Welcome!

اردو دنیا کے بیسٹ اردو سیکس اسٹوری فورم پر خوش آمدید اردو ورلڈ کے ممبر بنیں اور بہترین اردو سیکس کہانیوں کا مزا لیں

Register Now

Announcement

Collapse
No announcement yet.

گمنام

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • 17
    زید، کامران، نینا اور شوبھا شملہ میں تھے اور وہ شملہ کے برفیلے پہاڑوں میں اپنا اچھا وقت گزار رہے تھے۔ وہ 2 دن پہلے شملہ پہنچے تھے اور انہوں نے ہوٹل میں دو کمرے بک کرائے تھے جہاں زید اور کامران ایک کمرے میں اور نینا اور شوبھا دوسرے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ تیسری رات تھی. شوبھا نے کہا، "جاؤ اور جیون کمار کے ساتھ اپنے اچھے وقت کا لطف اٹھاؤ اور مجھے امید ہے کہ تم اسے آج اس کے ساتھ اپنی شادی کے لیے راضی کر لو گی" اس نے کہا، "لیکن میں جے رام کی موجودگی میں اس سے بات کیسے کروں؟" شوبھا نے مسکرا کر کہا۔ "فکر مت کرو، جے رام آج رات تمہیں پریشان نہیں کرے گا" زید کمرے میں بیٹھا تھا جب نینا کمرے میں داخل ہوئی. اسے دیکھ کر زید نے چونکتے ہوۓ کہا "تم...." اس نے دروازہ بند کر دیا اور اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا "کیا یہاں صرف گھومنے آۓ ہو" زید نے کہا "نینا وہ جے رام. وہ جان کو آجاۓ گا میری" وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی "جان من آج وہ کباب میں ہڈی ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا" زید نے ڈرتے ہوۓ کہا " کیوں کیا کیا تم نے اس کے ساتھ" وہ ہننسی اور بولی "میں نے تو کچھ نہیں کیا لیکن اب جو کرے گی شوبھا ہی کرے گی" زید نے گہرا سانس لے کر کہا "پھر ان کا تو ہو گیا سواہا" وہ اس کی گود میں بیٹھتے ہوۓ بولی "ان کو اور ان کے سواہا کو جھونکو بھاڑ میں اور مجھے پیار کرو نا" زید نے کہا "ساری زندگی تمہیں ہی تو پیار کرنا ہے ڈاکٹر صاحبہ" زید نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پہ رکھ دیے اور چومنے لگا. وہ بھی اسے چومنے لگی.زید نے اس کے جسم پہ ہاتھ پھیرنے شروع کردیے اور آہستہ سے ہونٹ اس کے کان کی کو پہ رکھ دہے وہ تڑپی اور بولی "ااااااااوووووووووہہہیہیہہہہہہ جججیییوووووووونننن تتتممممہہہہہاااااااااااارررررررےےےےےےےےےے ہہہہہہہہاااااااااااتتتتھھ ممممیییییں جججاااااااددددوووووو ہہہہےےےےےے للللووووووو ممممممییییی مممممووووووورررررررررر آآآآہہہہہہہہہہہہہہہ" زید کے ہاتھ اب نینا کے درمیانے سائز کے مموں پر تھے اور وہ ان کو دبا رہا تھا جبکہ نینا مسلسل آہیں بھرتی ہوئی کراہ رہی تھی. زید اسے چومتا جا رہا تھا اور اس نے زید کی ٹی شرٹ اتار دی. وہ.زید کے کثرتی بدن پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی "ڈڈڈڈااااااااااررررررررللللللننننگگگگگگگ ییییوووووووررررررررر مممممسسسسسسسسلللللللززززززززز آآآآآاااااآآآآآررررررررر وووویییییرررررررییییی ٹٹٹاااااااائیٹٹٹ آآآآہہہہہہہہہہہہ آآآآئییییی لللللوووووووو ییییوووووووووورررررررر ببببااااااااااااڈڈڈیییییی وووووییییررریییی ممممچچچ آآآآآہہہہہہہہہہہہہہ آآآآآآہہہہہہہہہہہہہااااااااااااااااا" زید نے زبان کی نوک سے نینا کی کلیوہج کو چاٹا تو نینا کی پھدی پانی برساتی ہوئی فارغ ہونے لگی اور نینا جھٹکے کھاتی اس کےاوپر آگری. زید نے اس کی شرٹ اتاری تو نیچے گورا بدن اور برا میں قید ممے دعوت محبت دے رہے تھے. اس نے کندھے پر ہونٹ رکھے تو وہ کراہ کر بولی "ااااااوووووووہہہہہہہہہہ ججججییییووووننن ییییووووووووو أآآآااآآآآآآررررررررررررر ااااااااامممممیییییییزززززززززنننننگگگگگگگگگگ ااااااااووووووہہہہہہہہہ" زید اس کے کندھوں سے ہوتا ہوا اس کے گلے تک آیا اس بار اپنی زبان اس کی کلیویج کی گہری وادی میں گھسائی اور ساتھ ہی اپنی انگلی اس کی ناف کے سوراخ میں دی اور گھمائی تو وہ کراہی "اااااااااااوووووووووہہہہہہہہہہہہہہہ ااااااگگگگیییییننننن اااااااااااااااہہہہہہہہہہہہ" اس کے جسم کو پھر جھٹکا لگا اور اس کالہنگا مزید بھیگ گیا. زید نے آہستہ سے اس کی برا کھولی اور گلابی نپلوں والے تنے یوۓ ممے اس کے منتظر تھے.زید نے اس کے دونوں نپلوں کو انگوٹھے سے دبایا تو اس کے منہ سے آآآآآآہہہہہہہہہہہہہہ نکل اٹھا. زید نے اسے لٹایا اور اس کے ایک ممے کو دباتے ہوۓ دوسرے کو چوسنے لگا. وہ کراہتے یوۓ کہہ رہی تھی "اااااااااہہہہہہہہہہہ اااااااامممممم ییییسسسسسسس کککیییپپپپ سسسسکککننگگگگگ آآآآآآہہہہہہہہہہہ ززززوووورررررررر سسسسسےےےےےےے چچووووسسسسسووووووووو اااااااااہہہہہہہہہہہ یییییییہہہہہہہہہہ تتتتترررررسسسسس گگگگۓےےےےےےے تتتتھےےےےےےےے تتتتمممہہہہہہہااااااااررررےےےےےےےے ہہہہہہہووووووننننٹٹٹوووووووووں ککککےےےےےےےےےے للللللللممممممسسسسس کککککوووووووو اااااااآآآآہہہہہہہہہہہ" ذید نے نپل سے منہ اٹھا کر کہا "ڈارلنگ تتتممم سسچ ممیں خوبصوووورت ہوووووو" اس نے جم کر اس کے ممے چوسے اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہوۓ پیٹ پر آیا اور پیٹ کو کافی دیر چاٹتا اور چومتا رہا. اس نے نینا کو پوری طرح گرم کردیا تھا. اس نے نینا کا لہنگا اتارا اور اپنا ٹراؤزر بھی اتار دیا. اب نینا اور وہ پوری طرح ننگے تھے. زید نے دیکھا کہ نینا کی پھدی ایک دم گیلی تھی اور لن مانگ رہی تھی. زید نے بھی اپنے لن پر تھوکا اور نینا کی ٹانگوں کے درمیان آگیا. نینا تین بار پانی نکلنے کے بعد مدحوش سی تھی اور زید نے اسی مدحوشی میں ہی لن پھدی پہ رکھ کے دھکا مار دیا.