Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

کلی اور کانٹے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #51
    Bohat hai sabiq amaiz khani hai

    Comment


    • #52
      اس تحریر کو جب جب پڑھا ہے افسوس ہی ہوتا ہے نازیہ جیسی لڑکیوں کے لئیے جو نادانی میں کی گئی ایک غلط فیصلے کی وجہ سے اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیتی ہیں اور پھر پچھتاوا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔

      بہت ہی سبق آموز تحریر ہے یہ۔۔۔ دیکھتے ہیں آگے اور کیا کیا ہوتا ہے اور کیسے نازیہ اس جنگل سے نکل پاتی ہیں۔۔۔

      Comment


      • #53
        مزہ آ گیا جناب ۔۔۔بہترین ۔۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب

        Comment


        • #54
          قسط نمبر 8
          تحریر زاہد ملک

          میں غم اور درد سے چور بے حال سی اس ماما کے پہلو میں پڑی تھی میں اپنی قسمت پر رونا بھی چاہتی تھی تو اب مجھے رونا بھی نہیں آتا تھا لوگ کیسے مر جاتے ہیں میں کیسے مروں گی ؟؟؟ میں مر کیوں نہیں جاتی ؟؟ مجھے کوئی مار کیوں نہیں دیتے مجھے اس وقت اسد اور شفیق ان وحشیوں کے مقابلے میں بہت اچھے لگ رہے تھے بلال بھی میرے ساتھ تھا وہ کوئی بات کر لیتے کچھ وقفہ مل جاتا کبھی ان کے دل میں احساس پیدا ہو جاتا جس کی اب یہاں کوئی امید باقی نہیں تھی بلال کو ان لوگوں نے کہاں کر دیا مجھے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا ماما نے اپنے بازو میں بھرتے ہوئے میرے چہرے کو اوپر اٹھا کر اپنے لبوں کے قریب کرتے ہوئے میرے گال کو اپنے دانتوں سے ایسے کاٹا کہ میری چیخ نکل گئی یہ سب قہقہے لگانے لگے ماما میری آواز کی کاپی کرتے ہوئے ووووئی ووووئی وووئی بولتا اور یہ دونوں قہقہے لگانے لگتے ماما نے میرے ہپس کو اپنے ہاتھوں میں دبایا اور پشتو میں کوئی بات کہہ دی تو وہ سب ہنسی میں جیسے ٹوٹ پڑے تھے ماما نے میری قمیض اتار دی اور اس کے بعد اور بریزر بھی اتار کر رضائی سے باہر پھینک دی کمرے میں بیٹھے باقی دو افراد ہنستے ہوئے پشتو میں ایسے پوچھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں ماما آج بڑی جنگ لڑنی ہے کیا ؟۔ ماما نے جوش میں کوئی بات کہہ دی وہ دونوں ماما کی ہر بات پر کھلکھلا کر ہنس دیتے تھے ماما میرے بوبز کو جوستے اور ساتھ مدہوشی جیسے کچھ بولتا جا رہا تھا یہ وہی بندہ تھا جس نے ہمیں سب سے پہلے ریسیو کیا تھا میں پہلے سے بھی بڑی مصیبت میں پھنس چکی تھی ماما نے اپنے کپڑے بھی اتار دئیے وہ میرے جسم کے انگ انگ کو پاگلوں کی طرح کاٹ رہا تھا میں نے اسے رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو جوڑ دیا میرے حلق سے کوئی آواز نہیں نکل سکی ۔۔۔ وہ قہقہے لگاتے ہوئے پشتو میں کچھ کہہ رہا تھا جس پر باقی دونوں قہقہے لگانے لگے تھے میں بس آنکھیں بند کرکے بغیر کسی سوچ کے ساکت ہو گئی تھی ماما نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ببلو پر رکھ دیا یہ پہلے والے وحشی سے موٹائی میں کم تھا لیکن لمبائی میں زیادہ تھا میں نے خود کو ان کے حوالے کر دیا تھا اور سوچ رہی تھی کہ جیسے کوئی موقع ملے گا میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دوں گی ۔۔۔ ماما نے مجھے الٹا لٹاتے ہوئے میرے اوپر سوار ہو گیا اور ببلو کو میرے پیچھے پورا پورا اتار دیا وہ جھٹکے لگانے سے پہلے کچھ بول گیا جس پر باقی دونوں آدمی کھکھلا کر ہنس دئیے ماما مستی میں کچھ بولے جا رہا تھا اور جھٹکے مار رہا تھا مجھے یاد نہیں کہ میں کیا محسوس کر رہی تھی اب مجھے یھ سب کچھ ایک ڈرونا خواب لگتا ہے کچھ دیر بعد اس نے اپنا ببلو باہر نکالا اور میری ببلی میں ڈالنے لگا ساتھ اس نے میری ٹانگوں کو تھوڑا کھول دیا ببلو کے اس طرح میری ببلی میں اندر آنے سے میرا پیٹ آگے سے پھٹنے لگا تھا ماما کچھ دیر میں مستی کی اوی اوی اوی کرتا میرے اندر پانی چھوڑ دیا اب میں نیم بےہوشی کے عالم میں اگلے شکاری کے انتظار میں تھی کہ وہ کب مجھے اپنی حوس کا شکار بنا کر مجھے کچھ دیر سانس لینے کا موقع ملے گا ماما اور وحشی آواز دینے لگے زرولی او زرولی ۔۔۔۔ اس کے بعد پشتو میں کیا بولا کہ وہ اس رضائی کے اندر آ گیا اور ماما دوسری طرف سے باہر نکل گیا میں ویسے ہی الٹی لیتی ہوئی تھی کمرہ کسی بھیانک بو کے ساتھ دھویں سے بھر گیا تھا مجھے ناشتے میں خوب تحفے مل رہے تھے زرولی نے میرے ہپس پر بیٹھتے ہی میرے پیچھے سخت راڈ اتار دیا تھا لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا میرا جسم شل ہو چکا تھا بہت دیر بعد وہ بھی میرے پیچھے کوئی پرانی عداوت نکال کر الگ ہو گیا تھا جہاں سردی کی شدت بہت زیادہ تھی رضائی تھوڑی جسم سے اٹھتی تو برف جیسا جھونکا جسم کو پتھرا دیتا تھا ۔۔ زرولی نے میرے اوپر سے رضائی ہٹا دی تھی اور میرے ہپس پر یہ تینوں اپنے ہاتھوں پھیر کر اور تھپکی دے کر کچھ بولتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے باتھ روم جا رہے تھے پھر مجھے بولا اور لیلیٰ نہا لو ۔۔۔۔ میں پڑی رہی بہت دیر بعد میں نے سسکی بھر کر اس ماما سے پوچھا بلال کہاں ہے۔۔۔ بولا وہ تمھیں بیچ گیا ہے ہم پر ایک لاکھ میں ۔۔۔۔۔ دوسرا بولا نہیں وہ ہمیں بولا کہ میری لیلیٰ چھوٹی ہے اسے بڑا کر دو پھر میں لے جاؤں گا تم سے ۔۔ وہ مسلسل مذاق بنا رہے تھے اور مجھے کوئی ایک بات نہیں کر رہے تھے کبھی بولتے وہ گم ہو گیا تھا راستے کے ایک ہوٹل میں ۔۔۔ یہ بات بھی بعید نہیں تھی کہ انہوں نے بلاگنگ کو قتل کر دیا ہو ۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی کہیں چلا گیا تھا اور بہت دیر بعد وہ واپس آیا تھا وہ اپنے ساتھ کھانا لایا تھا مجھے یہ لوگ باہر لے آئے کہ آج مزے کی دھوپ نکلی ہے میں صحن میں آئی تو آس پاس بلند پہاڑ تھے اور ان کے بیچ یہ گھر میں اکیلا لگ رہا تھا دیوار کے ساتھ دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھی جن پر انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا میرا کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا لیکن یہ مجھے مجبور کر رہے تھے ایک ماما اس وحشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ بہت ظالم بندہ ہے اس سے بچ کے رہنا یہ گدھے کی نسل سے ہے یہ احساس نہیں کرتا ۔۔۔ شام کے بعد وہ وحشی میرے ساتھ سو گیا تھا مجھے نیند آ گئی تھی میرے ہونٹوں سے نکلنے والی درد بھری آواز کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی وحشی میرے پیچھے لگا ہوا تھا یہ تینوں مجھے ایک ہفتے تک اس طرح اپنے حوس کا نشانہ بناتے رہے ایک ہفتے بعد وہے ٹرک ادھر آ گیا تھا اس سے بھی تین آدمی اس گھر میں آ گئے تھے یہ چھ افراد شام تک بیٹھے آپس میں باتیں کرتے رہے اور شام کے فوراً بعد ماما وحشی اور زرولی۔ٹرک لے کر چلے گئے تھے اور نئے آنے والے ان تینوں افراد نے بھی میرے ساتھ وہی سلوک برقرار رکھا۔۔۔۔ ایک ہفتے بعد پہلا گروپ واپس آ گیا تھا اور یہ تینوں ٹرک کے ساتھ چلے گئے تھے اب میں سمجھ چکی تھی کہ یہ چھ بندوں کا گروپ ہے یہ سلسلہ چلتا رہا کبھی ایک ہفتے میں تین کبھی دو اور کبھی ایک بندہ ضرور ہوتا اور کبھی کبھی یہ چار بھی ہوتے تھے مجھے کوئی پتا نہیں تھا ہفتے کا کونسا دن ہے مہینہ کونسا چل رہا دن رات کا ہوش نہیں ہوتا تھا کبھی دن کو چند گھنٹے سو جاتی تو کبھی رات کو اذیت بھرے دن کا پل پل مشکل ہو گیا تھا میرا جسم بہت بڑھ گیا تھا میری جلد خراب ہونے لگی تھی رنگت کالی ہو رہی تھی مجھ سے چلا نہیں جاتا تھا میں وقت سے پہلے ایک بڑی عمر کی عورت بن چکی تھی پتا نہیں تھا ماہ گزر گئے یا سال گزر گئے تھے کوئی طوفان بھی نہیں آ رہا تھا جو مجھے اڑا لے جائے کو سیلاب نہیں آ رہا تھا جو مجھے بہا لے جائے ان دنوں میں بہت بیمار ہو گئی تھی مجھے شدید کھانسی کے ساتھ بخار تھا میرے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہے تھے میرے جسم پر پیپ بھرے دانے نکل آئے تھے میری ہڈیوں میں ایسا درد تھا جیسے انہیں کو آڑے سے کاٹ رہا ہو یہ ظالم پھر بھی اپنی حوس پوری کر رہے تھے بیچ میں میں کھانا پکانے کے ساتھ کپڑے دھونا اور باقی کام بھی سیکھ چکی تھی لیکن اس وقت وہ پھر سے کھانا پتا نہیں کہاں سے لے کر آتے تھے م،حالت بگڑتی دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے تھے پچھلے چار روز سے میں ان کے حوس سے بچی ہوئی تھی لیکن میری حالت بگڑتی جا رہی تھی مجھے لگتا تھا میں کچھ وقت کے لئے بےہوش ہو جاتی تھی اس رات یہ چھ اکٹھے تھے اور آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے صبح سورج نکلنے کے ساتھ ہی یہ کچھ تیاری کر رہے تھے مجھے بڑی چادر پہنائی اور مجھے اٹھا کر جاتے ہوئے مجھ بولے کہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں میں مر جانا چاہتی تھی مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا موٹرسائیکل پر مجھے درمیان میں بٹھایا اور یہ دو بندے پہاڑی پر آگے چل پڑے میں کبھی کبھی آنکھیں کھول کر دیکھ لیتی تھی لیکن کہاں جا رہے ہیں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا میں تھک چکی تھی اور میری کمر بہت درد کر رہی تھی بہت دیر بعد ایک اور پہاڑی پر چڑھتے اس کچے رستے پر وہ رک چکے تھے آپس میں مدھم سے گفتگو کرتے وہ مجھے اتار چکے تھے اور اس رستے کی ایک سائیڈ پر مجھے لٹا کر میرے اوپر کمبل ڈالا اور موٹرسائیکل کو پیچھے موڑ کر چلے گئے تھے مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں اب کسی کام کی نہیں رہی تھی اور بس مرنے کے قریب تھی مجھے سکون مل رہا تھا کہ۔میں اب اذیت بھری زندگی سے چھٹکارا پا چکی ہوں اور بس اب کسی ظلم کے قابل نہیں رہی ہوں ۔۔۔ دھوپ سے مجھے سکون مل رہا تھا کبھی کبھی میری آنکھیں کھل جاتی تھی شاید دوپہر کے بعد کا ٹائم تھا مجھے اپنے پاس کچھ آوازیں آتی سنائی دیں میں نے اس خدشے کے پیش نظر آنکھیں کھول دیں کہیں وہ ظالم واپس تو نہیں لوٹ آئے ۔۔۔ ایک بزرگ اور ایک خاتون آپس میں باتیں کرتے مجھے اٹھا رہے تھے بزرگ کی اللّٰہ اللّٰہ کی آوازیں مجھے کسی محبت کا احساس دے رہے تھے وہ دونوں مل کر مجھے تقریباً گھسیٹتے ہوئے اس چھوٹے رستے پر پہاڑی کے اوپر گھسیٹتے جا رہے تھے مجھے ایک کمرے میں گھاس کے بنے قالین پر لٹا دیا گیا اور کچھ فاصلے پر آگ جلا دی گئی مجھ پر رضائی ڈال کر بزرگ خاتون میرا سر دبانے لگی۔۔۔۔۔ خاتون چمچ سے مجھے دودھ پلانے لگی تھی مجھے لگا وہ اپنا سب کچھ بھول کر میری خدمت میں لگ گئے تھے کچھ دیر بعد مجھے قہوہ جیسی کوئی بہت کڑوی چیز پلائی اور اس کے کچھ دیر بعد مجھے میٹھا قہوہ پلایا گیا بزرگ ایک چارپائی پر سو گیا تھا اور خاتون میرے ساتھ مجھ میں بولنے کی ہمت نہیں تھی میں کبھی خود کو جاگتا تو کبھی گہری نیند میں اترتا محسوس کر رہی تھی پتھروں کی دیواروں والے اس چھوٹے کمرے کے۔