہاتھ وہ جوتا تھام کر انکے پاؤں میں پہنانے لگے۔

      اماں بی نے پہلے تو حیران ہوئیں لیکن پھر اپنے قدموں میں بیٹھے اس شخص کو دیکھ کر انکا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔انہوں نے ایک سہمی نگاہ کار کے پاس کھڑے سلطان پر ڈالی جو درگاہ کی طرف کمر کر کے کار سے ٹیک لگائے نہ جانے انابیہ کی کیا باتیں سن رہا تھا۔

      "نہیں عزم بیٹا رہنے دو۔۔۔۔"

      اماں بی نے کی بات پر عزم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

      "کیا ہوا اماں بی ساری محبت پوتوں کے لیے ہی ہے کیا نواسے کے لیے کچھ نہیں؟کیا روز قیامت صرف بیٹے کو ہی منہ دیکھانا ہے بیٹی کا سامنا نہیں کرنا۔۔۔"

      عزم کی بات پر کتنے ہی آنسو اماں بی کی آنکھوں سے بہت تھے۔انہوں نے حسرت سے عزم کو دیکھا جو انکا نواسہ تھا انکی اکلوتی بیٹی کی آخری نشانی۔

      "تم جانتے ہو عزم کہ دونوں خاندانوں میں یہ دشمنی ہر تعلق مٹا چکی ہے میں اپنے پوتوں یا نواسے میں سے کسی ایک کو ہی چن سکتی ہوں۔۔۔۔"

      "اور آپ اپنے دونوں پوتوں کو چن چکی ہیں جن کی عقل پر انکے باپ کی طرح پردہ پڑا ہے۔۔۔۔۔"

      عزم نے دوبارہ انکا پیر پکڑ کر جوتا پہناتے ہوئے نفرت سے کہا۔

      "میں نہیں جانتی عزم کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ بس اتنا جانتی ہوں کہ دونوں خاندانوں کا خوشیوں بھرا جہان پل میں بکھر گیا اور بارہ سالوں سے یہ جہان بکھرا ہوا ہے۔۔۔۔"

      اماں بی کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر زمین بوس ہونے لگے لیکن اس سے پہلے کی عزم ان قیمتی موتیوں کو اپنے ہاتھ پر چن چکا تھا۔

      "میں چاہتی ہوں یہ دشمنی ختم ہو جائے عزم ۔۔۔۔۔"

      اس بات پر عزم اپنی مظبوط مٹھی بھینچ گیا۔

      "اب یہ دشمنی ہم میں سے کسی کے خاتمے پر ہی ختم ہو گی اماں بی۔۔۔۔آپ اپنے پوتوں یا نواسے میں سے کسی کی لاش دیکھنے کے لیے خود کو مظبوط کر لیں۔۔۔۔۔۔"

      عزم نفرت سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ملازموں کے ساتھ درگاہ میں داخل ہو گیا جبکہ اماں بی وہیں زمین پر بیٹھیں اس دن کو پھر سے رونے لگی تھیں جس نے دونوں خاندانوں کی محبت اور خوشیوں کو غم اور دشمنی میں بدل دیا تھا۔
      ????

      Comment


      • #13
        Buhat hi zabardast update hai . Buhaal hi aala
        .

        Comment


        • #14
          Bohat Zaberdast update bhai maza aa gya perh k

          Comment


          • #15
            Her kirdaar ka ba khubi istemaal bohat hi aala agy chal k aur maza aye ga

            Comment


            • #16
              Bohat khoob story bohat achi hy

              Comment


              • #17
                بہت خوب
                کمال کی سٹوری چل رہی ہے


                کیا ہی عمدہ پلاٹ ہے

                ذرا اپ ڈیٹ جلدی ہو جائے تو لطف دوبالا ہو جائے

                Comment


                • #18
                  Bahut khoob jnb

                  Comment


                  • #19
                    Boht zabardast update
                    kahani boht behtareen ha phar ka boht maza a raha ha

                    Comment


                    • #20
                      بہت اچھی اسٹوری ہے بغیر سیکس اور شہوت کے لکھی گئی مگر ٹاپ کلاس اسٹوری ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 1 guests)

                      Working...
                      X