Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بہت ہی اعلیٰ اور لاجواب کہانی ہے
    ہر اپڈیٹ مزیدار ہے

    Comment


    • کہانی میں ا چانک تبدیلی ہوتی اور سسپینس سے بھری ایکشن کہانی کا روپ دھار لیتی ہے زبردست

      Comment


      • کہانی کا ایک ایک حرف آنکھو ں دیکھا منظر لگ رہا ہے ،بہت اعلی سینز،بہت عمدہ ڈائیلاگ ڈیلیوری ،جتنی تعریف کی جاے کم ہے

        Comment


        • کہانی بہت اچھی جارہی ہے اس کو اسی طرح جاری رکھیں ۔

          Comment


          • عمدہ تحریر، کہانی کا پلاٹ زبردست ہے اور الفاظ کے عمدہ چناؤ نے تحریر کو چار چاند لگا دیئے ہیں

            Comment


            • زبردست لاجواب

              Comment


              • اک سے بڑھ کر ایک اپ ڈیٹ بہت خوب جناب بہت ہی عمدہ

                Comment


                • Originally posted by Shakir View Post
                  مزا آ گیا جناب سیکس اور سسپنس دونو ساتھ، ایک چھوٹی سی گزارش ہے کہ اگر پنجابی کا تڑکا کم رکھیں کیونکہ پنجابی پڑھنی بہت مشکل ہے
                  یار پنجابی سے تو مزہ آتا اصل

