Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

زینت ایک دیہاتی لڑکی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • behtareen kahani

    Comment


    • Lajawab story

      Comment


      • لگتا ھے اسکی قسمت ھی خراب ھےا گا جا رھے ھو

        Comment


        • Boht kamal kahani ha ab dekhte han agye kya hota ha

          Comment


          • Kamal ki story hai jis tarha app ne gaon ke mahol ko bayan Kiya hai bohat hi behtreen aala janab

            Comment


            • Bohat aala

              Comment


              • Bihat hi aaala kahani kahan. Parh kar buhat maza aaya, aik hi bar main mukammal parh daali.
                zahid sahab ka sar karahi main tha. Ab aaya hai kahani main twist. Ab daijhtay hain kay aagay kaya hota hai

                Comment


                • Kaya hi zabardast update di hai. Bohat maza aya par kar

                  Comment


                  • قسط نمبر 21

                    میری آنکھ کھل چکی تھی اور میں ساکت پڑا سائقہ کا جائزہ لے رہا تھا میری شرٹ گیلی ہو چکی تھی جانے کب سے رو رہی تھی وہ آہستہ سے بار بار اپنا ہاتھ اپنی ناک کی طرف لے جاتی تھی ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ اس کے گال پر رکھ دیا ۔۔ وہ بہت دیر تک میرے ہاتھ کو سہلاتی رہی ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھے بغیر بھری آواز میں بولی ۔۔۔۔ سو جاؤ مانوں ۔۔۔۔ ابھی صبح نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ وہ لمحے بھر بعد اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے پھر بولی سردیوں کی راتیں طویل ہوتی ناں؟؟۔ میں نے گہری سانس لی اور گلہ صاف کرکے بولا ۔۔۔۔ ہاں ں ں ں ں ۔۔۔ جما کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ پوچھا کچھ کھاؤ گے ۔۔۔ بنا دوں ۔۔۔ میں نے کچھ سوچ کر پھر پوچھا ۔۔۔ کیا پڑا ہے ۔۔۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی پتا نہیں ۔۔۔۔ دیکھتی ہوں ۔۔۔۔ وہ دروازے کے پاس رک کر پوچھنے لگی ۔۔۔ دروازہ لاک نہیں کیا تھا ۔۔۔ میں نے اپنا سر اٹھا کے دیکھا اور خاموش ہو کر کروٹ بدل گیا ۔۔۔۔۔ سائقہ کے جانے کہ کچھ دیر بعد میں بھی کچن میں چلا گیا وہ پراٹھا بنا رہی تھی میں اس کے پیچھے ٹھہر کے اس سے عام سی باتیں کرنے لگا تھا اس نے ایک پراٹھا اتار کے انڈے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑا مجھے دیکھتے ہوئے بولی کیا ہے ۔۔ میں نے کہا ایک پراٹھا اور بنا لو ۔۔۔ بولی آپ یہ بھی پورا نہیں کھاؤں گے ۔۔۔ میں مسکرانے کی کوشش کے ساتھ خاموش ہو گیا اور ساتھ والے چولہے کو جلا کر میں اس پر چائے بنانے لگا ۔۔۔ سائقہ نے دوسرا پراٹھا بنانے کے بعد میرے کہنے پر دو انڈے بھی تل لئے میں نے اس منہ دھونے کا کہا وہ روم میں چلی گئی ۔۔۔ وہ باتھ روم سے باہر آئی تو میں بیڈ پر دستر خوان سجائے بیٹھا تھا ۔۔۔ بولی چائے پیو گے آپ ؟؟ میں نے کہا ہاں آج سر میں درد ہو رہا تو۔۔۔ وہ ایک کپ چائے کھسکا کر مجھے اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی تھی میں نے منہ بند کر کے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔۔۔ بولی کیا ہے ۔۔۔ میں نے کہا تم کھاؤ۔۔۔ بولی موڈ نہیں ہے بس چائے پی لیتی آپ نے جو بنا لی ۔۔۔ میں نے چائے کا کپ اٹھا کر سائقہ سے بولا بس اسے رکھ دو ۔۔۔ بولی کیا ہے مانوں ۔۔۔ میں نے کہا موڈ نہیں ہے بولی پھر مجھ سے کیوں بنوایا ۔۔؟؟؟ بس ایسے ہی ۔۔۔میں نے سر جھکاتے ہوئے کہہ دیا ۔۔۔ بولی اچھا میری طرف دیکھو۔۔۔ میں نے اس کو دیکھنے لگا ۔۔۔ اس نے ایک نوالا اپنے منہ میں ڈالا اور پھر مشکل سے اپنے خشک حلق سے اتارا ۔۔۔۔ بولی اب خوش میں نے مسکرا کے کہا ہا ں ں اس نے نوالا بنایا اور مجھے کھلا دیا میں چائے کا کپ ڈش میں رکھ دیا اس نے دوسرا نوالہ بنا کر میری طرف بڑھایا تو میں نے پھر منہ بند کر لیا ۔۔۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا مانوں کیا ہے پھر۔۔۔۔ میں نے کہا تمھاری باری ہے وہ نم آنکھوں سے چلا کر بولی۔۔۔ جب دل نہیں کر رہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رک گئی تھی ۔۔۔ سائقہ نے آج پہلی بار اس لہجے میں میرے سے بات کی تھی میں سرجھکا گیا ۔۔۔۔۔ وہ نوالہ ڈش میں رکھ کر لیٹ گئی تھی میں دستر خوان سے تھوڑا پیچھے ہوئے ہوئے چائے کی ڈش کو سائیڈ پر کر گیا ۔۔۔ وہ بہت دیر بعد اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ سوری مانوں ۔۔۔۔۔۔۔۔تم کیا کہتے ہو ؟؟؟ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا ایک نوالہ آپ کا ایک میرا ۔۔۔۔ بولی اوکے ۔۔۔۔۔ پھر پراٹھا کو توڑتے ہوئے ۔۔ اٹھ گئی بولی گرم کر کے لاتی ہوں وہ چائے والا ڈش کے ساتھ دوسرا ڈش بھی اٹھانے لگی تھی فجر کی آذانیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح نو بجے میں نے اس سے ایک گھنٹے میں آنے کا کہا اور نکل پڑا میں بینک سے ہوتا ہوا مارکیٹ چلا گیا اور اپنے ساتھ سائقہ کے بھی کچھ سوٹ خرید لئے ۔۔۔۔۔ اور گھر آ گیا میں نے اسے تیار ہونے کو کہا ۔۔۔ وہ بہت دیر سر جھکائے بیٹھی رہی پھر پہلی بار پوچھا تھا ۔۔۔ اب کہاں جانا ہے ؟؟؟ میں نے گہری سانس لی اور بولا اب کیوں پوچھا ہے ؟؟؟ بولی بس ۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں ۔؟؟ میں نے بڑے شاپر کی طرف اشارے کرتے پوچھا اس میں بیگ ہے ۔۔۔میرے ساتھ اپنے کچھ سوٹ بھی ڈال لو ۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ گئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ ہم سہہ پہر تین بجے کے قریب سائقہ کی بستی کو جانے والی کچی سڑک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مین روڈ پر آگے بڑھ گئے ۔۔۔ سائقہ نے مجھے دیکھا اور پھر سر جھکا گئی ۔۔۔۔ میں نے بولا سقی تھکی بیٹھی ہو تو پیچھے سو جاؤ۔۔۔۔۔ سفر لمبا ہے ۔۔۔۔ ہم کراچی جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس نے گہری سانس لی اور کپکپاتے لبوں سے مانوں ں ں ں کہا اور پھر خاموش ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم صبح ہونے سے کچھ دیر قبل کراچی پہنچ گئے تھے اور اچھا ہوٹل تلاش کر رہے تھے ۔۔۔ ہوٹل کے روم میں ہم نے اس وقت ہوٹل میں دستیاب نہاری اور پراٹھے کھائے اور سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات دس بجے ہم ڈاکٹر کی تسلیاں اور میڈیسن لینے کے بعد اسی ہوٹل میں آکر سو گئے اور صبح پانچ بجے ہم وہاں سے نکل پڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے کوئی تین گھنٹے کی شاندار ڈرائیونگ کی تھی۔۔۔۔ اس نے ایک بڑے شاپر میں اترے ہوئے کپڑے ڈال کر گٹھڑی بنا کر سیٹ پر رکھ لی تھی ۔۔۔ مجھے پیچھے لیٹنے کا بولا تھا ۔۔۔۔ ایک ہوٹل سے ڈنر کرنے کے بعد وہ میری گود میں بیٹھ کر ڈرائیونگ کرنے لگی تھی ۔۔۔۔ رات نو بجے کے قریب ہم مکان میں پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔ میری گود میں لیٹتے ہوئے سائقہ بولی ۔۔۔۔۔ مانوں میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔۔۔۔ ؟؟؟؟ میں نے کہا ۔۔۔ یہ مسئلہ تمھارا نہیں میرا ہے ۔۔۔۔۔ بولی کیسے ؟؟؟ بچے مجھے چاہیں ناں ۔۔۔۔ بس تم ٹینشن نہیں لو۔۔۔۔ ہم رستے سے لایا گیا دودھ اور جوس پینے کے بعد سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے موبائل پر ٹائم دیکھا ۔۔۔ صبح کے سات بج چکے ۔۔ میں نے سائقہ کو اپنے سینے پر گھسیٹتے ہو اوپر کھینچا اور اسے کسنگ کرنے لگا۔۔۔وہ جاگ گئی اور مسکرانے لگی تھی میں نہیں اسے پہلی بار جگایا تھا ورنہ اس سے قبل اس کے جاگنے کا انتظار کرتا تھا ۔۔۔۔ بولی خیریت ؟؟؟ میں نے کہا کالج کی تیاری کر لو ۔۔۔۔ کچھ دیر خاموش پڑی رہی پھر بولی اوکے ۔۔۔ پھر وہ میرے گال پر چٹکی بھرتے ہوئے بولی ۔۔۔جیسے میرا مانوں بولے گا۔۔۔۔۔ میں نے عام زندگی میں مسکرانا چھوڑ دیا تھا اور صرف سائقہ کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ بھی مجھے دیکھ کر سنجیدہ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ نے کال کرکے پوچھا شاکرہ گھر ہے یا۔۔۔۔ میں نے کہا گھر ہے بولی پھر ابھی آ جاؤ۔۔۔ میں کالج سے نکلنے لگی ہوں ۔۔۔۔۔ یہ ہمیں کراچی سے واپس آئے بیسواں روز تھا ۔۔۔اور میں تقریباً روزانہ ایک گھنٹے کے لئے اس کے پاس جاتا تھا ۔۔۔۔ میں سائقہ کے پاس پہنچ چکا تھا اور اس کے گلے ملنے کے بعد روم کی طرف چلا گیا بیڈ کے درمیان شہد کی بوتل دیکھ کر میں نے سائقہ کے ہپس پر زور کا تھپڑ مارا وہ ہنسنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے جوتے اتارتے ہوئے بیڈ کے نیچے کچھ محسوس کیا اور ہاتھ بڑھا کر تکیہ کو باہر کھینچ لیا اس پر میری ایک پرانی پنک شرٹ چڑھی ہوئی تھی اور اس پر نیلے رنگ سے بڑا سا "maanuu" لکھا تھا ۔۔۔ میں نے حیرت سے سائقہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے تکیہ میرے ہاتھ سے لیا اور بیڈ پر آکر اس تکیے پر الٹی سو کر آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی اکیلے سونے کے لئے میں نے سائقہ کی قمیض کو پکڑ کر اسے اوپر تک پھاڑ دیا اور اس کی کمر پر شہد ڈال کر چاٹنے لگا ۔۔۔۔ مدہوشیوں میں آگے بڑھتے ہوئے جب میں سائقہ کو اپنے نیچے گٹھڑی بنائے تالی کی آواز سے لذت کے آخری لمحات کی طرف بڑھنے لگا تو بیڈ پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سائقہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بولی ۔۔۔۔ کنڈوم پھینک دئیے ۔۔۔۔ اور پھر اس نے اپنے پیٹ پر تھپکی دیی میرا جسم اکڑنے لگایا اور میں آنکھیں بند کرتا اس پر ساکت ہو گیا ۔۔۔ سائقہ اپنے اندر گرتی بوندیں محسوس کرتے ہوئے کھلے منہ سے کمرے کی چھت کے پار دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شام فوراً بعد گھر آگیا ۔۔۔۔ ہم نے کراچی کے چار دورے کر لئے تھے ۔۔۔۔ اور سائقہ اب ہر ہفتے مجھے بلاتی رہی ۔۔۔۔ وہ اب گھر بہت کم جاتی تھی فروری کے پہلے ہفتے میں سائقہ نے مجھے بہت محبت سے کہا ۔۔۔ مانوں آپ کہیں بھی شادی کر لو ۔۔۔۔ میں چونک گیا ۔۔۔ پوچھا تو بولی مانوں ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے اور ۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں زمانے میں تماشا نہیں بنانا چاہتی ۔۔۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ میرے حلق میں پھنس گئے تھے۔۔۔ میں گھر پہنچا تو اس وقت گھر کے گیٹ پر ۔۔۔۔ محلے کے بچے کھیل کر شور مچا رہے تھے ۔۔۔ میں ٹوٹے بدن کو گھسیسٹتا کمرے میں چلا آیا ۔۔ کچھ لمحے بعد شاکرہ نم آنکھوں سے میرے بیڈ سے لٹکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔ زاہد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو زاہد۔۔۔۔۔ زاہد ۔۔۔ میں نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر بہت رلا دیا زاہد۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو ۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ۔۔۔۔ زاید جب تم بچوں کی آواز پر ٹوٹ جاتے ہو ناں ۔۔۔۔ تو میں اندر سے کٹ جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ زاہد آپ نے میرا احترام کیا آپ نے مجھے بہت پیار دیا ۔۔۔ میں تمھاری احسان مند ہوں ۔۔۔۔ زاہد ۔۔۔ تم عظیم انسان ہو۔۔۔۔۔ زاہد تم میری مرضی کے بغیر بھی شادی کر سکتے تھے لیکن تم نے میری محبت کا جواب محبت سے دیا اور میرے دل میں اپنی محبت بڑھا دی آئی لو یو زاہدددد۔۔۔۔۔ وہ سسکیوں کے درمیان چیختے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ پھر ہچکی لیتے بولی زاہد تم شادی کر لو۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ میں تیرا رشتہ لے کر جاؤں گی ۔۔۔۔ پھر کچھ سنجیدہ ھوتے ہوئے بولی ۔۔۔ سنو۔۔۔ سائقہ اچھی لڑکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے بڑے رشتے ہو جاتے ۔۔۔۔ میں اس کی امی سے بات کر لوں گی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے شاکرہ کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا میں نے اسے ٹٹول کر کندھوں سے پکڑا اور کھینچ کر اپنے ساتھ لٹا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے دن سائقہ نے مجھے میسج کیا جلدی سے مکان میں پہنچو۔۔۔۔۔ میں بیس منٹ بعد اس کے پاس پہنچ گیا گیٹ۔کھلا ہوا تھا اور میں اندر چلا گیا سائقہ اپنے کپڑوں کے اوپر پہنا سفید کوٹ اتار رہی تھی اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا ۔۔۔۔ لیکن وہ اپنے چہرے پر سے درد کی لکیروں کو نہیں مٹا سکی ۔۔۔ وہ برآمدے ہی سے مجھے باہوں میں بھرتی اندر لیتے ہوئے بولی سدرہ یہ ہیں میرے مانوں ۔۔۔۔ ایک کانچ کی گڑیا جیسی لڑکی نے صوفے سے اٹھ کر مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا اس کی آنکھوں کی چمک کچھ کہہ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اسے سلام کیا اور بیڈ پر سر جھکا کے بیٹھ گیا ۔۔۔ یہ سائقہ کی ہی ہم عمر لگ رہی تھی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ میرا مانوں دیکھا ہے ۔؟؟؟۔ وہ میٹھی آواز میں بولی ہاں یہ آپ کو کبھی کبھی لینے آتے تھے ناں اور آڈیٹوریم ہال میں بھی آپ کے ساتھ تھے ۔۔۔۔ سائقہ بولی مانوں میری دوست کیسی لگی ؟؟؟؟؟ میں نے اس کی طرف دیکھتے ھوئے کہا بہت پیاری ہے ۔۔۔ اب نہیں پڑھتی ۔۔۔۔ سدرہ سر جھکا گئی ۔۔۔۔ سائقہ بولی نہیں مانوں میری طرح اس کے ابو بھی فوت ہو گئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ سدرہ رنجیدہ ہو گئی ۔۔۔ میں نے سائقہ سے پوچھا ۔۔۔ کچھ لے آؤں یا ۔۔۔۔۔۔ بولی ماسی گئی ہے دہی بلے لینے ۔۔۔۔ ۔۔۔ ایک گھنٹے بعد سدرہ چلی گئی ۔۔۔ سائقہ میرے پاس آ کر بیٹھی اور بولی ۔۔۔ مانوں ۔۔۔۔۔۔ میں نے سدرہ سے بات کر لی ہے ۔۔۔ اس کی امی کو بھی راضی کر لوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔ میں نے اس کی بات کو کاٹ دیا ٹوٹے الفاظ کے ساتھ بولا سقی میں پارسل نہیں ہوں ۔۔۔ مجھے بچوں کی خواہش نہیں رہی اب ۔۔۔۔۔۔ سقی میں نے کب کہا کہ میں تم سے بچوں کے لئے شادی کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہچکیاں لیتے رونے لگی ۔۔۔ بولی مانوں ۔۔۔ میری بات کو آپ نہیں سمجھ رہے ۔۔۔۔۔ میں اٹھ کر گھر چلا آیا تھا ۔۔۔۔ اگلے کئی دن تک میں ایک گھنٹہ اس کے بعد بیٹھ کر واپس آ جاتا تھا شاکرہ کے پوچھنے پر میں نے اس سے کہا کہ ابھی صبر کرو جب سائقہ۔کی امی سے بات کرنی ہو گی بتا دوں گا ۔۔۔۔۔ کرونا کے سبب تعلیمی ادارے بند ہو چکے تھے ۔۔۔۔ ہم ابھی بستر میں ہی تھے کہ گیٹ بجنے لگا ۔۔۔ میں نے گیٹ کھولا تو زینت اور نعمت آئے تھے زینت گھر آ گئی تھی اور نعمت مجھ سے مل کر بازار چلا گیا ۔۔۔۔ میں واپس آیا تو زینت شاکرہ سے پوچھ رہی تھی ۔۔۔ صاحب کو کیا ہوا بیمار ہیں کیا ۔۔۔۔ اتنے کمزور کیوں ہو گئے ۔۔۔۔؟؟؟ شاکرہ اس سے باتیں کرتی چائے بنانے چلی گئی ۔۔۔۔۔ زینت فوراً میرے قریب آتے بولی یارر وہ شفقت نے اپنی امی کو مارا ہے اس نے آپ کے رشتے کی بات کی تھی ۔۔۔ اور ساتھ بولا ہے کہ یہ دونوں آئیں گے تو ان کو بھی قتل کر دونگا ۔۔۔۔ مجھے کانپنے لگا اگر میں اپنی پہلی پوزیشن پر ہوتا تو شفقت کو شفقت کرنا سکھا دیتا ۔۔۔ لیکن سائقہ نے مجھے توڑ ڈالا تھا اور میں ان دنوں اپنا ٹوٹا بدن لے کر پاگل جیسی زندگی گزار رہا تھا ۔۔۔۔زینت بولی مجھے رات امی نے کال کر کے بتایا تو میں صبح صبح آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے روز تک سائقہ کو بھی اپنی امی سے معلوم ہو چکا تھا میں صدیوں کے ںیمار جیسا پچھلے دو روز سے بستر پر پڑا تھا اور شاکرہ ٹینشن میں بہت کمزور ہو گئی تھی رات کو سائقہ کا میسج آیا ۔۔۔ مجھے صبح گھر پہنچا دوں گے۔۔۔۔۔ میں نے یس کا ریپلائی دیا ۔۔۔۔۔ اگلےروز 20 مارچ 2020 کا دن تھا میں گیارہ بجے کے قریب سائقہ کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا اس نے اپنی تیاری مکمل کر لی اور چلنے کا بولا گھر سے نکلتے ہوئے اس نے تکیہ ڈرائیونگ سیٹ پر رکھ دیا اور کمرے سے اپنا ایک شاپر اٹھا کر الٹے پاؤں اس مکان کو دیکھتی گیٹ کی طرف آنے لگی ۔۔۔۔۔ سائقہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہی تھی اور میں بکھرے بالوں کے ساتھ بےخیالی میں کچھ ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر دیکھے جا رہا تھا سائقہ نے کچھ کہنے کے لئے کئی بار اپنی لب کھولے لیکن پھر گہری سانس لیکر خاموش ہو جاتی ۔۔۔۔ مہوش کی بستی کو جانے والے کچے رستے کو کراس کرنے کے بعد سائقہ کی آواز گونجی ۔۔۔۔ مانوں ں ں ں ں ں ں ں ں ں ں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کئی درجے زیادہ ٹوٹ چکی ہوں ۔۔۔۔ اس کا لہجہ کلیجہ چھلنی کرنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مانوں آپ نے مجھے وہ دیا شاید اس دور میں کوئی کسی کو نہ دے پائے ۔۔۔ آپ نے مجھ پر جو کئے وہ احسانات سے بہت آگے کی باتیں ہیں ۔۔۔۔ اگر میں آپ سے شادی بھی کر لوں یا تم پر اپنی جان وار دوں ۔۔۔ پھر بھی تھوڑی ہو گی ۔۔۔۔ الفاظ سے کسی طور ان کے بدلے کم سے کم تمھاری سقی نہیں اتار سکتی ۔۔۔ آپپپپپپ ۔۔۔۔افففففففففففف ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جتنا پیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیار مجھے تھوڑے عرصے میں دیا ۔۔۔۔ وہ زندگی بھر میں بھی بہت کم لوگ پا سکتے ہیں ۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ میں آئی لو یو نہیں بولوں گی ۔۔۔۔ کیونکہ میں سے سے بھی بہت آگے تک تمھیں چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ مانوں میں نہیں چاہتی کے میرے سے شادی کے بعد ۔۔۔۔ اولاد نہ ہونے کا الزام تم پر آئے ۔۔۔۔۔۔۔ مانوں میں سب کچھ چھوڑ کر ۔۔۔نئی زندگی گزارنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔ مانوں سدرہ بہت اچھی لڑکی ہے ۔۔۔۔ وہ تمھیں کال کرے گی ۔۔۔۔۔ اس سے میرے اس خوبصورت مکان میں ایک بار مل لینا اگر ۔۔۔۔آپ کا دل شادی کرنے کی طرف آ جائے تو ۔۔۔۔ میں کر لوں گی سب کچھ ۔۔۔۔ مانوں شفقت بہت بگڑ چکا ۔۔۔۔ امی کو بھی مارا۔۔۔۔۔ (وہ رونے لگی تھی اور گاڑی کو کچھ دیر سائیڈ پر روک لیا تھا ۔۔۔) میں بت بنا دھند میں کچھ ڈھوندھنے کے کوشش کرتا اس کی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔۔۔سائقہ نے گاڑی آگے بڑھائی اور پھر اپنی بستی کے کچے رستے پر موڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ مانوں میں اپنی امی کی ذلالت نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔۔ میں خود کو سنبھالنے کو جستجو کروں گی ۔۔۔۔۔ اور آپ کے لئے سوائے دعا کے شاید کچھ نہ کر پاؤں ۔۔۔ میں اس لئے تم سے ملنے کی کوشش نہیں کرونگی ۔۔کیونکہ یہ کہانی ختم نہیں ہو گی ۔۔۔ اور میں چاہتی میرے ساتھ تم بھی نئی زندگی کی طرف لوٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبی خاموشی کے بعد گاڑی رک چکی تھی ۔۔۔ میں نے آنکھوں کے کنارے کو صاف کرتے شیشہ نیچے اتار کے باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔ سائقہ مانوں اپنا خیال رکھنا کہہ کر ۔۔۔اپنا سامان اتارنے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ کے گھر نے نکلنے والے شفقت نے کوئی گالی دی اور تیزی سے لپکتا .,., میرے چہرے پر روز سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھپڑ رسید کر گیا ۔۔۔۔۔۔ گپ اندھیرے میں سائقہ کی بہت بلند آآآآآآآآ آآآآآآآآآ آآآآآآ کی جیخوں نے شاید بستی کے سب لوگوں کو گلی میں بھر دیا تھا کو مدھم سا شور میرے کانوں میں آ رہا تھا اور میںاس گپ اندھیرے میں اپنی بند مٹھیاں آپس میں رگڑ رہا تھا ۔۔