دروازے سے اوپر چوکور چھوٹے سوراخ سے سورج کی روشنی آنے لگی تھی مجھے بدن میں درد کی شدت قدرے کم محسوس ہو رہی تھی ان کی آپس کی گفتگو میں سن تو رہی تھی لیکن سمجھ نہیں پا رہی تھی یہ کوئی عجیب طرح کی پشتو تھی شاید کا کوئی اور پہاڑی زبان تھی ۔۔۔ میں تین دن بعد کافی سنبھل چکی تھی کھیر میکس ٹائپ کی کوئی چیز مجھے دن میں تین بار کھلانے کے ساتھ قہوہ اور اس کے ساتھ وہ بہت کڑوا قہوہ بھی پلایا جا رہا تھا تیسرے دن رات کو مجھے الٹیاں آنے لگیں تھی اور اس کے بعد میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی اگلی صبح میں تکیہ کی ٹیک لگ لر ان دونوں میاں بیوی کو محبت کے ساتھ دیکھ رہی تھی بزرگ آج کچھ مطمئن تھا اس نے اپنی بیگم سے کوئی بات کی وہ دونوں محبت سے مجھے دیکھ کر باتیں کر رہے تھے اس سے اگلے روز سے ہی بزرگ کلہاڑی اٹھا کر نکل جاتا اور شام سے کچھ دیر قبل واپس آتا یہ اس کی روزمرہ کی روٹین تھی شاید وہ کچھ دن میرے لئے گھر رکا رہا تھا یہ ظلمت بھری دنیا شاید اس لئے ابھی تک قائم تھی کہ اس میں اس بزرگ جوڑی جیسے لوگ موجود تھے کڑوے قہوے کا ایک کپ مجھے رات کو سونے سے قبل ضرور پلایا جاتا بزرگ خاتون اس کو بہت سی جڑی بوٹیاں ڈال کر بناتی تھی ۔۔۔۔ مجھے اس بزرگ جوڑی میں امی ابو جیسی شفقت نظر آتی تھی لیکن مجھے خود سے گھن آنے لگتی تھی میرا وجود میری نفرت کا سب سے بڑا مرکز تھا اسی وجود کی آگ نے مجھے جیتے جی مار دیا تھا غلطی کس کی تھی ؟؟ ابو کی جس نے مجھے ناسمجھی کی اس عمر میں موبائل دے کر آزاد چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ امی کی ؟؟؟ س نے مجھ سے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ موبائل پر دن رات کیا کرتی رہتی ہو ؟؟؟ میری دوست شکیلہ کی جس نے مجھے موویز سنڈ کر کے مجھ کو پیاسی چڑیل بنا دیا تھا ۔۔۔ بلال کی جس نے سب سے پہلے میرے جسم کے ساتھ کھیلا تھا ۔۔ میری ممانی کی جو میری امی کے ڈاکٹر کے پاس جانے کہ بعد لاپرواہ سو گئی تھی یا خود میری غلطی تھی جو میں چند دنوں میں ہی اتنا غلط فیصلہ کرتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھا گئی تھی بلال کے دوست اسد کی غلطی تھی یا خود بلال کی غلطی تھی جس نے اس جیسے حوس بھرے انسان پر اتنا بڑا اعتماد کر لیا تھا ۔۔ بلال بھی میری طرح بچہ تھا اور اس دنیا کے فراڈ اور ظلم سے بے خبر تھا ۔۔۔۔ بلال کہاں ہو گا کیا وہ زندہ بھی ہوگا کا ان ظالموں نے اسے بھی مآر دیا تھا بظاہر یہ۔مجھے ماڑ کر ہی درندوں کی خوراک کے طور پر جہاں پھینک گئے تھے مجھے پکا یقین تھا کہ میرے امی ابو میرے ایسے اقدام کے بعد اگر ہارٹ اٹیک سے نہیں مرے ہونگے تو خودکشی کرکے مر گئے ہوں گے اب میرے سارے راستے بند تھے میں کہاں تھی مجھے علم نہیں تھا نہ بزرگ جوڑی میری کوئی بات سمجھتے تھے اور نہ میں انکی کوئی بات سمجھ پاتی تھی گونگے جیسے اشاروں کے بعد ہمارے درمیان مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا اور کام چل جاتا اشاروں سے پوچھنے پر ہی بزرگ خاتون نے چند آنسوؤں کے بیچ بتا دیا تھا کہ اس کے دو بیٹے گلے کٹنے سے شہید ہو گئے کس نے کیسے شہید کیا اس سے آگے میں جان نہیں پائی تھی وہ مجھے ایک بیٹی جتنا پیار دیتے تھے بزرگ خاتون کو میں چںد اشاروں سے بتا چکی تھی کہ میں ظلم کا شکار ہوتے ہوتے آخری سانسوں میں آپ کے ہاتھ لگ گئی تھی شاید ایک سال سے بھی بھی بہت زیادہ میں ان کے پاس رہی میری رنگت نکھر چکی تھی صحت بہت بہتر ہو چکی تھی سیکس کا بھوت جانے کب سے اتر چکا تھا اس گھر سے تھوڑے فاصلے پر پہاڑی پر ہی چند گھر موجود تھے جن کی خواتین کبھی کبھار ادھر آ جاتی تھی اس روز بزرگ خاتون نماز پڑھتے ہوئے بےچین ہوتی گئی اور کچھ دیر میں ہی زندگی کی بازی ہار گئی ۔۔۔(جاری ہے )

