Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #81
    قسط نمبر 17

    کالج کے گیٹ سے تھوڑا پہلے میں رک گیا تھا چنگ چی والے بابے کو میں نے واپس بھیج دیا اور اسے کہا کہ ہاسٹل کے مسئلے کے بعد فی الحال آپ کی ڈیوٹی ختم ہو گئی ہے چھٹی ہونے پر سب سے پہلے گروپ میں نکلنے والی سائقہ اور مہوش کالج گیٹ کے باہر سائیڈ پر رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی گاڑی میں نے جان بوجھ کر سائیڈ پر کھڑی کر دی تھی اور ایک چنگ چی میں بیٹھ کر اس کے ڈرائیور سے باتیں کرتا ان کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ مہوش بہت پریشان لگ رہی تھی لیکن سائقہ پہلے سے بھی مست انداز میں اپنا سر جھکا کر مہوش سے کچھ کہہ رہی تھی پھر وہ مہوش کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کر کے دوسری طرف چلی گئی اور اسی سائیڈ پر آنے لگی جس طرف گاڑی کھڑی تھی انہوں نے مجھے نہیں دیکھا تھا لیکن سائقہ نے گاڑی کو دیکھ لیا تھا اور ایک بار پھر روڈ کراس کر کے گاڑی کے پاس آ کر مہوش ادھر ادھر دیکھنے لگی جبکہ سائقہ نے گاڑی کی کھڑکی کھولی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے مہوش سے کچھ کہہ رہی تھی مہوش بھی عجلت میں دوسری طرف جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی میں نے گاڑی کو لاک نہیں کیا تھا اور چابی بھی سوئچ میں موجود تھی ۔۔۔ ادھر دو لڑکیاں چنگ چی کے پاس آ کر رک گئی تھی اور میں چنگ چی سے اتر کر ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا اور ایک جیپ کی آڑ میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگا سائقہ نے گاڑی اسٹارٹ کر لی تھی اور اس کا علم مجھے گاڑی کے معمولی حرکت سے ہوا ۔۔۔ مجھے علم تھا کہ اسے آگے پیچھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہو گا اور وہ ڈرائیونگ سیٹ میں دبی بیٹھی ہو گی ۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے گاڑی آگے بڑھا لی تھی اور میرے سامنے سے گزرتے ہو میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ مہوش کی جھولی میں بیٹھی ہے ۔۔۔ وہ ہارن بجاتے آگے چلی گئی تھی اور میں روڈ پر آ کر اس طرف چلنے لگا گاڑی میری نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی اور تھوڑی دیر بعد پھر آنے لگی تھی ۔۔۔ سائقہ باہمت لڑکی تھی اور اس طرح گاڑی چلانے سے میرا اعتماد بڑھ گیا تھا ۔۔ وہ میرے پاس گاڑی روک کر شیشہ اتارتے ہوئے بولی اب ہم نہیں بٹھائیں گے ۔۔۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں ہم پیدل آ جائیں گے ۔۔۔ پھر ہنستے ہوئے بولی پر جانا کہاں ہے ۔۔۔ سائقہ اٹھ کر فرنٹ سیٹ جبکہ مہوش پیچھے چلی گئی تھی ۔۔۔۔ میں بیٹھا تو سائقہ نے پوچھا کہاں چلنا ہے مانوں ۔۔۔ میں نے کہا بستی ۔۔۔ بولی مذاق نہیں کرو یاررر میں سر پھٹ رہا درد سے ۔۔۔۔۔ صبح ٹینشن میں ناشتہ بھی نہیں کیا ۔۔۔ میں نے کہا اچھا کچھ کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے راستے سے سائقہ کی پسندیدہ بریانی پیک کرائی ۔۔۔ اور گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پارسل سائقہ کی گود میں رکھ دیا ۔۔۔۔ سائقہ بولی چائے یار چائے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ٹم چائے نہیں پیا کرو۔۔۔ پوچھا کیوں ۔۔۔ میں بولا ۔ کالی ہو جاؤں گی ۔۔۔ والے ہنسنے لگی تھی اور پھر بولی۔اچھا تو تم اس لئے گورے ہو کہ چائے نہیں پیتے پیچھے بیٹھی مہوش نے بھی ٹاہ ٹاہ سے قہقہہ لگایا ۔۔۔ پوچھا بتاؤ تو کہاں جا رہے ۔۔۔ میں نے گاڑی گلی سے اپنے اس مکان کی طرف بند گلی میں موڑتے ہوئے کہا ہم یہاں جا رہے ۔۔۔میں نے مکان کی چابی سائقہ کو دی اور وہ خوشی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے تالہ کھولنے لگی میں اور مہوش بھی اتر آئے تھے اور سامان نکالنے کے بعد گاڑی لاک کی اور سائقہ کے مکان میں جانے سے پہلے میں نے سوزوکی الٹو کی چابی اس تھما کر بولا ۔۔۔۔ مکان دونوں کا اور گاڑی صرف میری سقی کی ۔۔۔ گیٹ کے اندر کھڑی بلیک الٹو 17 دیکھ کر سائقہ نے خوشی سے جمپ لگایا اور ہووووو کا نعرہ لگاتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئی ۔۔۔ مہوش نے گیٹ بند کر دیا میں ان کو لیکر ایک روم میں آ گیا بیڈ کو دیکھتے ہوئے سائقہ بولی واوووووو یہ گھر کس کا وہ دوسرے کمروں برآمدے اور چھوٹے سے لان کو دیکھتے ہولی ۔۔ گھر کس کا ؟؟؟ میں نے اس کے ساتھ مہوش کو بھی اپنے بازوں میں لپیٹا اور بولا ۔۔۔ آپ کا پھر میں ان کر اسی طرح بیڈ پر لے گیا اور ان کو بٹھا کر چائے کا تھرماس اور کپ لیکر گیا سائقہ بیڈ پر کھڑی ہو کر بولی یہ کیا کر رہے ہو آپ ؟؟؟ بیٹھو ادھر میں فرمانبردار بچے کی طرح سر جھکا کر بیٹھ گیا بریانی کھاتے ہوئے میں نے بتا دیا کہ یہ اور اس کی بیک سائیڈ والا مکان بھی اپنا ہے اور دو دن میں ہونے والی اس تبدیلی کی ساری روداد سنا دی ۔۔۔ سائقہ اپنی ہرنی جیسی آنکھوں میں پیار بھر کر خاموشی سے سنتی رہی ۔۔۔ پھر بولی تم چیز کیا ہو مانوں ں ں ؟؟؟ پھر مستی سے مہوش کو دیکھتے ہوئے بولی تمھیں کہا تھا ناں ۔۔۔ تھوڑا سا درد برداشت کر لیا کرو ۔۔۔ مانوں اس کا بدلہ چکا دیتے ۔۔۔۔ مہوش بولی مجھے تو یہ حیرت ہوتی کہ تم نے کتنا درد برداشت کیا کہ ان کی مہربانیاں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔ سائقہ چائے پیتے ہوئے ہنسنے لگی اور مہوش سے بولی چائے پیو ۔۔۔ مانوں کے ہاتھ کی بنی۔۔۔۔ میں تو یہ چائے زندگی بھر نہیں بھول سکوں گی ۔۔۔ پھر ہم الٹو کے پاس آ گئے سائقہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بولی باقی سب ٹھیک ہے لیکن ایک کمی ہے بسسسس وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر سیٹ سے اتر آئی تھی ۔۔۔ مہوش بولی ابھی بھی کوئی کمی ہے ؟؟؟ پورا تو بھر لیتی اپنے اندر ۔۔۔ سائقہ بولی اور تم تو تھوڑا سا باہر چھوڑ دیتی ہو۔۔ ہیں ناں ؟؟؟ وہ مستی بھری باتوں سے میرے دل کی تاروں کو چھیڑ رہی تھی ۔۔۔۔ کیبل والوں کی کال آ گئی کہ ہم سپر سٹور کے ساتھ مین گلی میں ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں دو منٹ میں آنے کا کہہ کر ۔۔۔ ان کو دوسرے کمرے میں ساتھ لے گیا اور ایل ای ڈی اٹھا کر ان کو ادھر پلاسٹک شیٹ پر بیٹھنے کا کہا ۔۔۔ انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور میں بیڈروم میں ایل ای ڈی رکھ کر کیبل والوں کو بلانے چلا گیا ۔۔۔ انہوں نے آدھے گھنٹے میں سب اوکے کر دیا اور چلے گئے ۔۔۔ میں نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے سائقہ کو ریموٹ تھمایا اور انہیں بیڈروم لے آیا ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر ٹی دیکھنے کے بعد ہم پھر باتیں کرنے لگے تھے وہ اکیلے گھر میں رہنے سے ڈر رہی تھی لیکن گھر کو دیکھ کر اور میری باتوں سے تھوڑی مطمئن ہو گئیں ۔۔۔ انہوں نے دو دن بعد گھر جانا تھا اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ کل آپ کے پاس رہوں گا ۔۔۔ آج شاکرہ کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی دن پہلے ہونے والے بخار کے۔بعد اس کو ویکنس تھی اسے شام کے بعد ڈاکٹر کے پاس لیکر جانا تھا ۔۔۔۔۔۔ شام سے قبل شاکرہ کی کال آ گئی تھی کہ آج تو پورا دن غائب رہے خیریت ؟؟؟ میں نے کہا ادھر سٹی میں ہی ہوں ۔۔۔ کچھ دیر میں آتا ۔۔ میں نے سائقہ سے کہا کہ کل۔کا دن صبح چنگ چی پر کالج چلے جانا اور گاڑی نہیں نکالنا پھر اس کی ترتیب بںا لیں گے اور آپ گاڑی پر ہی جاؤ گی ۔۔۔ کچن میں ملک پیک کے ساتھ دیگر ضروری سامان بھی میں نے رکھ دیا تھا اور ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نکلنے لگا اور انہوں نے مجھے گیٹ تک پہنچایا اور گیٹ کو لاک کر دیا۔۔۔۔ کالج جہاں سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا اور میرا گھر کالج سے آگے دس منٹ کی ڈرائیو یعنی مجھے جہاں تک آنے کے لئے بیس منٹ درکار تھے ۔۔۔ رات دیر تک دو دونوں ٹی وی دیکھنے کے ساتھ مجھ سے چیٹنگ کرتی رہیں اور پھر سونے لگیں صبح اٹھ کر میں نے اپنے ضروری کام نمٹا دئیے ۔۔شاکرہ کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی میں نے اسے کہا کہ آپ دوچار دن امی کے گھر آرام کر لو اور میں مچھلی کے شکار پر دوستوں کے ساتھ چلا جاتا ۔۔۔۔ بارہ بجے میں نے اسے امی کے گھر پہنچایا اور کچثدیر بیٹھنے کے بعد کالج کے گیٹ پر آگیا راستے سے کچھ کھانا پیک کرانے اور ایک جگہ سے اوون خریدنے کے بعد ہم مکان میں پہنچ گئے۔۔۔۔ ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا ۔۔۔سائقہ اور مہوش نے صبح کالج جانے سے پہلے بیڈ روم کو صاف کر دیا تھا اب انہیں نے میرے آگے روم کا دروازہ بند کر کے گھر کی صفائی شروع کر دی تھی ۔۔۔۔ اور چائے بنا کر اپنا ایک ایک کپ اٹھائے روم میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ چائے پینے کے ساتھ وہ دونوں میرے ساتھ باتیں کرنے لگ گئی تھی مہوش نے سائقہ سے کہا کہ شیما کی بات تو کر لو ۔۔۔۔ سائقہ بولی ہاں مانوں وہ ہماری ہاسٹل کی دوست ہے اور کلاس فیلو بھی وہ چاہتی ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ رہوں ۔۔۔۔ وہ رات اپنی کسی پھپھو کے گھر رہی ہے اور انہوں نے اسے کہہ دیا ہے کہ اپنا بندوبست کر لو ملنے آ سکتی ہو پر مستقل ہم نہیں رکھ سکتے ہمارے بچے جوان ہیں ۔۔۔ آخر میں سائقہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔ میں نے فوراً اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔۔بس بابا آپ دو بلائیں کافی ہیں میرے لئے ۔۔۔۔ سائقہ اپنے سر کو ہلاتے ہوئے بولی مانوں ں ں وہ بہت پیاری ہے ۔۔۔ دیکھو گے ناں ۔۔ تو ۔۔۔ سائقہ نے مجھے آنکھ مار دی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں بس اسے کہو ۔۔ اپنی پھپھو سے کہے کہ تیرے جوان بچوں کا بوجھ میں اٹھا لوں گی ۔۔۔۔ مہوش بولی آپ مذاق کر رہے ۔۔۔ میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا نہیں مہوش ۔۔۔ میں نے سائقہ کو اپنے بازو میں لپیٹ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میں آپ لوگوں کے لئے جو اتنا کر رہا ہوں ناں ۔۔۔ یہ صرف اس چھوٹی سی سقی کے لئے کر رہا ہوں ۔۔۔ مہوش مسکرا کے اور کسی محرومی کا احساس چہرے پر سجا بولی ۔۔۔۔ آپ سچ میں سقی سے بہت پیار کرتے ہو ناں ۔۔۔ میں نے نفی میں سر ہلا کے بولا نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں سقی سے عشق کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ مہوش کچھ دیر سر جھکائے بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر بولی ایک بات کہوں ۔۔ میرے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر بولی ۔۔۔ آپ اپنی سقی سے شادی کر لو ۔۔۔۔ یہ بھی آپ کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکی اور ذرا سا آپ کا میسج لیٹ ہو جائے ناں تو یہ وہم میں بہت سی وہم بھری باتیں کر کے رونے لگتی ہے اور کبھی کوئی بات ہو گئی ناں تو یہ ایک منٹ میں مر جائے گی ۔۔۔ میں نے سائقہ کو بچوں کی طرح اپنی گود میں لے لیا سائقہ نے بھی مجھے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے رونے لگی میں اس کی گال پر تھپکی دیتے حلق میں پھنسے الفاظ کے ساتھ اسے دیکھتا رہا سائقہ کچھ دیر بعد اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولی ۔۔۔ آپ بس ہ؟ دونوں سے شادی کر لیں ۔۔۔ میں مسکرانے کی کوشش کرتے بولا اور شیما کو بھی لے آؤ تو میرا چار کا کوٹہ پورا ہو جائے گا ۔۔۔ مہوش نے گہری سانس لی اور مجھے دیکھتے ہوئے بولی زاہد سچ بتاؤں ۔۔۔۔۔ مجھے سائقہ کی بات اچھی لگی ہے بلکہ بہت اچھی لگی ہے شاید میں بھی یہی چاہتی ہوں ۔۔۔۔ لیکن آپ کو اس لئے کچھ نہیں بولتی ۔۔۔۔ کہ شاید آپ سمجھیں کے میں تمھیں پیار کے جال میں پھنسانا یا اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے لئے جو کرتے وہ سقی کی خاطر کر رہے ہیں ۔۔۔ میرے پیرنٹس بہت سادہ لوگ ہیں اور میں ابھی تک آپ کو اپنے طور پر ایک گلاس دودھ تک نہیں پلا سکی۔۔۔۔ آپ جتنا ہمارے لوگ کر رہے ہو ناں یہ احسان نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ اس سے بھی کچھ اور آگے ہیں جن کا بدلا نہ الفاظ سے ہے اور نہ کسی اور چیز سے ۔۔۔۔۔۔ سقی نے مسکراتے ہوئے مہوش کے بوبز کو پکڑا اور بولی یہ دودھ کے دو پلالے جو ہر وقت پلاتی ہو وہ گلاس دودھ سے کم ہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ مہوش نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پھینکا اور بولی ۔۔۔ سقی ہر وقت مذاق نہیں ہوتا ۔۔۔۔ سائقہ زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ اووووو چھوکری کو عشق تھی گئے میڈے مانوں نال۔۔۔۔۔ مہوش بولی بس آپ سقی سے شادی کر لیں میں آپ کا مر کے بھی ساتھ دینا پڑا تو بھی دونگی ۔۔۔۔ ہم کغھ دیر بعد الٹو میں نکلنے لگے تھے اپنی گاڑی میں نے ادھر گھر میں کھڑی کر دی تھی ۔۔۔ سائقہ نےسیٹ پر تکیہ رکھ دیا تھا اور محتاط انداز میں مہارت کے ساتھ گاڑی کو گیٹ سے ریورس کر کے آگے بڑھ گئی تھی وہ بہترین انداز میں گاڑی چلاتی جا رہی تھی اور بار بار اپنے ہپس پر مکے مار کے کہہ رہی تھی مانوں ںں یہ خالی خالی لگ رہے ہیں ۔۔۔ میں نے کہا کہ رات کو بھر دونگا انہیں ابھی سکون سے بیٹھو۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے پھول بکھیرتی بولی نہیں نہیں بس وہ کوٹھڑی میں پہلی رات کافی تھی ۔۔۔۔۔ پھر سائقہ نے افففففف کہہ کر آنکھوں کو تھوڑا بند کیا اور اور اپنے دونوں کانوں کو باری باری پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ ہم پانچ بجے پارک پہنچ گئے تھے سردی کے باعث پارک میں گہما گہمی نہیں تھی ۔۔۔ ہم کچھ دیر وہاں گھومنے اور کھانے پینے کے بعد واپس ہو گئے راستے میں ایک جگہ میں نے سقی سے گاڑی رکوائی اور تھوڑا پیچھے جاکر ایک بیکری سے کنڈوم کا پورا ڈبہ اور کھانے پینے کی چیزوں لے لیں ۔۔۔ گھر آنے کے بعد دونوں شہزادیوں نے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور بیڈ پر آکر میرے آس پاس لیٹ کر مجھے چھیڑنے لگی ۔۔۔ میں نے کہا بہت سردی ہے سو جاؤ۔۔۔۔ مہوش بولی اپنے احسانوں کا بدلہ نہیں چکاؤ گے ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں کوئی احسان نہیں ہیں ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی مہوش اسے کچھ نہیں کہو ۔۔۔ خاموش رہو ۔۔۔۔ سائقہ مجھ سے نگاہیں ملا۔کر اپنی قمیض اتارتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میں دیکھتی ہو اس کی بدمعاشی ۔۔۔۔۔اور پھر وہ اپریل لباس اتار کر بھرپور انگڑائی لیتی مجھے دیکھ کر بولی جا اب سو جا اور نیند پوری کر ۔۔۔۔۔ وہ میرے پاؤں کی طرف کمبل کے اوپر سونے لگی اور میں نے اسے پکڑ کر دبوچ لیا اور اس کے ہپس پر دانتوں سے اتنا زور سے کاٹا کہ اس کی چیخ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔۔۔ سفید ریشمی مکھن جیسے ملائم ہپس پر میرے دانتوں کہ گہرے نشان تھے اور میں اب رنجیدہ ہو کر اس نشان پر ہلکی ہلکی کسنگ کر رہا تھا