لن ٹوپے سے کچھ آگے تک اندر داخل ہوا اور نینا چیخ اٹھی "ااااااووووووووہہہہہہہہہہہہ دددرررددددد ہہہہہہہہووووووو رررررہہہہہہہہہاااااااااااا ددددددھییییرررررررررےےےےےےےے اااااااااہہہہہہہہہہہہ" نینا کنواری نہیں تھی اور اپنے بواۓ فرینڈ سشیل کا لن لے چکی تھی. اس کا لن سات انچ کا تھا پر بہت پتلا تھا. زید کا لن موٹا تھا. اس نے نینا کے مموں پہ ہاتھ اور ہونٹوں پہ ہونٹ رکھتے ہوۓ لن پیچھے کھینچ کر اگلا دھکا مارا تو لن آدھا اندر گھس گیا. نینا جھٹپٹانے لگی تو زید نے ممے دباۓ اور اتنا ہی لن آگے پیچھے کرنے لگا. نینا کے ہونٹ اس کے یونٹوں میں قید تھے اور اب لن کے آگے پیچھے ہونے سے نینا مدحوش ہونے لگی. زید نے اسی کا فائدہ اٹھایا اور ایک کرارہ دھکا مار کر پورا لن اندر کردیا. نینا پھر تڑپنے لگی. زید نے اس کے ممے دباتے ہوۓ ہونٹ ہٹا کر کہا "نینا میری جان پورا اندر ہو گیا ہے اب درد نہیں ہو گا" نینا بس آہیں بھر رہی تھی. زید اب آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنے لگا اور نینا بھی ساتھ دینے لگی. زید کہہ رہا تھا "ااااوووویہہہ نننیینننناااااااا یییووووو آآآآرررر وووویییرررریییی سسسییککسسسیی ااااااووورررر تتتتمممہہہہااارررییی کککننٹٹ ببببہہہہتتتت ٹتتاااائیٹٹٹ ہہہہہہےےےےےےےے" وہ بھی کراہتے ہوۓ بول رہی تھی "جججییووووووننننن ااااااااااووووووووووہہہہہہہہہہہ ییییوووووو اااااااااررررررررر ااااااااممممیییززززززننننگگگگگگ تتتمممم نننےےےےےےے ٹٹٹٹووووووٹٹٹئییییی ہہہہہہہہہہووووووووووئییییی نننننننییییینننننناااااااااااا ککککووووووو پپپپپھھرررررررررر سسسسسسےےےےےےےےےے جججوووووووڑڑڑڑ ددددددددددیییییاااااااااااااا" اب زید کا لن پوری روانی سے اس کی پھدی کے اندر باہر ہو رہا تھا اور نینا بھی گآنڈ اٹھا اٹھا کر جواب دے رہی تھی. نینا کی پھدی اس تابڑتوڑ چدائی کی شدت برداشت نہ کر پائی اور اس کے منہ سے نکلا "ججیییوووووننن آآآآآئیییی اااااااااااااایییییممممممم ککککککمممممننننگگگگگگگگ ااااااااااوووووووووووہہہہہہہہہہہہہہہہ" اس کے ساتھ ہی اس کی پھدی کو جھٹکے لگنے لگے اس کی راج دلاری پانی برسانے لگی. اس کی پھدی پہلے ہی ٹائٹ اور گرم تھی اور آرگیزم کی وجہ سے اس کی پھدی کے مسلز زید کے لن کو بھینچنے لگے جیسے مشین گنے کو بھینچتی ہے اور مشین کے اس بھینچنے نے گنے کی بس کرا دی اور زید کے منہ سے آہہہہہہہ آہہہہہہ نکلا اور اس غراہٹ کے ساتھ ہی گنے نے مشین کے سٹوریج ٹینک یعنی اس کی بچے دانی کو اپنے رس سے بھرنا شروع کردیا. زید اس کے اوپر گر کر ہانپنے لگا اور پھر لن نکال کر اس سے لپٹ کر سوگیا جبکہ وہ بھی سو چکی تھی اور پھدی سے نکلتی منی اس کی گانڈ اور ٹانگوں کو بھگو رہی تھی. کامران جب کمرے میں جارہاتھا تو اچانک پچھلے کمرے کا جو شوبھا اور نینا کا تھا کا دروازہ کھلا اور شوبھا نے اسے اندر کھینچ لیا. وہ حیران ہوا اور دروازہ بند کر کے پلٹتی ہوئی شوبھا کو دیکھا جو تھوڑی سی موٹی ہونے کے باوجود اس ساڑھی میں کافی خوبصورت لگ رہی تھی.وہ بولا "کیا بدتمیزی ہے یہ" وہ بولی "آج میں تمہیں کباب میں ہڈی نہیں بننے دوں گی"کامران نے کہا "تمہارا اس سے کیا مطلب ہے" اس نے کہا، "میرا مطلب ہے کہ آج میں تمہیں اپنی دوست اور اس کے بوائے فرینڈ کو ڈسٹرب نہیں کرنے دوں گی" کامران نے کہا، "تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ جیون تمہاری دوست کا بوائے فرینڈ ہے" وہ مسکرائی۔ اور کہا، "کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ تمہاری طرح بیوقوف نہیں ہے اور وہ ایک سمجھدار آدمی ہے، ایک سمجھدار آدمی ہونے کے ناطے وہ میری دوست کے جذبات کو ضرور سمجھے گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اچھا وقت گزار رہے ہوں گے کیونکہ میری دوست ابھی تک اس کمرے میں ہے ورنہ وہ اب تک کمرے سے باہر نکل چکی ہوتی۔" اس نے کہا، "تم مجھے احمق کیسے کہہ سکتی ہو" شوبھا نے مسکراتے ہوئے کہا، "کیونکہ تم بیوقوف ہو، تم ان دونوں کے جذبات کو نہیں سمجھ سکے اور تم اس وقت ان کے درمیان ایک رکاوٹ بن گئے تھے اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ آج میں تمہیں ان کو پریشان نہیں کرنے دوں گی اور تم یہیں میرے ساتھ اس کمرے میں رہو گے" کامران نے حیرانی سے کہا، "کیا تم پاگل ہو میں اس کمرے میں تمہارے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں" وہ بولی، "تم میرے ساتھ اس کمرے میں کیوں نہیں رہ سکتے، کیا میں کاٹتی ہوں" وہ اس کے قریب آئی اور وہ پیچھے ہٹ گیا اور بیڈ پر بیٹھ گیا. اس نے کہا، "دیکھو شوبھا، میں ایک برہم چاری ہوں اور میں کسی لڑکی کے قریب نہیں آ سکتا" اس نے اپنا چہرہ اپنے قریب لایا اور کہا، "کیوں" اس نے کہا، "براہ کرم سمجھو، میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا" شوبھا اس بار کامران کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی "دیکھو مسٹر جےرام، میں بہت سیدھی سی لڑکی ہوں اور میں نے ساری زندگی مردوں کو اپنے سے دور رکھا ہے کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ مرد دنیا کی سب سے ناقابل اعتبار مخلوق ہیں۔ پھر ایک دن تم اپنے زخمی دوست کے ساتھ ہمارے کلینک پر آئے اچانک میرے دل میں کچھ ہونے لگا میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہارے سامنے اس بات کو نہ تسلیم کروں لیکن میں اپنے دل کو نہ سمجھا سکی اور اب میں اعتراف کر رہی ہوں کہ میں تم سے پیار کرتی" یہ کامران پر ایک بم کی طرح تھا، اس نے کہا، "شوبھا، میں ایسا لڑکا نہیں ہوں، میرا دھرم مت بھرشٹ کرو" شوبھا نے اس بار غصے سے کہا، "کیا میں ایسی لڑکی لگتی ہوں اور تم بار بار دھرم کے بارے میں بات کر رہے ہو تو" اس نے اپنا پرس پکڑا اور اس میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی. اس نے کامران کو دی اور کہا "کھولو اسے" کامران نے اسے کھولا تو اس میں سندور تھا۔ وہ آگے ہوئی اور بولی "اب سب کچھ دھرم کے حساب سے ہی ہو گا. بھرو میری مانگ" کامران چونک اٹھا. وہ بولی "میں نے کہا بھرو میری مانگ" اس کے لہجے میں ایسا تحکم تھا کہ کامران نے سندور چٹکی میں بھر کر اس کی مانگ بھر دی. اس نے پرس سے ایک منگل سوتر نکالا اور کہا "دادی کی یہ امانت آج میرے کام آنے لگی ہے" اس نے کامران کو دیا اور پہنانے کو کہا. کامران نے پہنا دیا. وہ بولی "تم بار بار دھر کو بیچ میں لا رہے تھے تو یہ لو ہو گئی اب میں تمہاری پتنی. مس شوبھا جے رام سے مسز شوبھا جے رام" کامران کو محسوس ہونے لگا کہ یہ لڑکی.