          Comment


          • #55
            bht hi dukh hota hai ye kahani prh kr

            Comment


            • #56
              ماسٹر مائنڈ صاحب بہت خوب جناب ۔۔۔ نازیہ کی زندگی کی کیا خوبصورت منظر کشی کی گئی ۔۔۔ ٹرک ڈرائیور تو ہوتے ہی ایسے ہیں وہ جگہ جگہ منہ مارتے ہیں ۔۔۔ ایسے میں نازیہ ان کے لگ گئی۔۔۔ نازیہ نے بہت ظلم برداشت کیے ہیں ۔۔۔ نازیہ نے جو خود سے سوال جواب کیے ہیں وہ بلکل ٹھیک ہیں ۔۔۔ اب یہ بزرگ عورت بھی دنیا سے چلی گئی۔۔۔ اب نادیہ کا کیا بنانے گا۔۔۔۔بہترین ۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب ۔۔۔

              Comment


              • #57
                Yeh boht sabakamoz kahani ha nazia ki zindagi ki dukh bari kahani ha us ki galtiyon na us ko kahan sa kahan pohnch dya

                Comment


                • #58
                  بہترین ۔۔عمدہ ۔۔۔زبردست اور لاجواب

                  Comment


                  • #59
                    دنیا بہت ظالم اے

                    Comment


                    • #60
                      افففففعف کیا ہی لا جواب اور سبق آموز کہانی ہے

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X