    سائقہ نے کمبل پر اپنا چہرہ سائیڈ پر رکھے مسکرا رہی تھی اور میں اس کے ہپس پر دانتوں کے اس نشان کو چوس رہا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے ریشمی ہپس کو سہلا رہا تھا مہوش سائقہ پر جھکتی ہوئی مسکرا کر بولی ۔۔مزہ آیا نخرے دکھانے کا ؟؟؟ سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا ہلا کر کہا بہتتتتتتت ۔۔۔ صبر کرو میں ابھی بدلہ لیتی اس سے ۔۔۔میں نے شرٹ اتار کر سائقہ کے ہپس کو اپنے سینے سے لگا لیا اس سے مجھے بہت سکون ملتا تھا ساتھ میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مہوش کی قمیض اوپر کر دی مہوش اپنے کپڑے اتارنے لگی تھی اور سائقہ اسے اشارہ کر رہی تھی کہ کپڑے نہیں اتارو۔۔۔ اس کے نئ رکنے پر سائقہ اٹھ گئی اور میری شلوار قمیض اتار دی وہ اپنے بھرے بھرے نازک گورے ہاتھوں سے ببلو کو سہلا کو اسے سخت کر گئی اور ان پر اپنے مکھن کے گول پیڑوں جیسے بوز لگا کر اٹھ گئی اور عجلت میں کپڑے پہن کر کمبل میں گھسٹتے ہو مہوش سے بولا جلدی سے کپڑے پہنو اور جلدی سے سو جاؤ کل ٹیسٹ ہے کالج میں نے مسکراتے ہوئے مہوش کی ٹانگوں کو اس کے پاؤں کے قریب سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور ببلو کی ٹوپی پر تھوک لگا کر اسے مہوش میں اتارتے ہوئے اوپر لیٹنےگا مہوش کی۔وائی وائی سن کر سائقہ نے اپنے چہرے سے کمبل ہٹایا اور مسکراتے ہوئے پھر سے کمبل میں دب گئی میں بس اسٹائل میں مہوش کے اوپر لیٹا اسے کس۔کر جھٹکے لگاتا رہا اور پھر وہ پانی چھوڑ کر ساکت ہو گئی میں نے سائقہ سے کمبل ہٹایا وہ گٹھری بنی دوسری طرف منہ کر کے ساکت پڑی اس کے چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ تھی لیکن وہ نیند کی اداکاری کر رہی ۔۔ مہوش نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا یہ تو سو گئی ہے ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہوں ں ں اور اپنی طرف پھیلے ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ساتھ لیٹ کر اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈالا اور آس کے ہپس نکال لئے ببلو کی ٹوپی پر تھوک لگا کر میں نے اسے ہپس سے پکڑا اور ببلو خو آگے بڑھا کر اس کے ہپس کے درمیان ہول پر رکھتے ہی اس پر ایک دم دباؤ بڑھا دیا سائقہ میرے ہاتھوں سے پھسل کر بیڈ سے نیچے جا گری اور قہقہے لگاتے ہوئے اٹھتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر معافی معافی بولتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگی وہ ہنستی جا رہی تھی ۔۔۔۔ میں اسے پکڑ کر صوفے پر لے گیا اور گھوڑی بنا کر پیچھے کھڑا ہو گیا اس کی ببلی کو بھر کر میں تیز ہوتا گیا اور وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی ۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے اوپر آنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن میں نے اسے ایسے رہنے کو کہا میں نے مڑ کر پیچھے بیڈ پر بیٹھی مہوش کو دیکھا اور وہ اٹھتے ہوئے کنڈوم کا ڈبہ کھولنے لگی اور اپنے ہاتھوں میں کنڈوم اور کپڑا لے کر میرے قریب آ گئی مزے کی لہروں میں مست سائقہ نے ببلو کے باہر نکلنے پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر سے ہپس اوپر اٹھا کر اپنی پوزیشن بحال کر لی مہوش نے ببلو کو کپڑے سے صاف کیا اور اس پر۔کنڈوم چڑھا کر صوفے پر بیٹھ گئی سائقہ اور میں بھرپور انداز میں اپنے جسموں کا ملاپ کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے ایزی ہو گئے ۔۔۔۔ ۔۔۔ بیڈ پر آ کر کمبل لپیٹ کر بیٹھ گئے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کوئی خیال آیا اور میں باتھ روم جا کر دیکھنے لگا گیزر کی تاریں کٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ نل سے آنے والا پانی برف جیسا سرد تھا ۔۔۔۔ میں واپس آیا اور انہیں ٹھندے پانی کی اطلاع دی دونوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی ۔۔۔ بولی گیس پر پانی گرم کرتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن پھر ہم پانی کی موٹر چلا کر تازہ پانی سے نہا کر سونے لگا ۔۔۔ سائقہ نے کل کالج جانے کے لئے گاڑی کا پوچھا میں نے اسے اجازت دے دی ساتھ احتیاط کرنے کا بھی بولا ۔۔۔کہ گاڑی کی کوئی بات نہیں لیکن اپنا خیال کرنا بس۔۔۔۔ ہم سو گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو یہ دونوں جا چکی تھیں میں نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں اور کچھ دیر سائقہ کے ہپس پر بنے میرے دانتوں کے نشان کو ذہن میں تازہ کرکے مسکراتا رہا اور پھر موبائل اٹھا کر چیک کیا سائقہ کا موبائل بھی بستر پر پڑا تھا ۔۔۔ واٹس ایپ پر سائقہ کا مسیج آیا ہوا تھا ۔۔۔ میرے ہپس پر بنے دانتوں کے اس گہرے نشان سے خون رسنے لگا ہے۔ ہم ڈاکٹر کو دیکھانے جا رہی ہیں اور اگر کوئی خطرے والی بات نہ ہوئی تو ڈیڑھ بجے آپ کے آگے گیٹ پر لگے تالے کو کھول کر تمھیں آزاد کر دیں گے ۔۔۔ میڈیکل رپورٹ آنے تک تم اس گھر میں قیدی ہو ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر موبائل رکھ دیا اور باتھ روم چلا گیا ۔۔۔ باہر گیٹ کے پاس الٹو موجود نہیں تھی۔۔۔ اس وقت گیارہ بج چکے تھے دھوپ کا لطف اٹھانے کے لئے میں چھت پر چلا گیا جہاں پر ایک بوسیدہ کرسی پڑی تھی شاید اس کی حالت دیکھ کر کرائے دار اس یہیں چھوڑ گئے تھے ۔۔۔ میں نے کرسی کو ساتھ پڑے ایک پرانے کپڑے سے جھاڑا اور اس پر کسی طور ٹک کر بیٹھ گیا دھوپ کا مزا لینے کے بعد میں روم میں آ گیا ۔۔۔۔ میں اپنی فیسبک آئی اوپن کر کے اس پر لوگوں کی پسند دیکھنے لگا اچانک میں ایک تصویر دیکھ کر چونک گیا ۔۔۔۔ تصویر پیچھے سے لی گئی تھی جس میں میں زینت اور سائقہ کو باہوں میں لپیٹ کر اس پارک میں چل رہا تھا یہ تصویر اس وقت کی تھی جب یہ دونوں شاکرہ کی کزن کے شادی کے موقع پر میرے پاس رہیں تھیں اور میں اس شہر کے بڑے پارک میں پہلی بار ان کو پینٹ شرٹ پہنا کے لے گیا تھا ۔۔۔ تصویر کے کیپشن میں لکھا تھا ۔۔۔۔ واہ رے انکل تیری قسمت ۔۔ میں مسکرا کر اپنے فون میں سیو کرتا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔۔ 1:15 بج چکے تھے اور مجھے بھوک نے ستانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ میں ان تتلیوں کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔کچھ دیر بعد گیٹ پر تالا کھلنے کی آواز آئی ۔۔۔میں نے کمبل لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ گاڑی اندر کھڑی کرنے اور گیٹ لاک کرنے کے بعد وہ روم میں آ گئیں ۔۔۔ مہوش بولی یہ تو ابھی تک سو رہا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں ڈرامہ کر رہا پہلے اس کے جوتے بیڈ کے اس طرف تھے ۔۔۔ پھر اس نے پٹخخخخخخخ سے رجسٹر میرے سینے پر مارا اور بولی اٹھ جاؤ پولیس آ رہی ۔۔۔۔ بچیوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کرنے کے کیس میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔۔۔ میں نے آنکھیں کھول دیں اور وہ مسکراتے ہوئے میرے اوپر گر کر مجھے کسنگ کرنے لگی ۔۔۔ مہوش مجھ سے چمی لینے کے بعد کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔ وہ کالج کی کنٹین سے بریانی ۔ چکن پیس اور شامی کے ساتھ رستے سے کھلا دودھ لے کر آئیں تھیں مہوش پلیٹیں چمچ اٹھا کر لائی تھی ۔۔۔ وہ لایا گیا کھانے کا سامان پلیٹوں میں ڈالتے ہوئے بولی ۔۔۔ اٹھ جا مہارانی ۔۔۔۔ سائقہ نے اٹھ کر پلیٹوں بیڈ پر ہی رکھ دیں اور مہوش دودھ کا شاپر اٹھا کر پھر کچن میں چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ باتھ روم سے ہاتھ دھونے کے بعد کچن چلی گئی تھی اور کچھ دیر بعد ڈش میں دوکپ چائے اور بڑا مگ گرم دودھ کا لائی تھی میں نے کہا اتنا دودھ کون پئے گا سائقہ بولی آپ ہی پیئیں گے ۔۔۔ میں نے کہا یہ زیادہ ہے ایک گلاس دے دو بس ۔۔۔ وہ کچھ دیر مجھے گھورنے کے بعد بولی اووو مانوں کے بچے یہ ضائع ہو جائے گا کون پئے گا ۔۔۔۔ ہم آپ کے لئے لائی ہیں چائے کے لئے تو ملک پیک موجود تھا ۔۔۔۔ چائے پیتے ہوئے مہوش نے سائقہ کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔جائیں گے گھر ؟؟؟ سائقہ مجھے دیکھتے ہوئے بولی پتا نہیں مانوں کیا کہتے ہیں ؟؟ میں نے کہا جیسے تمھاری مرضی ۔۔ بولی ۔۔ اوکے چلتے ہیں امی انتظار میں ہوتی ۔۔۔ میں نے پوچھا ۔۔ اچھی لگی ۔۔ بولی بہت اچھی لگی کالج کی سب لڑکیاں منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑی تھی میڈیم نے پوچھا گاڑی کس کی ہے ۔۔۔ میں نے بتایا کہ ماموں نے گفٹ کیا ہے ۔۔۔ وہ بہت حیران ہو رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا بستی تک چلا لو گی ۔۔۔وہ ۔ مجھے گھورتے بوئے بولی مطلب ؟؟؟؟ میں نے کہا چلی جاؤ گی ؟؟؟؟سائقہ نم آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے اپنے سر جھکا کر ہچکیاں لینے لگی ۔۔۔ میں نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔۔۔ مہوش کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ کیوں رونے لگی ہے ۔۔۔ مہوش بولی دل نہیں کر رہا تو نہیں جاتے اس میں رونے والی کیا بات ہے ۔۔ میں سائقہ کو کسنگ کرتا اس سے پوچھنے لگا گاڑی تم چلاؤ گی یا میں ؟؟۔ بولی بس میں نہیں جاتی ۔۔۔۔ میں نے اسے منا لیا ۔۔۔۔ اور اسے فوراً تیار ہونے کو کہا ۔۔۔۔ وہ تیار ہونے کے ساتھ اپنا سامان سیوس میں رکھنے لگی ۔۔۔ میرے گاڑی میں بیٹھتے وقت وہ الٹو کی طرف اشارہ کر کے بولی اس بیچ دو ۔۔۔۔ میں گاڑی پر بہلنے والی نہیں ہوں ۔۔۔۔ میں نے سوری کہا کہ ہر بار آپ کے ساتھ جاؤں گا ۔۔۔ وہ مسکرا دی ۔۔۔ ہم تقریباً چار بجے جہاں سے نکل پڑے تھے مارکیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے سائقہ نے رکنے کو کہا اور بولی مجھے ایک سوٹ خرید دو ۔۔۔ میں نے اپنی دوست زہرا کو دینا ہے ۔۔۔وہ مسکرا دی تھی میں نے گاڑی روڈ کے کنارے روک دی ۔۔۔ پیچھے بیٹھی مہوش بولی سقی کیوں ان کے پیسے فضول لگواتی ہو۔۔۔ اپنی دوست کی چیز بھی ان سے لے رہی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی تم چپ رہو ۔۔۔۔ مہوش نے کہا چپ رہو کیا مطلب ۔۔؟؟ اپنےماں باپ کے پیسوں سے لیکر دے دینا ۔۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ میں ماں باپ کی نہیں ہوں میں مانوں کی ہوں اور اس کے پیسے اپنی مرضی سے لگاؤں گی ۔۔اوکے ان کی زیادہ ہمدرد نہ بنو ۔۔۔ ۔۔ مہوش مسکرا کے بولی ۔۔۔ گشتی ۔۔۔۔ سائقہ نے اسے گھٹنے پر تھپڑ مارا اور مسکرا کے بولی رنڈی ۔۔۔۔۔ ہم نے سائقہ کی پسند پر ایک سوٹ اور شوز لے لیئے ہم شہر سے نکلے ہی تھے کہ سائقہ میری گود میں آنے لگی اس نے صرف نقاب اوڑھ رکھا تھا اور برقعہ اتار دیا تھا ۔۔۔ میں نے کہا یار دن کی روشنی میں تو شرم کر لیا کرو ۔۔۔۔ بولی جس کو شرم آئے گا اپنا منہ پھیر لے گا ۔۔۔۔ اس نے گاڑی کا کنٹرول سنبھال کر سپیڈ بڑھا دی اور کسی منچلے نوجوان کی طرح گاڑی کو آگے بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔ مہوش بولی زاہد آج میرے گھر رہ جاؤ ناں ۔۔۔ امی ابو بھی ہر بار پوچھتے کہ ہمارے گھر کیوں نہیں آتے اور سعدیہ بھابھی کو بہت شوق ہے تمھیں دیکھنے کی ۔۔۔۔ میں نے سائقہ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کے بولا یارر ہماری مرضی نہیں چلتی آج کل ۔۔۔ سائقہ نے مہوش سے کہا تم مجھ سے پوچھوں یہ رن مرید ہے اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ۔۔۔ مہوش بولی تم کون ہوتی ہو ان پر حکم چلانے والی ۔۔۔ کون ہو ان کی ۔۔۔ سائقہ بولی میں ان کی ڈبلیو آئی ایف ای ۔۔ وائف ہوں ۔۔۔ اس کے رنڈی ہوں ۔۔ ان کی گشتی ہوں ۔۔ ان کی یار ہوں ان کی جان ہوں ۔۔۔۔۔ مہوش خاموش ہو کر باہر دیکھنے لگی وہ سائقہ کے میرے ساتھ بیٹھنے کے بعد فرنٹ سیٹ پر آ گئی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ مجھ سے اجازت لو گی تو آج اپنے مانوں کو آپ کے پاس رہنے کی اجازت دے دونگی ۔۔۔۔۔ مہوش خاموش رہی اور ہماری طرف سے تھوڑی سائیڈ پھیر لی تھی ۔۔ آج ہم بہت کم وقت میں مہوش کی بستی والے موڑ پر پہنچ گئے ۔۔۔ مہوش پیچھے چلی گئی تھی اور برقعہ پہن رہی تھی سائقہ نے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا جاؤ گے ان کے گھر ؟؟؟ میں نے کہا جیسے بولو ۔۔۔۔ وہ فرنٹ سیٹ سے اپنا برقعہ اٹھا کر پیچھے چلی گئی تھی ۔۔۔ ابھی شام سے کچھ وقت باقی تھا کہ ہم مہوش کے گھر کے سامنے رک کر اسے اتار رہے تھے ۔۔۔ مہوش کی امی دروازے پر آ گئی تھی سائقہ نے شیشہ نیچے اتارا اور مہوش کی امیخو سلام کر کے بولی خالہ آج ماموں آپ کے مہمان ہیں ۔۔۔ کوئی بکرا ذبح کر لو یہ مجھے چھوڑ کے واپس آتے ۔۔۔مہوش کی امی خوش ہو گئیں اور مہوش سائقہ کو مسکراتی نظروں سے دیکھتی ہوئی گھر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ مجھ سے باتیں کرتی جا رہی تھی وہ اکثر اپنے بھائی کے شکوے کرتی رہتی تھی کہ بہت جھگڑالو ہے اور اسی وجہ سے امی ابو نے اسے کراچی میں رکھا ہوا ہے ۔۔۔ میں سائقہ کو اس کے گھر چھوڑ کر رات آٹھ بجے مہوش کی بستی میں آ گیا تھا مہوش کا ابو مجھے ایک بڑے صحن والی کسی وڈیرے کی جگہ کی طرف لے گیا جہاں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ہم ان کے گھر کی طرف پیدل آ گئے ۔۔۔ مہوش کا گھر کاغصحن بہت بڑا تھا جبکہ ان کے مین گیٹ کی جگہ لکڑی کا چھوٹا دروازہ لگا ہوا تھا ۔۔۔ ان کے گھر میں ایک کمرہ پکا اور نیا تعمیر شدہ لگ رہا تھا ۔۔۔ جبکہ باقی چار کمرے کچے تھے ۔۔۔۔ میرے آگے چلتا مہوش کا ابو مجھے اس پکے کمرے میں لے گیا جہاں پہلے سے موجود مہوش اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی قد کی بھرے جسم اور گدمی رنگت والی تقریباً 22 23 برس کی لڑکی ایک بچی کو اٹھائے کھڑی تھی ۔۔جس نے مسکراتی نگاہوں سے میرا استقبال کرتے ہوئے اپنے سر کر تھوڑا ہلا کر دھیمی آواز میں سلام کیا ۔۔۔ پہلے سے لگے بستر پر میں بیٹھ گیا اور سردی سے کانپتے مہوش کے ابو بھی میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے ۔۔۔ مہوش بولی ماموں دیر لگا دی سائقہ کو پہنچانے میں میں نے کہا ہاں بس باجی سے باتیں خرتا کچھ دیر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔ مہوش کے ابو مجھ سے رسمی حال احوال کرتے ہوئے اپنی ہتھیلی آگے کرتے ہوئے بولے اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں جا کر سو جاؤں مجھے آج تیسرا دن ہے اور شدت کا بخار ہے بس آپ کے لئے رضائی سے نکل آیا تھا میں نے اس کی ہتھیلی پکڑی تو واقعی وہ تپ رہا تھا ۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو بخار سخت ہے آپ کہیں تو میں شہر میں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ۔۔۔۔ اس نے شکریہ ادا کیا کہ نہیں میں نے دوائی لی ہے اور شہر جانے کا یہ ٹائم نہیں ۔۔۔ صبح اگر ایسے ہوا تو آپ کو زحمت دونگا ۔۔۔ میں نے اوکے کر دیا اور وہ مہوش سے کہتے ہوئے اٹھا کہ ماموں کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آنے دینا ۔۔۔۔ مہوش نے اچھا بابا کہہ کر اپنی کہنی ساتھ کھڑی بھابھی کو ماری۔۔۔ اپنے بابا کے جانے کے بعد مہوش نے ساتھ کھڑی لڑکی کا تعارف کراتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ سعدیہ بھابھی ہیں ۔۔۔مجھ سے ہر وقت آپ کا پوچھتی رہتی ہے ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔آپ ٹھیک ہیں سعدیہ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔جی ٹھیک ہوں ۔۔۔ آپ کو دیکھنے کی بہت چاہت تھی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ دیکھنے کی یا ملنے کی ۔۔۔ وہ مسکرا کے مہوش کو دیکھنے لگی ۔۔۔ مہوش کا بھائی اور سعدیہ کا شوہر دوبئی میں کام کرتا تھا ۔ اسی کی محنت سے گھر کا خرچ چلتا تھا ۔۔ مہوش بولی میری بھابھی بہت اچھی ہے میں گھر آنے کی جلدی بس اس کے لئے ہوتی ہے ۔۔۔۔ میں نے مہوش سے اس کی امی کا پوچھا تو بولی وہ آپ کا کھانا تیار کر رہی ہے ۔۔۔ میں نے سعدیہ سے اس کی جھولی میں سوتی بچی کا نام پوچھا تو بولی اس کا نام کنول ہے میں نے اس گڑیا کو ہاتھ سے پیار کیا اور بٹوے سے دوہزار نکال کر اس پر رکھ دئیے ۔۔۔ سعدیہ بولی نہیں صاحب یہ نہیں کرو ۔۔۔ بس آپ آ گئے یہی بڑی بات ہے وہ نوٹ اٹھانےلگی ۔۔۔ میں نے کہا کیا میرا صرف یہاں آنا کافی ہے ؟؟؟؟ میں مسکرا دیا تھا ۔۔۔ سعدیہ نے مسکرا کر مہوش کو دیکھا ا۔۔مہوش نے میری طرف بڑھتے سعدیہ کے ہاتھ خو پکڑا اور بولی ۔۔ بس لے لو اور اپنے پاس رکھو ۔۔امی لوگوں کو نہیں دینا ۔۔۔سعدیہ نے اپنی مٹھی بند کر لی تھی ۔۔۔ سعدیہ بولی صاحب آپ بہت اچھے ہیں مہوش مجھے سب بتاتی رہتی ہے ۔۔۔ میں نے کہا مہوش خود اچھی ہے تو ہمیں بھی ایسا بننا پڑ گیا ۔۔۔ کسی آواز پر مہوش باہر چلی گئی تھی ۔۔سعدیہ بولی نہیں مہوش بھی اچھی لڑکی ہے آپ اس سے اتنی وفا نبھا رہے تو یہ بھی آپ کو اتنا پیار دے گی ۔۔۔ باقی اس کے والدین کی نہ پوچھیں بسسس میں نے کہا نہیں مجھے پتا ہے ۔۔۔۔ بولی آپ سے نہیں پوچھا ہوگا کہ کتنا پیسا لگا رہے ہو ۔۔۔ بس آپ ٹھیک کر رہے ہو ۔۔۔ مہوش آپ کو پیار دے رہی اس کو کافی سمجھو۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بولی میرے خاوند کی جو کمائی آتی کبھی مجھے ایک پائی بھی نہیں دیکھائی ۔۔۔ بس جو آتا سب ختم ۔۔۔۔ میں نے کہا اگر یہ۔نہیں کرتے تو آپکے خاوند کا حق بنتا ہے کہ آپ کو الگ سے کچھ بھیجے ۔۔۔ بولی نہیں کرتا ایسے وہ بھی ان کی مرضی سے چلتا ہے ۔۔۔ شادی کے۔دوماہ بعد چلا گیا اور اب بچی چھ ماہ کی ہو گئی نہیں آیا۔۔۔۔ پیسنہ دے پھر بھی ۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی ۔۔۔ میں نے تین اور نوٹ نکال کے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس میں تھما دئیے ۔۔۔۔ مٹھی میں دبا گئی ۔۔۔۔ پھر اپنے پیچھے لگے چھوٹے پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے کھڑکی کی کنڈی ادھر سے کھول دی ہے رات کو۔مہوش کو ادھر سے آپ کے پاس بھیجوں گی ۔۔۔ اکٹھے سو جانا۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ مہوش تو میرے پاس ہوتی مل لیتے آج آپ آ جائیں گی تو مجھے اچھا لگے گا اس نے مسکرا کے اپنا سر جھکا لیا