اس کی جان نہیں چھوڑنے والی. کامران اس حقیقت سے واقف تھا کہ زید نینا کے ساتھ جو وقت گزار رہا تھا وہ اروڑا ہاؤس تک پہنچنے کی کنجی تھی کیونکہ ڈیم کا ماسٹر پلان تلاش کرنے کا ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ تھا کہ کچھ دیر اروڑہ ہاؤس میں رہ کر پتہ چلایا جائے کہ ماسٹر پلان کہاں تھا۔ اسی دوران شوبھا نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’دیکھو مسٹر جئے رام، آپ اس کمرے میں بیچلر کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے لیکن اب آپ ایک شادی شدہ آدمی ہیں اور اب آپ جہاں بھی جائیں گے، آپ مجھے اپنے پیچھے پائیں گے کیونکہ اب میں مسز شوبھا جے رام ہوں اور اب مجھے تمھارے ساتھ رہنے کا پورا حق حاصل ہے چا ہے تم جہاں بھی ہو" کامران نے کہا، "شوبھا یہ جنون ہے" اس نے کہا، "میں جانتی ہوں اور مانتی ہوں کہ یہ جنون ہے لیکن یہ محبت کا جنون ہے، جے رام، میں نے آپ کو بتایا کہ میں نے کبھی کسی آدمی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ مرد زمین پر سب سے زیادہ ناقابل اعتبار مخلوق ہیں لیکن آپ میری زندگی میں آئے اور جس طریقے سے آپ نے اپنے عقائد پر پختہ یقین کیا مردوں کے بارے میں میرے خیالات بدل گئے اور میں نے محسوس کیا۔ سب آدمی ناقابل اعتبار نہیں ہوتے میں دل میں آپ کی عزت کرنے لگی لیکن پھر مجھے لگا کہ یہ جذبات صرف عزت کے نہیں یہ جذبات محبت کے ہیں تو میں نے اپنا جنون ظاہر کیا اور اب میں آپ کی بیوی ہوں اگر آپ جا سکتے ہیں تو جائیے اپنی بیوی کے بغیر" کامران نے کہا "د....دد...دیکھو......وہ" شوبھا اس روز ساری تیاری کر کے آئی تھی.اس نے کہا "میں نہیں تم دیکھو نا" اس نے اپنی ساڑھی پیٹ سے ہٹائی تو گہری ناف دعوت نظارہ دے رہی تھی. کامران بالآخر ایک مرد ہی تھا اور شوبھا کا بدن اسے لبھا رہاتھا. وہ اس پے جھکی اور اسے چومتے ہوۓ بولی "چلو نا جۓ سہاگرات برباد نہ کرو نا" یہ کہتے ہوۓ وہ کامران کی گود میں بیٹھی اور اسے چومنے لگی. کامران اب بے بس تھا کیونکہ اب وہ اس کی مزاحمت نہیں کر پا رہا تھا اور وہ اس پر حاوی ہوتی ہی جارہی تھی. کامران نے اٹھنا چاہا مگر اس کا لن شوبھا کی پھدی والی جگہ رگڑ گیا تو دونوں کو ہی اتنا مزہ آیا کہ اب دونوں سے برداشت کرنا مشکل ہو گیا.شوبھا اٹھی اور اپنے کپڑے اتارنے لگی. کامران نے آنکھیں بند کر لیں مگر شوبھا نے اپنا مما اس کے منہ میں دیا. نرم ممے اور نپل کے احساس سے ہی کامران کا منہ کھل گیا اور لن نے جھٹکا کھایا جبکہ نپل منہ میں چلا گیا اور کامران کی آخری مزاحمت بھی دم توڑ گئی.وہ بند آنکھوں سے ہی مما چوس رہا تھا اور تبھی شوبھا اس کے کپڑے اتار رہی تھی.اس نے مما منہ سے نکالا تو کامران کو لگا کہ اس کا ایک حسین سپنا ٹوٹ گیا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اس سامنے ننگی شوبھا کو کھڑی دیکھ کر اس کا منہ ہی کھل گیا. اسنے کامران کو کھڑا کیا اور اگلے ہی لمحے کامران کی پینٹ بھی اتر چکی تھی. کامران کا لمبا لن دیکھ کر شوبھا کی اپنی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ اس کے لن پر ہاتھ آگے پیچھے کرتی یوئی مدحوشی میں بولی " اااااووووہہہ جۓ یہہ کتنا بڑا ہے. وواؤ ممیرے پتی دیو تم نے اتنے سال بہم چاری ہو کے برباد کردہے اوووہہہہہ" اس نے لن کو زور سے دبایا تو کامران کے منہ سے آہہہہ نکل گیا. اس نے کامران کو لٹایا اور اس کے ساتھ لیٹتے ہوۓ بولی. "پتی دیو. پیار کرو نا اپنی پتنی کو" اب کامران کے لیے بھی مزاحمت ختم ہوگئی تھی. اس نے شوبھا کے ممے پر ہاتھ رکھا اور دبانا شروع کردیا. شوبھا نے اسے اپنے اوپر کھینچا اوراپنا مما اس کے منہ میں دیتے ہوۓ بولی "چچوووسسسوو نناااا مممرررےےےےےے پپپتتییی دددیییوووووووو اااااوووووووہہہہہہہہہہہ" کامران کو بھی چوسنے میں مزا آنے لگا. وہ ممے چوسنے اور دبانے لگا. گو کہ وہ اناڑی تھا پھر بھی زور زور سے دبا اور چوس رہا تھا اور اب شوبھا کے منہ سے مست کراہیں نکل رہی تھیں "اااااااوووووووہہہہہہہہہہ پپپہتتتتتیییییی دددددددیییییوووووووووو مممممججججھھھےےےےےےےےےےے اااااااااااووووووووووہہہہہہہہہہہہہہ ممممممیییییں گگگگئییییی ااااااووووووووہہہہہہہہہہہ" شوبھا کا جسم اکڑا اور پھدی نے بستر گیلا کرنا شروع کردیا. شوبھا تو لمبی لمبی سانسیں لینے لگی اور کامران اب اس کے چہرے کو چومنے لگا اور دل میں کہا "اتنی بھی بری نہیں ہے ویسے" شوبھا نے کہا "پتی دیو جی اب برداشت نہیں ہو رہا" وہ اٹھی اور پرس سے کریم نکال لی. یہ وہ خاص اس رات کے لیے لائی تھی. اس نے کریم اپنی پھدی پہ لگائی اور پھر کامران کے لن کو پوری طرح سے چکنا کر کے اسے اپنے اوپر کھینچ لیا. کامران اتنا بھی اناڑی نہیں تھا کہ جانتا نہ ہو کہ آگے کیا کرنا ہے. شوبھا نے اپنا چہرہ اس کے کان کے پاس لا کر کہا "پتی دیو. آرام سے کرنا. کنواری ہوں میں اور تمہارا سامان کافی ببڑاااا ہہہہہہہہےےےےےےےے" اس کے الفظ اس لیے اکھڑنے لگے کہ کامران کا لن پھدی پے رگڑنے لگا تھا. اب کامران سے صبر کرنا مشکل تھا تو اس نے لن کو پھدی پہ رکھ کے زوردار دھکا مارا. لن جھلی تک اندر گھس آیا. شوبھا نے اپنے منہ پہ یاتھ رکھ کر بڑی مشکل سے اپنی چیخوں پے قابو پایا کیونکہ اس کے لیے یہ روکنا بہت مشکل تھا اور اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ روکی اور اسے ہاتھ رکھ کر روکتے ہوۓ کہا "آااااااااااہہہہہہہہہہہ پپپپتتتتیییییی ددددہییییوووووووو تتتممممہہہہہہہہااااااارررررییییی پپپپتتتتنننیییی ہہہہہہہووووووووں جججااااااااننن سسسسسسےےےےےےےےےے مممماااااااااررررررررووووووووو گگگگےےےےےےےےےےے کککیییااااااااااااااااا ااااااااااووووووووہہہہہہیہہہہہہہ ررررررکککککوووووووووووو" کامران رک گیا. اس نے اپنی ساڑھی اٹھاتے ہوۓ کہا "ججۓےےےےے اااابببب پپپووورررااااااا اااننندددررر ڈڈڈاااااالللل کککررررر ررررککک جججاااااااننننااااااااا ااااااااوووووووہہہہہہہہہہہہہہ" اس نے اپنی ساڑھی منہ میں لے لی اور کامران کو اشارہ کیا تو کامران نے ایک زوردار دھکا مارا اور اس کے نو انچ لمبے اور ڈھائی انچ موٹے لن کا صرف کچھ حصہ ہی باہر رہ گیا. اس نے ایک اور دھکا مارا اور پورا اندر ہو گیا. تڑپتی ہوئی شوبھا نے اپنی ٹانگیں اس کے گرد لپیٹ کر اسے خود سے بھینچ لیا اور ہلنے نہ دیا.