                  Comment


                  • 12




                    اندر میجر راکیش اور اس کی بیوی ننگے تھے. یہ گھر میجر رالیش راٹھی کا تھا. زید اور جین ڈیوٹی اہلکاروں سے بچنے کے لیے تقریباُ ساتھ جڑ کر کھڑے تھے. اندر میجر راٹھی لیٹا تھا اور اس کی بیوی دکھشا اس کے لن پر سوار اوپر نیچے ہو رہی تھی. اس کے ممے خاصے بڑے تھے اور اس کے اچھلنے سے اوپر نیچے ہو رہے تھے. لن کے پھدی میں جانے سے تو اتنی آواز پیدا نہیں ہو رہی تھی لیکن میجر کے پیٹ اور اس کی بیوی کے چوتڑوں کی آواز ٹھیک ٹھاک پیدا ہو رہی تھی اور تھپ تھپ کی آواز گونج رہی تھی. اس کے علاوہ دکھشا کی آہہہہہہ آہہہہہہ بھی گونج رہی تھی. اچانک میجر راٹھی کا جسم اکڑا اور اس کے ہاتھ اپنی بیوی کے مموں پر گۓ اور اس کے منہ سے آہہہہہہ نکلا تو دکھشا چلائی "نننہہہییں راکیش نوووووووووووو ووویییٹٹ آاااااااووووہہہہہہہہ" لیکن راکیش کا جسم ڈھیلا پڑ گیا اور اور وہ ہانپنے لگا جبکہ دکھشا کچھ بار اور اچھلنے کے بعد اتری اور ساتھ لیٹ کر ہانپنے لگی. وہ غصے سے بولی "تم نے آج بھی مجھے فارغ نہیں ہونے دیا" زید کا لن دکھشا کے اننے بڑے ممے دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا اور اس کا احساس جین کو بھی ہوا کیونکہ اس کا ہاتھ غلطی سے اس پہ لگ گیا تھا. میجر راٹھی نے غصے سے کہا" میں خوش نہیں ہوں کہ تم نے مجھے پارٹی میں نہیں جانے دیا، پیر کو میں اپنے دوستوں کو کیا کہوں گا کہ جب وہ ریسٹ ہاؤس میں پارٹی کا مزہ لے رہے تھے تو میں اپنی بیوی کو چودنے میں مصروف تھا"۔ اس نے اپنا چہرہ اس کی طرف کیا اور غصے سے جواب دیا، "میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا کیونکہ تم وہاں جا کر شراب پیو گے جو تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے" راٹھی نے کہا، "تمہیں میری شراب سے کیا مسئلہ ہے" اس نے کہا، "مسئلہ یہ ہے کہ تم شراب پیتے ہو اور اس کا اثر تمہارے اس نچلے ہتھیار پر بھی پڑتا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا اپنے والدین کا اکلوتا بچہ بنے جیسا کہ تم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو، میں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا کٹھ پتلی بنے خاندان والوں کی" اس نے کہا، "کیا تم پاگل ہو، وہ میرے ماں باپ ہیں اور وہ میرے بیٹے سے پیار کرتے ہیں" وہ مسکرا کر بولی، "میں صرف تمہارے والدین کی بات نہیں کر رہی بلکہ اپنے والدین کی بھی بات کر رہی ہوں کیونکہ ان سب کی میرے بیٹے کو تفریح کے لیے کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہےاور وہ اپنے عزائم پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر ہے کیونکہ تمہارے والدین کی خوہشات مختلف ہیں اور میرے والدین کی خواہشات مختلف ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے بیٹے کو اپنی خواہشات پر عمل کرنے پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔" راٹھی نے کہا، "دکھشا، کبھی کبھی تمہاری بدتمیزی ظلم کی حد تک پہنچ جاتی ہے" اس نے کہا، "تم جو بھی کہو لیکن میرا فیصلہ حتمی ہے کہ تم۔ نہیں پیو گے ورنہ.........." راٹھی نے کہا، "ورنہ کیا" اس نے کہا، "ورنہ مجھے بچہ پیدا کرنے کے لیے کوئی اور آدمی ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میرا بیٹا تمہاری طرح بدحال زندگی گزارے . تم پینٹر بننا چاہتے تھے اور تمہارے باپ نے تمہیں فوج میں بھرتی کیا اور دیکھو کہ تم ابھی کیا ہو" اس نے کہا، "تو پھر کسی کو ڈھونڈنے جاؤ کیونکہ میں ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا" اس نے منہ دوسری طرف موڑا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ جبکہ وہ بھی خود کو صاف کرنے لگی۔ اگرچہ بظاہر یہ آخر میں ایک طنزیہ گفتگو لگ رہی تھی لیکن زید کو لگا کہ دکشا بہت سنجیدہ تھی جب وہ یہ سب کہہ رہی تھی۔ وہ اپنے کوارٹر میں واپس آگۓ. زید کو ابھی بھی دکھشا کے بڑے بڑے ممے یاد آرہے تھے اور لن بیٹھنے کانام نہیں لے رہا تھا. یہ ایک ایسا کوارٹر تھا جس میں ایک ہی کمرہ تھا. وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر کے کپڑے بدلتے تھے. زید نے کپڑے اتارے اور ابھی وہ دھوتی باندھنے ہی والا تھا کہ ایک ننگا وجود اس سے پیچھے سے چپک گیا اور لن پکڑلیا جو ڈنڈے جیسا سخت تھا. جین کی آواز آئی "پریم جی تمہاری سرلا کے بس میں اب اس گرمی کو برداشت کرنا نہیں ہے. مجھے ٹھنڈا کردو" زید خود بھی اتنا گرم تھا کہ وہ مڑا اور جین کو لیتا ہوا بستر پر آگیا. زمین پہ بچھے گدے پر اسے لٹا کر زید نے جلدی سے اس کی ٹانگیں کھولیں اور بیچ میں آتے ہوۓ لن پر تھوک لگایا اور پھدی پر رکھ کر دھکا مار دیا. وہ دونوں اسقدر گرم تھے کہ بس لن کا پھدی میں گھسنا مانگ رہے تھے. زید کا آدھا لن ایک ہی دھکے میں پھدی میں گھسا تو جین کی چیخ رات کی تاریکی میں گونج اٹھی. زید نے اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھے اور درمیانے سائز کے ممے اپنے ہاتھوں میں تھام کر ایک اور دھکا مارا اور لن پورا اندر پیوست یوگیا. اس دفعہ جین کی بس گھوں گھوں ہی نکلی. زید کے یونٹوں نے اس کے ہونٹ بند کر رکھے تھے. زید نے ممے دباتے ہوۓ آہستہ آہستہ جھٹکے لگانا شروع کر دیے. لن ایک تسلسل سے پھدی میں گھسنے لگا. اپنے تئیں زید نے ایک چیخ کے بعد جین کی چیخیں بند کردی تھیں لیکن وہ ایک چیخ باہر ٹہلتی ہوئی بیلا کو سن گئی. بیلا ساتھ والے کوارٹر میں رہنے والے بنسی داس کی بیوی تھی اور اس کی عمر پینتالیس سال تھی اور اس کے چار بچے تھے. وہ کھڑکی پر آئی. گو کہ زید نے کھڑکی کو پردے سے ڈھک دیا تھا لیکن پھر بھی ایک درز تھی جہاں سے اس نے کپڑا ہٹایا اور اندر کا منظر دیکھ کر اس کی پھدی سلگ اٹھی. اندر زید جین کی پھدی چودنے میں مصروف تھا اور جین بھی اب گانڈ اٹھا اٹھا کر لن لے رہی تھی. زید نے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹا کر اب اس کے ممے چوسنے شروع کردیے تو وہ کراہتے ہوئے بولی "آآآآآآآہہہہہہہہہہہہہہ پپپررررررررررررییمممم ججییی پپپہہہہہہلللےےےےےےے وووووواااااااررررررررر ممییییں ہہہہہہہییی چچوووووووووت ککاااااااااا ککککاااااااااممم تتتمممااااااااممم کککررررررررر ڈڈڈڈاااااااااالللااااااااااااا آآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ مممیییرررررراااااااا نننککلللللل رررررہہہااااااااا ہہہہہہےےےےےےے ااااہہہہہہہہہہ" اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور زید نے رک کر لن نکال لیا. جین کوئی کنواری نہیں تھی لیکن پھدی ذیادہ چدی بھی نہ تھی تاہم جس نے بھی پہلے چودا تھا اس کا لن زید جتنا نہ سہی لیکن اتنا بڑا تھا کہ جین زید کے دوسرے جھٹکے کے بعد ہونے والے درد سے سنبھل چکی تھی. زید کا چمکتا لن دیکھ کر بیلا تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر رہ گئی.وہ خود سے بولی "ہے بھگوان. آدمی کا ہے یا کسی گدھے کا" دوسری طرف زید نے جین کو گھوڑی بنایا اور چودنے لگا. اب جین کے ممے لٹک رہے تھے اور زید ان کو تھامے پیچھے سے لن اندر باہر کرنے لگا. جین کراہتے ہوۓ کہہ رہی تھی "آآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ پپپررررررییییممممم آآآآآہہہہہہہہہہہہ تتتییررراااااا ٹٹٹووووووووپپپااااااااااااا بببچچچچےےےےےےےےےےے دددددددااااااااانننیی پپہہہہہہہہہ لللگگگ ررررررررہہہہہہاااااااااااا آآآآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ" زید پوری رفتار سے اسے چود رہا تھا. اب کی بار جب جین کی پھدی کے آنسو نکلے تو ان میں زید کا لن بھی ڈوب گیا اور اس نے بھی بچے دانی پر پچکاریاں مارنی شروع کردیں" جین آگے کو گری تو زید اس کے اوپر گرا اور ہانپنے لگا. جین ایسے ہی الٹی لیٹ کر سو گئی جبکہ زید نے پھدی سے لن نکالا اور ہیچھے سے اس سے لپٹ کر سو گیا جبکہ بیلا بھی اس وقت تک گھر جا کر زید کے لن کو یاد کرتے ہوۓ پھدی میں انگلی کر رہی تھی. زید ایک پلان بنا چکا تھا اور اب اسے اس پر عمل کرنا تھا. اگلے روز وہ دوپہر کے وقت جب پودوں کو پانی دے رہا تھا تو اس کو دکھشا نظر آئی. اس نے جان بوجھ کر دکھشا کو دکھاتے ہوۓ دھوتی ہٹائی اور لن سے پیشاب کرنے لگا اور جان بوجھ کر لن کھڑا بھی کردیا. یہ اس نے اس انداز سے کیا کہ دکھشا کو ایک پل کے لیے بھی نہیں لگا کہ زید اسے کن اکھیوں سے دیکھ رہا ہے. زید دوبارہ پودوں کو پانی دینے لگا اور دکھشا ابھی بھی کھڑکی میں کھڑی اسے گھور رہی تھی. اتنے میں جین وہاں آئی اور اس سے بولی "سنو پریم جی تم بہت برے ہو ویسے" زید چونک گیا کیونکہ جین کوئی پاگل نہیں تھی جو ایسے ہی آکر کہنے لگ جاۓ. یہ وہ کسی کو سنا رہی تھی اور اس کی آنکھ کے ہلکے سے اشارے سے زید سمجھ گیا کہ وہ پیچھے جھاڑیوں کی آڑھ میں کھی عورت کو سنا رہی ہے کیونکہ اس نے بھی اس عورت کی ساڑھی دیکھ لی تھی. زید نے کہا " کیا ہوگیا سرلا. ایسے کیوں بول رہی ہو" وہ بولی "آپ سے کتنی بار کہے ہیں کہ اہنے بڑے گھڑے کو آرام سے ہمارے استبل میں ڈالا کریں نہیں تو ہمارا منہ ہی بند کردیا کریں. رات کو ہماری ساری راس لیلا وہ پڑوس والی بیلا دیدی نے دیکھ لی اور اب وہ ہم کو چھیڑ رہی تھیں" زید دل میں مسکرا اٹھا کیونکہ یہ بیلا نے ہی نہیں بلکہ دکھشا نے بھی سن لیا تھا. زید نے لاپرواہی سے کہا "ارے تو اس کو کہہ دو نا کہ رات کو پھر دیکھے اور رات کو اور آوازیں نکالنا. اب گھوڑا اپنی پتنی کے استبل میں نہ ڈالیں تو کیا اس کے استبل میں ڈالیں. وہ بھی جا کے اپنے پتی کا گھوڑا لے لے نا. ہمارے گھوڑے پے تو ہماری سرلا کا ہی حق ہے" یہ کہتے ہوۓ زید نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈالیں تو وہ بولی "دھت بیشرم" اور شرما کر ہنسنے لگی لیکن زید کا مقصد پورا ہو چکا تھا. زید نے اس رات جان بوجھ کر دونوں کھڑکیوں کے پردے تھوڑے ہٹا دیے اور جین کو بھی کہہ دیا تھا کہ بغیر اکیلے ہونے کی تسلی کے مشن کی بات نہ کرے کیونکہ وہ آرمی ایریا تھا اور کشمیر میں تو ویسے بھی بھارتی فوج ہر وقت جاسوسوں کی بو سونگھتی پھرتی تھی. زید نے چدائی شروع کی تو جین بھی مست ہو کر چدوانے لگی جبکہ زید نے محسوس کیا کہ ایک کھڑکی پر صرف دو آنکھیں تھیں جو یقیناُ بیلا تھی لیکن دوسری کھڑکی پر دو کی بجاۓ چار آنکھیں تھیں اور یہ واضع تھا کہ یہ آنکھیں صرف دکھشا کی نہیں بلکہ ساتھ کوئی اور بھی تھا. زید جان باجھ کر کرارے دھکے لگا رہا تھا جبکہ جین اس کے پلان سے بے خبر چیخ رہی تھی "آآآآآآآااآآآآااہہہہہہہہہہہہ پپپپررررررییمممم ججییی ممییں تتمممہہہہہااااااااااااررررریی پپپتتتنننیییی ہہہہہہہووووووں ررررررررحححممممم کککررررررررووووووووو مممججھ پپپپرررررررررر اااااااااااووووووووووہہہہہہہہہہہہہ بببھگگگگووووووووووننن آآآآآآآآۓےےےےےےےےےے" زید نے اس قدر شدید دھکے مارے کہ ایک ورزشی اور مظبوط جسم ہونے کے باوجود جین کا انجر پنجر ڈھیلا ہوگیا اور زید نے اس کا تین نار پانی نکالنے کے بعداپنا پانی چھوڑا اور جب لن نکالا تو جین بس ہانپ ہی رہی تھی. زید اس کے ساتھ لیٹ گیا. اس نے جین کا مما چوستے ہوۓ اونچی آواز میں کہا "سرلا تو اتنی گرم ہے کہ میں روک ہی نہیں پایا. اندر ہی نکل گیا ہے گولی کھا لینا ابھی اپنا ٹھکانہ نہیں بچہ کہاں سے پالیں گے. پھر پیٹ سے ہوگئی تو گروانا مشکل ہو گا پچھلی بار جیسے" جین تو اس وقت نشے میں تھی اور اس کے منہ سے ہوووننہہہہہہ ہی نکلا. زید نے تسلی کی کہ وہ سب جاچکی ہیں. ویسے بھی اس کا کام تو ہو گیا تھا. اس کا مقصد دکھشا کو دکھانا تھا لیکن بیلا نے جو دیکھ لیا تو وہ نہیں جانتا تھا کہ بیلا اس کے کتنا کام آنے والی ہے. صبح جب وہ ناشتہ کر رہے تھے تب جین کو رات کی بات یاد آئی اور وہ بولی "رات تو تم وحشی ہی یوگۓ تھے. مفت کا مال ہے تو ایسے پھاڑ ہی دو گےکیا اور کیا یہ بچہ گرانا. کیا کہانی بنا رہے تھے" زید ہنسا اور نوالہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالتے ہوۓ بولا "سرلا جی معف کردو نا آپ کو بتاۓ بغیر ہی پلان بنا لیا" وہ بولی "کیساپلان" زید نے کہا "اب ہمیں جو انفارمیشن چاہیے وہ یا تو کرنل ڈوگرہ یا میجر راٹھی کے گھر سے ملے گی. اب کرنل ڈوگرہ کو تم جانتی ہو کہ خطرناک آدمی ہے اور اس سے اور میجر سکھبیر سے جتنا ہو سکے ہمیں بچنا ہے. لیکن وہ شرابی راٹھی آسان ٹارگٹ ہے اور اس کے گھر میں گھسنے کا راستہ ڈھونڈنا ہے اور وہ بھی ایسے تا کہ تم پہ شک نہ جاۓ اور اسی لیے تمہیں کہا کہ ان کی بیویوں کے سامنے ہی کام کیا کرو" وہ بولی "ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن گھسنا کیسے ہے کیونکہ چھپ کے کرنا ہوتا تو تم اب تک کر چکے ہوتے لیکن یہ جس طرح تم بول رہے اس سے لگتا یہی ہے کہ تم کچھ بڑا پلان کررہے ہو اور ان کی نظروں کے سامنے رہ کر ہی ان میں دھول جھونکو گے" زید نے کہا "راٹھی کے گھر کی چابی اس کی بیوی ہے" پھر اس نے جب ساری بات بتائی تو وہ ہنس کر بولی "بہت کمینے ہو. میری ایک ایک چول ہلا دی اور اب مجھے پلان کا بتا رہے ہو" وہ بولا "بتا دیتا تو ایسی پرفارمینس کہاں سے آتی" وہ دونوں ہنس پڑے. دوپہر کو زید کرنل ڈوگرہ کے لان میں پانی لگارہا تھا جب اسے کرنل کی بیوی نرملا کی آواز آئی جو اسے بلا رہی تھی. زید چونک گیا اور اس کے پیچھے چلا گیا. اندر گیا تو وہ چونک اٹھا. اندر دکھشا ایک نائٹ گاؤن پہنے لیٹی ہوئی تھی. زید چونک گیا. وہ بولی "مساج کر لیتے ہو" نرملا کی آواز بھی کافی