    ۔۔۔۔ (جاری ہے )

    Comment


    • #82
      واہ رے شاکر تیری قسمت۔ اب سعدیہ کی چُوت بھی ملنے والی ہی۔

      Comment


      • #83
        کہانی اچھی جا رہی ہے

        Comment


        • #84
          کمال ہی کردیا ہے

          Comment


          • #85
            انگلش میں اسپیچ لیس لکھ کر کام چلایا جا سکتا ہے لیکن واقعی آپ کی منظر نگاری کہ الفاظ کے بہاو کے ساتھ نہ صرف آدمی بہتا چلا جاتا ہے بلکہ کہانی کا کردار بن جاتا ہے۔ اور سب سے منفرد آپ کا سیکس سین ہے کہ وہ ولگیریٹی یعنی الفاظ کا چناو ایسا عمدہ کرتے ہیں کہ وہ سیکس سین بھی زندہ سین بن جاتا ہے۔
            نہایت ہی پرلطف کہانی ہے بار بار پڑھ کر بھی من نہیں بھرتا۔

            شاد رہیں آباد رہیں

            اور زور قلم میں اضافہ ہو

            Comment


            • #86
              کیا ہی زبردست سٹوری ہے کمال

              Comment


              • #87
                وارے رے قسمت سعدیہ کی غار میں راکٹ لانچر اترنے والا ہے

                Comment


                • #88
                  اااااافففففف کہاں لا کے روک دیا ظالم بھابھی تو بہت گرم ھے اپنے سسرال پہ اور گرمی نکالے گی رات کو مامں کے بستر پہ ۔۔۔۔ بھابھی بھی با خبر نکلی مہوش کے کاموں سے۔۔۔۔۔

                  Comment


                  • #89
                    Kamal ki mazydar kahani hai

                    Comment


                    • #90
                      Kamal ker dia

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X