کامران بھی رک گیا اور پھر کچھ سوچ کر شوبھا کے ان چھوۓ موٹے مموں سے کھیلنے لگا. کچھ دیر بعد شوبھا کو اچھا لگنے لگا تو اس نے ہلکی سی گانڈ اٹھائی مگر کامران اناڑی بھی تھا اور جوشیلا بھی جبکہ وہ چود بھی پہلی بار رہا تھا چنانچہ اس نے دھکوں کی مشین چلادی. کمرے میں تھپ تھپ اور شوبھا کی گوں گوں گونجنے لگی. اس نے زور سے چودا تو اس کا وقت قریب آنے لگا اور شوبھا کے جسم کو جھٹکے لگے اور اس کی پھدی سے گرم پانی نکل آیا.ایک کنواری لڑکی کی گرم پھدی کی گرمی کو کامران کا لن بھی جھیل نہ پایا اور دھکوں کے دوران ہی اس کے منہ سے آہہہہہہ آہہہہہہ نکلا اور اس کے لن نے شوبھا کی پھدی کو اپنے پانی سے بھر دیا. کامران شوبھا پر گرا اور ہانپنے لگا. شوبھا تو بے حوشی کی حد تک مدحوش ہو چکی تھی. کامران کا لن باہر آیا اور وہ اس سے اتر کر سو گیا جبکہ وہ تو پہلے ہی نیند میں جا چکی تھی. کامران کی آنکھ رات کے کسی وقت سسکاری سن کر کھلی. وہ بہر حال ایک جاسوس تھا اور دشمن کے علاقے میں تھا اس لیے سکون کی نیند نہیں سو سکتا تھا اور ہر خطرے کے لیے تیار رہتا تھا لیکن یہ سسکاری شوبھا کی تھی جو اپنی پھدی کے اجڑے حالات دیکھ کر پریشان تھی. کامران نے غنودہ آواز میں کہا "کیا ہوا" اس نے زور سے کمر پے دھپ مارتے ہوۓ کہا "اٹھو اور دیکھو کیا کیا ہے تم نے میرے ساتھ" کامران اب جی بار چونک کر اٹھا اور سامنے کا نظارہ دیکھ کر ایک بار کو تو اس نے آنکھیں پھیر لیں. وہ غصے سے بولی "ایسے بھی کرتا ہے کوئی" اس کی پھدی چر بھی چکی تھی اور کھل بھی چکی تھی. خون اور کامران کے پانی کا مکسچر باہر آکر جم چکے تھے. جبکہ بستر کی چادر بھی خون سے لال تھی. کامران نے کہا "تم ہی نے تو کہا تھا وہ........" وہ پھر بولی "میں نے پیار کرنے کو کہا تھا. ایسے پیار کرتے اہنی بیوی کو" وہ گڑبڑا کر بولا "اچھا نا اب مجھے تھوڑا کوئی تجربہ ہے اس سب کا. فرسٹ ٹائم تھا" اس نے لقمہ دیا "اور فرسٹ ٹائم میں ہی تباہی پھیر دی" کامران جھینپ سا گیا. اس نے کہا "آہہہہہ مجھ سے تو ہلا نہیں جا رہا. باتھ روم لے کر چلو نا مجھے" کامران نے حیرت سے کہا "مم .....میں.........." وہ غصے سے بولی "نہیں پڑوسیوں کو بلاتی ہوں. یہ منگل سوتر تم نے میرے گلے میں ڈالا اور یہ سندور بھی تم نے ہی میری مانگ میں بھرا. یہ جو سب یہاں سے نکل رہا ہے یہ بھی تمہارے ہی اس دیو نے چھوڑا ہے میرے اندر. یعنی ان شارٹ اگر بیوی تمہاری ہوں تو کیا پڑوسیوں کو بلاؤں" کامران ہڑبڑا گیا اور دل ہی دل میں بولا "بہت بولتی ہے یہ" وہ اسے لے کر باتھ روم گیا اور دونوں نے خود کو صاف کیا. کامران اب بھی حیران تھا کہ وہ کافی دیر سے ایک لڑکی کے ساتھ یوں ننگا گھوم رہا اور اسے فرق ہی نہیں پڑ رہا. اس کا لن اب پھر کھڑا تھا. وہ کمرے میں آۓ تو کامران نے بستر کی چادر بدل دی.شوبھا نے پرس سے دوائی نکالی اور کہا "پتی دیو بہت ظالم ہے آپ کا یہ ہتھیار ویسے اندر تک کھول دیا اور دیکھو پھر سے کھڑا ہے" کامران کو احساس ہوا تو اس نے ہاتھ رکھ کر چھپانا چاہا. شوبھا درد کے باوجود کھلکھلا کر ہنسی اور بولی "نہ چھپاؤ اب یہ ویسے بھی میرا ہی ہے" اس نے کامران کا ہاتھ پکڑا اور پاس بٹھا لیا. پھر ایک کریم لن پہ لگانے لگی تو کامران نے کہا "یہ کیا کر ریی ہو" وہ بولی "میری جان مانا کہ اس نے درد دیا ہے لیکن پھر بھی اس کا خیال مجھے ہی رکھنا ہے. اب یہ کریم بھی میرے اند یہی لگاۓ کا" کامران نے کہا "مطلب" وہ مسکرائی اور اٹھ کر آہہہہ آہہہہ کرتی اس کی گود میں آئی اور لن پر پھدی رکھتے ہوۓ بولی"آآآہہہہہہہہہہہ ااااسسسس بباااااارررر ووووححححشششششییییی ننننہہہہہہہ ہہہہہہہوووووو جججاااااااااننننناااااااااا" وہ لن پھدی پہ رکھ کر بیٹھنے لگی اور ابھی آدھا لن ہی گیا تھا کہ کامران نے اس جی گانڈ پہ ہاتھ رکھا تو شوبھا کے پورے جسم کو جھٹکا لگا اور وہ لن پہ پورا بیٹھ گئی اور لن غڑپ کر کے پورا اندر چلا گیا. اس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور سر کامران کے کندھے پر رکھ دیا جبکہ پھدی کا پانی کامران کی ٹانگوں کو بھگونے لگا. کامران نے کہا "اس بار میں نے کچھ نہیں کیا" وہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر کامران کع چومتے ہوۓ بولی "پتی دیو جی آپ تو واقعی اس معاملے میں بہت بھولے ہو" وہ کھسیا گیا اور بولا "اب کیا کروں تم پہلی لڑکی ہو جس کے ساتھ یوں............." وہ بولی "میں آخری بھی ہوں سمجھے نا. بیوی ہوں کوئی گرل فرینڈ نہیں کہ جب چاہا چھوڑ دیا" کامران نے کھسیا کر کہا "میں نے ایسا تو نہیں کہا" وہ مسکرائی اور اسے چومتے ہوۓ بولی "اب کرو بھی یا ایسے ہی رہنا ہے ساری رات" اس بار کامران نے شوخی سے کہا "ایسے ہی رہنے میں ویسے حرج بھی کوئی نہیں" وہ مسکرا کر بولی "سیدھی طرح بولو نا کہ پتا ہی کچھ نہیں آگے کیا کرنا ہے" کامران نے اس نیچے لاتے ہوۓ کہا "اب اتنا بھی اناڑی نہیں" اس نے شوبھا کے ممے دباتے ہوۓ دھکے مارنے شروع کردہے. چوبھا کراہ رہی تھی "آآآآہہہہہہہہہہہہ اااااااایییییسسسسسسےےےےےےےےےےےے ہہہہہہہہہیییییی پپپپتتتتیییییی ددددددیییووووووو زززووووورررررر سسسسسےےےےےےےےےے آآآآہہہہہہہہہہہہہہہ مممممززززززززہہہہہہہہہہہہ آآآآآرررررررررہہہہہہہہاااااااااا ہہہہہےےےےےےےےےےے" اس کے ممے اچھل اچھل کر کامران کے سینے سے ٹکرا رہے تھے. کمرے میں تھپ تھپ کی آواز گونج رہی تھی. اس بار شوبھا کا دو بار پانی نکلا اور پھر کامران کے منہ سے غرہٹ نکلی اور وہ آہہہہ آہہہہہ کرتا ہوا شوبھا کی پھدی کو بھرنے لگا. کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوۓ تھے. شوبھا نے کہا "جۓ میری زندگی کی سب سے حسین رات اتنی یادگار بنانے کے لیے تھینکس. آئی لو یو" وہ اس کے بال سنوارتا ہوا چوم کر بولا "آئی لو یو ٹو" اور دل میں میجر جنید اور زید کو کوسنے لگا اور سوچنے لگا "اگر زینی کو یہ سب پتا لگ گیا تو وہ تو خون پی جاۓ گی میرا. زید لکھ لعنت ہے تیرے پے کمینے" اسے زید کے الفاظ یاد تھے جب دوران ٹریننگ ایک بار اس نے کہا تھا "کامی. ویسے تو جتنا بچتا ہے اس سب سے مجھے پتا نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ تیرا کنوارہ پن کسی ہندوستانی دوشیزہ کے نصیب میں لکھا ہے" کامران نے اس وقت تو اسے صرف دھپ ہی مارا تھا مگر آج وہ سوچتے ہوۓ کہ رہا تھا "کاش کمینے کچھ اور ہی بول دیا ہوتا" شوبھا اس سے لپٹ کر سو رہی تھی اور کچھ دیر بعد وہ بھی سو گیا. صبح زید اٹھا، نینا ابھی تک اس کی بانہوں میں سو رہی تھی۔ اس نے اسے بوسہ دیا اور وہ بھی اٹھی اور کہا "گڈ مارننگ" زید نے مسکرا کر کہا "گڈ مارننگ" اس نے گھڑی کی طرف دیکھا اور یہ دیکھ کر چونک گیا کہ وقت صبح کے 9 بجے کا تھا۔ وہ دونوں ابھی تک ننگے تھے اس لیے نینا اٹھی اور واش روم کی طرف چلی گئی جبکہ زید نے دیکھا کہ وہ تھوڑا لنگڑا رہی ہے اور وہ سمجھ گیا کہ یہ کل رات کی چدائی کی وجہ سے ہے۔ وہ کپڑے پہن کر نہا کر واپس آئی، زید واش روم میں چلا گیا اور اس نے بھی نہانے کے بعد کپڑے پہن لیے۔ نینا نے اس وقت ناشتہ آرڈر کردیا تھا جب زید نہا رہا تھا۔ زید نے کہا، "میں بہت متجسس ہوں کہ رات بھر دروازے پر کوئی دستک نہیں ہوئی کیونکہ جتنا میں اپنے دوست جے رام کو جانتا ہوں، اس نے رات کو دروازہ پیٹنا شروع کر دینا تھا۔" وہ مسکرا کر بولی، "لیکن۔ مجھے اپنی دوست شوبھا کے بارے میں یقین ہے اور میں جانتی ہوں کہ اس نے آپ کے دوست کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ہوگا" زید نے دل ہی دل میں کہا "اس مولوی کو سنبھالنا صرف زینی نامی حسینہ کا کام ہے. خدا کرے وہ شوبھا نامی بلا زندہ ہو. ابھی تو اس کمینے نے میرا بھی سر توڑنا ہے آ کے" انہوں نے ناشتہ کیا ہی تھا کہ شوبھا اور کامران کمرے میں داخل ہوئے۔ شوبھا نے ساڑھی پہنی ہوئی تھی لیکن سب سے دلچسپ بات اس کی مانگ کا سندور اور گلے کا منگل سوتر تھے جبکہ کامران بظاہر مسکرا رہا تھا لیکن زید سمجھ گیا کہ کامران کے اندر ایک بڑا طوفان ہے اور وہ طوفان زید پر کسی بھی وقت گرنے والا ہے۔ نینا نے کہا، "شوبھا یہ سب کیا ہے" شوبھا ایک رات کی دلہن کی طرح شرما رہی تھی اور اس نے نینا کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "میرے ساتھ چلو مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔" ان کے جاتے ہی کامران نے دروازہ اندر سے بند کیا اور زید کی طرف بھاگا جس نے اس کا ارادہ بھانپ کر بیڈ کے دوسری طرف چھلانگ لگائی اور کامران کے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے خود کو بچانے کے لیے تکیے کی ڈھال بنا لی کیونکہ کامران کا چہرہ واضع بتا رہا تھا کہ وہ مار سکتا ہے. وہ غصے سے بولا "کمینے کہا تھا مجھے ساتھ لے کر مت آ" زید نے کہا "ارے بتا تو ہوا کیا ہے" وہ بولا "اپنی اس ماں کی منگ میں سندور اور منگل سوتر دیکھ کے بھی پوچھ رہا ہے کہ کیا ہوا" زید نے ہلکا سا تکیہ ہٹا کر شوخی سے کہا "اب یہ نہ کہہ دئیں کہ کل رات تک زینی کا کنوارہ.کامی اب شوبھا کا سہاگرات منایا ہوا دولہآ جۓ رام بن گیا ہے" کامران نے گلدان رکھ کر تکیہ مارتے ہوۓ کہا "لعنتی خبردار جو مذاق اڑایا تو" زید نے کہا "اچھا اب یہ عورتوں کہ طرح گلے کرنا بند کر اور بات کرنے دے نا" کامران نے بیٹھتےہوۓ کہا "یار زید یہ ٹھیک نہیں ہوا" زید نے کہا "یار قسم سے مجھے نہیں پتا تھا نہ ہی یہ میرا پلان تھا" وہ بولا "اب اتنا تو مجھے بھی پتا کہ تیرے پلان میں یہ سندور اور منگل سوتر تو آنہیں سکتے. پاگل ہے یہ لڑکی یار. مجھے تو سمجھ ہی نہیں آیا رات کچھ" زید نے کہا "یار مجھے لگا تو سنھال لے گا" وہ بولا "وہ جس طرح مجھ پہ حاوی ہو گئی مجھے سمجھ ہی کچھ نہیں آیا" زید نے شوخی سے کہا "مطلب کل رات سب ہو گیا. اچھا بتا نا کیا کیا ہوا" اس کی.شوخی سن کر کامران نے اسے دبوچتے ہوۓ کہا "کمینے...." وہ دونوں ہنسنے لگے. وہ مزید ایک ہفتہ شملہ میں رہے لیکن کامران شوبھا کے کمرے میں شفٹ ہو گئے جبکہ نینا زید کے کمرے میں شفٹ ہو گئی اور دونوں جوڑے اچھے موسم کے ساتھ ساتھ اپنے درمیان مسلسل جنسی تعلقات سے لطف اندوز ہوئے۔ وہ دہلی واپس چلے گئے اور شوبھا اور جے رام کی شادی کی خبر شوبھا کے گھر والوں پر بم کی طرح گری اور ایک عام فیملی ڈرامہ شروع ہوا جو خاندان کی جانب سے شادی کی منظوری پر ختم ہوا اور اب کامران کو شوبھا کے گھر شفٹ ہونا پڑا۔ چونکہ زید اکیلا تھا اس لیے اروڑا فیملی نے ان کے گھر میں خوش آمدید کہا اور وہ ان کے ساتھ رہنے لگا جو ان کا اصل منصوبہ تھا کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے اسے ڈیم کے ماسٹر پلان کی جگہ کا اندازہ ہو سکتا تھا۔ زید نے دیکھا کہ ومل اروڑا رات کو بہت پیتا تھا اور زید بھی اس کے ساتھ بیٹھنے لگا اور اس نے ومل کی نوکری کی باتیں کرنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ راز کھلوانا شروع کر دیے لیکن یہ راز اس کے لیے بے کار تھے کیونکہ اس کا اصل ہدف ڈیم کا ماسٹر پلان حاصل کرنا تھا۔ زید کی راتیں نینا کے کمرے میں گزر رہی تھیں جہاں وہ اور نینا رات کو بہت چدائی کرتے تھے۔ زید نے محسوس کیا تھا کہ نینا اور اس کی ماں کے درمیان کچھ تناؤ ہے اور جلد ہی نینا نے اپنے سابق بوائے فرینڈ سشیل کمار کے ساتھ اپنی والدہ کے افیئر کا انکشاف کیا۔ زید بھی نینا اور رادھا اروڑہ کے ساتھ رات کی پارٹیوں میں جانے لگا جہاں نینا اور رادھا دونوں بہت زیادہ شراب پیتے تھے۔ اسی روٹین میں تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا اور اب زید کچھ ایسا کرنے کا سوچ رہا تھا جس کے ذریعے اسے پتہ چل سکے کہ ڈیم کا ماسٹر پلان کہاں ہے. ایک رات زید نینا اور رادھا پارٹی سے واپس آۓ. حسب معمول دونوں ماں بیٹی نے جم کر شراب پی تھی اور ادھر ادھر جھول رہی تھیں. زید نے نینا کو لے جا کر کمرے میں لٹایا اور اپنے کپڑے بدلے. اب وہ ایزی سے ٹراؤزر میں تھا. وہ چاۓ بنابے کی نیت سے کچن کی طرف آیا تو رادھا ابھی تک صوفے پر پڑی نشے میں اول فول بول رہی تھی. زید کو یاد آیا کہ ومل نے کہا تھا کہ وہ رات کسی کام کی وجہ سے گھر نہیں آۓ گا. زید نے اسے اٹھایا اور کمرے تک لایا. اس نے اسے بیڈ پر لٹایا تو رادھا نے زید کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور بولی "سسسسسششششییییلللللل ٹٹٹیییکککک کککککئییییرررررررر اااااااوووووو فففف مممہیییی نننااااااااا وووووہہہہہہہہ بببھڑڑڑووووواااااااااا وووومممممللللللل تتتوووووو تتتتییییررررریییی مممماااااااااااں کککییییی چچچووووووتتتت مممیییں گگھسسسساااااااآ ہہہہہہہہہووووووااااااااا" زید نے کہا "ممی جی یہ کیا......." وہ بول رہی تھی "سسساااااالللےےےےےےےےےء بببھڑڑڑڑڑوووووووےےےےےےےےے وووووومممملللللللل تتتوووووووو اااااابببھیییی بببھیییی ااااااااپپپپنننےےےےےےےے سسسسسییییکککککررررررریییٹٹٹ اآآآااااففسسسسسس مممییییں اااااسسسسس پپپپررررررنننسسسسسپپپپللللللللل دددددییییپپپپیییکککککااااااااا ککککییییی چچچووووووتتتتتت چچاااااااٹٹ رررررہہہہہہاااااااااا ہہہہہہہہہووووووو گگگااااااااااااا" زید یہ سنتے ہی جیسے چونک اٹھا. انہوں نے ومل کا کئی بار پیچھا کیا تھا لیکن سیکریٹ آفس کا تو کبھی کسی کو پتا تک نہ چلا تھا. اس نے کچھ سوچا اور رادھا کا نلاؤز اوپر کر کے اس کے لٹکے ہوۓ ممے چوسنے لگا جبکہ اپنا لن نکال کر رادھا کی پھدی پر پینٹی کے اوپر سے ہی رگڑنے لگا. وہ بے ربط ہی آہہہہہ آہہہہہہ کر رہی تھی. زید نے پینٹی نیچے کی اور لن کو پھدی پے رکھ کر دھکا مارا اور دودھکوں میں لن پورا اندر ہو گیا. پینتالیس سالہ رادھا کی پھدی اس کی بیٹی جتنی ٹائیٹ نہیں تھی. زید نے چودتے ہوۓ ممے دبا کر کہا "ممی جی پاپا جی کہاں ہیں اس وقت" وہ مسلسل دھکے مار رہا تھا جبکہ نشے میں دھت رادھا کوئی صاف جواب نہیں دے پارہی تھی لیکن زید مسلسل پوچھتا رہا اور آخر جب وہ فارغ ہونے کے قریب تھی تب اس نے کہا "ہہہہہہہوووووو گگگگاااااااااا ووووہہہہہہہہ بببببھڑڑڑووووواااااااااااا ااااااپپپپننننےےےےےےےےےے سسسسیییکککککررررررییییٹٹٹٹ آآآآآآففففسسسسسس ممممییییں" زید نے کہا "اور وہ کہاں ہے" وہ بولی "ااااااااااووووووہہہہہہہہہہہہہ بببتتتتتااااااااااا تتتووووووو رررررہہہہییییی ہہہہوووووووووں دددددہہہہہلللللیییییی ییییوووووونننووووورررررررسسسسسٹٹٹییییی ککککےےےےےےےےےےے ااااااننننجججیییینننیییییررررررننننگگگگگگگ وووووننننگگگگگگگگ مممممییییں بببببااااااااسسسسسککککککٹٹٹببببااااااااااللللللل گگگگگررررررررااااااااؤووووننننڈڈڈ ککککےےےےےےےےے سسسسسااااااااااتتتھھ ججججوووووووووو بببلللللڈڈڈننننگگگگگگگگ ہہہہہہہہہہہہہےےےےےےےےےے ووووووہہہہہہہہہہیییییں ہہہہہہہہوووووووگگگاااااااااااا کککککاااااااممممممررررررسسسسس ککککیییییی پپپپرررررررننننسسسسسپپپپپلللللللل دددددپپپپپییییکککککاااااااا ککککییییی چچچچچوووووتتتت ممممیییں گگگگھسسسسااااااااا ہہہہہہووووووااااااااااا" یہ زید کے لیے چونکا دینے والا تھا کیونکہ ان کو یہی لگتا تھا کہ وہ وہاں لیکچر دینے جاتا ہے. زید نے اس چود کر اس کی پھدی کو اپنے پانی سے بھر دیا. زید نے اسے صف کر کے اس کے کپڑے ٹھیک کیے اور چدائی کے ثبوت مٹا کر اسے واپس لاؤنج کے صوفے پر لٹایا اور روم میں جا کر نینا کو چودا اور سو گیا. رادھا جب صبح اٹھی تو اسے کچھ یاد نہیں تھا. اس کو درد تو ہوا لیکن اسے یاد ہی نہیں تھا کہ.اصل میں کیا ہوا ہے. دوسری طرف زید اور کامران نیا پلان بنانے کے لیے سر جوڑ چکے تھے. دو دن بعد کامران اور شوبھا ومل کے گھر آۓ. اس وقت وہ سب ہی گھر تھے کیونکہ اتوار تھا. زید نے کہا "جۓ کیا ہوا" وہ بدحواسی سے بولا "ججیون وووہہہ مم.....مما......ماما.......ججی" زید نے اسے بٹھایا اور کہا "یہاں بیٹھو اور بتاؤ کیا ہوا" وہ بولا "یار ماما جی یہاں ہیں. ابھی فون آیا تھا" ومل نے کہا "تو بیٹا اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے" زید نے کہا "انکل ماما جی اس کے گرو ہیں. انہوں نے ہی اس کو برہم چاری بنایا تھا اور اب.........." شوبھا نے کہا "جۓ فکر نہ کرو ماما جی کو میں منا لوں گی" وہ بولا "تم ماما جی کو نہیں جانتی ہو شوبھا. ان کا پورا گروپ یہاں آیا ہوا. پہلے ہی وہ ان کے دوبئی کے ٹکٹس نہ ہونے پے غصہ ہیں اوپر سے ہماری شادی....... وہ شراپ ہی نہ دے دیں" وہ بولی "بھگوان نہ کرے.... شب شب بولو نا" ومل نے کہا "اچھا اگر ہم ان کے ٹکٹ کرا دیں اور کہیں کہ ٹکٹ شوبھا بیٹی نے کراۓ ہیں تو" زید نے کہا"ماما جی مان ہی جائیں گے پھر تو" ومل نے کہا "میرا رشتے دار ہے ائیرپورٹ کا انچارج تم فکر ہی نہ کرو" وہ سب خوش ہوگۓ. ومل اور شوبھا کے ماں باپ کی سوامی ماما سے بات ہوئی اور وہ بھی ہلکے ڈرامے کے بعد اس شرط پے مان گۓ کہ وہ ان دونوں لڑکوں کو ساتھ ہی واپس لے کے جائیں گے اور بارات لے کر دلہنیں لے کر جائیں گے.اب وہ لوگ ائیرپورٹ پر سامان کے ساتھ انتظار میں تھے کہ ماما آجاۓ. کامران ان کے ساتھ تھا جب کہ زید ماما کو لینے گیا تھا تا کہ دہلی ٹول پلازہ سے اسے لا سکا. مسلح افراد کا ایک گروپ چپکے سے یونیورسٹی میں داخل ہوا اور پھر اسپورٹس کمپلیکس کی عمارت میں پہنچ کر ومل اروڑہ کے خفیہ دفتر میں گھس گیا۔ ان سب نے اپنے چہروں کو ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا اور ان کے ہتھیاروں پر سائلنسر تھے اس لیے اضافی آوازوں کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ دفتر میں مختلف کاغذات تلاش کرنے لگے کہ اچانک ان میں سے ایک نے کہا، "مجھے مل گیا، یہ ڈیم کا ماسٹر پلان ہے" اچانک ایک سیکورٹی گارڈ کی آواز آئی، "کون ..." گارڈ اپنا جملہ مکمل نہیں کر سکا کیونکہ ان میں سے ایک نے اسے سیدھا سر میں گولی مار دی۔ زید غصے سے بولا، "فتح داد، بیوقوف، تم نے اسے گولی کیوں ماری جب کہ حکم واضح تھا کہ خون خرابہ نہیں ہوگا" فتح داد نے گارڈ کی سیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "وہ سیٹی بجانے ہی والا تھا۔" جنید نے کہا۔ "اب بحث کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ہمیں ماسٹر پلان مل گیا ہے۔ اب ہم جا رہے ہیں" کچھ دیر بعد وہ ایک وین میں جا رہے تھے اور زید کے علاوہ سب نے سادھو بابا جیسا لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ ہوائی اڈے پر پہنچے اور ومل اروڑہ کے خاندان اور شوبھا کے خاندان کو جے رام کے ماما جی سے مل کر خوشی ہوئی۔ جیسے ہی پرواز کا اعلان ہوا، سب نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ شوبھا نے کامران کا ہاتھ تھاما اور پیٹ پر رکھتے ہوئے کہا، "پتی دیو جی، اب میں اکیلی آپ کا انتظار کرنے والی نہیں ہوں بلکہ ہمارے جونیئر جے رام بھی میرے پیٹ میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں" کامران کو یہ خبر سن کر جوش و خروش کا اظہار کرنے کا ڈرامہ کرنا پڑا. وہ دبئی پہنچ گئے اور انہیں بتایا کہ وہ امریکہ جانے والی فلائٹ میں سوار ہوں گے۔ دہلی میں ایک طوفان آیا ہوا تھا جہاں وزیر داخلہ رادھیشیام دیگر تمام سینئر افسران کے ساتھ ومل اروڑہ کے خفیہ دفتر میں کھڑے تھے اور خود ومل اروڑہ بھی وہاں تھا اور خفیہ دستاویزات غائب تھے جبکہ سفید پھولوں کا ایک گچھا ان کا منہ چڑارہا تھا۔ رادھیشیام نے ڈی جی پی سدھارتھ اور مسٹر ناگرے کی طرف دیکھا جو را کے چیف تھے۔ اس نے کہا، "آپ دونوں کو یقین تھا کہ ایجنٹ وائٹ فلاور ہماری تحویل میں ہے اور وہ اسپتال میں زیر علاج ہے، اگر وہ اسپتال میں ہے تو یہ کس نے کیا؟" ناگرے نے کہا، "جناب، یہ ایک خلفشار ہوسکتا ہے" رادھیشیام۔ پھر غصے میں بولا، "مسٹر ناگرے، یا تو آپ خود کو بہت بڑے بیوقوف ہیں یا آپ کو لگتا ہے کہ میں بہت بڑا احمق ہوں کہ آپ مجھے ایسے فضول بہانے دے رہے ہیں، بھٹکانے والے اتنا بڑا منصوبہ نہیں بنا سکتے اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو ہم اتنی سیکوریٹی دے رہے ہیں اور اتنی دیکھ بھال کر رہے ہیں وہ وائٹ فلاور نہیں ہے تو معلوم کریں کہ وہ کون ہے اور آپ مسٹر ومل مجھے بتائیں کہ انہوں نے اس لیب سے کیا کیا لیا ہے؟ ومل نے کہا، "جناب، بدقسمتی سے انہوں نے ہر وہ دستاویز جو ہمارے لیے اہم تھی لے لی ہے" اس نے کہا، "ظاہر ہے کہ وہ ان تمام دستاویزات کے پیچھے نہیں تھے تو مجھے بتائیں کہ وہ کون سی اہم دستاویز لے کر گئے تھے" ومل نے تھوک نگلتے ہوئے کہا، "انہوں نے رتو جھلا ڈیم کا ماسٹر پلان لیا ہے" رادھیشیام چونک گئے۔ اور کہا، "ومل جی، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوگا؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے خلاف عالمی عدالت انصاف میں کسی بھی لمحے پٹیشن دائر کر سکتے ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی اتنی کمزور نہیں ہے جو 71ء میں تھی" اس نے اپنے سیکرٹری کی طرف دیکھا اور کہا، " دفتر خارجہ کے کچھ اعلیٰ افسران سے ملاقات کا بندوبست کریں اور اگر ممکن ہو تو اس کے بعد وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کا بندوبست کریں" اس نے پھر ڈی جی پی اور را چیف کی طرف دیکھا اور کہا، "میں اس شخص کی صحیح شناخت جاننا چاہتا ہوں جو ہسپتال میں ہے اور اگر وہ وائٹ فلاور نہیں تو آپ کو چاہیے آپ نے ہسپتال کے سامنے جو سیکورٹی لگائی ہے اسے ہٹا دیں" سیکرٹری نے کہا، "سر اگر یہ پریس میں آیا تو اس کے سیاسی نتائج ہوں گے اور اگر ہم سیکورٹی ہٹائیں گے تو پریس میں ضرور اس پر بحث ہوگی۔" رادھی شیام مسکرایا اور بولا۔ " مجھے معلوم ہے کہ اس کے سیاسی نتائج ہوں گے لیکن میں ان نتائج کی قیمت نہیں چکاؤں گا کیونکہ یہ میرے سامنے جو تین گدھے ہیں یہ ان کی غلطی تھی اس لیے جیسے ہی یہ پریس میں سامنے آئے گا، آپ پریس ریلیز جاری کریں گے۔ جس کا مضمون ہو گا کہ مسٹر سدھارتھ کو ڈی جی پی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ مسٹر ناگارے کو بھی را کے چیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور مسٹر ومل اروڑہ کو بھی چیف انجینئر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے"۔ ومل گھر واپس آیا اور وہ بیک وقت پریشان اور تھکا ہوا تھا۔ اس نے نینا اور رادھا کو صورتحال کے بارے میں بتایا اور وہ کوئی حل سوچ رہے تھے کہ اچانک شوبھا روتی ہوئی اور بھاگتی ہوئی آئی اور نینا سے لپٹ گئی اور مزید زور سے رونے لگی۔ سب پریشان ہو گئے اور پوچھا کہ کیا ہوا تو شوبھا کے والد نے بتایا کہ جیون کمار اور جے رام جس فلائٹ میں سفر کر رہے تھے وہ سمندر میں گر کر تباہ ہو گئی تھی اور تمام مسافروں کی موت ہو گئی ۔دو دن بعد ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کے صفحہ اول پر ایک خبر آئی جس میں کہا گیا ’’یہ روایت ہے کہ ایک ریاست کی حکومت کسی بھی معاملے میں دوسری ریاست کی حکومت کو بے وقوف بناتی ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے بڑے ملک کو ایک آدمی نے بے وقوف بنایا، وہ حکومت ہماری حکومت ہے اور وہ شخص جس نے پوری سرکاری مشینری کو بے وقوف بنایا وہ کوئی اور نہیں بلکہ مشہور پاکستانی ایجنٹ وائٹ فلاور ہے، ہماری حکومت جشن منا رہی تھی کہ انہوں نے دشمن کا بہترین ایجنٹ پکڑا ہے۔ زخمی ایجنٹ کو بی ایس ایف اور سی آر پی ایف کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی جارہی تھی لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایجنٹ وائٹ فلاور نے ایک اور اہم مشن مکمل کرلیا اور سرکاری مشینری مقامی چور کی حفاظت کرتی رہی۔حکومت کو اندازہ نہیں کہ ایجنٹ وائٹ فلاور بھارت میں ہے یا وہ ملک سے باہر چلا گیا ہے لیکن حکومت نے ڈی جی پی سدھارتھ اور را چیف ناگرے پر ایکشن لیا کیونکہ دونوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے" ایجنٹ وائٹ فلاور لاہور کے ایک فلیٹ کی بالکونی میں کھڑا تھا اور وہ یہ خبر پڑھ کر مسکرا رہا تھا.
    پارٹ ون ختم شد​