کرخت تھی. زید نے چونکتے ہوۓ کہا "ججی ممیں" وہ بولی "ہاں تم اور کون. سرلا بتارہی تھی کہ اچھا خاصا مساج کر لیتے ہو" وہ بولا "ججی ککر لیتا ہوں" وہ بولی "اتنا ہکلانے کی کیا ضرورت ہے, وہ رہا تیل. جاؤ اور جا کر میڈم کا مساج کرو" زید نے دل ہی دل میں سوچا کہ وہ دوسری عورت جس نے ان کا رات کا شو دیکھا وہ یقیناُ نرملا ہی تھی. اس نے تیل اٹھایا اور مڑا تو چونک اٹھا. کیونکہ اب دکھشا ننگی تھی اور الٹی لیٹی یوئی تھی جبکہ اس کی بڑی گانڈ دیکھ کر زید کا لن دھوتی ہی میں جھٹکے کھانے لگا. نرملا نے میگزین اٹھایا اور صوفے پر بیٹھ کر پڑھنے لگی. زید آگے آیا اور سائیڈ پہ کھڑا ہو کر دکھشا کی کمر پر تیل سے مساج کرنے لگا. دکھشا کی آہیں نکل رہی تھیں جبکہ نرملا لا تعلق سی میگزین کی ورق گردانی میں مصروف تھی. دکھشا بولی " بیڈ پر آکر مساج کرو" زید بیڈ پر آکر اسکا مساج کرنے لگا اور وہ کراہتی رہی. وہ بولی "اپنی قمیض اتار لو گندی ہو جاۓ گی" زید نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اب وہ دھوتی میں تھا. اس نے دکھشا کے چوتڑوں کا مساج کیا اور اب وہ کمر کا مساج کرنے لگا اور ایک طرح سے گانڈ پر بیٹھ گیا.وہ سمجھ گیا تھا کہ دکھشا کا مقصد چدوانا ہی ہے تو اس نے بھی دھوتی سے لن باہر نکال کر اس کے چوتڑوں میں پھنسا دیا. دکھشا نے بجاۓ اعتراض کرنے کے گانڈ اٹھا کر رگڑا اور آہہہہ نکالی تو زید مسکرایا اور تیل لن پر لگا کر لن کو پیچھے سے ہی پھدی پر لگایا اور ٹوپا اندر کیا تو اس کی آہہہہ نکل گئی. یہ کھلی دعوت تھی کہ.آؤ اور چودو. زید نے اس کی ٹانگوں کو کھولا اور اس کے اوپر لیٹ کر یڈجسٹ کرتے ہوۓ اب کی بار کرارہ دھکا مارا تو گھوں گھوں کی آواز آئی. زید سمجھ گیا کہ اس نے کوئی کپڑا اپنے منہ میں لے لیا ہے. زید نے ایک اور دھکامارا اور پورا لن اندر کردیا. پھدی اندر سے گیلی اور تنگ تھی. زید نے اس کی گانڈ کو تھوڑا سااٹھا کر دھکے لگانے شروع کیے تو تھپ تھپ کی آواز آنے لگی. اس نے کن اکھیون سے نرملا کو دیکھا تو وہ میگزین میں غرق تھی اور اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے سامنے دکھشا چد رہی ہے وہ بھی ایک مالی سے. زید کا لن اب پسٹن کی طرح چل رہا تھا اور وہ چد رہی تھی. اچانک اس کا جسم اکڑا اور اس کی پھدی پانی اگلنے لگی. زید رک گیا اور لن نکال کر اسے سیدھا کر کے منہ سے کپڑا نکالا اور اس کے ایک موٹے ممے کو ہاتھ میں دبوچ لیا جبکہ دوسرے کا بڑا سانپل منہ میں لے لیا. نپل منہ میں آتے ہی اس نے لن پھدی پہ رکھا تو وہ کراہ کر بولی "اااااااووووووہہہہہہہہہہ یییسسسسس ففککک ممممیییی آآآآآآآآہہہہہہہہہہہہہ تتتمممم کککلللاااااااااکککااااااارررررر ہہہہہہہوووووووو آآاااااہہہہہہہہہہہہہ" زید نے دھکا مار کر سارا لن اندر کردیا اور اب پھر سے گھوں گھوں سنائی دے رہی تھی کیونکہ اس نے کپڑا واپس منہ میں لے لیا تھا. زید اسے چودتا رہا اور آخر آہہہہہ کرتا ہوا اس کی پھدی میں فارغ ہوا. زید تو اس پر لیٹ کر ہانپا اور الگ ہو گیا لیکن وہ مساج اور چدائی سے اسقدر پر سکون ہوئی کہ سو ہی گئی اور زید بھی ساتھ لیٹ کر ہانپنے لگا. ابھی زید سنبھلا نہ تھا کہ اسے نرملا کا غصے سے تمتماتا ہوا چہرا دکھائی دیا. اس نے زید کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر دوسرے کمرے میں آگئی. وہ منمنایا "مم......می.......ڈم.......ججی....." وہ اس کے سامنے کھڑی ہوئی اور ساڑھی کا پلو ہٹاتے ہوۓ بولی "جو کچھ دکھشا کے ساتھ کیا وہ میرے ساتھ بھی کرو" وہ حیران ہوا لیکن اب نرملا کو حیران کرنے کی باری تھی. اس نے منہ پھیر کر کہا "نہ میڈم جی میں یہ پاپ نہیں کر سکتا" وہ غصے سے بولی "کیوں!!!!!! کیا میں اتنی خوبصورت نہیں" زید نے گڑبڑانے کی کھڑکی توڑ اداکاری کرتے ہوۓ کہا "ایسا........نہیں ہے میڈم جی لیکن......." وہ بولی "لیکن کیا" وہ بولا "میڈم جی...میں کرنل صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں. مانتا ہوں اتنا سنت نہیں ہوں ابھی ابھی وہ کیا کہ اگر میری پتنی کو پتا لگ گیا تو وہ مجھے معاف نہیں کرے گی لیکن میڈم جی کرنل صاحب ہمارے مالک ہیں اور آپ مالکن. وہ دکھشا میڈم نے تو مجھے روکا ہی نہیں........." وہ اس سے لپٹ گئی اور چوم کر بولی "پریم تم بہت اچھے ہو لیکن اب میں خود کو نہیں روک سکتی. مجھے سنتشت کردو" زید مسکرایا اور اپنے ہونٹ نرملا کے ہونٹوں پر رکھے تو اس نے اسے چومنا شروع کردیا. زید تو پہلے ہی ننگا تھا تو اس کے ہونٹ نرملا کے ہونٹوں کا دس چوستے رہے اور اس کے ہاتھ اس کع ننگا کرتے رہے. نرملا چالیس سال سے کچھ اوپر کی عورت تھی لیکن وہ.