                    محبت دے دل چوں پلیکھے نی جاندے

                    محبت دے مجبور ویکھے نی جاندے

                    محبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایا

                    محبت نے رانجھے نوں جوگی بنڑایا

                    محبت دے لٹے تے ہو جانڑ دیوانے

                    ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

                    محبت دی دنیا دے دستور وکھرے

                    محبت دی نگری دے مجبور وکھرے

                    محبت دلاں دی کدورت مٹاوے

                    محبت ہی بندے نوں رب نال ملاوے

                    محبت نے یوسف نوں مصرے وکایا

                    محبت زلیخا نوں وی آزمایا

                    محبت دے وکھرے تانے تے بانڑے

                    ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

                    محبت دے رونے تے ہاسے نے وکھرے

                    محبت دے جھِڑکاں دلاسے نے وکھرے

                    محبت نے کڈھیاں نےدودھ دیاں نہراں

                    محبت نی منگدی کسی دیاں خیراں

                    محبت دی سب توں اے وکھری کہانڑی

                    نہ سُکھی راجہ، نہ سُکھی رانی

                    محبت نے جنے وی گائے ترانے

                    ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

                    محبت نے ہیراں نوں زہراں پلائیاں

                    محبت دی نگری چوں گیاں نہ آئیاں

                    محبت دے اجڑے کدی وی نہیں وسدے

                    محبت دے روندے کدی وی نہیں ہنسدے

                    محبت نے مہینوال نوں آزمایا

                    محبت نہ ویکھے اپنڑا پرایا

                    محبت دے بدلن کدی نہ زمانے

                    ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے

                    محبت ہی سسیاں نوں ریتاں تے ساڑے

                    محبت نے وسدے کئی گھر اجاڑے

                    محبت دی سوہنی چنانہہ وچ روڑے

                    محبت ای لہو پئی دلاں دا نچوڑے

                    محبت نے منصور سولی چڑھایا

                    محبت نے صادقؔ بلھا نچایا

                    محبت دی اکھ دے نے وکھرے نشانے

                    ایہہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانے۔۔۔۔۔

                    میرے جسم میں بجلیاں دوڑ رہیں تھی لیکن سائقہ کے پاگلوں جیسی چیخوں نے مجھے بے بس کر دیا تھا ۔۔۔ میں لگنے لگا کہ میرے پاؤں کے جان نکلنا شروع ہو گئی ہے آج تک مجھ سے کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا لیکن آج جانے کیا ہوا کہ ایک پانچ فٹ کا ایکسرے جیسا لڑکا مجھے اس بستی میں ذلیل کر گیا تھا جس بستی میں آنے پر سب رشک سے دیکھتے تھے ۔۔۔۔ میں یہاں سے اڑ جانا چاہتا تھا میں چاہتا تھا مجھے ہوا کا کوئی جھونکا اڑا کر کہیں دور لے جائے ۔۔۔۔ گلی میں ہر طرف سے بچوں بڑوں کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔ لیکن مجھے ابھی بھی کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ میرے کندھے پر کوئی ہاتھ آیا اور ساتھ کچھ قریب سے آوازیں آ رہی تھیں لیکن میں سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔ میری آنکھوں کو کسی نرم کپڑے نے صاف کرنا شروع کر دیا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔یہ زینت کی امی تھی جو آنکھوں کو اپنے دوپٹے سے صاف کرتی شاہد کہہ رہی تھی کہ میرے گھر آ جاؤ۔۔۔لیکن میں شاکرہ کے پاس لوٹ جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ بہت مشکل سے میں نے زخموں سے چور بدن کو گھسیٹ کر ڈرائیونگ سیٹ پر لانے میں کامیاب ہو گیا ۔۔۔ سائقہ کے گھر کا دروازہ بند تھا اور یہاں سے آنے والے شوروغل سے غیر معمولی حالات کا اندازہ تقریباً گلی میں موجود ہر فرد لگا چکا تھا اور میں ایک بڑے ہجوم میں تماشا بنا ہوا تھا ۔۔۔ مجھ میں اتنی ہمت باقی نہیں تھی کہ میں گاڑی کو اس گلی میں ہی سے پیچھے موڑ لوں سو میں نے اس ہجوم میں سے گاڑی آہستہ سے آگے بڑھانے لگا ۔۔۔ اس دیوار کے پیچھے سائقہ پر کیا بیت رہی تھی اور ایک لمحے کو میرے دل میں خیال آیا کہ اس کچی دیوار پر گاڑی ٹکرا کے سائقہ کے گھر میں داخل ہو جاؤں ۔۔۔۔ لیکن میں خود کو کنٹرول کرتا آگے بڑھ رہا تھا میں نہیں جانتا تھا کہ میں کس طرف جا رہا ہوں میں بستی سے جانے کب کا نکل چکا تھا اور ایک کچے رستے پر گاڑی کبھی کبھی ہچکولہ کھا کر کسی طرح آگے بڑھ جاتی تھی ۔۔ میں نے ایک جگہ رک گیا اور گاڑی سے نیچے اترتا اس رستے سے تھوڑا دور زمینوں میں بیٹھ گیا ۔۔۔ مجھے اپنے وجود کے ٹوٹے ایک ایک انگ پر رحم آ رہا تھا ۔۔۔ میں خود کو کنٹرول کرنے کی جستجو کو رہا تھا میں سر گول دائرے میں گھومتا محسوس ھو رہا تھا بہت دیر بعد میں نے اس کچے رستے کو آہستہ سے پہچاننا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ مجھے لگا یہ وہی رستہ ہے جس پر آگے سونیا کی بستی ہے اور میں اس کی شادی کے موقع پر کئی چکر لگا چکا تھا اور اس بستی سے ایک اور کچہ رستہ بھی اس مین روڈ کی طرف جاتا تھا ۔۔۔۔ میں نے اپنے وجود کو سنبھالا اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک اور دھماکہ ہوا سائقہ اپنا موبائل اور اس مکان کی چابیاں گاڑی میں چھوڑ گئی تھی ۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہو گئی تھی یا کوئی بڑا مذاق تھا ۔۔۔۔ نہیں سائقہ ایسا مذاق نہیں کر سکتی تھی میں گاڑی کو کسی طور آگے بڑھا گیا تھا یہ وہی رستہ تھا جہاں اس نے پہلی بار میرے ساتھ سفر کیا تھا ۔۔۔ سو ہماری محبت کے پہلے روز اور آج اس آخری روز میں شمولیت کا کیا راز تھا میں نہیں جان سکا ۔۔۔۔ میں سونیا کی میکے والی بستی سے گزر رہا تھا جب مجھ کچھ اندھیرے اور اذان سے احساس ہوا کہ مجھے اس حال میں کم سے چار پانچ گھنٹے گزر چکے تھے ۔۔۔ میں اس رستے کے پرانی یادوں کو ذہن میں گردشِ دے کر بار بار گاڑی کو روکتا اور کچھ دیر بعد گہری سانس لیتا تو مجھے لگتا کہ میرے اندر سے آنے والا سانس میرے ہونٹوں کو جلا رہا ہے ۔۔۔ میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی ۔۔۔ میں ایک جگہ رکا ھوا تھا اور کتنی دیر سے رکا ہوا تھا مجھ مجھے معلوم نہیں لیکن گاڑی کے شیشے پر جھکتا ایک شخص تیکھے لہجے میں بولا صاحببببب ۔۔۔ پیتی تے گھر مویا۔۔۔ جس کا اردو میں مطلب ہے ، اگر نشہ کر لیا ہو تو گھر تک محدود رہا کرو۔۔۔۔ میں نے اس کو کوئی جواب دینے کے بجائے اس سے صرف سوالیہ انداز میں ۔۔۔۔ پانی بولا ۔۔۔۔ مجھے لگا کہ اسے چند سیکنڈ پہلے کہ روپے پر ندامت ہو گئی تھی ۔۔۔۔ وہ پیچھے جانے لگا تو میں نے دیکھا ایک پرانی ڈاٹسن شاید میری گاڑی کے سائیڈ پر ھونے کے انتظار میں ہے ۔۔۔وہ شخص ایک ٹوٹے سلور کے گلاس میں پانی بھر کر لایا میں نے چند گھونٹ خشک حلق میں اتارے اور باقی پانی کو اپنے چہرے پر اچھال دیا ۔۔۔۔ بولا صاحب طبیعت خراب ہے تو ہم آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کو ایک سائیڈ پر لگا دیا ۔۔۔ قریب سے گزرتی ڈاٹسن کی روشن لائٹس دیکھ کر میں نے بھی گاڑی کی لائٹس آن کر دیں اور اپنے چہرے سے پانی کے قطرے نچوڑ کر آگے چل دیا ۔۔۔۔۔۔ مین روڈ پر گاڑی آنے کا مجھے اس وقت احساس ہوا ۔۔۔جب کسی بھاری ہارن نے میرے گانوں کو پھاڑ ڈالا ۔۔۔۔۔۔ ساتھ چیں ی ی ی ی ی کی آواز سے میں نے اپنے پاؤں سے بریک پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔ ڈم کی آواز اور جھٹکے کے ساتھ ۔۔۔۔ ۔۔۔ سائقہ کی کچھ دیر قبل سنی گئی بلند چیخوں سے ایک بار پھر میرے کان پھٹنے لگے ۔۔۔۔۔ پانی سے بھری اس چائنا گینڈ کو دیکھا ہے جس کے اندر پانی میں تیرتی لائٹس ہوتی ۔۔۔۔۔۔ بالکل اسی روشنی کے گولے کی طرح بکھرے بالوں کے ساتھ سائقہ کا چمکتا چہرہ گھومتا ہوا آسمانوں کی طرف چلا گیا تھا ۔۔۔ مجھے یاد ہے میری نے اپنی ہونہہہ کی آواز سنی تھی ۔۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سے مجھے سائقہ کی چیخوں کے بعد بھاری ہارن بریک لگنے کی لمبی بھاری چیں ییی کی آواز کے ساتھ سائقہ کا روشن چہرہ گھومتا اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔۔ میں نے بریک لگانے کے لئے پاؤں پر دباؤ بڑھایا تو ۔۔۔کچھ آوازیں میرے کانوں میں پڑیں ٹانگ پکڑو ٹانگ ہل رہا ہ۔۔۔۔۔۔۔ کے بعد میں سر میں بھاری ٹھاہ کی آواز آئی ۔۔۔۔ میں اپنا سر پکڑنا چاہا رہا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن کسی نے میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں ہلکی نیند میں ہوں اور کمرے میں کوئی زار سے بول کر مجھے ڈسٹرب کر رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ روشنیوں کے ساتھ مجھے اپنے پورے وجود میں کٹاؤ محسوس ہوتا اہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ کچھ آوازیں ۔۔۔۔۔ میں کچھ چہرے دیکھ کر بول رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن کیا بول رہا تھا اور چہرے کون تھے ۔۔۔۔۔۔ جھٹکے پر میں نے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اسٹریچر پر تھا اور کسی روم میں لے جایا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ میں بہت دیر بعد یا کئی بار دیکھتے کے چہروں کو اتنا پہچان چکا تھا کہ میرے اپنے ہیں ۔۔۔۔ لیکن کون ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میں ان سے اونچی آواز میں بول رہا تھا وہ دونوں چہرے مسکراتے ہوئے محھ پر جھک گئے تھے ۔۔۔۔ ساتھ انہی چیخوں نے مجھے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کو دیا مجھے لگا میں چیخ کر بدن کو ہلا رہا ہوں اور کچھ ہاتھ مجھے پکڑ رہے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے چمچ سے پانی پلاتے سائقہ کو پہچان لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مسکرا۔کے کچھ کہہ رہا تھا اور ساتھ کوئی اور آواز بھی سائقہ کے ساتھ قہقہہ لگا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پانی میرے لبوں سے نکل کر گردن تک پھیل گیا تھا ۔۔۔۔ شاکرہ کا۔مسکراتا چہرہ میں سامنے آیا اور اس کا ہاتھ کسی سفید چیز کو پکڑے میرے میرے ہونٹوں اور اس خے نیچے پھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ کسی روشن غار سے نکلتے ہی میں نے شاکرہ کو دیکھ کر اسی بلند آواز سے کچھ کہا لیکن وہ اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر میرے ہونٹوں کے قریب لانے لگی ۔۔۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ شاکرہ بہری ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ ۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ہونٹوں سے کچھ لگا کر بولا اسٹابری جوسسسسس۔۔۔۔ میں پوچھنا چاہ رہا تھا ،کہ توں کالج نہیں گئی آج۔۔۔۔۔ لیکن تےز روشنیاں میری آنکھوں کو بند کر رہی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ کی کوئی بات سنتے ہوئے مجھے رفتہ رفتہ سب یاد آنے لگا۔۔۔۔۔۔ اور پھر سائقہ کی چیخیں ۔۔بھاری ہارن ۔۔۔۔ بریک کے آواز کے ساتھ میں نے اپنے پاؤں پر دباؤ بڑھایا اور دونوں مجھے پکڑنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وقت خا اندازہ ہونے لگا تھا سائقہ پوری رات میرے ساتھ بیٹھی رہی مجھ چمچ سے پانی پلاتی اور مجھ سے باتیں کرتی رہتی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ اس سے آگے ایک بیڈ پر سو جاتی ۔۔۔ اور دن کے کچھ اوقات سائقہ سو جاتی تھی وہ اکثر سوتے ہوئے میری طرف پیٹھ کر کے اپنے ہپس پا قمیض کو سیٹ۔کرتی اور اور مجھ دیکھ کر مسکراتی ہوئی دوسری طرف چہرہ پھیر لیتی اور شاکرہ اس کے اس انداز پر قہقہہ لگا کر مجھے دیکھتی ۔۔۔۔ یہ سب کیا تھا شاکرہ اس کی اداؤں پر کیوں ہنستی تھی ۔۔۔۔۔ سائقہ مجھے چھوڑ کر جا چکی تھی تو وہ کیسے واپس آئی تھی ۔۔۔ اور اس جیسی بہت سے سوالات تھے جن کا جواب میں جاننا چاہتا تھا ۔۔۔ مجھے کوئی بتا نہیں رہا تھا اور مجھے بولنے بھی نہیں دےا جا رہا تھا مجھے ساکت رکھنے کی کوشش کرتی تھی وہ۔۔۔ میں کتنے دنوں سے جہاں تھا اور میرے اپنوں میں سے کوئی کیوں میرے ساتھ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ کو میں مسلسل کئی روز سے ایک ہی لباس میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔ میں نے شاکرہ سے کچھ کہنا چاہا رہا تھا وہ اپنا کان میرے ہونٹوں کے قریب لا۔کر سننے کی کوشش کی اور پھر مایوسی سے پیچھے ہٹ گئی میں نے اس کے کپڑوں پر نگاہیں پھیرنے کی کوشش کی ۔۔۔ فوراً مسکرا کے بولی ۔۔ کپڑے بدل لوں ۔۔۔ ؟؟؟ میں نے قدرے مسکرانے کی کوشش کی اور سائقہ کی طرف آنکھیں پھیر لیں ۔۔۔ شاکرہ بولی سائقہ بھی بدل لے ؟؟؟ میں نے آنکھوں میں یس کہا ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ او مانوں کی جانوں ادھر آ فرمائش آئی ہے تیری ۔۔۔۔ وہ فوراً اٹھ کے آ گئی میں ۔"مانوں کی جانوں" شاکرہ کے منہ سے سن کر اس سے نظریں چرا گیا ۔۔۔ شاکرہ نے مسکراتے ہوئے سائقہ کو بتلا دیا کہ دونوں نے کپڑے بدلنے ہیں ۔۔۔ سائقہ بولی میں تو نہیں بدلوں گی ۔۔۔ جب تک مانوں مجھے خود نہ پہنا دیں ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کے ہپس پر مکا مارا تھا اور دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑیں تھی میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ ایسا کیسے ھو رہا۔۔۔ ۔۔ کچھ دنوں بعد میں بہت سے ٹیسٹ کئے گئے اور اگلے دن یہ دونوں اپنا سامان سنبھالنے لگیں تھیں ۔۔۔۔ ہسپتال عملے نے مجھے احتیاط سے اسٹریچر پر رکھا اور ایمبولینس تک پہنچایا میری دونوں ٹانگوں اور ایک بازو پر سٹیل کے فریم لگے ہوئے تھے ہسپتال سے نکلتے ہوئے میں نے الشفاء انٹرنیشنل کا بورڈ دیکھ لیا تھا اور مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ ہم اسلام آباد میں ہیں ۔۔۔ سائرن بجاتی ایمبولینس نے رات کے کسی پہر ہمیں گھر پہنچا دیا تھا ۔۔۔ محلے کے کچھ افراد جمع ہو گئے اور مجھے گھر کے ایک روم میں منتقل کر دیا ۔۔۔۔ رات کو سائقہ میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ شاکرہ تم سو جاؤ۔۔۔ مجھے نیند آئے گی تو آپ کو جگا دونگی ۔۔۔۔۔ شاکرہ اور سائقہ ساتھ بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں مجھ نیند آ گئی تھی ۔۔۔۔ میرے دائیں بازو پر شدید چوٹ لگی اور میں آئی کی آواز کے ساتھ جاگ گیا ۔۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھا وہ اپنے کھلے منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے پھر روتے ہوئے بولنے لگی سوری مانوں سوری نیند کے جھونکے سے میرا سر آپ کے بازو سے ٹکرا گیا ۔۔۔۔پھر وہ بلند آواز سے روتے ہوئے بولنے لگی مانوں میں نے آپ کو بہت درد دے دئیے ۔۔۔ سوری مانوں ۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ شاکرہ بھاگ کر آئی اور مجھ پر جھک گئی تھی ۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے شاکرہ کو بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔۔۔ اسے بتانے لگی کہ کیا ہوا ۔۔۔ شاکرہ نے اسے اپنے بازو میں لپیٹا اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے تھپکی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ پاگل کہیں کی ۔۔۔ مجھے ڈرا دیا ۔۔۔ وہ بہت دیر تک سائقہ کو پیار کرتی رہی پھر اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولی ۔۔۔ جا سو جا توں میں بیٹھی ہوں ۔۔۔ سائقہ بولی نہیں بسسس۔۔۔ صبح شاکرہ کی امی بہن ۔ زینت اور کچھ محلے کی خواتین کے ساتھ شاکرہ کی دیگر رشتہ دار بھی آ گئی اور اگلے کئی روز تک رش بڑھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاصل معلومات کے مطابق شفقت نے میرے بعد سائقہ کو بالوں سے پکڑ کر گھر میں گھسیٹتا ھوا گھر لے گیا باجی مشکل سے چلتی اس کی طرف لپکی تو اسے دھکا دیا اور وہ دیوار سے جا لگی ۔۔۔ جس کے کچھ دیر بعد اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جانبر نہ ہو سکیں ۔۔۔۔۔ ادھر شاکرہ شام سے مجھے کالز کر رہی تھی لیکن کوئی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا ۔۔۔ اور کچھ دیر کے بعد میرا موبائل آف ہو گیا تھا اور شاکرہ نے اپنی امی کو کال کر لی تھی وہ اسے رات دس بجے اپنے گھر لے گئی تھی شاکرہ مسلسل مجھے کال کر رہی تھی اور ساتھ واٹس ایپ اور فیسبک پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی ۔۔۔صبح شاکرہ اپنی امی کے ساتھ تھانے جا کر رپورٹ درج کرا آئی ۔۔۔۔۔ ادھر جائے حادثہ سے قریبی ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچایا گیا تھا ۔۔ میری حالت بہت سیریس تھی مجھے ملتان یا اسلام آباد شفٹ کرنا تھا لیکن میرے پاس سے ہسپتال عملے کو کچھ نہیں ملا تھا موبائل کے ساتھ میرا بٹوہ اور دیگر سامان بھی غائب تھا ۔۔۔ پولیس میری گاڑی کے ڈھانچے سے معلومات اکٹھی کر رہی تھی ۔۔۔ ہسپتال عملے نے مجبوراً میری تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی کہ یہ شخص شدید زخمی حالت میں ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لاوارث پڑا ہے ۔۔۔ ہسپتال عملہ مجھے اپنی کپیسٹی کے مطابق طبی امداد فراہم کر رہا تھا ۔۔۔ شاکرہ کا بھائی دوبئی میں اپنے کسی کام سے گیا ہوا تھا ۔۔۔۔ شاکرء دو راتوں سے جاگ کر اپنے جتنی کوشش میں سرگرداں تھی وہ میرے حادثے کے دو روز بعد دوپہر کے وقت روتی ہوئی پھر سے فیسبک پر آ گئی تھی ۔۔۔۔ میرے ایک قریبی رشتے دار کا کمنٹ پڑھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ ۔۔۔یہ ہے بھی لاوارث ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے دوبارہ پوسٹ دیکھنے کے لئے اپنے انگوٹھے کو موبائل کی سکرین پر نیچے کھسکایا تو زخمی شخص کی تصویر کو غور سے دیکھنے کے بعد پاگلوں کی طرح ۔۔۔ بغیر پردہ کئے گھر سے نکل کر گلیوں میں بھاگنے لگی تھی ۔۔۔۔ اسے محلے کی خواتین نے پکڑ کر گھر چھوڑا وہ پوسٹ دوبارہ پڑھ کر اکیلی نکل پڑی تھی ۔۔۔ شاکرہ بہت مشکل سے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتی اس ہسپتال تک پہنچی تھی ۔۔۔۔ اور جہاں سے وہ اکیلی مجھے ایمبولینس میں لے کر اسلام آباد آئی تھی ۔۔۔۔۔ ادھر بستی کے کسی فرد نے میری کچلی ہوئی گاڑی کسی طور پہچان لیا تھا اور نعمت کو کال کر دی تھی ۔۔۔ نعمت کو بھی میرا موبائل گزشتہ تیثدن سے آف مل رہا تھا ۔۔۔ وہ صبح سویرے زینت کو ساتھ لا کر میرے گھر پہنچا تو ۔۔۔۔ میرا گھر لاک تھا ۔۔۔ نعمت نے زینت کی رہنمائی سے میری ساس کا گھر ڈھونڈ لیا اور انہیں معلومات مل گئیں تھیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آج پانچویں روز کی رات کو بھی سائقہ کے گھر بستی کی خواتین غم بانٹنے آئی بیٹھی تھی ۔جب زینت نے امی نے وہاں جا کر میرے اس بڑے حادثے کی اطلاع دی تھی سائقہ چیخیں مارتے بے ہوش ہو گئیں اور پھر رات تین بجے اکیلی بستی سے نکل کر اس کچے رستے پر بھاگتی مین روڈ پر آئی تھی ۔۔۔۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ بہت دشواریوں کے بعد دوسرے روز رات کے دو بجے الشفاء ہسپتال پہنچی تھی اور شاکرہ مجھے چھوڑ کر اسے سنبھال رہی تھی

                    ۔۔۔(جاری ہے)

                    Comment


                    • ہائے عشق ۔۔۔۔عشق ورگا کوئی سخی وی نئیں ۔۔۔۔نہ عشق ورگا کوئی ظالم

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X