    Comment


    • عمدہ تحریر، کہانی کا پلاٹ زبردست ہے اور الفاظ کے عمدہ چناؤ نے تحریر کو چار چاند لگا دیئے

      Comment


      • Originally posted by jatt-lahoria View Post
        دوستو اپڈیٹ کچھ لمبی تھی اس لیے لیٹ پوسٹ کی لیکن امید ہے آپ لو مزہ آئے گا
        Janab lambi update ka achay say aur poora maza aaya, hero sahab ki khon lag gaya hai ab daikho PMA ja kar kaisay control karay ga

        Comment


        • بہت ہی عمدہ اور مزے سے بھرپور کہانی ہے پارٹ ون نے تو اور آگ لگا دی ہے پارٹ ٹو کا شدت سے انتظار رہے گا

          Comment


          • Welcome g ayan nu Pakistan

            Comment


            • واہ کیا کہانی تھی۔۔۔
              پڑھ کر مزا ہی آگیا۔۔۔

              اگلے پارٹ کا شدت سے انتظار ہے

              Comment


              • ارے سر کیا کہانی لکھ دی ھے میں نے کہانی 20مرتبۂ پڑھ لی ھے بھت کمالُ شاندار اک اکُ لفظ بہت لاجواب ھے ❤️❤️

                Comment


                • Buhat hi shandar kahani thee, umeed hai jald hi iska dosra part parhnay ko milay ga. Aur zaid ki ghar wapsi hogi.

                  Comment


                  • کمال کا اپڈیٹ اور کمال کی سٹوری پڑ کے مز ہی ا گیا شکریہ

                    Comment


                    • اسٹوری کا پارٹ ٹو ایٹو ممبر سیکشن میں شروع ہو چکا ہےاس لیے قارئین وہاں پڑھ سکتے ہیں . تمام دوستوں کی محبت کا شکریہ

                      Comment

                      Users currently viewing this topic; (0 members and 0 guests)

                      Working...
                      X