انتہائی حسین تھی اور اس جے جسم کا ایک ایک انگ جیسے فرست سے تراشا گیا ہو. زید کرنل ڈوگرہ کی قسمت پہ رشک کرتا تھا. زید نے اس کو لٹایا اور اس کے ممے ہاتھوں میں لیے تو وہ کراہ اٹھی. زید اب اس کا ایک مما دبا اور دوسرا چوس رہا تھا. اس نے زید کو اوپر لٹایا اور لن کو پھدی پر رگڑنے لگی. اچانک وہ رکی اور اٹھ کر زید کے لن کو ٹٹولتے ہوۓ بولی "یہ کیا. یہاں تو ختنہ........" زید کے لیے یہ سوال اچانک یا غیر متوقع نہیں تھا اس لیے ڈرنے کی بجاۓ اس نے دکھی پن کی اداکاری کرتے ہوۓ کہا "کیا میڈم جی کونسا زخم چھیڑ دیا آپ نے. یہ ہی تو وجہ یے کہ میرے گھروالے تک مجھے نہیں اپناتے" وہ چونک کر بولی "کیا مطلب" وہ بولا "یہاں ایک دانہ نکلا تھا. میری بدقسمتی کہ میں ایک مسلم ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس نے اس کے علاج میں ختنہ کر دیا.اس نے تو کسی کو کچھ نہ بتایا پر پتا نہیں پتا جی کو کہاں سے سب معلوم ہوگیا. اب وہ ٹھہرے براہمن پنڈت تو انہوں نے ہی میرے اور سرلا کے گاؤں نکالے کا آدیش دے دیا" نرملا کے ہاتھ میں اب تک لن تھا. اس نے زید کو اپنے اوپر کھینچتے ہوۓ کہا "اوہ پریم تم کتنے دکھیارے ہو آہہہہہہہہہ ناؤ جسٹ فکک می" زید نے اسے حیرت سے دیکھا تو وہ بولی "چودو اب........" زید نے لن پھدی پہ رکھا اور دھکا مار دیا. لن آسانی سے اندر ہو گیا اور نرملا کے منہ سے آہہہہہہہ نکل گیا. زید نے اگلا دھکا مارا تو پورا لن اندر ہو گیا لیکن نرملا کو ذیادہ درد نہ ہوا. زید نے اسے چودنا شروع کردیا. کمرے میں تھپ تھپ کی آواز گونجنے لگی اور نرملا کے بڑے ممے اچھل کود کرنے لگے. نرملا کرہتے یوۓ بول رہی تھی "آہہہہہہہہہہہ ففکک ممییی ........... آآآآآہہہہہہہہہہہ یییووووووورررررررر ڈڈڈڈکک اااااااازززززز ووووویییررررییییی ممییسممیررراااییئززززننگگگ آآآآآآآہہہہہہہہہہہہ" ایسال لگتا تھا کہ نرملا ہندی سے ذیادہ انگریزی کی شوقین تھی. زید اسے چودتا ہی جارہا تھا اور وہ گانڈ اٹھا اٹھا کر لن اندر لے رہی تھی. زید کا لن اتنا بڑا تھا کہ عام طور پہ وی جس بھی عورت کو چودتا تھا اس کی پہلی چدائی پہ بس لازمی کرادیتا تھا لیکن نرملا وہ پہلی عورت تھی جو اس قدر مزے لے لے کر لن اندر لے رہی تھی. اس کا جسم اکڑا اور اس کے منہ سے نکلا "ااااووووہہہیہییہہہہہ اااااااایییممم کککمممنننگگگگگ ااااااوووووووہہہہہہہہ" نرملا نے اپنا پانی چھوڑ دیا. زید نے نئی پوزیشن ٹرائی کرنے کا سوچا اور نرملا کو ایسے ہی اٹھا کر ہاس پڑے ٹیبل پہ بٹھایا اور پھر سے لن اندر باہر کرنے لگا تو وہ کراہی "ووووواااااااااؤؤؤؤؤ پپپپرررررررریییمممم ییییوووووووو اااایییننننڈڈڈڈ یییوووررررر ڈڈڈککککک ااااززززز اااامممیییزززننگگگ ااااوووووہہہہہ" زید نے اب تک بہت عورتوں کو چودا تھا لیکن اس طرح اس سے پہلی بار میں ہی کھل کر صرف نرملا ہی چدی تھی. زید نے پوری طاقت سے اسے چودا اور پھر اسے بستر پر لٹا کر چودا اور آہہہہہہ آہہہہہ کرتا ہوا اس کی پھدی کو سیراب کرنے لگا. اس نے زید کو خود پر لٹا کر بھینچا ہوا تھا اور کہہ رہی تھی "اااہہہہہ ییووو آآآآآررررررررر وووننڈدررففللل آآآہہہہہ" کچھ دیر بعد زید اس کے برابر لیٹا تھا. وہ بولا "میڈم جی آپ وہ انگریزی میں جو بولیں مجھے سمجھ تو نہیں آیا پر اچھا لگا" وہ ہنسی اور بولی "تمہاری تعریف ہی کر رہی تھی" وہ بولا "میڈم جی برا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں" وہ اپنی پھدی پر لگی اس کی چپچپی اور گاڑھی منی کو دکھاتےہوۓ بولی "میرے اندر یہ بھرنے کے بعد بھی کہہ رہے ہو کہ میں برا مانوں گی" وہ بولا "اوہ دکھشا میڈم کے صاحب تو شرابی ہیں شاید اس لیے انہوں نے.......پر کرنل صاحب تو........." وہ مسکرائی اور اس کے سینے پی سر رکھ کر بولی "پریم دکھشا نے یہ سب مزے کے لیے نہیں کیا. وہ سنتان چاہتی ہے اور راکیش کی شراب کی عادت کی وجہ سے کچھ ہو نہیں رہا اس لیے تم سے......... میں تو اس کی مدد کر رہی تھی بس.... اور میں نے دل میں سوچ لیا تھا کی ایسا جچھ کروں گی نہیں لیکن آج تمہیں دکھشا کے ساتھ دیکھ کر خود کو روک نہ پائی اور یہ سب ہو گیا........ تمہارے صاحب میرا بہت خیال رکھتے ہیں بس جب سے یہاں ڈیم..........." وہ چپ ہوگئ لیکن زید نے کہا "آپ اتنی کھوبصورت ہو کہ صاحب کا دھیان آپ سے ہٹنا نہیں چاہیے لیکن وہ کام میں مگن ہیں" وہ بولی "ایسے ہی سمجھ لو" زید اس سے کافی دیر باتیں کرتا رہا. نرملا نے اس کو واپسی پر صحت بخش خوراک بھی دی تاکہ وہ تواناں رہے.جس وقت زید کا لن دکھشا اور نرملا کی پھدیوں کی سیر کرہا تھا. بیلا ایک ادھ ننگی عورت کی مالش کررہی تھی جبکہ ایک اور عورت نائٹی پہنے پاس ہی لیٹی یوئی تھی. وہ جس عورت کی مالش کر رہی تھی وہ پچیس سے تیس کے درمیان تھی اور اس کا نام امرتا تھا. یہ ہی وہ عورت تھی جس کے شوہر کے پاس زید کا گوہر مقصود تھا اور ساتھ میں میجر سکھبیر کی بیوی تیجندر عرف تیجو تھی. بیلا مالش کرتے ہوۓ زید کے لن کی تعریفیں کر رہی تھی جبکہ وہ سن کر گرم ہو رہی تھیں. امرتا نے کہا "وہ بچہ ہیدا کر لے گا نا" بیلا بولی "میڈم جی اس کا آپ کے بازو جتنا بڑا ہتھیار ہے اور اتنا تو میرا مرد ایک ہفتے میں نہیں گراتا جتنا پانی اس نے اپنی پتنی کے اندر ایک بار میں گرادیا تھا" تیجو بولی "اگر ایسا ہے تو اسے امرتا پہ چڑھانا ہی پڑے گا" امرتا نے کہا "دھت بیشرم کہیں کی" تیجو نے کہا "بچہ چاہیے تو یا اس کو چڑھا لے یا میرے سردار کو. تیرے اس کانگڑی پتی سے کچھ نہیں ہونا" اس کے بعد وہ پلان بناتی رہیں. رات کو بیلا اپنے کوراٹر میں تھی. اس کی ساڑھی اوپر اٹھی ہوئی تھی اور اس کا شوہر بنسی داس ہوری طاقت سے اس چود رہا تھا. لیکن وہ بیلا کو جھاڑے بغیر ہی اندر جھڑ گیا. وہ اسے خود سے ہٹاتے ہوۓ بولی "تم کبھی مجھے سنتشت نہ کرنا" وہ بولا "سالی تیری بھوسڑی اس عمر میں بھی اتنی گرم ہے تو میں کیا کروں" وہ بولی "کچھ نہیں تو ایک کام کر ساتھ والے کوارٹر کے ہریم سے تھوڑا میل ملاپ کر نا زرا اور اسے گھر بھی بلا کسی دن" وہ بولا "اپنے کھانے کے واندے ہیں اور مہمان بلا لوں" وہ بولی "اس کی فکر نہ کر. سمجھ لے وہ ہمارہ لاٹری کی چابی ہے" وہ بولا "وہ کیسے" وہ بولی "ایک میڈم ہے جس کو بچہ چاہیے اور بچے کے لیے پریم چاہیے" وہ بولا "تو اس کو کیوں آگے کررہی میں ہوں نا دیکھ اپنے چار بچے" وہ بولی "تجھ سے میری بڈھی چوت سنبھالی نہیں جاتی اور وہاں جوان چوت سنبھالے گا ہاں...... جتنا کہا ہے اتنا کر نا" ساتھ والے کوارٹر میں زید اور جین ساتھ لیٹے تھے اور جین زید نے ابھی چودا تھا. وہ بولی "لگتا ہے دوپہر کو مشن دکھشا کامیاب رہا" زید نے کہا "ہاں اور نرملا بونس میں ہی مل گئی" وہ ہنس کر بولی "بڑے کمینے ہو" زید نے کہا "اب سنو!!! جب میں ان کو چودوں گا تو تم دکھشا کے گھر میں تلاشی لو گی اور کچھ کام کا نکالنا. میں ان سے باتوں میں بھی کچھ نہ کچھ نکلوا ہی لوں گا" وہ بولی "پریم جی نئی چوتیں ملنے پر بس پتنی کو نہ بھول جانا" زید ہنس پڑا. اگلے کچھ دن تک زید بس چدائی ہی کرتا رہا. دوپہر میں دکھشا اور نرملا کی اور رات میں جین کی. اس کو دونوں عورتوں سے کافی معلومات ملیں لیکن کچھ بھی ایسا نہیں ملا کہ وہ ایکشن لے سکے. اب وہ اور جین بنسی اور بیلا کی دعوت میں مدعو تھے. دعوت خاصی پرتکلف تھی. کھانے کے بعد بنسی نے شراب بھی پی جبکہ بیلا نے بھی تھوڑی سی لےلی اور تھوڑی جین نے بھی پی. بیلا کچن میں برتن سنبھال رہی تھی اور زید اس کی مدد کر رہا تھا. وہ تھوڑے تھوڑے نشے میں بھی تھی. وہ پیچھے ہٹی تو اس کی گانڈ زید کے لن سے ٹچ ہوئی اور اس کے منہ سے آہہہہہ نکل گیا. زید سمجھ گیا تھا کہ اس کی پھدی بھی لن مانگ رہی ہے. اس نے اپنی دھوتی کھولی اور ننگا لن بیلا کی گانڈ سے ٹکرا دیا. بیلا نے پیچھے مڑ کر اس کے لن کو دیکھا اور جھک گئی. یہ واضع اشارہ تھا کہ آؤ اور میری لے لو. زید نے اس کی ساڑھی اٹھائی تو نیچے پھدی نما پھدا تھا. زید نے اس سے پہلے بھی بڑی عمر کی عورتوں کو چودا تھا لیکن ایسی ستاناس شدہ پھدی پہلی بار دیکھ رہا تھا.اس نے دل میں کہا "اگر مشن کی ضرورت نہ ہوتی تو سالی کی پھدی کی جگہ گانڈ لے لیتا" اس نے کہا "بھؤ جی. کپڑا منہ میں لے لو" بیلا پہلے ہی جھول رہی تھی. اس نے ساڑھی منہ میں لے لی تو زید نے بھی دھکا مار کر لن اندر کردیا. پھدی اتنی بھی کھلی نہ تھی. لیکن زید کو محسوس ہوا کہ اسے خانہ پوری ہی کرنی ہے چنانچہ اس نے گانڈ پکڑ کر دے دھنا دھن دھکے لگاۓ اور اس کا ایک دفعہ پانی نکلوا کر اسے سیدھا لٹایا وہیں زمین پہ اور اس کا بلاؤز کھول کر موٹے ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ اس کو جم کر چودا اور اپنا پانی اس کی پھدی میں چھوڑنے کے بعد جین کو لے کر اپنے کوارٹر میں آگیا.زید کی روٹین قائم تھی اور وہ دن میں نرملا اور دکھشا کو چودتا جبکہ رات میں سرلا یعنی جین پے چڑھ جاتا. ایک دن بیلا نے اسے رات میں ملنے کو کہا تو زید سمجھ گیا کہ وہ جس کام کے پیچھے ہے وہ ہونے ہی والا ہے. رات کو جب وہ ملے تو زید نے کہا "بھؤ جی یہاں کھلے میں کریں گے کیا" وہ بولی "ارے دھت ہم نے ناہیں کروانا. لیکن کرنا یہی کام ہے اور اس کے پیسے بھی ملیں گے" زید نے حیرت کا اظہار کرتے ہوۓ کہا "ہاۓ دئیا پیسے کون دے گا" وہ بولی "یہ ہم تم کو نہیں بتائیں گے نہ ہی تم اس کو دیکھ پاؤ گے. آنکھوں پہ پٹی باندھ کے لے کر جائیں گے" زید نے کہا "تو ٹھیک ہے ہم کو چوت اور پیسے سے مطلب ہے" وہ بولی "کل تیار رہنا اسی وقت. یہ نیند کی.دوائی ہے یہ اپنی پتنی کو دے دینا اقر باقی تم جانتے ہو" وہ مان گیا. وہ اسے کچھ پیسے دیتے ہوۓ بولی "یہ لو پیسے اور ہاں جل میس سے کھانے کا سامان بھی آۓ گا تو رکھوا لینا. اب اتنی محنت کرو گے تو کچھ تو طاقت چاہیے تمہارے گھوڑے کو" وہ بولا "کہو تو ابھی طاقت دکھاؤں گھوڑے کی" وہ ہنس کر بولی "کل سے چوت کا بھوسڑا بنا ہوا ہے اس لیے آج یہ طاقت سرلا جی پہ دکھاؤ اور کل اس پہ جس نے پیسے دیے ہیں" زید نے اثبات میں سر ہلا دیا. اگلے روز کھانے کا سامان دیکھ کر جین چونکی اور اس سے پوچھا تو زید نے کہا "میں نے تم سے کہا تو تھا کہ اس بیلا نامی بلا کے پیچھے کوئی اور ہے. یہ اسی کا کمال ہے" وہ بولی "لیکن تمہیں اتنا یقین کیسے تھا" زہد نے کہا "فوجی ہوں. میس کا بنا کھانا پہچانتا ہوں. وہ کھانا کسی اور نے بھیجا تھا کیونکہ اتنی تو ان دونوں کی کمائی نہیں جتنی اس کھانے کی قیمت تھی" وہ بولی "تو اب" زید نے کہا "آج ویسا ہی چلنے دو جیسے اس نے کہا ہے اور یہ لو یہ اس نے تمہارے لیے دی ہے" اس نے نیند کی گولیاں پکڑائیں تو وہ چونکی اور غصے سے کہا "اس بڈھی کی چوت کا بھوسڑا بناؤں اس کی یہ ہمت" زید نے کہا "یہ کام آئیں گی ہمارے" اس نے رکھ لیں. روٹین میں زید نے جا کر دکھشا اور نرملا کو چودا اور اب اسے رات کا انتظار تھا. رات کو وقت پر بیلا آئی اور زید کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لے گئی. اس نے زید کو ایک کمرے میں لے جا کر پٹی کھول دی. کمرہ اندھیر تھا. بیلا کی آواز آئی. کپڑے اتارو اور سامنے بستر پہ جاؤ" زید نے وہی کیا. بستر پہ ایک ننگی عورت تھی. زید نے اسے چومنا چاہا تو عورت نے جھٹک دیا. زید نے ٹٹول کر ممے دباۓ. نارمل سائز کے ممے تھے . زید نے ممے چوسے تو ہلکی ہلکی آواز سے اندازہ ہوا کہ عورت نے منہ میں کپڑا ٹھونس رکھا ہے. زید نے عورت کے جی بھر کے ممے چوسے اور اس کے جسم کو اچھی طرح ٹتول کر عمر کا اندازہ لگایا. وہ عورت پچیس سے تیس سال سے ذیادہ کی نہیں تھی. زید نے اب لن پھدی پہ سیٹ کیا اور اندازے سے دھکا مارا. لن اند گھسا تو گھوں گھوں کی تیز آواز اور جھٹپٹانے سے احساس ہوا کہ عورت کو درد ہو رہا ہے. زید نے ہٹ جر اگلا گھسا مارا اور سارا لن اندر گیا جبکہ وہ عورت جھٹکا کھا کر ساکت ہو گئی. زید کو لگا کہ وہ بے ہوش ہے. زید نے اب اس بات کی پروہ کیے بغیر چودنا شروع کردیا. اس نے عورت کی سانسوں سے اندازہ کرلیا کہ وہ ٹھیک ہے اس لیے آرام آرام سے چودتا رہا. عورت کے جسم میں حرکت پیدا یوئی. شاید وہ ہوش میں آچکی تھی. زید نے اسے چودنا شروع کیا اور کمرے میں بس گھوں گھوں اور تھپ تھپ کی آواز ہی گونحتی رہی. عورت تین بار فارغ ہوئی جب زید کی آہہہہہ آہہہہہ گونجی اور وہ اس عورت پہ ڈھے گیا. پھر بیلا کی آواز آئی "ہوگیا تو ساتھ کپڑا پڑا ہے. اٹھ کر خود کو صاف کرو اور کپڑے پہن لو" زید نے ویسا ہی کیا. بیلا زید کو اس کے کوارٹر تک لائی اور پٹی کھول دی. زید نے جب اندر جا کر لن کی حالت دیکھی تو چونک اٹھا کیونکہ لن پر خون لگا تھا. زید سمجھ گیا کہ ایک نیم کنواری پھدی نے اس کے لن کا سواد چکھا ہے. زید نے کاغذ پہ نقشہ بنایا کیونکہ اس کی ساری حسیات بیدار ہو چکی تھیں. اس نے تمام قدم گنے تھے اور ساری اطراف کا جائزہ لیا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں پھر بھی وہ اس جگہ کا اندازہ لگا چکا تھا. جین سو چکی تھی. اس کے بیدار ہونے پر زید نے اس کو ساری کاروائی سے مطلع کیا. اس نے اگلے روز جب اس جگہ کو دیکھا تو چونک ہی اٹھا.
                    جاری یے.............​
                    Last edited by Man moji; 01-25-2023, 08:35 AM.

                    Comment


                    • زبردست جناب

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X